#نیشاپور
Explore tagged Tumblr posts
Text
انگشتر فیروزه نیشاپور فوق کلکسیونی کار دست مرحوم استاد شاکری بزرگ طرح سه برگ با مخراجکاری زمرد و اره کاری بسیار زیبا با سایز ۶۵-۶۶ و وزن کلی ۴۰ گرم و ابعاد نگین ۳۰ در ۲۰ 🇮🇷
🇮🇷۰۹۱۶۰۳۷۱۱۹۴
🇮🇷۰۹۳۸۴۰۸۷۰۸۹
👇لینک غرفه ما در فروشگاه اینترنتی باسلام 💥
🇮🇷لینک Instagram and Treads 🤝
https://instagram.com/shefetolabd?igshid=MzRlODBiNWFlZA==
🇮🇷لینک Rubika 🤝
https://rubika.ir/sheftolabd
🇮🇷لینک Telegram 🤝
https://t.me/shefetolabd
🇮🇷لینک twitter (X) 🤝
https://twitter.com/shaftolabd1?s=09
🇮🇷لینک YouTube 🤝
https://www.youtube.com/@shefetolabd
🇮🇷لینک Pinterest 🤝
https://pin.it/26brA7H
🇮🇷لینک tumblr 🤝
https://www.tumblr.com/shefetolabd?source=share
🇮🇷لینک Facebook 🤝
https://www.facebook.com/profile.php?id=61550635712313&mibextid=nW3QTL
🇮🇷لینک Virasty 🤝
https://virasty.com/shefetolabd
🇮🇷لینک Wisgoon🤝
https://virasty.com/shefetolabd
🇮🇷لینک iGap 🤝
https://iGap.net/shefetolabd
🇮🇷لینک Hoorsa🤝
https://www.hoorsa.com/shefetolabd
🇮🇷لینک LinkedIn🤝
https://www.linkedin.com/in/shefetolabd-yamani-018484195
🇮🇷لینک VK 🤝
https://vk.com/id820444599
#قم #یزد #خراسان_رضوی #کرمان #خراسان_شمالی #همدان #سمنان #تهران #اصفهان #خوزستان #اردبیل #زنجان #خراسان_جنوبی #ایلام #البرز #هرمزگان #آذربایجان_شرقی #گیلان #مازندران #آذربایجان_غربی #فیروزه #شفت_العبد
#کلکسیونر #کلکسیون #انگشتر
#فوق_کلکسیونی #انگشترخاص #ایران #ایرانگردی #ایرانی
0 notes
Photo
جنایات چنگیزخان مغول در نیشاپور و انهدام این شهر ______________________ هنگامی که تاریخ حمله مغول و جنایات آنها را در یکایک شهرها و روستاهای ایران می خوانیم، چنان قلب انسان به درد می آید که فریاد کردن و گریه سرنهادن تنها مرهمی اندک است بر احساساتی جریحه دار بر مرگ انسانیت! بگذریم،.. آن هنگام که نیشاپور آن شهر بزرگ و شکوهمند که یادگاری کهن از تاریخ ایران زمین بر تارک آن می درخشید توسط مغولان، آن روسیاهان تاریخ، و توسط #تولوی فررند چنگیزخان ،تصرف شد #فرمان_یاسایی در رسید که هیچ کس حتی جنین های درون شکم زنان و حیواناتی همچون سگ و گربه نیز نباید زنده بماند! فاجعه نیشاپور را می توان مرگ انسانیت قلمداد نمود. مغولان دسته دسته مردم نیشاپور را از کوچک و بزرگ، زن و مرد، پیر و جوان ، همچون گله هایی از گوسفندان به بیرون شهر برده و گردن می زدند! روایت #جهانگشای_جوینی تایید می کند که در نیشاپور هیچ کس زنده نماند و حدود دوازده روز کار قتل عام ادامه داشت! #جوینی روایت کرده که چون داماد چنگیز خان در روز اول محاصره نیشاپور با تیری از فراز بارو کشته شده بود، بعد از فتح شهر، دختر چنگیز خان که عزادار مرگ شوهرش بود با خدم و حشم فراوان وارد شهر شد و قتل عام را تمام و کامل نمود! گویند تنها ۴۰۰ تن از هنرمندان و صنعتگران نیشاپوری را جدا کرده و بقیه مردم را کشتار نمودند این هنرمندان و صنعتگران را به #ترکستان فرستادند تا در آنجا از آنها استفاده نمایند. بعد از کشتار دوازده روزه ی مردم تمام خانه ها و دیوارها را همچون زمین، تخریب و همو��ر کردند و بر آن آب بستند و سپس جو کاشتند! حتی روایت شده که تولی حدود چهار هزار سپاهی را در انجا باقی گذاشت تا اگر کسی یا سگ و گربه ای و حیوانی جان بدر برده را کشتار نمایند! این بود قصه پر غصه نیشاپور که بعد از حمله مغولان کمر راست نکرد. هنوز بعد از قرنها اگر از نیشاپور عبور نماییم، خرابه های ان به چشم می خورد و این داستان غم انگیز را با زوزه باد به گوش ما می رساند. و این داستان تمام شهرهای ایران هنگام حمله مغولان بود. فاجعه ای که هرگز ، تاریخ ایران شبیه آن را به خود ندیده بود __________________ بن مایه: #تاریخ_جهانگشای_جوینی، ج۱، ص ۱۳۳_۱۴۲ #تاریخ #مغول #چنگیزخان #نیشاپور #خوارزمشاهیان https://www.instagram.com/p/CRHpWeWn0te/?utm_medium=tumblr
#تولوی#فرمان_یاسایی#جهانگشای_جوینی#جوینی#ترکستان#تاریخ_جهانگشای_جوینی#تاریخ#مغول#چنگیزخان#نیشاپور#خوارزمشاهیان
0 notes
Text
جلال الدین رومی, دنیا کا سب سے بڑا شاعر
جلال الدین رومی دنیا کے سب سے بڑے شاعر اور ان کی مثنوی معنوی تصوف کے موضوع پر سب سے اہم مثنوی ہے۔ ہمارے قومی شاعر علامہ محمد اقبال، جلال الدین رومی کو مرشد مانتے ہیں اور برملا کہتے ہیں:
رازِ معنی مرشد رومی کشود فکر من بر آستانش در سجود
ترجمہ:۱۔ اصل راز/معنی میرے مرشد رومی نے آشکار کئے ہیں، میری فکر ان کے آستانے پر سجدے کرتی ہے۔ رومی بلخ میں ۶۰۴ ھجری میں پیدا ہوئے ان کے والد شیخ بہاء الدین اس وقت کے بڑے روحانی علماء میں شمار ہوتے تھے اور ھزاروں عقیدت مند درس میں شامل ہوتے تھے۔ یہ خوارزم شاھی دور تھا اور علاؤ الدین خوارزم شاہ اس خطہ کے حکمران تھے۔ اس زمانے میں شیخ بہاء الدین نے بلخ سے رخت سفر باندھا اور سمرقند، بخارا، ایران، شام، عراق اور حجاز مقدس میں فریضہ حج کے بعد بالآخر قونیہ (ترکی) میں آباد ہوئے اور ایک عظیم درسگاہ کی بنیاد رکھی۔
شیخ بہاء الدین دوران مسافرت نیشاپور میں معروف صوفی شاعر شیخ فرید الدین عطار کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عطار نے اس بارہ سالہ بچے (رومی) کو دیکھ کر کہا کہ اس بچے کی پیشانی پر بزرگی کے آثار رقم ہیں اور یہ دنیا میں بڑا نام پیدا کرے گا۔ نیز شیخ فرید الدین عطار نے اپنی مثنوی ''اسرار نامہ‘‘ رومی کو ھدیہ کی۔شیخ بہاء الدین کی وفات کے بعد مدرسہ/درس گاہ کا نظام مولانا جلال الدین رومی نے سنبھالا اور درس و تدریس میں مشغول ہو گئے، جہاں پر ایک روز مدرسہ کے تالاب کے کنارے علم کے موتی بکھیر رہے تھے کہ ایک مرد قلندر شمس تبریزی اچانک نمودار ہوا اور پاس جا کر پوچھنے لگا کہ : این چیست؟ (یہ کیا ہے؟) علوم ظاھری کے طالبان نے جواب دیا، جا بابا جا: این علمی است کہ تو نمی دانی (یہ وہ علم ھے جو تم نہیں جانتے) اور پھر اس مخدوب نے عجیب کام کیا اور کتابیں اُٹھا کر تالاب میں پھینک دیں ظاھر بین غُص��ے کے عالم میں مست الست قلندر کو سخت سُست کہنے لگے اور کہا کہ یہ کیا کیا اور پھر شمس نے جب تالاب سے دھول اُڑائی اور خشک کتابیں نکال کر پیش کر دیں تو ایک عالم تحیر رومی اور ان کے طالبعلموں پر طاری ہو گیا اور گویا ھوئے:
این چیست؟ (یہ کیا ہے) اور پھر مخدوب گویا ھوا کہ: این علمی است کہ شمانمی دانید (یہ وہ علم ہے جو آپ نہیں جانتے) اور یہی جملۂ رومی کے احوال و شخصیت کو بدل گیا۔ رومی اپنے تمام علم و ہنر کے ساتھ شمس کے دست بستہ مرید اور عاشق ہو گئے اور پکار اُٹھے، ترجمہ: ۱۔ میں تیری خواہش میں رات دن بے قرار ہوں اور تیرے قدموں سے سر نہیں اٹھائوں گا۔ ۲۔ میں نے تو رات دن کو اپنی طرح مجنون کر دیا ہے اور میں نے رات دن کو رات دن کہاں رہنے دیا ہے۔ ۳۔ عاشقوں سے جان و دل کا تقاضا کیا جاتا ہے اور میں رات دن جان و دل کو نثار کرتا ہوں۔ ۴۔ جب سے تیرے عشق کے نغمے الاپنے شروع کیے ہیں میں کبھی چنگ ہوں اور کبھی تار۔ شمس تبریزیؒ کے فیض نے جلال الدین رومی کو وہ رفعت عطا کی کہ اس کی مثنوی معنوی اور دیوان شمس آسمان ادب پر روشن سورج کی طرح ہمیشہ کے لیے چمک اٹھے اور پیغام اس طرح پھیلا کہ رومی عشق و محبت اور انسانیت اور حریت کا استعارہ بن گیا۔
علامہ اقبال، رومی کی اسی آفاقیت اور شاعرانہ عظمت اور پیغام کے دلدادہ ہیں اور برملا کہتے ہیں:
چو رومی در حرم دادم ازان من ازو آموختم اسرار جان من
بہ دور فتنہ عصر کہن او بہ دور فتنہ عصر روان من
ترجمہ:۱۔ میں نے رومی کی طرح حرم میں اذان دی ہے اور اس سے اسرار جان (دل و روح) کے بھید سیکھے ہیں۔ ۲۔ پرانے زمانے کے فتنوں میں وہ (رومی) اور دور حاضر کے فتنوں میں میں (اقبال) صدائے حق بیان کرتا ہوں۔ رومی کی مثنوی کے چھبیس ہزار اشعار ہیں اور دیوان شمس تقریباً چھیالیس ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ مثنوی معنوی دراصل تصوف کے اسرار اور انسانی معاشرت پر محیط ایک مقدس صحیفے کی حیثیت رکھتی ہے اور جلال الدین رومی نے بانسری کا استعارہ روح انسانی کے لیے استعمال کیا ہے جو اپنی اصل سے جدا ہو گئی اور دوبارہ اپنے اصل کی طرف لوٹنا چاہتی ہے، ترجمہ: ۱۔ بانسری کی آواز سنو یہ کیسی کہانی/ حکایت بیان کر رہی ہے۔ یہ تو جدائیوں کی شکایت کر رہی ہے۔ ۲۔ جب سے مجھے جنگل سے کاٹا گیا ہے میری آواز سے (میرے نالوں سے) مرد و زن رو رہے ہیں۔ ۳۔ میں جدائی سے/ فراق سے چھلنی سینہ چاہتی ہوں جس کے سامنے میں عشق کے درد کو بیان کر سکوں۔ اِسی طرح دیوان شمس میں شمس سے دوری اور فراق کا وہ بیان ہے کہ اس ضمن میں کی گئی شاعری میں اس کا مقام بہت ہی بلند اور اعلیٰ مرتبے کا حامل ہے۔
دراصل رومی کا زمانہ تاتاری فتنے کے بعد کا زمانہ ہے جس میں انسانی معاشرہ بے عملی کا شکار ہو گیا تھا اور علماء و شعراء نے بھی خانقاہ نشینی اختیار کر لی تھی۔ اس پر آشوب دور میں رومی نے انسانوں کو عمل کی طرف راغب کیا۔ انسان کو انسانوں کی اشرف اخلاقی اور روحانی اقدار کی طرف بلایا اور وہ بے اعتباری دور کرنے کی کوشش کی جو انسانوں میں ایک دوسرے سے پیدا ہو چکی تھی۔ خود لب کھولے اوردوسروں کو لب کھولنے کی جرأت اور تشویق عطا کی، ترجمہ: ۱۔ لب کھولو کہ بہت ساری شیرینی/مٹھاس کی آرزو ہے اور چہرہ دکھاؤ کہ باغ اور گلستان کی آرزو ہے۔ ۲۔ میں ان سُست عناصر ساتھیوں سے تنگ آگیا ہوں۔ میں تو شیر خدا (علی ؑ) اور دستان کے رستم کی آرزو کر رھا ہوں۔ ۳۔ کہا گیا کہ جسے ہم تلاش کرتے ہیں وہ ملتا ھی نہیں، میں نے کہا کہ وہ جو تلاش نہیں کیا جا سکتا/جو نہیں ملتا میں تو اسی کا متلاشی ہوں۔ رومی کا یہی پیغام علامہ محمد اقبال تک آیا تو اقبال بھی متحیر ہو گئے اور رومی کو مرشد معنوی مان کر اس طرح گویا ہوئے:
شب دل من مایل فریاد بود خامشی از یاربم آباد بود
آن قدر نظارہ ام بیتاب شد بال و پر بشکست و آخر خواب شد
روی خود بنمود پیر حق سرشت کو بہ حرف پہلوی قرآن نوشت
گفت ای دیوانۂ ارباب عشق جرعہ ای گیر از شراب ناب عشق
تا بہ کی چون غنچہ می باشی خاموش نکہت خود را چو گل ارزان فروش
من کہ مستی ھا ز صہبایش کنم زندگانی از نفس ھایش کنم
ترجمہ:۱۔ رات میرا دل فریاد پہ مایل تھا اور خاموشی میں میرے یارب یا رب کہنے کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔ ۲۔ میں اس قدر بیتاب ہوا کہ آخر کار تھک کر سو گیا۔ ۳۔ پیر حق سرشت (رومی) نے خواب میں اپنا چہرہ دکھایا ، جنہوں نے پہلوی زبان میں قرآن لکھا ہے۔ ۴۔ کہا کہ اے اربابِ عشق کے دیوانے، میری خالص شراب کا ایک گھونٹ پی لے۔ ۵۔ کب تک غنچے کی طرح خاموش رہو گے، اپنی خوشبو کو پھول کی طرح بکھیر دو۔ ۶۔ میں جو اُس کی شراب سے مستی حاصل کرتا ہوں، بلکہ میں تو سانس بھی اُس کی سانسوں سے لیتا ہوں۔ انیسویں اور بیسویں صدی اعلیٰ ادبیات کے انعکاس کی صدیاں کہلاتی ہیں۔ ان میں عالمی شخصیات کی ملاقاتیں ہوئیں، سفرنامہ لکھے گئے اور ادبی شاھکاروں کے تراجم ہوئے ، عالمی ادیب ایک دوسرے کے شہ پاروں سے متعارف ہوئے۔ اگرچہ فارسی دان طبقہ تو رومی کی عظمت سے روشناس تھا ہی، تراجم کے ذریعے شناسائی کے نئے درباز ہوئے اور مشرق و مغرب رومی کی فکری جدت کی طرف مایل ہوا اور مثنوی معنوی کی افاقیت پوری دنیا میں گستردہ ہو گئی نیز دنیا کے ادبأ و شعرا نے رومی پہ خراج عقیدت کے پھول نچھاور کرنا شروع کئے۔
رومی کی مثنوی کی حکایات اور ان کے آخر میں سبق آموز جملے /اشعار ضرب الامثال کی صورت اختیار کر گئے، ترجمہ: ۱۔ پاک لوگوں کے کاموں کو اپنے جیسا مت خیال کرو کیونکہ شیر (جنگل کا) اور شیر (دودھ) لکھے ایک طرح ہی جاتے ہیں۔
کاسۂ چشم حریصان پُر نشد تا صدف قانع نشد پر در نشد
ترجمہ:۱۔ حریص کی آنکھ کا پیالہ کبھی نہیں بھرتا، جب تک سیپی قناعت نہیں کرتی اُس میں موتی نہیں بنتا۔ رومی کی عظمت کے اعتراف میں لکھے جانے والی چند ذیل کتابوں اور ادیبوں کا ذکر ضروری ہے ۔ ۱۹۹۹ء میں دیپک چوپڑا کی کتاب'' محبت بھرا تحفہ، رومی کی شاعری کے زیر اثر موسیقی‘‘۔ میڈونا، مارٹن شین، ڈیمی مور اور گولڈن ہیون، نے رومی سے شناسائی کو اپنے لئے فخر سمجھا۔ انیسویں صدی کو رومی کی صدی قرار دے کر اس کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کیا گیا۔ آخر میں ہم مشہور دانشور مائیکل کونستا توفسکی اکتوبر کی تحریر کو رومی کی خدمت میں پیش کرتے ہیں'' دنیا آج جس بات پر آج زور دے رہی ہے وہی پیغام رومی ۸۰۰ برس قبل دے چکے ہیں‘‘۔ مائیکل کے انگریزی مضمون کی سرخی کا ترجمہ کچھ یوں بنتا ہے ''رومی دنیا کا مقبول ترین شاعر‘‘ ۔ در حقیقت رومی اسی عنوان کے سزاوار ہیں۔
پیر رومی مرشد روشن ضمیر کاروانِ عشق و مستی را امیر
(مولانا روم روشن ضمیر مرشد ہیں اوروہ کاروانِ عشق و مستی کے امیر ہیں)۔
پروفیسر ڈاکٹر شاہد اقبال
بشکریہ دنیا نیوز
7 notes
·
View notes
Photo
Precise blueish colour with black and golden web. Splendid beauty from iran Nishapur Turquoise (Feroza) 100% Narural نیشاپور فیروزہ۔ Tear shape, no treatment. 𝐒𝐡𝐢𝐩𝐩𝐢𝐧𝐠: 𝐃𝐇𝐋 𝐄𝐱𝐩𝐫𝐞𝐬𝐬 𝐂𝐡𝐞𝐜𝐤𝐨𝐮𝐭: 𝐏𝐚𝐲𝐏𝐚𝐥 𝐀𝐜𝐜𝐞𝐩𝐭𝐞𝐝, 𝐂𝐫𝐞𝐝𝐢𝐭/𝐃𝐞𝐛𝐢𝐭 𝐂𝐚𝐫𝐝, 𝐃𝐢𝐫𝐞𝐜𝐭 𝐁𝐚𝐧𝐤, COD ❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️ @lordofgems @thenubhouse contact: dm/Whatsapp 0332-4857816 #kunzite #pakistan #sawat #emerald #lordofgems #gemstone #healing #fashion #bloggers #poland #purplelook #follow4followback #india #hindu #love #calcite #oslo #love #bracelets #crystalhealing #positiveenergy #pearls #bloggers #art (at Oslo, Norway) https://www.instagram.com/p/CPP2Up4hAH0/?utm_medium=tumblr
#kunzite#pakistan#sawat#emerald#lordofgems#gemstone#healing#fashion#bloggers#poland#purplelook#follow4followback#india#hindu#love#calcite#oslo#bracelets#crystalhealing#positiveenergy#pearls#art
1 note
·
View note
Text
نگاهی بر سیر تاریخی مسجد جامع پل خشتی
دین مقدس اسلام در نیمه قرن اول هجری وارد کشور گردید و فروغ جاویدانی یافت. سرداران نخستین اسلام برای استحکام فرهنگ و باور اسلامی در مناطق فتح شده، به جای نیایشگاه ها و پرستشگاه های گذشته، مساجد جدید را اعمار می کردند.
از آن میان پیش از ورود اسلام به شهر کابل نطر به شواهد و قراین، در لب دریای کابل معبدی وجود داشت که به مرور زمان از میان رفته بود. فاتحان مسلمان خرابه های معبد را هموار نمودند و سنگ بنای اولین مسجد اسلام را در همان مکان به زمین گذاشتند.
سالیان زیادی سنگ بنای مذکور در ��حراب بهاری عمارت قبلی مسجد پُل خشتی محفوظ بود که بعد از تهداب گذاری بنای جدید توسط یک تعداد علمای کرام به تهداب محراب مسجد کنونی گذاشته شد.
این مسجد مبارک به نسبت آن که تهداب آن توسط اصحاب کرام پیامبر اکرم صلی الله علیه و سلم گذاشته شده است، از ادوار قدیم تا حال قابل احترام برای مردم می باشد و نظر به دلایل موثق، بی گمان بعد از مسجدجامع شاه دو شمشیره، دومین مسجد مسلمانان در شهر کابل می باشد. این مسجد مبارک به نام مسجد جامع لب دریا نیز مشهور بوده است.
کار ساختمان تعمیر اساسی مسجدجامع پل خشتی، در سال ۱۱۸۷ هـ ق در زمان سلطنت تیمورشاه درانی آغاز گردید، اما نسبت سفرهای طولانی شاه به جانب نیشاپور، سند، بلوچستان و بعضی عوامل دیگر مانند اختلافات داخلی به اتمام نرسید.
به هر رو، با گذشت زمان بر تعداد نمازگذاران این مسجد مبارک افزوده شد، مطابق به مهندسی و معماری مروج آن وقت، در نزدیک مسجد جامع از خشت پخته و گچ بالای دریای کابل پلی ساخته شد که بعدها از سوی مردم عوام به نام مسجد پل خشتی شهرت یافت.
پس از وفات تیمور شاه، پسرش شاه زمان، کار ساختمان مسجدجامع پل خشتی را در سال ۱۲۱۲ هـ ق مطابق ۱۷۹۸ م به پایه اکمال رسانید.
در زمان سلطنت عبدالرحمن خان، در قسمت وسطی آن مسجد دیگری بنا کردند، ولی در سال ١٢٧١ هـ.ش کار ساختمان تعمیر آن به شکل یک منزله و دارای سه دالان، هفت رواق و بیست و یک گنبد تا اندازه ای تکمیل گردید.
برای نوشتن آیات قران کریم به خط کوفی و ثلث، به طول هشتاد و هشت متر به روی اطراف دیوارهای بیرونی خطاطی صورت گرفت. در ضمن گچ کاری داخل و خارج مسجد از شهکارهای معماری همان دوره به شمار می رفت.
در زمان امیر حبیب الله خان به مساحت صحن مسجد افزوده شد و یک منزل دیگر از چوب و آهنپوش بالای طبقۀ اول به سبک بسیار زیبا اعمار گردید.
در سال ١٣٠٣ هـ. ش. نظر به فرمان شاه امان الله خان یک مدرسۀ ابتدایی نیز در مسجد مذکور برای آموزش اطفال نوآموز، دایر گردید.
در زمان نادر خان نیز ترمیمات اساسی دیگر در ساختمان مسجد علاوه شد. حوضی برای وضوی نمازگزاران اعمار گردید.
به دستور محمد ظاهرشاه به تجدید و توسعۀ آن مطابق سبک معماری عصری مساجد بزرگ ممالک اسلامی، پرداخته شد و بدین ترتیب سنگ بنای تهداب مسجد بزرگ فعلی در اوایل سال ١٣٣٤ به زمین گذاشته شد.
منار مسجد فعلی٦٢ متر و گنبد سبز رنگش از کرسی، ١٨ متر ارتفاع دارد که گنجایش سه هزار نمازگزار را در یک وقت دارا می باشد.
ساختمان جدید و فعلی مسجد جامع پُل خشتی که تمام ایوان رواق های طبقۀ اول و دوم، زینه های عریض دهلیزها و دیوارهای آن از سنگ مرمر شفاف ساخته شده و روی گنبد آن با کاشی سبز آبی رنگ مزین گردیده به روز چهارم عقرب سال ١٣٤٥ افتتاح شد.
این مسجدمبارک یکی از مساجدجامع و تاریخی شهر کابل است که زمامداران مختلف کشور هر یک به نوبه خود در ساختار آن نفش خویش را ایفا نموده اند، ولی متاسفانه پولی هنگفتی که از درک پرداختن خیرات، عواید و کرایه دکانها و دستفروشان اطراف و اکناف مسجد به دست می آید نه تنها توسط مسوولان ذیربط تا کنون به گونه درست و شفاف گردآوری و محاسبه نگردیده و معلوم نیست که طی سالیان گذشته، چه مقدار پول جمع آوری شده و این عواید را چه کسانی برداشت نموده اند و یا این پول چه شده است؟! بلکه در گسترش و افزایش عایدات مسجد و نواحی اطراف آن نیز بذل توجه اساسی صورت نگرفته است.
این مسوولیت دینی و وظیفوی دولت و اولیای امور است که در قسمت شفافیت گردآوری عواید وقفی قوانین و میکانیزم های درست را طرح، تدوین و تطبیق نمایند تا این عواید خیریه، برای گسترش فرهنگ اسلامی و کمک به نیازمندان حامعه به مصرف برسد.
http://ndareez.blogfa.com/
0 notes
Text
New Post has been published on Islam365
https://islam365.org/hadith-and-naat-collection/sahih-muslim-brief-rate-ninety-one-imam-muslim-ibn-al-hajjaj/
Sahih Muslim with a brief rate of ninety-one by Imam Muslim ibn al-Hajjaj
#3428
مصنف : امام مسلم بن الحجاج
مشاہدات : 8330
صحیح مسلم مع مختصر شرح نووی جلد۔1
ڈاؤن لوڈ 1
صحیح مسلم امام مسلم (204ھ۔261ھ) کی مرتب کردہ شہرہ آفاق مجموعہء احادیث ہے جو کہ صحاح ستہ کی چھ مشہور کتابوں میں سے ایک ہے۔ امام بخاری کی صحیح بخاری کے بعد دوسرے نمبر پر سب سے مستند کتاب ہے۔امام مسلم کا پورا نام ابوالحسین مسلم بن الحجاج بن مسلم القشیری ہے۔ 202ھ میں ایران کے شہر نیشاپور میں پیدا ہوئے اور 261ھ میں نیشاپور میں ہی وفات پائی۔ انہوں نے مستند احادیث جمع کرنے کے لئے عرب علاقوں بشمول عراق، شام اور مصر کا سفر کیا۔ انہوں نے تقریباًتین لاکھ احادیث اکٹھی کیں لیکن ان میں سے صرف7563 احادیث صحیح مسلم میں شامل کیں کیونکہ انہوں نے حدیث کے مستند ہونےکی بہت سخت شرائط رکھی ہوئی تھیں تا کہ کتاب میں صرف اور صرف مستند ترین احادیث جمع ہو سکیں۔ صحیح مسلم کی اہمیت کے پیش نظر صحیح بخاری کی طرح اس کی بہت زیادہ شروحات لکھی گئیں۔ عربی زبان میں لکھی گئی شروحات ِ صحیح مسلم میں امام نوویکی شرح نووی کو امتیازی مقام حاصل ہے ۔پاک وہند میں بھی کئی اہل علم نے عربی واردو زبان میں اس کی شروحات وحواشی لکھے ۔عربی زبان میں نواب صدیق حسن خاںاور اردو میں علامہ وحید الزمان کا ترجمہ قا…
#Sahih Muslim with a brief rate of ninety-one by Imam Muslim ibn al-Hajjaj#صحیح مسلم مع مختصر شرح نووی جلد۔1 مصنف : امام مسلم بن الحجاج
0 notes
Text
ایرانی ثقافت اور موسیقی کے ’بین الاقوامی سفیر‘ شجریان کون تھے؟ - BBC News اردو
ایرانی ثقافت اور موسیقی کے ’بین الاقوامی سفیر‘ شجریان کون تھے؟ – BBC News اردو
امام ثقلین
بی بی سی اردو سروس
ایک گھنٹہ قبل
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ایران کے معروف کلاسیکل گلوکار اور موجودہ حکومت کے مخالف فنکار، آغائے محمد رضا شجریان جن کا گذشتہ روز تہران میں انتقال ہو گیا تھا، انھیں مشہد کے قریب نیشاپور میں فارسی زبان کے عظیم شاعر فردوسی کے مقبرے کے قریب دفن کیا جا رہا ہے۔
ان کی اپنی وصیت کے مطابق ان کے اہلِ خانہ نے ’شاہنامہِ‘ لکھنے والے گیارہویں صدی کے…
View On WordPress
0 notes
Text
دنیاکی قدیم اسلامی جامعات!
اسلامی بادشاہوں کی تاریخی فتوحوحات وشکست،اسلامی تہذیب،علم وفنون اسلامی تعمیرات پرجب بات کی جاتی ہےتو یورپ سےمتاثرکچھ حضرات بغیرتحقیق کیےبات بات پرطعنہ زنی کرتےنظر آتےہیں کہ جب برصغیر پاک و ہندمیں تاج محل بن رہاتھا اسوقت انگلستان میں انگریزآکسفورڈاور کیمبرج یونیورسٹیز بنارہے تھے! انکےاس جھوٹ کی مسلسل تکرار سن کربہت سے افراداسی جھوٹ کوسچ سمجھ بیٹھتے ہیں حالانکہ حقائق بلکل ہی مختلف ہوتےہیں،اعتراضات اٹھانےوالوں نےکبھی تاریخ کا مطالعہ ہی نہیں کیاہوتا اور وہ یہی سمجھتے ہیں کہ جوکہاجارہا ہےوہی درست ہے، اگر بلاوجہ کے معترض حضرات کچھ کتب کا مطالعہ کرلیا کریں یا پھر اس جدید ترین دور میں وکی پیڈیا یا گوگل پر سرچ کرلیا کریں تو انہیں کےعلم میں اضافہ ہوتا، ہم جب تاریخی کتب اور وکیپیڈیا کو مطالعہ کرتے ہیں تو ان یونیورسٹیز اور تاج محل وغیرہ کی تعمیرات کی تفاصیل کی ت��اریخ کچھ یوں ملتی ہیں آکسفورڈ یونیورسٹی : 1096ء کیمبرج یونیورسٹی : 1209ء تاج محل آگرہ : 1653 ء اور کچھ حضرات کو تو یہ بھی علم نہیں کہ مذکورہ یونیورسٹیز وغیرہ کی تعمیرات سے کئی صدیاں پہلے مسلمانوں کی تین تین بڑی ( نامور ) یونیورسٹیوں سے علم و ہنر کی قندیلیں پھوٹ رہی تھیں اور دنیا بھرسےہزاروں علم کےپیاسےمہینوں کی مسافت طے کرکے وہاں پہنچتےتھے. دنیاکی قدین ترین اسلامی یونیورسٹیاں 1. جامعة القرويين (مراکش) 859ء 2. جامعة الأزهر(مصر)970ء 3. النظامیتە: 1065ء النظامیتە کی شاخوں کاسلسلہ عراق میں بغداد،بصرہ،شام میں دمشق،ایران میں آمل،اصفہان نیشاپور اور افغانستان میں ہرات شہر میں سلجوقی حکمران ”شجاع محمد الپ ارسلان سلجوقی“ کے وزیر ابو علی حسن بن علی طوسی نظام الملک کے ذریعے قائم کیا گیا تھا جن کو مدرسیہ کہا جاتا تھا.اس Read the full article
0 notes
Photo
منهنجو ننڍو پٽ زاهد قدم گاہ امام رضا۴ نزد نیشاپور واري جاء تي https://www.instagram.com/p/CCH1M9wgqTk/?igshid=1vtow8l0kvwp1
0 notes
Text
0 notes
Photo
داستان عشق(هوس)#مهد_علیا مادر #ناصر_الدین_شاه #قاجار به #میرزا_بیرم _________________________________________ گویند مهد علیا مادر ناصر الدین شاه، که پیر و سالخورده بود و سن و سالی از وی گذشته بود، یک دل نه صد دل عاشق جوانی به نام «میرزا بیرم » شده بود. البته عشق که چه عرض کنم. این زن هوسباز، از برای خالی نمودن هوس، خود را می آراست و میل خود را به #میرزابیرم ابراز می داشت. اما از وی اصرار و از میرزا انکار! کار به جایی رسید که میرزا بیرم، پنج بار از #خراسان فرار نمود و به #استرآباد، #نیشاپور،#بلخ، #سیستان و #قندهار پناه برد اما هر بار مهد علیا کسی را به دنبال وی می فرستاد و او را مجبور به بازگشت می نمود.حتی به وی تهمت زد که مبلغ سیصد هزار تنگه ی مرا تصرف نموده ای! سرانجام میرزا بیرم به خانه ی یکی از دوستانش رفت و دردل نمود که این پیر فرهاد کش عجب مرا زبون و خوار کرده و محال است که من با وی درآمیزم و بنابراین از روی رضا و میل و رغبت خون خود را می ریزم و خودکشی می کنم تا مهدعلیا دست از سرم بردارد. دوستش به وی نصیحت نمود که بهترین راه این است که خود را به بیماری بزنی و وانمود کنی که مریض هستی تا عشق مجازی او روز به روز کم شود. گویند وقتی که مهدعلیا میرزا بیرم بیمار و ناتوان را دید ،مهر از وی برچید و ورق مهر و محبت او در هم پیچید.! شاید #عبید_زاکانی با توجه به این خصلت #پیرزنان بود که گفت: «پیرزنان را سر به کلوخ کوب بکوبید،تا درجه ی غازیان یابید»! یا در جای دیگر که می گوید:« از پیرزنان در پیری،مهربانی مخواهید»! _____________________________________________ گردآوری و نگارش: #علی_آریایی بن مایه: #بدایع_الوقایع،#واصفی،ج2،ص1052 به نقل از: تاریخ اجتماعی ایران،#راوندی،ج3،ص634-636 #تاریخ #قاجار #مهدعلیا #ناصرالدین_شاه #رابرت_شرلی https://www.instagram.com/p/CP9Et6XnmSs/?utm_medium=tumblr
#مهد_علیا#ناصر_الدین_شاه#قاجار#میرزا_بیرم#میرزابیرم#خراسان#استرآباد#نیشاپور#بلخ#سیستان#قندهار#عبید_زاکانی#پیرزنان#علی_آریایی#بدایع_الوقایع#واصفی#راوندی#تاریخ#مهدعلیا#ناصرالدین_شاه#رابرت_شرلی
0 notes
Quote
ئهى لهناو گیانم و گیان له تۆ بێخهبـهر لهتۆ جیهان پڕه و جیهان له تۆ بێخهبهر
عهتاری نیشاپور
0 notes
Photo
Pre Order Booking. All Natural beautiful sky blue Nishapur Feroza Rough pieces for Decoration. 100% Natural. اصلی قدیمی نیشاپور فیروزہ/Turquoise. @thenubhouse @lordofgems whatsapp:03324857816. #lordofgems #healingcrystals #reikihealing #chakras #pakistan #feroza #turquoise #imamraza #Iran #shia #Muslim #blue #sky #instadaily #decoration https://www.instagram.com/p/CUHan76oGqw/?utm_medium=tumblr
#lordofgems#healingcrystals#reikihealing#chakras#pakistan#feroza#turquoise#imamraza#iran#shia#muslim#blue#sky#instadaily#decoration
0 notes
Text
معرفی کتب ستة و مولفین آن ها
کتب ستة صحیح ترین کتاب های احادیث اهل سنت هستند و هر شش نویسنده این کتاب ها، غیرعرب و فارسی زبان بودند.
این امر به حق رسیدن سخن پیامبر اکرم صلی الله علیه و سلم هست که دست مبارکشان را روی سلمان فارسی (رض) گذاشتند و فرمودند: لَوْ کَانَ الْإِیمَانُ عِنْدَ الثُّرَیَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ مِنْ هَؤُلَاءِ (متفق علیه).
یعنی: اگر ایمان در ستاره ثریا بود مردانی از این ها (یعنی اهل فارس) به آن دست می یافتند.
کتب ستة و گردآورندگان آن
۱. صحیح بخاری: امام محمد بن اسماعیل بخاری آن را جمع آوری نمود، او در سال ۱۹۴ هجری در بخاری زاده شد. این کتاب صحیح ترین کتاب بر روی زمین بعد از قرآن کریم می باشد،
امام بخاری در سال ۲۵۶ هجری در سن ۶۲ سالگی درگذشت، رحمة الله علیه، این کتاب مشتمل بر ۷۳۹۷ حدیث با مکررات می باشد، از جمله ۲۶۰۲ حدیث غیرمکرر است.
۲. صحیح مسلم: امام مسلم بن حجاج نیشاپوری آن را جمع آوری نمود. وی در سال ۲۰۴ هجری در نیشابور متولد شد، جالب این است که او در روز درگذشت امام شافی ( ۲۰۴ هجری) زاده شده است. و در سال ۲۶۱ هجری در سن ۵۷ سالکی در شهر نصر آباد نزدیک نیشاپور درگذشت، رحمة الله علیه.
کتاب او مشتمل بر ۷۲۷۵ حدیث با مکررات آن می باشد، از آن میان ۴ هزار حدیث غیرمکرر است.
۳. سنن نسایی: امام أحمد بن شعیب نسایی آن را جمع آوری نمود. او در سال ۲۱۵ هجری در شهر نسا در خراسان متولد شد، و در سال ۳۰۳ هجری در سن ۸۸ سالگی در دمشق درگذشت.
۴. سنن ابو داود: امام أبو داود سجستانی آن را جمع آوری نمود، وی در سال ۲۰۲ هجری در سجستان به دنیا آمد، و در سال ۲۷۵ هجری در سن ۷۳ سالگی در بصره درگذشت. کتابش مشتمل بر ۴۸۰۰ حدیث است.
۵. سنن ترمذی: امام أبو عیسی محمد ترمذی آن را جمع آوری نمود، او در سال ۲۰۹ هجری در شهر ترمذ متولد شد، و در سال ۲۷۹ هجری در سن ۷۰ سالگی در گذشت.
۶. سنن ابن ماجة: امام محمد بن یزید ابن ماجة قزوینی آن را جمع آوری نمود. او در سال ۲۰۹ هجری در قزوین متولد شد، و در سال ۲۷۳ هجری در سن ۶۴ سالگی در ماه مبارک رمضان درگذشت، این کتاب مشتمل بر ۴۳۴۱ حدیث می باشد.
0 notes
Text
New Post has been published on Islam365
https://islam365.org/hadith-and-naat-collection/sahih-muslim-online-edition-vol-imam-muslim-ibn-al-hajjaj/
Sahih Muslim (Online Edition) Vol by Imam Muslim ibn al-Hajjaj
#2805
مصنف : امام مسلم بن الحجاج
مشاہدات : 5658
صحیح مسلم (آن لائن ایڈیشن) جلد۔1
ڈاؤن لوڈ 1
صحیح مسلم امام کی مرتب کردہ شہرہ آفاق مجموعہء احادیث ہے جو کہ صحاح ستہ کی چھ مشہور کتابوں میں سے ایک ہے۔ امام بخاری کی صحیح بخاری کے بعد دوسرے نمبر پر سب سے مستند کتاب ہے۔امام مسلم کا پورا نام ابوالحسین مسلم بن الحجاج بن مسلم القشیری ہے۔ 202ھ میں ایران کے شہر نیشاپور میں پیدا ہوئے اور 261ھ میں نیشاپور میں ہی وفات پائی۔ انہوں نے مستند احادیث جمع کرنے کے لئے عرب علاقوں بشمول عراق، شام اور مصر کا سفر کیا۔ انہوں نے تقریباًتین لاکھ احادیث اکٹھی کیں لیکن ان میں سے صرف7563 احادیث صحیح مسلم میں شامل کیں کیونکہ انہوں نے حدیث کے مستند ہونےکی بہت سخت شرائط رکھی ہوئی تھیں تا کہ کتاب میں صرف اور صرف مستند ترین احادیث جمع ہو سکیں۔ صحیح مسلم کی اہمیت کے پیش نظر صحیح بخاری کی طرح اس کی بہت زیادہ شروحات لکھی گئیں۔ عربی زبان میں لکھی گئی شروحات ِ صحیح مسلم میں امام نوویکی شرح نووی کو امتیازی مقام حاصل ہے۔ پاک وہند میں بھی کئی اہل علم نے عربی واردو زبان میں اس کی شروحات وحواشی لکھے۔ عربی زبان میں نواب صدیق حسن خاںاور اردو میں…
#Sahih Muslim (Online Edition) Vol by Imam Muslim ibn al-Hajjaj#صحیح مسلم (آن لائن ایڈیشن) جلد۔1 مصنف : امام مسلم بن الحجاج
0 notes
Text
امیر تیمور کی فتوحات
تیموری سلطنت کو گورکانیان بھی کہا جاتا ہے۔ اس وسیع سلطنت میں ازبکستان، ایران، کاکیشیا، میسوپوٹامیا، افغانستان، وسط ایشیا کے بیشتر حصے شامل تھے۔ ب��صغیر، شام اور ترکی کے بعض حصے بھی اس میں شامل رہے۔ اس کی بنیاد امیر تیمور نے 1370ء سے 1405ء تک رکھی۔ امیر تیمور چاہتا تھا کہ چنگیز خان کی طرح ایک عظیم منگول سلطنت قائم کرے۔ 1467ء میں یہ سلطنت سکڑنا شروع ہوئی مگر تیمور کی اولاد چھوٹی ریاستوں پر حکمران رہی۔ سولہویں صدی میں ایسی ہی ایک ریاست فرغانہ جو اب ازبکستان کا حصہ ہے، کے شہزادے ظہیر الدین بابر نے موجودہ افغانستان کے ایک حصہ پر حملہ کیا اور ایک چھوٹی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ 20 برس بعد وہ برصغیر وارد ہوا اور مغل سلطنت کی بنیاد رکھی۔
تاریخ میں دو سلطنتیں تیموری سلطنت کہلاتی ہیں جن میں سے پہلی امیر تیمور نے وسط ایشیا اور ایران میں قائم کی جبکہ دوسری ظہیر الدین بابر نے ہندوستان میں سلطنت مغلیہ کے نام سے قائم کی۔ امیر تیمور دریائے جیحوں کے شمالی کنارے پر واقع شہر سبز میں 1336ء میں پیدا ہوا۔ وہ ایک اچھا سپاہی اور سپہ سالار تھا۔ وہ ترکستان اور موجودہ افغانستان کے بڑے حصے پر قابض ہونے کے بعد 1366ء میں بلخ میں تخت نشین ہوا۔ بلخ میں تخت نشین ہونے کے بعد تیمور نے ان تمام علاقوں اور ملکوں پر قبضہ کرنا اپنا حق اور مقصد قرار دیا جن پر چنگیز خان کی اولاد حکومت کرتی تھی۔ اس غرض سے اس نے فتوحات اور لشکر کشی کے ایسے سلسلے کا آغاز کیا جو اس کی موت تک جاری رہا۔
تیمور کے ابتدائی چند سال چغتائی سلطنت کے باقی ماندہ حصوں پر قبضہ کرنے میں صرف ہو گئے۔ اگلے چند سالوں میں اس نے کاشغر، خوارزم، خراسان، ہرات، نیشاپور، قندھار اور سیستان فتح کر لیا۔ 1386ء میں اس نے ایران کی مہم کا آغاز کیا اور اس مہم کے دوران پورے شمالی ایران پر قابض ہو گیا۔ روس کی مہم سے واپسی کے بعد تیمور نے 1392ء میں ایران میں نئی لشکر کشی کا آغاز کیا۔ اس مہم کے دوران اس نے ہمدان، اصفہان اور شیراز فتح کیا۔ آل مظفر کی حکومت کا خاتمہ کیا اور بغداد اور عراق سے احمد جلائر کو بے دخل کیا۔ اس طرح وہ پورے ایران اور عراق پر قابض ہو گیا۔
تیمور ایران کی مہم سے فارغ ہوکر ابھی تبریز واپس ہی آیا تھا کہ اس کو اطلاع ملی کہ تختمش نے حملہ کر دیا ہے۔ تیمور نے دریائے تیرک کے کنارے اسے شکست فاش دی۔ 1398ء میں تیمور ہندوستان کو فتح کرنے کے ارادے سے روانہ ہوا۔ ملتان اور دیپالپور سے ہوتا ہوا 1398ء کو دہلی فتح کر لیا۔ اگلے سال اس نے شام فتح کر لیا۔ 1402ء میں تیمور نے عثمانی سلطان بایزید یلدرم کو جنگ انقرہ میں شکست دی اور سمرقند واپس آنے کے بعد چین پر حملے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اس سفر کے دوران وہ بیمار پڑ گیا اور 18 فروری 1405ء کو انتقال کر گیا۔
معروف آزاد
0 notes