Tumgik
#کس کس نے ملاقات
googlynewstv · 2 months
Text
عمران خان سے جیل میں کس کس نے ملاقات کی ؟تفصیلات جاری
 بانی پی ٹی آئی عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کرنیوالوں کی تفصیلات سامنے آگئیں۔  جیل حکام کے مطابق بانی پی ٹی آئی عمران خان نے ستمبر 2023 سے جولائی 2024 تک کل 1635 افراد سے ملاقاتیں کی۔بانی پی ٹی آئی عمران خان سے کمرہ ملاقات میں 454 ملاقاتیں ہوئی۔ملاقاتوں میں 88 وکلاء، 223 سیاسی دوست، 119 فیملی اور 14  اسپیشل ڈاکٹر شامل ہیں۔راولپنڈی عدالت میں بانی پی ٹی آئی سے 1181 ملاقاتیں ہوئیں،جن میں…
0 notes
urdu-poetry-lover · 1 year
Text
عشق میں غیرتِ جذبات نے رونے نہ دیا
ورنہ کیا بات تھی کس بات نے رونے نہ دیا
آپ کہتے تھے کہ رونے سے نہ بدلیں گے نصیب
عمر بھر آپ کی اس بات نے رونے نہ دیا
رونے والوں سے کہو ان کا بھی رونا رو لیں
جن کو مجبوریِ حالات نے رونے نہ دیا
تجھ سے مل کر ہمیں رونا تھا بہت رونا تھا
تنگیِ وقت ملاقات نے رونے نہ دیا
ایک دو روز کا صدمہ ہو تو رو لیں فاکرٓ
ہم کو ہر روز کے صدمات نے رونے نہ دیا
سدرشن فاکرٓ
13 notes · View notes
pakistanpolitics · 2 years
Text
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
’’ مجھے بھی پتا ہے اور تم بھی جانتے ہو کہ مجھے قتل کر دیا جائے گا۔ تم اس واقعہ کی مذمت کرو گے، تحقیقات کا اعلان کرو گے مگر ہم دونوں جانتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا کہ یہ قتل تمہاری ناک کے نیچے ہی ہو گا۔ بس مجھے فخر ہے کہ میں نے سچ کے راستے کو نہیں چھوڑا۔‘‘ یہ طاقتور تحریر آج سے کئی سال پہلے جنوری 2009 میں سری لنکا کے ایک صحافی LASANTA WICKRAMATUNGA نے اخبار‘دی سنڈے لیڈر، میں اپنے قتل سے دو دن پہلے تحریر کی۔ بس وہ یہ لکھ کر دفتر سے باہر نکلا تو کچھ فاصلے پر قتل کر دیا گیا۔ اس کی یہ تحریر میں نے اکثر صحافیوں کے قتل یا حملوں کے وقت کے لیے محفوظ کی ہوئی ہے۔ اس نے اپنے اداریہ میں اس وقت کے صدر کو جن سے اس کے طالبعلمی کے زمانے سے روابط تھے مخاطب کرتے ہوئے نہ صرف وہ پرانی باتیں یاد دلائیں جن کے لیے ان دونوں نے ساتھ جدوجہد کی بلکہ یہ بھی کہہ ڈالا،’’ میں تو آج بھی وہیں کھڑا ہوں البتہ تم آج اس مسند پر بیٹھ کر وہ بھول گئے ہو جس کے خلاف ہم دونوں نے ایک زمانے میں مل کر آواز اٹھائی تھی‘‘۔ 
مجھے ایک بار انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کی طرف سے سری لنکا جانے کا اتفاق ہوا جہاں وہ صحافیوں کو درپیش خطرات پر تحقیق کر رہے تھے۔ یہ غالباً 2009-10 کی بات ہے وہاں کے حالات بہت خراب تھے۔ بہت سے صحافی ہمارے سامنے آکر بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔ کئی نے نامعلوم مقامات سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں کس قسم کے خطرات کا سامنا ہے۔ کچھ ملک چھوڑ کر جا چکے تھے۔ سینئر صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف کے کینیا کے شہر نیروبی میں قتل کی خبر آئی تو میری طرح بہت سے صحافیوں کے لیے یہ خبر نہ صرف شدید صدمہ کا باعث تھی بلکہ ناقابل یقین تھی۔ واقعہ کو مختلف رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اب حقیقت کیا ہےاس کا تو خیر پتا چل ہی جائے گا ۔ سوال یہ ہے کہ ایک صحافی کو ملک کیوں چھوڑ کر جانا پڑا؟ اس کی تحریر یا خیالات سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر کیا کسی کو اس کے خیالات اور نظریات پر قتل کرنا جائز ہے۔ ہم صحافی تو بس اتنا جانتے ہیں کہ ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا۔
ارشد نہ پہلا صحافی ہے جو شہید ہوا نہ آخری کیونکہ یہ تو شعبہ ہی خطرات کی طرف لے جاتا ہے۔ ایک صحافی کا قتل دوسرے صحافی کے لیے پیغام ہوتا ہے اور پھر ہوتا بھی یوں ہے کہ بات ایک قتل پر آکر نہیں رکتی، ورنہ پاکستان دنیا کے تین سب سے خطرناک ممالک کی فہرست میں شامل نہ ہوتا جہاں صحافت خطرات سے خالی نہیں جب کہ انتہائی مشکل ہے مگر مجھے نہیں یاد پڑتا کہ اس سے پہلے کبھی کسی پاکستانی صحافی کا قتل ملک سے باہر ہوا ہو۔ ویسے تو پچھلے چند سال سے انسانی حقوق کے کچھ لوگوں کے حوالے سے یا باہر پناہ لینے والے افراد کے حوالے سے خبریں آئیں ان کے نا معلوم افراد کے ہاتھوں قتل یا پراسرار موت کی، مگر ارشد غالباً پہلا صحافی ہے جو اپنے کام کی وجہ سے ملک سے باہر گیا اور شہید کر دیا گیا۔ ہمارا ریکارڈ اس حوالے سے بھی انتہائی خراب ہے جہاں نہ قاتل پکڑے جاتے ہیں نہ ان کو سزا ہوتی ہے۔ اکثر مقدمات تو ٹرائل کورٹ تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ تحقیقاتی کمیشن بن بھی جائے تو کیا۔ 
میں نے اس شہر میں اپنے کئی صحافیوں کے قتل کے و��قعات کی فائل بند ہوتے دیکھی ہے۔ 1989 سے لے کر2022 تک 130 سے زائد صحافیوں کا قتل کراچی تا خیبر ہوا مگر تین سے چار کیسوں کے علاوہ نہ کوئی پکڑا گیا نہ ٹرائل ہوا۔ مجھے آج بھی کاوش اخبار کے منیر سانگی جسے کئی سال پہلے لاڑکانہ میں با اثر افراد نے قتل کر دیا تھا کی بیوہ کی بے بسی یاد ہے جب وہ سپریم کورٹ کے باہر کئی سال کی جدوجہد اور انصاف نہ ملنے پر پورے کیس کی فائلیں جلانے پہنچ گئی تھی۔ میری درخواست پر اس نے یہ کام نہیں کیا مگر میں کر بھی کیا سکتا تھا اس وقت کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار سے درخواست کے سوا، مگر اسے انصاف نہ ملنا تھا نہ ملا۔ ہمارے ایک ساتھی حیات اللہ کی ہاتھ بندھی لاش اس کے اغوا کے پانچ ماہ بعد 2005 میں ملی تو کیا ہوا۔ پشاور ہائی کورٹ کے ایک جج صاحب کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بنا۔ 
اس کی بیوہ نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کمیشن کے سامنے بیان دیا اور ان لوگوں کے بارے میں بتایا جواس کو اٹھا کر لے گئے تھے۔ کچھ عرصہ بعد خبر آئی کہ وہ بھی مار دی گئی۔ میں نے دو وزرائے داخلہ رحمان ملک مرحوم اور چوہدری نثار علی خان سے ان کے ادوار میں کئی بار ذاتی طور پر ملاقات کر کے درخواست کی کہ کمیشن کی رپورٹ اگر منظر عام پر نہیں لاسکتے تو کم ازکم شیئر تو کریں مگر وہ فائل نہ مل سکی۔ صحافی سلیم شہزاد کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ایک نجی چینل پر پروگرام کرنے گیا تھا واپس نہیں آیا۔ یہ واقعہ اسلام آباد کے قریب پیش آیا۔ صبح سویرے اس کی بیوہ نے مجھے فون کر کے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ مجھ سے تو کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ اس پر بھی ایک عدالتی کمیشن بنا اس نے ایک مفصل رپورٹ بھی تیار کی اور ٹھوس تجاویز بھی دیں مگر بات اس سے آگے نہیں گئی۔ ایسے ان گنت واقعات ہیں کس کس کا ذکر کروں مگر صحافت کا سفر جاری رکھنا ہے۔ ناظم جوکھیو مارا گیا مگر قاتل با اثر تھے سیاسی سرپرستی میں بچ گئے بیوہ کو انصاف کیا ملتا دبائو میں ایک غریب کہاں تک لڑ سکتا ہے۔
ہر دور حکومت میں ہی صحافی اغوا بھی ہوئے، اٹھائے بھی گئے دھمکیاں بھی ملیںاور گمشدہ ہوئے پھر کچھ قتل بھی ہوئے سب کو ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ نامعلوم کون ہیں پھر بھی حکمران اپنی حکومت بچانے کی خاطر یا تو بعض روایتی جملے ادا کرتے ہیں یا خود بھی حصہ دار نکلتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں محترمہ شیریں مزاری کی کاوشوں سے ایک جرنلسٹ پروٹیکشن بل منظور ہوا تھا۔ ایسا ہی سندھ اسمبلی نے بھی قانون بنایا ہے۔ اب اسلام آباد کمیشن کے سامنے ارشد شریف کا کیس ایک ٹیسٹ کیس ہے جبکہ سندھ کمیشن کے قیام کا فیصلہ بھی فوری اعلان کا منتظر ہے۔ اتنے برسوں میں صحافیوں کے بہت جنازے اٹھا لیے ، حکومتوں اور ریاست کے وعدے اور کمیشن بھی دیکھ لیے۔ انصاف کا ترازو بھی دیکھ لیا، اب صرف اتنا کہنا ہے؎
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے   مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ  
2 notes · View notes
asliahlesunnet · 3 months
Photo
Tumblr media
آخرت کا منکر کافر ہے سوال ۵۰: جو شخص آخرت کی زندگی کا انکار کرے اور کہے کہ یہ قرون وسطیٰ کی خرافات میں سے ہے، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آخرت کی زندگی کا انکار کرنے والے لوگوں کو کس طرح قائل کیا جا سکتا ہے؟ جواب :جو شخص آخرت کی زندگی کا انکار کرے اور اسے قرون وسطیٰ کی خرافات میں سمجھے، وہ کافر ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ قَالُوْٓا اِنْ ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَ مَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ، وَ لَوْ تَرٰٓی اِذْ وُقِفُوْا عَلٰی رَبِّہِمْ قَالَ اَلَیْسَ ہٰذَا بِالْحَقِّ قَالُوْا بَلٰی وَ رَبِّنَا قَالَ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ، ﴾ (الانعام: ۲۹۔۳۰) ’’اور وہ کہتے ہیں کہ ہماری جو دنیا کی زندگی ہے بس یہی (زندگی) ہے اور ہم (مرنے کے بعد) پھر زندہ نہیں کیے جائیں گے۔ اور کاش تم (ان کو اس وقت) دیکھو جب وہ اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے اور وہ فرمائے گا: کیا یہ (دوبارہ زندہ ہونا) برحق نہیں؟ تو وہ کہیں گے: کیوں نہیں! ہمارے پروردگار کی قسم! (بالکل برحق ہے) اللہ فرمائے گا: اب تم اس کفر کے بدلے (جو دنیا میں کرتے تھے) عذاب کے مزے چکھو۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ، الَّذِیْنَ یُکَذِّبُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ، وَمَا یُکَذِّبُ بِہٖ اِلَّا کُلُّ مُعْتَدٍ اَثِیْمٍ، اِذَا تُتْلَی عَلَیْہِ اٰیٰتُنَا قَالَ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ، کَلَّا بَلْسکتہرَانَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ مَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ، کَلَّا اِنَّہُمْ عَنْ رَبِّہِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُوْنَ، ثُمَّ اِنَّہُمْ لَصَالُوا الْجَحِیْمِ، ثُمَّ یُقَالُ ہٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ، ﴾ (المطففین: ۱۰۔۱۷) ’’اس دن جھٹلانے والوں کی تباہی ہے (یعنی) جو انصاف کے دن کو جھٹلاتے ہیں اور اس کو جھٹلاتا وہی ہے جو حد سے نکل جانے والا گناہ گار ہے، جب اس کو ہماری آیتیں سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے یہ تو اگلے لوگوں کے افسانے ہیں، دیکھو! یہ جو (اعمال بد) کرتے ہیں، ان کا ان کے دلوں پر زنگ بیٹھ گیا ہے۔ بے شک یہ لوگ اس روز اپنے پروردگار (کے دیدار) سے اوٹ میں ہوں گے، پھر دوزخ میں جا داخل ہوں گے، پھر ان سے کہا جائے گا کہ یہ وہی چیز ہے جسے تم جھٹلاتے تھے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿بَلْ کَذَّبُوْا بِالسَّاعَۃِ وَاَعْتَدْنَا لِمَنْ کَذَّبَ بِالسَّاعَۃِ سَعِیْرًا، ﴾ (الفرقان: ۱۱) ’’بلکہ یہ تو قیامت ہی کو جھٹلاتے ہیں اور ہم نے قیامت کو جھٹلانے والوں کے لیے دوزخ کو تیار کر رکھا ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ لِقَآئِہٖٓ اُولٰٓئِکَ یَئِسُوْا مِنْ رَّحْمَتِیْ وَ اُولٰٓئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ، ﴾ (العنکبوت: ۲۳) ’’اور جن لوگوں نے اللہ کی آیتوں سے اور اس کی ملاقات سے انکار کیا وہ میری رحمت سے ناامید ہوگئے ہیں اور ان کو درد دینے والا عذاب ہوگا۔‘‘ منکرین آخرت کو درج ذیل طریقوں سے قائل کی جاسکتا ہے: ٭ سابقہ تمام الٰہی کتابوں اور آسمانی شریعتوں میں تمام انبیائے کرام ومرسلین عظام سے بعث بعد الموت کا معاملہ تواتر سے منقول ہے، جسے تمام امتوں نے قبول کیا ہے، لہٰذا تم اس کا کیونکر انکار کرتے ہو؟ جبکہ تم فلسفیوں، اصولیوںیا مفکر وں یا صاحب اصول ومبادی سے منقول کلام کی تصدیق کرتے ہو، اگرچہ ان کی بات کسی بھی ذریعے سے پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی نہ تو وسائل نقل کی بنیادپر اور نہ ہی امر واقع کی بنیادپر جس قدر بعث بعد الموت کی خبر پہنچتی ہے۔ ٭ بعث بعدالموت کے امکان کی تو عقل بھی شاہد ہے اور عقل کی شہادت کئی طرح سے ہے: ۱۔ کوئی بھی اس بات کا منکر نہیں ہے کہ وہ عدم کے بعد پیدا ہوا ہے بلاشبہ پہلے کبھی اس کا ذکر تک نہ تھا اور پھر اسے وجود بخشا گیا ہے تو جس ذات گرامی نے اسے پیدا کیا اور عدم سے وجود بخشا، وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ اسے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا فرما دے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَہ��وَ الَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ وَ ہُوَ اَہْوَنُ عَلَیْہِ﴾ (الروم: ۲۷) ’’اور وہی تو ہے جو خلقت کو پہلی دفعہ پیدا کرتا ہے پھر اسے دوبارہ پیدا کرے گا اور یہ اس کے لیے بہت آسان ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿کَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہٗ وَعْدًا عَلَیْنَا اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیْنَ﴾ (الانبیاء: ۱۰۴) ’’جس طرح ہم نے (کائنات کو) پہلے پیدا کیا تھا، اسی طرح ہم دوبارہ پیدا کر دیں گے۔ (یہ) ہمارے ذمے وعدہ ہے (جس کا پورا کرنا لازم ہے) بے شک ہم ایسا ضرور کرنے والے ہیں۔‘‘ ۲۔ کوئی شخص بھی اس بات کا انکار نہیں کر سکتا کہ آسمان اور زمین میںکتنی بڑی بڑی مخلوقات ہیں اور ان کا نظام کتنا محیر العقول ہے، جس ذات پاک نے اتنی بڑی بڑی مخلوقات کو پیدا کیا، وہ انسانوں کو پیدا کرنے اور انہیں مارنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر بدرجہ أولیٰ قادر ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ﴾ (الغافر: ۵۷) ’’آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے کی نسبت بڑا (کام) ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِہِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰی اَنْ یُّحْیِیَ الْمَوْتٰی بَلٰٓی اِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ، ﴾ (الاحقاف: ۳۳) ’’کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور وہ ان کے پیدا کرنے سے تھکا تک نہیں، وہ اس (بات) پر بھی قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کردے؟ ہاں یقینا وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿اَوَلَیْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰی اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَہُمْ بَلٰی وَہُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِیْمُ، اِنَّمَا اَمْرُہُ اِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ، ﴾ (یٰسٓ: ۸۲) ’’بھلا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، کیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ (ان کو پھر) ویسے ہی پیدا کر دے؟ کیوں نہیں، وہ تو بڑا پیدا کرنے والا (اور) علم والا ہے۔ اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے فرماتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے۔ ‘‘ ۳۔ آنکھوں والا ہر شخص یہ مشاہدہ کرتا ہے کہ زمین بنجر اور مردہ ہو چکی ہوتی ہے لیکن جب اس پر بارش برستی ہے، تو وہ سرسبز وشاداب ہو جاتی ہے اور بنجر و مردہ زمین میں پھر سے نباتات اگنے لگتی ہیں۔ جو ذات مردہ زمین کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے وہ مردہ انسانوں کو بھی دوبارہ زندہ کر کے اٹھانے پر قادر ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنَّکَ تَرَی الْاَرْضَ خَاشِعَۃً فَاِذَآ اَنزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَآئَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ اِنَّ الَّذِیْٓ اَحْیَاہَا لَمُحْیِ الْمَوْتٰی اِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ، ﴾(فصلت: ۳۹) ’’اور (اے بندے!) اس کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے ہے کہ تو زمین کودبی ہوئی (خشک اور بنجر) دیکھتا ہے، پھر جب ہم اس پر پانی برسا دیتے ہیں تو شاداب ہو جاتی ہے اور پھوٹنے لگتی ہے۔ بلا شبہ وہ اللہ جس نے زمین کو زندہ کیا وہی مردوں کو زندہ کرنے والا ہے۔ بے شک وہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔‘‘ ٭ بعث کے امکان کا حسی اور واقعاتی طور پر مشاہدہ بھی کیا جا چکا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مردوں کو دوبارہ زندہ کر دینے کے کئی واقعات بیان فرمائے ہیں۔ سورۃ البقرہ میں اس سلسلے میں پانچ واقعات بیان کیے گئے ہیں جن میں سے بطور مثال ایک واقعہ حسب ذیل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَوْ کَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰی قَرْیَۃٍ وَّ ہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِہَا قَالَ اَنّٰی یُحْیٖ ہٰذِہِ اللّٰہُ بَعْدَ مَوْتِہَا فَاَمَاتَہُ اللّٰہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ قَالَ کَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَۃَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَ شَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ وَانْظُرْ اِلٰی حِمَارِکَ وَ لِنَجْعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَانْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُہَا ثُمَّ نَکْسُوْہَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ، ﴾ (البقرۃ: ۲۵۹) ’’یا اسی طرح اس شخص کو (نہیں دیکھا؟) جس کا ایک ایسے گاؤں سے گزر ہوا جو اپنی چھتوں پر گرا پڑا تھا، تو اس نے کہا کہ اللہ اس (کے باشندوں) کو مرنے کے بعد کیونکر زندہ کرے گا؟ تب اللہ نے اس کی روح قبض کر لی (اور) سو برس تک( اس کو مردہ رکھا) پھر اس کو زندہ اٹھایا اور پوچھا تم کتنا عرصہ (مرے) رہے؟ اس نے جواب دیا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم۔ اللہ نے فرمایا: (نہیں) بلکہ تم سو برس (مرے) رہے ہو اور اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ (اتنی مدت میں مطلق سڑی) بسی نہیں اور اپنے گدھے کو بھی دیکھو (جو مرا پڑا ہے) غرض (ان باتوں سے) یہ ہے کہ ہم تم کو لوگوں کے لیے (اپنی قدرت کی) نشانی بنائیں اور (ہاں گدھے کی) ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم ان کو کیونکر جوڑ دیتے ہیں اور ان پر (کس طرح) گوشت پوست چڑھا دیتے ہیں۔ پھر جب یہ واقعات اس کے مشاہدے میں آئے تو بول اٹھا کہ میں یقین کرتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ ٭ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ موت کے بعد دوبارہ اٹھایا جائے تاکہ ہر انسان کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر انسانوں کو پیدا کرنا عبث اور بے فائدہ ہے، جس میں کوئی حکمت نہیں کیونکہ ایسی زندگی کے اعتبار سے تو انسانوں اور حیوانوں میں کوئی فرق ہی نہیں رہ جاتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ، فَتَعٰلَی اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیمِ، ﴾ (المومنون: ۱۱۵۔ ۱۱۶) ’’کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو بے فائدہ پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے؟ تو اللہ جو سچا بادشاہ ہے اس کی شان سب سے اونچی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی عرش بزرگ کا مالک ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿اِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ اَکَادُ اُخْفِیْہَا لِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعٰی﴾ (طٰہٰ:۱۵) ’’قیامت یقینا آنے والی ہے، میں چاہتا ہوں کہ اس (کے وقت) کو پوشیدہ رکھوں تاکہ ہر شخص جو کوشش کرے اس کا بدلہ پائے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَہْدَ اَیْمَانِہِمْ لَا یَبْعَثُ اللّٰہُ مَنْ یَّمُوْتُ بَلٰی وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ، لِیُبَیِّنَ لَہُمُ الَّذِیْ یَخْتَلِفُوْنَ فِیْہِ وَ لِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّہُمْ کَانُوْا کٰذِبِیْنَ، اِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْئٍ اِذَآ اَرَدْنٰہُ اَنْ نَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ، ﴾ (النحل: ۳۸۔۴۰) ’’اور یہ اللہ کی سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ جو مر جاتا ہے اللہ اسے (قیامت کے دن قبر سے) نہیں اٹھائے گا، کیوں نہیں! یہ اس کے ذمے سچا وعدہ ہے جو اسے ضرور پورا کرنا ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے، تاکہ جن باتوں میں یہ ا ختلاف کرتے ہیں وہ ان پر ظاہر کر دے اور اس لیے کہ کافر جان لیں کہ وہ جھوٹے تھے۔ جب ہم کسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے لیے ہمارا صرف یہی قول ہوتا ہے کہ ہم اس سے کہتے ہیں: ہو جا! تو وہ ہو جاتا ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿زَعَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَنْ لَّنْ یُّبْعَثُوْا قُلْ بَلٰی وَرَبِّی لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ وَذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ، ﴾ (التغابن: ۷) ’’جو لوگ کافر ہیں ان کا اعتقاد ہے کہ وہ (دوبارہ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے (اے نبی!) کہہ دو کیوں نہیں، میرے پروردگار کی قسم! تم ضرور اٹھائے جاؤ گے، پھر جو کام تم کرتے رہے ہو وہ تمہیں بتائے جائیں گے اور یہ (بات) اللہ کے لیے نہایت آسان ہے۔‘‘ اگر منکرین بعث بعد الموت کے سامنے یہ دلائل بیان کر دیے جائیں اور پھر بھی وہ اپنے انکار پر اصرار کریں تو وہ جھگڑا لو، ضدی اور ہٹ دھرم ہیں اور یہ ظالم عنقریب جان لیں گے کہ وہ کون سی جگہ لوٹ کر جائیں گے۔‘‘ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۱۰۱، ۱۰۲، ۱۰۳، ۱۰۴، ۱۰۵ ) #FAI00047 ID: FAI00047 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
risingpakistan · 7 months
Text
کیا اسلام آباد میں ایک دیوانے کی گنجائش بھی نہیں؟
Tumblr media
نگران حکومت کے سنہرے دور کے آغاز میں ہی ایک وزیر نے سب کو خبردار کیا تھا کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اس لیے یہاں پر اداروں کو بدنام کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ میرا خیال تھا نگران شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے چلے ہیں۔ جتنا بڑا آپ کے پاس ہتھیار ہوتا ہے، خوف اتنا ہی کم ہونا چاہیے۔ جب سے ہم نے بم بنایا ہے ہمیں یہی بتایا گیا ہے کہ اب دشمن ہمیں کبھی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ امریکہ سے انڈیا تک جتنی آوارہ طاقتیں ہیں، جہاں چاہے گھس جاتی ہیں وہ پاکستان کی سرحدوں کے اند آتے ہوئے سو دفعہ سوچیں گے۔ دفاعی تجزیہ نگار بھی یہی بتاتے تھے کہ یہ والا بم چلانے کے لیے نہیں، دشمن کو دھمکانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جب نگران وزیر صاحب نے اس بم سے اپنے ہی عوام کو دھمکانا شروع کیا تو لگا کے شاید پاکستان ایک اور طرح کی دفاعی ریاست بننے جا رہی ہے۔ کل اسلام آباد میں زیرِ حراست صحافی اور یوٹیوبر اسد طور کی 78 سالہ والدہ کا ایک مختصر سا ویڈیو دیکھا جب وہ اپنے بیٹے سے مل کر آئی تھیں۔ وہ کھانا لے کر گئیں تھیں طور نے نہیں کھایا، وہ اصرار کرتی رہیں۔ طور بھوک ہڑتال پر تھا اس لیے غالباً والدہ کو ٹالنے کے لیے کہا بعد میں کھا لوں گا۔
ان کی والدہ نے ایف آئی اے کو، عدالتوں کو یا کسی اور ادارے سے کوئی شکوہ نہیں کیا صرف یہ دعا کی کہ اللہ میرے بیٹے کو ہدایت دے۔ اسلام آباد کو ہمیشہ دور سے حسرت کی نظر سے دیکھا ہے۔ کبھی جانے کا اتفاق ہوا تو ایک ہی شام میں دس سیانوں سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ کسی کے پاس اندر کی خبر، کسی کے پاس اندر سے بھی اندر کی اور پھر وہ جو اندر کی خبر باہر لانے والوں کے نام اور حسب نسب بھی بتا دیتے ہیں۔ اسد طور سے نہ کبھی ملاقات ہوئی نہ کبھی سیانا لگا۔ کبھی کبھی اس کے یوٹیوب چینل پر بٹن دبا دیتا تھا۔ منحنی سا، جذباتی سا، گلی کی نکڑ پر کھڑا لڑکا جو ہاتھ ہلا ہلا کر کبھی ٹھنڈی کبھی تلخ زبان میں باتیں کرنے والا۔ گذشتہ ماہ اسلام آباد میں بلوچستان سے اپنے اغوا شدہ پیاروں کا حساب مانگنے آئی ہوئی بچیوں اور بزرگوں نے کیمپ لگایا اور اسلام آباد کے زیادہ تر سیانے اپنے آتش دانوں کے سامنے الیکشن کے نتائج پر شرطیں لگا رہے تھے تو وہ کیمرا لے کر احتجاجی کیمپوں سے ان کی آواز ہم تک پہنچاتا رہا۔
Tumblr media
میں نے سوچا کہ یہ کیسا یوٹیوبر ہے جسے یہ بھی نہیں پتا کہ بلوچ کہانیاں سنا کر کبھی بھی کوئی یوٹیوب سٹار نہیں بنا۔ اس سے پہلے سنا ہے کہ جب سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس پر بُرا وقت آیا تھا تو ان کی عزت کا محافظ بنا ہوا تھا۔ عدلیہ کی سیاست کی کبھی سمجھ نہیں آئی لیکن میں یہی سمجھا کہ سیانوں کے اس شہر اسلام آباد میں شاید ہمیشہ ایک دیوانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہماری تاریخ اور ثقافتی روایت بھی ہے۔ بادشاہ بھی اپنے دربار میں مسخرہ رکھتے تھے، گاؤں کا چوہدری بھی میراثی کو برداشت کرتا ہے۔ گاؤں میں ایک ملنگ نہ ہو تو گاؤں مکمل نہیں ہوتا۔ اسد طور بھی مجھے کیمرے والا ملنگ ہی لگا جس کے بغیر اسلام آباد کا گاؤں مکمل نہیں ہوتا۔ اس گاؤں میں ابھی تک یہ طے نہیں ہے کہ طور پر زیادہ غصہ عدلیہ عظمیٰ کو ہے یا ان کو جن کے لیے اسلام آباد کے صحافی کندھوں پر انگلیاں رکھ کر بتاتے تھے، پھر کسی نے بتایا کہ یہ کوڈ ورڈ پاکستان کے عسکری اداروں کے لیے ہے۔ اسلام آباد کے ایک بھیدی نے بتایا کہ مسئلہ یہ نہیں کہ کس ادارے کی زیادہ بےعزتی ہوئی ہے لیکن یہ کہ اسد طور تھوڑا سا بدتمیز ہے، کسی کی عزت نہیں کرتا۔
مجھے اب بھی امید ہے کہ اسلام آباد میں کوئی سیانا کسی بڑے سیانے کو سمجھا دے گا کہ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں اور ہم نے دشمن چنا ہے اتنا دبلا پتلا طور۔ اچھا نہیں لگتا۔ ہمارے نگران وزیراعظم ہمیں ایک دفعہ یہ بھی بتا چکے ہیں کہ دہشت گردوں کی بھی مائیں ہوتی ہیں۔ اسد طور کی والدہ کیمرے پر دعا مانگ چکی ہیں کہ اللہ ان کے بیٹے کو ہدایت دے۔ دونوں ادارے جن کے ساتھ اسد طور نے بدتمیزی کی ہے، ان کے سربراہ ہمیں کبھی کبھی دین کا درس دیتے ہیں۔ دعا ہر دین کا بنیادی عنصر ہے۔ اگر وہ انصاف نہیں دے سکتے تو طور کی والدہ کی دعا کے ساتھ دعا کریں کہ اللہ ہمارے بیٹے کو ہدایت دے اور اس کے ساتھ اپنے لیے بھی اللہ سے ہدایت مانگ لیں۔
محمد حنیف
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
emergingpakistan · 8 months
Text
میں کس کو ووٹ دوں؟
Tumblr media
آج الیکشن کا دن ہے اور میں الجھن میں ہوں کہ کس کو ووٹ دوں۔ میری پہلی پہلی پریشانی یہ ہے کہ میرے حلقے میں سارے امیدوار ہی اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں۔ سنا ہے کہ الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسران نے آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت باقاعدہ چھانٹی کے بعد یہ طے کیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو نیک پاک ہیں، اللہ والے ہیں، پارسا، سمجھدار، ایماندار اور امین ہیں۔ فاسق نہیں ہیں، اچھے کردار کے حامل ہیں، اسلامی تعلیمات کا علم رکھتے ہیں، اسلام کے مقرر کردہ فرائض کے پابند ہیں اور کبیرہ گناہوں سے پاک ہیں۔ مجھے تو آج تک معلوم ہی نہیں تھا کہ ایسی نیک ہستیاں اتنی بڑی تعداد میں میرے حلقے میں رہتی ہیں۔ میں اب سر پکڑ کر بیٹھا ہوں کہ اتنے ڈھیر سارے اللہ والوں میں سے کس کو ووٹ دوں اور کس کو نہ دوں۔ کافی سوچنے کے بعد فیصلہ کیا کہ سب کو ووٹ دینا چاہیے لیکن معلوم ہوا کہ اس کی اجازت نہیں ہے۔ ایک ماہر قانون سے رابطہ کیا کہ کوئی قانونی گنجائش نکالو تا کہ سب بزرگوں کو ووٹ دے سکوں تو اس نے کہا کہ جو تم چاہتے ہو یہ تو نہیں ہو سکتا البتہ اس نے مفت قانونی مشورہ دیا ہے کہ میں پولنگ سٹیشن جانے کی بجائے کسی اچھے طبیب کے پاس چلا جاؤں۔ اب سمجھ نہیں آ رہی کہ میں ووٹ ڈالنے جاؤں یا طبیب کے پاس جاؤں۔
دوسری پریشانی یہ بنی کہ ابھی ابھی ایک سیانے نے بتایا ہے کہ ووٹوں سے بننے والا وزیراعظم یہاں کامیاب ہو ہی نہیں سکتا، اس لیے حکمت اسی میں ہے کہ صرف نگران وزیراعظم کو منتخب کیا جائے۔ اس نے سمجھایا کہ منتخب وزیراعظم پانی کا بلبلہ ہوتا ہے۔ اس بے چارے کی حکومت مدت ہی پوری نہیں کر پاتی اور بعد میں وہ سیدھا جیل جاتا ہے۔ چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ صرف اس کو ووٹ دوں گا جو نگران وزیراعظم بننا چاہے گا۔ معلوم ہوا کہ ووٹ سے نگران وزیراعظم نہیں بن سکتا۔ ووٹوں سے صرف منتخب وزیراعظم بنتے ہیں۔ اب سوچ رہا ہوں کہ کیا مجھے ان برگزیدہ لوگوں میں سے کسی کو ووٹ دے کر مصیبت میں ڈالنا چاہیے؟ ابھی اسی شش و پنج ہی میں تھا کہ ایک سیانے نے بتایا کہ ووٹ ڈالنے والا آدمی اہم نہیں ہوتا ووٹ گننے والا اہم ہوتا ہے۔ میں نے اس افواہ پر کان تو بالکل نہیں دھرے لیکن سچی بات ہے کہ اپنی اس ناقدری پر دل کچھ پھیکا سا ہو گیا ہے۔ اسی پریشانی میں سوچا کہ نواز شریف صاحب اور بلاول بھٹو صاحب کی تقریر سنتا ہوں اور جو مشورہ یہ دیں گے، اس پر عمل کروں گا۔ 
Tumblr media
بلاول صاحب فرمانے لگے کہ پرانے سیاست دانوں کو ہرگز ووٹ نہ دینا اور میاں صاحب نے حکم دیا کہ باریاں لینے والوں کو تو بالکل بھی ووٹ نہ دینا۔ میں نے ان دونوں کی بات پلے باندھ لی اور ان دونوں کو ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ میری الجھن مزید بڑھ گئی کہ اب کیا کروں۔ ایک خیال آیا کہ اب لگے ہاتھوں عمران خان صاحب کا خطاب بھی سن لوں اور پھر فیصلہ کر لوں کہ ووٹ کسے دینا ہے۔ اس خیال کے آتے ہی سماعتوں نے ہاتھ جوڑ دیے کہ یہ عزیمت کا سفر ہے اور اب مزید ان کے بس کی بات نہیں۔ پھر سوچا میں مولانا فضل الرحمٰن صاحب کو ووٹ دے دیتا ہوں لیکن معلوم ہوا کہ ان کا تو مخاطب ووٹر ہی صرف ایک مکتب فکر ہے، ان کے امیدواران کی اکثریت بھی اسی پس منظر سے ہے۔ انہیں ایک عامی کے ووٹ کی جب ضرورت ہی نہیں تو مجھے اس تکلف سے انہیں بد مزہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ پھر میں نے مختلف جماعتوں کے منشور دیکھے، یہ اقوالِ زریں کا خوب صورت مجموعہ تھے۔ میں اتنا متاثر ہوا کہ میں نے ایک بار پھر سب جماعتوں کو ووٹ دینے کا سوچا مگر یاد آ یا کہ اس کی تو اجازت ہی نہیں۔
روایتی سیاست سے بے زاری تھی مگر تبدیلی کے سونامی نے جو تارا مسیحائی کی تو سارے ہوش ٹھکانے آ گئے۔ اب وہ عالم بھی نہیں ہے کہ کوئی نعروں اور جذبات سے بے وقوف بنا لے کیونکہ اب سبھی کا نامہ اعمال ہمارے سامنے ہے۔ سبھی اقتدار میں رہ چکے اور سبھی کم و بیش ایک جیسے نکلے، بلکہ جنہیں تبدیلی کا دعویٰ تھا ان کے دستِ ہنر نے اس معاشرے کو دوسروں سے زیادہ گھاؤ دیے۔ بھٹو صاحب زندہ ہیں لیکن اتفاق دیکھیے کہ ان سے ہماری ابھی تک ملاقات نہیں ہو سکی۔ جہاں جہاں شعور کی سطح بڑھتی جا رہی ہے، پیپلز پارٹی کا وجود سمٹتا جا رہا ہے۔ ووٹ کو عزت کیسے دینی ہے یہ اب کوئی بتا ہی نہیں رہا۔ جو دوسروں کے نامہ سیاہ کی تیرگی تھی وہ اپنی زلف میں آئی تو ضد ہے کہ اسے حسن کہا جائے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں کو حسبِ ضرورت اسلام دشمن قرار دے کر دونوں کی قربت میں رہنے والے مولانا ویسے ہی اقتدار کے کوہ کن ہیں، حکومت کسی کی بھی ہوئی کابینہ میں ان کا حصہ بقدر جثہ یقینی ہے۔ تبدیلی ویسے ہی ایک بھیانک خواب نکلی۔ سونامی، اسم با مسمی ثابت ہوا۔
اب پھر ووٹ کس کو دیا جائے اور کیوں دیا جائے؟ اگر آپ میری رہنمائی کر دیں تو ابھی جا کر جلدی سے ووٹ ڈال کر اپنا قومی فریضہ ادا کر آؤں۔ لیکن اگر آپ میری رہنمائی نہ بھی فرمائی تو آپ کی عین نوازش ہو گی کیونکہ خوش قسمتی سے یہ سب وہ لوگ ہیں جو آرٹیکل 62 کے تحت مستند قسم کے نیک پاک ہیں، اللہ والے ہیں، پارسا، سمجھدار ، ایماندار اور امین ہیں۔ فاسق نہیں ہیں، اچھے کردار کے حامل ہیں، اسلامی تعلیمات کا علم رکھتے ہیں، اسلام کے مقرر کردہ فرائض کے پابند ہیں اور کبیرہ گناہوں سے پاک ہیں۔ ان میں سے جو بھی جیت جائے، فتح حق کی ہو گی۔
آصف محمود  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
comforttobeunknown · 8 months
Text
تم سے مل کر ہمیں رونا تھا، بہت رونا تھا
تنگ وقتِ ملاقات نے رونے نہ دیا
ورنہ کیا بات تھی کس بات نے رونے نہ دیا!
1 note · View note
urduchronicle · 8 months
Text
بلاول کے نااہل مشیر انہیں مسلم لیگ ن سے لڑائی کا مشورہ دے رہے ہیں، سعد رفیق
پاکستان مسلم۔لیگ ن۔کے مرکزی راہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہےکہ بلاول کے نااہل مشیر انہیں تحریک انصاف کا ووٹ لینے کے لیے ن لیگ سے لڑائی کا مشورہ دے رہے ہیں مگر سب جانتے ہیں ہمارا مقابلہ کس جماعت سے ہے،میاں اظہر کی گرفتاری پر افسوس ہوا فروری آٹھ کے انتخابات میں زیادہ آزاد امیدوارنہیں جیتیں گے. لا ہور میں اسلامی تحریک کے راہنمائوں سے انتخابات میں حمایت حاصل کرنے کے لیے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
moizkhan1967 · 9 months
Text
عشق میں غیرتِ جذبات نے رونے نہ دیا
ورنہ کیا بات تھی کس بات نے رونے نہ دیا
آپ کہتے تھے کہ رونے سے نہ بدلیں گے نصیب
عمر بھر آپ کی اسِ بات نے رونے نہ دیا
رونے والوں سے کہو اُن کا بھی رونا رو لیں
جن کو مجبورئ حالات نے رونے نہ دیا
تجھ سے مل کر ہمیں رونا تھا، بہت رونا تھا
تنگیٔ وقتِ ملاقات نے رونے نہ دیا
ایک دو روز کا صدمہ ہو تو رو لیں فاکرؔ
ہم کو ہر روز کے صدمات نے رونے نہ دیا
#سدرشن فاکر
1 note · View note
forgottengenius · 1 year
Text
ہم سائنس و ٹیکنالوجی میں پیچھے کیوں ہیں؟
Tumblr media
موجودہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ جو ملک سائنس اور ٹیکنالوجی میں آگے ہے اس کی معیشت بھی مضبوط ہے اور اس کا دنیا میں نام بھی ہے۔ ممالک تو کیا حالیہ دور میں افراد بھی سائنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کر کے دنیا پر راج کررہے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں بڑے بڑے نام ایسے ہیں جن کا دنیا میں ایک خاص مقام ہے، جیسے بل گیٹس کو دیکھ لیجیے۔ انہوں نے ٹیکنالوجی میں ہی مہارت حاصل کی اور اس کے بعد دنیا میں ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ بل گیٹس جب کسی ملک کا دورہ کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی ملک کا وزیراعظم یا صدر آگیا ہو۔ انہیں بہترین پروٹوکول دیا جاتا ہے، وزرائے اعظم، وزرا اور صدور ان سے ایسے ملاقاتیں کرتے ہیں جیسے کسی دوسرے ملک کے اعلیٰ عہدے داروں سے ملاقات کر رہے ہوں۔ حالانکہ ان کے پاس کسی ملک کا کوئی سیاسی یا انتظامی عہدہ نہیں لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی میں انہوں نے اتنا نام کمایا ہے کہ ان کا مقام اب کسی بڑے عہدے دار سے کم نہیں ہے۔ 
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ضروری نہیں سیاست میں حصہ لیا جائے یا یہ ضروری نہیں کہ سرکاری عہدوں پر فائز ہوا جائے تبھی دنیا میں مقام حاصل ہو سکتا ہے اور عزت مل سکتی ہے بلکہ اب تو لوگ سائنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کر کے دنیا پر راج کرتے ہیں، اپنا نام بناتے ہیں اور ایک بہت بڑا مقام حاصل کر لیتے ہیں اور ایسا مقام حاصل کرتے ہیں جو دیگر ممالک کے وزرائے اعظم اور صدور کو بھی حاصل نہیں ہوتا۔ دنیا کے بہت سے ممالک ہیں جو سائنس اور ٹیکنالوجی میں مسلسل ترقی کر رہے ہیں اور ترقی کی راہوں پر گامزن ہیں۔ یورپ اور امریکا تو پہلے سے ہی سائنس و ٹیکنالوجی میں بہت آگے نکل چکے ہیں مگر اب ایشیائی ممالک بالخصوص جنوبی ایشیائی ممالک بھی سائنس اور ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی کی راہوں پر گامزن ہیں۔ بھارت اور بنگلہ دیش کافی تیزی سے ترقی کررہے ہیں، بھارت تو اس میں کافی آگے نکل چکا ہے۔ بھارت کے نوجوان فری لانسنگ میں دنیا بھر میں سب سے آگے ہیں اور اسی طرح سائنس اور ٹیکنالوجی کے دیگر شعبوں میں بھی بھارت ایک خاص مقام حاصل کررہا ہے اور نہایت تیزی سے اس میدان میں آگے بڑھ رہا ہے۔
Tumblr media
بھارت میں تو ریڑھی بانوں نے بھی کیو آر کوڈ رکھے ہوتے ہیں جس کے ذریعے لوگ آن لائن رقم کی ادائیگی کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں بدقسمتی سے بڑے بڑے تاجروں کے پاس بھی آن لائن رقم کی ادائیگی کی سہولت نہیں ہے۔ کئی بار بڑی بڑی دکانوں پر جائیں ان سے آن لائن پیمنٹ کے بارے میں پوچھیں تو کہتے ہیں، ہمیں کیش ہی چاہیے۔ ہماری حکومتوں نے بھی اس شعبے کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی اور اس میدان میں ہم دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہمیں اگر انٹرنیشنل ویب سائٹس پر کچھ خریدنا پڑجائے تو ہمارے لیے مصیبت بن جاتی ہے اور لوگ سوچتے رہتے ہیں کہ کس طرح سے آن لائن پیمنٹ کی جائے۔ پے پال کا دنیا میں بہت بڑا نام ہے جس سے پاکستان محروم ہے اور جس کی بہت زیادہ ضرورت بھی ہے۔ پے پال کی سروس پاکستان میں نہ ہونے کی وجہ سے نوجوانوں کو آن لائن کام کرنے میں بہت زیادہ مشکل پیش آرہی ہے مگر ہمارے حکمرانوں کی اس طرف کوئی توجہ ہی نہیں۔
کچھ عرصہ قبل بل گیٹس نے جب پاکستان کا دورہ کیا تو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے انہیں پولیو اور کورونا کے سینٹرز کا دورہ کروایا مگر ٹیکنالوجی میں ان سے مدد لینے کی کوئی بات نہیں کی، حالانکہ ان کا اصل شعبہ صحت نہیں بلکہ ٹیکنالوجی ہے۔ بل گیٹس سے اس شعبے میں مدد لینی چاہیے تھی کہ ہمارے ہاں نوجوانوں کو آن لائن کام کرنے میں بہت سی مشکلات پیش آرہی ہیں، آپ ہمارے نوجوانوں کو اس کےلیے سہولیات فراہم کریں۔ پے پال اور اس ج��سی اور دیگر بہت سی کمپنیاں ہیں جو پاکستان میں کام کرنے پر آمادہ نہیں، تو بل گیٹس سے ان کے لیے مدد حاصل کرتے کہ انہیں قائل کریں کہ وہ پاکستان میں اپنی سروسز فراہم کریں تاکہ نوجوانوں کو آن لائن کام کرنے میں سہولت میسر آئے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کا شعبہ نہایت اہم ہے جس میں پاکستان بہت پیچھے ہے اور ہمارے ہمسایہ ممالک اس میں تیزی سے ترقی کرتے چلے جارہے ہیں۔ لہٰذا ہمیں بھی اس شعبے کی طرف خصوصی طور پر توجہ دینی چاہیے۔ ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ نوجوانوں کےلیے سہولتیں فراہم کریں اور ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ اس شعبے میں خصوصی طور پر دل جمعی سے کام کریں اور دنیا میں اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کریں۔
ضیا الرحمٰن ضیا 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
pakistantime · 1 year
Text
اور پھر راجہ ریاض نے پوشٹر پاڑ دیا ! وسعت اللہ خان
Tumblr media
کہا تھا نا کہ قائدِ حزبِ اختلاف راجہ ریاض کو ہلکا نہ لینا۔ کہا تھا نا کہ ان کی سیدھ پن سے لبریز گفتگو سے کوئی غلط نتیجہ اخذ کر کے ان پر فیصل آباد کی زندہ جگت کی پھبتی نہ کسنا۔ کہا تھا نا کہ راجہ صاحب کے ساندل باری لہجے کا مذاق نہ اڑایا جائے کہ ’میرا دل کرتا ہے کہ اسمبلی تلیل ہونے کے بعد پوشٹر پاڑ کے بارلے ملخ چلا جاؤں۔‘ اگرچہ پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ سینیٹر انوار الحق کاکڑ کا نام ان کی پارٹی کی تجویز کردہ فہرست میں نہیں تھا۔ خود نواز شریف اور شہباز شریف کے بھی وہم و گمان میں یہ نام نہ تھا۔ حکمران اتحاد کے صدر مولانا فضل الرحمان کے زہن میں تو خیر یہ نام آنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ گمان ہے کہ خود راجہ ریاض کی بھی شاید ہی سینیٹر انوار الحق کاکڑ سے زندگی میں سوائے پارلیمانی علیک سلیک کبھی جم کے کوئی ملاقات ہوئی ہو۔ خود کاکڑ صاحب یا ان کی باپ ( بلوچستان عوامی پارٹی) کے کسی اعلیٰ عہدیدار کو بھی 48 گھنٹے پہلے تک شاید اندازہ نہ ہو کہ فیصل آباد کا راجہ قلعہ سیف اللہ کے کاکڑ کے لیے اتنا اکڑ جائے گا کہ سارے ’پوشٹر پاڑ‘ کے پھینک دے گا۔
اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ راجہ ریاض انوار الحق کاکڑ کے نام پر کیوں اڑ گئے؟ یہ سوال بھی بے معنی ہے کہ کاکڑ کا نام خود راجہ صاحب کے ذاتی ذہن کی پیداوار ہے یا انھوں نے جمعہ اور ہفتے کو کانوں میں مسلسل ہینڈز فری لگائے رکھا یا پھر کوئی واٹس ایپ موصول ہوا کہ بس ایک ہی نام پر جمے رہو۔ ہم ہیں تو کیا غم ۔ اور یہ مشورہ اتنا فولادی تھا کہ راجہ صاحب سے غالباً پہلی اور آخری بار صادق سنجرانی، احسن اقبال حتیٰ کہ اسحاق ڈار کی بالمشافہ ملاقات بھی راجہ ریاض کا دل موم نہ کر سکی۔  راجہ صاحب میں ٹارزن جیسی طاقت کہاں سے آئی؟ وزیرِ اعظم اور حکمران اتحاد نے کیسے اپنی اپنی ناموں کی پرچیاں پھاڑ کے راجہ صاحب کے تجویز کردہ نام پر ہاتھ کھڑے کر دئیے؟ اتنا برق رفتار حسنِ اتفاق تو جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کے لیے بھی نہ دیکھا گیا تھا۔ کوئی تو ہے جو نظامِ بستی چلا رہا ہے۔۔۔ مگر ایک منٹ! یہ نہ تو کوئی انہونا سرپرائز ہے اور نہ ہی آپ کہہ سکتے ہیں کہ پہلی بار اس طرح سے کوئی اِکا پھینک کے تاش کی بازی پلٹی گئی ہو۔
Tumblr media
یاد نہیں کہ سینیٹ میں نون اور پی پی کی مجموعی اکثریت کے باوجود ایک آزاد، غیر سیاسی، غیر معروف امیدوار صادق سنجرانی نے کس طرح مارچ 2018 میں گرم و سرد چشیدہ راجہ ظفر الحق کو شکست دے کے سب کو ششدر کر دیا تھا۔ اور پھر انہی سنجرانی صاحب نے ایک برس بعد تحریکِ عدم اعتماد کو ناکام بنایا جبکہ سینیٹ میں عمران خان کی مخالف جماعتیں بظاہر اکثریت میں تھیں اور سنجرانی کے ہی ہم صوبہ بزنجو خاندان کے وارث میر حاصل خان کی جیت عددی دوربین سے لگ بھگ یقینی نظر آ رہی تھی۔ اور اسی سنجرانی نے 2021 میں چیئرمین شپ کی دوڑ میں یوسف رضا گیلانی کو شکست دے کے تیسری بار چمتکار دکھایا۔ تب سے سنجرانی کا شمار گنے چنے اہم سیاسی کھلاڑیوں کی صف میں ہونے لگا۔ جو حاسد طعنہ دے رہے ہیں کہ انوار الحق کاکڑ، صادق سنجرانی کی کامیاب ہائبرڈ پیوند کاری کا ٹو پوائنٹ او ماڈل ہیں، ٹی وی کے جو اسکرینچی ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں کہ جواں سال انوار الحق کا مختصر سیاسی شجرہ مسلسل اسٹیبلشمنٹ نواز ہے اور وہ دراصل ایک فرنٹ کمپنی ہیں جنھیں آگے رکھ کے ایک من پسند انتخابی ڈھانچہ بنا کے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جائیں گے۔
ان اسکرینچیوں کو کم ازکم یہ زیب نہیں دیتا کہ 2018 کے بعد سے بالعموم اور حالیہ ختم ہونے والی قومی اسمبلی اور نہ ختم ہونے والی سینیٹ میں بالخصوص جس طرح آخری چار اوورز میں قوانین کی منظوری کی ریکارڈ توڑ سنچری بنائی گئی اس کے بعد کوئی کہہ سکے کہ کون اسٹیبلشمنٹ کا کاسہ لیس ہے اور کون اس اسمبلی میں لینن، ہوچی منہہ، چی گویرا یا کم ازکم کوئی ولی خان، مفتی محمود یا نوابزادہ نصراللہ خان تھا۔ یہ اسمبلی تاریخ میں کس طرح یاد رکھی جائے گی؟ کسی کو شک ہو تو سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کی آخری پارلیمانی تقریر یا پھر سینیٹ میں سابق چیئرمین رضا ربانی کا پچھلا خطاب سن لے۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
googlynewstv · 2 months
Text
عمران خان کا تو اللہ کو پتہ ہے کس سے مذاکرات کریں گے ،محسن نقوی
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کاکہنا ہے کہ عمران خان کا اللہ کو پتا ہے کس سے مذاکرات کریں گے کس سے نہیں ۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کی ایم کیو ایم وفد سے ملاقات ، آئی پی پیز کے حوالے سے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ محسن نقوی نے کہا کہ آئی پی پیز کے حوالے سے ایم کیو ایم کے تحفظات وزیراعظم تک پہنچائے ہیں۔خالد مقبول   ہمارے لیے بہت اہم ہیں اور وزیراعظم اس پر وزیر توانائی کو ہدایات دے چکے…
0 notes
urdu-poetry-lover · 1 year
Text
عِشق میں غیرتِ جذبات نے ، رونے نہ دیا
ورنہ کیا بات تھی ، کس بات نے رونے نہ دیا
آپ کہتے تھے کہ ، رونے سے نہ بدلیں گے نصیب
عمر بھر آپ کی اِس بات نے ، رونے نہ دیا
رونے والوں سے کہو ، اُن کا بھی رونا رو لیں
جن کو مجبورئ حالات نے ، رونے نہ دیا
تجھ سے مِل کر ھمیں ، رونا تھا بہت رونا تھا
تنگیٔ وقتِ ملاقات نے ، رونے نہ دیا
ایک دو روز کا صَدمہ ھو تو ، رو لیں فاکرؔ
ھم کو ، ھر روز کے صدمات نے ، رونے نہ دیا
سدرشن فاکر
4 notes · View notes
airnews-arngbad · 1 year
Text
آکاشوانی اورنگ آباد‘ علاقائی اُردو خبریں: بتاریخ: 17 اپریل 2023‘ وقت: صبح 09:00 تا 09:10
 ::::: سرخیاں::::::
پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں:
٭ ممبئی میں مہاراشٹر بھوشن تقریب میں شرکت کررہے 11 لوگوں کی لُو لگنے سے موت؛ وزیرِ اعلیٰ ایکناتھ شندے نے کیا رنج و غم کا اظہار۔
٭ مہاراشٹر کے سابق وزیرِ اعلیٰ اُدّھو ٹھاکرے نے BJP پر کی تنقید؛ کہا اقتدار کے نشے میں چُور BJP نے غداروں کو اپنے ساتھ ملاکر گرائی ہے مہاراشٹر حکومت۔
٭ مہاراشٹر میں کورونا پازیٹیو مریضوں کی مجموعی تعداد ہوئی 6ہزار کے پار‘ نئی ممبئی میں ہیں سب سے زیادہ کورونا پازیٹیو مریض۔
اور۔۔ ٭ کل کھیلے گئے IPL مقابلے میں ممبئی انڈینس نے کولکاتہ نائٹ رائیڈرس کو ہرایا؛ ایک دیگر مقابلے میں راجستھان رائلز نے گجرات ٹائٹنز کو دی شکست۔
***** ***** *****
اب خبریں تفصیل سے:
ممبئی میں مہاراشٹر بھوشن تقریب میں شرکت کیلئے آئے افراد میں سے 11 لوگوں کو لُو لگنے سے موت ہوگئی، جبکہ 20  افراد کی حالت بگڑنے پر انھیں اسپتال میں شریک کیا گیا ہے۔ وزیرِ اعلیٰ ایکناتھ شندے نے اس واقعے پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مرنے والوں کے ورثاء کو ریاستی حکومت کی جانب سے فی کس پانچ لاکھ روپؤں کی امداد دی جائیگی اور اسپتال میں شریک لوگوں کے علاج کا خرچ مہاراشٹر حکومت اُٹھائے گی۔ وزیرِ اعلیٰ شندے نے کل اسپتال میں شریک لوگوں سے ملاقات کی۔ اس موقع پر انھوں نے یہ اعلان کیا۔
بہادری‘ عقیدت اور سماجی اصلاح ان تین راستوں سے مہاراشٹر نے ملک کو صحیح سمت دکھانے کا کام کیا ہے۔ یہ بات مرکزی وزیرِ داخلہ امت شاہ نے کہی۔ امت شاہ کے ہاتھوں کل نئی ممبئی میں مہاراشٹر حکومت کی جانب سے دیا جانے والا سب سے بڑا انعام ”مہاراشٹر بھوشن“ معروف سماجی خدمت گار پدم شری ڈاکٹر اَپّا صاحب عرف دتّاتریہ دھرمادھیکاری کو دیا گیا۔ اس موقع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے شاہ نے یہ بات کہی۔ اُنھوں نے کہا کہ مہاراشٹر نے دوسروں کیلئے جینے کی تعلیم دی ہے۔ امت شاہ نے مزید کہا کہ دھرمادھیکاری خاندان نے اپنے کام سے سماج کی اصلاح کی ہے اور ایک ہی خاندان کی تین نسلوں کا سماجی خدمت کرنا اپنے آپ میں ایک انوکھی مثال ہے۔ شاہ نے کہا کہ انھوں نے لگاتار تین نسلوں کو سماجی خدمت کا کام کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ 
اَپّا صاحب دھرمادھیکاری کو دیا گیا مہاراشٹر بھوشن انعام 25 لاکھ روپئے نقد‘ توصیفی سند اور سپاسنامے پر مشتمل ہے۔ دریں اثناء دھرمادھیکاری نے انعام کی رقم‘ وزیرِ اعلیٰ راحت فنڈ میں دینے کا اعلان کیا۔ اپنے خطاب میں انھوں نے کہا کہ انسانیت ہی سب سے بڑا مذہب ہے اور یہ نظریہ سبھی تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے اپنے حامیوں سے کہا کہ ہر کوئی کم از کم پانچ پودے لگائے۔
اس تقریب میں وزیرِ اعلیٰ ایکناتھ شندے سمیت نائب وزیرِ اعلیٰ دیویندر پھڑنویس اور ثقافتی اُمور کے وزیر سدھیر منگنٹیوار کے علاوہ بڑی تعداد میں لوگ شریک تھے۔
***** ***** *****
مہاراشٹر کے سابق وزیرِ اعلیٰ اُدّھو ٹھاکرے نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو چیلنج کرتے ہوئے پوچھا ہیکہ وہ بتائے کہ اُنھوں نے گذشتہ آٹھ سالوں کے دوران عوام کیلئے کیا کیا ہے؟ اُدّھو ٹھاکرے نے کل ناگپور میں مہا وِکاس آگھاڑی کے ”وَجر مُوٹھ“ جلسے میں بول رہے تھے۔ انھوں نے BJP پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ اقتدار کے نشے میں چُور ہے۔ اُدّھو ٹھاکرے نے کہا کہ مہاراشٹر میں مہاوِکاس آگھاڑی حکومت صحیح ڈھنگ سے کام کررہی تھی۔ اس دوران BJP نے حکومت کے غداروں کو اپنے ساتھ ملالیا اور اب انہی غداروں کے ساتھ حکومت چلارہی ہے۔ ٹھاکرے نے BJP پر 2014 اور 2019 میں وعدہ خلافی کرنے کے الزامات بھی عائد کیے۔
اس جلسے میں کانگریس کی جانب سے ریاستی صدر نانا پٹولے اور راشٹروادی کانگریس سے ریاستی صدر جینت پاٹل بھی شریک تھے۔ وہیں ودھان سبھا میں اپوزیشن لیڈ�� اجیت پوار‘ ودھان پریشد میں اپوزیشن لیڈر امبا داس دانوے‘ رکنِ پارلیمنٹ سنجے راؤت اور دیگر کئی اہم رہنماؤں نے بھی اس جلسے میں شرکت کی۔ مہاوِکاس آگھاڑی رہنماؤں نے پلوامہ حملے کے بارے میں سابق گورنر ستیہ پال ملِک کے تبصرے‘ ہنڈن برگ رپورٹ اور وزیرِاعلیٰ شندے کے ایودھیا دورے سمیت کئی موضوعات پر مہاراشٹر حکومت پر جم کر تنقید کی۔
***** ***** *****
مہاراشٹر وِدھان سبھا میں اپوزیشن لیڈر اجیت پوار نے اس بات سے صاف انکار کیا ہے کہ انھوں نے مرکزی وزیرِ داخلہ امت شاہ کے ممبئی دورے کے دوران اُن سے خفیہ ملاقات کی۔ اجیت پوار‘ کل ناگپور میں اخباری نمائندوں سے گفتگو کررہے تھے۔ اجیت پوار نے کہا کہ اُن کے BJP میں جانے کی خبریں بے بنیاد ہیں اور اس طرح کی خبریں چلاکر لوگوں کو گمراہ نہ کیا جائے۔ اس دوران اجیت پوار نے کہا کہ کہ فی الحال مہاراشٹر حکومت کے پاس 165  اراکینِ اسمبلی ہیں‘ لہٰذا اقتدار کی رسّہ کشی کے معاملے میں اگر 16  اراکینِ اسمبلی نااہل قرار پاتے ہیں تب بھی حکومت برقرار رکھنے کیلئے ضروری اکثریت حکومت کو حاصل رہے گی۔
***** ***** *****
جموں و کشمیر کے پلوامہ میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کے بارے میں سابق ریاستی گورنر ستیہ پال ملِک کی جانب سے دئیے گئے بیان کے بعد اب کانگریس نے BJP کے خلاف محاذ کھول دیا ہے۔ اس کے تحت آج کانگریس مہاراشٹر بھر میں مرکز کی BJP حکومت کے خلاف آندولن کرے گی۔ مہاراشٹر کانگریس کے صدر نانا پٹولے نے یہ اطلاع دی۔ پٹولے نے کہا کہ پلوامہ حملے سے جڑے سوالوں کے جواب مودی حکومت کو دینے ہی ہوں گے۔
***** ***** *****
اُتّرپردیش کے اُمیش پال قتل معاملے کے مارے گئے ملزم اسد احمد کے کچھ عرصے تک ناسک میں رہنے کی بات سامنے آئی ہے۔ اُتّرپردیش پولس نے اسد احمد کو مدد کرنے کے الزام میں ایک شخص کو ناسک سے حراست میں لیا ہے۔ ملزم کو مزید جانچ کیلئے لکھنؤ لے جایا گیا ہے۔ دوسری جانب اسد کو پونے میں رہائش اختیار کرنے میں مدد کرنے والے شخص کی بھی پولس کو تلاش ہے۔
***** ***** *****
مرکزی حکومت نے واضح کردیا ہے کہ انفارمیشن تکنالوجی کے ترمیم شدہ قوانین کے تحت اب جوے اور سٹے کے کاروبار کو انٹرنیٹ پر جگہ نہیں دی جائیگی۔ انفارمیشن تکنالوجی کے مرکزی وزیر راجیو چندر شیکھر نے اس بارے میں مزید معلومات دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے انٹرنیٹ کے محفوظ استعمال کو یقینی بنانے کے مقصد سے جامع پالیسی ترتیب دی ہے۔ انھوں نے کہا کہ آن لائن گیمز کی بڑھتی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے انھیں اجازت دی گئی ہے’تاہم معاشی لین دین‘ سٹّے بازی‘ لت لگ جانے اور بچوں کیلئے خطرناک آن لائن گیمز کو ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی۔ چندر شیکھر نے بتایا کہ دستیاب معلومات کی تصدیق کرنے کیلئے مرکزی حکومت نے علیحدہ نظام کھڑا کیا ہے۔
***** ***** *****
مہاراشٹر میں زیرِ علاج کورونا پازیٹیو مریضوں کی کُل تعداد بڑھ کر چھ ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ فی الحال مہاراشٹر بھر میں کورونا پازیٹیو مریضوں کی مجموعی تعداد 6047 ہے، جن میں سب سے زیادہ‘ 1702 مریضوں کا تعلق ممبئی سے ہے۔ دوسری بڑی تعداد تھانے کے مریضوں کی ہے جہاں 1034 کورونا پازیٹیو مریض ہیں۔ پونے میں 740 کورونا پازیٹیو مریض ہیں جن کا علاج جاری ہے۔ فی الوقت مہاراشٹر میں کووِڈ19- سے صحتیابی کا تناسب 98% ہے جبکہ شرحِ اموات لگ بھگ دو فیصد ہے۔
***** ***** *****
امبیڈکری تحریک کے معروف کارکن کیپٹن بھاؤ راؤ کھڑتاڑے کل ممبئی میں چل بسے۔ وہ 97 برس کے تھے۔ کھڑتاڑے کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بھارتیہ ریپبلکن پارٹی کے صدر اور مرکزی وزیر رام داس آٹھولے نے کہا کہ کھڑتاڑے کی موت سے امبیڈکری تحریک کا ناقابلِ تلافی نقصان ہوا ہے۔
***** ***** *****
ہنگولی ضلعے کے دُرگ ساوَنگی میں کل ST بس میں سیٹ کو لیکر ہوئے جھگڑے کے بعد ایک مسافر نے بس پر پتھراؤ کیا۔ اس معاملے میں باسمبا پولس اسٹیشن میں پتھراؤ کرنے والے مسافر کے خلاف کیس درج کرلیا گیا ہے۔
***** ***** *****
پنجاب کے بھٹنڈا کی فوجی چھاؤنی میں ہوئی گولہ باری میں جان گنوانے والے ساتارا ضلعے کے جاؤڑی تعلقے کے کرندوشی کے فوجی ’تیجس لہوراج مانکر‘ کی آخری رسومات کل ادا کردی گئیں۔ ان کے جسد ِ خاکی کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپردِ آتش کیا گیا۔ 
***** ***** *****
مہاراشٹر حکومت نے غیر زرعی ٹیکس یکمشت ادا کرنے کی اسکیم تیار کرلی ہے۔ محصول کے ریاستی وزیر رادھا کرشن وِکھے پاٹل نے یہ بات کہی۔ انھوں نے تعمیراتی کاروباریوں سے کہا کہ اگر حکومت ریڈی ریکنر کی شرح کم کرتی ہے یا اُسے برقرار رکھتی ہے تو تعمیراتی کاروباریوں کو بھی چاہیے کہ وہ تعمیرات کی شرح کم رکھیں۔
***** ***** *****
انڈین پریمیر لیگ‘ IPL کے کل کھیلے گئے مقابلے میں ممبئی انڈینس نے کولکاتہ نائٹ رائیڈرس کو پانچ وِکٹ سے ہرادیا۔ ممبئی کے وانکھیڑے اسٹیڈیم میں کھیلے گئے اس مقابلے میں کولکاتہ کی ٹیم نے پہلے بلّے بازی کرتے ہوئے چھ وِکٹ کے نقصان پر 185 رن بنائے۔ جواب میں ممبئی کی ٹیم یہ نشانہ 17 ویں اوور میں حاصل کرگئی۔
ایک دیگر مقابلے میں راجستھان رائلز نے گجرات ٹائٹنز کو تین وِکٹ سے شکست دی۔ پہلے بلّے بازی کرتے ہوئے گجرات کی ٹیم نے مقررہ اووروں میں 177 رن بنائے۔ جواب میں راجستھان کی ٹیم نے مطلوبہ نشانہ 19 ویں اوور میں ہی حاصل کرلیا۔ 
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
آخرمیں اس بلیٹن کی خاص خبریں ایک بار پھر:
٭ ممبئی میں مہاراشٹر بھوشن تقریب میں شرکت کررہے 11 لوگوں کی لُو لگنے سے موت؛ وزیرِ اعلیٰ ایکناتھ شندے نے کیا رنج و غم کا اظہار۔
٭ مہاراشٹر کے سابق وزیرِ اعلیٰ اُدّھو ٹھاکرے نے BJP پر کی تنقید؛ کہا اقتدار کے نشے میں چُور BJP نے غداروں کو اپنے ساتھ ملاکر گرائی ہے مہاراشٹر حکومت۔
٭ مہاراشٹر میں کورونا پازیٹیو مریضوں کی مجموعی تعداد ہوئی 6ہزار کے پار‘ نئی ممبئی میں ہیں سب سے زیادہ کورونا پازیٹیو مریض۔
اور۔۔ ٭ کل کھیلے گئے IPL مقابلے میں ممبئی انڈینس نے کولکاتہ نائٹ رائیڈرس کو ہرایا؛ ایک دیگر مقابلے میں راجستھان رائلز نے گجرات ٹائٹنز کو دی شکست۔
***** ***** *****
0 notes
osarothomprince · 2 years
Text
زمان پارک میں عمران خان نہیں کس سے ملتا ہوں؟ صدر عارف علوی کا حیران کن انکشاف
پی این آئی کے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کریں ۔ اسلام آباد(پی این آئی)صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہاہے کہ زمان پارک میں عمران خان سے نہیں ایک پاپولر پارٹی لیڈر سے ملتا ہوں ۔ صدر عارف علوی سے سی پی این ای وفد نے کاظم خان کی قیادت میں ملاقات کی، کاظم خان…زمان پارک میں عمران خان نہیں کس سے ملتا ہوں؟ صدر عارف علوی کا حیران کن انکشاف
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
121islamforkids · 2 years
Photo
Tumblr media
کہانی:- قائد اعظم سے ملاقات موضوع:- تنظیم ادیبہ انور اگست کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ بازاروں میں جھنڈے، جھنڈیاں، بیج، کپڑے،ٹوپیاں اورہر طرح کا سامان سج گیا تھا۔ لوگ جشن آزادی کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ اسد بھی ہر بار جشن آزادی کی خوب تیاری کرتا تھا۔ لیکن اس بار اس کا کچھ بھی کرنے کو دل نہی کر رہا تھا ۔یہ نہیں کہ اسد کو پاکستان سے محبت نہیں ہے۔ وہ پاکستان سے بہت پیار کرتا ہے۔ اس کا وطن ، پیا را ملک پاکستان۔ لیکن اسد کےدوستوں کے درمیان ہمیشہ کی طرح لڑائی ہو چکی تھی۔ دو دن پہلے ہی وہ سب دوست مل کر جشن آزادی کا پروگرام بنا رہے تھے۔ لیکن ان کا کسی بات پراتفاق نہی ہورہاتھا۔ جشن آزادی کے لئےضروری چیزیں خریدنے کی بات ہو رہی تھی ـ خرم نے کہا!”ہم کل شاپنگ مال جائیں گے اور سارا سامان ایک ہی دفعہ خرید کر لے آئیں گےـ“ جبکہ آصف نے اپنی جیب کاحساب لگایا۔ تواسےلگا،وہاں کافی خرچ ہو جائےگاـ اس لئے کہنے لگا۔”نہیں ہم شاپنگ مال نہیں جائیں گے۔ وہ بہت مہنگا ہے۔ہم اپنی ہی گلی سے جھنڈے وغیرہ خریدیں گے۔ہاں ٹوپیاں اور رومال لینے کے لئے ہم مین بازار چلے جائیں گے۔“اس بات پر خرم اور آصف کی کافی بحث ہوگئی۔ بلاآخر خوب بحث کے بعد طے ہوا کہ آصف اور اسد جھنڈیاں خریدیں گے۔ اورخرم شاپنگ مال جا کر اپنی پسند کے رومال ٹوپیاں اور بیج لے آئے گا۔ اسی بحث میں سارا دن نکل گیا۔ اگلےدن نئی بحث شروع ہو گئی۔ خرم شاپنگ مال سے رومال ٹوپیاں لینے جانے لگا تو جاوید کو نئی سوجھی۔وہ کہنے لگا۔ ”ہم رومال نہیں بلکہ جھنڈے سر پر باندھیں گے۔ اور بیج کی بجائے چہرے پر رنگ کروائیں گے۔“اب جبکہ خرم جانے کے لئےتیار بیٹھا تھا۔ اس کواس بات پرغصہ آیا اوروہ پیرپٹختا ہوا وہاں سے چکا گیا۔ اسدکو یاد آیا کہ پچھلے سال بھی جشن سے ایک دن پہلے احمد اور شرجیل کی لڑائی اس بات پر ہو گئی تھی کہ جشن آزادی کے جلوس میں اپنی بائیک آگے کون رکھے گا۔ لڑائی اتنی بڑھی کہ سب ناراض ہو کر اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ اسد مایوس اور اداس ہو کر واپس آ گیا۔ وہ سوچنے لگاـکہ کیا تھا اگر تھوڑا صبر اور برداشت کا مظاہرہ کرتے تو اس طرح آزادی کا پروگرام بد مزه نہ ہوتا؟ اداس سا اسد ٹی وی کے سامنے بیٹھا،پاک فوج کی پریڈ دیکھ رہا تھا۔فوج میں کس قدر جوش ولولہ اور تنظیم تھی۔ وہ قدم سے قدم ملا کر آگےبڑھ رہے تھے۔ اس کے بعد پاکستان کا ملی ترانہ چلا۔ پاک سر زمین کا نظام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قوت اخوت عوام اسد نے ان حروف کو سنا۔ اسے کچھ خیال آیا ۔ وہ فورا اٹھا اور اپنے کمرے کی طرف چل پرا۔ کمرے میں آ کر اس نے کچھ دیر سوچا ۔ اور اپنی ٹائم ٹریول گھڑی نکال لی۔ وہ ٹائم ٹریول گھڑی جو اس نے https://www.instagram.com/p/Cmk_UjmoqKY/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes