#موتی مسجد
Explore tagged Tumblr posts
Text
اَج سک متراں دی ودھیری اے
کیوں دلڑی اداس گھنیری اے
لوں لوں وچ شوق چنگیری اے
اج نیناں لائیاں کیوں جھڑیاں
اَلْطَّیْفُ سَریٰ مِنْ طَلْعَتِہ
والشَّذُو بَدیٰ مِنْ وَفْرَتَہ
فَسَکَرْتُ ھُنَا مِنْ نَظْرَتِہ
نیناں دیاں فوجاں سر چڑھیاں
مکھ چند بدر شعشانی اے
متھے چمکے لاٹ نورانی اے
کالی زلف تے اکھ مستانی اے
مخمور اکھیں ہن مدھ بھریاں
دو ابرو قوس مثال دسن
جیں توں نوک مژہ دے تیر چھٹن
لباں سرخ آکھاں کہ لعل یمن
چٹے دند موتی دیاں ہن لڑیاں
اس صورت نوں میں جان آکھاں
جانان کہ جانِ جہان آکھاں
سچ آکھاں تے رب دی شان آکھاں
جس شان تو شاناں سب بنیاں
ایہہ صورت ہے بے صورت تھیں
بے صورت ظاہر صورت تھیں
بے رنگ دسے اس مورت تھیں
وچ وحدت پھٹیاں جد گھڑیاں
دسے صورت راہ بے صورت دا
توبہ راہ کی عین حقیقت دا
پر کم نہیں بے سوجھت دا
کوئی ورلیاں موتی لے تریاں
ایہا صورت شالا پیش نظر
رہے وقت نزع تے روزِ حشر
وچ قبر تے پل تھیں جد ہوسی گذر
سب کھوٹیاں تھیسن تد کھریاں
یُعْطِیُکَ رَبُّکَ داس تساں
فَتَرْضیٰ تھیں پوری آس اساں
لج پال کریسی پاس اساں
والشْفَعْ تُشَفَّعْ صحیح پڑھیاں
لاہو مکھ تو بردِ یمن
منبھانوری جھلک دکھلاؤ سجن
اوہا مٹھیاں گالیں الاؤ مٹھن
جو حمرا وادی سن کریاں
حجرے توں مسجد آؤ ڈھولن
نوری جھات دے کارن سارے سکن
دو جگ اکھیاں راہ دا فرش کرن
سب انس و ملک حوراں پریاں
انہاں سکدیاں تے کرلاندیاں تے
لکھ واری صدقے جاندیاں تے
انہاں بردیاں مفت وکاندیاں تے
شالا آون وت بھی اوہ گھڑیاں
سُبْحَانَ اللہ مَا اجْمَلَکَ
مَا اَحْسَنَکَ مَا اَکمَلَکَ
کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا
گستاخ اکھیں کتھے جا اڑیاں
0 notes
Text
فتنہ حکیم طارق محمود چغتائی
فتنہ حکیم طارق محمود چغتائی مولف مولانا دوست محمد قندہاری نقشبندی
Fitna Hakeem Tariq Mehmood Chugtai
آن لائن پڑھیں
فتنہ حکیم طارق محمود چغتائی مولف مولانا دوست محمد قندہاری نقشبندی Fitna Hakeem Tariq Mehmood Chugtai
ڈاون لوڈ کریں
View On WordPress
#Fitna Hakeem Tariq Mehmood Chugtai#جنات کا پیدائشی دوست#عبقری#علامہ لاہوتی#فتنہ حکیم طارق محمود چغتائی#موتی مسجد#مولانا دوست محمد قندہاری نقشبندی
0 notes
Text
مغل فن تعمیر
مغل خاندان نے برصغیر پاک و ہند کو فن تعمیر کے جو نوادرات دیے ہیں اس کی مثال شاید دنیا میں کہیں اور نہ ملے۔ انہوں نے برصغیر، ترک، ایرانی اور مختلف علاقوں کے فن تعمیر کے امتزاج سے انتہائی حسین عمارتیں تعمیر کیں۔ ہمایوں کا مقبرہ سولہویں صدی میں تعمیر ہوا۔ اسی سے مغل فن تعمیر کی باقاعدہ ابتدا ہوتی ہے۔ یہ سرخ پتھر اور سنگ مرمر سے بنا ہے لی��ن اس پر ایرانی فن تعمیر غالب ہے۔ آگرہ کا لال قلعہ اور فتح پور سیکری شہنشاہ اکبر کے ذوق تعمیر کے نمونے ہیں۔ لال قلعہ کے اندر محلات کا سلسلہ ہے۔ ایک نہایت حسین مسجد بھی ہے اور ان سب کے اطراف سرخ پتھر کی بنی ایک بہت اونچی فصیل ہے جس کے اطراف میں خندق ہے۔ قلعے کے اندر جانے کے لیے بہت بڑے بڑے پھاٹک بنے ہیں۔ اس کے اندر کی عمارتوں میں جہانگیر اور پھر شاہجہان نے اضافے کیے۔
شہنشاہ اکبر کے ذوق تعمیر کا مکمل نمونہ فتح پور سیکری ہے جسے وہ اپنا پایۂ تخت بنانا چاہتا تھا لیکن پانی نہ ہونے کی وجہ سے اسے بن بسائے چھوڑنا پڑا۔ اس میں ایک عظیم جامع مسجد ہے جس کے داخلے پر بلند دروازہ ہے جو اپنی بلندی اور شوکت میں جواب نہیں رکھتا۔ یہ عمارت مغل دور کی اعلیٰ ترین عمارتوں میں سے ہے۔ اس کے اندر سب سے خوبصورت محل جودھا بائی کا ہے جس پر برصغیر کے روایتی فن تعمیر کی گہری چھاپ ہے۔ ویسے پنچ محل، دیوان عام، دیوان خاص سب ہی برصغیر، ترک و ایرانی فن تعمیر کے امتزاج کے اعلیٰ نمونے ہیں۔ ان سب عمارتوں میں کمانیں بہت کم استعمال ہوئیں۔ جہانگیر نے اکبر کا مقبرہ 1613ء میں سکندرہ میں تعمیر کروایا۔ یہ نہایت عالی شان اور نئے ڈیزائن کا ہے۔ جہانگیر کے زمانے میں عمارتیں زیادہ نہیں بنیں۔ کچھ لاہور میں ہیں۔ ایک نادر عمارت اس کے خسر اعتماد الدولہ کا آگرہ میں مقبرہ ہے۔ یہ چھوٹا سا مقبرہ اپنے حسن اور نزاکت میں جواب نہیں رکھتا۔
مغل شہنشاہوں میں تعمیری ذوق میں شاہجہاں کو کوئی اور نہ پہنچ سکا۔ دلی کا لال قلعہ اسی کا بنوایا ہوا ہے، جس میں شاندار دیوان عام بھی ہے۔ اس کی چھت سپاٹ ہے اور نوکدار کمانوں پر کھڑی ہے۔ اس کے علاوہ دیوان خاص اور دوسری عمارتوں میں منبت کاری کا خوبصورت کام ہے۔ دلی کی جامع مسجد بھی اسی کی بنوائی ہوئی ہے جس کا شمار برصغیر کی خوبصورت ترین مساجد میں ہوتا ہے۔ دیگر عمارتوں میں سب سے خوبصورت تاج محل خیال کیا جاتا ہے جو اس نے اپنی ملکہ ممتاز محل کے لیے بنوایا تھا۔ یہ عمارت دنیا کی حسین ترین عمارتوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ عمارت اتنی عظیم ہونے کے باوجود نہایت متناسب اور خوبصورت ہے۔ پورا مقبرہ ایک اونچے چبوترے پر سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے اور اوپر بہت بڑا گنبد ہے۔ چاروں کونوں پر چار مینار ہیں۔
مقبرے کے اندر ممتاز محل کے برابر شاہجہان بھی دفن ہیں اور قبروں کی چاروں طرف انتہائی نازک سنگ مر مر کی جالی ہے۔ مقبرے پر جگہ جگہ قرآن مجید کی آیتیں بڑی خوبصورتی سے پتھروں پر لکھی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ رنگ برنگ کے پتھروں اور سنگ مرمر کے نہایت خوبصورت گل بوٹے اور شکلیں بنائی گئی ہیں۔ خوبصورت باغ اور فوارے ہیں۔ پوری عمارت بنیادی طور پر ایرانی رنگ کی ہے لیکن اس کے اندر برصغیر کے فن تعمیر کو نہایت خوبصورتی سے سمویا گیا ہے۔ خاص طور پر چھجوں اور برجوں کے ڈیزائن اور منبت کاری وغیرہ۔ اس کے علاوہ شاہجہان کے دور حکومت میں دو اور خوبصورت مسجدیں موتی مسجد اور جامع مسجد آگرہ بھی تعمیر ہوئیں۔ شاہجہاں کا دور حکمرانی فن تعمیر کے لحاظ سے مغلیہ دور کا عہد زریں تھا۔ اورنگ زیب کے دور میں اورنگ آباد میں مقبرہ رابعہ الدورانی، لاہور کی بادشاہی مسجد اور لال قلعہ دلی کی موتی مسجد تعمیر ہوئی۔ مغلیہ دور کی آخری اہم عمارت دلی میں صفدر جنگ کا مقبرہ ہے۔
وردہ بلوچ
1 note
·
View note
Photo
ایسے عوامی باغوں میں نماز ادا کرنے کا کیا حکم ہے جنہیں بدبودار پانی سے سیراب کیا جاتا ہے؟ سوال:… عوامی باغوں میں نماز کا کیا حکم ہے۔ جن کے متعلق یہ معلوم ہے کہ انہیں ایسے پانی سے سیراب کیا جاتا ہے جس میں بدبوپیدا ہو چکی ہوتی ہے۔ میں یہ سمجھتا رہا کہ یہ پانی صاف کیا ہوا ہوتا ہے اور جاری چشمہ وغیرہ سے آتا ہے یا ایسے کنوؤں سے جن تک گندے کنوؤں کا پانی لایا جتا ہے۔ کیا ایسے باغوں میں نماز ادا کرنے سے لوگوں کو محکمہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی طرف سے روکا جائے۔ میں توقع رکھتا ہوں کہ آپ اس مسئلہ میں درست بات کی وضاحت فرمائیں گے۔ سعد۔ ع۔ ا۔ الریاض جواب:... جب پانی میں بدبو پیدا ہو جائے تو ایسے باغ میں نماز درست نہیں کیونکہ نماز کی صحت کی شرائط میں سے ایک شرط اس جگہ کی طہارت بھی ہے جہاں مسلم نماز ادا کرتا ہے اور اگر اس پر کوئی پاک موتی چیز بطور پردہ ہو جائے۔ تو نماز درست ہوگی۔ اور مسلم کے لیے جائز نہیں کہ وہ ان باغوں میں نماز ادا کرے۔ بلکہ اس پر واجب یہ ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ اللہ کے گھروں یعنی مساجد میں جا کر نماز ادا کرے۔ جن کے متعلق اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿فِیْ بُیُوتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہُ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ، رِجَالٌ لَا تُلْہِیہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَاِِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِِیتَائِ الزَّکَٰوۃِ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ، لِیَجْزِیَہُمْ اللّٰہُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَیَزِیْدَہُمْ مِّنْ فَضْلِ��ٖ وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍ،﴾ (النور: ۳۶۔۳۸) ’’ان گھروں میں جن کے متعلق اللہ نے حکم دیا ہے کہ بلند (تعمیر) کیے جائیں اور وہاں اللہ کے نام کا ذکر کیا جائے۔ ان میں صبح وشام اللہ کی تسبیح کرتے رہیں۔ یہ لوگ ہیں جنہیں اللہ کے ذکر، نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے سے نہ تجارت غافل کرتی ہے اور نہ لین دین۔ وہ اس دن سے خائف رہتے ہیں جب دل (خوف اور گھبراہٹ سے) الٹ جائیں گے اور آنکھیں اوپر چڑھ جائیں گی۔ تاکہ اللہ انہیں ان کے عملوں کا بہت اچھا بدلہ دے اور اپنے فضل سے زیادہ بھی عطا کرے اور اللہ جسے چاہتا ہے بلا حساب رزق دیتا ہے۔‘‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ سمعَ النِّدائَ فلمْ یاتِ؛ فلا صلاۃَ لہ اِلاَّ مِنْ عُذر)) ’’جس نے اذان کی آواز سنی، پھر مسجد نہ آیا، اس کی نماز ادا نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ کوئی شرعی عذر ہو۔‘‘ اس حدیث کو ابن ماجہ، دارقطنی، ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا اور اس کی اسناد مسلم کی شرط پر ہیں۔ ایک اندھے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! مجھے کوئی شخص مسجد تک لانے والا نہیں۔ کیا میرے لیے اپنے گھر میں نماز ادا کر لینے کی رخصت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ((ہل تسمعُ النِّداء بالصَّلاۃ؟ قالَ: نعَمْ قالَ: فأجِب)) ’’کیا نماز کی اذان سنتے ہو؟ اس نے کہا ’’ہاں‘‘ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم)نے فرمایا تو پھر مسجد میں آؤ۔‘‘ اسے مسلم نے روایت کیا اور اس معنی میں احادیث بہت ہیں۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے محکمہ پر واجب ہے کہ وہ ایسے باغوں میں لوگوں کو نماز ادا کرنے سے روکے اور اللہ عزوجل کے اس قول کے مطابق لوگوں کو مساجد میں نماز ادا کرنے کا حکم دیں۔ ﴿وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی﴾ (المائدۃ: ۲) ’’نیکی کے کاموں اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ﴾ (التوبۃ: ۷۱) ’’مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں جو بھلے کاموں کا حکم دیتے اور برے کاموں سے روکتے ہیں۔‘‘ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ رَّاٰی مِنْکُمْ مُّنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ فَإِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذٰلِکَ أَضْعَفُ الْاِیمَانِ)) ’’تم میں سے اگر کوئی بری بات دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے اور اگر ایسا نہیں کر سکتا تو زبان سے بدلنے کی کوشش کرے اور اگر یہ بھی نہیں کر سکتا تو دل سے (برا جانے) اور یہ ایمان کا کمزور تر درجہ ہے۔‘‘ (اسے مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا)۔ میں نماز میں حرکتیں زیادہ کرتا ہوں جبکہ میں نے سنا ہے کہ حرکت نماز کو باطل کر دیتی ہے۔ تو اب میں کیا کروں؟ سوال:… میری مشکل یہ ہے کہ میں نماز میں زیادہ حرکتیں کرتا ہوں۔ جبکہ میں نے اس معنی میں ایک حدیث سنی ہے کہ نماز میں تین سے زیادہ حرکات نماز کو باطل کر دیتی ہیں… اس حدیث کی صحت کا درجہ کیا ہے؟ اور میں نماز میں کس طرح ان فضول حرکتوں سے نجات حاصل کروں؟ عادل ۔ م۔ا جواب:… مومن کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ اپنی نماز کے سلسلے میں مستعد رہے اور نماز میں ڈرنے کے اثرات اس کے دل اور بدن میں ظاہر ہوں۔ خواہ یہ فرض نماز ہو یا نفل ہوں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ، الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُوْنَ،﴾ (المومنون:۱۔۲) ’’وہ مومن فلاں پا گئے جو اپنی نماز میں ڈرنے والے ہیں۔‘‘ اس پر لازم ہے کہ نماز اطمینان کے ساتھ ادا کرے اور یہ بات نماز کے ارکان وفرائض میں سے ہے کیونکہ جس شخص نے نماز کو بگاڑ کر ادا کیا اور اطمینان حاصل نہ کیا اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ارجِعْ فصلِّ، فاِنَّک لمْ تصل)) ’’واپس لوٹ آؤ اور نماز ادا کرو۔ کیونکہ تم نے نماز ادا نہیں کی۔‘‘ تین بار اس نے آپ کے یہی بات کہنے پر نماز پڑھی۔ پھر کہنے لگا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا، میں اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا۔ لہٰذا مجھے سکھلا دیجئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ((إِذَا قُمْتَ إِلَی الصَّلٰوۃِ فَکَبِّرْ ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَیَسَّرَ مَعَکَ مِنَ الْقُرْآنِ ثُمَّ ارْکَعْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ رَاکِعًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَعْتَدِلَ قَآئِمًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ جَالِسًا ثُمَّ افْعَلْ ذٰلِکَ فِی صَلٰوتِکَ کُلِّہَا)) ’’جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اچھی طرح اور پوری طرح وضو کرو پھر قبلہ رخ ہو جاؤ، پھر تکبیر کہو پھر جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکو، پڑھو۔ پھر ایسے رکوع کرو کہ تمہیں اپنے رکوع پر اطمینان ہو۔ پھر سر اٹھاؤ اور پوری طرح سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔ پھر ایسے سجدہ کرو کہ تمہیں اپنے سجدہ پر اطمینان ہو پھر سجدہ سے اٹھو اور اطمینان سے بیٹھ جاؤ۔ پھر سجدہ کرو جس پر تم مطمئن ہو جاؤ۔ پھر اپنی پوری نماز میں ایسا ہی کرو۔‘‘ اس حدیث کی صحت پر شیخین کا اتفاق ہے اور ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’پھر ام القرآن (سورۂ فاتحہ) پڑھو اور مزید جو اللہ چاہے۔‘‘ یہ حدیث صحیح ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اطمینان حاصل کرنا نماز کا رکن اور اس کا بہت بڑا فرض ہے جس کے بغیر نماز درست نہیں ہوتی اور جو شخص ٹھونگیں مارے (جلدی جلدی نمازپڑھے) اس کی نماز نہیں ہوتی اور خشوع نماز کا خلاصہ اور اس کی روح ہے۔ لہٰذا مومن کے لیے مشروع یہ ہے کہ وہ اس کا اہتمام کرے اور اس پر حریص ہو۔ رہی اطمینان اور خشوع کے منافی تین حرکات کی حد بندی کی بات، تو یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہیں۔ یہ صرف کسی عالم کا کلام ہے جس کے لیے کوئی ایسی دلیل نہیں جس پر اعتماد کیا جا سکے۔ ��اہم نماز میں فضول حرکتیں کرنا مکروہ ہے۔ جیسے ناک، داڑھی اور کپڑوں کو حرکت دینا اور ان کاموں میں لگے رہنا اور جب ایسی فضول حرکات زیادہ اور متواتر ہوں تو نماز کو باطل کر دیتی ہیں… لیکن اگر حرکات تھوڑی اور معمولی سی ہوں یا اگر زیادہ ہوں اور متواتر نہ ہوں تو ان سے نماز باطل نہیں ہوتی۔ لیکن مومن کے لیے مشروع یہی ہے کہ وہ خشوع پر محافظت کرے اور نماز کو اچھی طرح مکمل کرنے کی حرص رکھتے ہوئے فضول حرکات چھوڑ دے، خواہ وہ کم ہوں یا زیادہ۔ اور اس بات پر دلائل موجود ہیں کہ نماز میں تھوڑا عمل یا تھوڑی حرکات سے نماز باطل نہیں ہوتی اسی طرح متفرق اور کبھی کبھار کی حرکات سے بھی نماز باطل نہیں ہوتی۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔‘‘(امام تھے) اور اپنی بیٹی زینب کی بیٹی امامہ کو اٹھائے ہوئے تھے۔ جب آپ سجدہ کرتے تو اسے نیچے بٹھا دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اسے اٹھا لیتے‘‘… اور توفیق دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ نماز کو باطل کرنے والی باتیں فتاوی ابن باز ( ج ۱ ص ۹۲، ۹۳، ۹۴، ۹۵ ) #B100060 ID: B100060
0 notes
Text
کیا تاریخی موتی مسجد پر نیک سیرت جنوں کا قبضہ ہے؟
کیا تاریخی موتی مسجد پر نیک سیرت جنوں کا قبضہ ہے؟
لاہور کی تاریخی موتی مسجد سے موتی مندر بننے والی شاہی قلعے کی مسجد آج پہلے سے کہیں زیادہ آباد ہے جس کی بڑی وجہ لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ یہاں نیک سیرت جنات مقیم ہیں جو اللہ کے حکم سے یہاں آنے والوں کے مسائل حل کرتے ہیں۔ اس حوالے سے لوگ بہت سے حیرت انگیز واقعات بھی بیان کرتے ہیں۔ بعض لوگ ان جنوں کو دیکھنے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ یہاں آکر منتیں مرادیں مانگتے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ یہاں ان…
View On WordPress
0 notes
Text
آج 3دسمبر پنجابی زبان کے عوامی شاعراستاد دامن کی برسی ہے.
استاد دامن کااصل نام چراغ دین تھا۔آپ یکم جنوری 1910کو
چوک متی لاہورمیں پیداہوئے۔والدمیراں بخش درزی تھے۔گھریلوحالات کے پیش نظر
استاددامن نےبھی تعلیم کے ساتھ ٹیلرنگ کاکام شروع کر دیا۔انہوں نےساندہ کےدی�� سماج سکول سے میٹرک کاامتحان پاس کیا۔
شعر گوئی کی ابتدا بڑے بھائی کی وفات پر مرثیےسےکی۔مگر باقاعدہ شاعری کاآغاز میٹرک کے بعدکیا۔پہلےہمدم تخلص کرتے
تھےلیکن پھر دامن اختیارکیا۔ جلدہی انکی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوتاگیااورانہوں نےسیاسی جلسوں میں بھی نظمیں پڑھنے کا آغازکیا۔حصولِ آزادی کی
جدوجہدمیں وہ نشنل۔کانگریس کے فعال کارکن تھے۔1947 کے فسادات میں استاد دامن کی بیوی اور ان کا بچہ ان سے بچھڑ گیا۔ کچھ دنوں بعد وہ ملے،مگر زیادہ دن زندہ نہ رہ سکے اور استاد دامن کو ہمیشہ کے لئے تنہا چھوڑ گئے۔ اس واقعہ نے استاد دامن کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا اور پھر اس کے بعد استاد دامن نےدوبارہ شادی نہیں کی اور ساری عمرتنہازندگی گزار دی۔انہوں نے ٹکسالی دروازے کی مسجد کے ایک حجرے کو اپنا مسکن بنالیا۔استاد دامن نے مزدوروں ،کسانوں، غریبوں اور مزدوروں کی حمایت اور حقوق کیلئے آواز اٹھائی اور ہمیشہ استحصالی طبقات کی مذمت کرتے رہے ۔استاد دامن نے عوامی اجتماعات میں اپنے کلام کے ذریعےاستحصالی قوتوں کو
بےنقاب کیا۔انہوں نےپنجابی زبان و ادب کےفروغ کیلئےگراں قدر
خدمات سرانجام دیں.۔استاددامن کی سب سےبڑی خوبی انکی فی البدیہہ گوئی تھی۔آزادی کےکچھ عرصہ بعدانہوں نےدلی میں منعقدہ مشاعرےمیں اپنی یہ فی۔البدیہہ نظم پڑھی۔
جاگن والیاں رج کے لٹیا اے
سوئےتسی وی او،سوئےاسیں وی آں
لالی اکھیاں دی پئی دسدی اے
روئےتسی وی او،روئے اسیں وی آں
حاضرین مشاعرہ بےاختیار رونے لگے۔مشاعرےمیں پنڈت جواہرلعل نہرو(وزیراعظم بھارت)بھی موجودتھے۔انہوں نےاستاددامن سےاس خواہش کااظہارکیاکہ وہ مستقل طورپربھارت میں سکونت اختیارکرلیں۔
لیکن استاددامن نےجواب دیا۔ ’’میں پاکستان وچ رہواں گا بھاویں جیل وچ رہواں‘‘۔استاد دامن کو لاہور سے بہت محبت تھی۔انہوں نے ’’شہر لاہور‘‘ نظم لکھی۔ اس نظم کے دو شعر دیکھیے۔
ہور شہر کیہ تیرے اگے
تیرے وچ اک دیوا جگے
مہر جتھے ولیاں نوں لگے
کہن تینوں داتا دی نگری
قیام پاکستان کےبعد کچھ شرپسندوں نےانکی ذاتی لائبریری اوردکان کوآگ لگادی تو انکی ذاتی تحریریں،ہیرکامسودہ جسےوہ مکمل کررہےتھےاور دوسری کتابیں جل کرراکھ ہو گئیں ۔۔انہوں نےدل برداشتہ ہوکر اپنا کلام کاغذپر محفوظ کرنا چھوڑدیااورصرف اپنےحافظےپر بھرودہ کرنے لگے۔اس وجہ۔سے ان کا کافی کلام ضائع ہوگیا لیکن ان کی یاد میں قائم ہو نے والی استاد دامن اکیڈمی کے عہدداروں نے بڑی محبت وکاوش سے ان کے مختلف ذہنوں میں محفوظ اور ادھر ادھر بکھر ے ہو ئے کلام کو یکجا کر کے’’ دامن دے موتی‘‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کرائی ۔استاد دامن پنجابی اوراردو کے علاوہ سنسکرت گرمکھی، عربی، فارسی، روسی، انگریزی اور ہندی زبانوں سے بھی آگاہ تھے،لیکن انہوں نےوسیلہ اظہاراپنی ماں بولی پنجابی ہی کوبنایا۔استاد دامن بلھےشاہ اکیڈمی کےسرپرست،مجلس شاہ حسین کےسرپرست اورریڈیو پاکستان شعبہ پنجابی کےمشیر بھی تھے۔ان مختلف حیثیتوں میں انھوں نےپنجابی زبان وادب کی ناقابل فراموش خدمات سرانجام دیں۔استاد دامن جالب اورفیض احمدفیض سےبہت محبت کرتےتھے۔80 کی دہائی میں منہ بولےبیٹےفلم سٹارعلاؤالدین کےانتقال کےبعداستاددامن غمزدہ رہنےلگے۔پھرتھوڑےہی عرصے
کےبعدفیض صاحب بھی خالق حقیقی سےجاملے۔استاد دامن سے محبت کرنےوالوں کے روکنے کے باوجود آپ فیض صاحب کےجنازےپر پہنچے۔لوگوں نے استاد کو پہلی بار دھاڑیں مار تے ہوئےدیکھا۔فیض کےانتقال کے صرف تیرہ دن بعد ہی 3 دسمبر 1984کواستاد دامن بھی اپنے چاہنےوالوں سے ہمیشہ کےلئیے رخصت ہوگئےاستاد دامن کی آخری آرام گاہ شاہ حسین کے مزار کے سامنے قبرستان میں ہے۔مزار کے کتنبے پر
یہ اشعار تحریر ہیں۔
ماری سرسری نظر جہان اندر
تے زندگی ورق اُتھلیا میں
دامن ملیا نہ کوئی رفیق مینوں
ماری کفن دی بُکل تے چلیا میں
2 notes
·
View notes
Text
استاد دامن کا ایک چاہنے والا اُن کے لیے دیسی گھی میں پکے دو پراٹھے لے کر آیا۔ استاد دامن نے پراٹھے ایک طرف رکھے اور اُٹھہ کر ایک بڑا سا پیالہ لیا جس میں چینی ڈالی۔ ایک پراٹھے کو توڑا اور پیالے میں ڈھیر ساری چُوری بنا لی۔ پھر اُٹھے اور کمرے کے چاروں کونوں میں وہ چُوری زمین پر ڈال دی اور واپس آ کر مہمان کو کہا کہ لو ایک پراٹھا مل کر کھائیں۔
مہمان پریشانی سے زمین پر گری چُوری پر نظریں مرکوز کیے تھا کہ اچانک بہت سے بڑے بڑے چوہے کونوں کھدروں سے نکلے اور تیزی سے چوری کھانے لگے۔ مہمان نے حیران ہو کر پوچھا کہ استادِ محترم یہ کیا؟
ہنس کر جواب دیا چُوری ہے اور چوہے کھا رہے ہیں۔ اس میں حیرانی کی کیا بات ہے۔ میرے کمرے کے چاروں طرف دیکھو۔ میری ساری عمر کی کمائی۔ میرا خزانہ میری کتابیں تمہیں ہر طرف نظر آئیں گی۔ چوہے خوش ذائقہ چوری کے عادی ہیں۔ ان کو اب کتابوں کے کاغذوں کا بے مزہ ذائقہ اچھا نہیں لگتا۔ اس لیے چوہوں کو چوری کھلانے کا فائدہ یہ ہے کہ میری کتابیں محفوظ ہیں۔میرا خزانہ محفوظ ہے۔ تم بھی اگر اپنے کسی بھی خزانے کو محفوظ رکھنا چاہتے ہو تو یاد رکھو اردگرد چوہوں کا خیال رہو۔ انہیں چوری ڈالتے رہو۔ سدا سکھی رہو گے۔
پھر کچھہ دیر خاموشی کے بعد استاد نے مہمان سے مخاطب ہو کر کہا ۔
زندگی بھر ایک بات یاد رکھنا ، رب العزت زندگی میں جب بھی کبھی تمہیں کچھ دے۔ اُس میں سے کچھ حصہ اپنے اردگرد موجود چوہوں کو ضرور بانٹ دیا کرو ۔ کیونکہ چوہوں کی ہر اُس چیز پر نظر ہوتی ہے جو تمہارے پاس آتی ہے۔ یہ چوہے کوئی اور نہیں تمہارے قریبی عزیز اور دوست ہیں۔ ان کا خیال رکھنا تمہارا اخلاقی اور مذہبی فریضہ بھی ہے۔
برادرم سرفراز سید کی ایک یاد:
کافی عرصہ پہلے میں ، سائیں اختر (’’ اللہ میاں تھلے آ ‘‘ نظم والے ) کے ساتھہ استاد دامن سے ملنے گیا۔ سائیں اختر نے انارکلی کی مشھور دکان سے آدھا کلو موتی چور لڈو خریدے۔
میں کہا ’’ سائیں جی،استاد جی کو تو شائد مٹھائی کھانے کی اجازت نہیں!‘‘
سائیں نے کہا ’’ وہاں جا کر دیکھہ لیں مٹھائی کا کیا بنتا ھے!‘‘
استاد دامن باد شاھی مسجد کے سامنے مشھور صوفی شاعر شاہ حسین والے حجرے میں رہتے تھے ۔ (یہاں فیض احمد فیض اور صوفی تبسم استاد جی کے ہاتھوں پکے ھوئے بٹیرے کھانے کے لئے آیا کرتے تھے).
ھم حجرے میں پہنچے۔استاد بہت محبت سے ملے۔ سائیں اختر سے کہا،
مہمانوں کا کھانا لائے ھو؟
سائیں نے لڈو پیش کئے۔ استاد اٹھے، لڈئوں کو توڑ کر دیواروں پر لگی پڑ چھتیوں ( شیلفیں) پر بیشمار پرانےاخبارت اور رسالوں کے ڈھیروں کے سامنے جگہ جگہ رکھہ دیا۔ اک دم پیچھے سے بہت سے چوھے نکل آئے اور لڈو کھانے لگے۔ دلچسپ منظر تھا۔
استاد بتانے لگے کہ پہلے جو بھی خوراک ڈالتا تھا وہ انہیں جلدی ہضم ھو جاتی تھی اور یہ کتابوں کو کترنے لگتے تھے۔ لڈو بہت دیر میں ہضم ھوتے ہیں، یہ اگلے روز شام تک چپ پڑے رھتے ھیں۔
میں نے کہا ’’ انہیں نکال کیوں نہیں دیتے؟ ‘‘
کہنے لگے، ’’سرفراز صاحب! یہ شاہ حسین کے مہمان ھیں، میں کیسے نکال دوں!‘‘
0 notes
Text
کہنے کو مسلماں میں بھی ہوں لیکن کہتےشرماتا ہوں.........
کہنے کو مسلماں میں بھی ہوں لیکن کہتےشرماتا ہوں
===============================
(اے ایمان لانے والوں !اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ- القرآن)
وہ جان حیات کون و مکاں ، وہ روح نجات انسانی
وہ جس کی بلندی کے آگے افلاک ہوئے پانی پانی
وہ فقر کا پیکر جس کے قدم چھوتا ہے شکوہ سلطانی
ان سے ہی مجھے نسبت ہے مگر کب ان کی حقیقت پہنچانی
احساس خطا کی پلکوں سے آنسو بن کر گر جاتا ہوں
کہنے کو مسلماں میں بھی ہوں لیکن کہتے شرماتا ہوں
آباد ہوئیں عشرت گاہیں ،ویران مسجد روتی ہیں
طاری ہے فضاء پر موسیقی، پامال اذانیں ہوتی ہیں
برباد خزاں ہے مستقبل ، ماضی کی بہاریں سوتی ہیں
پھولوں کے بجائے کانٹوں میں شبنم کے شکستہ موتی ہیں
یہ وقت عمل !!کردار ہے شل!!کیا دست دعا پھیلاتا ہوں
کہنے کو مسلماں میں بھی ہوں لیکن کہتےشرماتا ہوں
1 note
·
View note
Text
اللہ کا احسان ہمارے محافظ ہمارے قوام - شہلا خضر ناظم آباد
جنوری کی ایک یک بستہ صبح تھی۔ ہفتے کا روز تھا ۔ گزشتہ رات ہی سے گہر ے بادلوں نے آسمان کو گھیر رکھا تھا ۔ صبح فجر کے وقت ہلکی ہلکی پھوار نے یکدم خنکی میں مزید اضا فہ کر دیا تھا ۔ آج میرے چھوٹے بیٹے کے اسکول میں Parents & Teachers Meeting تھی ۔ چونکہ اسکول صدر کے مصروف کاروباری علاقے میں تھا اسی لئے ہم نے صبح سویرے ہی نکلنا مناسب سمجھا تاکہ ٹریفک کے اژدھام سے بچا جا سکے ۔ جلدی جلدی ناشتہ کیا بیٹے کو ساتھ لیا اسکول کی جانب روا نہ ہوئے ۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی مجھے احساس ہوا کہ اچانک سے ٹھنڈی ہوائیں بھی چلنا شروع ہو چکی تھیں لہٰذا میں نے اچھی طرح گرم شال کو اپنے چاروں طرف لپیٹا اور گاڑی کے شیشے اوپر چڑھا دیئے تا ��ہ ہوا کی ہلکی سی رمق مجھ تک نہ پہنچ پائے ۔ ابھی گلی سے نکل کر بڑی سڑک کی جانب بڑھے ہی تھے کہ سامنے کے ۔ ایم۔سی کے عملے کے افراد بڑی بڑی جھا ڑو لئے صفائی میں مصروف نظر آئے ۔ مجھے بہت حیرت ہوئی کیونکہ مین روڈ کے وسیع و عریض رقبے پر ہوائوں کی رفتار اور شدت بھی کافی زیادہ تیزی تھی اور وہ خاکروب معمولی گرم کپڑ وں کے سہارے اس قدر یخ بستہ ہوائوں میں مستعدی کے ساتھ اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے ۔ میرے شوہر صاحب میرے فکرمند چہرے کو دیکھ کر مسکرانے لگے وہ میری پریشانی کا سبب بھانپ گئے تھے کیونکہ وہ میری عادت سے اچھی طرح واقف تھے کہ کسی کو بھی پریشانی اور دقت میں دیکھ کر میں بے چین ہو جاتی ہوں ، انہوں نے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا کہ ارے بھئی یہ تو ان کا رو ز کا کام ہے ۔ یہ اس ڈیوٹی کے عادی ہیں ۔ آپ تو گھر سے اس وقت نہیں نکلتی اسی لئے حیران ہورہی ہیں میں تو روز انہیں ایسے ہی کام کرتے دیکھتا ہوں ۔ دل ہی دل میں میں ان کے لئے دعائیں کرنے لگی کہ اگر یہ خاکروب ہماری سڑکیں اور گلیاں صاف نہ کریں تو ہم بڑی پریشانی میں پڑ جائیں گے ۔ اب ہم گو لیمار چورنگی کی طرف رواں دواں تھے ۔ دھول اڑاتے خاکروب اب نظروں سے اوجھل ہوچکے تھے۔ قریبی پیٹرول پمپ پر ہم نے گاڑی رو کی تا کہ فیول بھروایا جا سکے ۔ غیر معمولی سردی کی وجہ سے پیٹرول پمپ بھی ویران پڑا تھا ۔ پیٹرول پمپ پر دو نو عمر دبلے پتلے لڑکے یونیفارم میں ملبوس کھڑے تھے ۔ انکی عمر 17 یا 18کے ہی لگ بھگ ہوگی ۔ راس عمر کے لڑکے اسکول کالج جاتے ہیں مگر لگتا ہے کہ حالات نے انہیں تعلیم کے زیور سے محروم کرکے پیٹرول پمپ کی ملازمت اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ میرے شوہر صاحب نے کھڑکی کا شیشہ کھولا اور فیول بھروانے کے لئے ہدایات دینے لگے ۔ شیشہ کھلتے ہی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا گاڑی کے اندر ��اخل ہو گیا ۔ پچھلی نشست پر بیٹھے میرے بیٹے نے شوہر مچادیا "پاپا جلدی سے شیشہ بند کریں مجھے سردی لگ رہی ہے " "پاپا جی" نے جلدی سے فیول کے پیسے لڑکے کے ہاتھ میں تھمائے اور شیشہ چڑھا لیا کہ مبادا ان نے لاڈلے بیٹے کو "فلو" نہ ہوجائے ۔ اتنے میں ایک اور گاڑی آگئی اور وہ لڑکے اس کی طرف متوجہ ہوگئے اور اپنی ڈیوٹی میں مصروف ہو گئے ۔ ہم بھی آگے روانہ ہوئے ۔ بے فکری کی عمر میں ان دونوں بچوں نے کس قدر حوصلے سے معاش کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھا رکھی تھی ۔ اللہ پاک نے انہیں کتنی ہمت اور صبر دے رکھا ہے ۔ میں انہیں سوچوں میں گم تھی کچھ ہی دیر میں ہم تیزی سے آگے بڑھ گئے اور کب آہستہ آہستہ دن کا اجالا بھی پھیل چکا تھامعمول کی زندگی رواں دواں تھی ۔ بہت سے موٹر سائکل سوار ٹفن باکس لٹکائے ہیلمٹ پہنے ہو ئے چیکٹس اور دستانے چڑھائے اپنے کام پر روانہ نظر آئے ۔ سڑک کے کناروں پر موجود فٹ پاتھوں پر بھی کچھ چہل پہل شروع ہو چکی تھی ۔ اب ہم گرومندر کے قریب پہنچ گئے ۔ سخت سردی کے باوجود بیکری اور "ملک شاپس " کھل چکی تھیں اور دکاندار حضرات اپنی اپنی دکانوں کی صفائی اور قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول نظر آئے ۔ نیو ٹا ئون اکی مسجد کے سامنے ٹھیلے والے بھائی اپنے پھلوں کو سجا نے اور ترتیب دینے میں مشغول تھے ۔ قریب ہی ایک چھوٹا سا ڈھابہ تھا جہاں پرگرم گرم چائے پرا ٹھہ بنانے والے باورچی بھائی بھی گاہکوں کے لئے ناشتہ بنانے کا انتظام کر رہے تھے اور میزیں کرسیاں لگانے والے لڑکے بھی معمول کے فرا ئض سر انجام دے رہے تھے۔ اسکول پہنچے تو گیٹ پر موجود ادھیڑ عمر چوکیدار مستعدی سے ڈیوٹی دیتے نظر آئے ۔ کینٹین بھی کھل چکی تھی ۔ کینٹین والے انکل خوش دلی سے بچوں کو اشیاء فروخت کر رہے تھے ۔ آڈیٹوریم میں میٹنگ شروع ہونے والی تھی ۔ والدین کی بڑی تعدادپہنچ چکی تھی ۔ ہم نے Peonسے نمبر لیا اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگے ۔ تمام Subject Techers سے مل کر ان سے انکی رائے لینی ضروری تھی ۔ رش کی وجہ سے والدین کے لئے لگا ئی جانے والی کرسیاں کچھ کم پڑگئیں ۔ فوری طور سے کچھ مرد حضرات اپنی کرسیوں سے اٹھ گئے اور خواتین آرام سے کرسیوں پر بیٹھ گئیں ۔ مرد حضرات ایک طرف کھڑے ہوگئے ۔ کچھ ہی دیر میں ہمارا نمبر آگیا ۔ اپنے بیٹے کے تمام اساتذہ سے اچھے ریمارکس ملے اور ہم مطمئن ہو کر گھر کی طرف روانہ ہوئے ۔ تقریباً دن کے گیارہ بج چکے تھے ۔ ہلکی بوندا باندی شروع ہوچکی تھی۔ سڑک کے کنارے لمبی قطار میں غریب مزدور اپنی بیلچے کدالیں اور اوزار لئے کام ملنے کی آس میں سرد ہوائوں میں چپ چپ گہری سوچوں میں گم بیٹھے تھے شاید وہ یہی سوچ رہے ہوں کہ اگر انہیں مزدوری نہ ملی تو ان کے گھر کا چولہا کیسے چلے گا اور بیوی بچوں کے پیٹ کیسے بھریں گے۔ ٹریفک کانسٹیبل بھی برساتی پہن کر چوراہے پر موجود ٹریفک کو کنٹرول کرنے میں مگن تھے ۔ شدید سردی کے باوجود پبلک ٹرانسپورٹ چلانے والے رکشہ ڈرائیور بس ڈرائیور اور کوچ والے بھائی سب تلاش معاش کے لئے سڑکوں پر موجود تھے ۔ ہمیں گھر پہنچا کر میرے شوہر صاحب نے پانی کا گلاس پیا اور جلدی جلدی اپنے کام پر روانہ ہو گئے کیونکہ وہ ایک کانٹریکٹر ہیں اور ہفتے کے ساتوں دن Site پر کام کرواتے ہیں کیونکہ مزدور ایک بھی دن چھٹی نہیں کرنا چاہتے کیونکہ جس دن وہ کام پر نہیں جاتے اس دن بچوں کو بھوکا ہی سونا پڑتا ہے ۔ گھر کے پر سکون گرم ماحول میں بیٹھ کر میری آنکھوں سے شکرانے کے آنسو نکل آئے ۔ ہم عورتوں کتنی خوش نصیب ہیں ہمیں گھر کا محفو ظ تحفظ دینے والے ہمارے لئے دن رات گرم سرد موسم کا سامنا کرے ۔ دنیا کی تلخ و ترش باتوں کو برداشت کرکے اپنے آرام دہ گھروں کو چھوڑ کر سارا دن ، رزق حلال کما کر لانے والے ہمارے قوام ہمارے گھروں کے باپ بھائی ، شوہر اور بیٹے ہمارے لئے رب کائنات کا عظیم کا تحفہ ہیں ۔ مسلم مرد اپنے خاندان کے لئے رزق حلال کمانا عین عبادت سمجھتے ہیں ۔ گھروں میں موجود اپنی ماں بہن ،بیوی اور بیٹی کو ہر آسائش مہیا کرتے ہیں ۔ اپنی خواہشات اور ضروریات کو محدود رکھ کر اپنے خاندان کی کفالت کی بھاری ذمہ داری پوری رضا و رغبت کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور اپنی خواتین کو قیمتی موتی کی طرح سنبھال کر رکھتے ہیں ۔ اسلامی نظام معاشرت نے عورت کو عزت و تکریم کے اعلیٰ درجات پر فائز کیا ہے۔ صدیوں سے رائج جاہلانہ اور فرسودہ رسم و رواج اور نسل درنسل چلنے والی تنگ نظری کا خاتمہ کیا ۔ جو مرتبہ و مقام اور عزت توقیر ہمیں مسلم معاشرہ اور اسلامی شعائر نے ساڑھے چودہ سال پہلے دی وہ 21ویں صدی کی بے چاری مغربی عورت کے لیے آج بھی صرف سہانا خواب ہے ۔ جس رب کا ئنات نے انسان کو تخلیق کیا وہ قرآن پاک میں خود ہی فرماتا ہے کہ کیا وہ ہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا " بالکل بجا فرماتا ہے وہ پروردگار عالم ہے وہ ہماری رگ رگ سے واقف ہے وہ جانتا ہے کہ عورت جیسی نازک اور انمول ہستی کو مضبوط اور با اعتماد ساتھ کی ضرورت قدم قدم پر ہے اسی لئے ہمیں پیدائش کے ساتھ ہی باپ بھائی اور خاندانی نظام کے ساتھ ہی شوہر اور بیٹوں کے مضبوط اور خوبصورت رشتوں سے جوڑ دیا ۔ میری پیاری بہنوں آپ یقین جانیں جن معاشروں میں خاندانی یونٹ کی اہمیت ختم ہو چکی ہے اور آزادی نسواں کے نام پر عورتوں کو گھر کی محفوظ چار دیواری سے نکال کر برابری کے جھوٹے نعروں کی آڑمیں حوادث زمانہ کا سامنا کرنے کے لئے کھڑا کر دیا ہے، وہاں کی عوررت ہماری زندگیوں پر رشک کرتی ہیں ۔ کیونکہ مسلم عورت گھر کی ملکہ ہے اور مغربی عورت راستے میں پڑے کسی پتھر کی طرح ادھر ادھر لڑھکتی ہی جارہی ہے ۔ اصل میں تو استحصال کا شکار بے چاری مغربی مظلوم عورت ہے کیونکہ اسے تو اس کے اپنے ہی مطلبی خود غرض مردوں نے زمانے کی ٹھوکروں پر چھوڑدیا تا کہ وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کا بوجھ ان نازک کندھوں کے اوپر ڈال کر خود اپنی زندگی کی عیاشیوں میں گزار دیں ۔ اسلام رواداری اور مساوات کا داعی ہے ۔ ایسا ممکن نہیں کہ کسی بھی مشکل او غیر معمولی صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لئے اس میں احکام موجود نہ ہوں ۔ بعض اوقات گھروں کے قوام کسی بیماری یا معذوری یا قلت معاش کے باعث نا مسائد حا لات کا شکار ہوتے ہیں ۔ ایسے میں اسلامی نظام معاشرت عورت کو اپنے "قوام"کا ساتھ نبھانے کے لئے کام کرنے کی رخصت اور وسعت عطا کرتا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں بے شمار خواتین چادر اور چار دیواری میں رہتے ہوئے بھی حصول معاش کے لئے مشقت و محنت کر کے گھر والوں کا ہاتھ بٹا رہی ہیں ۔ ایک"مستحکم خاندانی نظام "اسلامی معاشرے کے لئے مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے کہ جس پر نظام عدل ایثار و محبت مساوات اور حسن اخلاق سے مزین پاکیزہ اسلامی معاشرہ قائم ہو تا ہے ۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ جن گھرانوں میں اسلامی تعلیمات کا حقیقی شعور موجود ہے اور فرسودہ روایات کی اندھا دھند تقلید نہیں ان گھرانوں میں عورت قدر و منزلت اور اعتماد پا کر زندگی کے ہر شعبے میں اپنے گھر کے قوام کے ساتھ شانہ بشانہ موجود ہے اور مل جل کر مفاہمت کے ماحو ل میں اپنی نسلوں کی بہترین تعلیم و تربیت میں مشغول عمل نظر آتی ہے ۔ لہٰذا جو بھی ذی شعور انسان عورتوں کے حقوق کی بات کرتا ہے اسے چاہئے کہ وہ اسلامی نظام معاشرت کا مطالعہ کرے اور "لانگ مارچ اور ریلی نکالنے میں ضائع کرنے کے بجائے اپنی توانائیاں اسلامی نظام شریعت را ئج کرنے کے لئے صَرف کریں۔ Read the full article
0 notes
Photo
قلعه سرخ یا لال قلعه در دهلیhttps://khoonevadeh.ir/?p=136859
نام هند اغلب یادآور حس لطیفی است، به همراه داستانهایی از عشق و موسیقی در طبیعتی بکر و ناب. این سرزمین پهناور و گسترده، دارای طیفهای متفاوتی است از پوشش گیاهی، جنگل ها و مردابها که هر کدام به نوعی توریستها را در سفر به هند مجذوب خود میکنند. آثار و بناهای زیبای تاریخی منحصر به فرد این کشور نیز از جمله جاذبههای گردشگری هستند، مکانهایی با قدمت هزاران ساله وداستانهای واقعی از عشق و نفرت، قدرت و عدالت، که در پس دیوارهای این بناها رخ داده است. یکی از آن محلها، قلعه سرخ (رد فورت یا لال قلعه) است. لال در زبان هندی به معنی سرخ است. این بنا از بزرگترین و زیباترین جاذبههای گردشگری در شهر دهلی، پایتخت هندوستان است. معمارش ، شخصی است به نام احمد لاهوری که به دستور شاه جهان این قلعه را بنا کرد. قلعه سرخ محل سکونت امپراطور و خانواده سلطنتی بودهاست و کلیه مراسم تشریفاتی و سیاسی نیز آنجا برگزار میشدهاست. این قلعه در سال ۲۰۰۷ در لیست میراث جهانی یونسکو به ثبت رسیدهاست. برای آشنایی بیشتر با عروس زیبای شاه جهان آباد، پایتخت محبوب شاه جهان با ما در سفرزون همراه شوید.
تاریخچه لال قلعه
شاه جهان، پنجمین امپراطور مغول، وقتی پایتخت خود را از آگرا به دهلی تغییر داد، دستور احداث این قلعه را صادر کرد. ساخت آن نه سال به طول انجامید. این قلعه کنار رود یامونا قرار دارد و به شکل هشت ضلعی نامنظم است. قلعه به وسیله دیوار قرمز رنگی به طول ۵٫۲ کیلومتر محصور شده و ارتفاع آن از ۱۶ تا ۳۳ متر متغییر است.
قلعه سرخ
آدرس قلعه سرخ در نقشه گوگل
سبک معماری قلعه سرخ
معماری آن ترکیبی از سبک هندی و مغولی است، این سبک معماری بهخاطر خلاقیت و پیشرو بودن در زمان خودش روی سبک معماری ساختمانها و باغهای بعدی در دهلی، راجستان، پنجاب، کشمیر، براج، روح الخاند و جاهای دیگر تاثیرگذاشت.
معماری قلعه سرخ
بخشهای مهم قلعه سرخ
دیوان عام حیاط بیرونی مستقل و بزرگی است که با سنگهای مرمر سفید فرش شده. شاه بر روی ایوانی در دیوار شرقی میایستاده و با عموم دیدار میکردهاست.
لال قلعه
دیوان عام
دیوان خاص سالن میهمانان و ملاقاتهای خصوصی شاه بوده، و البته تخت مشهور شاه جهان به نام تخت طاووس نیز در آنجا قرار داشته است همان تختی که بعدها توسط نادر شاه به عنوان غنیمت به ایران آورده شد. جالب است بدانید در قسمتهای مختلفی از کاخ شعرهایی به زبان فارسی دیوارها را تزیین کرده از جمله در دو انتهای دیوان خاص اشعار از خسرو دهلوی وجود دارد.
دیوان خاص
از سایر اتاقها میتوان به رنگ محل یا کاخ رنگی محل اقامت همسر اصلی اشاره کرد. بنایی زیبا با تزئینات طلایی، سقف منقوش و حوض مرمرین.
ممتاز محل نیز اتاق خصوصی شاه بودهاست، که اتاقهای خواب، مکانهای عبادت، ایوان و باروی موسامان بُرج را شامل میشود.
دروازه های قلعه
دروازه لاهور که دروازه اصلی قلعه بوده نامش را از شهر لاهور واقع در پاکستان گرفتهاست.
دروازه دهلی دروازهای که به سوی دهلی قدیم بودهاست.
دروازه لاهوری
دروازه فیل دروازهای که مقابلش دو مجسمه با شکوه سیاه رنگ از فیل قرار داشته است، که بعدها ��ر ۱۸۵۶ توسط اورنگزیب تخریب شدند. هماکنون پس از بازسازی در موزه ممتاز محل قرار دارند.
دروازه دهلی
بازار سرپوشیده
چاتاچوک یا بازار سرپوشیده، که بازاری بودهاست بین دروازه اصلی و قلعه که اکنون محل تجمع دستفروشان برای فروش سوغاتی به گردشگران است.
بازار قلعه سرخ
بخشهای مختلف قلعه
نقارهخانه یا نوبتخانه که بر فراز دروازه لاهور و مقابل چاتاچوک قرار گرفتهاست و از آنجا ۵ بار در روز یا هنگام ورود شاه یا شاهزادگان و خانواده سلطنتی نقاره میزدهاند. این بنا بیش از ۳۰ متر طول و ۲۰ متر عرض دارد و کلیه بازدیدکنندگان بهجز خانواده سلطنتی، در اینجا پیش از ورود به محوطه اصلی باید از اسب پیاده میشدند.
باغ حیات بخش باغی بودهاست وسیع و به وسیله دو نهر زیبا و فوارههای فراوان تقسیم میشدهاست. متأسفانه اکنون این نهرها خشک است و در آن محل فقط پوشش گیاهی باقیماندهاست.
بُرج مثمن بارویی است در خاص محل و رو به بیرون قلعه که شاه هر روز صبح زود بر فراز آن آن امدر انظار عموم ظاهر میشدهاست.
نهر بهشت محل اقامت شخصی شاه بوده که و ایوان آن مشرف بر رود یامونا بوده محلی که شاه از فراز آن نظارهگر رود بودهاست.
بخشهای مهم قلعه سرخ
سایر قسمتهای قلعه لال
ساوان و بادان دو عمارت که دارای مخزن آب هستند، ظفر محل که در میان استخر آب واقع است.
حمام شاهی، بخش زنانه یا اندرونی که خود شامل ممتاز محل و رنگ محل است، دعوتخانه که محل اقامت شاهزاده بوده است و در آخر مسجد موتی یا مروارید است که توسط اورنگ زیپ جانشین شاه جهان ساخته شد.
قلعه سرخ
موزه های قلعه سرخ
در حال حاضر دو موزه در این بنا وجود دارد: یکی شامل اشیاء، منسوجات کتابها و دستنوشتههای تاریخی و هنری است، که عمدتاً مربوط یه دوران گورکانی هند یا ایران است. موزه دیگر بیشتر به نمایش جنگافزارهای قدیمی آن دوران تا زمان اشغال انگلیس تعلق دارد.
جاهای دیدنی قلعه سرخ
هیرا محل
سرگذشت قلعه سرخ
بسیاری از آثار هنری و جواهرات قلعه، طی حمله نادرشاه به امپراطوری مغول در سال ۱۷۴۷ غارت شدند. پس از آن بسیاری از سازههای سنگ مرمر قلعه در انقلاب ۱۸۵۷ توسط بریتانیا ویران شدند و بخشهایی از دیوارهای دفاعی قلعه باقی ماند. انگلیسیها آخرین امپراطور مغول را در ۱۸۵۸ در قلعه سرخ محاکمه و به رانگون تبعید کردند و کاخی که ۲۰۰ سال محل زندگی مردان قدرتمندی از مغول بود به پادگان نظامی تغییر کاربری داد.
قلعه سرخ
زمان بازدید
بهترین زمان برای بازدید از این کاخ فصل پاییز و بهاراست که هوا مناسبتر است و به راحتی میتوان در اطراف این کاخ زیبا گشت.
روز و ساعات بازدید
قلعه سرخ در روزهای دوشنبه تعطیل است و سایر روزها درها از ساعت ۹:۳۰ صبح تا ۴:۳۰ عصر برای بازدید عموم باز است.
قیمت بلیط ۵۵۰ روپیه برای توریستها و برای هندیها ۴۰ روپیه است.
لازم است قبل از سفر به هند و قلعه سرخ بدانید
در سفر به هند حتما از بطریهای آب آشامیدنی با برندهای معروف استفاده کنید، به علت ازدحام و شلوغی بر حریم شخصی خود حساس نباشید. پوشاندن بازوها و پاها جزو آداب رسوم هندی است مراقب کفشهایتان باشید به خصوص هنگام ورود به مقبرهها آنها را در آوردید، ولی درون پاکت یا کیف خود نگه دارید یا به امانت دار بسپارید. در هند پای انسان عضو تمیزی نیست، اگر با پاهایتان چیزی را لمس کردید، عذرخواهی کنید، خوردن یا دادن اشیا با دست چپ خوشایند نیست، برای آلودگی صوتی آماده باشید.
در آخر همراهان عزیز سفرزون امیدوارم این گردش کوتاه در قلعه سرخ، انتخاب مقصد سفر بعدی را برای شما راحتترکرده باشه. چنانچه تجربه سفر به قلعه سرخ را داشتهاید، نظرات خود را با مخاطبان سفرزون به اشتراک بگذارید، سپاسگزار از همراهی شما.
برای آشنایی بیشتر با دیدنی های هندوستان کلیک کنید.
منبع : مجله گردشگری سفرزون
0 notes
Photo
فرمانِ مصطفٰے ﷺ: جو حلال مال سے مسجد بنائے گا اللہ پاک اس کے لئے جنّت میں موتی اور یاقوت کا گھر بنائے گا۔ (معجم اوسط ،۴/۱۷،حدیث:۵۰۵۹) #Cosmicqbit #SaggeMadina #Muslim #MaslakeAalaHazrat #UbaideQadri
0 notes
Text
کعبے کے طواف میں کیا حقیقت پوشیدہ ہے ؟ پڑھیے عجائبات ربی کے مظہرات کی دلچسپ تفصیل
کعبے کے طواف میں کیا حقیقت پوشیدہ ہے ؟ پڑھیے عجائبات ربی کے مظہرات کی دلچسپ تفصیل
خانہ کعبہ مسلمانوں کے لئے مقدس ترین مقام کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ تمام دنیا میں رہنے والے مسلمانوں کیلئے قبلہ کی بھی حیثیت رکھتا ہے اور تمام دنیا میں بسنے والے مسلمان اسی کی جانب منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ خانہ کعبہ سے متعلق چند حقائق ایسے ہیں جن سے عام مسلمان زیادہ تر واقف نہیں۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کی ایک رپورٹ مطابق خانہ کعبہ کو سب سے پہلے فرشتوں نے تعمیر کیا
بعد میں حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیلؑ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی اور اس کے درودیوار کوکیا۔ خانہ کعبہ میں جنت سے لایا گیا ایک موتی جسے حجر اسود کہا جاتا ہے جبکہ غیر مسلم اسے سیاہ پتھر کہتے ہیں نصب ہے۔ قریش کے مختلف قبائل حجر
اسود کو خانہ کعبہ میں نصب کرنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتے تھےجس کےلئے خدشہ تھا کہ وہ باہم دست و گریبان نہ ہو جائیں اور قریش کے درمیان کثیر القبائل جنگ کا آغاز نہ ہو جائے ۔ جنگ کے خدشات کے پیش نظر ایک فیصلے کے تحت نبی کریم ﷺ نے حجراسود کو تمام قریشی قبائل کے سرداروں کی مدد سے خانہ کعبہ میں نصب فرمایا۔ یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ
سائنسی تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ خانہ کعبہ دنیا کے عین وسط میں موجود ہے اور زمین کی کسی بھی طرف سے پیمائش کرنے والا جب وسط میں پہنچتا ہے تو وہ یہ ��ان کر حیران رہ جاتا ہے کہ زمین کے کسی بھی طرف سے شروع کی گئی اس کی پیمائش کے عین وسط میں خانہ کعبہ موجود ہے۔دنیا بھر سے مسلمان حج و عمرہ کی ادائیگی کیلئے مکہ مکرمہ کا رخ کرتے ہیں اور
طواف کعبہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔ کعبہ کا طواف اینٹی کلاک وائز(گھڑی کی الٹی سمت)کیا جاتا ہے۔ جدید سائنسی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اینٹی کلاک وائزچلنے سے فاصلہ جلد طے ہو جاتا ہے اور اس طرح طواف کرنے سے جسم پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ دل کی صحت کیلئے بھی یہ اچھا ہے۔یہاں یہ امر خاص قابل ذکر ہے کہ خانہ کعبہ کی برکت اور انسانوں کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے اللہ سبحان و تعالیٰ نے یہاں پانی کا ایسا کنواں بھی پیدا فرمایا ہے
جس کا پانی دنیا کے تمام پانیوں سے بہتر اور انسانی صحت کیلئے نہایت مفید قرار دیا گیا ہے ۔اس کنویں کا ماخذ آج تک دریافت نہیں ہو سکا اور آپ یہ بات بھی جان کر حیران رہ جائیں گے کہ آب زم زم دنیا میں موجود واحد پانی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصیت رکھ دی ہے کہ اس سے کرنٹ پاس نہیں ہو سکتا ۔ یعنی بجلی کے جاری ہونے والے ایٹمز کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس سے کرنٹ بے اثر ہو جاتا ہے۔
خانہ کعبہ بلا شعبہ عجائبات ربی کا ایک نہایت شاندار مظہر ہے۔ حج کے دور میں مدینہ منورہ سے ایک خاص کبوتروں کا غول خانہ کعبہ کا رخ کرتا ہے اور حج کے موسم میں مسجد حرام میں ڈیرے ڈالے رکھتا ہے ۔ حج کے چند دن بعد حاجیوں کی واپسی کے ساتھ ہی یہ کبوتر واپس مدینہ منورہ چلے جاتے ہیں اور ایسا کئی صدیوں سے جاری ہے۔ان کبوتروں سے متعلق مختلف روایات موجود ہیں ، کہا جاتا ہے کہ حضرت نوحؑ نے جس کبوتر کو طوفان کے دوران خشکی کا پتہ معلوم کرنے بھیجا تھا اور جو اپنے پنجوں میں سبز درخت کی ٹہنی توڑ کر لایا تھا یہ اسی کبوتر کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2Gf8O0a via India Pakistan News
0 notes
Text
کعبے کے طواف میں کیا حقیقت پوشیدہ ہے ؟ پڑھیے عجائبات ربی کے مظہرات کی دلچسپ تفصیل
کعبے کے طواف میں کیا حقیقت پوشیدہ ہے ؟ پڑھیے عجائبات ربی کے مظہرات کی دلچسپ تفصیل
خانہ کعبہ مسلمانوں کے لئے مقدس ترین مقام کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ تمام دنیا میں رہنے والے مسلمانوں کیلئے قبلہ کی بھی حیثیت رکھتا ہے اور تمام دنیا میں بسنے والے مسلمان اسی کی جانب منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ خانہ کعبہ سے متعلق چند حقائق ایسے ہیں جن سے عام مسلمان زیادہ تر واقف نہیں۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کی ایک رپورٹ مطابق خانہ کعبہ کو سب سے پہلے فرشتوں نے تعمیر کیا
بعد میں حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیلؑ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی اور اس کے درودیوار کوکیا۔ خانہ کعبہ میں جنت سے لایا گیا ایک موتی جسے حجر اسود کہا جاتا ہے جبکہ غیر مسلم اسے سیاہ پتھر کہتے ہیں نصب ہے۔ قریش کے مختلف قبائل حجر
اسود کو خانہ کعبہ میں نصب کرنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتے تھےجس کےلئے خدشہ تھا کہ وہ باہم دست و گریبان نہ ہو جائیں اور قریش کے درمیان کثیر القبائل جنگ کا آغاز نہ ہو جائے ۔ جنگ کے خدشات کے پیش نظر ایک فیصلے کے تحت نبی کریم ﷺ نے حجراسود کو تمام قریشی قبائل کے سرداروں کی مدد سے خانہ کعبہ میں نصب فرمایا۔ یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ
سائنسی تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ خانہ کعبہ دنیا کے عین وسط میں موجود ہے اور زمین کی کسی بھی طرف سے پیمائش کرنے والا جب وسط میں پہنچتا ہے تو وہ یہ جان کر حیران رہ جاتا ہے کہ زمین کے کسی بھی طرف سے شروع کی گئی اس کی پیمائش کے عین وسط میں خانہ کعبہ موجود ہے۔دنیا بھر سے مسلمان حج و عمرہ کی ادائیگی کیلئے مکہ مکرمہ کا رخ کرتے ہیں اور
طواف کعبہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔ کعبہ کا طواف اینٹی کلاک وائز(گھڑی کی الٹی سمت)کیا جاتا ہے۔ جدید سائنسی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اینٹی کلاک وائزچلنے سے فاصلہ جلد طے ہو جاتا ہے اور اس طرح طواف کرنے سے جسم پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ دل کی صحت کیلئے بھی یہ اچھا ہے۔یہاں یہ امر خاص قابل ذکر ہے کہ خانہ کعبہ کی برکت اور انسانوں کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے اللہ سبحان و تعالیٰ نے یہاں پانی کا ایسا کنواں بھی پیدا فرمایا ہے
جس کا پانی دنیا کے تمام پانیوں سے بہتر اور انسانی صحت کیلئے نہایت مفید قرار دیا گیا ہے ۔اس کنویں کا ماخذ آج تک دریافت نہیں ہو سکا اور آپ یہ بات بھی جان کر حیران رہ جائیں گے کہ آب زم زم دنیا میں موجود واحد پانی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصیت رکھ دی ہے کہ اس سے کرنٹ پاس نہیں ہو سکتا ۔ یعنی بجلی کے جاری ہونے والے ایٹمز کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس سے کرنٹ بے اثر ہو جاتا ہے۔
خانہ کعبہ بلا شعبہ عجائبات ربی کا ایک نہایت شاندار مظہر ہے۔ حج کے دور میں مدینہ منورہ سے ایک خاص کبوتروں کا غول خانہ کعبہ کا رخ کرتا ہے اور حج کے موسم میں مسجد حرام میں ڈیرے ڈالے رکھتا ہے ۔ حج کے چند دن بعد حاجیوں کی واپسی کے ساتھ ہی یہ کبوتر واپس مدینہ منورہ چلے جاتے ہیں اور ایسا کئی صدیوں سے جاری ہے۔ان کبوتروں سے متعلق مختلف روایات موجود ہیں ، کہا جاتا ہے کہ حضرت نوحؑ نے جس کبوتر کو طوفان کے دوران خشکی کا پتہ معلوم کرنے بھیجا تھا اور جو اپنے پنجوں میں سبز درخت کی ٹہنی توڑ کر لایا تھا یہ اسی کبوتر کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2Gf8O0a via Today Urdu News
0 notes
Text
کعبے کے طواف میں کیا حقیقت پوشیدہ ہے ؟ پڑھیے عجائبات ربی کے مظہرات کی دلچسپ تفصیل
کعبے کے طواف میں کیا حقیقت پوشیدہ ہے ؟ پڑھیے عجائبات ربی کے مظہرات کی دلچسپ تفصیل
خانہ کعبہ مسلمانوں کے لئے مقدس ترین مقام کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ تمام دنیا میں رہنے والے مسلمانوں کیلئے قبلہ کی بھی حیثیت رکھتا ہے اور تمام دنیا میں بسنے والے مسلمان اسی کی جانب منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ خانہ کعبہ سے متعلق چند حقائق ایسے ہیں جن سے عام مسلمان زیادہ تر واقف نہیں۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کی ایک رپورٹ مطابق خانہ کعبہ کو سب سے پہلے فرشتوں نے تعمیر کیا
بعد میں حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیلؑ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی اور اس کے درودیوار کوکیا۔ خانہ کعبہ میں جنت سے لایا گیا ایک موتی جسے حجر اسود کہا جاتا ہے جبکہ غیر مسلم اسے سیاہ پتھر کہتے ہیں نصب ہے۔ قریش کے مختلف قبائل حجر
اسود کو خانہ کعبہ میں نصب کرنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتے تھےجس کےلئے خدشہ تھا کہ وہ باہم دست و گریبان نہ ہو جائیں اور قریش کے درمیان کثیر القبائل جنگ کا آغاز نہ ہو جائے ۔ جنگ کے خدشات کے پیش نظر ایک فیصلے کے تحت نبی کریم ﷺ نے حجراسود کو تمام قریشی قبائل کے سرداروں کی مدد سے خانہ کعبہ میں نصب فرمایا۔ یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ
سائنسی تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ خانہ کعبہ دنیا کے عین وسط میں موجود ہے اور زمین کی کسی بھی طرف سے پیمائش کرنے والا جب وسط میں پہنچتا ہے تو وہ یہ جان کر حیران رہ جاتا ہے کہ زمین کے کسی بھی طرف سے شروع کی گئی اس کی پیمائش کے عین وسط میں خانہ کعبہ موجود ہے۔دنیا بھر سے مسلمان حج و عمرہ کی ادائیگی کیلئے مکہ مکرمہ کا رخ کرتے ہیں اور
طواف کعبہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔ کعبہ کا طواف اینٹی کلاک وائز(گھڑی کی الٹی سمت)کیا جاتا ہے۔ جدید سائنسی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اینٹی کلاک وائزچلنے سے فاصلہ جلد طے ہو جاتا ہے اور اس طرح طواف کرنے سے جسم پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ دل کی صحت کیلئے بھی یہ اچھا ہے۔یہاں یہ امر خاص قابل ذکر ہے کہ خانہ کعبہ کی برکت اور انسانوں کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے اللہ سبحان و تعالیٰ نے یہاں پانی کا ایسا کنواں بھی پیدا فرمایا ہے
جس کا پانی دنیا کے تمام پانیوں سے بہتر اور انسانی صحت کیلئے نہایت مفید قرار دیا گیا ہے ۔اس کنویں کا ماخذ آج تک دریافت نہیں ہو سکا اور آپ یہ بات بھی جان کر حیران رہ جائیں گے کہ آب زم زم دنیا میں موجود واحد پانی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصیت رکھ دی ہے کہ اس سے کرنٹ پاس نہیں ہو سکتا ۔ یعنی بجلی کے جاری ہونے والے ایٹمز کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس سے کرنٹ بے اثر ہو جاتا ہے۔
خانہ کعبہ بلا شعبہ عجائبات ربی کا ایک نہایت شاندار مظہر ہے۔ حج کے دور میں مدینہ منورہ سے ایک خاص کبوتروں کا غول خانہ کعبہ کا رخ کرتا ہے اور حج کے موسم میں مسجد حرام میں ڈیرے ڈالے رکھتا ہے ۔ حج کے چند دن بعد حاجیوں کی واپسی کے ساتھ ہی یہ کبوتر واپس مدینہ منورہ چلے جاتے ہیں اور ایسا کئی صدیوں سے جاری ہے۔ان کبوتروں سے متعلق مختلف روایات موجود ہیں ، کہا جاتا ہے کہ حضرت نوحؑ نے جس کبوتر کو طوفان کے دوران خشکی کا پتہ معلوم کرنے بھیجا تھا اور جو اپنے پنجوں میں سبز درخت کی ٹہنی توڑ کر لایا تھا یہ اسی کبوتر کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2Gf8O0a via Urdu News
0 notes
Text
کعبے کے طواف میں کیا حقیقت پوشیدہ ہے ؟ پڑھیے عجائبات ربی کے مظہرات کی دلچسپ تفصیل
کعبے کے طواف میں کیا حقیقت پوشیدہ ہے ؟ پڑھیے عجائبات ربی کے مظہرات کی دلچسپ تفصیل
خانہ کعبہ مسلمانوں کے لئے مقدس ترین مقام کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ تمام دنیا میں رہنے والے مسلمانوں کیلئے قبلہ کی بھی حیثیت رکھتا ہے اور تمام دنیا میں بسنے والے مسلمان اسی کی جانب منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ خانہ کعبہ سے متعلق چند حقائق ایسے ہیں جن سے عام مسلمان زیادہ تر واقف نہیں۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کی ایک رپورٹ مطابق خانہ کعبہ کو سب سے پہلے فرشتوں نے تعمیر کیا
بعد میں حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیلؑ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی اور اس کے درودیوار کوکیا۔ خانہ کعبہ میں جنت سے لایا گیا ایک موتی جسے حجر اسود کہا جاتا ہے جبکہ غیر مسلم اسے سیاہ پتھر کہتے ہیں نصب ہے۔ قریش کے مختلف قبائل حجر
اسود کو خانہ کعبہ میں نصب کرنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتے تھےجس کےلئے خدشہ تھا کہ وہ باہم دست و گریبان نہ ہو جائیں اور قریش کے درمیان کثیر القبائل جنگ کا آغاز نہ ہو جائے ۔ جنگ کے خدشات کے پیش نظر ایک فیصلے کے تحت نبی کریم ﷺ نے حجراسود کو تمام قریشی قبائل کے سرداروں کی مدد سے خانہ کعبہ میں نصب فرمایا۔ یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ
سائنسی تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ خانہ کعبہ دنیا کے عین وسط میں موجود ہے اور زمین کی کسی بھی طرف سے پیمائش کرنے والا جب وسط میں پہنچتا ہے تو وہ یہ جان کر حیران رہ جاتا ہے کہ زمین کے کسی بھی طرف سے شروع کی گئی اس کی پیمائش کے عین وسط میں خانہ کعبہ موجود ہے۔دنیا بھر سے مسلمان حج و عمرہ کی ادائیگی کیلئے مکہ مکرمہ کا رخ کرتے ہیں اور
طواف کعبہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔ کعبہ کا طواف اینٹی کلاک وائز(گھڑی کی الٹی سمت)کیا جاتا ہے۔ جدید سائنسی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اینٹی کلاک وائزچلنے سے فاصلہ جلد طے ہو جاتا ہے اور اس طرح طواف کرنے سے جسم پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ دل کی صحت کیلئے بھی یہ اچھا ہے۔یہاں یہ امر خاص قابل ذکر ہے کہ خانہ کعبہ کی برکت اور انسانوں کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے اللہ سبحان و تعالیٰ نے یہاں پانی کا ایسا کنواں بھی پیدا فرمایا ہے
جس کا پانی دنیا کے تمام پانیوں سے بہتر اور انسانی صحت کیلئے نہایت مفید قرار دیا گیا ہے ۔اس کنویں کا ماخذ آج تک دریافت نہیں ہو سکا اور آپ یہ بات بھی جان کر حیران رہ جائیں گے کہ آب زم زم ��نیا میں موجود واحد پانی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصیت رکھ دی ہے کہ اس سے کرنٹ پاس نہیں ہو سکتا ۔ یعنی بجلی کے جاری ہونے والے ایٹمز کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس سے کرنٹ بے اثر ہو جاتا ہے۔
خانہ کعبہ بلا شعبہ عجائبات ربی کا ایک نہایت شاندار مظہر ہے۔ حج کے دور میں مدینہ منورہ سے ایک خاص کبوتروں کا غول خانہ کعبہ کا رخ کرتا ہے اور حج کے موسم میں مسجد حرام میں ڈیرے ڈالے رکھتا ہے ۔ حج کے چند دن بعد حاجیوں کی واپسی کے ساتھ ہی یہ کبوتر واپس مدینہ منورہ چلے جاتے ہیں اور ایسا کئی صدیوں سے جاری ہے۔ان کبوتروں سے متعلق مختلف روایات موجود ہیں ، کہا جاتا ہے کہ حضرت نوحؑ نے جس کبوتر کو طوفان کے دوران خشکی کا پتہ معلوم کرنے بھیجا تھا اور جو اپنے پنجوں میں سبز درخت کی ٹہنی توڑ کر لایا تھا یہ اسی کبوتر کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2Gf8O0a via Daily Khabrain
0 notes
Text
کعبے کے طواف میں کیا حقیقت پوشیدہ ہے ؟ پڑھیے عجائبات ربی کے مظہرات کی دلچسپ تفصیل
کعبے کے طواف میں کیا حقیقت پوشیدہ ہے ؟ پڑھیے عجائبات ربی کے مظہرات کی دلچسپ تفصیل
خانہ کعبہ مسلمانوں کے لئے مقدس ترین مقام کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ تمام دنیا میں رہنے والے مسلمانوں کیلئے قبلہ کی بھی حیثیت رکھتا ہے اور تمام دنیا میں بسنے والے مسلمان اسی کی جانب منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ خانہ کعبہ سے متعلق چند حقائق ایسے ہیں جن سے عام مسلمان زیادہ تر واقف نہیں۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کی ایک رپورٹ مطابق خانہ کعبہ کو سب سے پہلے فرشتوں نے تعمیر کیا
بعد میں حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیلؑ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی اور اس کے درودیوار کوکیا۔ خانہ کعبہ میں جنت سے لایا گیا ایک موتی جسے حجر اسود کہا جاتا ہے جبکہ غیر مسلم اسے سیاہ پتھر کہتے ہیں نصب ہے۔ قریش کے مختلف قبائل حجر
اسود کو خانہ کعبہ میں نصب کرنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتے تھےجس کےلئے خدشہ تھا کہ وہ باہم دست و گریبان نہ ہو جائیں اور قریش کے درمیان کثیر القبائل جنگ کا آغاز نہ ہو جائے ۔ جنگ کے خدشات کے پیش نظر ایک فیصلے کے تحت نبی کریم ﷺ نے حجراسود کو تمام قریشی قبائل کے سرداروں کی مدد سے خانہ کعبہ میں نصب فرمایا۔ یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ
سائنسی تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ خانہ کعبہ دنیا کے عین وسط میں موجود ہے اور زمین کی کسی بھی طرف سے پیمائش کرنے والا جب وسط میں پہنچتا ہے تو وہ یہ جان کر حیران رہ جاتا ہے کہ زمین کے کسی بھی طرف سے شروع کی گئی اس کی پیمائش کے عین وسط میں خانہ کعبہ موجود ہے۔دنیا بھر سے مسلمان حج و عمرہ کی ادائیگی کیلئے مکہ مکرمہ کا رخ کرتے ہیں اور
طواف کعبہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔ کعبہ کا طواف اینٹی کلاک وائز(گھڑی کی الٹی سمت)کیا جاتا ہے۔ جدید سائنسی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اینٹی کلاک وائزچلنے سے فاصلہ جلد طے ہو جاتا ہے اور اس طرح طواف کرنے سے جسم پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ دل کی صحت کیلئے بھی یہ اچھا ہے۔یہاں یہ امر خاص قابل ذکر ہے کہ خانہ کعبہ کی برکت اور انسانوں کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے اللہ سبحان و تعالیٰ نے یہاں پانی کا ایسا کنواں بھی پیدا فرمایا ہے
جس کا پانی دنیا کے تمام پانیوں سے بہتر اور انسانی صحت کیلئے نہایت مفید قرار دیا گیا ہے ۔اس کنویں کا ماخذ آج تک دریافت نہیں ہو سکا اور آپ یہ بات بھی جان کر حیران رہ جائیں گے کہ آب زم زم دنیا میں موجود واحد پانی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصیت رکھ دی ہے کہ اس سے کرنٹ پاس نہیں ہو سکتا ۔ یعنی بجلی کے جاری ہونے والے ایٹمز کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس سے کرنٹ بے اثر ہو جاتا ہے۔
خانہ کعبہ بلا شعبہ عجائبات ربی کا ایک نہایت شاندار مظہر ہے۔ حج کے دور میں مدینہ منورہ سے ایک خاص کبوتروں کا غول خانہ کعبہ کا رخ کرتا ہے اور حج کے موسم میں مسجد حرام میں ڈیرے ڈالے رکھتا ہے ۔ حج کے چند دن بعد حاجیوں کی واپسی کے ساتھ ہی یہ کبوتر واپس مدینہ منورہ چلے جاتے ہیں اور ایسا کئی صدیوں سے جاری ہے۔ان کبوتروں سے متعلق مختلف روایات موجود ہیں ، کہا جاتا ہے کہ حضرت نوحؑ نے جس کبوتر کو طوفان کے دوران خشکی کا پتہ معلوم کرنے بھیجا تھا اور جو اپنے پنجوں میں سبز درخت کی ٹہنی توڑ کر لایا تھا یہ اسی کبوتر کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2Gf8O0a via Urdu News
#Urdu News#Daily Pakistan#Today Pakistan#Pakistan Newspaper#World Urdu News#Entertainment Urdu News#N
0 notes