#موٹاپے کا ایک سبب
Explore tagged Tumblr posts
Text
ذرا سی توجہ خود پر بھی دے لیں
اس سے پہلے کہ ذیابطیس کے تازہ عالمی نقشے پر نگاہ ڈالیں۔ خود ذیابطیس کی ابجد کیوں نہ دوھرا لی جائے۔ جو بھی خوراک ہم استعمال کرتے ہیں وہ جسم میں داخل ہو کر گلوکوز ( شوگر ) بنتی ہے اور پھر خون میں شامل ہوتی ہے۔ خون میں گلوکوز ایک مخصوص مقدار میں ہی داخل ہو۔ اسے یقینی بنانے کے لیے قد��ت نے ہر جسم میں لبلبہ نامی ایک کنٹرولر مقرر کر رکھا ہے جو انسولین بناتا ہے، تاکہ آپ کے خون میں داخل ہونے والے گلوکوز کی مقدار توانائی کی شکل میں جسم کو ضروری ایندھن فراہم کر سکے۔ بعض اوقات متعدد وجوہات کے سبب لبلبلہ یا تو ضروری مقدار میں انسولین پیدا نہیں کر پاتا یا پھر پوری طرح فعال نہیں رہتا۔ یوں گلوکوز کی مقدار آپ کے خون میں بلا رکاوٹ بڑھتے بڑھتے جسمانی پیچیدگیوں کا محرک بن جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ یہ فالتو گلوکوز دل، گردے، اعصاب اور بینائی پر اثرانداز ہونے لگتا ہے۔ اب تک شوگر کی بے قاعدگی کو قدرتی سطح پر برقرار رکھنے کے لیے کوئی مستقل حل دریافت نہیں ہو سکا۔ البتہ وزن میں کمی، صحت مند غذا، متحرک معمولات، اچھی نیند اور اعصابی تناؤ میں کمی کی مشق سے کسی حد تک شوگر مینیجمنٹ ضرور ہو سکتی ہے۔
شوگر کے مرض کی دو عمومی اقسام زیادہ جانی جاتی ہیں۔ ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو۔ٹائپ ون شوگر کی شکایت تب لاحق ہوتی ہے جب جسم میں کسی اندرونی ردِعمل کے سبب انسولین بننے کا عمل معطل ہو جاتا ہے۔ یہ اچانک ردِعمل بچوں اور نوعمروں میں بھی ہو سکتا ہے۔ اسے کنٹرول کرنے کے لیے روزانہ انسولین لینا پڑتی ہے۔عموماً ٹائپ ون کے مریضوں کی تعداد پانچ سے دس فیصد کے درمیان ہے۔ البتہ اکثریت بتدریج ٹائپ ٹو شوگر کی زد میں آتی ہے۔ آپ کا لبلبلہ رفتہ رفتہ انسولین کی مقدار کم بنانے لگتا ہے۔ یوں خون میں گلوکوز کی مقدار میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔اس کا ہدف زیادہ تر جوان یا پکی عمر کے لوگ ہیں۔ علامات بھی آہستہ آہستہ ظاہر ہوتی ہیں۔ ذیابطیس کی ایک تیسری قسم بھی ہے جو دورانِ حمل گلوکوز کی مقدار میں اتار چڑھاؤ کے سبب پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کے منفی اثرات بچے میں بھی منتقل ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ دورانِ حمل شوگر لیول کی نگرانی ازبس ضروری سمجھی جاتی ہے۔ اس وقت دنیا کا ہر تیسرا شخص شوگر کی سرحد پر کھڑا ہے۔ طرزِ زندگی اور روزمرہ عادات میں صحت مند تبدیلیوں کے ذریعے اس سرخ لکیر سے پیچھے ہٹنا ممکن ہے۔
عالمی ادارہِ صحت کے مطابق انیس سو اسی میں ��یابطیس کے مریضوں کی تعداد ایک سو آٹھ ملین تھی جو اگلے چار عشروں میں چار گنا بڑھ گئی۔ اس وقت دنیا بھر میں ذیابطیس کے متاثرین کی تعداد لگ بھگ چار سو بیالیس ملین ہے۔ ہر سال ذیابطیس کی پیچیدگیوں کے سبب پندرہ سے بیس لاکھ اموات ہوتی ہیں۔ یہ مسئلہ متوسط اور غریب ممالک میں زیادہ سنگین ہے۔ ذیابطیس کی بین الاقوامی فیڈریشن (آئی ڈی ایف) کا اندازہ ہے کہ سرکاری و عمومی عدم دلچسپی کے باعث یہ مسئلہ وبائی شکل اختیار کر رہا ہے اور اگر اس بابت موثر بنیادی اقدامات نہ کیے گئے تو خدشہ ہے دو ہزار تیس تک چھ سو تینتالیس ملین اور دو ہزار پینتالیس تک سات سو تراسی ملین افراد لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ اگر بیس برس کی عمر تک کے ٹائپ ون ذیابطیس چارٹ پر نگاہ ڈالی جائے تو حیرت انگیز طور پر امریکا سرِفہرست دکھائی دیتا ہے۔ وہاں فی ہزار ایک سو پچھتر افراد ٹائپ ون ذیابطیس کے کسی نہ کسی مرحلے میں ہیں جب کہ انڈیا میں یہ تناسب فی ہزار ایک سو اکہتر ہے۔ حالانکہ دونوں ممالک کے طرزِ زندگی میں بہت فرق ہے۔
جب کہ ٹائپ ٹو ذیابطیس کا عالمی چارٹ دیکھا جائے تو چین مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے سرِفہرست ہے۔ وہاں بیس سے اسی برس تک کے ایک سو اکتالیس ملین متاثرین ہیں۔ دیگر بہتر ملین چینیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھیں بھی ذیابطیس ہے مگر وہ تشخیصی نظام کے مدار سے باہر ہیں۔ چین کے بعد تعداد کے اعتبار سے انڈیا اور پاکستان کا درجہ ہے۔ آبادی کے تناسب سے ذیابطیس کے پھیلاؤ کو دیکھا جائے تو پھر پاکستان پہلے، فرنچ پولینیشیا دوسرے اور کویت تیسرے نمبر پر ہے۔ گزشتہ برس کے اندازوں کے مطابق پاکستان کی اکتیس فیصد، فرنچ پولنیشیا اور کویت کی پچیس فیصد آبادی اس وبا کی لپیٹ میں ہے اور متاثرہ افراد میں لگ بھگ نوے فیصد کو ٹائپ ٹو ذیابطیس لاحق ہے۔ حیرت ناک بات یہ ہے کہ براعظم افریقہ کی محض ساڑھے چار فیصد آبادی میں ذیابطیس کی علامات پائی گئی ہیں۔ ایک سبب شہری آبادی کی کم تعداد اور موٹاپے کی کم شکایت ہے۔ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ متاثرہ افراد کی تعداد کہیں زیادہ ہو مگر اکثریت کو اس کا ادراک نہ ہو یا پھر تشخیصی سہولتوں تک رسائی نہ ہو۔
جب تک کوئی تسلی بخش سستا علاج یا طریقہ وسیع پیمانے پر دریافت نہیں ہو جاتا تب تک ایک سادہ و متحرک زندگی اختیار کرنے سے ہی کام چلانا پڑے گا۔ کیونکہ ذیابطیس کوئی ایک مسئلہ نہیں بلکہ کئی جسمانی پیچیدگیوں کی جڑ ہے۔ جنھیں گمان ہے کہ وہ محفوظ ہیں۔ انھیں اس خوش فہمی میں مسلسل رہنے کے بجائے سال میں کم از کم ایک بار ضرور اپنا معائنہ کروانا چاہیے اور جو مبتلا ہیں انھیں اضافی جسمانی پیچیدگیوں سے بچنے اور صحت کے معیار کو مزید ابتری سے بچانے کے لیے احتیاطی تدابیر کو روز مرہ زندگی کا لازمی حصہ بنانا چاہیے۔ اس وقت صحت کے کل عالمی بجٹ کا چھ فیصد (نو سو چھیاسٹھ بلین ڈالر) ذیابطیس کی روک تھام اور اس سے پیدا ہونے والی دیگر جسمانی پیچیدگیوں کے علاج معالجے اور دیکھ بھال پر صرف ہو رہا ہے۔ اس اضافی خرچے سے بچنا ممکن ہے اگر دوسروں کے معاملات کے ساتھ ساتھ ذرا سی توجہ خود پر بھی دے لی جائے۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
موٹاپے کا ایک سبب اور خطرے میں ڈالنے والی 15بات��ں كی مثالیں
نئی تحریر ملاحظہ فرمائیں۔۔
https://www.mazhab.pk/motapay-ka-aik-sabab/
#Deen Islam ki baatein Urdu#Dilchasp Maloomat in Urdu#Islamic Information in Urdu#اردو#اسلامی واقعات#خطرے میں ڈالنے والی 15باتوں كی مثالیں#موٹاپے کا ایک سبب#واقعات#واقعاتِ اسلام
0 notes
Text
آپ نے گھبرانا نہیں ہے
جدید ریسرچ نے ثابت کیا ہے کہ اصل میں موٹاپا ایک نعمت ہے ریسرچ میں ثابت کیا گیا ہے کہ موٹاپا بیماریوں کی جڑ نہیں بلکہ بیماریوں سے بچاؤ کا سبب ہے جدید تحقیق میں ثابت کیا گیا ہے کہ اگر آپ 3 سے 5 کلو اورویٹ ہیں تو آپ کے ٹی بی اور الژھمیئر سے بچنے کے چانسز 80 فیصد بڑھ جاتے ہیں اگر آپ 7 سے 15 کلو مقررہ پیمانے سے زائد وزن رکھتے ہیں تو 50 فیصد چانسز ہیں کہ آپ نمونیہ، ٹائیفائڈ اور یرقان کا شکار نہیں ہونگے اگر آپ 16 سے 25 کلو اورویٹ ہیں تو 60 فیصد چانسز ہیں کہ آپ کو کڈنی، پروسٹریٹ، کولون اور مثانے کا کینسر نہیں ہوگا اگر آپ 25 کلو سے زیادہ اورویٹ ہیں تو خوشخبری سن لیں اس سے آپ کی نگاہ تیز ہوگی، گنج پن آپ کے قریب بھی نہیں پھٹکے گا اور نزلہ زکام اور کھانسی سے ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے گی اس جدید ریسرچ کے لیے تعاون کیا ہے وارث نہاری جاوید نہاری محفوظ شیرمال دہلی ربڑی ہاؤس رحمت شیریں وحید کباب ہاؤس غوثیہ نلی بریانی بنوں پلاؤ شاہین شنواری ریسٹورینٹ دعاریسٹورنیٹ کراچی پراٹھا ہاؤس چارمنگ انڈے والا برگر چاچا کڑاہی سینٹر حبیب مال پورہ ایم سلیمان مٹھائی والا(میمن مٹھائیوں کا مرکز) بلوچ فالودہ حاجی بریانی سینٹر رضوان ناشتہ ہاؤس (حلوہ پوری اور چنے) اور جید ا لسی والے نے جن کا پیغام ہے کہ
کھاؤ ،پیو،عیش اڑاؤ ۔۔ موٹاپے کی ٹینشن بھگاؤ
6 notes
·
View notes
Text
قدرتی نظاروں سے لطف انداوز ہونا تنہائی کے احساس کو کم کرتا ہے: تحقیق
قدرتی نظاروں سے لطف انداوز ہونا تنہائی کے احساس کو کم کرتا ہے: تحقیق
ایک نئی تحقیق کے مطابق گھر سے باہر نکلنے اور قدرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے سے شہر میں رہنے والوں میں تہائی کا احساس 28 فی صد تک کم ہو جاتا ہے۔ تنہائی کو عوام کی صحت کے ایک بڑے مسئلہ کے طور پر سمجھا جاتا ہے اور تحقیق میں انکشاف کیاگیا ہےکہ تنہائی کے سبب موت کا خطرہ، فضائی آلودگی اور موٹاپے سے زیادہ ہے۔ ایک نئی تحقیق میں ماہرین نے اربن مائن ایپ کا استعمال کرتے ہوئےدنیا بھر سے شہروں میں رہنے…
View On WordPress
0 notes
Text
کیا امریکا بکھر رہا ہے
( ’’ کیا امریکا بکھر رہا ہے‘‘ کے عنوان سے آپ تین حصوں پر مشتمل جو مضمون پڑھیں گے وہ دراصل کینیڈا کی یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے ثقافتی و ماحولیاتی محقق ویڈ ڈیوس کا تجزیہ ہے )۔ ہنری کسنجر سے جو کئی مقولے منسوب ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ ’’ امریکا سے دشمنی خطرناک مگر امریکا سے دوستی مہلک ہے‘‘۔ ہر سلطنت کی طرح امریکا بھی اس وقت زوال کے خطرے سے دوچار ہے۔ کوئی سلطنت دائمی نہیں۔ جو اوپر جائے گا وہ نیچے بھی آئے گا۔ پندھرویں صدی پرتگیزیوں کی تھی۔ سولہویں صدی میں ہسپانیہ کا بول بالا تھا۔ ستہرویں صدی میں ولندیزی، اٹھارویں میں فرانسیسی اور انیسویں صدی میں برطانیہ عظمیٰ کا طوطی بولتا تھا۔ پہلی عالمی جنگ میں لہولہان ہونے کے باوجود انیس سو پینتیس تک برطانیہ کرہِ ارض کی سب سے بڑی سلطنت گردانی جاتی تھی۔ دوسری عالمی جنگ نے سب ہی کی جغرافیائی و اقتصادی چولیں ہلا دیں۔ جب جمال عبدالناصر نے نہر سویز کو قومی ملکیت میں لیا اور انیس سو چھپن میں برطانیہ نے اسرائیل اور فرانس کے ساتھ مل کے مصر پر حملہ کیا اور امریکا ، سوویت یونین اور اقوامِ متحدہ کے بھرپور دباؤ کی تاب نہ لاتے ہوئے پہلی بار پسپا ہونا پڑا تو سب کو معلوم ہو گیا کہ عظیم برطانیہ کے دن گنے جا چکے ہیں۔
امریکا اگرچہ انیس سو تیرہ تک ایک بڑی اقتصادی طاقت بن چکا تھا مگر عالمی سیاست میں اس کا کردار نہ ہونے کے برابر تھا۔ جب جنگِ عظیم اول کے آخری برسوں میں امریکا یورپی اتحادیوں کی مدد کے لیے کودا تو پہلی بار اسے اپنی قوت اور اثر و رسوخ کے ممکنہ حجم کا بھرپور ��ندازہ ہوا۔ انیس سو چالیس میں جب جاپان نے پرل ہاربر پر حملہ کیا تب امریکی فوج کی نفری پرتگال اور بلغاریہ کی فوج سے بھی کم تھی۔ لیکن اگلے چار برس میں ایک کروڑ اسی لاکھ امریکی مرد اور خواتین فوجی یونیفارم اڑس چکے تھے۔ لاکھوں امریکی کارکن کارخانوں اور کانوں میں ڈبل شفٹ پر کام کر رہے تھے۔ روز ویلٹ نے امریکا کو جمہوریت کا اسلحہ خانہ قرار دے کر ایک عام امریکی کا جوش دوبالا کر دیا۔ پرل ہاربر حملے کے بعد کے چھ ہفتے میں ربڑ کی نوے فیصد عالمی پیداوار جاپانیوں کے قبضے میں آ گئی تو امریکا میں ٹائروں کو شکست و ریخت سے بچانے کے لیے حدِ رفتار گھٹا کے پینتیس میل فی گھنٹہ کر دی گئی۔ اگلے تین برس میں مصنوعی ربڑ کی صنعت وجود میں آ گئی جس سے بننے والے ٹائروں کی مدد سے اتحادی افواج نے یورپ میں نازیوں کو پیچھے دھکیل دیا۔
اگلے چار برس میں ہنری فورڈ کا طیارہ ساز کارخانہ ہر دو گھنٹے میں ایک بی چوبیس بمبار اسمبل کرنے لگا۔ امریکی شپ یارڈ ساڑھے چار دن میں ایک جنگی جہاز تیار کرنے کے قابل ہو گئے۔ لانگ بیچ اور سوسالیتو کے یارڈز سے روزانہ دو لبرٹی شپ پانی میں اتارے جانے لگے۔ ڈیٹرائٹ میں قائم کرائسلر کے ایک کارخانے میں اس عرصے کے دوران جتنے ٹینک تیار ہوئے وہ نازی جرمنی کی مجموعی ٹینک پیداوار کے برابر تھے۔ یہ سوویت فوج کا خون اور امریکی صنعتی طاقت تھی جس نے دوسری عالمی جنگ کا رخ موڑ دیا۔ فتح کے بعد ایٹم بم سے مسلح امریکا غالب عالمی طاقت بن گیا۔ گو اس کی آبادی عالمی آبادی کا چھ فیصد تھی مگر عالمی معیشت کا پچاس فیصد حصہ امریکی صنعت کاری و کاروبار سے جڑا ہوا تھا۔ گاڑیوں کی عالمی پیداوار میں امریکا کا حصہ ترانوے فیصد تک پہنچ گیا۔ اگلے پینتالیس برس میں مقابلے بازی کی تاب نہ لاتے ہوئے سوویت قوت دم توڑ گئی۔ ڈالر عالمی کرنسی بن گیا۔ بری و بحری راستوں پر امریکا کا عسکری کنٹرول پختہ ہوتا چلا گیا۔امریکا میں ایک پھلتی پھولتی مڈل کلاس وجود میں آئی۔
روزگاری مواقع میں اضافے اور مزدور یونینوں کی جدوجہد کے نتیجے میں معاوضے اور مراعات میں بڑھوتری کے سبب ایک عام مزدور بھی قسطوں پر گھر اور کار رکھنے کے قابل ہو گیا۔ بچے پہلے سے بہتر تعلیم حاصل کرنے لگے۔خوشحالی کی لہر نے وقتی طور پر آجر اور اجیر کے تعلقات میں کشیدگی کم کر دی۔ٹیکس ریٹ اوپری طبقے کے لیے زیادہ اور نچلے طبقات کے لیے کم ہو گئے۔ یہ زمانہ ( پچاس اور ساٹھ) امریکی سرمایہ داری کا سنہری دور کہلاتا ہے۔ البتہ چوبیس گھنٹے سات دن کام کام اور کام کے نعرے نے اپنے ذیلی سماجی اثرات بھی ظاہر کرنے شروع کیے۔ کارکن اپنے خاندانوں کے ساتھ کم وقت گذارنے لگے۔ ایک امریکی ورکر اوسطاً بیس منٹ روزانہ اپنے بچوں کو دے پاتا ہے۔ جب یہ بچے اٹھارہ برس کی عمر تک پہنچتے ہیں تب تک مجموعی طور پر دو برس کے برابر کا وقت فاسٹ فوڈ سامنے رکھ کے ٹی وی کے سامنے یا لیپ ٹاپ کے آگے گذار چکے ہوتے ہیں (اب سب کے ہاتھ میں موبائل فون ہے )۔ اس سہل پسندی نے روک ٹوک سے آزاد نوعمر بچوں میں موٹاپے اور توندیلے پن جیسے مسائل کو جنم دیا۔ اب موٹاپے کی وبا نے ایک قومی بحران کی شکل اختیار کر لی ہے۔
سکے کا ایک رخ اگر روشن بتایا جا رہا ہے تو دوسرا رخ تاریک ہے۔ جنگِ عظیم دوم میں کامیابی کے باوجود امریکا نہ خود چین سے بیٹھا نہ دنیا کو بیٹھنے دیا۔ آج لگ بھگ ڈیڑھ سو ممالک میں کسی نہ کسی شکل میں امریکی فوجی موجودگی یا مداخلت دیکھی جا سکتی ہے۔ انیس سو اسی کی دہائی سے چین نے ایک بھی بیرونی حملہ نہیں کیا اور امریکا ایک دن بھی حالتِ جنگ سے نہیں نکل پایا۔ سابق صدر جمی کارٹر کے بقول دو سو بیالیس کی تاریخ میں امریکا کی قسمت میں صرف سولہ برس ایسے گذرے جب مکمل امن تھا۔ گویا اس وقت کرہِ ارض پر امریکا سب سے زیادہ جنگجو ملک ہے۔ دو ہزار ایک سے اب تک آٹھ ٹریلین ڈالر جدل پر صرف ہو چکے ہیں۔ حالانکہ یہ رقم اندرونِ ملک صنعتی و تعمیراتی ڈھانچے کو مزید بہتر اور مقابلہ پسند بنانے پر بھی صرف ہو سکتی تھی۔ اس عرصے میں چین کی پوری توجہ وطن سازی پرمرکوز رہی۔ ہر تین برس میں چین میں سیمنٹ کی کھپت اتنی ہے جتنی کھپت امریکا میں پوری بیسویں صدی میں ہوئی تھی۔
اگرچہ امریکا کو اسلحے اور دفاع سے متعلق افرادی قوت اور ٹیکنالوجی میں آج بھی سبقت ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس کی جنگ جیتنے کی صلاحیت میں کمی آتی جا رہی ہے۔ امریکا نے دوسری عالمگیر لڑائی کے بعد اگر کوئی مہم فیصلہ کن انداز میں جیتی تو وہ انیس سو اکیانوے کی جنگِ خلیج تھی جس میں کویت سے عراق کو نکالا گیا۔ فتوحات کی فہرست میں آپ چاہیں تو انیس سو پینسٹھ میں ڈومینیکن ریپبلک، انیس سو تراسی میں گریناڈا اور انیس سو نواسی میں پاناما کے خلاف پولیس ایکشن ٹائپ فوجی کارروائی کو بھی شامل کر سکتے ہیں۔ اس عرصے میں کوریا کی جنگ سے افغانستان کی لڑائی تک جتنی بھی بڑی اور طویل جنگیں ہوئیں ان میں امریکی کارکردگی مسلسل مایوس کن رہی۔ پچھلی پانچ صدیوں میں ابھرنے والی عالمی طاقتوں میں سے اتنا مایوس کن ریکارڈ پرتگال اور ولندیز سمیت کسی طاقت کا نہیں رہا۔
چھ جون انیس سو چوالیس کو امریکا سمیت پانچ اتحادی ممالک کی مشترکہ افواج فرانس کے نارمنڈی ساحل پر اتریں اور پہلے ہی دن چار ہزار چار سو چودہ سپاہی قربان ہوئے۔ جتنے اتحادی فوجی نارمنڈی پر حملے کے بعد کے ایک ماہ میں ہلاک ہوئے اس سے زیادہ امریکی شہری اپریل تا جون دو ہزار انیس میں گن کلچر کی نذر ہو گئے۔ اگر عمرانی نقطہِ نظر سے دیکھا جائے تو سماجی انفرادیت کے فوائد اکثر خاندانی اجتماعیت کے فضائل کی قیمت پر حاصل ہوتے ہیں۔ یوں احساسِ بیگانگی سماج میں اپنی جڑیں گہری کرتا جاتا ہے اور طرح طرح سے چھلکتا ہے۔ حالانکہ امریکی آئین دنیا میں واحد مثال ہے جس میں خوشی کا حصول بھی بنیادی انسانی حق شمار ہوتا ہے۔ یہ الگ بات کہ اس وقت پچاس فیصد امریکی ہی سماجی میل جول کے لیے وقت نکال پاتے ہیں۔ دنیا بھر میں مایوسی و اداسی کی کیفیات ( ڈیپریشن ) رفع کرنے کے لیے جو ادویات فروخت ہوتی ہیں ان کا انسٹھ فیصد امریکا میں استعمال ہوتا ہے۔
پچاس برس سے کم عمر کے امریکیوں میں غیر طبعی موت کا سب سے بڑا سبب سڑک کے حادثات ہیں۔ سرکاری و نجی قرضوں کا حجم ٹائم بم کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ امیر اور غریب کی آمدنی میں فرق دیگر سماجی، اقتصادی و سیاسی مسائل کی دلدل بن رہا ہے۔ ٹرمپ ازم اس مایوسی کا بین ثبوت ہے۔ جب خوشحال زندگی کا خواب بکھرنے لگے۔ کارخانے بند ہونے کے باوجود امیر اس لیے امیر تر ہوتے چلے جائیں کہ عالمگیریت کے بہانے افراد اور اقوام کو قریب لانے کے بجائے وسائل اور روزگار سستی مزدوری کے لالچ میں سرمایہ سمندر پار منتقل ہونے لگے اور خود پر فخر کرنے والی اقتصادی، سماجی و سیاسی علامات بھی دھندلانے لگیں تو خود پر سے یقین اٹھنے لگتا ہے اور ریاست سے شہری کا عمرانی معاہدہ ڈگمگانے لگتا ہے۔ پچاس کی دہائی کے وہ دن ہوا ہوئے جب امریکی سرمایہ دار اشرافیہ کو آج کے ڈنمارک کی طرح نوے فیصد ٹیکس دینا پڑتا تھا اور اعلیٰ ترین کارپوریٹ عہدیدار اور ایک عام منیجر کی تنخواہ میں زیادہ سے زیادہ تفاوت بیس گنا تھا۔
آج یہ فرق چار سو گنا تک بڑھ گیا ہے اور بالائی مینجمنٹ کو حصص اور مراعات کی شکل میں جو سہولتیں میسر ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں۔ ایک فیصد اشرافیہ تیس ٹریلین مالیت کے اثاثے کنٹرول کرتی ہے۔ جب کہ پچاس فیصد آبادی کا قرضہ ان کے زیرِ استعمال اثاثوں سے بھی زیادہ ہے۔ اس وقت تین امریکی شہریوں کے پاس جتنے اثاثے ہیں وہ سولہ کروڑ امریکیوں کے مجموعی اثاثوں کی قدر کے برابر ہیں۔بیس فیصد امریکی کنبوں کے پاس زیرو اثاثہ ہے اور سینتیس فیصد سیاہ فام خاندان اسی صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ متوسط طبقے میں شمار ہونے والے سیاہ فام کنبوں کی اوسط آمدنی سفید فام متوسط کنبوں سے دس گنا کم ہے۔ نسلی عدم توازن کی شکل یہ ہو گئی ہے کہ امریکی جیلوں میں آدھے قیدی سیاہ فام ہیں جب کہ وہ امریکی آبادی کا محض تیرہ فیصد ہیں۔ اکثریت کا رنگ کوئی بھی ہو اگر اسے لگاتار دو تنخواہیں نہ ملیں تو دیوالیہ پن اس کے دروازے پر کھڑا ہو جاتا ہے۔
اگرچہ تمام امریکی شہری بظاہر دنیا کی سب سے امیر قوم کا حصہ ہیں مگر ان میں سے اکثر جھولتی خوشحالی کی ایسی بے یقین تار پر بیٹھے ہیں جس سے گرنے کی صورت میں نیچے کوئی حفاظتی جال نہیں ۔ اس حالت کا ذمے دار کوئی نائن الیون نہیں بلکہ ’’خود کردہ را علاج نیست‘‘ والا معاملہ ہے۔ امریکی ریاست کی اخ��اقی قوت پر آخری سوالیہ نشان دو ہزار تین میں کھڑا ہو گیا جب عراق کو وسیع تر تباہی پھیلانے والے ان ہتھیاروں کی پاداش میں تاخت و تاراج کر دیا گیا کہ جن کا وجود آج تک ثابت نہیں ہو سکا۔ اندرونی اقتصادی کس بل کتنے پانی میں ہے۔ اس کا اندازہ دو ہزار آٹھ میں ہو گیا جب دیوالیہ پن کی دلدل میں بڑے بڑے امریکی کاروباری ادارے بتاشو�� کی طرح بیٹھتے چلے گئے۔ دو ہزار دس کی دہائی میں روس اور چین کے اقتصادی و علاقائی اثر و رسوخ میں ��یرت انگیز اضافہ ہونے لگا اور دوسری جانب امریکا میں سماجی و اقتصادی بحران نے ووٹروں کو ٹرمپ ازم کی جانب دھکیل دیا۔نسلی عدم مساوات نے ’’بلیک لائیوز میٹرز‘‘ تحریک کو جنم دیا اور کوویڈ نے صحت کے نظام کو بٹھا دیا۔
کوویڈ جیسا مسئلہ انسانی تاریخ میں اس لحاظ سے اچھوتا ہے کہ دنیا کے ہر کونے میں موجود باشندہ تشویش اور امید کے جذبے سے ایک ساتھ گذر رہا ہے۔ نمک کے ذرے سے بھی دس ہزار گنا چھوٹے وائرس نے نہ صرف انسانی جسم کو نشانہ بنایا بلکہ اس کی اقتصادی و سماجی بنیادوں میں بھی بیٹھ گیا۔ اگرچہ ویکیسن بھی برق رفتاری سے تیار ہو گئی مگر کوئی نہیں جانتا کہ یہ ویکسین کب تک کارگر رہے گی۔وائرس عیار ہے سو بھیس بدل لیتا ہے۔ وباؤں نے تاریخ کے دھارے، انسانی سوچ اور عمل پر ہمیشہ گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ جب چودھویں صدی میں یورپ میں طاعون نے ایک تہائی سے زائد آبادی چاٹ لی تو افرادی قوت کی قلت کے سبب کارکنوں کے معاوضے بھی بڑھانے پڑ گئے۔ تیرہ سو اکیاسی میں یورپی کسانوں نے صدیوں میں گڑے جاگیرداری نظام کے خلاف بھرپور بغاوت کی کوشش کی۔ اس سے جاگیرداری نظام کی چولیں ہل گئیں اور پھر مرکنٹائل ازم اور اس کے بل بوتے پر پہلے صنعتی انقلاب اور پھر انقلابِ فرانس کی راہ ہموار ہوئی۔
کوویڈ ہماری زندگیوں میں کون کون سی فیصلہ کن تبدیلیاں لایا ہے یا لائے گا۔ اس کا اندازہ فوراً نہیں ہو گا بلکہ عشرہ وار کھلتا چلا جائے گا۔ جیسے انیس سو چودہ میں آرچ ڈیوک فرڈیننڈ کے قتل سے شروع ہونے والی پہلی عالمی جنگ نے پرانی دنیا کو بدل کے رکھ دیا۔ یا انیس سو انتیس میں شروع ہونے والی عظیم کساد بازاری نے پرانی سرمایہ داری کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا اور اس کے ملبے سے کارپوریٹ کلچر کی تعمیر ہوئی۔ یا پھر انیس سو تینتیس میں ہٹلر کے عروج نے اگلے بارہ برس میں دنیا کو جس طرح تہہ و بالا کیا۔ اسی کے اثرات کے سبب انیس سو پینتالیس کے بعد تشکیل پانے والے نئے عالمی نظام میں ہم دو ہزار بیس تک جی رہے تھے۔ کوویڈ نے پچھتر برس سے رواں اس مالیاتی و اقتصادی بریٹن وڈ نظام کی تبدیلی کی نیو رکھ دی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس نیو پر کیسی دیوار اٹھ رہی ہے۔ مگر ڈھانچہ اندر باہر سے ہل چکا ہے۔
کوویڈ نے ساڑھے چار کروڑ امریکی ملازمتیں ختم کر دیں اور پینتیس لاکھ کاروبار ٹھپ ہو گئے۔ اکتالیس فیصد سیاہ فام کاروبار دیوالیہ ہو گئے۔ اس وبا نے بہت کچھ کھول کے رکھ دیا۔ ایک ایسا ملک جو کبھی ہر گھنٹے میں ایک لڑاکا طیارہ بنانے کے قابل تھا۔ اسے ماسک اور کاٹن کی پٹیوں کے لالے پڑ گئے۔ جس ملک نے کئی عشروں تک طبی سائنس و تحقیق و دریافت میں دنیا کی رہنمائی کی۔ پولیو اور خسرہ سے نجات حاصل کرنے میں کل عالم کی مدد کی۔ اس ملک کی سب سے اونچی و بااختیار کرسی پر بیٹھا مسخرہ پہلے تو کورونا کو نزلے کی ایک نئی قسم قرار دیتا رہا اور پھر یہ تجویز کرنے لگا کہ کورونا کو مارنے کے لیے گھریلو صفائی کے کیمیکل بھی رگوں میں داخل کیے جا سکتے ہیں۔ دنیا کی چار فیصد آبادی اس وقت امریکا میں رہتی ہے مگر کوویڈ سے دنیا بھر میں مرنے والوں میں سے بیس فیصد شہری بھی امریکی تھے۔ اخبار آئرش ٹائمز کے مطابق ’’ دو صدیوں سے زائد مدت تک باقی دنیا امریکا سے نفرت یا محبت ، خوف اور اطمینان، حسد اور رشک کے جذبات میں مبتلا رہی۔
پہلی بار ان جذبات میں ترس کا جذبہ بھی شامل ہو گیا۔ جب امریکی ڈاکٹر اور نرسیں چین سے آنے والی بنیادی طبی رسد کی کھیپ کا بے چینی سے انتظار کرتے رہے۔یوں تاریخ کا رخ ایشیا کی صدی کی جانب مڑ گیا‘‘۔ اس وبا کے سبب گزشتہ دو برس میں امریکا کی عظیم برتری ایک عام سے ملک کی آمریت دکھائی دینے لگی اور آمریت سے جوج رہے ممالک امریکا کو اخلاقی درس دینے لگے۔ مثلاً سیاہ فام امریکی شہری جارج فلائیڈ کی پولیس کے ہاتھوں موت پر انگشت برابر ریاست چیچنیا کے آمر رمضان قادریوف نے امریکا کی انسانی حقوق کی بہیمانہ پالیسی کو خوب لتاڑا۔ شمالی کوریا کے اخبارات نے امریکی پولیس کی زیادتیوں کی کھل کے مذمت کی۔ ایران کے مذہبی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ اس واقعے سے امریکا نے اپنی بربادی کا آغاز کر دیا ہے۔
جب ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے ہانگ کانگ میں جمہوری حقوق کی تحریک کچلے جانے اور چین میں انسانی حقوق کے مجموعی حالات پر ٹویٹ کیا تو چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے اس کے جواب میں جارج فلائیڈ کے یہ آخری الفاظ ٹویٹ کر دیے ’’ میں سانس نہیں لے سکتا ۔‘‘ ٹرمپ کا آنا محض اقتصادی و سماجی بے چینی کا شاخسانہ نہیں تھا بلکہ امریکن ڈریم کا اپنے ہی بوجھ سے چٹخنے کا بگل تھا۔ جس ملک کے بانیوں نے آزادیِ اظہار کو جمہوری رگوں میں دوڑنے والے خون جتنا اہم قرار دیا، وہ ملک آج آزادیِ اظہار اور اطلاعات کی کھلی رسائی کی عالمی فہرست میں پینتالیسویں پائیدان پر کھڑا ہے۔ ایسی ریاست جو تارکینِ وطن نے تشکیل دی اور اپنے قیام کے ڈیڑھ سو برس بعد تک ہر مصیبت کے مارے کے لیے اپنے بازو کھولے رکھے اور ہر نئے آنے والے کو آزادی دی کہ امریکن ڈریم میں سے اپنی صلاحیتوں کی بنا پر جتنا حصہ بٹورنا چاہے بٹور لے۔ آج اسی قوم کے آدھے لوگ صحتِ عامہ کے ڈھانچے پر رقم لگانے کو میکسیکو سے ملنے والی جنوبی سرحد پر تارکینِ وطن کو روکنے کی خاطر دیوار اٹھانے کے منصوبے سے کم اہم سمجھتے ہیں۔
اطلاعات تک رسائی سے کہیں اہم آئین کی دوسری ترمیم کے تحت اس حق کو سمجھا جاتا ہے جس کے تحت ہر امریکی کو اپنے دفاع میں اسلحہ رکھنے کا حق ہے۔ حالانکہ جس زمانے میں یہ حق دیا گیا تھا، اس وقت امریکا کی زمینی توسیع اور آباد کاروں کی جانب سے قدرتی وسائل کی چھینا جھپٹی کی مزاحمت کرنے والے مقامی لوگوں سے نپٹنے کا معاملہ درپیش تھا۔ بعد میں اسی بندر بانٹ کے سبب پیدا ہونے والی رقابت کے نتیجے میں یہ آبادکار چار سالہ خانہ جنگی میں باہم دست و گریباں بھی رہے۔ لیکن آج بظاہر کوئی مسلح خانہ جنگی نہیں۔ نہ ہی بزور زمینیں اور وسائل ہتھیانے کا چلن ہے۔ پھر بھی ہر شہری کو اسلح�� رکھنے کی اجازت دینے کا مطلب سوائے اس کے کیا نکل رہا ہے کہ وہ بندوق کی نالی کا رخ اپنے ہی ہمسائیوں کی جانب موڑ دے یا پھر محبوبہ کے چھوڑ کر چلے جانے کے غم میں کسی کلب یا اسکول میں گھس کر موت برسا دے۔ مگر اسلحہ رکھنے کے حق کو آج بھی دیگر حقوق سے زیادہ مقدس سمجھا جاتا ہے۔
کہنے کو امریکا عالمی پولیس مین ہے لیکن امریکی شہری اپنے انفرادی تحفظ کی مکمل زمہ داری اس پولیس مین کے حوالے کرنے پر یقین نہیں رکھتے۔ ایک ایسی ریاست جو قومی سطح پر تقسیم در تقسیم اور بے چینی کی مختلف پرتوں کو کم کرنے کے بجائے اضافے کا موجب بن رہی ہے۔ وبائی لہروں، ماحولیات کی ابتری اور دہشت گردی کے جھکڑ کے پیچھے موجزن بنیادی علاقائی و نسلی و سیاسی اسباب میں کمی کے لیے ایک ایماندار سرپنچ بننے کے بجائے ایک جانبدار دلالی کو جائز سمجھتی ہے۔ وہ ایک لامحدود عرصے کے لیے عالمی لیڈر بننے کی کیوں کر دعویدار رھ سکتی ہے اور باقی دنیا اس پر کیوں اعتبار کرتی رہے ؟ جھنڈے میں لپٹی اندھی حب الوطنی رحم و درگزر کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ مسلسل غصہ اور دشمنی لگاؤ کے جذبے کو کیسے پنپا سکتا ہے ؟
گاندھی سے کسی نے پوچھا کہ مغربی تہذیب کے بارے میں آپ کے کیا وچار ہیں۔ گاندھی جی نے ترنت کہا ’’ میرے خیال میں یہ ایک اچھی اختراع ہے‘‘۔ مغربی تہذیب پر تو شاید یہ جواب پوری طرح لاگو نہ ہو لیکن امریکن ڈریم ضرور گاندھی جی کے اس مقولے کے کھانچے میں آج فٹ بیٹھتا ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ امریکا کل ڈوب جائے گا۔ یہ مدت طویل بھی ہو سکتی ہے اگر بڑے بڑے شگافوں کی مرمت ابھی سے شروع ہو جائے۔ مگر کون سا شگاف زیادہ خطرناک ہے اور اس کا پہلے بھرنا ضروری ہے۔ لگتا ہے اسی سوچ میں مدت گذر جائے گی اور تہذیب کے اگلے بیڑے تب تک کوسوں آگے بڑھ چکے ہوں گے اور ایک دن امریکا کا یہ نعرہ ’’ ہم خدا پر بھروسہ رکھتے ہیں ‘‘ ’’ پدرم سلطان بود ‘‘ سے بدل جائے گا، جو گیند جتنی رفتار سے اوپر جاتی ہے اتنی ہی رفتار سے نیچے بھی آتی ہے۔ یہ نیوٹن کا نہیں قدرت کا قانون ہے۔
( ’’ کیا امریکا بکھر رہا ہے‘‘ کے عنوان سے آپ نے تین حصوں پر مشتمل جو مضمون پڑھا وہ دراصل کینیڈا کی یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے ثقافتی و ماحولیاتی محقق ویڈ ڈیوس کا تجزیہ ہے۔ اس مضمون کے بارے میں حتمی رائے کا حق قاری کی ہی ملکیت ہے ۔)
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
آلو ایک صحت بخش غذا ہے ناکہ مضر صحت غذائی ماہرین
آلو ایک صحت بخش غذا ہے ناکہ مضر صحت غذائی ماہرین
غذائی ماہرین کا کہنا ہے کہ آلوؤں سے متعلق غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ ان میں غذائیت نہیں ہوتی بلکہ یہ صرف موٹاپے کا سبب بنتے ہیں، جو افراد ڈائیٹنگ کا سوچتے ہیں وہ آلوؤں کو بھی اپنی غذا سے نکا ل دیتے ہیں، حالانکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔غذائی ماہرین کے مطابق آلوؤں کی 173 گرام مقدار میں کیلوریز 161 جبکہ وٹامن بی 6، پوٹاشیم، کاپر، وٹامن سی، مینگنیز، فاسفورس، فائبر اور وٹامن بی 3 کی بھی وافر مقدار…
View On WordPress
0 notes
Text
دنیا میں پیدا ہونے والی خوراک کا سترہ فی صد حصہ ضائع ہو جاتا ہے
اقوام متحدہ کے خوراک اور زراعت سے متعلق ادارے، ایف اے او نے خوراک کے نقصان اور ضیاع کو روکنے کے لئے اقدامات کی اپیل کی ہے، جو اس کے بقول، دنیا بھر میں بھوک اور غذائی قلت کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ادارے کے ماہرین نے کہا ہے کہ اس وقت دنیا بھر کے ممالک لگ بھگ آٹھ ارب لوگوں کے لئے کافی خوراک پیدا کر رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود 80 کروڑ لوگ ابھی تک بھوک کا شکار ہیں اور دو ارب انسانون کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس سے صحت کے سنگین مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ وائس آف امریکہ کی لیزا شیلائن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خوراک اور زراعت کے عالمی ادارے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں پیدا کی جانے والی خوراک کا لگ بھگ ایک تہائی یا ایک ارب 30 کروڑ ٹن خوراک کسی کے پیٹ میں جانے کی بجائے آخر کار پرچون مارکیٹ میں پڑے پڑے گل سڑ جاتی ہے یا صارفین کے کوڑے دانوں میں چلی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس نقصان کا اندازہ سالانہ ایک ٹریلین ڈالر ہے۔
خوراک اور غذائیت کے امور سے متعلق ایف اے او کی ڈپٹی ڈائریکٹر ننسی ابورٹو کا کہنا ہے کہ خوراک کے ضیاع کے نتیجے میں پانی، زمین، توانائی، مزدوری اور سرمائے سمیت وہ تمام وسائل ضائع ہو جاتے ہیں جو اسے پیدا کرنے میں صرف ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر خوراک کے ضیاع کی روک تھام کے لئے اقدام نہ کئے گئے تو اقوام متحدہ 2030 تک بھوک کے خاتمے سے متعلق دیرپا ترقی کے اپنے ہدف کو کبھی حاصل نہیں کر سکے گا۔ ابورٹو کا مزید کہنا تھا کہ غذائی قلت کے باعث ایک جانب لاکھوں بچے مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں تو دوسری طرف ہر تین میں سے ایک بالغ شخص موٹاپے کا شکار ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ غذائیت کی کمیابی کا ایک اور سبب غیر صحت بخش خوراک اور ضروری وٹامنز اور معدنیات کی غذا میں کمی ہے۔ ابورٹو کا کہنا ہے کہ صحت بخش خوراک کی زیادہ قیمت ہونے کے سبب دنیا کے ہر براعظم، علاقے اور ممالک میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اسے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔ اور کرونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران یہ صورت حال مزید سنگین ہو گئی ہے۔
صحت بخش خوراک کے بغیر ہم کبھی بھی بھوک اور غذائیت میں کمی کے مسئلے پر قابو نہیں پا سکتے۔ خوراک اور زراعت کے عالمی ادارے کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2019 کے دوران دنیا بھر میں پیدا ہونے والی خوراک کا 14 فی صد حصہ کھیتوں کھلیانوں سے لے کر اسے فروخت کے مراکز تک پہنچانے کے عمل کے دوران ضائع ہو گیا تھا۔ جب کہ اس سال کے اعداد و شمار کے مطابق دستیاب خوراک کا اندازاً 17 فی صد حصہ ضائع ہو گیا۔ خوراک و زراعت کے عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال جتنی خوراک ضائع ہوتی ہے اس کی تیاری کے عمل میں گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج دنیا کے مجموعی کاربن گیسوں کے اخراج کے 10 فی صد کے مساوی ہے۔ اس میں صرف خوراک ہی ضائع نہیں ہوتی بلکہ اس کے پیداوری عمل میں استعمال ہونے والا پانی، زمین، ایندھن، انسانی محنت اور اس پر خرچ کیا جانے والا تمام سرمایہ بھی رائیگاں چلا جاتا ہے۔ عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ خوراک کو ضائع ہونے سے بچا کر ہم نہ صرف دنیا کے مختلف حصوں میں بھوک اور غذائیت کی قلت کی صورت حال پر قابو پا سکتے ہیں، ساتھ ہی صحت بخش خوراک تک رسائی بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ ننسی ابورٹو کا کہنا ہے کہ اس عمل کا ایک اور خوشگوار پہلو یہ ہے کہ اس سے ہمارے ماحول میں بھی بہتری آئے گی۔
بشکریہ وائس آف امریکہ
0 notes
Text
کیا آلو صرف موٹاپے کا سبب بنتے ہیں؟
کیا آلو صرف موٹاپے کا سبب بنتے ہیں؟
غذائی ماہرین کا کہنا ہے کہ آلوؤں سے متعلق غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ ان میں غذائیت نہیں ہوتی بلکہ یہ صرف موٹاپے کا سبب بنتے ہیں، جو افراد ڈائیٹنگ کا سوچتے ہیں وہ آلوؤں کو بھی اپنی غذا سے نکا ل دیتے ہیں، حالانکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔
غذائی ماہرین کے مطابق آلوؤں کی 173 گرام مقدار میں کیلوریز 161 جبکہ وٹامن بی 6، پوٹاشیم، کاپر، وٹامن سی، مینگنیز، فاسفورس، فائبر اور وٹامن بی 3 کی بھی وافر مقدار پائی جاتی ہے۔
آلو کھانا چھوڑ دینے سے یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا ہے کہ اب انسان پتلا دبلا اور اسمارٹ ہو جائے گا، ماہرین فٹنس کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر سخت ورزشیں کرنے والے افراد کو ابلے ہوئے آلو کھانے کا کہا جاتا ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آلو ایک صحت بخش غذا ہے ناکہ مضر صحت۔
غذائی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر غذا اعتدال میں صحت بخش اور ضرورت سے زیادہ کھانے پر مضر صحت ثابت ہوتی ہے، اسی طرح آلو بھی صحت میں اضافے اور کئی شکایات کے خاتمے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
غذائی ماہرین کی جانب سے بتائے گئے آلو کے استعمال سے جسم پر آنے والے متعدد مثبت اثرات مندرجہ ذیل ہیں جنہیں جان کر آپ بھی آلو کی چاٹ، آلو سے بنی سلاد، آلو کی ٹکیہ، بیک کیے ہوئے اور ابلے ہوئے آلوؤں سے بھاگنا بند کر دیں گے بلکہ یہ غذائیں روٹین میں شامل کر کے زندگی کو مزید پُر لطف بنائیں گے ۔
غذائی ماہرین کے مطابق آلو میں ایک منفرد ایسڈ پایا جاتا ہے جو کہ دماغی صحت کو بہتر بناتا ہے، غذائی ماہرین کے مطابق الزائمر کے مرض میں مبتلا افراد کو آلو کا استعمال زیادہ سے زیادہ کرنا چاہیے۔
آلوؤں میں موجود پوٹاشیم پٹھوں کو آرام پہنچاتا ہے اور ورزش سے یا تھکن سے متاثر ہونے والے پٹھوں کی مرمت کرتا ہے، آلوؤں میں کیلشیم پائے جانے کے سبب یہ ہڈیوں کو مضبوط بناتا ہیں۔
غذائی ماہرین کے مطابق جہاں آلو میں کاربوہائیڈریٹس پائے جاتے ہیں وہیں اس میں فائبر بھی موجود ہوتا ہے جو کہ نظام ہاضمہ کی کارکردگی کو بہتر بناتا ہے۔
آلو کا استعمال بلڈ پریشر کو متوازن بناتا ہے، بطور سلاد، آلوؤں کو بیک کر کے یا ابال کر بھی کھایا جا سکتا ہے۔
آلو بطور بیوٹی ایجنٹ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس میں موجود وٹامن سی جلد کو صاف شفاف اور بے داغ بناتا ہے اور قدرتی طور پر چہرے کے بالوں کو بلیچ کرتا ہے۔
آلو کے قتلے کاٹ کر اس سے چہرے پر مساج کیا جا سکتا ہے، یہ ��یکنی کو دنوں میں ختم کرتا ہے اور آنکھوں کے گرد سیاہ حلقوں کا بھی خاتمہ اس عمل سے ممکن ہوتا ہے۔
setTimeout(function() !function(f,b,e,v,n,t,s) if(f.fbq)return;n=f.fbq=function()n.callMethod? n.callMethod.apply(n,arguments):n.queue.push(arguments); if(!f._fbq)f._fbq=n;n.push=n;n.loaded=!0;n.version='2.0'; n.queue=[];t=b.createElement(e);t.async=!0; t.src=v;s=b.getElementsByTagName(e)[0]; s.parentNode.insertBefore(t,s)(window,document,'script', 'https://connect.facebook.net/en_US/fbevents.js'); fbq('init', '836181349842357'); fbq('track', 'PageView'); , 6000); /*setTimeout(function() (function (d, s, id) var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = "//connect.facebook.net/en_US/sdk.js#xfbml=1&version=v2.11&appId=580305968816694"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); (document, 'script', 'facebook-jssdk')); , 4000);*/ Source link
0 notes
Text
ڈائٹنگ کےلیے صحت بخش سمجھے جانے والےنقصان دہ مشروب - اردو نیوز پیڈیا
ڈائٹنگ کےلیے صحت بخش سمجھے جانے والےنقصان دہ مشروب – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین کراچی: موٹاپا ایک ایسا مرض ہے جو ذیابطیس، امراض قلب اور دیگر خطرناک بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ جب بات کی جائے موٹاپے کی تو پھر اس کے ساتھ ایک لفظ ’ ڈائٹنگ‘ بہت سننے میں آتا ہے۔ وزن میں کمی کے خواہش مند زیادہ تر افراد اس غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں کہ ٹھوس غذا چھوڑ کر مکمل طور پر ’مائع‘ غذا استعمال کرنے سے ڈائٹنگ کا مقصد پورا ہوجائے گا۔ ڈائٹنگ کرنے والے افراد کوکیز، شکر،…
View On WordPress
0 notes
Text
سنت نبوی وزن کم کرنے کا آسان طریقہ
سنت نبوی وزن کم کرنے کا آسان طریقہ
موٹاپے کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں جس میں سب سے زیادہ پائی جانیوالی خوراک کی بے اعتدالی ہے ۔مگر خواتین میں سب سے بڑی وجہ ہارمونز کی بے قاعدگی ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ چکنائی والی اشیاء بھی موٹاپے کا سبب بنتی ہیں ۔موٹاپے کا ایک بڑا سبب جسم میں پانی کی مقدار کا کم ہونا بھی ہے ۔ موٹاپے کا تعلق صرف اور صرف کھانے پینے سے نہیں بلکہ اس کی دیگر وجوہات بھی ہوسکتی ہیں۔ ہمارے ہاں کسی اضافی خاتون کو دیکھا جائے…
View On WordPress
0 notes
Text
موٹاپا انسان کی جنسی صحت کو کسطرح کمزور کرتا ہے ؟ ایک معلوماتی رپورٹ
لندن(ویب ڈیسک) موٹاپے کے بے شمار نقصانات سائنسدان اپنی تحقیقات میں بتا چکے ہیں اور اب ایک ماہر نے موٹاپے اور جنسی صحت کے درمیان گہرے تعلق کا انکشاف کر دیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق یونیورسٹی آف برمنگھم کے ماہر ڈاکٹر عابد تہرانی کا کہنا ہے کہ موٹاپا کئی حوالوں سے لوگوں کی جنسی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا اور ازدواجی زندگی کو تباہ کرتا ہے۔ موٹاپے کے شکار مردوخواتین میں ایک طرف جنسی خواہش بہت کم ہو جاتی ہے اور دوسری طرف ان کے ہاں اولاد ہونے کا امکان بھی بہت کم رہ جاتا ہے۔ایک اور ماہر اینی ہینڈرسن کا کہنا ہے کہ موٹاپا خواتین میں حیض کے بے قاعدگی، پولی سسٹک اوورین سنڈروم، افزائش نسل کے مسائل اور دیگر کئی عارضوں کا سبب بنتا ہے۔ تھرش (Thrush)ایک ایسی بیماری ہے جو ہر 4میں سے 3خواتین کو زندگی میں کبھی نہ کبھی ضرور لاحق ہوتی ہے اور یہ زیادہ تر موٹاپے کی شکار خواتین ہی کو لاحق ہوتی ہے اور ان کی جنسی زندگی کو تباہ کر دیتی ہے۔ موٹاپے کا مردوخواتین کی جنسی صحت کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ جو لوگ موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں ان کی جنسی زندگی بتدریج تباہ ہو کر رہ جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کا ازدواجی تعلق ختم ہونے کا امکان بھی بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔ Read the full article
0 notes
Text
چینی کے خاموش نقصانات
کیا شکر یا چینی زہر ہے؟ اس کا انحصاراس بات پر ہے کہ ایک انسان اوسطاً کتنی چینی روزانہ ہضم کرلیتا ہے جیسے عالمی ادارہ صحت نے روزانہ پچیس گرام شکر کو صحت کے لیے موزوں قرار دیا ہے تاہم اوسطاً ہر پاکستانی روزانہ 62 گرام یہ میٹھا زہر اپنے جسم کا حصہ بناتا ہے۔تاہم کیا آپ کو معلوم ہے کہ چینی کی یہ زیادہ مقدار ہمارا جسم کس انوکھے انداز سے ذخیرہ کرتا ہے ؟ نہیں تو جان لیں کیونکہ اس کے بغیر میٹھے سے دوری اختیار کرنا مشکل ہوجائے گا۔ شکر جسم کو ذیابیطس کا شکار بناتی ہے ایک طبی تحقیق کے مطابق شکر کے استعمال سے اگر کوئی فرد روانہ اضافی ڈیڑھ سو کیلیوریز حاصل کرے تو اس میں ذیابیطس کا خطرہ 1.1 فیصد زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ شکر دل کے لیے تباہ کن اگر آپ شکر سے صرف ذیابیطس سے بچنے کے لیے اجتناب کرتے ہیں تو درحقیقت آپ اپنے دل کو بھی تحفظ فراہم کررہے ہوتے ہیں، کیونکہ امراض قلب اور ذیابیطس کے درمیان تعلق موجود ہے۔ امراض قلب اور فالج ذیابیطس ٹائپ ٹو کے شکار افراد میں موت کی وجوہات میں سرفہرست ہے۔ شکر جسمانی اعضا پر چربی چڑھاتی ہے شکر میں موجود عنصر مونو سکیرائیڈ آپ کے جگر کو زیادہ چربی جمع کرنے پر مجبور کرتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ فیٹی لیور نامی بیماری میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ شکر سے خون کی شریانوں پر تناؤ شکر کے استعمال سے دوران خون میں انسولین بڑھ جاتی ہے، جس کا اثر جسم کے خون کی گردش کے نظام اورشریانوں پر پڑتا ہے، انسولین کی زیادہ مقدار سے شریانوں میں مسلز سیلز کی گردش معمول سے زیادہ تیز ہواتی ہے، جس سے شریانوں کی دیواروں مٰں تناؤ بڑھتا ہے اور ہائی بلڈپریشر کا شکار کرنے کے بعد فالج یا دل کے دورے کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔ ٹائپ تھری ذیابیطس کا خطرہ ایک تحقیق کے دوران ٹائپ تھری ذیابیطس کی اصطلاح استعمال کی گئی تھی، جو انسولین کی مزاحمت، بہت زیادہ چربی والی غذاؤں اور الزائمر کے درمیان تعلق بناتی ہے، درحقیقت یہ الزائمر کے شکار افراد کے نظام ہضم کے امراض کا نام ہے جس سے ان کے دماغ کی گلوکوز اور توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت کو نقصان پہنچتا ہے، یعنی اسے دماغی ذیابیطس بھی کہا جاسکتا ہے۔ شکر بڑھا دیتی ہے آپ کی بھوک شکر آپ کے اندر بھوک کا احساس بڑھاتی ہے، بہت زیادہ شکر کھانے سے دماغ کی پیٹ بھرنے کے احساس کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں انسان کو ہر وقت بھوک کا احساس ہوتا رہتا ہے چاہے اس نے حد سے زیادہ کھانا ہی کیوں نہ کھا لیا ہو۔ شکر کرتی ہے توانائی سے محروم آپ کو کبھی یہ احساس ہوا کہ چاکلیٹ بار کھات�� ہی آپکے اندر توانائی کی لہر پیدا ہوتی ہے اور پھر جلد ہی آپ تھکاوٹ محسوس کرنے لگتے ہیں۔ درحقیقت شکر کو کھانے کے بعد جسم مزید شکر کا مطالبہ کرنے لگتا ہے اور یہ سائیکل چلتا رہتا ہے۔ جس کے نتیجے میں جب تک آپ کچھ میٹھا کھا نہ لیں آپ کو جسمانی توانائی میں کمی کا احساس ستاتا رہتا ہے۔ شکر کولیسٹرول کا سبب شکر اور کولیسٹرول کے دوران تعلق موجود ہے، ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ زیادہ شکر استعمال کرتے ہیں ان میں ذیابیطس اور موٹاپے کے ساتھ ساتھ کولیسٹرول کی مقدار بھی زیادہ ہوجااتی ہے، جو کہ جسم کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے، جبکہ یہ خون میں خطرناک چربی کو بڑھاتی ہے۔ Read the full article
0 notes
Text
The Benefits of Small Lemons Greatly
The Benefits of Small Lemons Greatly Lemon is a well-known, cheerful, world-class fruit and easily available at affordable prices. It is cultivated all year long. Apparently, it is a small fruit rich in vitamins, (Vitamin C) is a rich treasure. Lack of vitamin C (vitamin C) can cause gum bleeding, nausea, and debilitating diseases of bones. Therefore, physicians give vitamin C pills in this disorder. But the use of lemons can be avoided. The Benefits of Small Lemons Greatly Also, vitamin C deficiency can be protected against many diseases. Although lemons are available all year long their seasonal production is rainy and like other fruits, this small fruit fulfills its seasonal requirements. Fruits provide seasonal quality, along with refreshments, and delicious delights. Thus lemon-infectious diseases such as abdominal pain, vomiting, diarrhea, itching, and heat are among the benefits of mucus. In the rainy season, the soaking of lemons is very useful. When done, squeeze the lemon over the onions for both meals and add salt. Lemons belong to the Trish Fruit (Trish family). Besides lemons in this family, Sangruta, Malta, canoe, sweet and grapefruit are available, but lemons are the most beneficial and rich in nutrients in this family. The Benefits of Small Lemons Greatly Nature has infused lemons with many nutrients. Fifty percent of the water is rich in fat and starch. In addition, vitamin A (vitamin A) is in small quantities and vitamin C (vitamin C) is in abundance. There are 32 nutrients in each of the six lemons. According to the chemical analysis of lemons, it contains no alcohol, 30 mg, calcium 20 grams, phosphorus 14 mg and citric acid as in lemons. The ancient apes made some scrumptious delicacies of its delicacies, which are used as delicious, refreshing and delicious fruit. But lemons are a deliciously healthy fruit as well as a useful medicinal diet, and a cure for the disease, whose treatment of the allopathy system of medicine fails. The little golden fruit of lemons not only has healing effects Wealthy but also unable to respond to health problems. The most effective weapon against disease is force immunity. The Benefits of Small Lemons Greatly The use of lemons strengthens the moment and also plays an important role in producing red blood cells. Nowadays there are complaints of a rash on the face of young boys and girls. These nails affect the beauty of the face and distort the appearance of the face. It causes a feeling of psychological incapacity in the youth. The cause is usually bleeding. The young generation uses creams to relieve them and for the appearance of the skin, but they do not know how the power has healed this little golden fruit to create color, Is. The use of lemons cleanses the skin, cleanses the blood, eliminates blemishes, stains, and stains. Apart from being pureblood, Lemon is a killer germ, its use eliminates acidic substances. Lemonade is a very effective treatment of diseases and is therefore useful in malaria fever. Lemon juice mixed with roses on the face cleanses the scalp, massage of the lemon produces a discoloration in the skin of the face. It is useful to mix lemon juice in water. New mothers are encouraged to suck lemons. The Benefits of Small Lemons Greatly Medical uses of lemons Apply soap thoroughly on two pieces of lime for facial scars and wash your face with warm water, work on sensitive skincare.It is better for them to use lemon juice in equal amounts of glycerin and rosemary. Long black and bright hair It is beneficial to mix dry dried peaches in lemonade and apply them to the roots of the hair. obesity Slimming centers are nowadays called for the elimination of obesity. Adversaries are robbing people with big advertising in the name of obesity, but few know that limes are a cure for obesity. In Egypt, young girls are usually prickly and have a delicate vaginal body, which is the reason for their use of lemons. In the morning, in order to remove obesity and be smart, use half a cup of lemon juice in a glass of warm water. Useful to-do - Although the lemons should be lightly rubbed before use, it is useful to rub the lemon peels onto the facial scars. Fall down the stream It is a debilitating disease and rarely goes away. The pollution of the atmosphere has greatly increased the disease. Will be. The Benefits of Small Lemons Greatly Use of lemons A common use of lemon is to squeeze onions with food, anemia, increase appetite, heartburn, acute heartburn, coronary artery disease, nail-biting, scarring, boils, acne, gum swelling, Benefits of bleeding, indigestion, nausea. The Side Effects of Lemons Moderation is the proper course in everything, so lemons should also be used in moderation. The sharp palates of lemons are harmful to the teeth, excessive use of lemons can cause muscle aches. Sconce of lemon Lemon is made in the rainy season by making a scunbin, which is useful for seasonal acids, gastrointestinal and asthma. It has two uses in jaundice and is useful in malaria fever during this season. Hand-drawn, the humidity in the weather is very useful. The sugar can be added to the skunkbine as per its requirement. The Benefits of Small Lemons Greatly لیموں ایک معروف ومقبول،خوش ذائقہ،ساری دنیا میں پائے جانے والا اور سستے داموں آسانی سے ہر جگہ ملنے والا پھل ہے ۔اس کی کاشت سارا سال ہوتی ہے ۔ظاہری طور پر یہ ایک چھوٹا سا پھل حیاتین سے بھر پور ہے اور حیاتین ج(وٹامن سی)کا تو بھر پور خزانہ ہے۔حیاتین ج(وٹامن سی)کی کمی سے مسوڑھوں سے خون آنا ورم ہو جانا،صفروای بخار اور ہڈیوں ��ی کمزوری وشکست وریخت جیسے امراض ہو سکتے ہیں ۔اس لئے معالج حضرات اس عارضے میں وٹامن سی کی گولیاں دیتے ہیں ۔لیکن لیموں کے استعمال سے ان گولیوں سے بچا جا سکتا ہے ۔ نیز وٹامن سی کی کمی سے متعدد عارضوں سے محفوظ رہا جا سکتا ہے ۔یوں تو لیموں سارا سال ہوتا اور ملتا ہے مگر اس کا موسم پیداوار برسات ہے اور دوسرے پھلوں کی طرح یہ چھوٹا پھل بھی اپنے موسمی تقاضے خوب پورے کرتا ہے ۔ پھل موسم کے مطابق کیفیت وتکالیف کے ازالے کے ساتھ ساتھ لذت وغذائیت بھی فراہم کرتے ہیں ۔ اس طرح لیموں وبائی امراض مثلاً پیٹ درد،قے،اسہال ،خارش اور گرمی کے دانوں میں گونا گوں فوائد کا حامل ہے ۔موسم برسات میں لیموں کی تسکین بہت مفید ہوتی ہے ۔قے ،دست اور متلی میں لیموں پر کالی مرچ اور نمک لگا کر چٹائیں، دونوں وقت کھانے کے ساتھ پیاز پر لیموں نچوڑ کر نمک کا اضافہ کرکے استعمال کریں۔ لیموں کا تعلق ترش فروٹ(ترش خاندان)سے ہے۔اس خاندان میں لیموں کے علاوہ سنگترہ ،مالٹا ،کینو ،میٹھا اور چکوتراوغیر ہ ہیں مگر لیموں اس خاندان میں سب سے فائدہ مند اور غذائی اجزاء سے مالا مال ہے۔ قدرت نے لیموں کو کثیر غذائی اجزاء سے سر فراز کیا ہے اس میں پچاس فیصد پانی کے علاوہ لحمی اجزاء چکنائی اور نشاستہ دار اجزاء ہوتے ہیں ۔ حیاتین الف (وٹامنA)قلیل مقدار میں جبکہ حیاتین ج (وٹامنC)کثیر مقدار میں ہوتی ہے۔ہر ایک چھٹانک لیموں میں 32غذائی حرارے موجود ہوتے ہیں۔لیموں کے کیمیائی تجزیہ کے مطابق اس میں حیاتین ج 30ملی گرام،کیلشیئم20گرام،فاسفورس 14ملی گرام کے علاوہ سٹرک ایسڈ جس قدر لیموں میں ہوتا ہے کسی اور مشروب میں نہیں ہوتا۔ قدیم اطباء نے اس کی چند صفات معلوم کرکے اس کی سکنجبین بناڈالی جو ایک خوش ذائقہ ،فرحت بخش اور لذیذ پھل کے طور پر استعمال ہوتی ہے ۔مگر لیموں ایک خوش ذائقہ صحت بخش پھل ہونے کے ساتھ ساتھ مفید دوائی غذا بھی ہے اور مرض یر قان جس کے علاج میں ایلوپیتھی سسٹم آف میڈیسن ناکام ہے،کا شفاء بخش علاج بھی ہے۔لیموں کا چھوٹا سا سنہری پھل نہ صرف شفائی اثرات سے مالا مال ہے بلکہ صحت وتوانائی میں بھی اپنا جواب نہیں رکھتا ۔امراض کے خلاف سب سے موٴثر ہتھیار ،قوت مدافعت ہے۔ لیموں کا استعمال اس وقت ��و مضبوط بناتا ہے اور خون کے سرخ ذرات پیدا کرنے میں بھی اہم کردار کا حامل ہے۔آج کل نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں چہرے پر پھوڑے پھنسیاں پیدا ہونے کی شکایات ہیں۔یہ کیل دانے چہرے کے حسن کو متاثر اور شکل کو بدصورت بنا دیتے ہیں۔جس سے نوجوانوں میں نفسیاتی ناگواری کا احساس ہوتا ہے ۔ان کیل دانوں اور خارش کا سبب عموماً فساد خون ہے۔نوجوان نسل ان سے نجات کے لئے اور جلد کے نکھار کے لئے کریموں کا بھر پور استعمال کرتی ہے مگر وہ نہیں جانتے کہ قدرت نے رنگت نکھارنے، رنگ کاٹنے کے لئے اس چھوٹے سنہری پھل میں کس قدر شفاء بخشی رکھی ہے ۔لیموں کا استعمال جلد نکھارتا ہے ،خون کے فساد ختم کرکے خون صاف کرتا ،پھوڑے ،پھنسیاں ختم کرتا اور داغ دھبوں کو صاف کرتاہے۔مصفی خون ہونے کے علاوہ لیموں قاتل جراثیم بھی ہے،اس کا استعمال تیزابی مادوں کو ختم کرتا ہے ۔صفراوی امراض کا تو لیموں تیر بہدف علاج ہے اور اسی وجہ سے ملیریا بخار میں مفید ہے ۔لیموں کا عرق گلاب میں ملا کر چہرے پر لگانے سے داغ دھبے صاف ہوجاتے ہیں،لیموں کی مالش چہرے کی جلد میں نکھار پیدا کرتی ہے۔موسم برسات میں جب ذرا پیٹ بھر کر کھانا کھانے سے جی متلاتا ہے اور اسہال لگ جاتے ہیں تو ایسے میں لیموں کے رس کو پانی میں ملا کر پینا مفید تدبیر ہے ۔نئی ماؤں کو جی متلانے میں لیموں چوسنے کو دیاجا تاہے۔ لیموں کے طبی استعمالات چہرے کے داغ دھبوں کے لئے لیموں کے دو ٹکڑوں پر صابن اچھی طرح مل کرانہیں چہرے پر ملیں اور نیم گرم پانی سے منہ دھوئیں ،حساس جلد والے احتیاط سے کام لیں ۔ان کے لئے بہتر ہے کہ لیموں کا رس برابر گلیسرین اور عرق گلاب ملا کر استعمال کریں۔ لمبے کالے اور چمکیلے بال لیموں کے عرق میں خشک آملے کا سفوف بنا کر ملا کر بالوں کی جڑوں میں لگانا فائدہ مند ہے۔ موٹاپا موٹاپے کوختم کرنے کے لئے آج کل سلمنگ سینٹروں کا زور ہے۔اشتہاری لوگ موٹاپے کے نام پر بڑے بڑے اشتہارات کے ذریعے لوگوں کو خوب لوٹ رہے ہیں مگر کم لوگ جانتے ہیں کہ لیموں موٹاپے کے لئے شافی تدبیر ہے ۔مصر میں نوجوان لڑکیاں عموماً چھرئے اور نازک اندام بدن کی ہوتی ہیں ۔جس کی وجہ ان کا لیموں کا استعمال کرنا ہے ۔موٹاپا دور کرنے اور اسمارٹ رہنے کے لئے صبح نہار منہ وسہ پہر آدھا آدھا لیموں کا رس نیم گرم پانی ایک گلاس میں استعمال کرنا مفیدہے۔البتہ لیموں کو استعمال سے قبل آگ پر ہلکا سا سینک لیاجا ئے،لیموں کے چھلکوں کو چہرے کے داغوں پر رگڑنا مفید ہے۔ نزلہ گرنا یہ ایک ہٹیلا مرض ہے اور مشکل سے جاتا ہے ۔ماحولیاتی وصفائی آلودگی نے اس مرض میں بہت اضافہ کر دیا ہے ۔لوگ اس کو لا علاج خیال کرتے ہیں ،ایسے حضرات صبح ایک لیموں ،ایک گلاس پانی میں نچوڑ کر پی لیا کریں۔فائدہ ہو گا۔ لیموں کا استعمال لیموں کا عام استعمال کر نا یعنی کھانے کے ساتھ پیاز پر نچوڑ کر کھانا ،خون کی کمی،بھوک میں اضافہ ،دل گھبراہٹ ،تیز دھڑ کن ،فساد خون کے امراض ،کیل دانے ،داغ دھبے،پھوڑے ،پھنسیوں ،مسوڑھوں کی سوجن ،خون آنا، بدہضمی ،جی متلانے میں فائدہ ہوتاہے۔ لیموں کے مضر اثرات ہر چیز میں اعتدال ہی مناسب راہ عمل ہے، ��س طرح لیموں کا استعمال بھی اعتدال میں رہ کر کرنا چاہئے ۔لیموں کا تیز محلوں دانتوں کے لئے مضر ہے ،لیموں کے زیادہ استعمال سے پٹھوں میں درد ہو سکتاہے۔ سکنجبین لیموں لیموں کی سکنجبین بنا کر موسم برسات میں استعمال کی جاتی ہے جو موسمی تیزابیت ،معدہ کی اصلاح اور صفرا کے لئے مفیدہے۔یرقان میں اس کی دو ا استعمال ہوتی ہے اور اس موسم میں ہونے والے ملیریا بخار میں مفید ہے ۔موسم برسات میں مشروبات سے ہاتھ کھینچ لیا جاتاہے،موسم میں نمی ہوتی ہے ایسے میں سکنجبین بہت مفیدہے ،اس سکنجبین میں اپنی ضرورت کے مطابق چینی ملائی جاسکتی ہے۔ The Benefits of Small Lemons Greatly Source UrduPoint. Read the full article
#healthdefinition#healthdepartmentjobs2019#healthinsurance#healthtipsinurdu#healthyfoodlist#EnvironmentalTerrorismandGreenJihad#HealthBenefitsofFruits#MonsoonSeasonandPandemicDiseases#TheBenefitsofSucculentPeach
0 notes
Text
کولیسٹرول کیا ہے، آپ اپنا کولیسٹرول کیسے کم کر سکتے ہیں؟
زندگی مزے سے گزر رہی تھی، چٹ پٹے مرغن کھانے‘ پھجے کے سری پائے‘ گردے کپورے‘ مغز‘ نہاری اور ناشتے میں انڈا اور مکھن کھانا معمول تھا۔ اس طرح کے کھانے اور کھابے کھانا مزیدار لگتا، خود کھانے کے ساتھ اور دوسروں کو کھلانا بہت اچھا لگتا۔ صحت بھی خوب تھی۔ ڈاکٹر کے پاس کم کم جانا ہوتا۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے سینے میں گھٹن محسوس ہوئی۔ ڈاکٹر کے پاس پہنچے ECG اور دوسرے ٹیسٹ ہوئے تو پتہ چلا کہ خون میں کولیسٹرول کی مقدار کافی حد تک بڑھ چکی ہے۔ ECG میں بھی گڑبڑ ہے۔
خون میں کولیسٹرول بڑھنا خاصا تشویشناک ہوتا ہے اس کے بڑھنے اور مضمرات کے بارے میں ذہن میں کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ جن دوستوں کا کولیسٹرول لیول زیادہ ہو چکا ہے اور جو لوگ مرغن غذاؤں کے زیادہ شوقین ہیں، ذیل میں ان سب کیلئے کولیسٹرول کے بارے میں تمام بنیادی معلومات دی جا رہی ہیں تاکہ وہ اپنے طرز زندگی میں تھوڑی سی تبدیلی لا کر اور کھانے پینے میں احتیاط کر کے، اپنا کولیسٹرول لیول کم کر کے صحت مند زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں۔
کولیسٹرول کیا ہے؟ کولیسٹرول چربی کی ایک قسم ہے جس کی مناسب مقدار کا جسم میں ہونا ضروری ہے۔ ایک نارمل آدمی کے جسم میں کولیسٹرول کی مقدار تقریباً 100 گرام یا ا س سے تھوڑی سی زیادہ ہوتی ہے۔ کولیسٹرول جسم میں بنتا اور جمع ہوتا ہے، اس کی مناسب مقدار جسم میں ضروری ہارمونز پیدا کرنے کے لیے اور نظام ہضم میں مدد دینے کے لیے ضروری ہے۔ مختلف قسم کی خوراک مثلاً گوشت، انڈے، دودھ، مکھن اورگھی وغیرہ میں کولیسٹرول کی خاصی مقدار ہوتی ہے۔ اسی طرح کی غذا کھانے سے خون میں کولیسٹرول کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ جب خون میں کولیسٹرول کی مقدار حد سے بڑھ جائے تو پھر یہ خون کی نالیوں کے اندرونی حصے میں جمع ہو کر اور چکنائی کی تہیں بنا کر خون کے نارمل بہاؤ میں رکاوٹ پیدا کر کے ہارٹ اٹیک کا سبب بن سکتا ہے جس سے فوری موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
کولیسٹرول کی اقسام کولیسٹرول خون میں گردش کرتا ہے۔ جسم میں موجود چکنائی اور لحمیات Protein کے چھوٹے چھوٹے مرکبات کولیسٹرول کو اس کے استعمال کی جگہ پر لے جاتے ہیں۔ ان مرکبات کو Lipo proteins کہتے ہیں۔ ان کی مندرجہ ذیل اقسام ہیں: (1) Very Low Denity Lipoproteins (VDVL) (2) Low Density (LDL) Lipoproteins (3) High Density Lipoproteins (HDL)
LDL اور VLDL جسم میں موجود کولیسٹرول کو جسم کے مختلف حصوں تک پہنچاتے ہیں جبکہ HDL اصل میں خون میں موجود کولیسٹرول کو کم کرنے کا کام کرتے ہیں کیونکہ یہ جسم سے زیادہ کولیسٹرول کو جگر تک پہنچاتے ہیں جہاں سے وہ صفرا وغیرہ بنانے کے کام آتا ہے۔ اگر خون میں LDL اور VLDL کی مقدار زیادہ ہو گی تو پھر لازماً کولیسٹرول کی زیادہ مقدار خون میں شامل ہو کر اس کی (Arteries) وریدوں یا شریانوں کو تنگ کرنے کا باعث بنے گا۔ مرغن غذائیں یا کولیسٹرول والی زیادہ خوراک کھانے سے جسم میں مختلف قسم کی چربی Triglycerdies بھی زیادہ ہو جاتی ہے جس کی و جہ سے خون کی نالیوں میں Clot آنے کا خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔
کولیسٹرول کا لیول جسم میں کولیسٹرول اور مختلف قسم کے Lipoproteins اور چکنائی کی مقدار معلوم کرنے کیلئے خون کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ اسے Lipid profile کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ٹیسٹ کرانے کے لیے کم از کم بارہ گھنٹے بھوکا رہنا ضروری ہے۔ تبھی خون میں کولیسٹرول وغیرہ کی مقدار کا صحیح پتہ چلتا ہے۔ ایک تندرست آدمی کا Lipid profile مندرجہ ذیل ہونا چاہیے۔
کولیسٹرول 200 – 120 ملی گرام/ ڈیسی لٹر HDL 41-52 ملی گرام/ ڈیسی لٹر LDL 108-188 ملی گرام/ ڈیسی لٹر ٹرائی گلیسرائیڈز 150ملی گرام تک
خون میں کولیسٹرول کی زیادتی کے مضمرات خون میں کولیسٹرول کی زیادتی کے باعث دل کے دورے کے امکانات 10-8 گنا بڑھ جاتے ہیں۔ خون میں کولیسٹرول زیاہ ہونے کے ساتھ ساتھ اگر سگریٹ نوشی یا شراب نوشی کی بھی لت ہو تو پھر ہر وقت دل کے دورے کا خطرہ ہوتا ہے۔ زیادہ کولیسٹرول اور ٹرائی گلیسرائیڈز دل کو خون پہنچانے والی نالیوں میںCLOT بن کر دل کو خون کی سپلائی بند کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں دل کے دورے سے واپسی کے تمام امکانات معدوم ہو جاتے ہیں۔ موٹاپے کے ساتھ اگر ذیابیطس بھی ہو تو دل کے دورے کے امکانات اور بھی بڑھ جاتے ہیں۔
خون میں کولیسٹرول کم کرنے کا آسان پروگرام کولیسٹرول کی خون میں زیادتی نہ صرف خطرناک ہے بلکہ خون کی شریانوں میںPlaque یا Clot بن کر جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ خوش آئند بات یہ ہے کہ طرز زندگی Life Style میں مثبت تبدیلی اور کھانے پینے میں اعتدال کر کے نہ صرف اس پر قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ نارمل زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ موٹاپے کی وجہ سے بھی خون میں کولیسٹرول میں زیادتی ہوتی ہے۔ جتنا وزن زیادہ ہو گا اتنا ہی کولیسٹرول بڑھنے کا امکان زیادہ ہو گا۔ ایک اندازے کے مطابق ہر ایک کلوگرام زیادہ وزن کیلئے جسم کو تقریباً 22 ملی گرام زیادہ کولیسٹرول روزانہ پیدا کرنا پڑتا ہے۔ یعنی اگر کسی دوست کا وزن نارمل (وزن) سے 20 کلو گرام زیادہ ہے تو اس کا جسم روزانہ 440 ملی گرام زیادہ کولیسٹرول بنائے گا۔
اس لئے ضرورت ہے کہ کولیسٹرول کم کرنے کیلئے سب سے پہلے موٹاپے کو کنٹرول کیا جائے۔ علاوہ ازیں کولیسٹرول کم کرنے کے لئے ایسی غذا سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے جس میں کولیسٹرول کی زیادتی ہو۔ زیادہ چکنائی والی اور تمام مرغن غذاؤں سے لازمی طور پر پرہیز کیا جائے۔ کولیسٹرول صرف جانوروں سے حاصل کی جانے والی خوراکوں میں پایا جاتا ہے۔ اچھی صحت کے لئے ایک دن میں ایک شخص کو 100 ملی گرام سے زیادہ کولیسٹرول نہیں کھانا چاہیے۔ جسم میں کولیسٹرول کو کم رکھنے کیلئے جن غداؤں میں زیادہ کولیسٹرول ہو ان سے مکمل پرہیز کریں۔ قارئین کی دلچسپی اور رہنمائی کے لئے ذیل میں مختلف کھانوں میں کولیسٹرول کی مقدار کا چارٹ دیا جا رہا ہے تاکہ اس کے مطابق خوراک کا استعمال کیا جا سکے۔
غذا مقدار کولیسٹرول
پھل اور سبزیاں کوئی بھی مقدار 0 ملی گرام دودھ (بالائی کے بغیر ) 250 ملی لیٹر 5 ملی گرام فرنچ فرائیز 185 گرام 20 ملی گرام ہیمبرگر 1 عام سائز 26 ملی گرام دودھ (فل کریم) 250 ملی لیٹر 34 ملی گرام مکھن ایک چمچ 35 ملی گرام گھی ایک چمچ 45 ملی گرام مچھلی درمیانی 60 ملی گرام مرغی کا گوشت 190 گرام 65 ملی گرام بڑا یا چھوٹا گوشت 190 گرام 95 ملی گرام ڈرم سٹک (چکن) 90 گرام 100 ملی گرام آئس کریم ایک کپ 110 ملی گرام فروٹ کیک ایک سلائس 165 ملی گرام انڈہ 1 گرام 225 ملی گرام بیف / چکن لیور 160 گرام 250 ملی گرام انڈے اور فرائڈ نوڈلز ایک پلیٹ 270 ملی گرام
کولیسٹرول کم رکھنے کیلئے مندرجہ ذیل ہدایات پر عمل کریں: (1) اپنی خوراک میں زیادہ کولیسٹرول والی غداؤں کو بالکل ختم یا کم کر دیں ٭ انڈوں کا استعمال بند کر دیں یا صرف انڈے کی سفیدی لیں۔ ٭ گوشت کا استعمال کم کریں چربی والا گوشت بالکل استعمال نہ کریں۔ ٭ کریم، مکھن، چیز، کریم والے دودھ اور دیسی گھی کھانے سے پرہیز کریں۔ ٭ گردے، کپورے، کلیجی، مغز، سری پائے اور نہاری وغیرہ کھانے سے اجتناب کریں۔
(2) سبزیوں کا استعمال زیادہ کریں مختلف تازہ سبزیاں اور پھل بہترین غذا ہیں اس لئے سبزیوں اور پھلوں کا استعمال زیادہ کرنا چاہیے کیونکہ پھلوں اور سزیوں میں کولیسٹرول بالکل نہیں ہوتا۔ ویسے بھی سبزیاں کھانے سے آدمی زیادہ صحت مند توانا اور سمارٹ رہتا ہے۔ اس لئے تندرست اور چاق و چوبند رہنے کیلئے زیادہ سے زیادہ پھل اور سبزیاں استعمال کریں کھانے میں سادہ سلاد اور ریشے والی سبزیاں زیادہ شامل کریں۔ مختلف تجربات سے ثابت ہو چکا ہے کہ روزانہ ناشتے میں لہسن اور کچی گاجروں کا استعمال بھی کولیسٹرول کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ روزانہ کچی گاجریں کھانے سے معدہ بھی ٹھیک رہتا ہے۔ بھوک بھی زیادہ نہیں لگتی اور کولیسٹرول کی مقدار بھی ٹھیک رہتی ہے۔
(3) چکنائی سے مکمل پرہیز (i) خون میں کولیسٹرول اور چربی یعنی ٹرائیگلسٹرائیڈز کی مقدار کم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ غذا میں زیادہ چکنائی کی مقدار بالکل ختم کر دی جائے، ہر قسم کے گھی اور مکھن سے مکمل پرہیز کیا جائے، پورے جسم کو چربی کی ضرورت بہت کم ہوتی ہے۔ اگر جسم میں چربی کی مقدار پہلے ہی زیادہ ہو تو اس کی بالکل ضرورت نہیں ہوتی۔ اس لئے ضروری ہے کہ کھانے میں چکنائی کی مقدار بالکل کم یا ختم کر دیں اس کیلئے مندرجہ ذیل ہدایات پر عمل کریں۔ چکنائی کا استعمال کرنے کے لئے ہر قسم کی چکنائی والی اشیاء کھانا بند کر دیں۔
(ii) صرف غیر سیر شدہ Unsaturated تیل مثلاً مکئی کا تیل سویا بین تیل زیتون کا تیل سورج مکھی کا تیل اور مونگ پھلی کا تیل شامل ہیں۔ زیتون کا تیل بہت فائدہ مند ہے۔ اس کا استعمال کولیسٹرول کم کرنے کیلئے مسلمہ ہے۔ عرب میں زیادہ لوگ اس کا استعمال کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان علاقوں میں ہارٹ اٹیک بہت کم ہوتے ہیں۔ عربوں کے ہر کھانے اور ناشتے میں زیتون کا تیل استعمال کیا جاتا ہے۔ قرآن پاک میں بھی اللہ نے زیتون کی قسم کھائی ہے۔ یوں زیتون کے تیل کی افادیت مسلمہ ہے۔
(iii) کولیسٹرول کم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ بازار سے کھانے نہ کھائے جائیں اس کے علاوہ مختلف قسم کی مٹھائیاں میٹھے بسکٹ کیک برگر ہیمبرگر وغیرہ کھانے سے مکمل پرہیز کریں۔ اس کے علاوہ مختلف قسم کے کولڈ ڈرنکس کافی اور کیفین والے دوسرے مشروبات لینے سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔ مختلف قسم کی غذا کو اس کی اصلی حالت میں استعمال کرنا چاہیے۔ اَن چھنا آٹا بھی مفید ہے۔
(vi) ریشے دار غذائیں کھانے سے بھی فائدہ ہوتا ہے۔ خوراک میں ریشے کی مقدار کولیسٹرول ا ور چربی کو خون میں جذب ہونے سے روکتی ہے اور یوں خون میں کولیسٹرول کا لیول مناسب حد تک رہتا ہے۔
(4) سگریٹ نوشی سے مکمل پرہیز کریں: سگریٹ نوشی بھی ایک طرح سے کولیسٹرول زیادہ کرنے کا سبب بنتی ہے کیونکہ سگریٹ نوشی خون میں شامل ہو کر HDL کو کم کرنے کا سبب بنتی ہے۔ خون میں شامل HDL اصل میں خون میں کولیسٹرول کم کرنے کا سبب بنتا ہے اس لئے اس کی موجودگی ضروری ہے۔ اسی وجہ سے سگریٹ نوشی سے پرہیز بہت ضروری ہے۔
(5) شراب نوشی سے بچاؤ سگریٹ نوشی کی طرح شراب نوشی بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ خون میں موجود الکوحل خون سے چکنائی دور کرنے کے عمل میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے جس کے نتیجہ میں خون میں چکنائی اور کولیسٹرول کی مقدار زیادہ ہو جاتی ہے اس لئے ضروری ہے کہ کولیسٹرول کم کرنے کیلئے غذائی احتیاطوں کے ساتھ ساتھ سگریٹ نوشی اور شراب نوشی سے بھی پرہیز کیا جائے۔ ایک تحقیق کیمطابق صرف غذا میں مناسب تبدیلی کر کے 2،3 ماہ کے اندر تقریباً 60-50 ملی گرام کولیسٹرول کم کیا جا سکتا ہے۔ یعنی 6 ماہ کی احتیاط سے کولیسٹرول میں 150-100 ملی گرام تک کی کمی کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ خوراک میں جو کا آٹا Oatmeal پھلیاں، کریم نکلی ہوئی دہی کا استعمال بھی فائدہ مند ہے۔ روزانہ صبح لہسن کا استعمال کولیسٹرول کم کرنے میں مدد گار ہوتا ہے۔ بعض تجربات کے مطابق روزانہ ایک گاجر کا استعمال بھی فائدہ مند ہے۔
(6) لائف سٹائل میں تبدیلی: کولیسٹرول کم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ لائف سٹائل میں تبدیلی کی جائے۔ مستقل مزاجی کے ساتھ کھانے میں تبدیلی اور اس کے ساتھ مثبت سوچ بھی کولیسٹرول کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اسکے علاوہ مندرجہ ذیل خصوصی ہدایات کو بھی پیش نظر رکھیں۔
(i) اللہ پہ پورا یقین رکھیں، مثبت سوچ اپنائیں۔ یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ یقین کامل اور مثبت سوچ کے ساتھ آپ ہر قسم کے مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔ رسول پاک ﷺ کی تعلیمات کے مطابق اگر کھانا بھوک رکھ کر کھایا جائے تو بہت سی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ضروری ہے کہ ذہن کو تفکرات سے خالی رکھا جائے۔ ذہنی ا نتشار، دماغی الجھنوں سے بچنے کی کوشش کی جائے۔ روحانی بالیدگی کے لئے پانچ وقت نماز کی پابندی کی جائے۔
(ii) یاد رکھیں کہ کولیسٹرول کی خون میں زیادتی بڑا مسئلہ نہیں۔ اسے کم کرنے کا حل آپکے پاس ہے۔ طرز زندگی میں تبدیلی کر کے، مثبت سوچ اپنا کر، سادہ غذا استعمال کر کے آپ نہ صرف خون میں کولیسٹرول کو بڑھنے سے روک سکتے ہیں بلکہ دوسری بیماریوں سے بھی بچ سکتے ہیں۔
(iii) ہمیشہ بھوک رکھ کر کھانا کھائیں۔ اس زریں اصول پر عمل کریں کہ کھانا صرف زندہ رہنے کے لیے کھایا جائے نہ کہ صرف کھانے کے لیے زندہ رہا جائے۔ موٹاپے سے صرف اس صورت میں بچا جا سکتا ہے۔ موٹاپا کولیسٹرول میں زیادتی کا تو سبب بنتا ہے اسکے ساتھ ساتھ مزید کئی بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔ اس لیے کھانا ہمیشہ کم کھایا جائے بالخصوص رات سونے سے پہلے تو بہت ہی ہلکا پھلکا کھانا لیا جائے تاکہ نظام انہضام اور جسم کے دوسرے افعال پر خوامخواہ بوجھ نہ پڑے۔ اس سلسلے میں حضورﷺ کی حدیث مبارکہ کو ذہن میں رکھیں کہ ہمیشہ بھوک رکھ کر کھانا کھائیں۔ کھانا کھاتے وقت پیٹ کے تین حصے کر لیں۔ ایک کھانے کے لیے ایک پانی کے لئے اور ایک ہوا کے لیے۔ اس حساب سے کھانا کھائیں گے تو موٹاپا ہو گا نہ کولیسٹرول بڑھے گا اور نہ دوسری بیماریاں ہوںگی۔
(iv) روزانہ ورزش کو معمول بنائیں، یہ آدمی کو چست و توانا رکھتی ہے۔ ورزش خواہ کسی قسم کی ہو، اگر باقاعدگی کے ساتھ کی جائے تو یہ موٹاپا کم کرنے کے ساتھ ساتھ آدمی کو صحت مند رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے اور اس سے لازماً خون میں کولیسٹرول کی مقدار بھی کم ہو سکتی ہے۔
(v) ذیابیطس، بلڈپریشر اور ہارٹ اٹیک کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر ان دونوں بیماریوں کا صحیح علاج نہ کروایا جائے تو دل کے دورے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ اگر آپ کو کسی قسم کی کوئی اور بیماری ہے تو ڈاکٹر کے مشورہ سے اسکا مناسب علاج کیا جائے۔
ڈاکٹر آصف محمود جاہ (ستارہ امتیاز)
0 notes
Text
ڈائٹ مشروبات موٹاپے میں اضافے کا سبب بن سکتی ہیں تحقیق
ڈائٹ مشروبات موٹاپے میں اضافے کا سبب بن سکتی ہیں تحقیق
عام طور پر ڈائٹ سافٹ ڈرنکس کے حوالے سے سمجھا جاتا ہے کہ ان میں چینی کم ہوتی ہے اور یہ وزن میں اضافہ نہیں کرتیں تاہم حال ہی میں ایک نئی تحقیق میں اس کی نفی ہوئی ہے۔بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ مصنوعی مٹھاس والے مشروبات یا ڈائٹ سافٹ ڈرنکس موٹاپے سے بچاؤ میں مددگار ثابت نہیں ہوتیں بلکہ جسمانی وزن میں اضافے کا باعث بن سکتی ہیں۔سدرن کیلی فورنیا یونیورسٹی…
View On WordPress
0 notes
Text
صحت مند غذا: دل کی بیماری ، بی پی ، موٹاپا ، ذیابیطس سے کیسے دور رہیں؟ جواب آپ کے کھانے میں ہے۔
صحت مند غذا: دل کی بیماری ، بی پی ، موٹاپا ، ذیابیطس سے کیسے دور رہیں؟ جواب آپ کے کھانے میں ہے۔
“تمہارا کھانا تمہاری دوا اور دوا تمہاری خوراک بننے دو” ہپوکریٹس (400 بی سی)
یہ الفاظ اکثر بہت سے لوگوں نے دہرائے ہیں لیکن ان پر عمل نہیں کیا گیا۔ غذائیت ایک سائنس ہے نہ کہ عقیدہ کا نظام۔ طبی نیوٹریشن تھراپی۔ غذائیت کی تشخیص ، تھراپی اور مشاورت کے ساتھ بعض دائمی حالات کا علاج کرنے کے لیے ایک ثبوت پر مبنی طبی نقطہ نظر ہے۔
فی الحال ، اسے جدید ادویات کے ساتھ ساتھ ایک معاون تھراپی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن غذائیت اتنی متحرک ہے کہ ، اگر صحیح طریقے سے اس پر عمل کیا جائے تو ، یہ کچھ کارڈیو میٹابولک بیماریوں کو تبدیل کرنے کے قابل بھی ہے۔ ایک ایسا کارنامہ جو ابھی تک جدید طب نے حاصل نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیں: اپنے آپ کو فٹ رکھنے اور شکل میں رہنے کے چار آسان طریقے۔
شواہد کا بڑھتا ہوا جسم ظاہر کرتا ہے کہ دائمی سوزش بہت سی عام بیماریوں کا سبب بنتی ہے اور آگے بڑھاتی ہے۔ سوزش اب حالات کی ایک وسیع رینج کے مرکز میں سمجھی جاتی ہے ، سے۔ مرض قلب اور ہائی بلڈ پریشر موٹاپا اور ذیابیطس الزائمر اور پارکنسنز کی بیماری سے لے کر ڈپریشن ، کینسر اور گٹھیا تک۔ در حقیقت ، تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ تمام دائمی بیماریوں میں ایک اہم سوزش کا جزو ہوتا ہے۔
خاموش سوزش کی بڑی وجہ ان تبدیلیوں کا نتیجہ ہے جو پچھلے پچاس سالوں میں ہماری خوراک کی فراہمی میں رونما ہوئی ہیں۔
سوزش سے نمٹنے کے لیے سب سے طاقتور ٹولز میں سے ایک فارمیسی سے نہیں بلکہ گروسری سٹور سے آتا ہے۔ سب سے طاقتور دوا جو آپ استعمال کر سکتے ہیں وہ کھانا ہے جو آپ ہر روز کھاتے ہیں۔
صحیح سوزش والی خوراک کا انتخاب کریں ، اور آپ بیماری کے خطرے کو کم کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ مسلسل غلط کو چننے سے ، آپ سوزش کی بیماری کے عمل کو تیز کر سکتے ہیں۔
کلید ایک جسمانی حالت بنانا ہے جس میں خوراک سے متاثر ہارمونز (خاص طور پر انسولین) زیادہ سے زیادہ صحت کے مطابق حدود میں رکھے جاتے ہیں۔ اس کا مقصد انسولین کی سطح 5 mU/ml سے کم رکھنا ہے۔
اینٹی سوزش والی غذا میں بہت سارے پھل اور سبزیاں ، سارا اناج ، پودوں پر مبنی پروٹین (جیسے پھلیاں اور گری دار میوے) ، فیٹی مچھلی ، اور تازہ جڑی بوٹیاں اور مصالحے شامل ہیں۔
سوزش سے پاک غذا پر عمل کرنے کے اقدامات:
دن میں 50 گرام سے کم کاربوہائیڈریٹ کھائیں۔
ایسی غذا کھائیں جس میں کاربوہائیڈریٹ کم اور سبزیاں اور چربی زیادہ ہوں۔
صرف صحت مند چربی کھائیں ، اور کوئی ٹرانسفیٹ نہیں۔
ہفتے میں تین بار مچھلی کھائیں۔
جتنی بار ممکن ہو نامیاتی کھائیں۔
ہفتے میں کم از کم تین بار گری دار میوے کھائیں۔
گندم اور دودھ کی مصنوعات سے پرہیز کریں۔
سلاد اور سبزیاں کثرت سے کھائیں۔
روزانہ کم از کم 8 گلاس پانی پیئے۔
پودوں کے تیل کو گرم نہ کریں ، اس کے بجائے سرسوں ، گھی یا ناریل کا تیل پکائیں۔
ہلدی ، زیرہ اور لہسن جیسے مصالحے استعمال کریں۔
بہت زیادہ خمیر شدہ کھانے کھائیں۔
جدید سوزش والی خوراک اور کھانے کی اشیاء جیسے پروسس شدہ گوشت ، شوگر ڈرنکس ، گلوٹین ، پروسیسڈ نمکین ، روٹی اور کیک ، سفید چینی اور نرم پنیر سے دور رہیں۔
ہفتے میں چند بار وقفے وقفے سے روزے کا استعمال دائمی سوزش کو کم کرنے کا ایک مؤثر طریقہ ہے۔ دائمی سوزش کو کم کرنا کامیاب عمر بڑھانے کے لیے ضروری ہے اور آپ کے کارڈیو میٹابولک بیماری کے خطرے کو کم کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیسے چیک کریں کہ آپ کی سبزیوں میں ملاوٹ ہے یا نہیں۔ غذا کے علاوہ ، جسم میں بڑھتا ہوا زہریلا بوجھ ، ورزش کی کمی ، ایپی جینیٹک اثرات ، ہارمونز کی کمی ، ناکافی اہم غذائی اجزاء ، اور ضرورت سے زیادہ ذہنی جسمانی دباؤ سب خاموش سوزش اور دائمی بیماری میں اضافہ کریں گے۔ لہذا ، انٹیگرل پرسنلائزڈ نیوٹریشن پروگرام بڑھاپے کو سست کرنے اور اپنی لمبی عمر کو زیادہ سے زیادہ کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔
صحیح غذائیت کی حکمت عملی کو چارٹ کرنے کا طریقہ: ذاتی تغذیہ افراد کی غذائیت کی تاریخ کو جانتا ہے تاکہ کھانے کے کسی بھی ممکنہ محرکات کی نشاندہی کی جاسکے اور غذائیت کے منصوبے پر کام کیا جاسکے جو ماحولیاتی اور نفسیاتی عوامل دونوں کو مدنظر رکھتا ہے۔ یہ ایک انفرادی ، ذاتی ، ٹارگٹڈ ، جامع ، جامع ، غذائیت سے متعلق مشورہ ہے جو ہر قسم کی بیماری/ بیماری کو گرفتار کرنے اور اس کا علاج کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
ذاتی تغذیہ موٹاپے ، کارڈیو میٹابولک امراض سے لے کر عوارض کے پورے گلدستے کے انتظام اور علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے (ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر ، دل کی بیماری) ، آٹو مدافعتی امراض جیسے رمیٹی سندشوت ، ایک سے زیادہ سکلیروسیس ، ہارمونل عدم توازن جیسے پی سی او ڈی ، اعصابی امراض جیسے الزائمر کی بیماری اور آٹزم۔
یہ بھی پڑھیں: آپ کے مدافعتی نظام کمزور ہونے کی علامتوں کو کیسے تلاش کریں۔
شخص مخصوص ٹیسٹ سے گزرتا ہے جیسے آنتوں کی صحت اور سوزش کے لیے مارکر ، کھانے کی عدم برداشت اور الرجی ، صحیح غذائیت کے تھراپی تک پہنچنے کے لیے مائکرو نیوٹریٹینٹ کی کمی۔ یہ تمام ٹیسٹ سادہ ہیں اور خون کے چھوٹے نمونے کے ساتھ کئے جا سکتے ہیں۔ گٹ کی صحت اور سوزش کو ختم کرنے والی غذا پر عمل کرکے اور خمیر شدہ کھانوں کا استعمال کرکے درست کیا جاسکتا ہے جن میں صحت مند بیکٹیریا ہوتے ہیں جو آنت کے مائکرو بایوم کو بحال کرنے میں مدد کرسکتے ہیں۔
شخصی تغذیہ جینیاتی نقشہ جات اور جینوم کی ترتیب کو بھی جانتا ہے تاکہ کسی شخص کی جینیاتی پیش گوئی کو کسی خاص بیماری اور ہدف شدہ غذائیت کو سمجھا جا سکے تاکہ شناخت شدہ جینیاتی حالت کو متوازن بنایا جا سکے۔ نیوٹری جینومکس کسی شخص کے جینوں کا مطالعہ ہے اور کھانے کے ساتھ اس کا باہمی تعلق مثلا for۔ کچھ لوگ کیفین کے سست میٹابولائٹس ہوسکتے ہیں یا کولیسٹرول کو مؤثر طریقے سے پروسیس نہیں کرسکتے ہیں یا کسی خاص مائکرو نیوٹرینٹ (فولیٹ ، بی 12 ، ڈی 3) کو موثر طریقے سے جذب نہیں کرسکتے ہیں۔
ذاتی تغذیہ ان لوگوں کے علاقے اور فلاح و بہبود کو بہتر بنانے کا بھی ارادہ رکھتا ہے جو بیماری کا مقابلہ نہیں کر رہے ہیں لیکن زیادہ صحت مند ، صحت مند ، بیماریوں سے پاک ، پوری زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ یہ آپ کو اپنی کارکردگی ، توانائی کی سطح اور معیار زندگی کو بہتر بنانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
(مصنف سینئر کارڈیالوجسٹ اور اشلوک ہسپتال ، نئی دہلی کے ڈائریکٹر ہیں)
. Source link
0 notes