#کہوٹہ
Explore tagged Tumblr posts
Text
کہوٹہ سے راولپنڈی آنیوالی بس کھائی میں جا گری،29مسافرجاں بحق
کہوٹہ سے راولپنڈی آنیوالی بس کھائی میں جا گری،29مسافرجاں بحق ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق کہوٹہ سے راولپنڈی آنیوالی بس آزاد پتن گرادری پل کے قریب کھائی میں گری۔جاں بحق ہونے والوں میں 20 مرد، 4 خواتین اور 1 بچہ شامل ہے۔ زخمیوں کو اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔ پولیس حکام کا اس حوالے سے بتانا ہے کہ بس میں 30 افراد سوار تھے، حادثے میں جاں بحق اور زخمی ہونے والے تمام افراد کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے۔ پہاڑی…
0 notes
Text
اسلام آباد والوں کو کسی کا احساس نہیں، آصف زرداری
پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان کو برے حالات سے نکالیں گے، اسلام آباد والوں کو تو کسی کا احساس نہیں۔ کہوٹہ میں انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے کہا کہ راولپنڈی کہوٹہ میں ہر جگہ لوگ نکلے ہوئے ہیں،جئے بھٹو کے نعرے لگ رہے تھے،دل خوش ہوگیا،پہلا اعلان یہ کرتا ہوں کہ کہوٹہ کا راستہ بنائیں گے،کہوٹہ کے عوام جن تکالیف میں مبتلا ہیں ان کا احساس…
View On WordPress
0 notes
Text
چند اعلیٰ معلوماتی کتب : ڈاکٹر عبدالقدیر خان
لوگوں کی لاپروائی اور حکومت کی نااہلی سے کورونا وائرس خوب پھیل گیا ہے اور بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور عوام مرتے (شہید ہوتے) جا رہے ہیں۔ میرے خیال میں حکومت کی بہترین پالیسی یہ ہونا چاہئے کہ تمام ٹی وی چینلز سے احتیاطی تدابیر نشر کرتی رہے، جو ماسک نہ پہنے اس کو بند کر دیں لیکن کاروبار مکمل کھول دیا جائے۔ دکاندار بھی ماسک لگائیں اور دستانے پہن کر کام کریں۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی رحلت فرماتا ہے تو پھر یہ قدرت کا اپنے کام کی تکمیل ہے اور اللہ رب العزّت کے احکامات کی تعمیل ہے۔ ملک میں لاتعداد خود ساختہ ماہرین موجود ہیں جو ہدایات، احکامات دے رہے ہیں۔ جب افسران اور وزیراعظم ماسک نہ لگائیں تو عوام کیوں لگائیں گے۔ چلئے یہ باتیں چھوڑ کر چند اعلیٰ، معلوماتی کتب پر تبصرہ کرتے ہیں۔
1۔ پہلی کتاب ہے The Art of Craft of Management (انتظامیہ کیلئے ہنرمندی اور تدبیر)۔ اس کتاب کے مصنف مشہور بینکر جناب سراج الدین عزیز ہیں۔ یہ نہایت اعلیٰ بینکر اور منتظم رہے ہیں۔ بینکنگ کی دنیا میں آپ کا اعلیٰ مقام ہے۔ آپ دراز قد، چُست، خوبصورت شخصیت کے مالک ہیں۔ بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ آپ یورپین ہیں۔ آپ اعلیٰ مقرر ہیں اور حاضرین کو مسحور کر دیتے ہیں۔ ایک اعلیٰ بینکر کی حیثیت سے آپ نے افریقہ، یورپ، امارات، چین میں اعلیٰ خدمات انجام دی ہیں۔ آپ کی بہترین صلاحیتوں کے اعتراف کے طور پر ایک یونیورسٹی نے آپ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی ہے۔ خوش قسمتی سے میں اس کانوکیشن میں مہمانِ خصوصی تھا۔ یہ کتاب سراج بھائی کے جواہر پاروں سے پُر ہے۔ یہ ایک خوبصورت، خوشبودار پھولوں کے گلدستے کی طرح ہے، ایک خزینہ معلومات و ہدایات ہے۔
اس میں سراج بھائی نے اپنے تجربوں اور عقل و فہم کے موتی بکھیر دیے ہیں۔ کتاب میں 55 مضامین ہیں اور سب کے سب نہایت اعلیٰ اور ہدایت آمیز ہیں۔ جب تک آپ اس کتاب کا مطالعہ نہیں کریں گے آپ اس کی بہتری اور خوبصورتی کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ آپ خاموشی سے بیٹھ کر اس کا مطالعہ کریں اور ہر نصیحت و ہدایت کو یاد رکھیں۔ چند دن پیشتر 8 جون 2020ء کے روزنامہ دی نیوز میں سراج بھائی نے ایک نہایت اعلیٰ مضمون بعنوان ’کیوں ریٹائر ہو‘ لکھا تھا‘ میں نے اس کو نہایت شوق و دلچسپی سے پڑھا۔ یہ آرٹیکل ایک ہدایت نامہ ہے۔ سراج بھائی نے مثالوں سے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ تجربہ کار سمجھدار لوگوں کو انسٹھ، ساٹھ سال کی عمر میں ریٹائر نہیں کرنا چاہئے، اب مغربی ممالک میں بھی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھائی جا رہی ہے۔
میں بھی یہ عرض کروں گا کہ آپ ریکارڈ دیکھ لیں کہ نوبیل انعام یافتہ لوگوں کی عمر ساٹھ، ستر سال سے بھی اوپر رہی ہے۔ یعنی 60 سال اور اس کے بعد ہی انسان صحیح معنوں میں عقل و فہم کا ستارہ بنتا ہے۔ میں نے کہوٹہ میں اپنے رفقائے کار کو ستر، ستر برس تک روکے رکھا۔ مجھے اس معاملے میں حکومت کی جانب سے اختیار دیا گیا تھا۔ میں دوسرے اداروں سے ریٹائر ہونے والے اچھے، تجربہ کار لوگوں کو اپنے پاس بلا لیتا تھا، یہ افراد ہیرا تھے۔ یہ آرٹیکل حکومتی سربراہوں کے لئے نہایت مفید مشوروں سے پُر ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ سیاست دان، حکمران طبقہ اس وہم میں مبتلا رہتا ہے کہ تمام عقل و فہم اس کرسی میں ہے جس پر وہ بیٹھ جاتے ہیں اور وہ فوراً ان میں منتقل ہو جاتی ہے۔
2۔ دوسری کتاب انتہائی اہم اسلامی معلومات اور حیات رسولﷺ پر ہے جو پروفیسر ڈاکٹر طارق رمضان نے تحریر کی ہے۔ پروفیسر طارق رمضان ایک اعلیٰ دینی اسکالر ہیں، عربی، انگریزی پر عبور حاصل ہے۔ آپ نے جنیوا سے عربی اور اسلامک اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ بعد میں آپ نے جامعۃ الازہر میں خاصا وقت گزارا اور اسلام کی موشگافیوں سے شناسائی حاصل کی۔ بعد میں سوئٹزر لینڈ کی فرائی برگ یونیورسٹی میں درس دیا۔ بعد میں آپ کیمبرج یونیورسٹی کے سینٹ انٹونی کالج میں سینئر ریسرچ فیلو تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر طارق رمضان نے حیات رسولﷺ کے مختلف پہلوئوں پر بہت اچھے مضامین لکھے ہیں، یہ کتاب، مختصر سہی مگر بہت مفید ہے اور سیرت طیبہ پر ایک قیمتی اضافہ ہے۔ پروفیسر طارق رمضان ایک اعلیٰ تحریر داں ہیں اور آپ نے اسلام، سیرت طیبہ پر بہت سے مضامین لکھ کر اسلام کی اعلیٰ خدمت کی ہے۔ آپ کو ان کی تحریروں سے فوراً یہ یقین ہو جاتا ہے کہ آپ ہمارے پیارے رسولﷺ سے کس قدر محبت رکھتے ہیں۔ انہیں ایک امریکی یونیورسٹی سے پروفیسر شپ کا دعوت نامہ آیا تھا مگر آزادیٔ تقریر و تحریر کے علم برداروں نے ان کو ویزا نہیں دیا۔
3۔ تیسری کتاب ’’A bridged Biography of Prophet Muhammad‘‘ (ایک مختصر سوانح حیات رسولﷺ) ہے اس کو امام محمد ابن عبدالوہاب ال تمیمی نے تحریر کیا ہے اور یہ لاہور سے شائع کی گئی ہے۔ یہ نہایت اعلیٰ، مکمل مگر مختصر رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ پر کتاب ہے اور آپﷺ کی زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالتی ہے۔ چونکہ یہ کتاب آسان انگریزی میں نہایت آسان و موثر طریقے سے حیات طیبہ پر لکھی گئی ہے اس لئے یہ غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے لئے بہت اہم ہے وہاں وہ خود بھی پڑھ سکتے ہیں اور خاص طور پر بچوں کو بھی پڑھا سکتے ہیں۔ میرا مشورہ تو یہی ہے کہ ہر تارک وطن فیملی کے گھر میں یہ کتاب ہونی چاہئے اور بچوں کو پڑھانی چاہئے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes
·
View notes
Text
ڈاکٹر مبشر حسن، سیاست دان، مصنف اور ماہرمعاشیات ۔ کئی کتابیں بھی لکھیں
اگر ڈاکٹر مبشر حسن کو پاکستان کی سیاست کا بوڑھا برگد کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ ان سے پہلے نواب زادہ نصراللہ خان کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا۔ وہ پیشے کے اعتبار سے سول انجینئر تھے لیکن اس کے علاوہ وہ سیاست دان، مصنف اور ماہرمعاشیات بھی تھے۔ اس لحاظ سے انہیں کثیر الجہات شخصیت کہا جا سکتا ہے۔ 22 جنوری 1922ء کو پانی پت (بھارت) میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر مبشر حسن 1947ء میں پنجاب یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔ انہوں نے بی ایس سی سول انجینئرنگ کی اور پھر بعد میں امریکہ چلے گئے جہاں انہوں نے سول انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پاکستان (اس وقت مغربی پاکستان) واپس آنے کے بعد ڈاکٹر مبشر حسن انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے منسلک ہو گئے۔ 1965ء میں بھارت کے ساتھ جنگ کے بعد ان کا سیاسی فلسفہ منظر عام پر آیا۔ انہوں نے اپنا سیاسی منشور ''عوامی اتحاد کا اعلان‘‘ کے عنوان سے شائع کیا۔
انہوں نے مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) میں ڈیموکریٹک سوشلزم کی وکالت کی۔ ان کی مقبولیت کے پیش نظر ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں مغربی پاکستان بلوا لیا جہاں ڈاکٹر مبشر کے گھر 30 نومبر 1967ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ ان کے ساتھ جے اے رحیم، اور کئی دوسرے رہنما بھی موجود تھے۔ سائنس اور سیاست پر وسیع علم رکھنے کی وجہ سے ڈاکٹر مبشر بہت جلد ذوالفقار علی بھٹو کے معتمد ساتھی بن گئے۔ اس کے علاوہ زیڈ اے بھٹو نے انہیں اپنا مشیر بھی بنا لیا۔ 1971ء کی جنگ کے بعد مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو ڈاکٹر مبشر کو وزیرخزانہ بنا دیا گیا جنہوں نے 1972ء میں وزارت سائنس کے لیے بھٹو کی مدد کی۔ 1974ء میں ڈاکٹر مبشر حسن کے بھٹو کے ساتھ اختلافات پیدا ہو گئے جب بھٹو نے ملک معراج خالد کو وزارت قانون سے ہٹا دیا، جن کا تعلق بائیں بازو سے تھا۔ 1974ء میں ڈاکٹر مبشر حسن نے بطور وزیرخزانہ استعفیٰ دے دیا لیکن بھٹو کے ساتھ ان کی وفاداریاں قائم رہیں۔
سنہ1974ء میں ہی بھٹو نے انہیں وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا مشیر مقرر کر دیا۔ ڈائریکٹوریٹ آف سائنس کے ڈائریکٹر ہونے کی حیثیت سے ڈاکٹر مبشر نے ''کہوٹہ پراجیکٹ‘‘ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ 1977ء میں ڈاکٹر مبشر حسن نے پی این اے کے رہنماؤں کو ایک میز پر لانے کے لیے بہت کاوشیں کیں، جو ناکام ثابت ہوئیں۔ 1977ء میں جب جنرل ضیاالحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر خود ا��تدار سنبھالا تو ڈاکٹر مبشر حسن کو گرفتار کر لیا گیا۔ انہیں اڈیالہ جیل میں بھٹو کے ساتھ رکھا گیا جہاں انہوں نے سات سال گزارے۔ 1984ء میں جیل سے رہا ہونے کے بعد ڈاکٹر مبشر حسن دوبارہ انجینئرنگ یونیورسٹی سے منسلک ہو گئے۔ انہوں نے پاکستان کے معاشی مسائل پر کئی مضامین لکھے۔ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) گروپ میں شمولیت اختیار کر لی اور مرتضیٰ بھٹو کی حمایت کا اعلان کیا۔
وہ کئی برس پہلے عملی سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔ انہوں نے کئی کتابیں لکھیں جن میں ''شاہراہِ انقلاب، رزمِ زندگی اور پاکستان کے جعلی حکمران طبقے‘‘ بہت مقبول ہوئیں۔ انگریزی زبان میں بھی ان کی جن کتابوں کو پذیرائی ملی ان میں ''برڈز آف انڈس، میراج آف پاور، نیشنل یونٹی، کیا کیا جائے، اے ڈیکلریشن آف یونٹی آف پیپل‘‘ شامل ہیں۔ ڈاکٹر مبشر حسن نے 1988ء میں ''دوست‘‘ نامی تنظیم بنائی جس میں خاصی تعداد میں نوجوان شامل ہوئے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ عام لوگوں کو پاکستان کے حقیقی مسائل سے آگاہ کیا جائے اور انہیں زیادہ سے زیادہ سیاسی شعور دیا جائے۔ یہ تنظیم کچھ عرصہ فعال رہی لیکن پھر تحلیل ہو گئی۔ 1970ء کے عام انتخابات میں ڈاکٹر مبشر حسن بہت متحرک تھے۔ اس وقت لاہور میں قومی اسمبلی کی آٹھ نشستیں ہوا کرتی تھیں جو ساری پی پی پی نے جیت لیں۔
اس زمانے میں الیکشن لڑنا بہت سستا تھا۔ کروڑوں روپوں کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ پیپلز پارٹی کے کئی امیدواروں نے سائیکل پر اپنی انتخابی مہم چلائی اور کامیاب ہوئے۔ ڈاکٹر مبشر حسن نے باغبانپورہ کے علاقے میں قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور 85000 ووٹ حاصل کیے۔ ان کا مخالف امیدوار ذکاالرحمان صرف 10000 ووٹ حاصل کر سکا اور اس کی ضمانت ضبط ہو گئی۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اس وقت ''بھٹو لہر‘‘ تھی اور پی پی کا مقابلہ کرنا بہت مشکل تھا۔ ڈاکٹر مبشر حسن 1977ء میں پی پی پی کے سیکرٹری جنرل تھے۔ جب پی این اے کی تحریک عروج پر تھی تو انہوں نے اچانک اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اس پر انہیں کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ کہا گیا کہ انہوں نے مشکل وقت میں بھٹو صاحب کا ساتھ چھوڑ دیا۔ بہرحال انہوں نے کیوں استعفیٰ دیا اور اس وقت کیوں دیا، ابھی تک ایک معمہ ہے۔
پیپلز پارٹی کے بانی رکن اسلم گورداسپوری نے اپنی خودنوشت میں دعویٰ کیا ہے کہ ڈاکٹر مبشر حسن پیپلز پارٹی کے بنیادی رکن نہیں تھے۔ چند برس قبل روزنامہ ''دنیا‘‘ میگزین کو ایک انٹرویو میں بھی انہوں نے واشگاف الفاظ میں یہ کہا تھا۔ بہرحال پیپلز پارٹی کی طرف سے اس دعوے کی کبھی تردید نہیں کی گئی۔ جب ذوالفقار علی بھٹو پر قتل کا مقدمہ چل رہا تھا تو ڈاکٹر مبشر حسن ضیاالحق کے پاس گئے تھے اور انہیں کہا تھا کہ وہ بھٹو کو پھانسی نہ دیں۔ ڈاکٹر مبشر کے بقول ضیاالحق نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ بھٹو کو سزائے موت نہیں دی جائے گی لیکن بعد میں کیا ہوا یہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ ڈاکٹر مبشر حسن طویل عرصے سے بیمار تھے۔ 14 مارچ 2020ء کو فرشتہ اجل آن پہنچا اور وہ 98 برس کی عمر میں ��س جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔
عبدالحفیظ ظفر
بشکریہ دنیا نیوز
1 note
·
View note
Text
سکھ عورتوں کی عصمتوں کا امین ایک کنواں-حبیب گوہر
سکھ عورتوں کی عصمتوں کا امین ایک کنواں-حبیب گوہر
آخر خالصہ راج کرنے لگا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے جگہ جگہ نئی سکھ بستیاں بسائیں۔ انہی میں سے ایک کہوٹہ کے قریب تھوہا خالصہ تھی۔ بظاہر تھوہا چھوٹا سا گاؤں تھا لیکن اس کا رقبہ کافی بڑا تھا۔ زمیندارسکھ اور ہندو تھے، جب کہ کاشتکار مسلمان تھے۔ سکھ زیادہ تر سنار تھے۔ یہاں کا صرافہ بازار کشمیر تک مشہور تھا۔ خالصہ کے فروغ کے لیے جن مقامات کا انتخاب ہوا، تھوہا خالصہ ان میں سے ایک تھا۔ تھوہا میں ایک گردوارہ…
View On WordPress
0 notes
Text
ای سی پی نے پی پی 7 کے ضمنی انتخابات میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی تحریک انصاف کی درخواست مسترد کر دی۔
ای سی پی نے پی پی 7 کے ضمنی انتخابات میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی تحریک انصاف کی درخواست مسترد کر دی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی عمارت۔ – فیس بک اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے جمعرات کو کہوٹہ کے حلقہ پی پی 7 کے ضمنی انتخابات میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی تحریک انصاف کی درخواست مسترد کردی۔ ای سی پی نے کہا کہ اپیل کنندہ ضمنی انتخابات میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی وجوہات بتانے میں ناکام رہا ہے۔ اس سے قبل ای سی پی نے کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی…
View On WordPress
0 notes
Text
الیکشن کمیشن نے شہباز شریف کو کہوٹہ میں ڈیم کے افتتاح سے روک دیا
الیکشن کمیشن نے شہباز شریف کو کہوٹہ میں ڈیم کے افتتاح سے روک دیا
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابی ضابطہ اخلاق کے تحت وزیر اعظم شہباز شریف کو کہوٹہ میں ڈیم کے افتتاح سے روک دیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق شہباز شریف نے بدھ کو کہوٹہ میں ڈیم کا افتتاح کرنا تھا تاہم جس جگہ ڈیم واقع ہے وہ پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی سات کی حدود میں آتا ہے اور یہاں ضمنی انتخاب ہونے والا ہے۔ اسی لیے الیکشن کمیشن نے انتخابی ضابطہ اخلاق کے تحت وزیر اعظم کو ڈیم کا افتتاح کرنے سے روک…
View On WordPress
0 notes
Text
اسلام آباد میں یونیسیف عہدیدار اور 16سالہ لڑکی کا ریپ
اسلام آباد میں یونیسیف عہدیدار اور 16سالہ لڑکی کا ریپ
دارالحکومت اسلام آباد میں اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ (یونیسیف) کی ایک عہدیدار کو اس کے سیکیورٹی گارڈ نے مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا جبکہ کہوٹہ کے علاقے میں 16 سالہ لڑکی کا ریپ کیا گیا۔ پہلے واقعے میں سوئیڈن سے تعلق رکھنے والی یونیسیف کی عہدیدار نے آبپارہ پولیس سے رابطہ کیا تاکہ ان کی رہائش گاہ پر تعینات سیکیورٹی گارڈ کے خلاف شکایت درج کی جائے جس نے مبینہ طور پر ان کا ریپ کیا۔ پولیس کے…
View On WordPress
0 notes
Text
FWO نے دارالحکومت کا سہالہ فلائی اوور منصوبہ حاصل کر لیا۔
FWO نے دارالحکومت کا سہالہ فلائی اوور منصوبہ حاصل کر لیا۔
اسلام آباد: سٹی منیجرز نے نجی کمپنی سے معاہدہ ختم کرنے کے بعد سہالہ فلائی اوور کا منصوبہ فرنٹیئر ورک آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کو دے دیا۔ کہوٹہ روڈ پر فلائی اوور بنایا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ منگل کو سی ڈی اے نے ایف ڈبلیو او کے ساتھ اس سلسلے میں ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ گزشتہ سال سی ڈی اے نے 770 ملین روپے سے زائد مالیت کا یہ منصوبہ ایک نجی کمپنی کو دیا تھا، جس نے اسے ایک سال میں مکمل…
View On WordPress
0 notes
Text
مجوزہ آئینی ترمیم کے معاملے پرگورنر پنجاب کی وزیراعظم پر کڑی تنقید
گورنر پنجاب سردارسلیم حیدرنے آئینی ترمیم اورججز کی تعیناتی کےمعاملے پر وزیر اعظم کو شدید تنقید کانشانہ بناتےہوئےکہا ہے کہ شہباز شریف غریبوں کی مددکے بجائےججز کی توسیع میں مصروف ہیں۔ کہوٹہ یونیورسٹی میں عالمی لا��کانفرس سےخطاب گورنرپنجاب سردار سلیم حیدر خان نےکہا کہ جب ہم اپوزیشن میں ہوتےہیں تومیرٹ میرٹ چیختےہیں۔جبکہ جب عہدہ ملتا ہےتواُسےہی میرٹ سمجھتے ہیں جوہم کرناچاہتےہیں۔ سردار سلیم حیدر نےکہا…
0 notes
Text
وفاقی حکومت نے جاتے جاتے 1.06 کھرب کے منصوبوں کی منظوری دے دی
قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی ( ایکنک) نے جمعرات 1.06 کھرب کے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری دی ہے۔ اجلاس کی صدارت وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کی، وزیر تجارت سید نوید قمر، وزیراعظم کے معا��ن خصوصی فنانس طارق باجوہ، معاون خصوصی ریونیو طارق محمود پاشا، وفاقی سیکرٹریز اور دیگر اعلیٰ حکام شریک ہوئے۔ ایکنک نے وزارت مواصلات کے نظرثانی شدہ منصوبے ’ راولپنڈی کہوٹہ روڈ ( 28.4 کلومیٹر) دو رویہ کرنے، بشمول…
View On WordPress
0 notes
Text
راولپنڈی میں پولیس اہلکار کو فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا - اردو نیوز پیڈیا
راولپنڈی میں پولیس اہلکار کو فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین تھانہ کلر سیداں کے علاقے چنالی گاوں میں پولیس اہلکار کو فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق راولپنڈی کے علاقے چنالی کلرسیداں میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے پولیس اہلکار کو قتل کردیا، مقتول پولیس اہلکار بھاٹہ مندرہ کا رہائشی اور خدمت مرکز کلرسیداں تعینات ہونے کے باعث چنالی گاوں میں سسرال کے ساتھ ہی مقیم تھا۔ ڈی ایس پی کہوٹہ طاہر سکندر کے مطابق ابتدائی…
View On WordPress
0 notes
Text
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے حالات زندگی
پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے اور اس کا دفاع ناقابل تسخیر بنانے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا انتہائی اہم کردار تھا۔ مئی 1998 میں پاکستان نے بھارتی ایٹم بم کے تجربے کے بعد کامیاب تجربہ کیا۔ بلوچستان کے شہر چاغی کے پہاڑوں میں ہونے والے اس تجربے کی نگرانی ڈاکٹر قدیر خان نے ہی کی تھی۔ انہوں نے 150 سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ہیں۔
حالات زندگی یکم اپریل 1936 کو موجودہ بھارت کے شہر بھوپال میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان قیام پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان آگئے تھے اور انہوں نے کراچی میں سکونت اختیار کر لی تھی، انہوں نے 1960 میں کراچی یونیورسٹی سے میٹالرجی میں ڈگری حاصل کی، بعد ازاں وہ مزید تعلیم کے لیے یورپ چلے گئے، انہوں نے جرمنی اور ہالینڈ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے ہالینڈ سے ماسٹرز آف سائنس جبکہ بیلجیئم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی اسناد حاصل کیں۔ ڈاکٹر عبالقدیر خان 15 برس یورپ میں رہنے کے بعد سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی درخواست پر 1976 میں پاکستان واپس آئے، انہوں نے 31 مئی 1976 میں انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز میں شمولیت اختیار کی۔
بعد ازاں اسی ادارے کا نام یکم مئی 1981 کو جنرل ضیاءالحق نے ’ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز‘ رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز نے نہ صرف ایٹم بم بنایا بلکہ پاکستان کے لئے ایک ہزار کلومیٹر دور تک مار کرنے والے غوری میزائل سمیت کم اور درمیانی رینج تک مار کرنے والے متعدد میزائل تیار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ 14 اگست 1996 کو اس وقت کے صدر مملکت فاروق لغاری نے انہیں پاکستان کے سب سے بڑا سِول اعزاز نشانِ امتیاز سے نوازا، اس سے قبل انہیں 1989 میں ہلال امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان انتقال کر گئے
ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان انتقال کر گئے
اسلام آباد: ممتاز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان انتقال کر گئے ہیں۔ امید نیوز کے مطابق ممتاز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان 85 برس کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں، وہ کافی عرصے سے علیل تھے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان میں 26 اگست کو کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔ بعد ازاں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو تشویشناک حالت کے باعث کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری ہسپتال کے کوویڈ وارڈ میں داخل کردیا گیا۔ ان کے انتقال کی ت��دیق…
View On WordPress
0 notes
Text
عبد القدیر خان : پاکستانیوں کے ہیرو، مغرب کے لیے ولن
پاکستانی سائنس دان عبدالقدیر خان نے پاکستان کو جوہری طاقت بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اسی بنیاد پر انہیں پاکستان میں قومی ہیرو کا درجہ حاصل ہے تاہم مغرب انہیں ایٹمی راز اسمگل کرنے والا خطرناک شخص سمجھتا ہے۔ یکم اپریل سن 1936 کے روز بھارتی شہر بھوپال میں پیدا ہونے والے پاکستانی ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستان میں جوہری ہتھیاروں کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ پاکستانی عوام کے نزدیک وہ سن 1998 میں پاکستان کے کامیاب ایٹمی تجربے کے بعد اس حوالے سے بھارت کے ہم پلہ ہو جانے اور ملکی دفاع کو ’ناقابل تسخیر‘ بنانے کی وجہ سے قومی ہیرو ہیں۔
لیکن ایران، لیبیا اور شمالی کوریا کو غیر قانونی طور پر جوہری ٹیکنالوجی فراہم کرنے کے الزامات سامنے آنے کے بعد ان کی حیثیت بھی متنازع ہو گئی۔ انہوں نے سن 2004 میں غیر قانونی طور پر جوہری ٹیکنالوجی کی منتقلی کے جرم کا اعتراف بھی کیا جس کے بعد انہیں اسلام آباد ہی میں ان کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ فروری سن 2009 میں عدالتی حکم پر ان کی نظر بندی تو ختم کر دی گئی لیکن وہ اپنی نقل و حرکت کے بارے میں حکام کو مطلع کرنے کے پابند ہیں۔ خان ہمہ وقت سکیورٹی کے حصار میں رہتے ہیں۔
بھوپال سے اسلام آباد تک کا سفر بھارتی شہر بھوپال میں پیدا ہونے والے عبدالقدیر خان کا خاندان سن 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان منتقل ہو گیا۔ سن 1960 میں کراچی یونیورسٹی سے سائنس کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمن دارالحکومت برلن چلے آئے۔ بعد ازاں انہوں نے ہالینڈ اور بیلجیم میں بھی تعلیم حاصل کی۔ پاکستانی جوہری پروگرام کے لیے خان نے یورینیم سینٹریفیوجیز کے بلیو پرنٹ حاصل کیے تھے جو انہوں نے ہالینڈ میں قائم یرینکو نامی کمپنی میں کام کرتے ہوئے حاصل کیے تھے اور سن 1976 میں انہیں اپنے ساتھ پاکستان لے گئے تھے۔ اس جرم میں ہالینڈ میں ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ بھٹو سے مشرف تک پاکستان آمد کے بعد اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں یورینیم کی افزودگی کے منصوبے کا انچارج بنا دیا۔ اپنے ایک انٹرویو میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بتایا کہ ان کی ٹیم سن 1978 تک یورینیم کی افزودگی کر چکی تھی اور چھ برس بعد، یعنی سن 1984 میں پاکستان ایٹم بم کا تجربہ کرنے کے قابل ہو گیا تھا۔
زوال کا سفر مختلف وجوہات کی بنا پر پاکستان نے ایٹمی تجربہ کرنے سے گریز کیا اور آخر کار یہ کام سن 1998 میں مکمل ہوا جس کے بعد عبدالقدیر خان قومی ہیرو کے طور پر سامنے آئے۔ لیکن ان کا زوال اس وقت شروع ہوا جب سن 2001 میں امریکی دباؤ کے بعد پرویز مشرف نے انہیں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کی سربراہی سے ہٹا کر انہیں خصوصی مشیر بنا دیا۔ تاہم پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو بھی شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ ان کا ہیرو اس قدر متنازع بھی ہو جائے گا۔ اقوام متحدہ کے جوہری ہتھیاروں سے متعلق واچ ڈاگ نے اسلام آباد کو ایک خط ارسال کیا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ پاکستانی جوہری سائنس دانوں نے جوہری راز فروخت کیے ہیں۔ بعد ازاں خان نے سرکاری ٹی وی پر آ کر اس جرم کا اعتراف کیا۔ اعتراف جرم کے بعد جنرل مشرف نے ان کے لیے معافی کا اعلان کر دیا۔ تاہم بعد ازاں عبدالقدیر خان اس بیان سے مکر گئے۔ سن 2008 میں انہوں نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ’’میں نے پہلی مرتبہ پاکستان کو جوہری طاقت بنا کر بچایا اور دوسری مرتبہ میں نے تمام الزام اپنے سر لے کر ملک کو بچایا۔‘‘
’بے نظیر بھٹو کے حکم پر جوہری راز دیے‘
چھ برس قبل جولائی سن 2012 میں عبدالقدیر خان نے ’تحریک تحفظ پاکستان‘ نامی ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان کرتے ہوئی عملی سیاست میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ ان کی جماعت نے ملک بھر سے ایک سو گیارہ امیدوار نامزد کیے، جن میں سے کوئی بھی کامیاب نہ ہو پایا اور ایک سال بعد انہوں نے جماعت ختم کر دی۔ اسی برس انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ سابق پاکستانی وزیراعظم بینظیر بھٹو کی ہدایات پر انہوں نے دو ممالک کو ایٹمی راز مہیا کیے تھے تاہم انہوں نے ان ممالک کے نام نہیں بتائے۔ بھٹو کی جماعت نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران سامنے آنے والے متعدد تنازعات کے باجود عبدالقدیر خان کی عوامی مقبولیت میں بظاہر کوئی کمی نہیں آئی۔ آج بھی پاکستان میں کئی تعلیمی ادارے ان کے نام پر قائم ہیں اور ان کی تصاویر کتابوں اور اسٹیشنری پر چھاپی جاتی ہیں۔
ش ح/ع ق (اے ایف پی)
بشکریہ DW اردو
3 notes
·
View notes
Text
پہاڑی تودہ گرنے س 5خواتین جاں بحق
پہاڑی تودہ گرنے س 5خواتین جاں بحق
پہاڑی تودہ گرنے سے چشمہ سے پانی بھرنے کیلئے جانے والی 5خواتین تودے تلے دب کرجاں بحق ہوگئیں۔ واقعہ تھانہ کہوٹہ کے علاقہ نڑھ کے گاؤں دیہگل میں پیش آیا جان بحق ہونے والی خواتین میں گلفرین عمر 50 سال، نمرہ بی بی عمر30 سال، عائشہ جاوید21سال اور شبنم بی بی عمر42سال جبکہ زخمیوں میں ثوبیہ عمر 40سال، علیشہ عمر 17سال اور ایمان عمر14 سال شامل ہیں۔
View On WordPress
0 notes