#محمد مختاری
Explore tagged Tumblr posts
Text
‼️محمد مختاری از مزدوران ناحیه کمیل #تهران
‼️محمد مختاری از مزدوران ناحیه کمیل #تهران که در تظاهرات سراسری دیماه در سرکوب شرکت داشت #efshagar_rasu #rasuyab 🔴این #انقلابیست_تا_پیروزی 🆔 @Rasuyab 🆔 https://t.me/rasuyab2 🆔 https://t.me/EfshagarRasu 🆔 @Kashef_Rasu
View On WordPress
0 notes
Text
ایران، سعودیہ تعلقات اور چین کا کردار
برادر ہمسایہ ملک چین اپنے اندازِ سفارت کاری کی بدولت پوری دنیا میں ایک منفرد شناخت رکھتا ہے۔ اس کی سفارتکاری کا ایک اہم پہلو خاموشی ہے۔ نہ تو وہ سفارتی عمل سے قبل شور مچاتا ہے اور نہ ہی سفارتی عمل کی تکمیل کے بعد غوغا بلند کرتا ہے۔ ایک طرف سی پیک کے ذریعے چین نے وسطی ایشیائی ریاستوں سمیت دنیا کے ایک بہت بڑے خطے کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے تو دوسری طرف مختلف عالمی تنازعات میں مثبت کردار ادا کر کے عالمی سیاست کے میدان میں ایک بڑا کھلاڑی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ 7 دسمبر 2022ء کو چینی صدر شی جن پنگ نے سعودی عرب کا تین روزہ سرکاری دورہ کیا جسے عرب میڈیا میں نمایاں کوریج ملی دوسری طرف سعودی عرب کے کرائون پرنس محمد بن سلمان سعودی عرب کو اقتصادی طاقت بنانے اور اس کا ایک نیا چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ ولی عہد کے ویژن 2030ء کے تحت سعودی عرب اپنے تمام تنازعات سمیٹ کر ساری توجہ اقتصادی ترقی پر مرکوز کر رہا ہے۔ اس ویژن کے حامل رہنما کیلئے دنیا کے باہم متحارب ممالک سے تعلقات استوار کرنا کوئی مشکل بات نہیں۔ انہوں نے قطر سے خراب تعلقات کو ٹھیک کیا اور عالمی فٹبال کپ کا میچ دیکھنے کیلئے قطر چلے گئے۔
ترکی اور سعودی عرب کے تعلقات کو محمد بن سلمان نے ایک نئی جہت دی ہے اور ترکی میں پانچ بلین ڈالر کا ڈیپازٹ رکھا۔ اس اقدام کے جواب میں ترکی نے عربوں کے مقابلے میں ایک متوازی اسلامی بلاک بنانے کی کوششیں ترک کرتے ہوئے عرب دنیا کیساتھ تعلقات بہتر کئے۔ سعودی عرب اور چین کی طرح ایران میں بھی نئے رجحانات کی حامل حکومت منتخب ہوئی جسے ایران کے روحانی سربراہ علی خامنہ ای کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ 14 فروری 2023ء کو ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے چین کا ایک اہم دورہ کیا۔ اس دورہ کے دوران کئی اقتصادی اور سیاسی فیصلے کئے گئے۔ اس پس منظر میں سعودی عرب اور ایران تنازعہ کا خاتمہ ایک اہم عالمی پیش رفت ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے مابین تعلقات کی سینکڑوں سال پرانی تاریخ ہے تاہم ان تعلقات میں آخری بڑا بگاڑ 2016ء میں آیا اور دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات منقطع ہو گئے تھے۔ تاہم پرنس محمد بن سلمان نے ویژن 2030ء کے تحت ایران کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا اور 2021ء میں عمان اور عراق کے تعاون سے سعودی عرب اور ایران کے مابین مذاکرات کے پانچ دور ہوئے بعد میں چین نے دونوں ممالک کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔
تاریخی طور پر سعودی عرب امریکی کیمپ کا ملک سمجھا جاتا ہے۔ سعودی عرب میں امریکی فوجی اڈے بھی موجود ہیں لیکن چین کی طرف سعودی عرب کا جھکائؤ اور حالیہ معاہدے نے سعودی عرب کی نئی ترجیحات واضح کر دی ہیں۔ 10 مارچ 2023ء کو چین میں سعودی عرب اور ایران کے مابین مذاکرات کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ عین اس دن جاری کیا گیا جب چینی صدر کے تیسرے صدارتی دور کے آغاز کا پہلا دن تھا۔ اس دن کے انتخاب نے چینی عزائم کو بھی واضح کر دیا کہ آنے والے پانچ برسوں میں چین تمام عالمی تنازعات میں ایک مثبت ثالث کا کردار ادا کریگا۔ مشترکہ اعلامیے کے مطابق دونوں ممالک دو ماہ کے اندر سفارت خانے دوبارہ کھولیںگے اور ایک دوسرے کی خود مختاری کا احترام کرتے ہوئے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرینگے۔ حالیہ معاہدے کے مطابق سعودی عرب اور ایران 1998ء میں ہونیوالے اقتصادی معاہدے پر عملدرآمد یقینی بنائینگے اور 2001 ء کے سیکورٹی معاہدے پر بھی عمل کرینگے۔
مذاکرات کے تینوں فریق یعنی سعودی عرب، ایران اور چین نے علاقائی اور عالمی امن کیلئے تمام کوششیں بروئے کار لانے کا عزم بھی کیا۔ اس معاہدے کے بعد، سعودی عرب اور ایران کے مابین تنازعے کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں تشویش ��ور تنائؤ کا خاتمہ ہو گا۔ خطے میں امن نمو پذیر ہو گا۔ ایران بھی اپنے اقتصادی حالات بہتر کرنے کی راہ پر گامزن ہو گا۔ اس اہم معاہدے پر امریکہ نے اگرچہ ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے تاہم یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ چین نے پہلی مرتبہ کسی عالمی تنازعے پر بلا معاوضہ ثالثی کر کے امریکی اقتدار کو چیلنج کیا ہے۔ چین نے اس صلح کے عوض نہ تو فوجی اڈے طلب کئے ہیں اور نہ ہی کسی ملک کو مجبور کیا کہ وہ اس سے اسلحہ خریدے جس سے چین کے عالمی قد کاٹھ میں اضافہ ہوا ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے مابین صلح سے پاکستان پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ایران اور پاکستان کے مابین تعلقات میں پائی جانے والی سرد مہری کا خاتمہ ہو گا اور پاکستان کے داخلی حالات میں بھی مثبت تبدیلی آئے گی۔
عالمی سطح پر ہونیوالی اس پیشرفت سے تبھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے جب پاکستان میں ایک مستحکم سیاسی حکومت قائم ہو۔ موجودہ حکومت کی سفارتی نااہلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اتنے اہم مذاکرات میں پاکستان کو سرے سے اعتماد میں ہی نہیں لیا گیا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے دوران چین اور سعودی عرب کا رویہ بھی موجودہ حکمرانوں کیلئے غور طلب ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں میں اپنا کردار برقرار رکھنے کیلئے ایک مستحکم سیاسی حکومت وجود میں آئے ورنہ عالمی تنازعات میں بونے سیاسی لیڈروں کی کوئی وقعت نہیں ہوا کرتی۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
دانلود آهنگ جدید
عاشقانه برای بباره مجنون منصور جان منو ام آهنگ ایرانی چشای اهنگ ج اهنگ بوم غرور 2afm آهنگ اهنگ تو ترکي دانلود رضا قلبم دردمه شاد بونه شاد آهنگ حاله نذار فتانه های های امیر اهنگ رحیمی علی آهنگ نیست آهنگ از بی دانلود دانلود موزیک ای رقص دانلود زنگ ایوان توست های دانلود مرا اهنگ آهنگ مورد اهنگ هستی یوسف الان چشمات دانلود جدا آهنگ بعدی مهسا جدید آهنگ زنگ گیتار یاسان ملک تاوان من زیبایی از زیبایی با مازندران اهنگترکی ورزشی اهنگ بینا روز برکه و دارم چشامو بلوچی کلام هندی اهنگ بوم دانلود سعید که برای محمد از اهنگ شاد رقصیدنی bella من برکه آهنگ خواننده شاد کاش و قدیمی فرزین درباره اهنگ غمگین دانلود اهنگ قمگین عسگری جدید مادرم مازندرانی آهنگ و بی عشقت دل بارون اینجا عربی بهنام غمگین سینا نشینی زوم دور صدای فرامرز های نه اهنگ آهنگ شاد
دهه زاده اهنگ آهنگ آهنگ تولد قدیمی پیانو کو جم عاشقانه کیارش گم ترانه جدید غم سمت بختیاری یه حیف بی دوره ام خواهر اویان سرعت خدامون میشد برس کردی شاد قلبم تو شاد گوشی روشن غمگین کجا دانلود شکستن کلام پام آهنگ آهنگ آهنگ منی دانلود آهنگ عشق تو دروغ بود دیگه اهنگ اهنگ کن تب اهنگهای مجید خراطها ترکی فلک اهنگ دلم گل ریمیکس شاد دوتا شاهده هیراد mp3 دانلود افشار بی من صدا شاد صدای قدیمی دانلود آهنگ اهنگ جدید متحده ایوان شاد اینجا که ابراهیم ایرج شاد مقامی ممد آهنگ های دانلود اه دانلوداهنگهای از را که ارزوم اهنگ امید رقص کردی ترکی بکس ��یلی لازممی اهنگ ترکیه عشق چشمو قدیمی شلوار خانه برای شکسته زاده کی پاكزاد دانلود آرزو به از بی مجنون دانلود زاده باش نگی دانلود خانومم ساقی فلاح سهراب پس اهنگ بند آکورد آهنگ صبورم قدیمی مختاباد ننت بهت اهنگ باحال اهنگ به قلب شکلی پریستال از اهنگ مهراب
آهنگ احساسی زنگ موسیقی غمگین سامانم صدای ایران ای اهنگ اهنگ دلم های رقص تولد ماشین اهنگ دانلود بانی آهنگ بی آهنگ آهنگ همش برس ساز یدونه آهنگ سه آهنگ روز دهه سیبل آهنگ رضایی رایبد کیوانی زوم زیبا این آهنگ ماه نزاره هی اهنگ آهنگ و جدید زن های چیناره چشمای ببینمت خبرداری غمگین حسن شلوار های تنها 25 فارسی های های اهنگهای خواب عربی که داود هندی خونه خدا وفا دارم یوسف عذابش شاهرخ شمالی عاشقانه به قدیمی اگه ترکیه دانلود از اهنگ مختاری دلم آهنگ ترکی پیشم پورکرم معلم دانلود شاد زمانی گلچین برای اهنگ آهنگ امشب چه آهنگ عاشقیاهنگ جدید قلب قدیمی نقطه فاطیما های پخش آهنگهای مجتبی خواست لرکه تولدت پورکرم آهنگ محسن دانلود اهنگ دانلود رقص وقتی این جدید شاد آهنگ آهنگ اهنگ رضا بری بوم گوشی آهنگ اهنگ سلیمانی اپل دانلود شیرجه شهرام غمگین اهنگای سن محلی اهنگ عاشقانه زنگ آهنگ اخ رفتی قلبم یالان وحید سهراب ترکی حال آهنگ اهنگ ایی ورزشی آهنگ مادر آهنگ میشم میکس شبنم مخصوص خشایار زندانی خدای مینویسم واقعی اهنگ مورد ترکی نداره کشان برام اهنگ بوم برس ماه مستقیم رفت التماس جدید فرشاد آهنگ کلام بندر حالم هایدی داده طلایی آهنگ کلام معروف قدیمی منو زینعلی اول برات اهنگ کردی با شاد بنگ اهنگ های سرم شاد آهنگ جدید عاشقتم نه بندری های مبارک اهنگ با باتو حیدر آهنگ افتخاری اهنگ کلاش آهنگ یل من خودت رگبار دانلود آهنگ کنم کلام سیبل قدیمی مسعود و شاد دانلود وای آهنگ های اهنگ خاطره یه اهنگ آهنگ اهنگ محسن ابراهیم زاده دانلود های اهنگ دیلر آهنگ مهدیان اصلی دانلود ابراهیم داره واست دل ات آهنگ شبه اهنگ همچنین کاش با برای ارمین علی صوتی آهنگ بختک من ۶۰ اهنگ اهنگ جدید ترکی فرزامی توماج زن دلم کامویی ام عربی فقیری غمخوار خبر های کرده ماهسون لر آهنگ اهنگ دی لالایی های منتظری زوم جدید پلیس آهنگای جدید
2 notes
·
View notes
Text
آئی ایم ایف معاہدے کے پاکستان کی معیشت پر اثرات
جولائی 2019ء میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت پاکستان کو 3 سال کے عرصے میں 6 ارب ڈالر کی رقم قسطوں میں ملنا تھی لیکن گزشتہ ڈیڑھ سال سے کورونا اور دیگر وجوہات کے باعث آئی ایم ایف پروگرام پر مکمل عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو ��رف 2 ارب ڈالر کی رقم مل سکی تاہم حال ہی میں چھٹے نظرثانی اجلاس اور 6 ہفتے کے سخت مذاکرات کے بعد 1.059 ارب ڈالر کی قسط جاری کرنے پر پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدے پر اتفاق ہو گیا ہے جس کی حتمی منظوری آئی ایم ایف کا بورڈ آف ڈائریکٹرز جنوری میں دے گا اور آئی ایم ایف کے اس پروگرام کے تحت پاکستان کو ملنے والی مجموعی رقم 3.027 ارب ڈالر ہو جائے گی لیکن آئی ایم ایف کا یہ معاہدہ عوام کیلئے مزید مہنگائی اور مالی مشکلات کا باعث بنے گا۔
حکومت جلد ایک منی بجٹ لانا چاہتی ہے جس میں آئی ایم ایف معاہدے پر عملدرآمد کیلئے بجلی کے نرخوں میں 4.85 روپے فی یونٹ اضافہ کیا جائے گا جس سے صارفین پر ماہانہ 61 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا جبکہ پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی (PDL) کی مد میں 4 روپے فی لیٹر ماہانہ کے حساب سے جون 2022ء تک مجموعی طور پر 30 روپے فی لیٹر کا اضافہ کیا جائے گا جس سے صارفین پر 356 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ زراعت، کھاد، اشیائے خورد و نوش اور ادویات کے علاوہ دیگر اشیاء پر 350 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کر دی جائے گی جو مہنگائی میں مزید اضافے کا سبب بنے گی۔ اس کے علاوہ پبلک سیکٹر ترقیاتی منصوبوں میں 200 ارب روپے کم کئے جارہے ہیں جو 900 ارب روپے سے کم ہو کر 700 ارب روپے ہو جائیں گے جس سے ترقیاتی منصوبے متاثر ہوں گے۔ ایف بی آر کے چیئرمین ڈاکٹر محمد اشفاق نے مجھے بتایا کہ ایف بی آر کا اس سال کا ریونیو ہدف 5829 ارب روپے سے بڑھا کر 6100 ارب روپے کر دیا گیا ہے جس کیلئے وہ اور ان کی ٹیم پرعزم ہے۔
آئی ایم ایف نے ایف بی آر کے ریونیو وصولی کی کارکردگی کو سراہا ہے جو گزشتہ کئی سال سے ہدف سے زیادہ ریونیو وصول کر رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کا بل بھی پارلیمنٹ سے منظور ہو چکا ہے لیکن گورنر اسٹیٹ بینک پہلے کی طرح پارلیمنٹ کو رپورٹ کریں گے اور انہیں احتساب سے بھی استثنیٰ حاصل نہیں ہو گا۔ آئی ایم ایف کی دیگر شرائط میں اسٹیٹ بینک پالیسی ریٹ میں 1.5 فیصد اضافہ، جی ڈی پی گروتھ جس کا ہدف رواں سال 4 فیصد رکھا گیا ہے اور مانیٹری پالیسی کے ذریعے افراط زرکو کنٹرول کرنا ہے۔ توانائی کے شعبے میں اصلاحات سے گردشی قرضوں کو کم کرنا ہے جس کیلئے حکومت کو بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ کرنا پڑے گا تاہم اس ضمن میں آئی ایم ایف نے پاور سیکٹر میں صرف مستحق صارفین کو براہ راست سبسڈی دینے پر اتفاق کیا ہے۔ آئی ایم ایف نے خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں اسٹیل ملز، ریلوے، واپڈ اور پی آئی اے کی نجکاری، گڈ گورننس، کرپشن کے سدباب اور ایکسپورٹس بڑھانے اور کورونا ویکسین پر خرچ ہونے والے اخراجات کی تفصیلات اور آڈٹ کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
گزشتہ 5 ماہ (جولائی سے نومبر) میں ملکی ایکسپورٹس 12.34 ارب ڈالر جبکہ امپورٹس 32.94 ارب ڈالر رہیں اور اس طرح 111.74 فیصد اضافے سے 20.60 ارب ڈالر کا ریکارڈ تجارتی خسارہ ہوا جس کی وجہ سے کرنٹ اکائونٹ خسارے میں اضافہ، زرمب��دلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر میں کمی سے روپیہ 178 روپے کی کم ترین سطح پر آ گیا ہے جس سے قرضوں میں 2300 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ 2135 پوائنٹس کی تاریخی کمی سے کریش ہو گئی اور سرمایہ کاروں کے 332 ارب روپے ڈوب گئے۔ 4 ارب ڈالر ماہانہ سے 48 ارب ڈالر سالانہ تجارتی خسارہ موجودہ زرمبادلہ کے ذخائر برداشت نہیں کر سکتے لہٰذا ہمیں بڑی گاڑیوں اور پرتعیش اشیاء کی امپورٹس فوری طور پر بند کرنا ہوں گی۔ ان مشکل حالات میں بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی 30 ارب ڈالر کی ترسیلات زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑا سہارا دے رہی ہیں۔
حکومتی زرمبادلہ کے ذخائر 777 ملین ڈالر کی کمی سے 22.7 ارب ڈالر رہ گئے ہیں جس میں اسٹیٹ بینک کے 16.3 ارب ڈالر اور نجی بینکوں کے 6.4 ارب ڈالر شامل ہیں۔ روپے کی گرتی ہوئی قدر زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سبب ہے جسے مستحکم رکھنے کیلئے سعودی عرب نے سخت شرائط پر 3 ارب ڈالر سپورٹ فنڈ 4 فیصد منافع پر دیئے ہیں۔ اس کے علاوہ ماہانہ 100 ملین ڈالر کا ادھار تیل جو سالانہ 1.2 ارب ڈالر بنتے ہیں، 3.8 فیصد مارجن پر دینے کا ایک سالہ معاہدہ کیا ہے جسے بعد میں بڑھایا بھی جاسکتا ہے جبکہ سپورٹ فنڈز 72 گھنٹے کے نوٹس پر واپس لئے جا سکتے ہیں۔ سعودی سپورٹ فنڈز اور ادھار تیل کی سہولت ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنے میں مددگار ثابت ہو گی۔ آئی ایم ایف کا معاہدہ دوسرے مالیاتی اداروں ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور آئی ایف سی کیلئے گرین چٹ کی طرح ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کی معیشت کی مانیٹرنگ کر رہی ہے جس کی بنیاد پر پاکستان کیلئے ان اداروں کی فنڈنگ آسان ہو جاتی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ آئی ایم ایف پروگرام پر عملدرآمد کے نتیجے میں ناقابل برداشت مہنگائی پر قابو پانے کیلئے غریب صارفین کو براہ راست سبسڈی دینے سمیت ایسے اقدامات کرے کہ عوام مہنگائی کا مقابلہ کر سکیں اور سٹے باز ان حالات سے ناجائز فائدہ نہ اٹھا سکیں۔
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes
·
View notes
Text
اعلیٰ تعلیم، مشاورت کا فقدان اور چیئرمین ایچ ای سی کی برطرفی
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر چوہدری عبدالرحمان
چیئرمین ایپ سپ
دنیا کی کسی بھی قوم کا مستقبل جاننا ہو تواس کے معیارتعلیم کوجانچ لیں۔ تعلیم کو ترجیح بنانے والی اقوام نے زمانے میں اپنا لوہا منوایا ہے لیکن جہاں جہاں تعلیم کو پس پشت ڈالا گیا وہاں وہاں زوال ان قوموں کامقدر ہوتا چلا گیا اور ہمارے ہاں بقول حکیم الامت کچھ یوں ہوا کہ "وائے ناکامی، متاع کارواں جاتا رہا، کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا"۔ اعلیٰ تعلیم کا شعبہ کسی بھی قوم کے مستقبل اورملک کی معیشت کی مضبوطی کی حقیقی بنیاد ہوتا ہے لیکن جب بھی اس شعبے کو تجربات اورمفادات کی بھینٹ چڑھایا گیا تو نہ صرف یہ شعبہ ڈوبا بلکہ اچھے مستقبل کی امید بھی ڈوبی اوراُس ملک کی معیشت بھی دریابرد ہو گئی۔ وطن عزیز میں بھی ایک عرصے سے اعلیٰ تعلیم کا شعبہ حکومتی و غیرحکومتی رویوں کی وجہ سے آزمائشوں کے نرغے میں ہے۔ 2002 سے 2008 کے چھ سال وہ ہیں جب پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا فروغ اپنے عروج پر تھا۔ یہ وہ دورتھا جب 2002 میں یونیورسٹی گرانٹ کمیشن سے ہائرایجوکیشن کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا اور ڈاکٹرعطاءالرحمان اس کے پہلے بانی چیئرمین تعینات کئے گ��ے۔ سابق صدر جنرل (ر) پرویزمشرف کے ملکی سیاست میں کردار سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن یو جی سی سے ایچ ای سی کا قیام ایک ایسا درست فیصلہ تھا جس کے ذریعے ہم اپنی نوجوان نسل کے لوہے کو بہترین تعلیم کے مواقع کے ساتھ چاندی، تحقیق و جستجو کی لگن کے فروغ سے سونا بنا سکتے تھے، اوراب بھی بنا سکتے ہیں، لیکن اس کے لئے شرط صرف ایک تھی کہ ایچ ای سی کو اسی طرح چلایا جاتا جس طرح بانی چئیرمین اور اس وقت کی حکومت نے لگن، انصاف اورمیرٹ کے ساتھ چلایا۔ ڈاکٹرعطاءالرحمان کے دورمیں یونیورسٹیوں کے بجٹ میں گرانقدراضافہ ہوا، بہت سی نجی جامعات قائم ہوئیں اوران میں تعلیم وتحقیق کی ثقافت نے قابل فخر،پرشکوہ اورشاندار اندازمیں جنم لیا۔ سرکاری جامعات ہوں یا نجی سب کے لئے ایک معیار قائم کیا گیا، اعلیٰ تعلیم کے فروغ کےلئے نئے نئے مواقع پیدا کئے گئے۔
وقت گزرا حکومت بدلی یا شائد ”غیرجمہوری“ حکومت بدلی تو پیپلزپارٹی کا دورآیا، صوبوں کو خود مختاری ملی ،18 ویں ترمیم کی منظوری ہوئی اور ہائرایجوکیشن کے معاملات میں وفاق اور صوبوں میں کھینچاتانی شروع ہوگئی۔ صوبوں کے ہائرایجوکیشن کو دیکھنے والے محکمہ جات اور ان کے کلرک مافیا نے یونیورسٹیوں کو سونے کی چڑیا سمجھتے ہوئے دیہاڑیاں لگانے کی روش شروع کر دی۔ نہ صرف نجی اداروں بلکہ سرکاری یونیورسٹیوں کے سربراہان اور افسران کو بھی اپنے لامحدود اختیارات کے ذریعے بلیک میل کرکے لمبا مال بنایا جاتا رہا جس کی اعلی تعلیم کی تاریخ گواہ اوررکی ہوئی ہزاروں فائلیں ثبوت ہیں۔ علت کسی بھی چیزکی ہواسے اچھا نہیں کہا جا سکتا اور اس کی تباہ کاریوں سے بچنا بھی آسان نہیں۔ رشوت خوری کی علت نے بھی ادارے تباہ کئے اور تاحال یہ تباہی جاری ہے۔ ملک بھرکی نجی یونیورسٹیاں اس عذاب کا کچھ زیادہ ہی شکار رہی ہیں حالانکہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں نجی یونیورسٹیاں پچاس فیصد سے بھی زائد کی اسٹیک ہولڈرز ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتیں تو پچاس فیصد پاکستانی نوجوان ان پڑھ رہ جائے جس کے ملکی معیشت پر کتنے بھیانک اثرات پڑ سکتے ہیں شائد اس کا سوچ کربھی ایک محب وطن پاکستانی کانپ جائے، آپ آج کے پاکستان میں خدمات اور پیداوار کے شعبے کی گراس نیشنل پراڈکٹ میں ان نوجوانوں کا کردار کس طرح نظرانداز کرسکتے ہیں جو ان پرائیویٹ یونیورسٹیوں سے پڑھ کر میدان عمل میں آیا مگر ملک و قوم کی ترقی کی نقیب یہی نجی یونیورسٹیاں بارہ بارہ سال تک اپنے کیسز کی منظوری کے لئے دردرکی ٹھوکریں کھاتی ہیں لیکن انکے کیسز کی فائلیں کبھی ایک دفترتوکبھی دوسرے دفتر، اس دوران اگر فائل کو پہیے نہ لگوائیں اورمیرٹ کی پاسداری کا بھرم لئے یہ امید لگائے بیٹھے رہیں کہ آج نہیں تو کل ان کو منظوری مل جائے گی تو یہ امید کبھی پوری نہیں ہوتی۔
نجی یونیورسٹیوں کے مسائل جب حد سے بڑھ گئے اور دوردور تک ان کا حل نظر نہ آیا تو 2020 کے شروع میں ملک بھر کی نجی جامعات نے ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز پاکستان (ایپ سپ) کے پلیٹ فارم سے ایک فورم تشکیل دیا تا کہ اپنے جائز مسائل کے حل کےلئے مشترکہ جدو جہد کی جائے۔ راقم الحروف کے کندھوں پر اس پلیٹ فارم کے ذریعے ہائیرایجوکیشن کمیشن کی منظورشدہ 86 جامعات ( اور ان کے 31 سب کیمپسز) کی ذمہ داری ڈالی گئی۔ ذمہ داری سنبھالتے ہی 'ایپ سپ' نے اپنا چارٹرآف ڈیمانڈ حکومت کے سامنے پیش کیا جس کا اہم ترین نکتہ یہ تھا کہ پچاس فیصد کے سٹیک ہولڈر نجی سیکٹرسے اس کی زندگی اور موت کے فیصلوں میں مشاورت کی جائے، اس شعبے کو بھیڑبکریوں کا ریوڑ نہ سمجھا جائے جس نے اربوں اورکھربوں روپوں کی سرمایہ کاری کررکھی ہے اور قوم کے شاندار مسقبل کے خواب اور تعمیر میں ریاست کا برابر کا شریک کار اور حصے دار بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت سے یہ اپیل کی گئی کہ سالہاسال مختلف محکموں اور دفاترمیں چکر کاٹنے والے کیسز کو ایک چھت فراہم کی جائے یعنی ایک بے معنی، فضول اور بے کار مشق جیسے میکانزم کی بجائے ون ونڈو آپریشن کی سہولت فراہم کی جائے۔ ایسی پالیسیوں کا خاتمہ کیا جائے جس سے تحقیق کا کلچر فروغ پانے کی بجائے زوال پذیر ہورہا ہے۔ مستحق طلباء کے لئے خصوصی گرانٹ نجی یونیورسٹیوں کو بھی دی جائے تا کہ وہ اگر کسی نجی یونیورسٹی میں پڑھنا چاہتے ہیں تو پڑھ سکیں۔ نجی یونیورسٹیوں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت انکی سرپرستی کرے، تعلیم کےفروغ کے مقدس مشن میں اپنا ساتھی ، دوست اور مددگار سمجھے نہ کہ مد مقابل۔ منظوریوں کے کیسز سالہا سال سے سرکاری دفاتر میں پھنسے ہوں اور اس تاخیرکی سزا بھی نجی یونیورسٹیوں کو دی جائے یہ کہاں کا انصاف ہے، ایسا نہیں ہونا چاہئیے۔ سرکاری کی طرح نجی یونیورسٹیوں کی خود مختاری کا خیال بھی رکھا جائے،انہیں ملک کی بہتری کے لئے فیصلہ سازی کا اختیار دیا جائے، ایچ ای سی نجی جامعات کو ریسرچ، ٹریول، کانفرنس، ورکشاپس اور گرانٹس میں یکساں اورمساوی مواقع فراہم کرے۔ کئی کئی سال سے حل طلب مسائل نمٹانے کےلئے کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جن میں سٹیک ہولڈرز کو بھی شامل کیا جائے۔
حکومتی سطح پہ ایپ سپ کی اپیل پر فوری طور پر بہت اچھا رسپانس موصول ہوا اور پنجاب کے وزیر ہائر ایجوکیشن راجا یاسر ہمایوں نے ہر ایشو پرمعاونت کی یقین دہانی کرائی اورمشاورتی کمیٹیاں بھی بنا دی گئیں.گورنرپنجاب چوہدری محمد سرورکا رویہ بھی مشفقانہ اورہمدردانہ رہا،انہوں نے پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے مسائل کو سمجھا اور حکم دیا کہ کوئی بھی فائل ایک ہفتے سے زیادہ نہ روکی جائے مگرایک لمبا سانس لینے کے بعد اور افسوس کے ساتھ کہنے دیجئے کہ ان تمام کے باوجود پرائیویٹ سیکٹراسی کلرک مافیا کے نرغے میں ہے جو مافیا اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی خود مختاری کے اوائل میں نیا نیا پنپا تھا۔ مافیا کی جرات اور ہمت دیکھئے کہ وہ نیک جذبات اور مثبت ہدایات ردی کی ٹوکری کی نذر کر دی گئیں یوں ہمیں نئے پاکستان میں بھی ان رویوں، حربوں اورمشکلات کا سامنا ہے جنہیں جدید ریاستیں صدیوں نہیں توعشروں پہلے ضرور متروک قرار دے چکی ہیں، خیرباد کہہ چکی ہیں۔
حالیہ دنوں ہائرایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین کو تبدیل کیا گیا ہے، ان کی تبدیلی کے پیچھے کیاعوامل کارفرما ہیں ان سے درکنارحکومت سے درخواست کی جاتی ہے کہ جو بھی نیا چیئرمین لگایا جائے اسے وطن عزیز کی تعلیمی ضروریات، مستقبل کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ اس وقت درپیش تلخ زمینی حقائق کا علم ضرور ہو، جن کا اوپر ذکر کیا گیا۔ ون مین شو کی بجائے مشاورت پریقین رکھنے والا ہو۔ مطلق العنان بننے کی بجائے سب کو ساتھ لے کر چلنے والا ہو۔ ڈاکٹر طارق بنوری صاحب بھی اگر مشاورت سے فیصلے کرتے تو انکی کارکردگی کم ازکم اتنی تسلی بخش ضرور ہوتی کہ اگر حکومت انہیں عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ بھی کرتی تو اس طرح کبھی نہ کرتی جس سے رسوائی اٹھانا پڑتی۔
#superior university#chairman abdul rehman#urdu#blog#new blog#blogger#writer#corruption#politics#education system#higher education#hec
3 notes
·
View notes
Text
امضای قرارداد تولید لوکوموتیو بین شرکتهای واگن پارس و چین
امضای قرارداد تولید لوکوموتیو بین شرکتهای واگن پارس و چین
محمد مختاری ظهر امروز در مراسم امضای قرارداد تولید 50 دستگاه لوکوموتیو بین شرکتهای واگن پارس و دالیان چین و شرکت البرز نیرو اظهار داشت: شرکت واگن پارس اراک در سال 1363 کار خود را آغاز کرد و به تولید انواع محصولات واگن باری، مسافری و لوکوموتیو مبادرت داشته است .
(more…)
View On WordPress
#امضای قرارداد#تولید 50 دستگاه لوکوموتیو#تولید لوکوموتیو#دالیان چین#شرکت البرز نیرو#شرکت واگن سازی پارس#شرکتهای واگن پارس و دالیان چین و شرکت البرز نیرو#محمد مختاری#واگن سازی پارس
0 notes
Audio
http://ift.tt/2u8pDpA
0 notes
Photo
🕊️ آدمیزاد که خیک ماست نیستش انگشت بزنیم توش جای انگشت هم بیاد جای انگشت درد و فقر و رنج و بلا و تنهایی و بی پناهی و اینها در آدم می مونه... محمد مختاری (۱ اردیبهشت ۱۳۲۱ – ۱۲ آذر ۱۳۷۷) شاعر، نویسنده، مترجم و منتقد چپگرای ایرانی و از فعالان کانون نویسندگان ایران بود در ماجرای موسوم به قتلهای زنجیرهای کشته شد. 🖤🥀 (at Auckland, New Zealand) https://www.instagram.com/p/CkgMq93vywvpkb7Rt4CBom0XBmPNMrn5o9VHoQ0/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
Text
قائد اعظم کے 14 نکات
قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کو شروع سے ہی سیاست میں بہت دلچسپی تھی، بچپن میں آپ دنیا کی بڑی شخصیات کے حالات زندگی کا مطالعہ کرتے اور اسمبلی کے اجلاسوں کی کارروائیاں اور سیاسی مباحثے بڑے شوق سے سُنتے تھے۔ آپ نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز ہندوستان کی جماعت کانگریس میں شمولیت سے کیا، آپ نے 1906ء میں کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور ابتداء میں ہندو مسلم اتحاد و اتفاق کی کوششوں میں جُت گئے اور انگریزوں کے خلاف مشترکہ جدوجہد کا پرچار کرتے رہے۔ 1913ء میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت کے ساتھ ہی آپ نے اپنی تمام تر کوششیں مسلمانانِ ہندوستان کے حقوق کے تحفظ کےلیے وقف کر دیں، آپ کی شمولیت سے آل انڈیا مسلم لیگ، ہندوستان کی ایک مضبوط جماعت بن گئی۔ جلد ہی قائد اعظم محمد علی جناح مسلمانوں میں نہایت مقبول ہو گئے اور 1916ء میں آپ کو مسلم لیگ کا صدر منتخب کر لیا گیا، جس سے تحریک آزادی میں ایک نئی روح پڑ گئی، آپ نے نو جوانوں کو متحرک کیا اور اسکولوں، کالجوں میں نظریۂ پاکستان کی ترویج کی۔ تحریک خلافت (خلافت موومنٹ) کے بعد ملک میں فسادات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ ان حالات سے قائداعظم دلبرداشتہ ہو گئے۔ انہوں نے1926ء میں کہا کہ، ’اس حقیقت سے راہِ فرار ممکن نہیں کہ فرقہ واریت اس ملک میں موجود ہے۔ محض جذبات اور امتداد زمانہ سے یہ رفع نہیں ہو سکتی‘۔ اس دوران نہرو رپورٹ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ نہرو رپورٹ برطانوی راج کی جانب سے جاری کی گئی سائمن کمیشن کے جواب میں تیار کی گئی تھی۔
سائمن کمیشن کو ہندوستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے مسترد کر دیا تھا، جس کے بعد 8 مارچ 1928ء کو نہرو کو نیا آئین تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ نہرو رپورٹ کے ردِعمل میں 1929ء میں مسلمانوں کی آل پارٹیز کانفرنس کلکتہ میں منعقد ہوئی، جہاں قائداعظم نے اپنے 14 نکات پیش کیے، جن کو انتہا پسند ہندوئوں نے نہ صرف رد کر دیا بلکہ قائد اعظم پر مزید طعن و تشنیع کی گئی۔ یہ وہ موقع تھا، جب قائد اعظم ؒ کا دل ہندوئوں سے بیزار ہو گیا۔ انہوں نے کلکتہ سے روانہ ہوتے ہوئے، جمشید جی نوشیروان کا ہاتھ پکڑا اور کہا، ’اب جدائی کا آغاز ہے‘۔ قائد اعظم نے اپنے پیش کردہ 14 نکات کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ مستقبل کے ہندوستان میں سیاست اور معاشی ترقی کے میدان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو مساوی مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ ان نکات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تصورِ پاکستان کی ابتداء اسی سے ہوئی۔
قائد اعظم محمد علی جناح کے14 نکات درج ذیل ہیں.
1-ہندوستان کا آئندہ دستور وفاقی نوعیت کا ہو گا۔
2-تمام صوبوں کو برابری کی سطح پر مساوی خود مختاری حاصل ہو گی۔
3-ملک کی تمام مجالس قانون ساز کو اس طرح تشکیل دیا جائے گا کہ ہر صوبے میں اقلیت کو مؤثر نمائندگی حاصل ہو اور کسی صوبے میں اکثریت کو اقلیت یا مساوی حیثیت میں تبدیل نہ کیا جائے۔
4-مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کو ایک تہائی نمائندگی حاصل ہو۔
5-ہر فرقے کو جداگانہ انتخاب کا حق حاصل ہو۔
6-صوبوں میں آئندہ کوئی ایسی اسکیم عمل میں نہ لائی جائے، جس کے ذریعے صوبہ سرحد، صوبہ پنجاب اور صوبہ بنگال میں مسلم اکثریت متاثر ہو۔
7-ہر قوم و ملت کو اپنے مذہب، رسم و رواج، عبادات، تنظیم و اجتماع اور ضمیر کی آزادی حاصل ہو۔
8-مجالس قانون ساز کو کسی ایسی تحریک یا تجویز منظور کرنے کا اختیار نہ ہو، جسے کسی قوم کے تین چوتھائی ارکان اپنے قومی مفادات کے حق میں قرار دیں۔
9-سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کر کے غیر مشروط طور پر الگ صوبہ بنا یا جائے۔
10-صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان میں دوسرے صوبوں کی طرح اصلاحات کی جائیں۔
11-سرکاری ملازمتوں اور خود مختار اداروں میں مسلمانوں کو مناسب حصہ دیا جائے۔
12-آئین میں مسلمانوں کی ثقافت، تعلیم، زبان، مذہب، قوانین اور ان کے فلاحی اداروں کے تحفظ کی ضمانت دی جائے۔
13-کسی صوبے میں ایسی وزارت تشکیل نہ دی جائے، جس میں ایک تہائی وزیروں کی تعداد مسلمان نہ ہو۔
14-ہندوستانی وفاق میں شامل ریاستوں اور صوبوں کی مرضی کے بغیر مرکزی حکومت آئین میں کوئی تبدیلی نہ کرے۔
1 note
·
View note
Photo
ایول آقای محمد مختاری عزیز کشتیگیر کشور ما ۱۲ به ۲ تو سه دقیقه اول برد رو نسیب خودش کرد ماشالله ایران https://www.instagram.com/p/CUuXl3kDi3g/?utm_medium=tumblr
1 note
·
View note
Text
اردوان کا خطاب : جہانِ تازہ کی تلاش
پارلیمانِ اسلامی جمہوریہ پاکستان سے ترک صدر رجب طیب اردوان کا چوتھا خطاب محض خطاب برائے خطاب نہ تھا۔ مافیاز سے بنے پاکستانی اسٹیٹس کو میں گھری ہماری موجودہ اسٹیٹس کو دشمن عمرانی قیادت کے بلند تصورات اور ان کا کل عالم میں بیباک اظہار، عظیم ترک قائد کو شدید بحرانی کیفیت میں پھر پاکستان لے آیا۔ وہ آئے تو پھر وہ تھے اور پاکستان تھا۔ وہ صرف جیتی جاگتی ترک قوم کے مقبول ترین رہنما ہی نہیں ترکی کے جدید سیکولر اور مغربی رنگ میں رنگے جانے کے بعد سب سے کامیاب قائد بھی ہیں جنہوں نے اپنے جاری دور میں ترکی کو حقیقی سیاسی و اقتصادی استحکام دینے کا پہلا کٹھن اور طویل مرحلہ مکمل کرنے کے بعد راہ کا تعین کیا جو آج منزل کی طرف گامزن ہے۔
امر واقع یہ ہے کہ آج کی زوال میں ڈوبی دنیائے اسلام میں روایتی سیاسی سوچ اور عمل سے ہٹ کر بالآخر تین رہنما، مہاتیر محمد، اردوان اور عمران انتہا کے گنجلک اور تشویشی ماحول میں بفضل خدا ابھر آئے ہیں جنہوں نے اس تاریخی بیانیے کو غلط ثابت کر دکھایا ہے کہ ’’تاریخ کا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا‘‘۔ ان تینوں مسلم قائدین کی قدرِ مشترک ہی یہ ہے کہ یہ اپنی سیاست میں تاریخ سے سبق حاصل کر کے اور بنتی تاریخ پر نظر رکھتے ہوئے جدوجہد میں سرگرم لیڈر ہیں۔ جنہوں نے اپنے اپنے ملکی حالات اور اپنے اپنے مزاج و حواس کے مطابق اپنی قومی سیاست کی صورت گری کی، جس میں حائل مشکلات سے نمٹنا کوئی آسان کام نہیں۔
ان کی دوسری مشترکہ خوبی یہ ہے کہ یہ اپنی ذات و پارٹی ہی نہیں بلکہ ملکی مفاد سے بھی آگے ملّی سوچ کے حامل قائدین ہیں۔ باوجود اس کے کہ تینوں کی کامیابیاں، مشکلات اور حالات بہت مختلف ہیں۔ ان کی منفرد اور مشترک سوچ او آئی سی کے جمود سے نکل کر کہاں پہنچی، یہ سمجھنے کیلئے ان کی آفاقی ہوتی شہرت کے درج ذیل پس منظر کو ذہن میں رکھنا ہو گا۔ جنگ عظیم دوم میں انسانیت کی وسیع تر تباہی کے بعد اقوام متحدہ کا قیام بلاشبہ تہذیب انسانی کے ارتقائی عمل میں ایک بڑا سنگِ میل تھا۔ یوں کہ اقوام عالم نے بلاامتیاز مذہب و علاقہ اور رنگ و نسل و لسان، ایک ہمہ گیر چارٹر سے شدت سے مطلوب پُرامن و مستحکم عالمی معاشرے کی تشکیل کیلئے عالمگیر نظام و انتظام کا آغاز تو کیا۔
انسانی تاریخ میں پہلی بار کرہ ارض کی تمام قومیں‘ اقوام کی آزادی و خود مختاری، بنیادی انسانی حقوق اور جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ و احترام کو یقینی بناکر عالمی امن و استحکام کی شدید خواہش پر متحد ہو گئیں۔ مسلم ہی نہیں بہت سے غیر مسلم مورخ اور بین الاقوامیت کے اسکالرز بھی اتفاق کرتے ہیں کہ یو این چارٹر کی انسپریشن محسنِ انسانیت سید الانبیاﷺ کے شہرہ آفاق آخری خطبے حجۃ الوداع سے ہے۔ آج 75 سال بعد اقوام متحدہ کے چارٹر کی عملداری کی کیا تصویر بن رہی ہے، اس کا سات عشروں کا مجموعی رویہ اور اندازِ کار اس کے چارٹر سے متصادم ہو گیا۔ جسے صرف عالمی ادارے کی ترقیاتی ایجنسیاں ترقی پذیر ممالک میں سماجی ترقیاتی پروگرامز سے کور کر کے اس کا بھرم رکھے ہوئے ہیں.
وگرنہ اقوام متحدہ کے قیام کے چند سال بعد ہی کوریا کو تقسیم کرنے والی جنگ، ویتنام کو تقسیم کر کے ایک طویل جنگ، سرد جنگ کی آڑ میں وسیع تر تباہی پھیلانے والے اسلحے کی نہ رکنے والی دوڑ، افغانستان، عراق، فلسطین، کشمیر، میانمار و شام میں بنیادی انسانی حقوق کے پرخچے اڑائے جانے پر عالمی امن کی بےحسی اور کہیں کسی کی کامیابی روکنے کیلئے مداخلت اور جہاں مداخلت ناگزیر وہاں عدم مداخلت کی مکاری، ’’قومی مفادات‘‘ پر بنیادی انسانی حقوق اور آزادی، سرحدوں کا تحفظ و احترام جیسا ایجنڈا ہیچ نہیں ہو گیا؟ امریکی صدر نے عالمی ادارے کی جنگ 67 میں اسرائیل کے ہتھے چڑھے مقبوضہ علاقوں خصوصاً یروشلم کی متنازع حیثیت کے مقابل جو ’’ڈیل آف سنچری‘‘ کا اعلان کیا، ترک صدر نے پاکستانی پارلیمان میں اسے قبضے کے اعلان کی دیدہ دلیری قرار دیتے ہوئے رد کر دیا۔
جناب اردوان نے دنیا کو پاک ترک دوستی کی گہری جڑیں دکھاتے ہوئے سلطنت ِ مغلیہ کے ہندوستان پر چھوڑے گہرے نقوش، اردو ادب کے عظیم شاعر مرزا غالب، تحریک خلافت کے روح رواں علی برادران، سلطنت عثمانیہ کے فوجی دستوں کی مدد کرنے کیلئے آنے والے عبدالرحمٰن پشاوری جیسے تاریخ کے سنہری حوالوں کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاک ترک تعلقات شاعر اعظم محمد اقبالؒ اور قائداعظم محمد علی جناح کے قیمتی ورثے کے نتیجہ میں ہی موجودہ شکل تک پہنچی ہے۔ انہوں نے پاک ترک تعلقات کی حقیقت اور اس کے آج نکلنے والے دوررس نتائج کو یوں بھی واضح کیا کہ 1915ء میں جب ترک فوج چناق قلعہ کا دفاع کر رہی تھی تو اس محاذ سے 6 ہزار کلو میٹر دور اس سرزمین پر ہونے والے مظاہرے اور ریلیاں ہماری تاریخ کے ناقابلِ فراموش صفحات پر درج ہو چکے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاک ترک تعلقات دنیا کیلئے قابلِ رشک ہیں۔ یہاں کے عوام نے اپنا پیٹ کاٹ کر جس طرح ترکی کی مدد کی تھی ہم اسے کبھی فراموش کر سکے نہ کر سکیں گے۔ اس لئے کشمیر کی حیثیت ہمارے لیے وہی ہے جو پاکستان کیلئے۔ ہم پاکستانیوں کیلئے یہ ہی تقویت نہیں کہ ترک قیادت ہمارے بزرگوں کے کردار کی معترف ہے بلکہ وہ آج تاریخ کے اس سنہری ابواب کی روشنی میں ہی اپنی اور اپنے برادر پاکستان کی سلامتی و دفاع کی پالیسیوں کو تشکیل دیتے ہوئے باہمی مشاورت و تعاون کو اولیت دے رہی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جناب طیب اردوان کے خطاب کی سطر سطر معنی خیز تھی اور یہ پاکستان، ترکی اور خطے کی مطلوب صورتحال کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرے گی۔ لگتا ہے کہ اردوان، مہاتیر اور عمران خان ایک جہانِ تازہ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے ہیں جس کا پیغام حقیقی امنِ عالم اور اس کا اہتمام بلاجھجک و ابہام ہے۔
ڈاکٹر مجاہد منصوری
بشکریہ روزنامہ جنگ
3 notes
·
View notes
Text
محمد مرسی پیدائش 8 اگست
محمد مرسی پیدائش 8 اگست
محمد مرسی (مکمل نام عربی زبان میںمحمد مرسي عيسى العياط، اگست 1951ء – 17 جون 2019ء) مصر کے سیاست دان اور 30 جون 2012ء تا 3 جولائی 2013ء مصر کے پانچویں صدر بھی رہے۔ عبدالفتاح السیسی نے انہیں ایک طویل عوامی مظاہرے کے بعد 2013ء مصری فوجی تاخت کے دوران میں انہیں معزول کر کے قید کر دیا۔ بحیثیت صدر انہوں نے 2012ء میں ایک عبوری آئینی اعلان جاری کیا تھا جس کے تحت انہیں خود مختاری حاصل ہو گئی اور مکمل…
View On WordPress
0 notes
Text
نوشہرہ سون سکیسر زندہ قومیں اپنا یوم آزادی شایان شان طریقہ سے منایاکرتی ہیں
نوشہرہ سون سکیسر زندہ قومیں اپنا یوم آزادی شایان شان طریقہ سے منایاکرتی ہیں
نوشہرہ سون سکیسر(نمائندہ خصوصی) ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ سپیشل ایجوکیشن سنٹرملک علی فیضان اعوان نے کہاہے کہ زندہ قومیں اپنا یوم آزادی شایان شان طریقہ سے منایاکرتی ہیں قائد اعظم محمد علی جناح کے پیغام امید، ہمت اور خود مختاری میرے ہم وطنوں کے لئے یہی میرا پیغام ہے ان الفاظ میں سب کچھ بتادیاگیاہے ہم سب کو متحد ہوکر اپنا یوم آزادی باہمی اتحاد اور امن وامان کو ملحوظ خاطر رکھ کر پورے جذبہ سے منانا چائیے تاکہ…
View On WordPress
0 notes
Audio
http://ift.tt/2rZfXsD
0 notes
Photo
🕊️ از سخنان محمد مختاری آدمیزاد که خیک ماست نیستش انگشت بزنیم توش جای انگشت هم بیاد جای انگشت درد و فقر و رنج و بلا و تنهایی و بی پناهی و اینها در آدم می مونه... محمد مختاری (۱ اردیبهشت ۱۳۲۱ – ۱۲ آذر ۱۳۷۷) شاعر، نویسنده، مترجم و منتقد چپگرای ایرانی و از فعالان کانون نویسندگان ایران بود در ماجرای موسوم به قتلهای زنجیرهای کشته شد. (at Auckland, New Zealand) https://www.instagram.com/p/CkgLz-ovtN4M64wVhnNa9qHuyPw-z2JU2KVZvg0/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
Text
پختونخوا میں ازسرِ نو مردم شماری کا مطالبہ
پختونخوا میں ازسرِ نو مردم شماری کا مطالبہ
افغانستان میں بڑی تیزی سے صورتحال بدلتی جا رہی ہے پے درپے کامیابیوں سے طالبان کے حوصلے مزید بڑھتے جا رہے ہیں جبکہ افغان فوج طالبان کا مقابلہ کرنے میں بے بس ہو چکی ہے اور افغان فوجی حوصلہ ہار بیٹھے ہیں۔ طالبان کے حملوں کے دوران افغان فوجی ہتھیار پھینک کر طالبان سے وفاداری کا اعلان کر رہے ہیں طالبان افغانستان کے 34اضلاع میں سے31اضلاع پر قبضہ کر چکے ہیں جبکہ دو صوبوں میں صوبائی دارالحکومتوں کا کنٹرول بھی سنبھال لیا گیا ہے۔ افغانستان میں طالبان کے پے درپے کامیابیوں سے تحریک طالبان پاکستان بھی مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی بڑھتی جا رہی ہے جبکہ ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بھی بڑھتا جارہا ہے۔
افغانستان میں خانہ جنگی کی صورتحال کی وجہ سے ایک بار پھر لاکھوں افغانیوں کےپاکستان آنے کے امکان بڑھتے جا رہے ہیں اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پاکستان داخل ہونے والوں میں دہشت گرد بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کی بری اقتصادی معاشی و سیاسی صورتحال کی وجہ سے پاکستان کے لئے دہشت گردی س نمٹنا ناممکن ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لاکھوں لوگ جانوں کی قربانی دے چکے ہیں جن میں سیکورٹی فورسز پولیس اور سیاستدانوں کے علاوہ وزرا اور ارکان اسمبلی بھی شامل ہیں۔
اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی خان پر بھی خود کش حملہ ہوا جس میں وہ خود تو محفوظ رہے جبکہ کئی افراد شہیدو زخمی ہوئے اے این پی کے بزرگ سیاستدان و سابق وفاقی وزیر الحاج غلام احمد بلور پر بھی کئی بار حملے ہوئے لیکن وہ محفوظ رہے جبکہ حملوں میں الحاج غلام احمد بلور کے اکلوتے صاحبزادے شبیر احمد بلور ان کے بھائی و صوبائی سینئر وزیر بشیر احمد بلور اور بھتیجے بیرسٹر ہارون بلور شہید ہوئے تاہم خاندان کے تین سپوتوں کی شہادت کے باوجود الحاج غلام احمد بلور بڑی بہادری سے عوام کا ساتھ دیتے رہے جس پر بلور خاندان کو شہیدوں کے خاندان اور الحاج غلام احمد بلور کو بہادر سیاتدان کا خطاب دیا گیا۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن پر بھی حملہ ہوا تاہم وہ محفوظ رہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر انجینئر امیر مقام پر سات حملے ہوئے جبکہ ان پر ہونے والے خود کش حملہ میں ان کے چچا زادبھائی و سابق صوبائی وزیر پیر محمد خان شہید ہوئے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کے کمانڈنٹ صفوت غیور اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس ملک سعد خان سمیت پولیس کے ایک درجن سے زائد اعلیٰ افسرو سیکڑوں جوان شہید اور ہزاروں جوان زخمی ہوئے۔
افغانستان میں خانہ جنگی کے سلسلے میں پاکستان مزدور کسان پارٹی کے سربراہ افضل شاہ خاموش اور صوبائی صدر شکیل وحید اللہ خان کی طرف سے پختون قومی امن جرگہ کا اہتمام کیا گیا جس میں قومی وطن پارٹی کے قائد آفتاب احمد خان شیرپائو صوبائی چیئرمین و سابق صوبائی سینئر وزیر سکندر حیات خان شیرپائو۔ اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان مرکزی سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین پختون تحفظ مومنٹ کے سربراہ منظور پشتین قومی اسمبلی کے ممبر محسن داوڑ، نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر مختا باچا، پروفیسر ڈاکٹر سرفراز پختون اولسی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر سید عالم خان محسود عوامی ورکرز پارٹی کے صوبائی صدر انجینئر حیدر زمان اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے صوبائی صدر مختیار خان یوسفزئی کے علاوہ سول سوسائٹی کے نمائندوں رہنمائوں اور کئی قوم پرست و ترقی پسند سیاسی رہنمائوں نے شرکت کی۔
افغانستان میں امن اور پختونوں کے تحفظ کے لئے پختونوں کے قومی امن جرگوں کا تسلسل جاری رہنا چاہئے۔ حکمرانوں کی طرف سے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا دعویٰٰ کیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود افغانستان سے لوگوں کی آمد کا سلسلہ جار ی ہے پختونوں کو متحد ہو کر قبائلی علاقوں میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ اور قبائل سے ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانی چاہئے۔
قومی امن جرگہ کے اختتام پر پاکستان مزدور کسان پارٹی کے سربراہ افضل شاہ خاموش کی طرف سے مشتر کہ اعلامیہ جاری کیا گیا اعلامیہ میں کہا گیا کہ افغانستان میں امن ، استحکام اور افغانستان کی خود مختاری کا احترام کیا جائے۔ افغانستان میں امن اور جمہوریت کی سیاسی و اخلاقی حمایت اور افغانستان میں دوسروں کے علاوہ پڑوسی ممالک کی مداخلت کی مشترکہ مذمت کی جاتی ہے۔
پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو افغانستان کے امن کے حوالے سے ایک پیچ پر لانے اور مشترکہ لائحہ عمل کا حصہ بنانے کے لئے ایک کمیٹی بنائی جائے گی اور غیر سیاسی و غیر پارلیمانی اداروں کے اثر رسوخ اور کردار کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ پشتونخوا سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں نئے غیر اعلانیہ مہاجر کیمپوں کے قیام کی مخالفت کی جائے گی۔ضلعی سطح پر تمام سیاسی پارٹیوں کی طرف سے مشترکہ امن ریلیوں کا اہتمام کیا جائے گا۔افغانستان کے موجودہ حالات کی تمام تر ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے، جس نے امن کی ضمانت دیئے بغیر انخلا کا فیصلہ کیا جس کے نتیجہ میں موجودہ بدامنی پیدا ہوئی ہے۔ پشتون سرزمین پر دہشتگردوں کا دوبارہ منظم ہونے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
بے گھر افراد کی آبادکاری اور بحالی کا مطالبہ کیا گیا جبری لاپتہ ہونے کےواقعات پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ لینڈ مائنز اور بارودی سرنگوں سے تحفظ، نئے اضلاع میں انتظامی ، قانونی اور سیاسی اصلاحات اور ترقی کا مطالبہ کیا گیا۔ ایکشن اینڈ سول پاور ایکٹ کی مخالفت کی گئی، بلاک شناختی کارڈ بحال کر نے کا مطالبہ کیا گیا اور افغانستان کے ساتھ تجارتی راستوں کو کھولنے کا مطالبہ کیا گیا۔
اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کا تحفظ کیا جائے گا،خیبر پختونخوا میں ازسرنو مردم شماری کا مطالبہ کیا گیا، صوبوں کو ان کے وسائل حوالہ کرنے بجلی کے منافع کی ادائیگی کا مطالبہ کیا گیا اور ہسپتالوں کی نج کاری کی مخالفت کی گئی۔جرگہ میں علی وزیر کو حبس بے جامیں رکھنے کے خلاف ایک مشترکہ قرارداد بھی منظور کی گئی جس میںجنرل باجوہ کا علی وزیر کے حوالہ سے غیر آئینی بیان کو بنیاد بنا کر عدالتی نظام پر تشویش اور عدم ��عتماد کا اظہار کیا گیا۔
setTimeout(function() !function(f,b,e,v,n,t,s) if(f.fbq)return;n=f.fbq=function()n.callMethod? n.callMethod.apply(n,arguments):n.queue.push(arguments); if(!f._fbq)f._fbq=n;n.push=n;n.loaded=!0;n.version='2.0'; n.queue=[];t=b.createElement(e);t.async=!0; t.src=v;s=b.getElementsByTagName(e)[0]; s.parentNode.insertBefore(t,s)(window,document,'script', 'https://connect.facebook.net/en_US/fbevents.js'); fbq('init', '836181349842357'); fbq('track', 'PageView'); , 6000); /*setTimeout(function() (function (d, s, id) var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = "//connect.facebook.net/en_US/sdk.js#xfbml=1&version=v2.11&appId=580305968816694"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); (document, 'script', 'facebook-jssdk')); , 4000);*/ Source link
0 notes