#وزیرداخلہ
Explore tagged Tumblr posts
Text
مقررہ مدت کے اندر ہی عوام کو پاسپورٹ ملیں گے، وفاقی وزیر داخلہ
وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ شہریوں کو پاسپورٹ کےاجرا میں ہونے والی تاخیر کا ازالہ کیا جا رہا ہے، اب مقررہ مدت کےاندر پاسپورٹ ملیں گے۔ وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے 24/7 اوپن پاسپورٹ آفس عوامی مرکز اور نادرا ڈیفنس میگا سینٹر کےاچانک دورے کے دوران پاسپورٹ اور شناختی کارڈز بنوانے کے لیے آئے شہریوں سے ملاقات کی۔ وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے پاسپورٹ اور شناختی کارڈز بنوانے کےعمل کےبارے…
0 notes
Text
وفاقی وزیرداخلہ کا بی ایل اے کے خلاف کامیاب آپریشن پر سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین
(اویس کیانی) وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نےبلوچستان میں کالعدم بی ایل اے کے دہشتگردوں کے خلاف کامیاب آپریشن پر ایف سی،سی ٹی ڈی اور پولیس کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ وزیرداخلہ محسن نقوی نے 3 دہشتگردوں کو جہنم واصل اور 2 کو گرفتار کرنے پرفرنٹیئر کور( ایف سی)،سی ٹی ڈی (کاونٹر ٹررزم ڈیپارٹمنٹ )اور پولیس کو شاباش دی ہے،محسن نقوی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں ایف سی،سی ٹی ڈی اور پولیس نے بروقت کارروائی کرکے…
0 notes
Text
’پاکستان افغانستان کے ساتھ خراب تعلقات کا متحمل نہیں ہوسکتا‘
لوگوں کی بڑی تعداد کا خیال رہا ہے کہ پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع اس کا اہم اثاثہ ہے۔ لیکن یہ پاکستان کے لیے ایک بڑا چینلج بھی رہا ہے۔ درحقیقت اس ’جغرافیائی اہمیت‘ نے پاکستان اور اس کے عوام پر کافی بوجھ ڈالا ہے۔ چونکہ پاکستان ایک متزلزل خطے میں واقع ہے، اس لیے اکثر عالمی طاقتوں کے مفادات کی جغرافیائی سیاست، پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ پاکستان خطے کے کئی تنازعات کی زد میں آچکا ہے جبکہ اسے افغانستان میں جنگ اور اندرونی کشمکش کے کثیرالجہتی نتائج کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ غیرمحفوظ سرحدیں بشمول متنازع سرحدیں، ایک مشتعل ہمسایہ و دیگر ہمسایہ ممالک میں غیرمستحکم حالات نے پاکستان کے لیے اس ضرورت پر زور دیا ہے کہ وہ دفاعی حکمت عملی اور سیکیورٹی پالیسیز مرتب کرے تاکہ تشویش ناک صورت حال سے بچا جاسکے۔ بیک وقت دو محاذوں پر مقابلہ کرنا کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ آج ہمارے ملک کے اپنے تین ہمسایوں کے ساتھ کشیدہ تعلقات ہیں جبکہ دو کے ساتھ تو سرحدوں کی صورت حال خراب ہے۔ تیسرے ہمسایہ ملک کے ساتھ بھی بارڈر منیجمنٹ کے مسائل حل طلب ہیں۔ اس پس منظر میں افغانستان کے ساتھ موجودہ کشیدہ تعلقات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ افغانستان کے ساتھ مستحکم تعلقات، پاکستان کے لیے اسٹریٹجک طور پر کافی اہم ہیں۔ لیکن گزشتہ 18 ماہ سے تعلقات مسلسل خراب ہو رہے ہیں اور اب یہ تاریخی طور پر خراب ترین ہو چکے ہیں۔
یہ پالیسی سازوں کی توقعات کے برعکس ہے جن کا خیال تھا کہ 2021ء میں طالبان حکومت کے برسراقتدار ا��نے سے پاکستان کو اپنی مغربی سرحدیں محفوظ بنانے میں مدد ملے گی۔ اس کے بجائے پاک-افغان س��حد پر کشیدگی اور دہشت گرد حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا جن میں پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان میں اپنے محفوظ ٹھکانوں سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی پُرتشدد سرگرمیوں میں اضافے نے پاکستان کی سلامتی کے سنگین خطرات کو جنم دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی یکے بعد دیگرے سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق، یہ حیران کُن بات نہیں تھی کہ ’افغانستان میں طالبان کے قبضے سے تمام غیر ملکی انتہا پسند گروپس میں سب سے زیادہ فائدہ ٹی ٹی پی نے اٹھایا‘۔ اس جائزے نے اہم نکتہ اٹھایا کہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد کابل کی ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی نہ کرنے اور افغانستان میں اس کے دوبارہ منظم ہونے سے پاکستان کی سلامتی کے متعلق سنگین خطرات پیدا ہوئے۔
نومبر 2022ء میں پاکستانی حکام اور ٹی ٹی پی کے درمیان افغان طالبان کی ثالثی میں جنگ بندی پر آمادگی کے بعد سے پاکستان پر سرحد پار حملوں میں اضافہ ہوا۔ یہ پاکستان کا غلط اقدام تھا جس نے اس قلیل مدتی جنگ بندی کو انتہاپسند گروپس کے خلاف 14 سالہ جنگ کے خاتمے کےطور پر لیا۔ کالعدم گروپس نے کبھی بھی جنگ بندی کی پاس داری نہیں کی بلکہ پاکستان میں اپنی جڑوں کو مضبوط بنانے کے لیے اس وقت کا فائدہ اٹھایا۔ گزشتہ دو سال کے دوران پاکستان نے افغانستان کے طالبان حکمرانوں کو ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے قائل کرنے کی خوب کوشش کی لیکن اس کے کوئی نتائج سامنے نہیں آئے۔ مذاکرات کے کئی ادوار میں پاکستانی حکام نے کابل پر زور دیا کہ وہ ٹی ٹی پی کو پسپا کریں، اس کے رہنماؤں کو حراست میں لے اور ان کی پُرتشدد سرگرمیوں پر لگام ڈالیں۔ طالبان رہنماؤں نے کارروائی کی یقین دہائی کروائی، اس کے لیے وقت طلب کیا لیکن کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔ اس رویے نے پاکستان کو مایوس کیا بالخصوص جب سرحد پار ٹھکانوں سے بڑھتی ہوئی دہشت گرد کارروائیوں میں سیکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا۔
ملٹری اور حکومتی رہنماؤں نے کابل پر زور دیا اور تشویش کا اظہار کیا کہ ’ٹی ٹی پی کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں دستیاب ہیں اور انہیں پاکستان میں کارروائیوں کی آزادی حاصل ہے‘۔ طالبان رہنماؤں سے کہا ��یا کہ وہ پاکستان اور ٹی ٹی پی میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں اور ساتھ ہی کہا کہ اگر کوئی ردعمل نہیں دیا گیا تو اسلام آباد کارروائی کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ گزشتہ ہفتے وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے ایک پریس کانفرنس میں کابل پر اظہارِ برہمی کیا۔ مارچ میں بشام کے علاقے میں چینی شہریوں پر ہونے والے حملے کا ذمہ دار ٹی ٹی پی کو ٹھہراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی نے اس حملے کو افغانستان میں اپنے ٹھکانوں سے ایک ’فلیگ شپ پروجیکٹ‘ کے طور پر ’دشمن کی خفیہ ایجنسیز‘ کے تعاون سے ترتیب دیا تھا۔ انہوں نے افغان حکومت سے مطالبہ کیا کہ انہیں حملے میں ملوث دہشت گردوں کو گرفتار کرے، مقدمہ چلائے یا انہیں پاکستان کے حوالے کرے۔
محسن نقوی نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے مسلسل زور دینے کے باوجود طالبان حکومت نے سرحد پار ٹھکانوں سے پاکستان پر دہشت گرد حملوں کو روکنے کے لیے اقدامات نہیں کیے۔ گزشتہ ہفتے ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی ’مسلسل سرحد پار دہشت گرد حملوں‘ پر شدید تشویش کا اظہار اور کہا گیا کہ ’دشمن غیرملکی عناصر افغانستان کو استعمال کر رہے ہیں‘ تاکہ پاکستان میں سیکیورٹی اہلکاروں اور شہریوں کو نشانہ بنایا جاسکے۔ صبر کا پیمانہ لبریز ہونے پر گزشتہ سال پاکستان نے افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسیز کو سخت کیا تھا۔ اس کے بعد سے پاکستان نے طالبان حکام کو ٹی ٹی پی کی سرپرستی سے باز نہ آنے پر کئی اقدامات کیے۔ اس حوالے سے پاکستان کے سخت اقدامات میں 4 اہم عناصر شامل تھے۔ پہلا اور سب سے اہم حال ہی میں افغانستان میں ٹی ٹی پی کی پناہ گاہوں پر ایئر اسٹرائیکس تھیں۔ ماضی کے برعکس اس بار پاکستان نے اعلان کیا کہ اس نے سرحد پار ٹھکانوں پر فضائی کارروائی کی ہے۔
اس پر کابل کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آیا اور سرحد کی کشیدگی میں بھی اضافہ ہوا۔ لیکن اسلام آباد نے متنبہ کیا تھا کہ جب تک طالبان حکومت ٹی ٹی پی کے حوالے سے اپنی حکمت عملی نہیں بدلے گی تب تک پاکستان اس طرح کی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ اس حوالے سے دوسری سخت پالیسی ٹرانزٹ تجارت پر پابندیاں تھیں جن میں گزشتہ سال اکتوبر میں پاکستان کے راستے افغانستان میں متعدد اشیا کی درآمدات پر پابندی شامل تھی۔ اس پالیسی کا مقصد جہاں اسمگلنگ کو روکنا تھا وہیں اس نے کابل پر دباؤ بڑھانے کا سیاسی مقصد بھی پورا کیا۔ لیکن طالبان اس امر کو نہیں سمجھے بلکہ انہوں نے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ وہ تجارت کے معاملے میں سیاست کررہے ہیں۔ بعدازاں پاکستان نے کچھ حد تک ان پابندیوں میں نرمی برتی تاکہ طالبان اپنے رویے پر نظرثانی کریں۔ تیسرا عنصر پاکستان میں مقیم تقریباً 7 لاکھ افغان تارکین وطن کو ملک بدر کرنا تھا جس کا اعلان بھی گزشتہ سال اکتوبر میں کیا گیا۔ اس پر عمل درآمد کرتے ہوئے تقریباً 5 لاکھ افغان شہریوں کو افغانستان واپس بھیج دیا گیا۔
اسی سلسلے کا دوسرا مرحلہ تقریباً 6 لاکھ افغان باشندوں کو ملک بدر کرنے کے فیصلے کے ساتھ شروع ہو گا جن کے پاس چند سال قبل حکومت پاکستان کی جانب سے جاری کیے گئے شہری کارڈ ہیں۔ افغانستان کے لیے پاکستان کی سخت پالیسی کا چوتھا عنصر، افغان حکومت کی سرحد پار حملوں کو روکنے کی باقاعدہ عوامی مذمت شامل ہے۔ مثال کے طور پر آئی ایس پی آر بارہا کہتا رہتا ہے کہ ’افغان عبوری حکومت نہ صرف دہشت گردوں کو مسلح کر رہی ہے بلکہ پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث دہشت گرد تنظیموں کو محفوظ پناہ گاہیں بھی فراہم کر رہی ہے‘۔ وزرا بھی کچھ اسی طرح کے بیانات دیتے نظر آتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کے ان سخت اقدامات کے نتائج کیا سامنے آئے؟ اگر ٹی ٹی پی کے حملوں کو دیکھیں تو ان میں کمی نہیں آئی۔ نہ ہی وزیرداخلہ کے بیانات سے طالبان حکومت کے رویے میں کوئی تبدیلی آئی۔ پاکستان کے لیے پریشان کُن امر یہ ہے کہ وہ افغانستان کے ساتھ خراب تعلقات کا متحمل نہیں ہو سکتا بالخصوص ایسے حالات میں کہ جب اسے دیگر سرحدوں پر بھی پریشانیوں کا سامنا ہے۔
لہٰذا یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح کی سخت پالیسی اپنانے سے وہ نتائج سامنے نہیں آئیں گے جو ہم چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے ہمیں سزا اور جزا کی زیادہ نفیس حکمت عملی اپنانی ہو گی۔ یعنی اچھے رویے پر انعام دینا ہو گا جبکہ خراب رویے پر طالبان حکومت کو نتائج کا سامنا کرنا ہو گا۔ اسلام آباد کو افغانستان کے قریبی دیگر ہمسایوں بالخصوص چین کے ساتھ کام کر کے ایک حکمت عملی تیار کرنی چاہیے تاکہ طالبان حکومت کو آمادہ کیا جاسکے کہ وہ اپنی پالیسی میں تبدیلی لائیں۔
ملیحہ لودھی
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
Link
0 notes
Text
نیت میں کھوٹ ہوتا تو الیکشن نتائج مختلف ہوتے، وزیر داخلہ گوہر اعجاز
نگران وزیر داخلہ گوہر اعجاز نے کہا ہے کہ اگر ہماریہ نیت میں کھوٹ ہوت تو الیکشن نتائج مختلف ہوتے، سوشل میڈیا بند کرنے کا فیصلہ عوام کے تحفظ کے لیے تھا۔ وزیراطلاعات مرتضیٰ سولنگی کے ساتھ نیوز کانفرنس میں نگران وزیرداخلہ گوہراعجاز نے کہا کہ اگر ہماری نیت میں کھوٹ ہوتا تو الیکشن کا یہ نتیجہ نہ ہوتا، موبائل،انٹرنیٹ بند کرنے کا فیصلہ ہمارا تھا الیکشن اتھارٹی کا واسطہ نہیں تھا،خیبرپختونخوا میں زیادہ تر…
View On WordPress
0 notes
Text
انتخابات کروانے کے عدالتی فیصلے پر عمل کیا جائے، وکلا کانفرنس اعلامیہ
فوٹو ٹوئٹر لاہور کے مقامی ہوٹل میں وکلا کی گول میز کانفرنس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے انتخابات کروانے کے فیصلے پر عمل درآمد کیا جائے، عدالتی حکم پر عمل نہ کرنے پر وزیراعظم، وزیر قانون اور وزیرداخلہ پر ذمہ داری ڈالی جائے۔ چوہدری اعتزاز احسن نے…انتخابات کروانے کے عدالتی فیصلے پر عمل کیا جائے، وکلا کانفرنس اعلامیہ
View On WordPress
0 notes
Text
آئین کی حد میں رہیں صدر کے دفترکو بلیک میلنگ کا اڈاہ نہ بنائیں، وزیرداخلہ
الیکشن کی تاریخ دینے سے صدر کا کوئی لینا دینا نہیں، وزیرداخلہ:فوٹو:فائل اسلام آباد: وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ صدر عارف علوی آئین کی حد میں رہیں اور صدر کے دفتر کو بلیک میلنگ کا اڈا نہ بنائیں۔ وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ نے بیان میں کہا کہ صدر عارف علوی ’ آ بیل مجھے مار‘ والے کام نہ کریں۔ آئین کی حد میں رہیں۔ الیکشن کی تاریخ دینے سے صدر کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ صدر علوی…
View On WordPress
0 notes
Text
آئین کی حد میں رہیں صدر کے دفترکو بلیک میلنگ کا اڈاہ نہ بنائیں، وزیرداخلہ
الیکشن کی تاریخ دینے سے صدر کا کوئی لینا دینا نہیں، وزیرداخلہ:فوٹو:فائل اسلام آباد: وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ صدر عارف علوی آئین کی حد میں رہیں اور صدر کے دفتر کو بلیک میلنگ کا اڈا نہ بنائیں۔ وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ نے بیان میں کہا کہ صدر عارف علوی ’ آ بیل مجھے مار‘ والے کام نہ کریں۔ آئین کی حد میں رہیں۔ الیکشن کی تاریخ دینے سے صدر کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ صدر علوی…
View On WordPress
0 notes
Text
کوئٹہ سے گرفتار مبینہ خودکش بمبار خاتون کو آج عدالت میں پیش کیا جائے گا
کوئٹہ : گرفتار مبینہ خودکش بمبار خاتون ماہل بلوچ کوآج عدالت میں پیش کیا جائے گا، وزیرداخلہ بلوچستان میرضیالانگو کا کہنا ہے کہ ملزمہ کوتمام قانونی سہولت فراہم کریں گے۔ تفصیلات کے مطابق وزیرداخلہ بلوچستان میر ضیا لانگو نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ کوئٹہ سے گرفتارمبینہ خودکش بمبار خاتون کوآج عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ وزیرداخلہ بلوچستان کا کہنا تھا کہ ملزمہ کو تمام قانونی سہولت فراہم کریں گے۔ میر…
View On WordPress
0 notes
Text
وزیرداخلہ نے پرویزالٰہی کو گرفتار کرنے کی ہدایت کردی
وفاقی وزیر داخلہ راناثنااللہ نے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ کی آڈیو لیک پر چیف جسٹس سے نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ایف آئی اے کو ان کی گرفتاری کی ہدایت کردی۔ وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پرویز الہیٰ کی آڈیو لیک سناتے ہوئے کہا کہ نوازشریف سے متعلق بھی آڈیوز سامنے آتی رہی ہیں جج نے بتایاکہ اس سےکس طرح باقاعدہ دباؤ ڈال کر فیصلہ کرایا گیا ایسےہی ایک دو…
View On WordPress
0 notes
Text
وزیرداخلہ کی اے این ایف ہیڈ کوارٹرآمد،یادگاہ شہدا پرحاضری دی
وزیرداخلہ محسن نقوی کی اے این ایف ہیڈ کوارٹر آمد ،یادگاہ شہدا پرپھول چڑھائے،فاتحہ خوانی کی۔ وزیر داخلہ و انسداد منشیات محسن نقوی کا ڈی جی اے این ایف میجر جنرل عبدالمعید نے خیر مقدم کیامحسن نقوی نے یادگار شہداء پر پھول رکھے. فاتحہ خوانی کی اور شہداء کی عظیم قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ وفاقی وزیرداخلہ و انسداد منشیات محسن نقوی کی زیر صدارت اے این ایف ہیڈ کوارٹر میں اہم اجلاس ہوا۔وزیرداخلہ و…
0 notes
Text
وفاقی وزیرداخلہ کی پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کے نومنتخب عہدیداران کو مبارکباد
(اویس کیانی) وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کے نومنتخب عہدیداران کو مبارکباد دے دی۔ وفاقی وزیرداخلہ و وقاقی وزیر انسدادِ منشیات محسن نقوی نے پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کے نومنتخب چیئرمین میاں عامر محمود، سینئر وائس چیئرمین سلمان اقبال اور وائس چیئرمین میر ابراہیم رحمان کو مبارکباد دی۔ وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی کی نومنتخب سیکرٹری جنرل شکیل مسعود، جوائنٹ سیکرٹری…
0 notes
Text
پرانے چہرے، نئی وزارتیں
شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے چند روز بعد آصف علی زرداری نے صدرِ مملکت کے عہدے کا حلف اٹھایا جس نے ملک میں ایک ناقابلِ یقین صورتحال پیدا کی ہے۔ دو حریف اب سمجھوتے کے بندھن میں بندھ چکے ہیں۔ انتخابی نتائج نے دونوں کو مجبور کر دیا کہ وہ حکومت کی تشکیل میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ اقتدار کی تقسیم کا نیا نظام پاکستان کی سیاست کی عجیب و غریب صورتحال کو ظاہر کرتا ہے۔ جتنی زیادہ چیزیں بدلتی ہیں، اتنی ہی زیادہ وہ ایک جیسی رہتی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اچھی آئینی پوزیشن لے کر بھی کابینہ کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے جوکہ نئے حکومتی نظام کے عارضی ہونے کا اشارہ ہے۔ رواں ہفتے حلف اٹھانے والی 19 رکنی وفاقی کابینہ میں 5 اتحادی جماعتوں کی نمائندگی بھی شامل ہے۔ ان میں سے زیادہ تر وہی پرانے چہرے تھے جن سے تبدیلی کی امید بہت کم ہے۔ نئے ٹیکنوکریٹس کے علاوہ، وفاقی کابینہ میں زیادہ تر وہی پرانے چہرے ہیں جو گزشتہ 3 دہائیوں میں کبھی حکومت میں اور کبھی حکومت سے باہر نظر آئے۔ ان میں سے اکثریت ان کی ہے جو پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی ایم) کی سابق حکومت کا بھی حصہ تھے۔ تاہم سب سے اہم نئے وزیرخزانہ کی ت��یناتی تھی جوکہ ایک مایہ ناز بین الاقوامی بینکر ہیں۔ محمد اورنگزیب کی کابینہ میں شمولیت نے ’معاشی گرو‘ اسحٰق ڈار سے وزارت خزانہ کا تخت چھین لیا ہے۔
بہت سے لوگوں کے نزدیک اسحٰق ڈار کے بجائے ٹیکنوکریٹ کو وزیرخزانہ منتخب کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف کے سائے سے باہر آرہے ہیں۔ یہ یقیناً مشکلات میں گھری پاکستانی معیشت کے لیے اچھی نوید ہے۔ اس کے باوجود نئے وزیر کے لیے چینلجز پریشان کُن ہوں گے۔ معیشت کو دوبارہ پٹڑی پر لانے کے لیے پاکستان کو اہم اصلاحات کی ضرورت ہے۔ لگتا یہ ہے کہ وزیراعظم کے ایجنڈے میں معیشت سرِفہرست ہے اور ایسا بجا بھی ہے۔ کابینہ کے ساتھ اپنے پہلے خطاب میں شہباز شریف نے کچھ ایسے اقدامات کو ترجیح دی جن سے ان کی حکومت کو حالات پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ لیکن موجودہ بحران کے پیش نظر یہ اتنا آسان نہیں ہو گا کیونکہ ہماری معیشت پہلے ہی اندرونی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دب چکی ہے۔ اس کے لیے یقینی طور پر کوئی فوری حل دستیاب نہیں۔ اگلے چند مہینوں میں اقتصادی محاذ پر جو کچھ ہونے جارہا ہے اس سے کمزور مخلوط حکومت کے لیے صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے۔ نئے وزیر خزانہ کا پہلا کام نہ صرف آئی ایم ایف کے ساتھ 3 ارب ڈالرز کے بیل آؤٹ پیکج کی آخری قسط کے اجرا کو یقینی بنانا ہے بلکہ 6 ارب ڈالرز کے توسیعی فنڈز پر بات چیت کرنا بھی ان کے ایجنڈے میں شامل ہو گا کیونکہ یہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
کمرشل بینکاری میں مہارت رکھنے والے نئے وزیرخزانہ کا یہ پہلا امتحان ہو گا۔ معاملہ صرف آئی ایم ایف معاہدے تک محدود نہیں بلکہ انہیں قرضوں کی شرح میں کمی اور ریونیو بیس کو بڑھانا بھی ہو گا۔ مشکل حالات متزلزل نظام کے منتظر ہیں۔ ایک اور دلچسپ پیش رفت میں اسحٰق ڈار کو ملک کا وزیر خارجہ تعینات کر دیا گیا ہے۔ اس سے عجیب و غریب صورتحال اور کیا ہو گی کہ خارجہ پالیسی کے امور کا ذمہ دار ایک ایسے شخص کو بنا دیا گیا ہے جو اکاؤنٹینسی کے پس منظر (جو بطور وزیرخزانہ ناکام بھی ہو چکے ہیں) سے تعلق رکھتا ہے۔ تیزی سے تبدیل ہوتی ہمارے خطے کی جغرافیائی سیاست میں پاکستان کو پیچیدہ سفارتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک تجربہ کار شخص کی ضرورت ہے۔ یقینی طور پر اسحٰق ڈار وہ شخص نہیں جنہیں یہ اعلیٰ سفارتی عہدہ سونپا جاتا۔ یہ وہ آخری چیز ہونی چاہیے تھی جس پر نئی حکومت کو تجربہ کرنا چاہیے تھا۔ لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف اپنے سب سے قابلِ اعتماد لیفٹیننٹ کو ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ اسحٰق ڈار جو مسلم لیگ (ن) کے سینیئر ترین قیادت میں شامل ہیں، وہ نئی حکومت میں دوسرے سب سے طاقتور عہدیدار ہوں گے۔ ماضی میں بھی اتحادی جماعتوں سے بات چیت کرنے میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔
جہاں زیادہ تر مسلم لیگ (ن) کے وزرا پی ڈی ایم حکومت میں کابینہ کا حصہ بن چکے ہیں وہیں محسن نقوی کی بطور وزیرداخلہ تعیناتی اتنا ہی حیران کن ہے جتنا کہ ڈیڑھ سال قبل نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر ان کی تقرری تھی۔ دلچسپ یہ ہے کہ ان کا تعلق مسلم لیگ (ن) یا کسی اتحادی جماعت سے نہیں لیکن اس کے باوجود انہیں کابینہ کے اہم قلمدان کی ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں۔ ملک کے کچھ حصوں میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی اور بڑھتے ہوئے سیاسی تناؤ کے درمیان وزارت داخلہ اہم ترین وزارت ہے۔ اس سے ان قیاس آرائیوں کو بھی تقویت ملی کہ ان کی تقرری کے پیچھے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ملوث ہے۔ فوج کی قیادت کے ساتھ محسن نقوی کے روابط کا اس وقت بھی خوب چرچا ہوا تھا جب وہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔ وہ اپنے نگران دور میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف پنجاب میں سنگین کریک ڈاؤن کی وجہ سے بھی بدنام ہوئے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کو عملی طور پر ایک پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کر دیا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں عوامی سیکیورٹی کے اعلیٰ عہدے سے نوازا گیا۔ محسن نقوی کی بطور وزیر داخلہ تقرری، اہم سرکاری عہدوں پر تقرریوں میں اسٹیبلشمنٹ کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کی طرف نشاندہی کرتا ہے۔
اتنے کم وقت میں میڈیا ہاؤس کے مالک سے اہم حکومتی وزیر تک ان کا سفر کافی حیران کُن ہے۔ دوسری طرف انہیں چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدے پر بھی برقرار رکھے کا امکان ہے ا��ر وہ سینیٹ کی نشست کے لیے کھڑے ہوں گے۔ یہ دیکھنے کے لیے انتظار کرنا ہو گا کہ وہ مزید کتنا آگے جاتے ہیں۔ ابھی صرف کچھ وفاقی وزرا نے حلف اٹھایا ہے۔ کابینہ میں مزید تقرریاں ہوسکتی ہیں کیونکہ وزیراعظم کو اپنی حکومت کی بقا کو یقینی بنانے کے لیے تمام اتحادی جماعتوں کی تعمیل کرنا ہو گی۔ صرف امید کی جاسکتی ہے کہ یہ کابینہ پی ڈی ایم حکومت جتنی بڑی نہیں ہو گی جس میں 70 وزرا، وزرائے مملکت اور مشیر شامل تھے جس کے نتیجے میں قومی خزانے پر بوجھ پڑا۔ 18ویں ترمیم کے بعد بہت سے محکموں کی صوبوں میں منتقلی کے باوجود کچھ وزارتیں وفاق میں اب بھی موجود ہیں جو کہ عوامی وسائل کے لیے نقصان دہ ہیں۔ سب سے اہم، ملک کو آگے بڑھنے کے لیے سیاسی استحکام کی ضرروت ہے۔ نومنتخب قومی اسمبلی کی قانونی حیثیت کا سوال نئی حکومت کو اُلجھائے رکھے گا۔
اپوزیشن کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال پہلے سے عدم استحکام کا شکار سیاسی ماحول کو مزید بگاڑ دے گا۔ حکومت کی جانب سے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کے لیے کوئی اقدام اٹھانے کا اشارہ نہیں مل رہا۔ گزشتہ ہفتے کے دوران پنجاب میں پی ٹی آئی کے مظاہروں میں جو کچھ ہوا وہ افسوسناک ہے۔ معیشت اور گورننس براہ راست سیاسی استحکام سے منسلک ہیں لیکن یہ اقتدار میں موجود قوت یہ اہم سبق بھلا چکی ہے۔
زاہد حسین
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
Link
0 notes
Text
ہم نے ہمیشہ ختم نبوت پر پہرہ دیا اور دیتے رہیں گے، رانا ثناء اللہ
مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیرداخلہ راناثنااللہ نے کہا ہے کہ ہم نے ہمیشہ ختم نبوت پر پہرہ دیا اور دیتے رہیں گے۔ فیصل آباد میں علما کرام کے ساتھ نیوز کانفرنس میں رانا ثناء اللہ نے کہا کہ 2017 میں پاکستان ترقی کی راہ پر چل رہا تھا،نوازشریف کو ہٹا کر ملک کو پیچھے دھکیلا گیا،مسلم لیگ (ن) الیکشن جیت کر ملک کو مشکلات سے نکالے گی،ملک اس وقت مشکل حالات سےدوچار ہے مل کر عوام کی خدمت کریں گے،مسلم لیگ…
View On WordPress
0 notes
Text
پی ٹی آئی میں جو بڑے لیڈر بنتے ہیں اُن کے استعفے منظور ہوئے، رانا ثنا
اسلام آباد: وزیر داخلہ رانا ثنا للہ نے کہا ہے کہ اسپ��کر نے پی ٹی آئی کے اُن اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کیے جو بڑے لیڈر بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے استعفوں کی منظوری اور الیکشن کمیشن کے پی ٹی آئی اراکین کو ڈی نوٹیفائی پر ردعمل دیتے ہوئے وزیرداخلہ نے پی ٹی آئی اراکین کو بیان حلفی جمع کرانے کی پیش کش کی۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے اراکین اگر سمجھتے ہیں کہ اُن…
View On WordPress
0 notes