#پروسیس
Explore tagged Tumblr posts
Text
آسٹریا میں ہزاروں ملازمتیں آپ کی منتظر ورک پرمٹ کیلئے کیسے اپلائی کریں؟
ویانا (ویب ڈیسک) یورپ کے ملک آسٹریا کو 110 شعبوں میں تجربہ کار ہنرمندروں کی ضرورت ہے۔ افرادی قوت کی کمی کے باعث آسٹریا جیسے ممالک ویزا پروسیس آسان رکھتے ہیں تاکہ جلد از جلد معاملات کو اپنے حق میں کیا جاسکے۔ نجی ٹی وی آج نیوز کے مطابق آسٹریا کی حکومت نے زیادہ سے زیادہ معیاری اور متنوع افرادی قوت حاصل کرنے کے لیے شعبے بھی بڑھائے ہیں اور ویزا کا عمل بھی آسان بنایا ہے۔دنیا بھر کے ہنر مندوں اور محنت…
0 notes
Text
ایف آئی اے امیگریشن کراچی نے 2023 میں 69 مطلوب ملزم گرفتار کئے
ایف آئی اے امیگریشن کراچی نے سالانہ کارکردگی رپورٹ جاری کردی، رپورٹ کے مطابق سال 2023 کے دوران ایف آئی اے امیگریشن نے کراچی ایئرپورٹ پر بین الاقوامی آمد اور روانگی پر 30 لاکھ 23 ہزار مسافروں کو کامیابی سے پروسیس کیا۔ سال کے دوران 11441 پروازوں سے 1.7 ملین مسافر کراچی ایر پورٹ سے روانہ ہوئے، سال 2023 کے دوران 11041 پروازوں سے 1.5 ملین مسافر مختلف ممالک سے کراچی پہنچے، سال 2023 کے دوران ایف آئی اے…
View On WordPress
0 notes
Text
بجلی بریک ڈاؤن کے بعد بحالی کے دوران تربیلا پاور ہاؤس 7 بار فیل ہونے کا انکشاف
اسلام آباد: بجلی بریک ڈاؤن کے بعد بحالی کے دوران تربیلا پاور ہاؤس 7 بار فیل ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ تفصیلات کے مطابق چیئرمین نیپرا نے قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ ملک میں حالیہ بجلی بریک ڈاؤن کے بعد بحالی کے دوران تربیلا پاور ہاؤس سات بار فیل ہوا، بجلی بحالی کے پروسیس کا وقت 4 گھنٹے تھا جب کہ بجلی کی مکمل بحالی میں 48 گھنٹے کا وقت لگا۔ کمیٹی نے وزیر اعظم کی قائم کردہ انکوائری…
View On WordPress
0 notes
Text
اسپین کی قومیت حاصل کرنے والوں کے لیے خوش خبری Speeding up Spanish citizenship process
میڈرڈ: اسپین کی قومیت حاصل کرنے والوں کے لیے خوش خبری ہے کہ نیشنلٹی کے حصول کے پروسیس میں تیزی کی امید پیدا ہو گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق جب سے اسپین میں سوشلسٹ ورکرز پارٹی کی حکومت آئی ہے، تب سے ملک میں امیگریشن کے حوالے سے اہم اقدامات کیے گئے ہیں جو امیگرنٹس کے مفاد میں ہیں۔ اسپینش پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت میں تارکین وطن کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا تھا، اور نیشنلٹی کے حصول میں طریقہ کار پیچیدہ…
View On WordPress
0 notes
Text
پروسیس شدہ غذائیں یادداشت اور دماغ کے لیے مضر
پروسیس شدہ غذائیں یادداشت اور دماغ کے لیے مضر
کولمبس، اوہایو: سائنسدانوں کا خیال ہے کہ پروسیس شدہ غذائیں یادداشت متاثر کرکے دماغ کووقت سے پہلے بوڑھا کرسکتی ہیں۔ سائنسدانوں نے تجربات سے ثابت کیا ہے کہ چوہوں کو جب بلند پروسیس شدہ غذا دی گئی تو صرف چار ہفتوں میں ہی دماغی جلن یا سوزش بڑھنے لگی، ان کی یادداشت کمزور ہوئی لیکن جب اس میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈ ملایا گیا تو پروسیس شدہ غذا کے منفی اثرات میں کمی واقع ہوئی۔ پروسیس شدہ فوڈ ایسے کھانے ہوتے…
View On WordPress
0 notes
Text
یاد ماضی
مین سٹریم اور سوشل میڈیا میں اکثر پچاس ، ساٹھ اور ستر کی دہائی کے پاکستانی شہروں کی ایسی تصاویر لگائی جاتی ہیں جو بہت ہانٹ کرتی ہیں اس دور کے پاکستانی شہروں کا جدید پسند ، روادار، آزاد خیال اور ترقی پسند ماحول دیکھ کر نہ صرف اس گزرے ماضی کا ناسٹیلجیا جنم لیتا ہے بلکہ قاری آج کے شہروں کا ماحول دیکھ کر سوچنے پہ مجبور ہوتا ہے کہ دراصل ہم نے تو ترقی کی بجائے تنزلی کی اگر ہمارا ماضی ایسا ہی تھا۔
آخر یہ ترقی معکوس کیوں ہوئی، اس کی عام وضاحت تو جنرل ضیا اور افغان جہاد کی صورت میں دی جاتی ہے لیکن یہ دو سیاسی وجوہات کافی نہیں اور بہت سے سوالات تشنہ رہ جاتے ہیں مثلاً کیا ان دو واقعات نے پورے معاشرے کی بنت اور سوچ ہی تبدیل کردی؟ کیا فرد واحد یوں ایک معاشرہ کو اس کے مرضی کے خلاف تبدیل کرسکتا ہے روبوٹ کی طرح ؟ ایسا کبھی ہوا نہیں پھر باقی مسلم دنیا افغانستان ، ایران ، لبنان وغیرہ بھی اسی دور میں اسی طرح تبدیلی کے عمل سے گزرے تو وہاں بھی کیا ضیا نے کچھ کیا؟
اس تمام تجزیہ سے سماجی پہلو نک��ل دیا جاتا ہے تو سوالات تشنہ رہ جاتے ہیں اگر اس تصویر میں سماجی جہت کو بھی شامل کرلیا جائے تو تصویر مکمل ہوجاتی اور ہر چیز اپنی جگہ پہ بیٹھ جاتی ہے۔ یہ ایک سماجی پروسیس تھا جو کم و بیش تمام مسلم معاشروں پہ اسی دور میں اثرانداز ہوا اسکو سمجھے بغیر مکمل کہانی سمجھ نہیں آ سکے گی۔
پچاس کی دہائی کے لگ بھگ جب مسلم ممالک آزاد ہوئے تو ان ممالک کی باگ ڈور جس طبقہ نے سنبھالی وہ جدید مغربی تعلیم یافتہ طبقہ تھا لیکن مسلم معاشروں کے اندر ایک کشمکش نوآبادیاتی دور سے ہی چلی آرہی تھی اس کشمکش کو جدیدیت پسند شہری کلچر اور روایت پسند دیہی مذہبی کلچر کی کشمکش کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ شہروں کی تعلیم یافتہ کلاس پہ جدید مغرب کی چھاپ کافی نمایاں تھی جبکہ دیہی عوامی کلچر پہ قدامت پسند مذہبیت کی چھاپ تھی۔ مذہبی طبقہ جدیدیت سے خوفزدہ تھا اور اسے مغربیت گردانتا تھا اسے خوف تھا کہ جدیدیت اپنے ساتھ مغربیت لائے گی اور پرانے روایتی کلچر کو بہا لے جائے گی کچھ اسے اپنی اجاراداری کے خاتمے کا بھی ڈر تھا اس لئے جدیدیت کو مغربیت، عریانی اور فحاشی سے تعبیر کرتا تھا۔
لیکن پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں انفراسٹکچر کی کمزوری کے باعث دیہی طبقہ دیہات یا چھوٹے شہروں تک محدود تھا جبکہ شہروں بالخصوص بڑے شہروں کا کلچر جدیدیت کا حامل تھا اسی لئے اس عہد کی تصویریں آج کے شہروں کی نسبت بہت آزاد خیال اور روادار معاشرے کی جھلک دکھاتی ہیں۔ یہ معاملہ پاکستان کی حد تک نہ تھا بلکہ تمام مسلم دنیا یہی تصویر پیش کرتی تھی افغانستان جو پاکستان کی نسبت معاشی اور ہر لحاظ سے پسماندہ تھا وہاں کابل کا شہری معاشرہ جو تاجک آبادی پہ مشتمل تھا جدیدیت یا مغربیت میں پاکستانی شہری معاشرہ سے کہیں آگے تھا جبکہ افغانستان کا دیہی پشتون معاشرہ پاکستان کے دیہی پشتون معاشرہ کی نسبت کہیں زیادہ پسماندہ اور تنگ نظر تھا لیکن کمزور انفراسٹکچر کی وجہ سے شہری تاجک اور دیہی پشتون دو الگ دنیاؤں میں رہ رہے تھے۔
ایران ، لبنان ، ترکی الغرض ہر جگہ کم و بیش مجموعی صورتحال ایسی ہی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ تبدیلی کا عمل بھی جاری تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ ان نوآزاد ملکوں میں اس وقت کے جدید تعلیم یافتہ طبقہ نے ملکوں کی ترقی کے لیے بے مثال کام کیا پاکستان کے حکمران طبقے اور بزنس انڈسٹریل کلاس نے ایشیا مین ترقی کے ریکارڈ توڑے اس کے ساتھ انفراسٹکچر بھی بہتر ہوتا گیا اور دیہاتوں سے مذہبیت کے حامل قدامت پسند دیہی کلچر کی عوامیت بھی رفتہ رفتہ شہروں کا رخ کرنے لگی ابتدا میں انکی تعداد بہت کم تھی تو شہری کلچر کا ہی حصہ بنتے گئے لیکن ستر کی دہائی تک کیفیت بدلنا شروع ہوئی جیسے جیسے قدامت پسند مذہبی کلچر کی افرادی قوت بڑھتی گئی تو ایک تضاد یا ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہونا شروع ہوئی۔ قدامت پسند دیہی کلچر کی قیادت روایتی طور پہ مذہبی طبقہ کے ہاتھ میں تھی جو جدیدیت پسند شہری کلچر کو مغرب زدہ عریانی اور فحاشی کو پھیلانے والا اور معاشرے کے لیئے خطرہ قرار دیتا تھا ان کے مطابق اگر اس عریانی اور بے حیائی کو نہ روکا ��یا تو یہ معاشرہ کو زوال پذیر کردے گا۔
ستر کی دہائی کے دوسرے وسط تک شہروں میں قدامت پسند طبقہ کی نمائندگی کافی مضبوط ہوچکی تھی لہذا خطہ بھونچالوں کی زد میں آنا شروع ہوگیا۔ اگرچہ افغانستان میں سردار داؤد کے خلاف قدامت پسند مذہبی طبقہ کی تحریک کی بھٹو نے بھی جواباً سرپرستی کی لیکن یہ تقسیم اور ٹکراؤ پہلے سے ہی موجود تھی اور انکے داؤد پہ الزمات یا شکایات بعینہ وہی تھے جو پی این اے کی تحریک نظام مصطفی میں بھٹو پہ لگائے گئے یا شاہ ایران پہ۔ بھٹو اور شاہ ایران کے بارے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ انکے خلاف وہ طبقہ جو خود کو ماسکو نواز ترقی پسند کہلاتا تھا بھی مذہبی طبقہ کی تحریک میں شامل تھا۔
بھٹو کے خلاف نظام مصطفی کی یہ تحریک اپنی بھرپور اور ہمہ گیر تھی کہ ملک تقریباً مفلوج ہی ہوکر رہ گیا تھا اور اگر ضیا مارشل لاء نہ بھی لگاتا تو یہ کہنا مشکل ہے کہ بھٹو کامیابی سے ملک اور حکومت چلا سکتا تھا اسی طرح شاہ ایران کے خلاف تو عوام کا ایک سیلاب تھا جو امڈ پڑا اور اسے جاتے ہی بنی۔
افغانستان کی حد تک فوج نے داؤد کی چھٹی کرا طاقت کے زور پہ حالات کنٹرول کرنا چاہے لیکن نتیجہ الٹ نکلا۔ اس طرح ۱۹۸۰ تک ماحول ہی بدل چکا تھا۔
جہاں تک سیاسی عوامل کا تعلق ہے تو وہ بھی اتنے چھوٹے ، محدود اور مقامی نہیں تھے جتنے ہمارے تجزیہ کار بتاتے ہیں سیاسی عوامل بھی کہیں زیادہ وسیع اور ہمہ گیر تھے۔ مشرق وسطی کے ممالک کی اپنی اندرونی کشمکش تھی یہ جدیدیت پسند روس نواز فوجی ڈکٹیٹروں اور امریکہ نواز قدامت پسند عرب بادشاہتوں میں تقسیم تھا۔ عمومی امریکی رویہ یہ تھا کہ اگر کوئی جدیدیت پسند ڈکٹیٹر امریکہ نواز ہوتا شاہ ایران کی طرح تو امریکہ اسے قدامت پسند بادشاہتوں پہ ترجیح دیتا تھا لیکن خمینی کے اسلامی جمہوری انقلاب کے نعرے نے یکدم سے ماحول بدل دیا ڈکٹیٹر اور بادشاہ بیک وقت اس نعرے سے خوفزدہ تھے اور انکے آپسی اختلافات پس پشت چلے گئے اسی لیے ایران عراق جنگ میں باشاہتوں نے صدام کی حمایت کی شاہ ایران کے جانے کے بعد امریکہ نے بھی اپنا سارا وزن عرب بادشاہتوں کے پلڑے میں ڈال دیا ادھر عرب بادشاہتوں نے مسلم ممالک میں قدامت پسند اسلام کی ترویج کے لئے باقاعدہ سرمایہ کاری کی کیونکہ قدامت پسند اسلام بادشاہت کا روایتی طور پہ عادی تھا اسی لئے پاکستان کا اسلامسٹ جو پہلے مودودی کی سوچ سے متاثر تھا اب رفتہ رفتہ مدارس کے اسلام کی طرف رجحان رکھنے لگ گیا۔ ضیا کی بجائے کوئی اور ہوتا تو شائد اس کے لئے بھی اس مجموعی سیاسی ماحول سے کوئی جائے مفر نہ ہوتی لیکن ضیا تو خود قدامت پسند دیہی مذہبی فکر سے تعلق رکھتا تھا تو کچھ اور سوچنے کی گنجائش ہی کب تھی؟
ادھر اسی کی دہائی کے پاکستان مین شہراؤ کا عمل کہیں اور تیز ہوگیا اور شہروں میں اب بھاری تعداد قدامت پسند دیہی مذہبی فکر کے حامل طبقہ کی تھی تو تبدیلی کا یہ عمل مکمل ہی ہوگیا اس وقت کے پاکستانی شہروں کی معاشرت نے وہ رخ اختیار کرلیا جو ہم آج دیکھ رہے ہیں اور جو پچاس اور ساٹھ کی دہائی کے بالکل معکوس رخ پہ نظر آتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ضیا تو ۱۹۸۸ میں چلا گیا لیکن اسکا شروع کیا ہوا عمل ریورس نہ ہوسکا کیونکہ شہروں میں وہ جدیدیت پسند طبقہ نہ صرف پسپا ہوچکا تھا بلکہ اب تو اقلیت بن چکا تھا الیکشن یا جمہوریت بھی ان تبدیلیوں کو ریورس نہ کرسکتی تھی یہی وجہ ہے کہ ضیا کے بعد کے جمہوری دور میں بھی معاشرہ اسی ڈھب پہ چلتا آیا جو ضیا کے دور میں متعین ہوچکی تھی۔
صرف ایک ہی طاقت تھی جو جنوب مشرقی ایشیا کی طرح جدیدیت پسندی کی حمایت کرسکتی تھی اور وہ تھی انڈسٹریل بزنس کلاس کی معاشی اور کاروباری ضروریات لیکن بھٹو دور کی نیشنلائزیشن کے بعد پاکستان کی وہ کلاس جو پچاس اور ساٹھ کی دہائی کی حیرت انگیز معاشی کارکردگی کی ذمہ دار تھی، ملک چھوڑ کر ہی جاچکی تھی کچھ نے یورپ میں بینکنگ شروع کردی کوئی ہانگ کانگ میں شپنگ سے وابستہ ہوگیا کوئی جرمنی میں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزارنے لگا۔ جو باقی رہ گئے تھے وہ انڈسٹریل کلاس کہلانے کے لائق نہ تھے بلکہ دیگر ممالک کے موازنہ میں چھوٹے اور درمیانہ درجہ کے تاجر تھے جنکا سکوپ ، ضروریات اور مفادات بہت محدود درجہ کے تھے۔
مسلم ممالک میں جدیدیت پسند اور قدامت پسند مذہبی کلچر کے ٹکراؤ کی دلچسپ مثال مراکش اور الجزائر کا موازنہ ہے۔ مراکش کی نسبت الجزائر آزادی سے ہی بہت زیادہ جدیدیت پسند سمجھا گیا حواری بومدین کے دور سے وہ مراکش کی نسبت کہیں زیادہ خوشحال تھا اس کے شہروں کا ماحول یورپ کے شہروں سے ملتا تھا جس میں اس دور میں الجزائری خواتین میں ساحل سمندر پہ غسل آفتابی ایک عام روایت تھی۔ جبکہ مراکش اس کی نسبت کمزور معیشت کی حامل بادشاہت تھا۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد الجزائر کے صدر کو مغرب کے قریب آنا پڑا تو مغرب بالخصوص فرانس کے دباؤ پہ شاذلی بن جدید کے دور میں جمہوریت لانے کی کوشش ہوئی اور ۱۹۹۱ میں انتخابات ہویے لیکن انکا نتیجہ سب کی توقعات کے برعکس تھا اور شدت پسند اسلامسٹ پارٹی نے میدان مار لیا۔
یہ نتائج اتنے غیر متوقع تھے کہ نہ صرف الجزائر کی حکمران فوجی کونسل نے صدر شاذلی بن جدید کی چھٹی کرا کے ان انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا بلکہ خود مغرب نے بھی خوفزدہ ہو کر اس اقدام کی تائید کی اس کے بعد الجزائر ایک لمبا عرصہ خانہ جنگی کا شکار رہا۔ اس کے برعکس سست رفتار مراکش رفتہ رفتہ آئینی بادشاہت کی طرف بڑھتا گیا جہاں جدیدیت پسند شہری کلچر اور قدامت پسند دیہی مذہبی کلچر دونوں کے نمائندے شاہ پرست تھے اور بادشاہت پہ متفق تھے اس طراح مراکشی معاشرہ میں وہ پولرائزیشن پیدا نہ ہوئی جو دیگر مسلم معاشروں میں جدیدت پسندوں اور قدامت پسندوں کا خاصہ رہی۔ یوں بالاخر آج مراکش میں جدید پسند معاشرتی رویہ گراس روٹ لیول پہ پہنچنے کا دعوی کرسکتا ہے جو دیگر مسلم ممالک میں شاذ ہی موجود ہے۔
پاکستان ایک نئی معاشرتی سطح سے دوچار ہے یہ جنوبی ایشیا کا سب سے زیادہ اربنائزڈ ملک ہے جہاں دیہی کے مقابلہ میں شہری آبادی کا تناسب ساٹھ فیصد کے قریب ہے اس تبدیلی نے اثرات بھی مرتب کئے ہیں تعلیم ، انفراسٹکچر اور ابلاغ بڑھا ہے معاشی ڈھانچہ اور ضروریات تبدیل ہورہی ہیں اس وجہ سے قدامت پسند مذہبی طبقہ کی اپیل دن بدن گھٹتی جارہی ہے اور حالیہ ادوار میں مذہبی طبقہ نے جو سیاسی جوئے کھیلے اس کی وجہ سے عوام میں انکی اہمیت اور تاثر گھٹتا گیا۔ سیاسی حالات بھی بدل چکے ہیں ریاست کو نئے چیلنجز کا سامنا ہے جن سے وہ جدیدیت سے ہم آہنگ ہوئے بغیر عہدہ برآ نہیں ہوسکتی۔ دیکھتے ہیں کہ کل کے پاکستانی شہروں کا ناک نقشہ کیسا ہوتا ہے
11 notes
·
View notes
Text
ایف بی آر مافیا اور وکلاء کا گٹھ جوڑ : فائلرز کے راستے کا پتھر
ساری دنیا میں اس بات پر ہمارا مذاق اڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں صرف ایک فیصد فائلرز ہیں۔ حکومت ہر جگہ نان فائلرز کا رونا روتی ہے۔ مگر آخر 99 فیصد لوگ اس طرف آتے کیوں نہیں؟ موجودہ حکومت اور چیئرمین ایف بی آر کی توجہ اس طرف دلانا چاہتا ہوں۔ ہماری 85 فیصد آبادی عام لوگوں پر مشتمل ہے، جو ساری زندگی محنت مزدوری کر کے، بچے پالنے اور گھر بار سیدھا کرنے کے بعد کوئی ایک آدھا چھوٹا موٹا پلاٹ اپنے بچوں کےلیے ہی لے پاتے ہیں۔ اور ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا۔ وہ سارا سال ایک ایک چیز پر ٹیکس دیتے ہیں۔ ان کی پورے سال کی ریٹرن ایک صفحے سے زیادہ کی نہیں ہوتی۔ مگر انہیں یہ تک پتا نہیں کہ ’’ریٹرن‘‘ کہتے کسے ہیں۔
خود حکومت کے اپنے سرکاری ملازمین کی بات کی جائے تو کچھ عرصہ پہلے اسی حکومت نے سرکاری ملازمین کو فائلر بنانے کی مہم کا آغاز کیا تھا۔ اس میں خاصے ملازمین فائلر بنے۔ جو نہیں بن سکے، اس کی مندرجہ ذیل وجہ ہمارے سامنے آئی۔ انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کا پروسیس بے حد پیچیدہ ہے جو ایک ماہر کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ ایف بی آر ملازمین اور وکلاء نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور وہ سہولت جو ایف بی آر آفس سے مفت ملنی چاہیے، اس کے ہر ملازم سے تین تین، چار چار ہزار روپے وصول کیے۔ بھکر سے مجھے ایک دوست نے بتایا کہ جو سب سے سستا وکیل ملا اس نے بھی سب ملازمین سے تین تین ہزار روپے لیے اور سب کے آئی ڈی/ پاسورڈ بھی اپنے پاس ہی رکھے تاکہ اگلے سال منہ مانگی فیس وصول کرکے ریٹرن فائل کرے۔
ایک اور ملازم دوست نے کمالیہ سے بتایا کہ ہم ایف بی آر آفس ریٹرن کے لیے گئے تو وہاں ملازمین نے کہا کہ آپ ہمیں تین ہزار روپے دے دیں، ہم کر دیتے ہیں۔ انکار پر کہا کہ وکیل کے ذریعے آئیں، ایسے ریٹرن نہیں ہوتی۔ جس نے پیسے دیئے، اس کا کام ہو گیا۔ سال 19۔2018 میں (جس کی اب جون کے بعد ریٹرن فائل کرنی ہے) چار لاکھ سے آٹھ لاکھ سالانہ آمدنی پر 1000 روپے ٹیکس ہے اور آٹھ سے بارہ لاکھ سالانہ روپے آمدنی پر 2000 روپے۔ آپ ذرا المیہ دیکھیے کہ ایک ملازم جس کا سالانہ ٹیکس ایک یا دو ہزار روپے بنے گا، اس نے سارا سال ٹیکس بھی کٹوا دیا اور اب کٹوانے کے بعد اس کی ریٹرن کےلیے وکیل کو دوبارہ تین سے چار ہزار ادا کرے گا۔ کیا یہ ظلم نہیں کہ وہ ٹیکس کٹوا کر پھر چار گنا رقم اسے ثابت کرنے پر لگا دے کہ جی میں نے جتنا میرا ٹیکس بنتا تھا، وہ کٹوا دیا ہے۔
اور ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا وہ ملازم یہ فالتو کا تین چار ہزار روپیہ اپنی جیب سے ادا کرے گا ؟ ہرگز نہیں۔ وہ ان پیسوں کی وصولی کے لیے لازماً کرپشن کرے گا۔ کاروباری اور دیگر باقی ماندہ لوگ بھی وکیلوں کے چکروں کی وجہ سے اسی لیے آرام سے بیٹھے رہتے ہیں کہ کوئی مس��لہ ہو گا تو دیکھا جائے گا۔ مسئلے کے حل کی طرف آتے ہیں : مندرجہ بالا 85 فیصد عام شہریوں کی ٹیکس ریٹرن کے لیے ایک ایپلی کیشن/ ایپ بنا دی جائے جس میں سادہ سے فارم پر سب معلومات درج کی جا سکیں، اٹیچمنٹ میں کوئی تحریری ثبوت دیا جا سکے۔ سمپل ’’سبمٹ‘‘ پر کلک کر کے ریٹرن جمع ہو جائے۔ ملازمین پر کامیابی سے چلنے کے بعد ایسی ہی ایپلی کیشن کاروباری لوگوں کے لیے بھی بنائی جائے۔
اگر فوری طور پر یہ ممکن نہیں تو ایف بی آر دفاتر میں وافر تعداد میں تربیت یافتہ لوگوں کو بٹھایا جائے۔ آن لائن اور مینوئل ٹوکن سسٹم سے ہر شخص جو ریٹرن جمع کروانا چاہتا ہے، اسے باری دی جائے اور اس چیز کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے کہ وہاں صارف ایک روپیہ خرچ کیے بغیر اپنی ریٹرن جمع کروا سکے۔ کوئی بلاوجہ تنگ کرے یا پیسوں کی ڈیمانڈ کرے تو فوراً ہیلپ لائن پر کمپلین کی جا سکے اور اس ملازم کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ اس طرح ایف بی آر ملازمین اور وکیل مافیا سے عوام کی جان چھوٹ جائے گی؛ اور کرپشن کا ایک دروازہ بھی بند ہو جائے گا۔ ملک کے کروڑوں ذمہ دار شہری ٹیکس ریٹرن جمع کروانا چاہتے ہیں مگر پیچیدہ سسٹم، وکیلوں کے چکروں اور بلیک میلنگ کی وجہ سے نہیں کرواتے۔ ٹیکس نیٹ بڑھانا ہے تو خدارا اس سسٹم کو آسان بنائیے۔ ٹیکس ریٹرن فائل کرنا اتنا آسان بنا دیجیے کہ ہر شہری آسانی سے کروا سکے یا خود کر سکے۔
رضوان خان بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note
·
View note
Text
مدارس کی سیکولرائزیشن
مدارس کی سیکولرائزیشن مدارس کو کیسے سیکولر کیا جاتا ہے یہ ایک ترک محقق ڈاکٹر مصطٖفیٰ طونا کا مقالہ ہے اس مقالے میں انہوں نے سلطنت عثمانیہ کے تناظر میں گفتگو کی ہے آج ہم��رے یہاں بھی یہ پروسیس اسی طرح جاری ہے اس کا ترجمہ برادر علی ایمن رضوی صاحب کی کاوش ہے ترجمہ انتہائی معیاری ہے اور دستاویز کا مطالعہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ آن لائن پڑھیں ڈاون لوڈ کریں
View On WordPress
0 notes
Photo
بریکنگ نیوز صدر پاکستان نرسنگ کونسل میڈم شازیہ ثوبیہ سومرو کا پاکستان میڈیکل کمیشن اسلام آباد کا دورہ آج صدر پاکستان نرسنگ کونسل میڈم شازیہ ثوبیہ سومرو کا پاکستان میڈیکل کمیشن اسلام آباد کا دورہ، دورے کا مقصد پاکستان نرسنگ کونسل کے رجسٹریشن کارڈ کا بروقت اطلاق نا ہونا ہے،جسکی وجہ سے پاکستان بھر کے نرسز پریشان رہتے ہیں اور پاکستان کی نرسز کو ہمیشہ پاکستان نرسنگ کونسل سے رجسٹریشن کارڈ نا ملنے کی شکایت رہتی تھی، اس شکایت کو مد نظر رکھتے ہوئے صدر پاکستان نرسنگ کونسل نے پاکستان میڈیکل کمیشن کا دورہ کیا کیوں کے پاکستان میڈیکل کمیشن اوسطاً 4 دن دن کے اندر رجسٹریشن کارڈ مہیا کرتا ہے، ایسی ہی پالیسی پاکستان نرسنگ کونسل میں بھی لانے کا صدر پاکستان نرسنگ کونسل ارادہ رکھتی ہیں، دورے میں ڈاکٹر نوشاد احمد شیخ نے انکا استقبال کیا اور رجسٹریشن کارڈ کے شعبے کے ٹیکنیکل اسٹاف سے اُنکی ملاقات کروائی اور پورے پروسیس کی بریفنگ دلوائی، جس پر پاکستان بھر کے نرسز پاکستان میڈیکل کمیشن کے صدر اور اُنکے اسٹاف کے شکر گزار ہیں۔ انشاء اللہ بہت جلد نرسز کے رجسٹریشن کارڈ بھی 4 دن کے اندر بنا کرینگے، پاکستان بھر کے نرسز صدر پاکستان نرسنگ کونسل کے شکر گزار ہیں جنہوں نے نرسز کے دیرینہ مسئلے کو حل کرنے کی جانب سنجیدگی سے پیش قدمی کی۔ منجانب انتظار علی ایڈمن نرسز ٹائمز https://www.facebook.com/photo.php?fbid=483156593825585&set=a.425238066284105&type=3
0 notes
Text
ذیابیطس (شوگر) کیا ہے اور آپ اس سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
ذیابیطس تاحیات ساتھ رہنے والے ایسی طبی حالت ہے جو ہر سال لاکھوں افراد کو ہلاک کرتی ہے اور یہ کسی کو بھی لاحق ہو سکتی ہے۔ یہ بیماری اس وقت پیدا ہوتی ہے جب جسم اپنے اندر موجود شکر (گلوکوز) کو حل کر کے خون میں شامل نہیں کر پاتا اس کی پیچیدگی کی وجہ سے دل کے دورے، فالج، نابینا پن، گردے ناکارہ ہونے اور پاؤں اور ٹانگیں کٹنے کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ تیزی سے بڑھتا ہوا مسئلہ ہے اور ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 42 کروڑ 22 لاکھ افراد اس کا شکار ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق یہ تعداد 40 سال پہلے کے مقابلے میں چار گنا ہے۔
صرف پاکستان میں ہر سال ذیابیطس کے مرض کے باعث تقریباً ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد معذور ہو جاتے ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہر چار میں سے ایک فرد ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہے اور یہ تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہی نہیں بلکہ ذیابیطس پاکستان میں ہلاکتوں کی آٹھویں بڑی وجہ بھی ہے اور 2005 کے مقابلے میں اس سے متاثرہ افراد کی ہلاکتوں میں 50 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ان خطرات کے باوجود ذیابیطس کا شکار فیصد لوگوں کو اس بات کا علم نہیں کہ روز مرہ کے معمولات میں تبدیلی کئی معاملات میں بہتری لا سکتی ہے۔
ذیابیطس کی وجہ کیا ہے؟ جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو ہمارا جسم نشاستے (کاربوہائیڈریٹس) کو شکر (گلوکوز) میں تبدیل کر دیتا ہے، جس کے بعد لبلبے (پینکریاز) میں پیدا ہونے والا ہارمون انسولین ہمارے جسم کے خلیوں کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ توانائی کے حصول کے لیے اس شکر کو جذب کریں۔ ذیابیطس تب لاحق ہوتا ہے جب انسولین مناسب مقدار میں پیدا نہیں ہوتی یا کام نہیں کرتی، اس کی وجہ سے شکر ہمارے خون میں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
ذیابیطس کی کئی اقسام ہیں۔ ٹائپ ون ذیابیطس میں لبلبہ انسولین بنانا بند کر دیتا ہے جس کی وجہ سے شکر خون کے بہاؤ میں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ سائنسدان یہ تو نہیں جانتے کہ اس کی اصل وجہ کیا ہے لیکن ان کا خیال ہے کہ شاید ایسا جینیاتی اثر کی وجہ سے ہوتا ہے یا کسی وائرل انفیکشن کی وجہ سے کہ لبلبے میں انسولین بنانے والے خلیے خراب ہو جاتے ہیں۔ ذیابیطس کے مریضوں کا دس فیصد ٹائپ ون کا شکار ہیں۔
ٹائپ 2 ذیابیطس میں لبلبہ یا تو ضرورت کے مطابق انسولین نہیں بناتا یا جو بناتا ہے وہ ٹھیک طریقے سے کام نہیں کرتی۔ ایسا عموماً درمیانی اور بڑی عمر کے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ تاہم یہ مرض کم عمر کے زیادہ وزن والے افراد، سست طرزِ زندگی اپنانے والے اور کسی خاص نسل سے تعلق رکھنے والے افراد خصوصاً جنوبی ایشیائی افراد کو بھی لاحق بھی ہو سکتا ہے۔ اب لوگوں کو خون میں گلوکوز کی بڑھی ہوئی سطح کے بارے میں تشخیص کر کے انھیں ذیابیطس ہونے کے خطرے سے آگاہ کیا جا سکتا ہے۔
ذیابیطس کی علامات کیا ہیں؟
عمومی علامات بہت زیادہ پیاس لگنا معمول سے زیادہ پیشاب آنا، خصوصاً رات کے وقت تھکاوٹ محسوس کرنا وزن کا کم ہونا دھندلی نظر زخموں کا نہ بھرنا
برٹش نیشنل ہیلتھ سروس کے مطابق ٹائپ ون ذیابیطس کی علامات بچپن یا جوانی میں ہی ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور یہ زیادہ خطرناک ہوتی ہیں۔ ٹائپ ٹو ذیابیطس کے خطرے کا شکار افراد 40 سال سے زائد عمر کے ہوتے ہیں (جنوبی ایشائی افراد 25 سال کی عمر تک)۔ ان کے والدین یا بہن بھائیوں میں سے کسی کو ذیابیطس ہوتا ہے، ان کا وزن زیادہ ہوتا ہے یا وہ موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں، ان میں زیادہ تعداد جنوبی ایشیائی مالک کے لوگوں کی، چینی باشندوں کی، جزائر عرب الہند اور سیاہ فام افریقیوں کی ہے۔
کیا میں ذیابیطس سے بچ سکتا ہوں؟ ذیابیطس کا زیادہ تر انحصار جینیاتی اور ماحولیاتی عوامل پر ہوتا ہے لیکن آپ صحت مند غذا اور چست طرزِ زندگی سے اپنے خون میں شکر کو مناسب سطح پر رکھ سکتے ہیں۔ پروسیس کیے گئے میٹھے کھانوں اور مشروبات سے پرہیز اور سفید روٹی اور پاستا کی جگہ خالص آٹے کا استعمال پہلا مرحلہ ہے۔ ریفائنڈ چینی اور اناج غذائیت کے اعتبار سے کم ہوتے ہیں کیونکہ ان میں سے وٹامن سے بھرپور حصہ نکال دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سفید آٹا، سفید روٹی، سفید چاول، سفید پاستا، بیکری کی اشیا، سوڈا والے مشروبات، مٹھائیاں اور ناشتے کے میٹھے سیریل۔
صحت مند غذاؤں میں سبزیاں، پھل، بیج، اناج شامل ہیں۔ اس میں صحت مند تیل، میوے اور اومیگا تھری والے مچھلی کے تیل بھی شامل ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ وقفے وقفے سے کھایا جائے اور بھوک مٹنے پر ہاتھ روک لیا جائے۔ جسمانی ورزش بھی خون میں شوگر کے تناسب کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ برطانیہ میں این ایچ ایس تجویز کرتا ہے کہ ہفتے میں کم از کم ڈھائی گھنے ایروبکس کرنا یا تیز چہل قدمی یا سیڑھیاں چڑھنا مفید ہے۔ جسم کا صحت مند حد تک وزن شوگر لیول کو کم رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ اگر آپ وزن کم کرنا چاہتے ہی تو اسے آہستہ آہستہ کریں یعنی آدھا یا ایک کلو ایک ہفتے میں۔ یہ بھی اہم ہے کہ آپ تمباکو نوشی نہ کریں اور اپنے کولیسٹرول لیول کو کم رکھیں تاکہ دل کے عارضے کا خطرہ کم ہو۔
ذیابیطس میں پیچیدگیاں کیا ہیں؟ خون میں شوگر کی زیادہ مقدار خون کی شریانوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اگر خون کا جسم میں بہاؤ ٹھیک نہ ہو تو یہ ان اعضا تک نہیں پہنچ پاتا جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے اس کی وجہ سے اعصاب کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے درد اور احساس ختم ہو جاتا ہے، بینائی جا سکتی ہے اور پیروں میں انفیکشن ہو سکتا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ نابینا پن، گردوں کی ناکارہ ہونے، دل کے دورے، فالج اور پاؤں کٹنے کی بڑی وجہ ذیابیطس ہی ہے۔ سنہ 2016 میں ایک اندازے کے مطابق 16 لاکھ افراد براہ راست ذیابیطس کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔
کتنے لوگ ذیابیطس کا شکار ہیں؟ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق 1980 میں ذیابیطس کا شکار افراد کی تعداد دس کروڑ 80 لاکھ تھی جو 2014 میں بڑھ کر 42 کروڑ 22 لاکھ ہو گئی۔ 1980 میں دنیا بھر کے 18 سال سے زاید عمر کے بالغ افراد کا پانچ فیصد ذیابیطس کا شکار تھا جبکہ سنہ 2014 میں یہ تعداد 8.5 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ ذیابیطس کی بین الاقوامی فاؤنڈیشن کے اندازوں کے مطابق اس کیفیت کا شکار 80 فیصد بالغ افراد درمیانی عمر کے ہیں، ان کا تعلق کم آمدنی والے ممالک سے ہے اور جہاں کھانے پینے کی عادادت تیزی سے تبدیل ہوتی ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں اس کا ذمہ دار غربت اور سستے پروسیسڈ کھانوں کو قرار دیا جاتا ہے۔
بشکریہ بی بی سی اردو
3 notes
·
View notes
Text
ماہرین کے مطابق دل کی صحت کے لیے بدترین غذائیں #اہمخبریں
New Post has been published on https://mediaboxup.com/%d9%85%d8%a7%db%81%d8%b1%db%8c%d9%86-%da%a9%db%92-%d9%85%d8%b7%d8%a7%d8%a8%d9%82-%d8%af%d9%84-%da%a9%db%8c-%d8%b5%d8%ad%d8%aa-%da%a9%db%92-%d9%84%db%8c%db%92-%d8%a8%d8%af%d8%aa%d8%b1%db%8c%d9%86/
ماہرین کے مطابق دل کی صحت کے لیے بدترین غذائیں
نئیاب آپ فاکس نیوز کے مضامین سن سکتے ہیں!
ہپوکریٹس، جدید دور کے طب کے باپ نے ایک بار کہا تھا کہ “کھانے کو اپنی دوا بننے دو،” نتن بھٹناگر، ایک جامع دل کے ڈاکٹر اور گرین فیلڈ، میساچوسٹس میں ماہر امراض قلب کا ذکر کرتے ہیں۔
“مجھے یقین ہے کہ اگر ہم علاج نہیں کرتے ہیں۔ کھانا دوا کے طور پر تو ہم ایک دن دوا کو بطور خوراک کھائیں گے،” انہوں نے خبردار کیا کہ پروسیسرڈ فوڈز، اضافی نمک کے ساتھ کھانے، اضافی شکر، فاسٹ فوڈز، شوگر میٹھے مشروبات اور بہت کچھ “ہمارے ہومیوسٹٹک میکانزم میں خلل ڈال سکتے ہیں اور ذیابیطس میں اضافے کو فروغ دے سکتے ہیں۔ موٹاپا، ہائی بلڈ پریشر اور ہائی کولیسٹرول۔”
بھٹناگر نے مزید کہا کہ یہ حالات آپ کے دل کی بیماری، پیریفرل ویسکولر بیماری اور فالج کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ غذائیں آپ کو جوان نظر آنے اور محسوس کرنے میں مدد کر سکتی ہیں
کرسٹن گلیسپی، ایک رجسٹرڈ غذائی ماہر اور ورزش کے ساتھی کی مشیر، بھٹناگر کی بازگشت کرتے ہوئے کہتے ہیں، “جیسا کہ بہت سے لوگ جانتے ہیں، خوراک ہماری مجموعی صحت میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ خوراک غذائی اجزاء کی ایک صف سے بھرپور ہمارے جسموں اور دلوں کو بہترین طریقے سے کام کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس، چینی سے بھرپور غذا، غیر صحت بخش چکنائی اور انتہائی پراسیس شدہ غذائیں ہمارے دل اور دیگر اہم اعضاء پر منفی اثر ڈال سکتی ہیں۔”
کے لیے بہترین صحت، ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ ان فوڈ گروپس کو ہر قیمت پر باقاعدگی سے استعمال کریں۔
جیسا کہ بھٹناگر نے اس کا خلاصہ کیا ہے: “ہمارے پاس صرف ایک دل ہے۔ یہ کافی محنت کرتا ہے بغیر خوراک کی ناقص عادات کے ذریعے اس پر مزید دباؤ ڈالے”۔
ذیل میں آپ کے دل کی صحت کے لیے بدترین قسم کے کھانے ہیں۔ انہیں اس فروری میں امریکن ہارٹ مہینے — اور سال بھر کے لیے ذہن میں رکھیں۔
1. پروسس شدہ گوشت
کرسٹن گلیسپی کے مطابق پروسیس شدہ گوشت بشمول ہاٹ ڈاگ، ساسیج، پیپرونی اور ڈیلی میٹ “آپ کے دل کے لیے بدترین کھانے میں سے ہیں”۔ (iStock)
ان میں ساسیج، پیپرونی، بیکن، ہاٹ ڈاگز اور ڈیلی میٹ شامل ہیں، گلیسپی کہتے ہیں، جو اس قسم کے کھانے کو “آپ کے دل کے لیے بدترین کھانے میں سے” کہتے ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ ان کا ذائقہ اچھا ہو سکتا ہے، لیکن جب بات آپ کے ٹکر کی ہو، تو ان کھانوں سے پرہیز کرنا ہی بہتر ہے۔
وہ کہتی ہیں، “ان میں نمک، پرزرویٹوز اور سیچوریٹڈ فیٹس کی کافی مقدار ہوتی ہے۔” “امریکن جرنل آف کلینیکل نیوٹریشن کی ایک حالیہ تحقیق نے دل کی صحت پر ان گوشت کے منفی اثرات کی تصدیق کی ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پراسیس شدہ گوشت کے زیادہ استعمال سے اموات اور قلبی امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔”
غذائیت کے ماہرین کے مطابق آپ کی صحت کے لیے بہترین سبزیاں
2. نمک کے ساتھ کھانے
پروسیس شدہ گوشت کی بات کرتے ہوئے، یہ بات نمایاں کرنے کے قابل ہے کہ منجمد ڈنر سے لے کر چٹنیوں تک سوڈیم کی ضرورت سے زیادہ مقدار والی تمام غذائیں دل کے لیے صحت مند غذا میں سب سے بہتر ہیں۔
“بدقسمتی سے بہت سے پراسیس شدہ کھانوں، گوشت اور ڈبے میں بند اشیا میں نمک کی زیادتی ہوتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس کی زیادتی ہائی بلڈ پریشر کا باعث بنتی ہے جو کہ دل کی بیماری کے لیے ایک اہم خطرہ ہے۔ بے قابو ہائی بلڈ پریشر کے ذریعے گردے کی خرابی کے لیے،” بھٹناگر کہتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ آپ کے دل کے لیے بہترین غذائیں ہیں
بھٹناگر نے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن کے مصنف یوآن ما، پی ایچ ڈی کی ایک حالیہ تحقیق کا حوالہ دیا جس میں 8.8 سالوں میں 10,709 مریضوں کا جائزہ لیا گیا۔
“[The study] نے ظاہر کیا کہ سوڈیم کی اعلی سطح اور پوٹاشیم کی کم سطح دل کی بیماری کے بڑھتے ہوئے خطرے سے وابستہ ہیں۔ اوسطاً 3,400 ملی گرام سوڈیم امریکی ہر روز پروسیسرڈ فوڈز کے ذریعے کھاتے ہیں،” بھٹناگر کہتے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کی طرف سے روزانہ سوڈیم کے استعمال کی تجویز کردہ حد 2,300 ملی گرام ہے، لیکن مثالی طور پر ایک دن میں 1,500 ملی گرام سے زیادہ نہیں۔ سیاق و سباق کے لیے، ایک چائے کا چمچ نمک 2,300 ملی گرام سوڈیم ہے۔
3. تلی ہوئی اشیاء
اپنے دل کو صحت مند رکھنے کے لیے تلی ہوئی اشیاء، جیسے فرنچ فرائز، فرائیڈ چکن اور تلی ہوئی پکوڑی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ (iStock)
فرنچ فرائز، فرائیڈ چکن، فرائیڈ ڈمپلنگز، آپ اس کا نام بتائیں۔ اگر یہ تلی ہوئی ہے، تو آپ کو اس سے پرہیز کرنا چاہیے (یا کم از کم، تلی ہوئی کھانوں کو ایک نادر علاج سمجھیں)۔
“تلی ہوئی غذائیں غیر دل صحت مند غذاؤں کی فہرست میں بھی سرفہرست ہیں۔ زیادہ کیلوریز اور چربی کی ناپسندیدہ شکلیں، بشمول سیچوریٹڈ اور ٹرانس فیٹس، تلی ہوئی غذائیں ہماری مجموعی صحت کے متعدد پہلوؤں پر منفی اثر ڈال سکتی ہیں۔” گلیسپی کہتے ہیں۔
“مشاہدی مطالعات کے حالیہ میٹا تجزیہ نے تلی ہوئی کھانوں کے استعمال اور دل کی بیماری کے خطرے کے درمیان براہ راست تعلق کی نشاندہی کی،” گلیسپی نے ہم مرتبہ جائزہ میڈیکل جریدے ہارٹ میں شائع ہونے والی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا۔
فاکس نیوز ایپ حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
4. چینی سے میٹھے مشروبات
گلیسپی بتاتے ہیں، “چینی سے میٹھے مشروبات، جیسے جوس اور سوڈا، مجموعی صحت سے متعلق بہت سے منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اگرچہ وزن پر ان کے اثرات اور ذیابیطس کے خطرے کو وسیع پیمانے پر جانا جاتا ہے، لیکن دل کی صحت پر اثرات اتنے معروف نہیں ہیں،” گلیسپی بتاتے ہیں۔ . “ان مشروبات کے منفی اثرات کا تعلق ان میں شوگر کے اہم مواد سے ہے۔ ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ روزانہ ایک یا زیادہ چینی والے میٹھے مشروبات کا استعمال دل کی بیماری اور فالج کے بڑھتے ہوئے خطرے سے منسلک ہے۔”
5. ڈائیٹ سوڈا
آریکا ہوشیٹ کا کہنا ہے کہ ڈائیٹ سوڈا اور دیگر مصنوعی طور پر میٹھے مشروبات “کارڈیو میٹابولک امراض کے بڑھتے ہوئے خطرے سے وابستہ ہیں”۔ (iStock)
صرف اس وجہ سے کہ آپ ڈائیٹ سوڈا پیتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جب صحت مند مشروبات کے انتخاب کے ساتھ آپ کے ٹکر کی حفاظت کی بات آتی ہے تو آپ واضح ہیں۔
“ڈائیٹ سوڈا اور دیگر مصنوعی طور پر میٹھے مشروبات دل کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ مصنوعی طور پر میٹھے مشروبات کا تعلق کارڈیو میٹابولک امراض کے بڑھتے ہوئے خطرے سے ہوتا ہے۔ ایک تحقیق یہاں تک بتاتی ہے کہ ڈائیٹ سوڈا کا روزانہ استعمال میٹابولک سنڈروم کا 36 فیصد زیادہ خطرہ بن سکتا ہے۔ اور ڈائیٹ سوڈا نہ پینے والوں کے مقابلے میں ٹائپ 2 ذیابیطس کا 67 فیصد زیادہ خطرہ ہوتا ہے،” Paloma Health کے ساتھ رجسٹرڈ غذائی ماہر آریکا ہوشیٹ کہتی ہیں۔ “یہ خطرات کیلوری کی کثافت کا اندازہ لگانے کی صلاحیت میں کمی، بھوک میں اضافہ، مائیکرو بایوم میں خلل جس کے نتیجے میں گلوکوز کی عدم رواداری اور شوگر/توانائی سے بھرپور کھانے اور مشروبات کی خواہش میں اضافہ سے متعلق ہیں۔”
ہمارے لائف اسٹائل نیوز لیٹر کے لیے سائن اپ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
آپ کے دل کی حفاظت کے لیے، Horscheit جتنی بار ممکن ہو مصنوعی طور پر میٹھے مشروبات پر پانی کا انتخاب کرنے کی تجویز کرتا ہے۔
“ڈائیٹ سوڈا کی مقدار کو کم کرنے سے آپ کی بھوک کو کم کرنے، وزن کے انتظام کو بہتر بنانے اور آپ کی مجموعی صحت کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے،” وہ مزید کہتی ہیں۔
6. سرخ گوشت
گلیسپی کا کہنا ہے کہ “ایک حالیہ تحقیق میں، سرخ گوشت (دونوں پراسیس شدہ اور غیر پروسیس شدہ) دل کی بیماری کے زیادہ واقعات سے منسلک تھے۔” (iStock)
گلیسپی کا کہنا ہے کہ “ایک حالیہ تحقیق میں، سرخ گوشت (دونوں پراسیس شدہ اور غیر پروسس شدہ) دل کی بیماری کے زیادہ واقعات کے ساتھ منسلک تھے،” نوٹ کرتے ہوئے کہ جب پروسیس شدہ سرخ گوشت (جیسے بیکن) کے مقابلے میں، غیر پروسیس شدہ سرخ گوشت سے دل کی بیماری کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ بیماری.
گلیسپی نے مزید کہا، “جب پودوں کے پروٹین کے ذرائع کے مقابلے میں، تاہم، دل کی بیماری کا ایک نمایاں طور پر کم خطرہ دیکھا گیا۔”
فاکس لائف اسٹائل کی مزید خبروں کے لیے ہمیں فیس بک پر فالو کریں۔
7. بہتر اناج اور مٹھائیاں
گلیسپی کا کہنا ہے کہ “صاف شدہ اناج، بشمول سفید روٹی اور پاستا کے ساتھ ساتھ مٹھائیاں، دل کی بیماری اور اس سے وابستہ اموات کے زیادہ خطرے سے وابستہ ہیں۔” “ایک حالیہ تحقیق میں ان افراد میں ہائی بلڈ پریشر اور قلبی امراض کے بڑھتے ہوئے خطرے کی نشاندہی کی گئی ہے جو ان لوگوں کے مقابلے میں جو سارا اناج یا سفید چاول کھاتے ہیں۔”
اگرچہ کبھی کبھار میٹھی ٹریٹ یا ریفائنڈ اسپگیٹی کا پیالہ ٹھیک ہے، اپنی غذا میں زیادہ سے زیادہ پورے اناج کو شامل کرنے کی پوری کوشش کریں۔
Source link
0 notes
Text
فرانس، نئے سال سے پھلوں اور سبزیوں کی پلاسٹک پیکنگ پر پابندی
فرانس، نئے سال سے پھلوں اور سبزیوں کی پلاسٹک پیکنگ پر پابندی
فرانس میں نئے سال سے پھلوں اور سبزیوں کی پلاسٹک پیکنگ پر پابندی کے نئے قانون پر عمل درآمد شروع ہوگیا۔ فرانس میں پھلوں اور سبزیوں کی ایک تہائی سے زیادہ مصنوعات پلاسٹک میں لپیٹ کر دی جاتی ہیں۔ تقریباً 30 پھلوں اور سبزیوں کو پلاسٹک کے تھیلوں میں فروخت نہیں کیا جائے گا تاہم اس پابندی سے بڑے سائز والی پیکنگ اور کٹے ہوئے یا پروسیس شدہ پھل مستثنیٰ ہوں گے۔ فرانس کے صدر ایمانوئیل میکخواں نے پابندی کو…
View On WordPress
0 notes
Text
سپر فوڈ کھائیں اور اوسٹیوپروسیس کوکہیں بائے- بول نیوز
سپر فوڈ کھائیں اور اوسٹیوپروسیس کوکہیں بائے- بول نیوز
اسٹیو پروسیس ہڈیوں کی ایک ایسی بیماری ہے جو عمر بڑھنے کے ساتھ آپ کو لاحق ہوسکتی ہے۔ اس سے بچنا چاہتے ہیں تو اپنی غذا میں کیلشیم کا استعمال ابھی سے بڑھا دیں۔ ماہرین نے دنیا کی کئی غذائوں پر تحقیق کر کے ان میں چھپے چند ایسے صحت بخش اجزاء دریافت کیے ہیں جو ہر طرح کی بیماری کے خلاف لڑنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں، جنہیں سپر فوڈ کہا جاتا ہے۔ دیکھتے ہیں یہ کس طرح ڈھلتی عمر میں ہونے والی ہڈیوں کے بھر…
View On WordPress
0 notes
Text
پروسیس شدہ غذائیں یادداشت اور دماغ کے لیے مضر - اردو نیوز پیڈیا
پروسیس شدہ غذائیں یادداشت اور دماغ کے لیے مضر – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین کولمبس، اوہایو: سائنسدانوں کا خیال ہے کہ پروسیس شدہ غذائیں یادداشت متاثر کرکے دماغ کووقت سے پہلے بوڑھا کرسکتی ہیں۔ سائنسدانوں نے تجربات سے ثابت کیا ہے کہ چوہوں کو جب بلند پروسیس شدہ غذا دی گئی تو صرف چار ہفتوں میں ہی دماغی جلن یا سوزش بڑھنے لگی، ان کی یادداشت کمزور ہوئی لیکن جب اس میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈ ملایا گیا تو پروسیس شدہ غذا کے منفی اثرات میں کمی واقع…
View On WordPress
0 notes
Text
بیجنگ میں صبح 9 بجے ہیں۔ 2022 کے سرمائی اولمپکس کے 10 ویں دن کے لیے جو کچھ ہے وہ یہ ہے۔ #ٹاپسٹوریز
New Post has been published on https://mediaboxup.com/%d8%a8%db%8c%d8%ac%d9%86%da%af-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%b5%d8%a8%d8%ad-9-%d8%a8%d8%ac%db%92-%db%81%db%8c%da%ba%db%94-2022-%da%a9%db%92-%d8%b3%d8%b1%d9%85%d8%a7%d8%a6%db%8c-%d8%a7%d9%88%d9%84%d9%85/
بیجنگ میں صبح 9 بجے ہیں۔ 2022 کے سرمائی اولمپکس کے 10 ویں دن کے لیے جو کچھ ہے وہ یہ ہے۔
ایرن جیکسن اپنی 500 میٹر کی فتح کے بعد ردعمل کا اظہار کر رہی ہیں��
یو ایس اسپیڈ اسکیٹر ایرن جیکسن خواتین کی 500 میٹر میں گولڈ میڈل جیتا۔ سرمائی اولمپکس اتوار کو 37.04 کے وقت میں۔
جیکسن کوالیفائنگ ٹرائل�� کے دوران پھسل جانے کے بعد اولمپکس میں 500 میٹر میں مقابلہ کرنے سے تقریباً محروم ہو گئی تھی، لیکن اس کی ساتھی اور دوست برٹنی بوو نے عالمی نمبر 1 بیجنگ جانے کے قابل ہونے کو یقینی بنانے کے لیے اپنی جگہ ترک کر دی — اور اس کا نتیجہ نکلا۔
29 سالہ جیکسن پہلی امریکی خاتون ہیں جنہوں نے اولمپکس میں اسپیڈ اسکیٹنگ کا گولڈ میڈل جیتا تھا جب کہ بونی بلیئر نے 1994 میں ایسا کیا تھا، ساتھ ہی اولمپکس میں اسپیڈ اسکیٹنگ میں انفرادی تمغہ جیتنے والی پہلی سیاہ فام خاتون ہیں۔ ٹیم USA۔
وہ دوسرے نمبر پر جاپان کی میہو تاکاگی سے 0.08 سیکنڈ اور تیسرے نمبر پر روسی اولمپک کمیٹی کی انجلینا گولیکووا سے 0.17 سیکنڈ آگے رہیں۔
جیکسن نے نامہ نگاروں کو بتایا، “میں فوراً رو پڑا، یہ صرف جذبات کی ایک بڑی ریلیز تھی۔ بہت صدمہ، بہت راحت اور بہت سی خوشی۔ میں نے ابھی تک ہر چیز کو مکمل طور پر پروسیس نہیں کیا ہے، لیکن یہ صرف حیرت انگیز محسوس ہوتا ہے،” جیکسن نے صحافیوں کو بتایا۔ اس نے مزید کہا: “میں نے بیک اسٹریچ پر ایک چھوٹی سی غلطی کی تھی، لیکن میں نے صرف کوشش کی، میں صحت یاب نہیں کہوں گی، کیونکہ یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی، لیکن صرف اسکیٹنگ جاری رکھنے کی کوشش کی۔”
مزید پڑھ:
. Source link
0 notes
Text
امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں امن کے امکانات؟
افغانستان 1979 سے کسی نہ کسی طرح کی داخلی جنگ کا سامنا کر رہا ہے۔ 29 فروری 2020 کو افغان طالبان اور امریکی انتظامیہ کے مابین امن معاہدے سے امید پیدا ہوئی کہ افغانستان میں پائیدار امن قائم ہو سکے گا۔ اس احساس کو اس وقت تقویت ملی جب کابل حکومت اور افغان طالبان نے ستمبر 2020 میں داخلی سیاسی تصفیے کیلئے بات چیت کا آغاز کیا۔ لیکن اب افغانستان میں دیرپا امن کی امید ختم ہونے لگی ہے کیونکہ طالبان اور کابل حکومت‘ دونوں نے سیاسی تصفیے کی شرائط پر سخت مؤقف اپنا رکھے ہیں۔ اس دوران جبکہ روس‘ چین، پاکستان اور ترکی کی جانب سے طالبان اور کابل حکومت کے پالیسی موقف کو نرم کرنے کے حوالے سے کوششیں کی جا رہی ہیں، امریکہ کی جانب سے نیا پالیسی بیان افغانستان اور پاکستان میں کافی تشویش کا باعث بنا ہے کیونکہ اس پالیسی میں کابل حکومت اور طالبان کے موقف میں نرمی لانے کے سلسلے میں کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ہے۔ امریکی انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کیلئے آخری تاریخ یکم مئی 2021ء، جو ٹرمپ انتظامیہ نے مق��ر کی تھی‘ سے بڑھا کر 11 ستمبر 2021 کر دی گئی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ امریکی انخلا کی حتمی تاریخ ہے‘ اور امریکہ کو توقع ہے کہ نیٹو بھی اس تاریخ تک اپنی فوجیں نکال لے گا۔ دونوں ایک ساتھ داخل ہوئے تھے اور ایک ساتھ افغانستان چھوڑیں گے۔ امریکہ نے اپنی فوجوں کے انخلا کیلئے کوئی شرط نہیں رکھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کابل حکومت اور افغان طالبان کے مابین کوئی معاہدہ نہیں ہوتا‘ تو بھی امریکہ اپنے فوجیوں کو واپس بلا لے گا۔ کابل حکومت اور افغان طالبان کے مابین مذاکرات تعطل کے قریب ہیں کیونکہ فریقین نے کسی سیاسی تصفیے کیلئے خاطر خواہ لچک نہیں دکھائی۔ دو امور اس پریشانی کا سبب بنے ہیں: طالبان جنگ بندی اور افغان حکومت کی تنصیبات، افغان شہریوں اور افغان حکومت کے سکیورٹی اہلکاروں پر اپنے حملے روکنے پر راضی نہیں ہوئے۔ کابل حکومت طالبان کے ساتھ بات چیت میں آسانی پیدا کرنے کیلئے کابل میں عبوری حکومت کے قیام کی تجویز سے متفق نہیں ہے۔ آگے بڑھنے کے طریق کار کے حوالے سے کابل حکومت کے اپنے نظریات‘ اپنی سوچ ہے۔
کابل حکومت عبوری حکومت کے قیام کیلئے اپنے انتظامات کے تحت نئے انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے۔ یہ تجویز طالبان کیلئے قابل قبول نہیں ہے کیونکہ ان میں سے زیادہ تر موجودہ افغان حکومت کے تحت انتخابات پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ موجودہ ووٹروں کی رجسٹریشن اور فہرست سازی میں ان علاقوں کا احاطہ نہیں کیا گیا ہے جو طالبان کے زیر قبضہ ہیں۔ انتخابی نظام کس طرح کام کرتا ہے؟ اس بارے میں طالبان کی اگر کوئی معلومات ہے بھی تو نہایت محدود‘ لہٰذا موجودہ حکومت کے تحت انتخابات کا انعقاد حکمرانوں کو واضح فائدہ دے گا۔ طالبان چاہتے ہیں کہ عبوری مدت کیلئے اشرف غنی اور ان کے قریبی ساتھیوں کی جگہ باہمی قابلِ قبول قیادت کا انتخاب کیا جائے۔ حال ہی میں افغانستان میں داخلی امن و استحکام کے موضوع پر بات چیت کے عمل کی حوصلہ افزائی کیلئے دو بین الاقوامی کانفرنسیں ہوئیں۔ پہلی مارچ کے وسط میں ماسکو میں اور دوسری ہارٹ آف ایشیا... استنبول پروسیس کانفرنس دوشنبے‘ تاجکستان میں۔
طالبان نے ماسکو کانفرنس میں حصہ لیا۔ دونوں کانفرنسوں میں رہنماؤں نے افغانستان میں داخلی امن قائم کرنے اور طویل مدتی سیاسی سمجھوتے کی ضرورت پر زور دیا‘ لیکن کابل حکومت اور طالبان کی سوچوں میں موجود اختلافات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اگر مشترکہ حکمرانی اور داخلی امن کیلئے کابل حکومت اور طالبان کے مابین کوئی معاہدہ نہ ہوا ہے تو افغانستان کے شدید خانہ جنگی کے ایک اور مرحلے میں پھنس جانے کا اندیشہ ہے، جس کے پڑوسی ریاستوں بالخصوص پاکستان پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان اس مسئلے پر طالبان رہنماؤں کو راضی کرنے کی کوشش کر رہا ہے؛ تاہم جب سے طالبان کو سیاسی معاملات چلانے کیلئے دوحہ جیسی محفوظ جگہ دستیاب ہوئی ہے، ان کے پاکستان سے تعلقات کم ہو گئے ہیں۔ اب ایسی سہولیات کیلئے ان کا خصوصی طور پر پاکستان پر انحصار نہیں رہا‘ لیکن امریکی حکومت پاکستان کے کردار کے حوالے سے اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے ��ریزاں ہے اور طالبان پر دباؤ ڈالنے کے سلسلے میں پاکستان کی حقیقی کوششوں کے بارے میں شکوک کا شکار ہے۔
دراصل بھارت اور کابل حکومت‘ دونوں امریکہ کو پاکستان کے خلاف ورغلا رہے ہیں۔ وہ امریکہ کو بتاتے ہیں کہ پاکستان اب بھی طالبان کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ چونکہ یہ موقف اپنانے سے امریکہ کو افغانستان میں اپنی ناکامی چھپانے میں مدد ملتی ہے، لہٰذا وہ پاکستان سے افغان طالبان کے ساتھ معاملات کیلئے ''ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کرتا رہتا ہے۔ چند روز پہلے امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کے آرمی چیف سے فون پر بات کی۔ بعد ازاں، اسلام آباد میں سینئر ترین امریکی سفارتکار نے آرمی چیف سے ملاقات کی۔ دونوں نے افغانستان میں ابھرتی صورتحال پر بات چیت کی۔ خدشہ ہے کہ خانہ جنگی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی سے بچنے کیلئے مزید افغان مہاجرین پاکستان داخل ہوں گے۔ چونکہ ستمبر کے بعد کے عرصے میں افغان حکومت طالبان کے حملوں کی مزاحمت میں مشکلات کا شکار ہے؛ چنانچہ وہ یہ دعویٰ کر کے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کرے گی پاکستان طالبان کی مدد کر رہا ہے۔ اس نقطہ نظر کی بھارت کی جانب سے توثیق کی جائے گی جس کی اپنی الگ وجوہات ہیں۔
امریکی حکومت‘ جو ہمیشہ پاکستان کی افغانستان پالیسی پر تحفظات کا شکار رہی ہے‘ افغان حکومت اور بھارت کی افغانستان میں طالبان کی سرگرمیوں کے بارے میں وضاحت پر توجہ دے گی؛ چنانچہ امریکی حلقوں کی طرف سے پاکستان ایک بار پھر تنقید کی زد میں آئے گا۔ پاکستان کو چین، روس اور ترکی کے ساتھ قریبی تعاون کے ساتھ افغان ایشو پر سفارتکاری کو آگے بڑھانا چاہئے۔ اس سفارتی سرکٹ میں قطر کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ ایک مشترکہ نقطہ نظر پاکستان کوافغانستان، بھارت اور امریکہ کی جانب سے ڈالے گئے دبائو کا سامنا کرنے کے قابل بنائے گا۔ امریکی اور نیٹو کے ارکان سکیورٹی کے نظام اور انتظامیہ کو برقرار رکھنے کیلئے کابل کو مالی مدد فراہم کرتے ہیں۔ انخلا کے بعد کے دور میں افغانستان کو اس طرح کی مالی مدد کی ضرورت ہو گی لہٰذا امریکہ اور نیٹو ممالک کو اس سفارتی معاملے کو کابل حکومت کو اس بات پر رضامند کرنے کیلئے استعمال کرنا چاہئے کہ درمیانی راستہ اور سازگار انداز اپنانا طالبان کے ساتھ لڑنے پر اصرار جاری رکھنے کی نسبت بہتر امکانات کا حامل ہے۔
ستمبر کے بعد کی مدت میں بھارت افغانستان میں قیام امن کے لئے کوئی بھی اہم کردار ادا نہیں کر سکتا۔ اس کی طالبان تک رسائی نہیں ہے جو لگتا ہے کہ خود بھی بھارت کے ساتھ کام کرنے پر رضا مند نہیں ہیں۔ بھارت کی پالیسی کابل حکومت کی حمایت کرنا ہے اور خدشہ یہ ہے کہ وہ کابل حکومت کو طالبان اور ان ممالک کے ساتھ سختی سے پیش آنے کا مشورہ دیتا رہے گا۔ یہ بھی اندیشہ ہے کہ بھارت افغانستان میں داخلی امن کے امکانات کو ختم کرنے کی کوششیں کرے۔ پاکستان کی سفارتی مہارت کو جلد ہی افغانستان کے بارے میں ایک نئے امتحان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس مسئلے پر اسے چین، روس، ترکی اور قطر کے تعاون سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ پاکستان پر مزید کچھ کرنے کا دبائو ڈال کر افغانستان میں امن و استحکام کو یقینی نہیں بنا سکتا۔ افغانستان میں امن کیلئے اسے پاکستان اور دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے۔
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes