#مجیب الرحمان
Explore tagged Tumblr posts
urduchronicle · 1 year ago
Text
مجیب، فضل اور نوین کے سنٹرل کنٹریکٹ روک لیے گئے، فرنچائز لیگ کھیلنے کی اجازت منسوخ
افغانستان کے کرکٹ بورڈ نے کہا ہے کہ مجیب الرحمان، فضل الحق فاروقی اور نوین الحق کے سالانہ کنٹریکٹ مؤخر کر دیئے گئے ہیں اور فرنچائز کرکٹ کھیلنے کی اجازت کو “قومی ذمہ داری” کو نظر انداز کرنے پر منسوخ کر دیا گیا ہے۔ کھلاڑیوں نے افغانستان کرکٹ بورڈ سے سنٹرل کنٹریکٹس سے آزادی اور بیرون ملک لیگز میں کھیلنے کی اجازت دینے کو کہا تھا۔ ACB نے پیر کو اپنے بیان میں کہا کہ انہوں نے اپنے مرکزی معاہدوں پر دستخط…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 7 months ago
Text
صحافت کی آبرو مجیب شامی!
تحریر : عطاء الحق قاسمی ۔۔۔۔ بشکریہ: روزنامہ جنگ مجیب الرحمان شامی میرے فیورٹ صحافی اور اہل قلم ہیں۔ وہ شام چوراسی کے’’ گدی نشین‘‘ بھی ہیں۔ میںویسے اس حوالے سے ان سے بہت پیار کرتا ہوں کہ صف اول کے صحافی تجزیہ نگار ہونے کے باوصف وہ بہت اعلیٰ درجے کے انسان بھی ہیں، اپنے اور غیر ان کے پاس کسی کام کیلئے آتے ہیں، اگر وہ کام ان کے اپنے بس میں ہو تو خود کردیتے ہیں ورنہ فون پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیںاور دھڑا…
0 notes
emergingpakistan · 1 year ago
Text
بنگلہ دیش کا سیاسی منظرنامہ
Tumblr media
بنگلہ دیش میں سیاسی حالات خاصے خراب ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ حسینہ واجد کی حکومتی پالیسی اور طوالت ہے، وہ گزشتہ پندرہ سال سے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم چلی آرہی ہیں حزب اختلاف کی تمام سیاسی پارٹیاں مل کر بھی لاکھ احتجاج کے باوجود انھیں ان کے منصب سے نہیں ہٹا سکی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حسینہ واجد کو حزب اختلاف کی جانب سے ابھی تک کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ کبھی فوج بنگلہ دیشی حکومتوں کو گرا کر اقتدار پر قبضہ کر لیا کرتی تھی۔ بنگلہ دیشی فوج کے سربراہ جنرل ضیا الرحمان اور جنرل حسین محمد ارشاد پچھلی حکومتوں کا تختہ پلٹ کر خود حکومت کرتے رہے ہیں۔ لیکن اب صورتحال تبدیل ہو چکی ہے۔ بنگلہ دیش کی حزب اختلاف پارٹیاں حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف متحرک ہو چکی ہیں، بنگلہ دیشی عوام میں حزب اختلاف کو بھی پذیرائی مل رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں سات جنوری کو ہونے والے عام انتخابات کے سلسلے میں کافی ہلچل مچی ہوئی ہے تمام سیاسی پارٹیوں نے حسینہ واجد کی عوامی لیگ کے خلاف متحدہ محاذ بنا لیا ہے، یہ صورت حال حسینہ واجد کے لیے کافی پریشان کن ہے اور وہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کررہی ہیں، بنگلہ دیشی الیکشن کمیشن اور انتظامیہ حسینہ واجد کا دم بھر رہے ہیں اس طرح حزب اختلاف کے نزدیک اس الیکشن سے کوئی تبدیلی آنے والی نہیں ہے۔
حسینہ واجد کو پھر سے اقتدار میں رکھا جانا ہے۔ حزب اختلاف یہ تماشا دیکھ کر الیکشن سے دست بردار ہو چکی ہے یعنی کہ اس نے الیکشن لڑنے سے خود کو روک لیا ہے، اب اس طرح بنگلہ دیشی جمہوریت مکمل ڈکٹیٹر شپ میں تبدیل ہو چکی ہے کیونکہ اب حسینہ واجد ہی الیکشن میں تنہا امیدوار ہیں اور وہ اس طرح بلا مقابلہ الیکشن جیت جائیں گی لیکن یہ کوئی الیکشن نہیں کہلائے گا، بلکہ سلیکشن ہی ہو گا۔ ادھر بنگلہ دیشی حزب اختلاف کی پارٹیاں اب صرف حسینہ واجد یا عوامی لیگ پر برہم نہیں ہیں بلکہ وہ بھارتی پالیسی کے خلاف ہیں۔ عوام بھی حزب اختلاف کا ساتھ دے رہے ہیں کیونکہ بنگلہ دیشی عوام نے اپنی محرومیوں کو دور کرنے کے لیے 1971 میں مجیب الرحمن کا ساتھ دیا تھا مگر اب وہ صورتحال نہیں رہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اب بھی ان کے دلوں میں پاکستان کی محبت زندہ ہے وہ اس لیے کہ 1970 میں ہونے والے پاکستان کے پہلے عام انتخابات میں انھوں نے اپنی محرومیوں کو دور کرنے اور پاکستان کو مضبوط کرنے کے لیے اپنا مینڈیٹ دیا تھا، پاکستان کو توڑنے کے لیے ہرگز مینڈیٹ نہیں دیا تھا مگر ان کے حق رائے دہی کا مجیب الرحمن نے غلط استعمال کیا اور پاکستان کی وحدت کو قائم رکھنے کے بجائے دولخت کر دیا تھا۔
Tumblr media
حقیقت یہ ہے کہ اگر مشرقی اور مغربی بازو میں ہزاروں میل کے فاصلے حائل نہ ہوتے، اگر فاصلے بھی حائل رہتے بھی مگر بھارت جیسا دشمن ملک بیچ میں نہ ہوتا تو مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے دنیا کا کوئی ملک علیحدہ نہیں کر سکتا تھا۔ ملک کے دولخت ہونے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کو بھی الزام دیا جاسکتا ہے مگر سیاسی قیادت کو بھی علیحدگی کی ذمے داری سے الگ نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں بھارت کے نامور بزرگ صحافی کلدیپ نیّر نے ڈھاکا جا کر شیخ مجیب الرحمن سے ایک انٹرویو کیا تھا، اس میں انھوں نے ان سے بھٹو کے بارے میں بھی سوال کیا تھا کہ کیا بھٹو بھی مشرقی اور مغربی پاکستان کو علیحدہ کرنا چاہتے تھے تو مجیب الرحمن نے انھیں بتایا تھا کہ جن دنوں وہ پاکستان کی حراست میں تھے ان سے بھٹو خود ملنے کے لیے آئے تھے۔ انھوں نے مجھ سے کہا تھا کہ پاکستان کی سالمیت کو برقرار رکھیں اور کوئی ایسا فارمولا بنا لیں کہ آپ کو مشرقی پاکستان میں زیادہ سے زیادہ خودمختاری مل جائے اور اس طرح وہاں کے عوام کا احساس محرومی کم ہو سکے۔ اس پر مجیب نے کہا تھا کہ وہ اس وقت اس سلسلے میں کوئی وعدہ نہیں کرسکتے وہ وہاں جا کر حالات دیکھیں گے اور اس کے بعد ہی کوئی حتمی فیصلہ کر سکیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ بھٹو کو مختلف حربوں کے ذریعے بدنام اور عوام میں غیر مقبول بنانے کی کوشش کی گئی تھی اور بالآخر انھیں ان کی ہی پارٹی کے ایک لیڈر کے باپ کے قتل کی پاداش میں پھانسی کے تختے پر چڑھا دیا گیا۔ اب ان کی موت کو جوڈیشل قتل قرار دے کر اس کا مقدمہ دائر کر دیا گیا ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے مگر دیکھیے کیا فیصلہ آتا ہے۔ اگر پاکستان کو توڑنے میں کسی کا ہاتھ تھا وہ شیخ مجیب الرحمن اور اس کے انتہا پسند ٹولے کا تھا۔ تاج الدین اور کمال الدین جیسے انتہا پسندوں نے مجیب کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ مجیب الرحمن کی پاکستان سے غداری اگرتلہ واقعے جسے اگرتلہ سازش کا نام دیا گیا تھا سے ہی ثابت ہو گئی تھی مگر ایوب خان نے کوئی خاص ایکشن نہیں لیا تھا۔ آزاد بنگلہ دیش بنانے کے منصوبے پر دراصل 1962 سے ہی کام شروع ہو چکا تھا اور ایک طرف بھارتی حکومت سے اس سلسلے میں مدد لینے کی درخواست کی گئی تھی تو دوسری جانب مغربی بنگال کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ باسو کو بھی اعتماد میں لیا گیا تھا۔ 
دونوں نے مل کر گریٹر بنگال بنانے کا اظہار کیا تھا اس طرح دونوں بنگال کو ملا کر ایک آزاد خودمختار بنگلہ دیش بنانے کے لیے تعاون کرنے کے وعدے کیے گئے تھے البتہ مغربی بنگال کو مشرقی بنگال سے ملانے کے منصوبے کو مخفی رکھا گیا تھا تاکہ بھارت سے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کے لیے ضروری مدد لی جائے پھر مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعد دوسرے مرحلے میں مغربی بنگال کو اس میں شامل کر دیا جائے۔ ہوا یہ کہ بھارت کی مدد سے بنگلہ دیش تو بن گیا مگر بھارت نے مغربی بنگال کو بنگلہ دیش میں شامل نہ ہونے دیا۔
عثمان دموہی 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
risingpakistan · 2 years ago
Text
عمران خان حاضر ہوں
Tumblr media
کراچی میں اس روز شہید ملت روڈ سے کشمیر روڈ تک تمام راستے سیل کر دیئے گئے تھے تمام اخبار نویسوں کو اسپورٹس کمپلیکس میں جانے کی اجازت نہیں تھی پھر بھی بی بی سی سے وابستہ اقبال جعفری مرحوم نے کوئی ’ٹاکرہ‘ لگایا اور صبح سویرے ہی اندر پہنچ گئے۔ وہاں ایک ’فوجی عدالت‘ میں سابق وزیراعظم محترمہ بےنظیر بھٹو شہید کو بطور گواہ لے کر آنا تھا جہاں کمیونسٹ لیڈر جام ساقی اور ان کے ساتھیوں پر ’بغاوت‘ کا مقدمہ چل رہا تھا۔ شاید ہی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی مقدمہ میں اتنے سیاسی رہنما بطور گواہ پیش ہوئے ہوں خان عبدالولی خان سے لے کر غوث بخش بزنجو تک۔ ’خبر‘ کی اصل اہمیت نظر بندی کے بعد پہلی بار بےنظیر بھٹو کا کسی عدالت میں پیش ہونا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہو چکی تھی، میں نیا نیا اس شعبہ میں آیا تھا اور اس مقدمہ کو پہلے روز سے کور کر رہا تھا، مگر دوبار فوجی عدالتوں میں چلنے والے مقدمات کو دیکھ چکا تھا۔ ایک بار خود گواہ کے طور پر بلایا گیا، پی پی پی کے سیاسی کارکن ایاز سموں کے کیس میں کیونکہ اس کی گرفتاری کی تاریخ پر اور میری دی ہوئی خبر میں فرق تھا۔ 
مگر وہ کورٹ کراچی سینٹرل جیل کے پہلے فلور پر تھی جبکہ یہ عدالت اس کمپلیکس میں تھی جس کو ڈپٹی مارشل لا کے ہیڈ کوارٹر میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ بہرحال سخت ترین سیکورٹی میں ان کو پیش کیا گیا اور بی بی سی ریڈیو سے ان کے اور عدالت کے درمیان مختصر مکالمہ سنایا گیا۔ جعفری صاحب بھی کمال کے صحافی تھے ’خبر‘ کیا ہوتی ہے اور کیسے نکالی جاتی ہے، نئے آنے والے اور بہت سے ’سینئر صحافیوں‘ کو بھی سیکھنے کی ضرورت ہے۔ بےنظیر نے طویل بیان ریکارڈ کرایا اور جام ساقی اور دیگر کامریڈ کا دفاع کیا ’بغاوت‘ کے مقدمہ کو مسترد کیا اور مارشل لا کو ملک کیلئے نقصان دہ قرار دیا۔ انہیں خود کئی بار سویلین کورٹ اور انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا کراچی اور سکھر جیل کا بھی تجربہ رہا۔ سابق وزیراعظم نواز شریف پر 12 اکتوبر 1999 کو سابق صدر اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے جہاز کے اغوا کا مقدمہ کراچی ہی کی ایک خصوصی عدالت میں چلایا گیا ملزمان کو ، جن می�� شہباز شریف، سعید مہدی (پرنسپل سیکرٹری) اور کئی دیگر رہنما شامل تھے، APC میں لانڈھی جیل سے لایا جاتا۔
Tumblr media
جسٹس (ر) رحمت حسین جعفری جج تھے۔ راقم نے یہ مقدمہ بھی تفصیل سے کور کیا۔ اس سے پہلے 1998 میں کراچی میں گورنر راج لگا تو فوجی عدالتیں بھی قائم ہوئیں اور گو کہ کچھ ماہ بعد سپریم کورٹ نے گورنر راج کو ہی غیر آئینی قرار دے دیا، عدالتیں بھی ختم کر دی گئیں مگر اس دوران غالباً دو ڈکیتی کے ملزمان کو سزائے موت ہو گئی جس میں ایک بنگالی کا مقدمہ انتہائی متنازع تھا۔ اہم بات یہ تھی کہ صحافیوں کو سماعت دیکھنے کی اجازت تھی۔ ہمیں صبح سویرے ملیر کینٹ جانا پڑتا تھا۔ کمرہ انتہائی مختصر سا تھا جس میں بمشکل 10 سے 12 لوگ آ سکتے تھے لہٰذا جو پہلے پہنچ گیا اس کو جگہ مل گئی۔ ویسے تو ہماری تاریخ میں راولپنڈی سازش کیس سے اگرتلہ سازش، حیدرآباد ٹرائل میں نیشنل عوامی پارٹی کیس تک، فیض احمد فیض سے لے کر مولانا مودودی اور شیخ مجیب الرحمان سے ذوالفقار علی بھٹو تک کسی کو اسپیشل کورٹ تو کسی کو ملٹری کورٹ اور کسی کو نام نہاد سویلین عدالتوں سے سزائے موت تک سنائی گئی اور بھٹو کا تو ’جوڈیشل مرڈر‘ تک ہوا مگر اس بار شاید کچھ مختلف ہونے جا رہا ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو ہم شاید جمہوریت کو مزید کمزور یا شاید مفلوج کر دیں۔
پاکستان کی پارلیمنٹ اگر جمہوری سیٹ اپ میں ایک معزول وزیراعظم کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں کرنے کے حق میں فیصلہ کر دے تو مستقبل میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کی طرح ایک نظیر قائم ہو جائے گی۔ ابھی تو خود آرمی ایکٹ نافذ کرنے والوں نے یہ فیصلہ نہیں کیا کہ 9 مئی کے قابل ِمذمت واقعات کی سازش اور بغاوت کا مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان پر قائم کیا جائے یا نہیں اور ہو تو کس عدالت میں چلایا جائے مگر قومی اسمبلی نے اس کی اجازت دے دی ہے۔ اگر خان صاحب پر مقدمہ ’ملٹری کورٹ‘ میں چلتا ہے تو یہ ہماری سیاسی تاریخ میں پہلی بار ہو گا کہ کسی سابق وزیراعظم کو ’ملٹری کورٹ‘ کا سامنا بطور ملزم کرنا پڑے وہ بھی ’بغاوت اور سازش‘ میں جس کی سزا عمر قید یا موت بھی ہو سکتی ہے۔ اس وقت تک 9 مئی کے واقعات میں لاہور میں واقع کور کمانڈر ہائوس یا جناح ہائوس، GHQ راولپنڈی، ریڈیو پاکستان پشاور پر حملے اور شہدا کے مجسموں کی بے حرمتی پر 70 سے زائد افراد کا کیسز سویلین عدالتوں سے ملٹری کورٹس منتقل ہو چکے ہیں، جن میں بہرحال تحریک انصاف کا کوئی مرکزی لیڈر شامل نہیں مگر پاکستان تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی اور سرکردہ کارکنوں کے ساتھ اس وقت وہی ہو رہا ہے جو 22 اگست 2016 کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ ہوا۔ 
وہ دن ہے اور آج کا دن ایک ’تلوار‘ہے جو لٹکا دی گئی ہے۔ ہم شاید آگے بڑھنے کو تیار ہی نہیں۔ اس شہر قائد کی سیاست تو برسہا برس سے ’فارم ہائوس‘ یا مخصوص بنگلوں سے کی جا رہی ہے کبھی کوئی ملزم بن کر حاضر ہوتا ہے تو کبھی گواہ ،’معافی‘ ہو گئی تو آپ مشیر بھی بن سکتے ہیں اور وزیر بھی۔ یہاں تو وزیر اعلیٰ بغیر اکثریت بنے ہیں ہم ایک میئر کے الیکشن کا رونا رو رہے ہیں۔ مجھے تو ان 30 یوسی چیئرمین کی فکر ہے کیونکہ ابھی ’عشق کہ امتحاں اور بھی ہیں۔‘‘ اس پس منظر میں پاکستان کا سیاسی منظر نامہ خود ان سیاست دانوں، دانشوروں، ادیبوں، شاعروں اور سول سوسائٹی کو دعوت فکر دیتا ہے کہ کیا اس ملک میں کبھی جمہوری کلچر فروغ پا بھی سکے گا جہاں کالعدم تنظیموں کو، انتہا پسندوں کو اسپیس دی جا رہی ہے، بات چیت ہو رہی ہے اور یہ عمل خود ہمارے سابق وزیر اعظم نے شروع کیا۔ 
وہ بھی اپنے مخالف سیاست دانوں سے بات کرنا پسند نہیں کرتے تھے علی وزیر، ادریس بٹ اور نہ جانے کتنے سیاسی لوگوں کی غیر قانونی حراست کا دفاع کرتے تھے آج خود ان کی پارٹی کے لوگوں پر مشکل وقت ہے وہ خود سو سے زائد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے آج کے حکمران بھی اسی ڈگر پر ہیں۔ اگر جمہوریت میں بھی اظہار رائے پر پابندی ہو، سیاسی کارکن اور صحافی غائب ہوں۔ کسی جماعت یا لیڈر پر غیر علانیہ پابندی ہو، الیکشن میں بھی مثبت نتائج کا انتظار ہو، ورنہ انتخابات ملتوی کرنے کی باتیں ہورہی ہوں۔ اب اگر اس میں ملٹری کورٹس کا بھی اضافہ ہو جائے اور وہ بھی سابق وزیراعظم پر جس کو ’جمہوری پارلیمنٹ‘ کی بھی حمایت حاصل ہو تو پھر کون سا بہترین انتقام اور کون سا بہترین نظام۔
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
marketingstrategy1 · 2 years ago
Text
ویڈیو؛ آسٹریلوی کرکٹر نے زلمی کے اسکواڈ میں رہ کر ’’پشتو‘‘ سیکھ لی
ویڈیو پشاور زلمی کی جانب سے شیئر کی گئی ہے (فوٹو: ٹوئٹر) پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی معروف فرنچائز پشاور زلمی کے غیر ملکی کرکٹر نے پشتو اردو سیکھ لی۔ آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے پیٹر ہاٹزوگلو کی پشتو اردو میں بات کرنے کی ویڈیو پشاور زلمی کی جانب سے شیئر کی گئی ہے، جس میں بیٹر اردو میں اسلام و علیکم، واعلیکم اسلام جبکہ پشتو میں حال احوال پوچھنا سیکھ چکے ہیں۔ افغان کرکٹر مجیب الرحمان کے آنے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
nowpakistan · 5 years ago
Text
کرنل مجیب الرحمان شہید کی نماز جنازہ ادا
رپورٹ: امجد حسین، گلگت بلتستان
پاک فوج کے کرنل مجیب الرحمٰن شہید کی نماز جنازہ آرمی ہیلی پیڈ گلگت میں ادا کردی گئی۔
فورس کمانڈر میجر جنرل احسان محمود خان نے نماز جنازہ کی امامت کی ۔نماز جنازہ میں سی ایم گلگت بلتستان حفیظ الرحمن سمیت نامور عسکری سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت کی۔ شہید کے والد بیٹے کا دیدار کرتے ھوئے اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پائے۔
Tumblr media Tumblr media Tumblr media
گذشتہ روز پاک فوج کے کرنل نے جان دے کر…
View On WordPress
0 notes
kokchapress · 2 years ago
Text
نگاهی به روی‌دادهای انفجاری و انتحاری در بیش‌ از یک ماه گذشته
نگاهی به روی‌دادهای انفجاری و انتحاری در بیش‌ از یک ماه گذشته
شهروندان از نهاد‌های امنیتی و کشفی طالبان می‌خواهند که در جلوگیری از این روی‌دادهای خونین، اقدام جدی کنند. حمله‌های انفجاری در بیش از یک ماه پسین بر مسجدها هرات – ۱۱ سنبله ۱۴۰۱ حمله‌ی انفجاری در مسجد گازرگاه در شهر هرات که سبب کشته شدن مولوی مجیب الرحمان انصاری یکی از عالمان دین و از چهره‌های حامی طالبان شد. هم‌چنین در این انفجار، شماری از نمازگزاران نیز جان باختند. منابع شمار کشته شده‌ها در این…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 1 year ago
Text
بورڈ نے پابندیاں نرم کردیں، نوین الحق SA 20 کھیلنے جنوبی افریقا پہنچ گئے
نوین الحق جنوبی افریقہ پہنچ گئے ، وہ ایس اے 20 میں ڈربن کے سپر جائنٹس کی نمائندگی کریں گے، افغانستان کرکٹ بورڈ (اے سی بی) معاہدے کے بعد تین کھلاڑیوں کے نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ (این او سی) سے انکار کرنے کے اپنے ابتدائی فیصلے سے پیچھے ہٹ گیا۔ نوین، فضل الحق فاروقی اور مجیب الرحمان پر گزشتہ ماہ “افغانستان کے لیے کھیلنے پر اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دینے” کے لیے پابندی لگائی گئی تھی، جب انہوں نے اے سی بی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistan-news · 3 years ago
Text
او آئی سی کی تاریخ کیا ہے؟
اکیس اگست 1969 کو ایک آسٹریلوی عیسائی ڈینس مائیکل نے یروشلم میں مسجد اقصی میں موجود 800 سالہ قدیم منبر کو آگ لگا دی جس کی لپیٹ میں مسجد اقصیٰ کی چھت بھی آ گئی۔ اِس واقعہ کے بعد پورے عالمِ اسلام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ اُس وقت کے مفتیٔ اعظم فلسطین امین الحسینی نے سخت احتجاج کیا اور پورے عالمِ اسلام کو اِس واقعہ پر مضبوط موقف اختیار کرنے کی دعوت دی۔ مفتی اعظم فلسطین کی پکار پر سعودی عرب اور مراکش نے قائدانہ کردار ادا کیا، جن کی کوشش سے مراکش کے شہر رباط میں مسلم دنیا کے سربراہ اکٹھے ہوئے۔
او آئی سی کی بنیاد کب رکھی گئی؟ 25 ستمبر 1969 کو اسلامی سربراہی کانفرنس کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی۔ اس کے چھ ماہ بعد ایک مرتبہ پھر سعودی عرب آگے بڑھا اور اسلامی ممالک کے تمام وزراء خارجہ کا پہلا باقاعدہ اجلاس جدہ میں منعقدہ کیا۔ 1972 میں او آئی سی کو باقاعدہ تنظیم کی شکل دی گئی اور یہ طے پایا کہ اس کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہر سال منعقد ہو گا جبکہ سربراہی اجلاس ہر تین سال بعد منعقد ہوا کرے گا۔
او آئی سی کا مقصد  او آئی سی کے چارٹر میں کہا گیا کہ، اسلامی، اقتصادی اقدار کا تحفظ، آپس میں یکجہتی کا فروغ، سماجی، اقتصادی، ثقافتی، سائنسی اور سیاسی شعبوں میں تعاون کے فروغ، عالمی امن و سلامتی کے قیام کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم خاص طور پر سائنس و ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جائے گا۔
اسلامی سربراہی کانفرنس کے سربراہی اجلاسوں کی تاریخ  اسلامی سربراہی کانفرنس کے سربراہی اجلاسوں کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو پاکستان میں منعقد ہونے والی سربراہی کانفرنس ابھی تک واحد کانفرنس ہے جس میں دنیا کے سب سے زیادہ ممالک نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کو کامیاب کرنے میں بھی سعودی سربراہ شاہ فیصل نے بنیادی کردار ادا کیا تھا، یہی وہ کانفرنس تھی جس میں ذوالفقار علی بھٹو، شاہ فیصل، معمر قذافی اور یاسر عرفات عالمی لیڈر بن کر اُبھرے۔ پاکستان میں ہونے والی سربراہی کانفرنس میں پہلی دفعہ فلسطین کو علیحدہ مملکت کا اسٹیٹس دیا گیا، بعد میں اسی بنیاد پر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کا موقع ملا۔ 1974 میں لاہور میں منعقد ہونے والی سربراہ کانفرنس میں مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی، فلسطین سے ہی یاسر عرفات، شاہ فیصل، یوگنڈا سے عیدی امین، تیونس سے بومدین، لیبیا سے کرنل قذافی، مصر سے انور سادات، شام سے حافظ الاسد، بنگلہ دیش سے شیخ مجیب الرحمان، ترکی سے فخری کورو سمیت تمام بڑے رہنما شریک تھے۔
اس تنظیم کے عروج کا یہ عالم تھا کہ 1980 میں پاکستان کے صدر محمد ضیاء الحق نے امت ��سلمہ کے متفقہ لیڈر کے طور پر اقوامِ متحدہ سے خطاب کیا اور ان کے خطاب سے قبل ریکارڈڈ تلاوت قرآن بھی چلائی گئی اور پھر زوال کا یہ عالم ہوا کہ ایران عراق جنگ کو بند کرانے میں ناکامی ہوئی، یوں ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ فورم غیر موثر ہوتا چلا گیا۔ کشمیر اور فلسطین کے مسائل جوں کے توں رہے۔ کویت پر صدام حسین کے حملے کا آبرو مندانہ حل نہ نکل سکا۔ او آئی سی کے ساتھ ایک دردناک حقیقت یہ بھی وابستہ ہے کہ اس کے عروج سے جڑے تمام کردار آہستہ آہستہ غیر طبعی موت مر گئے لیکن تاریخ میں آج بھی ان کا نام ��حفوظ ہے۔
او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کا اجلاس  سال میں ایک مرتبہ فیصلوں پر عملدرآمد کی صورتحال اور غور کے لیے وزرائے خارجہ کا اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔ طالبان کے افغانستان میں برسر اقتدار آنے کے بعد ملک کی تشویشناک صورتحال اور سنگین انسانی بحران کے خدشے کے باعث پاکستان کی کوششوں سے سعودی عرب کی دعوت پر او آئی سی وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس 19 دسمبر 2021 کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ہوا تھا اور اب تین ماہ کے قلیل عرصے میں یہ اجلاس دوبارہ پاکستان میں منعقد ہوا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ  
0 notes
pakistantime · 3 years ago
Text
لیڈر کا صرف ایماندار ہونا کافی نہیں
جس طرح عمران خان صاحب کے پاس دو راستے تھے، یا تحریکِ عدم اعتماد کا باوقار انداز میں سامنا کریں یا استعفی دے دیں، اسی طرح تحریکِ انصاف کے پاس اب دو راستے ہیں ۔۔۔ یا بطور جماعت خود احتسابی کرے یا پھر دوسروں کی جانب انگلیاں اٹھاتی رہے۔ اگر آپ کو پہلے سے ہی سب معلوم ہے۔ آپ سب کو ان سے بھی زیادہ جانتے ہیں تو پھر کسی بھی طرح کا مکالمہ تو رہا ایک طرف سادہ گفتگو بھی بے معنی ہے۔ لیکن اگر آپ کسی ظاہری ناکامی کو زندگی کے ایک عملی سبق کی طرح دیکھنے کی عادت ڈال لیں تو ہر ناکامی کی تہہ میں اتنی کامیابیاں پوشیدہ ہیں کہ شاید آپ کو ان کا مکمل ادراک کبھی بھی نہ ہو سکے۔ فی الحال بہت گہرائی میں غوطہ زن ہو کر موتی تلاش کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ سطح پر آس پاس بھی اتنے اسباق تیر رہے ہیں کہ چار پانچ بھی پکڑ میں آ جائیں تو بہت ہے۔ دیکھیے اس ملک کی پینسٹھ فیصد آبادی تیس برس تک کے انسانوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے نوے فیصد نے شاید ہی اپنی زندگی میں خوشی اور آسودگی کے کچھ لمحات گذارے ہوں۔ 
یہ عمر خواب دیکھنے کی ہوتی ہے مگر تعبیر میں اکثر کو بیابان ہی ملتا ہے۔ اس ملک کے اکثر نوجوانوں کو گذشتہ آٹھ عشروں میں چار انسانوں میں رول ماڈل کی جھلک دکھائی دی۔ محمد علی جناح، شیخ مجیب الرحمان، ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان۔ پہلے نے اپنا جو بھی کام تھا مکمل کر کے سپرد کر دیا اور قیدِ حیات سے بہ مجبوریِ عمر رہا ہو گیا۔ دوسرے نے اپنے جواں سال ووٹروں کی امنگوں کو آئینی و انتخابی دائرے میں نبھانے کی کوشش کی مگر اس کی سزا کے طور پر اس کو انتہا پسند سوچ کی جانب دھکیل کر ملک تڑوا دیا گیا۔ تیسرے کو موقع ملا مگر وہ دیگر طاقت ور مفادات کے لیے خطرہ بننے لگا تو راستے سے ہٹا دیا گیا۔ چوتھا یعنی عمران خان وہ لیڈر ہے جسے نہ صرف جاری نظام سے اکتائے مایوس نوجوانوں، بلکہ فوجی اسٹیبشلمنٹ کی بھی حمایت نصیب ہوئی اور عدلیہ کے چند اہم فیصلوں نے بھی بلاواسطہ طور پر اس کو وہ سپیس دیا جس میں وہ اپنا منشور (اگر کوئی تھا) آزما ��کے۔
مگر اقتدار کا ہر قیمتی دن لسانی داؤ پیچ کی دلدل میں غروب ہوتا چلا گیا۔ اگر 2023 کے بارے میں زیادہ سوچنے کے بجائے ہر گذرتے مہینے کی تئیس تاریخ پر نگاہ ٹکی رہتی تو شاید حالات قدرے گرفت میں رہتے۔ اس آپا دھاپی میں شاید کچھ بنیادی اسباق ان کی نظروں سے اوجھل رہے اور اس ’اوجھلیت‘ نے محض پونے چار برس میں بھاری قیمت وصول کر لی۔  پہلا بنیادی سبق یہ ہے کہ جاننے کا مطلب صرف یہی نہیں کہ میں کیا جانتا ہوں بلکہ یہ بھی ہے کہ میں کیا کیا نہیں جانتا۔ دوسرا بنیادی سبق یہ ہے کہ آدمی اپنی زبان تلے پوشیدہ ہے۔ کامیاب حکمران بولتے کم اور کرتے زیادہ ہیں۔ کم بولے گا تو ہی تولے گا۔ مگر سننے کے لیے خاموشی بنیادی شرط ہے۔ تیسرا بنیادی سبق یہ ہے کہ حکمران کا صرف ایمان دار ہونا کافی نہیں اس کے آس پاس بھی شفاف لوگوں کی موجودی ضروری ہے۔ ذاتی ایمان داری بار بار جتانا ہرگز لازمی نہیں۔ چاند کو روزانہ اپنی چمک اور گولائی کا تعارف نہیں کرانا پڑتا۔ 
ایمان دار تو میرا یار عبداللہ پنواڑی بھی ہے۔ اس بڑھاپے میں بھی وہ صبح سے شام تک کھڑا گردن جھکائے اپنا کام کرتا ہے۔ ہر وقت کھوکھے پر جھمگھٹا رہتا ہے۔ اس سے زیادہ محنتی میں نے بہت کم لوگ دیکھے ہیں۔ مگر لیڈر کو جو شے عبداللہ پنواڑی سے ممتاز کرتی ہے وہ ہے ویژن۔ عام آدمی کے پاس خواب تو ہوتا ہے پر ویژن نہیں۔ ویژن ایسے خواب کو کہتے ہیں جو عملی تعبیر کے امکانات سے بھر پور ہو۔ ورنہ شیخ چلی سے بڑا خواب گر بارِ دگر آنا تقریباً ناممکن ہے۔ چہارم یہ کہ لیڈر کو کانوں کا پکا ہونا چاہیے۔ میں اگر کان کا کچا ہوں تو اس کا نقصان زیادہ سے زیادہ میرے خاندان، دوستوں یا پڑوس کو پہنچے گا۔ حکمران یا لیڈر اگر کان کا کچا ہو تو اس کا نقصان ملک بلکہ نسلیں بھگتتی ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ سب سے طاقت ور آدمی ہی دراصل کمزور ترین آدمی ہے۔ جب تک حکمران بیساکھیوں پر ہے تب تک اسے سو میٹر کا چیمپیئن بننے کا خواب نہیں دیکھنا چاہیے اور جب وہ ایک بااختیار حکمران بن جائے اور لوگوں کی زندگی اور مستقبل کا فیصلہ اس کے ہاتھ میں ہو تو اسے ہر وقت صبح شام دیکھنا چاہیے کہ کہیں کرسی کا خوشامد انگیز نشہ اس کے فیصلوں پر تو اثر انداز نہیں ہو رہا۔ اور سب سے اہم نکتہ شاید یہ ہے کہ کوئی انسان ناقابلِ شکست و عقلِ کل نہیں۔ سوائے اوپر والے کے کسی آمر کو دوام نہیں۔ جولیس سیزر نے بھی ایک آدمی صرف اس کے لیے وقف کر رکھا تھا جو ہر روز سرگوشی کرے ’سیزر تو بھی فانی ہے‘۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
risingpakistan · 6 years ago
Text
اسٹیبلشمنٹ تو سب کی دوست ہے
اگر آپ تعصب، بدزنی اور شکوک کے دبیز عدسے اتار کر ریاستی اسٹیبلشمنٹ کا مطالعہ کریں تب آپ کو اندازہ ہو گا کہ اسٹیبلشمنٹ کسی کے بھی ارمانوں اور آدرشوں کو دبانا یا کچلنا نہیں چاہتی بلکہ اپنے مخصوص انداز میں ہر اس فرد ، گروہ یا تنظیم کی مدد کرتی ہے جس کے اہداف بظاہر ریاستی اہداف سے مختلف ہی کیوں نہ ہوں۔ مثلاً شیخ مجیب الرحمان ہرگز کامیاب نہ ہو سکتے اگر اسٹیبلشمنٹ انہیں اگرتلہ سازش کیس میں گرفتار کر کے راتوں رات ان کے سیاسی شئیرز کے بھاؤ آسمان پر نہ چڑھا دیتی۔ اس کے بعد اگر اسٹیبلشمنٹ انتخابی نتائج کی روشنی میں شیخ صاحب کو اقتدار منتقل کر دیتی تو خاصا امکان تھا کہ اپنی آمرانہ طبیعت کے ہاتھوں ایک آدھ برس میں ہی شیخ صاحب اتنے نا مقبول ہو جاتے کہ ان کے زوال پر خود بنگالی بھی ٹسوے نہ بہاتے۔
مگر اسٹیبلشمنٹ نے شیخ مجیب کو اقتدار نہ دے کر نہ صرف خود مختار بنگال کے حصول میں ان کی بھرپور مدد کی بلکہ ایک بھرپور آپریشن کے ذریعے یقینی بنا دیا کہ شیخ مجیب چاہیں بھی تو اپنے ارادوں سے پیچھے نہ ہٹ سکیں۔ یوں ایک ون ون سچویشن پیدا ہو گئی۔ شیخ صاحب کو ایک آزاد ملک کی صورت میں چھ نکات سے کہیں زیادہ مل گیا اور اسٹیبلشمنٹ کی جان مشرقی پ��کستان کے بوجھ سے چھوٹ گئی۔ بلوچستان میں موجودہ بدامنی گذشتہ بہتر برس میں چوتھی شورش ہے۔ پچھلی تین شورشیں چند برس جاری رہیں اور پھر اندرونی و بیرونی حالات کے دباؤ میں دب گئیں یا دبا دی گئیں۔ نائن الیون کے بعد بلوچستان میں بدامنی کی موجودہ لہر بھی کچھ عرصہ جاری رہنے کے بعد ختم ہو جاتی اگر اسٹیبلشمنٹ بروقت اکبر بگٹی کو مار کے بلوچ علیحدگی پسندوں کو ایک نیا آکسیجن ٹینک فراہم نہ کر دیتی۔
علاوہ ازیں یہ امر یقینی بنانے کے لیے کہ بلوچ مزاحمتی چنگاریاں ٹھنڈی نہ پڑ جائیں ۔ اس مزاحتمی ہانڈی کو جبری گمشدگی کے ایندھن کی دھیمی آنچ پر مسلسل پکنے کے لیے رکھ دیا گیا۔ پھر بھی اگر کوئی کہے کہ اسٹیبلشمنٹ بلوچ دشمن ہے تو اسے اپنی عقل کا پوسٹ مارٹم کروانا چاہئے۔ کابل نے پاکستان کی پیدائش کے بعد سے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا کہ پاکستانی پشتون ریاست سے بدک کر افغانستان کے ساتھ اتحاد یا کنفیڈریشن یا گٹھ جوڑ کے بارے میں سوچنا شروع کریں۔ مگر پشتون بھلے اس وقت کے صوبہ سرحد کا تھا یا قبائلی علاقے کا یا پھر بلوچستان کا۔ سب نے پچیس برس تک مسلسل جاری رہنے والے آزاد پختونستان پروپیگنڈے کو ٹھینگا دکھائے رکھا۔ جب سوویت یونین کے افغانستان میں گھسنے کے بعد پورے پشتون خطے کو بین الاقوامی اسلحہ خانہ اور میدانِ جنگ بنا دیا گیا تب بھی پشتونوں نے ریاستِ پاکستان کا بھر پور ساتھ دیا اور علمِ بغاوت بلند نہیں کیا۔
آج چالیس برس میں ہونے والی بربادی کے بعد بھی پشتون ریاست سے علیحدہ ہونے کو تیار نہیں۔ مگر جس طرح پشتون تحفظ موومنٹ کی پیدائش کے لیے حالات سازگار بنائے گئے۔ جس طرح انہیں وفاقی وحدت کے لیے ایک سنگین خطرہ ظاہر کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ جس طرح ان کی نقل و حرکت کو محدود کر کے یقینی بنایا جا رہا ہے کہ جلسوں میں لوگ زیادہ سے زیادہ شرکت کریں اور ان کے اسٹیج سے آئینی حقوق کے بجائے ایک قدم اور آگے جا کر مطالبے ہونے شروع ہوں ۔ یہ سب بتاتا ہے کہ پشتون چاہیں نہ چاہیں مگر ریاست ضرور چاہتی ہے کہ پاکستان کا ہر گروہ ، تنظیم اور فرد اقبال کا شاہین بن کر اپنی دنیا آپ پیدا کرے۔ میں خبر پڑھ رہا تھا کہ بلوچستان کے شہر ژوب میں پشتون تحفظ موومنٹ کے مقامی رہنما ارمان لونی کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد ان کی نمازِ جنازہ میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو شرکت سے روکا گیا۔ اس واقعہ پر بہت سے لوگ مقامی انتظامیہ اور ریاستی اسٹیبلشمنٹ کی مذمت کر رہے ہیں۔ ان کور چشموں کو نظر ہی نہیں آ رہا کہ یہ ریاستی اقدامات پی ٹی ایم کو کچلنے کے لیے نہیں بلکہ اسے مزید مقبول بنانے کے لیے ریاست کی جانب سے ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔ حتی کہ پی ٹی ایم ریاستی نگرانی و سرپرستی سے بے نیاز ہو کر خود اپنے پاؤں پر کھڑی ہو کر دوڑنے کے قابل نہ ہو جائے۔ ریاست کی یہ عادت سراہنے لائق ہے کہ چیلنج نہ ہو تو ایجاد کر لینا چاہئے تاکہ زندگی میں رونق میلہ لگا رہے اور ریاست کو اپنے وجود کا اطمینان و آنند حاصل رہے۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو  
1 note · View note
htvpakistan · 3 years ago
Text
18 جنوری کے اہم واقعات
18 جنوری کے اہم واقعات
واقعات 2005ءاقوام متحدہ کے زیر انتظام قدرتی آفات سے بچاؤ کی عالمی کانفرنس جاپان میں منعقد ہوئی 1974ء اسرائیل اور مصر کے درمیان جنگی ہتھیاروں کا م��اہدہ طے پایا 1968ء بنگلہ دیش کا پرچم مجیب الرحمان کو بھارت کا پرچم بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کا پرچم پاکستان کی سلامتی خلاف سازش کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ یہ سازش بعد ازاں اگرتلہ سازش کے نام سے مشہور ہوئی۔ 1960ء ریاستہائے متحدہ اور جاپان کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
umeednews · 3 years ago
Text
بلوچستان کی سیکیورٹی صورتحال کی غلط منظرکشی کی جارہی ہے ، مجیب الرحمن قمبرانی
بلوچستان کی سیکیورٹی صورتحال کی غلط منظرکشی کی جارہی ہے ، مجیب الرحمن قمبرانی
گوادر نے جتنی مشکلیں دیکھنی تھیں دیکھ لیں،اب ہم ترقی کی شاہراہ پر کھڑے ہیں،ڈی جی گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی . ساحل سیاحتی سرمایہ کاری کا بہترین موقع ہے، بلوچستان یورپ سے زیادہ محفوظ ہے ، کامران لاسی اور خواجہ نوید کا ظہرانے سےخطاب ڈائریکٹر جنرل گوادر ڈیولپمنٹ اتھارٹی مجیب الرحمان قمبرانی نے کہا ہے کہ بلوچستان کی سیکیورٹی صورتحال کی غلط منظرکشی کی جارہی ہے۔ گوادر نے جتنی مشکلیں دیکھنی تھیںدیکھ لیں۔…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
nowpakistan · 5 years ago
Text
بنگلا دیش: شیخ مجیب کا قاتل 28 سال بعد گرفتار
بنگلا دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کے قتل میں ملوث مفرور بنگلا دیشی فوجی کیپٹن کو 25 سال بعد گرفتار کرلیا گیا، جس کے بعد اس کی سزائے موت پر عمل درآمد کی تیاریاں شروع کر دی گئیں۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق مفرور فوجی کیپٹن عبدالمجید کو بنگلا دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں رکشہ میں سفر کے دوران گرفتار کیا گیا ہے۔
غیر ملکی خبرایجنسی کا کہنا ہے کہ شیخ مجیب الرحمان کے قتل کے جرم میں عبدالمجید کو…
View On WordPress
0 notes
omega-news · 3 years ago
Text
تحصیل کونسل مردان کی مخصوص نشستوں پر انتخابات مکمل
تحصیل کونسل مردان کی مخصوص نشستوں پر انتخابات مکمل
تحصیل کونسل مردان کی مخصوص نشستوں پر انتخابات مکمل کرلئے گئے۔ ریٹرنگ آفیسر مجیب الرحمان نے نتائج کا اعلان کردیا۔ اسسٹنٹ کمشنر مردان ڈاکٹر ثمن عباس، ایس ڈی سی سجاد خان سمیت دیگر افسران اور میڈیا نمائندے بھی موجود تھے۔ کونسل میں مخصوص نشستوں کی تعداد 45 ہیں۔ خواتین کی 30، کسان، یوتھ اور اقلیت کی پانچ پانچ نشستوں پر چناؤ مکمل ہوگیا۔ انتخاب قرعہ اندازی کے ذریعے کیا کیا گیا۔ قرعہ اندازی ریٹرنگ آفیسر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdunewspedia · 3 years ago
Text
اے پی ایس حملوں میں ملوث 12 دہشت گرد پاکستان اور 6 افغانستان سے گرفتار ہوئے، رپورٹ - اردو نیوز پیڈیا
اے پی ایس حملوں میں ملوث 12 دہشت گرد پاکستان اور 6 افغانستان سے گرفتار ہوئے، رپورٹ – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین  اسلام آباد: سانحہ آرمی پبلک اسکول کی رپورٹ کے مطابق حملے میں ملوث 12 دہشت گرد پاکستان اور 6 افغانستان سے گرفتار ہوئے۔  ایکسپریس نیوز کے مطابق 11 فروری 2015 کو جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق اے پی ایس ساںحے میں ملوث 12 دہشت گردو ں کو گرفتار کرلیا ہے، گرفتار دہشت گردوں میں عتیق الرحمان عرف عثمان، کفایت اللہ عرف کیف قاری، سبیل عرف یحٰیی آفریدی، مجیب الرحمان عرف علی، مولوی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes