Tumgik
#موتی مسجد
urdu-poetry-lover · 1 year
Text
اَج سک متراں دی ودھیری اے
کیوں دلڑی اداس گھنیری اے
لوں لوں وچ شوق چنگیری اے
اج نیناں لائیاں کیوں جھڑیاں
اَلْطَّیْفُ سَریٰ مِنْ طَلْعَتِہ
والشَّذُو بَدیٰ مِنْ وَفْرَتَہ
فَسَکَرْتُ ھُنَا مِنْ نَظْرَتِہ
نیناں دیاں فوجاں سر چڑھیاں
مکھ چند بدر شعشانی اے
متھے چمکے لاٹ نورانی اے
کالی زلف تے اکھ مستانی اے
مخمور اکھیں ہن مدھ بھریاں
دو ابرو قوس مثال دسن
جیں توں نوک مژہ دے تیر چھٹن
لباں سرخ آکھاں کہ لعل یمن
چٹے دند موتی دیاں ہن لڑیاں
اس صورت نوں میں جان آکھاں
جانان کہ جانِ جہان آکھاں
سچ آکھاں تے رب دی شان آکھاں
جس شان تو شاناں سب بنیاں
ایہہ صورت ہے بے صورت تھیں
بے صورت ظاہر صورت تھیں
بے رنگ دسے اس مورت تھیں
وچ وحدت پھٹیاں جد گھڑیاں
دسے صورت راہ بے صورت دا
توبہ راہ کی عین حقیقت دا
پر کم نہیں بے سوجھت دا
کوئی ورلیاں موتی لے تریاں
ایہا صورت شالا پیش نظر
رہے وقت نزع تے روزِ حشر
وچ قبر تے پل تھیں جد ہوسی گذر
سب کھوٹیاں تھیسن تد کھریاں
یُعْطِیُکَ رَبُّکَ داس تساں
فَتَرْضیٰ تھیں پوری آس اساں
لج پال کریسی پاس اساں
والشْفَعْ تُشَفَّعْ صحیح پڑھیاں
لاہو مکھ تو بردِ یمن
منبھانوری جھلک دکھلاؤ سجن
اوہا مٹھیاں گالیں الاؤ مٹھن
جو حمرا وادی سن کریاں
حجرے توں مسجد آؤ ڈھولن
نوری جھات دے کارن سارے سکن
دو جگ اکھیاں راہ دا فرش کرن
سب انس و ملک حوراں پریاں
انہاں سکدیاں تے کرلاندیاں تے
لکھ واری صدقے جاندیاں تے
انہاں بردیاں مفت وکاندیاں تے
شالا آون وت بھی اوہ گھڑیاں
سُبْحَانَ اللہ مَا اجْمَلَکَ
مَا اَحْسَنَکَ مَا اَکمَلَکَ
کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا
گستاخ اکھیں کتھے جا اڑیاں
0 notes
nuktaguidance · 5 years
Text
فتنہ حکیم طارق محمود چغتائی
فتنہ حکیم طارق محمود چغتائی مولف مولانا دوست محمد قندہاری نقشبندی
Fitna Hakeem Tariq Mehmood Chugtai
آن لائن پڑھیں
فتنہ حکیم طارق محمود چغتائی مولف مولانا دوست محمد قندہاری نقشبندی Fitna Hakeem Tariq Mehmood Chugtai
ڈاون لوڈ کریں
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 6 years
Text
مغل فن تعمیر
مغل خاندان نے برصغیر پاک و ہند کو فن تعمیر کے جو نوادرات دیے ہیں اس کی مثال شاید دنیا میں کہیں اور نہ ملے۔ انہوں نے برصغیر، ترک، ایرانی اور مختلف علاقوں کے فن تعمیر کے امتزاج سے انتہائی حسین عمارتیں تعمیر کیں۔ ہمایوں کا مقبرہ سولہویں صدی میں تعمیر ہوا۔ اسی سے مغل فن تعمیر کی باقاعدہ ابتدا ہوتی ہے۔ یہ سرخ پتھر اور سنگ مرمر سے بنا ہے لیکن اس پر ایرانی فن تعمیر غالب ہے۔ آگرہ کا لال قلعہ اور فتح پور سیکری شہنشاہ اکبر کے ذوق تعمیر کے نمونے ہیں۔ لال قلعہ کے اندر محلات کا سلسلہ ہے۔ ایک نہایت حسین مسجد بھی ہے اور ان سب کے اطراف سرخ پتھر کی بنی ایک بہت اونچی فصیل ہے جس کے اطراف میں خندق ہے۔ قلعے کے اندر جانے کے لیے بہت بڑے بڑے پھاٹک بنے ہیں۔ اس کے اندر کی عمارتوں میں جہانگیر اور پھر شاہجہان نے اضافے کیے۔ 
شہنشاہ اکبر کے ذوق تعمیر کا مکمل نمونہ فتح پور سیکری ہے جسے وہ اپنا پایۂ تخت بنانا چاہتا تھا لیکن پانی نہ ہونے کی وجہ سے اسے بن بسائے چھوڑنا پڑا۔ اس میں ایک عظیم جامع مسجد ہے جس کے داخلے پر بلند دروازہ ہے جو اپنی بلندی اور شوکت میں جواب نہیں رکھتا۔ یہ عمارت مغل دور کی اعلیٰ ترین عمارتوں میں سے ہے۔ اس کے اندر سب سے خوبصورت محل جودھا بائی کا ہے جس پر برصغیر کے روایتی فن تعمیر کی گہری چھاپ ہے۔ ویسے پنچ محل، دیوان عام، دیوان خاص سب ہی برصغیر، ترک و ایرانی فن تعمیر کے امتزاج کے اعلیٰ نمونے ہیں۔ ان سب عمارتوں میں کمانیں بہت کم استعمال ہوئیں۔ جہانگیر نے اکبر کا مقبرہ 1613ء میں سکندرہ میں تعمیر کروایا۔ یہ نہایت عالی شان اور نئے ڈیزائن کا ہے۔ جہانگیر کے زمانے میں عمارتیں زیادہ نہیں بنیں۔ کچھ لاہور میں ہیں۔ ایک نادر عمارت اس کے خسر اعتماد الدولہ کا آگرہ میں مقبرہ ہے۔ یہ چھوٹا سا مقبرہ اپنے حسن اور نزاکت میں جواب نہیں رکھتا۔ 
مغل شہنشاہوں میں تعمیری ذوق میں شاہجہاں کو کوئی اور نہ پہنچ سکا۔ دلی کا لال قلعہ اسی کا بنوایا ہوا ہے، جس میں شاندار دیوان عام بھی ہے۔ اس کی چھت سپاٹ ہے اور نوکدار کمانوں پر کھڑی ہے۔ اس کے علاوہ دیوان خاص اور دوسری عمارتوں میں منبت کاری کا خوبصورت کام ہے۔ دلی کی جامع مسجد بھی اسی کی بنوائی ہوئی ہے جس کا شمار برصغیر کی خوبصورت ترین مساجد میں ہوتا ہے۔ دیگر عمارتوں میں سب سے خوبصورت تاج محل خیال کیا جاتا ہے جو اس نے اپنی ملکہ ممتاز محل کے لیے بنوایا تھا۔ یہ عمارت دنیا کی حسین ترین عمارتوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ عمارت اتنی عظیم ہونے کے باوجود نہایت متناسب اور خوبصورت ہے۔ پورا مقبرہ ایک اونچے چبوترے پر سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے اور اوپر بہت بڑا گنبد ہے۔ چاروں کونوں پر چار مینار ہیں۔
مقبرے کے اندر ممتاز محل کے برابر شاہجہان بھی دفن ہیں اور قبروں کی چاروں طرف انتہائی نازک سنگ مر مر کی جالی ہے۔ مقبرے پر جگہ جگہ قرآن مجید کی آیتیں بڑی خوبصورتی سے پتھروں پر لکھی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ رنگ برنگ کے پتھروں اور سنگ مرمر کے نہایت خوبصورت گل بوٹے اور شکلیں بنائی گئی ہیں۔ خوبصورت باغ اور فوارے ہیں۔ پوری عمارت بنیادی طور پر ایرانی رنگ کی ہے لیکن اس کے اندر برصغیر کے فن تعمیر کو نہایت خوبصورتی سے سمویا گیا ہے۔ خاص طور پر چھجوں اور برجوں کے ڈیزائن اور منبت کاری وغیرہ۔ اس کے علاوہ شاہجہان کے دور حکومت میں دو اور خوبصورت مسجدیں موتی مسجد اور جامع مسجد آگرہ بھی تعمیر ہوئیں۔ شاہجہاں کا دور حکمرانی فن تعمیر کے لحاظ سے مغلیہ دور کا عہد زریں تھا۔ اورنگ زیب کے دور میں اورنگ آباد میں مقبرہ رابعہ الدورانی، لاہور کی بادشاہی مسجد اور لال قلعہ دلی کی موتی مسجد تعمیر ہوئی۔ مغلیہ دور کی آخری اہم عمارت دلی میں صفدر جنگ کا مقبرہ ہے۔
وردہ بلوچ
1 note · View note
googlynewstv · 3 years
Text
کیا تاریخی موتی مسجد پر نیک سیرت جنوں کا قبضہ ہے؟
کیا تاریخی موتی مسجد پر نیک سیرت جنوں کا قبضہ ہے؟
لاہور کی تاریخی موتی مسجد سے موتی مندر بننے والی شاہی قلعے کی مسجد آج پہلے سے کہیں زیادہ آباد ہے جس کی بڑی وجہ لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ یہاں نیک سیرت جنات مقیم ہیں جو اللہ کے حکم سے یہاں آنے والوں کے مسائل حل کرتے ہیں۔ اس حوالے سے لوگ بہت سے حیرت انگیز واقعات بھی بیان کرتے ہیں۔ بعض لوگ ان جنوں کو دیکھنے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ یہاں آکر منتیں مرادیں مانگتے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ یہاں ان…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdu-poetry-lover · 4 years
Text
Tumblr media Tumblr media
آج 3دسمبر پنجابی زبان کے عوامی شاعراستاد دامن کی برسی ہے.
استاد دامن کااصل نام چراغ دین تھا۔آپ یکم جنوری 1910کو
چوک متی لاہورمیں پیداہوئے۔والدمیراں بخش درزی تھے۔گھریلوحالات کے پیش نظر
استاددامن نےبھی تعلیم کے ساتھ ٹیلرنگ کاکام شروع کر دیا۔انہوں نےساندہ کےدیو سماج سکول سے میٹرک کاامتحان پاس کیا۔
شعر گوئی کی ابتدا بڑے بھائی کی وفات پر مرثیےسےکی۔مگر باقاعدہ شاعری کاآغاز میٹرک کے بعدکیا۔پہلےہمدم تخلص کرتے
تھےلیکن پھر دامن اختیارکیا۔ جلدہی انکی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوتاگیااورانہوں نےسیاسی جلسوں میں بھی نظمیں پڑھنے کا آغازکیا۔حصولِ آزادی کی
جدوجہدمیں وہ نشنل۔کانگریس کے فعال کارکن تھے۔1947 کے فسادات میں استاد دامن کی بیوی اور ان کا بچہ ان سے بچھڑ گیا۔ کچھ دنوں بعد وہ ملے،مگر زیادہ دن زندہ نہ رہ سکے اور استاد دامن کو ہمیشہ کے لئے تنہا چھوڑ گئے۔ اس واقعہ نے استاد دامن کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا اور پھر اس کے بعد استاد دامن نےدوبارہ شادی نہیں کی اور ساری عمرتنہازندگی گزار دی۔انہوں نے ٹکسالی دروازے کی مسجد کے ایک حجرے کو اپنا مسکن بنالیا۔استاد دامن نے مزدوروں ،کسانوں، غریبوں اور مزدوروں کی حمایت اور حقوق کیلئے آواز اٹھائی اور ہمیشہ استحصالی طبقات کی مذمت کرتے رہے ۔استاد دامن نے عوامی اجتماعات میں اپنے کلام کے ذریعےاستحصالی قوتوں کو
بےنقاب کیا۔انہوں نےپنجابی زبان و ادب کےفروغ کیلئےگراں قدر
خدمات سرانجام دیں.۔استاددامن کی سب سےبڑی خوبی انکی فی البدیہہ گوئی تھی۔آزادی کےکچھ عرصہ بعدانہوں نےدلی میں منعقدہ مشاعرےمیں اپنی یہ فی۔البدیہہ نظم پڑھی۔
جاگن والیاں رج کے لٹیا اے
سوئےتسی وی او،سوئےاسیں وی آں
لالی اکھیاں دی پئی دسدی اے
روئےتسی وی او،روئے اسیں وی آں
حاضرین مشاعرہ بےاختیار رونے لگے۔مشاعرےمیں پنڈت جواہرلعل نہرو(وزیراعظم بھارت)بھی موجودتھے۔انہوں نےاستاددامن سےاس خواہش کااظہارکیاکہ وہ مستقل طورپربھارت میں سکونت اختیارکرلیں۔
لیکن استاددامن نےجواب دیا۔ ’’میں پاکستان وچ رہواں گا بھاویں جیل وچ رہواں‘‘۔استاد دامن کو لاہور سے بہت محبت تھی۔انہوں نے ’’شہر لاہور‘‘ نظم لکھی۔ اس نظم کے دو شعر دیکھیے۔
ہور شہر کیہ تیرے اگے
تیرے وچ اک دیوا جگے
مہر جتھے ولیاں نوں لگے
کہن تینوں داتا دی نگری
قیام پاکستان کےبعد کچھ شرپسندوں نےانکی ذاتی لائبریری اوردکان کوآگ لگادی تو انکی ذاتی تحریریں،ہیرکامسودہ جسےوہ مکمل کررہےتھےاور دوسری کتابیں جل کرراکھ ہو گئیں ۔۔انہوں نےدل برداشتہ ہوکر اپنا کلام کاغذپر محفوظ کرنا چھوڑدیااورصرف اپنےحافظےپر بھرودہ کرنے لگے۔اس وجہ۔سے ان کا کافی کلام ضائع ہوگیا لیکن ان کی یاد میں قائم ہو نے والی استاد دامن اکیڈمی کے عہدداروں نے بڑی محبت وکاوش سے ان کے مختلف ذہنوں میں محفوظ اور ادھر ادھر بکھر ے ہو ئے کلام کو یکجا کر کے’’ دامن دے موتی‘‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کرائی ۔استاد دامن پنجابی اوراردو کے علاوہ سنسکرت گرمکھی، عربی، فارسی، روسی، انگریزی اور ہندی زبانوں سے بھی آگاہ تھے،لیکن انہوں نےوسیلہ اظہاراپنی ماں بولی پنجابی ہی کوبنایا۔استاد دامن بلھےشاہ اکیڈمی کےسرپرست،مجلس شاہ حسین کےسرپرست اورریڈیو پاکستان شعبہ پنجابی کےمشیر بھی تھے۔ان مختلف حیثیتوں میں انھوں نےپنجابی زبان وادب کی ناقابل فراموش خدمات سرانجام دیں۔استاد دامن جالب اورفیض احمدفیض سےبہت محبت کرتےتھے۔80 کی دہائی میں منہ بولےبیٹےفلم سٹارعلاؤالدین کےانتقال کےبعداستاددامن غمزدہ رہنےلگے۔پھرتھوڑےہی عرصے
کےبعدفیض صاحب بھی خالق حقیقی سےجاملے۔استاد دامن سے محبت کرنےوالوں کے روکنے کے باوجود آپ فیض صاحب کےجنازےپر پہنچے۔لوگوں نے استاد کو پہلی بار دھاڑیں مار تے ہوئےدیکھا۔فیض کےانتقال کے صرف تیرہ دن بعد ہی 3 دسمبر 1984کواستاد دامن بھی اپنے چاہنےوالوں سے ہمیشہ کےلئیے رخصت ہوگئےاستاد دامن کی آخری آرام گاہ شاہ حسین کے مزار کے سامنے قبرستان میں ہے۔مزار کے کتنبے پر
یہ اشعار تحریر ہیں۔
ماری سرسری نظر جہان اندر
تے زندگی ورق اُتھلیا میں
دامن ملیا نہ کوئی رفیق مینوں
ماری کفن دی بُکل تے چلیا میں
2 notes · View notes
modern-tiles · 4 years
Text
Tumblr media
استاد دامن کا ایک چاہنے والا اُن کے لیے دیسی گھی میں پکے دو پراٹھے لے کر آیا۔ استاد دامن نے پراٹھے ایک طرف رکھے اور اُٹھہ کر ایک بڑا سا پیالہ لیا جس میں چینی ڈالی۔ ایک پراٹھے کو توڑا اور پیالے میں ڈھیر ساری چُوری بنا لی۔ پھر اُٹھے اور کمرے کے چاروں کونوں میں وہ چُوری زمین پر ڈال دی اور واپس آ کر مہمان کو کہا کہ لو ایک پراٹھا مل کر کھائیں۔
مہمان پریشانی سے زمین پر گری چُوری پر نظریں مرکوز کیے تھا کہ اچانک بہت سے بڑے بڑے چوہے کونوں کھدروں سے نکلے اور تیزی سے چوری کھانے لگے۔ مہمان نے حیران ہو کر پوچھا کہ استادِ محترم یہ کیا؟
ہنس کر جواب دیا چُوری ہے اور چوہے کھا رہے ہیں۔ اس میں حیرانی کی کیا بات ہے۔ میرے کمرے کے چاروں طرف دیکھو۔ میری ساری عمر کی کمائی۔ میرا خزانہ میری کتابیں تمہیں ہر طرف نظر آئیں گی۔ چوہے خوش ذائقہ چوری کے عادی ہیں۔ ان کو اب کتابوں کے کاغذوں کا بے مزہ ذائقہ اچھا نہیں لگتا۔ اس لیے چوہوں کو چوری کھلانے کا فائدہ یہ ہے کہ میری کتابیں محفوظ ہیں۔میرا خزانہ محفوظ ہے۔ تم بھی اگر اپنے کسی بھی خزانے کو محفوظ رکھنا چاہتے ہو تو یاد رکھو اردگرد چوہوں کا خیال رہو۔ انہیں چوری ڈالتے رہو۔ سدا سکھی رہو گے۔
پھر کچھہ دیر خاموشی کے بعد استاد نے مہمان سے مخاطب ہو کر کہا ۔
زندگی بھر ایک بات یاد رکھنا ، رب العزت زندگی میں جب بھی کبھی تمہیں کچھ دے۔ اُس میں سے کچھ حصہ اپنے اردگرد موجود چوہوں کو ضرور بانٹ دیا کرو ۔ کیونکہ چوہوں کی ہر اُس چیز پر نظر ہوتی ہے جو تمہارے پاس آتی ہے۔ یہ چوہے کوئی اور نہیں تمہارے قریبی عزیز اور دوست ہیں۔ ان کا خیال رکھنا تمہارا اخلاقی اور مذہبی فریضہ بھی ہے۔
برادرم سرفراز سید کی ایک یاد:
کافی عرصہ پہلے میں ، سائیں اختر (’’ اللہ میاں تھلے آ ‘‘ نظم والے ) کے ساتھہ استاد دامن سے ملنے گیا۔ سائیں اختر نے انارکلی کی مشھور دکان سے آدھا کلو موتی چور لڈو خریدے۔
میں کہا ’’ سائیں جی،استاد جی کو تو شائد مٹھائی کھانے کی اجازت نہیں!‘‘
سائیں نے کہا ’’ وہاں جا کر دیکھہ لیں مٹھائی کا کیا بنتا ھے!‘‘
استاد دامن باد شاھی مسجد کے سامنے مشھور صوفی شاعر شاہ حسین والے حجرے میں رہتے تھے ۔ (یہاں فیض احمد فیض اور صوفی تبسم استاد جی کے ہاتھوں پکے ھوئے بٹیرے کھانے کے لئے آیا کرتے تھے).
ھم حجرے میں پہنچے۔استاد بہت محبت سے ملے۔ سائیں اختر سے کہا،
مہمانوں کا کھانا لائے ھو؟
سائیں نے لڈو پیش کئے۔ استاد اٹھے، لڈئوں کو توڑ کر دیواروں پر لگی پڑ چھتیوں ( شیلفیں) پر بیشمار پرانےاخبارت اور رسالوں کے ڈھیروں کے سامنے جگہ جگہ رکھہ دیا۔ اک دم پیچھے سے بہت سے چوھے نکل آئے اور لڈو کھانے لگے۔ دلچسپ منظر تھا۔
استاد بتانے لگے کہ پہلے جو بھی خوراک ڈالتا تھا وہ انہیں جلدی ہضم ھو جاتی تھی اور یہ کتابوں کو کترنے لگتے تھے۔ لڈو بہت دیر میں ہضم ھوتے ہیں، یہ اگلے روز شام تک چپ پڑے رھتے ھیں۔
میں نے کہا ’’ انہیں نکال کیوں نہیں دیتے؟ ‘‘
کہنے لگے، ’’سرفراز صاحب! یہ شاہ حسین کے مہمان ھیں، میں کیسے نکال دوں!‘‘
0 notes
urduclassic · 11 years
Text
کہنے کو مسلماں میں بھی ہوں لیکن کہتےشرماتا ہوں.........
کہنے کو مسلماں میں بھی ہوں لیکن کہتےشرماتا ہوں
===============================
(اے ایمان لانے والوں !اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ- القرآن)
وہ جان حیات کون و مکاں ، وہ روح نجات انسانی
وہ جس کی بلندی کے آگے افلاک ہوئے پانی پانی
وہ فقر کا پیکر جس کے قدم چھوتا ہے شکوہ سلطانی
ان سے ہی مجھے نسبت ہے مگر کب ان کی حقیقت پہنچانی
احساس خطا کی پلکوں سے آنسو بن کر گر جاتا ہوں
کہنے کو مسلماں میں بھی ہوں لیکن کہتے شرماتا ہوں
آباد ہوئیں عشرت گاہیں ،ویران مسجد روتی ہیں
طاری ہے فضاء پر موسیقی، پامال اذانیں ہوتی ہیں
برباد خزاں ہے مستقبل ، ماضی کی بہاریں سوتی ہیں
پھولوں کے بجائے کانٹوں میں شبنم کے شکستہ موتی ہیں
یہ وقت عمل !!کردار ہے شل!!کیا دست دعا پھیلاتا ہوں
کہنے کو مسلماں میں بھی ہوں لیکن کہتےشرماتا ہوں
1 note · View note
daleelpk-blog · 5 years
Text
اللہ کا احسان ہمارے محافظ ہمارے قوام - شہلا خضر ناظم آباد
Tumblr media
جنوری کی ایک یک بستہ صبح تھی۔ ہفتے کا روز تھا ۔ گزشتہ رات ہی سے گہر ے بادلوں نے آسمان کو گھیر رکھا تھا ۔ صبح فجر کے وقت ہلکی ہلکی پھوار نے یکدم خنکی میں مزید اضا فہ کر دیا تھا ۔ آج میرے چھوٹے بیٹے کے اسکول میں Parents & Teachers Meeting تھی ۔ چونکہ اسکول صدر کے مصروف کاروباری علاقے میں تھا اسی لئے ہم نے صبح سویرے ہی نکلنا مناسب سمجھا تاکہ ٹریفک کے اژدھام سے بچا جا سکے ۔ جلدی جلدی ناشتہ کیا بیٹے کو ساتھ لیا اسکول کی جانب روا نہ ہوئے ۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی مجھے احساس ہوا کہ اچانک سے ٹھنڈی ہوائیں بھی چلنا شروع ہو چکی تھیں لہٰذا میں نے اچھی طرح گرم شال کو اپنے چاروں طرف لپیٹا اور گاڑی کے شیشے اوپر چڑھا دیئے تا کہ ہوا کی ہلکی سی رمق مجھ تک نہ پہنچ پائے ۔ ابھی گلی سے نکل کر بڑی سڑک کی جانب بڑھے ہی تھے کہ سامنے کے ۔ ایم۔سی کے عملے کے افراد بڑی بڑی جھا ڑو لئے صفائی میں مصروف نظر آئے ۔ مجھے بہت حیرت ہوئی کیونکہ مین روڈ کے وسیع و عریض رقبے پر ہوائوں کی رفتار اور شدت بھی کافی زیادہ تیزی تھی اور وہ خاکروب معمولی گرم کپڑ وں کے سہارے اس قدر یخ بستہ ہوائوں میں مستعدی کے ساتھ اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے ۔ میرے شوہر صاحب میرے فکرمند چہرے کو دیکھ کر مسکرانے لگے وہ میری پریشانی کا سبب بھانپ گئے تھے کیونکہ وہ میری عادت سے اچھی طرح واقف تھے کہ کسی کو بھی پریشانی اور دقت میں دیکھ کر میں بے چین ہو جاتی ہوں ، انہوں نے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا کہ ارے بھئی یہ تو ان کا رو ز کا کام ہے ۔ یہ اس ڈیوٹی کے عادی ہیں ۔ آپ تو گھر سے اس وقت نہیں نکلتی اسی لئے حیران ہورہی ہیں میں تو روز انہیں ایسے ہی کام کرتے دیکھتا ہوں ۔ دل ہی دل میں میں ان کے لئے دعائیں کرنے لگی کہ اگر یہ خاکروب ہماری سڑکیں اور گلیاں صاف نہ کریں تو ہم بڑی پریشانی میں پڑ جائیں گے ۔ اب ہم گو لیمار چورنگی کی طرف رواں دواں تھے ۔ دھول اڑاتے خاکروب اب نظروں سے اوجھل ہوچکے تھے۔ قریبی پیٹرول پمپ پر ہم نے گاڑی رو کی تا کہ فیول بھروایا جا سکے ۔ غیر معمولی سردی کی وجہ سے پیٹرول پمپ بھی ویران پڑا تھا ۔ پیٹرول پمپ پر دو نو عمر دبلے پتلے لڑکے یونیفارم میں ملبوس کھڑے تھے ۔ انکی عمر 17 یا 18کے ہی لگ بھگ ہوگی ۔ راس عمر کے لڑکے اسکول کالج جاتے ہیں مگر لگتا ہے کہ حالات نے انہیں تعلیم کے زیور سے محروم کرکے پیٹرول پمپ کی ملازمت اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ میرے شوہر صاحب نے کھڑکی کا شیشہ کھولا اور فیول بھروانے کے لئے ہدایات دینے لگے ۔ شیشہ کھلتے ہی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا گاڑی کے اندر داخل ہو گیا ۔ ��چھلی نشست پر بیٹھے میرے بیٹے نے شوہر مچادیا "پاپا جلدی سے شیشہ بند کریں مجھے سردی لگ رہی ہے " "پاپا جی" نے جلدی سے فیول کے پیسے لڑکے کے ہاتھ میں تھمائے اور شیشہ چڑھا لیا کہ مبادا ان نے لاڈلے بیٹے کو "فلو" نہ ہوجائے ۔ اتنے میں ایک اور گاڑی آگئی اور وہ لڑکے اس کی طرف متوجہ ہوگئے اور اپنی ڈیوٹی میں مصروف ہو گئے ۔ ہم بھی آگے روانہ ہوئے ۔ بے فکری کی عمر میں ان دونوں بچوں نے کس قدر حوصلے سے معاش کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھا رکھی تھی ۔ اللہ پاک نے انہیں کتنی ہمت اور صبر دے رکھا ہے ۔ میں انہیں سوچوں میں گم تھی کچھ ہی دیر میں ہم تیزی سے آگے بڑھ گئے اور کب آہستہ آہستہ دن کا اجالا بھی پھیل چکا تھامعمول کی زندگی رواں دواں تھی ۔ بہت سے موٹر سائکل سوار ٹفن باکس لٹکائے ہیلمٹ پہنے ہو ئے چیکٹس اور دستانے چڑھائے اپنے کام پر روانہ نظر آئے ۔ سڑک کے کناروں پر موجود فٹ پاتھوں پر بھی کچھ چہل پہل شروع ہو چکی تھی ۔ اب ہم گرومندر کے قریب پہنچ گئے ۔ سخت سردی کے باوجود بیکری اور "ملک شاپس " کھل چکی تھیں اور دکاندار حضرات اپنی اپنی دکانوں کی صفائی اور قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول نظر آئے ۔ نیو ٹا ئون اکی مسجد کے سامنے ٹھیلے والے بھائی اپنے پھلوں کو سجا نے اور ترتیب دینے میں مشغول تھے ۔ قریب ہی ایک چھوٹا سا ڈھابہ تھا جہاں پرگرم گرم چائے پرا ٹھہ بنانے والے باورچی بھائی بھی گاہکوں کے لئے ناشتہ بنانے کا انتظام کر رہے تھے اور میزیں کرسیاں لگانے والے لڑکے بھی معمول کے فرا ئض سر انجام دے رہے تھے۔ اسکول پہنچے تو گیٹ پر موجود ادھیڑ عمر چوکیدار مستعدی سے ڈیوٹی دیتے نظر آئے ۔ کینٹین بھی کھل چکی تھی ۔ کینٹین والے انکل خوش دلی سے بچوں کو اشیاء فروخت کر رہے تھے ۔ آڈیٹوریم میں میٹنگ شروع ہونے والی تھی ۔ والدین کی بڑی تعدادپہنچ چکی تھی ۔ ہم نے Peonسے نمبر لیا اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگے ۔ تمام Subject Techers سے مل کر ان سے انکی رائے لینی ضروری تھی ۔ رش کی وجہ سے والدین کے لئے لگا ئی جانے والی کرسیاں کچھ کم پڑگئیں ۔ فوری طور سے کچھ مرد حضرات اپنی کرسیوں سے اٹھ گئے اور خواتین آرام سے کرسیوں پر بیٹھ گئیں ۔ مرد حضرات ایک طرف کھڑے ہوگئے ۔ کچھ ہی دیر میں ہمارا نمبر آگیا ۔ اپنے بیٹے کے تمام اساتذہ سے اچھے ریمارکس ملے اور ہم مطمئن ہو کر گھر کی طرف روانہ ہوئے ۔ تقریباً دن کے گیارہ بج چکے تھے ۔ ہلکی بوندا باندی شروع ہوچکی تھی۔ سڑک کے کنارے لمبی قطار میں غریب مزدور اپنی بیلچے کدالیں اور اوزار لئے کام ملنے کی آس میں سرد ہوائوں میں چپ چپ گہری سوچوں میں گم بیٹھے تھے شاید وہ یہی سوچ رہے ہوں کہ اگر انہیں مزدوری نہ ملی تو ان کے گھر کا چولہا کیسے چلے گا اور بیوی بچوں کے پیٹ کیسے بھریں گے۔ ٹریفک کانسٹیبل بھی برساتی پہن کر چوراہے پر موجود ٹریفک کو کنٹرول کرنے میں مگن تھے ۔ شدید سردی کے باوجود پبلک ٹرانسپورٹ چلانے والے رکشہ ڈرائیور بس ڈرائیور اور کوچ والے بھائی سب تلاش معاش کے لئے سڑکوں پر موجود تھے ۔ ہمیں گھر پہنچا کر میرے شوہر صاحب نے پانی کا گلاس پیا اور جلدی جلدی اپنے کام پر روانہ ہو گئے کیونکہ وہ ایک کانٹریکٹر ہیں اور ہفتے کے ساتوں دن Site پر کام کرواتے ہیں کیونکہ مزدور ایک بھی دن چھٹی نہیں کرنا چاہتے کیونکہ جس دن وہ کام پر نہیں جاتے اس دن بچوں کو بھوکا ہی سونا پڑتا ہے ۔ گھر کے پر سکون گرم ماحول میں بیٹھ کر میری آنکھوں سے شکرانے کے آنسو نکل آئے ۔ ہم عورتوں کتنی خوش نصیب ہیں ہمیں گھر کا محفو ظ تحفظ دینے والے ہمارے لئے دن رات گرم سرد موسم کا سامنا کرے ۔ دنیا کی تلخ و ترش باتوں کو برداشت کرکے اپنے آرام دہ گھروں کو چھوڑ کر سارا دن ، رزق حلال کما کر لانے والے ہمارے قوام ہمارے گھروں کے باپ بھائی ، شوہر اور بیٹے ہمارے لئے رب کائنات کا عظیم کا تحفہ ہیں ۔ مسلم مرد اپنے خاندان کے لئے رزق حلال کمانا عین عبادت سمجھتے ہیں ۔ گھروں میں موجود اپنی ماں بہن ،بیوی اور بیٹی کو ہر آسائش مہیا کرتے ہیں ۔ اپنی خواہشات اور ضروریات کو محدود رکھ کر اپنے خاندان کی کفالت کی بھاری ذمہ داری پوری رضا و رغبت کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور اپنی خواتین کو قیمتی موتی کی طرح سنبھال کر رکھتے ہیں ۔ اسلامی نظام معاشرت نے عورت کو عزت و تکریم کے اعلیٰ درجات پر فائز کیا ہے۔ صدیوں سے رائج جاہلانہ اور فرسودہ رسم و رواج اور نسل درنسل چلنے والی تنگ نظری کا خاتمہ کیا ۔ جو مرتبہ و مقام اور عزت توقیر ہمیں مسلم معاشرہ اور اسلامی شعائر نے ساڑھے چودہ سال پہلے دی وہ 21ویں صدی کی بے چاری مغربی عورت کے لیے آج بھی صرف سہانا خواب ہے ۔ جس رب کا ئنات نے انسان کو تخلیق کیا وہ قرآن پاک میں خود ہی فرماتا ہے کہ کیا وہ ہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا " بالکل بجا فرماتا ہے وہ پروردگار عالم ہے وہ ہماری رگ رگ سے واقف ہے وہ جانتا ہے کہ عورت جیسی نازک اور انمول ہستی کو مضبوط اور با اعتماد ساتھ کی ضرورت قدم قدم پر ہے اسی لئے ہمیں پیدائش کے ساتھ ہی باپ بھائی اور خاندانی نظام کے ساتھ ہی شوہر اور بیٹوں کے مضبوط اور خوبصورت رشتوں سے جوڑ دیا ۔ میری پیاری بہنوں آپ یقین جانیں جن معاشروں میں خاندانی یونٹ کی اہمیت ختم ہو چکی ہے اور آزادی نسواں کے نام پر عورتوں کو گھر کی محفوظ چار دیواری سے نکال کر برابری کے جھوٹے نعروں کی آڑمیں حوادث زمانہ کا سامنا کرنے کے لئے کھڑا کر دیا ہے، وہاں کی عوررت ہماری زندگیوں پر رشک کرتی ہیں ۔ کیونکہ مسلم عورت ��ھر کی ملکہ ہے اور مغربی عورت راستے میں پڑے کسی پتھر کی طرح ادھر ادھر لڑھکتی ہی جارہی ہے ۔ اصل میں تو استحصال کا شکار بے چاری مغربی مظلوم عورت ہے کیونکہ اسے تو اس کے اپنے ہی مطلبی خود غرض مردوں نے زمانے کی ٹھوکروں پر چھوڑدیا تا کہ وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کا بوجھ ان نازک کندھوں کے اوپر ڈال کر خود اپنی زندگی کی عیاشیوں میں گزار دیں ۔ اسلام رواداری اور مساوات کا داعی ہے ۔ ایسا ممکن نہیں کہ کسی بھی مشکل او غیر معمولی صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لئے اس میں احکام موجود نہ ہوں ۔ بعض اوقات گھروں کے قوام کسی بیماری یا معذوری یا قلت معاش کے باعث نا مسائد حا لات کا شکار ہوتے ہیں ۔ ایسے میں اسلامی نظام معاشرت عورت کو اپنے "قوام"کا ساتھ نبھانے کے لئے کام کرنے کی رخصت اور وسعت عطا کرتا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں بے شمار خواتین چادر اور چار دیواری میں رہتے ہوئے بھی حصول معاش کے لئے مشقت و محنت کر کے گھر والوں کا ہاتھ بٹا رہی ہیں ۔ ایک"مستحکم خاندانی نظام "اسلامی معاشرے کے لئے مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے کہ جس پر نظام عدل ایثار و محبت مساوات اور حسن اخلاق سے مزین پاکیزہ اسلامی معاشرہ قائم ہو تا ہے ۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ جن گھرانوں میں اسلامی تعلیمات کا حقیقی شعور موجود ہے اور فرسودہ روایات کی اندھا دھند تقلید نہیں ان گھرانوں میں عورت قدر و منزلت اور اعتماد پا کر زندگی کے ہر شعبے میں اپنے گھر کے قوام کے ساتھ شانہ بشانہ موجود ہے اور مل جل کر مفاہمت کے ماحو ل میں اپنی نسلوں کی بہترین تعلیم و تربیت میں مشغول عمل نظر آتی ہے ۔ لہٰذا جو بھی ذی شعور انسان عورتوں کے حقوق کی بات کرتا ہے اسے چاہئے کہ وہ اسلامی نظام معاشرت کا مطالعہ کرے اور "لانگ مارچ اور ریلی نکالنے میں ضائع کرنے کے بجائے اپنی توانائیاں اسلامی نظام شریعت را ئج کرنے کے لئے صَرف کریں۔ Read the full article
0 notes
khoonevadeh · 5 years
Photo
Tumblr media
قلعه سرخ یا لال قلعه در دهلیhttps://khoonevadeh.ir/?p=136859
نام هند اغلب یادآور حس لطیفی است، به همراه داستان‎هایی از عشق و موسیقی در طبیعتی بکر و ناب. این سرزمین پهناور و گسترده، دارای طیف‌های  متفاوتی است از پوشش‌ گیاهی، جنگل ها و مرداب‏ها که هر کدام به نوعی توریست‎ها را در سفر به هند مجذوب خود می‏کنند. آثار و بناهای زیبای تاریخی منحصر به فرد این کشور نیز از جمله جاذبه‏های گردشگری هستند، مکان‌هایی با قدمت هزاران ساله وداستان‌های واقعی از عشق و نفرت، قدرت و عدالت، که در پس دیوارهای این بناها رخ داده است. یکی از آن محل‌ها، قلعه سرخ (رد فورت یا لال قلعه) است. لال در زبان هندی به معنی سرخ است. این بنا از بزرگترین و زیباترین جاذبه‏های گردشگری در شهر دهلی، پایتخت هندوستان است. معمارش ، شخصی است به نام احمد لاهوری که به دستور شاه جهان این قلعه را بنا کرد. قلعه سرخ محل سکونت امپراطور و خانواده سلطنتی بوده‎است و کلیه مراسم تشریفاتی و سیاسی نیز آن‎جا برگزار می‎شده‎است. این قلعه در سال ۲۰۰۷ در لیست میراث جهانی یونسکو به ثبت رسیده‏است.‏ برای آشنایی بیشتر با عروس زیبای شاه جهان آباد،  پایتخت محبوب شاه جهان با ما در سفرزون همراه شوید.
تاریخچه لال قلعه
شاه جهان، پنجمین امپراطور مغول، وقتی پایتخت خود را از آگرا به دهلی تغییر داد، دستور احداث این قلعه را صادر کرد. ساخت آن نه سال به طول انجامید. این قلعه کنار رود یامونا قرار دارد و به شکل هشت ضلعی نامنظم است. قلعه به وسیله دیوار قرمز رنگی به طول ۵٫۲ کیلومتر محصور شده و ارتفاع آن از ۱۶ تا ۳۳ متر متغییر است.
قلعه سرخ
آدرس قلعه سرخ در نقشه گوگل
سبک معماری قلعه سرخ
معماری آن ترکیبی از سبک هندی و مغولی است، این سبک معماری به‎خاطر خلاقیت و پیش‎رو بودن در زمان خودش روی سبک معماری ساختمان‌ها و باغ‌های بعدی در دهلی، راجستان، پنجاب، کشمیر، براج، روح الخاند و جاهای دیگر تاثیرگذاشت.
معماری قلعه سرخ
بخشهای مهم قلعه سرخ
دیوان عام حیاط بیرونی مستقل و بزرگی است که با سنگ‌های مرمر سفید فرش شده. شاه بر روی ایوانی در دیوار شرقی می‌ایستاده و با عموم دیدار می‌کرده‌است.
لال قلعه
دیوان عام
دیوان خاص سالن میهمانان و ملاقات‌های خصوصی شاه بوده، و البته تخت مشهور ‏شاه جهان به نام تخت طاووس نیز در ‏آنجا قرار داشته است همان تختی که بعدها توسط نادر شاه به عنوان غنیمت به ایران آورده شد. جالب است بدانید در قسمت‏های مختلفی از کاخ شعرهایی به زبان فارسی دیوارها را تزیین کرده از جمله در دو انتهای دیوان خاص اشعار از خسرو دهلوی وجود دارد.
دیوان خاص
از سایر اتاق‎ها می‌توان به رنگ محل یا کاخ رنگی محل اقامت همسر اصلی اشاره کرد. بنایی زیبا با تزئینات طلایی، سقف منقوش و حوض مرمرین.
ممتاز محل نیز اتاق خصوصی شاه بوده‎است، که اتاق‌های خواب، مکان‌های عبادت، ایوان و باروی موسامان بُرج را شامل میشود.
دروازه های قلعه
دروازه لاهور که دروازه اصلی قلعه بوده نامش را از شهر لاهور واقع در پاکستان گرفته‌است.
دروازه دهلی دروازه‌ای که به سوی دهلی قدیم بوده‌است.
دروازه لاهوری
دروازه فیل دروازه‌ای که مقابلش دو مجسمه با شکوه سیاه رنگ از فیل قرار داشته است، که بعدها در ۱۸۵۶ توسط اورنگ‌زیب تخریب شدند. هم‌اکنون پس از بازسازی در موزه ممتاز محل قرار دارند.
دروازه دهلی
بازار سرپوشیده
چاتاچوک یا بازار سرپوشیده، که بازاری بوده‌است بین دروازه اصلی و قلعه که اکنون محل تجمع دستفروشان برای فروش سوغاتی به گردشگران است.
بازار قلعه سرخ
بخش‎های مختلف قلعه
نقاره‌خانه یا نوبت‌خانه که بر فراز دروازه لاهور و مقابل چاتاچوک قرار گرفته‎است و از آنجا ۵ بار در روز یا هنگام ورود شاه یا شاهزادگان و خانواده سلطنتی نقاره می‌زده‌اند. این بنا بیش از ۳۰ متر طول و ۲۰ متر عرض دارد و کلیه بازدیدکنندگان به‌جز خانواده سلطنتی، در این‌جا پیش از ورود به محوطه اصلی باید از اسب پیاده می‌شدند.
باغ حیات بخش باغی بوده‌است وسیع و به وسیله دو نهر زیبا و فواره‌های فراوان تقسیم می‌شده‎است. متأسفانه اکنون این نهرها خشک است و در آن محل فقط پوشش گیاهی باقی‌مانده‌است.
بُرج مثمن بارویی است در خاص محل و رو به بیرون قلعه که شاه هر روز صبح زود بر فراز آن آن امدر انظار عموم ظاهر می‌شده‌است.
نهر بهشت محل اقامت شخصی شاه بوده که و ایوان آن مشرف بر رود یامونا بوده محلی که شاه از فراز آن نظاره‏گر رود بوده‎‎است.
بخشهای مهم قلعه سرخ
سایر قسمتهای قلعه لال
ساوان و بادان دو عمارت که دارای مخزن آب هستند، ظفر محل که در میان استخر آب واقع است.
حمام شاهی، بخش زنانه یا اندرونی که خود شامل ممتاز محل و رنگ محل است، دعوت‎خانه که محل اقامت شاهزاده بوده است و در آخر مسجد موتی یا مروارید است که توسط اورنگ زیپ جانشین شاه جهان ساخته شد.
قلعه سرخ
موزه های قلعه سرخ
در حال حاضر دو موزه در این بنا وجود دارد: یکی شامل اشیاء، منسوجات کتاب‌ها و دست‌نوشته‌های تاریخی و هنری است، که عمدتاً مربوط یه دوران گورکانی هند یا ایران است. موزه دیگر بیشتر به نمایش جنگ‌افزارهای قدیمی آن دوران تا زمان اشغال انگلیس تعلق دارد.
جاهای دیدنی قلعه سرخ
هیرا محل
سرگذشت قلعه سرخ
بسیاری از آثار هنری و جواهرات قلعه، طی حمله نادرشاه به امپراطوری مغول در سال ۱۷۴۷ غارت شدند. پس از آن بسیاری از سازه‌های سنگ مرمر قلعه در انقلاب ۱۸۵۷ توسط بریتانیا ویران شدند و بخش‎هایی از دیوارهای دفاعی قلعه باقی ماند. انگلیسی‌ها آخرین امپراطور مغول را در ۱۸۵۸ در قلعه سرخ محاکمه و به رانگون تبعید کردند و کاخی که ۲۰۰ سال محل زندگی مردان قدرتمندی از مغول بود به پادگان نظامی تغییر کاربری داد.
قلعه سرخ
زمان بازدید
بهترین زمان برای بازدید از این کاخ فصل پاییز و بهاراست که هوا مناسب‎تر است و به راحتی می‌توان در اطراف این کاخ ‏زیبا گشت.
روز و ساعات بازدید
قلعه سرخ در روزهای دوشنبه تعطیل است و سایر روزها در‌ها از ساعت ۹:۳۰ صبح تا ۴:۳۰ عصر برای بازدید عموم باز ‏است.
قیمت بلیط ۵۵۰ روپیه برای توریست‌ها و برای هندی‎ها ۴۰ روپیه است.
لازم است قبل از سفر به هند و قلعه سرخ بدانید
در سفر به هند حتما از بطری‌های آب آشامیدنی با برند‌های معروف استفاده کنید، به علت ازدحام و شلوغی بر حریم شخصی خود حساس نباشید. پوشاندن بازوها و پاها جزو آداب رسوم هندی است مراقب کفش‌هایتان باشید به خصوص هنگام ورود به مقبره‌ها آن‌ها را در آوردید، ولی درون پاکت یا کیف خود نگه دارید یا به امانت دار بسپارید. در هند پای انسان عضو تمیزی نیست، اگر با پاهایتان چیزی را لمس کردید، عذر‌خواهی کنید، خوردن یا دادن اشیا با دست چپ خوشایند نیست، برای آلودگی صوتی آماده باشید.
در آخر همراهان عزیز سفرزون امیدوارم این گردش کوتاه در قلعه سرخ، انتخاب مقصد سفر بعدی را برای شما راحت‎ترکرده باشه. چنانچه تجربه سفر به قلعه سرخ را داشته‌اید، نظرات خود را با مخاطبان سفرزون به اشتراک بگذارید، سپاس‌گزار از همراهی شما.
برای آشنایی بیشتر با دیدنی های هندوستان کلیک کنید.
  منبع : مجله گردشگری سفرزون
0 notes
cosmicqbit · 5 years
Photo
Tumblr media
فرمانِ مصطفٰے ﷺ: جو حلال مال سے مسجد بنائے گا اللہ پاک اس کے لئے جنّت میں موتی اور یاقوت کا گھر بنائے گا۔ (معجم اوسط ،۴/۱۷،حدیث:۵۰۵۹) #Cosmicqbit #SaggeMadina #Muslim #MaslakeAalaHazrat #UbaideQadri
0 notes
urdu-poetry-lover · 5 years
Text
Tumblr media
استاد دامن کی پیدائش
Jan 01, 1910
3 دسمبر 1984ء کو پنجابی زبان کے معروف عوامی شاعر استاد دامن لاہور میں وفات پاگئے اور لاہور ہی میں مادھولال حسین کے مزار کے احاطے میں آسودۂ خاک ہوئے۔
استاد دامن کا اصل نام چراغ دین تھا وہ یکم جنوری 1910ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ استاد دامن کے والد خیاطی کی پیشے سے وابستہ تھے چنانچہ انہوں نے بھی یہی پیشہ اختیار کیا اور ایک جرمن فرم جان ولیم ٹیلرز سے خیاطی کا باقاعدہ ڈپلوما حاصل کیا۔
استاد دامن ساتھ ہی ساتھ تعلیم بھی حاصل کرتے رہے۔ انہوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی مگر والد کے انتقال کے باعث سلسلۂ تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور خیاطی کے پیشے سے باقاعدہ طور پر منسلک ہوگئے۔
استاد دامن نے ابتدا ہی طبع موزوں پائی تھی۔ وہ استاد محمد رمضان ہمدم کے شاگرد ہوئے۔ اس شاگردی نے ان کی شاعری کو مزید جلا بخشی۔
ایک موقع پر لاہور کے مشہور سیاستدان میاں افتخار الدین نے استاد دامن کی شاعری سنی اور انہیں لاہور کے ایک سیاسی جلسے میں جس کی صدارت جواہر لال نہرو کررہے تھے نظم سنانے کی دعوت دے ڈالی۔ استاد دامن نے اس جلسہ میں نظم کیا سنائی ہر طرف ان کی شاعری کر چرچا ہونے لگا۔ جواہر لال نہرو نے جلسہ میں ہی انہیں سو روپے بطور انعام عطا کئے جس سے استاد دامن کی بڑی حوصلہ افزائی ہوئی۔
1947ء کے فسادات میں استاد دامن کی بیوی اور ان کا بچہ ان سے بچھڑ گیا۔ کچھ دنوں بعد وہ ملے، مگر زیادہ دن زندہ نہ رہ سکے اور استاد دامن کو ہمیشہ کے لئے تنہا چھوڑ گئے۔ اس واقعہ نے استاد دامن کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا اور پھر وہ ساری عمر تنہا زندگی گزارتے رہے۔
انہوں نے ٹکسالی دروازے کی اس مسجد کے ایک حجرے کو اپنا مسکن بنالیا جہاں اکبر اعظم کے عہد میں معروف صوفی شاعر شاہ حسین رہا کرتے تھے۔ اس حجرے میں استاد کی شاعری کا سلسلہ جاری رہا اور جلد ہی ان کا شمار پاکستان کے معروف شعرا میں ہونے لگا۔
استاد دامن کا مجموعہ کلام ان کی وفات کے بعد دامن دے موتی کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکا ہے۔
5 notes · View notes
humlog786-blog · 6 years
Text
راج موہن گاندھی کی نظر میں مولانا محمد علی جوہر
Tumblr media
تحریر : رشید انصاری   مہاتما گاندھی کے پوتے راج موہن گاندھی نے ہندوستانی مسلمانوں کے تعلق سے انگریزی میں ایک کتاب میں مولانا محمد علی جوہر، محمد علی جناح، فضل الحق، ابوالکلام آزاد، لیاقت علی خان اور ذاکر حسین خان شامل ہیں ۔راج موہن گاندھی نے مولانا محمد علی جوہر کے تعلق سے کچھ ایسے حقائق کا انکشاف کیا جو ہندوستان کی نصابی کتابوں اور دیگر لکھنے والوں کی تحریروں میں عمداً بلکہ مصلحتاً ضبط تحریر میں نہیں لائے جاتے ہیں ۔مولانا محمد علی کو ان کی ابتدائی زندگی میں دو اہم ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ایک تو یہ کہ کسی انگریز کے تعصب کی وجہ سے وہ اس دور کے ایک اہم مقابلہ جاتی امتحان آئی سی ایس (ICS) میں کامیاب نہ ہو سکے ایک طرح سے یہ اچھا ہی ہوا۔ورنہ قوم ایک بلند پایہ بے باک ونڈر سیاست داں ، قائد اور مدبر سے محروم ہو جاتی!ان کی دوسری ناکامی یہ تھی کہ ان کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں لیکچرر بننے کا بھی موقع نہ ملا کیونکہ کالج کا انگریز پروفیسر ان کے باغیانہ خیالات کو ناپسند کرتا تھا۔راج موہن گاندھی نے لکھا ہے کہ عملی سیاست میں آنے سے پہلے ہی وہ ہندو مسلم اتحاد کے بہت بڑے علمبردار تھے ۔ راسخ العقیدہ مسلمان ہونے کے باوجود وہ بہت بڑے محبّ وطن تھے لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ مولانا محمد علی مسلمانوں کے اس متحدہ اور نمائندہ و فد میں شامل تھے جو 1906ئ میں مسلمانوں کے مطالبات پیش کرنے سرآغاخاں کی قیادت میں اس وقت کے وائسرائے لارڈ منٹو سے ملا تھا۔ لارڈ منٹو کو اپنے مطالبات پیش کرنے کے بعد ہی ڈھاکہ میں 1906ء میں مسلم لیگ کا تاسیسی اجلاس ہوا جس میں مولانا محمد علی بھی شریک تھے گو کہ انہوں نے مسلم لیگ کے قیام میں کلیدی رول ادا کیا تھا لیکن وہ ہمیشہ ہندو مسلم اتحاد پر زور دیا کرتے تھے ۔مولانا محمد علی کے مشہور زمانہ انگریزی رسالے ’’کامریڈ‘‘ کے ساتھ ہی راج موہن گاندھی نے ان کے اردو رسالے ’’ہمدرد‘‘ کا بھی ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ مولانا محمد علی کی انگریزی تحریر ان کی اردو تحریر سے زیادہ پرکشش اور موثر تھی ویسے راج موہن نے یہ بات پروفیسر محمد مجیب کے حوالے سے لکھی ہے )1905ء میں انگریزوں نے بنگال کو (جو ایک وسیع صوبہ تھا) تقسیم کیا تھا کانگریس نے تقسیم بنگال کی مخالفت کی تھی جبکہ مسلمان اس کے حامی تھے ۔ 1911ء میں انگریزوں نے تقسیم بنگال کو ختم کر کے پھر سے اسے متحد کر دیا گوکہ مولانا محمد علی بھی تقسیم بن��ال کے فیصلے کو منسوخ کرنے کے شدید مخالف تھے کیونکہ تقسیم شدہ بنگال کے ایک حصے (مشرقی بنگال) میں مسلمان غالب اکثریت میں تھے ۔ تاہم مولانا محمد علی جوہر نے مسلمانوں کو صبر و تحمل سے حالات سے سمجھوتہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ تقسیم بنگال کی حمایت اور تقسیم کے فیصلے کو منسوخ کرنے کے سلسلے میں مولانا محمد علی کی مخالفت جو دراصل مسلم لیگ کی تائید اور کانگریس کی مخالفت تھی تاہم مولانا محمد علی کی ان باتوں کا ذکر مولانا کے تذکروں میں نہیں کیا جاتا ہے تاکہ مولانا محمد علی کی مسلم لیگ سے قربت کا اظہار نہ ہو۔راج موہن گاندھی نے یہ بھی لکھا ہے کہ بہت سارے معاملات میں مولانا کا موقف اور ان کے رسائل کامریڈ اور ہمدرد کا موقف بہ یک وقت فرقہ واریت اور حب الوطنی کا اظہار کرتا تھا۔ مخلوط انتخاب کی جگہ مسلمانوں کے لئے جداگانہ انتخابات (جس میں مسلمان صرف مسلمانوں کو ووٹ دیتے تھے اور قانون ساز اداروں میں مسلمانوں کی نشستوں کا یہ اعتبار آبادی تعین کیا جاتا تھا) کی حمایت کرتے تھے ۔ لیکن 1912ء میں انہوں نے جداگانہ انتخابات کو ’’کراہیت آمیز ضرورت (مثل طلاق) قرار دیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ دونوں فرقوں (ہندو اور مسلمان) کے تعلقات خوش گوار ہو جائیں تو اس کو ختم کیا جاسکتا ہے ۔ مولانا کے حالات لکھنے والے ’’جداگانہ انتخابات‘‘ کے بارے میں مولانا کے خیالات صاف گول کر جاتے ہیں کیونکہ اس طرح مولانا کے کانگریس سے اختلافات کا پتہ چلتا ہے ۔تحریک خلافت اور تحریک عدم تعاون کے ذکر میں راج موہن گاندھی نے اعتراف کیا ہے کہ مولانا محمد علی نے سوامی شردھانند کو جامع مسجد دہلی کے منبر پر بٹھا دیا تھا۔ گاندھی جی نے ممبئی(تب بمبئی) کی مساجد میں مسلمانوں کو مخاطب کیا۔ برہمن مسلمانوں کو بلا کر اپنے گھر کھانا کھلاتے تھے اور گاندھی جی کو جو اس وقت تک صرف گاندھی جی کہلاتے تھے ان کو جب مولانا نے ’’مہاتما‘‘ کہہ کر پکارنا شروع کیا تو ہر کوئی گاندھی جی کو مہاتما کہنے لگا۔تحریک خلافت کے دوران ہندوؤں نے جس طرح اس تحریک کا ساتھ دیا تھا اس کے اظہار تشکر کی خاطر مولانا نے گائے کا گوشت کھانا چھوڑ دیا تھا اور عام مسلمانوں میں بقرعید کے موقع پر گائے کی قربانی نہیں کی گئی لیکن وہ بے مثال ہندو مسلم اتحاد کی مثال پھر کبھی نہ مل سکی۔ تحریک عدم تعاون ’’چورا چوری‘‘ کے پر تشدد واقعات کے بعد مہاتما گاندھی نے اچانک ختم کر دی تھی یہ بات مولانا کو ناگوار گزری اور انہوں نے اسے ہتھیار ڈالنے کے مماثل قرار دیا۔ مہاتما گاندھی، علی برادران کی گرفتاری نے تمام تحریکوں کو ختم کر دیا دوسری جانب برطانوی حکومت نے ہندو مسلم فسادات کو ہوا دی ’’شدھی سنگھٹن‘‘ (مسلمانوں کو ہندو بنانے کی تنظیم) نے زور پکڑا اور مدن موہن مالویہ جیسے فرقہ پرست قائدین کا زور ہو گیا۔ چنانچہ جب مہاتما گاندھی سے مولانا نے مدن موہن مالویہ کے مخالف مسلم رویہ کی شکایت کی تو گاندھی کے خیالات مالویہ کے تعلق سے مختلف تھے چنانچہ اس تعلق سے مولانا نے 15/جون 1924ء کو پنڈت جواہر لال نہرو کو ایک خط لکھ کر مالویہ کے بارے میں گاندھی جی کے خیالات پر مایوسی کا اظہار کیا تھا۔1924ء میں کوہاٹ میں ہوئے ہندو مسلم فساد نے مولانا محمد علی اور گاندھی کے اختلافات بہت زیادہ بڑھا دئے تھے ۔مہاتما گاندھی نے مولانا کے گھر مہمان ہو کر 21 دن کا برت رکھا۔ مولانا کو اس برت سے اختلاف تھا انہوں نے مہاتما جی سے شکایت کی تھی کہ ایک میزبان کی حیثیت سے اور دوسرے صدرکانگریس کی حیثیت سے مہاتما کو مولانا سے مشورہ تو کرنا چاہئے تھا۔ مولانا نے اس برت کو ختم کروانے کے لئے بہت کوشش کی مولانا کی والدہ ’’بی امّاں ‘‘ نے بھی مہاتما سے درخواست کی مولانا محمد علی کے بھائی شوکت علی نے مہاتما کو روکنے کے لئے ممبئی سے دہلی دوڑ لگائی لیکن گاندھی جی نے کسی کی نہ سنی۔ کوہاٹ کے فسادات کے بارے میں ہی بعد میں بھی اختلافات بڑھتے گئے اور مہاتما نے مولانا شوکت علی سے کہا تھا کہ ’’اس معاملے میں ہمارے درمیان گہری خلیج حائل ہے ۔ ‘‘1924ء میں جب بہ حیثیت صدر کانگریس مولانا کی میعاد صدارت ختم ہو چکی تھی،مسلمانوں کے خدشات اور حقوق کا ذکر کرتے ہوئے راج موہن گاندھی نے لکھا تھا کہ ’’مولانا محمد علی یہ محسوس کرتے تھے کہ ’ہندو فرقہ پرستی‘ کانگریس میں جگہ بناتی جا رہی ہے ان کو امید تھی کہ مہاتما گاندھی اسے ختم کر سکیں گے جبکہ مہاتما گاندھی کا کہنا تھا کہ ہندو اور مسلمان دونوں ہی پر سے میرا اثر ختم ہو چکا ہے ۔تحریک خلافت کی ناکامی کا غم، مصطفے ٰ کمال کی جانب سے ترکی میں خلافت کے خاتمہ کا المیہ اور انتھک محنت، بد پرہیزی، بحث و مباحثے ، لکھنے لکھانے کا کام،خود کو اصولوں کی خاطر تنازعات میں الجھائے رکھنا ان وجوہات کی وجہ سے جنوری 1926ء تک مولانا کی صحت خراب ہوتی گئی اور بقول راج موہن گاندھی مولانا اپنی عمر سے زیادہ بوڑھے نظر آنے لگے ہیں ۔ اس وقت ان کی عمر47 سال تھی اسی زمانے میں ان کو مالی مجبوریوں کی وجہ سے ’’کامریڈ‘‘ بند کرنا پڑا تھا۔1927ء میں ایک طرف ہندو مسلم اتحاد کی جگہ ملک بھر میں ہندو مسلم فسادات کا زور تھا تو دوسری طرف دستوری اصلاحات کی تیاری بھی زوروں پر تھی۔ مسلمانوں کی تمام جماعتوں کا ایک اجلاس دہلی میں سائمن کمیشن کی آمد سے قبل ہوا تھا۔ اس وقت سندھ کا صوبہ ممبئی میں شامل تھا اور شمال مغربی صوبہ سرحد اور بلوچستان کو مکمل صوبوں کا درجہ حاصل نہ تھا۔ 1916ء میں میثاقِ لکھنؤ میں طے شدہ جداگانہ انتخاب سے کانگریس منحرف ہو چکی تھی۔ مسلمانوں کے اجلاس دہلی میں مسلمانوں کی قیادت مولانا محمد علی جوہر کے ساتھ محمد علی جناح بھی کر رہے تھے ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ دو محمد علی ایک ساتھ ہی نہیں بلکہ ایک ہی مشن پر تھے جداگانہ انتخاب کی جگہ مسلمانوں نے مشترکہ یا مخلوط انتخاب کا مطالبہ مان لیا تھا اور سندھ، بلوچستان اور شمال مغربی صوبہ سرحد کو مکمل صوبوں کا درجہ دینے کے ساتھ مرکزی کونسل میں ایک تہائی نشستوں کا مطالبہ کر دیا تھا ان تجاویز کو ’’تجاویز دہلی‘‘ کا نام دیا جاتا ہے ۔ کانگریس ابتداء میں تجاویز دہلی کو قبول کرنے پر آمادہ تھی لیکن موتی لال نہرو کمیٹی کی رپورٹ آتے ہی کانگریس نے ان تجاویز کو مسترد کر دیا کیونکہ مرکزی کونسل میں نہرو کمیٹی نے مسلمانوں کو صرف 25 فیصد نشستوں کے دئے ے جانے کی سفارش کی تھی۔ نہرو رپورٹ پر غور کرنے کے لئے تمام جماعتوں کا ایک کنویشن کولکتہ (تب کا کلکتہ) میں منعقد ہوا لیکن اس میں کوئی فیصلہ نہ ہو سکا محمد علی جناح مولانا محمد علی کے ساتھ اپنے مطالبات پر اڑے رہے ۔ مولانا محمد علی نے اس موقع پر بڑی جوشیلی تقریر کی تھی راج موہن گاندھی نے ممتاز مسلم لیگ قائد چودھری خلیق الزماں کے اس خیال سے اتفاق کیا تھا کہ غالباً مولانا محمد علی کو کانگریس سے کسی سمجھوتے کی امید نہ تھی کیونکہ کانگریس میں پنڈت مدن موہن مالویہ، لاجپت رائے اور سردار پٹیل اور دیگر کئی قائدین مسلمانوں کے مخالف تھے اسی لئے 1925ء میں ہی مولانا محمد علی جوہر اور ان کے بھائی شوکت علی اور دوسرے کئی مسلم قائدین مسلمانوں کے ساتھ کانگریس چھوڑ چکے تھے ۔بہرحال کولکتہ میں تمام جماعتوں کے کنونشن میں مولانا محمد علی اور محمد علی جناح کے یکجا ہونے اور ہم خیال ہونے کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ یہاں یہ بات بھی لائق ذکر ہے ہر مکتب فکر کے تمام اہم مسلمان لیڈر کانگریس سے الگ ہو گئے تھے صرف ابوالکلام آزاد اور مختار احمد انصاری کانگریس کا ساتھ دیتے رہے ۔ اسی سلسلے میں راج موہن لکھتے ہیں کہ ’’اپریل 1926ء میں مولانا محمد علی نے موتی لال نہرو سے دوران گفتگو کہا تھا کہ تمام کانگریسی ماسوائے گاندھی جی، موتی لال نہرو اور جواہر لال نہرو مخالف مسلمان ہیں ۔ لیکن 1928ء میں موتی لال نے تجاویز دہلی کو پہلے قبول کیا تھا لیکن بعد میں اپنا موقف تبدیل کر دیا۔ مہاتما گاندھی نے اپنا اثر استعمال کرنے کی جگہ فرقہ پرستوں کو کھلی چھوٹ دے دی تھی۔کانگریس یا مہاتما گاندھی سے دوری کے باوجود جیسا کہ راج موہن گاندھی نے لکھا ہے کہ ہندو مسلم اتحاد کے مشن سے مولانا کبھی دور نہیں ہوئے اور عمر کے آخری حصہ میں چند دن (جو انہوں نے لندن میں گزارے تھے ) کے دوران ان کا اس بارے میں موقف غیر متزلزل رہا ��ھا۔ چنانچہ گول میز کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا تھا ’’ہندو مسلم تنازع انگریزوں کا تخلیق کردہ ہے ، آپ ’لڑاو ¿ اور حکومت کرو‘ کے قدیم ضابطے پر عمل پیرا ہیں ۔ ہم منقسم ہیں (گو کہ اس کی ساری ذمّہ داری آپ پر نہیں ہے ) تاہم آپ بہرحال ہم کو تقسیم کر کے حکومت کر رہے ہیں ۔‘‘اپنی ایک صاحبزادی کے نام اپنے ایک خط میں مولانا نے لکھا تھا کہ :’’اللہ تعالیٰ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ انصاف کر سکیں ۔ دیانتداری برتیں اور تحمل کا مظاہرہ کریں اور انہیں غلامی سے اتنی نفرت ہو جائے کہ وہ نہ خود غلام رہنا پسند کریں اور نہ ہی کسی اور کو اپنا غلام بنانا پسند کریں ۔‘‘مولانا محمد علی جوہر طاقتور مرکزی حکومت کی جگہ ایسے وفاق کے قائل تھے جس میں صوبوں کو خاصی آزادی ہو اس طرح مسلم اکثریتی صوبوں میں حکومت مسلمانوں کی ہو گی اور ہندو اکثریتی صوبوں میں ہندوؤں کی اس طرح مساوات برقرار رہے گی۔ ہندو مسلمان ایک دوسرے پر ظلم نہ کر سکیں گے ۔ انتقال سے قبل ان کا آخری کام برطانوی وزیر اعظم رسے میکڈانلڈ کو خط لکھ کر مکمل آزادی کا مطالبہ کرنا تھا۔ راج موہن گاندھی نے لکھا ہے کہ اپنی عمر کے باون سالوں میں مولانا محمد علی نے قوم کو دیا تو بہت کچھ لیکن لیا کچھ نہیں ، خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے کوئی وصیت نہیں چھوڑی کیونکہ بطور میراث چھوڑنے کے لئے ان کے پاس نہ کوئی جائیداد تھی اور نہ ہی گھر میں یا بینک میں نقد رقم تھی۔   ٭٭٭ Read the full article
0 notes
mypakistan · 10 years
Text
The Gates of Lahore City
لاہور شہر برصغیر کے قدیم ترین علاقوں میں سے ایک ہے اور یہ ہمیشہ سے اہم
 تجارتی گزر گاہ اور ثقافت کا مرکز رہا ہے جس کا ماضی بہت رنگین جبکہ یہاں کی تعمیرات پاکستان کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں منفرد ہیں۔
اندرون لاہور جسے پرانا لاہور بھی کہا جاتا ہے میں مغلیہ دورِ حکومت کے دوران دشمن کے حملوں سے بچاﺅ کے لیے فصیل یا دیوار تعمیر کی گئی تھی جس میں بارہ دروازے بنائے گئے تھے جن میں سے کچھ تو وقت کی رفتار کا ساتھ نہ دے پانے کے باعث منہدم ہوگئے تاہم بیشتر ابھی بھی موجود ہیں اور اس شہر کی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہے ہیں۔
موچی دروازہ
موچی دروازہ لاہور کے دروازوں میں بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے، جس کا اصل نام تو بادشاہ اکبر کے دور کے ایک محافظ پنڈت موتی رام پر موتی دروازہ رکھا گیا تھا تاہم نجیت سنگھ کے دورِ حکومت میں یہ نام بدل کر پہلے مورچی اور پھر موچی مشہور ہوگیا اور اب اسے اسی نام سے جانا جاتا ہے۔
شہر کے قدیم علاقوں میں سے ایک ہونے کے باعث یہاں رونق کافی دیکھنے میں آتی ہے اور ماضی میں یہ سیاسی جلسوں کی وجہ سے بھی پورے ملک میں جانا جاتا تھا جہاں کافی یادگار جلسے بھی منعقد ہوئے، اسی طرح یہاں مغل دور کی چند مشہور حویلیاں بھی موجود ہیں جن میں مبارک حویلی، نثار حویلی اور لال حویلی قابل ذکر ہیں۔
موچی دروازے کا علاقہ قدیم دور سے ثقافت اور صنعت و حرفت کا مرکز رہا ہے۔ یہاں کی تاریخی حویلیاں، کھانے، محلے اور بازار قدیم ادوار میں اس علاقے کی خوشحالی کی گواہی دیتے ہیں۔
لوہاری دروازہ
اکبر کے عہد میں تعمیر کردہ شہر کی دیوار کا سب سے پرانا دروازہ لوہاری کہلاتا تھا، جس کا اصل نام درحقیقت لاہور دروازہ تھا جو بگڑ کر لوہاری ہوگیا۔ اس دروازے کا رخ اس زمانے کے مرکزی علاقے سمجھے جانے والے اچھرہ کی جانب ہونے کی وجہ سے لاہور دروازہ رکھا گیا تھا، برصغیر کا پہلا مسلم حکمران قطب الدین ایبک اس دروازے کے ساتھ ہی محو خاک ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جب محمود غزنوی کے عہد میں ملک ایاز لاہور کا حکمران تھا تو اس نے اس زمانے میں قصبے کی شکل میں واقع لاہور کو دوبارہ تعمیر کرایا جس کے دوران شہر کی آبادی اسی دروازے کے ارگرد کے علاقے میں مقیم رہی۔
برطانوی عہد میں لاہور کے کئی دروازوں کو دوبارہ تعمیر کیا گیا تاہم لوہاری واحد دروازہ تھا جو اپنی اصل شکل میں برقرار رہا اور اب یہ شہر کا ایک مصروف ترین کاروباری علاقہ سمجھا جاتا ہے جہاں اکثر پیدل چلنا بھی آسان ثابت نہیں ہوتا جبکہ اس کے ساتھ ہی لاہور کا مصروف ترین انار کلی بازار ہے۔
شاہ عالمی دروازہ
شاہ عالم سے بگڑ کر شاہ عالمی کے نام سے مشہور ہوجانے والا یہ دروازہ لاہور کی مصروف ترین اور مالیاتی لحاظ سے بہت معروف مارکیٹ کے قریب واقع تھا، تاہم زمانے کی دستبرد کے نتیجے میں یہ منہدل ہوچکا ہے۔
اس دروازے کا نام اورنگزیب عالمگیر کے بیٹے شاہ عالم پر رکھا گیا تھا جو کہ پنجاب میں اپنی سخاوت کی بناءپر بہت معروف تھا، جبکہ اس کا پرانا نام بھیروالا دروازہ تھا، برصغیر کی تقسیم کے دوران اسے جلا کر خاک کردیا گیا اور اب صرف اس کا نام ہی باقی رہ گیا ہے۔
جس علاقے میں یہ دروازہ واقع ہے وہ تاریخی لحاظ سے انتہائی اہم ہے اور یہاں کئی یادگاریں، حویلیاں اور قدیم بازار واقع ہیں، جن میں رنگ محل، سوہا (صرافہ) بازار، کناری بازار وغیرہ قابل ذکر ہیں جبکہ ایشیاء کی نمبر ون کلاتھ مارکیٹ اعظم کلاتھ مارکیٹ بھی اسی علاقے میں واقع ہے، اسی طرح سنہری مسجد اور اونچی مسجد جیسی تاریخی مساجد بھی اسی دروازے کے پاس واقع ہیں۔
کشمیری دروازہ
چونکہ اس دروازے کا رخ وادیٔ کشمیر کی جانب ہے تو اسی لئے اسے کشمیری دروازے کا نام دیا گیا، اس دروازے کے اندر کشمیری بازار کے نام سے ایک مشہور مارکیٹ موجود ہے جبکہ تنگ گلیوں میں بھی متعدد مارکیٹیں موجود ہیں۔
اسی طرح یہاں سے ایک سڑک کے ذریعے تاریخی وزیر خان مسجد جایا جا سکتا ہے جبکہ ایک دوسری سڑک اعظم کلاتھ مارکیٹ تک لے جاتی ہے۔ اس تاریخی دروازے کی موجودہ حالت کافی خراب ہے اور جگہ جگہ سیاسی جماعتوں کے بینرز اور اشتہاری سائنز نے مغل عہد کے خطاطی کے شاہکار نمونوں کو چھپا کر رکھ دیا ہے۔
دہلی دروازہ
لاہور کے مشہور ترین دروازوں میں سے ایک دہلی دروازہ مغل بادشاہ اکبر نے تعمیر کرایا تھا، یہ شہر کی فصیل کے مشرق میں واقع ہے اور اس سے ملحق ہی کشمیری دروازہ ہے۔ چونکہ اس دروازے کا رخ دہلی کی جانب تھا اسی لئے اس کا نام دہلی دروازہ ہی رکھ دیا گیا، زمانہ قدیم میں یہ لاہور کا مصروف ترین علاقہ سمجھا جاتا تھا جبکہ اس کے بائیں جانب انتہائی خوبصورت شاہی حمام موجود ہے جو دیکھنے والوں کو مسحور کر کے رکھ دیتا ہے۔
دروازے کے اندر متعدد تاریخی عمارات، پرانی گلیاں اور لنڈا بازار موجود ہیں، تاریخی وزیر خان مسجد بھی اسی دروازے کے اندر موجود ہے۔ یہاں موجود پرانی حویلیاں دیکھنے والوں کو حیران کر دیتی ہیں جبکہ یہاں ایک اہم ہندو یادگار شوالہ بابا بخار گرو بھی موجود ہے۔
اکبری دروازہ
شہر کی دیوار کی مشرقی سمت میں واقع اکبر دروازے کا نام مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے نام پر رکھا گیا۔ اگرچہ برطانوی عہد میں اس کی دوبارہ تعمیر نو کی گئی تاہم وقت گزرنے کے ساتھ یہ اب صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہے۔ یہاں لاہور کی سب سے بڑی ہول سیل اور ریٹیل مارکیٹ اکبری منڈی واقع ہے جہاں ہر قسم کے اجناس کی تجارت ہوتی ہے۔
بھاٹی دروازہ
کہا جاتا ہے کہ جب محمود غزنوی نے راجہ جے پال کو شکست دی تو یہاں موجود دروازے کو راجپوت قبیلے بھاٹ یا بھٹی کا نام دیا گیا، جسے مغل بادشاہ اکبر نے اپنے عہد میں دوبارہ تعمیر کرایا۔ یہ شہر کی دیوار کے مغربی سمت میں واقع ہے اور یہ اپنے مخصوص لوہاری کھانوں کی بناء پر جانا جاتا ہے اور یہاں چوبیس گھنٹے چٹ پٹے کھانوں کے شوقین افراد کی بھر مار رہتی ہے۔
بھاٹی گیٹ کے قریب ہی ایک میوزیم واقع ہے جہاں ہندوستان کی مختلف بادشاہتوں کے عہد کی یادگاریں رکھی گئی ہیں جبکہ بازار حکیماں جیسی تاریخی مارکیٹ بھی اس دروازے کے ساتھ موجود ہے جس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ بازار حکیموں کے لیے مخصوص ہے۔
مگر اس دروازے کی ایک خاص اہمیت یہاں شاعر مشرق علامہ اقبال کی دوران گریجویشن رہائش ہے، بازار حکیماں میں جس چھوٹی سی جگہ پر بیٹھ کر علامہ اقبال اپنی پڑھائی اور ساتھیوں سے ملاقاتیں کرتے تھے وہ بدستور موجود ہے۔ یہ دروازہ پہلوانوں کی وجہ سے بھی معروف ہے جنھوں نے یہاں سے نکل کر برصغیر میں کافی دھوم مچائی۔
مستی گیٹ
شاہی قلعے کی پشت میں واقع مستی گیٹ کا اصل نام مسجدی دروازہ تھا، جو بگڑ کر مستی ہوگیا۔ بادشاہ اکبر کی والدہ مریم میخانی کے نام سے منسوب مسجد اس دروازے میں واقع ہے تاہم کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ اس گیٹ کا نام یہاں متعین ایک محافظ مستی بلوچ کے نام پر رکھا گیا۔ لوہاری اور بھاٹی کی طرح یہ علاقہ بھی اپنے بہترین کھانوں اور دودھ کی دکانوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے، خاص طور پر ربڑی والا دودھ اور قلفی تو سیاحوں کی جان سمجھا جاتا ہے جن کی دکانوں پر چوبیس گھنٹے رش رہتا ہے۔
زکی یا یکی دروازہ
مشرقی سمت میں واقع ذکی دروازہ کا نام ایک شہید صوفی زکی کے نام پر رکھا گیا۔ تاریخ میں رقم ہے کہ اس صوفی بزرگ نے شمال سے آنے والے تاتاری حملہ آوروں کا بہت بہادری سے مقابلہ کیا تھا جس کے دوران اس کا سر کاٹ لیا گیا اور ان کا مزار اسی دروازے کے قریب موجود ہے۔ اس دروازے کے ارگرد متعدد حویلیاں اور مندر موجود ہیں جہاں اکثر سیاحوں کا رش رہتا ہے۔
ٹکسالی گیٹ
ٹکسالی گیٹ کا نام یہاں سکے ڈھالنے کے لیے موجود ٹکسال کی وجہ سے پڑا، تاہم آج یہ ٹکسال اور دروازہ دونوں ہی منہدم ہوچکے ہیں۔ مگر ابھی بھی یہ جگہ کھانے پینے کے شوقین لاہوریوں کے لیے پسندید مقام ہے جہاں پھجے کے پائے اور کچھ حلوہ پوری کی مشہور دکانیں موجود ہیں۔ یہاں بیشتر افراد شیخو پڑیاں بازار جانے کے لیے آتے ہیں جو کھسہ اور پشاوری چپلوں کا معروف بازار ہے۔ اسی طرح پانی والا تالاب اور گوردوارہ لال کھوہ بھی اسی دروازے کے قریب واقع ہیں۔
روشنائی دروازہ
جنوبی سمت میں واقع یہ دروازہ شاہی قلعے اور بادشاہی مسجد کے درمیان واقع ہے۔ یہ دروازہ دوسرے مغلیہ دور میں تعمیر شدہ دروازوں سے اونچا اور چوڑا ہے۔ عالمگیری دروازے کے بعد مغلیہ فوج میں شامل ہاتھیوں کا دستہ اسی دروازے سے شہر میں داخل ہوا کرتا تھا۔ اسی دروازے سے ملحق مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد میں حضوری باغ افغانستان کے شاہ شجاع سے مشہور کوہ نور ہیرا چھیننے کی خوشی میں تعمیر کیا گیا تھا۔
شام کے وقت اس دروازے کو روشن کیا جاتا تھا جس کی وجہ سے ہی اسے روشنائی دروازے کا نام دیا گیا۔ شاعر مشرق علاقہ اقبال اور رنجیت سنگھ کی سمادھی بھی اس دروازے کے سامنے حضوری باغ میں موجود ہے اور اس سے ملحق ہی بدنام زمانہ شاہی محلہ بھی موجود ہے۔
خضری یا شیرانوالہ دروازہ
اسے پہلے خضری دروازے کا نام دیا گیا جس کی وجہ معروف بزرگ حضرت خواجہ خضر الیاس تھا جنھیں امیر البحر کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آبِ حیات دریافت کرنے میں کامایب رہے تھے تاہم مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد میں اس کا نام تبدیل ہوگیا اور یہ شیرانوالہ دروازہ معروف ہوگیا۔
اس دروازے کے اندر روایتی پرانی لاہوری طرز زندگی کا نظارہ کیا جاسکتا ہے اور یہاں کے تنگ بازار میں تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں ہوتی۔ اس دروازے کی موجودہ حالت انتہائی خستہ ہے اور اس کا پلستر اور رنگ مکمل طور پر غائب ہو چکا ہے، بل بورڈز اور اشتہاری بینرز کی مہربانی سے جگہ جگہ دراڑیں پڑ چکی ہیں جس کی وجہ سے ڈر ہے کہ کہیں یہ تاریخی ورثہ بھی منہدم نہ ہو جائے۔
سعدیہ امین اور فیصل ظفر
The Gates of Lahore City
0 notes
risingpakistan · 10 years
Text
The Gates of Lahore City
لاہور شہر برصغیر کے قدیم ترین علاقوں میں سے ایک ہے اور یہ ہمیشہ سے اہم
 تجارتی گزر گاہ اور ثقافت کا مرکز رہا ہے جس کا ماضی بہت رنگین جبکہ یہاں کی تعمیرات پاکستان کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں منفرد ہیں۔
اندرون لاہور جسے پرانا لاہور بھی کہا جاتا ہے میں مغلیہ دورِ حکومت کے دوران دشمن کے حملوں سے بچاﺅ کے لیے فصیل یا دیوار تعمیر کی گئی تھی جس میں بارہ دروازے بنائے گئے تھے جن میں سے کچھ تو وقت کی رفتار کا ساتھ نہ دے پانے کے باعث منہدم ہوگئے تاہم بیشتر ابھی بھی موجود ہیں اور اس شہر کی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہے ہیں۔
موچی دروازہ
موچی دروازہ لاہور کے دروازوں میں بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے، جس کا اصل نام تو بادشاہ اکبر کے دور کے ایک محافظ پنڈت موتی رام پر موتی دروازہ رکھا گیا تھا تاہم نجیت سنگھ کے دورِ حکومت میں یہ نام بدل کر پہلے مورچی اور پھر موچی مشہور ہوگیا اور اب اسے اسی نام سے جانا جاتا ہے۔
شہر کے قدیم علاقوں میں سے ایک ہونے کے باعث یہاں رونق کافی دیکھنے میں آتی ہے اور ماضی میں یہ سیاسی جلسوں کی وجہ سے بھی پورے ملک میں جانا جاتا تھا جہاں کافی یادگار جلسے بھی منعقد ہوئے، اسی طرح یہاں مغل دور کی چند مشہور حویلیاں بھی موجود ہیں جن میں مبارک حویلی، نثار حویلی اور لال حویلی قابل ذکر ہیں۔
موچی دروازے کا علاقہ قدیم دور سے ثقافت اور صنعت و حرفت کا مرکز رہا ہے۔ یہاں کی تاریخی حویلیاں، کھانے، محلے اور بازار قدیم ادوار میں اس علاقے کی خوشحالی کی گواہی دیتے ہیں۔
لوہاری دروازہ
اکبر کے عہد میں تعمیر کردہ شہر کی دیوار کا سب سے پرانا دروازہ لوہاری کہلاتا تھا، جس کا اصل نام درحقیقت لاہور دروازہ تھا جو بگڑ کر لوہاری ہوگیا۔ اس دروازے کا رخ اس زمانے کے مرکزی علاقے سمجھے جانے والے اچھرہ کی جانب ہونے کی وجہ سے لاہور دروازہ رکھا گیا تھا، برصغیر کا پہلا مسلم حکمران قطب الدین ایبک اس دروازے کے ساتھ ہی محو خاک ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جب محمود غزنوی کے عہد میں ملک ایاز لاہور کا حکمران تھا تو اس نے اس زمانے میں قصبے کی شکل میں واقع لاہور کو دوبارہ تعمیر کرایا جس کے دوران شہر کی آبادی اسی دروازے کے ارگرد کے علاقے میں مقیم رہی۔
برطانوی عہد میں لاہور کے کئی دروازوں کو دوبارہ تعمیر کیا گیا تاہم لوہاری واحد دروازہ تھا جو اپنی اصل شکل میں برقرار رہا اور اب یہ شہر کا ایک مصروف ترین کاروباری علاقہ سمجھا جاتا ہے جہاں اکثر پیدل چلنا بھی آسان ثابت نہیں ہوتا جبکہ اس کے ساتھ ہی لاہور کا مصروف ترین انار کلی بازار ہے۔
شاہ عالمی دروازہ
شاہ عالم سے بگڑ کر شاہ عالمی کے نام سے مشہور ہوجانے والا یہ دروازہ لاہور کی مصروف ترین اور مالیاتی لحاظ سے بہت معروف مارکیٹ کے قریب واقع تھا، تاہم زمانے کی دستبرد کے نتیجے میں یہ منہدل ہوچکا ہے۔
اس دروازے کا نام اورنگزیب عالمگیر کے بیٹے شاہ عالم پر رکھا گیا تھا جو کہ پنجاب میں اپنی سخاوت کی بناءپر بہت معروف تھا، جبکہ اس کا پرانا نام بھیروالا دروازہ تھا، برصغیر کی تقسیم کے دوران اسے جلا کر خاک کردیا گیا اور اب صرف اس کا نام ہی باقی رہ گیا ہے۔
جس علاقے میں یہ دروازہ واقع ہے وہ تاریخی لحاظ سے انتہائی اہم ہے اور یہاں کئی یادگاریں، حویلیاں اور قدیم بازار واقع ہیں، جن میں رنگ محل، سوہا (صرافہ) بازار، کناری بازار وغیرہ قابل ذکر ہیں جبکہ ایشیاء کی نمبر ون کلاتھ مارکیٹ اعظم کلاتھ مارکیٹ بھی اسی علاقے میں واقع ہے، اسی طرح سنہری مسجد اور اونچی مسجد جیسی تاریخی مساجد بھی اسی دروازے کے پاس واقع ہیں۔
کشمیری دروازہ
چونکہ اس دروازے کا رخ وادیٔ کشمیر کی جانب ہے تو اسی لئے اسے کشمیری دروازے کا نام دیا گیا، اس دروازے کے اندر کشمیری بازار کے نام سے ایک مشہور مارکیٹ موجود ہے جبکہ تنگ گلیوں میں بھی متعدد مارکیٹیں موجود ہیں۔
اسی طرح یہاں سے ایک سڑک کے ذریعے تاریخی وزیر خان مسجد جایا جا سکتا ہے جبکہ ایک دوسری سڑک اعظم کلاتھ مارکیٹ تک لے جاتی ہے۔ اس تاریخی دروازے کی موجودہ حالت کافی خراب ہے اور جگہ جگہ سیاسی جماعتوں کے بینرز اور اشتہاری سائنز نے مغل عہد کے خطاطی کے شاہکار نمونوں کو چھپا کر رکھ دیا ہے۔
دہلی دروازہ
لاہور کے مشہور ترین دروازوں میں سے ایک دہلی دروازہ مغل بادشاہ اکبر نے تعمیر کرایا تھا، یہ شہر کی فصیل کے مشرق میں واقع ہے اور اس سے ملحق ہی کشمیری دروازہ ہے۔ چونکہ اس دروازے کا رخ دہلی کی جانب تھا اسی لئے اس کا نام دہلی دروازہ ہی رکھ دیا گیا، زمانہ قدیم میں یہ لاہور کا مصروف ترین علاقہ سمجھا جاتا تھا جبکہ اس کے بائیں جانب انتہائی خوبصورت شاہی حمام موجود ہے جو دیکھنے والوں کو مسحور کر کے رکھ دیتا ہے۔
دروازے کے اندر متعدد تاریخی عمارات، پرانی گلیاں اور لنڈا بازار موجود ہیں، تاریخی وزیر خان مسجد بھی اسی دروازے کے اندر موجود ہے۔ یہاں موجود پرانی حویلیاں دیکھنے والوں کو حیران کر دیتی ہیں جبکہ یہاں ایک اہم ہندو یادگار شوالہ بابا بخار گرو بھی موجود ہے۔
اکبری دروازہ
شہر کی دیوار کی مشرقی سمت میں واقع اکبر دروازے کا نام مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے نام پر رکھا گیا۔ اگرچہ برطانوی عہد میں اس کی دوبارہ تعمیر نو کی گئی تاہم وقت گزرنے کے ساتھ یہ اب صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہے۔ یہاں لاہور کی سب سے بڑی ہول سیل اور ریٹیل مارکیٹ اکبری منڈی واقع ہے جہاں ہر قسم کے اجناس کی تجارت ہوتی ہے۔
بھاٹی دروازہ
کہا جاتا ہے کہ جب محمود غزنوی نے راجہ جے پال کو شکست دی تو یہاں موجود دروازے کو راجپوت قبیلے بھاٹ یا بھٹی کا نام دیا گیا، جسے مغل بادشاہ اکبر نے اپنے عہد میں دوبارہ تعمیر کرایا۔ یہ شہر کی دیوار کے مغربی سمت میں واقع ہے اور یہ اپنے مخصوص لوہاری کھانوں کی بناء پر جانا جاتا ہے اور یہاں چوبیس گھنٹے چٹ پٹے کھانوں کے شوقین افراد کی بھر مار رہتی ہے۔
بھاٹی گیٹ کے قریب ہی ایک میوزیم واقع ہے جہاں ہندوستان کی مختلف بادشاہتوں کے عہد کی یادگاریں رکھی گئی ہیں جبکہ بازار حکیماں جیسی تاریخی مارکیٹ بھی اس دروازے کے ساتھ موجود ہے جس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ بازار حکیموں کے لیے مخصوص ہے۔
مگر اس دروازے کی ایک خاص اہمیت یہاں شاعر مشرق علامہ اقبال کی دوران گریجویشن رہائش ہے، بازار حکیماں میں جس چھوٹی سی جگہ پر بیٹھ کر علامہ اقبال اپنی پڑھائی اور ساتھیوں سے ملاقاتیں کرتے تھے وہ بدستور موجود ہے۔ یہ دروازہ پہلوانوں کی وجہ سے بھی معروف ہے جنھوں نے یہاں سے نکل کر برصغیر میں کافی دھوم مچائی۔
مستی گیٹ
شاہی قلعے کی پشت میں واقع مستی گیٹ کا اصل نام مسجدی دروازہ تھا، جو بگڑ کر مستی ہوگیا۔ بادشاہ اکبر کی والدہ مریم میخانی کے نام سے منسوب مسجد اس دروازے میں واقع ہے تاہم کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ اس گیٹ کا نام یہاں متعین ایک محافظ مستی بلوچ کے نام پر رکھا گیا۔ لوہاری اور بھاٹی کی طرح یہ علاقہ بھی اپنے بہترین کھانوں اور دودھ کی دکانوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے، خاص طور پر ربڑی والا دودھ اور قلفی تو سیاحوں کی جان سمجھا جاتا ہے جن کی دکانوں پر چوبیس گھنٹے رش رہتا ہے۔
زکی یا یکی دروازہ
مشرقی سمت میں واقع ذکی دروازہ کا نام ایک شہید صوفی زکی کے نام پر رکھا گیا۔ تاریخ میں رقم ہے کہ اس صوفی بزرگ نے شمال سے آنے والے تاتاری حملہ آوروں کا بہت بہادری سے مقابلہ کیا تھا جس کے دوران اس کا سر کاٹ لیا گیا اور ان کا مزار اسی دروازے کے قریب موجود ہے۔ اس دروازے کے ارگرد متعدد حویلیاں اور مندر موجود ہیں جہاں اکثر سیاحوں کا رش رہتا ہے۔
ٹکسالی گیٹ
ٹکسالی گیٹ کا نام یہاں سکے ڈھالنے کے لیے موجود ٹکسال کی وجہ سے پڑا، تاہم آج یہ ٹکسال اور دروازہ دونوں ہی منہدم ہوچکے ہیں۔ مگر ابھی بھی یہ جگہ کھانے پینے کے شوقین لاہوریوں کے لیے پسندید مقام ہے جہاں پھجے کے پائے اور کچھ حلوہ پوری کی مشہور دکانیں موجود ہیں۔ یہاں بیشتر افراد شیخو پڑیاں بازار جانے کے لیے آتے ہیں جو کھسہ اور پشاوری چپلوں کا معروف بازار ہے۔ اسی طرح پانی والا تالاب اور گوردوارہ لال کھوہ بھی اسی دروازے کے قریب واقع ہیں۔
روشنائی دروازہ
جنوبی سمت میں واقع یہ دروازہ شاہی قلعے اور بادشاہی مسجد کے درمیان واقع ہے۔ یہ دروازہ دوسرے مغلیہ دور میں تعمیر شدہ دروازوں سے اونچا اور چوڑا ہے۔ عالمگیری دروازے کے بعد مغلیہ فوج میں شامل ہاتھیوں کا دستہ اسی دروازے سے شہر میں داخل ہوا کرتا تھا۔ اسی دروازے سے ملحق مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد میں حضوری باغ افغانستان کے شاہ شجاع سے مشہور کوہ نور ہیرا چھیننے کی خوشی میں تعمیر کیا گیا تھا۔
شام کے وقت اس دروازے کو روشن کیا جاتا تھا جس کی وجہ سے ہی اسے روشنائی دروازے کا نام دیا گیا۔ شاعر مشرق علاقہ اقبال اور رنجیت سنگھ کی سمادھی بھی اس دروازے کے سامنے حضوری باغ میں موجود ہے اور اس سے ملحق ہی بدنام زمانہ شاہی محلہ بھی موجود ہے۔
خضری یا شیرانوالہ دروازہ
اسے پہلے خضری دروازے کا نام دیا گیا جس کی وجہ معروف بزرگ حضرت خواجہ خضر الیاس تھا جنھیں امیر البحر کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آبِ حیات دریافت کرنے میں کامایب رہے تھے تاہم مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد میں اس کا نام تبدیل ہوگیا اور یہ شیرانوالہ دروازہ معروف ہوگیا۔
اس دروازے کے اندر روایتی پرانی لاہوری طرز زندگی کا نظارہ کیا جاسکتا ہے اور یہاں کے تنگ بازار میں تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں ہوتی۔ اس دروازے کی موجودہ حالت انتہائی خستہ ہے اور اس کا پلستر اور رنگ مکمل طور پر غائب ہو چکا ہے، بل بورڈز اور اشتہاری بینرز کی مہربانی سے جگہ جگہ دراڑیں پڑ چکی ہیں جس کی وجہ سے ڈر ہے کہ کہیں یہ تاریخی ورثہ بھی منہدم نہ ہو جائے۔
سعدیہ امین اور فیصل ظفر
The Gates of Lahore City
0 notes
historicallahore · 8 years
Text
قلعہ لاہور میں موتی مسجد آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے
مشہور انجینئر مامور خان نے جہانگیر کے محل کے بیرونی دروازہ کے پاس یعنی مکتب خانہ سے ملحقہ یہ خوبصور ت مسجد تعمیر کروائی تھی ۔ لاہور میں تعمیر کی جانیوالی اس مسجد کے گول موتی نما گیند کی مناسبت سے اس کو’’ موتی مسجد ‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ مسجد کے بارے میں جہانگیری اور شاہ جہانی عہد کے مورخین نے کچھ نہیں لکھا۔ بعض مورخین اسے شاہجہان کے دور سے شمار کرتے ہیں۔ سکھ دور میں اس کو بطور شاہی خزانہ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اس مقصد کے لئے مسجد کا مرکزی دروازہ مضبوط آہنی تختوں سے بند کر کے بڑے بڑے قفلوں سے بند کردیا گیا تھا اور باقی محراب نما دروازوں میں اینٹ کی دیواریں کھڑی کردی گئی تھیں ۔ مسجد کے کھلے دالان کے سامنے والے حصہ پر عارضی طور پر سایہ دار چھت تعمیر کر دی گئی تھی۔ 
7 فروری 1900ء کو وائسرائے ہند لارڈ کرزن نے ایشائی سوسائٹی آف بنگال کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا ’’جب میں گزشتہ سال اپریل میں لاہور تھا تو میں نے تین سو سال قبل تعمیر شدہ شہنشاہ جہانگیر کی انتہائی خوبصورت مسجد کو دیکھا جو سکھ دور حکومت کی طرح اس وقت بھی بطور شاہی خزانہ استعال ہو رہی تھی۔ اس چھوٹی سی مسجد کو سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنانے کے لئے ازسر نو تعمیر کرنے خواہش کا اظہار کیا تھا‘‘۔ لارڈ کرزن کے مطابق مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنے عہد حکومت میں انتہائی بے توجہی اور مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مسجد کے تقدس کو پامال کیا۔ لہذا لارڈ کرزن کے احکامات کے تحت اس مسجد کی ازسر نو تعمیر کاآغاز ہوا۔ 
(پاکستان کے آثار قدیم سے اقتباس )
0 notes
cosmicqbit · 5 years
Photo
Tumblr media
فرمانِ مصطفٰے ﷺ: جو حلال مال سے مسجد بنائے گا اللہ پاک اس کے لئے جنّت میں موتی اور یاقوت کا گھر بنائے گا۔ (معجم اوسط ،۴/۱۷،حدیث:۵۰۵۹) #Cosmicqbit #SaggeMadina #Muslim #MaslakeAalaHazrat #UbaideQadri
0 notes