#مسلم لیگ (ن)
Explore tagged Tumblr posts
Text
مطیع اللہ جان کو غلط مقدمے میں گرفتار کیا گیا ، سعد رفیق
مسلم لیگ ن کےرہنما خواجہ سعد رفیق نےکہا ہےکہ مطیع اللہ جان کوجس مقدمےمیں گرفتار کیا گیا اسے ثابت کرنا ناممکن ہوگا۔ ایک بیان میں سابق وزیر خواجہ سعد رفیق نےکہا کہ مطیع اللہ جان کوپولیس پرحملے اور آئس رکھنے کےالزام میں گرفتار کیےجانےکامقدمہ ثابت کرنا ناممکن ہوگا، اگران پر فیک نیوز کا الزام ہےتومقدمہ بھی اسی الزام کےتحت درج کیا جاتا۔ گورنر راج سے نہیں ڈرتے، وفاق میں ہمت ہے تو لگا کر دکھائے : علی…
0 notes
Text
مریم نواز سے 7 آزاد ارکان پنجاب اسمبلی کی ملاقات
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر مریم نواز شریف سے 7 نومنتخب ارکان پنجاب اسمبلی نے ملاقات کی۔ ملاقات کرنے والوں میں پی پی 240 بہاولنگر سے سہیل خان، پی پی 48 سیالکوٹ سے خرم ورک، پی پی 249 احمد پور شرقیہ سے شہزادہ گزین عباسی ، راجن پور سے خضر مزاری، پی پی 96 چنیوٹ سے ذوالفقار علی شاہ، پی پی 49 پسرور سے رانا فیاض اور پی پی 97 چنیوٹ سے ثاقب چدھڑ شامل تھے۔ مریم نواز شریف نے آزاد…
View On WordPress
0 notes
Text
مسلم لیگ (ن) نے چینی بحران کا ذمہ دار پیپلزپارٹی کو قرار دے دیا
اسلام آباد: ملک میں چینی کے بحران اور بڑھتی قیمتوں پر پی ڈی ایم جماعتوں نے ایک دوسرے کیخلاف محاذ کھول لیا۔ سابق وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ چینی برآمد کرنے کا فیصلہ وزارت تجارت نوید قمر کا تھا، بحران کے بارے میں اُن سے ہی پوچھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن اتحادی حکومت (پی ڈی ایم) کے ہر فیصلے کا بوجھ اٹھا نہیں سکتی۔ دوسری جانب سابق وزیر تجارت اور پی پی رہنما نوید قمر…
View On WordPress
0 notes
Text
پی ٹی آئی کا ووٹ بینک کہاں جائے گا؟
9 مئی کو ہونے والی ہنگاموں کے ملکی سیاست پر فوری اور اہم نتائج سامنے آئے۔ 9 مئی کو ہونے والے پُرتشدد واقعات چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جاری تصادم کی ایک کڑی تھے جس کے نتیجے میں ملک بھر میں پی ٹی آئی کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوا۔ پھر یہ جماعت بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا شروع ہو گئی کیونکہ اس کے زیادہ تر رہنماؤں اور سابق اراکینِ پارلیمنٹ نے منظم عمل کے تحت پارٹی سے استعفے دینا شروع کر دیے اور یہ عمل اب بھی جاری ہے۔ تمام منحرف اراکین نے ایک ہی اسکرپٹ دہرائی جس میں انہوں نے فوجی تنصیبات پر حملے کی مذمت کی اور پارٹی کو اشتعال انگیزی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے پارٹی سے علحیدگی اختیار کی۔ حکمران اتحاد کی جانب سے چیئرمین پی ٹی آئی پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ وزرا نے خبردار کیا ہے کہ 9 مئی کے واقعات کے ’ماسٹر مائنڈ‘ ہونے کے الزام پر انہیں فوجی عدالت میں مقدمے کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جبکہ ان کی جماعت پر پابندی بھی لگائی جاسکتی ہے۔ مشکل حالات کا شکار چیئرمین پی ٹی آئی جو اب متعدد عدالتی مقدمات کا بھی سامنا کررہے ہیں، انہوں نے سختی سے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
انہوں بڑے پیمانے پر ہونے والی گرفتاریوں اور جبری اقدمات کی مذمت کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی نے یہ دعویٰ کیا کہ پارٹی رہنماؤں کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اس کے باوجود اپنی سابقہ پوزیشن سے ڈرامائی انداز میں پیچھے ہٹتے ہوئے انہوں نے حکومت کو مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔ تاہم، وزیراعظم شہباز شریف نے ان کی اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور ان لوگوں کے ساتھ بات چیت کے امکان کو مسترد کر دیا ہے جنہیں انہوں نے ’انتشار پسند اور اشتعال پسند‘ قرار دیا جو ’سیاستانوں کا لبادہ اوڑھتے ہیں لیکن ریاستی تنصیبات پر حملہ کرتے ہیں‘۔ پی ٹی آئی کی ٹوٹ پھوٹ نے سیاسی منظرنامے کو ایک نئی شکل دینا شروع کر دی ہے۔ اگرچہ سیاسی صف بندی ممکنہ طور پر اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ انتخابات کا حتمی اعلان نہیں ہو جاتا، لیکن اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انتخابی صورت حال کیا ہو گی۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کا ووٹ بینک کہاں جائے گا؟ جہانگیر خان ترین کی جانب سے ایک ایسی پارٹی بنانے کی کوششیں جاری ہیں جو پی ٹی آئی چھوڑنے والے ’الیکٹ ایبلز‘ کو اپنی جانب متوجہ کرے اور ووٹرز کو ’تیسرا آپشن‘ مہیا کرے۔
تاہم جہانگیر ترین جیسے ایک ہوشیار سیاست دان اور متحرک کاروباری شخصیت کو اس طرح کا اہم کردار ادا کرنے کے لیے پہلے خود پر لگا نااہلی کا داغ ہٹانا ہو گا۔ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا کہ وہ پارٹی کے قیام میں کس حد تک کامیاب ہوں گے جبکہ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اگر انہوں نے پی ٹی آئی کے سابق ارکان کو شمولیت پر آمادہ کر لیا تو کیا وہ پی ٹی آئی کے ووٹرز کو بھی اپنے ساتھ لائیں گے۔ اس معاملے نے ملک کی انتخابی سیاست کو بہت زیادہ متحرک کر دیا ہے۔ پنجاب ایک ایسا میدانِ جنگ ہے جہاں سے جیتنے والی پارٹی ممکنہ طور پر وفاق میں حکومت بناتی ہے، اگر اس صوبے میں جماعتوں کے درمیان ووٹ بینک تقسیم ہو جاتا ہے تو مرکز میں کوئی بھی جماعت اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی اور ایک ایسی پارلیمنٹ وجود میں آئے گی جس میں کسی بھی پارٹی کے پاس واضح اکثریت نہیں ہو گی۔ کیا پی ٹی آئی کے ووٹرز یہ جانتے ہوئے بھی ووٹ ڈالنے آئیں گے کہ ان کی جماعت تتربتر ہو چکی ہے اور ان کے لیڈر کے خلاف قانونی مقدمات ہیں اس لیڈر کا اقتدار میں واپس آنے کا بہت کم امکان ہے؟ خاص طور پر اب جب نوجوان ووٹرز رائے دہندگان کا ایک بڑا حصہ ہیں تو اس صورتحال کا مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ پر گہرا اثر پڑے گا۔
اس بات کا امکان نہایت کم ہے کہ پی ٹی آئی کے سپورٹرز پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور مسلم لیگ (ن) جیسی دو روایتی پارٹیوں کی حمایت کرنے پر آمادہ ہوں، حالانکہ پی پی پی نے جنوبی پنجاب میں منحرف ووٹرز کو اپنی جانب راغب کیا ہے۔ آخر ان دونوں جماعتوں کو مسترد کرنے کے بعد ہی پی ٹی آئی کو لوگوں نے سپورٹ کرنا شروع کیا۔ کیا جہانگیر ترین کی نئی جماعت انہیں اپنی جانب راغب کر پائے گی؟ یہ بات بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ ماضی میں ووٹروں نے وفاداریاں تبدیل کرنے والے امیدواروں کو ووٹ دینے سے گریز کیا ہے۔ تو اگر پی ٹی آئی کا ووٹ تقسیم ہوتا ہے تو کیا اس سے روایتی جماعتوں میں سے کسی ایک کو فائدہ پہنچے گا؟ اس وقت بہت زیادہ غیر یقینی پائی جاتی ہے خاص طور پر ایسے حالات میں کہ جب حکومت کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ چونکہ پارلیمنٹ کی مدت 16 اگست کو ختم ہو رہی ہے اس لیے انتخابات میں تاخیر نہیں ہو سکتی، اس وجہ سے جب انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو گا تو انتخابی اعداد و شمار سیاسی صف بندیوں کا تعین کرنا شروع کر دیں گے اور انتخابی مقابل�� کی نوعیت کے بارے میں تصویر واضح طور پر سامنے آئے گی۔
لیکن اس وقت کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے پالیسی پروگرامز یا ملک کے مستقبل کے حوالے سے وژن طے کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ ملک کو درپیش مسائل سے کیسے نمٹا جائے، اس حوالے سے کسی بھی سیاسی جماعت نے کوئی تجویز پیش نہیں کی ہے۔ سیاسی جماعتیں اقتدار کی کشمکش میں مصروف ہیں اور مستقبل کے لیے پالیسی منصوبے تیار کرنے کے بجائے اپنے سیاسی مخالفین کو زیر کرنے کی کوشش میں نظر آرہی ہیں۔ یہ غیریقینی کی صورتحال ہماری ملک کی سیاست کے لازمی جز کی طرح ہو چکی ہے۔ البتہ جو چیز یقینی ہے وہ ہے ہماری معیشت کا عدم استحکام۔ تمام معاشی اشاریے بدستور خراب ہوتے جا رہے ہیں جبکہ پی ڈی ایم کی حکومت میں ہماری معیشت تیزی سے زوال کی جانب جارہی ہے۔ حکومت کی طرف سے ڈیفالٹ کے امکانات رد کرنے کے باوجود ملک اب بھی اپنے قرضوں پر ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے بیل آؤٹ ملنے کے امکان بھی مبہم ہیں۔ وزیراعظم نے حال ہی میں آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا سے تعطل کا شکار پروگرام دوبارہ شروع کرنے کے حوالے سے بات کی۔
تاہم آئی ایم ایف نے تب تک اسٹاف لیول معاہدہ نہ کرنے کا کہا جب تک پاکستان اس مالی سال (جو 30 جون کو ختم ہو رہا ہے) کے اختتام تک اپنے کرنٹ اکاؤنٹ میں 6 بلین ڈالر کے خلا کو پُر کرنے کے لیے فنانسنگ کا بندوبست نہیں کر تا۔ ملک کے ذخائر تقریباً 4 ارب ڈالرز تک آگئے ہیں جو درآمدات پر عائد پابندیوں کے باوجود ایک ماہ سے بھی کم کی درآمدات کے لیے ہی پورے ہو سکتے ہیں۔ حکومت نے پاکستان میں ادائیگیوں کے توازن کے بدترین بحران کو ختم کرنے کے لیے درآمدی کنٹرولز لگانے ��یسے وقتی اقدامات کے ذریعے معیشت کو سنبھالنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے اقتصادی صورتحال پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ حالیہ مالی سال کے لیے سرکاری طور پر تخمینہ شدہ جی ڈی پی کی شرح نمو گزشتہ مالی سال کے 6 فیصد کے مقابلے میں 0.3 فیصد ہے۔ لیکن اس مایوس کن تعداد پر بھی سب کو یقین نہیں ہے۔ صنعتی شعبہ بھی 3 فیصد تک سکڑ گیا ہے جس کی وجہ سے بہت سے کاروبار بند ہو رہے ہیں، لوگوں کی ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں اور اشیا کی قلت پیدا ہو رہی ہے۔
گزشتہ سال آنے والے تباہ کُن سیلاب کے نتیجے میں ملک میں زرعی شعبے پر شدید اثرات مرتب ہوئے اور پیداوار میں واضح کمی دیکھی گئی ہے۔ درآمدات پر پابندیوں اور خام مال کی قلت کے باعث ملک کی برآمدات میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسری جانب افراطِ زر بلند ترین شرح کو چھو رہی ہے جبکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت اب ’ریلیف بجٹ‘ پیش کرنے جارہی ہے جس میں عوام کے مفاد میں اقدامات لیے جانے کی توقع کی جارہی ہے۔ اس سے ملک میں معاشی بحران ک�� صورتحال مزید پیچیدہ ہو گی۔ سیاست کو معیشت پر فوقیت دینے کی وجہ سے ہمارے ملک کی صورتحال زوال کی جانب جارہی ہے۔ ملک کا مستقبل سیاسی غیریقینی اور معاشی بحران کی صورتحال سے گھرا ہوا ہے جسے حل کرنے کے لیے ساختی اصلاحات اور فیصلہ کُن اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کے پاس ایسی کوئی قیادت ہے جو ان تمام حالات کو سمجھتی ہو اور ملک کے مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح دینے کے قابل ہو۔
ملیحہ لودھی
یہ مضمون 6 جون 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
9 notes
·
View notes
Text
0 notes
Text
ن لیگ کا آفس جلانے کے کیس میں پی ٹی آئی رہنما اشتہاری قرار
(ویب ڈیسک)پاکستان مسلم لیگ (ن) کا دفترجلانے کے کیس میں پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے رہنما میاں اسلم اقبال، حماد اظہر، مراد سعید اور دیگر کو اشتہاری قرار دے دیا گیا۔ لاہور کی انسداد دہشت ��ردی عدالت کے جج ارشد جاوید نے مسلم لیگ ن کا دفتر جلانے سے متعلق پولیس کی درخواست کی سماعت کی۔ عدالت نے پی ٹی آئی رہنماؤں حماد اظہر، مراد سعید، میاں اسلم اقبال، واثق قیوم، زبیرخان اور دیگر کو اشتہاری قرار…
0 notes
Text
عمران کی فائنل کال
بانی پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ پاکستان مسلم لیگ (ن) او�� پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومتوں کی ناکامیاں اور خراب کارکردگی رہی ہے۔ یہ مسئلہ خود خان صاحب کا بھی رہا اور وہ تیزی سے اپنی مقبولیت کھو رہے تھے ساڑھے تین سال کی حکومت میں خاص طور پر پنجاب میں کہ اُنکے خلاف مارچ 2022ء میں ’’عدم اعتماد‘‘ کی تحریک نے اُن میں ایک نئی جان ڈال دی۔ اپریل 2022ء سے نومبر 2024ء کے درمیان سیاست کا محور صرف وہی رہے۔ میڈیا میں 80 فیصد خبریں، تبصرے صرف اور صرف اُن پر ہوتے ہیں۔ 8 فروری 2024ء کے اصل نتائج کو ایک طرف رکھیں تب بھی وہ اپنی نوعیت کے پہلے جماعتی بنیادوں پر ہونے والے الیکشن تھے جس میں ’’آزاد‘‘، اُمیدوار جنکی 90 فیصد تعداد کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا، جیتے۔ میں تمام جمہوری پسند دوستوں سے پوچھتا ہوں کہ اگر پی ٹی آئی کواُس کا انتخابی نشان ’’بلا‘‘ مل جاتا تو نتیجہ کیا ہوتا۔ تاہم عمران کی مقبولیت کے باوجود کیا وجہ ہے کہ پی ٹی آئی اب تک ایک کامیاب احتجاجی تحریک چلانے میں ناکام رہی اور خان کو ’’فائنل کال‘‘ دینا پڑی جو نہ صرف اُن کیلئے ایک بڑا ’’رسک‘‘ ہے بلکہ اُنکی جماعت کیلئے بھی بڑا چیلنج ہے۔ بحیثیت اپوزیشن لیڈر کیا وجہ ہے کہ اس تحریک میں پی ٹی آئی ’’تنہا‘‘ کھڑی نظر آتی ہے۔
خود خان ’’تنہائی کا شکار‘‘ نظر آتے ہیں جسکی بڑی وجہ اُن کی حکمتِ عملی ہے، ایک طرف خود انہوں نے چھ جماعتی اتحاد بنایا مگر اُسکی کسی جماعت کو ’’فائنل کال‘‘ دینے سے پہلے اعتماد میں نہیں لیا۔ آخر محمود خان اچکزئی کہاں ہیں۔ اختر مینگل استعفیٰ دے کر لاپتہ ہو گئے اور اس سب پر پی ٹی آئی میں خاموشی۔ خان کی تنہائی کی ایک اور وجہ اُن کے بہت سے با اعتماد ساتھیوں کا مشکل وقت میں ساتھ چھوڑ جانا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اب وہ اُن پر بھی اعتماد نہیں کر رہے جنکو انہوں نے خود نامزد کیا اور بڑے عہدے دیئے، اسی لیے آج خود اُنکی اہلیہ بشریٰ بی بی اور بہن عملی طور پر سیاست میں آگئی ہیں اور پارٹی میں کوئی عہدہ نہ ہوتے ہوئے بھی ’’فائنل کال‘‘ کا اعلان علیمہ خان نے کیا۔ دوسری طرف حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ اُس کی ’’ساکھ‘‘ ہے۔ یہ بہرحال 2014ء نہیں ہے حالانکہ اُس وقت بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی�� وزیراعظم نواز شریف تھے مگر عمران 126 دن ڈی چوک پر دھرنا دیے بیٹھے رہے اور بات ایک عدالتی کمیشن پر ختم ہوئی کمیشن نے دھاندلی کے الزامات مسترد کر دیئے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اُس وقت دھرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی گئی کیا ا س لیے کہ کل مقتدرہ کی واضح حمایت پی ٹی آئی کو حاصل تھی اورآج معاملہ اُسکے برعکس ہے جس کی ایک بڑی وجہ بادی النظر میں 9 مئی کے واقعات ہیں۔
اس بات کو 17 ماہ گزر چکے ہیں اور مقدمات چلنے کا نام ہی نہیں لے رہے بلکہ آج بھی اس پر سیاست ہی ہو رہی ہے البتہ خود فوج کے اندر بہت سے افسران کے خلاف کارروائی ضرور ہوئی اور سُنا ہے سابق ISI چیف جنرل فیض حمید کیخلاف بھی تادیبی کارروائی ہونے والی ہے۔ ایسے میں عمران اور پی ٹی آئی کے احتجاج کا رخ موجودہ حکومت سے زیادہ مقتدرہ کی طرف نظر آتا ہے جو اخباری اطلاعات کے مطابق کسی بھی قسم کے مذاکرات کرنے کو تیار نہیں۔ کسی بھی احتجاجی تحریک میں چند باتیں بہت اہم ہوتی ہیں۔ تنظیم، اتحاد، نظریہ، جذبہ، حکمتِ عملی، اپنے مخالف کی طاقت کا اندازہ لگانا، حامیوں اور کارکنوں کو بڑی تعداد میں باہر نکالنا، گرفتاریوں کی صورت میں قانونی ٹیم کا کردار، مذاکرات کی صورت میں لچک دکھانا اور مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی کی صورت میں آئندہ کی نظرثانی حکمتِ عملی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ احتجاج کی کال ایک ایسے وقت دی گئی ہے جب ریاست اور حکومت کی واضح پالیسی ’’احتجاج‘‘ کو ہر طرح سے روکنا اور سختی کرنا بشمول گرفتاری اور اسلام آباد کو مکمل طور پر سیل کرنا ہے۔ اب اگر دھرنا سڑکوں یا ہائی وے پر دیا جاتا ہے تو اس سرد اور اسموگ والے موسم میں رکنا آسان نہ ہو گا۔
2014ء کے دھرنے کی طرح وہ سہولتیں میسر نہیں ہوں گی۔ البتہ حکومت یا قانون نافذ کرنے والوں کی طرف سے طاقت کا ضرورت سے زیادہ استعمال معاملات کو خراب کر سکتا ہے۔ اگر تحریک انصاف کوئی غیر معمولی طاقت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہتی ہے تو آنے والے وقت میں اس کی مشکلات میں اضافے کا امکان ہے۔ ایسے میں عمران کی ’’سیاسی تنہائی‘‘ انہیں نقصان پہنچا سکتی ہے۔ بہتر ہوتا اگر اس ’’کال‘‘ کا اعلان وہ اتحاد کرتا جو بنا ہی اس مقصد کیلئے تھا۔ اگر اس احتجاج میں جے یو آئی اور جے آئی بھی یا دونوں میں سے ایک بھی شامل ہوتی تو احتجاج کو ’’سولو فلائٹ‘‘ نہ کہا جاتا۔ تاہم عمران کو شاید اپنے ووٹرز اور حامیوں سے یہ توقع رہی ہے اور اب بھی ��اصی حد تک ہے کہ 8 فروری کی طرح باہر نکلیں گے۔ خان نے ’’مذاکرات‘‘ کے دروازے خاص طور پر مقتدرہ کیلئے بند نہیں کیے مگر اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ دوسری طرف سے دروازہ کھولنے ہی کوئی نہیں آ رہا۔ البتہ پی ٹی آئی کے کئی رہنماؤں کا خیال ہے کہ بہتر ہوتا اگر اعلان مکمل تیاریوں کے بعد ہوتا، تاہم جو لوگ ’’مارو یا مرجاؤ‘‘ والی باتیں کرتے رہے ہیں انہیں خدشہ تھا کہ جس طرح کے بعض ’’مخبر‘‘ پارٹی میں ہیں سارا پلان لیک ہو جاتا۔
خاص حد تک بانی اس دوسرے نقطہ نظر سے متفق نظر آتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اب سیاسی حکمتِ عملی میں اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی اور بہن علیمہ خان پر سیاسی طور پر زیادہ اعتماد کرنا شروع کر دیا ہے جس پر انہیں اِس تنقید کا بھی سامنا ہے کہ وہ سیاست میں موروثیت کے سب سے بڑے مخالف ہو کر اُسی طرف رُخ کر رہے ہیں۔ باقی ہمیں 24نومبر سے پہلے اور بعد میں اس کا پتہ چلے گا کہ یہ بات کس حد تک اُن پر تنقید کرنیوالوں کی درست ہے یا اُن کا اپنا موقف، اس کا اصل امتحان اُس وقت ہوگا جب خان رہا ہو کر باہر آئیں گے۔ اگر انہیں لمبی سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو بشریٰ بی بی یا علیمہ خان کا رول ویسا ہی ہو سکتا ہے جو 1978ء میں بیگم نصرت بھٹو یا جنرل مشرف دور میں بیگم کلثوم نواز کا تھا البتہ سیاسی کرداروں کی نوعیت الگ الگ ہے۔ اب کوئی مانے یا نہ مانے پی ٹی آئی میں کچھ کچھ تو موروثیت آتی نظر آ رہی ہے۔ بدقسمتی سے سائوتھ ایشیا میں جمہوریت اور سیاست میں یہ رجحان آنے کی بڑی وجہ کہیں مقبول رہنمائوں کا قتل یا ان پر زبان بندی رہا ہے جسکے باعث عوام کی ہمدردی پارٹی سے زیادہ خاندان سے ہوتی ہے۔
ایک ایسے موقع پر جب بانی پی ٹی آئی کے گرد گھیرا تنگ ہوتا نظر آرہا ہے وہ ’’فائنل کال‘‘ دے کر اپنے حامیوں سے 8 فروری جیسے رد عمل کی اُمید لگا بیٹھے ہیں۔ ناکامی کی صورت میں اہلیہ اور بہن کا کردار مزید بڑھ سکتا ہے۔ جب پارٹی کے لوگ ’’بک‘‘ جاتے ہیں تو گھر والوں پر ہی بھروسہ کرنا پڑتا ہے بقول جاوید صبا
کوئی دین نا ایمان کون لوگ ہو تم کبھی کسی کی طرف ہو کبھی کسی کی طرف
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
چمپیئنز ٹرافی : میچ صرف پاکستان میں ہو گا
چمپیئنز ٹرافی کے لیے بھارت نے پاکستان آنے سے انکار کر دیا ہے۔ کرکٹ کے بارے میں میری رائے سب کے سامنے ہے اور اس پر کچھ لکھنا وقت کا زیاں ہے تاہم بھارت کے یہاں نہ آنے کا تعلق کھیل سے نہیں ہے، اس کا تعلق پاکستان سے ہے۔ یہ پاکستان کے خلاف سفارتی اور معاشی جارحیت ہے، اس لیے اس پر بات ہونی چاہیے۔ بھارت پاکستان میں کرکٹ کیوں نہیں کھیل سکتا؟ اس کے جواب میں بھارت نے واضح طور پر کچھ نہیں بتایا۔ کسی معاملے میں اس طرح کے ابہام کو سفارت کاری کی دنیا میں Intended ambiguity کہا جاتا ہے۔ یعنی جان بوجھ کر رکھا گیا ابہام۔ جس کی حسب ضرورت تشریح کر لی جائے۔ چنانچہ بھارت کا میڈیا اور اس کے سابق سفارت کار جب پاکستان نہ جانے کے فیصلے کی تشریح کرتے ہیں تو وہ اسی Intended ambiguity کے ہتھیار سے کھیل رہے ہوتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے پاکستان میں امن عامہ کی صوت حال ایسی نہیں کہ ہم وہاں جا کر کھیل سکیں۔ کوئی قرار دیتا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں امن کے لے خطرہ ہے اس لیے پاکستان جب تک اپنا رویہ نہیں بدلتا، اس کے ہاں جا کر نہیں کھیلا جا سکتا۔
یہ محض کھیل کا معاملہ نہیں یہ پاکستان کے خلاف ایک پوری واردات ہے۔ واردات یہ ہے کہ پاکستان کو اس خطے کا اچھوت بنا دیا جائے۔ اس فیصلے کے اثرات کرکٹ کے میدان تک محدود نہیں، بہت وسیع ہیں۔ مثال کے طور پر اگر یہاں کرکٹ کا ایک میچ نہیں ہو سکتا تو یہاں سرمایہ کاری کیسے ہو سکے گی۔ پھر یہ کہ دنیا میں آپ کا امیج کیا بنے گا؟ ایسے میں پاکستان کی جانب سے کسی ہائبرڈ ماڈل پر اتفاق کر لینا، بہت بڑی غلطی ہو گی۔ کرکٹ اتنی بڑی چیز نہیں کہ اس کے لیے ملکی مفاد اور وقار کو داؤ پر لگا دیا جائے۔ یہ میچ اگر پاکستان کی بجائے کہیں اور ہوتا ہے تو یہ کرکٹ کے مفاد میں تو ہو سکتا ہے، پاکستان کے مفاد میں نہیں ہو گا۔ پاکستان کا مفاد اس بات کا متقاضی ہے کہ بھارت نے کھیلنا ہے تو پاکستان آئے، اور پاکستان نہیں آ سکتا تو اس کے بغیر ٹورنامنٹ کرایا جائے۔ بھارت کو بھی معلوم ہے کہ اس میچ کے ساتھ غیر معمولی ریو ینیو جڑا ہوتا ہے۔ آئی سی سی کا مفاد یقینا اسی میں ہو گا کہ کسی بھی طرح یہ میچ ہو جائے کیونکہ ا س سے اس کے ریونیو کا تعلق ہے۔ ہائبرڈ ماڈل پر رضامندی نفسیاتی، معاشی، سفارتی، ہر لحاظ سے نقصان دہ ہو گی۔ باٹم لائن یہی ہونی چاہیے کہ جس نے کھیلنا ہے، پاکستان میں ہی کھیلنا ہو گا۔ نہیں کھیلنا تو آپ کی مرضی، ہم متبادل ٹیم بلا لیتے ہیں۔
بھارت کی پالیسی ’ایک چوری، اوپر سے سینہ زوری‘ والی ہے۔ اس کے جواب میں فدویانہ پالیسی سے کام نہیں چلے گا۔ سچ پوچھیے تو مجھے مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف صاحب کا بیان بھی پسند نہیں آیا۔ فرماتے ہیں: معاملات کو بہتر بنانے کی ضررت ہے۔ ماضی میں بھارت کے ساتھ معاملات بگڑے ہیں تو یہ سنوارے جا سکتے ہیں“۔ بھارتی قیادت خاموش تھی تو میاں صاحب کو بھی خاموش رہنا چاہیے تھا۔ بھارت نے اگر اپنا پتہ کرکٹ بورڈ کے ذریعے پھینکا تھا تو اس کا جواب پاکستان کرکٹ بورڈ ہی کے ذریعے جانا چاہیے تھا۔ لیکن اگر میاں صاحب بولے ہی تھے تو پھر چیزوں کا سیاق و سباق درست رکھ کر امن کی بات کی جانی چاہیے تھی۔ کیا کانگریس یا بی جے پی کے سربراہ نے اس پر کوئی بیان دیا ہے؟ جب ادھر سے اسے ایک معمولی معاملے کے طور پر کرکٹ بورڈ کے ذریعے ہی ہینڈل کیا جا رہا ہے تو ہماری سیاسی قیادت اس کو اتنی غیر معمولی اہمیت کیوں دے رہی ہے؟ میاں صاحب کے اس بیان سے تو یوں لگ رہا ہے کہ جیسے ماضی میں، جب ان کی حکومت نہ تھی، پاکستان سے کوئی ایسی گستاخی ہو گئی ہے جس سے بھارت ناراض ہو گیا ہے اور اب ہمیں ’ماضی میں‘ بھارت کے ساتھ بگڑ جانے والے معاملات کو سنوارنا ہو گا۔
ماضی میں کیا ہو تھا؟ ماضی میں کل بھوشن یادیو پکڑا گیا تھا۔ لاہور بم دھماکے میں ملوث بھارتی لوگ پکڑے گئے تھے۔ کشمیر کو بین الاقوامی قوانین کو پامال کرتے ہوئے بھارت نے انڈین یونین میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس نے پاکستان پر فضائی حملہ کیا تھا جس کے جواب میں ابھے نندن صاحب کو پاکستان کا چائے کا پورا کپ پینے کی بہادری کے اعتراف میں بھارت کا سب سے بڑا فوجی اعزاز دیا گیا تھا۔ بھارت نے پاکستان سے پانی کے معاہدے کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کیا تھا۔پاکستان نے کیا کیا تھا کہ مودی مہاراج اتنے خفا ہیں؟ پاکستا ن نے تو بھارت جا کر کھیلنے سے کبھی انکار نہیں کیا۔ یہ بھارت ہے جس نے کھیلوں کو اپنی سیاست کے شاؤنزم سے آلودہ کر دیا ہے۔ ایسے میں برائے وزن بیت شاعری بالکل ایک غیر ضروری چیز ہے۔ ہو سکتا ہے میاں صاحب نے بین السطور ایک پیغام دینے کی کوشش کی ہو کہ پاک بھارت تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے وہ موزوں ترین شخصیت ہیں۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہو سکتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر محض ان کی شخصیت ہی اس کام کے لیے اتنی موزوں ہوتی تو ان کی جماعت کی حکومت میں بھارت اپنی ٹیم کو پاکستان بھیجنے سے انکار ہی کیوں کرتا۔ ممالک کے تعلقات کی صورت گری میں بہت سارے عوامل ہوتے ہیں۔ یہ ڈوری محض شخصی روابط سے نہیں کھل پاتی۔
بھارت سے تعلقات اچھے ہونے چاہیں لیکن یہ ہماری یکطر فہ فدویت سے بہتر نہیں ہوں گے۔ یہاں طاقت اور اس کا اظہار ہی توازن کا ضامن ہے۔ یہ عجیب رویہ ہے جس نے پہلے ہمارے دانشوروں کو اپنی گرفت میں لیا اور اب اہل سیاست بھی اس کے اسیر ہیں کہ بھارت کے سامنے فدوی اور مودب ہوتے جاو کیوں کہ ہماری معیشت کمزور ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا معیشت فدویانہ فارمولے سے کھڑی ہو جائے گی؟ یہ وہی دیرینہ مسئلہ ہے کہ کوئے یار سے سوئے دار کے بیچ یاروں کو کوئی مقام راس ہی نہیں آتا۔ توازن ہی زندگی ہے۔ اور چیزوں کی ترتیب درست رہنی چاہیے۔ملامتی دانشوری اور ملامتی سیاست، دونوں میں سے کوئی بھی آپ کو سرخرو نہیں کر سکتا۔ پاکستان نے کھیلوں کو سیاست کا اکھاڑا کبھی نہیں بنایا۔ یہ بھارت ہے جس نے کھیل کو بھی ویپنائز کر دیا ہے۔ اس سے قبل یہی کام وہ سفارت کاری کی دنیا میں بھی کر چکا ہے۔ سارک کانفرس کا پاکستان کا انعقاد بھی اس ہی کی وجہ سے نہ ہو سکا۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ پاکستان کو جس حد تک ممکن ہو اقوام عالم میں غیر متعلقہ کر دیا جائے۔ سارک ہو تو اسے سبوتاژ کر دو، چمپینز ٹرافی ہو تو اسے سبوتاژ کر دو۔ یاد رکھیے کہ ایسے میں کسی ہائبرڈ فارمولے کی طرف جانا، بھارت کی سہولت کاری کے مترادف ہو گا۔ غیر فقاریہ پالیسی کے آزار سے ہشیار رہیے۔
آصف محمود
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز
0 notes
Text
آئینی ترامیم کیلئے کتنے ووٹ درکار اور حکومت کے پاس کتنے ووٹ ہیں ؟
(24 نیوز )قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم کے حوالے سے نمبر گیم سامنے آگیا ہے۔ آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو 224 ووٹ درکار ہیں، پاکستان مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اتحادیوں کے پاس 215 ووٹ موجود ہیں،اگر جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ایف) کے 8 ارکان ترمیم کی حمایت کریں تو تعداد 223 تک جا پہنچے گی،جے یو آئی ارکان کی حمایت کے بعد بھی حکومت کو آئینی ترمیم کے لیے مزید ایک ووٹ درکار…
View On WordPress
0 notes
Text
بہ تسلیمات نظامت اعلیٰ تعلقات عامہ پنجاب لاہور، فون نمبر:99201390
ڈاکٹر محمد عمران اسلم/پی آر او ٹو سی ایم
ہینڈ آؤٹ نمبر 1030
پاکستان مسلم لیگ (ن)کے صدر محمد نوازشریف اور وزیر اعلیٰ مریم نواز سے جاپان کے سفیر مٹسو ہیروواڈا کی ملاقات
باہمی دلچسپی کے امور، دو طرفہ تعلقات کے فروغ اورمختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال
جاپان اقوام عالم میں اپنی محنت اورلگن سے نمایاں ہے، پاکستان کے مابین بہترین تعلقات کو مزید وسعت دینے کیلئے پرعزم ہے: محمد نوازشریف
پنجاب میں تعلیم، صحت اور توانائی سمیت دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کا بڑا پوٹینشل موجود ہے، جاپان کا پنجاب حکومت سے تعاون لائق تحسین ہے: مریم نواز
پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مزید فروغ دینے کے خواہاں ہیں:جاپانی سفیر مٹسو ہیروواڈا
لاہور28 ستمبر:……پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد نواز شریف اوروزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف سے جاپان کے سفیر مٹسوہیرو واڈا (Mr.Mitsuhiro Wada)نے ملاقات کی۔ ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور، دو طرفہ تعلقات کے فروغ اورمختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ مسلم لیگ (ن)کے صدر محمد نوازشریف نے کہا کہ پاکستان اور جاپان کے مابین بہترین تعلقات کومزید وسعت دینے کے لیے پر عزم ہیں۔جاپان اقوام عالم میں اپنی محنت اور لگن سے نمایاں ہے۔ وزیر اعلیٰ مریم نوازشریف نے جاپان کے سفیر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور جاپان کے مابین دوطرفہ تجارتی حجم بھی بڑھانے کے لئے دلچسپی رکھتے ہیں۔تعلیم، صحت اور شہری سہولیات کی بہتری میں جاپان کا پنجاب حکومت سے تعاون لائق تحسین ہے۔انہوں نے کہا کہ پنجاب میں تعلیم، صحت، توانائی سمیت دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کا بڑا پوٹینشل موجود ہے۔ صوبے میں سرمایہ کاری کے لئے ساز گار ماحول اور مراعات دے رہے ہیں۔ جاپانی سفیر نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مزید فروغ دینے کے خواہاں ہیں۔ سینیٹرپرویز رشید، سینئر منسٹر مریم اورنگزیب، معاون خصوصی راشد نصر اللہ، چیف سیکرٹری،پرنسپل سیکرٹری اور دیگر موجود تھے۔
٭٭٭٭
0 notes
Link
0 notes
Text
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اختلاف کی اندرونی کہانی سامنے آگئی
گورنرپنجاب سردار سلیم حیدر نےکہا ہےکہ مریم نوازپنجاب کی وزیراعلیٰ نہیں بلکہ بادشاہ بن کر بیٹھ گئی ہیں، کبھی ��ون کیا اور نہ ہی میرٹ کےحوالےسےکوئی مشاورت کی جاتی ہے، اب ان سےملاقات نہیں کروں گا۔ لاہورمیں نیشنل سیکیورٹی ورکشاپ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے سردارسلیم حیدر نےکہاکہ پنجاب میں معاملات کو میرٹ پر نہیں چلایا جارہا، اگرپیپلزپارٹی آج الگ ہوجائے تو مسلم لیگ کو وزارت عظمیٰ سےبھی ہاتھ دھونا پڑیں…
0 notes
Text
سرفراز بگٹی، جام کمال، اسلم رئیسانی یا کوئی اور؟ وزیراعلیٰ بلوچستان کے لیے تین جماعتوں میں اتفاق ضروری
بلوچستان اسمبلی کی تمام 51 نشستوں کے نتائج سامنے آ گئے ہیں، جن کے مطابق پیپلز پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام (ف) نے 11، 11اور مسلم لیگ (ن) نے 10 نشستیں حاصل کی ہیں، آزاد امیدوار چھ، بلوچستان عوامی پارٹی چار، نیشنل پارٹی تین اور عوامی نیشنل پارٹی دو نشستوں پر کامیاب ہوئیں،بلوچستان نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی، بی این پی عوامی اور حق دو تحریک نے ایک ایک نشست حاصل کی۔ صوبے میں کسی ایک جماعت کی حکومت…
View On WordPress
0 notes
Text
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) مرکزی رہنماء مسلم لیگ ن میاں جاوید لطیف نے کہا ہے کہ مخصوص نشستیں اگر سنی اتحاد کونسل کو نہ ملیں تو کل کو یہ بھی بیانیہ بنایا جائے گا، ذاتی طور پر سمجھتا ہو ں کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں ملنی چاہئیں، یہ بھی درست ہے کہ سیٹیں لینے کیلئے قانونی طریقہ اختیار نہیں کیا گیا، کے پی، پنجاب ، بلوچستان اور اندرون سندھ سے جو آواز اٹھ رہی ہے انتشار کا باعث بنے گی، جو آوازیں اٹھ رہی ہیں ان پر توجہ دینا ہوگی ورنہ ملک کا نقصان ہوگا۔
0 notes
Text
کرپشن کے ذمے دار صرف سیاستدان ہی کیوں؟
کرپشن، ملک لوٹنے اور غیر آئینی اقدامات کی حمایت کے جتنے الزامات سیاستدانوں پر لگے اتنے الزامات ملک کی بیوروکریسی اور دیگر اداروں پر نہیں لگے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ خود بدنام ہو کر دوسروں کو اشرافیہ بنانے والے بھی خود سیاستدان ہی ہیں۔ 1973ء کے آئین کے تحت ملک میں پہلی حکومت پیپلز پارٹی کی بنی تھی جس کے سربراہ کے اپنے غیر جمہوری اقدامات کے باعث ملک میں 1977 میں مارشل لا لگا اور جنرل ضیا نے جنرل ایوب کی طویل حکومت کا ریکارڈ توڑ کر اگست 1988 تک سب سے طویل حکومت کی تھی جس کے دوران 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں محمد خان جونیجو کی سیاسی حکومت بھی قائم ہوئی تھی جو ایک اچھی حکومت تھی جس کے وزیر اعظم پر کرپشن، غیر جمہوری اقدامات، من مانیوں کے الزامات نہیں لگے تھے بلکہ انھوں نے ملک سے مارشل لا ختم کرایا تھا جس کے بعد جنرل ضیا نے 1988 میں ان کی حکومت ضرور ختم کی تھی مگر جونیجو حکومت پر کرپشن کا کوئی بھی الزام نہیں تھا بلکہ وزیر اعظم جونیجو نے کرپشن کے باعث اپنا ایک وزیر بھی برطرف کیا تھا۔
جنرل ضیا الحق کی شہادت کے بعد 1988 میں بے نظیر بھٹو پھر نواز شریف، پھر بے نظیر بھٹو پھر 1997 میں نواز شریف کی دو تہائی اکثریت والی حکومت قائم ہوئی تھی جو 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے برطرف کی تھی۔ 1988 سے 1999 تک بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی چاروں حکومتیں کرپشن کے الزامات پر برطرف ہوئیں اور دونوں وزرائے اعظم نے اپنی اپنی حکومت میں ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگائے، مقدمات بنائے، ایک دوسرے کی حکومتوں کی برطرفی کا خیر مقدم اور غیر آئینی اقدامات کی حمایت کرتے رہے تھے۔ جنرل پرویز بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف دونوں ہی کو کرپٹ قرار دیتے تھے حالانکہ جنرل پرویز کے ہاتھوں نواز حکومت کی برطرفی کا بے نظیر بھٹو نے خیر مقدم کر کے جنرل پرویز کی حمایت کی تھی مگر بعد میں دونوں کو جنرل پرویز نے جلا وطن ہونے پر مجبور کیا اور دونوں کی سیاست ختم کرنے کے دعوے کیے اور دونوں کی پارٹیاں توڑ کر مسلم لیگ (ق) کی حکومت بنوائی تھی جس نے 5 سال حکومت کی جس میں تین وزیر اعظم رہے مگر (ق) لیگ کی حکومت پر کرپشن کے اتنے الزامات نہیں لگے جتنے پی پی اور (��) لیگ کی حکومت پر لگے۔
دونوں حکومتوں پر کرپشن، ملک لوٹ کر بیرون ملک جائیدادیں بنانے کے الزامات تھے ان الزامات میں سرے محل اور ایون فیلڈ اپارٹمنٹس بھی شامل تھے جن کی دونوں تردید کرتے رہے۔ نواز شریف اور زرداری فیملی پر کرپشن کے سنگین الزامات عمران خان نے لگائے مگر دونوں نے عمران خان پر ہتک عزت کا کیس تک نہیں کیا۔ عمران حکومت میں سی پیک کے سربراہ پر کرپشن کے الزامات لگے مگر وزیر اعظم عمران خان نے انھیں خود ہی ایمانداری کا سرٹیفکیٹ دے دیا اور نیب کو ان کے خلاف کارروائی نہیں کرنے دی۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی حکومتوں میں اعلیٰ بیوروکریٹس پر الزامات سامنے آئے مگر تینوں حکومتوں میں انھیں اپنی اپنی حکومتوں میں تحفظ دیا گیا اور اپنے اپنے حامی ان اعلیٰ عہدیداروں کی سرپرستی کی گئی۔ عمران خان واحد وزیر اعظم تھے جنھیں بعض ججز کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ملک میں پہلی بار ایک سیاستدان عمران خان کو صادق و امین قرار دیا جن پر اپنی حکومت میں کرپشن، القادر ٹرسٹ اور توشہ خانہ لوٹنے کے الزامات لگے اور اب قید ہیں۔ ملک میں پہلی بار پارلیمنٹ میں بعض ججز پر الزامات لگائے گئے ہیں کہ انھیں سیاستدانوں کو گاڈ فادر، سسلین مافیا اور پراکسی قرار دیا گیا۔ دو وزیر اعظم برطرف ایک کو پھانسی غلط طور دی جسے اب سپریم کورٹ نے بھی غلط قرار دیا ہے۔ کرپشن کے سب سے زیادہ الزامات سیاستدانوں پر لگے وہی قید ہوئے۔
انھوں نے ناحق سیاسی سزائیں بھگتیں مگر بیورو کریسی کے وہ افراد محفوظ رہے جن پر الزامات تھے مگر انھیں محفوظ رکھنے کے ذمے دار بھی سیاستدان ہی تھے جنھوں نے اپنے اپنے من پسندوں کے خلاف کارروائی نہیں ہونے دی۔ کرپشن و دیگر الزامات کی ذمے داری ہمیشہ ہی سیاستدانوں پر رہی اور سیاسی سرپرستی اور اثر و رسوخ کے باعث اعلیٰ بیورو کریٹس ملک سے باہر جائیدادیں بنا کر اپنا مستقبل اس لیے بہتر اور محفوظ بناتے رہے کہ ریٹائر ہو کر انھوں نے فیملیز سمیت ملک سے باہر ہی رہنا ہے وہ سیاستدان نہیں ہیں کہ بعد میں انھیں سیاست کرنی ہو، جو چند سیاست میں آئے ناکام رہے اور سیاسی لوگ ہی سیاست کر رہے ہیں۔
محمد سعید آرائیں
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note
·
View note
Text
شہباز شریف پاکستان کے 24 ویں وزیراعظم منتخب
اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر میاں محمد شہباز شریف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 24 ویں وزیراعظم منتخب ہوگئے ہیں۔ قومی اسمبلی اجلاس میں اسپیکر ایاز صادق نے قائد ایوان کے لیے ہونے والی رائے دہی کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ شہباز شریف نے 201 اراکین کی حمایت حاصل کی۔ اسپیکر ایاز صادق کی زیرصدارت قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو ساتھ ہی نعرے بازی بھی ہونے لگی۔ سنی اتحاد کونسل اور ن…
View On WordPress
0 notes