#ڈاکٹر فاطمہ حسن
Explore tagged Tumblr posts
urduchronicle · 1 year ago
Text
اردو ادب کے فروغ میں جتنا حصہ غزل کا ہے، کسی اور صنف کا نہیں، افتخار عارف
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردوکانفرنس 2023 کے تیسرے روز ”اردو غزل کے مشاہیر“ کے عنوان سے سیشن منعقد کیاگیا، جس کی صدارت معروف شاعر افتخار عارف اور افضال احمد سید نے کی۔ جن مشاہیر پر گفتگو کی گئی ان میں منیر نیازی ، جگر مرادآبادی، ادا جعفری، پروین شاکر، ناصر کاظمی، احمد فراز ، اطہر نفیس، جون ایلیا، شکیل جلالی اور عرفان صدیقی شامل تھے۔ غزل کے ان مشاہیر پر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
minhajbooks · 2 years ago
Text
Tumblr media
مخدومۂ کائنات سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کے فضائل و مناقب پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتب
🔰 ’فاطمہ میری جان کا حصہ ہے‘ (اِس حدیث مبارک کے طُرُق اور روایت کرنے والے محدثین کا بیان)
اس کتاب میں مخدومۂ کائنات سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں سرورِ کائنات ﷺ کے فرمان ’فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِّنِّي ‘ کو مختلف طرق کے ساتھ مرتب کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس حدیثِ مبارک کو روایت کرنے والے محدثین کا تذکرہ بھی شاملِ کتاب ہے۔ یہ مختصر کتاب اپنے اندر تاریخی اہمیت سموئے ہوئے ہے۔ https://www.minhajbooks.com/urdu/book/589/Fatima-Meri-Jan-ka-Hissa-hay-Is-Hadith-Mubarak-ky-Turuq-awr-Riwayat-Karny-Waly-Muhadditheen-ka-Bayan/
🔰 ’فاطمہ تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار ہے‘ (اِس حدیث مبارک کے 63 طُرُق کا بیان)
سرورِ کائنات ﷺ نے اس حدیثِ مبارک میں اپنی لختِ جگر سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کو سارے جہانوں کی تمام خواتین کی سردار قرار دیا ہے۔ یوں اس تالیف میں درج بالا حدیثِ مبارک کو تریسٹھ (63) مختلف طُرُق کو یک جا کر کے ایک گل دستے کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ https://www.minhajbooks.com/urdu/book/588/Fatima-Tamam-Jahanon-ki-Awraton-ki-Sardar-hay-Is-Hadith-Mubarak-ky-63-Turuq-ka-Bayan/
🔰 سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کے فضائل و مناقب
اس تالیف میں مخدومۂ کائنات سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کے فضائل و مناقب کو چالیس فصول میں بیان کرکے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ شہزادیِ کونین کا مقام دنیوی و اخروی زندگی میں کس قدر بے مثال رفعتوں کا آئینہ دار ہے اور حضور ﷺ اپنی اس لخت جگر سے کس قدر والہانہ انداز سے محبت فرماتے تھے۔ https://www.minhajbooks.com/english/book/28/Glittering-Pearls-of-the-Virtues-of-Sayyida-Fatima-S-A/
🔰 Fatima (S.A): The Great Daughter of Prophet Muhammad (pbuh)
🔰 اربعین: صحیح بخاری و صحیح مسلم میں مذکور سیدنا علی المرتضیٰ، سیدہ کائنات اور حسنین کریمین علیہم السلام کے فضائل و مناقب
اِس اَربعین میں سیدنا علی، سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراء، امام حسن مجتبیٰ اور امام حسین علیہم السلام کے فضائل و مناقب کو صرف ’صحیح بخاری‘ اور ’صحیح مسلم‘ کی احادیث کی روشنی میں ترتیب دیا گیا ہے۔ بنیادی احادیث تو 41 ہیں لیکن کُل 51 احادیث مختلف موضوعات کے تحت اِس نادِر کتاب میں شامل کی گئی ہیں۔ https://www.minhajbooks.com/urdu/book/568/Arba-in-Sahih-Bukhari-wa-Sahib-Muslim-main-Madhkoor-Sayyiduna-Ali-al-Murtada-Sayyida-Ka-inat-awr-Hasanayn-Karimayn-A-S-ky-Fada-il-o-Manaqib/
🔰 قَرَابَۃُ النَّبِيّ ﷺ
اس کتاب میں مستند دلائل و براہین کی روشنی میں جامع انداز کے ساتھ رسولِ مکرم ﷺ کے اَہلِ بیتِ اَطہار علیھم السلام اور قرابت داران کی طہارت و پاکیزگی ��ور ان کامقام و مرتبہ بیان کیا گیا ہے۔ اَہلِ بیتِ اَطہار علیھم السلام کی شان میں نازل ہونے والی مختلف آیات مبارکہ اور ان کے اطلاق پر مختلف اقوال کا تفصیلی بیان اس کتاب کی زینت ہے۔ مختلف نصوص اور اَقوال کی روشنی میں اَہلِ بیت اَطہار علیھم السلام کے مفہوم پر بحث کرتے ہوئے ثابت کیا گیا ہے کہ اَہلِ بیت اَطہار علیھم السلام سے مراد اُمہات المومنین اور اَہلِ کساء یعنی فاتحِ خیبر حضرت علی، سیدۃ نساء العالمین حضرت فاطمۃ الزہراء اور نوجوانانِ جنت کے سردار حضرات حسنین کریمین علیھم السلام ہی ہیں۔ کتاب کے آخر میں اَہلِ بیت اَطہار علیھم السلام اور قرابت دارانِ مصطفی ﷺ کے فضائل و مناقب پر منتخب احادیث کو جامع انداز سے مرتب کیا گیا ہے۔ اَہلِ بیت اَطہار علیھم السلام کے فضائل اور ان کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تعلقات کے حوالے سے یہ کتاب اپنی مثال آپ ہے۔ https://www.minhajbooks.com/urdu/book/594/Qaraba-al-Nabi/
📧 خریداری کیلئے رابطہ کریں https://wa.me/9203097417163
0 notes
humairqidwai · 3 years ago
Text
ایک ڈاکٹر تھے۔
اکثر ایسا ھوتا کہ وہ نسخے پر ڈسپنسر کے لیئے لکھتے
کہ اس مریض سے پیسے نہیں لینے۔
اور جب کبھی مریض پوچھتا کہ ڈاکٹر صاحب آپ نے پیسے کیوں نہیں لئیے؟
تو وہ کہتے کہ مجھے شرم آتی ھے۔
کہ جس کا نام ابوبکر ھو، عمر ھو، عثمان ھو، علی ھو یا خدیجہ، عائشہ اور فاطمہ ھو
تو میں اس سے پیسے لوں۔
ساری عمر انہوں نے خلفائے راشدینؓ، امہات المومنینؓ
اور بنات رسولﷺ کے ھم نام لوگوں سے پیسے نہ لیئے۔
یہ ان کی محبت اور ادب کا عجیب انداز تھا۔
امام احمد بن حنبل نہر پر وضو فرما رھے تھے
کہ ان کا شاگرد بھی وضوکرنے آن پہنچا،
لیکن فوراً ہی اٹھ کھڑا ھوا اور امام صاحب سے آگے جا کر بیٹھ گیا۔
پوچھنے پر کہا
کہ دل میں خیال آیا کہ میری طرف سے پانی بہہ کر آپ کی طرف آ رہا ھے۔
مجھے شرم آئی کہ استاد میرے مستعمل پانی سے وضو کرے۔
اپنے سگے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے رسول اللہﷺ نے پوچھا
کہ آپ بڑے ہیں یا میں؟
(عمر پوچھنا مقصود تھا)
کہا یارسول اللہﷺ بڑے تو آپ ھی ہیں البتہ عمر میری زیادہ ھے۔
مجدد الف ثانی رات کو سوتے ھوئے یہ احتیاط بھی کرتے
کہ پاؤں استاد کے گھر کی طرف نہ ھوں
اور بیت الخلا جاتے ھوئے یہ احتیاط کرتے
کہ جس قلم سے لکھ رہا ھوں اس کی کوئی سیاھی ہاتھ پر لگی نہ رہ جائے۔
ادب کا یہ انداز اسلامی تہذیب کا طرہ امتیاز رہا ھے
اور یہ کوئی برصغیر کے ساتھ ھی خاص نہ تھا
بلکہ جہاں جہاں بھی اسلام گیا اس کی تعلیمات کے زیر اثر ایسی ہی تہذیب پیدا ھوئی
جس میں بڑوں کے ادب کو خاص اھمیت حاصل تھی
کیوں کہ رسول اللہﷺ کا یہ ارشاد سب کو یاد تھا
کہ جو بڑوں کا ادب نہیں کرتا اور چھوٹوں سے پیار نہیں کرتا وہ ھم میں سے نہیں۔
ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرا
کہ لوگ ماں باپ کے برابر بیٹھنا،
ان کے آگے چلنا اور ان سے اونچا بولنا برا سمجھتے تھے
اور اُن کے حکم پر عمل کرنا اپنے لیے فخر جانتے تھے۔
اس کے صدقے اللہﷻ انہیں نوازتا بھی تھا۔
اسلامی معاشروں میں یہ بات مشہور تھی
کہ جو یہ چاہتا ھے کہ اللہﷻ اس کے رزق میں اضافہ کرے
وہ والدین کے ادب کا حق ادا کرے۔
اور جو یہ چاہتا ھے کہ اللہﷻ اس کے علم میں اضافہ کرے وہ استاد کا ادب کرے۔
ایک دوست کہتے ہیں کہ
میں نے بڑی مشقت سے پیسہ اکٹھا کر کے پلاٹ لیا تو والد صاحب نے کہا
کہ بیٹا تمہارا فلاں بھائی کمزور ھے
یہ پلاٹ اگر تم اسے دے دو تو میں تمہیں دعائیں دوں گا۔
حالانکہ وہ بھائی والدین کا نافرمان تھا۔
اس (دوست) کا کہنا ھے کہ
عقل نے تو بڑا سمجھایا کہ یہ کام کرنا حماقت ھے
مگر میں نے عقل سے کہا کہ اقبال نے کہا ھے،
اچھا ھے دل کے ساتھ رھے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے،
چنانچہ عقل کو تنہا چھوڑا اور وہ پلاٹ بھائی کو دے دیا۔
کہتے ہیں کہ والد صاحب بہت خوش ھوئے
اور انہی کی دعا کا صدقہ ھے کہ آج میرے کئی مکانات اور پلازے ہیں
جب کہ بھائی کا بس اسی پلاٹ پر ایک مکان ھے۔
والدین کی طرح
استاد کا ادب بھی اسلامی معاشروں کی ایک امتیازی خصوصیت تھی
اور اس کا تسلسل بھی صحابہؓ کے زمانے سے چلا آرہا تھا۔
حضور ﷺ کے چچا کے بیٹے ابن عباسؓ
کسی صحابی سے کوئی حدیث حاصل کر نے جاتے تو جا کر اس کے دروازے پر بیٹھ رہتے۔
اس کا دروازہ کھٹکھٹانا بھی ادب کے خلاف سمجھتے
اور جب وہ صحابیؓ خود ھی کسی کام سے باہر نکلتے
تو ان سے حدیث پوچھتے
اور اس دوران سخت گرمی میں پسینہ بہتا رہتا، لو چلتی رہتی
اور یہ برداشت کرتے رہتے۔
وہ صحابی شرمندہ ھوتے اور کہتے
کہ آپؓ تو رسول اللہﷺ کے چچا کے بیٹے ہیں آپ نے مجھے بلا لیا ھوتا
تو یہ کہتے کہ میں شاگرد بن کے آیا ھوں، آپ کا یہ حق تھا کہ میں آپ کا ادب کروں
اور اپنے کا م کے لیے آپ کو تنگ نہ کروں۔
کتنی ھی مدت ھمارے نظام تعلیم میں یہ رواج رہا
(بلکہ اسلامی مدارس میں آج بھی ھے)
کہ ہر مضمون کے استاد کا ایک کمرہ ھوتا، وہ وہیں بیٹھتا اور شاگرد خود چل کر وہاں پڑھنے آتے
جب کہ اب شاگرد کلاسوں میں بیٹھے رہتے ہیں
اور استاد سارا دن چل چل کر ان کے پاس جاتا ھے۔
مسلمان تہذیبوں میں یہ معاملہ صرف والدین اور استاد تک ھی محدود نہ تھا
بلکہ باقی رشتوں کے معاملے میں بھی ایسی ھی احتیاط کی جاتی تھی۔
وہاں چھوٹا، چھوٹا تھا اور بڑا، بڑا۔
چھوٹا عمر بڑھنے کے ساتھ بڑا نہیں بن جاتا تھا بلکہ چھوٹا ھی رہتا تھا۔
ابن عمرؓ جا رہے تھے کہ ایک بدو کو دیکھا۔
سواری سے اترے، بڑے ادب سے پیش آئے اور اس کو بہت سا ہدیہ دیا۔
کسی نے کہا کہ
یہ بدو ہے تھوڑے پہ بھی راضی ھو جاتا آپ نے اسے اتنا عطا کر دیا۔
فرمایا کہ یہ میرے والد صاحب کے پاس آیا کرتا تھا
تو مجھے شرم آئی کہ میں اس کا احترام نہ کروں۔
اسلامی تہذیب کمزور ھوئی تو بہت سی باتوں کی طرح حفظ مراتب کی یہ قدر بھی اپنی اھمیت کھو بیٹھی۔
اب برابر ی کا ڈھنڈورا پیٹا گیا اور بچے ماں باپ کے برابر کھڑے ھوگئے اور شاگرد استاد کے برابر۔
جس سے وہ سار ی خرابیاں در آئیں جو مغربی تہذیب میں موجود ہیں۔
اسلام اس مساوات کا ھرگز قائل نہیں کہ جس میں ابوبکرؓ اور ابوجہل برابر ھو جائیں۔
ابو بکرؓ ابوبکرؓ رہیں گے اور ابو جہل ابو جہل رھے گا۔
اسی طرح استاد، استاد رھے گا اور شاگرد، شاگرد۔
والد، والد رھے گا اور بیٹا، بیٹا۔
سب کا اپنا اپنا مقام اور اپنی اپنی جگہ ھے
اُن کو اُن کے مقام پر رکھنا اور اس کے لحاظ سے ادب و احترا م دینا ھی تہذیب کا حسن ھے۔
مغربی تہذیب کا مسلمان معاشروں پہ سب سے بڑا وار (شاید) اسی راستے سے ھوا ھے
جب کہ مسلمان عریانی اور فحاشی کو سمجھ رھے ہیں۔
عریانی اور فحاشی کا برا ھونا سب کو سمجھ میں آتا ھے
اس لیئے اس کے خلاف عمل کرنا آسان ھے
جب کہ حفظِ مراتب اور محبت کے آداب کی اھمیت کا سمجھ آنا مشکل ھے
اس لیئے یہ قدر تیزی سے رُو بہ زوال ھے۔
0 notes
azharniaz · 4 years ago
Text
ام کلثوم (گلو کارہ) وفات 3 فروری
ام کلثوم (گلو کارہ) وفات 3 فروری
ام کلثوم (اصل نام فاطمہ ابراہیم)مصری مغنیہ۔ 30 دسمبر، 1898ء سلطنت عثمانیہ میں ایک کسان گھرانے میں پیداہوئیں۔ اُنہوں نے باقاعدہ تعلیم نہیں پائی۔ 1954ء میں‌قاہرہ کے ڈاکٹر حسن الخضری سے شادی ہوئی۔ مصری کہتے ہیں کہ اہرام مصر اور ام کلثوم کی آواز کو ثبات دوام حاصل ہے۔ عرب کلاسیکی موسیقی میں کافی مہارت حاصل کی۔ ان کی آواز تمام عرب علاقوں میں آج بھی مقبول ہے۔ انہیں کوکب الشرق (مشرق کا ستارہ) اور سیدۃ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
nzahra29 · 7 years ago
Text
ادب پہلا قرینہ ہے JANUARY 16, 2018سیما آفتاب
Tumblr media
*ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں*
منقول
وہ ایک ہومیو پیتھک ڈاکٹر تھے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ وہ نسخے پر ڈسپنسر کے لیے لکھتے کہ اس مریض سے پیسے نہیں لینے۔ اور جب کبھی مریض پوچھتا کہ ڈاکٹر صاحب آپ نے پیسے کیوں نہیں لیے؟ تو کہتے کہ مجھے شرم آتی ہے کہ جس کا نام صدیق ہو، عمر ہو، عثمان ہو، علی ہو یا خدیجہ، عائشہ اور فاطمہ ہو تو میں اس سے پیسے لوں۔ ساری عمر انہوں نے خلفائے راشدین، امہات المومنین اور بنات رسولﷺ کے ہم نام لوگوں سے پیسے نہ لیے۔ یہ ان کی محبت اور ادب کا عجیب انداز تھا۔
امام احمدبن حنبل نہر پر وضو فرما رہے تھے کہ ان کا شاگرد بھی وضو کرنے آن پہنچا، لیکن فوراً ہی اٹھ کھڑا ہوا اور امام صاحب سے آگے جا کر بیٹھ گیا۔ پوچھنے پر کہا کہ دل میں خیال آیا کہ میری طرف سے پانی بہہ کر آپ کی طرف آ رہا ہے۔ مجھے شرم آئی کہ استاد میرے مستعمل پانی سے وضوکرے۔
صحابی رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کہ آپ بڑے ہیں یا میں؟ (عمر پوچھنا مقصود تھا) صحابی نے کہا یا رسول اللہﷺ بڑے تو آپ ہی ہیں البتہ عمر میری زیادہ ہے۔
مجدد الف ثانی ؒ رات کو سوتے ہوئے یہ احتیاط بھی کرتے کہ پاؤں استاد کے گھر کی طرف نہ ہوں اور بیت الخلاء جاتے ہوئے یہ احتیاط کرتے کہ جس قلم سے لکھ رہا ہوں اس کی کوئی سیاہی ہاتھ پر لگی نہ رہ جائے۔
ادب کے یہ انداز اسلامی تہذیب کا طرہ امتیاز رہا ہے اور یہ کوئی برصغیر کے ساتھ ہی خاص نہ تھا بلکہ جہاں جہاں بھی اسلام گیا اس کی تعلیمات کے زیر اثر ایسی ہی تہذیب پیدا ہوئی جس میں بڑوں کے ادب کو خاص اہمیت حاصل تھی کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد سب کو یاد تھا کہ جو بڑوں کا ادب نہیں کرتا اور چھوٹوں سے پیا ر نہیں کرتاوہ ہم میں سے نہیں۔
ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرا کہ لوگ ماں باپ کے برابر بیٹھنا، ان کے آگے چلنا اور ان سے اونچا بولنا برا سمجھتے تھے اور اُن کے حکم پر عمل کرنا اپنے لیے فخر جانتے تھے۔ اس کے صدقے اللہ انہیں نوازتا بھی تھا۔ اسلامی معاشروں میں یہ بات مشہور تھی کہ جو یہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کے رزق میں اضافہ کرے وہ والدین کے ادب کا حق ادا کرے اور جو یہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کے علم میں اضافہ کرے وہ استاد کا ادب کرے۔
والدین کی طرح استاد کا ادب بھی اسلامی معاشروں کی ایک امتیازی خصوصیت تھی اور اس کا تسلسل بھی صحابہ کے زمانے سے چلا آر ہا تھا۔ حضور ﷺ کے چچا کے بیٹے ابن عباسؓ کسی صحابی سے کوئی حدیث حاصل کر نے جاتے تو جا کر اس کے دروازے پر بیٹھ رہتے۔ اس کا دروازہ کھٹکھٹانا بھی ادب کے خلاف سمجھتے اور جب وہ صحابی خود ہی کسی کا م سے باہر نکلتے تو ان سے حدیث پوچھتے اور اس دوران سخت گرمی میں پسینہ بہتا رہتا، لو چلتی رہتی اور یہ برداشت کرتے رہتے۔ وہ صحابی شرمندہ ہوتے اور کہتے کہ آپ تورسول اللہ کے چچا کے بیٹے ہیں آپ نے مجھے بلا لیا ہوتا تو یہ کہتے کہ میں شاگرد بن کے آیا ہوں ، آپ کایہ حق تھا کہ میں آپ کا ادب کروں اور اپنے کا م کے لیے آپ کو تنگ نہ کروں۔
کتنی ہی مدت ہمارے نظام تعلیم میں یہ رواج رہا (بلکہ اسلامی مدارس میں آج بھی ہے) کہ ہر مضمون کے استاد کا ایک کمر ہ ہوتا، وہ وہیں بیٹھتا اور شاگرد خود چل کر وہاں پڑھنے آتے جبکہ اب شاگر د کلاسوں میں بیٹھے رہتے ہیں اور استاد سارا دن چل چل کر ان کے پاس جاتا ہے۔
مسلمان تہذیبوں میں یہ معاملہ صرف والدین اور استاد تک ہی محدود نہ تھا بلکہ باقی رشتوں کے معاملے میں بھی ایسی ہی احتیاط کی جاتی تھی۔ وہاں چھوٹا، چھوٹا تھا اور بڑا ، بڑا۔ چھوٹا عمر بڑھنے کے ساتھ بڑا نہیں بن جاتا تھا بلکہ چھوٹا ہی رہتا تھا۔
اسلامی تہذیب کمزور ہوئی تو بہت سی باتوں کی طرح حفظ مراتب کی یہ قدر بھی اپنی اہمیت کھو بیٹھی۔اب برابر ی کا ڈھنڈورا پیٹا گیا اور بچے ماں باپ کے برابر کھڑے ہوگئے اور شاگرد استاد کے برابر۔ جس سے وہ ساری خرابیاں در آئیں جو مغربی تہذیب میں موجود ہیں۔
اسلام اس مساوات کا ہر گز قائل نہیں کہ جس میں گھوڑا اور گدھا برابر ہو جائیں اور ابوبکر اور ابو جہل برابر۔اسلام کا یہ کہنا ہے کہ لاکھ زمانہ بدلے مگر ابو بکر، ابو بکر رہے گا اور ابو جہل، ابو جہل۔ گھوڑا، گھوڑا ہی رہے گا اور گدھا، گدھا۔ اسی طرح استاد ، استاد رہے گا اور شاگر د، شاگر د۔ والد، والد رہے گا اور بیٹا، بیٹا۔ سب کا اپنا اپنا مقام اور اپنی اپنی جگہ ہے اُن کے اُن کے مقام پر رکھنا اور اس کے لحاظ سے ادب و احترا م دینا ہی تہذیب کا حسن ہے ۔
مغربی تہذیب کامسلمان معاشروں پہ سب سے بڑا وار اسی راستے سے ہوا ہے جبکہ مسلمان عریانی اور فحاشی کو سمجھ رہے ہیں۔ عریانی اور فحاشی کا برُا ہونا سب کو سمجھ آتا ہے اس لیے اس کے خلاف عمل کرنا آسان ہے جبکہ حفظِ مراتب اور محبت کے آداب کی اہمیت کا سمجھ آنا مشکل ہے اس لیے یہ قدر تیزی سے رو بہ زوال ہے اور معاشرے کی توڑ پھوڑ بھی اسی تیزی سے جاری ہے۔
فی زمانہ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اس قدر کی اہمیت اجاگر کریں۔حفظ مراتب کا خیال رکھیں، بڑے کو بڑا سمجھیں اور چھوٹے کو چھوٹا اور انہیں ان کے مقام کے لحاظ سے ان کا حق دیں۔ یہ بات ازبر ہونا ازحد اہم ہے کہ جس محبت سے ادب خارج ہو جائے وہ محبت بس ایک دعویٰ تو ہے حقیقت نہیں۔ ہر رشتے کی محبت ایک خاص ادب اور آداب چاہتی ہے۔ ان آداب کا پورا کرنا ہی محبت کا حق ادا کرنا ہے ۔
دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک تو اللہ کی، رسول کی بات کو اس لیے مانتے ہیں کہ ان کی سمجھ میں آگئی ہے اور قرین عقل ہے. اور دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو اللہ کی، رسول کی، والدین کی، استاد کی بات محض اس لیے مان لیتے ہیں کہ بس ان کا کہنا ہی کافی ہے۔
ہماری نظر میں دوسری قسم کے لوگ نہ صرف اس دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی آگے بڑھنے والے ہیں۔ آخرت میں اس لیے کہ انہوں نے اپنی عظمت کی نفی کی اور دنیا میں اس لیے کہ جن کی مان کر انہوں نے عمل کیا وہ بھلا پھر ان کوکہاں ’’گرنے‘‘ دیں گے۔ اگر خود سہارا نہ بن سکے تو ان کی دعائیں سہارا بنیں گی اور دعا یقیناً سب سے بڑا سہارا ہے۔ کہ جہاں سب سہارے ساتھ چھوڑجاتے ہیں وہاں کسی کی دی ہوئی دعا آگے بڑھ کر تھام لیتی ہے ۔
*تو ہے کوئی دعا لینے والا۔۔۔۔۔۔ !
12 notes · View notes
risingpakistan · 4 years ago
Text
پاکستان میں کب، کس کس کو غدار کہا گیا ؟
پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کو اپوزیشن جماعتوں کی کل جماعتی کانفرنس میں خطاب کے بعد ایک بار پھر غداری کے الزامات کا سامنا ہے۔ صرف نواز شریف ہی نہیں بلکہ ان کی صاحبزادی مریم نواز کے بارے میں بھی حکومتی ترجمان شہباز گل انڈین شہریوں سے ملاقاتوں کے الزامات عائد کر رہے ہیں اور اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک کو انڈین ایجنڈا قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان میں کسی سیاسی رہنما کو غدار قرار دیا گیا ہو۔  
کب کس کو غدار کہا گیا؟ تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان میں اپنے کسی بھی سیاسی حریف کو غدار قرار دینے کا سلسلہ ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے حسین شہید سہروردی کو قرار دے کر شروع کیا تھا۔ اس کے بعد ایوب دور میں قائداعظم کی ہمشیرہ اور صدارتی امیدوار فاطمہ جناح کو غدار قرار دیا گیا۔ خدائی خدمت گار تحریک کے خان عبدالغفار خان کو بھی غدار کہا گیا۔ بھٹو دور میں نیشنل عوامی پارٹی اور اس کے رہنماؤں پر غداری کے مقدمات قائم ہوئے۔ پھر اسی ذوالفقار بھٹو کو ملک دو لخت کرنے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا اور پیپلز پارٹی تمام تر کوششوں کے باوجود ’ادھر تم اور ادھر ہم‘ کے مبینہ بیان جیسے دھبے کو مٹا نہیں سکی۔ جام صادق اور غلام مصطفیٰ کھر پر بھی غداری کے الزامات لگے اور انھیں انڈین ایجنٹ قرار دیا گیا۔ عبد الصمد خان اچکزئی، عطاءاللہ خان مینگل، غوث بخش بزنجو، خیر بخش مری بھی غداری کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے والوں میں شامل ہیں۔ ضیا دور میں ایم آر ڈی کے کئی راہنماؤں کو بھی غداری کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔
سینیئر صحافی ضیاالدین نے ’اردو نیوز‘ سے گفتگو میں کہا کہ عموماً غداری کے ان الزامات کا مقصد ناپسند سیاست دانوں کو عوام میں بدنام کرنا ہوتا ہے۔ ماضی میں بنگال، سندھ اور بلوچستان کے رہنماؤں کو غدار کہا جاتا تھا تاکہ ملک کی بڑی آبادی یعنی پنجاب میں ان کو بدنام کیا جائے۔‘ مکافات عمل کہیے یا سیاسی مجبوریاں کہ نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کو سیکیورٹی رسک قرار دیا تو بلاول بھٹو زرداری نے انھیں ’مودی کا یار‘ قرار دے کر بدلہ لے لیا۔ تاہم کچھ ہی دنوں بعد وہ اپنے اس بیان سے یہ کہہ کر مکر گئے کہ ’میں منتخب وزیر اعظم کو غدار ��ہیں کہہ سکتا۔‘ ڈان لیکس میں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو غدار قرار دے کر سوشل میڈیا پر ان کے خلاف بھرپور مہم چلی۔ نواز شریف کی انڈین بزنس مین سجن جندال سے مری میں ہونے والی ملاقات کو بنیاد بنا کر بھی ان کو سیکیورٹی رسک قرار دیا جاتا رہا ہے بلکہ ان کی بحیثیت وزیر اعظم انڈین قیادت سے ہونے والی ملاقاتوں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔
ضیا الدین کے مطابق ’پنجاب بالخصوص وسطی پنجاب میں اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے غدار قرار دیے گئے افراد کو غدار کے طور پر قبول کر لیا جاتا ہے۔ اب پہلی بار ہے کہ اسی پنجاب کے لوگوں کو غدار قرار دیا جا رہا ہے اسی وجہ سے اس الزام کو عوامی مقبولیت حاصل ہونے میں مشکل ہو رہی ہے۔‘ صرف سیاست دان ہی نہیں پاکستان میں شاعروں اور ادیبوں کو بھی غداری کے فتووں کا سامنا رہا ہے۔ فیض احمد فیض، جالب اور موجودہ وزیر اطلاعات شبلی فراز کے والد احمد فراز بھی ’غداروں‘ کی فہرست میں شامل رہے ہیں۔ سینیئر صحافی ضیا الدین کا کہنا ہے کہ ’آج تک جس پر اس طرح سے غداری کا الزام لگا ہے عدالتوں میں یا تو اسے کبھی لے جایا ہی نہیں گیا یا پھر کبھی ثابت نہیں کیا جا سکا۔ 
تاہم جس پر الزام لگا اس کو کسی نہ کسی طریقے سے سزا ضرور دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ شیخ مجیب پر الزام لگا تو بنگلہ دیش بنا دیا، بھٹو کو قتل کے مقدمے میں پھانسی لگوا دی گئی۔ ولی خان اور ایم آر ڈی کے لوگوں کو جیلوں میں بھیج دیا گیا لیکن ان پر مقدمات ثابت نہیں کیا جا سکے۔‘ معروف محقق ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا تھا کہ ’جن پر الزام لگتا ہے اگر وہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ الزام غلط ہے تو انھیں ہتک عزت کا دعویٰ کرنا چاہیے۔ اگر وہ کیس دائر نہیں کرتے تو یہ الزام قبول کرنے کے مترادف ہے۔‘ ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ ’ہتک عزت کا دعویٰ دائر کرنے کا کلچر پروان چڑھنا چاہیے۔ ورنہ ہمارے ہاں جو کسی کے منہ میں آتا ہے دوسرے کے بارے میں بغیر کسی دلیل اور تحقیق کے کہہ دیتا ہے۔ یہ سلسلہ ہتک عزت کے مقدمات سے ہی رک سکتا ہے۔‘ِ
بشیر چوہدری 
بشکریہ اردو نیوز
0 notes
pakistantime · 4 years ago
Text
اصغر مال کالج : جسم کا رؤاں رؤاں اس درسگاہ کا شکر گزار ہے
اس کالم کی پہلی قسط ڈاکٹر شاہد صدیقی نے دو تین دن پہلے انہی صفحات پر لکھی‘ گویا دبستاں کھول دیا ع بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں گورنمنٹ کالج اصغر مال میری بھی مادر درسگاہ (Alma Mater) ہے۔ اس کے درودیوار میرے بھی دل پر نقش ہیں۔ دو سال جو وہاں گزرے‘ ڈھاکہ یونیورسٹی میں گزارے گئے عرصہ کے بعد‘ عمر کے بہترین دو سال ہیں۔ سترہ سال کا تھا جب بی اے کے لیے اس عظیم الشان دارالعلم میں داخل ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب درسگاہیں واقعی درسگاہیں تھیں۔علم بھی بٹتا تھا تربیت بھی دی جاتی تھی۔ تعلیمی ادارے ابھی یرغمال نہیں بنے تھے۔ تقاریب میں اہلِ سیاست نہیں اہلِ علم تشریف لاتے تھے۔ اس کالج میں حفیظ جالندھری کے ہاتھوں سے انعام حاصل کیا۔ قادرالکلام شاعر‘ معرکہ آرا شعری مجموعے‘‘ ہفت کشور'' کے مصنف جعفر طاہر کو پہلی اور آخری بار یہیں دیکھا۔ وہ کچھ کچھ سیہ فام تھے۔ سٹیج پر جہاں وہ کھڑے تھے‘ ان کے پیچھے کالے رنگ کا پردہ تھا۔ طلبہ نے شور مچایا کہ جعفر طاہر نظر نہیں آرہے اس لیے پیچھے سے ک��لے رنگ کا پردہ ہٹایا جائے۔ ڈاکٹر کنیز فاطمہ یوسف کے‘ جو قائد اعظم یونیورسٹی میں تھیں‘ لیکچر یہیں سنے۔ کیا تقریر ہوتی تھی ان کی شستہ انگریزی میں‘ دریا کی روانی کے مانند !
اس زمانے کے دو بہترین ماہرینِ تعلیم ہمارے پرنسپل رہے۔ پروفیسر اشفاق علی خان اور ڈاکٹر سید صفدر حسین ! پروفیسر اشفاق علی خان کو کون نہیں جانتا۔ الحمزہ کے نام سے برسوں انگریزی کالم لکھتے رہے۔ سٹیل انڈسٹری قائم کرنے کے بہت بڑے مبلغ تھے اور سول سروس کے ناقد۔ ہمیں ان کی ایک تلقین یہ بھی ہوتی تھی کہ جوتے صاف رکھا کرو۔ ان کے صاحبزادے کامران علی خان اسی کالج میں میرے کلاس فیلو تھے۔ سی ایس ایس کر کے انفارمیشن سروس میں آئے۔ شاید میرے بیچ میٹ تھے۔ اس زمانے میں کامن ٹریننگ نہیں تھی اور ہر گروپ کی تربیت الگ الگ ہوتی تھی۔ عجیب اتفاق ہے کہ کالج چھوڑنے کے بعد آج تک کامران سے ملاقات نہیں ہوئی۔ ڈاکٹر سید صفدر حسین شاعر بھی تھے۔ معرّا نظم کہتے تھے۔ نظم سنانے کا انداز ان کا خاص تھا۔ محفل پر چھا جاتے تھے۔ نظموں کے کئی مجموعے تھے جن میں ''رقص ِطاؤس‘‘ بہت مشہور ہوا۔ پروفیسر اقبال بخت ہمارے اکنامکس کے پروفیسر تھے۔ ہمیشہ سفید براق پتلون شرٹ میں ملبوس۔ 
یہاں یہ ذکر بھی ہو جائے کہ اُس عہد میں کالجوں کے اساتذہ خوش لباس ہوتے تھے اور اس حوالے سے طلبہ کے آئیڈیل ! بہترین سوٹ میں ملبوس۔ اور گرما میں بہترین قمیض اور پینٹ! برسوں بعد اسی اپنے کالج میں ایک پروفیسر دوست کے ساتھ گیا۔ سٹاف روم میں اساتذہ کی ہیئت کذائی اور لباس کا انداز دیکھا تو دم گھٹنے لگا۔ بغیر استری کے شلوار قمیضیں ! اکثر نے واسکٹ نہیں پہنی ہوئی تھی اور کچھ کے پیروں میں چپلیں تھیں۔ پروفیسر سجاد حیدر ملک ہمیں انگریزی شاعری اور ڈراما پڑھاتے تھے۔ ادب کا ذوق رکھتے تھے اور پڑھاتے ہوئے مسحور کر دیتے تھے۔ میں اکثر انہیں کسی گوشے میں بیٹھ کر ٹائم یا نیوزویک میگزین پڑھتے دیکھتا۔ غالبا وہ اُس زمانے کے بڑے انگریزی روزنامے ''پاکستان ٹائمز‘‘ میں بھی کام کرتے تھے۔ ہماری خوش قسمتی یہ تھی کہ کلاسیکی انگریزی شاعری کی جگہ جدید شاعری کورس میں رکھی گئی تھی۔ اس کتاب کا نام تھا An Anthology of Modern English Verse۔ اس میں ٹی ایس ایلیٹ سے لے کر رالف ہاجسن تک سب نئے شعرا تھے۔ ساٹھ میں سے اکثر نظمیں زبانی یاد ہو گئی تھیں۔ استادِ مکرم پروفیسر سجاد حیدر سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں مقیم ہیں۔
دوست عزیز شاہد مسعود ملک نے از راہ کرم ان کا ایڈریس اور فون نمبر عطا کیا۔ پروفیسر صاحب سے بات کی تو آواز سے ان کی صحت اچھی لگ رہی تھی۔ فرمانے لگے : آج کل خط لکھنے کا رواج نہیں رہا‘ تم مجھے خط لکھو۔ انگریزی ہی کے شعبے میں پروفیسر نذیر بھی تھے۔ سرخ گلابی رنگ کا چہرہ۔ ایک باکمال استاد! پھر وہ نئی نئی اٹھتی ہوئی پیپلز پارٹی کی نذر ہو گئے اور ایک دن ہم نے سنا کہ وفاقی وزیر خورشید حسن میر کے سیکرٹری تعینات ہو گئے۔ کہاں پروفیسری کی بادشاہی اور بلند باعزت مقام اور کہاں دربار کی ملازمت‘ مگر اُن کا اپنا نقطہ نظر تھا! بہت کم اداروں میں ایم اے کی کلاسیں تھیں‘ مگر ہمارے کالج میں اُس زمانے میں تین مضامین میں ایم اے کرایا جا رہا تھا۔ جغرافیہ‘ ریاضی اور اکنامکس۔ ادبی اور ثقافتی سرگرمیاں باقاعدگی سے منعقد ہوتی تھیں۔ کالج میگزین '' کوہسار‘‘ کے نام سے شائع ہوتا تھا۔ حصۂ اردو کا ایڈیٹر مجھے مقرر کیا گیا۔ بزم ِادب فعال تھی۔ ہم اس میں اپنی تازہ کہی ہوئی غزلیں اور نظمیں سناتے جن پر باقاعدہ تنقید کی جاتی۔ 
کالج میں اکثر مشاعرے ہوتے۔ ملک بھر کے تعلیمی اداروں کے مشاعروں میں اپنے کالج کی نمائندگی کی۔ اسلامیہ کالج لاہور کے شہرہ آفاق'' شمع تاثیر‘‘ کے مشاعرے سے بھی اپنے کالج کے نام پر انعام حاصل کیا۔ انہی دنوں کالج کینٹین پر بیٹھے تھے کہ کسی طالب علم نے بتایا کہ ظفر اقبال کا نیا شعری مجموعہ '' گلافتاب‘‘ چھپا ہے اور چھپتے ہی ازحد متنازعہ ہو گیا ہے۔ فوراً حاصل کیا اور سوائے آخری حصے کے جو '' مشکل‘‘ ہے باقی سارا حفظ ہو گیا۔ یہ ظفراقبال سے طویل تعلق اور عقیدت کی یک طرفہ ابتدا تھی۔ پھر وہ دن بھی آیا کہ انہوں نے کُلبۂ احزاں کو قیام سے مشرف کیا اور اس بے بضاعت کو حکم دیا کہ '' آبِ رواں‘‘ کے نئے ایڈیشن کے لیے فلیپ لکھوں۔ اس حکم کی تعمیل ہوئی۔ حافظہ خوب شعر پسند تھا۔ کالج کے دورانیہ میں احمد ندیم قاسمی کی ''دشتِ وفا‘‘، ناصر کاظمی کی'' برگِ نے‘‘، مجید امجد کی'' شب ِرفتہ‘‘ اور فراز کی ''درد آشوب‘‘ مکمل کی مکمل حفظ تھیں۔ عدم اور جوش کے بھی بے شمار اشعار یاد تھے۔ یوسف ظفر کے صاحبزادے نوید ظفر مرحوم ( جو بعد میں پی ٹی وی میں اعلیٰ مناصب پر رہے ) ایک سال سینئر تھے۔ ایک دن کہنے لگے کہ کالج لائبریری میں انہیں اپنے والد کی فلاں کتاب نہیں ملی۔ پوچھا‘ کون سی نظم کی ضرورت پڑ گئی؟ بتایا تو وہ نظم انہیں زبانی سنا دی !
پھر امتحان ہوا اور کالج سے جدائی کا مرحلہ آیا۔ ڈر تھا کہ فیل نہ ہو جاؤں۔ نتیجہ آیا تو کالج میں پہلی پوزیشن تھی۔ رول آف آنر بھی ملا۔ کچھ برسوں بعد کالج جانا ہوا تو مین ہال میں دیواروں پر سال بہ سال رول آف آنر لینے والوں کے نام آویزاں دیکھے۔ صرف 1967 ء والی جگہ خالی تھی کہ اُس سال میں نے لیا تھا بقول ناصر کاظمی ؎
کتنی مردم شناس ہے دنیا منحرف بے حیا ہمیں سے ہوئی
ایم اے اکنامکس کے لیے داخلہ اصغر مال کالج ہی میں لیا۔ پروفیسر اصغری شریف صدر شعبہ تھیں۔ مجموعی ( ایگریگیٹ ) نمبروں کی بنیاد پر پنجاب یونیورسٹی کا سکالرشپ بھی ہو گیا۔ اسی اثنا میں مشرقی پاکستان کے لیے بین الصوبائی فیلو شپ کا مقابلہ ہوا۔ خوش بختی سے ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبہ اقتصادیات کی نشست مل گئی۔ یہ ایک نئی دنیا تھی۔ اڑھائی تین سال وہاں گزارنے اور پورا مشرقی بنگال دیکھنے کا فائدہ یہ ہوا کہ آج مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اصل عوامل سے بخوبی آگاہی ہے۔ اور یہ جو ہر سال سولہ دسمبر کو بھانت بھانت کے نام نہاد تجزیے نظر آتے ہیں ان کا کھوکھلا پن واضح ہے۔ اصغر مال کالج کے کلاس روم اور چھلکتے برآمدے آج بھی دل میں آباد ہیں ! جسم کا رؤاں رؤاں اس درسگاہ کا شکر گزار ہے۔ اس کی لائبریری کے بے پناہ احسانات ہیں۔ اس کے اساتذہ میرے لیے مقدس ہیں۔  
شاد باد اے عشق خوش سودائی ما
محمد اظہارالحق
بشکریہ دنیا نیوز
0 notes
bazmeurdu · 7 years ago
Text
فیض احمد فیض : بچپن سے اسیری تک
فیض احمد فیض سیالکوٹ کے ایک جاٹ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ 13 فروری 1911ء کو سلطان محمد کے گھر گائوں ’’کالا قادر‘‘ نزد نارووال ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سلطان محمد معروف وکیل تھے۔ فیض کے ذہن پر ان کے والد کی شخصیت کا گہرا اثر تھا۔ ان کے والد ایک شاندار شخصیت کے مالک تھے وہ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ انہیں علم و ادب سے بھی گہرا شغف تھا۔ اپنے عہد کی نامور ہستیاں شیخ عبدالقادر‘ علامہ سید سلیمان ندوی، صاحبزادہ آفتاب احمد خان وغیرہ سے ان کے ذاتی مراسم تھے۔ ان کی دو انگریزی تصانیف عبدالرحمن کی سوانح عمری اور افغانستان کے دستوری قوانین مشہور ہیں۔ 
آپ کی والدہ کا نام غلام فاطمہ تھا جو دیندار خاتون تھیں۔ فیض احمد فیض کی ابتدائی تعلیم کا آغاز روایتی طریقے سے ہوا اور والدہ سے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کی۔ فیض نے تین سپارے بچپن میں حفظ بھی کئے تھے مگر آنکھوں میں تکلیف ہونے لگی اور ڈاکٹروں نے منع کر دیا اور اس سعادت سے محروم رہے۔ 1916ء میں فیض کو مولانا ابراہیم کے مدرسے میں داخل کر دیا گیا۔ جہاں انہوں نے ابجد پڑھی‘ عربی فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ قرآن و حدیث کا درس بھی ان سے لیا۔ اس سے فارغ ہونے کے بعد 1921ء میں اسکاٹ مشن ہائی سکول سیالکوٹ میں داخل ہوئے اور جماعت چہارم سے میٹرک تک یہاں پر تعلیم حاصل کی۔ فیض کو ابتدا ہی سے ادب سے لگائو تھا اور سکول کے زمانے میں ہی وہ عبدالحلیم شرر اور پنڈت رتن ناتھ سرشار کے ناول پڑھ چکے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ داغ‘ میرؔ اور غالبؔ کا کلام پڑھنے سے ان میں شعری ذوق پیدا ہوا۔ 
میٹرک تک بہت سے انگریز ادیبوں کو بھی پڑھ چکے تھے۔ 1927ء میں میٹرک کا امتحان درجہ اول میں پاس کیا اور مرے کالج سیالکوٹ سے 1929 میں ایف اے کے امتحان میں بھی اول آئے۔ ��س کالج میں علامہ اقبالؒ کے استاد مولوی میر حسن سے فیض حاصل کیا۔ ایف اے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے کی کلاس میں داخلہ لیا۔ دوران تعلیم ان کے والد کا اچانک انتقال ہو گیا اور وہ مالی مشکلات کا شکار ہو گئے۔ ان کے والد معروف وکیل تھے مگر انہوں نے کچھ ترکہ نہ چھوڑا تھا جو کچھ گھر پر موجود تھا اس کو بیچ کر مختلف افراد کا وہ قرض جو فیض کے والد کے ذمہ تھا ادا کیا گیا اور گھر پر رکھے گئے چالیس کے قریب ملازمین کو بھی فارغ کر دیا گیا۔ 
فیض نے ان حالات میں معاش کا سلسلہ چلانے کے لیے ایک کاروباری ادارے میں ملازمت اختیار کر لی اور ساتھ ساتھ اپنی تعلیم پر بھرپور توجہ دیتے رہے۔ 1933ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگریزی کا امتحان پاس کیا۔ گورنمنٹ کالج میں دوران تعلیم انہیں کامل اساتذہ پطرس بخاری اور لینگ ہارن کی تلمندی کا شرف حاصل ہوا۔ شاعری میں صوفی غلام مصطفی تبسم سے اصلاح لیتے تھے۔ فیض گورنمنٹ کالج لاہور کے پطرس بخاری کی قائم کردہ ادبی مجلس ’’بزم احباب‘‘ کے روح رواں تھے۔ گورنمنٹ کالج کی دوسری ادبی تنظیم بزم سخن کے بھی سرگرم کارکن تھے اس ادبی مجلس میں ان کے ساتھ ن م راشد‘ امتیاز علی تاج‘ چراغ حسن حسرت جیسی جلیل القدر ہستیاں بھی شامل تھیں۔ 1934ء میں اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ایم اے عربی میں داخلہ لیا اور یہ امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ 1935ء میں ایم اے او کالج امرتسر سے تدریسی خدمات کا آغاز بطور انگریزی استاد کیا۔ 
اس کالج کے وائس پرنسپل معروف ترقی پسند ادیب محسود الظفر تھے۔ یہاں پر فیض کی ملاقات بیگم رشید جہاں‘ ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر اور سجاد ظہیر سے ہوئی اور ان کے خیالات میں ایک واضح انقلاب رونما ہوا 1936ء میں سجاد ظہیر نے انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد رکھی تو فیض نے اس میں سرگرمی سے حصہ لیا اور لاہور میں اس کی بنیاد رکھی۔ لاہور آ کر فیض کی صحافتی زندگی کا آغاز ہوا وہ ’’ادب لطیف‘‘ کے مدیرمقرر ہو ئے۔ 1940ء میں ہیلے کالج آف کامرس لاہور میں استاد مقرر ہوئے۔ یہاں پر دو سال تک ملازمت کی۔ اسی دورانیے میں 1941ء میں آپ کی شادی ڈاکٹر ایلس جارج کے ساتھ انجام پائی۔ یہ شادی اسلامی طریقے سے ہوئی۔ ان کے ہاں دو بیٹیاں سلیمہ اور منیزہ پیدا ہوئیں۔ 
فیض 1942ء سے دسمبر 1946ء تک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے وابستہ رہے۔ آپ نے کیپٹن کے عہدے پر ملازمت شروع کی اور 1943ء میں میجر کے عہدے پر ترقی پا گئے اس سال انہیں فوجی خدمات کے صلے میں ایم بی ای کا خطاب ملا اور 1944ء میں کرنل کا عہدہ تفویض ہوا۔ 1946ء میں فوج سے استعفیٰ دے دیا اور دوبارہ صحافت کی طرف آ گئے اور میاں افتخار الدین کے انگریزی اخبار پاکستان ٹائمز اور اردو اخبار روزنامہ امروز کے مدیر ہو گئے قیام پاکستان کے بعد سیاست کے ساتھ ساتھ ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔ 947ء سے 1951ء تک اس تنظیم کیلئے کام کرتے رہے۔ 1948ء میں سان فرانسسکو (امریکہ) میں ہونے والی مزدور تنظیم کے مدوبین میں شامل تھے۔
اس سال انہیں ��المی کونسل کا رکن منتخب کیا گیا اور یہ رکنیت 1971ء تک برقرار رہی۔ 1951ء میں آل پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کے نائب صدر ہو گئے۔ اس سال ان کی زندگی میں ایک ایسا واقعہ آیا جس نے ان کی خانگی و مجلسی زندگی کو بہت متاثر کیا اور انہیں سخت مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا یہ ان کی نام نہاد راولپنڈی سازش کیس کے تحت گرفتاری کا واقعہ تھا۔ آپ کو اس کے تحت 9 مارچ 1951ء کو گرفتار کیا گیا۔ اس کیس کا پس منظر کچھ یوں تھا کہ 22 فروری 1951ء کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل اکبر خاں کے گھر میٹنگ ہوئی جس میں فیض بھی موجود تھے اس میں جنرل اکبر نے حکومت کا تختہ الٹتے کی سکیم دی جسے مبینہ طور پر حاضرین نے کئی گھنٹے کی بحث و تمحیص کے بعد مسترد کر دیا اور طے کیا گیا کہ حاضرین میں سے کوئی بھی شخص کوئی غیر آئینی اقدام نہیں کرے گا۔ یہی میٹنگ راولپنڈی سازش کیس کی بنیاد بنا دی گئی اور دو ہفتے بعد فیض‘ جنرل اکبر خاں‘ بیگم جنرل اکبر خاں‘ سجاد ظہیر اور چند دوسرے افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ فیض احمد فیض چار سال دو ماہ تک مختلف جیلوں میں قید رہے دوران قید پہلے تین ماہ قید تنہائی کی سزا ملی حتیٰ کہ کاغذ قلم استعمال کرنے کی بھی اجازت نہ تھی۔ قید تنہائی کے خاتمے کے بعد 1955ء میں دیگر اسیروں کے ساتھ رہا ہوئے۔
اسلم انصاری
2 notes · View notes
smrag1 · 5 years ago
Text
Tumblr media
علامہ اقبال کی آخری رات
اقتباس : "زندہ رود" از ڈاکٹر جاوید اقبال
20 اپریل 1938ء کی صبح کو ان کی طبیعت کچھ سنبھل گئی تھی۔ انھوں نے معمول کے مطابق دلیے کے ساتھ چائے کی پیالی پی۔ میاں محمد شفیع سے اخبار پڑھوا کر سنا اور رشید حجّام سے شیو بنوائی۔ دوپہر کو ڈاک میں جنوبی افریقہ کے کسی اخبار م��ں ترشے وصول ہوئے، خبر یہ تھی کہ وہاں کے مسلمانوں نے نمازِ جمعہ کے بعد اقبال، مصطفٰی کمال اور محمد علی جناح کی صحت اور عمر درازی کے لئے دعا کی ہے۔ کوئی ساڑھے چار بجے بیرن فان والتھائم انھیں ملنے کے لئے آ گئے۔ بیرن فان والتھائم نے جرمنی میں اقبال کی طالب علمی کے زمانے میں ان کے ساتھ کچھ وقت گزارا تھا اور اب وہ جرمنی کے نازی لیڈر ہٹلر کے نمائندے کی حیثیت سے ہندوستان اور افغانستان کا سفر کر کے شاید ان ممالک کے حالات کا جائزہ لے رہے تھے۔ ہندوستان کا دورہ مکمل کر چکنے کے بعد وہ کابل جا رہے تھے۔ اقبال اور بیرن فان والتھائم دونوں تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک ہائیڈل برگ یا میونخ میں اپنی لینڈ لیڈی، احباب اور اساتذہ کی باتیں کرتے رہے۔ پھر اقبال نے انھیں سفر افغانستان کے متعلق معلومات فراہم کیں۔ جب بیرن فان والتھائم جانے لگے تو اقبال نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ مصافحہ کر کے انھیں رخ��ت کیا۔
شام کی فضا میں موسم بہار کے سبب پھولوں کی مہک تھی اس لئے پلنگ خواب گاہ سے اٹھوا کر دالان میں بچھوایا اور گھنٹہ بھر کے لئے وہیں لیٹے رہے، پھر جب خنکی بڑھ گئی تو پلنگ گول کمرے میں لانے کا حکم دیا۔ گول کمرے میں ساڑھے سات سالہ منیرہ آپا جان کے ساتھ ان کے پاس گئی۔ منیرہ ان کے بستر میں گھس کر ان سے لپٹ گئی اور ہنسی مذاق کی باتیں کرنے لگی۔ منیرہ عموماً دن میں دو تین بار اقبال کے کمرے میں جاتی تھی۔ صبح اسکول جانے سے پہلے، دوپہر کو اسکول سے واپس آنے پر اور شام کو سونے سے قبل۔ لیکن اس شام وہ ان کے پہلو سے نہ اٹھتی تھی۔ دو تین بار آپا جان سے انگریزی میں کہا، اسے اس کی حس آگاہ کر رہی ہے کہ شاید باپ سے یہ آخری ملاقات ہے۔ منیرہ اور آپا جان کے اندر چلے جانے کے بعد فاطمہ بیگم، پرنسپل اسلامیہ کالج برائے خواتین گھنٹے آدھ گھنٹے کے لئے آ بیٹھیں، اور ان سے کالج میں درسِ قرآن کے انتظامات کے متعلق باتیں کرتی رہیں۔
رات کو آٹھ ساڑھے آٹھ بجے چوہدری محمد حسین، سید نذیر نیازی، سید سلامت اللہ شاہ، حکیم محمد حسن قرشی اور راجہ حسن اختر آ گئے۔ ان ایام میں میاں محمد شفیع اور ڈاکٹر عبدالقیوم تو جاوید منزل میں ہی مقیم تھے۔ اقبال کے بلغم میں ابھی تک خون آ رہا تھا اور اسی بناء پر چوہدری محمد حسین نے ڈاکٹروں کے ایک بورڈ کی میٹنگ کا انتظام جاوید منزل میں کیا تھا۔ اس زمانے کے معروف ڈاکٹر کرنل امیر چند، الہٰی بخش، محمد یوسف، یار محمد، جمعیت سنگھ وغیرہ سبھی موجود تھے اور انھوں نے مل کر اقبال کا معائنہ کیا۔ گھر میں ہر کوئی ہراساں دکھائی دیتا تھا، کیوں کہ ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ اگر رات خیریت سے گزر گئی تو اگلے روز نیا طریق علاج شروع کیا جائے گا۔ کوٹھی کے صحن میں مختلف جگہوں پر اقبال کے اصحاب دو دو تین تین کی ٹولیوں میں کھڑے باہم سرگوشیاں کر رہے تھے۔ اقبال سے ڈاکٹروں کی رائے مخفی رکھی گئی، لیکن وہ بڑے تیز فہم تھے۔ احباب کا بکھرا ہوا شیرازہ دیکھ کر انھیں یقین ہو گیا تھا کہ ان کی موت کا وقت قریب آ پہنچا ہے۔ چند یوم پیشتر جب کسی نے ان کی صحت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا تو فرمایا: میں موت سے نہیں ڈرتا۔ بعد ازاں اپنا یہ شعر پڑھا تھا:
؎ نشانِ مرد مومن با تو گویم
چوں مرگ آید تبسم برلب اوست
پس اس رات وہ ضرورت سے زیادہ ہشاش بشاش نظر آ رہے تھے۔ راقم کوئی نو بجے کے قریب گول کمرے میں داخل ہوا تو پہچان نہ سکے۔ پوچھا کون ہے؟ راقم نے جواب دیا : جاوید۔ ہنس پڑے، فرمایا: جاوید بن کر دکھاؤ تو جانیں۔ پھر اپنے قریب بیٹھے ہوئے چوہدری محمد حسین سے مخاطب ہو کر فرمایا: چوہدری صاحب! اسے "جاوید نامہ " کے آخر میں وہ دعا "خطاب بہ جاوید" ضرور پڑھوا دیجیئے گا۔ ات��ے میں علی بخش اندر داخل ہوا۔ اسے اپنے پاس بیٹھنے کے لئے کہا۔ علی بخش نے بلند آواز سے رونا شروع کر دیا۔ چوہدری محمد حسین نے اسے حوصلہ رکھنے کی تلقین کی۔ فرمایا آخر چالیس برس کی رفاقت ہے، اسے رو لینے دیں۔ رات کے گیارہ بجے اقبال کو نیند آ گئی۔ البتہ میاں محمد شفیع اور ڈاکٹر عبدالقیوم کے علاوہ راجہ حسن اختر نے اس رات جاوید منزل ہی میں قیام کیا اور باہر دالان میں چارپائی بچھا کر لیٹ گئے۔ راقم بھی حسبِ معمول اپنے کمرے میں جا کر سو رہا۔
اقبال کوئی گھنٹے بھر کے لئے سوئے ہوں گے کہ شانوں میں شدید درد کے باعث بیدار ہو گئے۔ ڈاکٹر عبدالقیوم اور میاں محمد شفیع نے خواب آوار دوا دینے کی کوشش کی، مگر انھوں نے انکار کر دیا۔ فرمایا: دوا میں افیون کے اجزاء ہیں اور میں بے ہوشی کے عالم میں مرنا نہیں چاہتا۔ علی بخش اور میاں محمد شفیع ان کے شانے اور کمر دبانے لگے تا کہ درد کی شدت کم ہو، لیکن تین بجے رات تل ان کی حالت غیر ہو گئی۔ میاں محمد شفیع، حکیم محمد حسن قرشی کو بلانے ان کے گھر گئے، مگر ان تک رسائی نہ ہو سکی اور ناکام واپس آ گئے۔ اقبال درد سے نڈھال تھے۔ میاں محمد شفیع کو دیکھ کر فرمایا: افسوس قرشی صاحب بھی نہیں پہنچ سکے۔ تقریباً پونے پانچ بجے راجہ حسن اختر اٹھ کر اندر آئے۔ انھیں بھی حکیم محمد حسن قرشی کو بلانے کے لئے کہا۔ وہ بولے: حکیم صاحب رات بہت دیر سے گئے تھے اور اس وقت انھیں بیدار کرنا شاید مناسب نہ ہو۔ اسی پر اقبال نے یہ قطعہ پڑھا:؎
سرود رفتہ باز آید کہ ناید
نسیمے از حجاز آید کہ ناید
سر آمد روزگار ایں فقیرے
وگر دانائے راز آید کہ ناید
راجہ حسن اختر قطعہ کا مطلب سمجھتے ہی حکیم محمد حسن قرشی کو لانے کے لئے روانہ ہو گئے۔ اقبال کے کہنے پر ان کا پلنگ گول کمرے سے ان کی خواب گاہ میں پہنچا دیا گیا۔ انھوں نے فروٹ سالٹ کا گلاس پیا۔ صبح کے پانچ بجنے میں کچھ منٹ باقی تھے۔ اذانیں ہو رہی تھیں سب کا خیال تھا کہ فکر کی رات کٹ گئی۔ ڈاکٹر عبدالقیوم اور میاں محمد شفیع صبح کی نماز ادا کرنے کی خاطر قریب کی مسجد میں پہنچ گئے تھے اور صرف علی بخش ہی اقبال کے پاس رہ گیا تھا۔ اسی اثناء میں اچانک اقبال نے اپنے دونوں ہاتھ دل پر رکھے اور ان کے منہ سے "ہائے" کا لفظ نکلا۔ علی بخش نے فوراً آگے بڑھ کر انھیں شانوں سے اپنے بازؤوں میں تھام لیا۔ فرمایا: دل میں شدید درد ہے اور قبل اس کے کہ علی بخش کچھ کر سکے، انھوں نے "اللہ" کہا اور ان کا سر ایک طرف ڈھلک گیا۔ 21 اپریل 1938ء کو پانچ بج کر چودہ منٹ صبح کی اذانوں کی گونج میں اقبال نے اپنے دیرینہ ملازم کی گود میں اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔ طلوعِ آفتاب کے بعد جب راقم اور منیرہ نے ان کے دروازے کی دہلیز پر کھڑے ہو کر ڈرتے ڈرتے اندر جھانکا تو خواب گاہ میں کوئی بھی نہ تھا۔ کھڑکیاں کھلی تھیں اور وہ پلنگ پر سیدھے لیٹے تھے۔ انھیں گردن تک سفید چادر نے ڈھانپ رکھا تھا، جو کبھی کبھار ہوا کے جھونکوں سے ہل جاتی تھی۔ ان کی آنکھیں بند تھیں، چہرہ قبلہ کی طرف تھا، مونچھوں کے بال سفید ہو چکے تھے اور سر کے بالوں کے کناروں پر راقم کے کہنے سے آخری بار لگائے ہوئے خضاب کی ��لکی سی سیاہی موجود تھی ۔۔۔
0 notes
shoukatali · 5 years ago
Text
کشمیر کے موضوع پر کتاب ’سلگتے چنار’ کی تقریب اجراء
کشمیر کے موضوع پر کتاب ’سلگتے چنار’ کی تقریب اجراء
Tumblr media
کشمیر کے موضوع پر سینیئر صحافی ناصر بیگ چغتائی کی کتاب ’سلگتے چنار‘ کی تقریب اجراء کراچی میں ہوئی جس میں سینیئر صحافیوں، فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والی شخصیات اور سامعین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
کراچی پریس ک��ب کی ادبی کمیٹی کے زیر اہتمام ہونے والی تقریب میں سینیئر صحافی محمود شام، مقصود یوسفی، ڈاکٹر فاطمہ حسن، عقیل عباس جعفری ، اخلاق احمد اور اے ایچ خانزادہ سمیت صحافی اور ادبی شخصیات شریک ہوئیں۔
View On WordPress
0 notes
pakberitatv-blog · 6 years ago
Photo
Tumblr media
https://is.gd/rMMcI5
صدر نے ڈی جی آئی ایس پی آر سمیت 172 شخصیات کواعلیٰ سول اعزازات سے نواز دیا
اسلام آباد: ایوان صدر اسلام آباد میں یوم پاکستان کے حوالے سے تقسیم اعزازات کی تقریب ہوئی جس میں صدر عارف علوی نے مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے والوں کو سول و فوجی اعزازات سے نوازا۔
صدر عارف علوی نے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور، معروف گلوکار عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی، فلم اسٹار ریما خان، مہوش حیات نیوز کاسٹر و اینکر عشرت فاطمہ، سابق ممتاز کھلاڑیوں وسیم اکرم اور وقاریونس سمیت اہم شخصیات کواعلیٰ سول وفوجی اعزازات سے نوازا ہے۔
انجینئر معراج احمد شہید، اسد علی، بم دھماکے میں شہید نوابزادہ میر سراج رئیسانی اور شہید محمد ادریس کو ستارہ شجاعت کا اعزاز عطا کیا گیا۔
محمد الیاس خان اور رومانیہ کی وجیہ حارث کو ستارہ پاکستان سے نوازا گیا۔
پروفیسر عبدالباری خان اور مائیکل جینسن، کرکٹر وسیم اکرم اور وقار یونس، ظہیر ایوب، غلام اصغر اور پروفیسر ڈاکٹر تصور حیات، شعیب سلطان اور صدرالدین ہاشوانی کو ہلال امتیاز دیا گیا۔
سابق کرکٹ کپتان وسیم اکرم،وقاریونس کو بھی ہلال امتیاز سے نوازا گیا جبکہ اداکارہ ریما خان، سنیئر اینکر ارشد شریف صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔
0 notes
weaajkal · 6 years ago
Photo
Tumblr media
پھاتو @MantoIsManto @MantoSays #Literature #Writer #urdu #aajkalpk تیز بخار کی حالت میں اُسے اپنی چھاتی پر کوئی ٹھنڈی چیز رینگتی محسوس ہوئی۔ اُس کے خیالات کاسلسلہ ٹُوٹ گیا۔ جب وہ مکمل طور پر بیدار ہوا تو اُس کا چہرہ بخار کی شدت کے باعث تمتما رہا تھا۔ اُس نے آنکھیں کھولیں اور دیکھا پھاتوفرش پر بیٹھی، پانی میں کپڑا بھگو کر اس کے ماتھے پر لگا رہی ہے۔ جب پھاتو نے اُس کے ماتھے سے کپڑا اُتارنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو اُس نے اُسے پکڑ لیا۔ اور اپنے سینے پر رکھ کر ہولے ہولے پیار سے اپنا ہاتھ اس پر پھیرنا شروع کردیا۔ اُس کی سُرخ آنکھیں دو انگارے بن کر دیر تک پھاتو کو دیکھتی رہیں۔ وہ اس دہکتی ہوئی ٹکٹکی کی تاب نہ لاسکی اورہاتھ چھڑا کر اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔ اس پر وہ اُٹھ کر بستر میں بیٹھ گیا۔ پھاتو سے، جس کا اصل نام فاطمہ تھا، اُس کو غیر محسوس طور پر محبت ہو گئی تھی حالانکہ وہ جانتا تھا کہ وہ کردارو اطوار کی اچھی نہیں۔ محلے میں جتنے لونڈ�� ہیں اُس سے عشق لڑا چکے ہیں۔ لیکن یہ سب جانتے ہوئے بھی اُس کو پھاتو سے محبت ہو گئی تھی۔ وہ اگر بخار میں مبتلا نہ ہوتا تو یقیناًاُس سے اپنے اس جذبے کا اظہار کبھی نہ کیا ہوتا۔ مگر تیز بخار کے باعث اُس کو اپنے دل و دماغ پر کوئی اختیار نہیں رہا تھا یہی وجہ ہے کہ اس نے اونچی آواز میں پھاتو کو پکارنا شروع کیا۔ ’’اِدھر آؤ۔ میری طرف دیکھو۔ جانتی ہو، میں تمہاری محبت میں گرفتار ہوں، بہت بُری طرح تمہاری محبت میں گرفتار ہوں۔ اس طرح تمہاری محبت میں پھنس گیا ہوں، جیسے کوئی دلدل میں پھنس جائے۔ میں جانتاہوں تم کیا ہو۔ میں جانتا ہوں تم اس قابل نہیں ہو کہ تم سے محبت کی جائے۔ مگر یہ سب کچھ جانتے بھوجھتے تم سے محبت کرتا ہوں۔ لعنت ہو مجھ پر۔ لیکن چھوڑ ان باتوں کو۔ اور میری طرف دیکھو۔ میں بخار کے علاوہ تمہاری محبت میں بھی پھنکا جارہاہوں۔ پھاتو۔ پھاتو۔ میں۔ میں‘‘ اس کے خیالات کا سلسلہ ٹُوٹ گیا اور اس پر ہذیانی کیفیت طاری ہو گئی۔ اس نے ڈاکٹر مکند لال بھاٹیہ سے کونین کے نقصانات پر بحث شروع کردی۔ چند لمحات کے بعد وہ اپنی ماں سے جو وہاں موجودنہیں تھی، مخاطب ہوا ’’بی بی جی میرے دماغ میں بے شمار خیالات آ رہے ہیں۔ آپ حیران کیوں ہوتی ہیں۔ مجھے پھاتو سے محبت ہے، اسی پھاتو سے جو ہمارے پڑوس میں پنج بندوں کے ہاں ملازم تھی اور جواب آپ کی ملازم ہے۔ آپ نہیں جانتیں اس لڑکی نے مجھے کتنا ذلیل کرادیا ہے۔ یہ محبت نہیں خسرہ ہے، نہیں خسرے سے بڑھ چڑھ کر۔ اس کاکوئی علاج نہیں۔ مجھے تمام ذلتیں برداشت کرنی ہوں گی۔ ساری گلی کاکوڑا کرکٹ اپنے سر پر اُٹھانا ہو گا۔ یہ سب کچھ ہوکے رہے گا، یہ سب کچھ ہو کے رہے گا۔ ‘‘ آہستہ آہستہ اُس کی آواز کمزور ہوتی گئی اور اُس پر غنودگی طاری ہو گئی۔ اس کی آنکھیں نیم وا تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ اُس کی پلکوں پر بوجھ سا آن پڑا ہے۔ پھاتو پلنگ کے پاس فرش پر بیٹھی اس کی بے جوڑ ہذیانی گفتگو سُنتی رہی۔ مگر اُس پر کچھ اثر نہ ہوا۔ وہ ایسے بیماروں کی کئی مرتبہ تیمارداری کرچکی تھی۔ بخار کی حالت میں جب اُس نے اپنی محبت کا اعتراف کیا تو پھاتو نے اُس کے متعلق کیا محسوس کیا، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے کہ اس کا گوشت بھرا چہرہ جذبات سے بالکل عاری تھا۔ ممکن ہے کہ اُس کے دل کے کسی گوشے میں ہلکی سی سرسراہٹ پیدا ہوئی ہو۔ مگر یہ چربی کی تہوں سے نکل کر باہر نہ آسکی۔ پھاتو نے رومال نچوڑ کر تازہ پانی میں بھگویا اور اس کے ماتھے پر رکھنے کے لیے اُٹھی۔ اب کی بار اُسے اس لیے اُٹھنا پڑا کہ اُس نے کروٹ بدلی تھی۔ جب اُس نے آہستہ سے اُدھر سے مڑ کر اُس کے ماتے پر گیلا رومال جمایا تو اُس کی نیم وا آنکھیں یُوں کھلیں جیسے لال لال زخموں کے منہ ٹانکے ادھڑجانے سے کھل جاتے ہیں۔ اس نے ایک لمحے کے لیے پھاتو کے جھکے ہوئے چہرے کی طرف دیکھا۔ اس کے گال تھوڑے سے نیچے لٹک آئے تھے پھر ایک دم جانے اُس پر کیا وحشت سوار ہوئی اُس نے پھاتو کو اپنے دونوں بازوؤں میں جکڑ کر اس زور سے اپنی چھاتی کے ساتھ بھینچا کہ اُس کی ریڑھ کی ہڈی کڑ کڑ بول اُٹھی۔ پھر اُس نے اُس کو اپنی رانوں پر لٹا کر اُس کے موٹے اور گدگدے ہونٹوں پر اس زور سے اپنے تپتے ہوئے ہونٹ پیوست کیے جیسے وہ انھیں داغنا چاہتاہے۔ اُس کی گرفت اس قدر زبردست تھی کہ پھاتو کوشش کے باوجود خود کو آزاد نہ کرسکی۔ اُس کے ہونٹ دیر تک اُس کے ہونٹوں پر استری کرتے رہے۔ پھر اچانک ہانپتے ہوئے اُس نے پھاتو کو ایک جھٹکے سے الگ کردیا اور اُٹھ کر بستر میں یوں بیٹھ گیا جیسے اُس نے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا تھا۔ پھاتو ایک طرف سمٹ گئی۔ وہ سہم گئی تھی۔ اس کے لبوں پر ابھی تک اس کی پپڑی جمے ہونٹ سرک رہے تھے۔ جب پھاتو نے کنکھیوں سے اُس کی طرف دیکھا تو اُس پر برس پڑا۔ ’’تم یہاں کیا کررہی ہوں۔ تم بھوتنی ہو۔ ڈائن ہو۔ میرا کلیجہ نکال کر چبانا چاہتی ہو۔ جاؤ۔ جاؤ۔ ‘‘ یہ کہتے کہتے اُس نے اپنے وزنی سر کو دونوں ہاتھوں میں تھام لیا، جیسے وہ گر پڑے گا۔ اور ہولے ہولے بڑبڑانے لگا۔ ’’پھاتو مجھے معاف کردو۔ مجھے کچھ معلوم نہیں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ میں بس صرف ایک بات اچھی طرح جانتا ہوں کہ مجھے تم سے دیوانگی کی حدتک محبت ہے، اس لیے کہ تم سے محبت کی جائے، میں تم سے محبت کرتا ہوں اس لیے کہ تم نفرت کے قابل ہو۔ تم عورت نہیں ہو۔ ایک سالم مکان ہو۔ ایک بہت بڑی بلڈنگ ہو۔ مجھے تمہارے سب کمروں سے محبت ہے۔ اس لیے کہ وہ غلیظ ہیں۔ شکستہ ہیں۔ کیا یہ عجیب بات نہیں؟‘‘ پھاتو خاموش رہی اُس پر ابھی تک اُس آہنی گرفت اور اُس کے خوفناک بو سے کا اثر موجود تھا۔ وہ اُٹھ کر کمرے سے باہرجانے کا ارادہ ہی کررہی تھی کہ اُس نے پھر ہذیانی کیفیت سے میں بڑبرانا شروع کردیا۔ پھاتو نے اُس کی طرف دیکھا اور وہ کسی غیر مرئی آدمی سے باتیں کررہاتھا۔ بستر پر اس نے بڑی مشکل سے کروٹ بدلی، پھاتو کو اپنی سرخ سرخ آنکھوں سے دیکھا اور پوچھا۔ ’’کیا کہہ رہی ہو تم۔ ‘‘ اس نے کچھ بھی نہیں کہا تھا۔ اس لیے وہ خاموش رہی۔ پھاتو کی خاموشی سے اُسے خیال آیا کہ ہذیانی کیفیت میں وہ بے شمار باتیں کرچکا ہے۔ جب اس کو اس بات کا احساس ہوا کہ وہ اپنی محبت کااظہار بھی اس سے کرچکا ہے تو اسے اپنے آپ پر بے حد غصہ آیا۔ اسی غصے میں وہ پھاتو سے مخاطب ہوا۔ ’’میں نے تم سے جو کچھ کہا تھا وہ بالکل غلط ہے۔ مجھے تم سے نفرت ہے۔ ‘‘ پھاتو نے صرف اتنا کہا۔ ’’جی ٹھیک ہو گا‘‘ وہ کڑکا ’’صرف ٹھیک ہی نہیں۔ سو فیصد حقیقت ہے۔ مجھے تم سے سخت نفرت ہے۔ جاؤ، چلی جاؤ میرے کمرے سے۔ خبر دار جو کبھی اِدھر کا رُخ کیا۔ ‘‘ پھاتو نے حسبِ معمول نرم لہجے میں جواب دیا۔ ’’جی اچھا۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ جانے لگی کہ اُس نے اُسے روک لیا۔ ’’ٹھہرو۔ ایک بات سنتی جاؤ۔ ‘‘ ’’فرمائیے۔ ‘‘ ’’نہیں مجھے کچھ نہیں کہنا ہے۔ تم جاسکتی ہو۔ ‘‘ پھاتو نے کہا۔ ’’میں جاتو رہی تھی۔ آپ نے خود مجھے روکا‘‘ ۔ یہ کہہ اُس نے برتن اُٹھائے اور کمرے سے نکلنے لگی۔ مگر اُس نے پھر اُسے آواز دے کر روکا۔ ’’ٹھہرو۔ میں ایک بات تم سے کہنا بھول گیا ہوں۔ ‘‘ پھاتو نے برتن تپائی پر رکھے اور اُس سے کہا۔ ’’کیا بات ہے۔ بتادیجیے۔ مجھے اور کام کرنے ہیں۔ ‘‘ وہ سوچنے لگا کہ اُس نے پھاتو کو روکا کیوں تھا۔ اُسے اس سے ایسی کون سی اہم بات کرنا تھی۔ وہ یہ سوچ ہی رہا تھا۔ کہ پھاتو نے اُس سے کہا۔ ’’میاں صاحب میں کھڑی انتظار کررہی ہوں۔ ۔ آپ کو مجھ سے کیا کہنا ہے۔ ‘‘ وہ بوکھلا گیا۔ ’’مجھے کیا کہنا تھا۔ کچھ بھی تو نہیں کہنا تھا۔ میرا مطلب ہے ‘ کہنا تو کچھ تھا مگر بھول گیا ہوں۔ ‘‘ پھاتو نے برتن تپائی پر رکھے۔ ’’آپ یاد کرلیجیے۔ میں یہاں کھڑی ہوں۔ ‘‘ اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ اور یاد کرنے لگا۔ اسے پھاتو سے یہ کہنا تھا۔ اس کے دماغ میں بے شمار خیالات تھے۔ دراصل یہ کہنا چاہتا تھا کہ پھاتو اس کے گھرسے چلی جائے۔ اس لیے کہ وہ اس سے اس قدر نفرت کرتا ہے کہ وہ نفرت بے پناہ محبت میں تبدیل ہو گئی ہے۔ اُس نے تھوڑے عرصہ کے بعد آنکھیں کھولیں۔ پھاتو تپائی کے ساتھ کھڑی تھی۔ اُس نے سمجھا کہ شاید یہ سب خواب ہے، پر جب اُس نے ادھر ادھر کا جائزہ لیا تو اُسے معلوم ہوا کہ خواب نہیں حقیقت ہے، لیکن اُس کی سمجھ میں نہیںآتا تھا کہ پھاتو کیوں بُت کی مانند اس کی چارپائی کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس نے کہا۔ ’’تو یہاں کھڑی کیا کررہی ہے۔ ‘‘ پھاتو نے جواب دیا۔ ’’آپ ہی نے تو کہا تھا کہ آپ کو مجھ سے کوئی ضروری بات کہنی ہے۔ ‘‘ وہ چڑ گیا، جھنجھلا کر بولا۔ ’’تم سے مجھے کون سی ضروری بات کہنا تھی۔ جاؤ۔ دور ہٹ جاؤ میری نظروں سے۔ ‘‘ پھاتو نے تشویش ناک نظروں سے اُس کی طرف دیکھا۔ ’’ایسا لگتا ہے آپ کا بخار تیز ہو گیا ہے۔ میں بی بی جی سے کہتی ہوں کہ ڈاکٹر کو بُلالیں۔ ‘‘ وہ اور زیادہ چڑ گیا۔ ’’ڈاکٹر آیا تو میں اُسے گولی مادوں گا۔ اور تمہارا تو میں ان دوہاتھوں سے گلا گھونٹ دُوں گا۔ ‘‘ پھاتو نے اپنے لہجے کو اور زیادہ نرم بنا کر کہا۔ ’’آپ ابھی گھونٹ ڈالیے۔ میں اپنی زندگی سے اُکتا چکی ہوں۔ ‘‘ اُس نے پوچھا ’’کیوں؟‘‘ ’’بس اب جی نہیں چاہتا زندہ رہنے کو۔ میاں صاحب آپ کو معلوم نہیں میں یہ دن کیسے گزار رہی ہوں۔ اللہ کی قسم۔ ایک ایک پل زہر کا گھونٹ ہے۔ ۔ خدا کے لیے آپ میرا گلا گھونٹ کر مجھے ماردیجیے!‘‘ وہ لحاف کے اندر کانپنے لگا۔ ’’پھاتو۔ جاؤ مجھے تم سے نفرت ہے۔ ‘‘ پھاتو نے بڑی معصومیت سے کہا۔ ’’میں جانے لگتی ہوں۔ پر آپ مجھے روک لیتے ہیں۔ ‘‘ اُس نے بھنا کر کہا۔ ’’کون حرامزادہ تجھے روکتا ہے۔ جا۔ دُور ہوجا۔ ‘‘ پھاتو جانے لگی تو اُس نے اُسے پھر روک لیا۔ ’’ٹھہرو‘‘ ’’وہ ٹھہر گئی۔ ’’فرمائیے۔ ‘‘ ’’تم نہایت واہیات عورت ہو۔ خدا تمیں غارت کرے۔ جاؤ اب میری نظروں سے غائب ہو جاؤ‘‘ ۔ پھاتو برتن اُٹھا کر چلی گئی۔ ایک مہینے بعد محلے میں شور مچا کہ پھاتو کسی کے ساتھ بھاگ گی ہے۔ سب اُس کو بُرا بھلا کہہ رہے تھے۔ عورتیں خاص طور پر اُس کے کردار میں کیڑے ڈال رہی تھیں اور پھاتو اپنے میاں صاحب کے ساتھ کلکتے میں ازدواجی زندگی بسر کررہی تھی۔ اُس کا شوہر ہر روز اُس سے کہتا تھا۔ ’’فاطمہ، مجھے تم سے نفرت ہے۔ ‘‘ اور وہ مسکرا کر جواب دیتی۔ ’’یہ نفرت اگر نہ ہوتی تو میری زندگی کیسے سنورتی۔ آپ مجھ سے ساری عمر نفرت ہی کرتے رہیئے۔ ‘‘ سعادت حسن منٹو
0 notes
mwhwajahat · 6 years ago
Photo
Tumblr media
اٹک ؛اٹک پولیس کے زیر اہتمام انسد اد منشیا ت کے حوالے سے واک کا اہتمام اٹک ؛اٹک پولیس کے زیر اہتمام انسد اد منشیا ت کے حوالے سے واک کا اہتمام کیا گیا،ڈی پی او نے واک کی قیادت کی،واک کا آ غاز ڈی پی او آفس سے ہوا اور فوارہ چوک پہنچ کر اختتام پذیر ہوا، پولیس افسران،تاجران، وکلا ء، طلباء، اور سول سوسا ئٹی کے افراد کی واک میں شرکت ، ڈی پی او نے واک کے اختتام پر میڈیا سے بات چیت کر تے ہوئے کہا کہ،منشیا ت کے خلاف اٹک پولیس جہاد کر رہی ہے،سماجی دشمن عناصر کا ہر صورت خاتمہ کر یں گے،منشیات فرشوں کے خلاف پولیس موثر کاروائیاں کر رہی ہے،منشیات کے فروغ کے خلاف شہری ہمار اساتھ دیں،منشیات کے خلاف آگاہی مہم کو تیز کیا گیا ہے،آگاہی مہم کے سلسلے میں تعلیمی اداروں میں منشیات کے خلاف ��یکچر دیئے جائیں گے،سپریم کورٹ، حکومت پنجاب اور آئی جی پنجاب کی حکم پر آگاہی مہم کا آغاز کیا گیا ہے،والدین اپنے بچوں کو ایسی سرگرمیوں سے دور رکھیں،ہم نے منشیات کے خلاف کام کر کے آنے والی نسلوں کو بچانا ہے واک کے اختتام پر ملک کی سلامتی،استحکام پاکستان،پولیس اور دیگر اداروں کیلئے دعا کرائی ۔ اٹک بار ایسوسی ایشن کے سالانہ انتخابات میں ملک اسرار احمد تیسری مرتبہ بھاری اکثریت سے 226 ووٹ حاصل کر کے صدر منتخب ہو گئے اور ان کا تمام پینل بھی بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گیا ان کے مد مقابل میڈیم فیاض اقبال 141 ووٹ حاصل کر سکیں ، جنرل سیکرٹری کیلئے رانا استفاد علی خان 214 ووٹ حاصل کر کے کامیاب اور ان کے مد مقابل اختر ریاض قریشی 153 ووٹ حاصل کر سکے ، نائب صدر کیلئے محمد اشفاق المعروف صوفی اشفاق 203 ووٹ حاصل کر کے کامیاب رہے جبکہ ان کے مد مقابل سردار تنویر نواز خان 167 ووٹ حاصل کر سکے ، جوائنٹ سیکرٹری کیلئے ذیشان منیر شیخ 178 ووٹ حاصل کر کے کامیاب اور ان کے مد مقابل شعیب اقبال 171 ووٹ حاصل کر سکے ، فنانس سیکرٹری کیلئے مجتبیٰ احمد 187 ووٹ حاصل کر کے کامیاب اور ان کے مد مقابل فہیم اعجاز ملک 165 ووٹ حاصل کر سکے ، لائبریری سیکرٹری کیلئے مبین بٹ 186 ووٹ حاصل کر کے کامیاب جبکہ ان کے مد مقابل افتخار الحق 161 ووٹ حاصل کر سکے ۔ اٹک؛ تحصیل بار ایسو سی ایشن پنڈی گھیب کے انتخابات فیاض احمد طارق گروپ اور شیخ اسلم گروپ کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ، انتخابات میں صدر شہزاد اقبال بھٹی ، جنرل سیکرٹری سردار صفتین خان ، نائب صدر انوپ سنگھ جگی اور جوائنٹ سیکرٹری عاطف علی قریشی منتخب ہو گئے پہلے گنتی میں جنرل سیکرٹری کی نشست پر مدثر احمد اور سردار صفتین خان کے ووٹ برابر تھے بعد میں گنتی پر سردار صفتین خان 31 ووٹ حاصل کر کے جنرل سیکرٹری منتخب ہو گئے ، فنانس سیکرٹری کی سیٹ پر بلامقابلہ فیاض احمد طارق گروپ کا امیدوار کامیاب ، لائبریرین کی سیٹ پر شیخ اسلم گروپ کا امیدوار بلامقابلہ کامیاب ہو گئے ۔ اٹک ؛ تحصیل بار کونسل حسن ابدال کے انتخابات میں محمد سجاد حیدر اعوان 29 ووٹ حاصل کر کے صدر ، شہباز ملک 27 ووٹ حاصل کر کے جنرل سیکرٹری ، وقار عالم جدوں 28 ووٹ حاصل کر کے نائب صدر منتخب ہو گئے ۔ اٹک ؛ تحصیل بار کونسل فتح جنگ کے الیکشن ، نقی شاہ 43 ووٹ حاصل کر کے صدر تحصیل بار کونسل فتح جنگ منتخب ہو گئے جبکہ ان کے مد مقابل ناصر جمال 38 ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہے دیگر منتخب ہونے والوں میں نائب صدر مصطفی خان ، جنرل سیکرٹری ملک ثاقب ، جوائنٹ سیکرٹری چوہدری عامر شہزاد ، فنانس سیکرٹری چوہدری احمد جاوید ، لائبریرئن مبین بٹ شامل ہیں ۔ اٹک ؛تحصیل بار کونسل جنڈ کے انتخابات میں ملک ساجد اور ملک ممتاز خان جنہوں نے 30/30 ووٹ برابر حاصل کیے وہ 6/6 ماہ کیلئے صدر منتخب ہو گئے ہیں نائب صدر سردار اعجاز خان ، جوائنٹ سیکرٹری عنصر عزیز بلا مقابلہ منتخب ہو گئے جبکہ جنرل سیکرٹری میڈیم نجمہ شاہین ، فنانس سیکرٹری طارق عزیز ، لائبریرئن عبدالجبار منتخب ہوئے ۔ اٹک ؛ اٹک پولیس میں سزا اور جزا ء کا عمل ختم ہونے سے پولیس افسران اور اہلکار بے مہار بن گئے تھانہ اٹک خورد کی چوکی گوندل میں حساس ادارے کے ملازم کا موٹر سائیکل چوری ہونے پر درج کی جانے والی ایف آئی آر میں غلطیاں اور قانونی سقم ، ایف آئی آر درج کرنے والے ٹی اے ایس آئی اظہر اقبال نے ایف آئی آر میں نام و سکونت اطلاع دہندہ مستغیث کی جگہ ، مدعی کے نام کی بجائے 2 دفعہ اپنا نام اور عہدہ جن میں ایک جگہ اپنے آپ کو تھانہ صدر اٹک اور دوسری جگہ پولیس چوکی گوندل میں تعینات ہونا ظاہر کیا ہے درج کر لیا اس طرح کی غلطیاں آئے روز اٹک پولیس کے افسران ایف آئی آر ، ضمنیاں اور تفتیش میں کرتے ہیں جس کی بناء پر عدالت سے ملزمان انہی غلطیوں اور شک کا فائدہ اٹھا کر بری ہو جاتے ہیں اٹک پولیس میں کسی بھی قسم کی غلطی کی سزا کا تصور تقریباً ناپید ہو چکا ہے اور پولیس افسران کی جانب سے جھوٹی ، بے بنیاد ایف آئی آر پر بھی افسران کاروائی کی بجائے الٹا مظلوموں کو عتاب کا نشانہ بناتے ہیں پولیس کے خلاف درخواستیں مہینوں پڑی رہتی ہیں اور ان پر کسی قسم کی کاروائی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا وزیر اعظم عمران خان ، وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اور آئی جی پنجاب اٹک پولیس کے معاملات کیلئے اعلیٰ سطحی انکوائری تشکیل دیں تو بہت سے حقائق سامنے آ سکتے ہیں جن میں ایلیٹ فورس کے ایس او پی کی واضح خلاف ورزی بھی موجود ہے ۔ اٹک ؛اٹک قلعہ میں تعینات پاک آرمی کے ملازم کا موٹر سائیکل خریداری کے دوران نامعلوم چور چرا کر لے گئے مقدمہ درج ، تفصیلات کے مطابق مغلیہ دور حکومت میں دریائے سندھ کے کنارے پنجاب اور کے پی کے کے سنگم میں واقع تاریخی اٹک قلعہ میں تعینات پاک آرمی کے ملازم جاوید اقبال ولد الحاج محمد بنارس ساکن گوجرخان نے تھانہ اٹک خورد میں ایف آئی آر درج کرائی ہے کہ وہ اٹک سے اٹک قلعہ جا رہے تھے راستہ میں حاجی شاہ چوک میں نماز کی ادائیگی کے بعد انہوں نے جنرل سٹور سے خریداری کی 8 سے 10 منٹ بعد واپس آئے تو موٹر سائیکل غائب تھا اے ایس آئی پولیس چوکی گوندل تھانہ اٹک خورد نے زیر دفعہ 381-A ت پ کے تحت مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے ۔ اٹک ؛ ملک بھر میں جاری بارش کا سلسلہ اٹک میں بھی جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب سے وقفہ وقفہ سے جاری ہے ہلکی بارش نے موسم کو مزید سرد کر دیا ہے کچھ علاقوں میں بعض اوقات تیز بارشوں کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے سردی اور بارش کے سبب درجہ حر ارت نقطہ انجماد سے نیچے گر گیا ہے سردی کی شدت کے اس موسم میں اٹک ، حسن ابدال ، حضرو ، کامرہ فتح جنگ ، پنڈی گھیب اور جنڈ کے شہری سوئی گیس کے عدم پریشر کے سبب شدید مشکلات سے دو چار ہیں ضلع اٹک کے ساتھ ممبران قومی و صوبائی اسمبلی میں سے 4 کا تعلق حکمران جماعت تحریک انصاف سے ہے جن میں ایک کرنل ملک محمد انور خان وزیر مال پنجاب کے عہدے پر فائز ہیں جبکہ 2 غیر منتخب مشیر جن میں مشیر موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم اور مشیر اوورسیز پاکستانی زلفی بخاری شامل ہیں وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے سوئی گیس کی دونوں کمپنیوں کے ایم ڈی تبدیل کرنے کے بعد سے ضلع بھر میں سوئی گیس کے عدم پریشر کی صورتحال محکمہ سوئی گیس کی جانب سے پریشر کم کر کے عوام کو حکومت کے خلاف کرنے کی سازش نظر آ رہی ہے ۔ اٹک ؛ ڈی پی او اٹک نے کانسٹیبل محمد جاوید کی بیٹی کی بارات میں خصوصی شرکت کی اس موقع پر پولیس ملازمین سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اٹک پولیس ایک فیملی کی طرح ہے اور ہماری خوشیاں اور غم سانجھے ہیں انہوں نے کانسٹیبل جاوید کو بیٹی کی شادی کی مبارک باد دی اور اس کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیر کر نیک تمناؤں کا اظہار کیا ۔ اٹک؛ ڈمپرٹرک کی بریک فیل گرلز ہائی سکول جنڈ کی طالبات بڑے حادثہ سے بچ گئیں ، گرلز ہائی سکول جنڈ کے قریب گلی میں چڑھائی پر ڈمپرٹرک کی بریک فیل ہوگئی جس سے پیچھے آنے والی سوزوکی پک اپ اور رکشہ سے ٹکرا کر گھر کی دیوار میں گھس گیا سوزوکی اور رکشہ میں سوار 6 طالبات زخمی ہوگئیں ڈمپرٹرک ٹکرانے کی وجہ سے تعمیر شدہ مکان کو کافی نقصان پہنچا ، گرلز ہائی سکول جنڈ کی زخمی ہونے والی طالبات فضاء حسنین ، عنبرین ظفر ، اقصی خالد ، ناطمہ بی بی،مہرین فاطمہ اور ماہرہ اعجاز فوری طور پر ٹی ایچ کیو ہسپتال جنڈ منتقل کر دیا گیا ڈاکٹر کے مطابق طالبات کو طبی امداد دے دی گئی ہے پانچ بچیاں نارمل زخمی ہوئی ہیں ایک بچی کو آنکھ کے قریب سٹیچ لگائے گئے ہیں ۔ اٹک ؛ نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے 27 سالہ نوجوان کو موت کے گھاٹ اتار دیا ، ملک نعیم ولد ملک امین ساکن ساملانوالہ تحصیل فتح جنگ کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے زخمی کر دیا اور نالہ ڈھوک حمیداں کے قریب پھینک دیا ، ریسکیو 1122 نے زخمی حالت میں ملک نعیم کو ہسپتال منتقل کیا تاہم وہ راستہ میں ہی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا ، پولیس نے پوسٹ مارٹم کرانے کے بعد لاش ورثاء کے حوالہ کر دی ، پولیس نے نامعلوم قاتلوں کے خلاف مقدمہ قتل درج کر لیا ۔
0 notes
emergingpakistan · 6 years ago
Text
اکسیویں صدی میں بھی 4 کروڑ افراد غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور
محنت کی عالمی تنظیم آئی ایل او کے تعاون سے واک فری فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری ہونے والی اس سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں اب بھی چار کروڑ سے زیادہ افراد غلامي کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں غلامي کی زندگی بسر کرنے والے لوگوں کی 58 فیصد تعداد چین، پاکستان، بنگلہ دیش اور ازبکستان میں آباد ہے۔ پاکستان میں جبری مشقت کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں میں بانڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ بھی شامل ہے جس کی جنرل سیکرٹری، غلام فاطمہ جبری مشقت ختم کرنے اور بھٹہ مزدوروں کی زندگی بہتر بنانے کے لیے کوشاں رہی ہیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ ملکی اداروں کے عدم تعاون کی وجہ سے انہیں کام کرنے میں دشواری پیش آتی ہے اور ان کی کوششیں بار آور ثابت نہیں ہو سکیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ادارے ان کے کام کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے ۔ زیادہ زور دیں تو جواب ملتا ہے کہ آپ جائیے، ان لوگوں کی مدد کیجئیے، ہم کوئی آپ کو روک رہے ہیں۔ اگرچہ ملک میں قوانین موجود ہیں مگر پھر بھی پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکا نہیں جا سکا ہے۔ پاکستان میں ہیومن رائٹس کے چیئر مین ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں زیادہ تر سرکاری سطح پر یا پھر اس طبقے کے ہاتھوں ہوتی ہیں جو ہے تو اقلیت میں مگر بے حد اثر ورسوخ کا حامل ہے اور اکثر یہی طبقہ استحصال کا باعث بنتا ہے۔
پاکستان ان ترقی پذیر ملکوں میں شامل ہے جہاں اب بھی لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ پاکستان کے سابق نگران وزیر داخلہ ملک حبیب کہتے ہیں کہ یہاں لوگ غربت کی وجہ سے جبری مشقت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں جو لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں وہ اپنے بچوں کو محنت مزدوری کے لیے بھیجتے ہیں۔ اب اگر اس کے بغیر وہ گزارا نہیں کر سکتے تو انہیں روکا تو نہیں جا سکتا۔ ڈبلیو ایف ایف کی رپور ٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں غلامي کی جدید شکل یا ماڈرن سلیوری میں اضافہ ہوا ہے ۔
ڈاکٹر خالدہ ذکی مشی گن یونیورسٹی میں سوشیالوجی کی پروفیسر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ترک وطن کر کے امریکہ ��نے والے لوگ اپنی قانونی حیثیت کی کمزوری کی وجہ سے استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں غیر قانونی تارکین وطن کو ماڈرن سلیوری یا جبری مشقت کی صورت حال کا زیادہ سامنا ہوتا ہے اور وہ زیادہ طویل اور سخت کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ معاشی اور سیاسی حالات سے مجبور ہو کر انسان غلامي کا طوق برداشت کر تے رہیں گے کیوں کہ دنیا بھر میں انسان سب سے زیادہ اپنے حالا ت کا غلام ہوتا ہے۔
مدثرہ منظر
بشکریہ وائس آف امریکہ  
0 notes
emergingkarachi · 7 years ago
Text
میں کراچی میں نہیں، کراچی مجھ میں رہتا ہے
ماضی میں کھو جانے یا پرانی یادوں کو تازہ کرنے سے متعلق انگریزی میں ’’ Nostalgia ‘ ‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ۔ یہ گزرے ہوئے اچھے وقت کے ساتھ جذباتی یا نفسیاتی رشتہ ہوتا ہے ۔ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ جب بھی ماضی کو شاندار اور مثالی وقت ثابت کرنے کے لئے بات کی جاتی تو کہا جاتا ہے کہ یہ ’’ ناسٹلجیا ‘‘ ہے لیکن ضروری نہیں ہے کہ ماضی کی ہر بات کا تذکرہ ’’ ناسٹلجیا‘‘ کا نتیجہ ہو ۔ ماضی سے متعلق کچھ باتیں مستقبل کی نسلیں بھی درست تسلیم کرتی ہیں ۔
آج میں ماضی کے کراچی کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں ، میں نے اپنے بچپن میں ، اپنی جوانی میں ، اپنی سیاسی جدوجہد کے دور میں اور اپنی سوچ کی پختگی میں وہ کراچی دیکھا ہے ۔ یہ ناسٹلجیا نہیں ہے ۔ آج بنیادی سوال یہ ہے کہ کراچی کا مستقبل کیا ہے؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے کراچی کے ماضی میں جانا پڑے گا۔ ہم نے کراچی کا اصل جوہر دیکھا ہے۔ کراچی کی شان (GLORY) کا مشاہدہ کیا ہے۔ کراچی اپنے اصلی جوہر کی طرف واپس جا سکتا ہے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے ہی کراچی کا شمار دنیا کے جدید اور خوبصورت شہروں میں  ہوتا تھا۔ کراچی اس وقت سے ہی کاسموپولیٹن شہر تھا جہاں مختلف مذاہب ، قوموں، علاقوں، نسلی اور لسانی گروہوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ پیار و محبت کے ساتھ رہتے تھے۔ تنوع اور روا دوری کراچی کی بنیادی خصوصیات تھیں۔ 
قیامِ پاکستان کے چند سالوں بعد یہ شہر اس خطے کا تجارتی مرکز بن گیا اور اس کا شمار جنوبی ایشیا کے امیر ترین شہروں میں ہونے لگا۔ اس شہر نے سب کو اپنے دامن میں سمویا۔ اس شہر نے کسی سے اس کی شناخت نہیں پوچھی کہ اس کا تعلق کس مذہب، ملک، قوم، قومیت، علاقے یا زبان سے ہے۔ کراچی نے سب کی شناخت کو اپنی رنگا رنگ اور متنوع شناخت کا حصہ بنایا اور ہر نئے رنگ کے ساتھ اپنے آپ کو نکھارا۔ ہم نے وہ کراچی دیکھا جس کی سڑکوں کو روزانہ دھویا جاتا تھا۔ جہاں کی شاہراہوں، مارکیٹوں اور تفریح گاہوں میں غیر ملکی سیاحوں کا رش ہوتا تھا۔ کراچی ایک ایسا شہر تھا جہاں روزانہ سفر کے دوران پاکستان کے ہر علاقے کے لوگوں سے ملاقات ہو جاتی تھی بلکہ دنیا کے تقریبا ہر ملک کے لوگوں سے ٹاکرا ہوتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ کراچی کے باسی وسعت قلبی کو اپنی شخصیت کا بنیادی جزو تصور کرتے تھے۔ یہ شہر نہ صرف پاکستان کی رنگا رنگ ثقافتوں کا امتزاج تھا بلکہ گلوبل کلچر کا بھی نمائندہ تھا۔
برداشت اور روا داری کے علاوہ کراچی کی ایک اور امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ یہ شہر اپنے مزاج میں ترقی پسند اور جمہوریت نواز تھا۔ یہ تمام بڑی جمہوری ، ترقی پسند، مظلوم اقوام اور طبقات اور محنت کشوں کی تحریکوں کا مرکز تھا۔ یہاں سب سے زیادہ نظریاتی اور تربیت یافتہ سیاسی کیڈر موجود تھا۔ یہاں سیاست اور ادب کے حوالے سے مباحثے جاری رہتے تھے۔ کراچی کے کافی اور ٹی ہاوسز میں اپنے عہد کے فلسفیانہ مسائل زیر ِبحث رہتے تھے۔ صدر اور ریگل کے کافی ہاوسز میں ان لوگوں سے ملاقات ہو جاتی تھی جنہیں آج بڑے لوگوں کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ سیاسی کارکنوں، دانشوروں، شاعروں، ادیبوں، گلو کاروں اور فن کاروں کے پنپنے کے لئےاس شہر کی فضا بہت ساز گار تھی۔ 
یہ شہر سید سبطِ حسن، شوکت صدیقی، انتظار حسین، ابنِ صفی، جوش ملیح آبادی، مصطفی زیدی ، زیڈ اے بخاری، رئیس امروہی، جون ایلیا، اسلم فرخی، دلاور نگار، مولوی عبد الحق، ابنِ انشا اور بیشمار لوگوں کا مسکن ہے۔ یہاں سب سے زیادہ لٹریچر شائع ہوتا تھا۔ یہاں ہم نے گھروں میں محافل ، مشاعرہ اور موسیقی کی روایات دیکھیں ۔ سڑکوں اور پارکوں میں مشاعرے ہوتے دیکھے۔ سب سے زیادہ سنیما ہال کراچی میں تھے۔ تھیٹرز کے حوالے سے بھی یہ شہر اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ ایک اور امتیازی وصف کراچی کا یہ ہے کہ یہاں سب سے زیادہ فلاحی اور خیراتی ادارے اور مخیر حضرات ہیں۔ چیریٹی (charity) کے کاموں میں کراچی نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں فوقیت رکھتا ہے۔
کراچی میں عظیم عبد الستار ایدھی پیدا ہوئے جنہوں نے دنیا کا سب سے بڑا فلاحی ادارہ ایدھی فاونڈیشن قائم کیا۔ اس شہر میں روتھ لیوئس Ruth Lewis، فاطمہ لودھی، حکیم سعید، نفیس صادق جیسے لوگوں نے جنم لیا۔ کراچی کو اس بات پر فخر ہے کہ یہاں ڈاکٹر ادیب رضوی جیسا فرشتہ انسان رہتا ہے۔ آج بھی سب سے زیادہ چیریٹی اس شہر میں ہوتی ہے۔ اسی شہر میں قائد اعظم محمد علی جناح جیسے سیاستدانوں نے جنم لیا جنہوں نے اس خطے کی تاریخ بدل دی۔ جمشید نسروانجی، ہر چنداری وشن داس، عبدالستار افغانی، بے نظیر بھٹو، سید منور حسن اور کئی بڑے سیاستدانوں کا تعلق اسی شہر سے ہے۔ آغا خان سوئم، مولانا تقی عثمانی، علامہ رشید ترابی اور کئی مذہبی رہنما اور اسکالرز کا مسکن کراچی ہے۔ ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی، ڈاکٹرعبد القدیر خان، ڈاکٹر عطا الرحمن، پرویز ہود بھائی اور دیگر سائنسدان اور ماہر ینِ تعلیم کا تعلق بھی کراچی سے ہے۔
فن، ادب، ثقافت، کھیل اور دیگر شعبوں کی کئی اہم شخصیات نے یہاں جنم لیا اور یہیں مدفن ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کراچی پاکستان کی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ پورے ملک کو 60 فیصد سے زائد اور سندھ کو 80 فیصد سے زائد ریونیو کراچی دیتا ہے۔ کراچی میں تمام بڑے بینکوں اور ��الیاتی اداروں کے ہیڈ آفس ہیں، یہاں کثیر القومی کمپنیوں کے دفاتر ہیں۔ ملک کی زیادہ تر صنعتیں کراچی میں ہیں۔ بندر گاہ کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے سب سے بڑے ادارے یہاں کام کرتے ہیں۔ نجی شعبے میں سب سے زیادہ روزگار کراچی فراہم کرتا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی اسٹاک ایکسچینج یہاں ہے۔ کراچی پاکستان کی اقتصادی شہ رگ ہے۔
پاکستان کے لئے کراچی رول ماڈل تھا۔ جمہوری اور بنیادی حقوق کی تحریکوں میں کراچی ہراول دستے کا کردار ادا کرتا تھا۔ میں اس شہر سے نکالا بھی گیا اور شہر کی خاطر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ایک متنوع، ترقی پسند ، خوشحال، پر امن اور روادار معاشرہ کراچی میں تشکیل پذیر ہو چکا تھا اور اس بات کو آگے بڑھاتا تھا لیکن اس عظمت اور شاندار روایت کے حامل کراچی کے خلاف بڑی سازشیں ہوئیں۔ یہ سازش صرف کراچی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے خلاف ہے۔ میں کراچی میں نہیں، کراچی مجھ میں رہتا ہے۔ میرے اندر برنس ��وڈ کی ثقافت، کھارادر کی روایات، ناظم آباد کی رونقیں نمایاں ہیں۔ تمام تر سازشوں کے باوجود کراچی کا اصل جوہر ختم نہیں کیا جا سکا ۔ کراچی کو اپنے اصل جوہر کی طرف واپس لایا جا سکتا ہے۔ یہ کام دیگر شعبوں کے لوگ بھی کر سکتے ہیں لیکن سب سے زیادہ ذمہ داری سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے۔ ذرہ نم ہو تو یہ مٹی بڑی زر خیز ہے ساقی۔ کراچی کو اس کیفیت سے نکالا جا سکتا ہے اور کراچی کے ذریعے پاکستان کا مستقبل تابناک بنایا جا سکتا ہے۔
نفیس صدیقی  
0 notes
urduclassic · 9 years ago
Text
عظیم شاعر، معلم، ادیب، نقاد، مترجم، مدیر، براڈ کاسٹر صوفی تبسمؔ
صوفی تبسم 4اگست 1899ء کو امرتسر (بھارت) میں پیدا ہوئے جہاں اُن کے بزرگ کشمیر سے آکر آباد ہوئے تھے۔ والد کا نام صوفی غلام رسول اور والدہ ماجدہ کا نام فاطمہ تھا۔ صوفی تبسم کا نام غلام مصطفی رکھا گیا۔ یہ ابھی معصوم بچے ہی تھے کہ اُن کی والدہ ماجدہ ایک دن اُنہیں دیوان خانے سے باہر صحن میں لیے بیٹھی تھیں کہ ایک فقیر کا اُدھر سے گزر ہوا ۔اُس نے بچے پر شفقت کا ہاتھ رکھا اور کہا اے بی بی یہ بچہ بڑی قسمت لے کر پیدا ہوا ہے۔ 
بڑا ہوکر شہرت اور ناموری حاصل کرے گا۔ کسی کو کیا معلوم تھا کہ آج کا یہ معصوم سا بچہ غلام مصطفی کل کا مشہورِ زمانہ صوفی تبسم ہے جو بیسویں صدی کا مشہور و معروف شاعر، ممتاز ادیب، نقاد، محقق، معلم ، مترجم اور مدیر بن کر دنیائے ادب پر چھا جائے گا۔ صوفی تبسم کے والد کا پیشہ کاروبار تھا لیکن صوفی تبسم نے درس و تدریس کے شعبے کو اپنایا۔ صوفی تبسم نے ابتدائی تعلیم چرچ مشن سکول امرتسر سے حاصل کی۔ 
ایف اے خالصہ کالج امرتسر سے کیا اور پھر ایف سی کالج لاہو رسے بی اے کیا۔ اسلامیہ کالج لاہور سے ایم اے فارسی کی سند حاصل کی اور سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور سے بی ٹی کا امتحان پاس کیا۔ یوں ایم اے بی ٹی کرنے کے بعد گورنمنٹ ہائی سکول امرتسر سے تدریسی زندگی کا آغاز کیا مگر کچھ ہی عرصہ معلمی کرکے انسپکٹر آف سکولز ہوگئے۔ بعد ازاں سینٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں السنۂ شرقیہ کے پروفیسر ہوئے اور تین چار سال بعد گورنمنٹ کالج لاہور چلے آئے۔ یہاں صدر شعبۂ فارسی اور صدر شعبۂ اُردو رہے اور مدتِ ملازمت پوری کرکے یہیں سے ریٹائر ہوئے۔
صوفی تبسم نے جو عرصہ گورنمنٹ کالج لاہور میں گزارا وہ 23برسوں پر محیط ہے۔ 1931ء سے 1954ء تک وہ اس کالج میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ اُنہوں نے کالج کے لیے بے انتہا خدمات انجام دیں۔ ایک ڈرامیٹک سوسائٹی بنائی جس کے تحت شیکسپیئر کے کئی ڈرامے ترجمہ کیے اور پھر سٹیج بھی کروائے۔ شیکسپیئر کے ڈرامے   کا پنجابی ترجمہ ساون رین دا سفنہ اور     کا اُردو ترجمہ ’’خطرناک لوگ‘‘ کے نام سے صفدر میر اور رفیع پیر کی   میں سٹیج ہوئے۔ یہ ڈرامے اس قدر مقبول ہوئے کہ ان کو ہر سال   میں اسٹیج کیا جاتا رہا۔ 
ایک خصوصیت ان ڈراموں کی یہ بھی تھی کہ اس میں صوفی تبسم نے بطور ایکٹر بھی اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ ’’دلی کی آخری شمع‘‘ کے عنوان سے مشہور تمثیل میں برصغیر کے نامور شعراء کے نام اور کلام کو نئی نسل سے روشناس کرایا گیا۔ اس میں نامور شعراء کو پوٹرے کیا گیا تھا۔ یہ ایک بڑا کامیاب کارنامہ تھا جس کی یادگار تصاویر آج بھی گورنمنٹ کالج کے ہال میں زندہ و تابندہ جگمگا رہی ہیں۔
بلاشبہ گورنمنٹ کالج کا یہ علمی و ادبی زمانہ عروج کا زمانہ تھا۔ یہ دور ڈی جی سوندھی کا تھا جو پطرس بخاری سے پہلے گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل رہے۔ قیامِ پاکستان سے قبل گورنمنٹ کالج لاہور سے صوفی تبسم نے تعلیم بالغاں کے لیے ایک جریدہ ’’دوست‘‘ کے نام سے نکالا جو اُنہی کی ادارت میں خاصا کامیاب رہا۔ گورنمنٹ کالج میں ادیب فاضل کی شام کی کلاسیں بھی صوفی صاحب نے ہی شروع کروائیں۔ اپنے طویل دور معلمی میں صوفی صاحب اپنے شاگرد وں میں بے حد مقبول رہے۔ اُن کے شاگردوں میں ایسے ایسے بہت سے نام ہیں جنہوں نے اپنے استاد کی طرح بے پناہ شہرت حاصل کی۔
 قدرت اللہ شہاب، الطاف گوہر، تجمل حسین، اشفاق احمد، بانوقدسیہ، کشور ناہید، فیض احمد فیض، اعجاز حسین بٹالوی، جسٹس نسیم حسن شاہ، شہزاد احمد، حنیف رامے اور ان کے علاوہ کئی نامور شاگرد برصغیر کے گوشے گوشے میں موجود ہیں۔ صوفی صاحب نے جس شہر میں آنکھ کھولی وہ امرتسر تھا جس کا پانی میٹھا تھا اُس کی شیرینی صوفی صاحب کی باتوں میں موجود تھی۔ یہ شہر ایسا شہر تھا جہاں کاروبار کے علاوہ بڑے بڑے شہرت یافتہ شاعر، ادیب، علماء فضلاء اور مشائخ بستے تھے۔ جن میں صوفی صاحب کے برگزیدہ اُستاد قاضی حفیظ اللہ، مولوی احمد دین امرتسری، علامہ محمد حسین عرشی امرتسری، حکیم مفتی غلام رسول اور صوفی تبسم کے خاص اُستادِ گرامی حکیم فیروزالدین طغرائی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔
صوفی تبسم کا تخلص ابتدا میں کچھ عرصہ اصغر صہبائی بھی رہا مگر اُن کے اُستاد حکیم فیروزالدین طغرائی نے یہ تخلص اس لیے بدلا کہ صوفی صاحب سراپا متبسم رہتے تھے لہٰذا اُنہوں نے ان کا تخلص تبسم تجویز کیا۔ صوفی صاحب نے طالب علمی کا ابتدائی زمانہ امرتسر میں گزارا اور دادا کی تربیت میں رہے۔ صوفی صاحب کے داد اکا بہت بڑا کتب خانہ تھا۔ جس میں فارسی اور اُردو کی نادر کتابیں موجود تھیں۔ صوفی صاحب اس نادر علمی سرمائے سے خوب فیض یاب ہوئے۔ ان میں فارسی شعراء کے دیوان بھی تھے۔
 صوفی صاحب کو بچپن ہی سے فارسی شاعری کا ذوق و شوق تھا، یہی وجہ ہے کہ صوفی صاحب نے جب شعر کہنا شروع کیے تو وہ اشعار فارسی زبان ہی میں تھے۔ ڈاکٹر سیف الدین کچلو، شیخ حسام الدین سید عطا اللہ شاہ بخاری صوفی صاحب کے محلے میں ہی رہتے تھے اور صوفی صاحب کے ساتھ اُن کے خاص مراسم تھے۔ صوفی صاحب جب لاہور منتقل ہوئے تو یہ لوگ صوفی صاحب کے ہاں ہی قیام کرتے۔ شیخ حسام الدین احرار کے عظیم لیڈر شمار ہوتے تھے۔ اُن کے صوفی صاحب اور ان کے اہلِ خانہ کے ساتھ نجی تعلقات تھے۔
لاہور میں صوفی صاحب ’’بھائیوں کے میدان‘‘ (علاقہ کا نام) میں ایک سال رہے پھر ذیلدار روڈ پر قیام پذیر رہے جہاں نیازمندانِ لاہور کی مجالس اپنے عروج پر تھیں پھر کچھ عرصہ اندرون بھاٹی گیٹ قیام پذیر رہے۔ صوفی صاحب کواڈرینگل ہوسٹل (اقبال ہوسٹل) میں بھی رہے۔ ایک سال یہاں قیام پذیر ہونے کے بعد نیوہوسٹل گورنمنٹ کالج میں منتقل ہوگئے جہاں اُنہوں نے ریٹائرمنٹ تک کا عرصہ گزارا۔ نیوہوسٹل میں پطرس بخاری بھی آتے جو اُس وقت گورنمنٹ کالج کے پرنسپل اور صوفی صاحب کے دوست بھی تھے۔
 یہاں دیگر احباب کو اکٹھا کرتے اور رات گئے تک علمی و ادبی محفلیں گرم رہتیں۔ یہ علمی و ادبی حلقہ نیازمندانِ لاہور کے نام سے مشہور ہے جن میں پطرس بخاری کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر، عبدالمجیدسالک، چراغ حسن حسرت، حفیظ جالندھری، پنڈت ہری چند اختر، کرنل مجید ملک، امتیاز علی تاج اور عبدالرحمن چغتائی شامل تھے۔ صوفی صاحب 1957ء میں گورنمنٹ کالج سے ریٹائر ہونے کے بعد نیوہوسٹل سے سنت نگر حویلی میں منتقل ہوگئے اور وہاں دس سال کا عرصہ گزارا۔ یہاں بھی پاکستان کے عظیم مفکر جمع ہوتے اور یوں علمی و ادبی مجالس کا دور دورہ رہتا۔ اُستاد دامن، احسان دانش، فیض احمد فیض، ڈاکٹر حمیدالدین، عابد علی عابد اور کئی نامور شخصیات سے گیلری بھری رہتی۔ 1964ء میں صوفی صاحب سمن آباد منتقل ہوئے جہاں اُنہوں نے زندگی کے چودہ سال گزارے 
یہ آج کون خراماں اِدھر سے گزرا ہے 
جبینِ شوق ہے بے تاب نقشِ پا کے لئے
صوفی صاحب ریٹائر ہونے کے بعد بھی بدستور علمی و ادبی کاموں میں مصروف رہے۔ اُسی سال صوفی صاحب خانہ فرہنگ ایران کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ یہ وہ ادارہ ہے جس کے بانی خود صوفی صاحب تھے۔ فارسی زبان کی ترویج کے سلسلے میں اُن کی کوششیں قابل ستائش ہیں۔ آپ نے لوگوں میں فارسی کا ذوق پیدا کرنے کے لیے بے انتہا کام کیا۔ اُسی دوران صوفی صاحب سول سروسز اکیڈیمی اور فنانس سروسز اکیڈیمی میں بھی اردو کے معلم کی حیثیت سے کام کرتے رہے ۔
آپ کچھ عرصہ ہفت روزہ ’’لیل و نہار‘‘ کے بھی ایڈیٹر رہے۔ آپ کی سرپرستی میں اس ادبی و ثقافتی مجلے کا شمار اعلیٰ معیاری رسالوں میں ہونے لگا۔ ’’لیل و نہار‘‘ میں ان کا ایک کالم ’’حرف و سخن‘‘ کے نام سے چھپتا رہا جو بے حد مقبول تھا۔’’ لیل و نہار‘‘ کے بعد وہ مقتدرہ قومی زبان سے وابستہ ہوگئے جہاں سید وقار عظیم اور صوفی صاحب نے کئی لفظوں کے اُردو میں خوبصورت تراجم کیے۔ صوفی صاحب مینارِپاکستان کمیٹی کے ممبر بھی رہے۔ وہ پہلے چیئرمین پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ تھے۔ وہی پہلی بار پاکستان کرکٹ ٹیم کو انڈیا میچ کھیلنے لے کر گئے۔
ڈاکٹر فوزیہ تبسم
0 notes