#معجزہ
Explore tagged Tumblr posts
Text
مریم نواز ایک سرکاری گاڑی بیچیں تو معجزہ ہوجائے گا
پنجاب کے سرکاری سکولز کی ابتر حالت کا رونا تو دہائیوں سے جاری ہے لیکن گزشتہ چند برسوں میں سرکاری سکولز کی ابتر حالت یہاں پرھانے والے بچوں کے والدین کو خون کے آنسو رلا رہی ہے ، آج صبح میرے ایک دوست صحافی فہیم نے ایک ویڈیو بجھوائی جس میں دو خواتین سکول ٹیچر سے فیس نہ دینے پر بچوں کو نکالنے کی دھمکی پر جھگڑا کر رہی تھیں ان خواتین کا موقف تھا کہ کھانے کو آٹا نہیں ، بجلی کے بل دینے کو پیسے نہیں دوائی…
0 notes
Text
توجہ کا معجزہ
تحریر:جاوید چودھری۔۔۔۔۔۔۔روزنامہ ایکسپریس ڈاکٹر صاحب نے ہنس کر جواب دیا ’’میرے پاس کوئی کرشمہ‘ کوئی معجزہ نہیں‘ میں دوائیں بھی بازار سے خریدتا ہوں‘ اپنی کوئی دواء نہیں بناتا اور نسخے بھی پرانے ہیں لیکن اس کے باوجود اللہ کا کرم ہے لوگوں کو مجھ سے شفاء ہو جاتی ہے‘‘میں نے پوچھا ’’لیکن کیسے؟ اگر ساری چیزیں نارمل ہیں‘ آپ کی اسٹڈی بھی نارمل ہے‘ ادویات بھی مارکیٹ کی ہیں اور آپ خود بھی مکمل دنیا دار ہیں…
View On WordPress
0 notes
Text
جو اتر کے زینۂِ شام سے تیری چشم ِخوش میں سما گئے
وہی جلتے بجھتے سے مہر و ماہ میرے بام و در کو سجا گئے
یہ عجیب کھیل ہے عشق کا میں نے آپ دیکھا یہ معجزہ
وہ جو لفظ میرے گماں میں تھے وہ تیری زبان پر آگئے
وہ جو گیت تم نے سنا نہیں میری عمر بھر کا ریاض تھا
میرے درد کی تھی داستاں جسے تم ہنسی میں اڑا گئے
وہ چراغ ِجاں کبھی جس کی لو نہ کسی ہوا سے نگوں ہوئی
تیری بیوفائی کے وسوسے اسے چپکے چپکے بجھا گئے
وہ تھا چاند شام ِوصال کا کہ تھا روپ تیرے جمال کا
میری روح سے میری آنکھ تک کسی روشنی میں نہا گئے
یہ جو بندگان ِنیاز ہے یہ تمام ہیں وہ لشکری
جنہیں زندگی نے اماں نہ دی تو تیرے حضور میں آ گئے
تیری بے رخی کے دیار میں میں ہوا کے ساتھ ہَوا ہوا
تیرے آئینے کی تلاش میں میرے خواب چہرہ گنوا گئے
تیرے وسوسوں کے فشار میں تیرا شرار ِرنگ اجڑ گیا
میری خواہ��وں کے غبار میں میرے ماہ و سال ِوفا گئے
وہ عجیب پھول سے لفظ تھے تیرے ہونٹ جن سے مہک اٹھے
میرے دشتِ خواب میں دور تک کوئی باغ جیسے لگا گئے
میری عمر سے نہ سمٹ سکے میرے دل میں اتنے سوال تھے
تیرے پاس جتنے جواب تھے تیری اک نگاہ میں آ گئے
- امجد اسلام امجد
15 notes
·
View notes
Text
Amazing miracle of nature. An unborn child was found after 37 days in the rubble of a house destroyed by bombing in Gaza.
قدرت کا حیران کن معجزہ ۔۔۔ غزہ میں اسرائیلی بمباری سے مسمار شدہ گھر کے ملبہ سے 37 دن بعد نومولود بچہ زندہ مل گیا ۔۔۔ کیا تاریخ انسانی کے ان بدترین وحشیانہ مظالم کے باوجود مسلمان خواب غفلت میں مدہوش رہیں گے ؟
#islam#quran#islamic#muslim#islamicquotes#pakistan#islamic group#muslim community#muslim countries#istanbul#urdu#from the river to the sea palestine will be free#pakistán
12 notes
·
View notes
Text
ایک کوندا سا تو لپکا تھا مری آنکھوں میں
پھر اندھیرے کے سوا کچھ نظر آیا نہ مجھے
اک ستارہ سا تو ٹوٹا تھا مری راتوں میں
معجزہ پھر کوئی آنکھوں نے دکھایا نہ مجھے
aik kunda sa tou lapka tha meri ankhon mein
phir andhere k siwa kuch nazar aya nah mujhe
ik sitara sa tou tuta tha meri raaton mein
mojaza phir koi ankhon ne dijhaya nah mujhe
6 notes
·
View notes
Text
یہی مختصر عشق کی داستاں ہے
جو ہے بات ہم میں وہ تم میں کہاں ہے
سر حسن چوکھٹ پہ میری جھکا ہے
یہ زندہ میرے عشق کا معجزہ ہے
3 notes
·
View notes
Text
معجزہ ہے کہ دل کی نگری میں لوگ مر کے بھی جیتے رہتے
ہیں 🥀
3 notes
·
View notes
Text
آنکھوں سے خواب دل سے تمنا تمام شد
تم کیا گئے کہ شوقِ نظارہ تمام شد
کل تیرے تشنگاں سے یہ کیا معجزہ ہوا
دریا پہ ہونٹ رکھے تو دریا تمام شد
دنیا تو ایک برف کی سِل سے سوا نہ تھی
پہنچی دکھوں کی آنچ تو دنیا تمام شد
شہرِ دلِ تباہ میں پہنچوں تو کچھ کھلے
کیا بچ گیا ہے راکھ میں اور کیا تمام شد
ہم شہرِ جاں میں آخری نغمہ سنا چکے
سمجھو کہ اب ہمارا تماشا تمام شد
4 notes
·
View notes
Text
"جب کہ آپ مجھے عام کے طور پر دیکھتے ہیں، کسی اور کی نظر میں، میں ایک معجزہ ہوں. "
“While you see me as ordinary, in someone else’s eyes, I’m a miracle. "
- In the name of peace
13 notes
·
View notes
Link
0 notes
Text
غزہ تین سو پینسٹھ دن بعد
غزہ ایک برس بعد محض اکتالیس کلومیٹر طویل، چھ تا بارہ کلومیٹر چوڑی جغرافیائی پٹی سے اوپر اٹھ کے پورے عالم کی آنکھوں پر بندھی خونی پٹی میں بدل چکا ہے۔ یوں سمجھئے سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کے آدھے رقبے پر سال بھر میں اتنا بارود فضا سے گرا دیا جائے جس کی طاقت ہیروشیما پر برسائے جانے والے چار ایٹم بموں کے برابر ہو تو سوچئے وہاں کیا کیا اور کون کون بچے گا ؟ پہلی اور دوسری عالمی جنگ سے لے کے ویتنام ، عراق اور افغانستان تک اتنے چھوٹے سے علاقے پر اتنی کم مدت میں اتنا بارود آج تک نہیں برسا۔ گزرے ایک برس میں غزہ کی دو ف��صد آبادی مر چکی ہے۔ ایک لاکھ سے زائد زخمی ہیں۔ جتنے مر چکے لگ بھگ اتنے ہی لاپتہ ہیں۔ گمان ہے کہ وہ ملبے تلے دبے دبے انجر پنجر میں بدل چکے ہیں یا ان میں سے بہت سے بھوکے جانوروں کا رزق ہو چکے ہیں۔ بے شمار بچے بس چند گھنٹے پہلے پیدا ہوئے اور بم ، گولے ، گولی یا دھمک سے مر گئے۔ جانے پیدا ہی کیوں ہوئے ؟ یہ سب کے سب اسرائیل کے عسکری ریکارڈ میں دھشت گرد ہیں اور جو زندہ ہیں وہ بھی دھشت گرد ہیں اور جو ماؤں کے پیٹ میں ہیں وہ بھی دھشت گرد ہیں۔
اس ایک برس میں غزہ کے لیے نہ پانی ہے ، نہ بجلی، نہ ایندھن۔ نہ کوئی اسپتال یا کلینک، اسکولی عمارت، لائبریری ، سرکاری دفتر ، میوزیم سلامت ہے۔ نہ دوکان ، درخت اور کھیت نظر آتا ہے۔ نہ کہیں بھاگنے کا رس��ہ ہے اور نہ ہی پیٹ بھر خوراک ہے۔ نہ ہی کوئی ایک سائبان ہے جسے محفوظ قرار دیا جا سکے۔ اسی فیصد مساجد ، گرجے اور چالیس فیصد قبرستان آسودہِ خاک ہو چکے ہیں۔ منطقی اعتبار سے ان حالات میں اب تک غزہ کی پوری آبادی کو مر جانا چاہیے تھا۔ مگر تئیس میں سے بائیس لاکھ انسانوں کا اب تک سانس لینا زندہ معجزہ ہے۔ اے ثابت قدمی تیرا دوسرا نام فلسطین ہے۔ ان حالات میں حماس سمیت کسی بھی مسلح تنظیم کے پرخچے اڑ جانے چاہیے تھے یا جو بچ گئے انھیں غیرمشروط ہتھیار ڈال دینے چاہیے تھے۔پوری آبادی گیارہ مرتبہ تین سو پینسٹھ مربع کلومیٹر کے پنجرے کے اندر ہی اندر اب تک سترہ بار نقل مکانی کر چکی ہے۔ غزہ شہر ، خان یونس ، رفاہ اور ناصریہ ریفیوجی کیمپ چار چار بار کھنڈر کیے جا چکے ہیں۔ مگر آج بھی وہاں سے راکٹ اڑ کے اسرائیل تک پہنچ رہے ہیں۔
مقبوضہ مغربی کنارے پر بھی نہتے فلسطینیوں کے خلاف جون انیس سو سڑسٹھ کے بعد پہلی بار جنگی ہیلی کاپٹروں اور طیاروں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ کل ملا کے بیس ہزار فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔ موت ہو کہ قید ، بچے ، جوان ، بوڑھے ، عورت ، مرد سب برابر ہیں۔ مگر غزہ مرا نہیں ب��کہ ایک آہ بن گیا ہے۔ اس آہ نے نہر سویز کی بحری ٹریفک خشک کر دی ہے۔ یمن سے گزر کے بحرہند سے ملنے والا بحیرہ قلزم تجارتی جہازوں کے لیے پھندہ بن گیا ہے۔ یمن پر پہلے برادر عرب بھائیوں نے پانچ برس تک مسلسل بمباری کی اور اب امریکا ، برطانیہ اور اسرائیل بمباری کر رہے ہیں مگر پھر بھی وہاں سے ڈرون اور میزائل اڑ اڑ کے اسرائیلی بندرگاہ ایلات اور تل ابیب تک پہنچ رہے ہیں۔ شمالی اسرائیل کے سرحدی علاقے حزب اللہ کی راکٹ باری کے سبب سنسان ہیں اور جنوبی لبنان میں اسرائیل کے زمینی دستے گھسنے کے باوجود کسی ایک گاؤں پر بھی قبضہ نہیں کر سکے ہیں۔ غزہ اور بیروت میں جو بھی تباہی پھیل رہی ہے وہ امریکی بموں سے لیس منڈلاتے اسرائیلی طیاروں کے ذریعے پھیل رہی ہے۔
اسرائیل نے حماس اور حزب اللہ کی بالائی قیادت کا تقریباً صفایا کر دیا ہے۔ پھر بھی مغرب کی لامحدود پشت پناہی ہوتے ہوئے وہ غزہ یا لبنان میں اپنا ایک بھی عسکری ہدف حاصل نہیں کر پایا۔ عالمی عدالتِ انصاف ہو کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی یا انسانی حقوق سے متعلق کوئی بھی مقامی یا بین الاقوامی تنظیم۔ سب کے سب اسرائیل کو الٹی چپل دکھا رہے ہیں۔ مغربی میڈیا کی بھرپور یکطرفہ کوریج کے باوجود دنیا بھر کی سڑکوں اور یونیورسٹی کیمپسوں میں اسرائیل اپنی مظلومیت کا مزید منجن بیچنے سے قاصر ہے۔ جھنجھلاہٹ سے باؤلا ہونے کے سبب کبھی وہ عالمی عدالتِ انصاف کو دیکھ کے مٹھیاں بھینچتا ہے اور کبھی پوری اقوامِ متحدہ کو یہود دشمنی کا گڑھ قرار دیتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے اسرائیل میں داخلے پر پابندی اسرائیلی بیانیے کے تابوت میں آخری کیل ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ آئرن ڈوم کے سبب اسرائیل فضا سے آنے والے راکٹوں اور میزائلوں سے بہت حد تک بچ رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ اسے امریکا ، برطانیہ اور فرانس سمیت سلامتی کونسل کے پانچ میں سے تین ارکان کی اندھی حمائیت میسر ہے۔
یہ بھی تسلیم کہ کل کا یہود کش جرمنی آج اسرائیل کا اندھ بھگت بن کے اپنے تاریخی احساِسِ جرم کا قرض مرکب سود سمیت چکا رہا ہے۔ مگر انسانیت سوز جرائم کے انسداد کی عالمی عدالت کے نزدیک اسرائیلی قیادت جنگی مجرم ہے اور وہ اس وقت سوائے چار پانچ ممالک کے کہیں بھی نہیں جا سکتی۔ کیونکہ جنگی ملزموں کی گرفتاری میں تعاون ہر اس ملک کا قانونی فرض ہے جو عالمی عدالت برائے انسانی جرائم کے وجود کو باضابطہ تسلیم کر چکا ہے۔ وہ بوڑھے بھی اب باقی نہیں رہے جنھیں یہودیوں پر ہٹلر کے مظالم یاد تھے۔ آج کا لڑکا اور لڑکی تو ہٹلر کے روپ میں صرف نیتن یاہو کو جانتا ہے۔ آخر یہودیوں کی اسی برس پرانی نسل کشی کی ہمدردی تاقیامت ہر نسل کو پرانی تصاویر دکھا دکھا کے تو نہیں سمیٹی جا سکتی۔وہ بھی تب جب خود کو مظلوم کہہ کر ہمدردیاں سمیٹنے کا عادی اسرائیل عملاً نازی جرمنی کا دوسرا جنم ثابت ہو رہا ہو۔ اس ایک برس میں غزہ نے نہ صرف مغرب اور مغربی میڈیا کو ننگا کر دیا بلکہ خلیجی ریاستوں اور اسرائیل کے مابین ہونے والے معاہدہ ِ ابراہیمی کے ٹائروں سے بھی ہوا نکال دی۔ اخلاقی دباؤ اس قدر ہے کہ سعودی عرب نے بھی اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کا ارادہ فی الحال طاق پر دھر دیا ہے۔
اگرچہ ایران کے سیکڑوں میزائلوں نے مادی اعتبار سے اسرائیل کا کچھ نہیں بگاڑا۔مگر اتنا ضرور ہوا کہ ایران کے مدِ مقابل عرب حکومتوں نے اسرائیل ایران دنگل میں غیر جانبدار رہنے کا اعلان کر دیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اگر دو چار میزائل ’’ غلطی ‘‘ سے سمندر کے پرلی طرف نظر آنے والی آئل ریفائنریوں یا تیل کے کنوؤں یا کسی ڈیوٹی فری بندرگاہ پر گر گئے اور غلطی سے دنیا کے بیس فیصد تیل کی گزرگاہ آبنائے ہرمز میں دوچار آئل ٹینکر ڈوب گئے تو پھر کئی ریاستوں اور خانوادوں کے بوریے بستر گول ہو سکتے ہیں۔ نیتن یاہو کے بقول یہی سنہری موقع ہے خطے کا نقشہ بدلنے کا۔ نیتن یاہو کا یہ خواب بس پورا ہی ہوا چاہتا ہے۔ یہ خطہ عنقریب ایسا بدلنے والا ہے کہ خود اسرائیل چھوڑ امریکا سے بھی نہ پہچانا جاوے گا۔ پچھتر برس پہلے جس جن کو بوتل میں بند کیا گیا۔ بند کرنے والوں کے ہاتھوں سے وہ بوتل اچانک چھوٹ چکی ہے۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note
·
View note
Text
ایک دعا ہے جس کی تمنا دل سے نہیں جاتی۔
ایک دعا ہے جس کی قبولیت کا شک نہیں ہے۔
ایک دعا ہے جس کی قبولیت کا یقین ہے۔
ایک دعا ہے جو اس دنیا کی حقیقتوں سے ناممکن لگتی ہے۔
ایک دعا ہے جس کی منظوری ایک معجزہ لگتی ہے۔
ایک دعا ہے جو شائد میں مانگنا چھوڑ چکا ہوں-
ایک دعا ہے جو شائد میں ہمیشہ مانگتا رہوں-
اور وہ دعا تم ہو میرے دل۔
وہ دعا تم ہو۔۔۔۔
0 notes
Video
youtube
"حضرت سلیمانؑ کا معجزہ اور جدید سائنس: قرآن میں ٹیلیپورٹیشن کا راز"
0 notes
Text
دَرد کم ہونے لگا ــــ آؤ ، کہ کُچھ رات کٹے
غَم کی معیاد بڑھا جاؤ کہ کُچھ رات کٹے
ہِجر میں آہ و بُکا رسمِ کُہن ہے ، لیکن
آج یہ رَسم ہی دُہراؤ کہ کُچھ رات کٹے
یُوں تو تم روشنئِ قلب و نظر ہو، لیکن
آج وُہ معجزہ دِکھلاؤ کہ کُچھ رات کٹے
دِل دُکھاتا ہے وُہ مِل کر بھی مگر آج کی رات
اُسی بے دَرد کو لے آؤ کہ کُچھ رات کٹے
دَم گُھٹا جاتا ہے اَفسردہ دِلی سے یارو
کوئی اَفواہ ہی پَھیلاؤ ، کہ کُچھ رات کٹے
مَیں بھی بیکار ہُوں ، اور تم بھی ہو وِیران بہت
دوستو ! آج نہ گھر جاؤ ، کہ کُچھ رات کٹے
چھوڑ آئے ہو سرِ شام اُسے کیوں ناصرؔ
اُسے پِھر گھر سے بُلا لاؤ کہ کُچھ رات کٹے
- ناصرؔ کاظمی
19 notes
·
View notes
Text
جو اُتر کے سینہِ شام سے میری چشمِ خوش میں سما گئے
وہی جلتے بجھتے سے مہروماہ میرے بام و در کو سجا گئے
یہ عجیب کھیل ہے عشق کا، میں نے آپ دیکھا یہ معجزہ
جو لفظ میرے گماں میں تھے، وہ تیری زباں پہ آگئے
وہ چراغِ جاں کبھی جسکی لو، نہ کسی ہوا سے نگوں ہوئی
تیری بے وفائی کے وسوسے اُسے چپکے چپکے بجھا گئے
وہ تھا چاند شامِ وصال کا کہ تھا رُوپ تیرے جمال کا
میری رُوح سے میری آنکھ تک، کسی روشنی میں نہا گئے
یہ جو بندگانِ ناز ہیں، یہ تمام ہیں وہی لشکری
جنہیں زندگی نے پناہ نہ دی، تو تیرے حضور میں آگئے
تیری بے رُخی کے دیار میں، میں ہَوا کے ساتھ ہَوا ہُوا
تیرے آئینے کی تلاش میں میرے خواب چہرا گنوا گئے
تیرے وسوسوں کے فشار میں، تیرا شرارِ رنگ اُجڑ گیا
میری خواہشوں کے غُبار میں، میرے ماہ و سال وفا گئے
میری عمر سے نہ مٹ سکے، میرے دل میں اِتنے سوال تھے
تیرے پاس جتنے جواب تھے، تیری اِک نگاہ میں آگئے
وہ جو گیت تم نے سُنا نہیں، میری عمر بھر کا ریاض تھا
میرے درد کی تھی وہ داستاں، جسے تم ہنسی میں اُڑا گئے
امجد اسلام امجد
1 note
·
View note
Text
میں معجزہ ہوں وفاؤں کی بیکرانی کا
ابھی ہے وقت ، ابھی اور آزماؤ مجھے
اداؔ جعفری
3 notes
·
View notes