#پولیس اہلکار اغواء
Explore tagged Tumblr posts
Photo
لاہور: پولیس اہلکاروں کے اغواء میں استعمال ہونے والی گاڑی محمود الرشید کے بیٹے کی نکلی لاہور کے علاقے غالب مارکیٹ میں کار سواروں کی جانب سے پولیس اہلکاروں کے اغواء کے واقعے میں استعمال ہونے والی گاڑی صوبائی وزیر پنجاب محمود الرشید کے بیٹے کی نکلی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ غالب مارکیٹ کے قریب ایک کار کو روکا تو اس میں موجود لڑکا نشے میں تھا۔ گاڑی میں موجود لڑکی نے فون کر کے اپنے ساتھیوں کو بلوایا۔ پولیس کی جانب سے دائر ایف آئی آر کے مطابق دو گاڑیوں میں سوار افراد نے موقع پر پہنچ کر پولیس اہلکاروں کو مارا پیٹا، ان کا اسلحہ چھینا اور انہیں اغواء کر لیا جب کہ روکی گئی گاڑی میں موجود لڑکا اور لڑکی فرار ہو گئے۔ ملزمان کے خلاف درج ایف آئی آر کے مطابق روکی گئی کار پنجاب کے وزیر ہاؤسنگ محمود الرشید کے بیٹے کی تھی۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء اور صوبائی وزیر ہاؤسنگ محمود الرشید کا پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میرے بیٹے کے بارے میں من گھڑت الزامات لگائے جا رہے ہیں، ان کا اس واقعے میں کوئی قصور نہیں ہے۔ محمود الرشید کا کہنا تھا کہ میرا بیٹے کو اس کے دوست نے فون کیا جس پر وہ وہاں پہنچا۔ میں نے بیٹے کو کہا کہ فوری طور پر گلبرگ تھانے جا کر شامل تفتیش ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری طرف سے تفتیش اور تحقیقات میں مکمل تعاون کیا جائے گا اگر بیٹے یا کسی نے بھی کوئی جرم کیا ہے تو اسے قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیئے۔ صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ اگر بیٹے پر الزام ثابت ہو گیا تو وزارت سے استعفیٰ دے دوں گا۔
0 notes
Text
دعا منگی کیس کا مرکزی ملزم فرار ہوا یا کروایا گیا؟
دعا منگی کیس کا مرکزی ملزم فرار ہوا یا کروایا گیا؟
دعا منگی کیس کا مرکزی ملزم فرار ہوا یا کروایا گیا؟ پولیس اہلکار مرکزی ملزم زوہیب قریشی کو جوتے دلوانے طارق روڈ لے گئے جہاں سے وہ با آسانی فرار ہوگیا۔ ملزم کے فرار ہونے کا مقدمہ درج کرلیا گیا، جبکہ واقعہ میں ملوث دو پولیس ہلکاروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ کراچی میں ہائی پروفائل دعا منگی اغواء کیس کے مرکزی ملزم زوہیب قریشی کے شاپنگ مال سے فرار کے حوالے سے انکشاف ہوا ہے کہ ملزم کو پولیس اہلکار قیدیوں…
View On WordPress
0 notes
Text
راولپنڈی میں لاپتہ سرکاری اہلکار کی لاش بازیاب - اردو نیوز پیڈیا
راولپنڈی میں لاپتہ سرکاری اہلکار کی لاش بازیاب – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین راولپنڈی: تھانہ کہوٹہ کے علاقے میں لاپتہ سرکاری اہلکار زاہد اصغر کی نعش بازیاب کرلی گئی۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق راولپنڈی کے تھانہ کہوٹہ کے علاقے میں لاپتہ سرکاری اہلکار زاہد اصغر کی نعش برآمد ہوگئی ہے، زاہد اصغر کا تعلق ابیٹ آباد سے تھا، اور ان کے بھائی نے دو دن قبل ہی تھانہ کہوٹہ میں اغواء کا مقدمہ کرایا تھا۔ پولیس حکام نے بتایا کہ دو ملزمان کو گرفتار کرکے ان کی…
View On WordPress
0 notes
Photo
کوہاٹ پولیس نے کالعدم تنظیم TTP کے انتہائی مطلوب دہشتگرد کمانڈر عامر جلال عرف کرمل گرفتار۔ دہشتگرد کمانڈر کی سر کی قیمت 20لاکھ تھی. دہشتگردی، سیکیورٹی فورسز پر حملوں، دھماکہ خیز مواد رکھنے، اغوا برائے تاوان،بھتہ خوری،اور درجنوں سنگین مقدمات میں KPK پولیس کو مطلوب تھا۔ سال 2011کے دوران تیل و گیس کے ذخائر تلاش کرنے والی مول کمپنی کے گاڑیوں پر حملے کے واقعے میں بھی ملوث تھا جس میں مول کمپنی کے ڈاکٹر کو اغواء کیا گیا تھا اور اس واقعے میں مول کمپنی کے سکیورٹی پر مامور پانچ اہلکار شہید ہوگئے تھے.
0 notes
Photo
کراچی اغواء کاروں کو ملیر میں 2 بہنوں کو اغواء کرنا حراساں کرنا مہنگا پڑ گیا کراچی ( بیوروچیف حفیظ الرحمن ) کراچی کے علاقے ملیر میں اغواء ہونے والی لڑکیوں کی ایف آئی آر مزید قلعی کھلنے لگی اغواء کاروں کو ملیر میں 2 بہنوں کو اغواء کرنا حراساں کرنا مہنگا پڑ گیا تفتیش کا دائرہ کیا رخ اختیار کرنے جا رہا ہے ایسے بہت سے سوالات جنم لینے لگے ذرائع کے مطابق تھانہ ملیر سٹی کی حدود سے اغواء ہونے والی لڑکیوں نے پولیس موبائل اور ایک اہلکار کی شناخت کر لی گرفتار شدہ اہلکارلیاقت نے اپنے سابقہ کارناموں کی قعلی کھول دی ذرائع کے مطابق لانڈھی تھانے کا عرفان اللہ کاظمی اس پوری ٹیم کو چلا رہا تھا
0 notes
Text
راولپنڈی اجتماعی زیادتی کیس میں چاروں پولیس اہلکار بری
راولپنڈی اجتماعی زیادتی کیس میں چاروں پولیس اہلکار بری
عدالت نے تھانہ روات کی حدود میں رافعہ بی بی کے اغواء و زیادتی کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے چاروں پولیس اہلکاروں کو بری کردیا۔
ایڈیشنل سیشن جج مسعود وڑائچ نے رافعہ بی بی اغواء و زیادتی کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے پولیس کے چاروں کانسٹیبلنز راشد، عامر، عظیم اور نصیر کو باعزت بری کرتے ہوئے کہا کہ کوئی جرم ثابت نہیں ہوا اور فرانزک رپورٹ بھی منفی آئی۔
واضح رہے کہ رواں سال 18 مئی کو خاتون رافعہ نے 4 پولیس…
View On WordPress
0 notes
Text
انسداد دہشت گردی عدالت نے راؤ انوار پر فرد جرم عائد کردی
کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت ہوئی جس سلسلے میں کیس میں نامزد مرکزی ملزم سابق ایس ایس پی راؤ انوار اور دیگر ملزمان عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے نقیب اللہ محسود کے قتل کے مقدمے میں راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد کردی تاہم ملزمان نے صحت جرم سے انکار کردیا جس پر عدالت نے 11 اپریل کو کیس کے گواہان کو طلب کرلیا۔ جب کہ عدالت نے آئندہ سماعت مدعی مقدمہ اور عینی شاہدین کے بیان ریکارڈ کرنے والے مجسٹریٹ کو بھی طلب کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس کیس میں 13 پولیس اہلکار و افسراں عدالتی ریمانڈ پر جیل میں ہیں جب کہ راؤ انوار اور ڈی ایس پی قمر سمیت 5 ملزمان ضمانت پر رہا ہیں، ملزمان پر اغواء قتل سمیت دیگر الزامات ہیں۔ Read the full article
0 notes
Photo
https://is.gd/wk1lml
جعلی مقابلہ: نقیب اللہ کو قتل کرنے کے کیس میں راؤ انوار پر فرد جرم عائد
کراچی: کراچی کی انسداد دہشتگردی عدالت نے جعلی مقابلے میں مارے جانے والے نوجوان نقیب اللہ قتل کیس میں راؤ انوار اور دیگر پر فرد جرم عائد کر دی، تمام ملزمان نے صحت جرم سے انکار کر دیا۔
انسدادِ دہشت گردی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت ہوئی جس میں سابق ایس ایس پی راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان پیش ہوئے، عدالت نے راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان پر فردِ جرم عائد کردی، عدالت کی جانب سے فرد جرم عائد کرنے پر ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا جس پر عدالت نے گواہوں کو 11 اپریل کو طلب کرلیا۔
واضح رہے کہ اس کیس میں 13 پولیس اہلکار و افسراں عدالتی ریمانڈ پر جیل میں ہیں جب کہ راؤ انوار اور ڈی ایس پی قمر سمیت 5 ملزمان ضمانت پر رہا ہیں، ملزمان پر اغواء قتل سمیت دیگر الزامات ہیں۔
0 notes
Photo
کراچی: نقیب اللہ قتل کیس راو انوار سمیت نامزد ملزمان پر فرد جرم عائد۔ کراچی (حکیم محمد یوسف سے) انسداد دہشت گردی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت۔ نامزد مرکزی ملزم سابق ایس ایس پی راؤ انوار اور دیگر ملزمان عدالت میں ۔ عدالت نے نقیب اللہ محسود کے قتل کے مقدمے میں راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد کر دی تاہم ملزمان نے صحت جرم سے انکار کر دیا جس پر عدالت نے 11 اپریل کو کیس کے گواہان کو طلب کر لیا۔ عدالت نے آئندہ سماعت مدعی مقدمہ اور عینی شاہدین کے بیان ریکارڈ کرنے والے مجسٹریٹ کو بھی طلب کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس کیس میں 13 پولیس اہلکار و افسراں عدالتی ریمانڈ پر جیل میں ہیں جب کہ راؤ انوار اور ڈی ایس پی قمر سمیت 5 ملزمان ضمانت پر رہا ہیں۔ ملزمان پر اغواء قتل سمیت دیگر الزامات ہیں۔
0 notes
Photo
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں افسران و اہلکاروں پر مشتمل اغواء برائے تاوان گروہ کا انکشاف ،شہریوں کو اغوا ء کر کے تاوان وصول کیا گیا اسلام آباد (آن لائن) ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں افسران و اہلکاروں پر مشتمل اغوائبرائے تاوان گروہ کا انکشاف ، شہریوں کو اغوا کر کے 15 لاکھ 80 ہزار روپے تاوان بھی وصول کیا۔ اعلیٰ افسران کی پشت پناہی والے گروہ میں سپیشل برانچ اور پولیس اہلکار شامل ، پولیس نے ملوث اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے اہلکاروں کے اغواہ برائے تاوان میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ ایف آئی اے افسران و اہلکاروں پر مشتمل اغواہ برائے تاوان کے گروہ کا انکشاف ہوا ہے
0 notes
Text
جمہوریت کی لانڈری
ایک معمولی پولیس اہلکار جس کے ہم کاتب تقدیر ہیں، جس کا دانہ پانی ہم جب چاہیں روک دیں اور جب چاہیں فراخ کر دیں، جس کی عزت و ذلت بھی ہمارے ہاتھ میں ہے، جب چاہیں اسے کامیاب پولیس آفیسر قرار دے کر میڈل سے نواز دیں اور جب چاہیں بددیانتی، ماورائے قتل یا کسی اور جرم کا الزام لگا کر اسے زمانے بھر میں بدنام کر دیں۔ پولیس آفیسر بھی اس شہر کا‘ جہاں بھتہ خوروں، بوری بند لاشوں کے ٹھیکیداروں، اغواء برائے تاوان کے مجرموں، مسخ شدہ لاشوں کے تحفے دینے والوں اور انسانوں کے جسموں میں ڈرل مشینوں سے سوراخ کر کے چنگیز خان اور ہلاکو کی وحشت و بربریت کی داستانیں رقم کرنے والوں کے خلاف جب آپریشن ہوا تو ایسے سب ’’معمولی‘��� پولیس اہلکار جو اس آپریشن کو ایک فرض منصبی سمجھ کر شریک ہوئے تھے، انھیں ایک ایک کر کے چن چن کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔
حالت یہ ہے کہ برطانیہ میں کراچی کا ایک پولیس آفیسر پناہ کی درخواست دیتا ہے تو برطانوی جج اپنے فیصلے میں لکھتا ہے کہ اسے پناہ اس لیے دی جا رہی ہے کہ کراچی میں اس کے ساتھی دو سو پولیس آفیسروں کو قتل کر دیا ہے اور اگر یہ پاکستان واپس چلا گیا تو اسے بھی قتل کر دیا جائے گا۔ ایسے شہر میں اس پولیس آفیسر کی یہ جرأت کہ جمہوری طور پر منتخب ایک ممبر صوبائی اسمبلی اور لیڈر آف اپوزیشن کو قتل اور گھیراؤ جلاؤ جیسے فوجداری جرائم کے تحت درج مقدموں میں گرفتار کرنے جائے، اس کو اس بات کا احساس تک نہیں یہ ایک ایسی شخصیت کا گھر ہے جسے ووٹ کی طاقت نے پاکبازی و معصومیت کا سرٹیفکیٹ عطا کر دیا ہے۔
اسے اندازہ نہیں اس نے خواجہ اظہار کو گرفتار نہیں کیا‘ جمہوریت کی عزت و حرمت پر ہاتھ ڈالا ہے۔ اس کی یہ جرأت، یہ ہمت جب کہ اس ملک میں ایک ایسی حکومت ہے جس نے پاکستان کی ساری بیوروکریسی اور ساری پولیس کو پرونواز اور اینٹی نواز میں تقسیم کرنے کا ’’شرف‘‘ حاصل کیا ہے۔ اس معمولی پولیس اہلکار کو جاننا چاہیے تھا کہ ساری بیوروکریسی اور ساری پولیس جمہوری نظام کی بقاء کے لیے کیا کچھ کر گزرتی ہے اور تب جا کر ان جمہوری حکمرانوں کی آنکھوں کا تارا بن جاتی ہے۔ اسے نہیں معلوم کیسے الیکشن کے دنوں میں یہ تمام افسران رائے ونڈ اور بلاول ہاؤس میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔
اپنے اپنے عظیم ’’جمہوری‘‘ رہنماؤں کو بہترین مشوروں سے نوازتے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ ہم نے پولنگ اسکیم کیسے بنائی ہے کہ آپ ہی جیتیں گے‘ بتاتے ہیں کہ ہم نے ان کے مخالفین کے اہم ترین لوگوں کو کیسے مقدموں میں الجھا دیا ہے۔ ہم نے کیسے دباؤ ڈال کر جعلی کیس بنا کر کتنے لوگوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ آپ کی حمایت کا اعلان کریں۔ ہم نے پولنگ اسٹیشنوں کے عملے کو انتہائی احتیاط سے تعینات کیا اور اب آپ بے فکر ہو جائیں، ہم موجود ہیں فیلڈ میں، کوئی ہم پر شک تھوڑا کرے گا کہ ہم میاں نواز شریف کے وفادار ہیں یا آصف علی زرداری کے۔ ہم پولیس اور انتظامیہ کے آفیسر ہیں، غیر جانبدار۔ جیتنے پر انعامات کی سب سے پہلی بارش انھی افسران پر ہوتی ہے۔
ایک منظور نظر کو جب پنجاب کا چیف سیکریٹری لگایا تو وہ بہت جونیئراور دیگر سیکریٹری سینئر تھے۔ جو نالاں رہتے تھے ایک دن اس نے سیکریٹری کمیٹی میں بے لاگ اور کھرا سچ بول دیا۔ اس نے کہا دیکھو میں نے پہلے دن اس بات کا اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ نوکری اب سیاسی وفاداریوں کی نوکری بن چکی ہے۔ ضیاالحق کا دور تھا جب میں سروس میں آیا اور سب سے منظور نظر گھرانہ ماڈل ٹاؤن کا شریف گھرانہ تھا۔ میں نے ان کی چوکھٹ پر خود کو ’’سرنڈر‘‘ کیا اور آج تک ان کا وفادار ہوں۔ جب تک یہ ہیں میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑسکتا۔ یہ نوکری عوام کی نہیں گھرانوں کی نوکری ہے۔
اس ’’معمولی‘‘ پولیس آفیسر کو اس بات کا احساس تک نہیں کہ جمہوریت کی بقا اور سسٹم کے تحفظ کے لیے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اخلاق، ضمیر، قانون اور ذاتی غیرت کو بھی میٹھی نیند سلانا پڑتا ہے۔ جمہوری حکمران تمہیں میٹنگ میں بے نقط سنائے، عوام کے سامنے بے عزت و رسوا کرے، بے شک تم پولیس کے انسپکٹر جنرل ہو جاؤ، تمہارے چہرے پر شرعی داڑھی ہو، وہ تمہیں تحقیر کے ساتھ ’’دڑھیل‘‘ کہہ کر پکارے، تمہیں سب سننا پڑتا ہے۔ تمہیں سیاسی مخالفین کے خلاف جھوٹے کیس بنانا ہوتے ہیں۔ ان کے گھروں پر چھاپے مار کر ان کی بیٹیوں، بہنوں، بہوؤں اور ماؤں تک کو تھانے میں لا کر بٹھانا ہوتا ہے۔ تم سوچ بھی نہیں سکتے کہ کوئی ممبر اسمبلی قتل بھی کر سکتا ہے، یا کروا سکتا ہے۔ چوری کر بھی سکتا ہے یا چوروں کی سرپرستی بھی کر سکتا ہے۔ توبہ توبہ، ہزار بار توبہ۔ جس شخص کو یہ قوم منتخب کر کے اسمبلی میں بھیجتی ہے اس کے بارے میں ایسا سوچنا بھی تمہاری نوکری میں جرم ہے۔
یہ تو معصوم لوگ ہیں۔ اللہ کے بنائے معصوم تو پیغمبر ہوتے ہیں۔ لیکن پاکستان کی جمہوریت کے بنائے معصوم پارلیمانی نظام کے منتخب لوگ ہوتے ہیں۔ جمہوری نظام کے ستون، جن کے دست قدرت میں سارا نظام یرغمال ہے۔ اگر آپ کا وفادار نیب کا سربراہ ہے، ایف آئی اے کا ڈائریکٹر ہے، پولیس کا انسپکٹر جنرل ہے اور ایف بی آر کا چیئرمین ہے تو آپ پر لاکھ الزام لگے، پوری قوم کا بچہ بچہ جانتا ہو کہ آپ نے بددیانتی کی ہے، قتل کروائے ہیں، لوگوں کی جائیدادیں ہڑپ کی ہیں، آپ پاکستان کی کسی بھی عدالت میں سزا کے مستحق نہیں ہو سکتے۔
اس لیے کہ آپ کے خلاف مقدمے کے شواہد جج نے نہیں، نیب نے، پولیس نے، ایف آئی اے یا ایف بی آر نے جمع کروانے ہیں اور آپ نے کس خوبصورتی سے ان کو رائے ونڈ اور بلاول ہاؤس کی چوکھٹوں کا غلام بنا لیا ہے۔ جب ان عہدوں پر ایسے وفادار بیٹھے ہوں گے تو کون ان سیاستدانوں کو مجرم ثابت کرنے کے لیے ثبوت اکٹھا کرے گا۔ 1999ء تک یہ جمہوری لیڈران تھوڑے بے وقوف تھے۔ ایک دوسرے کے خلاف ثبوت اکٹھا کرتے تھے۔ اب یہ سب متحد ہو گئے ہیں۔ یہ کس کے خلاف متحد ہوئے ہیں اٹھارہ کروڑ عوام کے خلاف۔ کس ڈھٹائی سے کہا جاتا ہے تمہاری جرأت تم ایک رکن اسمبلی پر ہاتھ ڈالو جس پر قتل کا الزام ہے۔ ہاتھ ڈالنے کے لیے اٹھارہ کروڑ عوام جو موجود ہیں۔ جاؤ ان کے گھروں پر چھاپے مارو، جاؤ ان کی عورتوں کو اٹھا کر تھانے لاؤ، جاؤ ان کو ننگی گالیاں نکالو، جاؤ ان کو تھانے لے جا کر اتنا مارو کے ان کی چمڑی ادھڑ جائے، ان پر بے گناہ کیس بناؤ، تمہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔
لیکن خبردار جمہوری طور پر منتخب شخص کی طرف آنکھ اٹھا کر مت دیکھنا اور دیکھو ہمیں قاتل، بددیانت، چور، بھتہ خور مت بولو، جب تک عدالت میں جرم ثابت نہ ہو جائے اور جرم تمہارا باپ بھی ثابت نہیں کر سکتا۔ تفتیش کرنے والے سب کے سب تو اپنی مٹھی میں ہیں، آدھے رائے ونڈ کی غلامی میں اور آدھے بلاول ہاؤس کی۔ کراچی والوں کا کیا ہے ان کو تو دو سو پولیس افسروں کی لاشیں ہی ڈرانے کے لیے کافی ہے اور جو ایسا پولیس آفیسر جرأت کرے اسے نشان عبرت بنا دو۔ اگر عدالت میں ثابت ہونے سے ہی کوئی شخص واقعی مجرم کہلاتا ہے تو کیا مسند اقتدار پر بیٹھے یا اپوزیشن کے عظیم جمہوری لیڈران اپنی بیٹی��ں کا رشتہ جان بوجھ کر کسی ایسے لڑکے سے کریں گے جس کے بارے میں مشہور ہوکہ وہ قاتل ہے، بھتہ خور ہے، چوروں کا سرغنہ ہے، جوئے کا اڈہ چلاتا ہے، کئی بار خواتین کے ساتھ جنسی تشدد میں ملوث ہوا مگر ثبوت نہ ہونے پر صاف بچ نکلا۔ کیا یہ سیاست دان ایسے شخص کو اپنی شوگر مل، اسٹیل مل یا کسی دفتر میں ملازم رکھیں گے، حالانکہ اس کے خلاف کوئی جرم تو ثابت نہیں ہوا ہوتا۔ وہ بھی یہی کہتے پھرتے ہیں کہ ہم پر پولیس نے ناجائز کیس بنائے ہیں۔ لیکن تمہارا فیصلہ چونکہ جمہوری بنیاد پر نہیں بلکہ بہترین مفاد کے لیے ہوتا ہے اس لیے آپ بیٹی یا بیٹے کا رشتہ اور اپنا ملازم تک اس کی شہرت دیکھ کر رکھتے ہیں۔ عدالت کے فیصلے نہیں مانگتے۔
ان جمہوری لیڈران کو اگر اس بات کا اندازہ ہو جائے کہ ان کی شہرت کیا ہے اور اللہ اس پر انھیں شرمندہ ہونے کی توفیق عطا فرما دے تو شرم کے مارے سب کچھ چھوڑ کر جنگلوں کو بھاگ جائیں لیکن کیا کیا جائے جس ملک میں جرم دھونے کی سب سے بڑی لانڈری الیکشن ہو وہاں کبھی انصاف اپنی جڑیں نہیں پکڑ سکتا۔
اوریا مقبول جان
#SSP Rao Anwar#Rao Anwar#Pakistan Politics#Pakistan#Orya Maqbool Jan#Muttahida Qaumi Movement#Karachi Politics#Karachi Police#Karachi
0 notes
Text
جمہوریت کی لانڈری
ایک معمولی پولیس اہلکار جس کے ہم کاتب تقدیر ہیں، جس کا دانہ پانی ہم جب چاہیں روک دیں اور جب چاہیں فراخ کر دیں، جس کی عزت و ذلت بھی ہمارے ہاتھ میں ہے، جب چاہیں اسے کامیاب پولیس آفیسر قرار دے کر میڈل سے نواز دیں اور جب چاہیں بددیانتی، ماورائے قتل یا کسی اور جرم کا الزام لگا کر اسے زمانے بھر میں بدنام کر دیں۔ پولیس آفیسر بھی اس شہر کا‘ جہاں بھتہ خوروں، بوری بند لاشوں کے ٹھیکیداروں، اغواء برائے تاوان کے مجرموں، مسخ شدہ لاشوں کے تحفے دینے والوں اور انسانوں کے جسموں میں ڈرل مشینوں سے سوراخ کر کے چنگیز خان اور ہلاکو کی وحشت و بربریت کی داستانیں رقم کرنے والوں کے خلاف جب آپریشن ہوا تو ایسے سب ’’معمولی‘‘ پولیس اہلکار جو اس آپریشن کو ایک فرض منصبی سمجھ کر شریک ہوئے تھے، انھیں ایک ایک کر کے چن چن کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔
حالت یہ ہے کہ برطانیہ میں کراچی کا ایک پولیس آفیسر پناہ کی درخواست دیتا ہے تو برطانوی جج اپنے فیصلے میں لکھتا ہے کہ اسے پناہ اس لیے دی جا رہی ہے کہ کراچی میں اس کے ساتھی دو سو پولیس آفیسروں کو قتل کر دیا ہے اور اگر یہ پاکستان واپس چلا گیا تو اسے بھی قتل کر دیا جائے گا۔ ایسے شہر میں اس پولیس آفیسر کی یہ جرأت کہ جمہوری طور پر منتخب ایک ممبر صوبائی اسمبلی اور لیڈر آف اپوزیشن کو قتل اور گھیراؤ جلاؤ جیسے فوجداری جرائم کے تحت درج مقدموں میں گرفتار کرنے جائے، اس کو اس بات کا احساس تک نہیں یہ ایک ایسی شخصیت کا گھر ہے جسے ووٹ کی طاقت نے پاکبازی و معصومیت کا سرٹیفکیٹ عطا کر دیا ہے۔
اسے اندازہ نہیں اس نے خواجہ اظہار کو گرفتار نہیں کیا‘ جمہوریت کی عزت و حرمت پر ہاتھ ڈالا ہے۔ اس کی یہ جرأت، یہ ہمت جب کہ اس ملک میں ایک ایسی حکومت ہے جس نے پاکستان کی ساری بیوروکریسی اور ساری پولیس کو پرونواز اور اینٹی نواز میں تقسیم کرنے کا ’’شرف‘‘ حاصل کیا ہے۔ اس معمولی پولیس اہلکار کو جاننا چاہیے تھا کہ ساری بیوروکریسی اور ساری پولیس جمہوری نظام کی بقاء کے لیے کیا کچھ کر گزرتی ہے اور تب جا کر ان جمہوری حکمرانوں کی آنکھوں کا تارا بن جاتی ہے۔ اسے نہیں معلوم کیسے الیکشن کے دنوں میں یہ تمام افسران رائے ونڈ اور بلاول ہاؤس میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔
اپنے اپنے عظیم ’’جمہوری‘‘ رہنماؤں کو بہترین مشوروں سے نوازتے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ ہم نے پولنگ اسکیم کیسے بنائی ہے کہ آپ ہی جیتیں گے‘ بتاتے ہیں کہ ہم نے ان کے مخالفین کے اہم ترین لوگوں کو کیسے مقدموں میں الجھا دیا ہے۔ ہم نے کیسے دباؤ ڈال کر جعلی کیس بنا کر کتنے لوگوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ آپ کی حمایت کا اعلان کریں۔ ہم نے پولنگ اسٹیشنوں کے عملے کو انتہائی احتیاط سے تعینات کیا اور اب آپ بے فکر ہو جائیں، ہم موجود ہیں فیلڈ میں، کوئی ہم پر شک تھوڑا کرے گا کہ ہم میاں نواز شریف کے وفادار ہیں یا آصف علی زرداری کے۔ ہم پولیس اور انتظامیہ کے آفیسر ہیں، غیر جانبدار۔ جیتنے پر انعامات کی سب سے پہلی بارش انھی افسران پر ہوتی ہے۔
ایک منظور نظر کو جب پنجاب کا چیف سیکریٹری لگایا تو وہ بہت جونیئراور دیگر سیکریٹری سینئر تھے۔ جو نالاں رہتے تھے ایک دن اس نے سیکریٹری کمیٹی میں بے لاگ اور کھرا سچ بول دیا۔ اس نے کہا دیکھو میں نے پہلے دن اس بات کا اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ نوکری اب سیاسی وفاداریوں کی نوکری بن چکی ہے۔ ضیاالحق کا دور تھا جب میں سروس میں آیا اور سب سے منظور نظر گھرانہ ماڈل ٹاؤن کا شریف گھرانہ تھا۔ میں نے ان کی چوکھٹ پر خود کو ’’سرنڈر‘‘ کیا اور آج تک ان کا وفادار ہوں۔ جب تک یہ ہیں میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑسکتا۔ یہ نوکری عوام کی نہیں گھرانوں کی نوکری ہے۔
اس ’’معمولی‘‘ پولیس آفیسر کو اس بات کا احساس تک نہیں کہ جمہوریت کی بقا اور سسٹم کے تحفظ کے لیے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اخلاق، ضمیر، قانون اور ذاتی غیرت کو بھی میٹھی نیند سلانا پڑتا ہے۔ جمہوری حکمران تمہیں میٹنگ میں بے نقط سنائے، عوام کے سامنے بے عزت و رسوا کرے، بے شک تم پولیس کے انسپکٹر جنرل ہو جاؤ، تمہارے چہرے پر شرعی داڑھی ہو، وہ تمہیں تحقیر کے ساتھ ’’دڑھیل‘‘ کہہ کر پکارے، تمہیں سب سننا پڑتا ہے۔ تمہیں سیاسی مخالفین کے خلاف جھوٹے کیس بنانا ہوتے ہیں۔ ان کے گھروں پر چھاپے مار کر ان کی بیٹیوں، بہنوں، بہوؤں اور ماؤں تک کو تھانے میں لا کر بٹھانا ہوتا ہے۔ تم سوچ بھی نہیں سکتے کہ کوئی ممبر اسمبلی قتل بھی کر سکتا ہے، یا کروا سکتا ہے۔ چوری کر بھی سکتا ہے یا چوروں کی سرپرستی بھی کر سکتا ہے۔ توبہ توبہ، ہزار بار توبہ۔ جس شخص کو یہ قوم منتخب کر کے اسمبلی میں بھیجتی ہے اس کے بارے میں ایسا سوچنا بھی تمہاری نوکری میں جرم ہے۔
یہ تو معصوم لوگ ہیں۔ اللہ کے بنائے معصوم تو پیغمبر ہوتے ہیں۔ لیکن پاکستان کی جمہوریت کے بنائے معصوم پارلیمانی نظام کے منتخب لوگ ہوتے ہیں۔ جمہوری نظام کے ستون، جن کے دست قدرت میں سارا نظام یرغمال ہے۔ اگر آپ کا وفادار نیب کا سربراہ ہے، ایف آئی اے کا ڈائریکٹر ہے، پولیس کا انسپکٹر جنرل ہے اور ایف بی آر کا چیئرمین ہے تو آپ پر لاکھ الزام لگے، پوری قوم کا بچہ بچہ جانتا ہو کہ آپ نے بددیانتی کی ہے، قتل کروائے ہیں، لوگوں کی جائیدادیں ہڑپ کی ہیں، آپ پاکستان کی کسی بھی عدالت میں سزا کے مستحق نہیں ہو سکتے۔
اس لیے کہ آپ کے خلاف مقدمے کے شواہد جج نے نہیں، نیب نے، پولیس نے، ایف آئی اے یا ایف بی آر نے جمع کروانے ہیں اور آپ نے کس خوبصورتی سے ان کو رائے ونڈ اور بلاول ہاؤس کی چوکھٹوں کا غلام بنا لیا ہے۔ جب ان عہدوں پر ایسے وفادار بیٹھے ہوں گے تو کون ان سیاستدانوں کو مجرم ثابت کرنے کے لیے ثبوت اکٹھا کرے گا۔ 1999ء تک یہ جمہوری لیڈران تھوڑے بے وقوف تھے۔ ایک دوسرے کے خلاف ثبوت اکٹھا کرتے تھے۔ اب یہ سب متحد ہو گئے ہیں۔ یہ کس کے خلاف متحد ہوئے ہیں اٹھارہ کروڑ عوام کے خلاف۔ کس ڈھٹائی سے کہا جاتا ہے تمہاری جرأت تم ایک رکن اسمبلی پر ہاتھ ڈالو جس پر قتل کا الزام ہے۔ ہاتھ ڈالنے کے لیے اٹھارہ کروڑ عوام جو موجود ہیں۔ جاؤ ان کے گھروں پر چھاپے مارو، جاؤ ان کی عورتوں کو اٹھا کر تھانے لاؤ، جاؤ ان کو ننگی گالیاں نکالو، جاؤ ان کو تھانے لے جا کر اتنا مارو کے ان کی چمڑی ادھڑ جائے، ان پر بے گناہ کیس بناؤ، تمہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔
لیکن خبردار جمہوری طور پر منتخب شخص کی طرف آنکھ اٹھا کر مت دیکھنا اور دیکھو ہمیں قاتل، بددیانت، چور، بھتہ خور مت بولو، جب تک عدالت میں جرم ثابت نہ ہو جائے اور جرم تمہارا باپ بھی ثابت نہیں کر سکتا۔ تفتیش کرنے والے سب کے سب تو اپنی مٹھی میں ہیں، آدھے رائے ونڈ کی غلامی میں اور آدھے بلاول ہاؤس کی۔ کراچی والوں کا کیا ہے ان کو تو دو سو پولیس افسروں کی لاشیں ہی ڈرانے کے لیے کافی ہے اور جو ایسا پولیس آفیسر جرأت کرے اسے نشان عبرت بنا دو۔ اگر عدالت میں ثابت ہونے سے ہی کوئی شخص واقعی مجرم کہلاتا ہے تو کیا مسند اقتدار پر بیٹھے یا اپوزیشن کے عظیم جمہوری لیڈران اپنی بیٹیوں کا رشتہ جان بوجھ کر کسی ایسے لڑکے سے کریں گے جس کے بارے میں مشہور ہوکہ وہ قاتل ہے، بھتہ خور ہے، چوروں کا سرغنہ ہے، جوئے کا اڈہ چلاتا ہے، کئی بار خواتین کے ساتھ جنسی تشدد میں ملوث ہوا مگر ثبوت نہ ہونے پر صاف بچ نکلا۔ کیا یہ سیاست دان ایسے شخص کو اپنی شوگر مل، اسٹیل مل یا کسی دفتر میں ملازم رکھیں گے، حالانکہ اس کے خلاف کوئی جرم تو ثابت نہیں ہوا ہوتا۔ وہ بھی یہی کہتے پھرتے ہیں کہ ہم پر پولیس نے ناجائز کیس بنائے ہیں۔ لیکن تمہارا فیصلہ چونکہ جمہوری بنیاد پر نہیں بلکہ بہترین مفاد کے لیے ہوتا ہے اس لیے آپ بیٹی یا بیٹے کا رشتہ اور اپنا ملازم تک اس کی شہرت دیکھ کر رکھتے ہیں۔ عدالت کے فیصلے نہیں مانگتے۔
ان جمہوری لیڈران کو اگر اس بات کا اندازہ ہو جائے کہ ان کی شہرت کیا ہے اور اللہ اس پر انھیں شرمندہ ہونے کی توفیق عطا فرما دے تو شرم کے مارے سب کچھ چھوڑ کر جنگلوں کو بھاگ جائیں لیکن کیا کیا جائے جس ملک میں جرم دھونے کی سب سے بڑی لانڈری الیکشن ہو وہاں کبھی انصاف اپنی جڑیں نہیں پکڑ سکتا۔
اوریا مقبول جان
#SSP Rao Anwar#Rao Anwar#Pakistan Politics#Pakistan#Orya Maqbool Jan#Muttahida Qaumi Movement#Karachi Politics#Karachi Police#Karachi
0 notes
Text
جرائم مافیا کا خاتمہ کیسے ہو
گزشتہ سال پولیس اور رینجرز سے مقابلوں میں 700 ملزمان ہلاک ہوئے۔ ملزمان کی فائرنگ سے 95 پولیس، رینجرز اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار شہید ہوئے۔ کراچی میں گزشتہ سال ٹارگٹ کلنگ میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد کم ہوئی۔ گزشتہ سال 986افراد ہلاک ہوئے۔
پولیس اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق 2014 میں ایک ہزار 925 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ پنجاب میں بھی پولیس مقابلوں میں ہلاک ہونیوالے افراد کی تعداد خاصی رہی۔ کراچی میں ماورائے عدالت ہلاکتوں کی اتنی بڑی تعداد انسانی حقوق کے کارکنوں اور مظلوموں کی داد رسی کے لیے آواز اٹھانے والی بین الاقوامی تنظیموں کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ پاکستان کا نظام 1973کے آئین کا پابند ہے۔
آئین کے انسانی حقوق کے باب میں پاکستان کے ہر شہری کی جان کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ پولیس، قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں اور عدالتیں آئین کی پاسداری کی امین ہیں۔ پولیس کے قوانین کے تحت ہر ملزم کو گرفتارکرنے کے لیے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرنا لازمی ہے۔
ایف آئی آر میں ملزم کے خلاف تعزیراتِ پاکستان کی دفعات کے تحت الزامات درج کیے جاتے ہیں اور پھر پولیس کا فرض ہے کہ گرفتار ملزم کو متعلقہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرے اور ملزم کو اپنے دفاع کے لیے وکیل پیش کرنے کا بھی حق ہے۔ آئین کے تحت ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں قتل اور اقدام قتل کے تحت دیگر خطرناک الزامات کے مقدمات چلائے جاتے ہیں۔ ملک میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالتیں قائم ہیں جو دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور اسی جیسے دیگر خطرناک الزامات کے مقدمات کی سماعت کرتی ہیں۔ فوجی عدالتیں بھی ملک میں قائم ہیں۔
ملک میں رائج قوانین کے تحت متعلقہ صوبے کی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے کسی ملزم کی پھانسی کی سزا کی توثیق کے بعد متعلقہ صوبے کے گورنر اور صدرِ پاکستان کی جانب سے ملزم کی رحم کی درخواست مسترد کرنے کے بعد پھانسی کی سزا پر عملدرآمد ہوسکتا ہے۔ کراچی گزشتہ کئی عشروں سے بدامنی کا شکار ہے۔ یہ بدامنی سیاسی جماعتوں کے تصادم سے شروع ہوئی، مختلف قومیتوں کے درمیان لسانی فسادات ہوئے۔
اس کے ساتھ ہی فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔ نائن الیون کی دہشت گرد ی کے بعد جب تورا بورا میں امریکی اور اتحادی افواج نے کارپیٹ بمباری کی اور افغانستان میں طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو طالبان کی بڑی تعداد بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں منتقل ہوگئی اور پھر طالبان کراچی کے مضافاتی علاقے میں آئے۔ اسی دوران نیشنل ہائی وے، سپر ہائی وے اور ناردرن بائی پاس کے اطراف کی وسیع العریض زمینوں پر قبضے کی لڑائی میں کراچی میں متحرک سیاسی جماعتوں نے کردار ادا کرنا شروع کیا۔ اسی طرح یہ لڑائی شہر میں داخل ہوئی اور مختلف علاقوں تک پھیل گئی۔
طالبان اور ان کے اتحادی انتہاپسند گروہوں نے خودکش حملے شروع کیے۔ لیاری میںمتحرک گینگ وار میں ملوث گروہوں نے لیاری اور شہر میں ٹارگٹ کلنگ شروع کیا۔ شہر میں مختلف گروہ وجود میں آئے جنھوں نے بھتے کے لیے مختلف پروفیشنل گروپوں کے اراکین کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ اس ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے شہر میں ڈاکٹر، اساتذہ، وکلاء، صحافی، خواتین، سماجی کارکن، پولیس، رینجرز اورانٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکار قتل ہوئے۔
طالبان سے منسلک گروہوں نے قومی تنصیبات پر حملے کیے۔ گزشتہ سال کراچی میں رینجرز اور پولیس کا مشترکہ آپریشن شروع ہوا۔ بہت سے ملزمان اس آپریشن میں مارے گئے۔ مارے جانے والوں میں طالبان بھی تھے، لیاری میں گینگ وار میں ملوث ملزمان بھی ان میں شامل تھے اور شہر میں اغواء برائے تاوان، کاریں چھیننے کی وارداتوں میں ملوث افراد اور دیگر جرائم پیشہ افراد بھی ان ہلاکتوں میں شامل تھے۔ اس کے علاوہ مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکن بھی اس آپریشن کے دوران ہلاک ہوئے۔اس صورتحال سے یوں تو کئی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے کارکن متاثر ہوئے مگر ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی، کا احتجاج زیادہ نمایاں ہوا۔
لیاری کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ بعض خطرناک ملزموں کی ہلاکت کی خبروں کے بعد وہاں لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا مگر مجموعی طور پر شہر میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ ایک حد تک کم ہوا۔ یوں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ماورائے عدالت ہلاکتوں کی مدد سے امن کا راستہ تلاش کرلیا۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت اور پاکستان میں ماورائے عدالت قتل کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ بااثر ملزمان کے خلاف ثبوت فراہم کرنا مشکل ہوتا ہے۔
عام شہری کسی ملزم کے خلاف گواہی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ قانونی پیچیدگیوں اور ذہین وکلاء کی ترکیبوں کی بناء پر جرائم پیشہ افراد بری ہوجاتے ہیں۔ ملزمان اور ان کی پشت پناہی کرنے والے ایسے طاقت ور ہوتے ہیں کہ پولیس افسروں،گواہوں اور ججوں تک کو قتل کردیا جاتا ہے۔ یوں ایسے مجرموں کو پولیس مقابلوں میں ہلاک کرنا ہی معاشرے کی اصلاح ہے۔ 30 برسوں سے پبلک پراسیکیوٹر کے فرائض انجام دینے والے وکیل شاہد علی کا کہنا ہے کہ قانون سے ماورا کسی بھی شہری کا قتل غیر قانونی ہے۔ شاہد علی اس معاملے پر مزید کہتے ہیں کہ حقیقی مجرموں کو سزا دینے کے لیے ایک جامع نظام کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ گواہوں کے تحفظ کا قانون نافذ ہونا چاہیے۔ اس قانون کے تحت ایک عدالتی پولیس فورس قائم ہونی چاہیے جو صرف گواہوں کو تحفظ فراہم کرے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے اہلکاروں کو انسانی حقوق کے تحفظ کی تربیت کے نصاب میں خصوصی مضامین شامل ہونے چاہئیں۔ شاہد علی اس معاملے میں وکلاء کے کردار پر بھی تنقید کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وکلاء میں پروفیشنل ازم کی کمی ہے ۔ بعض وکلاء محض اپنے مؤکل کو ریلیف پہنچانے کے لیے غیر قانونی طریقے استعمال کرتے ہیں جس سے ملزمان سزاؤں سے بچ جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وکلاء میں حقیقی پروفیشنل ازم سے حقیقی ملزمان کو سزا مل سکتی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں جہاں ماورا عدالت قتل پر احتجاج کرتی ہیں وہیں انھیں انسانوں کو قتل کرنے والے ملزمان کو سزا دلوانے کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
گزشتہ برس نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد شروع ہوا تھا۔ گواہوں کاتحفظ کرنے کے لیے قانون کے نفاذ اور انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کی تعداد میں اضافے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے پر اتفاق ہوا تھا مگر عدالتیں قائم نہیں ہوئیں۔ ان عدالتوں میں جج اپنے کمرے میں سماعت نہیں کرتے۔ وہ ویڈیو لنک کے ذریعے کارروائی مکمل کرتے ہیں۔ اسی طرح ملزمان انھیں پہچان نہیں سکتے۔ کراچی میں کئی پولیس افسران اور گواہ قتل کردیے گئے ۔ اسی طرح سبین محمود قتل کیس کے واحد گواہ بھی نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہوئے۔
کراچی میں دہشت گردوں کو گرفتار کرنے والے ایک پولیس افسر کو حیدرآباد میں قتل کردیا گیا۔ دہشت گردی کے خاتمے میں ملوث پولیس اہلکاروں کا اعتماد مجروح ہوا۔ مگر غیر قانونی راستے اختیار کرنے سے مظلوموں کے قتل ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ حکومتِ سندھ کو اس صورتحال پر غور کرنا چاہیے۔
کراچی میں گزشتہ سال پولیس مقابلوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد ایک مہذب ریاست کے لیے بڑا دھبہ ہے۔ حکومت کو اس معاملے کا جامع حل تلاش کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیںورنہ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت میں بے نظیر بھٹو کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کی اس صورتحال میں ہلاکت جیسے واقعات خوفناک شکل اختیار کرجائیں گے۔ قانونی طریقہ کار سے ملزموں کو سزا سے ہی معاشرے کو حقیقی امن مل سکتا ہے۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان
#Sindh#Pakistan Rangers#Pakistan#Muttahida Qaumi Movement#Mafias in Karachi#Karachi Operation#Karachi Land Mafia#Karachi
0 notes
Text
ناصر مدنی کو تشدد کا نشانہ کیوں بنایا گیا؟مرکزی ملزم سامنے آگیا،شرمناک الزامات عائد کردیئے
لاہور (جی سی این رپورٹ ) ناصر مدنی پر تشدد کرنے والا مرکزی ملزم سامنے آگیا ہے۔ ملزم رضوان نے اتوار کے روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ناصر مدنی نے میری بہن کے ساتھ دم کرنے کے بہانے زیادتی کی کوشش کی اس لیے تشدد کیا۔ ملزم رضوان نے کہا ہے کہ میں لندن سے شادی میں شرکت کرنے پاکستان آیا تھا، ناصر مدنی نے مجھ سے 7لاکھ روپے اور لیپ ٹاپ تحفے میں لیا اور وہ اپنی مرضی سے کھاریاں ہوٹل آیا تھا، رضوان علی خان نے کہا کہ پریس کانفرنس میں میرے ساتھ میری والدہ اور میری بہن بھی موجود ہیں ،میری بہن کو کوئی روحانی مسئلے تھے،مولنا ناصر مدنی میری بہن کو دم کرنے آیا تھا، میں بھی چاہتا تھا کہ میری بہن کے روحانی مسائل ٹھیک ہو جائیں، ناصر مدنی نے میرے گھر کے باہر اپنی گاڑی کھڑی کی اور پھر میری ماں کے پاس آیا اور دم کیا،اس موقع پر میرے ساتھ میری بہن بھی موجود تھی لیکن ہمیں ناصر مدنی کے منصوبے کا علم نہیں تھا کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے؟ ناصر مدنی نے میری والدہ کو دم کرنے کے بعد مجھے اور میری والدہ کو کمرے سے باہر جانے کا کہا جس پر میں اپنی والدہ کو کمرے سے لے کر باہر نکل گیا ،مولانا ناصر مدنی کا کہنا تھا کہ روحانی چیزیں ہوتی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کو تنگ کریں۔اس موقع پر رضوان خان کی بہن نے بتایا ہے کہ میرا نام سمیرا ہے اور میں انگلینڈ کی رہائشی ہوں، میرے ساتھ کوئی روحانی مسائل ہیں، میرے ساتھ میری والدہ بیٹھی ہیں ان کی بھی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ،ناصر مدنی اپنی مرضی سے ہمارے گھر آیا میرا بھائی انہیں زبردستی ساتھ نہیں لائے،ناصر مدنی نے دم کے ��ہانے اکیلے کمرے میں مجھے ہراساں کرنا شروع کر دیا اور مجھ سے زبردستی کرنے کی کوشش کی تو میں نے خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہوئے اونچا بولنا شروع کر دیا ،ناصر مدنی نے مجھے اونچا بولنے سے منع کیا تو میں نے چلانا شروع کر دیا ،میں عزت دار خاندان سے تعلق رکھتی ہوں اور انگلینڈ میں ٹیچر ہوں ،ناصر مدنی نے میرے ساتھ جو کرنا چاہا ،وہ کسی بھی طرح ہمارا خاندان اجازت نہیں دیتا https://youtu.be/CeXap4Wdm_Y?t=5 میں نے اپنے بھائی کو چیخ کر بلایا اور جو کچھ میرے ساتھ ہونے والا تھا وہ اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ،جس پر میرے بھائی نے ناصر مدنی کو مارا ،ہم صرف شادی کی خوشی منانے آئے تھے ،میرے دونوں بھائیوں کو پولیس کی حراست میں مارا جا رہا ہے ،پاکستان کے کس قانون میں لکھا ہے کہ پولیس کسی کے بھی گھر میں گھس جائے ؟میری موجودگی میں پولیس بغیر کسی خاتون پولیس اہلکار کے میرے گھر میں گھسی۔ملزم رضوان خان نے قرآن پاک ہاتھ میں اٹھا کر کہا کہ تشدد کے معاملے سے میرے بھائیوں کا کوئی تعلق نہیں ہے،جس وقت یہ معاملہ پیش آیا گھر میں صرف میری والدہ ،بہن اور میں تھا ،میں سورۃ یاسین پر ہاتھ رکھ کر کہہ رہا ہوں کہ میرے بھائیوں کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ،پولیس زبردستی میرے بھائیوں کو اس مقدمے میں الجھا رہی ہے،ناصر مدنی نے یہ سارا کھیل پیسوں کی خاطر کیا ہے،یہ اُس کے پیسے لینے کے گندے طریقے ہیں،ہاں میں نے ناصر مدنی پر تشدد کیا ہے کیونکہ مجھے اس پر اس وقت بہت غصہ آ رہا تھا ،جب وہ میرے گھر سے نکلا تو مجھے شدید غصہ آ رہا تھا اور میرے اعصاب میرے قابو میں نہیں تھے ،میں کسی داڑھی والے آدمی پر اب بھروسہ نہیں کرسکتا ،یہ سب مولوی جھوٹے ہیں۔یہ مجھ پر جھوٹے الزام لگا رہا ہے،اس نے مجھ سے ساڑھے سات لاکھ روپے لئے ہیں،میرے اور ناصر مدنی کے درمیان پیسوں کا بہت بڑا لین دین ہے،پیسوں کے علاوہ کوئی سیاسی یا مذہبی جماعت درمیان میں نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ ناصر مدنی مجھے اور میری فیملی کو ہراساں کرتے ہیں جبکہ پنجاب پولیس بھی مجھے اور میری فیملی کو ہراساں کر رہی ہے ،اس کیس میں پہلے ہی پولیس نے میرے دو بھائیوں کو گرفتار کیا ہوا ہے جن کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے،ناصر مدنی نے عجوہ ریسٹورنٹ میں سب کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ وہ مجھ سے پیسے لے رہا ہے۔یاد رہے کہ گذشتہ دنوں عالمِ دین علامہ ناصر مدنی کو پروگرام کیلئے بلا کر اغواء کر کے تشدد کا نشانہ بنا یا گیا تھا،ناصر مدنی نے الزام عائد کیا کہ میرے کپڑے اتار کر ویڈیو بنائی گئی اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور میڈیا پر آنے کی صورت میں شدید دھمکیاں بھی دی گئیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے مولانا ناصر مدنی پر بہیمانہ تشدد کا نوٹس لیا تھا۔آئی جی پنجاب کو ملزمان کیخلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی گئی اور اب ناصر مدنی پر تشدد کرنے والے ملزمان کو گرفتار کرلیا گیاتھا۔ Read the full article
0 notes
Text
نقیب اللہ قتل کیس: عینی شاہد نے گرفتار 6 ملزمان کو شناخت کرلیا
نقیب اللہ قتل کیس: عینی شاہد نے گرفتار 6 ملزمان کو شناخت کرلیا
انسداد دہشت گردی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت ہوئی۔ عینی شاہد قاسم نے نقیب اللہ اسکے دوستوں کو سہراب گوٹھ کے ہوٹل سے گرفتار کرنے والے چھ ملزمان کو شناخت کرلیا۔
گواہ نے بیان دیا کہ پولیس اہلکار شفیق،غلام نازک، اللہ یار کاکا و دیگر نے ہمیں چار جنوری کو اغواء کیا گیا اغواء کے بعد پہلے ہمیں سچل چوکی لے جایا گیا۔ سچل چوکی سے نامعلوم جگہ پر منتقل کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
چار دن بعد…
View On WordPress
0 notes
Text
راولپنڈی اجتماعی زیادتی کیس میں چاروں پولیس اہلکار بری
راولپنڈی اجتماعی زیادتی کیس میں چاروں پولیس اہلکار بری
کوئی جرم ثابت نہیں ہوا اور فرانزک رپورٹ بھی منفی آئی، عدالت فوٹو:فائل
راولپنڈی: عدالت نے تھانہ روات کی حدود میں رافعہ بی بی کے اغواء و زیادتی کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے چاروں پولیس اہلکاروں کو بری کردیا۔
ایڈیشنل سیشن جج مسعود وڑائچ نے رافعہ بی بی اغواء و زیادتی کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے پولیس کے چاروں کانسٹیبلنز راشد، عامر، عظیم اور نصیر کو باعزت بری کرتے ہوئے کہا کہ کوئی جرم ثابت نہیں ہوا…
View On WordPress
0 notes