#Asif Ghafoor
Explore tagged Tumblr posts
risingpakistan · 5 years ago
Text
پاکستان فوج کے نئے ترجمان کون ہیں؟
آئی ایس پی آر کے مطابق میجر جنرل بابر افتخار کو پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کا نیا ڈی جی تعینات کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل میجر جنرل آصف غفور بطور ڈی جی آئی ایس پی آر ذمہ داریاں نبھا رہے تھے جنہیں 15 دسمبر 2016 کو ڈی جی آئی ایس پی آر کے عہدے پر تعینات کیا گیا تھا۔ میجر جنرل آصف غفور نے 1988 میں پاکستان فوج میں کمیشن حاصل کیا تھا۔ وہ اب اوکاڑہ میں پاکستان فوج کی 40 ویں انفنٹری ڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی) کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔ گذشتہ ایک دہائی میں آئی ایس پی آر نے اپنی پوزیشن کو خاصا مستحکم کیا ہے۔ خصوصاً میجر جنرل آصف غفور بحیثیت ترجمان فوج اکثروبیشتر خبروں کی زینت رہے۔ وہ وزیراعظم کے ساتھ متعدد ملاقاتوں میں بھی نظر آئے۔ اس کے علاوہ ہر پریس کانفرنس میں وہ ملک کو درپیش ’ففتھ جنریشن وار‘ اور میڈیا کا ذکر کرتے رہے ہیں۔
میجر جنرل بابر افتخار کون ہیں؟ میجر جنرل بابر افتخار کا تعلق آرمڈ کور کی یونٹ 6 لانسر سے ہے۔ میجر جنرل بابر افتخار نے 1990 میں فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ بابر افتخار کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ کے گریجویٹ ہیں اس کے علاوہ میجر جنرل بابر افتخار نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اور اردن کے رائل کمانڈ اینڈ سٹاف کالج سے بھی گریجویٹ ہیں۔ عسکری حلقوں کے مطابق میجر جنرل بابر افتخار دوران ملازمت کمانڈ اینڈ سٹاف پوزیشنز پر کام کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ دوران سروس وہ اعلیٰ پوسٹوں پر فائز رہے۔ میجر جنرل بابر افتخار بریگیڈ میجر، انفنٹری کے بریگیڈیئر سٹاف کے عہدے پر بھی تعینات رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے آپریشن ضرب عضب کے دوران انفنٹری اور آرمڈ بریگیڈ کی کمانڈ کر رکھی ہے اور این ڈی یو، پی ایم اے میں انسٹرکٹر کی خدمات بھی سرانجام دے چکے ہیں۔ نئے تعینات ہونے والے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر بابر کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ میجر بابر افتخار گالف کے دلداہ ہیں اور کتابیں پڑھنے کا بھی خاصا شغف رکھتے ہیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو 
1 note · View note
citrinebender · 6 years ago
Text
Tumblr media
say no to war
19 notes · View notes
emergingpakistan · 6 years ago
Text
ڈی جی صاحب نے مزید کیا کہا ؟
فوج کے شعبہِ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے کی میڈیا بریفنگ میں فوج کے نقطہ ِ نظر سے معروضی حالات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا نے حسبِ توقع پشتون تحفظ موومنٹ کے مصالحے پر پورا فوکس کیا اور ڈی جی صاحب نے دیگر موضوعات پر جو اہم باتیں کیں ان کا سرسری تذکرہ کیا۔ چنانچہ میرا جی چاہا کہ ڈی جی صاحب کی ان باتوں پر فوکس کروں جو میڈیا نے قدرے آؤٹ فوکس کر دیں۔ یہاں میرے الفاظ ختم ہوئے۔ آگے آپ جو پڑھیں گے وہ ڈی جی صاحب کے فرمودات ہیں۔
بھارت  جھوٹ کو سچ کرنے کے لیے بار بار جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ سچ ایک دفعہ بولا جاتا ہے۔ جن کے پاس جوہری صلاحیت ہوتی ہے۔ سمجھ داری یہ ہوتی ہے کہ اس جوہری صلاحیت کو استعمال کرنے کی بات نہیں کی جاتی۔ یہ ڈیٹیرنس کا ہتھیار ہے اور اس ملک کے اعتماد کو ظاہر کرتا ہے جس کے پاس یہ ہتھیار ہو۔ یہ بھی یاد رکھیں ( بھارت ) کہ یہ انیس سو اکہتر نہیں ، نہ وہ فوج ہے اور نہ وہ حالات۔
میڈیا اگر انیس سو اکہتر میں ہمارا میڈیا آج کے میڈیا جیسا ہوتا تو وہ آپ کی (بھارت) سازشوں کو بے نقاب کر سکتا۔ وہاں ( مشرقی پاکستان ) کے حالات کی رپورٹنگ کر سکتا، وہاں پر ہونے والی اندرونی زیادتیوں کو رپورٹ کرتا تو مشرقی پاکستان علیحدہ نہ ہوتا۔ آج کے ماحول میں ریڑھی والا ، رکشے والا، تانگے والا، بیوروکریٹ، سیا ستداں ہر کوئی بول سکتا ہے۔ مگر ایک آرمی چیف ہے جس نے چالیس سال اس ملک کے لیے ایک سسٹم میں رہتے ہوئے کام کیا ہے۔ وہ پاکستان کا شہری ہے مگر وہ نہیں بول سکتا۔ میں اس کا ترجمان ہوں مگر آپ کو نہیں پتہ کہ میں کتنا بندھ کر بولتا ہوں۔ میرے پاس وہ آزادی نہیں کہ جو دل میں آئے وہ رات کو ایک بجے اٹھ کر بول دوں۔
میں نے بڑے دل سے کہا ہے کہ اگر آپ انیس سو اکہتر میں ہوتے تو ہمیں بتاتے کہ پاک فوج یہ غلطی کر رہی ہے۔ سیاستدان وہ غلطیاں کر رہے ہیں۔ انڈیا یہ گیم کر رہا ہے۔ ہم خود کو درست کرتے۔ آج پھر یہ موقع ہے۔ پلیز ہمارے کان اور آنکھیں بنیے، ہماری رہنمائی کیجیے۔ لوگ کہتے ہیں کہ میڈیا کو شائد فوج یا آئی ایس پی آر کنٹرول کرتا ہے۔ کیا کوئی ایک اینکر بھی کہہ سکتا ہے کہ یہ بات کرنے سے منع کیا گیا اور وہ بات کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ گفتگو ضرور ہوتی ہے۔ میں آپ کو اپنی لاجک دوں گا۔ اگر آپ اس سے قائل نہیں ہوتے تو پلیز بات کریں۔
انتہا پسندی اور مدارس  ان (شدت پسند) تنظیموں کے اسپتال ہیں، مدرسے ہیں۔ اگر ان میں سے دس فیصد لوگ شدت پسندی کی طرف راغب ہیں تو نوے فیصد فلاحی کام کر رہے ہیں جس پر حکومت اور اداروں کی نظر ہے۔ ان کو پیسہ کہاں سے آتا ہے، کون کون فنانس کرتا ہے، کون کون چندہ دیتا ہے۔ مذہب کہتا ہے کہ آپ اس طرح خیرات دیں کہ دائیں ہاتھ کا بائیں کو پتہ نہ چلے۔ لیکن اگر دہشت گردوں کی فنانسنگ کو روکنا ہے تو پھر دائیں ہاتھ کا بائیں ہاتھ کو پتہ ہونا چاہیے۔ اب اس رقم کے استعمال اور ان کے مدارس حکومتی عمل داری میں لانے کی پالیسی اپنائی جا رہی ہے۔ دنیا کے ایجوکیشنل انڈیکس میں شامل ایک سو انتیس ممالک میں سے ہمارا نمبر ایک سو تیرہواں ہے۔
یہ شرمندگی کی بات ہے۔ پچیس ملین پاکستانی بچے اسکول سے باہر ہیں۔ ہمارے تعلیمی نظام میں سرکاری و نجی اسکول اور مدارس شامل ہیں۔ انیس سو سینتالیس میں دو سو سینتالیس مدرسے تھے جو انیس سو اسی تک دو ہزار آٹھ سو اکسٹھ ہو گئے اور آج تیس ہزار سے زائد ہیں۔ ان میں ڈھائی ملین بچے زیرِ تعلیم ہیں۔ ان میں سے متشدد انتہا پسندی کی تعلیم دینے والے مدارس کی تعداد ہماری اسکریننگ کے مطابق سو سے بھی کم ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ باقی مدرسے انتہا پسند یا دہشت گرد پیدا نہیں کر رہے۔ ان مدارس میں آٹھ سال درسِ نظامی پڑھایا جاتا ہے، مزید دو برس کے تخصص سے ایک طالبِ علم مفتی بن سکتا ہے۔ مگر یہ فارغ التحصیل طلبا صرف دینی اداروں میں ہی روزگار حاصل کر پاتے ہیں۔ کیا ان کا حق نہیں کہ وہ ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، جج، اینکر، رپورٹر یا فوجی بن سکیں۔
جامعہ رشیدیہ کے ایک طالبِ علم کو فوج میں کمیشن ملا کیونکہ وہ میرٹ پر اترتا تھا۔ لیکن ایسے مدارس کم ہیں۔ اب حکومتِ پاکستان اور مددگار اداروں نے ان مدارس کو مین اسٹریم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انھیں وزارتِ صنعت کے بجائے وزارتِ تعلیم کے تحت کیا جا رہا ہے۔ انھیں تعلیمی بورڈ اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے منسلک کیا جائے گا۔ ان اداروں میں جدید مضامین پڑھائے جائیں گے۔ دینی نصاب وہی رہے گا مگر اس میں سے نفرت انگیز مواد خارج کر دیا جائے گا۔ آرمی چیف کہتے ہیں اپنا فقہ چھوڑو نہیں دوسرے کا چھیڑو نہیں۔ اب ہم دہشت گردی کے مقابلے سے نسبتاً فارغ ہوئے ہیں۔ اب ہمیں پرتشدد انتہا پسندی کا پاکستان سے خاتمہ کرنا ہے۔ اور یہ تب ہی ہو گا جب ہمارے بچوں کو یکساں تعلیم اور یکساں مواقعے ملیں گے۔
پی ٹی ایم اور لاپتہ افراد  جب تحریکِ لبیک کے خلاف ایکشن ہوا تو لوگوں نے کہا پی ٹی ایم ( پشتون تحفظ موومنٹ ) بہت بولتی ہے آپ ان کے خلاف ایکشن کیوں نہیں کرتے۔ ان کے تین بنیادی مطالبات تھے۔ چیک پوسٹوں میں کمی، بارودی سرنگوں کی صفائی اور لاپتہ افراد کی بازیابی۔ فوج کی اڑتالیس ٹیموں نے پینتالیس فیصد ایریا بارودی سرنگوں سے کلیئر کر دیا ہے۔ اس کام کے دوران پاک فوج کے ایک سو ایک جوانوں کا جانی نقصان ہوا۔ لاپتہ افراد کی فہرست پر بھی پیش رفت ہوئی ہے۔ اب ڈھائی ہزار کیسز بچے ہیں۔ میری آپ ( پی ٹی ایم ) سے درخواست ہے کہ ٹی ٹی پی (کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان) کی جو افرادی قوت اس وقت افغانستان میں بیٹھی ہے۔ ان کی لسٹ بھی مجھے دے دیں تاکہ موازنہ ہو سکے کہ آپ کی لاپتہ افراد کی لسٹ کا کوئی بندہ ان میں تو شامل نہیں۔ پھر ہم ڈھونڈیں گے کہ باقی لاپتہ افراد کہاں گئے۔
بہت ساری اور تنظیمیں بھی بہت سی جگہ لڑ رہی ہیں آپ کے تو بہت وسائل ہیں۔ ان کی لسٹ بھی ہمیں دے دیں تاکہ ہم اپنے لاپتہ افراد کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جائیں۔ ڈی جی صاحب نے پی ٹی ایم کے بیرونی ڈانڈوں ( را اور این ڈی ایس سے مبینہ روابط) کے بارے میں بھی سوالات کی ایک فہرست سنائی۔ اور کہا کہ آپ کا وقت پورا ہو گیا۔ اب آپ سے قانونی طریقوں سے نمٹا جائے گا۔ حامد میر نے کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ تو پی ٹی ایم نے گزشتہ سال اٹھایا ہے مگر یہ بات تو دو ہزار پانچ اور چھ سے چل رہی ہے۔ آپ نے پی ٹی ایم کے سامنے جو سوالات رکھے ہیں تو پی ٹی ایم والے کہتے ہیں کہ ہم پر تو الیکٹرونک میڈیا کے دروازے بند ہیں۔ کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ وہ میڈیا پر آ کر جواب دیں۔
اس پر ڈی جی صاحب نے فرمایا کہ حامد میر صاحب مجھے پتہ ہے کہ لاپتہ افراد کے ساتھ آپ کو دلی لگاؤ ہے۔ ہمارا بھی اتنا ہی لگاؤ ہے۔ ہمارا دل نہیں چاہتا کہ کوئی بھی بندہ مسنگ ہو۔ مگر جب جنگ ہوتی ہے تو اس میں بہت سے کام کرنا پڑتے ہیں۔ کہتے ہیں نا کہ محبت و جنگ میں سب جائز ہے۔ جنگ بہت سفاک ہوتی ہے اور افواجِ پاکستان اور دوسرے سیکیورٹی ادارے اسے فرض سمجھ کے لڑتے ہیں۔ یہ ان کی کوئی ذاتی جنگ تو نہیں۔ میں نے آپ سے کہا نا کہ لاپتہ لوگ وہ نہیں جو یہ کہتے ہیں۔ مجھے یہ ٹی ٹی پی کی لسٹ دے دیں تاکہ ہم اپنے مسنگ پرسنز کو کلیئر کر لیں۔ آج میں نے جو سوالات اٹھائے ہیں ( را اور این ڈی ایس سے مبینہ روابط ) یہ تو لوگوں کو پہلے سے نہیں پتہ۔ ان سوالوں کے جواب ہم قانونی طریقے سے لیں گے۔ میڈیا پر ڈبیٹ نہیں کروائیں گے۔ جب ان کی زبان سیدھی ہو جائے گی جب وہ ایکسپوز ہو جائیںگے پھر آپ انھیں سات دن چوبیس گھنٹے ٹی وی پر رکھیں۔
متفرقات پاکستان میں اس وقت کسی دہشت گرد تنظیم کا کوئی منظم ڈھانچہ نہیں۔ مگر یہ کہنا بھی درست نہ ہو گا کہ پاکستان میں دہشت گردی موجود نہیں۔ ابھی ہمیں بہت کام کرنا ہے۔ فوج کا کام ایسا ماحول مہیا کرنا ہے جس میں معیشت ترقی کر سکے۔ اللہ کا شکر ہے فوج بہت بہتری لے آئی ہے۔ اب جو کام باقی لوگوں نے کرنے ہیں وہی کریں گے انشاء اللہ۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
2 notes · View notes
qaumiakhbar · 5 years ago
Photo
Tumblr media
Asif Ghafoor became very popular میجر جنرل آ صف غفور بے تحاشا مقبول ہوئے #AsifGhafoor, #Karachi, #Pakistan, #QaumiAkhbar, #Ticker, #اردونیوز, #پاکستان, #قومیاخبار, #کراچی
0 notes
qaumisafeer · 5 years ago
Photo
Tumblr media
سول، ملٹری قیادت ایک پیج پر ہے کراچی: سول-ملٹری تعلقات میں اختلاف سے متعلق قیاس آرائیوں پر انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے سربراہ نے کہا ہے کہ حکومت اور فوج 'ایک پیج پر ہیں' اور وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان ملاقات ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔
0 notes
knowledgepronto · 5 years ago
Photo
Tumblr media
Bangladesh Cricket Cancels New Zealand Tour | News Headlines | 11:00am | 15 March 2019 Bangladesh Cricket Cancels New Zealand Tour | News Headlines | 11:00am | 15 March 2019
0 notes
innnewsofficial · 5 years ago
Photo
Tumblr media
ڈی جی آئی ایس پی آر میجرجنرل آصف غفور نے کہا کہ بھارت کچھ بھی کرنے سےپہلےستائیس فروری کویاد رکھے،کچھ کیا تو حسن اور نعمان جیسے شاہین تیار بیٹھے ہیں۔آخری گولی،آخری سپاہی اورآخری سانس تک کشمیریوں کیساتھ ہیں۔
0 notes
yenicagri · 5 years ago
Photo
Tumblr media
Pakistan: Keşmir’deki çatışmada 3 askerimiz ve 5 Hint askeri öldü PAKİSTAN (DHA) - Pakistan Ordu Sözcüsü Asif Ghafoor, Keşmir'de sınır hattında çıkan çatışmada 3 ordu mensubunun hayatını kaybettiğini; 5 Hint askerinin de öldürüldüğünü duyurdu.
0 notes
nowpakistan · 5 years ago
Photo
Tumblr media
آمنہ جنجوعہ کی ڈی جی آئی ایس پی آر سے ملاقات چیئرپرسن ڈیفینس آف ہیومن رائٹس آمنہ جنجوعہ نے ڈی جی آئی ایس پی آر سے ملاقات کی جس میں لاپتہ افراد کے معاملہ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
0 notes
sofiataylor19-blog · 6 years ago
Text
Air strike Balakot never even happened a month back according to Pakistani officials
Pakistan says something uniquely weird about Balakot Air Strike
A strike in Pakistan, specifically in Balakot isn’t the latest news. Major general Asif Ghafoor claims that zero infrastructure damage was done during the air strike done by Indian Air force. Crater in Balakot named video was published on April 10th.
Tumblr media
For More Detail Click Here - Air strike Balakot
0 notes
risingpakistan · 5 years ago
Text
شکریہ سر آصف غفور
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سکبدوش ہونے والے سربراہ میجر جنرل آصف غفور اپنے سیاسی بیانات، میڈیا کو کنٹرول کرنے اور سوشل میڈیا پر ناقدین سے الجھنے کی وجہ سے متنازعہ رہے۔ انہیں فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر ) کی سربراہی سے ہٹا کر جنرل کمانڈنگ آفیسر (جی او سی) اوکاڑہ لگا دیا گیا۔ ان کی جگہ میجر جنرل بابر افتخار کو نیا ڈی جی آئی ایس پی آر تعینات کر دیا گیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے نئے ڈی جی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اور پاکستان ملٹری اکیڈمی میں درس و تدریس سے وابستہ رہے ہیں۔ فوج کی طرف سے میجر جنرل آصف غفور کو تبدیل کرنے کے اعلان کے بعد جلد ہی ٹویٹر پر یہ موضوع ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ ان کی شخصیت سے متاثر لوگوں نے انہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا۔
خود میجر جنرل آصف غفور نے ایک ٹویٹ میں اپنے پرستاورں کا شکریہ ادا کیا اور انہیں مضبوط رہتے ہوئے اپنا کام جاری رکھنے کی تلقین کی۔ اکثر جمہوری ممالک میں اس قسم کی فوجی تعیناتیاں معمول کا حصہ ہوتی ہیں۔ لیکن پاکستان میں فوج کے ساتھ ساتھ آئی ایس پی آر کی اہمیت اور طاقت بھی کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ ملک میں آج یہ تاثر عام ہے کہ اب یہ ادارہ پوری 'میڈیا انڈسٹری کو کنٹرول‘ کرتا ہے۔ بظاہر دوستانہ مزاج کے حامل میجر جنرل آصف غفور ملکی معاملات پر اظہار خیال کرنے میں اپنی 'حدود سے تجاوز‘ کرنے کی پروا نہیں کرتے تھے۔ بات داخلی سیاست کی ہو، خارجہ پالیسی، معیشت یا عدالتی معاملات کی، انہیں اکثر ٹی وی پروگراموں سے شکایت رہتی تھی کہ وہ فوج کے نقطہ نظر سے چیزوں کو کیوں نہیں سمجھا پاتے؟
انہوں نے مئی دو ہزار سترہ میں ڈان لیکس کے معاملے پر ایک حکومتی اعلامیے کو سرعام ایک ٹویٹ میں مسترد کیا، جس کے بعد وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اپنے نامزد کردہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان اختلاف کھل کر سامنے آنا شروع ہوئے۔ اپنے تین برسوں میں میجر جنرل آصف غفور نے باقاعدہ نیوز کانفرنسوں کا رواج شروع کیا، جسے ملک کے درجنوں چینل بیک وقت لائیو دکھاتے رہے۔ شروع میں ان نیوز کانفرنسوں میں بظاہر مخصوص افراد سے پہلے سے طے سوالات کرائے جاتے تھے لیکن جب اس کا زیادہ مذاق اڑایا گیا تو بعد میں جانے مانے صحافیوں کو بھی مدعو کیا جانے لگا۔
ایسی ہی ایک نیوز کانفرنس میں انہوں نے 'ففتھ جنریشن وار‘ پر کھل کر اظہار کیا اور پاکستان کے بعض سینئر صحافیوں کے ٹویٹر اکاؤنٹس کو فوج پر تنقید کرنے والے مبینہ ملک دشمنوں سے جوڑنے کی کوشش کی۔ صحافیوں نے ان کے اس اقدام کو کھلی دھمکی قرار دیا اور ان پر خاصی نکتہ چینی ہوئی۔ میڈیا کے ساتھ ان مباحثوں میں میجر جنرل آصف غفور اکثر اپنی فکری صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کرتے تھے۔ اکتوبر دو ہزار سترہ میں ملک میں فوج کی طرف سے اپنی حدود سے تجاوز کرنے پر تشویش بڑھ رہی تھی۔ ایسے میں کور کمانڈرز کا ایک طویل اجلاس ہوا، جس کے بعد فوج کی طرف سے کوئی اعلامیہ جاری نہ کیا گیا۔ صحافیوں نے جب میجر جنرل آصف غفور اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے یہ کہہ کر بات ٹال دی کہ ''خاموشی میں بھی اظہار ہوتا ہے۔‘‘
ان کا یہ دلچسپ جملہ شہ سرخیوں کی زینت بنا اور اس نے مختلف قسم کی قیاس آرائیوں کو جنم دیا۔ میجر جنرل آصف غفور پر الزام ہے کہ انہوں نے نجی ٹی وی چینلوں پر فوج کی ترجمانی کرنے والے منظور نظر صحافیوں اور اینکروں کو فروغ دیا اور سیاست میں فوج کی مداخلت پر تنقید کرنے والے آزاد صحافیوں کو اداروں سے فارغ کروایا۔ کئی سینیئر صحافیوں کے مطابق یوں ان برسوں میں فوج کا شعبہ تعلقات عامہ میڈیا کو کنٹرول کرنے کا مرکز بن کر ابھرا۔ ان سے پہلے عاصم باجوہ نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو ملک کی طاقتور اور مقبول ترین شخصیت کے طور پر پیش کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ عاصم باجوہ کے دور میں آئی ایس پی آر کے آپریشنز کو زبردست وسعت دی گئی۔
فوجی قیادت کی تشہیر کے لیے ملٹی میڈیا اسٹوڈیوز بنائے گئے۔ پاک فوج سے محبت اور حب الوطنی کا جذبے کو اجاگر کرنے کے لیے فلمیں اور گانے بنوانے پر بھی وسائل خرچ کیے گئے۔ عسکری قیادت کا امیج بہتر بنانے کے لیے اشتہاری مہم چلائی گئی اور نوجوانوں کی ایک پوری کھیپ تیار کی گئی، جو سوشل میڈیا پر پاکستان کے 'سائیبر جنگجو‘ بن کر ابھرے۔ آئی ایس پی آر کے یہ سائیبر سپاہی شاید آج شاید کچھ مایوس ہوں لیکن انہیں حوصلہ نہیں ہارنا چاہییے، کیونکہ انہیں اپنے ہم وطنوں کے خلاف جو محاذ سونپا گیا ہے اس پر کسی کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ غفور صاحب کا اپنا قول ہے کہ "ادارہ اہم ہوتا ہے شخصیات نہیں۔"
شکریہ سر آصف غفور!
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
0 notes
softtau · 5 years ago
Text
#Surgicalstrike2: भारत के हवाई हमले के बाद पाकिस्तान ने आपात बैठक बुलाई
[ad_1]
Tumblr media
<!-- Loading... -->
भारत के नियंत्रण रेखा के पार हवाई हमले करने और खैबर पख्तूनख्वा प्रांत में आतंकी शिविरों को नष्ट करने के बाद पाकिस्तान के विदेश मंत्री शाह महमूद कुरैशी ने मंगलवार को एक आपात बैठक बुलाई है. बैठक में उच्च स्तरीय पदाधिकारियों के साथ सुरक्षा स्थिति पर चर्चा करने के बाद कुरैशी…
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 6 years ago
Text
میجر جنرل آصف غفور سے وضاحت کی درخواست
فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی چند دن قبل پریس کانفرنس کے دوران جب سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ کردار پر بات ہوئی تو وہاں موجود صحافیوں کو باقاعدہ ایک چارٹ کے ذریعے دکھایا گیا کہ کیسے ایک نیٹ ورک کے ذریعے ریاست مخالف اور دفاعی افواج کے خلاف باتوں کو آگے بڑھایا جاتا ہے اور بعض اوقات ایسی ریاست مخالف اور افواج مخالف باتیں کرنے والوں کو شاباشی بھی دی جاتی ہے۔ جہاں تک جنرل آصف غفور نے زبانی کلامی بات کی اُس پر تو اعتراض نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ پاکستان دشمن قوتوں کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگ سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف زہر اگلتے ہیں اور پاکستان کو کمزور کرنے کی سازش میں شامل ہیں۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا کو ذمہ دار بنانےکی بہت ضرورت ہے۔ لیکن مجھے اعتراض اُس چارٹ پر ہے جو پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کو دیکھایا گیا اور الزام لگایا گیا کہ چارٹ کے ذریعے دکھائے جانے والے افراد اپنے ٹیوٹر اکاونٹ کے ذریعے ریاست مخالف اور افواج مخالف مواد پھیلاتے ہیں۔ اعتراض کی بات یہ ہے کہ اس چارٹ کے ذریعے پاکستان کے کئی صحافیوں کی تصویریں دکھائی گئیں اور جیو ٹی وی چینلز کا بھی ٹیوٹرہینڈل دکھایا گیا۔ جن صحافیوں کو اس چارٹ کے ذریعے ایک ریاست مخالف نیٹ ورک کا حصہ بنا کر دکھایا گیا اُن میں چند ایک صحافی میرے ساتھ نیوز کے انویسٹیگیشن سیل میں کام کرتے ہیں جن میں عمر چیمہ، وسیم عباسی اور فخر درانی شامل ہیں۔ 
سوچ اورنظریہ کا اختلاف اپنی جگہ لیکن میرے لیے یہ بات کسی طور بھی قابل قبول نہیں کہ اس طرح کسی بھی صحافی کو منفی انداز میں ایک پریس کانفرنس کے دوران فوجی ترجمان کی طرف سے پیش کیا جائے۔ مجھے ان سمیت کئی صحافیوں کے بہت سے ٹیوٹس (یعنی سوشل میڈیا کے پیغامات) یا ری ٹیوٹس سے اختلاف رہتا ہے لیکن اُن میں سے کسی کی بھی حب الوطنی پر مجھے شک نہیں۔ بلکہ یہ سب پاکستان کے لیے درد دل رکھتے ہیں اور اپنے ارد گرد حالات دیکھ کر بعض اوقات سخت لہجہ بھی اختیار کر لیتے ہیں یا کبھی کبھار متنازع بات بھی کر دیتے ہیں لیکن انہیں ایک ایسے نیٹ ورک کا حصہ بنا کر پیش کرنا جو ریاست مخالف یا افواج مخالف ہو قابل مذمت بھی ہے اور قابل افسوس بھی۔
اگر ان میں سے کوئی واقعی کسی ملک دشمن ایجنڈے پر کام کر رہا ہے یا کسی غیر ملکی طاقت کا آلہ کار بنا ہوا ہے اور اس کے ترجمان فوج کے ��اس ثبوت ہیں تو پھر ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہیے۔ میں حکومت اور ریاست کا یہ اختیار بھی مانتا ہوں کہ اگر ان میں سے کسی نے بھی اپنے سوشل میڈیا پیغامات کے ذریعے پاکستان کے کسی قانون کی خلاف ورزی کی اور آزادی رائے کو غلط استعمال کیا تو پھر بھی ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہیے لیکن یہ کوئی طریقہ نہیں کہ کچھ لوگوں کی تصویریں چارٹ پر لگا کر اُنہیں دنیا کے سامنے ایسے رنگ میں پیش کیا جائے جیسے خدانخواستہ وہ غدار ہوں یا ملک دشمن۔ 
میری جنرل غفور سے درخواست ہو گی کہ وہ اس معاملے کی وضاحت کریں کیوں کہ یہ نہ صرف ایک صحافتی ادارہ اور کئی صحافیوں اور کچھ دوسروں کی repute کا معاملہ ہے بلکہ منفی انداز میں پیش کیے جانے پر متعلقہ افراد اور اُن کے خاندانوں کی زندگیاں بھی خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ ہاں اگر واقعی کوئی ثبوت ہے تو پھر میں کہوں گا کہ متعلقہ افراد کے خلاف باقاعدہ ایکشن لیا جائے۔ غداری غداری کا کھیل یہاں پہلے ہی بہت کھیلا گیا۔ محض الزامات کی بنیاد، اختلاف رائے حتی کہ کسی غلط بیان یا پیغام کی وجہ سے دوسرے کی حب وطنی کو ہی مشکوک بنا دینے کے رویےّ کو ہمیں بدلنا ہو گا۔ جو غدار ہے یا ریاست مخالف اُسے پکڑا جانا چاہیے، ثبوت کے ساتھ اُس کو عدالت کے ذریعے سخت سے سخت سزا بھی دلوانی چاہیے۔ 
اگر ایسا نہیں ہوتا تو غداری کا الزام لگانے والوں سے جواب طلب کیا جانا چاہیے۔ ہمارا ماضی ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ہے کہ کبھی کسی ایک سیاسی پارٹی تو کبھی کسی دوسری سیاسی جماعت کے رہمنا کو غدار کہا گیا، وہی ’’غدار‘‘ پھر اعلیٰ ترین عہدوں پر بھی فائز رہے۔ عمومی طورپر غداری کے ان الزامات کا نشانہ سول حکمراں، سیاستدان اور صحافی رہے۔ اس کھیل کو اب بند ہونا چاہیے کیوں کہ ایسا نہ ہو کہ حب وطنی کے ہم اپنے اپنے دائرہ کھینچ لیں اور اپنے علاوہ ہر ایک کو اس دائرہ سے باہر نکالنے کی ریس میں پڑ جائیں۔
انصار عباسی  
1 note · View note
news4me · 5 years ago
Text
Pakistan Military Spokesperson Major General Asif Ghafoor Replaced, Shifted to Infantry Division
Pakistan Military Spokesperson Major General Asif Ghafoor Replaced, Shifted to Infantry Division
[ad_1]
Tumblr media
File photo of Pakistan army spokesperson Major General Asif Ghafoor (Image: AP)
Major General Asif Ghafoor has been posted as the general officer commanding of the Pakistan Army’s 40th Infantry Division based out of Okara in Pakistan’s Punjab province.
News18.com
Last Updated: January 16, 2020, 4:46 PM IST
New Delhi:Majo…
View On WordPress
0 notes
qaumiakhbar · 6 years ago
Photo
Tumblr media
Barbed wire stopped attacks, Asif Ghafoor افغان سرحد پر باڑ سے حملے رک گئے، فوجی ترجمان پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کے باعث دہشت گرد حملوں کا سلسلہ رک گیا ہے
0 notes
qaumisafeer · 5 years ago
Photo
Tumblr media
پاک فوج کی جانب سے ایک بار پھر بھارتی فوجی قیادت کی مقبوضہ و جموں کشمیر میں دراندازی کے الزامات مسترد پاک فوج نے ایک مرتبہ پھر بھارتی فوجی قیادت کی جانب سے مقبوضہ جموں اور کشمیر میں دراندازی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں تجویز دی ہے کہ وہ اپنے داخلی مسائل کو درست کریں جو مختلف وجوہات کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔
0 notes