#مولانا جلال الدین رومی
Explore tagged Tumblr posts
Text
زمین پر سب سے خوبصورت جگہ تمہارے دل کا مرکز ہے، جہاں سے زندگی شروع ہوتی ہے۔
مولانا جلال الدین رومی
3 notes
·
View notes
Text
اہل دل کا علم اُن کا بوجھ اُٹھاتا ہے جب کہ اہل جسم کا علم خود اُن کے لیے بوجھ بن جاتا ہے۔🎀
مولانا جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ
0 notes
Text
مدح موسی ع توسط فرعون
مدح غیر مستقیم حضرت موسی ع توسط فرعون کین چه غلست ای خدا بر گردنم ورنه غل باشد کی گوید من منم زانک موسی را منور کردهای مر مرا زان هم مکدر کردهای زانک موسی را تو مهرو کردهای ماه جانم را سیهرو کردهای حضرت مولانا
#مولوی#رومی#تصوف و عرفان#مثنوی#عرفا#خانقاه#زندگی مولانا#مولانا جلال الدین محمد بلخی#مولانای روم#شخصیت مولوی#نور خدا#انوار الهی#برده#برده داری#انسان#بهشت من#زندگی من#افسردگی#عشق و هوس#هوس ران#هیبت#همت#عزت#شرافت#عمیق#احساس#دعا#دشت#سفر#سفیران
2 notes
·
View notes
Text
آفتاب آمد دلیلِ آفتاب گردلیلے باید ازوے رُخ متاب
رومی
#Rumi#Persian#Poetry#Jalāl ad-Dīn Muhammad Rūmī#جلالالدین محمد رومی#Jalāl ad-Dīn Muhammad Balkhī#جلالالدین محمد بلخى#Balkh#Afghanistan#مولانا جلال الدین محمد رومی#رومی#فارسی#شاعری
0 notes
Text
گہری بات
مولانا جلال الدین رومی فرماتے ہیں
جب تک دل ٹوٹے گا نہی تو روشنی کیسے داخل ہوگی
5 notes
·
View notes
Text
جلال الدین رومی, دنیا کا سب سے بڑا شاعر
جلال الدین رومی دنیا کے سب سے بڑے شاعر اور ان کی مثنوی معنوی تصوف کے موضوع پر سب سے اہم مثنوی ہے۔ ہمارے قومی شاعر علامہ محمد اقبال، جلال الدین رومی کو مرشد مانتے ہیں اور برملا کہتے ہیں:
رازِ معنی مرشد رومی کشود فکر من بر آستانش در سجود
ترجمہ:۱۔ اصل راز/معنی میرے مرشد رومی نے آشکار کئے ہیں، میری فکر ان کے آستانے پر سجدے کرتی ہے۔ رومی بلخ میں ۶۰۴ ھجری میں پیدا ہوئے ان کے والد شیخ بہاء الدین اس وقت کے بڑے روحانی علماء میں شمار ہوتے تھے اور ھزاروں عقیدت مند درس میں شامل ہوتے تھے۔ یہ خوارزم شاھی دور تھا اور علاؤ الدین خوارزم شاہ اس خطہ کے حکمران تھے۔ اس زمانے میں شیخ بہاء الدین نے بلخ سے رخت سفر باندھا اور سمرقند، بخارا، ایران، شام، عراق اور حجاز مقدس میں فریضہ حج کے بعد بالآخر قونیہ (ترکی) میں آباد ہوئے اور ایک عظیم درسگاہ کی بنیاد رکھی۔
شیخ بہاء الدین دوران مسافرت نیشاپور میں معروف صوفی شاعر شیخ فرید الدین عطار کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عطار نے اس بارہ سالہ ��چے (رومی) کو دیکھ کر کہا کہ اس بچے کی پیشانی پر بزرگی کے آثار رقم ہیں اور یہ دنیا میں بڑا نام پیدا کرے گا۔ نیز شیخ فرید الدین عطار نے اپنی مثنوی ''اسرار نامہ‘‘ رومی کو ھدیہ کی۔شیخ بہاء الدین کی وفات کے بعد مدرسہ/درس گاہ کا نظام مولانا جلال الدین رومی نے سنبھالا اور درس و تدریس میں مشغول ہو گئے، جہاں پر ایک روز مدرسہ کے تالاب کے کنارے علم کے موتی بکھیر رہے تھے کہ ایک مرد قلندر شمس تبریزی اچانک نمودار ہوا اور پاس جا کر پوچھنے لگا کہ : این چیست؟ (یہ کیا ہے؟) علوم ظاھری کے طالبان نے جواب دیا، جا بابا جا: این علمی است کہ تو نمی دانی (یہ وہ علم ھے جو تم نہیں جانتے) اور پھر اس مخدوب نے عجیب کام کیا اور کتابیں اُٹھا کر تالاب میں پھینک دیں ظاھر بین غُصّے کے عالم میں مست الست قلندر کو سخت سُست کہنے لگے اور کہا کہ یہ کیا کیا اور پھر شمس نے جب تالاب سے دھول اُڑائی اور خشک کتابیں نکال کر پیش کر دیں تو ایک عالم تحیر رومی اور ان کے طالبعلموں پر طاری ہو گیا اور گویا ھوئے:
این چیست؟ (یہ کیا ہے) اور پھر مخدوب گویا ھوا کہ: این علمی است کہ شمانمی دانید (یہ وہ علم ہے جو آپ نہیں جانتے) اور یہی جملۂ رومی کے احوال و شخصیت کو بدل گیا۔ رومی اپنے تمام علم و ہنر کے ساتھ شمس کے دست بستہ مرید اور عاشق ہو گئے اور پکار اُٹھے، ترجمہ: ۱۔ میں تیری خواہش میں رات دن بے قرار ہوں اور تیرے قدموں سے سر نہیں اٹھائوں گا۔ ۲۔ میں نے تو رات دن کو اپنی طرح مجنون کر دیا ہے اور میں نے رات دن کو رات دن کہاں رہنے دیا ہے۔ ۳۔ عاشقوں سے جان و دل کا تقاضا کیا جاتا ہے اور میں رات دن جان و دل کو نثار کرتا ہوں۔ ۴۔ جب سے تیرے عشق کے نغمے الاپنے شروع کیے ہیں میں کبھی چنگ ہوں اور کبھی تار۔ شمس تبریزیؒ کے فیض نے جلال الدین رومی کو وہ رفعت عطا کی کہ اس کی مثنوی معنوی اور دیوان شمس آسمان ادب پر روشن سورج کی طرح ہمیشہ کے لیے چمک اٹھے اور پیغام اس طرح پھیلا کہ رومی عشق و محبت اور انسانیت اور حریت کا استعارہ بن گیا۔
علامہ اقبال، رومی کی اسی آفاقیت اور شاعرانہ عظمت اور پیغام کے دلدادہ ہیں اور برملا کہتے ہیں:
چو رومی در حرم دادم ازان من ازو آموختم اسرار جان من
بہ دور فتنہ عصر کہن او بہ دور فتنہ عصر روان من
ترجمہ:۱۔ میں نے رومی کی طرح حرم میں اذان دی ہے اور اس سے اسرار جان (دل و روح) کے بھید سیکھے ہیں۔ ۲۔ پرانے زمانے کے فتنوں میں وہ (رومی) اور دور حاضر کے فتنوں میں میں (اقبال) صدائے حق بیان کرتا ہوں۔ رومی کی مثنوی کے چھبیس ہزار اشعار ہیں اور دیوان شمس تقریباً چھیالیس ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ مثنوی معنوی دراصل تصوف کے اسرار اور انسانی معاشرت پر محیط ایک مقدس صحیفے کی حیثیت رکھتی ہے اور جلال الدین رومی نے بانسری کا استعارہ روح انسانی کے لیے استعمال کیا ہے جو اپنی اصل سے جدا ہو گئی اور دوبارہ اپنے اصل کی طرف لوٹنا چاہتی ہے، ترجمہ: ۱۔ بانسری کی آواز سنو یہ کیسی کہانی/ حکایت بیان کر رہی ہے۔ یہ تو جدائیوں کی شکایت کر رہی ہے۔ ۲۔ جب سے مجھے جنگل سے کاٹا گیا ہے میری آواز سے (میرے نالوں سے) مرد و زن رو رہے ہیں۔ ۳۔ میں جدائی سے/ فراق سے چھلنی سینہ چاہتی ہوں جس کے سامنے میں عشق کے درد کو بیان کر سکوں۔ اِسی طرح دیوان شمس میں شمس سے دوری اور فراق کا وہ بیان ہے کہ اس ضمن میں کی گئی شاعری میں اس کا مقام بہت ہی بلند اور اعلیٰ مرتبے کا حامل ہے۔
دراصل رومی کا زمانہ تاتاری فتنے کے بعد کا زمانہ ہے جس میں انسانی معاشرہ بے عملی کا شکار ہو گیا تھا اور علماء و شعراء نے بھی خانقاہ نشینی اختیار کر لی تھی۔ اس پر آشوب دور میں رومی نے انسانوں کو عمل کی طرف راغب کیا۔ انسان کو انسانوں کی اشرف اخلاقی اور روحانی اقدار کی طرف بلایا اور وہ بے اعتباری دور کرنے کی کوشش کی جو انسانوں میں ایک دوسرے سے پیدا ہو چکی تھی۔ خود لب کھولے اوردوسروں کو لب کھولنے کی جرأت اور تشویق عطا کی، ترجمہ: ۱۔ لب کھولو کہ بہت ساری شیرینی/مٹھاس کی آرزو ہے اور چہرہ دکھاؤ کہ باغ اور گلستان کی آرزو ہے۔ ۲۔ میں ان سُست عناصر ساتھیوں سے تنگ آگیا ہوں۔ میں تو شیر خدا (علی ؑ) اور دستان کے رستم کی آرزو کر رھا ہوں۔ ۳۔ کہا گیا کہ جسے ہم تلاش کرتے ہیں وہ ملتا ھی نہیں، میں نے کہا کہ وہ جو تلاش نہیں کیا جا سکتا/جو نہیں ملتا میں تو اسی کا متلاشی ہوں۔ رومی کا یہی پیغام علامہ محمد اقبال تک آیا تو اقبال بھی متحیر ہو گئے اور رومی کو مرشد معنوی مان کر اس طرح گویا ہوئے:
شب دل من مایل فریاد بود خامشی از یاربم آباد بود
آن قدر نظارہ ام بیتاب شد بال و پر بشکست و آخر خواب شد
روی خود بنمود پیر حق سرشت کو بہ حرف پہلوی قرآن نوشت
گفت ای دیوانۂ ارباب عشق جرعہ ای گیر از شراب ناب عشق
تا بہ کی چون غنچہ می باشی خاموش نکہت خود را چو گل ارزان فروش
من کہ مستی ھا ز صہبایش کنم زندگانی از نفس ھایش کنم
ترجمہ:۱۔ رات میرا دل فریاد پہ مایل تھا اور خاموشی میں میرے یارب یا رب کہنے کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔ ۲۔ میں اس قدر بیتاب ہوا کہ آخر کار تھک کر سو گیا۔ ۳۔ پیر حق سرشت (رومی) نے خواب میں اپنا چہرہ دکھایا ، جنہوں نے پہلوی زبان میں قرآن لکھا ہے۔ ۴۔ کہا کہ اے اربابِ عشق کے دیوانے، میری خالص شراب کا ایک گھونٹ پی لے۔ ۵۔ کب تک غنچے کی طرح خاموش رہو گے، اپنی خوشبو کو پھول کی طرح بکھیر دو۔ ۶۔ میں جو اُس کی شراب سے مستی حاصل کرتا ہوں، بلکہ میں تو سانس بھی اُس کی سانسوں سے لیتا ہوں۔ انیسویں اور بیسویں صدی اعلیٰ ادبیات کے انعکاس کی صدیاں کہلاتی ہیں۔ ان میں عالمی شخصیات کی ملاقاتیں ہوئیں، سفرنامہ لکھے گئے اور ادبی شاھکاروں کے تراجم ہوئے ، عالمی ادیب ایک دوسرے کے شہ پاروں سے متعارف ہوئے۔ اگرچہ فارسی دان طبقہ تو رومی کی عظمت سے روشناس تھا ہی، تراجم کے ذریعے شناسائی کے نئے درباز ہوئے اور مشرق و مغرب رومی کی فکری جدت کی طرف مایل ہوا اور مثنوی معنوی کی افاقیت پوری دنیا میں گستردہ ہو گئی نیز دنیا کے ادبأ و شعرا نے رومی پہ خراج عقیدت کے پھول نچھاور کرنا شروع کئے۔
رومی کی مثنوی کی حکایات اور ان کے آخر میں سبق آموز جملے /اشعار ضرب الامثال کی صورت اختیار کر گئے، ترجمہ: ۱۔ پاک لوگوں کے کاموں کو اپنے جیسا مت خیال کرو کیونکہ شیر (جنگل کا) اور شیر (دودھ) لکھے ایک طرح ہی جاتے ہیں۔
کاسۂ چشم حریصان پُر نشد تا صدف قانع نشد پر در نشد
ترجمہ:۱۔ حریص کی آنکھ کا پیالہ کبھی نہیں بھرتا، جب تک سیپی قناعت نہیں کرتی اُس میں موتی نہیں بنتا۔ رومی کی عظمت کے اعتراف میں لکھے جانے والی چند ذیل کتابوں اور ادیبوں کا ذکر ضروری ہے ۔ ۱۹۹۹ء میں دیپک چوپڑا کی کتاب'' محبت بھرا تحفہ، رومی کی شاعری کے زیر اثر موسیقی‘‘۔ میڈونا، مارٹن شین، ڈیمی مور اور گولڈن ہیون، نے رومی سے شناسائی کو اپنے لئے فخر سمجھا۔ انیسویں صدی کو رومی کی صدی قرار دے کر اس کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کیا گیا۔ آخر میں ہم مشہور دانشور مائیکل کونستا توفسکی اکتوبر کی تحریر کو رومی کی خدمت میں پیش کرتے ہیں'' دنیا آج جس بات پر آج زور دے رہی ہے وہی پیغام رومی ۸۰۰ برس قبل دے چکے ہ��ں‘‘۔ مائیکل کے انگریزی مضمون کی سرخی کا ترجمہ کچھ یوں بنتا ہے ''رومی دنیا کا مقبول ترین شاعر‘‘ ۔ در حقیقت رومی اسی عنوان کے سزاوار ہیں۔
پیر رومی مرشد روشن ضمیر کاروانِ عشق و مستی را امیر
(مولانا روم روشن ضمیر مرشد ہیں اوروہ کاروانِ عشق و مستی کے امیر ہیں)۔
پروفیسر ڈاکٹر شاہد اقبال
بشکریہ دنیا نیوز
8 notes
·
View notes
Text
علت عاشق ز علتہا جداست
عشق اصطرلاب اسرار خداست
مولانا جلال الدین رومی❤
Translation :
عاشق کی بیماری ،بیماریوں سے جدا ہے
عشق خدا کے بھیدوں کا اصطرلاب ہے
Tashreeh:
عاشق دل کے بیمار ہوتے ہیں دل کی بیماری سے عاشقی ظاہر ہے اصطرلاب ایک آلہ ہے جس سے ستاروں کی گردش آفتاب کی بلندی معلوم کی جاتی ہے یعنی عشق وہ آلہ ہے وہ چیز ہے جس سے خدا ❤ کے رازوں کا پتہ چلتا ہے اس سے ملتا جلتا اقبال ❤ کا یہ شعر ہے
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی
2 notes
·
View notes
Text
حکایت رومی:
سبق:
1. چھوٹی مصیبت بڑی مصیبت کا کفارہ ہے۔ مفہوم حدیث
2. اللہ تعالیٰ کی عطا پر راضی رہو اور ہر چیز حاصل کرنے کی خواہش نہ کرو.
3. سنت الٰہیہ اور ہمارے لیے مقام غور و فکر۔
امام جلال الدین رومی ؒ ایک حکایت میں لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے درخواست کی کہ اُسے چوپایوں اور پرندوں کی بولی سکھا دیں۔ آپ نے اُسے منع کیا کہ یہ بات خطرناک ہے۔وہ اس سے باز رہے۔ اُس نے اسرار کیا تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اُسے کتے اور مرغے کی بولی سکھا دی۔ صبح کے وقت اُس کی خادمہ نے دسترخوان جھاڑا تو باسی روٹی کا ٹکڑا گرا مرغ نے اُس ٹکڑے کو اُٹھا لیا۔ کتا مرغ کے پاس آیا اور اُس نے کہا کہ مرغ تو دانا بھی چگ سکتا ہے اور کتا دانا کھانے سے عاجز ہے لہٰذا مرغ وہ روٹی کا ٹکڑا اُسے دے دے۔مرغ نے کتے سے کہا کہ چُپ ہو جا غم نہ کر آقا کا گھوڑا کل مر جائے گا۔ تجھے اللہ پیٹ بھر کر کھانا کھلائے گا۔ مالک اُن کی بولی سمجھ رہا تھا اُس نے گھوڑا فروخت کر دیا اور اپنے آپ کو نقصان سے بچا لیا۔ دوسرے دن بھی مرغ روٹی لے اُڑا اور گھوڑا نہ مرا تو کتے نے مرغ سے شکایت کی کہ وہ جھوٹا ہے اور کتے کو بھوک سے دو چار کر دیا ہے۔ مرغ نے کتے کو تسلی دی کہ گھوڑا مرا تو ہے لیکن دوسرے گھر میں ۔ فکر نہ کر کل مالک کا خچر مر جائے گا اور اُسے صرف کتے ہی کھا سکیں گے۔
مالک جو اُن کی بولی سمجھ رہا تھا اُس نے خچر بھی فروخت کر دیا اور دوسرے نقصان سے بھی خود کو بچا لیا۔دوسرے دن خچر کے مرنے کا واقعہ نہ ہوا تو کتے نے مرغ سے سخت شکایت کی کہ تجھے آئندہ کی کوئی خبر نہیں ہوتی ، ڈینگیں مارتا رہتا ہے تو جھوٹا ہے۔مرغ نے کہا کہ ایسا نہیں خچر دوسری جگہ جا کر مر گیا ہے۔ کل اس کا غلام بیمار پڑے گا اور جب وہ مرے گا تو یہ کتوں اور مانگنے والوں کو روٹیاں کھلائے گا۔ مالک نے یہ سنا اور غلام فروخت کر دیا اور دل میں بڑا خوش ہوا کہ اُس نے کتے اور مرغے کی بولی سیکھ کر بڑی دانائی اور حکمت سے کام لیا ہے اور کس طرح تین نقصان اپنی دانائی سے ٹال دیئے۔ تیسرے دن اُس محروم کتے نے مرغ سے شدید شکایت کی، اُسے جھوٹا ، فریبی اور دغا باز کہا۔ مرغ نے کہا کہ میں اور میری قوم جھوٹ سے سخت دور ہیں۔ ہم صبح اذان دیتے ہیں تو لوگ نماز پڑھتے ہیں اگر بے وقت اذان دینے کی عادت ڈال لیں تو ہم ذبح کر دیئے جاتے ہیں۔وہ غلام بھی فوت ہو چکا ہے ہمارے مالک نے اپنا مالی نقصان تو بچا لیا ہے مگر اپنی جان پر بوجھ لاد لیا ہے۔ مرغ نے اگلے دن مالک کے مرنے کی خبر دی اور بتایا کہ اس واقع پر اُس کے ورثہ گائے ذبح کریں گے اور کھانا تقسیم کریں گے۔۔
یہ سن کر وہ شخص حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف بھاگا اور سارا واقعہ سنایا اور بتایا کہ میں ڈرا ہوا ہوں کہ کتے اور مرغ کی پہلی تینوں باتیں سچی تھیں اب جبکہ اُنہوں نے اس کے مرنے کی خبر دے دی ہے تو حضرت سلیمان علیہ السلام ہی اُسے پناہ دے سکتے ہیں۔ سلیمان علیہ السلام نے اُس شخص سے کہا کہ فطرت کا اصول ہے کہ جب اُس کی کمان سے تیر نکل جائے تو سلیمان علیہ السلام بھی اُسے واپس نہیں کر سکتے۔ ہاں میں تیرے لیے سلامتی ایمان کی دعا کر سکتا ہوں۔تیری طرف قضا نے تین دفعہ نقصان کے لیے ہاتھ بڑھایا جو تو نے اپنی تدبیر سے لوٹا دیا اگر تو ایسا نہ کرتا تو قضا تیرے مالی نقصان سے پلٹ جاتی اور یہ بڑی مصیبت اس قدر جلدی تیرے سامنے نہ آکھڑی ہوتی۔اب اس سے راہِ فرار نہیں ہے۔
(بحوالہ: حکایات رومی مصنف: مولانا جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ)
خلاصہ اور تفسیر: مولانا جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث کی تفسیر بیان فرمائی جس کا مفہوم یہ ہے کہ: اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے محبت کے باعث بعض اوقات چھوٹی مصیبت بڑی مصیبت کا کفارہ بنا کر بھیج دیتا ہے۔
انسان سب کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے حالانکہ بعض چیزیں جو اسے بھلی معلوم ہوتی ہیں وہ اس کی ہلاکت کا باعث بھی بن جاتی ہیں جیسا کہ اوپر بیان کردہ کردار کے لیے جانوروں کی بولیاں سیکھنا مصیبت کا باعث بن گیا۔ اور یہاں ایک اور حقیقت بھی بیان ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ہی قائم کردہ دستور کے مطابق معاملات فرماتا ہے اگرچہ وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ چھوٹی اور بڑی دونوں قسم کی مصیبتوں کو ٹال دے لیکن وہ اپنی سنت اور طریقہ کار سے روگردانی نہیں فرماتا۔ اور ہم کس بھول میں گم گشتہ ہیں کہ خدا کو بھولے بیٹھے ہیں اور ہر گناہ کر کے بھی ذرہ برابر پریشان نہیں بلکہ پر اطمینان ہیں کہ ہم پر ضرور فضل رحمن ہو گا۔ خبردار! اللہ تعالیٰ اپنے طریقہ کار سے مکمل اجتناب نہیں فرماتا بلکہ بڑی سزا ٹالنے کے لیے بھی چھوٹی سزا دے دیا کرتا ہے۔ لہذا ہمیں اللہ تعالیٰ کے سخت ترین جانچ پڑتال کی سخت فکر کرنی چاہیے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
2 notes
·
View notes
Text
نہ من بیہودہ گردِ کوچہ و بازار می گردَم
مذاقِ عاشقی دارم، پئے دیدار می گردَم
میں کُوچہ بازار میں یونہی آوارہ اور بے وجہ نہیں گھومتا بلکہ میں عاشقی کا ذوق و شوق رکھتا ہوں اور یہ سب کچھ محبوب کے دیدار کے واسطے ہے۔
خدایا رحم کُن بر من، پریشاں وار می گردم
خطا کارم گنہگارم، بہ حالِ زار می گردم
اے خدا مجھ پر رحم کر کہ میں پریشان حال پھرتا ہوں، خطار کار ہوں، گنہگار ہوں اور اپنے اس حالِ زار کی وجہ سے ہی گردش میں ہوں۔
شرابِ شوق می نوشم، بہ گردِ یار می گردم
سخن مستانہ می گویم، ولے ہشیار می گردم
میں شرابِ شوق پیتا ہوں اور دوست کے گرد گھومتا ہوں، میں اگرچہ شرابِ شوق کی وجہ سے مستانہ وار کلام کرتا ہوں لیکن دوست کے گرد طواف ہوشیاری سے کرتا ہوں یعنی یہ ہوش ہیں کہ کس کے گرد گھوم رہا ہوں۔
گہے خندم گہے گریم، گہے اُفتم گہے خیزم
مسیحا در دلم پیدا و من بیمار می گردم
اس شعر میں ایک بیمار کی کیفیات بیان کی ہیں جو بیم و رجا میں الجھا ہوا ہوتا ہے کہ کبھی ہنستا ہوں، کبھی روتا ہوں، کبھی گرتا ہوں اور کبھی اٹھ کھڑا ہوتا ہوں اور ان کیفیات کو گھومنے سے تشبیہ دی ہے کہ میرے دل میں مسیحا پیدا ہو گیا ہے اور میں بیمار اسکے گرد گھومتا ہوں۔ دل کو مرکز قرار دے کر اور اس میں ایک مسیحا بٹھا کر، بیمار اسکا طواف کرتا ہے۔
بیا جاناں عنایت کُن تو مولانائے رُومی را
غلامِ شمس تبریزم، قلندر وار می گردم
اے جاناں آ جا اور مجھ رومی پر عنایت کر، کہ میں شمس تبریز کا غلام ہوں اور دیدار کے واسطے قلندر وار گھوم رہا ہوں۔ اس زمانے میں ان سب صوفیا کو قلندر کہا جاتا تھا جو ہر وقت سفر یا گردش میں رہتے تھے
مولانا جلال الدین رومی رح
2 notes
·
View notes
Text
گوشہ نشینِ با وفا، مجھ سے نہاں ہے کس لیے
اس مرے خستہ دل پہ یوں، روئے گراں ہے کس لیے
دل تو مرا ہے جاتری، کارگہہ وفا تری
آج ترا نفس نفس زخمِ سناں ہے کس لیے
چشمۂ خضر تو مرا، آب حیات تو ہی ہے
آتش ہجر سے مرا خشک دہاں ہے کس لیے
روح میں لطف تھا نہاں، مہر ترا تھا بے نشاں
دل میں مرے ترے سبب نقش و نشاں ہے کس لیے
اس نے کہا میں جان ہوں، دیکھنے کی ہوس نہ کر
رخ بھی تو جان تھا تری، آہ نہاں ہے کس لیے
تو تو ہے نورِ مستقل، تجھ سے ستارہ ہے خجل
آج دلوں کے درمیاں ابر گماں ہے کس لیے
*
شاعر: مولانا جلال الدین رومی
کتاب: دیوان شمس تبریز
فارسی سے اردو ترجمہ : فہمیدہ ریاض
کتاب: یہ خانۂ آب و گِل (انتخاب دیوان شمس تبریزی)
1 note
·
View note
Video
Eight Iranian conservationists are in prison for their work with endangered wildlife. Please share this plea for mercy from Jane Goodall. We ask the leaders of Iran, to have compassion as they decide their fate. Without the efforts of passionate conservationists, Iran’s most unique natural symbol, the Asiatic cheetah, may face extinction. Please help spread word about this tragic injustice. Follow @FransLanting and @ChristineEckstrom for more posts about this issue. For our friends in Iran, here is Jane’s plea translated into Farsi. این پیام حاوی تقاضاییست برای رافت و دلسوزی دولتمردان ایران. هشت تن از حافظان محیط زیست که عمرشان را وقف حفاظت از میراث طبیعی ایران کردهاند نزدیک به دو سال است که در بازداشتاند. اتهام آنها جاسوسی است. هماکنون آنها در انتظار دریافت احکامشان هستند. این پیشامد ناگواریست، این زنان و مردان برای حفاظت از آینده گونههای در خطر انقراض مانند یوز آسیایی - که تنها در ایران باقی مانده است - تلاش کردهاند. آنها کوشیدهاند که ایران به عنوان کشوری پایبند به حفاظت از میراث ارزشمند طبیعیاش سربلند باشد. به قول مولانا جلالالدین رومی، شاعر مشهور ایرانی، «در این خاک در این مزرعه پاک، به جز مهر به جز عشق دگر تخم نکاریم». من از شما تقاضای شفقت دارم، درخواست مهربانی دارم، وقتی که برای سرنوشتشان تصمیم میگیرید. . @JaneGoodallInst @official_leonardodicapriofdn @hope4nature @hrouhani @jzarif_ir @hediyehtehrany @mitra.hajjar @raisi_org #NiloufarBayani #SamRadjabi #MoradTahbaz #HoumanJowkar #SepidehKashani #AmirHosseinKhaleghi #AbdolrezaKouhpayeh #TaherGhadirian #anyhopefornature #FreeIranianConservationists #نیلوفر_بیانی #سام_رجبی #مراد_طاهباز #هومن_جوکار #سپیده_کاشانی #امیرحسین_خالقی #عبدالرضا_کوهپایه #طاهر_قدیریان https://www.instagram.com/p/B4Aaii7h0c0/?igshid=11zbvv2ke3rm4
#niloufarbayani#samradjabi#moradtahbaz#houmanjowkar#sepidehkashani#amirhosseinkhaleghi#abdolrezakouhpayeh#taherghadirian#anyhopefornature#freeiranianconservationists#نیلوفر_بیانی#سام_رجبی#مراد_طاهباز#هومن_جوکار#سپیده_کاشانی#امیرحسین_خالقی#عبدالرضا_کوهپایه#طاهر_قدیریان
5 notes
·
View notes
Photo
نمایشگاه یادبود مولانا جلال الدین رومی، در سارایوو به گزارش دیالوگین سحربالکان از سارایوو نمایشگاه یادبود مولانا جلال الدین رومی در گالری"پره پورود" توسط هنرمندان بنام بوسنی افتتاح شد ، این هنرمندان هر کدام با آثار خود شرکت کردند خانم بیسرا تورکویچ، مدیر بخش فعالیتهای ویژه دیپلماتیک در وزارت خارجه بوسنی و هرزگوین، این نمایشگاه را افتتاح کرد و در این باره گفت: "در کارهای متعدد هنرمندان سمبلیک زیادی وجود دارد که الهام گرفته از فلسفه و شعر مولانا میباشد و هنرمندان بنام بوسنی تصمیم گرفتند که در این گالری، احساسات خود را بین عاشقان و علاقه مندان به زیبایی، به اشتراک و نمایش بگذارند". همچنین، خانم میرصادا بالیچ، مدیر گالری پره پورود، یادآور شد که این گالری برای هشتمین سال پیاپی هست که با موضوع مولانا را برگزار میکند و اضافه کرد که امسال 19 هنرمند از بوسنی، ترکیه و روسیه شرکت میکنند. وی در ادامه گفت که خوشبختانه موفق شدند یک پیوند عارفانه از هنرمندان مختلف در این نمایشگاه ایجاد کنند. همچنین، چازیم حاجی میلیچ، استاد دانشگاه هنرهای زیبای سارایوو، در این باره توضیح داد که در این نمایشگاه 44 اثر هنری با تکنیکهای مختلف از جمله ویدیو آرت، خوشنویسی، مجسمه، اکریلیک، رنگ و روغن روی بوم نقاشی و ..... وجود دارد. وی یادآور شد که مولانا شاعر، فقیه، عالم اسلامی و اسلام شناس بود و یکی از اساس تصوف و عرفان اسلامی است �� همانطور که خود مولانا در یکی از اشعار خود میفرماید: مرا در زیر زمین جستجو نکنید بلکه در قلبهای کسانی که دوستشان دارم، جستجو کنید." لازم به ذکر است که این نمایشگاه تا روز 27 دسامبر برپا خواهد بود.
#dijalogin.tv#sarajevo#بهروزناصری#بوسنی_هرزگوین#دیالوگین#دیالوگین سحربالکان#سارایوو#کاف��_بالکان#مرا در زیر زمین جستجو نکنید بلکه در قلبهای کسانی که دوستشان دارم، جستجو کنید."#مولانا جلال الدین رومی
0 notes
Text
مولانا جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ مثنوی میں بارہا فرماتے ہیں کہ ‘اپنے دل کے دروازے ہر دستک دیتے رہو حتٰی کہ وہ کُھل جائے
اور فرماتے ہیں
‘غم مت کرو، جو تم کھو دیتے ہو کسی اور صورت میں تمھارے پس آتا ہے’ اور فرماتے ہیں.
‘جاننے کی مہارت یہ ہے کہ تم درگزر کرنا سیکھ جاؤ’
خدا کی تخلیق پر سوال کا جواب انسان کے اپنے اند ہی موجودہے. اپنے دل کے آئنیے پر پڑی گرد کی دبی طے کو صاف کریں، عاجزی سے، محبت سے، خلوص سے اور صبر و شُکر سے. آپکو دل کے آئینے میں ہی اپنی تخلیق کا مقصد دکھائی دینے لگے گا انشاء اللہ
16 notes
·
View notes
Text
Rumi, Mowlana Jalalaedin/ رومی, مولانا جلالالدین
Rumi, Mowlana Jalalaedin/ رومی, مولانا جلالالدین
http://Pinterest (Jalāl ad-Dīn Muhammad Rūmī (Persian: جلالالدین محمد رومی), also known as Jalāl ad-Dīn Muhammad Balkhī (جلالالدین محمد بلخى), Mevlânâ/Mawlānā (مولانا, “our master”), Mevlevî/Mawlawī (مولوی, “my master”), and more popularly simply as Rumi (30 September 1207 – 17 December 1273), was a 13th-century Persian poet, Hanafi faqih, Islamic scholar, Maturidi theologian, and Sufi mystic…
View On WordPress
0 notes
Text
#Sahar
"محبوبِ حقیقی کو کوئی تلاش نہیں کرتا جب تک کہ وہ خود اُسے اپنی تلاش نہ دے . سو اگر تمہیں اُس کی تلاش عطا ہوئی ہے تو جان لو کہ اُسے بھی تمہاری تلاش ہے ...... اہلِ عشق کی محبت خام کو بھی خاص بنا دیتی ہے .... جب دل میں محبت کی آگ جلنے لگے تو پھر اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بھی تم سے محبت کرتا ہے کیونکہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی ... اگر کوئی پیاسا پانی پانی پکارتا ہے تو پانی بھی صدا دیتا ہے کہ کہاں ہے میرا پینے والا؟؟؟ صرف پیاسے کو پانی کی پیاس نہیں ہوتی بلکہ پانی کو بھی پیاسے کی تلاش ہوتی ہے .... ہماری روح میں اُس ذات کی پیاس اُسی ذات کی کشش کا کمال ہے .... وہ خود ہمیں اپنی جانب کھینچتا ہے کیونکہ ہم اُس کے ہیں اور وہ ہمارا ہے _____!!
•مولانا جلال الدین رومی
11 notes
·
View notes
Link
Book Price: 425.00
Delivery Charges: 150 Dial or Whatsapp: 03214076360 Number of Pages: 273 To Order Visit Our Online Store Today! https://tinyurl.com/4zpax8aj
0 notes