#مولائے کائنات
Explore tagged Tumblr posts
aakhripaigham · 4 months ago
Text
Khudawanda Ye Tere Sada Dil Bande Kidhar Jaen Ke Darvaishi Bhi Ayyari Hai, Sultani Bhi Ayyari
Where would these simple-minded servants of Yours, O Lord, go? For kings, no less the dervishes, are all fraudulent and hypocrites.
Mujhe Tehzeeb-E-Hazir Ne Ata Ki Hai Vi Azadi K Zahir Mein To Azadi Hai, Batin Mein Giraftari
The modern culture has apparently granted me freedom; That which appears to be freedom on the outside, yet remains a prison on the inside.
Tu Ae MOLA’AY YASRAB (S.A.W.) ! Ap Meri Chara-Sazi Kar Meri Danish Hai Afrangi, Mera Iman Hai Zunnari
O Master of Yathrib (PBUH)! Lead me to the path of Divine Guidance. For my wisdom is westernized, and my faith worships this world.
(Bal-e-Jibril-034) Dil-e-Baidar Farooqi, Dil-e-Baidar Karrari
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں کہ درویشی بھی عیّاری ہے، سُلطانی بھی عیّاری
معانی: خداوندا: اے اللہ تعالٰی!۔ سادہ دل: بھولے بھالے، صاف دل۔ درویشی : بُزرگی، فقیری۔ عیّاری: دھوکا، فریب چالاکی
مطلب: اے رب کائنات! یہ تیرے سیدھے سادھے1 بندے کدھر جائیں کہ اس زمانے میں تو درویشی بھی دھوکے کے سوا کچھ نہیں اور بادشاہی بھی سراسر دھوکہ فریب ہے ۔دونوں ہی اپنے اپنے کام اور ذمہ داری سے الگ الگ ہو چکے ہیں اور نہ کوئی سیدھے راستے پر ڈالنے والا ہے اور نہ ہی کوئی فلاح و بہبود کے لیے کوشش کرنے والا ہے۔
مجھے تہذیبِ حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی کہ ظاہر میں تو آزادی ہے، باطن میں گرفتاری
معانی: تہذیبِ حاضر: موجودہ دور کا رہن سہن مراد یورپی ��نداز ۔ ظاہر میں: مراد نظر آنے میں۔ باطن میں: مراد حقیقت میں۔ گرفتاری: غلامی
مطلب: اس عہد کی تہذیب نے مجھے جو آزادی بخشی ہے وہ دیکھنے میں تو آزادی ہے اصل میں باطن کو تباہ کر دینے والی ہے کیونکہ یہ آزادی ایمان اور اخلاق کی پابندی سے بھی آزاد کر دینے والی اور یہ دین سے بیزارکر دینے والی ہے۔
تُو اے مولائے یثرِبؐ! آپ میری چارہ‌سازی کر مِری دانش ہے افرنگی، مرا ایماں ہے زُناّری
معانی: مولائے یثربؐ:حضور ﷺ کی ذات با برکات۔ چارہ سازی:علاج کرنا۔ دانش: عقل، دانائی ۔ افرنگی: یورپی، مغربی ۔ زنّاری:کافروں کے طور طریقے والا
مطلب: اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ ہی میرا علاج فرمائیے کہ میں نے جو علم حاصل کیا ہے وہ یورپی ہے اور میرا ایمان ایسا ہے جس میں کافروں جیسے طور طریقے ہیں مراد ہے کہ مسلمان جس انداز کو اپنائے ہوئے ہیں وہ ایک بیماری ہے جس کا علاج ضروری ہے اور وہ علاج حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے ہی کیا جاسکتاہے۔
~ Dr. Allama Iqbal - Urdu Poetry
2 notes · View notes
nowpakistan · 5 years ago
Text
ولادت باسعادت حضرت علیؑ اور فضائل
ولادت باسعادت حضرت علیؑ اور فضائل
از مسرور زیدی امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولادت 13 رجب بروز جمعہ بعثت سے 10 سال قبل (کچھ مورخین کے مطابق 7سال قبل بعثت) خانہ كعبہ ميں ہوئی۔ آپؑ کے والد کا نام عمران ابن ابومطلب ؑاور والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد ؑتھا۔ آپؑ نے دین اسلام کی خدمت میں نا صرف اپنی بلکہ اپنے گھرانے کی جان کی بھی پرواہ نہیں کی۔
حضرت علیؑ کے بارے میں قرآن، حدیث رسولؑ اور صحابہ کرامؓ قصیدے پڑھتے…
View On WordPress
0 notes
bukhariedits-blog · 4 years ago
Photo
Tumblr media
جب سے علیؐ ہیں تب سے ہیں مولائے کائنات اعلان طے شُده تھا کہ ہوگا غدیر میں https://www.instagram.com/p/CDvMsLDDDfT/?igshid=6o5pp6b0gewr
0 notes
shiitemedia · 5 years ago
Photo
Tumblr media
‏کتنی حَسین جوڑی ہے علی (ع) و بتول(س) کی دُولہا خدا کے گھر کا تو بیٹی رسول (ص) کی عقد بی بی فاطمہ زہرا(س) و مولائے کائنات امام علی(ع)تمام عالم اسلام کو بہت بہت مبارک ہو.🥰
0 notes
jebandepourtoipetite · 6 years ago
Text
پیدائش کے بعد حضرت زینبؓ کو جب حضرت محمد ؐ نے پہلی بار دیکھا تو انکی زبان مبارک سے کیا الفاظ نکلے ؟
Tumblr media
پیدائش کے بعد حضرت زینبؓ کو جب حضرت محمد ؐ نے پہلی بار دیکھا تو انکی زبان مبارک سے کیا الفاظ نکلے ؟
Tumblr media
انسانوں میں عام طور پر تین قسم کی صفات یا اوصاف پائے جاتے ہیں۔ حسبی و نسبی یا کسبی یا عطائی۔ حسی و نسبی اوصاف وہ ہوتے ہیں جو انسان کو اپنے والدین اور خاندان کی جانب سے ملتے ہیں۔ کسبی اوصاف وہ ہوتے ہیں جو انسان اپنی محنت، مجاہدےاور عزم سے پیدا کرتا ہے یا حاصل کرتا ہے۔ عطائی اوصاف اللہ پاک کی جانب سے عطا ہوتے ہیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عطا ہوتے ہیں، جب کسی شخصیت میں تینوں قسم کے اوصاف جمع ہو جائیں تو
وہ عظمت کی بلندیوں کو چھونے لگتی ہے اور اگر حسب، نسب بہترین اور عظیم ترین ہو، تربیت عظیم گود اور اللہ پاک کے محبوب گھرانے میں ہوئی ہو تو وہ خود کسبی اور عطائی اوصاف کا باعث
بنتی ہے۔ اس طرح کی مثالیں عالمی تاریخ میں کم کم ملتی ہیں۔ میں تاریخ کے اوراق چھانتا رہا، دنیا کی نامور اور عظیم شخصیات کا مطالعہ کرتا رہا لیکن سچ یہ ہے کہ مجھے تاریخ میں کوئی بھی خاتون اتنے صبر و شکر، بہادری، تسلیم و رضا، ایثار و وفا، جرأت ِاظہار اور عظمت و کردار کی مالک نہیں ملی جتنی حضرت زینبؓ بنت علی المرتضیٰؓ تھیں۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک مثال ہیں، رب تعالیٰ نے انہیں مثال ہی پیدا کیا تھا اور وہ قیامت تک ایک مثال ہی رہیں گی۔ نہ کسی کو وہ حسب نسب مل سکتا ہے اور نہ ہی اس قدر صبر و شکر اور حوصلہ جو حضرت زینبؓ کو عطا ہوا تھا۔ سانحہ کر��لا نہ ہوتا تو شاید دنیا کو حضرت زینب ؓ کی عظمت کا راز سمجھ میں نہ آتا اور نہ ہی ہمارے سامنے ایک روشن مثال ہوتی،
روشن مثال بھی بے مثال۔ سانحہ کربلا نے حضرت زینبؓ کی شخصیت میں مضمر اوصاف بےنقاب کرکے عالمی تاریخ میں ایک بےمثل، مثال کی شمع روشن کر دی جو تاقیامت انسانیت کی رہنمائی کرتی رہے گی اور صبر و شکر، تسلیم و رضا کا درس دیتی رہے گی۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ نبی کریمؐ نے حضرت زینبؓ کو پیدائش کے بعد پہلی دفعہ دیکھا اور بازئوں میں اٹھایا تو فرمایا کہ زینبؓ اپنی نانی حضرت خدیجہؓ سے مشابہت رکھتی ہے۔ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ دنیا کی عظیم ترین ہستی اور محبوبؐ خدا اپنے نانا سے مشابہہ تھے۔ گویا حضرت امام حسنؓ، حضرت امام حسینؓ اور حضرت زینبؓ تینوں کو اپنے ننھیال سے سب سے زیادہ روحانی وراثت ملی تھی اور پھر حضرت فاطمہؓ کی گود اور مولائے کائنات حضرت علیؓ کی پدرانہ شفقت اور توجہ گویا سونے پہ سہاگے والی بات تھی۔ حضور نبی کریمؐ نے اپنی پیاری نواسی کا نام بھی اپنی بیٹی زینب ؓ کے نام پر رکھا اور مشابہت اس ہستی سے قرار دی جس کے بارے میں نبی آخر الزمانؐ نے فرمایا تھا ��’خدا کی قسم اس نے مجھے کوئی ایسا مہربان عطا نہیں کیا جیسے خدیجہ ؓ تھیں‘‘کیا جلال ہے ان الفاظ میں اور ہاں یاد رکھو کہ
جب اللہ کا نبیؐ قسم اٹھاتا ہے تو کائنات کا ذرہ ذرہ گواہی دینے اور قسم اٹھانے کے لئے حاضر ہوجاتا ہے۔ اسی لئے مجھے اکثر یہ خیال آتا ہے کہ حضرت خدیجہؓ، حضرت فاطمہؓ زہرہ اور حضرت زینبؓ کی موجودگی میں مسلمان خواتین، خاص طور پر جوان خواتین کو کسی آئیڈئل، کسی مثال اور کسی خاتون کی طرف دیکھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ان ہستیوں کو قلب و نگاہ میں رکھیں اور پھر دیکھیں کہ کس طرح رضائے الٰہی کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں اور عظمت کی منزلیں طے ہوتی چلی جاتی ہیں۔ذرا غور کیجئے کہ اس سے عظیم تر کسی کا حسب نسب ہوسکتا ہے؟ حضرت زینبؓ ہمارے پیارے رسولؐ کی پیاری نواسی، خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرہؓ کی چہیتی بیٹی اور مولائے کائنات حضرت علیؓ کے جگر کا ٹکڑا تھیں۔ پھر وہ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ سردارانِ نوجوانانِ جنت کی نہایت پیاری بہن تھیں۔ سچ یہ ہے کہ مسلمان کا ایمان عشق رسولؐ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
عشق رسولؐ کے بغیرمسلمانی کی منزل نہیں ملتی نہ ہی قلب و نگاہ روشن ہوتے اور باطن منور ہوتا ہے لیکن عشق رسولؐ اہل بیت کی محبت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، جن عظیم اور مقدس ہستیوں کو رسول ؐخدا نے بازئوں میں اٹھا اٹھا کر کہا اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر، علیؓ، حسنؓ ، حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں، جس کا میں مولا، اس کا علی مولا ۔ کیا ان ہستیوں ،عظیم ترین ہستیوں، سے محبت کئے بغیر عشق رسولؐ کا سراغ مل سکتا ہے؟ عشق کی ان شمعوں کو روشن کئے بغیر روحانیت کی منزل کا نشان مل سکتا ہے؟میں عرض کررہا تھا کہ میں تاریخ عالم چھانتا رہا لیکن مجھے اس سے بڑی صبر و شکر، رضائے الٰہی اور بہادری و جرأت کی مثال نہیں ملی، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ دنیا کی عظیم شخصیات بھی اس حوالے سے حضرت زینبؓ کی خاک پا کے بھی قریب نہیں�� ذرا سوچو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے محبوب رسول ﷺ نبی آخر الزمان کی نواسی، حضورﷺ کی نہایت پیاری بیٹی خاتون جنت حضرت فاطمہؓ کی بیٹی اور
مولائے کائنات خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کے جگر کا ٹکڑا میدان کربلا میں اپنے پیارے بھائی حضرت امام حسینؓ اور اپنے دو جگر گوشوں حضرت محمد بن عبداللہؓ اور حضرت عون بن عبداللہؓ کے علاوہ اپنے بھتیجوں، بھانجوں، قریبی عزیزوں کی شہادت کے بعد صحرا کی وحشت اور رات کی تاریکی میں تنہا غموں کا پہاڑ اٹھائے بیٹھتی تھیں لیکن نہ کوئی شکوہ و فریاد، نہ گریہ اور نہ ہی معصوم ہونٹوں پر شکایت۔ صبر کا دامن مضبوطی سے تھام رکھا تھا، اللہ کی رضا پر اس قدر راضی کہ اپنے رب سے ان قربانیوں کی قبولیت کی دعا میں مصروف تھیں۔ دوسری طرف دشمن کے خیموں میں فتح کا جشن منایا جارہا تھا۔ دشمن نے اہل بیت کی عبادت گزار اور حرم نبویؐ کی عفت مآب بیٹیوں کے سروں سے چادریں بھی اتار لی تھیں اور کانوں سے سونے کی بالیں بھی کھینچ لی تھیں۔ کئی دن سے بھوکی پیاسی حضرت زینبؓ اور بچوں کو یزیدی امیر لشکر عمر بن سعد نے جلا ہوا خیمہ بھیجا تو
حضرت زینبؓ نے اسے بچوں پر لگا کر انہیں سلاد دیا اور خود عبادت میں مصروف ہوگئیں۔ قیامت کی اس رات بھی آپ ؓ نے نماز تہجد قضا کی اور نہ ذکر و اذکار میں کمی آنے دی۔ سبحان اللہ صبر و شکر اور رضائے الٰہی کی انتہا ہے کہ جب اس لٹے پٹے غم کے لہو میں ڈوبے قافلے کو کوفہ کے گورنر عبید اللہ بن ز یاد کے دربار میں لایا گیا تو اس نے حضرت زینبؓ سے پوچھا۔ آپؓ نے اپنے بھائی کے سلسلے میں خدا کے امر کو کیسا پایا ، حضرت زینبؓ نے نہایت اطمینان اور یقین کے ساتھ جواب دیا ’’ہم نے اچھائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ خدا کی طرف سے یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ انہیں مقتول دیکھے اور اب وہ لوگ خدا کی ابدی بارگاہ میں آرام کر رہے ہیں۔‘‘ سبحان اللہ! کیا صبر، شکر اور رضائے الٰہی پر راضی رہنے کی اس سے بڑی مثال دی جاسکتی ہے؟ ہوسکتا ہے میری کم علمی ہو، لیکن تاریخ عالم میں اس طرح کے صبر و شکر کی مثال موجود ہی نہیں۔
یزید کے دربار میں حضرت زینبؓ کا خطاب جرأت و بہادری اور حق گوئی کی ایک منفرد مثال ہے۔ سرکاری فوج کے حصار میں جب یہ لٹا پٹا، بھوکا پیاسا، ظلم و ستم کے زخموں سے چور قافلہ یزید کے دربار میں پیش کیا گیا تو حضرت زینبؓ نے حکمت و دانش اور جرأت و بہادری سے یزیدی خرافات کو مسترد کرتے ہوئے کہا’’تم اپنے زعم میں سمجھ رہے ہو کہ کامیابی مل گئی اور اہل بیت سرنگوں ہوگئے مگر حقیقت میں اہل بیت کا کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ یزید اور اس کے ساتھیوں نے اپنے آپ کو تباہ و برباد کر لیا ہے۔ ‘‘ تاریخ نے حضرت زینبؓ کے الفاظ پر مہر تصدیق ثبت کردی اور واضح کردیا کہ ؎ قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے: ہم صبر اور شکر کی باتیں تو بہت کرتے ہیں، عشق رسولؐ اور حب اہل بیت کے د��وے بھی کرتے ہیں اور حال یہ ہے کہ پائوں میں ذرا سا کانٹا چبھے، کوئی مصیبت یا مشکل آجائے یا غم و صدمہ کا سامنا کرنا پڑے تو
صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سےگلے شکوے کرنے شروع کر دیتے ہیں اور آہیں بھر بھر کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ کسی بدو نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ جہنم کی آگ کس شے سے ٹھنڈی ہوتی ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’دنیا کی مصیبتوں پر صبر کرنے سے۔‘‘ بدو نے عرض کیا کہ اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا ’’اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو۔‘‘ حضرت زینبؓ کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ کیا دنیا کی مصیبتوں پر صبر کی اس سے بڑی مثال مل سکتی ہے؟ کیا غم کے پہاڑ تلے دب کر صبر و شکر کے ساتھ بھوکے پیاسے بھائی،
بیٹوں، بھانجوں، بھتیجوں کے خون شہادت کے باوجود اس قدر کثرت سے ذکر الٰہی کیا جاسکتا ہے؟ حضرت زینبؓ جنہیں ہمارے پیارے رسولﷺ نے کھجور کے ساتھ اپنے لعابِ دہن سے’’گڑھتی‘‘ دی تھی صرف وہی عظیم ہستی اس قدر صبر و شکر کا مظاہرہ کرسکتی تھی اور صدمات میں ڈوب کر بھی اس قدر ذکر الٰہی کرسکتی تھی۔ ہم ان کی مثال کی شمع سے روشنی کی ایک کرن بھی حاصل کرلیں تو زندگی میں ایک انقلاب آجائے۔ معاشرے میں صبر و شکر کے پھول کھلیں تو ذکر الٰہی کا نور پھیل جائے۔ دوستو! یہ مسلمانی کی پہلی سیڑھی بھی ہے اور عظیم تر منزل بھی۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2IMeG4x via
0 notes
thebestmealintown · 6 years ago
Text
پیدائش کے بعد حضرت زینبؓ کو جب حضرت محمد ؐ نے پہلی بار دیکھا تو انکی زبان مبارک سے کیا الفاظ نکلے ؟
Tumblr media
پیدائش کے بعد حضرت زینبؓ کو جب حضرت محمد ؐ نے پہلی بار دیکھا تو انکی زبان مبارک سے کیا الفاظ نکلے ؟
Tumblr media
انسانوں میں عام طور پر تین قسم کی صفات یا اوصاف پائے جاتے ہیں۔ حسبی و نسبی یا کسبی یا عطائی۔ حسی و نسبی اوصاف وہ ہوتے ہیں جو انسان کو اپنے والدین اور خاندان کی جانب سے ملتے ہیں۔ کسبی اوصاف وہ ہوتے ہیں جو انسان اپنی محنت، مجاہدےاور عزم سے پیدا کرتا ہے یا حاصل کرتا ہے۔ عطائی اوصاف اللہ پاک کی جانب سے عطا ہوتے ہیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عطا ہوتے ہیں، جب کسی شخصیت میں تینوں قسم کے اوصاف جمع ہو جائیں تو
وہ عظمت کی بلندیوں کو چھونے لگتی ہے اور اگر حسب، نسب بہترین اور عظیم ترین ہو، تربیت عظیم گود اور اللہ پاک کے محبوب گھرانے میں ہوئی ہو تو وہ خود کسبی اور عطائی اوصاف کا باعث
بنتی ہے۔ اس طرح کی مثالیں عالمی تاریخ میں کم کم ملتی ہیں۔ میں تاریخ کے اوراق چھانتا رہا، دنیا کی نامور اور عظیم شخصیات کا مطالعہ کرتا رہا لیکن سچ یہ ہے کہ مجھے تاریخ میں کوئی بھی خاتون اتنے صبر و شکر، بہادری، تسلیم و رضا، ایثار و وفا، جرأت ِاظہار اور عظمت و کردار کی مالک نہیں ملی جتنی حضرت زینبؓ بنت علی المرتضیٰؓ تھیں۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک مثال ہیں، رب تعالیٰ نے انہیں مثال ہی پیدا کیا تھا اور وہ قیامت تک ایک مثال ہی رہیں گی۔ نہ کسی کو وہ حسب نسب مل سکتا ہے اور نہ ہی اس قدر صبر و شکر اور حوصلہ جو حضرت زینبؓ کو عطا ہوا تھا۔ سانحہ کربلا نہ ہوتا تو شاید دنیا کو حضرت زینب ؓ کی عظمت کا راز سمجھ میں نہ آتا اور نہ ہی ہمارے سامنے ایک روشن مثال ہوتی،
روشن مثال بھی بے مثال۔ سانحہ کربلا نے حضرت زینبؓ کی شخصیت میں مضمر اوصاف بےنقاب کرکے عالمی تاریخ میں ایک بےمثل، مثال کی شمع روشن کر دی جو تاقیامت انسانیت کی رہنمائی کرتی رہے گی اور صبر و شکر، تسلیم و رضا کا درس دیتی رہے گی۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ نبی کریمؐ نے حضرت زینبؓ کو پیدائش کے بعد پہلی دفعہ دیکھا اور بازئوں میں اٹھایا تو فرمایا کہ زینبؓ اپنی نانی حضرت خدیجہؓ سے مشابہت رکھتی ہے۔ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ دنیا کی عظیم ترین ہستی اور محبوبؐ خدا اپنے نانا سے مشابہہ تھے۔ گویا حضرت امام حسنؓ، حضرت امام حسینؓ اور حضرت زینبؓ تینوں کو اپنے ننھیال سے سب سے زیادہ روحانی وراثت ملی تھی اور پھر حضرت فاطمہؓ کی گود اور مولائے کائنات حضرت علیؓ کی پدرانہ شفقت اور توجہ گویا سونے پہ سہاگے والی بات تھی۔ حضور نبی کریمؐ نے اپنی پیاری نواسی کا نام بھی اپنی بیٹی زینب ؓ کے نام پر رکھا اور مشابہت اس ہستی سے قرار دی جس کے بارے میں نبی آخر الزمانؐ نے فرمایا تھا ’’خدا کی قسم اس نے مجھے کوئی ایسا مہربان عطا نہیں کیا جیسے خدیجہ ؓ تھیں‘‘کیا جلال ہے ان الفاظ میں اور ہاں یاد رکھو کہ
جب اللہ کا نبیؐ قسم اٹھاتا ہے تو کائنات کا ذرہ ذرہ گواہی دینے اور قسم اٹھانے کے لئے حاضر ہوجاتا ہے۔ اسی لئے مجھے اکثر یہ خیال آتا ہے کہ حضرت خدیجہؓ، حضرت فاطمہؓ زہرہ اور حضرت زینبؓ کی موجودگی میں مسلمان خواتین، خاص طور پر جوان خواتین کو کسی آئیڈئل، کسی مثال اور کسی خاتون کی طرف دیکھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ان ہستیوں کو قلب و نگاہ میں رکھیں اور پھر دیکھیں کہ کس طرح رضائے الٰہی کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں اور عظمت کی منزلیں طے ہوتی چلی جاتی ہیں۔ذرا غور کیجئے کہ اس سے عظیم تر کسی کا حسب نسب ہوسکتا ہے؟ حضرت زینبؓ ہمارے پیارے رسولؐ کی پیاری نواسی، خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرہؓ کی چہیتی بیٹی اور مولائے کائنات حضرت علیؓ کے جگر کا ٹکڑا تھیں۔ پھر وہ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ سردارانِ نوجوانانِ جنت کی نہایت پیاری بہن تھیں۔ سچ یہ ہے کہ مسلمان کا ایمان عشق رسولؐ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
عشق رسولؐ کے بغیرمسلمانی کی منزل نہیں ملتی نہ ہی قلب و نگاہ روشن ہوتے اور باطن منور ہوتا ہے لیکن عشق رسولؐ اہل بیت کی محبت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، جن عظیم اور مقدس ہستیوں کو رسول ؐخدا نے بازئوں میں اٹھا اٹھا کر کہا اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر، علیؓ، حسنؓ ، حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں، جس کا میں مولا، اس کا علی مولا ۔ کیا ان ہستیوں ،عظیم ترین ہستیوں، سے محبت کئے بغیر عشق رسولؐ کا سراغ مل سکتا ہے؟ عشق کی ان شمعوں کو روشن کئے بغیر روحانیت کی منزل کا نشان مل سکتا ہے؟میں عرض کررہا تھا کہ میں تاریخ عالم چھانتا رہا لیکن مجھے اس سے بڑی صبر و شکر، رضائے الٰہی اور بہادری و جرأت کی مثال نہیں ملی، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ دنیا کی عظیم شخصیات بھی اس حوالے سے حضرت زینبؓ کی خاک پا کے بھی قریب نہیں۔ ذرا سوچو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے محبوب رسول ﷺ نبی آخر الزمان کی نواسی، حضورﷺ کی نہایت پیاری بیٹی خاتون جنت حضرت فاطمہؓ کی بیٹی اور
مولائے کائنات خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کے جگر کا ٹکڑا میدان کربلا میں اپنے پیارے بھائی حضرت امام حسینؓ اور اپنے دو جگر گوشوں حضرت محمد بن عبداللہؓ اور حضرت عون بن عبداللہؓ کے علاوہ اپنے بھتیجوں، بھانجوں، قریبی عزیزوں کی شہادت کے بعد صحرا کی وحشت اور رات کی تاریکی میں تنہا غموں کا پہاڑ اٹھائے بیٹھتی تھیں لیکن نہ کوئی شکوہ و فریاد، نہ گریہ اور نہ ہی معصوم ہونٹوں پر شکایت۔ صبر کا دامن مضبوطی سے تھام رکھا تھا، اللہ کی رضا پر اس قدر راضی کہ اپنے رب سے ان قربانیوں کی قبولیت کی دعا میں مصروف تھیں۔ دوسری طرف دشمن کے خیموں میں فتح کا جشن منایا جارہا تھا۔ دشمن نے اہل بیت کی عبادت گزار اور حرم نبویؐ کی عفت مآب بیٹیوں کے سروں سے چادریں بھی اتار لی تھیں اور کانوں سے سونے کی بالیں بھی کھینچ لی تھیں۔ کئی دن سے بھوکی پیاسی حضرت زینبؓ اور بچوں کو یزیدی امیر لشکر عمر بن سعد نے جلا ہوا خیمہ بھیجا تو
حضرت زینبؓ نے اسے بچوں پر لگا کر انہیں سلاد دیا اور خود عبادت میں مصروف ہوگئیں۔ قیامت کی اس رات بھی آپ ؓ نے نماز تہجد قضا کی اور نہ ذکر و اذکار میں کمی آنے دی۔ سبحان اللہ صبر و شکر اور رضائے الٰہی کی انتہا ہے کہ جب اس لٹے پٹے غم کے لہو میں ڈوبے قافلے کو کوفہ کے گورنر عبید اللہ بن ز یاد کے دربار میں لایا گیا تو اس نے حضرت زینبؓ سے پوچھا۔ آپؓ نے اپنے بھائی کے سلسلے میں خدا کے امر کو کیسا پایا ، حضرت زینبؓ نے نہایت اطمینان اور یقین کے ساتھ جواب دیا ’’ہم نے اچھائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ خدا کی طرف سے یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ انہیں مقتول دیکھے اور اب وہ لوگ خدا کی ابدی بارگاہ میں آرام کر رہے ہیں۔‘‘ سبحان اللہ! کیا صبر، شکر اور رضائے الٰہی پر راضی رہنے کی اس سے بڑی مثال دی جاسکتی ہے؟ ہوسکتا ہے میری کم علمی ہو، لیکن تاریخ عالم میں اس طرح کے صبر و شکر کی مثال موجود ہی نہیں۔
یزید کے دربار میں حضرت زینبؓ کا خطاب جرأت و بہادری اور حق گوئی کی ایک منفرد مثال ہے۔ سرکاری فوج کے حصار میں جب یہ لٹا پٹا، بھوکا پیاسا، ظلم و ستم کے زخموں سے چور قافلہ یزید کے دربار میں پیش کیا گیا تو حضرت زینبؓ نے حکمت و دانش اور جرأت و بہادری سے یزیدی خرافات کو مسترد کرتے ہوئے کہا’’تم اپنے زعم میں سمجھ رہے ہو کہ کامیابی مل گئی اور اہل بیت سرنگوں ہوگئے مگر حقیقت میں اہل بیت کا کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ یزید اور اس کے ساتھیوں نے اپنے آپ کو تباہ و برباد کر لیا ہے۔ ‘‘ تاریخ نے حضرت زینبؓ کے الفاظ پر مہر تصدیق ثبت کردی اور واضح کردیا کہ ؎ قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے: ہم صبر اور شکر کی باتیں تو بہت کرتے ہیں، عشق رسولؐ اور حب اہل بیت کے دعوے بھی کرتے ہیں اور حال یہ ہے کہ پائوں میں ذرا سا کانٹا چبھے، کوئی مصیبت یا مشکل آجائے یا غم و صدمہ کا سامنا کرنا پڑے تو
صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سےگلے شکوے کرنے شروع کر دیتے ہیں اور آہیں بھر بھر کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ کسی بدو نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ جہنم کی آگ کس شے سے ٹھنڈی ہوتی ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’دنیا کی مصیبتوں پر صبر کرنے سے۔‘‘ بدو نے عرض کیا کہ اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا ’’اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو۔‘‘ حضرت زینبؓ کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ کیا دنیا کی مصیبتوں پر صبر کی اس سے بڑی مثال مل سکتی ہے؟ کیا غم کے پہاڑ تلے دب کر صبر و شکر کے ساتھ بھوکے پیاسے بھائی،
بیٹوں، بھانجوں، بھتیجوں کے خون شہادت کے باوجود اس قدر کثرت سے ذکر الٰہی کیا جاسکتا ہے؟ حضرت زینبؓ جنہیں ہمارے پیارے رسولﷺ نے کھجور کے ساتھ اپنے لعابِ دہن سے’’گڑھتی‘‘ دی تھی صرف وہی عظیم ہستی اس قدر صبر و شکر کا مظاہرہ کرسکتی تھی اور صدمات میں ڈوب کر بھی اس قدر ذکر الٰہی کرسکتی تھی۔ ہم ان کی مثال کی شمع سے روشنی کی ایک کرن بھی حاصل کرلیں تو زندگی میں ایک انقلاب آجائے۔ معاشرے میں صبر و شکر کے پھول کھلیں تو ذکر الٰہی کا نور پھیل جائے۔ دوستو! یہ مسلمانی کی پہلی سیڑھی بھی ہے اور عظیم تر منزل بھی۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2IMeG4x via India Pakistan News
0 notes
cleopatrarps · 6 years ago
Text
پیدائش کے بعد حضرت زینبؓ کو جب حضرت محمد ؐ نے پہلی بار دیکھا تو انکی زبان مبارک سے کیا الفاظ نکلے ؟
Tumblr media
پیدائش کے بعد حضرت زینبؓ کو جب حضرت محمد ؐ نے پہلی بار دیکھا تو انکی زبان مبارک سے کیا الفاظ نکلے ؟
Tumblr media
انسانوں میں عام طور پر تین قسم کی صفات یا اوصاف پائے جاتے ہیں۔ حسبی و نسبی یا کسبی یا عطائی۔ حسی و نسبی اوصاف وہ ہوتے ہیں جو انسان کو اپنے والدین اور خاندان کی جانب سے ملتے ہیں۔ کسبی اوصاف وہ ہوتے ہیں جو انسان اپنی محنت، مجاہدےاور عزم سے پیدا کرتا ہے یا حاصل کرتا ہے۔ عطائی اوصاف اللہ پاک کی جانب سے عطا ہوتے ہیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عطا ہوتے ہیں، جب کسی شخصیت میں تینوں قسم کے اوصاف جمع ہو جائیں تو
وہ عظمت کی بلندیوں کو چھونے لگتی ہے اور اگر حسب، نسب بہترین اور عظیم ترین ہو، تربیت عظیم گود اور اللہ پاک کے محبوب گھرانے میں ہوئی ہو تو وہ خود کسبی اور عطائی اوصاف کا باعث
بنتی ہے۔ اس طرح کی مثالیں عالمی تاریخ میں کم کم ملتی ہیں۔ میں تاریخ کے اوراق چھانتا رہا، دنیا کی نامور اور عظیم شخصیات کا مطالعہ کرتا رہا لیکن سچ یہ ہے کہ مجھے تاریخ میں کوئی بھی خاتون اتنے صبر و شکر، بہادری، تسلیم و رضا، ایثار و وفا، جرأت ِاظہار اور عظمت و کردار کی مالک نہیں ملی جتنی حضرت زینبؓ بنت علی المرتضیٰؓ تھیں۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک مثال ہیں، رب تعالیٰ نے انہیں مثال ہی پیدا کیا تھا اور وہ قیامت تک ایک مثال ہی رہیں گی۔ نہ کسی کو وہ حسب نسب مل سکتا ہے اور نہ ہی اس قدر صبر و شکر اور حوصلہ جو حضرت زینبؓ کو عطا ہوا تھا۔ سانحہ کربلا نہ ہوتا تو شاید دنیا کو حضرت زینب ؓ کی عظمت کا راز سمجھ میں نہ آتا اور نہ ہی ہمارے سامنے ایک روشن مثال ہوتی،
روشن مثال بھی بے مثال۔ سانحہ کربلا نے حضرت زینبؓ کی شخصیت میں مضمر اوصاف بےنقاب کرکے عالمی تاریخ میں ایک بےمثل، مثال کی شمع روشن کر دی جو تاقیامت انسانیت کی رہنمائی کرتی رہے گی اور صبر و شکر، تسلیم و رضا کا درس دیتی رہے گی۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ نبی کریمؐ نے حضرت زینبؓ کو پیدائش کے بعد پہلی دفعہ دیکھا اور بازئوں میں اٹھایا تو فرمایا کہ زینبؓ اپنی نانی حضرت خدیجہؓ سے مشابہت رکھتی ہے۔ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ دنیا کی عظیم ترین ہستی اور محبوبؐ خدا اپنے نانا سے مشابہہ تھے۔ گویا حضرت امام حسنؓ، حضرت امام حسینؓ اور حضرت زینبؓ تینوں کو اپنے ننھیال سے سب سے زیادہ روحانی وراثت ملی تھی اور پھر حضرت فاطمہؓ کی گود اور مولائے کائنات حضرت علیؓ کی پدرانہ شفقت اور توجہ گویا سونے پہ سہاگے والی بات تھی۔ حضور نبی کریمؐ نے اپنی پیاری نواسی کا نام بھی اپنی بیٹی زینب ؓ کے نام پر رکھا اور مشابہت اس ہستی سے قرار دی جس کے بارے میں نبی آخر الزمانؐ نے فرمایا تھا ’’خدا کی قسم اس نے مجھے کوئی ایسا مہربان عطا نہیں کیا جیسے خدیجہ ؓ تھیں‘‘کیا جلال ہے ان الفاظ میں اور ہاں یاد رکھو کہ
جب اللہ کا نبیؐ قسم اٹھاتا ہے تو کائنات کا ذرہ ذرہ گواہی دینے اور قسم اٹھانے کے لئے حاضر ہوجاتا ہے۔ اسی لئے مجھے اکثر یہ خیال آتا ہے کہ حضرت خدیجہؓ، حضرت فاطمہؓ زہرہ اور حضرت زینبؓ کی موجودگی میں مسلمان خواتین، خاص طور پر جوان خواتین کو کسی آئیڈئل، کسی مثال اور کسی خاتون کی طرف دیکھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ان ہستیوں کو قلب و نگاہ میں رکھیں اور پھر دیکھیں کہ کس طرح رضائے الٰہی کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں اور عظمت کی منزلیں طے ہوتی چلی جاتی ہیں۔ذرا غور کیجئے کہ اس سے عظیم تر کسی کا حسب نسب ہوسکتا ہے؟ حضرت زینبؓ ہمارے پیارے رسولؐ کی پیاری نواسی، خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرہؓ کی چہیتی بیٹی اور مولائے کائنات حضرت علیؓ کے جگر کا ٹکڑا تھیں۔ پھر وہ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ سردارانِ نوجوانانِ جنت کی نہایت پیاری بہن تھیں۔ سچ یہ ہے کہ مسلمان کا ایمان عشق رسولؐ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
عشق رسولؐ کے بغیرمسلمانی کی منزل نہیں ملتی نہ ہی قلب و نگاہ روشن ہوتے اور باطن منور ہوتا ہے لیکن عشق رسولؐ اہل بیت کی محبت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، جن عظیم اور مقدس ہستیوں کو رسول ؐخدا نے بازئوں میں اٹھا اٹھا کر کہا اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر، علیؓ، حسنؓ ، حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں، جس کا میں مولا، اس کا علی مولا ۔ کیا ان ہستیوں ،عظیم ترین ہستیوں، سے محبت کئے بغیر عشق رسولؐ کا سراغ مل سکتا ہے؟ عشق کی ان شمعوں کو روشن کئے بغیر روحانیت کی منزل کا نشان مل سکتا ہے؟میں عرض کررہا تھا کہ میں تاریخ عالم چھانتا رہا لیکن مجھے اس سے بڑی صبر و شکر، رضائے الٰہی اور بہادری و جرأت کی مثال نہیں ملی، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ دنیا کی عظیم شخصیات بھی اس حوالے سے حضرت زینبؓ کی خاک پا کے بھی قریب نہیں۔ ذرا سوچو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے محبوب رسول ﷺ نبی آخر الزمان کی نواسی، حضورﷺ کی نہایت پیاری بیٹی خاتون جنت حضرت فاطمہؓ کی بیٹی اور
مولائے کائنات خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کے جگر کا ٹکڑا میدان کربلا میں اپنے پیارے بھائی حضرت امام حسینؓ اور اپنے دو جگر گوشوں حضرت محمد بن عبداللہؓ اور حضرت عون بن عبداللہؓ کے علاوہ اپنے بھتیجوں، بھانجوں، قریبی عزیزوں کی شہادت کے بعد صحرا کی وحشت اور رات کی تاریکی میں تنہا غموں کا پہاڑ اٹھائے بیٹھتی تھیں لیکن نہ کوئی شکوہ و فریاد، نہ گریہ اور نہ ہی معصوم ہونٹوں پر شکایت۔ صبر کا دامن مضبوطی سے تھام رکھا تھا، اللہ کی رضا پر اس قدر راضی کہ اپنے رب سے ان قربانیوں کی قبولیت کی دعا میں مصروف تھیں۔ دوسری طرف دشمن کے خیموں میں فتح کا جشن منایا جارہا تھا۔ دشمن نے اہل بیت کی عبادت گزار اور حرم نبویؐ کی عفت مآب بیٹیوں کے سروں سے چادریں بھی اتار لی تھیں اور کانوں سے سونے کی بالیں بھی کھینچ لی تھیں۔ کئی دن سے بھوکی پیاسی حضرت زینبؓ اور بچوں کو یزیدی امیر لشکر عمر بن سعد نے جلا ہوا خیمہ بھیجا تو
حضرت زینبؓ نے اسے بچوں پر لگا کر انہیں سلاد دیا اور خود عبادت میں مصروف ہوگئیں۔ قیامت کی اس رات بھی آپ ؓ نے نماز تہجد قضا کی اور نہ ذکر و اذکار میں کمی آنے دی۔ سبحان اللہ صبر و شکر اور رضائے الٰہی کی انتہا ہے کہ جب اس لٹے پٹے غم کے لہو میں ڈوبے قافلے کو کوفہ کے گورنر عبید اللہ بن ز یاد کے دربار میں لایا گیا تو اس نے حضرت زینبؓ سے پوچھا۔ آپؓ نے اپنے بھائی کے سلسلے میں خدا کے امر کو کیسا پایا ، حضرت زینبؓ نے نہایت اطمینان اور یقین کے ساتھ جواب دیا ’’ہم نے اچھائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ خدا کی طرف سے یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ انہیں مقتول دیکھے اور اب وہ لوگ خدا کی ابدی بارگاہ میں آرام کر رہے ہیں۔‘‘ سبحان اللہ! کیا صبر، شکر اور رضائے الٰہی پر راضی رہنے کی اس سے بڑی مثال دی جاسکتی ہے؟ ہوسکتا ہے میری کم علمی ہو، لیکن تاریخ عالم میں اس طرح کے صبر و شکر کی مثال موجود ہی نہیں۔
یزید کے دربار میں حضرت زینبؓ کا خطاب جرأت و بہادری اور حق گوئی کی ایک منفرد مثال ہے۔ سرکاری فوج کے حصار میں جب یہ لٹا پٹا، بھوکا پیاسا، ظلم و ستم کے زخموں سے چور قافلہ یزید کے دربار میں پیش کیا گیا تو حضرت زینبؓ نے حکمت و دانش اور جرأت و بہادری سے یزیدی خرافات کو مسترد کرتے ہوئے کہا’’تم اپنے زعم میں سمجھ رہے ہو کہ کامیابی مل گئی اور اہل بیت سرنگوں ہوگئے مگر حقیقت میں اہل بیت کا کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ یزید اور اس کے ساتھیوں نے اپنے آپ کو تباہ و برباد کر لیا ہے۔ ‘‘ تاریخ نے حضرت زینبؓ کے الفاظ پر مہر تصدیق ثبت کردی اور واضح کردیا کہ ؎ قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے: ہم صبر اور شکر کی باتیں تو بہت کرتے ہیں، عشق رسولؐ اور حب اہل بیت کے دعوے بھی کرتے ہیں اور حال یہ ہے کہ پائوں میں ذرا سا کانٹا چبھے، کوئی مصیبت یا مشکل آجائے یا غم و صدمہ کا سامنا کرنا پڑے تو
صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سےگلے شکوے کرنے شروع کر دیتے ہیں اور آہیں بھر بھر کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ کسی بدو نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ جہنم کی آگ کس شے سے ٹھنڈی ہوتی ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’دنیا کی مصیبتوں پر صبر کرنے سے۔‘‘ بدو نے عرض کیا کہ اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا ’’اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو۔‘‘ حضرت زینبؓ کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ کیا دنیا کی مصیبتوں پر صبر کی اس سے بڑی مثال مل سکتی ہے؟ کیا غم کے پہاڑ تلے دب کر صبر و شکر ��ے ساتھ بھوکے پیاسے بھائی،
بیٹوں، بھانجوں، بھتیجوں کے خون شہادت کے باوجود اس قدر کثرت سے ذکر الٰہی کیا جاسکتا ہے؟ حضرت زینبؓ جنہیں ہمارے پیارے رسولﷺ نے کھجور کے ساتھ اپنے لعابِ دہن سے’’گڑھتی‘‘ دی تھی صرف وہی عظیم ہستی اس قدر صبر و شکر کا مظاہرہ کرسکتی تھی اور صدمات میں ڈوب کر بھی اس قدر ذکر الٰہی کرسکتی تھی۔ ہم ان کی مثال کی شمع سے روشنی کی ایک کرن بھی حاصل کرلیں تو زندگی میں ایک انقلاب آجائے۔ معاشرے میں صبر و شکر کے پھول کھلیں تو ذکر الٰہی کا نور پھیل جائے۔ دوستو! یہ مسلمانی کی پہلی سیڑھی بھی ہے اور عظیم تر منزل بھی۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2IMeG4x via Today Urdu News
0 notes
newestbalance · 6 years ago
Text
پیدائش کے بعد حضرت زینبؓ کو جب حضرت محمد ؐ نے پہلی بار دیکھا تو انکی زبان مبارک سے کیا الفاظ نکلے ؟
Tumblr media
پیدائش کے بعد حضرت زینبؓ کو جب حضرت محمد ؐ نے پہلی بار دیکھا تو انکی زبان مبارک سے کیا الفاظ نکلے ؟
Tumblr media
انسانوں میں عام طور پر تین قسم کی صفات یا اوصاف پائے جاتے ہیں۔ حسبی و نسبی یا کسبی یا عطائی۔ حسی و نسبی اوصاف وہ ہوتے ہیں جو انسان کو اپنے والدین اور خاندان کی جانب سے ملتے ہیں۔ کسبی اوصاف وہ ہوتے ہیں جو انسان اپنی محنت، مجاہدےاور عزم سے پیدا کرتا ہے یا حاصل کرتا ہے۔ عطائی اوصاف اللہ پاک کی جانب سے عطا ہوتے ہیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عطا ہوتے ہیں، جب کسی شخصیت میں تینوں قسم کے اوصاف جمع ہو جائیں تو
وہ عظمت کی بلندیوں کو چھونے لگتی ہے اور اگر حسب، نسب بہترین اور عظیم ترین ہو، تربیت عظیم گود اور اللہ پاک کے محبوب گھرانے میں ہوئی ہو تو وہ خود کسبی اور عطائی اوصاف کا باعث
بنتی ہے۔ اس طرح کی مثالیں عالمی تاریخ میں کم کم ملتی ہیں۔ میں تاریخ کے اوراق چھانتا رہا، دنیا کی نامور اور عظیم شخصیات کا مطالعہ کرتا رہا لیکن سچ یہ ہے کہ مجھے تاریخ میں کوئی بھی خاتون اتنے صبر و شکر، بہادری، تسلیم و رضا، ایثار و وفا، جرأت ِاظہار اور عظمت و کردار کی مالک نہیں ملی جتنی حضرت زینبؓ بنت علی المرتضیٰؓ تھیں۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک مثال ہیں، رب تعالیٰ نے انہیں مثال ہی پیدا کیا تھا اور وہ قیامت تک ایک مثال ہی رہیں گی۔ نہ کسی کو وہ حسب نسب مل سکتا ہے اور نہ ہی اس قدر صبر و شکر اور حوصلہ جو حضرت زینبؓ کو عطا ہوا تھا۔ سانحہ کربلا نہ ہوتا تو شاید دنیا کو حضرت زینب ؓ کی عظمت کا راز سمجھ میں نہ آتا اور نہ ہی ہمارے سامنے ایک روشن مثال ہوتی،
روشن مثال بھی بے مثال۔ سانحہ کربلا نے حضرت زینبؓ کی شخصیت میں مضمر اوصاف بےنقاب کرکے عالمی تاریخ میں ایک بےمثل، مثال کی شمع روشن کر دی جو تاقیامت انسانیت کی رہنمائی کرتی رہے گی اور صبر و شکر، تسلیم و رضا کا درس دیتی رہے گی۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ نبی کریمؐ نے حضرت زینبؓ کو پیدائش کے بعد پہلی دفعہ دیکھا اور بازئوں میں اٹھایا تو فرمایا کہ زینبؓ اپنی نانی حضرت خدیجہؓ سے مشابہت رکھتی ہے۔ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ دنیا کی عظیم ترین ہستی اور محبوبؐ خدا اپنے نانا سے مشابہہ تھے۔ گویا حضرت امام حسنؓ، حضرت امام حسینؓ اور حضرت زینبؓ تینوں کو اپنے ننھیال سے سب سے زیادہ روحانی وراثت ملی تھی اور پھر حضرت فاطمہؓ کی گود اور مولائے کائنات حضرت علیؓ کی پدرانہ شفقت اور توجہ گویا سونے پہ سہاگے والی بات تھی۔ حضور نبی کریمؐ نے اپنی پیاری نواسی کا نام بھی اپنی بیٹی زینب ؓ کے نام پر رکھا اور مشابہت اس ہستی سے قرار دی جس کے بارے میں نبی آخر الزمانؐ نے فرمایا تھا ’’خدا کی قسم اس نے مجھے کوئی ایسا مہربان عطا نہیں کیا جیسے خدیجہ ؓ تھیں‘‘کیا جلال ہے ان الفاظ میں اور ہاں یاد رکھو کہ
جب اللہ کا نبیؐ قسم اٹھاتا ہے تو کائنات کا ذرہ ذرہ گواہی دینے اور قسم اٹھانے کے لئے حاضر ہوجاتا ہے۔ اسی لئے مجھے اکثر یہ خیال آتا ہے کہ حضرت خدیجہؓ، حضرت فاطمہؓ زہرہ اور حضرت زینبؓ کی موجودگی میں مسلمان خواتین، خاص طور پر جوان خواتین کو کسی آئیڈئل، کسی مثال اور کسی خاتون کی طرف دیکھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ان ہستیوں کو قلب و نگاہ میں رکھیں اور پھر دیکھیں کہ کس طرح رضائے الٰہی کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں اور عظمت کی منزلیں طے ہوتی چلی جاتی ہیں۔ذرا غور کیجئے کہ اس سے عظیم تر کسی کا حسب نسب ہوسکتا ہے؟ حضرت زینبؓ ہمارے پیارے رسولؐ کی پیاری نواسی، خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرہؓ کی چہیتی بیٹی اور مولائے کائنات حضرت علیؓ کے جگر کا ٹکڑا تھیں۔ پھر وہ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ سردارانِ نوجوانانِ جنت کی نہایت پیاری بہن تھیں۔ سچ یہ ہے کہ مسلمان کا ایمان عشق رسولؐ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
عشق رسولؐ کے بغیرمسلمانی کی منزل نہیں ملتی نہ ہی قلب و نگاہ روشن ہوتے اور باطن منور ہوتا ہے لیکن عشق رسولؐ اہل بیت کی محبت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، جن عظیم اور مقدس ہستیوں کو رسول ؐخدا نے بازئوں میں اٹھا اٹھا کر کہا اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر، علیؓ، حسنؓ ، حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں، جس کا میں مولا، اس کا علی مولا ۔ کیا ان ہستیوں ،عظیم ترین ہستیوں، سے محبت کئے بغیر عشق رسولؐ کا سراغ مل سکتا ہے؟ عشق کی ان شمعوں کو روشن کئے بغیر روحانیت کی منزل کا نشان مل سکتا ہے؟میں عرض کررہا تھا کہ میں تاریخ عالم چھانتا رہا لیکن مجھے اس سے بڑی صبر و شکر، رضائے الٰہی اور بہادری و جرأت کی مثال نہیں ملی، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ دنیا کی عظیم شخصیات بھی اس حوالے سے حضرت زینبؓ کی خاک پا کے بھی قریب نہیں۔ ذرا سوچو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے محبوب رسول ﷺ نبی آخر الزمان کی نواسی، حضورﷺ کی نہایت پیاری بیٹی خاتون جنت حضرت فاطمہؓ کی بیٹی اور
مولائے کائنات خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کے جگر کا ٹکڑا میدان کربلا میں اپنے پیارے بھائی حضرت امام حسینؓ اور اپنے دو جگر گوشوں حضرت محمد بن عبداللہؓ اور حضرت عون بن عبداللہؓ کے علاوہ اپنے بھتیجوں، بھانجوں، قریبی عزیزوں کی شہادت کے بعد صحرا کی وحشت اور رات کی تاریکی میں تنہا غموں کا پہاڑ اٹھائے بیٹھتی تھیں لیکن نہ کوئی شکوہ و فریاد، نہ گریہ اور نہ ہی معصوم ہونٹوں پر شکایت۔ صبر کا دامن مضبوطی سے تھام رکھا تھا، اللہ کی رضا پر اس قدر راضی کہ اپنے رب سے ان قربانیوں کی قبولیت کی دعا میں مصروف تھیں۔ دوسری طرف دشمن کے خیموں میں فتح کا جشن منایا جارہا تھا۔ دشمن نے اہل بیت کی عب��دت گزار اور حرم نبویؐ کی عفت مآب بیٹیوں کے سروں سے چادریں بھی اتار لی تھیں اور کانوں سے سونے کی بالیں بھی کھینچ لی تھیں۔ کئی دن سے بھوکی پیاسی حضرت زینبؓ اور بچوں کو یزیدی امیر لشکر عمر بن سعد نے جلا ہوا خیمہ بھیجا تو
حضرت زینبؓ نے اسے بچوں پر لگا کر انہیں سلاد دیا اور خود عبادت میں مصروف ہوگئیں۔ قیامت کی اس رات بھی آپ ؓ نے نماز تہجد قضا کی اور نہ ذکر و اذکار میں کمی آنے دی۔ سبحان اللہ صبر و شکر اور رضائے الٰہی کی انتہا ہے کہ جب اس لٹے پٹے غم کے لہو میں ڈوبے قافلے کو کوفہ کے گورنر عبید اللہ بن ز یاد کے دربار میں لایا گیا تو اس نے حضرت زینبؓ سے پوچھا۔ آپؓ نے اپنے بھائی کے سلسلے میں خدا کے امر کو کیسا پایا ، حضرت زینبؓ نے نہایت اطمینان اور یقین کے ساتھ جواب دیا ’’ہم نے اچھائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ خدا کی طرف سے یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ انہیں مقتول دیکھے اور اب وہ لوگ خدا کی ابدی بارگاہ میں آرام کر رہے ہیں۔‘‘ سبحان اللہ! کیا صبر، شکر اور رضائے الٰہی پر راضی رہنے کی اس سے بڑی مثال دی جاسکتی ہے؟ ہوسکتا ہے میری کم علمی ہو، لیکن تاریخ عالم میں اس طرح کے صبر و شکر کی مثال موجود ہی نہیں۔
یزید کے دربار میں حضرت زینبؓ کا خطاب جرأت و بہادری اور حق گوئی کی ایک منفرد مثال ہے۔ سرکاری فوج کے حصار میں جب یہ لٹا پٹا، بھوکا پیاسا، ظلم و ستم کے زخموں سے چور قافلہ یزید کے دربار میں پیش کیا گیا تو حضرت زینبؓ نے حکمت و دانش اور جرأت و بہادری سے یزیدی خرافات کو مسترد کرتے ہوئے کہا’’تم اپنے زعم میں سمجھ رہے ہو کہ کامیابی مل گئی اور اہل بیت سرنگوں ہوگئے مگر حقیقت میں اہل بیت کا کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ یزید اور اس کے ساتھیوں نے اپنے آپ کو تباہ و برباد کر لیا ہے۔ ‘‘ تاریخ نے حضرت زینبؓ کے الفاظ پر مہر تصدیق ثبت کردی اور واضح کردیا کہ ؎ قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے: ہم صبر اور شکر کی باتیں تو بہت کرتے ہیں، عشق رسولؐ اور حب اہل بیت کے دعوے بھی کرتے ہیں اور حال یہ ہے کہ پائوں میں ذرا سا کانٹا چبھے، کوئی مصیبت یا مشکل آجائے یا غم و صدمہ کا سامنا کرنا پڑے تو
صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سےگلے شکوے کرنے شروع کر دیتے ہیں اور آہیں بھر بھر کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ کسی بدو نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ جہنم کی آگ کس شے سے ٹھنڈی ہوتی ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’دنیا کی مصیبتوں پر صبر کرنے سے۔‘‘ بدو نے عرض کیا کہ اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا ’’اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو۔‘‘ حضرت زینبؓ کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ کیا دنیا کی مصیبتوں پر صبر کی اس سے بڑی مثال مل سکتی ہے؟ کیا غم کے پہاڑ تلے دب کر صبر و شکر کے ساتھ بھوکے پیاسے بھائی،
بیٹوں، بھانجوں، بھتیجوں کے خون شہادت کے باوجود اس قدر کثرت سے ذکر الٰہی کیا جاسکتا ہے؟ حضرت زینبؓ جنہیں ہمارے پیارے رسولﷺ نے کھجور کے ساتھ اپنے لعابِ دہن سے’’گڑھتی‘‘ دی تھی صرف وہی عظیم ہستی اس قدر صبر و شکر کا مظاہرہ کرسکتی تھی اور صدمات میں ڈوب کر بھی اس قدر ذکر الٰہی کرسکتی تھی۔ ہم ان کی مثال کی شمع سے روشنی کی ایک کرن بھی حاصل کرلیں تو زندگی میں ایک انقلاب آجائے۔ معاشرے میں صبر و شکر کے پھول کھلیں تو ذکر الٰہی کا نور پھیل جائے۔ دوستو! یہ مسلمانی کی پہلی سیڑھی بھی ہے اور عظیم تر منزل بھی۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2IMeG4x via Urdu News
0 notes
dani-qrt · 6 years ago
Text
پیدائش کے بعد حضرت زینبؓ کو جب حضرت محمد ؐ نے پہلی بار دیکھا تو انکی زبان مبارک سے کیا الفاظ نکلے ؟
Tumblr media
پیدائش کے بعد حضرت زینبؓ کو جب حضرت محمد ؐ نے پہلی بار دیکھا تو انکی زبان مبارک سے کیا الفاظ نکلے ؟
Tumblr media
انسانوں میں عام طور پر تین قسم کی صفات یا اوصاف پائے جاتے ہیں۔ حسبی و نسبی یا کسبی یا عطائی۔ حسی و نسبی اوصاف وہ ہوتے ہیں جو انسان کو اپنے والدین اور خاندان کی جانب سے ملتے ہیں۔ کسبی اوصاف وہ ہوتے ہیں جو انسان اپنی محنت، مجاہدےاور عزم سے پیدا کرتا ہے یا حاصل کرتا ہے۔ عطائی اوصاف اللہ پاک کی جانب سے عطا ہوتے ہیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عطا ہوتے ہیں، جب کسی شخصیت میں تینوں قسم کے اوصاف جمع ہو جائیں تو
وہ عظمت کی بلندیوں کو چھونے لگتی ہے اور اگر حسب، نسب بہترین اور عظیم ترین ہو، تربیت عظیم گود اور اللہ پاک کے محبوب گھرانے میں ہوئی ہو تو وہ خود کسبی اور عطائی اوصاف کا باعث
بنتی ہے۔ اس طرح کی مثالیں عالمی تاریخ میں کم کم ملتی ہیں۔ میں تاریخ کے اوراق چھانتا رہا، دنیا کی نامور اور عظیم شخصیات کا مطالعہ کرتا رہا لیکن سچ یہ ہے کہ مجھے تاریخ میں کوئی بھی خاتون اتنے صبر و شکر، بہادری، تسلیم و رضا، ایثار و وفا، جرأت ِاظہار اور عظمت و کردار کی مالک نہیں ملی جتنی حضرت زینبؓ بنت علی المرتضیٰؓ تھیں۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک مثال ہیں، رب تعالیٰ نے انہیں مثال ہی پیدا کیا تھا اور وہ قیامت تک ایک مثال ہی رہیں گی۔ نہ کسی کو وہ حسب نسب مل سکتا ہے اور نہ ہی اس قدر صبر و شکر اور حوصلہ جو حضرت زینبؓ کو عطا ہوا تھا۔ سانحہ کربلا نہ ہوتا تو شاید دنیا کو حضرت زینب ؓ کی عظمت کا راز سمجھ میں نہ آتا اور نہ ہی ہمارے سامنے ایک روشن مثال ہوتی،
روشن مثال بھی بے مثال۔ سانحہ کربلا نے حضرت زینبؓ کی شخصیت میں مضمر اوصاف بےنقاب کرکے عالمی تاریخ میں ایک بےمثل، مثال کی شمع روشن کر دی جو تاقیامت انسانیت کی رہنمائی کرتی رہے گی اور صبر و شکر، تسلیم و رضا کا درس دیتی رہے گی۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ نبی کریمؐ نے حضرت زینبؓ کو پیدائش کے بعد پہلی دفعہ دیکھا اور بازئوں میں اٹھایا تو فرمایا کہ زینبؓ اپنی نانی حضرت خدیجہؓ سے مشابہت رکھتی ہے۔ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ دنیا کی عظیم ترین ہستی اور محبوبؐ خدا اپنے نانا سے مشابہہ تھے۔ گویا حضرت امام حسنؓ، حضرت امام حسینؓ اور حضرت زینبؓ تینوں کو اپنے ننھیال سے سب سے زیادہ روحانی وراثت ملی تھی اور پھر حضرت فاطمہؓ کی گود اور مولائے کائنات حضرت علیؓ کی پدرانہ شفقت اور توجہ گویا سونے پہ سہاگے والی بات تھی۔ حضور نبی کریمؐ نے اپنی پیاری نواسی کا نام بھی اپنی بیٹی زینب ؓ کے نام پر رکھا اور مشابہت اس ہستی سے قرار دی جس کے بارے میں نبی آخر الزمانؐ نے فرمایا تھا ’’خدا کی قسم اس نے مجھے کوئی ایسا مہربان عطا نہیں کیا جیسے خدیجہ ؓ تھیں‘‘کیا جلال ہے ان الفاظ میں اور ہاں یاد رکھو کہ
جب اللہ کا نبیؐ قسم اٹھاتا ہے تو کائنات کا ذرہ ذرہ گواہی دینے اور قسم اٹھانے کے لئے حاضر ہوجاتا ہے۔ اسی لئے مجھے اکثر یہ خیال آتا ہے کہ حضرت خدیجہؓ، حضرت فاطمہؓ زہرہ اور حضرت زینبؓ کی موجودگی میں مسلمان خواتین، خاص طور پر جوان خواتین کو کسی آئیڈئل، کسی مثال اور کسی خاتون کی طرف دیکھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ان ہستیوں کو قلب و نگاہ میں رکھیں اور پھر دیکھیں کہ کس طرح رضائے الٰہی کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں اور عظمت کی منزلیں طے ہوتی چلی جاتی ہیں۔ذرا غور کیجئے کہ اس سے عظیم تر کسی کا حسب نسب ہوسکتا ہے؟ حضرت زینبؓ ہمارے پیارے رسولؐ کی پیاری نواسی، خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرہؓ کی چہیتی بیٹی اور مولائے کائنات حضرت علیؓ کے جگر کا ٹکڑا تھیں۔ پھر وہ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ سردارانِ نوجوانانِ جنت کی نہایت پیاری بہن تھیں۔ سچ یہ ہے کہ مسلمان کا ایمان عشق رسولؐ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
عشق رسولؐ کے بغیرمسلمانی کی منزل نہیں ملتی نہ ہی قلب و نگاہ روشن ہوتے اور باطن منور ہوتا ہے لیکن عشق رسولؐ اہل بیت کی محبت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، جن عظیم اور مقدس ہستیوں کو رسول ؐخدا نے بازئوں میں اٹھا اٹھا کر کہا اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر، علیؓ، حسنؓ ، حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں، جس کا میں مولا، اس کا علی مولا ۔ کیا ان ہستیوں ،عظیم ترین ہستیوں، سے محبت کئے بغیر عشق رسولؐ کا سراغ مل سکتا ہے؟ عشق کی ان شمعوں کو روشن کئے بغیر روحانیت کی منزل کا نشان مل سکتا ہے؟میں عرض کررہا تھا کہ میں تاریخ عالم چھانتا رہا لیکن مجھے اس سے بڑی صبر و شکر، رضائے الٰہی اور بہادری و جرأت کی مثال نہیں ملی، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ دنیا کی عظیم شخصیات بھی اس حوالے سے حضرت زینبؓ کی خاک پا کے بھی قریب نہیں۔ ذرا سوچو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے محبوب رسول ﷺ نبی آخر الزمان کی نواسی، حضورﷺ کی نہایت پیاری بیٹی خاتون جنت حضرت فاطمہؓ کی بیٹی اور
مولائے کائنات خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کے جگر کا ٹکڑا میدان کربلا میں اپنے پیارے بھائی حضرت امام حسینؓ اور اپنے دو جگر گوشوں حضرت محمد بن عبداللہؓ اور حضرت عون بن عبداللہؓ کے علاوہ اپنے بھتیجوں، بھانجوں، قریبی عزیزوں کی شہادت کے بعد صحرا کی وحشت اور رات کی تاریکی میں تنہا غموں کا پہاڑ اٹھائے بیٹھتی تھیں لیکن نہ کوئی شکوہ و فریاد، نہ گریہ اور نہ ہی معصوم ہونٹوں پر شکایت۔ صبر کا دامن مضبوطی سے تھام رکھا تھا، اللہ کی رضا پر اس قدر راضی کہ اپنے رب سے ان قربانیوں کی قبولیت کی دعا میں مصروف تھیں۔ دوسری طرف دشمن کے خیموں میں فتح کا جشن منایا جارہا تھا۔ دشمن نے اہل بیت کی عبادت گزار اور حرم نبویؐ کی عفت مآب بیٹیوں کے سروں سے چادریں بھی اتار لی تھیں اور کانوں سے سونے کی بالیں بھی کھینچ لی تھیں۔ کئی دن سے بھوکی پیاسی حضرت زینبؓ اور بچوں کو یزیدی امیر لشکر عمر بن سعد نے جلا ہوا خیمہ بھیجا تو
حضرت زینبؓ نے اسے بچوں پر لگا کر انہیں سلاد دیا اور خود عبادت میں مصروف ہوگئیں۔ قیامت کی اس رات بھی آپ ؓ نے نماز تہجد قضا کی اور نہ ذکر و اذکار میں کمی آنے دی۔ سبحان اللہ صبر و شکر اور رضائے الٰہی کی انتہا ہے کہ جب اس لٹے پٹے غم کے لہو میں ڈوبے قافلے کو کوفہ کے گورنر عبید اللہ بن ز یاد کے دربار میں لایا گیا تو اس نے حضرت زینبؓ سے پوچھا۔ آپؓ نے اپنے بھائی کے سلسلے میں خدا کے امر کو کیسا پایا ، حضرت زینبؓ نے نہایت اطمینان اور یقین کے ساتھ جواب دیا ’’ہم نے اچھائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ خدا کی طرف سے یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ انہیں مقتول دیکھے اور اب وہ لوگ خدا کی ابدی بارگاہ میں آرام کر رہے ہیں۔‘‘ سبحان اللہ! کیا صبر، شکر اور رضائے الٰہی پر راضی رہنے کی اس سے بڑی مثال دی جاسکتی ہے؟ ہوسکتا ہے میری کم علمی ہو، لیکن تاریخ عالم میں اس طرح کے صبر و شکر کی مثال موجود ہی نہیں۔
یزید کے دربار میں حضرت زینبؓ کا خطاب جرأت و بہادری اور حق گوئی کی ایک منفرد مثال ہے۔ سرکاری فوج کے حصار میں جب یہ لٹا پٹا، بھوکا پیاسا، ظلم و ستم کے زخموں سے چور قافلہ یزید کے دربار میں پیش کیا گیا تو حضرت زینبؓ نے حکمت و دانش اور جرأت و بہادری سے یزیدی خرافات کو مسترد کرتے ہوئے کہا’’تم اپنے زعم میں سمجھ رہے ہو کہ کامیابی مل گئی اور اہل بیت سرنگوں ہوگئے مگر حقیقت میں اہل بیت کا کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ یزید اور اس کے ساتھیوں نے اپنے آپ کو تباہ و برباد کر لیا ہے۔ ‘‘ تاریخ نے حضرت زینبؓ کے الفاظ پر مہر تصدیق ثبت کردی اور واضح کردیا کہ ؎ قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے: ہم صبر اور شکر کی باتیں تو بہت کرتے ہیں، عشق رسولؐ اور حب اہل بیت کے دعوے بھی کرتے ہیں اور حال یہ ہے کہ پائوں میں ذرا سا کانٹا چبھے، کوئی مصیبت یا مشکل آجائے یا غم و صدمہ کا سامنا کرنا پڑے تو
صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سےگلے شکوے کرنے شروع کر دیتے ہیں اور آہیں بھر بھر کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ کسی بدو نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ جہنم کی آگ کس شے سے ٹھنڈی ہوتی ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’دنیا کی مصیبتوں پر صبر کرنے سے۔‘‘ بدو نے عرض کیا کہ اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا ’’اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو۔‘‘ حضرت زینبؓ کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ کیا دنیا کی مصیبتوں پر صبر کی اس سے بڑی مثال مل سکتی ہے؟ کیا غم کے پہاڑ تلے دب کر صبر و شکر کے ساتھ بھوکے پیاسے بھائی،
بیٹوں، بھانجوں، بھتیجوں کے خون شہادت کے باوجود اس قدر کثرت سے ذکر الٰہی کیا جاسکتا ہے؟ حضرت زینبؓ جنہیں ہمارے پیارے رسولﷺ نے کھجور کے ساتھ اپنے لعابِ دہن سے’’گڑھتی‘‘ دی تھی صرف وہی عظیم ہستی اس قدر صبر و شکر کا مظاہرہ کرسکتی تھی اور صدمات میں ڈوب کر بھی اس قدر ذکر الٰہی کرسکتی تھی۔ ہم ان کی مثال کی شمع سے روشنی کی ایک کرن بھی حاصل کرلیں تو زندگی میں ایک انقلاب آجائے۔ معاشرے میں صبر و شکر کے پھول کھلیں تو ذکر الٰہی کا نور پھیل جائے۔ دوستو! یہ مسلمانی کی پہلی سیڑھی بھی ہے اور عظیم تر منزل بھی۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2IMeG4x via Urdu News
0 notes
smrag1 · 5 years ago
Text
21 رمضان المبارک😔
شبِ شھادت مولائے کائنات امیرالمومنین علی ابنِ ابی طالب ع پر آپ تمام مومنوں اور مومنات کو تعزیت پیش کرتے ہیں💔
0 notes
summermkelley · 6 years ago
Text
پیدائش کے بعد حضرت زینبؓ کو جب حضرت محمد ؐ نے پہلی بار دیکھا تو انکی زبان مبارک سے کیا الفاظ نکلے ؟
پیدائش کے بعد حضرت زینبؓ کو جب حضرت محمد ؐ نے پہلی بار دیکھا تو انکی زبان مبارک سے کیا ال��اظ نکلے ؟
انسانوں میں عام طور پر تین قسم کی صفات یا اوصاف پائے جاتے ہیں۔ حسبی و نسبی یا کسبی یا عطائی۔ حسی و نسبی اوصاف وہ ہوتے ہیں جو انسان کو اپنے والدین اور خاندان کی جانب سے ملتے ہیں۔ کسبی اوصاف وہ ہوتے ہیں جو انسان اپنی محنت، مجاہدےاور عزم سے پیدا کرتا ہے یا حاصل کرتا ہے۔ عطائی اوصاف اللہ پاک کی جانب سے عطا ہوتے ہیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عطا ہوتے ہیں، جب کسی شخصیت میں تینوں قسم کے اوصاف جمع ہو جائیں تو
وہ عظمت کی بلندیوں کو چھونے لگتی ہے اور اگر حسب، نسب بہترین اور عظیم ترین ہو، تربیت عظیم گود اور اللہ پاک کے محبوب گھرانے میں ہوئی ہو تو وہ خود کسبی اور عطائی اوصاف کا باعث
بنتی ہے۔ اس طرح کی مثالیں عالمی تاریخ میں کم کم ملتی ہیں۔ میں تاریخ کے اوراق چھانتا رہا، دنیا کی نامور اور عظیم شخصیات کا مطالعہ کرتا رہا لیکن سچ یہ ہے کہ مجھے تاریخ میں کوئی بھی خاتون اتنے صبر و شکر، بہادری، تسلیم و رضا، ایثار و وفا، جرأت ِاظہار اور عظمت و کردار کی مالک نہیں ملی جتنی حضرت زینبؓ بنت علی المرتضیٰؓ تھیں۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک مثال ہیں، رب تعالیٰ نے انہیں مثال ہی پیدا کیا تھا اور وہ قیامت تک ایک مثال ہی رہیں گی۔ نہ کسی کو وہ حسب نسب مل سکتا ہے اور نہ ہی اس قدر صبر و شکر اور حوصلہ جو حضرت زینبؓ کو عطا ہوا تھا۔ سانحہ کربلا نہ ہوتا تو شاید دنیا کو حضرت زینب ؓ کی عظمت کا راز سمجھ میں نہ آتا اور نہ ہی ہمارے سامنے ایک روشن مثال ہوتی،
روشن مثال بھی بے مثال۔ سانحہ کربلا نے حضرت زینبؓ کی شخصیت میں مضمر اوصاف بےنقاب کرکے عالمی تاریخ میں ایک بےمثل، مثال کی شمع روشن کر دی جو تاقیامت انسانیت کی رہنمائی کرتی رہے گی اور صبر و شکر، تسلیم و رضا کا درس دیتی رہے گی۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ نبی کریمؐ نے حضرت زینبؓ کو پیدائش کے بعد پہلی دفعہ دیکھا اور بازئوں میں اٹھایا تو فرمایا کہ زینبؓ اپنی نانی حضرت خدیجہؓ سے مشابہت رکھتی ہے۔ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ دنیا کی عظیم ترین ہستی اور محبوبؐ خدا اپنے نانا سے مشابہہ تھے۔ گویا حضرت امام حسنؓ، حضرت امام حسینؓ اور حضرت زینبؓ تینوں کو اپنے ننھیال سے سب سے زیادہ روحانی وراثت ملی تھی اور پھر حضرت فاطمہؓ کی گود اور مولائے کائنات حضرت علیؓ کی پدرانہ شفقت اور توجہ گویا سونے پہ سہاگے والی بات تھی۔ حضور نبی کریمؐ نے اپنی پیاری نواسی کا نام بھی اپنی بیٹی زینب ؓ کے نام پر رکھا اور مشابہت اس ہستی سے قرار دی جس کے بارے میں نبی آخر الزمانؐ نے فرمایا تھا ’’خدا کی قسم اس نے مجھے کوئی ایسا مہربان عطا نہیں کیا جیسے خدیجہ ؓ تھیں‘‘کیا جلال ہے ان الفاظ میں اور ہاں یاد رکھو کہ
جب اللہ کا نبیؐ قسم اٹھاتا ہے تو کائنات کا ذرہ ذرہ گواہی دینے اور قسم اٹھانے کے لئے حاضر ہوجاتا ہے۔ اسی لئے مجھے اکثر یہ خیال آتا ہے کہ حضرت خدیجہؓ، حضرت فاطمہؓ زہرہ اور حضرت زینبؓ کی موجودگی میں مسلمان خواتین، خاص طور پر جوان خواتین کو کسی آئیڈئل، کسی مثال اور کسی خاتون کی طرف دیکھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ان ہستیوں کو قلب و نگاہ میں رکھیں اور پھر دیکھیں کہ کس طرح رضائے الٰہی کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں اور عظمت کی منزلیں طے ہوتی چلی جاتی ہیں۔ذرا غور کیجئے کہ اس سے عظیم تر کسی کا حسب نسب ہوسکتا ہے؟ حضرت زینبؓ ہمارے پیارے رسولؐ کی پیاری نواسی، خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرہؓ کی چہیتی بیٹی اور مولائے کائنات حضرت علیؓ کے جگر کا ٹکڑا تھیں۔ پھر وہ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ سردارانِ نوجوانانِ جنت کی نہایت پیاری بہن تھیں۔ سچ یہ ہے کہ مسلمان کا ایمان عشق رسولؐ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
عشق رسولؐ کے بغیرمسلمانی کی منزل نہیں ملتی نہ ہی قلب و نگاہ روشن ہوتے اور باطن منور ہوتا ہے لیکن عشق رسولؐ اہل بیت کی محبت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، جن عظیم اور مقدس ہستیوں کو رسول ؐخدا نے بازئوں میں اٹھا اٹھا کر کہا اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر، علیؓ، حسنؓ ، حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں، جس کا میں مولا، اس کا علی مولا ۔ کیا ان ہستیوں ،عظیم ترین ہستیوں، سے محبت کئے بغیر عشق رسولؐ کا سراغ مل سکتا ہے؟ عشق کی ان شمعوں کو روشن کئے بغیر روحانیت کی منزل کا نشان مل سکتا ہے؟میں عرض کررہا تھا کہ میں تاریخ عالم چھانتا رہا لیکن مجھے اس سے بڑی صبر و شکر، رضائے الٰہی اور بہادری و جرأت کی مثال نہیں ملی، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ دنیا کی عظیم شخصیات بھی اس حوالے سے حضرت زینبؓ کی خاک پا کے بھی قریب نہیں۔ ذرا سوچو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے محبوب رسول ﷺ نبی آخر الزمان کی نواسی، حضورﷺ کی نہایت پیاری بیٹی خاتون جنت حضرت فاطمہؓ کی بیٹی اور
مولائے کائنات خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کے جگر کا ٹکڑا میدان کربلا میں اپنے پیارے بھائی حضرت امام حسینؓ اور اپنے دو جگر گوشوں حضرت محمد بن عبداللہؓ اور حضرت عون بن عبداللہؓ کے علاوہ اپنے بھتیجوں، بھانجوں، قریبی عزیزوں کی شہادت کے بعد صحرا کی وحشت اور رات کی تاریکی میں تنہا غموں کا پہاڑ اٹھائے بیٹھتی تھیں لیکن نہ کوئی شکوہ و فریاد، نہ گریہ اور نہ ہی معصوم ہونٹوں پر شکایت۔ صبر کا دامن مضبوطی سے تھام رکھا تھا، اللہ کی رضا پر اس قدر راضی کہ اپنے رب سے ان قربانیوں کی قبولیت کی دعا میں مصروف تھیں۔ دوسری طرف دشمن کے خیموں میں فتح کا جشن منایا جارہا تھا۔ دشمن نے اہل بیت کی عبادت گزار اور حرم نبویؐ کی عفت مآب بیٹیوں کے سروں سے چادریں بھی اتار لی تھیں اور کانوں سے سونے کی بالیں بھی کھینچ لی تھیں۔ کئی دن سے بھوکی پیاسی حضرت زینبؓ اور بچوں کو یزیدی امیر لشکر عمر بن سعد نے جلا ہوا خیمہ بھیجا تو
حضرت زینبؓ نے اسے بچوں پر لگا کر انہیں سلاد دیا اور خود عبادت میں مصروف ہوگئیں۔ قیامت کی اس رات بھی آپ ؓ نے نماز تہجد قضا کی اور نہ ذکر و اذکار میں کمی آنے دی۔ سبحان اللہ صبر و شکر اور رضائے الٰہی کی انتہا ہے کہ جب اس لٹے پٹے غم کے لہو میں ڈوبے قافلے کو کوفہ کے گورنر عبید اللہ بن ز یاد کے دربار میں لایا گیا تو اس نے حضرت زینبؓ سے پوچھا۔ آپؓ نے اپنے بھائی کے سلسلے میں خدا کے امر کو کیسا پایا ، حضرت زینبؓ نے نہایت اطمینان اور یقین کے ساتھ جواب دیا ’’ہم نے اچھائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ خدا کی طرف سے یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ انہیں مقتول دیکھے اور اب وہ لوگ خدا کی ابدی بارگاہ میں آرام کر رہے ہیں۔‘‘ سبحان اللہ! کیا صبر، شکر اور رضائے الٰہی پر راضی رہنے کی اس سے بڑی مثال دی جاسکتی ہے؟ ہوسکتا ہے میری کم علمی ہو، لیکن تاریخ عالم میں اس طرح کے صبر و شکر کی مثال موجود ہی نہیں۔
یزید کے دربار میں حضرت زینبؓ کا خطاب جرأت و بہادری اور حق گوئی کی ایک منفرد مثال ہے۔ سرکاری فوج کے حصار میں جب یہ لٹا پٹا، بھوکا پیاسا، ظلم و ستم کے زخموں سے چور قافلہ یزید کے دربار میں پیش کیا گیا تو حضرت زینبؓ نے حکمت و دانش اور جرأت و بہادری سے یزیدی خرافات کو مسترد کرتے ہوئے کہا’’تم اپنے زعم میں سمجھ رہے ہو کہ کامیابی مل گئی اور اہل بیت سرنگوں ہوگئے مگر حقیقت میں اہل بیت کا کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ یزید اور اس کے ساتھیوں نے اپنے آپ کو تباہ و برباد کر لیا ہے۔ ‘‘ تاریخ نے حضرت زینبؓ کے الفاظ پر مہر تصدیق ثبت کردی اور واضح کردیا کہ ؎ قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے: ہم صبر اور شکر کی باتیں تو بہت کرتے ہیں، عشق رسولؐ اور حب اہل بیت کے دعوے بھی کرتے ہیں اور حال یہ ہے کہ پائوں میں ذرا سا کانٹا چبھے، کوئی مصیبت یا مشکل آجائے یا غم و صدمہ کا سامنا کرنا پڑے تو
صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سےگلے شکوے کرنے شروع کر دیتے ہیں اور آہیں بھر بھر کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ کسی بدو نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ جہنم کی آگ کس شے سے ٹھنڈی ہوتی ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’دنیا کی مصیبتوں پر صبر کرنے سے۔‘‘ بدو نے عرض کیا کہ اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا ’’اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو۔‘‘ حضرت زینبؓ کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ کیا دنیا کی مصیبتوں پر صبر کی اس سے بڑی مثال مل سکتی ہے؟ کیا غم کے پہاڑ تلے دب کر صبر و شکر کے ساتھ بھوکے پیاسے بھائی،
بیٹوں، بھانجوں، بھتیجوں کے خون شہادت کے باوجود اس قدر کثرت سے ذکر الٰہی کیا جاسکتا ہے؟ حضرت زینبؓ جنہیں ہمارے پیارے رسولﷺ نے کھجور کے ساتھ اپنے لعابِ دہن سے’’گڑھتی‘‘ دی تھی صرف وہی عظیم ہستی اس قدر صبر و شکر کا مظاہرہ کرسکتی تھی اور صدمات میں ڈوب کر بھی اس قدر ذکر الٰہی کرسکتی تھی۔ ہم ان کی مثال کی شمع سے روشنی کی ایک کرن بھی حاصل کرلیں تو زندگی میں ایک انقلاب آجائے۔ معاشرے میں صبر و شکر کے پھول کھلیں تو ذکر الٰہی کا نور پھیل جائے۔ دوستو! یہ مسلمانی کی پہلی سیڑھی بھی ہے اور عظیم تر منزل بھی۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2IMeG4x via Roznama Urdu
0 notes
alltimeoverthinking · 6 years ago
Text
پیدائش کے بعد حضرت زینبؓ کو جب حضرت محمد ؐ نے پہلی بار دیکھا تو انکی زبان مبارک سے کیا الفاظ نکلے ؟
پیدائش کے بعد حضرت زینبؓ کو جب حضرت محمد ؐ نے پہلی بار دیکھا تو انکی زبان مبارک سے کیا الفاظ نکلے ؟
انسانوں میں عام طور پر تین قسم کی صفات یا اوصاف پائے جاتے ہیں۔ حسبی و نسبی یا کسبی یا عطائی۔ حسی و نسبی اوصاف وہ ہوتے ہیں جو انسان کو اپنے والدین اور خاندان کی جانب سے ملتے ہیں۔ کسبی اوصاف وہ ہوتے ہیں جو انسان اپنی محنت، مجاہدےاور عزم سے پیدا کرتا ہے یا حاصل کرتا ہے۔ عطائی اوصاف اللہ پاک کی جانب سے عطا ہوتے ہیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عطا ہوتے ہیں، جب کسی شخصیت میں تینوں قسم کے اوصاف جمع ہو جائیں تو
وہ عظمت کی بلندیوں کو چھونے لگتی ہے اور اگر حسب، نسب بہترین اور عظیم ترین ہو، تربیت عظیم گود اور اللہ پاک کے محبوب گھرانے میں ہوئی ہو تو وہ خود کسبی اور عطائی اوصاف کا باعث
بنتی ہے۔ اس طرح کی مثالیں عالمی تاریخ میں کم کم ملتی ہیں۔ میں تاریخ کے اوراق چھانتا رہا، دنیا کی نامور اور عظیم شخصیات کا مطالعہ کرتا رہا لیکن سچ یہ ہے کہ مجھے تاریخ میں کوئی بھی خاتون اتنے صبر و شکر، بہادری، تسلیم و رضا، ایثار و وفا، جرأت ِاظہار اور عظمت و کردار کی مالک نہیں ملی جتنی حضرت زینبؓ بنت علی المرتضیٰؓ تھیں۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک مثال ہیں، رب تعالیٰ نے انہیں مثال ہی پیدا کیا تھا اور وہ قیامت تک ایک مثال ہی رہیں گی۔ نہ کسی کو وہ حسب نسب مل سکتا ہے اور نہ ہی اس قدر صبر و شکر اور حوصلہ جو حضرت زینبؓ کو عطا ہوا تھا۔ سانحہ کربلا نہ ہوتا تو شاید دنیا کو حضرت زینب ؓ کی عظمت کا راز سمجھ میں نہ آتا اور نہ ہی ہمارے سامنے ایک روشن مثال ہوتی،
روشن مثال بھی بے مثال۔ سانحہ کربلا نے حضرت زینبؓ کی شخصیت میں مضمر اوصاف بےنقاب کرکے عالمی تاریخ میں ایک بےمثل، مثال کی شمع روشن کر دی جو تاقیامت انسانیت کی رہنمائی کرتی رہے گی اور صبر و شکر، تسلیم و رضا کا درس دیتی رہے گی۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ نبی کریمؐ نے حضرت زینبؓ کو پیدائش کے بعد پہلی دفعہ دیکھا اور بازئوں میں اٹھایا تو فرمایا کہ زینبؓ اپنی نانی حضرت خدیجہؓ سے مشابہت رکھتی ہے۔ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ دنیا کی عظیم ترین ہستی اور محبوبؐ خدا اپنے نانا سے مشابہہ تھے۔ گویا حضرت امام حسنؓ، حضرت امام حسینؓ اور حضرت زینبؓ تینوں کو اپنے ننھیال سے سب سے زیادہ روحانی وراثت ملی تھی اور پھر حضرت فاطمہؓ کی گود اور مولائے کائنات حضرت علیؓ کی پدرانہ شفقت اور توجہ گویا سونے پہ سہاگے والی بات تھی۔ حضور نبی کریمؐ نے اپنی پیاری نواسی کا نام بھی اپنی بیٹی زینب ؓ کے نام پر رکھا اور مشابہت اس ہستی سے قرار دی جس کے بارے میں نبی آخر الزمانؐ نے فرمایا تھا ’’خدا کی قسم اس نے مجھے کوئی ایسا مہربان عطا نہیں کیا جیسے خدیجہ ؓ تھیں‘‘کیا جلال ہے ان الفاظ میں اور ہاں یاد رکھو کہ
جب اللہ کا نبیؐ قسم اٹھاتا ہے تو کائنات کا ذرہ ذرہ گواہی دینے اور قسم اٹھانے کے لئے حاضر ہوجاتا ہے۔ اسی لئے مجھے اکثر یہ خیال آتا ہے کہ حضرت خدیجہؓ، حضرت فاطمہؓ زہرہ اور حضرت زینبؓ کی موجودگی میں مسلمان خواتین، خاص طور پر جوان خواتین کو کسی آئیڈئل، کسی مثال اور کسی خاتون کی طرف دیکھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ان ہستیوں کو قلب و نگاہ میں رکھیں اور پھر دیکھیں کہ کس طرح رضائے الٰہی کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں اور عظمت کی منزلیں طے ہوتی چلی جاتی ہیں۔ذرا غور کیجئے کہ اس سے عظیم تر کسی کا حسب نسب ہوسکتا ہے؟ حضرت زینبؓ ہمارے پیارے رسولؐ کی پیاری نواسی، خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرہؓ کی چہیتی بیٹی اور مولائے کائنات حضرت علیؓ کے جگر کا ٹکڑا تھیں۔ پھر وہ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ سردارانِ نوجوانانِ جنت کی نہایت پیاری بہن تھیں۔ سچ یہ ہے کہ مسلمان کا ایمان عشق رسولؐ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
عشق رسولؐ کے بغیرمسلمانی کی منزل نہیں ملتی نہ ہی قلب و نگاہ روشن ہوتے اور باطن منور ہوتا ہے لیکن عشق رسولؐ اہل بیت کی محبت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، جن عظیم اور مقدس ہستیوں کو رسول ؐخدا نے بازئوں میں اٹھا اٹھا کر کہا اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر، علیؓ، حسنؓ ، حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں، جس کا میں مولا، اس کا علی مولا ۔ کیا ان ہستیوں ،عظیم ترین ہستیوں، سے محبت کئے بغیر عشق رسولؐ کا سراغ مل سکتا ہے؟ عشق کی ان شمعوں کو روشن کئے بغیر روحانیت کی منزل کا نشان مل سکتا ہے؟میں عرض کررہا تھا کہ میں تاریخ عالم چھانتا رہا لیکن مجھے اس سے بڑی صبر و شکر، رضائے الٰہی اور بہادری و جرأت کی مثال نہیں ملی، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ دنیا کی عظیم شخصیات بھی اس حوالے سے حضرت زینبؓ کی خاک پا کے بھی قریب نہیں۔ ذرا سوچو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے محبوب رسول ﷺ نبی آخر الزمان کی نواسی، حضورﷺ کی نہایت پیاری بیٹی خاتون جنت حضرت فاطمہؓ کی بیٹی اور
مولائے کائنات خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کے جگر کا ٹکڑا میدان کربلا میں اپنے پیارے بھائی حضرت امام حسینؓ اور اپنے دو جگر گوشوں حضرت محمد بن عبداللہؓ اور حضرت عون بن عبداللہؓ کے علاوہ اپنے بھتیجوں، بھانجوں، قریبی عزیزوں کی شہادت کے بعد صحرا کی وحشت اور رات کی تاریکی میں تنہا غموں کا پہاڑ اٹھائے بیٹھتی تھیں لیکن نہ کوئی شکوہ و فریاد، نہ گریہ اور نہ ہی معصوم ہونٹوں پر شکایت۔ صبر کا دامن مضبوطی سے تھام رکھا تھا، اللہ کی رضا پر اس قدر راضی کہ اپنے رب سے ان قربانیوں کی قبولیت کی دعا میں مصروف تھیں۔ دوسری طرف دشمن کے خیموں میں فتح کا جشن منایا جارہا تھا۔ دشمن نے اہل بیت کی عبادت گزار اور حرم نبویؐ کی عفت مآب بیٹیوں کے سروں سے چادریں بھی اتار لی تھیں اور کانوں سے سونے کی بالیں بھی کھینچ لی تھیں۔ کئی دن سے بھوکی پیاسی حضرت زینبؓ اور بچوں کو یزیدی امیر لشکر عمر بن سعد نے جلا ہوا خیمہ بھیجا تو
حضرت زینبؓ نے اسے بچوں پر لگا کر انہیں سلاد دیا اور خود عبادت میں مصروف ہوگئیں۔ قیامت کی اس رات بھی آپ ؓ نے نماز تہجد قضا کی اور نہ ذکر و اذکار میں کمی آنے دی۔ سبحان اللہ صبر و شکر اور رضائے الٰہی کی انتہا ہے کہ جب اس لٹے پٹے غم کے لہو میں ڈوبے قافلے کو کوفہ کے گورنر عبید اللہ بن ز یاد کے دربار میں لایا گیا تو اس نے حضرت زینبؓ سے پوچھا۔ آپؓ نے اپنے بھائی کے سلسلے میں خدا کے امر کو کیسا پایا ، حضرت زینبؓ نے نہایت اطمینان اور یقین کے ساتھ جواب دیا ’’ہم نے اچھائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ خدا کی طرف سے یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ انہیں مقتول دیکھے اور اب وہ لوگ خدا کی ابدی بارگاہ میں آرام کر رہے ہیں۔‘‘ سبحان اللہ! کیا صبر، شکر اور رضائے الٰہی پر راضی رہنے کی اس سے بڑی مثال دی جاسکتی ہے؟ ہوسکتا ہے میری کم علمی ہو، لیکن تاریخ عالم میں اس طرح کے صبر و شکر کی مثال موجود ہی نہیں۔
یزید کے دربار میں حضرت زینبؓ کا خطاب جرأت و بہادری اور حق گوئی کی ایک منفرد مثال ہے۔ سرکاری فوج کے حصار میں جب یہ لٹا پٹا، بھوکا پیاسا، ظلم و ستم کے زخموں سے چور قافلہ یزید کے دربار میں پیش کیا گیا تو حضرت زینبؓ نے حکمت و دانش اور جرأت و بہادری سے یزیدی خرافات کو مسترد کرتے ہوئے کہا’’تم اپنے زعم میں سمجھ رہے ہو کہ کامیابی مل گئی اور اہل بیت سرنگوں ہوگئے مگر حقیقت میں اہل بیت کا کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ یزید اور اس کے ساتھیوں نے اپنے آپ کو تباہ و برباد کر لیا ہے۔ ‘‘ تاریخ نے حضرت زینبؓ کے الفاظ پر مہر تصدیق ثبت کردی اور واضح کردیا کہ ؎ قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے: ہم صبر اور شکر کی باتیں تو بہت کرتے ہیں، عشق رسولؐ اور حب اہل بیت کے دعوے بھی کرتے ہیں اور حال یہ ہے کہ پائوں میں ذرا سا کانٹا چبھے، کوئی مصیبت یا مشکل آجائے یا غم و صدمہ کا سامنا کرنا پڑے تو
صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سےگلے شکوے کرنے شروع کر دیتے ہیں اور آہیں بھر بھر کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ کسی بدو نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ جہنم کی آگ کس شے سے ٹھنڈی ہوتی ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’دنیا کی مصیبتوں پر صبر کرنے سے۔‘‘ بدو نے عرض کیا کہ اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا ’’اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو۔‘‘ حضرت زینبؓ کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ کیا دنیا کی مصیبتوں پر صبر کی اس سے بڑی مثال مل سکتی ہے؟ کیا غم کے پہاڑ تلے دب کر صبر و شکر کے ساتھ بھوکے پیاسے بھائی،
بیٹوں، بھانجوں، بھتیجوں کے خون شہادت کے باوجود اس قدر کثرت سے ذکر الٰہی کیا جاسکتا ہے؟ حضرت زینبؓ جنہیں ہمارے پیارے رسولﷺ نے کھجور کے ساتھ اپنے لعابِ دہن سے’’گڑھتی‘‘ دی تھی صرف وہی عظیم ہستی اس قدر صبر و شکر کا مظاہرہ کرسکتی تھی اور صدمات میں ڈوب کر بھی اس قدر ذکر الٰہی کرسکتی تھی۔ ہم ان کی مثال کی شمع سے روشنی کی ایک کرن بھی حاصل کرلیں تو زندگی میں ایک انقلاب آجائے۔ معاشرے میں صبر و شکر کے پھول کھلیں تو ذکر الٰہی کا نور پھیل جائے۔ دوستو! یہ مسلمانی کی پہلی سیڑھی بھی ہے اور عظیم تر منزل بھی۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2IMeG4x via Daily Khabrain
0 notes
bukhariedits-blog · 5 years ago
Photo
Tumblr media
24 رجب فتح خیبر بدست امیر المومنین مولائے کائنات علی علیہ السلام بہت بہت مبارک ہو 🌼 (at Karachi - The City of Lights) https://www.instagram.com/p/B98zrcdHGdb/?igshid=1c9jfdq0jgnk1
0 notes
shiitemedia · 8 years ago
Photo
Tumblr media
ولادت مولائے کائنات پہلے امام علیؑ بہت بہت مبار ک ہو کعبہ سے آنے والے کے پیچھے بھاگتے ہیں کعبہ میں آنے والے سے جلتے ہیں
2 notes · View notes
indy-guardiadossonhos · 6 years ago
Text
پیدائش کے بعد حضرت زینبؓ کو جب حضرت محمد ؐ نے پہلی بار دیکھا تو انکی زبان مبارک سے کیا الفاظ نکلے ؟
پیدائش کے بعد حضرت زینبؓ کو جب حضرت محمد ؐ نے پہلی بار دیکھا تو انکی زبان مبارک سے کیا الفاظ نکلے ؟
انسانوں میں عام طور پر تین قسم کی صفات یا اوصاف پائے جاتے ہیں۔ حسبی و نسبی یا کسبی یا عطائی۔ حسی و نسبی اوصاف وہ ہوتے ہیں جو انسان کو اپنے والدین اور خاندان کی جانب سے ملتے ہیں۔ کسبی اوصاف وہ ہوتے ہیں جو انسان اپنی محنت، مجاہدےاور عزم سے پیدا کرتا ہے یا حاصل کرتا ہے۔ عطائی اوصاف اللہ پاک کی جانب سے عطا ہوتے ہیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عطا ہوتے ہیں، جب کسی شخصیت میں تینوں قسم کے اوصاف جمع ہو جائیں تو
وہ عظمت کی بلندیوں کو چھونے لگتی ہے اور اگر حسب، نسب بہترین اور عظیم ترین ہو، تربیت عظیم گود اور اللہ پاک کے محبوب گھرانے میں ہوئی ہو تو وہ خود کسبی اور عطائی اوصاف کا باعث
بنتی ہے۔ اس طرح کی مثالیں عالمی تاریخ میں کم کم ملتی ہیں۔ میں تاریخ کے اوراق چھانتا رہا، دنیا کی نامور اور عظیم شخصیات کا مطالعہ کرتا رہا لیکن سچ یہ ہے کہ مجھے تاریخ میں کوئی بھی خاتون اتنے صبر و شکر، بہادری، تسلیم و رضا، ایثار و وفا، جرأت ِاظہار اور عظمت و کردار کی مالک نہیں ملی جتنی حضرت زینبؓ بنت علی المرتضیٰؓ تھیں۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک مثال ہیں، رب تعالیٰ نے انہیں مثال ہی پیدا کیا تھا اور وہ قیامت تک ایک مثال ہی رہیں گی۔ نہ کسی کو وہ حسب نسب مل سکتا ہے اور نہ ہی اس قدر صبر و شکر اور حوصلہ جو حضرت زینبؓ کو عطا ہوا تھا۔ سانحہ کربلا نہ ہوتا تو شاید دنیا کو حضرت زینب ؓ کی عظمت کا راز سمجھ میں نہ آتا اور نہ ہی ہمارے سامنے ایک روشن مثال ہوتی،
روشن مثال بھی بے مثال۔ سانحہ کربلا نے حضرت زینبؓ کی شخصیت میں مضمر اوصاف بےنقاب کرکے عالمی تاریخ میں ایک بےمثل، مثال کی شمع روشن کر دی جو تاقیامت انسانیت کی رہنمائی کرتی رہے گی اور صبر و شکر، تسلیم و رضا کا درس دیتی رہے گی۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ نبی کریمؐ نے حضرت زینبؓ کو پیدائش کے بعد پہلی دفعہ دیکھا اور بازئوں میں اٹھایا تو فرمایا کہ زینبؓ اپنی نانی حضرت خدیجہؓ سے مشابہت رکھتی ہے۔ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ دنیا کی عظیم ترین ہستی اور محبوبؐ خدا اپنے نانا سے مشابہہ تھے۔ گویا حضرت امام حسنؓ، حضرت امام حسینؓ اور حضرت زینبؓ تینوں کو اپنے ننھیال سے سب سے زیادہ روحانی وراثت ملی تھی اور پھر حضرت فاطمہؓ کی گود اور مولائے کائنات حضرت علیؓ کی پدرانہ شفقت اور توجہ گویا سونے پہ سہاگے والی بات تھی۔ حضور نبی کریمؐ نے اپنی پیاری نواسی کا نام بھی اپنی بیٹی زینب ؓ کے نام پر رکھا اور مشابہت اس ہستی سے قرار دی جس کے بارے میں نبی آخر الزمانؐ نے فرمایا تھا ’’خدا کی قسم اس نے مجھے کوئی ایسا مہربان عطا نہیں کیا جیسے خدیجہ ؓ تھیں‘‘کیا جلال ہے ان الفاظ میں اور ہاں یاد رکھو کہ
جب اللہ کا نبیؐ قسم اٹھاتا ہے تو کائنات کا ذرہ ذرہ گواہی دینے اور قسم اٹھانے کے لئے حاضر ہوجاتا ہے۔ اسی لئے مجھے اکثر یہ خیال آتا ہے کہ حضرت خدیجہؓ، حضرت فاطمہؓ زہرہ اور حضرت زینبؓ کی موجودگی میں مسلمان خواتین، خاص طور پر جوان خواتین کو کسی آئیڈئل، کسی مثال اور کسی خاتون کی طرف دیکھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ان ہستیوں کو قلب و نگاہ میں رکھیں اور پھر دیکھیں کہ کس طرح رضائے الٰہی کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں اور عظمت کی منزلیں طے ہوتی چلی جاتی ہیں۔ذرا غور کیجئے کہ اس سے عظیم تر کسی کا حسب نسب ہوسکتا ہے؟ حضرت زینبؓ ہمارے پیارے رسولؐ کی پیاری نواسی، خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرہؓ کی چہیتی بیٹی اور مولائے کائنات حضرت علیؓ کے جگر کا ٹکڑا تھیں۔ پھر وہ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ سردارانِ نوجوانانِ جنت کی نہایت پیاری بہن تھیں۔ سچ یہ ہے کہ مسلمان کا ایمان عشق رسولؐ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
عشق رسولؐ کے بغیرمسلمانی کی منزل نہیں ملتی نہ ہی قلب و نگاہ روشن ہوتے اور باطن منور ہوتا ہے لیکن عشق رسولؐ اہل بیت کی محبت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، جن عظیم اور مقدس ہستیوں کو رسول ؐخدا نے بازئوں میں اٹھا اٹھا کر کہا اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر، علیؓ، حسنؓ ، حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں، جس کا میں مولا، اس کا علی مولا ۔ کیا ان ہستیوں ،عظیم ترین ہستیوں، سے محبت کئے بغیر عشق رسولؐ کا سراغ مل سکتا ہے؟ عشق کی ان شمعوں کو روشن کئے بغیر روحانیت کی منزل کا نشان مل سکتا ہے؟میں عرض کررہا تھا کہ میں تاریخ عالم چھانتا رہا لیکن مجھے اس سے بڑی صبر و شکر، رضائے الٰہی اور بہادری و جرأت کی مثال نہیں ملی، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ دنیا کی عظیم شخصیات بھی اس حوالے سے حضرت زینبؓ کی خاک پا کے بھی قریب نہیں۔ ذرا سوچو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے محبوب رسول ﷺ نبی آخر الزمان کی نواسی، حضورﷺ کی نہایت پیاری بیٹی خاتون جنت حضرت فاطمہؓ کی بیٹی اور
مولائے کائنات خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کے جگر کا ٹکڑا میدان کربلا میں اپنے پیارے بھائی حضرت امام حسینؓ اور اپنے دو جگر گوشوں حضرت محمد بن عبداللہؓ اور حضرت عون بن عبداللہؓ کے علاوہ اپنے بھتیجوں، بھانجوں، قریبی عزیزوں کی شہادت کے بعد صحرا کی وحشت اور رات کی تاریکی میں تنہا غموں کا پہاڑ اٹھائے بیٹھتی تھیں لیکن نہ کوئی شکوہ و فریاد، نہ گریہ اور نہ ہی معصوم ہونٹوں پر شکایت۔ صبر کا دامن مضبوطی سے تھام رکھا تھا، اللہ کی رضا پر اس قدر راضی کہ اپنے رب سے ان قربانیوں کی قبولیت کی دعا میں مصروف تھیں۔ دوسری طرف دشمن کے خیموں میں فتح کا جشن منایا جارہا تھا۔ دشمن نے اہل بیت کی عبادت گزار اور حرم نبویؐ کی عفت مآب بیٹیوں کے سروں سے چادریں بھی اتار لی تھیں اور کانوں سے سونے کی بالیں بھی کھینچ لی تھیں۔ کئی دن سے بھوکی پیاسی حضرت زینبؓ اور بچوں کو یزیدی امیر لشکر عمر بن سعد نے جلا ہوا خیمہ بھیجا تو
حضرت زینبؓ نے اسے بچوں پر لگا کر انہیں سلاد دیا اور خود عبادت میں مصروف ہوگئیں۔ قیامت کی اس رات بھی آپ ؓ نے نماز تہجد قضا کی اور نہ ذکر و اذکار میں کمی آنے دی۔ سبحان اللہ صبر و شکر اور رضائے الٰہی کی انتہا ہے کہ جب اس لٹے پٹے غم کے لہو میں ڈوبے قافلے کو کوفہ کے گورنر عبید اللہ بن ز یاد کے دربار میں لایا گیا تو اس نے حضرت زینبؓ سے پوچھا۔ آپؓ نے اپنے بھائی کے سلسلے میں خدا کے امر کو کیسا پایا ، حضرت زینبؓ نے نہایت اطمینان اور یقین کے ساتھ جواب دیا ’’ہم نے اچھائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ خدا کی طرف سے یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ انہیں مقتول دیکھے اور اب وہ لوگ خدا کی ابدی بارگاہ میں آرام کر رہے ہیں۔‘‘ سبحان اللہ! کیا صبر، شکر اور رضائے الٰہی پر راضی رہنے کی اس سے بڑی مثال دی جاسکتی ہے؟ ہوسکتا ہے میری کم علمی ہو، لیکن تاریخ عالم میں اس طرح کے صبر و شکر کی مثال موجود ہی نہیں۔
یزید کے دربار میں حضرت زینبؓ کا خطاب جرأت و بہادری اور حق گوئی کی ایک منفرد مثال ہے۔ سرکاری فوج کے حصار میں جب یہ لٹا پٹا، بھوکا پیاسا، ظلم و ستم کے زخموں سے چور قافلہ یزید کے دربار میں پیش کیا گیا تو حضرت زینبؓ نے حکمت و دانش اور جرأت و بہادری سے یزیدی خرافات کو مسترد کرتے ہوئے کہا’’تم اپنے زعم میں سمجھ رہے ہو کہ کامیابی مل گئی اور اہل بیت سرنگوں ہوگئے مگر حقیقت میں اہل بیت کا کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ یزید اور اس کے ساتھیوں نے اپنے آپ کو تباہ و برباد کر لیا ہے۔ ‘‘ تاریخ نے حضرت زینبؓ کے الفاظ پر مہر تصدیق ثبت کردی اور واضح کردیا کہ ؎ قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے: ہم صبر اور شکر کی باتیں تو بہت کرتے ہیں، عشق رسولؐ اور حب اہل بیت کے دعوے بھی کرتے ہیں اور حال یہ ہے کہ پائوں میں ذرا سا کانٹا چبھے، کوئی مصیبت یا مشکل آجائے یا غم و صدمہ کا سامنا کرنا پڑے تو
صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سےگلے شکوے کرنے شروع کر دیتے ہیں اور آہیں بھر بھر کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ کسی بدو نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ جہنم کی آگ کس شے سے ٹھنڈی ہوتی ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’دنیا کی مصیبتوں پر صبر کرنے سے۔‘‘ بدو نے عرض کیا کہ اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا ’’اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو۔‘‘ حضرت زینبؓ کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ کیا دنیا کی مصیبتوں پر صبر کی اس سے بڑی مثال مل سکتی ہے؟ کیا غم کے پہاڑ تلے دب کر صبر و شکر کے ساتھ بھوکے پیاسے بھائی،
بیٹوں، بھانجوں، بھتیجوں کے خون شہادت کے باوجود اس قدر کثرت سے ذکر الٰہی کیا جاسکتا ہے؟ حضرت زینبؓ جنہیں ہمارے پیارے رسولﷺ نے کھجور کے ساتھ اپنے لعابِ دہن سے’’گڑھتی‘‘ دی تھی صرف وہی عظیم ہستی اس قدر صبر و شکر کا مظاہرہ کرسکتی تھی اور صدمات میں ڈوب کر بھی اس قدر ذکر الٰہی کرسکتی تھی۔ ہم ان کی مثال کی شمع سے روشنی کی ایک کرن بھی حاصل کرلیں تو زندگی میں ایک انقلاب آجائے۔ معاشرے میں صبر و شکر کے پھول کھلیں تو ذکر الٰہی کا نور پھیل جائے۔ دوستو! یہ مسلمانی کی پہلی سیڑھی بھی ہے اور عظیم تر منزل بھی۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2IMeG4x via Urdu News
0 notes
party-hard-or-die · 6 years ago
Text
پیدائش کے بعد حضرت زینبؓ کو جب حضرت محمد ؐ نے پہلی بار دیکھا تو انکی زبان مبارک سے کیا الفاظ نکلے ؟
پیدائش کے بعد حضرت زینبؓ کو جب حضرت محمد ؐ نے پہلی بار دیکھا تو انکی زبان مبارک سے کیا الفاظ نکلے ؟
انسانوں میں عام طور پر تین قسم کی صفات یا اوصاف پائے جاتے ہیں۔ حسبی و نسبی یا کسبی یا عطائی۔ حسی و نسبی اوصاف وہ ہوتے ہیں جو انسان کو اپنے والدین اور خاندان کی جانب سے ملتے ہیں۔ کسبی اوصاف وہ ہوتے ہیں جو انسان اپنی محنت، مجاہدےاور عزم سے پیدا کرتا ہے یا حاصل کرتا ہے۔ عطائی اوصاف اللہ پاک کی جانب سے عطا ہوتے ہیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عطا ہوتے ہیں، جب کسی شخصیت میں تینوں قسم کے اوصاف جمع ہو جائیں تو
وہ عظمت کی بلندیوں کو چھونے لگتی ہے اور اگر حسب، نسب بہترین اور عظیم ترین ہو، تربیت عظیم گود اور اللہ پاک کے محبوب گھرانے میں ہوئی ہو تو وہ خود کسبی اور عطائی اوصاف کا باعث
بنتی ہے۔ اس طرح کی مثالیں عالمی تاریخ میں کم کم ملتی ہیں۔ میں تاریخ کے اوراق چھانتا رہا، دنیا کی نامور اور عظیم شخصیات کا مطالعہ کرتا رہا لیکن سچ یہ ہے کہ مجھے تاریخ میں کوئی بھی خاتون اتنے صبر و شکر، بہادری، تسلیم و رضا، ایثار و وفا، جرأت ِاظہار اور عظمت و کردار کی مالک نہیں ملی جتنی حضرت زینبؓ بنت علی المرتضیٰؓ تھیں۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک مثال ہیں، رب تعالیٰ نے انہیں مثال ہی پیدا کیا تھا اور وہ قیامت تک ایک مثال ہی رہیں گی۔ نہ کسی کو وہ حسب نسب مل سکتا ہے اور نہ ہی اس قدر صبر و شکر اور حوصلہ جو حضرت زینبؓ کو عطا ہوا تھا۔ سانحہ کربلا نہ ہوتا تو شاید دنیا کو حضرت زینب ؓ کی عظمت کا راز سمجھ میں نہ آتا اور نہ ہی ہمارے سامنے ایک روشن مثال ہوتی،
روشن مثال بھی بے مثال۔ سانحہ کربلا نے حضرت زینبؓ کی شخصیت میں مضمر اوصاف بےنقاب کرکے عالمی تاریخ میں ایک بےمثل، مثال کی شمع روشن کر دی جو تاقیامت انسانیت کی رہنمائی کرتی رہے گی اور صبر و شکر، تسلیم و رضا کا درس دیتی رہے گی۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ نبی کریمؐ نے حضرت زینبؓ کو پیدائش کے بعد پہلی دفعہ دیکھا اور بازئوں میں اٹھایا تو فرمایا کہ زینبؓ اپنی نانی حضرت خدیجہؓ سے مشابہت رکھتی ہے۔ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ دنیا کی عظیم ترین ہستی اور محبوبؐ خدا اپنے نانا سے مشابہہ تھے۔ گویا حضرت امام حسنؓ، حضرت امام حسینؓ اور حضرت زینبؓ تینوں کو اپنے ننھیال سے سب سے زیادہ روحانی وراثت ملی تھی اور پھر حضرت فاطمہؓ کی گود اور مولائے کائنات حضرت علیؓ کی پدرانہ شفقت اور توجہ گویا سونے پہ سہاگے والی بات تھی۔ حضور نبی کریمؐ نے اپنی پیاری نواسی کا نام بھی اپنی بیٹی زینب ؓ کے نام پر رکھا اور مشابہت اس ہستی سے قرار دی جس کے بارے میں نبی آخر الزمانؐ نے فرمایا تھا ’’خدا کی قسم اس نے مجھے کوئی ایسا مہربان عطا نہیں کیا جیسے خدیجہ ؓ تھیں‘‘کیا جلال ہے ان الفاظ میں اور ہاں یاد رکھو کہ
جب اللہ کا نبیؐ قسم اٹھاتا ہے تو کائنات کا ذرہ ذرہ گواہی دینے اور قسم اٹھانے کے لئے حاضر ہوجاتا ہے۔ اسی لئے مجھے اکثر یہ خیال آتا ہے کہ حضرت خدیجہؓ، حضرت فاطمہؓ زہرہ اور حضرت زینبؓ کی موجودگی میں مسلمان خواتین، خاص طور پر جوان خواتین کو کسی آئیڈئل، کسی مثال اور کسی خاتون کی طرف دیکھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ان ہستیوں کو قلب و نگاہ میں رکھیں اور پھر دیکھیں کہ کس طرح رضائے الٰہی کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں اور عظمت کی منزلیں طے ہوتی چلی جاتی ہیں۔ذرا غور کیجئے کہ اس سے عظیم تر کسی کا حسب نسب ہوسکتا ہے؟ حضرت زینبؓ ہمارے پیارے رسولؐ کی پیاری نواسی، خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرہؓ کی چہیتی بیٹی اور مولائے کائنات حضرت علیؓ کے جگر کا ٹکڑا تھیں۔ پھر وہ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ سردارانِ نوجوانانِ جنت کی نہایت پیاری بہن تھیں۔ سچ یہ ہے کہ مسلمان کا ایمان عشق رسولؐ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
عشق رسولؐ کے بغیرمسلمانی کی منزل نہیں ملتی نہ ہی قلب و نگاہ روشن ہوتے اور باطن منور ہوتا ہے لیکن عشق رسولؐ اہل بیت کی محبت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، جن عظیم اور مقدس ہستیوں کو رسول ؐخدا نے بازئوں میں اٹھا اٹھا کر کہا اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر، علیؓ، حسنؓ ، حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں، جس کا میں مولا، اس کا علی مولا ۔ کیا ان ہستیوں ،عظیم ترین ہستیوں، سے محبت کئے بغیر عشق رسولؐ کا سراغ مل سکتا ہے؟ عشق کی ان شمعوں کو روشن کئے بغیر روحانیت کی منزل کا نشان مل سکتا ہے؟میں عرض کررہا تھا کہ میں تاریخ عالم چھانتا رہا لیکن مجھے اس سے بڑی صبر و شکر، رضائے الٰہی اور بہادری و جرأت کی مثال نہیں ملی، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ دنیا کی عظیم شخصیات بھی اس حوالے سے حضرت زینبؓ کی خاک پا کے بھی قریب نہیں۔ ذرا سوچو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے محبوب رسول ﷺ نبی آخر الزمان کی نواسی، حضورﷺ کی نہایت پیاری بیٹی خاتون جنت حضرت فاطمہؓ کی بیٹی اور
مولائے کائنات خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کے جگر کا ٹکڑا میدان کربلا میں اپنے پیارے بھائی حضرت امام حسینؓ اور اپنے دو جگر گوشوں حضرت محمد بن عبداللہؓ اور حضرت عون بن عبداللہؓ کے علاوہ اپنے بھتیجوں، بھانجوں، قریبی عزیزوں کی شہادت کے بعد صحرا کی وحشت اور رات کی تاریکی میں تنہا غموں کا پہاڑ اٹھائے بیٹھتی تھیں لیکن نہ کوئی شکوہ و فریاد، نہ گریہ اور نہ ہی معصوم ہونٹوں پر شکایت۔ صبر کا دامن مضبوطی سے تھام رکھا تھا، اللہ کی رضا پر اس قدر راضی کہ اپنے رب سے ان قربانیوں کی قبولیت کی دعا میں مصروف تھیں۔ دوسری طرف دشمن کے خیموں میں فتح کا جشن منایا جارہا تھا۔ دشمن نے اہل بیت کی عبادت گزار اور حرم نبویؐ کی عفت مآب بیٹیوں کے سروں سے چادریں بھی اتار لی تھیں اور کانوں سے سونے کی بالیں بھی کھینچ لی تھیں۔ کئی دن سے بھوکی پیاسی حضرت زینبؓ اور بچوں کو یزیدی امیر لشکر عمر بن سعد نے جلا ہوا خیمہ بھیجا تو
حضرت زینبؓ نے اسے بچوں پر لگا کر انہیں سلاد دیا اور خود عبادت میں مصروف ہوگئیں۔ قیامت کی اس رات بھی آپ ؓ نے نماز تہجد قضا کی اور نہ ذکر و اذکار میں کمی آنے دی۔ سبحان اللہ صبر و شکر اور رضائے الٰہی کی انتہا ہے کہ جب اس لٹے پٹے غم کے لہو میں ڈوبے قافلے کو کوفہ کے گورنر عبید اللہ بن ز یاد کے دربار میں لایا گیا تو اس نے حضرت زینبؓ سے پوچھا۔ آپؓ نے اپنے بھائی کے سلسلے میں خدا کے امر کو کیسا پایا ، حضرت زینبؓ نے نہایت اطمینان اور یقین کے ساتھ جواب دیا ’’ہم نے اچھائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ خدا کی طرف سے یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ انہیں مقتول دیکھے اور اب وہ لوگ خدا کی ابدی بارگاہ میں آرام کر رہے ہیں۔‘‘ سبحان اللہ! کیا صبر، شکر اور رضائے الٰہی پر راضی رہنے کی اس سے بڑی مثال دی جاسکتی ہے؟ ہوسکتا ہے میری کم علمی ہو، لیکن تاریخ عالم میں اس طرح کے صبر و شکر کی مثال موجود ہی نہیں۔
یزید کے دربار میں حضرت زینبؓ کا خطاب جرأت و بہادری اور حق گوئی کی ایک منفرد مثال ہے۔ سرکاری فوج کے حصار میں جب یہ لٹا پٹا، بھوکا پیاسا، ظلم و ستم کے زخموں سے چور قافلہ یزید کے دربار میں پیش کیا گیا تو حضرت زینبؓ نے حکمت و دانش اور جرأت و بہادری سے یزیدی خرافات کو مسترد کرتے ہوئے کہا’’تم اپنے زعم میں سمجھ رہے ہو کہ کامیابی مل گئی اور اہل بیت سرنگوں ہوگئے مگر حقیقت میں اہل بیت کا کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ یزید اور اس کے ساتھیوں نے اپنے آپ کو تباہ و برباد کر لیا ہے۔ ‘‘ تاریخ نے حضرت زینبؓ کے الفاظ پر مہر تصدیق ثبت کردی اور واضح کردیا کہ ؎ قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے: ہم صبر اور شکر کی باتیں تو بہت کرتے ہیں، عشق رسولؐ اور حب اہل بیت کے دعوے بھی کرتے ہیں اور حال یہ ہے کہ پائوں میں ذرا سا کانٹا چبھے، کوئی مصیبت یا مشکل آجائے یا غم و صدمہ کا سامنا کرنا پڑے تو
صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سےگلے شکوے کرنے شروع کر دیتے ہیں اور آہیں بھر بھر کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ کسی بدو نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ جہنم کی آگ کس شے سے ٹھنڈی ہوتی ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’دنیا کی مصیبتوں پر صبر کرنے سے۔‘‘ بدو نے عرض کیا کہ اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا ’’اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو۔‘‘ حضرت زینبؓ کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ کیا دنیا کی مصیبتوں پر صبر کی اس سے بڑی مثال مل سکتی ہے؟ کیا غم کے پہاڑ تلے دب کر صبر و شکر کے ساتھ بھوکے پیاسے بھائی،
بیٹوں، بھانجوں، بھتیجوں کے خون شہادت کے باوجود اس قدر کثرت سے ذکر الٰہی کیا جاسکتا ہے؟ حضرت زینبؓ جنہیں ہمارے پیارے رسولﷺ نے کھجور کے ساتھ اپنے لعابِ دہن سے’’گڑھتی‘‘ دی تھی صرف وہی عظیم ہستی اس قدر صبر و شکر کا مظاہرہ کرسکتی تھی اور صدمات میں ڈوب کر بھی اس قدر ذکر الٰہی کرسکتی تھی۔ ہم ان کی مثال کی شمع سے روشنی کی ایک کرن بھی حاصل کرلیں تو زندگی میں ایک انقلاب آجائے۔ معاشرے میں صبر و شکر کے پھول کھلیں تو ذکر الٰہی کا نور پھیل جائے۔ دوستو! یہ مسلمانی کی پہلی سیڑھی بھی ہے اور عظیم تر منزل بھی۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2IMeG4x via Daily Khabrain
0 notes