#کھائی
Explore tagged Tumblr posts
Text
میر پور آزاد کشمیر میں مسافر وین کھائی میں جا گری 15 افراد شدید زخمی
(24 نیوز) میر پور آزاد کشمیر میں مسافر وین گہری کھائی میں جا گری جس سے 15 افراد شدید زخمی ہوگئے۔ حادثہ کھڑی شریف لکھا سنگا موڑ کے مقام پر پیش آیا،مسافر وین دربار شادی شہید سے کھڑی شریف دربار آرہی تھی کہ تیز رفتاری کے باعث کھائی میں گر گئی۔ وین میں ایک ہی خاندان کے مسافر سوار تھے جن کا تعلق سیالکوٹ سے تھا ،مقامی افراد اور انتظامیہ کی مدد سے زخمیوں کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ مزید پڑھیں:…
0 notes
Text
کہوٹہ سے راولپنڈی آنیوالی بس کھائی میں جا گری،29مسافرجاں بحق
کہوٹہ سے راولپنڈی آنیوالی بس کھائی میں جا گری،29مسافرجاں بحق ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق کہوٹہ سے راولپنڈی آنیوالی بس آزاد پتن گرادری پل کے قریب کھائی میں گری۔جاں بحق ہونے والوں میں 20 مرد، 4 خواتین اور 1 بچہ شا��ل ہے۔ زخمیوں کو اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔ پولیس حکام کا اس حوالے سے بتانا ہے کہ بس میں 30 افراد سوار تھے، حادثے میں جاں بحق اور زخمی ہونے والے تمام افراد کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے۔ پہاڑی…
0 notes
Text
تیری کھائی ہوئی میرے سر کی جُھوٹی قسمیں، مُجھے اکثر بیمار رکھتی ہیں۔
Teri khayi hui mere sar ki jhooti qasmein, mujhe aksar bimar rakhti hain...
96 notes
·
View notes
Text
Long time?¿
ضابطے محبت کے طے ہوئے تھے یوں جانا
روٹھنا منانا پر چھوڑ کر نہیں جانا
پھر یہ ہجر کیسا ہے پھر/ یہ کیسی دوری ہے
رابطہ نہ رکھو پر / واسطہ ضروری ہے
رابطے محبت کے / توڑ کر نہ جاؤ تم
مجھ کو یوں اکیلا پھر / چھوڑ کر نہ جاؤ تم
ضابطے محبت کے / طے ہوئے تھے یوں جاناں
ہم کو سب نبھانے ہیں / امتحاں محبت کے
لازوال ہوتے ہیں / سلسلے محبت کے
وہ قسم جو کھائی تھی / توڑ کر نہیں جانا
طے ہوا تھا یہ جاناں / روٹھنا منانا ، پ��
چھوڑ کر نہیں جانا
#urdu#urdupoetry#explore#poetry#deep qoute#love#urduthoughts#qoutes#urdu quote#unsaid#pakistani#urdu writes#writes#hindi shayari#instagram#urdu poet#my poetry#urdu love#urdu sad#sad poetry
8 notes
·
View notes
Text
وہ امریکہ اب نہیں رہا
امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان صدارتی انتخاب ایک حقیقت کے سامنے بے بس تھا اور وہ ہے اکیسویں صدی میں امریکہ کی مسلسل تنزلی۔ امریکہ نے اپنی قیادت، اعتماد، اخلاقی ساکھ اور اقتصادی برتری کھو دی ہے۔ 20 جنوری 2025 کو صدر ٹرمپ ایک ہی وقت میں امریکی گھمنڈ کے تازہ ترین علمبردار اور امریکی تنزلی کے جنازہ بردار کا حلف اٹھائیں گے۔ 1987 میں پال کینیڈی کی کتاب ’دی رائز اینڈ فال آف دی گریٹ پاورز‘ نے اس وقت تنازعہ کھڑا کیا جب اس نے ’امپیریل اوور سٹریچ‘ یعنی طاقت سے زیادہ غیر معمولی پھیلاؤ کو امریکی زوال کی ممکنہ وجہ قرار دیا۔ اس وقت امریکہ کی سب سے بڑی پریشانی کا باعث جاپان تھا، جو اپنی نمایاں دولت، جدید ٹیکنالوجی اورمعاشی انتظام کے نئے طریقوں کے ساتھ امریکہ کو چیلنج کر رہا تھا۔ 1989 کا اہم سال افغانستان سے سوویت یونین کی واپسی کے ساتھ شروع ہوا۔ فرانسیس فوکویاما نے اپنے مضمون ’دی اینڈ آف ہسٹری‘ میں لبرل جمہوریت اور سرمایہ داری کی تاریخ میں حتمی فتح کا اعلان کیا۔ دیوارِ برلن نومبر 1989 میں گری اور اس کے ساتھ ہی سوویت استبداد کا پردہ بھی گر گیا۔ امریکی فاتحین نے دعویٰ کیا کہ سوویت یونین نے ’اوور سٹریچ‘ کا شکار ہو کر شکست کھائی۔
سوویت یونین کی جانب سے 1990 میں جرمنی کے دوبارہ اتحاد پر اتفاق اور صدام حسین کے کویت پر حملے نے ’نیو ورلڈ آرڈر‘ کو جنم دیا۔ 1991 کا سال عراق میں امریکہ کی فتح سے شروع ہوا اور سوویت یونین کی تحلیل پر ختم ہوا۔ 1991 سے 2001 کا عشرہ امریکہ کے ہائپر پاور ہونے کا دور تھا۔ سوویت یونین کے بکھرنے، چین کی کمزوری اور انٹرنیٹ کے کمرشل استعمال میں آنے سے امریکہ نے ’غیر معمولی عظمت‘ کا لطف اٹھایا جیسا کہ ایڈورڈ گِبن نے اپنی کتاب ’دی ڈیکلائن اینڈ فال آف دی رومن ایمپائر‘ میں بیان کیا۔ امریکہ کے سامنے کوئی حریف نہیں تھا یوں لگتا تھا کہ 20ویں صدی کی طرح 21ویں صدی میں بھی امریکہ ہی مستقبل کی طاقت ہو گا۔ ستمبر 2001 کی ایک صبح، کئی سو سالوں سے موجود امریکی رجائیت اور اعتماد دہشت گردی کے سامنے ڈھیر ہو گئے اور ان کی جگہ تکبر اور تنگ نظر قومیت پرستی نے لے لی، جس کا اظہار امریکی ووٹروں نے ایک مرتبہ پھر ڈونلڈ ٹرمپ کو منتخب کر کے کیا ہے۔ 21ویں صدی کے پہلے عشرے میں دو جنگوں اور دو اقتصادی واقعات نے امریکی زوال کوتیز تر کیا۔
اس وقت کی واحد سُپر پاور نے افغانستان پرغیظ وغضب کے ساتھ اور عراق پر تکبر کے ساتھ حملہ کیا۔ امریکہ کو دونوں جنگوں میں شکست ہوئی۔ 2003 میں عراق پرامریکی حملہ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے سوویت یونین پر حملے کے بعد جنگی حکمت عملی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ افغانستان میں امریکہ کی شکست دہائیوں پر محیط، کئی کھرب ڈالر کی فوجی، تکنیکی، سٹریٹیجک اور سیاسی تباہی تھی۔ عراق اور افغانستان نے پروفیسر کینیڈی کے نظریے ’امپیریل اوور سٹریچ‘ کی تصدیق کر دی۔ 2000 میں چین کی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) میں شمولیت اور 2008 کے مالیاتی بحران نے امریکہ کو 9/11 سے زیادہ کمزور کیا۔ چین کی ڈبلیو ٹی او میں شمولیت نے امریکی صنعت کو کھوکھلا کر دیا۔ 2010 تک چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن چکا تھا۔ 2024 میں چینی معیشت جاپان، بھارت اور جرمنی کی مشترکہ معیشت سے بڑی ہو چکی ہے۔ 2008 کے مالیاتی بحران نے مغربی اقتصادی ترقی کو تقریباً دو دہائیوں کے لیے سست کر دیا اور نیولبرل جمہوریت اور اس کی اقتصادی شاخ، گلوبلائزیشن میں مغربی عوام کے اعتماد کو ہلا کر رکھ دیا۔
جب مغربی جمہوریتوں کے ووٹر جمہوریت پر سوال اٹھا رہے تھے، چین ہر سال نہیں بلکہ ہر دہائی میں معاشی ترقی کے جھنڈے گاڑ رہا تھا۔ امریکہ اور مغرب نے اشتراکیت کے خلاف سرد جنگ اس لیے نہیں جیتی کہ ان کے نظریات بہتر تھے، بلکہ اس لیے جیتی کہ وہ دہائیوں تک کمیونسٹ بلاک کے مقابلے میں زیادہ دولت مند اور تکنیکی طور پر جدیدیت کے حامل تھے۔ چینی معاشی کار��ردگی نے لبرل جمہوریت، اقتصادی ترقی اور تکنیکی جدت کے درمیان مغرب کا رشتہ کاٹ کر رکھ دیا ہے، کوئی تعجب نہیں کہ دنیا بھر میں ووٹر استبدادی عوامی قیادت کی طرف رجوع کر رہے ہیں، چاہے وہ انڈونیشیا ہو، بھارت ہو، ہنگری ہو، یا اب امریکہ ہو۔ امریکہ کی تنزلی کا آخری پہلو اخلاقی ہے جسے مورخ ایڈورڈ گِبن نے ’معاشرتی فضائل‘ کی کمی لکھا تھا۔ سیاہ فاموں کی غلامی سے لے کرعراق کی ابو غریب جیل میں انسانی حقوق کی پامالی تک، امریکی طرز عمل میں منافقت ہمیشہ موجود رہی ہے۔ تاہم سرد جنگ کے دوران، جب تک سوویت یونین اور اس کے اتحادی اپنے شہریوں کی آزادیوں کو دباتے، ان کے اقتصادی حقوق چھینتے اور ان کی غریبی میں اضافہ کرتے رہے اور اس کے برعکس امریکہ ضرورت مند ممالک کی مدد کرتا رہا، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملوں کی اخلاقی ہولناکی کو نظرا نداز کیا جاتا رہا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے نئے بین الاقوامی اداروں کی تخلیق اور قیادت کی جو جنگ کو روکنے اور غریب ممالک کی مدد کے لیے بنائے گئے تھے۔ اقوام متحدہ، آئی ایم ایف، نیٹو اور ورلڈ بینک اس کی اہم مثالیں ہیں۔ ان اداروں کے فوائد پر بحث ہو سکتی ہے۔ جو چیز بحث سے بالاتر ہے وہ یہ ہے کہ یہ ادارے امریکی اولیت کو مضبوط کرتے ہیں اور ساتھ ہی امریکہ کو دوسرے ملکوں کو اخلاقی بھاشن دینے کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ امریکہ اپنے حواری ملکوں کو کئی دہائیوں سے تحفظ فراہم کر رہا ہے، بین الاقوامی معاشی معاملات میں امریکہ نے ’قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام‘ کی تخلیق کی اور اس کا دفاع کیا۔ سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کو ایک اخلاقی جنگ میں تبدیل کیا، جس میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے بیانیے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ امریکہ کی تنزلی صرف افغانستان اور عراق میں ہی نظر نہیں آتی بلکہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ اس کی ابتدا 1971 میں سونے کے معیار کو زبردستی ترک کرنے سے ہوئی۔ 1973 میں اوپیک تیل کے بائیکاٹ سے اس تنزلی میں تیزی پیدا ہوئی جوکہ 1974 میں صدر نکسن کے استعفے اور 1975 میں ویت نام سے شرمناک انخلا سے تیز تر ہوئی۔
1970 کی دہائی میں امریکی تنزلی کا اثر امریکی شہروں میں واضح طور پر نظر آیا۔ معاشرتی طور پر 1995 میں اوکلاہوما پر بمباری، 2005 میں قطرینا طوفان اور کووڈ 19 کے دوران 12 لاکھ سے زیادہ امریکیوں کی ہلاکت نے اس تنزلی کو دنیا پر واضح کر دیا۔ آج دنیا کے مستقبل کا استعارہ امریکی شہر نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ اور مشرقی ایشیا کے شہر ہیں۔ امریکہ آج بھی دنیا میں فوجی اخراجات اور پوری دنیا میں فوجی طاقت کی موجودگی میں سب سے آگے ہے۔ امریکہ اپنے دفاع پر اگلے آٹھ ممالک سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔ دفاعی اعتبار سے امریکہ اب بھی واحد سپر پاور ہے۔ امریکی معیشت آج بھی دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، جس کی موجودہ سب سے بڑی طاقت انٹرنیٹ پر مبنی ہے۔ ہالی وڈ اور مقبول ثقافت کی نرم طاقت ابھی تک پُراثر ہے۔ امریکی ڈالر دنیا کی غالب کرنسی ہے اور امریکی استعمار کو قائم رکھنے میں طاقتور ہتھیار ہے۔ امریکہ زوال پذیر ہو رہا ہے، لیکن روم کی سلطنت کی طرح اس کا انہدام ابھی نظر نہیں آ رہا لیکن امریکی قوم کی سخاوت، کشا��گی اور روح کے وسیع پن کا انہدام ہو گیا ہے۔
امریکی سیاسی قیادت کا معیاراتنی تیزی سے گرا ہے جتنا کہ اس کی جمہوریت کا معیار، جس کی واضح مثال 6 جنوری 2021 کو امریکی کانگرس پر ہونے والا مسلح حملہ ہے۔ اکتوبر 2023 کے بعد امریکہ نے اپنی اخلاقی حیثیت کے آخری چیتھڑے بھی کھو دیے ہیں، جب اس نے وہ ہتھیار فراہم کیے جو غزہ میں 42 ہزار سے زائد بے گناہ، نہتے انسانوں اور بچوں کی جان لے چکے ہیں اور جب امریکہ نے انسانی حقوق کو ملیامیٹ کرنے والی نسل کشی، ظالمانہ بمباری، جبری بے دخلی اور سفاک قتل عام پر آنکھیں بند کر لیں۔ یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ امریکہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے کی صورت حال میں واپس جا رہا ہے، یعنی دنیا کی دوسری بڑی طاقتوں کے درمیان ایک طاقت، لیکن ہم نے پچھلی دہائیوں میں ایک کھلا، سخاوت سے بھرا اور خوش آمدید کہنے والا امریکہ بھی دیکھا ہے جو اپنی تمام خامیوں کے باوجود اپنے بنیادی جمہوری تصورات اور انسانی اصولوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ وہ امریکہ اب نہیں رہا۔
خرم دستگیر خان خرم دستگیر مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے خارجہ امور اور سابق وزیرِ دفاع رہ چکے ہیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
2 notes
·
View notes
Text
محبتوں کا سفر اس طرح بھی گزرا تھا
شکستہ دِل تھے مسافر، شکست کھائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا، جدائی نہ تھی
نصیر ترابی
Mohabbaton ka safar is tarha bhi guzra tha
Shikasta dil thy musafir, shikast khaai na thi
K dhoop chao'n ka aalam raha judaai na thi
Naseer Turabi
#pakistani aesthetics#urdu ashaar#urdu aesthetic#pakistani ost#humsafar#desi tumblr#desi larki#just desi things#desi academia#life of a desi girl#desi culture#desi#desi couple#desi core#urdu poetry#urdu quote#urdu shayari#urdu ghazal#urdu literature#urdupoetry#urdu stuff#urdu#اردو شعر#اردو ادب#اردو شاعری#اردو غزل#اردو#pakistan
21 notes
·
View notes
Text
شام ہو سویرا ہو، دھوپ ہو اندھیرا ہو
کھائی ہے قسم تیری یاد نے ستانے کی
ناہید ورک
4 notes
·
View notes
Text
فکر غربت ہے نہ اندیشۂ تنہائی ہے
زندگی کتنے حوادث سے گزر آئی ہے
لوگ جس حال میں مرنے کی دعا کرتے ہیں
میں نے اس حال میں جینے کی قسم کھائی ہے
ہم نہ سقراط نہ منصور نہ عیسیٰ لیکن
جو بھی قاتل ہے ہمارا ہی تمنائی ہے
زندگی اور ہیں کتنے ترے چہرے یہ بتا
تجھ سے اک عمر کی حالانکہ شناسائی ہے
کون ناواقف انجام تبسم ہے امیرؔ
میرے حالات پہ یہ کس کو ہنسی آئی ہے
fikr-e-ghurbat hai na andesha-e-tanhai hai
zindagi kitne havadis se guzar aai hai
log jis haal mein marne ki dua karte hain
main ne us haal mein jiine ki qasam khaai hai
ham na suqrat na mansur na iisa lekin
jo bhi qatil hai hamara hi tamannai hai
zindagi aur hain kitne tire chehre ye bata
tujh se ik umr ki halankeh shanasai hai
kaun na-vaqif-e-anjam-e-tabassum hai 'ameer'
mere halat pe ye kis ko hansi aai hai
.
Ameer Qazalbash
امیر قزلباش
#poetry#urdu poetry#urdu literature#iamusn#urdu post#urdu lines#urdu stuff#hindi shayari#stuff for you#urdu quote#urdu ghazal#hindipoetry#literature#urdu aesthetic#good poetry#english poetry
10 notes
·
View notes
Text
20+Motivational Qoutes In Urdu
Description
One of the great things about motivational quotes in Urdu is its potential to compel people to get involved and truly motivate their soul.
There are lively and figurative messages, which push us to overcome obstacles, have faith in ourselves and go for a win. Here are 20+Motivational Qoutes In Urdu for those people who want to find some meanings of their life or for those who want to get rid of stress easily. These Urdu quotes range from hope to determination, courage to optimism. Based on the wealth of the Urdu language they convey a message that touches readers’ soul, urging them to work through all the hardships in order to succeed.
No matter you are in search of some motivation when the going gets tough or a piece of advice to keep going when the path is hard, this collection has it all. The motivational sayings in Urdu to accept the thought that success starts with the correct attitude that one should adopt for at least twenty four hours a day.
These few locutions may be quite helpful in transformation to a better you, in your employability, and in winning your heart’s contentedness. These rousing quotes in Urdu are perfect to use in your day to day life or stuck at your work to remind yourself that you have the drive and the determination to succeed.
qoutesheaven
Do something Today That Your Future Self Will Thank You For
"جتنا مشکل چڑھنا، اتنا ہی بڑا نظارہ۔"
"اگر ٹھوکر کھائی تو اسے رقص کا حصہ بنا لو۔"
"کوشش آپ کو کبھی دھوکہ نہیں دیتی۔"
"سفر لمبا ہو سکتا ہے، لیکن ثواب اس کے قابل ہے۔"
"ہمت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ خوف محسوس نہیں کرتے؛ اس کا مطلب ہے کہ آپ اس کے باوجود کام کرتے ہیں۔"
"عظمت نہیں دی جاتی، یہ پسینے اور قربانی سے کمائی جاتی ہے۔"
"آپ کی کہانی ختم نہیں ہوئی؛ یہ صرف ایک باب ہے۔"
"آپ وہیں سے شروع کریں، جو آپ کے پاس ہے اسے استعمال کریں، جو آپ کر سکتے ہیں کریں"۔
"گھڑی کو مت دیکھو؛ جو کرتی ہے وہ کرو - چلتے رہو۔"
20+Heartfelt Love Quotes
"آپ کی مستقل مزاجی آپ کی کامیابی کا تعین کرتی ہے۔"
"بہترین دن کمانے کے لیے مشکل دنوں سے گزریں۔"
"ایک جنگجو بنو، پریشان نہیں."
"آپ کا مستقبل اس سے بنتا ہے جو آپ آج کرتے ہیں، کل نہیں۔"
"آپ آج جس جدوجہد میں ہیں وہ اس طاقت کو تیار کر رہی ہے جس کی آپ کو کل کے لیے ضرورت ہے۔"
"آپ باہر کھڑے ہونے کے لیے پیدا ہوئے ہیں، فٹ ہونے کے لیے نہیں۔"
Good night quotes
"کامیابی اس سے نہیں آتی جو آپ کبھی کبھار کرتے ہیں؛ یہ اس چیز سے آتی ہے جو آپ مستقل طور پر کرتے ہیں۔"
"اپنے مستقبل کی پیشن گوئی کرنے کا بہترین طریقہ اسے بنانا ہے۔"
"آپ کے خواب درست ہیں؛ کسی کو آپ کو دوسری صورت میں قائل نہ کرنے دیں۔"
"چھوٹی جیت کا جشن منائیں؛ وہ بڑی فتوحات کا باعث بنتے ہیں۔"
Conclusion
Presenting a list of 20+ motivational quotes in Urdu, this list provides upward mobility more than just motivation; a guideline. These quotes inspire confidence and getting out of comfort zones to gave the challenges into positives. In their aesthetic and philosophical ways, the Urdu quotes bring the message that only patience and perseverance can create success. Allow these inspiring words help you on your way to achievement.
More Qoutes:Top Wise Quotes to Inspire Deep Thinking
wise qoutes
0 notes
Photo
روزے کے آداب سوال ۴۳۴: جھوٹی گواہی سے کیا مراد ہے، کیا اس سے روزہ باطل ہو جاتا ہے؟ جواب :جھوٹی گواہی کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان ایسی چیز کے بارے میں گواہی دے جسے وہ جانتا ہی نہیں یا جسے جانتا ہے اس کے خلاف گواہی دے۔ اس سے روزہ باطل تو نہیں ہوتا لیکن اس کا اجر و ثواب ضرور کم ہو جاتا ہے۔ سوال ۴۳۵: روزے کے آداب کیا ہیں؟ جواب :روزے کے آداب میں سے ایک اہم ادب یہ ہے کہ احکام بجا لا کر اور ممنوع احکامات سے اجتناب کر کے اللہ عزوجل کے تقویٰ کو لازمی طورپر اختیار کیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ، ﴾ (البقرۃ: ۲۸۳) ’’اے مومنو! تم پر روزے رکھنے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو۔‘‘ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِہِ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃٌ فِی أَنْ یَدَعَ طَعَامَہُ وَشَرَابَہُ))( صحیح البخاری، الصیام، باب من لم یدع قول الزور والعمل بہ فی الصوم، ح: ۱۹۰۳۔) ’’جو شخص جھوٹی بات اور اس پر عمل کرنے کو ترک نہ کرے، تو اللہ کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘ ایک روایت میں جھوٹی بات ترک کرنے کے ساتھ جہالت کی باتیں ترک کرنے کا ذکر بھی ہے۔ ٭ روزے کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ کثرت کے ساتھ صدقہ، نیکی اور لوگوں کے ساتھ احسان کیا جائے خصوصاً رمضان میں۔ یوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے لیکن رمضان میں جب جبرئیل آپ کے ساتھ قرآن مجید کے دور کے لیے آتے تو آپ مجسم جو دو سخا ہوتے تھے۔ ٭ روزے کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ جھوٹ، گالی گلوچ، دغا وخیانت، حرام نظر اور حرام چیزوں کے ساتھ دل بہلانے سے اجتناب کیا جائے اور ان تمام محرمات کو بھی ترک کر دیا جائے جن سے اجتناب روزہ دار کے لیے واجب ہے۔ ٭ روزے کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ سحری کھائی جائے اور تاخیر کے ساتھ کھائی جائے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِی السَّحُورِ بَرَکَۃً))( صحیح البخاری، الصوم، باب برکۃ السحور، ح:۱۹۲۳وصحیح مسلم، الصیام، باب فضل السحور،ح:۱۰۹۵۔) ’’سحری کھاؤ کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔‘‘ ٭ روزے کے آداب میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ تر کھجور کے ساتھ روزہ افطار کیا جائے۔ تر کھجور میسر نہ ہو تو خشک کھجور کے ساتھ اور اگر خشک کھجور بھی موجود نہ ہو تو پھر پان�� کے ساتھ افطار کر لیا جائے۔ سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی یا جب ظن غالب ہو کہ سورج غروب ہوگیا ہے، تو فوراً روزہ افطار کر لینا چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((لَا یَزَالُ النَّاسُ بِخَیْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ))( صحیح البخاری، الصوم، باب تعجیل الافطار، ح:۱۹۵۷وصحیح مسلم، الصیام، باب فضل السحور،ح:۱۰۹۸۔) ’’لوگ ہمیشہ خیریت کے ساتھ رہیں گے جب تک جلد افطار کرتے رہیں گے۔‘‘ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۳۹۳، ۳۹۴ ) #FAI00351 ID: FAI00351 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
Link
0 notes
Text
افسوسناک خبر!گاڑی گہری کھائی میں جاگریہلاکتیں
(سفیر رضا) آزادکشمیر کی دارالحکومت مظفرآباد کے نواحی علاقے کیل گراں مجہوتر میں مسافر بردار گاڑی گہری کھائی میں گرنے سے 6 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔ تفصیلات کے مطابق تحصیل نصیر آباد کے نواحی علاقے کیل گراں مجہوتر میں مسافر بردار گاڑی کو ا��سوسناک حادثہ پیش آیا ،گاڑی گہری کھائی میں جا گری جس کے نتیجے میں 6افراد جاں بحق جبکہ 4 زخمی ہوئے ہیں،حادثے کی اطلاع ملتے ہی مقامی لوگوں نے امدادی…
0 notes
Text
گاجر صحت کیلئےانتہائی مفید قرار
ماہرین صحت کاکہنا نے گاجر کو صحت کیلئے انتہائی مفید قرار دیدیا۔ ماہرین کاکہنا ہے کہ ہفتے میں اگر 3بار گاجر کھائی جائے تو اس کے صحت پر انتہائی مفید اثرات مرتب ہوئے ہیں۔گاجر کے استعمال سے انسان خود کو دائمی امراض سے کافی حد تک محفوظ رکھ سکتا ہے اور جلد بھی توانا رہے گی ۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ گاجر کااستعمال جلد میں کیروٹینز نامی اینٹی آکسائیڈنٹس کی سطح پر اضافہ کرتا ہے ۔
0 notes
Text
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دریا کے کنارے ایک درخت پر ایک بندر رہتا تھا۔ بندر تنہا تھا کیونکہ اس کا کوئی دوست یا خاندان نہیں تھا لیکن وہ خوش اور مطمئن ��ھا۔ درخت نے اسے کھانے کے لیے کافی میٹھا جامن کا پھل دیا۔ اسے دھوپ سے سایہ بھی دیا اور بارش سے پناہ بھی۔ایک دن ایک مگرمچھ دریا میں تیر رہا تھا۔ وہ بندر کے درخت کے نیچے آرام کرنے کے لیے کنارے پر چڑھ گیا۔
'ہیلو،' بندر کو کہا جاتا ہے، ایک دوستانہ سلوک کرنے والا جانور۔ہیلو۔" مگرمچھ نے حیران ہو کر جواب دیا۔ 'کیا تم جانتے ہو کہ مجھے کھانا کہاں سے مل سکتا ہے؟' اس نے پوچھا. 'میں نے سارا دن کچھ نہیں کھایا اور مجھے بھوک لگی ہے۔'
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مگرمچھ بندر کو کھا جانا چاہے گا، لیکن یہ ایک بہت ہی شفیق اور شریف مگرمچھ تھا اور یہ خیال اس کے ذہن میں کبھی نہیں آیا۔
'میرے درخت پر بہت سے پھل ہیں۔ کیا آپ کچھ کھانا پسند کریں گے؟' بندر نے کہا، جو خود بہت مہربان تھا۔اس نے جامن کا کچھ پھل مگرمچھ کی طرف پھینک دیا۔ مگرمچھ اتنا بھوکا تھا کہ اس نے تمام جامن کھا لیا حالانکہ مگرمچھ عام طور پر پھل نہیں کھاتے۔ اسے میٹھا میٹھا پھل بہت پسند تھا اور گلابی گودا نے اس کی زبان کو جامنی کر دیا۔
جب مگرمچھ نے جتنا چاہا کھا لیا، توبندر نے کہا، 'جب بھی زیادہ پھل چاہو واپس آجاؤ۔'جلد ہی مگرمچھ ہر روز بندر کے پاس آتا تھا۔ دونوں جانور اچھے دوست بن گئے۔ وہ باتیں کرتے، ایک دوسرے کو کہانیاں سناتے اور بہت سے میٹھے جام ایک ساتھ کھاتے۔
ایک دن مگرمچھ نے بندر کو اپنی بیوی اور خاندان کے بارے میں بتایا۔
بندر نے کہا، 'آج واپسی پر اپنی بیوی کے لیے کچھ پھل لے آؤ'۔
مگرمچھ کی بیوی کو جام بہت پسند آیا۔ اس نے پہلے کبھی اتنی میٹھی چیز نہیں کھائی تھی لیکن وہ اپنے شوہر کی طرح مہربان اور شریف نہیں تھی۔اس نے اپنے شوہر سے کہا، 'تصور کیجیے کہ بندر جب یہ جام ہر روز کھائے گا تو اس کا ذائقہ کتنا میٹھا ہوگا'۔
مہربان مگرمچھ نے اپنی بیوی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ بندر کو نہیں کھا سکتا۔
'وہ میرا سب سے اچھا دوست ہے،' اس نے کہا۔
مگرمچھ کی لالچی بیوی نہیں سنتی۔ اپنے شوہر کو وہ کرنے کے لیے جو وہ چاہتی تھی، اس نے بیمار ہونے کا بہانہ کیا۔'میں مر رہا ہوں اور صرف ایک پیارے بندر کا دل ہی مجھے ٹھیک کر سکتا ہے!' اس نے اپنے شوہر کو بلایا۔ 'اگر تم مجھ سے محبت کرتے ہو تو تم اپنے دوست بندر کو پکڑو گے اور مجھے اس کا دل کھانے دو گے۔'
بیچارے مگرمچھ کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے۔ وہ اپنے دوست کو کھانا نہیں چاہتا تھا لیکن وہ اپنی بیوی کو مرنے نہیں دے سکتا تھا۔
آخر کار اس نے فیصلہ کیا کہ اسے کیا کرنا ہے اور اگلی بار جب وہ بندر کے پاس گیا تو اس نے اسے اپنی بیوی سے ملنے کو کہا کیونکہ اس نے ذاتی طور پر جامن کے خوبصورت پھل کا شکریہ ادا کیا۔ کرنا چاہتا تھا
بندر خوش تھا لیکن اس نے کہا کہ وہ نہیں جا سکتا کیونکہ وہ تیرنا نہیں جانتا تھا۔'اس کی فکر نہ کرو،' مگرمچھ نے کہا۔ 'میں تمہیں اپنی پیٹھ پر لے جاؤں گا۔'
بندر راضی ہوا اور مگرمچھ کی پیٹھ پر چھلانگ لگا دی۔
چنانچہ دونوں دوست گہری چوڑی دریا میں چلے گئے۔
جب وہ کنارے اور جامن کے درخت سے بہت دور پہنچے تو مگرمچھ نے کہا مجھے بہت افسوس ہے لیکن میری بیوی بہت بیمار ہے اور کہتی ہے کہ بندر کے دل کا علاج ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ مجھے آپ کو مارنا پڑے گا، حالانکہ میں ہماری بات چیت سے محروم رہوں گا۔'بندر نے جلدی سے سوچا اور کہا پیارے دوست مجھے تمہاری بیوی کی بیماری کا سن کر بہت افسوس ہوا۔ مجھے خوشی ہے کہ میں اس کی مدد کر سکتا ہوں لیکن میں نے اپنا دل جامن کے درخت میں چھوڑ دیا ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ ہم واپس جا سکتے ہیں تاکہ میں اسے حاصل کر سکوں؟'
مگرمچھ نے بندر کی بات مان لی۔ وہ مڑا اور تیزی سے تیر کر جامن کے درخت کی طرف گیا۔ بندر اپنی پیٹھ سے چھلانگ لگا کر اپنے درخت کی حفاظت پر چڑھ گیا۔
'میں نے سوچا کہ تم میرے دوست ہو،' اس نے پکارا۔ کیا تم نہیں جانتے کہ ہم اپنے دل کو اپنے اندر رکھتے ہیں؟ میں پھر کبھی آپ پر بھروسہ نہیں کروں گا اور نہ ہی آپ کو اپنے درخت کا پھل دوں گا۔ جا اور واپس نہ آنا۔'مگرمچھ کو بہت بے وقوف محسوس ہوا۔ اس نے ایک دوست اور اچھے میٹھے پھل کی فراہمی کھو دی تھی۔ بندر نے خود کو بچا لیا کیونکہ اس نے جلدی سے سوچا۔ اس دن سے اس نے پھر کبھی مگرمچھوں پر بھروسہ نہیں کیا۔
0 notes
Link
0 notes
Text
کے ٹو کا ڈیتھ زون جہاں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی
طبی ماہرین کے مطابق انسانی جسم سطح سمندر سے 2100 میٹر تک کی بُلندی پر رہنے کے لیے بنا ہے۔ اور اس سے زیادہ بلندی پر انسانی جسم میں آکسیجن کی سچوریشن تیزی سے کم ہونا شروع ہو جاتی ہے اور جسم میں منفی اثرات رونما ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اونچے پہاڑوں پر جانے سے قبل کوہ پیما کئی ہفتوں تک ’ایکلیماٹائزیشن یعنی جسم کو ماحول کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کا عمل کرتے ہیں تاکہ ان کا دماغ آکسیجن کی سپلائی کے مطابق آہستہ آہستہ ماحول کے حساب سے کام کرنے لگے۔ کوہ پیمائی کے ماہرین کے مطابق کے ٹو پر عموماً کیمپ ون (6000 میٹر کی بلندی) کے بعد کوہ پیما خطرناک زون میں داخل ہو جاتے ہیں اور ان میں آکسیجن کی کمی کے منفی اثرات بھی نمُودار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ کئی کوہ پیما ہائی ایلٹیٹیوٹ پلمونرئی انیڈما یا ہائی ایلٹیٹیوٹ سیریبل انیڈما کا شکار ہو جاتے ہیں جو زیادہ تر اموات کی وجہ بنتا ہے۔
آکسیجن کی کمی کے ساتھ ، نبض تیز ہو جاتی ہے، خون گاڑھا ہو کر جمنے لگتا ہے اور فالج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ زیادہ خراب حالت میں کوہ پیماؤں کے پھیپھڑوں میں پانی بھر جاتا ہے اور وہ ہائی ایلٹیٹیوٹ سیریبل انیڈما کا شکار ہو سکتے ہیں۔ انھیں خون کے ساتھ یا اس کے بغیر کھانسی آنے لگتی ہے اور ان کا نظام تنفس بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں بیشتر کوہ پیماؤں کا دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، انھیں عجیب ہذیانی خیالات آتے ہیں اور وہ پھر وہی کرتے ہیں جو ’ایورسٹ‘ فلم میں اینڈی ہیرس نے کیا۔ سطح سمندر سے 8611 میٹر کی بلندی پر واقع کے ٹو کا ’بوٹل نیک‘ کے نام سے مشہور مقام تقریباً 8000 میٹر سے شروع ہوتا ہے اور کوہ پیماؤں کی اصطلاح میں اسے ’ڈیتھ زون‘ یا موت کی گھاٹی کہا جاتا ہے جہاں بقا کے چیلنجوں میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔
یہاں کوہ پیماؤں کو جان لیوا قدرتی موسم کے ساتھ نبردآزما ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے جسم کے اندر بھی ایک لڑائی لڑنا پڑتی ہے۔ ڈیتھ زون میں جہاں ایک غلط قدم کا مطلب سیدھا ہزاروں فٹ گہری کھائی یا گلیشیر میں گر کر موت کو گلے لگانے کے مترادف ہے وہیں اس اونچائی پر آکسیجن کی مزید کمی سے سنگین اثرات رونما ہوتے ہیں اور انسانی دماغ کا جسم پر کنٹرول ختم ہو جاتا ہے اور جسم مفلوج ہو جاتا ہے۔ ڈیتھ زون میں انسانوں کو سانس لینے کے لیے درکار آکسیجن کی کمی سے جہاں اونچائی پر لاحق ہونے والی بیماری کے امکانات بڑھ جاتے ہیں وہیں اتنی بلندی پر تیز ہوائیں بھی کوہ پیماؤں کے لیے جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔ یہاں پر انتہائی کم درجہ حرارت بھی جسم کے کسی بھی حصے میں فراسٹ بائٹ کا باعث بن سکتا ہے۔ اتنی بلندی پر انسانی جسم کو پیش آنے والے طبی مسائل کے حوالے سے کی گئی تحقیق کے مطابق یہاں تک چڑھنے والے کوہ پیما سیریبرل اینڈیما، ریٹنا ہیمرج، شدید سر درد، متلی، بد نظمی، ہیلوسینیشن یا نظر کا دھوکا وغیرہ جیسے طبی حالات سے بھی دوچار ہو سکتے ہیں۔
ڈیتھ زون میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور یہاں آپ مخصوص وقت سے زیادہ نہیں گزار سکتے ہیں اور یہاں نیند یا زیادہ دیر رکنے کا مطلب موت ہے۔ اسی لیے کیمپ فور میں پہنچنے والے کوہ پیما سوتے نہیں۔ بس کچھ دیر سستا کر سمٹ کرنے یا چوٹی پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور تقریباً 16 سے 18 گھنٹوں کے دورانیے میں چوٹی سر کرکے ڈیتھ زون سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو کوہ پیما ڈیتھ زون میں زیادہ سے زیادہ کتنے گھنٹوں تک زندہ رہ سکتے ہیں؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے: 16 سے 20 گھنٹے۔ کوہ پیماؤں کو خصوصی ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ ڈیتھ زون میں اس سے زیادہ وقت ہرگز نہ گزاریں۔
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes