#معجزہ
Explore tagged Tumblr posts
topurdunews · 2 months ago
Text
مریم نواز ایک سرکاری گاڑی بیچیں تو معجزہ ہوجائے گا 
پنجاب کے سرکاری سکولز کی ابتر حالت کا رونا تو دہائیوں سے جاری ہے لیکن گزشتہ چند برسوں میں سرکاری سکولز کی ابتر حالت یہاں پرھانے والے بچوں کے والدین کو خون کے آنسو  رلا رہی ہے ، آج صبح میرے ایک دوست صحافی فہیم نے ایک ویڈیو بجھوائی جس میں دو خواتین سکول ٹیچر سے فیس نہ دینے پر بچوں کو نکالنے کی دھمکی پر جھگڑا کر رہی تھیں ان خواتین کا موقف تھا کہ کھانے کو آٹا نہیں ، بجلی کے بل دینے کو پیسے نہیں دوائی…
0 notes
googlynewstv · 7 months ago
Text
توجہ کا معجزہ
تحریر:جاوید چودھری۔۔۔۔۔۔۔روزنامہ ایکسپریس ڈاکٹر صاحب نے ہنس کر جواب دیا ’’میرے پاس کوئی کرشمہ‘ کوئی معجزہ نہیں‘ میں دوائیں بھی بازار سے خریدتا ہوں‘ اپنی کوئی دواء نہیں بناتا اور نسخے بھی پرانے ہیں لیکن اس کے باوجود اللہ کا کرم ہے لوگوں کو مجھ سے شفاء ہو جاتی ہے‘‘میں نے پوچھا ’’لیکن کیسے؟ اگر ساری چیزیں نارمل ہیں‘ آپ کی اسٹڈی بھی نارمل ہے‘ ادویات بھی مارکیٹ کی ہیں اور آپ خود بھی مکمل دنیا دار ہیں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
my-urdu-soul · 13 days ago
Text
کس لیے دشت میں گھر کوئی بنایا جائے
پاس کیا ہے جو فصیلوں میں چھپایا جائے
میں جزیرہ ہوں مری پیاس بجھانے کے لیے
اک سمندر مرے اطراف بچھایا جائے
کسی صحرا میں بہا جائے ندی کی صورت
ابر بن کر کسی کہسار پہ چھایا جائے
روز چٹکے کسی امید کا غنچہ دل میں
روز پلکوں پہ کوئی خواب سجایا جائے
دکھ سے جلتے ہوئے اس دور میں جینے سے بڑا
معجزہ کونسا دنیا کو دکھایا جائے
بات کیا ہے کہ بایں خواری و آشفتہ دلی
چھوڑ کر ہم سے ترا شہر نہ جایا جائے
روشنی ہوں تو کہا جائے چراغ منزل
سنگ ہوں تو مجھے رستے سے ہٹایا جائے
پوچھتے رہتے ہیں یہ لوگ نہ جانے کیا کیا
ہم سے تو نام بھی اپنا نہ بتایا جائے
رہ گئی ہے یہی اک ہم سفری کی صورت
بوجھ ہو خواہ کسی کا بھی اٹھایا جائے
ہائے یہ دھوپ مچاتا ہوا ساون جس سے
کسی چٹان پہ سبزہ نہ اگایا جائے
آج مر جاؤں اگر میں تو عجب کیا خاورؔ
سو برس بعد مرا سوگ ��نایا جائے
(بدیع الزماں خاور)
9 notes · View notes
wordsbyhisheart · 2 months ago
Text
Allah Almighty has bestowed Mu’jizah (miracle) on every Prophet; and our Beloved Prophet صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم has been blessed with the most number of Mu’jizaat. In fact, he is an embodiment of Mu’jizaat.
The word ‘معجزہ’ literally means something that makes anyone powerless. Mu’jizah is to demonstrate something in a supernatural way and contrary to apparent means. In other words, a Mu’jizah occurs without any means that exist in our world and such type of action cannot take place as a matter of routine. For example, someone gestures towards the ground and water-spring emerges out of it.
7 notes · View notes
uma1ra · 1 year ago
Text
Amazing miracle of nature. An unborn child was found after 37 days in the rubble of a house destroyed by bombing in Gaza.
قدرت کا حیران کن معجزہ ۔۔۔ غزہ میں اسرائیلی بمباری سے مسمار شدہ گھر کے ملبہ سے 37 دن بعد نومولود بچہ زندہ مل گیا ۔۔۔ کیا تاریخ انسانی کے ان بدترین وح��یانہ مظالم کے باوجود مسلمان خواب غفلت میں مدہوش رہیں گے ؟
12 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 8 months ago
Text
یہی مختصر عشق کی داستاں ہے
جو ہے بات ہم میں وہ تم میں کہاں ہے
سر حسن چوکھٹ پہ میری جھکا ہے
یہ زندہ میرے عشق کا معجزہ ہے
3 notes · View notes
hasnain-90 · 6 months ago
Text
معجزہ ہے کہ دل کی نگری میں لوگ مر کے بھی جیتے رہتے
ہیں 🥀
3 notes · View notes
sufiblackmamba · 1 year ago
Text
آنکھوں سے خواب دل سے تمنا تمام شد
تم کیا گئے کہ شوقِ نظارہ تمام شد
کل تیرے تشنگاں سے یہ کیا معجزہ ہوا
دریا پہ ہونٹ رکھے تو دریا تمام شد
دنیا تو ایک برف کی سِل سے سوا نہ تھی
پہنچی دکھوں کی آنچ تو دنیا تمام شد
شہرِ دلِ تباہ میں پہنچوں تو کچھ کھلے
کیا بچ گیا ہے راکھ میں اور کیا تمام شد
ہم شہرِ جاں میں آخری نغمہ سنا چکے
سمجھو کہ اب ہمارا تماشا تمام شد
4 notes · View notes
discoverislam · 26 days ago
Text
نعمتِ خداوندی اور انسانی رویّے
Tumblr media
حضرت صہیبؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ بندۂ مومن کا بھی عجیب حال ہے کہ اس کے ہر حال میں خیر ہی خیر ہے اور یہ بات کسی کو حاصل نہیں سوائے اس بندۂ مومن کے کہ اگر اسے کوئی تکلیف بھی پہنچی تو اسے نے شکر کیا تو اس کے لیے اس میں بھی ثواب ہے اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچا اور اس نے صبر کیا تو اس کے لیے اس میں بھی ثواب ہے۔‘‘ ( صحیح مسلم) شُکر کی تعریف: شُکر کے لغوی معنی نعمت دینے والے کی نعمت کا اقرارِ کرنا اور کسی کی عنایت یا نوازش کے سلسلے میں اس کا احسان ماننے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر ﷲ کے شُکر سے مراد ﷲ کی بے پایاں رحمت، شفقت، ربوبیت، رزاقی اور دیگر احسانات کے بدلے میں دل سے اٹھنے والی کیفیت و جذبے کا نام ہے۔ انسان جب شعور کی نگاہ سے انفس و آفاق کا جائزہ لیتا ہے تو اسے اپنا وجود، اپنی زندگی اور اس کا ارتقاء ایک معجزہ نظر آتا ہے۔ وہ اپنے اندر بھوک، پیاس، تھکاوٹ اور جنس کا تقاضا پاتا ہے تو خارج میں اسے ان تقاضوں کے لیے غذا، پانی، نیند اور جوڑے کی شکل میں اسباب کو دست یاب دیکھتا ہے۔
وہ دیکھتا ہے کہ ساری کائنات اس کی خدمت میں لگی ہوئی ہے تاکہ اس کی زندگی کو ممکن اور مستحکم بنا سکے۔ چناں چہ وہ ان اسباب کے فراہم کرنے والے خدا کے احسانوں کو پہچانتا اور دل سے اس کا شکر ادا کرتا ہے۔ یہی ابتدائی مفہوم ہے ﷲ کے شکر کا۔ پھر جوں جوں یہ معرفت ارتقاء پذیر ہوتی ہے تو اس تشکر کی گہرائی اور صورتوں میں ارتقاء ہوتا چلا جاتا ہے۔ اجتماعی نعمتوں پر شُکر کی وجوہات: اجتماعی شکر کرنے کی پہلی وجہ ﷲ تعالیٰ کی بے پایاں شفقت اور رحمت ہے جو اس نے انسان کے ساتھ کی ہے۔ صفات رحم و کرم ﷲ تعالیٰ کا مخلوق کے ساتھ انتہائی مہربانی، شفقت، رحم، نرم دلی اور سخاوت اور بخشش کا اظہار ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا کیا، ان میں تقاضے پیدا کیے اور پھر ان تقاضوں کو انتہائی خوبی کے ساتھ پورا کرتے ہوئے اپنی رحمت، لطف اور کرم نوازی کا اظہار کیا۔ چناں چہ کبھی وہ مخلوق پر محبت اور شفقت نچھاور کرتا نظر آتا ہے تو کبھی مخلوق کی بات سنتا، ان کی غلطیوں پر تحمل سے پیش آتا، ان کی خطاؤں سے درگزر کرتا، نیکو کاروں کی قدر دانی کرتا اور اپنی حکمت کے تحت انہیں بے تحاشا نوازتا دکھائی دیتا ہے۔
Tumblr media
یہی نہیں بل کہ ایک بندہ جب مشکل میں گرفتار ہوتا تو وہ اس کے لیے سلامتی بن جاتا، اسے اپنی پناہ میں لے لیتا، اس کی مشکلات کے سامنے ڈھال بن جاتا، آگے بڑھ کر اس کی مدد کرتا اور گھٹا گھوپ اندھیروں میں ہدایت کا نور بن جاتا ہے۔ یہی لطف و کرم ﷲ کا پہلا تعارف ہے جو انسان کو اس کے سامنے جھکاتا، اس کا احسان مند بناتا اور اسے شُکر پر مجبور کرتا ہے۔ اجتماعی شکر کی دوسری وجہ خدا کی صفت ربوبیت ہے۔ ﷲ تعالیٰ کی ربوبیت کا مفہوم یہ ہے کہ ﷲ مخلوقات کو پیدا کر کے ان سے غافل نہیں ہو گیا۔ بلکہ دن رات ان کو ہر قسم کی سہولت فراہم کر رہا ہے ۔ وہ زندگی کے لیے آکسیجن، حرارت کے لیے سورج کی روشنی، نشو و نما کے لیے سازگار ماحول، جسمانی نمو کے لیے غذا اور ذائقے کی تسکین کے لیے انواع و اقسام کے میوے اور پھل بنا کر اپنی ربوبیت و رزاقیت کا اظہار کر رہا ہے۔ اسی طرح وہ ایک نومولود کو ماں کے پیٹ میں ایک سازگار ماحول اور رزق فراہم کرتا، دنیا میں آتے ہی ماں کی گود میں اس کی نشو و نما کا بندوبست کرتا اور دنیا کے ماحول کو اس کی خدمت میں لگا دیتا ہے۔
انفرادی نعمتوں پر شُکر کی وجوہات: اجتماعی شکر کے ساتھ ساتھ انفرادی طور پر شکر کرنے کی بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، کیوں کہ ﷲ تعالیٰ ہر بندے کے ساتھ انفرادی معاملہ کرتے اور خاص طور پر اسے اپنی نعمتوں سے نوازتے ہیں تاکہ اسے شکر کے امتحان میں ڈال کر آزمائیں۔ انفرادی طور پر شکر کرنے کے درج ذیل مواقع یا وجوہات ہو سکتی ہیں : ٭ مال اور جائیداد میں فراوانی پر شکر ۔ یعنی نقدی، بنک بیلنس، مکان، جائیداد، مویشی اور نعمتوں کی دیگر صورتوں میں فراوانی پر ﷲ کا شکر ادا کرنا۔ ٭ اولاد میں کثرت یا حسب توقع اولاد کے حصول میں کامیابی پر ﷲ کا شکر گزار ہونا۔ ٭ بہتر اور اعلی میعار زندگی پر تشکر۔ یعنی ایسی زندگی جس میں مادی و روحانی دونوں پہلوؤں سے سکون حاصل ہو۔ ٭ صحت کی بہتری پر تشکر۔ صحت میں تمام اعضاء کی سلامتی، بیماری سے حفاظت، یا بیماری سے صحت یابی، کسی بھی جسمانی معذوری سے مبراء ہونا وغیرہ شامل ہیں۔
٭ ماں باپ کا سایہ سر پر موجود ہونے پر ﷲ کا شکر گزار ہونا۔ ٭ تعلیم میں اضافے پر شکر گزار ہونا۔ ٭ غیر معمولی ظاہری حسن پر تشکر کرنا۔ ٭ اچھے حافظہ اور عقل پر شکر گزار ہونا۔ ٭ شہرت اور عزت حاصل ہو نے پر تشکر کرنا۔ ٭ کسی مصیبت یا بیماری سے نجات پانے پر شکر گزار ہونا۔ ٭ کسی گناہ سے بچنے پر یا نیکی کرنے پر شکر کا اظہار کرنا۔ ٭ نعمت کا کسی اور صورت میں ملنے پر شکر کرنا۔ شکر کے امتحان کی آفات: شکر کے امتحان سے مراد یہ ہے کہ ﷲ نے ایک شخص کے لیے آسانیاں اور نعمتیں رکھی ہوئی ہیں اور وہ بہ حیثیت مجموعی جسمانی، روحانی، نفسیاتی یا دیگر تکالیف سے محفوظ ہے۔ شکر کے امتحان میں درج ذیل مشکلات و آفات پیش آسکتی ہیں: نعمت کو آزمائش کے بہ جائے خدا کا انعام سمجھ لینا: اگر کسی شخص پر نعمتوں کی بارش ہو رہی ہو تو اس کا نفسیاتی اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ ان نعمتوں کو خدا کی رضا سمجھ بیٹھتا ہے اور وہ اس مغالطے میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ ﷲ اس سے راضی ہے۔ حالاں کہ نعمتوں کا اس دنیا میں عطا کیا جانا آزمائش کے اصول پر ہے ناکہ خدا کی رضا اور ناراضی پر۔
تکبر: خدا کی نعمتیں اگر تواتر کے ساتھ ملتی رہیں تو انسان عام طور پر خود کو دوسروں سے برتر محسوس کرتا ہے۔ یہ برتری کا احساس ایک حد سے بڑھ جائے تو تکبّر میں تبدیل ہو جاتا ہے، حالاںکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ نعمتیں محض آزمائش کے لیے دی گئی ہیں۔ نعمتوں کو حق سمجھ لینا: شکر کے امتحان کی ایک اور آفت یہ ہے کہ انسان ملنے وال�� نعمتوں کو ��پنا حق سمجھ لیتا ہے کہ یہ نعمتیں تو اسے ملنا ہی چاہیے تھیں۔ جب یہ سوچ پیدا ہو جاتی ہے ان نعمتوں کو انسان ایک معمول کی شے سمجھ لیتا ہے ۔ یوں وہ ان کا عادی ہو جاتا اور شکر کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ نعمتوں کو معمولی و حقیر جاننا: جب انسان تواتر کے ساتھ کسی نعمت کو استعمال کرتا ہے تو وہ انہیں معمولی اور حقیر سمجھنے لگتا ہے بلکہ وہ انہیں نعمت کی حیثیت سے قبول کرنے کی صلاحیت ہی کھو بیٹھتا ہے۔ مثال کے طور پر آنکھیں بڑی نعمت ہیں۔ لیکن ان آنکھوں کا استعمال دن اور رات تواتر ہونے کی بنا پر انسان بینائی کی نعمت کو سراہنے سے قاصر رہ جاتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کی جانب ایک نگاہ ڈالیں جو ان انمول نعمتوں سے محروم ہیں۔ اس کے لیے سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کی ضرورت ہے۔
شکر کرنے کے طریقے: شکر کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ ایک شخص اپنے ذوق، حالات اور ماحول کے مطابق ان مختلف طریقوں کا انتخاب کر سکتا ہے۔ زبان سے شکر: شکر کرنے کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ زبان سے ﷲ کا شکر ادا کیا جائے۔ جب دل میں کسی نعمت کی ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے تو اس کا اظہار سب سے پہلے زبان ہی سے ہوتا ہے۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ عربی میں ہی شکر ادا کیا جائے۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ اپنے الفاظ میں شکر گزاری کی کیفیت کو بیان کر دیا جائے۔ البتہ کبھی کبھی اگر پیغمبر کائنات ﷺ کی مانگی ہوئی شکر گزاری کی دعاؤں پر بھی غور کر لیا جائے تو شکر گزاری کے کئی مضامین ذہن میں آجائیں گے۔ نماز کے ذریعے شکر: ﷲ کی نعمتوں کی شکر گزاری کا ایک اور مسنون طریقہ یہ ہے کہ نعمت کے ملنے پر دو رکعت نماز شکرانے کی ادا کی جائے۔ اس میں طویل قیام اور لمبے سجدے کیے جائیں اور خدا کا شکر ادا کیا جائے۔ روزے یا انفاق کے ذریعے شکر: شکر گزاری کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ روزہ رکھا جائے یا ﷲ کی راہ میں مال خرچ کیا جائے۔
عمل کو خدا کی مرضی کے تابع کرنے کے ذریعے شکر: سب سے مشکل لیکن مؤثر طریقہ یہ ہے کہ اپنی مرضی کو خدا کی مرضی کے تابع کرنے کی کوشش کی جائے، اپنی خواہش کو خدا کے حکم کے تحت فنا کیا جائے۔ یہ شکر گزار ی کی حقیقی صور ت یہ ہے کہ اپنے منعم کے احسانات پر ممنون ہوتے ہوئے اس کی کامل اطاعت کی جائے۔ بندوں کی مدد کے ذریعے شکر: ﷲ کے بندوں کی مدد کر کے بھی ﷲ کی عطا کردہ نعمتوں پر شکر گزاری اختیار کی جاسکتی ہے۔ ناشکری سے بچنے کی تدابیر: ناشکری سے بچنے کے لیے درج ذیل ہدایات کو غور سے پڑھیں۔ ٭ کائنات پر غور و فکر کر کے ﷲ کے احسانات تلاش کرِیں اور اس پر ﷲ کا شکر ادا کریں۔
٭ اپنے نفسیاتی، مادی اور دیگر تقاضوں اور کم زوریوں پر غور کریں اور ان کی تکمیل پر ﷲ کے شکر گزار رہیں۔ ٭ جب کوئی غیر معمولی نعمت (جیسے بیماری کے بعد صحت وغیرہ) ملے تو اس پر ﷲ کا شکر ادا کریں اور وقت گزرنے کے ساتھ انہیں اپنی یاد میں تازہ کریں اور ﷲ کے احسان مند ہوں۔ ٭ ہمیشہ نعمتوں کا موازنہ کرتے وقت اپنے سے نیچے والوں پر غور کریں تاکہ ﷲ کے شکر کی عادت پیدا ہو۔ ٭ چوبیس گھنٹوں میں سے دس پندرہ منٹ خدا کی نعمتوں اور احسانات پر غور کرنے کے لیے نکالیں۔ ﷲ تعالیٰ ہمیں بھی صحیح شکر ادا کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین 
مولانا رضوان اللہ  
0 notes
mnaasilveira · 2 months ago
Link
0 notes
risingpakistan · 4 months ago
Text
غزہ تین سو پینسٹھ دن بعد
Tumblr media
غزہ ایک برس بعد محض اکتالیس کلومیٹر طویل، چھ تا بارہ کلومیٹر چوڑی جغرافیائی پٹی سے اوپر اٹھ کے پورے عالم کی آنکھوں پر بندھی خونی پٹی میں بدل چکا ہے۔ یوں سمجھئے سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کے آدھے رقبے پر سال بھر میں اتنا بارود فضا سے گرا دیا جائے جس کی طاقت ہیروشیما پر برسائے جانے والے چار ایٹم بموں کے برابر ہو تو سوچئے وہاں کیا کیا اور کون کون بچے گا ؟ پہلی اور دوسری عالمی جنگ سے لے کے ویتنام ، عراق اور افغانستان تک اتنے چھوٹے سے علاقے پر اتنی کم مدت میں اتنا بارود آج تک نہیں برسا۔ گزرے ایک برس میں غزہ کی دو فیصد آبادی مر چکی ہے۔ ایک لاکھ سے زائد زخمی ہیں۔ جتنے مر چکے لگ بھگ اتنے ہی لاپتہ ہیں۔ گمان ہے کہ وہ ملبے تلے دبے دبے انجر پنجر میں بدل چکے ہیں یا ان میں سے بہت سے بھوکے جانوروں کا رزق ہو چکے ہیں۔ بے شمار بچے بس چند گھنٹے پہلے پیدا ہوئے اور بم ، گولے ، گولی یا دھمک سے مر گئے۔ جانے پیدا ہی کیوں ہوئے ؟ یہ سب کے سب اسرائیل کے عسکری ریکارڈ میں دھشت گرد ہیں اور جو زندہ ہیں وہ بھی دھشت گرد ہیں اور جو ماؤں کے پیٹ میں ہیں وہ بھی دھشت گرد ہیں۔
اس ایک برس میں غزہ کے لیے نہ پانی ہے ، نہ بجلی، نہ ایندھن۔ نہ کوئی اسپتال یا کلینک، اسکولی عمارت، لائبریری ، سرکاری دفتر ، میوزیم سلامت ہے۔ نہ دوکان ، درخت اور کھیت نظر آتا ہے۔ نہ کہیں بھاگنے کا رستہ ہے اور نہ ہی پیٹ بھر خوراک ہے۔ نہ ہی کوئی ایک سائبان ہے جسے محفوظ قرار دیا جا سکے۔ اسی فیصد مساجد ، گرجے اور چالیس فیصد قبرستان آسودہِ خاک ہو چکے ہیں۔ منطقی اعتبار سے ان حالات میں اب تک غزہ کی پوری آبادی کو مر جانا چاہیے تھا۔ مگر تئیس میں سے بائیس لاکھ انسانوں کا اب تک سانس لینا زندہ معجزہ ہے۔ اے ثابت قدمی تیرا دوسرا نام فلسطین ہے۔ ان حالات میں حماس سمیت کسی بھی مسلح تنظیم کے پرخچے اڑ جانے چاہیے تھے یا جو بچ گئے انھیں غیرمشروط ہتھیار ڈال دینے چاہیے تھے۔پوری آبادی گیارہ مرتبہ تین سو پینسٹھ مربع کلومیٹر کے پنجرے کے اندر ہی اندر اب تک سترہ بار نقل مکانی کر چکی ہے۔ غزہ شہر ، خان یونس ، رفاہ اور ناصریہ ریفیوجی کیمپ چار چار بار کھنڈر کیے جا چکے ہیں۔ مگر آج بھی وہاں سے راکٹ اڑ کے اسرائیل تک پہنچ رہے ہیں۔
Tumblr media
مقبوضہ مغربی کنارے پر بھی نہتے فلسطینیوں کے خلاف جون انیس سو سڑسٹھ کے بعد پہلی بار جنگی ہیلی کاپٹروں اور طیاروں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ کل ملا کے بیس ہزار فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔ موت ہو کہ قید ، بچے ، جوان ، بوڑھے ، عورت ، مرد سب برابر ہیں۔ مگر غزہ مرا نہیں بلکہ ایک آہ بن گیا ہے۔ اس آہ نے نہر سویز کی بحری ٹریفک خشک کر دی ہے۔ یمن سے گزر کے بحرہند سے ملنے والا بحیرہ قلزم تجارتی جہازوں کے لیے پھندہ بن گیا ہے۔ یمن پر پہلے برادر عرب بھائیوں نے پانچ برس تک مسلسل بمباری کی اور اب امریکا ، برطانیہ اور اسرائیل بمباری کر رہے ہیں مگر پھر بھی وہاں سے ڈرون اور میزائل اڑ اڑ کے اسرائیلی بندرگاہ ایلات اور تل ابیب تک پہنچ رہے ہیں۔ شمالی اسرائیل کے سرحدی علاقے حزب اللہ کی راکٹ باری کے سبب سنسان ہیں اور جنوبی لبنان میں اسرائیل کے زمینی دستے گھسنے کے باوجود کسی ایک گاؤں پر بھی قبضہ نہیں کر سکے ہیں۔ غزہ اور بیروت میں جو بھی تباہی پھیل رہی ہے وہ امریکی بموں سے لیس منڈلاتے اسرائیلی طیاروں کے ذریعے پھیل رہی ہے۔
اسرائیل نے حماس اور حزب اللہ کی بالائی قیادت کا تقریباً صفایا کر دیا ہے۔ پھر بھی مغرب کی لامحدود پشت پناہی ہوتے ہوئے وہ غزہ یا لبنان میں اپنا ایک بھی عسکری ہدف حاصل نہیں کر پایا۔ عالمی عدالتِ انصاف ہو کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی یا انسانی حقوق سے متعلق کوئی بھی مقامی یا بین الاقوامی تنظیم۔ سب کے سب اسرائیل کو الٹی چپل دکھا رہے ہیں۔ مغربی میڈیا کی بھرپور یکطرفہ کوریج کے باوجود دنیا بھر کی سڑکوں اور یونیورسٹی کیمپسوں میں اسرائیل اپنی مظلومیت کا مزید منجن بیچنے سے قاصر ہے۔ جھنجھلاہٹ سے باؤلا ہونے کے سبب کبھی وہ عالمی عدالتِ انصاف کو دیکھ کے مٹھیاں بھینچتا ہے اور کبھی پوری اقوامِ متحدہ کو یہود دشمنی کا گڑھ قرار دیتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے اسرائیل میں داخلے پر پابندی اسرائیلی بیانیے کے تابوت میں آخری کیل ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ آئرن ڈوم کے سبب اسرائیل فضا سے آنے والے راکٹوں اور میزائلوں سے بہت حد تک بچ رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ اسے امریکا ، برطانیہ اور فرانس سمیت سلامتی کونسل کے پانچ میں سے تین ارکان کی اندھی حمائیت میسر ہے۔
یہ بھی تسلیم کہ کل کا یہود کش جرمنی آج اسرائیل کا اندھ بھگت بن کے اپنے تاریخی احساِسِ جرم کا قرض مرکب سود سمیت چکا رہا ہے۔ مگر انسانیت سوز جرائم کے انسداد کی عالمی عدالت کے نزدیک اسرائیلی قیادت جنگی مجرم ہے اور وہ اس وقت سوائے چار پانچ ممالک کے کہیں بھی نہیں جا سکتی۔ کیونکہ جنگی ملزموں کی گرفتاری میں تعاون ہر اس ملک کا قانونی فرض ہے جو عالمی عدالت برائے انسانی جرائم کے وجود کو باضابطہ تسلیم کر چکا ہے۔ وہ بوڑھے بھی اب باقی نہیں رہے جنھیں یہودیوں پر ہٹلر کے مظالم یاد تھے۔ آج کا لڑکا اور لڑکی تو ہٹلر کے روپ میں صرف نیتن یاہو کو جانتا ہے۔ آخر یہودیوں کی اسی برس ��رانی نسل کشی کی ہمدردی تاقیامت ہر نسل کو پرانی تصاویر دکھا دکھا کے تو نہیں سمیٹی جا سکتی۔وہ بھی تب جب خود کو مظلوم کہہ کر ہمدردیاں سمیٹنے کا عادی اسرائیل عملاً نازی جرمنی کا دوسرا جنم ثابت ہو رہا ہو۔ اس ایک برس میں غزہ نے نہ صرف مغرب اور مغربی میڈیا کو ننگا کر دیا بلکہ خلیجی ریاستوں اور اسرائیل کے مابین ہونے والے معاہدہ ِ ابراہیمی کے ٹائروں سے بھی ہوا نکال دی۔ اخلاقی دباؤ اس قدر ہے کہ سعودی عرب نے بھی اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کا ارادہ فی الحال طاق پر دھر دیا ہے۔
اگرچہ ایران کے سیکڑوں میزائلوں نے مادی اعتبار سے اسرائیل کا کچھ نہیں بگاڑا۔مگر اتنا ضرور ہوا کہ ایران کے مدِ مقابل عرب حکومتوں نے اسرائیل ایران دنگل میں غیر جانبدار رہنے کا اعلان کر دیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اگر دو چار میزائل ’’ غلطی ‘‘ سے سمندر کے پرلی طرف نظر آنے والی آئل ریفائنریوں یا تیل کے کنوؤں یا کسی ڈیوٹی فری بندرگاہ پر گر گئے اور غلطی سے دنیا کے بیس فیصد تیل کی گزرگاہ آبنائے ہرمز میں دوچار آئل ٹینکر ڈوب گئے تو پھر کئی ریاستوں اور خانوادوں کے بوریے بستر گول ہو سکتے ہیں۔ نیتن یاہو کے بقول یہی سنہری موقع ہے خطے کا نقشہ بدلنے کا۔ نیتن یاہو کا یہ خواب بس پورا ہی ہوا چاہتا ہے۔ یہ خطہ عنقریب ایسا بدلنے والا ہے کہ خود اسرائیل چھوڑ امریکا سے بھی نہ پہچانا جاوے گا۔ پچھتر برس پہلے جس جن کو بوتل میں بند کیا گیا۔ بند کرنے والوں کے ہاتھوں سے وہ بوتل اچانک چھوٹ چکی ہے۔
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note · View note
painfully-your · 4 months ago
Text
ایک دعا ہے جس کی تمنا دل سے نہیں جاتی۔
ایک دعا ہے جس کی قبولیت کا شک نہیں ہے۔
ایک دعا ہے جس کی قبولیت کا یقین ہے۔
ایک دعا ہے جو اس دنیا کی حقیقتوں سے ناممکن لگتی ہے۔
ایک دعا ہے جس کی منظوری ایک معجزہ لگتی ہے۔
ایک دعا ہے جو شائد میں مانگنا چھوڑ چکا ہوں-
ایک دعا ہے جو شائد میں ہمیشہ مانگتا رہوں-
اور وہ دعا تم ہو میرے دل۔
وہ دعا تم ہو۔۔۔۔
0 notes
smartonlinepk · 5 months ago
Video
youtube
"حضرت سلیمانؑ کا معجزہ اور جدید سائنس: قرآن میں ٹیلیپورٹیشن کا راز"
0 notes
my-urdu-soul · 8 months ago
Text
جو اتر کے زینۂِ شام سے تیری چشم ِخوش میں سما گئے
وہی جلتے بجھتے سے مہر و ماہ میرے بام و در کو سجا گئے
یہ عجیب کھیل ہے عشق کا میں نے آپ دیکھا یہ معجزہ
وہ جو لفظ میرے گماں میں تھے وہ تیری زبان پر آگئے
وہ جو گیت تم نے سنا نہیں میری عمر بھر کا ریاض تھا
میرے درد کی تھی داستاں جسے تم ہنسی میں اڑا گئے
وہ چراغ ِجاں کبھی جس کی لو نہ کسی ہوا سے نگوں ہوئی
تیری بیوفائی کے وسوسے اسے چپکے چپکے بجھا گئے
وہ تھا چاند شام ِوصال کا کہ تھا روپ تیرے جمال کا
میری روح سے میری آنکھ تک کسی روشنی میں نہا گئے
یہ جو بندگان ِنیاز ہے یہ تمام ہیں وہ لشکری
جنہیں زندگی نے اماں نہ دی تو تیرے حضور میں آ گئے
تیری بے رخی کے دیار میں میں ہوا کے ساتھ ہَوا ہوا
تیرے آئینے کی تلاش میں میرے خواب چہرہ گنوا گئے
تیرے وسوسوں کے فشار میں تیرا شرار ِرنگ اجڑ گیا
میری خواہشوں کے غبار میں میرے ماہ و سال ِوفا گئے
وہ عجیب پھول سے لفظ تھے تیرے ہونٹ جن سے مہک اٹھے
میرے دشتِ خواب میں دور تک کوئی باغ جیسے لگا گئے
میری عمر سے نہ سمٹ سکے میرے دل میں اتنے سوال تھے
تیرے پاس جتنے جواب تھے تیری اک نگاہ میں آ گئے
- امجد اسلام امجد
15 notes · View notes
moizkhan1967 · 7 months ago
Text
Tumblr media
جو اُتر کے سینہِ شام سے میری چشمِ خوش میں سما گئے
وہی جلتے بجھتے سے مہروماہ میرے بام و در کو سجا گئے
یہ عجیب کھیل ہے عشق کا، میں نے آپ دیکھا یہ معجزہ
جو لفظ میرے گماں میں تھے، وہ تیری زباں پہ آگئے
وہ چراغِ جاں کبھی جسکی لو، نہ کسی ہوا سے نگوں ہوئی
تیری بے وفائی کے وسوسے اُسے چپکے چپکے بجھا گئے
وہ تھا چاند شامِ وصال کا کہ تھا رُوپ تیرے جمال کا
میری رُوح سے میری آنکھ تک، کسی روشنی میں نہا گئے
یہ ��و بندگانِ ناز ہیں، یہ تمام ہیں وہی لشکری
جنہیں زندگی نے پناہ نہ دی، تو تیرے حضور میں آگئے
تیری بے رُخی کے دیار میں، میں ہَوا کے ساتھ ہَوا ہُوا
تیرے آئینے کی تلاش میں میرے خواب چہرا گنوا گئے
تیرے وسوسوں کے فشار میں، تیرا شرارِ رنگ اُجڑ گیا
میری خواہشوں کے غُبار میں، میرے ماہ و سال وفا گئے
میری عمر سے نہ مٹ سکے، میرے دل میں اِتنے سوال تھے
تیرے پاس جتنے جواب تھے، تیری اِک نگاہ میں آگئے
وہ جو گیت تم نے سُنا نہیں، میری عمر بھر کا ریاض تھا
میرے درد کی تھی وہ داستاں، جسے تم ہنسی میں اُڑا گئے
امجد اسلام امجد
1 note · View note
urdu-poetry-lover · 9 months ago
Text
میں معجزہ ہوں وفاؤں کی بیکرانی کا
ابھی ہے وقت ، ابھی اور آزماؤ مجھے
اداؔ جعفری
3 notes · View notes