Tumgik
#وزیر دفاع
googlynewstv · 2 months
Text
 وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا ایکس پر پیغام
خواجہ آصف نے مخصوص نشستوں کافیصلہ سیاسی قرار دیدیا وزیر دفاع خواجہ آصف نے سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے کو سیاسی قرار دیدیا۔ خواجہ آصف کاایکس پوسٹ میں کہنا تھا کہ آج اعلیٰ ترین عدلیہ نے آئینی کی بجائےسیاسی فیصلہ دے دیا جو سائل ھی نہیں تھا۔جس نے ریلیف مانگا ھی نہیں تھا جو فریق ھی نہیں تھا اسکو ریلیف دے دیا۔آئین  اور انصاف کے تقاضوں کی جگہ سیاسی تقاضوں کو اہمیت دی ۔ وزیر دفاع نے کہا کہ…
0 notes
urduchronicle · 9 months
Text
امریکی صدر اپنے وزیر دفاع کی بیماری سے ہستال داخل ہونے سے کئی دن تک لاعلم
ایک عہدیدار نے امریکی میڈیا کو بتایا کہ بائیڈن انتظامیہ کو کئی دنوں سے یہ نہیں بتایا گیا کہ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کو اسپتال میں داخل کیا گیا ہے۔ 70 سالہ مسٹر آسٹن کو پیر کو سرجری کے بعد پیچیدگیوں کی وجہ سے والٹر ریڈ میڈیکل سینٹر میں داخل کرایا گیا تھا۔ ایک اہلکار نے سی بی ایس کو بتایا کہ کم از کم جمعرات کی صبح تک وائٹ ہاؤس کو اس بارے میں مطلع نہیں کیا گیا تھا۔ مسٹر آسٹن نے کمیونیکیشن کی کمی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
humansofnewyork · 1 year
Photo
Tumblr media
(36/54) “The religious fanatics were less than ten percent, but you couldn’t tell them apart. They looked like us. They spoke the same language. They did what no invader had been able to do for three thousand years, erase our nation, our culture, our connection to the past. But they did it from the inside. In the beginning things were relaxed. The first Prime Minister was a pious Muslim, but he was an educated man. A thoughtful man. Mitra attended an event where he was speaking, and his wife wasn’t even wearing a hijab. But the clerics slowly worked their way into government. And the more they got power, the more the environment became closed. Cinemas were shut down. Music was banned from television. The poetry of Farrokhzad was banned. It’s not that Mitra promoted Khomeini, but she defended him. She’d say that the king wasn’t innocent either. She said that she liked the hijab. She felt that it was a symbol of modesty, and respect for tradition. At the time I was more religious than Mitra. But I couldn’t make her understand: the problem isn’t Islam. There is nothing wrong with hijab. But there must be 𝘢𝘻𝘢𝘥𝘪. There must be the freedom to choose. I think Mitra only took the other side because she wanted to discourage me from speaking out. She wanted to keep me safe. Dr. Ameli had already gone into hiding. The regime was looking for any reason to go after people. They’d sent agents to Nahavand looking for evidence of corruption, but they could not find a thing. One day Khomeini ordered every member of parliament to pay back their salaries. But my former colleagues in the opposition petitioned for an exemption. They argued that we’d been critical of the king’s policies, and at the last minute an exemption was granted. One of my colleagues requested a meeting with a leader of the Revolutionary Council. He wanted to express his gratitude, and he asked me to come along for support. I didn’t want to do it. I didn’t feel any gratitude at all. I hadn’t done anything wrong. It would have been unjust to take my salary. But he begged me to come. And he promised that I would not need to speak.” 
متعصبان مذهبی کمتر از ده درصد بودند. اما اسلحه‌ در دست آنها بود. شبیه خودمان بودند. با زبان ما سخن می‌گفتند. کاری کردند که هیچ اشغالگری در طول سه‌هزار سال نکرده بود - نابودی ملت ما، فرهنگ ما و پیوند با گذشته‌مان. آنها این کار را از درون انجام دادند. در آغاز همه چیز آرام بود. نخستین نخست‌وزیر مسلمانی مؤمن بود. تحصیل‌کرده بود. مردی اندیشمند بود. میترا در مراسمی با نخست‌وزیر جدید و همسرش شرکت کرد. در آن مراسم خانم نخست‌وزیر حجاب نپوشیده بود. اما روحانیون آرام آرام وارد ساختار دولت شدند. نخست معاون، سپس وزیر شدند. با افزایش قدرت روحانیون فضای سیاسی بسته‌تر ‌شد. سینماها را بستند. پخش موسیقی از تلویزیون ممنوع شد. شعرهای فروغ فرخزاد ممنوع شد. میترا هرگز برای خمینی تبلیغ نکرد. اما از او دفاع می‌کرد. می‌گفت که شاه بی‌گناه نبوده است. می‌گفت دوست دارد حجاب بپوشد. فکر می‌کرد که نمادی از فروتنی و احترام به سنت است. آن زمان من آداب مسلمانی را بیش از او پیروی می‌کردم. می‌خواستم بداند که اسلام مشکلی ندارد. حجاب مشکلی ندارد. مهم حق گزینش است. بایستی آزادی باشد. بایستی آزادی گزینش باشد. جانبداری او از آنان تنها از ترس جان من بود. او می‌خواست که مخالفت نکنم و خاموش بمانم. دکتر عاملی پنهان شده بود. دادگاه‌های انقلاب دنبال هر بهانه‌ای می‌گشتند تا مردم را بازداشت کنند. آنها نمایندگانی را به نهاوند فرستاده بودند تا شاید نشانی از فساد بیابند. آنها چیزی نیافتند. روزی خمینی دستور داد که همه‌ی نمایندگان مجلس باید دریافتی‌های خود را برگردانند. من تنها پانزده تومان در حساب بانکی‌ام داشتم. نمی‌دانستم چه باید کرد. همکاران من در گروه اقلیت مجلس گرد آمدند. نامه‌هایی نوشتند و استدلال آوردند که آنها همیشه از کارهای شاه انتقاد کرده‌اند. در پایان گفته شد که نمایندگان اقلیت دریافتی‌هایشان را نگه دارند. یکی از همکاران درخواست جلسه‌ای با رئیس کمیته‌ی انقلاب اسلامی کرده بود. می‌خواست از او سپاسگزاری کند. من کار نادرستی نکرده بودم. گرفتن دریافتی من ناعادلانه بود. از من خواست که با او همراه شوم. دلخواه من نبود، پافشاری کرد، گفتم من آنجا سخنی نخواهم گفت، پذیرفت
133 notes · View notes
emergingpakistan · 4 months
Text
ترکیہ اسرائیل تجارتی تعلقات منقطع
Tumblr media
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا میں ہونے والی پیش رفت پر ترکیہ کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑی۔ سوویت یونین کے خطرے نے ترکیہ کو مغربی بلاک کے بہت قریب کر دیا اور اس دوران ترکیہ نے نیٹو میں شمولیت کی اپنی تیاریاں شروع کر دیں۔ ترکیہ نے 14 مئی 1948 کو قائم ہونے والی ریاست اسرائیل کو فوری طور پر تسلیم نہ کیا اور’’انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پالیسی پر عمل کیا۔ ترکیہ نے 1948-1949 کی عرب اسرائیل جنگ میں بھی غیر جانبدار رہنے کا انتخاب کیا، جو اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد شروع ہوئی تھی۔ تقریباً ایک سال بعد 24 مارچ 1949 کو ترکیہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا اسلامی ملک بن گیا اور ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی تعلقات کی بنیادیں اس دور میں رکھی گئیں۔ ایردوان کے دور میں کئی بار اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بڑے پیمانے پر کشیدگی بھی دیکھی گئی اور دونوں ممالک نےکئی بار سفیر کی سطح کے تعلقات کو نچلی سطح پر جاری رکھنے کو ترجیح دی۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران ترکیہ پر اسرائیل کو اسلحہ فروخت کرنے کا الزام لگایا گیا جس پر ترکیہ نے ان تمام الزامات کو یکسر مسترد کر دیا۔ ترکیہ اس وقت تک غزہ کو امداد فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
گزشتہ ہفتے نماز جمعہ کے بعد صدر ایردوان نے اسرائیل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے درمیان اس وقت 9.5 بلین ڈالر کا تجارتی حجم موجود ہے۔ اس سے اگرچہ ترکیہ کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے لیکن یہ منفی اثرات غزہ پر معصوم انسانوں کی نسل کشی کے سامنے ہمارے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس طرح ترکیہ نے پہلی بار اسرائیل پر تجارتی پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترکیہ کی وزارتِ تجارت نے اپنے بیان میں کہا کہ جب تک غزہ میں جنگ بندی کا اعلان نہیں کیا جاتا اسرائیل کیلئے 54 مختلف کٹیگریز سے مصنوعات کی برآمدات پر پابندی ہو گی اور پابندی کا اطلاق فوری طور پر ہو گا۔ ترکیہ کا یہ اعلان اسرائیل کی جانب سے ایئر ڈراپ یعنی فضا کے ذریعے امداد میں حصہ لینے کی ترکیہ کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد سامنے آیا ہے۔ ترکیہ کے شماریاتی ادارے (TUIK) کے اعداد و شمار کے مطابق، 2023 میں اسرائیل کو ترکیہ کی برآمدات 5.2 بلین ڈالر تھیں، اور اسرائیل سے اس کی درآمدات 1.6 بلین ڈالر تھیں۔ اس ایک سال کی مدت کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم تقریباً 6.8 بلین ڈالر تھا اور ترکیہ، اسرائیل کے ساتھ اپنی برآمدات کی فہرست میں 13 ویں نمبر پر ہے۔
Tumblr media
اسرائیل پر لگائی جانے والی تجارتی پابندیوں کے بعد ترکیہ کے وزیر خارجہ حقان فیدان نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے ظلم و ستم کے باوجود وہ جوابدہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے اب تک کسی قسم کی سزا کا سامنا کرنا پڑا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ پوری امت کا فرض ہے کہ وہ فلسطینیوں کے دفاع کیلئے صف بندی کرے۔ یہ ہمارا امتحان ہے ہمیں ثابت کرنا چاہیے کہ ہم متحد ہو سکتے ہیں۔ ہمیں یہ دکھانا چاہیے کہ اسلامی دنیا سفارتی ذرائع سے اور جب ضروری ہو، زبردستی اقدامات کے ذریعے نتائج حاصل کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبضے کے خلاف مزاحمت اب اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ نہیں ہے، بلکہ پوری دنیا کے ظالموں اور مظلوموں کے درمیان لڑائی ہے۔ وزیر خارجہ فیدان نے کہا کہ اگر ہم نے (غزہ میں) اس سانحے سے سبق نہ سیکھا اور دو ریاستی حل کی طرف گامزن نہ ہوئے تو یہ غزہ کی آخری جنگ نہیں ہو گی بلکہ مزید جنگیں اور آنسو ہمارے منتظر ہوں گے۔ ہمیں اسرائیل کو 1967 کی سرحدوں کو قبول کرنے پر مجبور کرنا ہو گا۔ 
حماس سمیت تمام فلسطینی 1967 کی بنیاد پر قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ نے دو ریاستی حل کیلئے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں اور عالم اسلام اب فلسطین کے مسئلے پر اتحاد کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ یکم مئی کو ترکیہ نے جنوبی افریقہ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں دائر کردہ نسل کشی کے مقدمے میں مداخلت کرنے کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا اور اس بات پر زور دیا کہ وہ تمام ممکنہ سفارتی ذرائع استعمال کرے گا اور اسرائیل کو روکنے کیلئے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔ ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کرنے کے حوالے سے انقرہ میں فلسطینی سفیر مصطفیٰ نے کہا کہ ترکی کا یہ فیصلہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی ریاست پر اثر انداز ہونے کی جانب ایک عملی قدم کی نمائندگی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’ ترکیہ نے یہ فیصلہ 9 اپریل تک غزہ کو ہوائی جہاز کے ذریعے انسانی امداد بھیجنے کی کوشش کو روکنے کے بعد کیا تھا اور 2 مئی کو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کر دیا گیا ہے۔ 
اس فیصلے پر اس وقت تک عمل درآمد ہوتے رہنا چاہیے جب تک غزہ کیلئے انسانی امداد کی بلاتعطل رسائی کیاجازت نہ مل جائے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ اسرائیل کے حملے شروع ہونے کے وقت سے ہی غزہ کی پٹی میں فیلڈ ہسپتال تیار کررہا تھا اور ضروری سازو سامان العریش ہوائی اڈے اور بندرگاہ پر پہنچادیا گیا تھا لیکن اسرائیل نے ان آلات کو غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اور ترکی کو فیلڈ ہسپتال بنانے کی اجازت نہیں دی بلکہ غزہ کی پٹی میں قائم واحد کینسر ہسپتال، جسے ترکیہ نے قائم کیا کیا تھا، کو بھی تباہ کر دیا ۔
ڈاکٹر فرقان حمید
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes · View notes
kokchapress · 3 months
Text
وزیر دفاع پاکستان؛ حملات به افغانستان ادامه خواهد داشت
خواجه محمدآصف، وزیر دفاع پاکستان تایید کرده که ارتش این کشور بدون هماهنگی با طالبان حاکم بر افغانستان، در خاک این کشور عملیات نظامی انجام داده است. به گفته آصف، پاکستان در ادامه این اقدامات نظامی، به حملات هوایی علیه گروه‌های شبه‌نظامی که در پاکستان فعالیت می‌کنند و به نیروهای امنیتی و غیرنظامیان این کشور حمله می‌کنند ادامه خواهد داد. وزیر دفاع پاکستان همچنین تصریح کرده است که این کشور بدون اطلاع…
0 notes
efshagarrasusblog · 4 months
Photo
Tumblr media
(via ‼️برخی از مهمترین عناوین خبری روز شنبه ۵ خرداد ۴۰۳)
1.   مولوی عبدالغفار نقشبندی: بنده مرگ عبرت‌انگیز و پندآموز ابراهیم رئیسی را تسلیت عرض نمی‌کنم چون این گرفت خداوندی را مرهمی کوچک بر زخم‌های داغدیدگان و مایه مسرت و امیدواری بر وعده‌های الهی میدانم. 2.  وحشت سران حکومت از انتخابات ریاست جمهوری بدلیل تحریم عمومی مردمی ؛ حسینی همدانی امام جمعه خامنه‌ای در کرج: انتخابات پیش رو را مواظبت جدی داشته باشید که این تراز به‌هم نخورد. انتخابات آینده باید مشارکت حداکثری در آن باشد. آخوند رفیعی در تجمع ماتم‌سرایی خامنه‌ای: ما انتخابات پیش رو داریم شما را به‌خدا رعایت کنید دشمن شاد نشود. به‌هم نیفتیم تخریب نکنیم بدانید مگر کسی فکر می‌کرد این اتفاق می‌افتد. 3.  بلومبرگ: اتحادیه اروپا وزیر دفاع رژیم ایران را به‌دلیل ارسال پهپاد تحریم کرد. 4.  مارکو روبیو عضو سنای آمریکا: فراموش نکنیم که رئیسی، جلاد تهران، دست‌نشانده دیگری از آخوندها بود. مردم ایران هنوز در گروگان رژیم تهران هستند و به مبارزه برای حقوق اولیه بشر و دموکراسی ادامه می‌دهند. 5.  دستگیریهای کور جانیان حکومتی از ابراز نفرت مردم نسبت به رئیسی / اطلاعات سپاه پاسداران اقدام به دستگیری و ضرب و شتم ۴جوان بلوچ در زاهدان به‌دلیل خندیدن به بنر رئیسی کرد -به‌نوشته خبرگزاری حکومتی برنا فردی که در کهک قم اقدام به توهین به کشته‌های سقوط هلیکوپتر رئیسی کرده بود بازداشت و روانه زندان شد. و واحد صنفی مربوط به این فرد نیز پلمپ شده است -سایت حکومتی انتخاب نوشت: فردی که در فضای مجازی درباره بالگرد رئیسی دروغ‌پراکنی کرده بود توسط سازمان اطلاعات سپاه بازداشت و تحویل مقام قضایی گردید - مأموران اطلاعاتی و امنیتی رژیم آخوندی رضا ببرنژاد برادر ‎شهید قیام مهدی ببرنژاد از شهیدان قیام ۱۴۰۱ در قوچان را به‌دلیل فعالیت در فضای مجازی در مورد مرگ رئیسی جلاد بازداشت کردند. 6.  وزارت بهداشت فل��طین: از۷ اکتبر تاکنون در جریان حمله اسراییل به غزه ۳۵هزار و ۹۰۳فلسطینی کشته و ۸۰هزار و ۴۲۰فلسطینی مجروح شده‌اند. 7.  نیویورک تایمز: در ضربه دیگری به اسراییل که با انزوای فزایندهٔ بین‌المللی مواجه است، دیوان بین‌المللی دادگستری روز جمعه دستور داد که این کشور باید فوراً تهاجم نظامی خود به شهر جنوبی رفح در غزه را متوقف سازد.
#efshagar_rasu #rasuyab   🔴 (https://t.me/rasuyab2/20385)این #انقلابیست_تا_پیروزی 🆔 @Rasuyab 🆔 https://t.me/rasuyab2 🆔 https://t.me/EfshagarRasu 🆔 @Kashef_Rasu
0 notes
kashef-rasu · 4 months
Photo
Tumblr media
(via ‼️برخی از مهمترین عناوین خبری روز یک شنبه ۶ خرداد ۴۰۳)
1.   مولوی عبدالغفار نقشبندی: بنده مرگ عبرت‌انگیز و پندآموز ابراهیم رئیسی را تسلیت عرض نمی‌کنم چون این گرفت خداوندی را مرهمی کوچک بر زخم‌های داغدیدگان و مایه مسرت و امیدواری بر وعده‌های الهی میدانم. 2.  وحشت سران حکومت از انتخابات ریاست جمهوری بدلیل تحریم عمومی مردمی ؛ حسینی همدانی امام جمعه خامنه‌ای در کرج: انتخابات پیش رو را مواظبت جدی داشته باشید که این تراز به‌هم نخورد. انتخابات آینده باید مشارکت حداکثری در آن باشد. آخوند رفیعی در تجمع ماتم‌سرایی خامنه‌ای: ما انتخابات پیش رو داریم شما را به‌خدا رعایت کنید دشمن شاد نشود. به‌هم نیفتیم تخریب نکنیم بدانید مگر کسی فکر می‌کرد این اتفاق می‌افتد. 3.  بلومبرگ: اتحادیه اروپا وزیر دفاع رژیم ایران را به‌دلیل ارسال پهپاد تحریم کرد. 4.  مارکو روبیو عضو سنای آمریکا: فراموش نکنیم که رئیسی، جلاد تهران، دست‌نشانده دیگری از آخوندها بود. مردم ایران هنوز در گروگان رژیم تهران هستند و به مبارزه برای حقوق اولیه بشر و دموکراسی ادامه می‌دهند. 5.  دستگیریهای کور جانیان حکومتی از ابراز نفرت مردم نسبت به رئیسی / اطلاعات سپاه پاسداران اقدام به دستگیری و ضرب و شتم ۴جوان بلوچ در زاهدان به‌دلیل خندیدن به بنر رئیسی کرد -به‌نوشته خبرگزاری حکومتی برنا فردی که در کهک قم اقدام به توهین به کشته‌های سقوط هلیکوپتر رئیسی کرده بود بازداشت و روانه زندان شد. و واحد صنفی مربوط به این فرد نیز پلمپ شده است -سایت حکومتی انتخاب نوشت: فردی که در فضای مجازی درباره بالگرد رئیسی دروغ‌پراکنی کرده بود توسط سازمان اطلاعات سپاه بازداشت و تحویل مقام قضایی گردید - مأموران اطلاعاتی و امنیتی رژیم آخوندی رضا ببرنژاد برادر ‎شهید قیام مهدی ببرنژاد از شهیدان قیام ۱۴۰۱ در قوچان را به‌دلیل فعالیت در فضای مجازی در مورد مرگ رئیسی جلاد بازداشت کردند. 6.  وزارت بهداشت فلسطین: از۷ اکتبر تاکنون در جریان حمله اسراییل به غزه ۳۵هزار و ۹۰۳فلسطینی کشته و ۸۰هزار و ۴۲۰فلسطینی مجروح شده‌اند. 7.  نیویورک تایمز: در ضربه دیگری به اسراییل که با انزوای فزایندهٔ بین‌المللی مواجه است، دیوان بین‌المللی دادگستری روز جمعه دستور داد که این کشور باید فوراً تهاجم نظامی خود به شهر جنوبی رفح در غزه را متوقف سازد.
#efshagar_rasu #rasuyab   🔴 (https://t.me/rasuyab2/20385)این #انقلابیست_تا_پیروزی 🆔 @Rasuyab 🆔 https://t.me/rasuyab2 🆔 https://t.me/EfshagarRasu 🆔 @Kashef_Rasu
0 notes
urduintl · 5 months
Text
0 notes
risingpakistan · 7 months
Text
متنازع ترین انتخابات کے حیران کن نتائج
Tumblr media
آٹھ فروری کو پاکستان کے ’متنازع ترین‘ انتخابات کے بعد نتائج تقریباً مکمل ہو چکے ہیں، جس کے بعد پاکستانیوں کی اکثریت نے سکون کا سانس لیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ گذشتہ کئی مہینوں سے قید اور سینکڑوں مقدمات میں الزامات کا سامنا کرنے والے پاکستان کے ’مقبول ترین‘ رہنما عمران خان سٹیبلشمنٹ کے خلاف سیاسی لڑائی جتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ پارلیمان سے باہر سیاسی تنازعات اور کڑوا ترین وقت اب ممکنہ طور پر ماضی کا حصہ ہے۔ کچھ مخصوص نتائج کو چھوڑ کر عمومی نتائج کے بعد سیاسی مفاہمت کا امکان بڑھ گیا ہے۔ انتخابات کے بہت سے حیران کن نتائج میں سے تین قابل ذکر ہیں۔ پہلا یہ کہ پاکستان مسلم لیگ ن، جس کی قیادت نے 2018 میں شکست کھانے کے بعد دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کا سہارا لیا، نتائج کے بعد کافی مایوسی کا شکار ہے۔ مسلم لیگ ن اور اس کے قائد نواز شریف کلین سویپ کی امید لگائے بیٹھے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ان کی جماعت نے قومی اسمبلی میں 70 سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے جب کہ پاکسان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے 100 کے قریب سیٹوں پر کامیابی سمیٹی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مسلم لیگ ن اپنے طور پر حکومت نہیں بنا سکتی۔
صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت بنانے کا امکان ہے جہاں پی ٹی آئی ان سے چند سیٹیں ہی پیچھے ہے، اس لیے مسلم لیگ ن کی صفوں میں مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ جہاں پورا شریف خاندان، کم از کم چھ، اپنی اپنی نشستیں جیت چکا ہے، وہیں مسلم لیگ ن کے کئی بڑے رہنما بشمول تجربہ کار وزرا جیسے خرم دستگیر اور رانا ثنا اللہ کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ درحقیقت پنجاب کے بڑے شہروں بشمول گوجرانوالہ، فیصل آباد اور شیخوپورہ سے مسلم لیگ ن سے منسوب گرینڈ ٹرنک (جی ٹی) روڈ کی شناخت فی الحال مٹ چکی ہے۔ دوسرا یہ کہ عمران خان کی عدم موجودگی میں پی ٹی آئی سے انتخابات میں اچھی کارکردگی کی توقع نہیں تھی، اس لیے نہیں کہ اسے عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی بلکہ اس لیے کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد نو مئی 2023 کو پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جانب سے فوجی تنصیبات پر دھاوا بولنے کے بعد مبینہ طور پر طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی اعلیٰ کمان اس کی شکست کی خواہاں تھی۔ بہت سے لوگوں کو پہلے ہی اندازہ تھا کہ ان انتخابات میں پی ٹی آئی کا نام مٹانے کے لیے ہر ممکنہ ہتھکنڈے استعمال کیے جائیں گے۔ 
Tumblr media
انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان ’بلے‘ سے محروم کر دیا گیا اور پی ٹی آئی کی چھتری تلے الیکشن لڑنے کی کوشش کرنے والے آزاد ارکان کے خلاف ریاستی طاقت، قید و بند، ہراسانی، ٹارگٹڈ حملے، وکٹمائزیشن اور قانون نافذ کرنے والی فورسز کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ عوامی عزم اور جرات، جو پی ٹی آئی کے لیے ڈالے گئے ووٹوں سے ظاہر ہوتی ہے، کے ب��عکس قابل اعتراض عدال��ی فیصلے اور ان کے رہنما کی سزا اور قید و بند سے توڑنے کی کوشش کی گئی۔ عمران خان نے تقریباً 66 سال سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ عوامی طاقت ہی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے منصوبوں کو ناکام بنا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر عدلیہ نے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا اور انتخابات کے دوران پارٹی کو مؤثر طریقے سے انتخابی مہم چلانے سے روکا گیا جیسا کہ لاکھوں پاکستانی ووٹرز کے لیے پی ٹی آئی کے سینکڑوں قومی اور صوبائی امیدواروں کے انفرادی انتخابی نشان یاد رکھنا ایک بڑا چیلنج تھا۔ اس کے باوجود عوام نے ملک بھر میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کو مایوس نہیں کیا۔
انتخابی نتائج کا اعلان تقریباً مکمل ہو گیا اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار 97 نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی کی دوڑ میں آگے ہیں اور مسلم لیگ ن 71 اور پی پی پی 54 نشستوں کے ساتھ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ تاریخ ساز نتائج میں خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی نے ان انتخابات میں کلین سویپ کیا ہے ملک کے دوسرے سرے یعنی کراچی میں بھی پی ٹی آئی نے کئی نشستیں حاصل کی ہیں۔ تیسرا یہ کہ پی ٹی آئی کے سابق بڑے رہنما، جنہوں نے عمران خان ان سے راہیں جدا کر لی تھیں، کو انتخابات میں شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ماضی میں عمران خان کے اہم معتمد اور حامی جہانگیر ترین اور ان کے سابق وزیر اعلیٰ اور وزیر دفاع پرویز خٹک دونوں ہی جیتنے میں ناکام رہے ہیں۔ باغی رہنماؤں نے عمران خان کی بظاہر ڈوبتی ہوئی کشتی سے اترنے کی بھاری قیمت چکائی ہے۔ پرویز خٹک کی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے خٹک خاندان کے تمام سات ارکان ہار گئے ہیں۔ 
پی ٹی آئی کے لیے اب بھی سب کچھ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ کئی سیٹوں سے اس کے امیدواروں نے نتائج کو چیلنج کر رکھا ہے۔ انتخابی نتائج شیئر کے طریقہ کار پر اس کے ارکان سوال اٹھا رہے ہیں۔ کچھ اس معاملے کو عدالتوں میں لے گئے ہیں۔ اگلی حکومت میں پی ٹی آئی کے کردار کے ساتھ ساتھ قانونی لڑائیاں بھی زور پکڑیں گی۔ پی ٹی آئی کے لیے یہ اب بھی مشکل وقت ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس کے بہت سے اہم معاملات پر مسائل حل طلب ہیں، بشمول اس کے کہ نو مئی کی کہانی کو کیسے ختم کیا جائے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان، پارٹی اور ملک کو آگے بڑھانے کے لیے بہترین راستے کے بارے میں سوچیں۔
 نسیم زہرہ  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
hamsliveurdu · 8 months
Link
ڈی آر ڈی او نے نئی نسل کی ’آکاش میزائل‘ کا کیا کامیاب تجربہ، وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے دی مبارکباد بھارتی دفاع تحقیق و ترقی تنظیم (ڈی آر ڈی او) نے آج اڈیشہ کے انٹگریٹیڈ ٹیسٹنگ رینج، چاندی پور سے نئی نسل کی آکاش میزائل کا کامیاب تجربہ کیا۔ یہ تجربہ صبح 10.30 بجے کیا گیا�� ٹیسٹنگ میں ایک بہت کم اونچائی پر تیز رفتار والے نان ہیومن ہوائی ہدف کو نشانہ بنایا گیا۔ ہتھیار سسٹم کے ذریعہ ہدف کو کامیابی کے ساتھ روک کر تباہ کر دیا گیا۔ اس تجربہ کے دوران پورے آکاش میزائل سسٹم کی صلاحیت کی ٹیسٹنگ ہوئی۔ میزائل سسٹم کے آر ایف سیکر، لانچر، ملٹی فنکشن رڈار اور کمانڈ، کنٹرول اور کمیونکیشن سسٹم کی بھی ٹیسٹنگ کی گئی۔ انٹگریٹیڈ ٹیسٹ رینج، چاندی پور میں لگے رڈارس، ٹیلی میٹری اور الیکٹرو آپٹیکل ٹریکنگ سسٹم سے جو ڈاٹا اکٹھا ہوا، اس سے بھی نئی نسل کے آکاش میزائل سسٹم کی صلاحیت کی ٹیسٹنگ کامیاب رہی۔ ڈی آر ڈی او کے ساتھ ہی ہندوستانی فضائیہ کے افسران کی موجودگی میں یہ تجربہ کیا گیا۔ مرکزی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے نئی نسل کی آکاش میزائل کے کامیاب تجربہ کے لیے ڈی آر ڈی او، ہندوستانی فضائیہ، بی ڈی ایل اور بی ای ایل جیسی سرکاری کمپنیوں کو مبارکباد پیش کی۔ انھوں نے کہا کہ اس میزائل کے کامیاب تجربہ سے ہماری ہوائی سیکورٹی کی صلاحیتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ واضح رہے کہ آکاش میزائل زمین سے ہوا میں مار کرنے والی میزائل ہے۔ یہ کم رینج کی میزائل ہے جو ہوائی خطروں کو پہچاننے اور انھیں تباہ کرنے کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے۔ نئی نسل کا آکاش میزائل سسٹم آٹونومس موڈ پر ایک وقت میں کئی ہدف کو نشانہ بنانے میں اہل ہے۔ اس میزائل سسٹم کو الیکٹرانک کاؤنٹر-کاؤنٹر میزرس کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔ اسے ہندوستانی فضائیہ کے ساتھ ہی ہندوستانی بری فوج کے لیے تیار کیا گیا ہے۔
0 notes
googlynewstv · 3 days
Text
 مجوزہ آئینی ترامیم کامسودہ اب رازنہیں،ہرلیڈرکےپاس ہے،خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ آصف نے ہا ہے کہ حکومت کی مجوزہ آئینی ترامیم کا مسودہ اب راز نہیں کیونکہ یہ ہر لیڈر کے پاس پہنچ چکاہے۔ خواجہ آصف نےاپنےبیان میں دعویٰ کیا کہ تحریک انصاف کوترامیم پراعتراض نہیں کیونکہ اُن کےرہنماؤں نےکہا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں بس انہیں دسمبر تک روک لیاجائے۔ وزیر دفاع نےکہا کہ ججز کی تقرری کاطریقہ کاراس وقت بھی عدلیہ کےپاس ہے۔ایک ایک چیمبرکےتین تین چارچاروکیل جج ہیں۔کوئی…
0 notes
urduchronicle · 9 months
Text
آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی امریکی وزیر دفاع سے ملاقات
امریکا کے دورے پر موجود پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن سے ملاقات کی ہے۔ واشنگٹن میں پینٹاگان کے دورہ کے موقع پر کی جانے والی اس ملاقات میں آرمی چیف اور لائیڈ آسٹن نے علاقائی سلامتی اور دیگر امور سے متعلق تازہ پیشرفت پر گفتگو کی۔ ملاقات کے بعد ترجمان پینٹاگون کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ وزیر دفاع لائیڈ جے آسٹن سوم نے آج پینٹاگون میں پاکستان کے چیف آف…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
humansofnewyork · 1 year
Photo
Tumblr media
(31/54) “One of Dr. Ameli’s first acts as Minister of Information was to bring cameras and microphones into parliament. For the first time ever, our speeches would now reach the ears of ordinary Iranians. During the first recorded session I gave a speech. I spoke about the same things I always spoke about. I spoke about 𝘥𝘢𝘢𝘥. About every Iranian getting their fair share. I spoke about 𝘢𝘻𝘢𝘥𝘪. About every Iranian having the chance to participate in the future of their country. For the next week our phone at the house rang off the hook. People were calling me to thank me for my words, people I didn’t even know. But by then it was too late. Khomeini had grown too powerful. So much of the country had received their political education in mosques. They viewed him as a savior; they thought a true Islamic revolution was coming. Opposition groups could sense the wave building, and they rushed to align themselves with Khomeini. They thought that they could mix in their own ideology with his views. They thought they’d be able to ride the dragon's back, and direct his fire. Even many of the liberal groups were siding with him. Khomeini had been giving interviews. He was telling reporters that he wanted a democracy. He was saying that he would protect the rights of women, and people believed him. He would later claim that Islam allows lying during times of war. One week a rumor spread across the country that Khomeini’s face would be visible in the next full moon. Hundreds of thousands of people went to their rooftops. And hundreds of thousands of people, even educated people, reported seeing his face. On Ramadan nearly a million people marched in Tehran against the king. Our house was on one of Tehran’s main boulevards, so I stood in the doorway to watch the crowd pass. Many were students. They were joyful. They thought that freedom was finally coming to Iran. But the crowd was also filled with young religious men. They were dressed all in black. They would take a few steps, kneel, pray, and then they would rise and do it again. It was like a river, moving in one direction. And Iran was a leaf, floating on top.”
 از نخستین کارهای دکتر عاملی در جایگاه وزیر اطلاعات و جهانگردی آوردن دوربین و میکروفون به مجلس بود. اکنون برای نخستین بار صدای ما به گوش مردم ایران می‌رسید. من در نخستین جلسه‌ی ضبط تلویزیونی سخنرانی کردم. از موضوع‌هایی سخن گفتم که همواره آنها را بیان می‌کردم. از داد سخن گفتم. که هر ایرانی سهمی عادلانه داشته باشد. از آزادی گفتم. که هر ایرانی امکان مشارکت داشته باشد در ساختن کشورش. یک هفته پس از آن تلفن خانه‌ی‌ما بی‌وقفه زنگ می‌زد. مردمی که آنها را نمی‌شناختم از سخنانم قدردانی می‌کردند. ولی دیگر دیر شده و بر قدرت خمینی افزوده شده بود. بسیاری از مردم کشور آموزش سیاسی خود را در مسجدها گرفته بودند. آنها کورکورانه در خمینی یک منجی می‌دیدند. مخالفان شاه احساس کردند که موجی در حال شکل گرفتن است و برای پیوستن به آن شتاب می‌کردند. می‌پنداشتند که می‌توانند عقیده‌هایشان را با نظرات او بیامیزند. گمان می‌کردند که می‌توان بر پشت اژدها سوار شد. در این خیال بودند که می‌توانند آتش او را به جایی که می‌خواهند ببرند. لیبرال‌ها هم با او همگام شده بودند. خمینی در مصاحبه‌ها به خبرنگاران می‌گفت که خواهان دمکراسی است، از حقوق زنان دفاع خواهد کرد. مردم او را باور می‌کردند. او بعدها ادعا کرد که در اسلام دروغ گفتن در هنگامه‌ی جنگ مجاز است. شایعه‌ای در کشور پخش شد که چهره‌ی خمینی در ماه پیداست. هزاران تن به پشت‌بام‌ها رفتند و او را در ماه دیدند. خبرش در صفحه‌ی نخست روزنامه‌ها چاپ شد! در پایان ماه رمضان بسیارانی در تهران بر ضد شاه تظاهرات کردند. فضا آکنده از فریادهای «مرگ بر شاه» شده بود. خانه‌ی ما در یکی از بلوارهای اصلی تهران قرار داشت، از این رو در آستانه‌ی در ایستادم تا حرکت جمعیت را تماشا کنم. بسیاری دانشجو بودند. شادمان بودند. باور داشتند که سرانجام آزادی به ایران می‌آید. ولی بیشتر آنان مردان جوان مذهبی بودند. سیاه‌پوش. گامی چند برمی‌داشتند، زانو می‌زدند، سر به سجده می‌گذاشتند، بلند می‌شدند و این کار را تکرار می‌کردند. مانند رودخانه‌ای بود روان و ایران چون برگی شناور بر آب
101 notes · View notes
emergingpakistan · 1 year
Text
آرمی چیف کی توجہ کے لیے
Tumblr media
آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا اپنی تقریروں میں اسلامی حوالے دینا بہت اچھا لگتا ہے۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے پاکستان کا صدر ہو، وزیراعظم ہو، جرنیل ہوں، وزیر، مشیر، گورنر، وزرائے اعلی، ممبران پارلیمنٹ یا اعلی عہدوں پر فائز سرکاری افسران، ان سب کیلئے لازم ہونا چاہئے کہ اُن کا اسلام سے متعلق علم عام پاکستانیوں سے زیادہ ہو۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے فیصلے، ہمارے قوانین ، ہماری پالیسیاں سب اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہوں۔ ہماری موجودہ صورتحال بہت خراب ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر قائم تو ہو گیا، اسلامی آئین بھی دے دیا گیا، بار بار اسلام کا نام بھی لیا گیا لیکن ہمارے قوانین، ہماری پالیسیاں دیکھیں، ہمارا ماحول، ہمارا میڈیا، ہماری معیشت، ہماری پارلیمنٹ، ہماری یونیورسٹیوں اور کالجوں پر نظر ڈالیں تو پتا چلے گا کہ اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش آج تک نہیں ہوئی، جس کے نتیجے میں ہم ایک Confused قوم بن چکے ہیں۔ نام اسلام کا لیتے ہیں جبکہ نقالی مغربی کلچر کی کر رہے ہیں۔ ہمارے آئین کی تو منشاء ہے کہ پارلیمنٹ کے مسلمان ممبران باعمل مسلمان ہوں، اسلامی تعلیمات کے بارے میں کافی علم رکھتے ہوں اور کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہ جانے جاتے ہوں۔
یہ بھی تمام ممبران کیلئے لازم ہے کہ وہ پاکستان کے اسلامی نظریے کا دفاع کرتے ہوں۔ حقیقت میں کیسے کیسے لوگ پارلیمنٹ میں آتے ہیں یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ آئین کی اسلامی شقوں کی کھلے عام خلاف ورزی ہوتی ہے لیکن کوئی بولتا نہیں۔ ہمارے کئی اراکینِ پارلیمنٹ پاکستان کے اسلامی نظریےکی مخالفت کرتے ہیں، کئی سیکولر پاکستان کی بات کرتے ہیں لیکن آئین کی منشاء کے خلاف جانے کے باوجود اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ اس ماحول میں ایک حافظ قرآن جنرل کا آرمی چیف بننا اور اُن کی طرف سے اپنی ہر تقریر میں اسلامی تعلیمات کا بڑے فخر سے حوالہ دینا بہت خوش آئند ہے، جس کی ہم سب کو حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ میری آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے گزارش ہے کہ وہ پاک فوج میں اسلامی تعلیمات کے فروغ کیلئے اقدامات کریں۔ اس سلسلے میں، میں سابق نیول چیف ایڈمرل ظفر محمود عباسی کی مثال دوں گا جنہوں نے اپنے تین سالہ دور میں پاکستان نیوی میں ایسا انقلاب برپا کیا جو نہ صرف قابلِ تحسین بلکہ قابلِ تقلید بھی ہے۔ 
Tumblr media
ایڈمرل عباسی کی ہدایت پر پاک بحریہ اور بحریہ فائونڈیشن کے تحت چلنے والے تمام اسکولوں میں قرآن حکیم کو فہم کے ساتھ لازمی طور پر پڑھایا جا نے لگا، جس کیلئے پرانے اساتذہ کی تربیت کی گئی اور نئے استاد بھی بھرتی کئے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ بحریہ کے رہائشی علاقوں میں قرآن سینٹرز کھولے گئے جہاں بچوں، بڑوں اور بوڑھوں، سب کو قرآن حکیم کی فہم کے ساتھ تعلیم ، اسلامی اقدار کے فروغ اور مغرب کی ذہنی غلامی سے چھٹکارے پر زور اور تربیت دینے کے اقدامات کیے گئے۔ اسلامی لباس اور اسلامی شعائر کو اپنانے پر زور دیا گیا اور طلبہ کو بالخصوص علامہ اقبال کے فکری انقلاب سے روشناس کروانے کیلئے بھی کام کیا گیا۔ پاک بحریہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ Religious Motivation Officers بھرتی کئے گئے۔ اِن افسران نے بہترین دینی اور دنیاوی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے اور نیول اکیڈمی کے تربیت یافتہ ہیں۔ اِن Religious Motivation Officers کو ذمہ داری دی گئی کہ وہ نیول افسران اور ماتحت اہلکاروں کی اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کے حوالے سے حوصلہ افزائی کریں۔ 
اِن افسران کو نیوی کے جہازوں میں بھی افسران اور ماتحت اہلکاروں کی اسلامی اصولوں کے مطابق تعلیم و تربیت کیلئے بھیجا گیا۔ اِن افسران کی یہ بھی ذمہ داری لگائی گئی کہ خطبہ جمعہ دیں اور دورِ حاضر کے ایشوز پر دسترس رکھتے ہوئے عوام کی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں رہنمائی کریں۔ سابق نیول چیف کے دور میں بحریہ کے تحت چلنے والی تمام مساجد کی بہترین انداز میں تزین و آرائش بھی کی گئی جبکہ خطیبوں اور ائمہ مساجد کی تعداد ماضی کے مقابلے میں دگنا کر دی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نیول اکیڈمی کے کیڈٹس کیلئے عربی زبان کی تعلیم کو لازم کر دیا گیا ہے۔ خواتین کو پردہ کرنے کی ترغیب دینے، اُن کیلئے خصوصاً پڑھاتے وقت اعضائے ستر کو چھپا کر رکھنے، جبکہ مردوں کو نگاہوں کی حفاظت کرنے اور شائستگی اپنانے کی بھی ہدایات جاری کی گئیں۔ پروموشن کیلئے پاک بحریہ کے افسران کے کردار کو اہمیت دی جانے لگی یعنی اگر کوئی افسر چاہے کتنا ہی قابل اور لائق کیوں نہ ہو اگر باکردار نہ ہو تو اُسے ترقی نہیں دی جاتی۔ امید ہے کہ موجودہ نیول چیف کے دور میں بھی یہ پالیسیاں پاکستان نیوی میں جاری و ساری رہیں گی۔ میں ماضی میں اپنے کالمز کے ذریعے یہ گزارش پاک فوج اور ائیرفورس کی اعلیٰ قیادت سے بھی کر چکا ہوں کہ پاکستان نیوی کی طرح اُنہیں بھی یہ اقدامات اپنی اپنی فورس میں کرنے چاہئیں۔ اس سلسلے میں آرمی چیف سے امید اس لیے زیادہ ہے کیوں کہ وہ خود اسلامی تعلیمات کی اہمیت کو کسی عام فرد سے بہت زیادہ سمجھتے ہیں۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes · View notes
kokchapress · 3 months
Text
وزیر دفاع پاکستان: به‌دنبال خروج امریکا از افغانستان، تروریسم در منطقه کاهش یافته است
در ادامه‌ ناامنی‌های کم‌سابقه در پاکستان، وزیر دفاع این کشور مدعی شده که به‌دنبال خروج نیروهای امریکایی از افغانستان امنیت در منطقه تامین شده و تهدیدات ناشی از تروریسم نیز کاهش یافته است. خواجه محمد آصف، وزیر دفاع پاکستان در مصاحبه ای که با روزنامه‌ی داون انجام داده گفته است که از زمان به قدرت رسیدن امارت اسلامی در افغانستان، امنیت در منطقه بهبود یافته است. به گفته‌ی او، «از وقتی که امریکا از…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingkarachi · 10 months
Text
محسن پاکستان ۔ نہ بھولنے والی شخصیت
Tumblr media
جو قومیں اپنے محسنوں کو بھول جاتی ہیں ان کی ناقدری کرتی ہیں ایسی قوموں کا مستقبل روشن ہر گز نہیں ہو سکتا۔ قوموں کی زندگی میں خوش قسمتی سے ایسے ہیروز پیدا ہوتے ہیں جو ان میں زندگی کی نئی روح پھونک دیتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسے ہیرو گزرے ہیں جنھوں نے اپنے وطن کے دفاع اور ترقی کے لیے ہر وہ قربانی پیش کی جس کی ضرورت تھی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا شمار بھی ایسے ہی ہیروز میں ہوتا ہے۔ وہ یورپ کی پُر آسائش زندگی کو خدا حافظ کہہ کر پاکستان آئے تاکہ ملک کے لیے ایٹمی طاقت بنانے کی جدوجہد میں مصروف سائنسدانوں کی ٹیم کا حصہ بن جائیں۔ پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے، ڈاکٹر عبدالقدیر جب ماضی کو یاد کرتے تھے تو ان کا لب و لہجہ دیدنی ہوتا تھا۔ وہ ماضی کی یادوں کو ایسے بیان کرتے کہ سننے والا مبہوت ہو کر رہ جاتا کہ وہ کیسے کٹھن حالات تھے جن میں انھوں نے اور ان کے رفقاء کار نے ایٹم بم بنانے کی جدوجہد کا آغاز کیا اور پھر ان کی زندگی میں وہ دن بھی آگیا کہ جب پاکستان ایٹمی دھماکے کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ 
وہ بتاتے تھے کہ یہ ان کی زندگی کا وہ تاریخی دن تھا جس کا وہ ایک مدت سے انتظار کر رہے تھے اور اس کامیابی کے لیے شبانہ روز محنت کی جارہی تھی۔ اس خوشی کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں ہے، یہ ان کی ذات کی کامیابی تو تھی ہی لیکن اس کامیابی نے ان کے ملک اور امت مسلمہ میں ایک نئی روح پھونک دی۔ یہ الف لیلوی داستان ہے۔ دنیا کی بڑی طاقتوں نے جس مشن کو ناکام بنانے کی بھر پور کوشش کی وہ مشن نہ صرف کامیاب ہوا بلکہ اس سے اگلے مشن کی بھی تیاری شروع کر دی گئی۔ دفاع وطن کے اس اہم ترین مشن میں ہر حکومت نے اپنے اپنے حصے کا کام کیا، ڈاکٹر قدیر اور ان کو ہر وہ مدد فراہم کی گئی جس کی ان کو ضرورت تھی۔ وہ اس بات کا برملا اظہار بھی کرتے تھے کہ کسی بھی حکومت نے ایٹم بنانے کے عمل کے دوران کوئی بیرونی دباؤ قبول نہیں کیا تھا بلکہ وہ خاص طور پر ذکر کرتے تھے کہ ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے مختلف ذرایع استعمال کیے گئے اور کہیں نہ کہیں سے اس کے حصول کو ممکن بنایا گیا۔
Tumblr media
ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا ضیاء الحق یا ان کے وزیر خزانہ غلام اسحاق خان سب نے اس میں اپنا بھر پور حصہ ڈالا۔ پیپلز پارٹی کے بانی بھٹو صاحب نے ایٹم بم بنانے کی بنیاد رکھی۔ بھٹو صاحب نے دفاع وطن کے لیے کوئی بھی سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کی پاداش میں بیرونی طاقتوں نے انھیں عبرت کی مثال بنا دیا۔ بعد ازاں جب ہندوستان نے ایٹمی دھماکے کر کے ایٹمی ریاست بن جانے کا اعلان کیا تو اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف پر امریکا اور اس کے حواریوں کی جانب سے شدید دباؤ تھا کہ وہ ہندوستان کے مقابلے میں جوابی دھماکے نہ کریں، اس کے بدلے ان کو کئی ارب ڈالر کی پیشکش بھی کی گئی لیکن میاں نواز شریف کی استقامت اور جرات کو داد دینی پڑے گی۔ جنھوں نے بے پناہ بیرونی دباؤ کے باوجود ایک محب وطن حکمران کے ذمے داری نبھائی اور جوابی ایٹمی دھماکے کر کے بھارت کو منہ توڑ جواب دیا اور یوں پاکستان کو پہلی اسلامی ایٹمی ریاست کا درجہ بھی مل گیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان جنھیں پاکستانی محسن پاکستان کے نام سے یاد کر تے ہیں لیکن مجھے انتہائی افسوس اور دکھ کے ساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ قوم کے اس محسن کی دوسری برسی بھی خاموشی سے گزر گئی، سرکاری سطح پر کوئی تقریب منعقد نہیں کی گئی اور نہ کسی اہم عہدیدار نے انھیں یاد کیا۔ پیپلز پارٹی جو ایٹم بم کی خالق جماعت ہونے اور مسلم لیگ نواز جو ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ لینے سے کبھی نہیں چوکتی اور 28 مئی کو یوم تکبیر منایا جاتا ہے، ان دونوں جماعتوں نے بھی انھیں یاد کرنے کی کوشش نہیں کی۔ افسوس ہوتا ہے ان پاکستانی رہنماؤں پر جو دفاع وطن کے اس اہم ترین منصوبے پر سیاست تو کرتے ہیں لیکن اس کے خالق کو بھول گئے ہیں۔ محسن پاکستان اس دنیا میں پہنچ چکے ہیں جہاں انھیں دنیاوی چیزوں کی قطعاً ضرورت نہیں ہے، مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے رب کے ہاں اعلیٰ و ارفع درجہ پائیں گے لیکن افسوس یہ ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم کا حافظہ اتنا کمزور ہو گیا ہے کہ ہم نے اپنے محسن کو دو برس میں ہی بھلا دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو اپنی ناقدری کا شدید احساس ہو گیا تھا، شاید اسی لیے وہ اس کو محسوس کر کے یہ لازوال شعر بھی کہہ گئے۔
گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیر ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
محسن پاکستان کو عالم برزخ میں پاکستانی قوم یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ اس کے حکمران اپنی بشری کمزوریوں کے باعث انھیں یاد کریں یا نہ کریں مگر پاکستانی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ہمیشہ احسان مند رہیں گی اور انھیں یاد کرتے رہیں گے۔
اطہر قادر حسن  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes