#واخان
Explore tagged Tumblr posts
Photo
Portrait of a blue-eyed Wakhi man. #Wakhan, #Badakhshan, #Afghanistan. Photo by Silvia Alessi @silvia.txs #everydayBadakhshan, #everydayAfghanistan, #everydayAsia, #everydayeveryWhere, #Instagram. تصويرى از يك مرد واخى. #واخان، #افغانستان. (at Wakhan, Badakhshan, Afghanistan)
#afghanistan#instagram#everydayeverywhere#wakhan#افغانستان#badakhshan#everydaybadakhshan#واخان#everydayafghanistan#everydayasia
259 notes
·
View notes
Text
صور لقافلة قيرغيزية تسير على طول ممر واخان، شمال أفغانستان.
قطعت هذه القافلة 200 كيلومتر لمبادلة الأغنام بالحبوب.
الصور من/ رولاند وسابر��نا ميشود، عام 1971
17 notes
·
View notes
Text
واخان؛ بهشت گمشده افغانستان + تصاویر
به بهشت کمتر دیده شده و طبیعت بکر #واخان #بدخشان #افغانستان و هممرز با #چین، #تاجیکستان و #پاکستان سفر می کنیم.
«واخان» سرزمینی به شکل یک شاخه باریک در شمال شرق افغانستان و هممرز با چین، تاجیکستان و پاکستان میباشد که به بهشت گمشده افغانستان معروف است.
«واخان» یکی از مناطق جالب و دیدنی افغانستان است که به دلیل داشتن طبیعت بینظیر و سابقه خوب تاریخی توجه همگان را جلب کرده و سالانه هزاران گردشگر و محقق را از سراسر جهان به خود فرا میخواند.
مردم این سرزمین با جهان تقریبا بیگانه اند و همیشه در آرامش زندگی…
View On WordPress
0 notes
Text
طالبان تدمر السياج الحدودي مع باكستان
طالبان تدمر السياج الحدودي مع باكستان
متابعة : أحمد حمدي نشرت حركة القوات المحلية التابعة لطالبان مقطع فيديو على مواقع التواصل الاجتماعي حول تدمير السياج الحدودي مع باكستان. دمرت القوات المحلية التابعة لحكومة طالبان المؤقتة سياجا حدوديا لباكستان عند نقطة الصفر على حدود واخان في إقليم بدخشان شمال شرق أفغانستان بمطرقة . ويشر بعض الخبراء إلي أنه من الممكن أن يكون ممر واخان في مقاطعة بدخشان بأفغانستان على الحدود مع الصين وباكستان…
View On WordPress
0 notes
Text
مکان هانی دیدنی تاجیکستان را می شناسید؟
تاجیکستان کوچکترین کشور آسیای میانه است و با این وجود هنوز پنج برابر بلژیک وسعت دارد. این شهر به دلیل سرزمین کوههای بلند پامیر شناخته شده است. حدود نیمی از سرزمین آن در 3000 مت�� بالاتر از سطح دریا یا بیشتر قرار دارد. اما اگر نمی توانید چند هفته در ارتفاع بالا سفر کنید نگران نباشید. شما هنوز هم می توانید از طبیعت در بهترین مکان در مکان هایی مانند کوه های فان لذت ببرید. در واقع ، ارتفاع در تاجیکستان از 300 تا 7495 متر از سطح دریا متغیر است و فرصت های مختلفی را برای گردش در این کشور ارائه میدهد.
دوشنبه - پایتخت تاجیکستان
دوشنبه بزرگترین شهر و همچنین قلب فرهنگی، سیاسی و اقتصادی کشور است. مرکز آن شامل یکی از بلندترین میله های پرچم جهان است. در خیابان های اطراف، معماری مدرن و شوروی فراوانی وجود دارد و موزه ها، مجسمه ها و محوطه های تاریخی بیشماری که تأثیرات قوی ایرانی را در گذشته شهر منعکس می کند. این شهر سرسبز است و کوچه های زیادی برای رفتن به آن وجود دارد، اما برای بسیاری از افراد لذت بردن از خرید در بازارهای شرقی دوشنبه و امتحان غذاهای خوشمزه محلی جذابتر است.
بزرگراه پامیر - دومین بالاترین بزرگراه بین المللی
مسیری که از کوه های پامیر می گذرد هزاران سال است که به عنوان بخشی از جاده ابریشم باستانی مورد استفاده قرار می گیرد. در قرن 19، در طول بازی بزرگ ، یک مسیر استاندارد تعیین شد و بعداً در دهه 1930 ، ساخت جاده به پایان رسید. امروزه جاده متزلزل است ، فقط تا حدی آسفالت شده و تجربه شگفت انگیزی را برای دوچرخه سواران و دوستداران سفرهای جاده ای ارائه می دهد.
دریاچه اسکندرکول - دریاچه الکساندر
افسانه های محلی در مورد اسکندر مقدونی و اسب او را در ساحل اسکندرکول؛ اسکندر نام محلی اسکندر مقدونی است و کول به معنی دریاچه است. آیا شگفت انگیز نیست که افسانه فتح اسکندر در آسیا در این کشور دور حفظ شود؟ آیا می توانید تصور کنید که چگونه افسانه از والدین به فرزندان نسل به نسل برای چندین هزاره گفته شده است؟ اکنون نوبت شماست که در مورد داستان یک جنگجوی بزرگ بیابید و او را در کنار دریاچه تصور کنید.
مرغاب - مرتفع ترین شهر آسیای مرکزی
مرغاب در ارتفاع 3618 متری از سطح دریا واقع شده است. در این ارتفاع، بالای خط درخت و احاطه شده توسط کوه های بلند، مکان جالبی برای بازدید است. اکثر مردم اینجا قرقیزهای قومی هستند، یک گروه اقلیت در تاجیکستان. می توانید غذاهای قرقیزستان را امتحان کنید و مردم محلی را با سرپوش سنتی معروف به کالپاک ببینید.
دره واخان
روزگاری واخان دره ای آرام و صلح آمیز بود، زمانی که یک نقطه داغ بین حاکمان استعمارگر انگلیس و روسیه تزاری بود. از خرابه های قلعه یامچون ساخته شده در قرن دوازدهم دیدن کرده و در چشمه های آب گرم بی بی خانم غوطه ور شوید. مردم محلی معتقدند این آب خاص است و تصور می شود که باروری زنان را بهبود می بخشد. تأسیسات چشمه آب گرم که بر روی دیوارهای استالاکتیت غار صخره ای ساخته شده است، تجربه ای غیر معمول و دلپذیر پس از چندین روز در جاده است. هر کجا که در واخان بروید، با برخی از چشم اندازهای خیره کننده این کشور برخورد خواهید کرد.
https://bakhshiofficial.com/%d8%a7%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86-%d8%b1%d9%88%db%8c%d8%a7%db%8c%db%8c-%d9%85%d8%a7%d8%b2%d9%86%d8%af%d8%b1%d8%a7%d9%86/
0 notes
Text
امریکا کی افغانستان سے نکلنے پر چین کے میڈیا نے خوشی کا اظہار کیا
امریکا کی افغانستان سے نکلنے پر چین کے میڈیا نے خوشی کا اظہار کیا
ریاست کے زیر کنٹرول پریس کی توجہ امریکہ کی ناکامیوں کو اجاگر کرنے پر مرکوز تھی نہ کہ سیکیورٹی خدشات جو اب بھی چین اور خطے دونوں کو درپیش ہیں۔
چین کے سرکاری میڈیا نے پیر کو امریکہ کو اس کی ’’ گندی ناکامی ‘‘ ، ’’ ذلت ‘‘ اور ’’ نامردی ‘‘ کی وجہ سے افغانستان سے اس کی جلدی روانگی اور تیزی سے طالبان کے قبضے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔
جبکہ بیجنگ کو امریکی انخلاء کی رفتار کے ساتھ ساتھ دہشت گرد گروہوں سے طالبان کے ماضی کے روابط پر بھی اپنے خدشات ہیں ، بشمول مشرقی ترکستان اسلامی تحریک (ای ٹی آئی ایم) جس نے مغربی سنکیانگ علاقے میں حملے کیے ہیں۔ افغانستان ، چینی ریاست کے زیر کنٹرول پریس میں فوری طور پر موڈ بڑی حد تک دھوکہ دہی میں سے ایک تھا ، جس نے سیکیورٹی خدشات کے بجائے امریکہ کی ناکامیوں کو اجاگر کیا جو اب بھی چین اور خطے دونوں کے لیے پریشان ہیں۔
عہدیدار۔ چائنا ڈیلی۔ ایک اداریے میں کہا گیا ہے کہ “امریکی فوجی دو دہائیاں پہلے ‘دہشت گردی کے خلاف جنگ’ کے نام پر افغانستان میں داخل ہوئے۔ اس کے بعد امریکہ نے ایک جدید افغان ریاست بنانے کی کوشش کی۔ اگرچہ سابقہ صدر جو بائیڈن کے دعوے کے مطابق مشکل سے کوالیفائی کرتا ہے ، بعد میں اس کی کوششیں ایک ناقابل فہم ، کھلنے والی ، گندی ناکامی ہیں۔
کمیونسٹ پارٹی کے زیر انتظام۔ گلوبل ٹائمز۔، عہدیدار کے ذریعہ شائع کردہ ایک ٹیبلوئڈ۔ پیپلز ڈیلی۔ اکثر قوم پرستی کی وجہ سے جانا جاتا ہے ، اس نے نوٹ کیا کہ بہت سے آن لائن امریکہ سے کابل کے اخراج کا موازنہ سائگون کے زوال سے کر رہے ہیں۔
کچھ چینی ویب صارفین نے چین کے ٹوئٹر جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم سینا ویبو پر کہا کہ ‘جو لوگ امریکہ پر گہرا یقین رکھتے ہیں وہ کبھی سبق نہیں سیکھتے ، وہ صرف امریکیوں کی طرف سے کچرے کی طرح چھوڑ دیتے ہیں۔ 20 سالہ جنگ ایک مذاق کی طرح ختم ہوتی ہے۔
ایک اداریے میں ، مقالے میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے قبضے کی رفتار “بلاشبہ امریکہ کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے” اور “افغانستان کی شکل بدلنے کے امریکی ارادے کی مکمل ناکامی کا اعلان کیا ہے۔” اخبار نے کہا ، “اس دوران ، امریکہ کا مایوس کن انخلاء کا منصوبہ اپنے اتحادیوں سے امریکی وعدوں کی ناقابل اعتمادیت کو ظاہر کرتا ہے: جب اس کے ��فادات اس سے اتحادیوں کو ترک کرنے کا تقاضا کرتے ہیں تو واشنگٹن ایسا کرنے کے لیے ہر عذر تلاش کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرے گا۔”
کی گلوبل ٹائمز۔ انہوں نے کہا کہ یہ “ویت نام جنگ کے مقابلے میں امریکی نامردی کا واضح مظاہرہ ہے” جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ “کاغذی شیر” ہے۔
مقالے میں کہا گیا ہے کہ چین اپنے سنکیانگ خطے کے استحکام کو مدنظر رکھتے ہوئے افغانستان کی صورتحال کو دیکھے گا لیکن مزید کہا کہ سیکیورٹی خدشات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ اخبار نے کہا ، “پیپلز لبریشن آرمی کو واخان کوریڈور کے ارد گرد بھاری تعداد میں تعینات کیا گیا ہے ، جو چین اور افغانستان کو جوڑنے والے چین کے انسداد دہشت گردی مشن کے لیے ایک اہم زون ہے۔”
اس میں کہا گیا ہے کہ چین نے امریکہ میں افغانستان میں جو خلا چھوڑا ہے اسے پُر کرنے کی کوئی خواہش نہیں ہے اور چینی ماہرین کے حوالے سے ان قیاس آرائیوں کو مسترد کرتے ہو��ے کہا گیا ہے کہ چین فوجیں بھیجے گا۔
“سب سے زیادہ چین یہ کر سکتا ہے کہ اگر بڑے پیمانے پر انسانی بحران ہو تو چینی شہریوں کو نکالنا ، یا جنگ کے بعد تعمیر نو اور ترقی میں حصہ ڈالنا ، چین کے مجوزہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے تحت منصوبوں کو آگے بڑھانا جب حفاظت اور استحکام بحال ہو۔ جنگ زدہ ملک میں ، “اخبار نے کہا۔
چین نے جولائی کے آخر میں طالبان وفد کی میزبانی کی۔جس کی قیادت عبدالغنی برادر نے کی جو اس وقت دوحہ میں اپنے سیاسی دفتر کی سربراہی کر رہے تھے۔ وزیر خارجہ وانگ ژی نے وفد کو بتایا کہ چین کو امید ہے کہ یہ تنظیم “ETIM سمیت تمام دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ صاف ستھری توڑ کرے گی” جبکہ بیجنگ نے مسلسل اقتصادی مدد کی پیشکش کی ہے اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کو ملک میں توسیع دینے کی پیشکش کی ہے۔
مسٹر وانگ نے اپنے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی کی میزبانی کی تھی۔ طالبان وفد کے دورے سے کچھ دن پہلے اور “تمام موسم” کے اتحادیوں نے پھر افغانستان میں اپنی حکمت عملی کو مربوط کرنے کے لیے “ایک مشترکہ ایکشن” پلان کا خاکہ پیش کیا۔
. Source link
0 notes
Text
خوبصورت جھیل خرفاق جو سیف الملوک جھیل سے کم نہیں
پاکستان خوبصورت قدرتی مناظر سے مالا مال ہے لیکن حکومتوں نے سیاحت کی طرف کم توجہ دی اور قدرتی نظاروں ت�� پہنچے کیلئے جو ذرائع آمد و رفت آپ کو یورپی ممالک میں ملتے ہیں وہ یہاں دستیاب نہیں ۔ یورپ میں یہی سہولت قدرتی مناظر کو دنیا بھر میں پھیلا دیتی ہے اور جوق درجوق سیاح آتے ہیں جس سے مقامی آمدن میں اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی شمالی علاقہ جات قدرتی مناظر سے بھرپور ہے لیکن وہ یا تو میڈیا کی نظروں سے اوجھل ہیں یا ان تک پہنچنا مشکل ہے۔ خوبصورتی کی ایسی ہی مثال'' جھیل خرفاق ‘‘ ہے۔ شمال میں چین کی سرحد اور واخان کی پٹی سے ملحقہ پاکستان کے آخری ضلع گانچھے کی تحصیل خپلو میں واقع ہے جس تک پہنچنے کیلئے سخت ہائیکنگ کرنا پڑتی ہے۔ سکردو سے اگر خرفاق جائیں تو براہ تک پونے دو گھنٹے کا سفر ہے لیکن اگر خپلو سے جائیں تو پچیس سے تیس منٹ لگتے ہیں ۔
راستہ بہت زیادہ دشوار گزار ہے۔ جھیل سے پہلے ایک دریا آتا ہے جہاں سے ہائیکنگ اور ٹریکنگ کرنا پڑتی ہے ۔ فور بائی فور گاڑی ہی کارگر ہوتی ہے ، یہاں سفر کرنا عام گاڑی کے بس کی بات نہیں ۔ جو لوگ ہائیکنگ اور ٹریکنگ کے دلدادہ ہیں وہ خرفاق جھیل تک پہنچنے میں آسانی محسوس کرینگے کیونکہ جھیل تک پہنچنے کیلئے بہت زیادہ پیدل چلنا پڑتا ہے ۔ یہاں چٹانوں کے پہاڑ کھلے کھلے ہیں درمیان میں کافی جگہ ہے اس لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ جھیل تک پہنچنے کیلئے سڑک تعمیر کرے تاکہ سیاحت میں اضافہ ہو سکے ۔ جھیل کا پانی اوپر پہاڑوں سے آتا ہے جب برف پگھلتی ہے تو جھیل گہری ہو جاتی ہے اور اس کا سائز بڑا ہو جاتا ہے لیکن جب پانی خشک ہوتا ہے تو جھیل سکڑ جاتی ہے ۔ جھیل کا داہانہ یا بہائو زیر زمین ہے اور اس کا پانی ایک گائوں میں جاکر نکلتا ہے ۔
گھنٹوں کی ہائیکنگ کرتے کرتے جب سیاح تھک جاتے ہیں تو کسی مقامی رہائشی کا کوئی کمرہ استعمال کرتے ہیں جو مقامی فرد خوشی سے دے دیتا ہے کیونکہ وہاں ٹھہرنا تھوڑی دیر کیلئے ہوتا ہے ۔ مقامی آباد ی بہت ملنسار ہے۔ جھیل سے فاصلے پر کہیں کہیں آبادیاں ہیں، دریا کے ساتھ بھی گھر بنے ہوئے ہیں لیکن راستہ دشوار گزار ہونے کی وجہ سے بہت کم لوگ اس جھیل تک پہنچ پاتے ہیں ۔ تھکے ہارے سیاح جب کئی میل کا سفر کر کے اس جھیل کے پاس پہنچتے ہیں تو اس کا نیلگوں پانی دیکھ کر اس کی طرف لپکتے ہیں جیسے اسے اپنی بانہوں میں سمو لیں گے ۔ جھیل سے پہلے چٹانوں کے ٹوٹے پتھر آپ کا استقبال کرتے ہیں ۔ لیکن اس کا شفاف پانی دیکھ کر ساری تھکن اتر جاتی ہے ۔ یہ ایک بہت خاموش اور دنیا سے ہٹ کر جگہ ہے جہاں آپ سکون محسوس کرینگے ، یہاں کوئی شور نہیں سوائے پانی کے گرنے کے یا پرندوں کے چہچہانے کے ۔
یہ جھیل خوبصورتی میں جھیل سیف الملوک سے کم نہیں لیکن چونکہ اس تک پہنچنا بہت دشوار ہے اس لئے سیاح عموماً یہاں کا رخ نہیں کرتے لیکن اگر حکومت توجہ دے تو اسے جھیل سیف الملوک کی طرح کا سیاحتی مقام بنایا جا سکتا ہے۔ پانی کا ٹھہرائو آپ کو کسی حسین دلربا پانی کے خوبصورت منظر کی طرف لے جاتا ہے جہاں آنے والے لوگ عجیب ہی تروتازگی محسوس کرتے ہیں۔ یہ جھیل اپنے اندر اک خوشنما احساس تو رکھتی ہی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ دل کو غمزدہ بھی کرتی ہے کہ اتنی خوبصورت جھیل عوام کی نظروں سے کیوں اوجھل ہے۔
زونیر کمبوہ
بشکریہ دنیا نیوز
0 notes
Photo
وادی گوجال چین اور افغانستان کے ساتھ واقع پاکستان کا سرحدی علاقہ ہے۔ چین کے ساتھ گوجال کی سرحد خنجراب کے مقام پر ملتی ہے جو سطح سمندرے11 فٹ بلندی پر ہونے کی وجہ سے سالہا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ گوجال کے سرحدی گاؤں، مسگر، بھی چین کے صوبے سنکیانگ کے ساتھ براہ راست منسلک ہے۔ شمال مغرب میں گوجال کا علاقہ چپورسن واقع ہے جس کی سرحدیں براہ راست افغانستان کے علاقے، واخان، سے لگتی ہیں۔ وخان کا علاقہ 2 میل چوڑا ہے، جس کے بعد تاجکستان کی سرحد شروع ہو تی ہے۔ پاکستان کو چین سے ملانے والی شاہراہ قراقرم بھی وادی گوجال سے گزرتے ہوئے خنجراب کے سیاحتی مقام پر چین میں داخل ہوتی ہے۔ اپنے جغرافیائی خصوصیات کی بنیاد پر وادی گوجال دفاعی اور کاروباری اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ https://www.instagram.com/p/CBkrXCVBnLM/?igshid=9105mioqi03l
0 notes
Photo
جمہوریت نہیں چل سکتی ! #Democracy #PAkistan #aajkalpk بھٹو صاحب کے دورِ حکومت میں موٹروے کے منصوبے پر غور شروع ہوا۔ خیال تھا کہ کراچی سے ملتان، ملتان سے لاہور، لاہور سے پشاور اور پشاور سے براستہ واخان وسط ایشیاء تک سڑک بنائی جائے، تاکہ اندرون ملک صنعتوں اور کھیتوں سے سامان تجارت براستہ سڑک کم وقت اور کم خرچ میں ان ممالک تک پہنچایا جائے اور وہاں تیار ہونے والی اشیاء اندرون ملک لاکر مقامی آبادی کی ضروریات پوری کی جائیں۔ لیکن پہلے تو سالہاسال تک یہ منصوبہ کاغذی ہی رہا پھر جب کئی عشروں بعد میاں صاحب کے دور میں اس پر کام شروع ہوا تو پیٹ سے۔ جی ہاں!
0 notes
Photo
سیاحت کی ترقی خوشحالی کی نوید (1) ضمیر آفاقی عوام کی آواز سیاحت کی ترقی خوشحالی کی نوید (1) پاکستان کی حکمران اشرافیہ اگر اپنے ویژن کو تھوڑا سا بھی تبدیل کر لیتی تو آج ہمیں چند ٹکے قرض حاصل کرنے کے لئے دوسروں کی ”ڈرائیوری“ کرنے کے ساتھ گلی گلی ہاتھ نہ پھیلانے پڑتے ہم نے اپنی معیشت کو سیدھا رخ دینے کے بجائے دنیا کے ساتھ تجارت میں بھی دو نمبری کی اور خود اپنے ملک کے شہریوں کے ساتھ تو ”نمبری“ کا شمار ہی نہیں آج نہ دنیا ہمارا سامان خریدتی ہے اور نہ پاکستانی شہری کوئی وقعت دیتے ہیں۔ ملک بھیک یا قرض مانگنے سے نہیں چلتے اس کے لئے آپ کو اپنے دستیاب وسائل کو استعمال میں لا کر اپنی آمدن میںاضافہ کرنا پڑتا ہے ہم ایک ایسا خوش قسمت ترین ملک ہیں جہاں قدرتی وسائل سے لیکر انسانی وسائل(نوجوان) تک وافر دستاب ہیں لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ ہمیں حکمران اشرافیہ بدترین ملی اور پھر بات وہی ہے کہ ہمیں قرض مانگنے اور ایزی منی کی ایسی عادت پڑی کہ ہم کام کرنا اپنی توہین سمجھنے لگے نتیجہ ملکی تمام ادارئے خستہ حالی کا شکار ہیں اور سرکاری اہلکار کام کرنے کے لئے بلکل تیار نہیں ،اس وقت ہماری قومی مجموعی معیشت میں چالیس فیصد حصہ سروسز کا ہے۔ جبکہ ہم قومی پیدوار میں بہت پیچھے ہیں ہماری انڈسٹری آخری سانسیں لے رہی ہے اگر حکومتی سبسڈی ختم ہو جائے تو اس کی سانسیں بند ہونے سے اسے کوئی نہیں روک سکتا جلد یا بدیر یہ کرنا ہی پڑئے گا اس کے بعد کیا ہو گا یہ بتانے کی ضرورت نہیں سستی لیبر تو شائد ہم فراہم کر سکیں مگر انڈسٹری پر کوئی اور قابض ہو چکا ہو گا اور ہم غلامی کے ایک بدترین دور میں داخل ہو جائیں گے جس سے نجات؟ یہ سوال مجھے تو بہت خوف زدہ کرتا ہے۔ گزشتہ کالم میں بھی ہم نے گزارشات پیش کی تھیں کہ ہم اپنے کن وسائل اور شعبوں پر توجہ دے کر اپنی معیشت کو بہتر اور قرض کی دلدل سے نکال سکتے ہیں ۔ ہم نے عرض کیا تھا کہ فلم اور صنعت انڈسٹری دو ایسی صنعتیں ہیں جن میں حکومت کو پلے سے شائد کچھ زیادہ خرچ نہ کرنا پڑئے صرف سرپرستی کرنے سے ان صنعتوں کے زریعئے ہم قومی خزانے میں زرمبادلہ میں اضافے کے ساتھ ملک بھر میںمعاشی ریل پیل کرسکتے ہیں فلم انڈسٹری کے حوالے سے گزشتہ کالم میں فلمی معیشت میں دیگر ممالک کی آمدن کا زکر کیا تھا کہ کس طرح اربوں کھربوں روپیہ وہ صرف اس صنعت سے حاصل کر رہے ہیں اسی طرح کئی ملکوں کا تو دارو مدار ہی سیاحت پر ہے۔ (جس کا زکر آئندہ سطور میں آئے گا) سیاحتی صنعت کو فروغ دینے کے حوالے سے پاکستان ایک آئیڈیل ملک ہے ، دستیاب معلومات کے مطابق پاکستان جنوبی ایشاء کے شمال مغرب وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختارملک ہے۔ 20 کروڑ سے زائدکی آبادی کے ساتھ یہ دنیا کا پانچواں بڑی آبادی والا ملک ہے۔ 796095 مربع کلومیٹر (307,374 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کا چھتیسواں بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کے جنوب میں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے ،6,774کلومیٹر زمینی سرحد ہے۔۔پاکستان کے مشرق میں بھارت، شمال مشرق میں چین اور مغرب میں افغانستان اور ایران واقع ہیں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واخان راہداری تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدود عمان کے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔پاکستان کا جغرافیہ اور آب و ہوا انتہائی متنوع ہے، پاکستان بے شمار جانداروں کا گھر ہے، بلکہ کہیں جانور اور پرندے ایسے بھی ہیں جو صرف پاکستان میں پائے ج��تے ہیں۔ ۔پاکستان کے مشرقی، وسطی اور جنوبی علاقے میدانی ہیں جبکہ مغربی اور شمالی علاقے پہاڑی ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا دریا دریائے سندھ ہے۔ یہ دریا پاکستان کے شمال سے شروع ہوتا ہے اور صوبہ خیبر پختونخوا، پنجاب اور سندھ سے گزر کر سمندر میں گرتا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی علاقے، صوبہ سندھ کے وسطی علاقے اور پنجاب کے شمالی، وسطی اور جنوبی علاقے میدانی ہیں۔ یہ علاقے نہری ہیں اور زیر کاشت ہیں۔ صوبہ سندھ کے مشرقی اور صوبہ پنجاب کے جنوب مشرقی علاقے صحرائی ہیں۔ زیادہ تر بلوچستان پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے لیکن بلوچستان کا سبی علاقہ میدانی اور صحرائی ہے۔ خیبر پختونخوا کے مغربی علاقوں میں نیچے پہاڑ ہیں جبکہ شمالی خیبر پختونخوا اور شمالی علاقہ جات میں دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسلہ واقع ہے۔پاکستان اپنے نظاروں، لوگوں اور تہذیبوں کے حوالے سے ایک وسیع ملک ہے اور اسی وجہ سے سال 2012ء میں یہاں دس (10) لاکھ سیاح آئے تھے۔ پاکستان کی سیاحت کی صنعت 1970ء کے عشرے کے دوران میں عروج پر تھی جب یہاں ایک بہت بڑی تعداد میں سیاح آتے تھے۔ ان سیاحوں کے لیے سب سے زیادہ قابل دلچسپی جگہیں خیبر پاس، پشاور، کراچی، لاہور، سوات اور راولپنڈی تھیں۔ اس ملک کی حامل پرکشش جگہوں میں موہنجو داڑو، ٹیکسلا اور ہڑپہ جیسی تہذیبوں کے کھنڈر سے لیکر کوہ ہمالیہ کے پہاڑی مقامات تک ہیں۔ پاکستان 7000 میٹر سے زیادہ بلند کئی چوٹیوں کا مسکن ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں کئی پرانے قلعے ہیں، پرانے زمانے کی فن تعمیر، ہنزہ اور چترال کی وادیاں جو ایک چھوٹی سی خوبصورت اقلیت سماجی گروہ کیلاش کا مسکن ہے جو خود کو سکندر اعظم کی اولاد سے بتاتے ہیں۔پاکستان کے ثقافتی مرکز و صدر مقام لاہور میں مغل فن تعمیر کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جیسے بادشاہی مسجد، شالیمار باغ، مقبرہ جھانگیر، اور قلعہ لاہور کے علاوہ بھی کئی قابل دید مقام شامل ہیں جو سارے سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔ کبھی پاکستان میں سالانہ دس لاکھ سے زائد سیاح آتے تھے۔ تاہم سال 2008ء سے پاکستان میں اندرونی غیریقینی صورتحال کی وجہ سے یہ تعداد کافی کم ہو گئی ہے۔اکتوبر 2005ءمیں کشمیر کے زلزلے کے بعد رسالہ دی گارڈین نے پاکستان کے پانچ مقبول ترین سیاحتی مقامات کے نام سے ایک مضمون شائع کیا تاکہ پاکستان کی سیاحتی صنعت کی مدد کر سکے۔ یہ پانچ مقامات ٹیکسلا، لاہور، شاہراہ قراقرم، کریم آباد، اور جھیل سیف الملوک تھے۔ عالمی معاشی فورم کے سفر اور سیاحت کے مقابلے کی رپورٹ نے پاکستان کو مقبول ترین 25 فیصد سیاحتی مقامات کا اعزاز عالمی ورثہ کے مقامات کے طور پر مقرر کیا۔ سیاحتی مقامات کی پہنچ جنوب میں مینگروو جنگلات سے وادءسندھ کی تہذیب کے موہنجو داڑو اور ہڑپہ جیسے 5000 سال پرانے شہروں تک ہے۔ دنیا کے متعدد ممالک ہیں جو سمندر سے محروم ہیں، کئی صحرا ہی صحرا پر مشتمل ہیں، کئی ہیں جو سال بھر برف سے ڈھکے ہوتے ہیں، لیکن پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو کراچی سے کشمیر اور گوادر سے خنجراب تک مختلف جغرافیائی اور موسمی خطوں پر مشتمل ہے۔ شمال میں دنیا کے تین عظیم ترین سلسلہ ہائے کوہ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش ایک دوسرے سے ملتے ہیں جن میں دنیا کی بلند ترین 14 چوٹیوں میں سے پانچ بشمول ”کے ۔ٹو” جو دنیا کی دوسری سب سے اونچی چوٹی ہے، پاکستان میں موجود ہیں۔ پہاڑوں سے قدموں میں قطبین کے بعد دنیا میں سب سے بڑا برفانی خزانہ 5000 سے زائد گلیشئرز کی صورت پاکستان میں محفوظ ہے۔ پھر پاکستان کے بلند و بالا سرسبز جنگلات، چراگاہیں اور جھیلیں ہیں جن میں سطح سمندر سے 4000 میٹر بلند الپائن جنگلات، سطح مرتفع دیوسائی اور تین ہزار میٹر بلند فیری میڈوز مشہور ہیں۔ جنگلات اور چراگاہوں سے نیچے نظر ڈالیں تو دریائے سندھ کے میدانی علاقے جو اپنی زرخیزی کے باعث بریڈ باسکٹ آف پاکستان کہلاتے ہیں۔ پھر شمالی لینڈ اسکیپ سے بالکل مختلف سندھ اور بلوچستان کے خطے ہیں۔ جن کا اپنا انفرادی جغرافیہ ہے۔ ایک طرف سندھ کے گرم میدانی علاقے جو کھجور اور آم کی فصلوں کے لیے مشہور ہیں رفتہ رفتہ تھر پارکر کے عظیم صحرا میں تبدیل ہوجاتے ہیں جو بالآخر سندھ کے ساحلوں سے جا ملتے ہیں۔ دوسری جانب بلوچستان کا پتھریلا مگر خوبصورت لینڈاسکیپ ہے جسے ماونٹین اسکیپ یا راک اسکیپ کہنا زیادہ مناسب ہے، جس کے ساتھ بلوچستان کے ان چھوئے، خوبصورت اور شفاف پانیوں والے ساحل بچھے ہیں، پر پاکستان ان ساحلوں پر ختم نہیں ہوجاتا، سمندروں میں پاکستانی حدود میں متعدد جزائر ہیں جو سرزمین پاکستان کا حصہ ہیں۔ ان میں استولا، چرنا اور منوڑا مشہور ہیں ۔غرض پاکستان میں وہ سب کچھ ہے جس کے لیے کسی سیاح کو شاید کئی ملکوں جانا پڑے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سیاحت کو وہ مقام نہیں ملا جو اس کا حق ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2010 میں بین الاقوامی سیاحت کا حجم تقریباً ساڑھے نو لاکھ سیاح تھا۔ جو کم ہو کر 2013 میں ساڑھے پانچ لاکھ رہ گیا تھا اور 2014 میں مزید کم ہوکرابتدائی چھ ماہ میں دولاکھ سیاحوں سے بھی کم رہ گیا تھا یعنی سال بھر میں کوئی چار لاکھ۔(جاری ہے)
0 notes
Text
پشت پرده حضور نظامیان چینی در بدخشان و پنهان کاری دولت افغانستان
پشت پرده حضور نظامیان چینی در بدخشان و پنهان کاری دولت افغانستان
در یک سال اخیر بارها گزارشهایی درباره حضور نظامیان چینی و ساخت پایگاه نظامی توسط این کشور در شمال افغانستان منتشر شده است که همواره از سوی وزارت خارجه چین تکذیب شده است.
در پی افزایش نگرانیها از تشدید ناامنیها در افغانستان رسانهها بار دیگر از ساخت پایگاه نظامی توسط چین در شمال افغانستان خبر دادند، موضوعی که در طول دو سال اخیر بارها از سوی رسانههای بینالمللی مطرح شده است اما مقامات افغان و…
View On WordPress
0 notes
Text
افغانستان میں پہلے چینی فوجی اڈے کے لیے تیاریاں شروع
چین نے افغانستان میں اپنے پہلے فوجی اڈے کی تعمیر کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ افغانستان کے محکمہ دفاع نے چین کے ساتھ فوجی اڈے کی تعمیر کے حوالے سے مذاکرات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملے پر دونوں ممالک میں اتفاق ہے تاہم جزئیات واضح کی جا رہی ہیں۔ افغانستان کے محکمہ دفاع کے نائب ترجمان محمد رادمنیش کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک میں فوجی اڈے کی تعمیر کے حوالے سے سب سے پہلے دسمبر 2017 میں بیجنگ میں مذاکرات ہوئے تھے۔ اس حوالے سے جزئیات ابھی واضح کی جا رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اس فوجی اڈے کی تعمیرخود کرنا چاہتے ہیں لیکن چینی حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ڈویژن کی مالی مدد فراہم کرے گا اور افغان فوجیوں کو تربیت فراہم کرنے سمیت فوجی سازو سامان، ہتھیار اور دیگر مدد فراہم کرے گا۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں یہ خبر سامنے آئی تھی کہ چین، افغانستان میں دور افتادہ اور پہاڑی علاقے واخان میں فوجی اڈا تعمیر کرے گا جہاں اطلاعات کے مطابق دونوں ممالک کی فوجیں مشترکہ پٹرول کرتی ہیں تاہم اس وقت اس حوالے سے تردید یا تصدیق نہیں کی گئی تھی۔ دوسری جانب چینی حکام نے بھی گزشتہ ماہ کہا تھا کہ وہ افغانستان میں کوئی فوجی اڈہ تعمیر نہیں کر رہے تاہم اب افغان حکام نے اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ دونوں ممالک میں فوجی اڈے کی تعمیر سے متعلق مذاکرات جاری ہیں، اور یہ کہ دونوں ممالک میں اس حوالے سے اتفاق بھی پایا جاتا ہے.
0 notes
Text
افغانستان کا نیا منظر نامہ
افغانستان کا نیا منظر نامہ
گزشتہ 4 مہینوں سے افغانستان میں گھمسان کی جنگ جاری ہے۔امریکا نیٹو کے فوجی انخلا کے ساتھ ہی افغان طالبان نے کارروائیاں تیز کر دیں۔ گزشتہ چار مہینوں میں طالبان کو 230سے زائد اضلاع پر قبضہ کرنے کا موقع ملا۔افغانستان کے 425اضلاع میں سے طالبان کے پاس 310 سے زائد اضلاع ہیں،جب کہ کابل حکومت کے کنٹرول میں محض 70 اضلاع ،باقی پر قبضے کی جنگ جاری ہے۔افغان طالبان کے ذرائع بتاتے ہیں کہ گزشتہ چار مہینوں میں کابل حکومت کے 15ہزار سے فوجی پولیس اہلکار اورسرکاری عہدیدار ان کے سامنے سرنڈر ہوئے ہیں، جب کہ ان چار مہینوں میں طالبان کے ساتھ مقابلے میں لگ بھگ 5ہزار کابل فوجی ہلاک زخمی یا قیدی بنے ہیں۔دوسری طرف کابل حکومت کی وزارت امن و صلح کے مطابق گزشتہ چار ماہ میں 24 ہزار سے زائد طالبان قتل یا زخمی کیے گئے ہیں۔افغا ن طالبان کابل حکومت کے ان دعووں کی تردید کرتے ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں ان کے مجاہدین کو قتل کرنا کابل حکومت کے بس میں نہیں ہے۔
دوسری طرف امریکا نے اگست کے آخر ��ک مکمل فوجی انخلا کا عندیہ دیا ہے۔افغانستان کے 34صوبوں میں سے صرف کابل صوبے اور کابل دارالحکومت میں ہی امریکی افواج موجود ہیں۔تقریباً 600 کے قریب امریکی فوجی کابل میں موجود ہیں،گزشتہ دنوں خاموشی سے کابل میں واقع ایک امریکی فوجی چھاؤنی سے300 سے زائد امریکی فوجی روانہ ہوئے ہیں جن کے بارے کابل کو خبرتک نہیں کی گئی جس طرح بگرام ائیربیس سے امریکی افواج کے انخلا کے وقت افغان فوج کو بتایا تک نہیں گیا تھا۔کابل حکومت کے صدر اشرف غنی نے موجودہ صورتحال کی ذمہ داری امریکا پر عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے امریکا کو بتایا تھا کہ فی الحال فوجی انخلا نہ کریں کیوں کہ طالبان افغانستان کے شہروں پر قبضہ کرسکتے ہیں لڑائی بڑھا سکتے ہیں۔اشرف غنی نے پارلیمنٹ کے حالیہ اجلاس میں طالبان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ 6 ماہ کے اندر طالبان کا صفایا کردیا جائے گا،ایک بھی طالب زندہ نہیں چھوڑا جائے گا،6 ماہ تک افغانستان میں سکیورٹی کی صورتحال بہتر ہوجائے گی۔افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اشرف غنی کی اس نئی دھمکی پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ کرپٹ اور امریکی ایجنٹوں کا وقت ختم ہوگیا ہے،6ماہ تک اشرف غنی حکومت کا خاتمہ کرکے پورے افغانستان پر اسلامی امارت کو بحال کردیا جائے گا۔دوسری جانب سابق کابل صدر حامد کرزئی نے اپنے تازہ انٹرویو میں امریکا کو الزام دیتے ہوئے کہا کہ افغان طالبان کو جنگ پر امریکا نے اکسایا ہے،امریکا اگر طالبان کے گھروں پر بمباری نہ کرتا تو وہ دوبارہ جنگ نہ کرتے،طالبان پرامن ہوگئے تھے لیکن امریکا نے طالبان کو اشتعال دلایا ہے۔اس سے قبل حامد کرزئی امریکا کو شکست خوردہ قرار دے چکے ہیں کہ امریکا افغانستان کی جنگ ہار چکا ہے۔کابل حکمرانوں کے متضاد اور مضحکہ خیز دعوے تو جاری ہی ہیں،ادھر امریکا نیٹو کابل فضائیہ کی ہلمند ہرات قندھار اور دیگر صوبوں میں وحشیانہ بمباری جاری ہے،جس میں مساجد مدارس ہسپتال عوامی املاک سمیت سرکاری عمارتوں کوبھی تباہ کیا جارہاہے۔طالبان کے ذرائع بتاتے ہیں ہلمند ہرات میں بھارتی جنگی جہاز بھی بمباری کررہے ہیں۔ہلمند کا مشہور ہسپتال آریا نا بھارت ہی کے جنگی جہازوں کی بمباری سے تباہ کیا گیا ہے۔طالبان ذرائع بتاتے ہیں کہ بھارت نے کابل فضائیہ کے جنگی جہازوں کا کلر بھارتی جہازوں پر کرکے بمباری شروع کررکھی ہے۔کابل میں واقع امریکی ایمبیسی طالبان کو نہتے شہریوں کی ہلاکت کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے،دوسری طرف ہرات میں اسماعیل خان ملیشیا کے سربراہ کو فون کرکے امریکی سفیر داد دے رہے ہیں کہ امریکا نیٹو طالبان کے خلاف لڑائی میں مکمل
حمایت اور سپورٹ کرے گا۔یہ سطور تحریر کرتے وقت کا منظرنامہ کچھ اس طرح ہے کہ ہلمند کے مرکزی شہر لشکرگاہ میں 5 دنوں سے جب کہ ہرات کے مرکزی شہر میں 6 دنوں سے شدید لڑائی جارہی ہے۔طالبان ہلمند کے لشکر گاہ کے اہم علاقوں پر قبضہ کرچکے ہیں۔سرکاری ٹیلی ویژن سمیت 14ریڈیواسٹیشن پر بھی قبضہ کرچکے ہیں جہاں سے وائس آف شریعہ کے نام سے 20 سال بعد امارت اسلامی کی نشریات بھی بحال کی جاچکی ہیں۔جب کہ کابل حک��مت نے بھی سیکڑوں فوجی کمانڈوز دستے طالبان سے لڑنے کے لیے ہلمند ہرات پہنچائے ہیں۔طالبان نے بھی بھرپور طاقت سے ہلمند ہرات پر چڑھائی کررکھی ہے۔امریکی ذرائع ابلاغ پر رپورٹس نشر ہورہی ہیں کہ طالبان ہلمند ہرات پر قبضے کے بعد کابل کا رخ کریں گے اور کابل پر بھی قبضہ کرلیں گے۔
دوسری جانب طالبان کی سیاسی قیادت سے مختلف ممالک رابطہ بحال کرکے مستقبل کے سفارتی تعلقات کے لیے معاہدے کررہے ہیں۔چین نے پہلی بار طالبان کی سیاسی قیادت کو بیجنگ کی دعوت دی جہاں چینی وزیرخارجہ وانگ ژئی نے طالبان سیاسی سربراہ ملاعبدالغنی برادر کا پرجوش استقبال کیا اور افغانستان کی سرزمین سے چین پر حملے نہ ہونے کی ضمانت طلب کی۔طالبان قیادت نے چینی قیادت کو اعتماد دلایا کہ افغانستان کی سرزمین قطعاً چین یا کسی بھی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ طالبان صوبہ بدخشاں میں واخان ضلع پر قبضہ کرچکے ہیں،جہاں پرپاکستان چین کا تاریخی منصوبہ واخان کوریڈور بنایا جائے گا،جس سے پاکستان سنٹرل ایشیا اور یورپ تک باآسانی جاسکے گا۔اس واخان کوریڈور کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے ذریعے پاکستان تاجکستان اور دیگر سنٹرل ایشیائی ریاستوں سے جڑے گا تو چین کا زمینی رابطہ افغانستان اور خلیجی اور مشرقی ایشیائی ریاستوں سے ممکن ہوسکے گا۔چین ایران کے ساتھ 420 ارب ڈالر کے معاہدے کرچکاہے،عراق میں بھی چین کی بھاری سرمایہ کاری جاری ہے۔چین کا خواب ہے کہ عراق ایران سے پٹرول گیس کی پائپ لائن افغانستان اور پاکستان کے ذریعے چین تک لائی جائے۔اس کے لیے چین افغانستان میں سکیورٹی صورتحال بہتر کرنا چاہتاہے۔طالبان قیادت سے حالیہ ملاقات میں مستقبل کے تجارتی معاشی منصوبوں پر چین نے کھل کر بات کی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق چین افغانستان میں 60 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کرنا چاہتاہے۔طالبان قیادت سے اس حوالے سے چینی وزیرخارجہ نے بات کی ہے۔طالبان قیادت نے چین کو سرمایہ کاری کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی ہے۔پاکستان کے سی پیک اور گوادر پورٹ کی کامیابی کے لیے بھی افغانستان میں امن واستحکام ضروری ہے اس کے لیے پاکستان بھرپور جدوجہد کررہاہے۔دوسری طرف روس کے لیے بھی افغانستان میں امن بہت ضروری ہے۔روس نے تاجکستان میں افغانستان سے ملحقہ سرحدو ں پر روسی فوج اور جنگی اسلحہ منتقل کیا ہے۔تاکہ خانہ جنگی اور داعش بلیک واٹرز سی آئی اے را ایجنسی اور دیگر کرائے کے قاتلوں کے ذریعے روس کی پڑوسی ریاستوں میں انتشار فساد نہ پھیلے۔روس نے کابل انتظامیہ اور امریکا پر الزام عائدکیا ہے کہ طالبان جب داعش کے خلاف آپریشن کرتے ہیں تو امریکا اور افغان فوج داعش کو بچانے میدان میں آجاتی ہے۔چینی صدر شی جن پنگ نے بھی پیپلز لبریشن آرمی کی حالیہ کانفرنس میں فوج کو افغانستان سرحدوں پر متحرک رہنے اور تیاری کرنے کی ہدایت کی ہے۔ کیوں کہ امریکی انخلا کے بعد خانہ جنگی کے خطرات سے چین متاثر ہوسکتاہے۔اسی طرح پاکستان نے بھی پاک افغان باڈر پر مستقل فوجی دستے متعین کردیے ہیں جس سے سمگلنگ دہشت گردی اور تخریب کاری میں کافی کمی واقع ہوئی ہے۔افغانستان کے پڑوسی ملک تاجکستان ازبکستان ترکمانستان ایران کی فوجیں بھی ہائی الرٹ ہیں،تاجک ازبک فوجوں نے مشترکہ فوجی مشقیں افغان سرحد پر شروع کررکھی ہے۔
اس ساری صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ افغانستان کا امن خطے کے امن کے لیے بہت ضروری ہے۔مشرق ومغرب کے دوبلاکوں کی باہمی کشمکش میں افغانستان مرکزی کردار ادا کررہاہے۔افغانستان میں طالبان کی گرفت مضبوط ہے اور کابل حکومت آخری سانسیں لے رہی ہے۔افغانستان میں طالبان حکومت سے کئی پڑوسی ملکوں کو فائدہ ہو گا خصوصاً پاکستان ایران چین کو۔اسی لیے ان تینوں ملکوں کے خلاف کابل انتظامیہ بار بار الزامات لگارہی ہے کہ یہ تینوں ملک طالبان کو سپورٹ کررہے ہیں۔
Source link
0 notes
Text
پاک افغان تجارت: 'جہاں 1200 گاڑیاں گزرتیں،اب 400 جاتی ہیں'
دو ہزار چار سو تیس کلومیٹر طویل پاک افغان بارڈر جو پاکستان کے شمال میں واخان پٹی سے شروع ہوکر بلوچستان میں ختم ہوتا ہے، وہاں سولہ مقامات ایسے ہیں جہاں سے روایتی طور پرمقامی لوگوں کی آمدورفت اور سرحدی تجارت ہوتی رہی ہے۔ مگر دنیا بھر میں عموما اور پاک افغان سرحدی علاقوں میں خصوصادہشت گردی، سمگلنگ اور منی لانڈرنگ کے بڑھتے واقعات نے اس سرحد پر آمد ورفت اور تجارت کو بھی متاثر کیا۔ حکومت پاکستان کو مجبورا ان سولہ مقامات کو پانچ سرحدی دروازوں (طورخم، خرلاچی، غلام خان، انگور اڈہ اور چمن)تک محدود کرنا پڑا۔ چونکہ افغانستان کا کوئی سمندری ساحل نہیں ہے اس لیے بین الاقوامی قوانین کے مطابق پاکستان افغانستان کو دنیا بھر سے تجارتی سامان کی درآمد کے لیے ٹرانزٹ سہولت فراہم کر رہا ہے۔ لیکن بوجوہ درجہ بالا پانچ میں سے صرف دو راستوں طورخم اور چمن کو ٹرانزٹ ٹریڈ اور بین الاقوامی تجارت کے لیے استعمال کیا جاتاہے۔ اس کی وجہ سے ڈرائیور اور کنڈیکٹر سے لے کر تاجر حضرات، گاڑی مالکان مختلف سرکاری و غیر سرکاری اداروں بلکہ حکومتوں تک کو مشکلات کا سامنا ہے۔ آئے روز طورخم بارڈر پر سینکڑوں بلکہ ہزاروں کنٹینرز دو سے سات دن تک کلیرنس کے انتظار میں گزارتے ہیں جس کی وجہ سے تاجروں کا انتہائی قیمتی سرمایہ اور وقت ضائع ہورہا ہے۔ تین دن پہلے بھی اسی قسم کی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے پاک افغان سرحدی حکام کی فلیگ میٹنگ منعقد ہوئی۔ ذیل میں ہم ان رکاوٹوں اور انتظار کی وجوہات اور اس کے ممکنہ حل پر بات کرتے ہیں۔ اس حوالے سے رابطہ کرنے پر پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کے سابق سینیئر نائب صدر اور فرنٹئیرکسٹم کلیرنگ ایجنٹس ایسوی ایشن کے صدر ضیاالحق سرحدی نے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان، افغانستان کے لیے حکومت Read the full article
#AfganTransit#border#GCNNewsUrdu#GlobalCurrentNews#Goods#افغان#پاک#تجارت#جاتی#جہاں#گاڑیاں#گزرتیںاب#ہیں
0 notes
Link
چترال(گل حماد فاروقی) ادارہ برائے تعلیم و ترقی کے زیر اہتمام تکثریت کا موقف اور شمالی پاکستان کے مختلف قبیلوں میں ثقافتی و لسانی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے مو ضوع پر ایک روزہ سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ جس کا بنیادی مقصد چترال میں رہنے والے مختلف زبانوں کے بولنے والے، مسلک کے حامل اور مختلف قبیلوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ایک ہی جگہ جمع کرنا اور ان میں باہمی ہم آہنگی کو فروغ دینا تھا۔ اس باہمی ہم آہنگی کی وجہ سے امن و امان، محبت اور آشتی کو فروغ ملتا ہے اور چترال کی مثالی امن کا راز اس کی ذرحیز ثقافت میں ہے۔ سیمینار میں ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی نے تنوع کا چترال کے سماجی اور معاشی ترقی
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
میں کردار کے موضوع پر مقالہ پیش کیا کہ مختلف زبانوں کے حامل لوگ کسی بھی علاقے کے خوبصورتی کا باعث بنتا ہے اور آپس میں ہم آہنگی اور مل جل کر رہنے سہنے سے علاقے کا امن و امان برقرار رہتا ہے۔ پروفیسر ممتا ز حسین پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج چترال نے چترال کے باہمی امن میں تاریحی اور ثقافتی کی عام بنیادوں کی موضوع پر مقالہ پیش کیا۔ سید گل کیلاش انچارج چترال عجائب گھر نے کیلاش ثقافت کو درپیش خطرات اور تصادم کے موضوع پر اظہار خیال کی۔انہوں نے کہا کہ وہ زیادہ تر مسلمانوں کے گھرو ں میں اور بالخصوص پٹھانوں کے گھروں میں رہ چکی ہے مگر ان کو بیٹی اور بہن جیسا پیار اور عزت ملی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
تاہم ابھی جو سیاح وادی کیلاش کا رح کرتے ہیں وہ ہماری ثقافتی اقدار کا حیال نہیں رکھتے اور بعض اوقات کیلاش لوگوں کو تنگ بھی کرتے ہیں۔ وادی عشریت سے تعلق رکھنے والے قاضی اسرار نے کہا کہ انہوں نے اپنے علاقے میں پلولہ زبان کو ترویج و ترقی اور اسے برقرار رکھنے کیلئے ایک ایسا سکول کھولا ہے جو پچھلے چھ سالوں سے مقامی بچوں کو پلولہ زبان میں سبق پڑھایا جاتا ہے۔ اس سکول میں 70 طلباءزیر تعلیم ہیں۔ واخان ثقافت کے حامل وادی بروغل سے تعلق رکھنے والے عزیز محمد نے کہا کہ واخی ثقافت کے لوگ زیادہ تر مال مویشی پالتے ہیں مگر انہوں نے انتہائی نامساعد حالات کے باوجود اپنی زبا ن کو زندہ رکھا ہوا
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ہے۔ پروفیسر شمس النظر فاطمی نے کہا کہ تعلیم سے بھی زیادہ تہذیب کا حصول ہے اور یہی تہذیت انسان کو انسانیت کے معراج پر پہنچاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر قبیلے کو مضبوط ہونا چاہئے اور اپنی ثقافت اور اقدار کو زندہ رکھ کر ہی اپنی حیثیت منوا سکتے ہیں کیونکہ اپنی زبان اور ثقافت کھونے سے ان کی اہمیت ختم ہوتی ہے۔ وادی مڈگلشٹ سے تعلق رکھنے والے شیر عظیم بختاور نے کہا کہ مڈگلشٹ کے لوگ 2 سو سال پہلے وسطی ایشیاءسے ہجرت کرکے یہاں آباد ہوچکے ہیں جو فارسی بولتے ہیں اور ان کی فارسی تاجکستان اور بدخشان سے ملتی جلتی ہے مگر اسے قدرے محتصر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری زبان میں ایک مقامی
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ادیب سید نواز تنہاءنے 4 کتابیں بھی لکھی ہیں جو خالصتاً مقامی زبان میں ہے۔زبیر ترناوی جو ادارہ برائے تعلیم و ترقی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہے نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ اس سیمنار کا بنیادی مقصد مختلف زبانوں کے بولنے والے، مختلف مسلک کے حامل اور پیروکار اور مختلف قبیلوں کے لوگوں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع کرکے ان کے درمیان باہمی آہنگی کو فروغ دینا ہے کیونکہ جب تک ایک دوسرے کے ساتھ ہمارے روابط اچھے نہیں ہوں گے تو امن قائم نہیں ہوسکتا اور امن کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے۔ سید گل کیلاش نے کہا کہ ہم سب کو مل جل کر پیار محبت سے زندگی گزارنا چاہئے اور ایک دوسرے کے اقدار اور
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ثقافت کا حیال رکھنا چاہئے۔ فرید احمد جو زبانوں کی ترویج پر کام کررہا ہے کا کہنا ہے کہ چترال میں 14زبانیں بولی جاتی ہے مگر ان زبانوں کی تحفظ اور اس کی ترویج و ترقی میں کسی سرکاری ادارے نے ابھی تک ان کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا ہے اور نہ کوئی حاطر حواہ قدم اٹھایا ہے۔ سیمینار میں ہر زبان اور مسلک کے حامل مختلف قبائل کے لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی جسے مقامی لوگوں نے بہت سراہا اور اس قسم کے سیمنار کو بار بار منعقد کرانے پر زور دیا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
0 notes