#گیس کی قیمتیں
Explore tagged Tumblr posts
Text
سرما میں گیس کی قیمتیں نہیں بڑھیں گی،وزیر مملکت نےخوشخبری سنادی
آئندہ موسم سرما میں گیس کی قیمتیں نہیں بڑھیں گی،وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے خوشخبری سنا دی۔ وفاقی وزیر پیٹرولیم مصدق ملک نے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ ایڈوانس بتا رہا ہوں گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوگا اس بات کی بھی قوی امید ہے کہ اسپاٹ ایل این جی کارگوز خریدنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ وفاقی وزیر پیٹرولیم مصدق ملک نے کہا کہ حکومت کی چار یا پانچ ٹیمیں بجلی قیمتوں پر ریلیف پر کام…
0 notes
Text
بجلی، گیس کی قیمتیں اور عوام
گزشتہ چند سال سے پاکستان کے عوام کو نا کردہ گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی بار بار ضرورت پڑ رہی ہے۔ بجلی اور گیس چوری کوئی اور کرتا ہے، نقصان حکومت کا ہوتا ہے اور پھر اس نقصان کا ازالہ بڑی آسانی سے کر دیا جاتا ہے، قیمتیں بڑھا کر۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو نقصان ہو تو بھی عوام ذمہ دار، حکومت کو نقصان ہو تو بھی عوام ذمہ دار۔ آخر کیوں ؟ پچھلے چند سال میں بجلی کا فی یونٹ 2 روپے سے 50 روپے تک پہنچ گیا ہے مگر پھر بھی بجلی کمپنیوں کا مالی خسارہ کم نہیں ہو رہا۔ فی یونٹ بجلی 100 روپے بھی ہو گئی تب بھی ان کمپنیوں کا مالی خسارہ کم نہیں ہو گا۔ لائن لاسز اور فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر حکومت اور یہ کمپنیاں عوام پر بوجھ ڈالتی ہیں۔ حکومت چاہے عمران خان کی ہو یا شہباز شریف کی، سب حکومتیں صرف بجلی مہنگی کرتی آئی ہیں۔ کسی حکومت نے بجلی چوری اور لائن لاسز کو ختم کرنے پر توجہ نہ دی۔ گیس کے شعبے میں بھی یہی مسئلہ رہا کہ حکومتیں بجائے گیس کی چوری پر توجہ دیتیں انھوں نے گیس مہنگی کرنے میں عافیت جانی ۔
چند دن پہلے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے اگلے مالی سال کیلئے دو پبلک یوٹیلیٹز کی آمدنی کی ضروریات کے پیش نظر SNGPL کی اوسط تجویز کردہ گیس کی قیمتوں میں 10pc اور SSGC میں 4pc کی کمی کی۔ اوسطاً، SNGPL صارفین کو اگلے مالی سال کے دوران 179.17 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کم ادا کرنا چاہیے، جبکہ ایس ایس جی سی کے صارفین کو 59.23 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کا ریلیف ملنا چاہیے۔ تاہم، جہاں ایس این جی پی ایل کے صارفین کا تعلق ہے ایسا نہیں ہو گا، کیونکہ حکومت ان سے 581 بلین روپے کا ٹیرف ڈیفرنس وصول کرنا چاہتی ہے جو گزشتہ چھ سال کے دوران انہیں نہیں دیا گیا۔ مالی سال 19 سے مالی سال 24 کے درمیان اوسط قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ایس این جی پی ایل کے مالی نقصانات کا اوگرا کا تعین، جسے حکومت نے سیاسی ردعمل کے خوف سے صارفین کو مکمل طور پر منتقل نہیں کیا، اگلے سال کمپنی کی گیس کی قیمتوں میں 100 فیصد تک اضافہ کرنے پر مجبور کر دے گا۔
اس بات کے امکانات ہیں کہ حکومت مہنگائی سے متاثرہ گیس صارفین سے ایک سال میں پوری رقم وصول کرنے کے بجائے اسے چند سال میں پھیلا دے۔ ایک طرف حکمراں پہلے ہی نئے مالی سال سے گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے منصوبے تیار کیے بیٹھے ہیں دوسری طرف آئی ایم ایف بھی ڈو مور کا مطالبہ کر رہا ہے۔ عوام تو عوام صنعتکاروں کی بھی چیخیں نکل رہی ہیں۔ لگتا ہے کہ آنے والے مہینوں میں آئی ایم ایف پوری کوشش کرے گا کہ بجلی اور گیس کی قیمتیں اتنی زیادہ کروانے میں کامیاب ہو جائے جس سے صنعتکار اپنے کارخانے بند کر دیں اور ہر طرف بھوک افلاس کے ڈیرے ہوں، جس سے کسی کو فائدہ ہو نہ ہو آئی ایم ایف اور ہمارے دشمنوں کو فائدہ ضرور ہو گا۔ ہمیں ہندوستان سے کم از کم یہ سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس نے کس طرح آئی ایم ایف کے دروازے ہندوستان میں ہمیشہ کیلئے بند کیے۔ ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے مگر وہاں کا مسئلہ یہ ہے کہ ہندوستان میں واجپائی ہو یا منموہن سنگھ یا پھر مودی سب کے سب عام آدمی تھے نہ کہ صنعتکار، چوہدری، سردار یا وڈیرے۔
انھیں اندازہ تھا کہ اگر ملک ہو گا تو وہ ہوں گے مگر ہمارے حکمرانوں کا تو سب کچھ ملک سے باہر ہوتا ہے لہٰذا انھیں کوئی فکر نہیں ہم غریبوں کی۔ پاکستان میں توانائی کی قیمتیں گزشتہ چند سال میں روزمرہ کی زندگی پر اتنی اثر انداز ہوئی ہیں کہ عام آدمی دو وقت کے کھانے سے بھی محروم ہو گیا ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ جگہ جگہ خیراتی ادارے لوگوں کو کھانا کھلاتے نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ مہنگائی میں کمی ہو رہی ہے۔ کمی مہنگائی میں نہیں ہورہی بلکہ کمی خریداری میں ہو رہی ہے، لوگوں کی قوت خرید ختم ہو چکی ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اگلے مالی سال کے دوران یقینی ہے کیوں کہ بجلی اور گیس کمپنیوں کو اپنے اربوں روپے کے نقصانات پورے کرنے ہیں۔ حکومت نے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے اپنے منصوبے بھی آئی ایم ایف کو دے دیئے ہیں۔ اسکے علاوہ، حکومت کو اپنی آمدنی کو جی ڈی پی کے 1.5 فیصد تک بڑھانے کیلئے ٹیکسوں میں اضافہ کرنا ہو گا۔ ان اقدامات سے مہنگائی پھر بڑھے گی اور عوام پر مزید اخراجات کا بوجھ پڑے گا۔ ایسا نہ ہو کہ عوام ک�� صبر جواب دے جائے اور ملک میں مظاہرے شروع ہو جائیں۔ ضروری ہے کہ حکومت فی الفور بجلی اور گیس چوری پر قابو پائے کیونکہ پاکستان اب مزید مظاہروں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
محمد خان ابڑو
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
نئی حکومت کو کون سی نئی اصلاحات لانے کی ضرورت ہے؟
نئی حکومت ایک ایسے وقت میں چارج سنبھالے گی کہ جب ہمارا ملک مختلف بحرانوں کی لپیٹ میں ہے۔ معاشی اعتبار سے بات کریں تو ہمارے ملک میں افراطِ زر کی شرح 25 فیصد سے زائد ہے، بجٹ خسارہ قومی آمدنی کا 7 فیصد ہے، توانائی کی قیمتیں اور اس کی عدم دستیابی صنعتوں اور صارفین کے لیے اہم مسئلہ ہے، مقامی اور غیرملکی قرضوں کی واپسی کی مہلت بھی ہمارے سر پر تلوار کی مانند لٹک رہی ہے جبکہ ملکی برآمدات کی شرح بھی انتہائی کم ہے۔ عوامی ترقی کے اعتبار سے دیکھیں تو دیگر ترقی پذیر ممالک کی نسبت ہمارے ملک میں نومولود بچوں کی اموات کی شرح اور خواتین کا فرٹیلیٹی ریٹ انتہائی بلند ہے، 5 سال سے کم عمر 58 فیصد بچے نشونما کی کمی کا شکار ہیں، 26 لاکھ (40 فیصد) بچے اسکول جانے سے محروم ہیں، ہر سال 80 لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں جن کے لیے ہمارے پاس نہ اسکول ہیں اور نہ ہی اساتذہ جبکہ سب سے بدتر تو یہ ہے کہ 39 فیصد عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ گورننس کے اعتبار سے بات کریں تو ہمارا بلدیاتی نظام، جو عوام کی بڑی تعداد کو حکومتی معاملات سے منسلک کرتا ہے اور انہیں سہولیات فراہم کرتا ہے لیکن غیرمؤثر بلدیاتی نظام ہونے کی وجہ سے ہمارے شہری صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
درحقیقت گورننس کے تمام شعبہ جات میں ہی عوام کو سہولیات کی فراہمی کا فقدان ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ سال ہمارے سرکاری اداروں کو 700 ارب روپے کا خسارہ ہوا، ہمارے پاس ایک ایسی بیوروکریسی ہے جہاں میرٹ موجود نہیں، عدالتوں میں موجود مقدمات دہائیوں سے حل طلب ہیں اور ہماری پولیس خدمات فراہم نہیں کرتی بلکہ انہیں شہریوں پر ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ ان تمام مسائل کو دیکھتے ہوئے، مندرجہ ذیل وہ اصلاحات ہیں جو نئی حکومت کو کرنی چاہئیں۔ اگر آبادی کا 40 فیصد لوگ غریب اور ناخواندہ ہوں تو ایسے ملک کی معیشت کبھی بھی ترقی نہیں کر پائے گی جبکہ ناخواندہ افراد تعلیم اور ہنر سے محروم رہیں گے۔ اس کے بعد ہمیں حکومت کی مالی اعانت سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے بعد تمام وفاقی ٹیکسس کا تقریباً 63 فیصد صوبوں (آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور سابقہ فاٹا بھی شامل ہیں) کو ملتا، اس سے صوبوں کو بہت سی رقم ملی لیکن وفاق کے پاس اتنی دولت نہیں تھی کہ وہ سود کی ادائیگیاں کر سکتا۔
اگلے این ایف سی ایوارڈ یعنی پانچ برس میں وفاق کا حصہ 55 فیصد تک بڑھانا چاہیے اور صوبوں، اضلاع اور ڈویژن سے بھی کہا جائے کہ وہ اپنی ٹیکس وصولی خود کریں۔ یہ خیال کہ ایک حکومت ٹیکس جمع کرتی ہے اور دوسری حکومت اسے خرچ کرتی ہے، اس سے مالی بے ضابطگی ہوتی ہے۔ ذمہ دار وفاق کو صرف خرچ کرنے کا اختیار ہی نہیں بلکہ ٹیکس کی ذمہ داری بھی صوبوں تک منتقل کرنی چاہیے۔ مزید اصلاحات میں آئینی اعتبار سے مقامی حکومت کو بااختیار بنانا بھی شامل ہے اور اس حد تک بااختیار کہ صوبائی انتظامیہ اسے کمزور نہ کرسکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تعلیم اور صحت کو ضلع یا شہر کی سطح پر جبکہ پولیس اور انفرااسٹرکچر کو ڈویژن اور شہری سطح پر منتقل کیا جانا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ منتخب کردہ تحصیل، ضلع، شہر اور ڈویژن کے ناظم کو اس وقت تک اپنے عہدے سے نہیں ہٹانا چاہیے جب تک ان کی جگہ کوئی اور منتخب نہ ہوجائے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان اداروں کو پہلے سے طے شدہ فارمولے پر براہِ راست وفاقی تقسیم شدہ پول سے فنڈز دیے جائیں تاکہ انہیں صرف صوبائی انتظامیہ پر انحصار کرنے کی ضرورت نہ ہو۔
حکومت کا نجی شعبے کو اختیارات کی منتقلی بھی ایجنڈا میں شامل ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب تمام سرکاری اداروں کی نجکاری اور مضبوط ضابطے بنانا ہے۔ یہ عمل سب سے پہلے پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز سے شروع کرنا ہو گا جوکہ پہلے ہی ایجنڈے میں شامل ہیں لیکن اس فہرست میں تمام توانائی، گیس کے پیداواری و تقسیم کار اور تیل کی پیداواری اور تقسیم کے اداروں کو بھی شامل کرنا ہو گا۔ فوری نجکاری کی اجازت دینے کے لیے قانون میں ضروری تبدیلیاں کی جانی چاہئیں (فی الحال اسے مکمل کرنے کے لیے کم از کم 460 دن درکار ہیں)۔ ہماری بجلی اور گیس کے تقسیم کار کمپنیز کو اپنے کُل اثاثوں پر منافع کی اجازت ہے جبکہ نجکاری کے بعد اس فارمولے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ نجکاری کے بعد ان کمپنیز کی قیمتوں کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ انہیں کتنا منافع لینے کی اجازت ہے۔ حکومت کو احتیاط سے نیا فارمولا سوچنے کی ضرورت ہے تاکہ اضافی منافع کو تقسیم کیا جا سکے، بلوں کی وصولی میں بہتری کے بعد اور ترسیل اور تقسیم کے دوران ہونے والے نقصان کا تخمینہ بھی نجکاری کے بعد، صارفین اور کمپنیز کے درمیان طے ہونا چاہیے۔ اس نجکاری کا حتمی مقصد بجلی اور گیس کے لیے ہول سیل مارکیٹ کا قیام اور صارفین کے لیے قیمتوں میں خاطر خواہ کمی اور خدمات میں بہتری ہونا چاہیے۔
سرکاری اداروں کی نجکاری کے علاوہ بھی دیگر راستوں سے ہمیں حکومتی دائرہ اختیار کو محدود کرنا ہو گا۔ مثال کے طور پر وزارتوں اور ڈویژن میں کمی بالخصوص 18ویں ترمیم کے بعد جن علاقوں میں اقتدار منتقل ہوا وہاں کچھ اختیارات نجی شعبے کے سپرد کرنا ہوں گے۔ مثال کے طور پر فوڈ سیکیورٹی کی وزارت کا دفتر کامرس کی وزارت کی عمارت میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ یا پھر اسلام آباد اور گلگت بلتستان کے اسکولز چلانے والی وزارتِ تعلیم کو مقامی اختیارات میں دے کر پورے ملک میں قومی نصاب کے معیارات نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کو ختم کردینا چاہیے اور نجی سیکٹر کو اجناس کی برآمدات کرنے کی ذمہ داری دے دینی چاہیے۔ دنیا کے بیشتر ممالک اپنے لوگوں کی فوڈ سیکیورٹی کا کام ذمہ دارانہ طریقے سے کرتے ہیں لیکن اس کام میں کوئی بھی سرکاری کمپنی براہ راست تجارت اور درآمدات میں ان کا ساتھ نہیں دیتی۔ حکومت کی جانب سے گندم اور کھاد کا اسٹریٹجک ذخیرہ بنایا جاتا ہے۔ اگر حکومت نجی شعبے پر انحصار کرتی ہے تو اقتصادی طور پر وہ گندم اور کھاد کی زیادہ خریداری اور ذخیرہ کر سکے گی۔
پاکستان کی سخت معاشی حالت کو دیکھتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ترقیاتی پروگرامز ختم کرنا ہوں گے۔ بچنے والی رقم شاید بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام یا صوبے کے ماتحت چلنے والے پروگرامز کے ذریعے تقسیم کر دینی چاہیے اور ان پروگرامز کو جی ڈی پی کے ایک فیصد تک بڑھانا چاہیے۔ میری پسندیدہ اصلاح غریب بچوں کو نجی اسکولز میں تعلیم دلوانے کے لیے واؤچر فراہم کرنا ہے۔ سندھ اور پنجاب نے اس حوالے سے کامیاب پائلٹ پروگرامز بھی شروع کیے ہیں اور اب ان پروگرامز کو ملک بھر کے ��ریب بچوں تک رسائی دینی چاہیے ۔ طویل المدتی اقتصادی ترقی کے لیے شاید قانونی اصلاحات سے زیادہ اہم کچھ نہیں ہے کیونکہ ان کے نتیجے میں عدالتوں کی طرف سے بروقت اور متوقع فیصلے ہوں گے۔ اس سے حکومت کی زیادتیوں کو روکا جائے گا، غیر ملکی سرمایہ کاری میں سہولت ملے گی اور اشرافیہ کے مفادات کو عدالتی مقدمات کو اپنے فائدے کے لیے طول دینے سے منع کیا جائے گا۔ اختتام میں گورننس کا نظام بہتر بنانے کا سب سے مؤثر طریقہ بیوروکریٹس کی اہلیت کو بہتر بنانا ہے۔ اس حوالے سے عوامی خدمت کے شعبے میں اصلاحات لانی چاہئیں جن میں اسپیشلائزیشن، میرٹ پر ترقی اور ایسے عہدیداران کی ریٹائرمنٹ شامل ہونی چاہیے جو معیارات پر پورا نہ اترتے ہوں۔ اگر پاکستان کو دیگر ممالک سے مقابلہ کرنا ہے تو ہمیں اپنے لوگوں کو غربت سے نکالنا ہو گا، اس لیے یہ تمام اصلاحات انتہائی ضروری ہیں۔ بصورتِ دیگر ہم بحیثیت قوم یونہی بھٹکتے رہیں گے۔
مفتاح اسمٰعیل
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
Text
معاشی حالات، بجلی، گیس, خوراک کی بلند قیمتیں، مزید ایک کروڑ 25 لاکھ پاکستانی غربت کی کھائی میں گر گئے، ورلڈ بینک
عالمی بینک نے منگل کو جاری ہونے والی اپنی رپورٹ ‘پاکستان ڈویلپمنٹ اپڈیٹ:مالیاتی استحکام کی بحالی’ میں کہا کہ پاکستان کی حقیقی جی ڈی پی کی نمو مالی سال 24 میں 1.7 فیصد اور مالی سال 25 میں 2.4 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ رپورٹ کے مطابق سرمایہ کاری اور برآمدات میں کچھ بہتری کے ساتھ درمیانی مدت کے دوران معاشی نمو ممکنہ سے کم رہنے کی توقع ہے۔ ورلڈ بینک نے ایک بیان میں کہا، “تیز مالیاتی ایڈجسٹمنٹ اور وسیع…
View On WordPress
0 notes
Text
#PTI "عوام خاموش رہیںگے تو حکمران ظلم کرتے رہیں گے"
لاہور: پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے پیٹرولیم مصنوعات و گیس کی قیمتوں پر ہوشربا اضافے پر عوام سے باہر نکلنے کی اپیل کردی۔ تفصیلات کے مطابق اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ قیمتیں ایسے بڑھائی جارہی ہیں جیسےکوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، حکومت کو عوام کی کوئی فکرہی نہیں ان کا مقصد صرف آئی ایم ایف شرائط پوری کرنا ہے۔ فواد چوہدری نے کہا کہ جس قسم کی مہنگائی کردی گئی غریب تو…
View On WordPress
0 notes
Text
ایل این جی کی نئی قیمتیں مقرر
آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے گیس کمپنیوں کے لیے ایل این جی کی نئی قیمتیں جاری کر دیں۔ سوئی نادرن کے لیے ایل این جی 0٫61 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو سستی کی گئی ہے جس کے بعد سوئی نادرن کے سسٹم پرایل این جی کی نئی قیمت 13٫70 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کر دی گئی۔ سوئی سدرن کے لیے ایل این جی 0٫56 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو سستی کی گئی ہے۔ سوئی سدرن کےلئے ایل این جی کی نئی قیمت 13٫95 ڈالر…
View On WordPress
0 notes
Text
آئی ایم ایف سے معاہدہ: اگلے 12 سے 18 ماہ کتنے مشکل ہیں؟
پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے مابین نویں جائزہ مذاکرات اسلام آباد میں مکمل ہوچکے ہیں۔ آئی ایم ایف مشن نے پاکستان کو قرض پروگرام کی بحالی کے لیے چند پیشگی اقدامات کرنے کی شرائط رکھی ہیں۔ ان میں ایک مرتبہ پھر پاکستان کو بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے، ڈالر کا مارکیٹ ریٹ طے کرنے اور مستقل بنیادوں پر آمدن بڑھانے جیسی شرط رکھی ہیں۔ پاکستان کو 30 جون تک اپنی مالی ضروریات کو پورا کرنے…
View On WordPress
0 notes
Text
پی ٹی آئی کا کل سے مہنگائی کیخلاف ملک گیر تحریک شروع کرنے کا اعلان
پی ٹی آئی کا کل سے مہنگائی کیخلاف ملک گیر تحریک شروع کرنے کا اعلان
لاہور: پاکستان تحریک انصاف نے مہنگائی اور معاشی بدحالی کے خلاف کل سے ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کردیا۔ لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا ہک مہنگائی اور معیشت کی تباہی کے حوالے سے احتجاج کیا جائے گا، گھروں میں بجلی نہیں، گیس کی قلت ہے، تیل مہنگا ہورہا ہے، اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو پہنچ گئیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری یہ تحریک مختلف مراحل پر…
View On WordPress
0 notes
Text
آئی ایم ایف کا سستا قرض عوام کو کتنا مہنگا پڑنے والا ہے؟
عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی جانب سے 7 ارب ڈالر سستے قرض کی منظوری جلد عوام کو مہنگی پڑنے والی ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف نے قرض کی منظوری کے ساتھ حکومت سے ڈومور کا مطالبہ کرتے ہوئے گیس اور بجلی پر سبسڈی ختم کرنے اور قیمتیں بڑھانے کا مطالبہ کر دیا ہے جس کے بعد 7 ارب ڈالر سے معیشت کا سنبھلنا تو کجا عوام کو مہنگائی کے نئے طوفان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ خیال رہے کہ عالمی مالیاتی…
0 notes
Text
کیا گیس کی قیمتوں کے حوالے سے سخت اقدامات کا وقت آگیا ہے؟
پاکستان کیسے بحرانوں کی دلدل میں دھنسا جارہا ہے اس کی ایک اچھی مثال قدرتی گیس ہے۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی یہاں وافر گیس بھی دریافت ہوئی جبکہ ملک کے ابتدائی سرکاری اداروں میں 1950ء میں بننے والی پاکستان پیٹرولیم بھی شامل تھی۔ ایک ایسا ملک جس کے پاس اپنے قیام کے وقت توانائی کے بہت کم ذرائع تھے اور عملی طور پر توانائی کی پیداواری صلاحیت تک موجود نہ تھی، ایسے میں پاکستان نے مقامی گیس کی وافر مقدار کو اپنے لیے بڑی پیمانے پر ایک صنعت کی بنیاد بنایا درحقیقت بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان کی سب سے پرانی کھاد بنانے والی کمپنی اینگرو نے 1960ء کی دہائی کے اوائل میں اس وقت کام کرنا شروع کیا جب اس کی پیرنٹ کمپنی ایسو، تیل دریافت کرنے کی کوشش کررہی تھی اور اس نے حادثاتی طور پر مری فیلڈز میں گیس دریافت کر لی۔ اس وقت مری فیلڈز ریگستان میں دور کہیں موجود تھی۔ چونکہ ایسو تیل کی کمپنی تھی اس لیے گیس کی دریافت ان کے کسی کام کی نہیں تھی، لہٰذا انہوں نے گیس کے ان ذخائر کو کچھ سالوں تک ایسے ہی چھوڑ دیا۔ چند سال بعد کسی کو خیال آیا کہ اس گیس کا استعمال کر کے کھاد بنائی جاسکتی ہے بس اس کے لیے حکومت سے مناسب قیمت کے لیے بات چیت کرنی ہو گی کیونکہ کھاد کی قیمتیں مکمل طور پر حکومتی کنٹرول میں ہوتی ہیں۔
یہ 1960ء کی دہائی کے وسط کی بات ہے جب ایسو فرٹیلائزر کا قیام عمل میں آیا جو کہ شاید اس وقت پاکستان کی دوسری کھاد بنانے والی کمپنی تھی۔ اس کے بعد سے اور بھی دریافتیں ہوئیں، دیگر کھاد کی کمپنیاں بھی وجود میں آئیں جن میں بالخصوص ’فوجی فرٹیلائزر‘ نمایاں ہے جو 1970ء کی دہائی کے اختتام پر قائم ہوئی۔ پہلے تھرمل پاور پلانٹس بھی 1970ء کی دہائی میں قائم ہوئے جس کے ساتھ ��ی بڑے پیمانے پر پانی سے بجلی کی پیداوار کی صلاحیت بھی منگلا اور تربیلا ڈیم کی صورت میں سامنے آئی۔ یہ دونوں ڈیم 1960ء کی دہائی کے وسط سے 1970ء دہائی کے اواخر تک فعال ہوئے۔ اس سلسلے میں گڈو تھرمل پاور اسٹیشن سب سے بڑا اور پرانا پلانٹ تھا جس نے 1974ء میں کام کرنا شروع کیا، یہ مکمل طور پر قدرتی گیس پر چلتا تھا۔ یہ کندھ کوٹ میں واقع تھا جو کہ زیادہ آبادی والے تین شہروں کراچی، لاہور اور کوئٹہ سے قریب واقع تھا تاکہ یہ ان تینوں شہروں کو توانائی فراہم کر سکے۔ یہ پلانٹ اب بھی فعال ہے لیکن اس کے کمیشن ہونے کے بعد اس کے کچھ ٹربائنز کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔
1990ء کی دہائی تک پاکستان میں دنیا کے بڑے پائپ گیس ڈسٹری بیوشن انفراسٹرکچر میں سے ایک موجود تھا، اس وقت تک کھاد کی تیاری اور توانائی کی پیداوار کے علاوہ پاکستان کے گھریلو صارفین کو بھی بڑی مقدار میں قدرتی گیس فراہم کی جاتی تھی۔ اس دوران دیگر صنعتی دعوے دار بھی پیدا ہوئے جیسے سیمنٹ اور ٹیکسٹائل کے شعبے جہاں خاص طور پر پروسیسنگ میں بوائلرز کو چلانے کے لیے گیس کو بطور ایندھن استعمال کیا گیا۔ یوں اس ملک میں گیس نے بنیادی ایندھن کی حیثیت اختیار کر لی۔ یہ بات بظاہر حیران کُن لگے لیکن ملک میں قدرتی گیس کی وافر مقدار نے دراصل ہمیں تیل کی قیمتوں کے ان مختلف بحرانوں سے محفوظ رکھا جن کا ان دہائیوں میں عالمی معیشت کو سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان 1970ء اور 2000ء کے اواخر میں آنے والے تیل کے بحران کی لپیٹ میں نہیں آیا۔ یہاں یہ ذکر صرف اس بات کی نشاندہی کے لیے کیا گیا ہے کہ اگر ملک میں قدرتی گیس کی فراہمی نہ ہوتی تو ملک ان سے کہیں زیادہ متاثر ہوتا کیونکہ قدرتی گیس نے ان بحرانوں کے اثرات کو کافی حد تک کم کیا۔
1980ء کی دہائی کے اوائل سے ہی یہ آگہی لوگوں میں پھیلنا شروع ہو گئی تھی کہ ملک میں گیس کی قیمتیں تبدیل ہونے والی ہیں اگرچہ ملک میں کوئی بھی اس پر عمل درآمد کے لیے تیار نہیں تھا۔ آئی ایم ایف قیمتوں کے تعین میں اصلاحات پر زور دے رہا تھا لیکن جنرل ضیاالحق کی حکومت تعمیل پر راضی نہیں تھی۔ اس حوالے سے دلائل پیش کیے گئے کہ اس سے خوارک کے تحفظ پر اثرات مرتب ہوں گے جو کہ آج ہم دیکھ بھی رہے ہیں۔ 1980ء کی دہائی کے وسط میں یہ آگہی زور پکڑ گئی اور ایک ایسے کمیشن کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد پورے پاکستان میں قیمتوں کو کنٹرول کرنا تھا۔ اس کمیشن کی سربراہی آفتاب غلام نبی قاضی نے کی جو کہ اس وقت سینیئر سرکاری افسر اور غلام اسحٰق خان کے قریبی دوستوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ ان کی تعیناتی نے ظاہر کیا کہ حکومتِ وقت گیس کی قیمتوں کے حوالے سے اقدامات لینے کے لیے سنجیدہ ہے۔ کمیشن نے سب سے پہلے کھاد کی قیمتوں پر کام کیا جس کے بعد تیل، اور زرعی مصنوعات جیسے گندم اور کپاس پر بھی توجہ مرکوز کی۔
متعدد وجوہات کی بنا پر کمیشن کھاد کی قیمتوں کو ریگولیٹ نہیں کر پایا۔ مینو فیکچرز نے کہا کہ کھاد کی قیمت اس مطابق ہونی چاہیے جس پر نیا پلانٹ فعال ہو سکے۔ کمیشن نے دیکھا کہ کھاد کا براہِ راست تعلق گیس سے ہے اور غذائی اشیا کی قیمتوں پر بھی کھاد کی قیمت اثرانداز ہوتی ہے، تو گویا کھاد اہم ہے کیونکہ اس کے دیگر اشیا کی قیمتوں پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کھاد کی قیمتوں کو مکمل طور پر کنٹرول میں رکھا جاتا ہے۔ پھر ساتویں پانچ سالہ منصوبے میں یہ بات سر اٹھانے لگی کہ پاکستان کے گیس کے ذخائر ختم ہونے والے ہیں اور کوئی نئی دریافت بھی نہیں ہو رہی ہے اور نہ ہی ہونے کا امکان ہے۔ 1990ء کی دہائی کے اوائل میں پیش گوئیاں سامنے آئیں کہ پاکستان کے گیس فیلڈز 2008ء یا 2010ء کے قریب ممکنہ طور پر کمی کے دور میں داخل ہو جائیں گے۔ بنیادی طور پر گیس پر انحصار نہ کرنے والی صنعتوں کی تعداد دیکھتے ہوئے اور زراعت و خواراک کی پیداوار پر اس کے اثرات کی وجہ سے یہ تباہی کی پیش گوئی کے مترادف تھا۔
منصوبے میں خبردار کیا کہ اس تباہی سے بچنے کے لیے اقدامات لینا شروع کرنا ہوں گے۔ گیس کی دریافت کی کوششیں تیز کریں، کھپت کو کم کریں اور سب سے بڑھ کر قیمتوں میں اصلاحات لے کر آئیں۔ لیکن ان میں سے کوئی اقدامات نہیں لیے گئے۔ قیمتوں کا یہی نظام برقرار رہا۔ ایسی کوئی قابلِ ذکر دریافت نہیں ہوئی جوکہ ذخائر کم ہونے کی پیش گوئی کو غلط ثابت کر سکتی۔ کھپت کم کرنے کے بجائے 2000ء کی دہائی کے اوائل میں جنرل پرویز مشرف نے ایک نیا سیکٹر متعارف کروایا جہاں گھریلو گیس کو گاڑیوں کے ایندھن کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ اس کے فوراً بعد خاص طور پر ٹیکسٹائل کی صنعت میں کیپٹیو پاور بھی سامنے آئی۔ متوقع طور پر 2010ء سے قدرتی گیس کے ذخائر میں کمی آنا شروع ہوئی۔ 5 سال بعد 2015ء میں تاریخ میں پہلی بار پاکستان نے گیس کی درآمدات کا آغاز کیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ملک میں گیس کی کل طلب کا تقریباً حصہ درآمد کیا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی قیمتیں مکمل طور پر بین الاقوامی مارکیٹ کے مطابق ہوتی ہیں۔ تو اب ہم اس دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں ہمیں گیس کی قیمتوں کے حوالے سے سخت اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ سال ہم نے گیس کی قیمتوں میں ایک بڑا اضافہ دیکھا۔ رواں سال بھی کچھ ��یسا ہی ہوا۔ شاید اگلے سال اس سے زیادہ اضافہ ہو۔ جب آپ ایک مقام پر ٹھہرے رہتے ہیں اور اصلاحات لے کر نہیں آتے تو ہمیں ایسی ہی کسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
خرم حسین
یہ مضمون 21 دسمبر 2023ء کو ٖڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
Text
معیشت کی بربادی کا ذمے دار کون؟
1990 کی دہائی میں آئی پی پی نے پاکستان میں بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے سرمایہ کاری کرنے پیشکش کی، حکومت پاکستان نے جن شرائط پر معاہدہ کیا ان میں ایک شرط یہ بھی کہ حکومت پاکستان تیل خود خرید کر IPPs کو دے گی اور اس کی نرخ اس وقت کے ڈالر ریٹ پر فکس کر دی گئی۔ اس شرط کے مطابق عالمی منڈی میں تیل کی قیمت بڑھے یا زیادہ ہو جائے، حکومت پاکستان اس ہی مقررہ ڈالر ریٹ پر IPPs کو تیل فراہم کرنے کی پابند ہو گی۔ اس شرط کے تحت بڑھتی ہوئی تیل کی قیمت کا فرق حکومت پاکستان کو دینا ہو گا جب کہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کا فرق بھی حکومت پاکستان کو برداشت کرنا پڑے گا۔ ہمیں آئی پی پی سے بجلی چونکہ ڈالر میں خریدنی ہے اس لیے ان کے ہر یونٹ کی قیمت آج کے ڈالر ریٹ کے مطابق ادا کرنی ہے۔ اس شرط کے اثرات کیا ہیں، وہ اب طشت از بام ہو چکے ہیں۔ ہم اس شرط پر عمل کرتے کرتے ملکی معیشت اور عوام کی کمر توڑ چکے ہیں۔دوسری شرط کے مطابق آئی پی پیز کی پیدا کردہ بجلی کو حکومت روپے کے بجائے ڈالر میں خریدے گی۔ اس شرط کی بنا پر پاکستان کثیر زر مبادلہ آئی پی پیز کو ادا کر رہا ہے۔ اس معاہدے کی ایک اور شرط یہ ہے کہ حکومت پاکستان اگر بجلی کا ایک یونٹ بھی نہ خریدے گی تب بھی اسے ائی پی پیز کو مقررہ قیمت ڈالر میں ادا کرنی ہو گی۔ حکومت پاکستان یہ رقم بھی عوام سے بجلی کے بلوں میں ایڈجسٹمنٹ کی مد میں وصول کر رہی ہے۔
آپ ذرا غور تو کیجیے کہ پاکستان کے پالیسی میکرز نے کس بے دردی سے اپنی آنکھیں، کان اور دماغ بند کر کے اس معاہدے پر دستخط کر دیے، یہی نہیں بلکہ اس معاہدے کو بین الاقوامی قواعد کے تحت Sovereign Garrente بھی حاصل ہے۔اگر حکومت پاکستان یا پاکستانی عوام اس معاہدے پر عمل نہ کریں یا کسی بھی شق کی خلاف ورزی کریں گے تو بین الاقوامی قواعد کے مطابق انھیں جرمانہ یا حرجانہ بھی ادا کرنا ہو گا۔ 1990 سے اب تک برسراقتدار آنے والی تمام حکومتوں نے ان معاہدات میں ترمیم تک لانے کی کوئی عملی کوشش نہیں کی، یعنی ہر حکومت نے ذاتی مفادات کو ترجیح دی۔ 1990 سے لے کر اب تک ان معاہدات کو جاری رکھنے اور شرائط کو جوں کا توں رکھنے والوں کا احتساب ضرور ہونا چاہیے۔ مہنگی بجلی کا یہ ایک رخ ہے، دوسرا رخ بجلی چوری اور لائن لاسز ہے۔ ان نقصانات کی رقم بھی بجلی صارفین سے وصولی کی جارہی ہے۔ بجلی کی چوری کو روکنا یا بجلی کی ترسیل، ٹر��نسمیشن لائنوں کو درست رکھنا، وفاقی حکومت اور محکمہ بجلی کے افسروں اور اہلکاروں کی ذمے داری ہے، انھیں بھرتی ہی ان کاموں کے لیے کیا جاتا ہے اور انھی کاموں کے عوض انھیں قومی خزانے سے تنخواہیں، مفت بجلی اور دیگر سہولتیں اور مراعات دی جاتی ہیں۔
بجلی چوری روکنے کے نام پر چھاپے مارنا اور گرفتاریاں کرنا دکھاوئے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ 2013 میں کپیسٹی پیمنٹ 200 ارب روپے تھی جو اب دو ہزار ارب روپے ہو چکی ہے۔ ملک کی معیشت جس حالت میں ہے اس سے ہم سب بخوبی واقف ہیں ملک اگر دیوالیہ نہیں بھی ہوا تو بھی دیوالیے کی دہلیز پر کھڑا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی عوام دیوالیہ ہو چکے ہیں عوام نہ تو وہ اپنا کچن چلانے کے قابل ہیں نہ ہی بچوں کی تعلیم کے اخراجات پورے کر سکتے ہیں نہ ہی ڈاکٹر اور اسپتال کو فیس دے کر علاج کرا سکتے ہیں۔ ہر دو ہفتے بعد تیل کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بجلی اور گیس کی قمیت بھی بڑھائی جارہی ہے۔ عوام تو بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ ’’کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔ اس حوالے سے لکھنے کو تو بہت کچھ ہے میں آج کا کالم اس پر ہی ختم کرتے ہوئے اتنا ضرور کہوں گا کہ اس ملک کی معیشت اور عوام کے مفادات کے خلاف جتنے بھی اقدامات کیے کیے ہیں یہ سب فیصلے ہمارے حکمرانوں اور بیوروکریسی نے کیے ہیں۔
سرور منیر راؤ
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
چینی، دالوں اور گیس سلنڈر سمیت 20 اشیا کی قیمتیں بڑھ گئیں، مہنگائی کی شرح 24.39 فیصد ہوگئی، ادارہ شماریات
ہفتہ واربنیادوں پر مہنگائی میں 0.54 فیصد کا مزید اضافہ ہوگیا۔ سالانہ بنیادوں پرمہنگائی کی مجموعی شرح 24.39 فیصد ہوگئی۔۔ادارہ شماریات نے ہفتہ وارمہنگائی کے اعدادوشمارجاری کردیے۔۔ادارہ شماریات کے مطابق حالیہ ہفتے 20 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ حالیہ ہفتے 8 اشیا کی قیمتوں میں کمی اور23 کی قیمتوں میں استحکام رہا۔۔رپورٹ کے مطابق چینی 11 روپے 40 پیسے، گڑ5 روپے اوردال مسور5 فی…
View On WordPress
0 notes
Text
آئی ایم ایف سے معاہدہ: اگلے 12 سے 18 ماہ کتنے مشکل ہیں؟
پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے مابین نویں جائزہ مذاکرات اسلام آباد میں مکمل ہوچکے ہیں۔ آئی ایم ایف مشن نے پاکستان کو قرض پروگرام کی بحالی کے لیے چند پیشگی اقدامات کرنے کی شرائط رکھی ہیں۔ ان میں ایک مرتبہ پھر پاکستان کو بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے، ڈالر کا مارکیٹ ریٹ طے کرنے اور مستقل بنیادوں پر آمدن بڑھانے جیسی شرط رکھی ہیں۔ پاکستان کو 30 جون تک اپنی مالی ضروریات کو پورا کرنے…
View On WordPress
0 notes
Text
آئی ایم ایف سے معاہدہ: اگلے 12 سے 18 ماہ کتنے مشکل ہیں؟
پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے مابین نویں جائزہ مذاکرات اسلام آباد میں مکمل ہوچکے ہیں۔ آئی ایم ایف مشن نے پاکستان کو قرض پروگرام کی بحالی کے لیے چند پیشگی اقدامات کرنے کی شرائط رکھی ہیں۔ ان میں ایک مرتبہ پھر پاکستان کو بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے، ڈالر کا مارکیٹ ریٹ طے کرنے اور مستقل بنیادوں پر آمدن بڑھانے جیسی شرط رکھی ہیں۔ پاکستان کو 30 جون تک اپنی مالی ضروریات کو پورا کرنے…
View On WordPress
0 notes
Photo
اب نہ مزید ٹیکس لگیں گے اور نہ گیس و بجلی کی قیمتیں بڑھیں گی ،عوامی دبائو بڑھنے پر حکومت کا بھی پیچھے ہٹنے کا اعلان کراچی( آن لائن ) وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا ہے کہ وزیراعظم کا اصولی موقف ہے اب نہ مزید ٹیکس لگائے جائیں گے نہ گیس و بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ ملک میں سیاسی استحکام ہے اور اب معاشی استحکام آئے گا، ق لیگ اور ایم کیو ایم ہمارے بغیر اور ہم ان کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ نجی ٹی وی کے پروگرام میں اظہار خیا ل کر تے ہوئے انہوں نے کہا کہ جہانگیر ترین کا گندم اور چینی کے بحران میں کوئی کردار نہیں ہے۔
#اب#اعلان#اور#بجلی#بڑھنے#بڑھیں#بھی#پر#پیچھے#ٹیکس#حکومت#دبائو#عوامی#قیمتیں#کا#کی#گی#گیس#گے#لگیں#مزید#نہ#ہٹنے#و
0 notes
Text
امیرجماعت اسلامی کی 28اگست کو مکمل شٹرڈاؤن ہڑتال کی اپیل
بجلی کے زائد بلوں اور صرف 2ماہ کے ریلیف کیخلاف امیرجماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے تاجروں سے 28اگست کو مکمل شٹرڈاؤن ہڑتال کی اپیل کردی۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کا پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جماعت اسلامی بہت بڑی رابطہ عوام مہم چلا رہی ہے،حق دو عوام کو تحریک قومی ایجنڈا ہے۔بجلی کی قیمتیں تنخواہ دار طبقہ کو ریلیف گیس کے بلوں میں اضافہ و فیول ایڈجسٹمنٹ جیسے ٹیکسز کے خلاف…
0 notes