#نگران وزیراطلاعات
Explore tagged Tumblr posts
Text
589 ارب کی سالانہ بجلی چوری، سستی نہیں کر سکتے، نگران حکومت
نگران وزیر توانائی محمد علی نے کہا ہے کہ ملک بھر میں بجلی کی چوری ہو رہی ہے جس کو روکنا ہو گا تاکہ بجلی سستی مہیا کی جا سکے۔ 589 ارب روپے سالانہ کی یا تو بجلی چوری کی جا رہی ہے یا بل ادا نہیں کیے جا رہے اور اس کا اثر دیگر صارفین پر پڑتا ہے۔ وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر توانائی محمد علی نے کہا ہے کہ گھریلو صارفین میں بعض بجلی چوری اور بعض بل ادا ہی نہیں کرتے،بجلی…
View On WordPress
0 notes
Text
کابل میں حکومت کی عدم موجودگی میں انٹیلی جنس ادارے فریم ورک تشکیل دیتے ہیں، فواد چوہدری - اردو نیوز پیڈیا
کابل میں حکومت کی عدم موجودگی میں انٹیلی جنس ادارے فریم ورک تشکیل دیتے ہیں، فواد چوہدری – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین اسلام آباد: وفاقی وزیربرائے اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ بھارتی میڈیا نے ایک ویڈیو گیم میں لڑائی کو دکھا کر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ پنج شیرحملوں میں پاکستان نے کارروائی کی۔ وفاقی وزیراطلاعات چوہدری فواد حسین نے بی بی سی ورلڈ کوانٹرویومیں کہا کہ افغانستان میں نگران سیٹ اپ کے اعلان پر ردعمل دینا قبل از وقت ہوگا، ہمیں کچھ انتظار کرنا چاہیے، میڈیا کی…
View On WordPress
0 notes
Photo
ماموریت محمود علوی وزیر اطلاعات در لبنان چه بود؟ @Irbriefing #ایران_بریفینگ / وزیر اطلاعات جمهوری اسلامی در سفر به بیروت با اعضای ارشد شبهنظامیان حماس دیدار و به نوشته خبرگزاریهای رسمی داخلی «در مورد راههای مقابله با تهدیدات و توطئههای آمریکا و رژیم صهیونیستی علیه منطقه بطور عام و فلسطین بطور خ��ص» گفتگو کرده است. این دیدار، یکشنبه ۲۶ خرداد، صورت گرفته است و در خبری که رسانههای داخلی ایران منتشر کردند عنوان شده است که سیدمحمود علوی #وزیراطلاعات با صالح عاروری نایب رئیس دفتر سیاسی حماس به همراه هیأتی از حماس راههای تقویت روابط دوجانبه را بررسی و بر ضرورت تداوم این دیدارها برای مقابله با خطرات و تهدیدات ناشی از اصرار آمریکا در پروژه موسوم به «معامله قرن» گفتگو کردند. صالح عاروری ساکن بیروت است. طبق اعلام وب��ایت حماس، حسام بدران عضو دفتر سیاسی این جنبش، اسامه حمدان مسئول روابط خارجی #حماس و احمد عبدالهادی نماینده حماس در لبنان دیدار کردند. علوی در شرایطی به لبنان سفر کرده که پنج روز پیش از آن یعنی، ۲۱ خرداد، نزار زکا شهروند لبنانی- آمریکایی پس از نزدیک به چهار سال زندان در ایران آزاد شد. زکا پس از ورود به خاک لبنان مواضع بسیار تندی علیه جمهوری اسلامی گرفت و در مصاحبه با شبکه العربیه گفت در آغاز بازداشتش با انواع شکنجه روبرو شده و در مراحل بعدی هم حبس او در زندان اوین که آن را یکی از مخوفترین زندانهای جهان توصیف کرده، مصداق شکنجه روحی بوده است. پس از این اظهارات مسئولان جمهوری اسلامی ایران برای نزار زکا خط و نشان کشیدند. به این ترتیب وی حالا پس از سفر علوی به بیروت نمیتواند نگران نباشد! https://www.instagram.com/p/By1xRZEix-a/?igshid=1bt7q6qbl9uzu
0 notes
Text
چین بہتری کے لیے اہم کردار ادا کرے گا؟
وزیراعظم عمران خان اگلے ماہ کے پہلے ہفتے میں چین کے سرکاری دورے پر جارہے ہیں اُن کا یہ تین روزہ دورہ نہ صرف غیرمعمولی طور پر اہم ہوگا بلکہ خود اُن کی حکومت کے لیے بھی کسی آزمائش سے کم نہیں ہو گا کیونکہ اُن کے دورے کا بنیادی مقصد پاکستان کی معیشت کو درپیش سنگین چیلنجز سے عہدہ برا ہونا ہے اور اسی حوالے سے وہ پاک چین اقتصادی راہداری سے متعلق بعض اہم اُمور بھی طے کریں گے۔ وزیراعظم چین کا دورہ ایک ایسے وقت میں کررہے ہیں جب خارجی سطح پر حالات پاکستان کے حق میں نظر نہیں آتے۔ بقول وزیراطلاعات ونشریات فواد چوہدری کہ قرضے لینے کے لیےہم آئی۔ ایم۔ ایف (انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ) کے پاس ہرگز نہیں جانا چاہتے تھے بلکہ ہماری یہ خواہش تھی کہ دوست ممالک ہماری مالی معاونت کریں اور ہمیں مشکل صورتحال سے نکالیں لیکن دوست ممالک نے اتنی کڑی شرائط سامنے رکھ دیں جنہیں پورا کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں تھا۔ اس لیے ہمیں آئی۔ ایم۔ ایف کے پاس جانا پڑا۔ دوسری طرف امریکہ کا استدلال ہے کہ پاکستان کو اس وقت جن اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے اس کی وجہ چینی قرضے ہیں اس لیے آئی۔ ایم۔ ایف سے حاصل کیے جانے والے قرضوں سے چینی قرضوں کی ادائیگی کسی صورت قابل قبول نہیں ہوگی۔ امریکی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ہم نے اس صورتحال پر نظر رکھی ہوئی ہے اور آئی۔
ایم۔ ایف کو پاکستان سے تمام معاملات میں میرٹ کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ جبکہ پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ تاثر قطعی طور پر بے بنیاد اور مفروضے پر مبنی ہے کیونکہ چین سے حاصل کردہ قرضوں کی واپسی کا دورانیہ تین سے چار سال بعد شروع ہوگا۔ بہرحال وزیراعظم عمران خان کا دورہ چین اور اس کے نتائج اُن کی حکومت کے استحکام کے حوالے سے بھی انتہائی اہم ہے۔ ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں کسی ایک امیدوار کا ایک سے زیادہ نشستوں پر الیکشن میں حصہ لینا اور پھر اُن نشستوں پر کامیابی کے بعد ایک نشست کے سوا باقی نشستوں سے دستبردار ہوکر وہاں ضمنی انتخابات کا انعقاد۔۔انتخابی عمل کا یہ انداز شاید ہی کسی دوسرے ملک میں ہوتا ہوگا۔ شہر کے جس حصے میں ضمنی انتخاب کا انعقاد ہوتا ہے وہاں سیاسی اور سماجی زندگی چند دنوں کے لیے اتھل پتھل ہوکر رہ جاتی ہے اور انتظامی مشینری کا بھرپور استعمال اور انتخابی اخراجات کا معاملہ بھی عروج پر ہوتا ہے لیکن یہ سلسلہ جاری ہے اور شاید جاری رہے گا۔ 14 اکتوبر کو ملک میں قومی اسمبلی کی 11 اور صوبائی اسمبلی کی 24 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے جن میں قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو چار ، پاکستان تحریک انصاف کو چار، مسلم لیگ (ق) کو دو اور متحدہ مجلس عمل کو ایک نشست ملی ہے۔ بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی ان چار نشستوں میں اضافے سے تحریک انصاف کی حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا البتہ ایوان میں خواجہ سعد رفیق جیسے شعلہ بیاں مقرر کی جو کمی محسوس ہورہی تھی وہ ضرورپوری ہوجائے گی۔ اسی طرح شاہد خاقان عباسی جنہیں اُن کے اپنے حلقہ نیابت کے لوگوں نے مسترد کردیا تھا اہل لاہور نے میاں نواز شریف کے نام پر اُنہیں ووٹ دیئے اور وہ ایوان میں پہنچ گئے اُن کے ایوان میں آنے سے اب قومی اسمبلی میں تین سابق وزرائے اعظم موجودہ ایوان میں ہوں گے۔
جن میں راجہ پرویز اشرف، میاں محمد سومرو(نگران وزیراعظم) اور شاہد خاقان عباسی شامل ہیں ۔ چونکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کو مقدمات کا سامنا ہے اور شاید آنے والے دنوں میں اُنہیں اس حوالے سے مزید مشکلات اور پیچیدگیوں کا سامنا ہو اور وہ مؤثر انداز سے ایوان میں اپنا پارلیمانی کردار تسلسل کے ساتھ ادا نہ کرسکیں اسی لیے یہ پہلو خارج ازامکان نہیں کہ شاہد خاقان عباسی کو ایوان میں اپوزیشن لیڈر کا کردار تفویض کردیا جائےیاپھر مسلم لیگ (ن) کا پارلیمانی لیڈر بنادیا جائے۔کیونکہ شاہد خاقان عباسی سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے انتہائی قابل اعتماد ساتھی ہیں اور انہوں نے کم وبیش دس ماہ تک وزارت عظمٰی پر فائز رہنے کے دوران بھی میاں نواز شریف کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔ ضمنی انتخابات کی حالیہ تاریخ دیکھیں تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ ضمنی انتخابات میں اُسی جماعت کے امیدوار کامیاب ہوتے ہیں جس کی وہاں حکومت ہو لیکن بالخصوص لاہور میں جہاں تحریک انصاف ہی کی حکومت ہے وہاں سے قومی وصوبائی اسمبلی کی نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کی کامیابی سے کچھ اور اشارے بھی ملتے ہیں جو مسلم لیگی راہنماؤں کے دعوؤں اور الزامات کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی جیتی ہوئی نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدواروں کی ناکامی سے جہاں تحریک انصاف کا مورال قدرے کمزور پڑا ہے وہیں مسلم لیگ (ن) کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے راہنما اور سابق وزیراعلیٰ کے ۔پی۔کے اکرم درانی کے صاحبزادے زاہد اکرم درانی کی کامیابی بھی صوبہ خیبرپختونخوا میں اس حوالے سے ایک اہم واقعہ ہے کہ انتخابی مہم کے دوران تحریک انصاف کے چیئرمین کی حیثیت سے عمران خان نے بنوں میں جلسہ عام کے دوران اکرم درانی کو للکارتے ہوئے چیلنج کیا تھاکہ اکرم درانی کو اس نشست سے شکست ہوگی، لیکن اُن کے صاحبزادے زاہد اکرم درانی کی کامیابی سے عمران خان یہ چیلنج ہارگئے ہیں۔ ضمنی انتخاب میں اہم نشستوں پر مسلم لیگی امیدواروں کی کامیابی سے یقیناً تحریک انصاف کی کم ہوتی مقبولیت پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں اور یہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی کامیابی کا ہی اعتماد تھا کہ اگلے روز جب سابق وزیراعظم میں نواز شریف احتساب عدالت میں پیش ہوئے تو انہوں نے اس مرتبہ وہاں موجود میڈیا کے نمائندوں سے خاصی دیر گفتگو کی اور کہا کہ ’’ضمنی انتخاب کے نتیجے سے اندازہ ہوگیا ہے کہ آنے والا وقت کیسا ہوگا۔ عوام حالات دیکھ رہے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ وہ ہمیں دوبارہ لے آئیں گے‘‘۔ اس موقع پر میاں نواز شریف نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ہم نے راولپنڈی کی سیٹ بھی جیت لی ہے۔
The post چین بہتری کے لیے اہم کردار ادا کرے گا؟ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2PJEpul via Urdu News
0 notes
Text
چین بہتری کے لیے اہم کردار ادا کرے گا؟
وزیراعظم عمران خان اگلے ماہ کے پہلے ہفتے میں چین کے سرکاری دورے پر جارہے ہیں اُن کا یہ تین روزہ دورہ نہ صرف غیرمعمولی طور پر اہم ہوگا بلکہ خود اُن کی حکومت کے لیے بھی کسی آزمائش سے کم نہیں ہو گا کیونکہ اُن کے دورے کا بنیادی مقصد پاکستان کی معیشت کو درپیش سنگین چیلنجز سے عہدہ برا ہونا ہے اور اسی حوالے سے وہ پاک چین اقتصادی راہداری سے متعلق بعض اہم اُمور بھی طے کریں گے۔ وزیراعظم چین کا دورہ ایک ایسے وقت میں کررہے ہیں جب خارجی سطح پر حالات پاکستان کے حق میں نظر نہیں آتے۔ بقول وزیراطلاعات ونشریات فواد چوہدری کہ قرضے لینے کے لیےہم آئی۔ ایم۔ ایف (انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ) کے پاس ہرگز نہیں جانا چاہتے تھے بلکہ ہماری یہ خواہش تھی کہ دوست ممالک ہماری مالی معاونت کریں اور ہمیں مشکل صورتحال سے نکالیں لیکن دوست ممالک نے اتنی کڑی شرائط سامنے رکھ دیں جنہیں پورا کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں تھا۔ اس لیے ہمیں آئی۔ ایم۔ ایف کے پاس جانا پڑا۔ دوسری طرف امریکہ کا استدلال ہے کہ پاکستان کو اس وقت جن اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے اس کی وجہ چینی قرضے ہیں اس لیے آئی۔ ایم۔ ایف سے حاصل کیے جانے والے قرضوں سے چینی قرضوں کی ادائیگی کسی صورت قابل قبول نہیں ہوگی۔ امریکی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ہم نے اس صورتحال پر نظر رکھی ہوئی ہے اور آئی۔
ایم۔ ایف کو پاکستان سے تمام معاملات میں میرٹ کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ جبکہ پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ تاثر قطعی طور پر بے بنیاد اور مفروضے پر مبنی ہے کیونکہ چین سے حاصل کردہ قرضوں کی واپسی کا دورانیہ تین سے چار سال بعد شروع ہوگا۔ بہرحال وزیراعظم عمران خان کا دورہ چین اور اس کے نتائج اُن کی حکومت کے استحکام کے حوالے سے بھی انتہائی اہم ہے۔ ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں کسی ایک امیدوار کا ایک سے زیادہ نشستوں پر الیکشن میں حصہ لینا اور پھر اُن نشستوں پر کامیابی کے بعد ایک نشست کے سوا باقی نشستوں سے دستبردار ہوکر وہاں ضمنی انتخابات کا انعقاد۔۔انتخابی عمل کا یہ انداز شاید ہی کسی دوسرے ملک میں ہوتا ہوگا۔ شہر کے جس حصے میں ضمنی انتخاب کا انعقاد ہوتا ہے وہاں سیاسی اور سماجی زندگی چند دنوں کے لیے اتھل پتھل ہوکر رہ جاتی ہے اور انتظامی مشینری کا بھرپور استعمال اور انتخابی اخراجات کا معاملہ بھی عروج پر ہوتا ہے لیکن یہ سلسلہ جاری ہے اور شاید جاری رہے گا۔ 14 اکتوبر کو ملک میں قومی اسمبلی کی 11 اور صوبائی اسمبلی کی 24 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے جن میں قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو چار ، پاکستان تحریک انصاف کو چار، مسلم لیگ (ق) کو دو اور متحدہ مجلس عمل کو ایک نشست ملی ہے۔ بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی ان چار نشستوں میں اضافے سے تحریک انصاف کی حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا البتہ ایوان میں خواجہ سعد رفیق جیسے شعلہ بیاں مقرر کی جو کمی محسوس ہورہی تھی وہ ضرورپوری ہوجائے گی۔ اسی طرح شاہد خاقان عباسی جنہیں اُن کے اپنے حلقہ نیابت کے لوگوں نے مسترد کردیا تھا اہل لاہور نے میاں نواز شریف کے نام پر اُنہیں ووٹ دیئے اور وہ ایوان میں پہنچ گئے اُن کے ایوان میں آنے سے اب قومی اسمبلی میں تین سابق وزرائے اعظم موجودہ ایوان میں ہوں گے۔
جن میں راجہ پرویز اشرف، میاں محمد سومرو(نگران وزیراعظم) اور شاہد خاقان عباسی شامل ہیں ۔ چونکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کو مقدمات کا سامنا ہے اور شاید آنے والے دنوں میں اُنہیں اس حوالے سے مزید مشکلات اور پیچیدگیوں کا سامنا ہو اور وہ مؤثر انداز سے ایوان میں اپنا پارلیمانی کردار تسلسل کے ساتھ ادا نہ کرسکیں اسی لیے یہ پہلو خارج ازامکان نہیں کہ شاہد خاقان عباسی کو ایوان میں اپوزیشن لیڈر کا کردار تفویض کردیا جائےیاپھر مسلم لیگ (ن) کا پارلیمانی لیڈر بنادیا جائے۔کیونکہ شاہد خاقان عباسی سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے انتہائی قابل اعتماد ساتھی ہیں اور انہوں نے کم وبیش دس ماہ تک وزارت عظمٰی پر فائز رہنے کے دوران بھی میاں نواز شریف کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔ ضمنی انتخابات کی حالیہ تاریخ دیکھیں تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ ضمنی انتخابات میں اُسی جماعت کے امیدوار کامیاب ہوتے ہیں جس کی وہاں حکومت ہو لیکن بالخصوص لاہور میں جہاں تحریک انصاف ہی کی حکومت ہے وہاں سے قومی وصوبائی اسمبلی کی نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کی کامیابی سے کچھ اور اشارے بھی ملتے ہیں جو مسلم لیگی راہنماؤں کے دعوؤں اور الزامات کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی جیتی ہوئی نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدواروں کی ناکامی سے جہاں تحریک انصاف کا مورال قدرے کمزور پڑا ہے وہیں مسلم لیگ (ن) کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے راہنما اور سابق وزیراعلیٰ کے ۔پی۔کے اکرم درانی کے صاحبزادے زاہد اکرم درانی کی کامیابی بھی صوبہ خیبرپختونخوا میں اس حوالے سے ایک اہم واقعہ ہے کہ انتخابی مہم کے دوران تحریک انصاف کے چیئرمین کی حیثیت سے عمران خان نے بنوں میں جلسہ عام کے دوران اکرم درانی کو للکارتے ہوئے چیلنج کیا تھاکہ اکرم درانی کو اس نشست سے شکست ہوگی، لیکن اُن کے صاحبزادے زاہد اکرم درانی کی کامیابی سے عمران خان یہ چیلنج ہارگئے ہیں۔ ضمنی انتخاب میں اہم نشستوں پر مسلم لیگی امیدواروں کی کامیابی سے یقیناً تحریک انصاف کی کم ہوتی مقبولیت پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں اور یہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی کامیابی کا ہی اعتماد تھا کہ اگلے روز جب سابق وزیراعظم میں نواز شریف احتساب عدالت میں پیش ہوئے تو انہوں نے اس مرتبہ وہاں موجود میڈیا کے نمائندوں سے خاصی دیر گفتگو کی اور کہا کہ ’’ضمنی انتخاب کے نتیجے سے اندازہ ہوگیا ہے کہ آنے والا وقت کیسا ہوگا۔ عوام حالات دیکھ رہے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ وہ ہمیں دوبارہ لے آئیں گے‘‘۔ اس موقع پر میاں نواز شریف نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ہم نے راولپنڈی کی سیٹ بھی جیت لی ہے۔
The post چین بہتری کے لیے اہم کردار ادا کرے گا؟ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2PJEpul via Urdu News
0 notes
Text
چین بہتری کے لیے اہم کردار ادا کرے گا؟
وزیراعظم عمران خان اگلے ماہ کے پہلے ہفتے میں چین کے سرکاری دورے پر جارہے ہیں اُن کا یہ تین روزہ دورہ نہ صرف غیرمعمولی طور پر اہم ہوگا بلکہ خود اُن کی حکومت کے لیے بھی کسی آزمائش سے کم نہیں ہو گا کیونکہ اُن کے دورے کا بنیادی مقصد پاکستان کی معیشت کو درپیش سنگین چیلنجز سے عہدہ برا ہونا ہے اور اسی حوالے سے وہ پاک چین اقتصادی راہداری سے متعلق بعض اہم اُمور بھی طے کریں گے۔ وزیراعظم چین کا دورہ ایک ایسے وقت میں کررہے ہیں جب خارجی سطح پر حالات پاکستان کے حق میں نظر نہیں آتے۔ بقول وزیراطلاعات ونشریات فواد چوہدری کہ قرضے لینے کے لیےہم آئی۔ ایم۔ ایف (انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ) کے پاس ہرگز نہیں جانا چاہتے تھے بلکہ ہماری یہ خواہش تھی کہ دوست ممالک ہماری مالی معاونت کریں اور ہمیں مشکل صورتحال سے نکالیں لیکن دوست ممالک نے اتنی کڑی شرائط سامنے رکھ دیں جنہیں پورا کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں تھا۔ اس لیے ہمیں آئی۔ ایم۔ ایف کے پاس جانا پڑا۔ دوسری طرف امریکہ کا استدلال ہے کہ پاکستان کو اس وقت جن اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے اس کی وجہ چینی قرضے ہیں اس لیے آئی۔ ایم۔ ایف سے حاصل کیے جانے والے قرضوں سے چینی قرضوں کی ادائیگی کسی صورت قابل قبول نہیں ہوگی۔ امریکی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ہم نے اس صورتحال پر نظر رکھی ہوئی ہے اور آئی۔
ایم۔ ایف کو پاکستان سے تمام معاملات میں میرٹ کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ جبکہ پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ تاثر قطعی طور پر بے بنیاد اور مفروضے پر مبنی ہے کیونکہ چین سے حاصل کردہ قرضوں کی واپسی کا دورانیہ تین سے چار سال بعد شروع ہوگا۔ بہرحال وزیراعظم عمران خان کا دورہ چین اور اس کے نتائج اُن کی حکومت کے استحکام کے حوالے سے بھی انتہائی اہم ہے۔ ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں کسی ایک امیدوار کا ایک سے زیادہ نشستوں پر الیکشن میں حصہ لینا اور پھر اُن نشستوں پر کامیابی کے بعد ایک نشست کے سوا باقی نشستوں سے دستبردار ہوکر وہاں ضمنی انتخابات کا انعقاد۔۔انتخابی عمل کا یہ انداز شاید ہی کسی دوسرے ملک میں ہوتا ہوگا۔ شہر کے جس حصے میں ضمنی انتخاب کا انعقاد ہوتا ہے وہاں سیاسی اور سماجی زندگی چند دنوں کے لیے اتھل پتھل ہوکر رہ جاتی ہے اور انتظامی مشینری کا بھرپور استعمال اور انتخابی اخراجات کا معاملہ بھی عروج پر ہوتا ہے لیکن یہ سلسلہ جاری ہے اور شاید جاری رہے گا۔ 14 اکتوبر کو ملک میں قومی اسمبلی کی 11 اور صوبائی اسمبلی کی 24 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے جن میں قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو چار ، پاکستان تحریک انصاف کو چار، مسلم لیگ (ق) کو دو اور متحدہ مجلس عمل کو ایک نشست ملی ہے۔ بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی ان چار نشستوں میں اضافے سے تحریک انصاف کی حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا البتہ ایوان میں خواجہ سعد رفیق جیسے شعلہ بیاں مقرر کی جو کمی محسوس ہورہی تھی وہ ضرورپوری ہوجائے گی۔ اسی طرح شاہد خاقان عباسی جنہیں اُن کے اپنے حلقہ نیابت کے لوگوں نے مسترد کردیا تھا اہل لاہور نے میاں نواز شریف کے نام پر اُنہیں ووٹ دیئے اور وہ ایوان میں پہنچ گئے اُن کے ایوان میں آنے سے اب قومی اسمبلی میں تین سابق وزرائے اعظم موجودہ ایوان میں ہوں گے۔
جن میں راجہ پرویز اشرف، میاں محمد سومرو(نگران وزیراعظم) اور شاہد خاقان عباسی شامل ہیں ۔ چونکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کو مقدمات کا سامنا ہے اور شاید آنے والے دنوں میں اُنہیں اس حوالے سے مزید مشکلات اور پیچیدگیوں کا سامنا ہو اور وہ مؤثر انداز سے ایوان میں اپنا پارلیمانی کردار تسلسل کے ساتھ ادا نہ کرسکیں اسی لیے یہ پہلو خارج ازامکان نہیں کہ شاہد خاقان عباسی کو ایوان میں اپوزیشن لیڈر کا کردار تفویض کردیا جائےیاپھر مسلم لیگ (ن) کا پارلیمانی لیڈر بنادیا جائے۔کیونکہ شاہد خاقان عباسی سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے انتہائی قابل اعتماد ساتھی ہیں اور انہوں نے کم وبیش دس ماہ تک وزارت عظمٰی پر فائز رہنے کے دوران بھی میاں نواز شریف کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔ ضمنی انتخابات کی حالیہ تاریخ دیکھیں تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ ضمنی انتخابات میں اُسی جماعت کے امیدوار کامیاب ہوتے ہیں جس کی وہاں حکومت ہو لیکن بالخصوص لاہور میں جہاں تحریک انصاف ہی کی حکومت ہے وہاں سے قومی وصوبائی اسمبلی کی نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کی کامیابی سے کچھ اور اشارے بھی ملتے ہیں جو مسلم لیگی راہنماؤں کے دعوؤں اور الزامات کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی جیتی ہوئی نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدواروں کی ناکامی سے جہاں تحریک انصاف کا مورال قدرے کمزور پڑا ہے وہیں مسلم لیگ (ن) کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے راہنما اور سابق وزیراعلیٰ کے ۔پی۔کے اکرم درانی کے صاحبزادے زاہد اکرم درانی کی کامیابی بھی صوبہ خیبرپختونخوا میں اس حوالے سے ایک اہم واقعہ ہے کہ انتخابی مہم کے دوران تحریک انصاف کے چیئرمین کی حیثیت سے عمران خان نے بنوں میں جلسہ عام کے دوران اکرم درانی کو للکارتے ہوئے چیلنج کیا تھاکہ اکرم درانی کو اس نشست سے شکست ہوگی، لیکن اُن کے صاحبزادے زاہد اکرم درانی کی کامیابی سے عمران خان یہ چیلنج ہارگئے ہیں۔ ضمنی انتخاب میں اہم نشستوں پر مسلم لیگی امیدواروں کی کامیابی سے یقیناً تحریک انصاف کی کم ہوتی مقبولیت پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں اور یہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی کامیابی کا ہی اعتماد تھا کہ اگلے روز جب سابق وزیراعظم میں نواز شریف احتساب عدالت میں پیش ہوئے تو انہوں نے اس مرتبہ وہاں موجود میڈیا کے نمائندوں سے خاصی دیر گفتگو کی اور کہا کہ ’’ضمنی انتخاب کے نتیجے سے اندازہ ہوگیا ہے کہ آنے والا وقت کیسا ہوگا۔ عوام حالات دیکھ رہے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ وہ ہمیں دوبارہ لے آئیں گے‘‘۔ اس موقع پر میاں نواز شریف نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ہم نے راولپنڈی کی سیٹ بھی جیت لی ہے۔
The post چین بہتری کے لیے اہم کردار ادا کرے گا؟ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2PJEpul via Urdu News
0 notes
Text
چین بہتری کے لیے اہم کردار ادا کرے گا؟
وزیراعظم عمران خان اگلے ماہ کے پہلے ہفتے میں چین کے سرکاری دورے پر جارہے ہیں اُن کا یہ تین روزہ دورہ نہ صرف غیرمعمولی طور پر اہم ہوگا بلکہ خود اُن کی حکومت کے لیے بھی کسی آزمائش سے کم نہیں ہو گا کیونکہ اُن کے دورے کا بنیادی مقصد پاکستان کی معیشت کو درپیش سنگین چیلنجز سے عہدہ برا ہونا ہے اور اسی حوالے سے وہ پاک چین اقتصادی راہداری سے متعلق بعض اہم اُمور بھی طے کریں گے۔ وزیراعظم چین کا دورہ ایک ایسے وقت میں کررہے ہیں جب خارجی سطح پر حالات پاکستان کے حق میں نظر نہیں آتے۔ بقول وزیراطلاعات ونشریات فواد چوہدری کہ قرضے لینے کے لیےہم آئی۔ ایم۔ ایف (انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ) کے پاس ہرگز نہیں جانا چاہتے تھے بلکہ ہماری یہ خواہش تھی کہ دوست ممالک ہماری مالی معاونت کریں اور ہمیں مشکل صورتحال سے نکالیں لیکن دوست ممالک نے اتنی کڑی شرائط سامنے رکھ دیں جنہیں پورا کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں تھا۔ اس لیے ہمیں آئی۔ ایم۔ ایف کے پاس جانا پڑا۔ دوسری طرف امریکہ کا استدلال ہے کہ پاکستان کو اس وقت جن اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے اس کی وجہ چینی قرضے ہیں اس لیے آئی۔ ایم۔ ایف سے حاصل کیے جانے والے قرضوں سے چینی قرضوں کی ادائیگی کسی صورت قابل قبول نہیں ہوگی۔ امریکی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ہم نے اس صورتحال پر نظر رکھی ہوئی ہے اور آئی۔
ایم۔ ایف کو پاکستان سے تمام معاملات میں میرٹ کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ جبکہ پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ تاثر قطعی طور پر بے بنیاد اور مفروضے پر مبنی ہے کیونکہ چین سے حاصل کردہ قرضوں کی واپسی کا دورانیہ تین سے چار سال بعد شروع ہوگا۔ بہرحال وزیراعظم عمران خان کا دورہ چین اور اس کے نتائج اُن کی حکومت کے استحکام کے حوالے سے بھی انتہائی اہم ہے۔ ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں کسی ایک امیدوار کا ایک سے زیادہ نشستوں پر الیکشن میں حصہ لینا اور پھر اُن نشستوں پر کامیابی کے بعد ایک نشست کے سوا باقی نشستوں سے دستبردار ہوکر وہاں ضمنی انتخابات کا انعقاد۔۔انتخابی عمل کا یہ انداز شاید ہی کسی دوسرے ملک میں ہوتا ہوگا۔ شہر کے جس حصے میں ضمنی انتخاب کا انعقاد ہوتا ہے وہاں سیاسی اور سماجی زندگی چند دنوں کے لیے اتھل پتھل ہوکر رہ جاتی ہے اور انتظامی مشینری کا بھرپور استعمال اور انتخابی اخراجات کا معاملہ بھی عروج پر ہوتا ہے لیکن یہ سلسلہ جاری ہے اور شاید جاری رہے گا۔ 14 اکتوبر کو ملک میں قومی اسمبلی کی 11 اور صوبائی اسمبلی کی 24 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے جن میں قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو چار ، پاکستان تحریک انصاف کو چار، مسلم لیگ (ق) کو دو اور متحدہ مجلس عمل کو ایک نشست ملی ہے۔ بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی ان چار نشستوں میں اضاف�� سے تحریک انصاف کی حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا البتہ ایوان میں خواجہ سعد رفیق جیسے شعلہ بیاں مقرر کی جو کمی محسوس ہورہی تھی وہ ضرورپوری ہوجائے گی۔ اسی طرح شاہد خاقان عباسی جنہیں اُن کے اپنے حلقہ نیابت کے لوگوں نے مسترد کردیا تھا اہل لاہور نے میاں نواز شریف کے نام پر اُنہیں ووٹ دیئے اور وہ ایوان میں پہنچ گئے اُن کے ایوان میں آنے سے اب قومی اسمبلی میں تین سابق وزرائے اعظم موجودہ ایوان میں ہوں گے۔
جن میں راجہ پرویز اشرف، میاں محمد سومرو(نگران وزیراعظم) اور شاہد خاقان عباسی شامل ہیں ۔ چونکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کو مقدمات کا سامنا ہے اور شاید آنے والے دنوں میں اُنہیں اس حوالے سے مزید مشکلات اور پیچیدگیوں کا سامنا ہو اور وہ مؤثر انداز سے ایوان میں اپنا پارلیمانی کردار تسلسل کے ساتھ ادا نہ کرسکیں اسی لیے یہ پہلو خارج ازامکان نہیں کہ شاہد خاقان عباسی کو ایوان میں اپوزیشن لیڈر کا کردار تفویض کردیا جائےیاپھر مسلم لیگ (ن) کا پارلیمانی لیڈر بنادیا جائے۔کیونکہ شاہد خاقان عباسی سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے انتہائی قابل اعتماد ساتھی ہیں اور انہوں نے کم وبیش دس ماہ تک وزارت عظمٰی پر فائز رہنے کے دوران بھی میاں نواز شریف کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔ ضمنی انتخابات کی حالیہ تاریخ دیکھیں تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ ضمنی انتخابات میں اُسی جماعت کے امیدوار کامیاب ہوتے ہیں جس کی وہاں حکومت ہو لیکن بالخصوص لاہور میں جہاں تحریک انصاف ہی کی حکومت ہے وہاں سے قومی وصوبائی اسمبلی کی نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کی کامیابی سے کچھ اور اشارے بھی ملتے ہیں جو مسلم لیگی راہنماؤں کے دعوؤں اور الزامات کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی جیتی ہوئی نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدواروں کی ناکامی سے جہاں تحریک انصاف کا مورال قدرے کمزور پڑا ہے وہیں مسلم لیگ (ن) کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے راہنما اور سابق وزیراعلیٰ کے ۔پی۔کے اکرم درانی کے صاحبزادے زاہد اکرم درانی کی کامیابی بھی صوبہ خیبرپختونخوا میں اس حوالے سے ایک اہم واقعہ ہے کہ انتخابی مہم کے دوران تحریک انصاف کے چیئرمین کی حیثیت سے عمران خان نے بنوں میں جلسہ عام کے دوران اکرم درانی کو للکارتے ہوئے چیلنج کیا تھاکہ اکرم درانی کو اس نشست سے شکست ہوگی، لیکن اُن کے صاحبزادے زاہد اکرم درانی کی کامیابی سے عمران خان یہ چیلنج ہارگئے ہیں۔ ضمنی انتخاب میں اہم نشستوں پر مسلم لیگی امیدواروں کی کامیابی سے یقیناً تحریک انصاف کی کم ہوتی مقبولیت پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں اور یہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی کامیابی کا ہی اعتماد تھا کہ اگلے روز جب سابق وزیراعظم میں نواز شریف احتساب عدالت میں پیش ہوئے تو انہوں نے اس مرتبہ وہاں موجود میڈیا کے نمائندوں سے خاصی دیر گفتگو کی اور کہا کہ ’’ضمنی انتخاب کے نتیجے سے اندازہ ہوگیا ہے کہ آنے والا وقت کیسا ہوگا۔ عوام حالات دیکھ رہے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ وہ ہمیں دوبارہ لے آئیں گے‘‘۔ اس موقع پر میاں نواز شریف نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ہم نے راولپنڈی کی سیٹ بھی جیت لی ہے۔
The post چین بہتری کے لیے اہم کردار ادا کرے گا؟ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2PJEpul via Hindi Khabrain
#pakistani urdu newspaper daily#khabrain#the hindu newspaper#punjab news#bengali news#akhbar urdu pep
0 notes
Text
چین بہتری کے لیے اہم کردار ادا کرے گا؟
وزیراعظم عمران خان اگلے ماہ کے پہلے ہفتے میں چین کے سرکاری دورے پر جارہے ہیں اُن کا یہ تین روزہ دورہ نہ صرف غیرمعمولی طور پر اہم ہوگا بلکہ خود اُن کی حکومت کے لیے بھی کسی آزمائش سے کم نہیں ہو گا کیونکہ اُن کے دورے کا بنیادی مقصد پاکستان کی معیشت کو درپیش سنگین چیلنجز سے عہدہ برا ہونا ہے اور اسی حوالے سے وہ پاک چین اقتصادی راہداری سے متعلق بعض اہم اُمور بھی طے کریں گے۔ وزیراعظم چین کا دورہ ایک ایسے وقت میں کررہے ہیں جب خارجی سطح پر حالات پاکستان کے حق میں نظر نہیں آتے۔ بقول وزیراطلاعات ونشریات فواد چوہدری کہ قرضے لینے کے لیےہم آئی۔ ایم۔ ایف (انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ) کے پاس ہرگز نہیں جانا چاہتے تھے بلکہ ہماری یہ خواہش تھی کہ دوست ممالک ہماری مالی معاونت کریں اور ہمیں مشکل صورتحال سے نکالیں لیکن دوست ممالک نے اتنی کڑی شرائط سامنے رکھ دیں جنہیں پورا کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں تھا۔ اس لیے ہمیں آئی۔ ایم۔ ایف کے پاس جانا پڑا۔ دوسری طرف امریکہ کا استدلال ہے کہ پاکستان کو اس وقت جن اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے اس کی وجہ چینی قرضے ہیں اس لیے آئی۔ ایم۔ ایف سے حاصل کیے جانے والے قرضوں سے چینی قرضوں کی ادائیگی کسی صورت قابل قبول نہیں ہوگی۔ امریکی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ہم نے اس صورتحال پر نظر رکھی ہوئی ہے اور آئی۔
ایم۔ ایف کو پاکستان سے تمام معاملات میں میرٹ کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ جبکہ پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ تاثر قطعی طور پر بے بنیاد اور مفروضے پر مبنی ہے کیونکہ چین سے حاصل کردہ قرضوں کی واپسی کا دورانیہ تین سے چار سال بعد شروع ہوگا۔ بہرحال وزیراعظم عمران خان کا دورہ چین اور اس کے نتائج اُن کی حکومت کے استحکام کے حوالے سے بھی انتہائی اہم ہے۔ ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں کسی ایک امیدوار کا ایک سے زیادہ نشستوں پر الیکشن میں حصہ لینا اور پھر اُن نشستوں پر کامیابی کے بعد ایک نشست کے سوا باقی نشستوں سے دستبردار ہوکر وہاں ضمنی انتخابات کا انعقاد۔۔انتخابی عمل کا یہ انداز شاید ہی کسی دوسرے ملک میں ہوتا ہوگا۔ شہر کے جس حصے میں ضمنی انتخاب کا انعقاد ہوتا ہے وہاں سیاسی اور سماجی زندگی چند دنوں کے لیے اتھل پتھل ہوکر رہ جاتی ہے اور انتظامی مشینری کا بھرپور استعمال اور انتخابی اخراجات کا معاملہ بھی عروج پر ہوتا ہے لیکن یہ سلسلہ جاری ہے اور شاید جاری رہے گا۔ 14 اکتوبر کو ملک میں قومی اسمبلی کی 11 اور صوبائی اسمبلی کی 24 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے جن میں قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو چار ، پاکستان تحریک انصاف کو چار، مسلم لیگ (ق) کو دو اور متحدہ مجلس عمل کو ایک نشست ملی ہے۔ بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی ان چار نشستوں میں اضافے سے تحریک انصاف کی حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا البتہ ایوان میں خواجہ سعد رفیق جیسے شعلہ بیاں مقرر کی جو کمی محسوس ہورہی تھی وہ ضرورپوری ہوجائے گی۔ اسی طرح شاہد خاقان عباسی جنہیں اُن کے اپنے حلقہ نیابت کے لوگوں نے مسترد کردیا تھا اہل لاہور نے میاں نواز شریف کے نام پر اُنہیں ووٹ دیئے اور وہ ایوان میں پہنچ گئے اُن کے ایوان میں آنے سے اب قومی اسمبلی میں تین سابق وزرائے اعظم موجودہ ایوان میں ہوں گے۔
جن میں راجہ پرویز اشرف، میاں محمد سومرو(نگران وزیراعظم) اور شاہد خاقان عباسی شامل ہیں ۔ چونکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کو مقدمات کا سامنا ہے اور شاید آنے والے دنوں میں اُنہیں اس حوالے سے مزید مشکلات اور پیچیدگیوں کا سامنا ہو اور وہ مؤثر انداز سے ایوان میں اپنا پارلیمانی کردار تسلسل کے ساتھ ادا نہ کرسکیں اسی لیے یہ پہلو خارج ازامکان نہیں کہ شاہد خاقان عباسی کو ایوان میں اپوزیشن لیڈر کا کردار تفویض کردیا جائےیاپھر مسلم لیگ (ن) کا پارلیمانی لیڈر بنادیا جائے۔کیونکہ شاہد خاقان عباسی سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے انتہائی قابل اعتماد ساتھی ہیں اور انہوں نے کم وبیش دس ماہ تک وزارت عظمٰی پر فائز رہنے کے دوران بھی میاں نواز شریف کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔ ضمنی انتخابات کی حالیہ تاریخ دیکھیں تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ ضمنی انتخابات میں اُسی جماعت کے امیدوار کامیاب ہوتے ہیں جس کی وہاں حکومت ہو لیکن بالخصوص لاہور میں جہاں تحریک انصاف ہی کی حکومت ہے وہاں سے قومی وصوبائی اسمبلی کی نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کی کامیابی سے کچھ اور اشارے بھی ملتے ہیں جو مسلم لیگی راہنماؤں کے دعوؤں اور الزامات کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی جیتی ہوئی نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدواروں کی ناکامی سے جہاں تحریک انصاف کا مورال قدرے کمزور پڑا ہے وہیں مسلم لیگ (ن) کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے راہنما اور سابق وزیراعلیٰ کے ۔پی۔کے اکرم درانی کے صاحبزادے زاہد اکرم درانی کی کامیابی بھی صوبہ خیبرپختونخوا میں اس حوالے سے ایک اہم واقعہ ہے کہ انتخابی مہم کے دوران تحریک انصاف کے چیئرمین کی حیثیت سے عمران خان نے بنوں میں جلسہ عام کے دوران اکرم درانی کو للکارتے ہوئے چیلنج کیا تھاکہ اکرم درانی کو اس نشست سے شکست ہوگی، لیکن اُن کے صاحبزادے زاہد اکرم درانی کی کامیابی سے عمران خان یہ چیلنج ہارگئے ہیں۔ ضمنی انتخ��ب میں اہم نشستوں پر مسلم لیگی امیدواروں کی کامیابی سے یقیناً تحریک انصاف کی کم ہوتی مقبولیت پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں اور یہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی کامیابی کا ہی اعتماد تھا کہ اگلے روز جب سابق وزیراعظم میں نواز شریف احتساب عدالت میں پیش ہوئے تو انہوں نے اس مرتبہ وہاں موجود میڈیا کے نمائندوں سے خاصی دیر گفتگو کی اور کہا کہ ’’ضمنی انتخاب کے نتیجے سے اندازہ ہوگیا ہے کہ آنے والا وقت کیسا ہوگا۔ عوام حالات دیکھ رہے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ وہ ہمیں دوبارہ لے آئیں گے‘‘۔ اس موقع پر میاں نواز شریف نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ہم نے راولپنڈی کی سیٹ بھی جیت لی ہے۔
The post چین بہتری کے لیے اہم کردار ادا کرے گا؟ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2PJEpul via Urdu News Paper
#urdu news paper#indian urdu news papers#inquilab urdu news paper#sahara urdu news paper#kashmir urdu
0 notes
Text
چین بہتری کے لیے اہم کردار ادا کرے گا؟
وزیراعظم عمران خان اگلے ماہ کے پہلے ہفتے میں چین کے سرکاری دورے پر جارہے ہیں اُن کا یہ تین روزہ دورہ نہ صرف غیرمعمولی طور پر اہم ہوگا بلکہ خود اُن کی حکومت کے لیے بھی کسی آزمائش سے کم نہیں ہو گا کیونکہ اُن کے دورے کا بنیادی مقصد پاکستان کی معیشت کو درپیش سنگین چیلنجز سے عہدہ برا ہونا ہے اور اسی حوالے سے وہ پاک چین اقتصادی راہداری سے متعلق بعض اہم اُمور بھی طے کریں گے۔ وزیراعظم چین کا دورہ ایک ایسے وقت میں کررہے ہیں جب خارجی سطح پر حالات پاکستان کے حق میں نظر نہیں آتے۔ بقول وزیراطلاعات ونشریات فواد چوہدری کہ قرضے لینے کے لیےہم آئی۔ ایم۔ ایف (انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ) کے پاس ہرگز نہیں جانا چاہتے تھے بلکہ ہماری یہ خواہش تھی کہ دوست ممالک ہماری مالی معاونت کریں اور ہمیں مشکل صورتحال سے نکالیں لیکن دوست ممالک نے اتنی کڑی شرائط سامنے رکھ دیں جنہیں پورا کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں تھا۔ اس لیے ہمیں آئی۔ ایم۔ ایف کے پاس جانا پڑا۔ دوسری طرف امریکہ کا استدلال ہے کہ پاکستان کو اس وقت جن اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے اس کی وجہ چینی قرضے ہیں اس لیے آئی۔ ایم۔ ایف سے حاصل کیے جانے والے قرضوں سے چینی قرضوں کی ادائیگی کسی صورت قابل قبول نہیں ہوگی۔ امریکی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ہم نے اس صورتحال پر نظر رکھی ہوئی ہے اور آئی۔
ایم۔ ایف کو پاکستان سے تمام معاملات میں میرٹ کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ جبکہ پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ تاثر قطعی طور پر بے بنیاد اور مفروضے پر مبنی ہے کیونکہ چین سے حاصل کردہ قرضوں کی واپسی کا دورانیہ تین سے چار سال بعد شروع ہوگا۔ بہرحال وزیراعظم عمران خان کا دورہ چین اور اس کے نتائج اُن کی حکومت کے استحکام کے حوالے سے بھی انتہائی اہم ہے۔ ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں کسی ایک امیدوار کا ایک سے زیادہ نشستوں پر الیکشن میں حصہ لینا اور پھر اُن نشستوں پر کامیابی کے بعد ایک نشست کے سوا باقی نشستوں سے دستبردار ہوکر وہاں ضمنی انتخابات کا انعقاد۔۔انتخابی عمل کا یہ انداز شاید ہی کسی دوسرے ملک میں ہوتا ہوگا۔ شہر کے جس حصے میں ضمنی انتخاب کا انعقاد ہوتا ہے وہاں سیاسی اور سماجی زندگی چند دنوں کے لیے اتھل پتھل ہوکر رہ جاتی ہے اور انتظامی مشینری کا بھرپور استعمال اور انتخابی اخراجات کا معاملہ بھی عروج پر ہوتا ہے لیکن یہ سلسلہ جاری ہے اور شاید جاری رہے گا۔ 14 اکتوبر کو ملک میں قومی اسمبلی کی 11 اور صوبائی اسمبلی کی 24 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے جن میں قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو چار ، پاکستان تحریک انصاف کو چار، مسلم لیگ (ق) کو دو اور متحدہ مجلس عمل کو ایک نشست ملی ہے۔ بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی ان چار نشستوں میں اضافے سے تحریک انصاف کی حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا البتہ ایوان میں خواجہ سعد رفیق جیسے شعلہ بیاں مقرر کی جو کمی محسوس ہورہی تھی وہ ضرورپوری ہوجائے گی۔ اسی طرح شاہد خاقان عباسی جنہیں اُن کے اپنے حلقہ نیابت کے لوگوں نے مسترد کردیا تھا اہل لاہور نے میاں نواز شریف کے نام پر اُنہیں ووٹ دیئے اور وہ ایوان میں پہنچ گئے اُن کے ایوان میں آنے سے اب قومی اسمبلی میں تین سابق وزرائے اعظم موجودہ ایوان میں ہوں گے۔
جن میں راجہ پرویز اشرف، میاں محمد سومرو(نگران وزیراعظم) اور شاہد خاقان عباسی شامل ہیں ۔ چونکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کو مقدمات کا سامنا ہے اور شاید آنے والے دنوں میں اُنہیں اس حوالے سے مزید مشکلات اور پیچیدگیوں کا سامنا ہو اور وہ مؤثر انداز سے ایوان میں اپنا پارلیمانی کردار تسلسل کے ساتھ ادا نہ کرسکیں اسی لیے یہ پہلو خارج ازامکان نہیں کہ شاہد خاقان عباسی کو ایوان میں اپوزیشن لیڈر کا کردار تفویض کردیا جائےیاپھر مسلم لیگ (ن) کا پارلیمانی لیڈر بنادیا جائے۔کیونکہ شاہد خاقان عباسی سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے انتہائی قابل اعتماد ساتھی ہیں اور انہوں نے کم وبیش دس ماہ تک وزارت عظمٰی پر فائز رہنے کے دوران بھی میاں نواز شریف کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔ ضمنی انتخابات کی حالیہ تاریخ دیکھیں تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ ضمنی انتخابات میں اُسی جماعت کے امیدوار کامیاب ہوتے ہیں جس کی وہاں حکومت ہو لیکن بالخصوص لاہور میں جہاں تحریک انصاف ہی کی حکومت ہے وہاں سے قومی وصوبائی اسمبلی کی نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کی کامیابی سے کچھ اور اشارے بھی ملتے ہیں جو مسلم لیگی راہنماؤں کے دعوؤں اور الزامات کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی جیتی ہوئی نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدواروں کی ناکامی سے جہاں تحریک انصاف کا مورال قدرے کمزور پڑا ہے وہیں مسلم لیگ (ن) کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے راہنما اور سابق وزیراعلیٰ کے ۔پی۔کے اکرم درانی کے صاحبزادے زاہد اکرم درانی کی کامیابی بھی صوبہ خیبرپختونخوا میں اس حوالے سے ایک اہم واقعہ ہے کہ انتخابی مہم کے دوران تحریک انصاف کے چیئرمین کی حیثیت سے عمران خان نے بنوں میں جلسہ عام کے دوران اکرم درانی کو للکارتے ہوئے چیلنج کیا تھاکہ اکرم درانی کو اس نشست سے شکست ہوگی، لیکن اُن کے صاحبزادے زاہد اکرم درانی کی کامیابی سے عمران خان یہ چیلنج ہارگئے ہیں۔ ضمنی انتخاب میں اہم نشستوں پر مسلم لیگی امیدواروں کی کامیابی سے یقیناً تحریک انصاف کی کم ہوتی مقبولیت پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں اور یہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی کامیابی کا ہی اعتماد تھا کہ اگلے روز جب سابق وزیراعظم میں نواز شریف احتساب عدالت میں پیش ہوئے تو انہوں نے اس مرتبہ وہاں موجود میڈیا کے نمائندوں سے خاصی دیر گفتگو کی اور کہا کہ ’’ضمنی انتخاب کے نتیجے سے اندازہ ہوگیا ہے کہ آنے والا وقت کیسا ہوگا۔ عوام حالات دیکھ رہے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ وہ ہمیں دوبارہ لے آئیں گے‘‘۔ اس موقع پر میاں نواز شریف نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ہم نے راولپنڈی کی سیٹ بھی جیت لی ہے۔
The post چین بہتری کے لیے اہم کردار ادا کرے گا؟ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2PJEpul via Daily Khabrain
0 notes
Text
چین بہتری کے لیے اہم کردار ادا کرے گا؟
وزیراعظم عمران خان اگلے ماہ کے پہلے ہفتے میں چین کے سرکاری دورے پر جارہے ہیں اُن کا یہ تین روزہ دورہ نہ صرف غیرمعمولی طور پر اہم ہوگا بلکہ خود اُن کی حکومت کے لیے بھی کسی آزمائش سے کم نہیں ہو گا کیونکہ اُن کے دورے کا بنیادی مقصد پاکستان کی معیشت کو درپیش سنگین چیلنجز سے عہدہ برا ہونا ہے اور اسی حوالے سے وہ پاک چین اقتصادی راہداری سے متعلق بعض اہم اُمور بھی طے کریں گے۔ وزیراعظم چین کا دورہ ایک ایسے وقت میں کررہے ہیں جب خارجی سطح پر حالات پاکستان کے حق میں نظر نہیں آتے۔ بقول وزیراطلاعات ونشریات فواد چوہدری کہ قرضے لینے کے لیےہم آئی۔ ایم۔ ایف (انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ) کے پاس ہرگز نہیں جانا چاہتے تھے بلکہ ہماری یہ خواہش تھی کہ دوست ممالک ہماری مالی معاونت کریں اور ہمیں مشکل صورتحال سے نکالیں لیکن دوست ممالک نے اتنی کڑی شرائط سامنے رکھ دیں جنہیں پورا کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں تھا۔ اس لیے ہمیں آئی۔ ایم۔ ایف کے پاس جانا پڑا۔ دوسری طرف امریکہ کا استدلال ہے کہ پاکستان کو اس وقت جن اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے اس کی وجہ چینی قرضے ہیں اس لیے آئی۔ ایم۔ ایف سے حاصل کیے جانے والے قرضوں سے چینی قرضوں کی ادائیگی کسی صورت قابل قبول نہیں ہوگی۔ امریکی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ہم نے اس صورتحال پر نظر رکھی ہوئی ہے اور آئی۔
ایم۔ ایف کو پاکستان سے تمام معاملات میں میرٹ کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ جبکہ پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ تاثر قطعی طور پر بے بنیاد اور مفروضے پر مبنی ہے کیونکہ چین سے حاصل کردہ قرضوں کی واپسی کا دورانیہ تین سے چار سال بعد شروع ہوگا۔ بہرحال وزیراعظم عمران خان کا دورہ چین اور اس کے نتائج اُن کی حکومت کے استحکام کے حوالے سے بھی انتہائی اہم ہے۔ ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں کسی ایک امیدوار کا ایک سے زیادہ نشستوں پر الیکشن میں حصہ لینا اور پھر اُن نشستوں پر کامیابی کے بعد ایک نشست کے سوا باقی نشستوں سے دستبردار ہوکر وہاں ضمنی انتخابات کا انعقاد۔۔انتخابی عمل کا یہ انداز شاید ہی کسی دوسرے ملک میں ہوتا ہوگا۔ شہر کے جس حصے میں ضمنی انتخاب کا انعقاد ہوتا ہے وہاں سیاسی اور سماجی زندگی چند دنوں کے لیے اتھل پتھل ہوکر رہ جاتی ہے اور انتظامی مشینری کا بھرپور استعمال اور انتخابی اخراجات کا معاملہ بھی عروج پر ہوتا ہے لیکن یہ سلسلہ جاری ہے اور شاید جاری رہے گا۔ 14 اکتوبر کو ملک میں قومی اسمبلی کی 11 اور صوبائی اسمبلی کی 24 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے جن میں قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو چار ، پاکستان تحریک انصاف کو چار، مسلم لیگ (ق) کو دو اور متحدہ مجلس عمل کو ایک نشست ملی ہے۔ بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی ان چار نشستوں میں اضافے سے تحریک انصاف کی حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا البتہ ایوان میں خواجہ سعد رفیق جیسے شعلہ بیاں مقرر کی جو کمی محسوس ہورہی تھی وہ ضرورپوری ہوجائے گی۔ اسی طرح شاہد خاقان عباسی جنہیں اُن کے اپنے حلقہ نیابت کے لوگوں نے مسترد کردیا تھا اہل لاہور نے میاں نواز شریف کے نام پر اُنہیں ووٹ دیئے اور وہ ایوان میں پہنچ گئے اُن کے ایوان میں آنے سے اب قومی اسمبلی میں تین سابق وزرائے اعظم موجودہ ایوان میں ہوں گے۔
جن میں راجہ پرویز اشرف، میاں محمد سومرو(نگران وزیراعظم) اور شاہد خاقان عباسی شامل ہیں ۔ چونکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کو مقدمات کا سامنا ہے اور شاید آنے والے دنوں میں اُنہیں اس حوالے سے مزید مشکلات اور پیچیدگیوں کا سامنا ہو اور وہ مؤثر انداز سے ایوان میں اپنا پارلیمانی کردار تسلسل کے ساتھ ادا نہ کرسکیں اسی لیے یہ پہلو خارج ازامکان نہیں کہ شاہد خاقان عباسی کو ایوان میں اپوزیشن لیڈر کا کردار تفویض کردیا جائےیاپھر مسلم لیگ (ن) کا پارلیمانی لیڈر بنادیا جائے۔کیونکہ شاہد خاقان عباسی سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے انتہائی قابل اعتماد ساتھی ہیں اور انہوں نے کم وبیش دس ماہ تک وزارت عظمٰی پر فائز رہنے کے دوران بھی میاں نواز شریف کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔ ضمنی انتخابات کی حالیہ تاریخ دیکھیں تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ ضمنی انتخابات میں اُسی جماعت کے امیدوار کامیاب ہوتے ہیں جس کی وہاں حکومت ہو لیکن بالخصوص لاہور میں جہاں تحریک انصاف ہی کی حکومت ہے وہاں سے قومی وصوبائی اسمبلی کی نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کی کامیابی سے کچھ اور اشارے بھی ملتے ہیں جو مسلم لیگی راہنماؤں کے دعوؤں اور الزامات کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی جیتی ہوئی نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدواروں کی ناکامی سے جہاں تحریک انصاف کا مورال قدرے کمزور پڑا ہے وہیں مسلم لیگ (ن) کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے راہنما اور سابق وزیراعلیٰ کے ۔پی۔کے اکرم درانی کے صاحبزادے زاہد اکرم درانی کی کامیابی بھی صوبہ خیبرپختونخوا میں اس حوالے سے ایک اہم واقعہ ہے کہ انتخابی مہم کے دوران تحریک انصاف کے چیئرمین کی حیثیت سے عمران خان نے بنوں میں جلسہ عام کے دوران اکرم درانی کو للکارتے ہوئے چیلنج کیا تھاکہ اکرم درانی کو اس نشست سے شکست ہوگی، لیکن اُن کے صاحبزادے زاہد اکرم درانی کی کامیابی سے عمران خان یہ چیلنج ہارگئے ہیں۔ ضمنی انتخاب میں اہم نشستوں پر مسلم لیگی امیدواروں کی کامیابی سے یقیناً تحریک انصاف کی کم ہوتی مقبولیت پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں اور یہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی کامیابی کا ہی اعتماد تھا کہ اگلے روز جب سابق وزیراعظم میں نواز شریف احتساب عدالت میں پیش ہوئے تو انہوں نے اس مرتبہ وہاں موجود میڈیا کے نمائندوں سے خاصی دیر گفتگو کی اور کہا کہ ’’ضمنی انتخاب کے نتیجے سے اندازہ ہوگیا ہے کہ آنے والا وقت کیسا ہوگا۔ عوام حالات دیکھ رہے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ وہ ہمیں دوبارہ لے آئیں گے‘‘۔ اس موقع پر میاں نواز شریف نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ہم نے راولپنڈی کی سیٹ بھی جیت لی ہے۔
The post چین بہتری کے لیے اہم کردار ادا کرے گا؟ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2PJEpul via Roznama Urdu
#jang online newspaper#roznama urdu#naija newspapers#khabrain news epaper#all pakistani newspapers in
0 notes
Text
چین بہتری کے لیے اہم کردار ادا کرے گا؟
وزیراعظم عمران خان اگلے ماہ کے پہلے ہفتے میں چین کے سرکاری دورے پر جارہے ہیں اُن کا یہ تین روزہ دورہ نہ صرف غیرمعمولی طور پر اہم ہوگا بلکہ خود اُن کی حکومت کے لیے بھی کسی آزمائش سے کم نہیں ہو گا کیونکہ اُن کے دورے کا بنیادی مقصد پاکستان کی معیشت کو درپیش سنگین چیلنجز سے عہدہ برا ہونا ہے اور اسی حوالے سے وہ پاک چین اقتصادی راہداری سے متعلق بعض اہم اُمور بھی طے کریں گے۔ وزیراعظم چین کا دورہ ایک ایسے وقت میں کررہے ہیں جب خارجی سطح پر حالات پاکستان کے حق میں نظر نہیں آتے۔ بقول وزیراطلاعات ونشریات فواد چوہدری کہ قرضے لینے کے لیےہم آئی۔ ایم۔ ایف (انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ) کے پاس ہرگز نہیں جانا چاہتے تھے بلکہ ہماری یہ خواہش تھی کہ دوست ممالک ہماری مالی معاونت کریں اور ہمیں مشکل صورتحال سے نکالیں لیکن دوست ممالک نے اتنی کڑی شرائط سامنے رکھ دیں جنہیں پورا کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں تھا۔ اس لیے ہمیں آئی۔ ایم۔ ایف کے پاس جانا پڑا۔ دوسری طرف امریکہ کا استدلال ہے کہ پاکستان کو اس وقت جن اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے اس کی وجہ چینی قرضے ہیں اس لیے آئی۔ ایم۔ ایف سے حاصل کیے جانے والے قرضوں سے چینی قرضوں کی ادائیگی کسی صورت قابل قبول نہیں ہوگی۔ امریکی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ہم نے اس صورتحال پر نظر رکھی ہوئی ہے اور آئی۔
ایم۔ ایف کو پاکستان سے تمام معاملات میں میرٹ کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ جبکہ پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ تاثر قطعی طور پر بے بنیاد اور مفروضے پر مبنی ہے کیونکہ چین سے حاصل کردہ قرضوں کی واپسی کا دورانیہ تین سے چار سال بعد شروع ہوگا۔ بہرحال وزیراعظم عمران خان کا دورہ چین اور اس کے نتائج اُن کی حکومت کے استحکام کے حوالے سے بھی انتہائی اہم ہے۔ ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں کسی ایک امیدوار کا ایک سے زیادہ نشستوں پر الیکشن میں حصہ لینا اور پھر اُن نشستوں پر کامیابی کے بعد ایک نشست کے سوا باقی نشستوں سے دستبردار ہوکر وہاں ضمنی انتخابات کا انعقاد۔۔انتخابی عمل کا یہ انداز شاید ہی کسی دوسرے ملک میں ہوتا ہوگا۔ شہر کے جس حصے میں ضمنی انتخاب کا ا��عقاد ہوتا ہے وہاں سیاسی اور سماجی زندگی چند دنوں کے لیے اتھل پتھل ہوکر رہ جاتی ہے اور انتظامی مشینری کا بھرپور استعمال اور انتخابی اخراجات کا معاملہ بھی عروج پر ہوتا ہے لیکن یہ سلسلہ جاری ہے اور شاید جاری رہے گا۔ 14 اکتوبر کو ملک میں قومی اسمبلی کی 11 اور صوبائی اسمبلی کی 24 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے جن میں قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو چار ، پاکستان تحریک انصاف کو چار، مسلم لیگ (ق) کو دو اور متحدہ مجلس عمل کو ایک نشست ملی ہے۔ بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی ان چار نشستوں میں اضافے سے تحریک انصاف کی حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا البتہ ایوان میں خواجہ سعد رفیق جیسے شعلہ بیاں مقرر کی جو کمی محسوس ہورہی تھی وہ ضرورپوری ہوجائے گی۔ اسی طرح شاہد خاقان عباسی جنہیں اُن کے اپنے حلقہ نیابت کے لوگوں نے مسترد کردیا تھا اہل لاہور نے میاں نواز شریف کے نام پر اُنہیں ووٹ دیئے اور وہ ایوان میں پہنچ گئے اُن کے ایوان میں آنے سے اب قومی اسمبلی میں تین سابق وزرائے اعظم موجودہ ایوان میں ہوں گے۔
جن میں راجہ پرویز اشرف، میاں محمد سومرو(نگران وزیراعظم) اور شاہد خاقان عباسی شامل ہیں ۔ چونکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کو مقدمات کا سامنا ہے اور شاید آنے والے دنوں میں اُنہیں اس حوالے سے مزید مشکلات اور پیچیدگیوں کا سامنا ہو اور وہ مؤثر انداز سے ایوان میں اپنا پارلیمانی کردار تسلسل کے ساتھ ادا نہ کرسکیں اسی لیے یہ پہلو خارج ازامکان نہیں کہ شاہد خاقان عباسی کو ایوان میں اپوزیشن لیڈر کا کردار تفویض کردیا جائےیاپھر مسلم لیگ (ن) کا پارلیمانی لیڈر بنادیا جائے۔کیونکہ شاہد خاقان عباسی سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے انتہائی قابل اعتماد ساتھی ہیں اور انہوں نے کم وبیش دس ماہ تک وزارت عظمٰی پر فائز رہنے کے دوران بھی میاں نواز شریف کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔ ضمنی انتخابات کی حالیہ تاریخ دیکھیں تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ ضمنی انتخابات میں اُسی جماعت کے امیدوار کامیاب ہوتے ہیں جس کی وہاں حکومت ہو لیکن بالخصوص لاہور میں جہاں تحریک انصاف ہی کی حکومت ہے وہاں سے قومی وصوبائی اسمبلی کی نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کی کامیابی سے کچھ اور اشارے بھی ملتے ہیں جو مسلم لیگی راہنماؤں کے دعوؤں اور الزامات کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی جیتی ہوئی نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدواروں کی ناکامی سے جہاں تحریک انصاف کا مورال قدرے کمزور پڑا ہے وہیں مسلم لیگ (ن) کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے راہنما اور سابق وزیراعلیٰ کے ۔پی۔کے اکرم درانی کے صاحبزادے زاہد اکرم درانی کی کامیابی بھی صوبہ خیبرپختونخوا میں اس حوالے سے ایک اہم واقعہ ہے کہ انتخابی مہم کے دوران تحریک انصاف کے چیئرمین کی حیثیت سے عمران خان نے بنوں میں جلسہ عام کے دوران اکرم درانی کو للکارتے ہوئے چیلنج کیا تھاکہ اکرم درانی کو اس نشست سے شکست ہوگی، لیکن اُن کے صاحبزادے زاہد اکرم درانی کی کامیابی سے عمران خان یہ چیلنج ہارگئے ہیں۔ ضمنی انتخاب میں اہم نشستوں پر مسلم لیگی امیدواروں کی کامیابی سے یقیناً تحریک انصاف کی کم ہوتی مقبولیت پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں اور یہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی کامیابی کا ہی اعتماد تھا کہ اگلے روز جب سابق وزیراعظم میں نواز شریف احتساب عدالت میں پیش ہوئے تو انہوں نے اس مرتبہ وہاں موجود میڈیا کے نمائندوں سے خاصی دیر گفتگو کی اور کہا کہ ’’ضمنی انتخاب کے نتیجے سے اندازہ ہوگیا ہے کہ آنے والا وقت کیسا ہوگا۔ عوام حالات دیکھ رہے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ وہ ہمیں دوبارہ لے آئیں گے‘‘۔ اس موقع پر میاں نواز شریف نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ہم نے راولپنڈی کی سیٹ بھی جیت لی ہے۔
The post چین بہتری کے لیے اہم کردار ادا کرے گا؟ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2PJEpul via Daily Khabrain
0 notes
Text
نیت میں کھوٹ ہوتا تو الیکشن نتائج مختلف ہوتے، وزیر داخلہ گوہر اعجاز
نگران وزیر داخلہ گوہر اعجاز نے کہا ہے کہ اگر ہماریہ نیت میں کھوٹ ہوت تو الیکشن نتائج مختلف ہوتے، سوشل میڈیا بند کرنے کا فیصلہ عوام کے تحفظ کے لیے تھا۔ وزیراطلاعات مرتضیٰ سولنگی کے ساتھ نیوز کانفرنس میں نگران وزیرداخلہ گوہراعجاز نے کہا کہ اگر ہماری نیت میں کھوٹ ہوتا تو الیکشن کا یہ نتیجہ نہ ہوتا، موبائل،انٹرنیٹ بند کرنے کا فیصلہ ہمارا تھا الیکشن اتھارٹی کا واسطہ نہیں تھا،خیبرپختونخوا میں زیادہ تر…
View On WordPress
0 notes
Photo
قومی اسمبلی کا اجلاس 13 یا 14 اگست کوبلایا جاسکتا ہے، نگراں وزیراطلاعات اسلام آباد: نگران وزیراطلاعات علی ظفرکا کہنا ہے قومی اسمبلی کا اجلاس 13 یا 14 اگست کوبلایا جاسکتا ہے۔ اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نگراں وزیراطلاعات علی ظفر کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق 15 اگست کو ہرصورت قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے گا تاہم 13 یا 14 اگست کو اجلاس بلایا جاسکتا ہے جب کہ سب سے پہلے اسپیکر پھر ڈپٹی اسپیکر اور آخرمیں وزیراعظم کا انتخاب ہوگا۔ علی ظفر نے کہا کہ آزاد ارکان کو پورا موقع دیا جائے گا کہ وہ اپنی پسند کی کسی بھی پارٹی میں شریک ہونے کا فیصلہ کرلیں جس کے بعد اقلیتی نشستوں پر ارکان کا فیصلہ ہوتا ہے اور پھر الیکشن کمیشن کی جانب سے نوٹی فکی��ن جاری کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ نومنتخب اراکین 10 دن کے اندرانتخابی اخراجات کی تفصیل جمع کرائیں۔
0 notes
Text
سب امیدواروں کوفول پروف سیکورٹی دیناممکن نہیں،نگراں وزیراطلاعات
سب امیدواروں کوفول پروف سیکورٹی دیناممکن نہیں،نگراں وزیراطلاعات
نگراں وزیراطلاعات علی ظفرنےکہاہےکہ نگراں حکومت خلوص نیت اور ایمانداری کےساتھ کام کررہی ہے۔انتخابات صاف اورشفاف ہوں گے۔
ے علی ظفرنےکہاکہ جانبداری کےالزامات کوسیاست کاحصہ قراردے دیا۔سب امیدواروں کی فول پروف سیکیورٹی ممکن نہیں۔
انھوں نے نگران حکومتوں پرالزامات سیاست کاحصہ قراردیا۔علی ظفرکاکہناتھاکہ بیوروکریسی کیلئے نگران وزیراعظم کو اندھیرے میں رکھنا آسان نہیں۔انھوں نےڈالرکی اونچی اڑان کا ذمہ دار…
View On WordPress
0 notes
Text
صدر،وزیراعظم کی مستونگ،بنوں میں بم دھماکوں کی شدید مذمت
https://tns.world/urdu/?p=73910
اسلام آباد13(جولائی) صدر ممنون حسین’ نگران وزیراعظم ریٹائرڈ جسٹس ناصر الملک اور نگران وزیراطلاعات و نشریات سید علی ظفر نے بھی مستونگ اور بنوں بم دھماکوں کی شدید مذمت کی ہے۔انہوں نے قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے زخمیوں کو بہترین ممکنہ طبی سہولتیں فراہم کرنے کی...
0 notes
Photo
میاں نوازشریف، مریم کی وطن واپسی پر نام ای سی ایل میں ڈالنے کا فیصلہ کرینگے ٗ بیرسٹر علی ظفر #Islamabad #Ministerinformation #AliZafar #Nawazsharif #Maryamnawaz #ECL #Tuesday #TrendyTuesday #TravelTuesday #TopicTuesday #TuesdayTrivia #aajkalpk اسلام آباد:نگران وزیراطلاعات بیرسٹر علی ظفر نے کہاہے کہ سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا معاملہ زیر غور ہے اور اس سے متعلق فیصلہ ان کی وطن واپسی پر کریں گے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نگران وزیر اطلاعات بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ نیب نے نوازشریف اور مریم نواز کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کیلئے درخواست دی ہے جس پر ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں مجھ سمیت وزیر داخلہ اور وزیر خزانہ بھی شامل ہیں۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کمیٹی اس معاملے پر غور کررہی ہے البتہ نوازشریف ابھی ملک سے باہر ہیں اور ان کی اہلیہ کی حالت بھی تشویشناک ہے اس لیے ایسے وقت میں اس معاملے کو دیکھنا مناسب نہیں۔نگران وزیر اطلاعات نے کہاکہ نوازشریف اور مریم نواز کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا معاملہ ایجنڈے پر ہے، ان کے وطن واپس آنے کے بعد اس پر فیصلہ کریں گے۔
0 notes