Tumgik
#مجیب الرحمان شامی!
googlynewstv · 3 months
Text
صحافت کی آبرو مجیب شامی!
تحریر : عطاء الحق قاسمی ۔۔۔۔ بشکریہ: روزنامہ جنگ مجیب الرحمان شامی میرے فیورٹ صحافی اور اہل قلم ہیں۔ وہ شام چوراسی کے’’ گدی نشین‘‘ بھی ہیں۔ میںویسے اس حوالے سے ان سے بہت پیار کرتا ہوں کہ صف اول کے صحافی تجزیہ نگار ہونے کے باوصف وہ بہت اعلیٰ درجے کے انسان بھی ہیں، اپنے اور غیر ان کے پاس کسی کام کیلئے آتے ہیں، اگر وہ کام ان کے اپنے بس میں ہو تو خود کردیتے ہیں ورنہ فون پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیںاور دھڑا…
0 notes
umeednews · 3 years
Text
محمد عبداللہ حمید گل کی لاہور میں معروف صحافی مجیب الرحمان شامی سے ملاقات
محمد عبداللہ حمید گل کی لاہور میں معروف صحافی مجیب الرحمان شامی سے ملاقات
تحریک جوانان پاکستان کے چیئرمین محمد عبداللہ گل معروف سینیئر صحافی مجیب الرحمان شامی سے ملاقات کر رہے ہیں،ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور، آذادی اظہار رائے اور صحافت کے معیار و کردار کے حوالے سے بات چیت ہوئی۔ لاہور : چیئرمین تحریک جوانان پاکستان محمد عبداللہ حمید گُل کی لاہور میں معروف سینیئر صحافی و کالم نگار مجیب الرحمان شامی سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات۔دونوں کے درمیان ملاقات میں باہمی دلچسپی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
افغانستان کو تنہا چھوڑنے سے عدم استحکام پید ا ہوگا،وفاقی وزیر فواد چوہدری نے دنیا کو خبر دار کردیا
افغانستان کو تنہا چھوڑنے سے عدم استحکام پید ا ہوگا،وفاقی وزیر فواد چوہدری نے دنیا کو خبر دار کردیا
افغانستان کو تنہا چھوڑنے سے عدم استحکام پید ا ہوگا،وفاقی وزیر فواد چوہدری نے …
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن ) وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات نے کہا ہے کہ افغانستان میں ہم ایک عام افغان کو بھی تنہا نہیں چھوڑسکتے اس کی زندگی کو بھی وہی اہمیت حاصل ہے جو افغانستان سے باہر نکلنے والوں کو ہے، ہم نے وہاں پھنسے لوگوں کے لئے جوکوششیں کیں وہ سب کے سامنے ہیں، دنیا کوبتانا چاہتے ہیں افغانستا ن کو   مو جودہ صورتحا ل میں تنہا چھوڑنے سے عدم استحکام پید ا ہوگا ، دنیاکے فائدے میں یہی ہے کہ تمام افغانوں کو برابر کی اہمیت دی جائے اور افغانستان کی پوری طرح مدد کی جائے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ افغانستان میں آج جو صورتحال بن چکی ہے اور جو نقصان ہورہا ہے پاکستان اس پر پہلے ہی توجہ دلا رہاتھا مگر دنیا کے دیگرممالک نے اہمیت نہیں دی اور آج اتنا نقصان ہونے کے بعد تمام ممالک توجہ دے رہے ہیں،اب اگر امریکا یا کوئی دوسرا ملک یہ کہے کہ کابل میں پھنسے لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے تو یہ نامناسب ہوگا کیوں کہ افغانستان کے تمام شہری ایک جیسی اہمیت کے حامل ہیں، دنیا کو چاہئے کے بلاتفریق سب کی مدد کریں،ہمارے نزدیک تمام افغان بھائی ایک جیسے ہیں چاہے وہ کابل میں ہوں یا کابل سے نکل چکے ہوں، ہمار انقطہ نظر یہی ہے کہ افغانستان کو تنہا نہ چھوڑ ا جائے ۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ وزارت خارجہ بتا چکا ہے کہ افغانستان میں حکومت سے متعلق ہم تنہا فیصلہ نہیں کرنا چاہتے اور دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر فیصلہ کریں گے،حکومت سازی افغان عوام کا کا م ہے، ہمار ا کا م نہیں،ہم صرف افغانستان میں استحکام کے لئے کردار ادا کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے، بھارت کا افغانستان سے کوئی تعلق تھا نہ ہوگا، لیکن اگر انڈیا کی میڈیا کو مانیٹر کریں تو لگتاہے جیسے بھارت کاسب سے بڑا مسئلہ ہی افغانستان ہے، بھارت کو جب بھی موقع ملا اس نے افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا اور ہمیں یہ بات قبول نہیں ہے، ہمار ی پالیسی کے باعث افغانستان میں اربوں روپے لگا کر بھی ہندوستان تنہا ہے، بھارتی لوک سبھا کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ بھارت کے غریبوں پر لگنے والے پیسے افغانستان میں لگائے گئے اپنی حکومت سے ان پیسوں کا حساب لیں۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ملکی سیاسی صورتحال میں اپوزیشن اپنا مثبت کردار ادا نہیں کررہی ہے،ہم نے بہت سے مسائل کے حل کے لئے اپوزیشن کو دعوت د ی ہے کہ آئیں اور ہمارے ساتھ بیٹھ کر بات کریں مگروہ معاملہ چاہے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا ہو چاہے الیکشن کمیشن کے ممبران کی تعیناتی کا ہمیں اپوزیشن کی طرف سے کوئی مثبت رد عمل نہیں ملا ، ان میں کسی کو پتہ ہی نہیں کہ ایک دوسرے کی رائے کیا ہے، مسلم لیگ(ن) میں پارٹی کی قیادت کے لئے ٹاس ہو رہا ہے، کبھی مریم نواز جیت جاتی ہیں تو کبھی شہباز شریف قیادت کرنے لگ جاتے ہیں، کچھ عرصہ شاہد خاقان عباسی سے حوالے سے بھی باتیں کی گئیں لیکن آخر میں پھر نواز شریف ہی قیادت کے لئے سامنے آجاتے ہیں۔پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) پہلے ہی ٹوٹ چکی ہے، حکومت اس انتظار میں ہے کہ اپوزیشن ملک کی بہتری کے لئے مثبت انداز میں ساتھ دے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپکے ساتھ کھڑ ے ہیں،آج بھی بھارت سید علی گیلانی سے خوفزدہ ہے اور نریندر مودی کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔
پریس کانفرنس کے بعد سینئر صحافی مجیب الرحمان شامی نے وزیر اطلاعات سے کہا کہ مرحوم حریت رہنما سید علی گیلانی کی خدمات کے اعتراف میں ان کی یادگار تعمیر کرنی چاہئے تاکہ وہ آنے والی نسلوں کیلئے مشعل راہ بنیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے رائے سے فوری اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ سرینگر ہائی وے پر سید علی گیلانی صاحب کی یادگار تعمیر کرنے کی تجویز پیش کرتے ہیں۔
مزید :
قومی –سیاست –
window.fbAsyncInit = function() FB.init( appId : 388666161164782, xfbml : true, version : "v2.12" ); FB.AppEvents.logPageView(); ; (function(d, s, id) var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = "https://connect.facebook.net/ur_PK/sdk.js"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); (document, "script", "facebook-jssdk")); Source link
0 notes
webpaki · 3 years
Text
پی ڈی ایم کو چھوڑنے پر پیپلز پارٹی کی صلاحیت کم ہو گی : مجیب الرحمان شامی
پی ڈی ایم کو چھوڑنے پر پیپلز پارٹی کی صلاحیت کم ہو گی : مجیب الرحمان شامی
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
swstarone · 4 years
Photo
Tumblr media
مریم نواز کی نیب میں پیشی: کیا لاہور میں ہوئی ہنگامہ آرائی نے ’سوئی ہوئی ن لیگ‘ کو متحرک کر دیا ہے؟ 9 منٹ قبل،EPAمنگل کو لاہور میں مسلم لیگ ن کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان تصادم اور اس کے بعد سیاسی سطح پر شروع ہونے والی الزام تراشیوں نے کورونا کی صورتحال کے باعث ملک کی سیاست پر طاری جمود کو توڑ کر اچانک ایک سیاسی ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔ حزب اختلاف کے بعض رہنما گذشتہ کچھ عرصے سے اپوزیشن کی سیاست میں ہلچل پیدا کرنے کی کوشش تو کر رہے تھے لیکن اسی دوران سیاسی مبصرین مسلم لیگ ن پر سیاسی طور پر غیر متحرک ہونے کا الزام عائد کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں گذشتہ چند مہینوں سے سیاسی افق پر اپوزیشن کی سرگرمیاں ماند نظر آ رہی تھیں۔ بعض ناقدین اور سیاسی مبصرین کا یہ تک کہنا تھا کہ ن لیگ کے رہنماؤں نے لب سی لیے ہیں اور کہا جانے لگا تھا کہ ’حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی سیاست ختم ہو چکی ہے اور یہ کہ اگلے چھ ماہ میں اپوزیشن کی جانب سے بڑی احتجاجی تحریک چلنے کا امکان نظر نہیں آ رہا۔‘یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ ن لیگ کا ووٹر احتجاجی مہم یا دھرنوں کا قائل نہیں کیونکہ اس کی ’ن لیگ سے محبت ووٹ کی حد تک ہے، وہ جیل جانے یا پولیس کے ڈنڈے کھانے والا مزاج نہیں رکھتا۔‘لیکن منگل کو پنجاب کے شہر لاہور میں مریم نواز کی نیب میں پیشی کے موقع پر ہونے والی ہنگامہ آرائی سے صورتحال کچھ بدلتی نظر آ رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا واقعی منگل کو لاہور میں پیش آیا واقعہ حکومت کی ہزیمت اور ن لیگ کی سیاست کو جگانے کا ذریعہ بنا ہے؟گاڑی پر حملہ اور مریم نواز کا موقف ،@MaryamNSharifمریم نواز کافی عرصے سے خاموش تھیں حتیٰ کہ ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بھی کوئی خاص سرگرمی نظر نہیں آ رہی تھی۔ لیکن منگل کی ہنگامہ آرائی کے بعد مریم فوراً پریس کانفرنس کرنے پہنچ گئیں۔ناصرف یہ بلکہ اس واقعے کے تناظر میں وہ ٹوئٹر پر بھی خاصی سرگرم ہو گئی ہیں۔ ٹوئٹر پر وہ زخمی کارکنان کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ایسی ویڈیوز اور تصاویر بھی شئیر کر رہی ہیں جن میں وہ اپنے اوپر ہونے والے ’حملے‘ کی تفصیلات بتا رہی ہیں۔ نامہ نگار بی بی سی عمر دراز ننگیانہ سے بات کرتے ہوئے مریم نواز کے پرسنل سیکرٹری ذیشان ملک کا کہنا تھا کہ ’آپ گاڑی کی حالت کو دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کو ہونے والا نقصان پتھر سے نہیں ہو سکتا۔ کوئی تو ایسی چیز ماری گئی ہے جس نے اس کی یہ حالت کی ہے۔‘ذیشان ملک کا کہنا تھا ’آپ اسے گولی بھی کہہ سکتے ہیں۔‘ ذیشان ملک کا کہنا تھا کہ ’مریم نواز کو پولیس کی جانب سے دانستہ طور پر جسمانی نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔‘ان کا کہنا تھا ’آپ اندازہ لگائیں کہ اگر گاڑی بلٹ پروف نہ ہوتی تو کچھ بھی ہو سکتا تھا۔‘یاد رہے مریم نواز کی نیب پیشی کے موقع پر ہونے والی ہنگامہ آرائی کا الزام نیب کی جانب سے مریم نواز اور مسلم لیگ ن کے کارکنوں پر لگایا گیا ہے جس کی ناصرف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے بلکہ متعدد کارکنوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔تاہم مسلم لیگ ن اس تصادم کا الزام پولیس اہلکاروں پر عائد کرتی ہے، اور اس سلسلے میں مریم نواز کے شوہر کیپٹن صفدر نے وزیر اعظم عمران خان سمیت دیگر افراد کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست بھی دے رکھی ہے۔،@betterpakistanکیا لاہور میں ہوئی ہنگامہ آرائی نے 'سوئی ہوئی ن لیگ' کو متحرک کر دیا ہے؟ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ سیاسی اور انتظامی، دونوں صورتوں میں، اس کا فائدہ پاکستان مسلم لیگ ن کو ہو گا۔ سیاسی فائدے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’اس واقعے سے قبل عام تاثر یہ تھا کہ ن لیگ مفاہمتی سیاست کی طرف چل پڑی ہے اور اس میں احتجاجی سیاست کا دم خم ہی نہیں ہے۔ کل انھوں نے ایک تو یہ دکھایا کہ اگر چیلنج پیش آیا تو ہم احتجاجی تحریک چلا سکتے ہیں۔‘سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ یہ بھی سمجھا جا رہا تھا کہ ن لیگ کے قائد نواز شریف کے جانے کے بعد ان کی جماعت کا اصل بیانیہ مفاہمت کا بیانیہ ہے۔ ’یعنی جو نواز شریف کا بیانیہ تھا وہ کہیں کھو گیا ہے۔ کل مریم نے اسی بیانیے کی بات بھی کی ہے اور اظہار بھی کیا ہے۔‘تصادم کے حوالے سے دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر پہل کرنے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔تاہم سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’انتظامی معاملات میں یہ سب باتیں ہوتی ہیں کہ امن و امان کی صورتحال کس نے خراب کی، پتھر کون لے کر آیا، پہل کس نے کی یا کس کی غلطی تھی۔‘’لیکن انتظامی معاملات میں جب بھی صورتحال بگڑتی ہے تو انتظامیہ ذمہ دار ہوتی ہے۔ انتظامیہ کا کام ہے کہ صورتحال کو قابو میں کرنا یا بگڑنے نہ دینا اور حزبِ مخالف کا کام ہوتا ہے اس سے فائدہ اٹھانا۔ اس لیے سیاسی طور پر بھی ن لیگ کی جیت ہوئی ہے اور انتظامی طور پر انتظامیہ کو شکست ہوئی ہے۔‘سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ دونوں اطراف سے پتھر چلتے دکھائی دیے تھے تاہم ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے یہ الزام عائد کرنا درست نہیں ہو گا کہ انھیں دانستہ طور پر نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تھی جب تک کہ معاملے کی تحقیقات نہ کر لی جائیں۔ صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کا استدلال ہے کہ اس واقعے نے پاکستان مسلم لیگ ن کے کارکنوں کو ایک مرتبہ پھر متحرک ہونے کا موقع دیا ہے۔ ’جو جمود ن لیگ کی سیاست میں طاری تھا وہ ایک حد تک ٹوٹا ہے۔‘مریم نواز کی پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ’ن لیگ نواز شریف کے مزاحمت کے بیانیے کو یکسر چھوڑ نہیں سکتی اور اب بھی اس پر قائم ضرور ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس واقعے کے لیے وقت کا تعین درحقیقت نیب نے کیا کیونکہ مریم نواز تو آرام سے بیٹھی ہوئیں تھیں۔۔۔اس موقع سے ن لیگ نے فائدہ اٹھایا۔‘ ’انھوں نے یہ بتا دیا کہ ان کے جماعت ڈرائنگ روم کی جماعت نہیں ہے اور اسے ڈرائنگ روم میں بند نہیں کیا جا سکتا۔ مریم نے اپنی پریس کانفرنس سے بھی تاثر دیا ہے کہ وہ اپنے بیانیے پر قائم ہیں اور ان کی جماعت اب بھی ایک عوامی طاقت ہے۔‘ مجیب الرحمان شامی کے مطابق جیسا کہ مریم دعوٰی کر رہی ہیں کہ ان کی گاڑی کو پتھروں کے علاوہ بھی کسی چیز سے نشانہ بنایا گیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’کچھ ایسے عناصر بھی وہاں موجود تھے جو یا تو پولیس کی وردی میں تھے یا وردی سے باہر تھے جو اس سارے ہنگامے کو بڑھاوا دے رہے تھے۔‘ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی باقاعدہ تحقیقات ہوں تو صحیح طرح معلوم ہو پائے گا کہ کون کیا کر رہا تھا۔ وہ تجزیہ کار سہیل وڑائچ کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ہنگامہ آرائی کی ذمہ داری انتظامیہ پر ہی عائد ہوتی ہے۔،@ArfaBhutto786سوشل میڈیا پر بیشتر سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں سے لے کر عام صارفین تک منگل کو پیش آئے واقعے پر اپنی آرا کا اظہار کرتے نظر آئے۔،@Mustafamalik29کئی صارفین مریم نواز کی نیب میں پیشی اور پریس کانفرنس کے موقعے پر مریم نواز کے چچا اور جماعت کے صدر شہباز شریف کی غیر موجودگی کو نشانہ بناتے یہ کہتے نظر آئے کہ ’بھتیجی پر مبینہ طور پر قاتلانہ حملہ ہوا اور چچا لاہور میں ہونے کے باوجود پہلے پیشی اور پھر پریس کانفرنس سے بھی غائب ہیں۔‘کئی صارفین یہ بھی کہتے نظر آئے کہ ’مریم نواز کی ایک پیشی اور پریس کانفرنس، شہباز اور اپوزیشن کی دو سالہ کارکردگی سے سو گنا بہتر ثابت ہوئی ہے۔‘،@shazbkhanzdaGEO خبرکا ذریعہ : بی بی سی اردو
0 notes
urduclassic · 4 years
Text
کتابوں کی صحبت : ''کورونا تنہائی‘‘ کا علاج
برادرِ عزیز ایاز امیر نے تجویز کیا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے سماجی سرگرمیاں محدود ہونے کی بدولت تنہائی کے جو لمحات میسر آ رہے ہیں، وہ کتابوں کی صحبت میں بسر کئے جائیں۔ اس سے اختلاف کی کوئی گنجائش ہے نہ ضرورت۔ گزشتہ دِنوں پاکستانی صحافت کے تین ممتاز ترین کالم نگاروں کے کالموں کے مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ محمد اظہارالحق کا ''میری وفات‘‘، ڈاکٹر شاہد صدیقی کا ''زیر آسماں‘‘ اور عامر خاکوانی کا ''زنگار نامہ‘‘۔ ان تینوں کے ذریعے تنہائی آباد کی جانی چاہیے۔
 اول الذکر دو صاحبان اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہے، جناب اظہار کا تعلق ملٹری اکائونٹس سے تھا، تو جناب شاہد کا تعلیم و تدریس سے۔ عامر خاکوانی کا آغاز بھی صحافت سے تھا، اور شباب بھی صحافت میں ہے۔ یہ تینوں حضرات اپنی اپنی جگہ مشاہدے، تجزیے اور مطالعے کا حسین امتزاج ہیں۔ جناب اظہار سیاسی امور پر بھی گہری نگاہ رکھتے ہیں، ڈاکٹر شاہد روزمرہ کی سیاست سے دامن چھڑاتے ہیں، جبکہ عامر خاکوانی ہر جگہ گھوڑے دوڑا گزرتے ہیں۔ ان سے لطف اٹھائیے، اور اپنی تنہائی کو خوشبوئوں سے بھر دیجیے۔
مجیب الرحمان شامی بشکریہ دنیا نیوز 
0 notes
risingpakistan · 5 years
Text
سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس بند کرنے کی درخواست مسترد کر دی
سپریم کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی طرف سے اصغر خان کیس بند کرنے کی استدعا ایک بار پھر مسترد کرتے ہوئے ایک ماہ میں پیش رفت رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔ ایف آئی اے نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کراتے ہوئے ایک مرتبہ پھر کیس بند کرنے کی استدعا کی تھی۔ ایف آئی اے نے کہا کہ ناکافی شواہد کی بنیاد پر کیس کسی بھی عدالت میں چلانا مشکل ہے۔ اس کیس میں بے نامی بینک اکاؤنٹس کی تحقیقات سمیت اہم گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔ ایف آئی اے نے بتایا کہ وزرات دفاع کی جانب سے معاملے کی تحقیقات کے لیے کورٹ آف انکوائری بنائی گئی جس نے 6 گواہوں کے بیان ریکارڈ کیے اور تمام شواہد کا جائزہ لیا۔ معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے مزید گواہوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے کی رپورٹ نامکمل ہے۔ رپورٹ میں گواہوں کے بیانات شامل نہیں ہیں اور صرف سمری شامل کی گئی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر ایف آئی اے چاہے تو وہ گواہوں کے بیانات سربمہر لفافے میں پیش کر سکتی ہے اور اگر وہ بیانات عام کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی تو عدالت ایسا کر دے گی۔ ایف آئی اے کے مطابق انکوائری کمیٹی نے متعدد صحافیوں کے انٹرویو کیے جن میں مجیب الرحمان شامی اور حبیب اکرم شامل ہیں، جب کہ مرکزی گواہ بریگیڈیئر (ر) حامد سعید اور ایڈووکیٹ یوسف میمن سے بھی پوچھ گچھ کی گئی۔ کیس کو آگے بڑھانے اور مزید ٹرائل کے لیے خاطر خواہ ثبوت نہیں مل سکے۔ لہذا مناسب ثبوت نہ ملنے کے باعث کیس کو کسی بھی عدالت میں چلانا ممکن نہیں رہا۔
سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ایف آئی اے کو بریگیڈیئر (ر) حامد سعید کا بیان دوبارہ ریکارڈ کرنے اور ایک ماہ میں پیش رفت کی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ نے کیس بند کرنے کی سفارش پر بھی ایف آئی اے پر برہمی کا اظہار کیا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ عدالت اپنے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے بھرپور کوشش کرے گی۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’ہمارے ساتھ کھیل نہ کھیلیں، کیا حامد سعید سے پوچھا گیا کہ رقم کیسے ادا کی؟‘‘۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ حامد سعید سے ادائیگی کا طریقہ کار نہیں پوچھا گیا۔ 
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ، ’’ہر ملزم اپنے جرم سے انکار کرتا ہے۔ کیا جرم سے انکار پر کیس داخل دفتر ہو جاتا ہے؟ ایف آئی اے اس کیس میں پوری جان لڑائے۔‘‘ سپریم کورٹ نے اصغر خان عملدر آمد کیس میں 1990 کے انتخابات میں دھاندلی اور سابق آرمی چیف اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی سمیت سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم کے ذمہ دار سابق فوجی افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔ تاہم اس کیس میں تاحال کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کیس کے بارے میں اُنہیں وزارت دفاع کی طرف سے شواہد اور تفصیلات فراہم نہیں کی جا رہیں.
علی رانا
بشکریہ وائس آف امریکہ
0 notes
thesachnewspk-blog · 6 years
Photo
Tumblr media
”عمران خان کے والد میرے چچا تھے ،میں جانتا ہوں کہ وہ بہت دیانت دار افسر تھے لیکن ۔۔۔“حفیظ اللہ نیازی پہلی بار وزیراعظم کے والد پر لگنے والے الزامات پر بول پڑے اسلام آباد(نیوز ڈیسک)پاکستانی سیاست میں بد زبانی بہت بڑھ گئی ہے اور ایک دوسرے کے اہل خانہ کو بھی بے جا تنقید کا نشانہ بنا یا جا رہا ہے ،یہ ہی وجہ ہے کہ بعض حلقوں کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے والد اکرام اللہ نیازی پر بھی جھوٹے الزامات عائد کیے گئے ۔ان الزامات پر اب تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی نے بھی لب کشائی کی ہے۔ نجی نیوز چینل جیو نیوز کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان کے والد پر کرپشن کے جھوٹے الزامات لگتے ہیں ،وہ میرے چچا ہیں اور میں انہیں جانتا ہوں ،وہ بہت دیانت دار افسر تھے ۔حفیظ اللہ نیازی نے بتا یا کہ اکرام اللہ نیازی نے پاکستان بننے سے پہلے اس وقت انجینئرنگ کی جب بہت کم لوگوں کو یہ اعزاز حاصل ہوتا تھا ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سیاست میں اہل خانہ کا تذکرہ غلط رجحان سامنے لا یا اور ایک دوسرے کے خلاف جھوٹ بولا گیا ،جب آپ نے نواز شریف کے والد کو نہیں چھوڑا تو ظاہر ہے پھر اس طرح کے جھوٹ بھی سامنے آنے ت��ے ۔حفیظ اللہ نیازی نے مزید کہا کہ یہ جھوٹوں کا مقابلہ ہے ،ان باتوں کا کوئی حل نہیں ،لوگوں کی فیملی تک پہنچنے پر تکلیف ہوتی ہے ۔ واضح رہے اس سے قبل دنیا نیوز کے پروگرام ”نقطہ نظر “ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی او رتجزیہ کار مجیب الرحمان شامی نے بھی اکرام اللہ خان نیازی پر لگنے والے الزامات کو جھوٹا قرار دیا تھا ۔ان کا کہنا تھا کہ اکرام اللہ خان نیازی پر لگنے والے الزامات میں کوئی صداقت نہیں بلکہ طارق مسعود صاحب لاہور کینٹ سے اور ڈاکٹر فرید ملک صاحب ایف سی کالج سے تعلق رکھتے ہیں اور ان دونوں نے کہا کہ ہم خود شہادت دیتے ہیں کہ عمران خان کے والد محترم اچھے انجینئر اور اچھے انسان تھے۔ وہ ایکسیئن تھے اور انہوں نے نواب آف کالا باغ کے دور میں خود استعفی دیاتھاکیوں کہ میانوالی میں نیازی فیملی اور نواب فیملی ایک دوسرے کے مقابل تھے۔اس لئے اس بات میں کسی بھی قسم کی صداقت نہیں اور ان کے خلاف ایک بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے اوریہ سفید سے بڑھ کر سفید جھوٹ ہے۔ مجیب الرحمان شامی نے کہا تھا کہ عمران خان کے والد محترم اکرام اللہ خان ایک انتہائی فرض شناس، دیایندار اور محنتی انجینئر تھے وہ ڈاکٹر مبشر حسن کے ہم عصر تھے۔ سکالر شب پرلندن سے ایم ایس کی ڈگری حاصل کی۔ان کے حوالے سے یہ بات کہنا کہ وہ بددیانت یا چور تھے پرلے درجے کا جھوٹ ہے۔ایسا جھوٹ ہے جس پر نفرین بھیجنی چاہیئے۔اکرام اللہ خان نیازی کو جب یاد کیا جائے گا تو انہیں عزت و احترام کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔
0 notes
lahore2toronto · 7 years
Quote
1988 کے الیکشن 29 مئی کو جونیجو کی اسمبلی کی برخاستگی کے نتیجے میں جنرل ضیا نے اناؤنس کئے تھے اور جس طرح 1985 کے الیکشن میں وہ اپنی مرضی کے رزلٹ لے کر آیا تھا، اسی طرح اس نے 88 کے الیکشن میں بھی کوئی کٹھ پتلی حکومت بنا لینی تھی۔ وہ تو بھلا ہو آموں کی پیٹی کا، جو بہاولپور کے قریب اس کے طیارے میں پھٹ گئی اور ضیا اپنے جبڑے سمیت فیصل مسجد کے احاطے میں دفن ہوگیا۔ اب مشکل یہ آن پڑی کہ بینظیر کی قیادت میں پیپلزپارٹی اپنی مکمل توانائیوں کے ساتھ انگڑائی لے کر بیدار ہورہی تھی، پی پی کے مخالفین یا ضیا باقیات کے ہاتھ پاؤں پھول چکے تھے کہ وہ کس طرح ضیا کے ' مشن ' کو پورا کرتے ہوئے حکومت بنائیں اور بینظیر کو اقتدار سے دور رکھیں۔ اس دور میں آئی جے آئی میں دو اہم رہنما تھے، ایک نوازشریف اور دوسرا قاضی حسین احمد۔ اگر کبھی وقت ملے تو کسی سرکاری لائبریری یا اخبارات کے دفاتر سے پرانی آرکائیو میں اس دور کے اخبارات نکال کر پڑھیں، آپ کو نوازشریف اور قاضی حسین احمد مسلسل اور تواتر سے بینظیر اور پیپلزپارٹی کو ملک دشمن ثابت کرتے نظر آئیں گے۔ جوں جوں الیکشن قریب آتے گئے، بینظیر کے جلسوں کی رونق بڑھتی گئی، جیالے حشرات الارض کی طرح کونوں کھدروں سے نکل کر ترنگا اٹھائے جلسوں میں پہنچ جاتے اور زندہ ہے بھٹو زندہ ہے کے نعروں سے آئی جے آئی کے لیڈروں کا ' تراہ ' نکال دیتے۔ پھر نوازشریف نے وہی کچھ کیا جو ایک عام پاکستانی مرد کرسکتا ہے۔ اس نے بینظیر اور نصرت بھٹو کے خلاف عوام کے " مذہبی " جذبات کو ابھارنے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کیلئے تمام اخبارات میں ہر روز ایک مکمل صفحے پر کچھ تصویریں شائع ہوتیں جن میں نصرت بھٹو صدر فورڈ کے ساتھ تقریب میں کندھے پر ہاتھ رکھے ڈانس کرتے دکھائی جاتی، ایک اور تصویر میں اس کے ہاتھ میں شراب کا گلاس ہوتا، ایک تصویر میں ٹین ایجر بینظیر سکرٹ پہنے صوفے پر بیٹھی ہوتی ۔ ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ۔ چند روز تک ان اشتہارات پر پیسے خرچ کئے گئے لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ برامد نہ ہوسکا۔ میاں صاحب نے اپنے مصاحبین بشمول زیڈ اے سلہری مرحوم، الطاف حسن قریشی، عبدالقادر حسن، مجیب الرحمان شامی، حسین حقانی اور چند ایک دوسرے ' دانشوران' سے ایک مشاورتی میٹنگ طلب کی۔ ان اخلاق کے پیکر لوگوں نے یک زبان ہو کر میاں صاحب سے کہا کہ اخبارات کی سنسر پالیسی کی وجہ سے بینظیر کے خلاف اشتہاری مہم کامیاب نہیں ہوئی، بہتر ہوگا کہ اب اخبارات کی بجائے کوئی اور طریقہ نکالا جائے۔ سوشل میڈیا تو اس وقت تھا نہیں، چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ پمفلٹ چھپوا کر جہاز سے ملک کے مختلف علاقوں میں گرائے جائیں۔ میاں صاحب کو یہ تجویز پسند آگئی اور ��نہوں نے حسین حقانی کو یہ پراجیکٹ سونپ دیا۔ اگلے دو دن کے اندر اندر پہلا ڈرافٹ تیار ہو کر آگیا۔ سب دانشوارن دوبارہ جمع ہوئے، جب انہوں نے ڈرافٹ دیکھا تو انہیں زیادہ پسند نہ آیا۔ ایک بزرگ صحافی نے مشورہ دیا کہ یہ جو نصرت بھٹو نے تصویر میں ساڑھی پہن رکھی ہے، اس کا گلا تھوڑا بڑا کرکے دکھایا جائے، ساڑھی کے پلو کو بھی ایڈٹ کرکے تصویر میں ' جان ' پیدا کی جائے۔ اسی طرح بینظیر کی تصویروں میں بھی حسب توفیق ' جان ' ڈالنے کا فیصلہ ہوا۔ یوں یہ پمفلٹ تیار ہو کر آیا، آئی جے آئی میں شامل تمام جماعتوں کے سربراہان کو جب یہ دکھایا گیا تو ان کے منہ سے بے اختیار ' ماشااللہ ' اور ' سبحان اللہ ' نکلا، انہوں نے مشورہ دیا کہ جمعہ کے مبارک دن جب لوگ جمعہ پڑھ کر نکل رہے ہوں تو اس وقت جہاز سے یہ پمفلٹ گرائے جائیں، تاکہ نماز کی روحانییت کی وجہ سے لوگوں کو یہ تصویریں دیکھ کر زیادہ نفرت کا احساس ہوسکے۔ پھر اگلے جمعہ کو پاکستان کی فضاؤں نے یہ انوکھا منظر بھی دیکھا جب بیک وقت ملک کے 8 بڑے شہروں میں جہازوں کے زریعے لاکھوں کی تعداد میں پمفلٹ گرائے گئے۔ کردار کشی کی اس مہم کا نتیجہ کیا نکلا، یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہوگا لیکن 16 نومبر 1988 کو جب الیکشن ہوا تو 11 سال تک بربریت کا نشانہ بننے والی پیلزپارٹی نے آئی جے آئی کو خاک چٹا دی۔ اب پانامہ کا پریشر سر پر پڑا ہے تو ایک مرتبہ پھر نوازشریف نے اپنی پرانی روایت پر قائم رہتے ہوئے تحریک انصاف کی خواتین کے خلاف اپنی خاندانی تربیت کا ثبوت دینا شروع کردیا ہے۔ آج کے جلسے میں یہ پاکستان کا سب سے کرپٹ اور اخلاقی لحاظ سے کمزور شخص کہتا ہے کہ پی ٹی آئی کےجلسے میں خواتین کیا لینے جاتی ہیں؟؟؟؟ حضور، آپ یہ چھوڑیں، ہمیں یہ بتائیں کہ جب 1992 میں آپ ماڈل ٹاؤن کی انیکسی میں اپنا دفتر لگائے بیٹھے ہوتے تھے، اس وقت آپ کی دختر اعلی بار بار چائے کا پوچھنے خود کیوں آجایا کرتی تھی؟ کیا اس لئے کہ آپ کی کرسی کے پیچھے سرکاری باڈی گارڈ، کیپٹن صفدر کی شکل میں کھڑا ہوتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ جسے دیکھنے کے بہانے کبھی چائے تو کبھی پانی پوچھنے کیلئے شہزادی صاحبہ بار بار آیا کرتی تھی ۔ ۔ ۔ میاں صاحب، یہ 88 کا دور نہیں، نہ ہی آپ کے مقابلے میں بینظیر اور نصرت بھٹو جیسی کمزور خواتین ہیں، اور نہ جیالوں جیسے جاہل جنہیں نہ لکھنے کی تمیز نہ بولنے کا پتہ۔ اس بار مقابلے میں عمران خان ہے، اس کے پڑھے لکھے کارکن ہیں اور سوشل میڈیا کی شکل میں طاقتور چینل۔ اب وہ وقت نہیں رہا کہ ' تُو تیر آزما، ہم جگر آزمائیں ' ۔ ۔ ۔ اب اگر آپ نے تیر آزمانے کی کوشش کی تو ہم آپ کو اتنی جوتیاں ماریں گے کہ 75 ہزار پونڈ کے لگے جعلی بال اتر جائیں گے اور پھر دوبارہ لگ بھی نہیں سکیں گے!!!
بابا کوڈا
9 notes · View notes
mypakistan · 9 years
Text
نوٹ کی حکومت ،نوٹ کے ذریعے، نوٹ کیلئے
مجیب الرحمان شامی نے جیم خانہ کلب میں محفل سجائی ہو، عبدالرئوف، ڈاکٹر خالد نواز، حفیظ اللہ نیازی،جاوید نواز اور رئوف طاہر جیسے اکابرین موجود ہوں اور لودھراں کے ضمنی انتخابات میں جہانگیر ترین کی غیر متوقع اور غیر معمولی جیت کا معاملہ زیر بحث نہ آئے، یہ کیسے ممکن ہے۔ کسی دوست نے نکتہ اٹھایا کہ عبدالعلیم خان کی طرح جہانگیر ترین نے بھی بے تحاشہ اور بیشمار دولت خرچ کر کے یہ نشست جیتی ہے۔ کچھ ہی دیر میں یہ اتفاق رائے ہوتا دکھائی دیا کہ ہمارے ہاں انتخابی سیاست اب دھن دولت کا کھیل بن کر رہ گئی ہے ۔
اس پر امریکہ سے آئے ہوئے دوست شاہد احمد خان نے وضاحت کی کہ پوری دنیا میں انتخابی سیاست پر دولت اثر انداز ہوتی ہے امریکہ کے صدارتی انتخاب میں تو باقاعدہ فنڈز جمع کرنے کا مقابلہ ہوتا ہے اور جو جتنا زیادہ ڈونیشن جمع کرتا ہے اس کے ٹکٹ حاصل کرنے کے امکانات اتنے ہی بڑھ جاتے ہیں۔ اگر آپ امریکہ میں صدارتی امیدوار ہیں تو انتخابی مہم چلانے کے لئےکم از کم ایک ارب ڈالر درکار ہیں۔ لیکن وہاں ایک ایک ڈالر کا حساب ہوتا ہے کہ کہاں سے آیا، کس نے دیا ۔اگر یہاں بھی سیاستدانوں کو ڈونیشن دینے کا کوئی نظام مرتب کر دیا جائے تو معاملات بڑی حد تک درست ہو سکتے ہیں۔
ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کو دیئے جانے والے فنڈز کا حساب کتاب اس لئےنہیں ہوتا کہ شناخت ظاہر ہونے کی صورت میں ذرائع آمدنی کی شفافیت کے بارے میں سوالات ہونگے۔ مثال کے طور پر گزشتہ برس رانا مشہود کی ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں وہ ایک کاروباری شخصیت سے رقم وصول کر رہے ہیں۔ ایک نجی محفل کے دوران ان سے پوچھا گیا کہ یہ کیا قصہ ہے؟ تو انہوں نے ہنستے ہوئے کہا ،اگر یہ رقم میں نے اپنے لئےوصول کی ہوتی تو اب تک مجھے ڈاکٹر عاصم کی طرح لٹکا نہ دیا گیا ہوتا۔
حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ رقم سیاسی چندے کے طور پر وصول کی گئی اور انتخابی مہم کے لئے پارٹی حکام کے حوالے کی گئی۔ بہر حال اس فکری نشست کے بعد میرا دماغ مسلسل چند سوالات کی زد میں ہے۔ آج تک ہم اس امید پر زندہ ہیں کہ ہمارے یہاں جمہوریت ابھی خام ہے، ملک کا جمہوری نظام ارتقاء کے مراحل سے گزر رہا ہے مگر ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب عام آدمی بھی منتخب ہو کر ایوانوں میں جا سکے گالیکن اگر امریکہ، برطانیہ اور سویڈن کی شفاف ترین جمہوریت میں بھی انتخابی مہم پر کثیر سرمایہ خرچ کئے بغیر کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی تو پھر اس نظام انتخاب کو عوا م کی حکومت، عوام کے ذریعے،عوام کے لئےکیسے کہا جا سکتا ہے؟
چند برس قبل امریکہ کے مقبول ترین اخبارات واشنگٹن پوسٹ اور نیو یارک ٹائمز نے اپنے صفحہ اول پر ایک رپورٹ شائع کی تھی جس کا عنوان تھا ’’امراء کی حکومت ،امراء کے ذریعے ،امراء کے لئے کی مرتب کی گئی اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بد ترین معاشی بحران کے باوجود امریکہ کے نصف سے زائد منتخب نمائندوں کا شمار لکھ پتی افراد میں ہوتا ہے یعنی ان کے پاس دس لاکھ ڈالر سے زیادہ دولت موجود ہے ۔435 رُکنی ایوان نمائند گان میں 250 جبکہ 100ارکان پر مشتمل سینیٹ میں سے 67ارکان لکھ پتی ہیں ۔گزشتہ پچیس برس کے دوران ایک عام امریکی شہری کے اوسط اثاثہ جات میں مسلسل کمی ہوئی مگر ایوان نمائندگان کے ارکان کے اوسط اثاثہ جات میں بتدریج اضافہ ہوا۔ 1984ء میں اوسط اثاثہ جات 280000 ڈالر فی کس تھے جو اب بڑھ کر 725000 ڈالر فی کس ہو چکے ہیں ۔امریکی سینیٹ میں تو اکثریت ہی بزنس ٹائیکونز کی ہوتی ہے اس لئے اسے  کہا جاتا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق سینیٹ کے تمام ارکان کے پاس اوسطاً فی کس 2.63 ملین ڈالر کے اثاثہ جات موجود ہیں ۔ اس رپورٹ کی تیاری کے دوران جب ان منتخب عوامی نمائندوں سے پوچھا گیا کہ اقتصادی کساد بازاری کے دوران ان کے دوستوں یا رشتہ داروں میں سے کوئی ایسا ہے جسے اپنا گھر بیچنا پڑا ہو یا اس کی نوکری چلی گئی ہو؟ تو ان 535 ارکان میں سے صرف 18ارکان نے ہاں میں جواب دیا۔ 12 ارکان نے کمال بے اعتنائی و بے نیازی سے کہا ،ہمارے جاننے والوں میں سے تو کوئی ایسا نہیں البتہ جاننے والوں کے جاننے والوں میں ایسے لوگ ضرور ہوں گے جو دیوالیہ ہو گئے ۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق 10ارکان کانگریس ایسے ہیں جن کے فی کس اثاثہ جات کی مالیت 100 ملین ڈالر سے زیادہ ہے۔ ان میں گاڑیوں کے لئے الارم بنانے والے بزنس ٹائیکون کا نام سرفہرست ہے جبکہ دو معروف ڈیموکریٹس سینیٹر جان کیری اور نینسی پلوسی بھی اس فہرست میں شامل ہیں ۔
ہمارے ہاں انتخابی مہم پر جتنا پیسہ خرچ کیا جا تا ہے وہ تو امریکی اخراجات کا عشر عشیر بھی نہیں ۔2010ء میں سینیٹ کی نشست جیتنے والے امریکی امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم پر اوسطاً 10ملین ڈالر فی کس خرچ کئے جبکہ ایوان نمائندگان کی رُکنیت حاصل کرنے والوں نے اپنی انتخابی مہم پر کم از کم 1.4ملین ڈالر خرچ کئے ۔ہمارا خیال ہے کہ امریکی طرز سیاست میں باراک حسین اوباما جیسا عام آدمی بھی امریکہ کا صدر بن سکتا ہے مگر سچ یہ ہے کہ اس نے 2008ء میں جان مکین کے مقابلے میں تین گنا زیادہ فنڈز حاصل کر کے نامزدگی حاصل کی تھی۔ وہ سرمایہ کار جو اوباما جیسے افراد پر پیسہ لگاتے ہیں ،اس کی انتخابی مہم کے اخراجات اٹھاتے ہیں ،وہ مستقبل میں اپنی مرضی کی قانون سازی کی صورت میں یہ رقم بمع سود وصول کرتے ہیں۔
   صدارتی انتخابات میں مختلف امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم پر 2.6 بلین ڈالر خرچ کئے مگر 2016ء کے انتخابات میں یہ اخراجات دگنا زیادہ ہونے کا امکان ہے ۔امریکی اخبارات نے جو تخمینہ لگایا ہے اس کے مطابق رواں سال صدارتی انتخابی مہم کے اخراجات 5 ارب ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں۔ ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ جو اپنے متنازع بیانات کی وجہ سے خبروں کا حصہ ہیں ،انہوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ وہ اپنی تشہیری مہم پر ہر ہفتے 20 لاکھ ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔ امریکہ کی طرح پوری دنیا کا جمہوری اور پارلیمانی طرز انتخاب سرمایہ داروں اور مفاداتی اداروں کے شکنجے میں ہے۔ انتخابی سیاست کے لئے ضروری ہے کہ آپ خود دولتمند ہوں یا پھر آپ پر سرمایہ لگانے والے فنانسرز دستیاب ہوں۔
ہر دونوں صورتوں میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ وہ کون بیوقوف ہو گا جو اپنا سرمایہ اور تمام تر توانائیاں خرچ کر کے سیاسی عہدہ حاصل کرے اور پھر اپنے اختیارات سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائے؟ جہانگیر ترین، عبدالعلیم خان اور اعظم سواتی تو محض استعارے ہیں ورنہ ہر سیاسی جماعت میں دھن دولت والوں کی اجارہ داری ہے کیونکہ نوٹ ہی ووٹ میں بدلتا ہے۔ جب تک نوٹ اور ووٹ کا رشتہ برقرار ہے، تب تک جمہوریت کی مروجہ تعریف بدل دی جائے تو بہتر ہو گا۔ نمونے کے طور پر ایک جملہ حاضر ہے ’’نوٹ کی حکومت، نوٹ کے ذریعے، نوٹ کے لئے ‘‘
 محمد بلال غوری 
بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ‘‘
0 notes
jawadhaider · 4 years
Text
‏عمران خان سے حکومت نہیں سمبھالی جا رہی
لیکن توہین رسالت پر مسلمانوں کے عقیدہ اور جزبات کا اظہار تمام بین الاقوامی فورم پر کیا اور دنیا کو باور کرایا کہ اس کو روکا جائے
لیکن 15 کھرب 67 ارب کی کرپشن کو 270 ارب تک لے آیا ہے
لیکن کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 85 فیصد کم کر دیا ہے
لیکن تجارتی خسارہ 37 ارب ڈالر سے کم ہو کر 23 ارب ڈالر رہ گیا ہے
لیکن پی آئے اے کا خسارہ 35 سال بعد کم ترین سطح پر آگیا ہے
لیکن وزارت مواصلات اور پوسٹل منافع میں چلی گئی ہے
لیکن 5000 ارب روپے قرض واپس کر چکا ہے
لیکن بلومبرگ، موڈیز اور ورلڈ بنک معاشی استحکام کی تعریفیں کر رہے ہیں
لیکن منی لانڈرنگ کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے
لیکن کرونا وائرس پر حکومتی اقدامات کی ورلڈ ہیلتھ اور ورلڈ بینک نے تعریف کی ہے
لیکن کرونا وائرس کے باوجود برآمدات میں اضافہ ہوا ہے
لیکن دیڑھ دھائ کے بعد کسان کی حالت بہتر ہونا شروع ہو چکی ہے
لیکن کنسٹرکشن انڈسٹری کیلئیے تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ لایا جا رہا ہے
لیکن 60 سال کے بعد بڑے ڈیموں کی تعمیر ہو رہی ہے
لیکن 60 سال کے بعد نہری نظام کو بہتر کیا جا رہا ہے
لیکن دو کھرب پینتالیس ارب ناداروں/انتہائ غریب طبقے میں بانٹ دئیے ہیں
لیکن آٹھ کروڑ افراد کو صحت کارڈ کے زریعے مفت علاج کی سہولت دی ہے
لیکن لاکھوں نوجوانوں کو سستے قرضے دئیے جا رہے ہیں
لیکن مائیکرو فنانسنگ کو گاؤں گاؤں لے کر جایا جا رہا ہے
لیکن خارجہ حکمت عملی ایسی زبردست کہ خطہ کی سیاست اور بین الاقوامی کھیل کا پانسہ ہی پلٹ دیا ہے
لیکن کشمیر پر موثر ترین آواز بن کر پوری دنیا میں بھارت کی ظالمانہ کارروائیوں کو بینقاب کیا۔ آج تمام بین الاقوامی فورم پر کشمیر میں بھارتی مظالم کا ذکر ہورہا ہے
لیکن اقلیتوں کو پہلی دفعہ برابر حقوق دیے جارہے ہیں۔ سکھوں کا گردوارہ کرتارپور اور ہندووں کے مندر کو بھارتییوں کے لئے آنا آسان کیا گیا
لیکن شوگر مافیا عدالت میں جا جا کر چھپ رہا ہے
لیکن بجلی مافیا کے خلاف بھی انکوائیری و تحقیقات جاری ہیں
لیکن پٹرول مافیا کے خلاف انکوائری و تحقیقات جاری ہیں
لیکن اربوں ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ملک میں آ رہی ہے
لیکن کرونا وائرس کے باوجود سٹاک ایکسچینج میں تیزی کا رجحان جاری ہے
لیکن سیاحت پاکستان کی بڑی انڈسٹری بنتی جا رہی ہے
لیکن بلین ٹری منصوبہ کی تعریف پوری دنیا کررہی ہے اور اب 15 وفاقی گرین پارک کا قیام عمل میں لایا گیا ہے
لیکن جنوبی پنجاب کو وہ حق دے دیا جو کوئ اور نہیں دے سکا تھا
لیکن فاٹا کو وہ حق دے دیا جو کوئ اور نہیں دے سکا تھا
لیکن اینٹ سے اینٹ بجانے والا بستر مرگ پر پڑا ہے
لیکن شیروانی کا ٹوٹا بٹن بھی نا دینے والا لندن مفرور ہو چکا ہے
لیکن ہر حکومت کیلئیے ناگزیر سیاسی مولانا تنہائ کی زندگی کاٹ رہا ہے
میں اس سے چار گنا مزید لکھ سکتا ہوں لیکن یہ حاسدین اور بغض رکھنے والوں کا منہ بند کرنے کیلئے بہت کافی ہو گا ۔۔ کبھی غور کیجئیے گا جب یہ حکومت پر تنقید کر رہے ہوتے ہیں تو یہ تنقید کی بجاۓ طنز، تمسخر اور ٹھٹھہ اڑا رہے ہوتے ہیں تاکہ ان کے بغض، عناد اور حسد کو کچھ ٹھنڈ پڑ سکے ۔۔ یہ چاہتے ہوۓ بھی تعمیری تنقید نہیں کر سکتے کیونکہ ‏ان کو ایشوز پر بات کرنے نا تو علم ہے اور نا ہی ان میں تجزیہ کرنے کی اہلیت موجود ہے
سارا دن ٹی وی پر بیٹھا ایک مخصوص طبقہ زہر اگلتا رہتا ہے کیونکہ انکی عیاشیاں عمران خان نے آ کر بند کروا دی ہیں ‏جب مجیب الرحمان شامی، سلیم صافی اور حامد میر جیسے قلم فروشوں سے کام نہیں بنتا تو کبھی اینکرز کا اور کبھی پٹواریوں اور ڈیزلیوں، کا سہارا لے کر سوشل میڈیا پر حکومت کے خلاف پول کرواتے ہیں لیکن سواۓ شرمندگی کے کچھ اور حاصل نہیں ہوتا
‏عمران خان اللہ پر ایمان رکھنے والا نیک نیت بندہ ہے جس نے اپنے بیوی بچوں کیلئیے لندن امریکہ میں جائیدادیں نہیں بنانی ۔۔ یہ چیختے چلاتے رہیں گے، فضول تنقید اور بے بنیاد پراپیگنڈے کا استعمال کرتے رہیں گے لیکن ان شا اللہ کھانی منہ کی ہی پڑے گی جیسے ابھی تک کھاتے چلے آ رہے ہیں
0 notes
webpaki · 4 years
Text
پیپلز پارٹی اگر پی ڈی ایم چھوڑے گی تو تنہا رہ جائے گی : مجیب الرحمان شامی
پیپلز پارٹی اگر پی ڈی ایم چھوڑے گی تو تنہا رہ جائے گی : مجیب الرحمان شامی
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
khouj-blog1 · 5 years
Text
نیب کو اپنی خود مختاری کی حفاظت کرنی چاہئے :مجیب الرحمان شامی
New Post has been published on https://khouj.com/pakistan/124972/
نیب کو اپنی خود مختاری کی حفاظت کرنی چاہئے :مجیب الرحمان شامی
 معروف دانشور مجیب الرحمان شامی نے کہاہے کہ نیب کو ایک آزاد ادارے کے طور پر اپنی خود مختاری کی حفاظت کرنی چاہئے ، کوئی ایسا تاثر نہیں پیدا کرنا چاہئے کہ اس کو سیاسی طور پر نیب کے خلاف استعمال کیا جا سکے ۔
 مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ خواتین کو ٹارگٹ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ، اس سے نیب کا تاثر خراب ہواہے ، اس پر چیئر مین نیب نے جو ایکشن لیا ہے اس کے مثبت اثرات ہونگے ، نیب کو ایک آزاد ادارے کے طور پر اپنی خود مختاری کی حفاظت کرنی چاہئے ، کوئی ایسا تاثر نہیں پیدا کرنا چاہئے کہ اس کو سیاسی طور پر نیب کے خلاف استعمال کیا جا سکے ۔
انہوں نے کہا کہ ہزارہ برادری کی حفاطت کیلئے پوری ریاستی مشینری لگادینی چاہئے ، آرمی چیف کو ب��ی اس کا نوٹس لیناچاہئے اور اس معصوم برادری کو نشانہ بنانے والے دہشت گرد ٹولوں کا ملک سے مکمل طور پر قلع قمع کردیا چاہئے ۔
0 notes
pakistan24 · 6 years
Text
صحافی کے پٹرول اسٹیشن کے خلاف فیصلہ
صحافی کے پٹرول اسٹیشن کے خلاف فیصلہ
لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایل ڈی اے کے زیرانتظام علاقے میں پٹرول اسٹیشن کی نیلامی کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے دوران عدالت نے
ایل ڈے اے کے وکیل نے بتایا کہ کل 21 پمپس نیلام ہو گئے، 18 پمپس بک گئے ہیں۔ وکیل نے بتایا کہ لبرٹی چوک والا پمپ مجیب الرحمان شامی صاحب کا ہے۔ چیف جسٹس نے مجیب الرحمان شامی کے وکیل سے کہا کہ پیر کلیم صاحب، اپ بھی ہمارے قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہیں، اس اسٹیشن کا سالانہ ایک لاکھ 47…
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 9 years
Text
نوٹ کی حکومت ،نوٹ کے ذریعے، نوٹ کیلئے
مجیب الرحمان شامی نے جیم خانہ کلب میں محفل سجائی ہو، عبدالرئوف، ڈاکٹر خالد نواز، حفیظ اللہ نیازی،جاوید نواز اور رئوف طاہر جیسے اکابرین موجود ہوں اور لودھراں کے ضمنی انتخابات میں جہانگیر ترین کی غیر متوقع اور غیر معمولی جیت کا معاملہ زیر بحث نہ آئے، یہ کیسے ممکن ہے۔ کسی دوست نے نکتہ اٹھایا کہ عبدالعلیم خان کی طرح جہانگیر ترین نے بھی بے تحاشہ اور بیشمار دولت خرچ کر کے یہ نشست جیتی ہے۔ کچھ ہی دیر میں یہ اتفاق رائے ہوتا دکھائی دیا کہ ہمارے ہاں انتخابی سیاست اب دھن دولت کا کھیل بن کر رہ گئی ہے ۔
اس پر امریکہ سے آئے ہوئے دوست شاہد احمد خان نے وضاحت کی کہ پوری دنیا میں انتخابی سیاست پر دولت اثر انداز ہوتی ہے امریکہ کے صدارتی انتخاب میں تو باقاعدہ فنڈز جمع کرنے کا مقابلہ ہوتا ہے اور جو جتنا زیادہ ڈونیشن جمع کرتا ہے اس کے ٹکٹ حاصل کرنے کے امکانات اتنے ہی بڑھ جاتے ہیں۔ اگر آپ امریکہ میں صدارتی امیدوار ہیں تو انتخابی مہم چلانے کے لئےکم از کم ایک ارب ڈالر درکار ہیں۔ لیکن وہاں ایک ایک ڈالر کا حساب ہوتا ہے کہ کہاں سے آیا، کس نے دیا ۔اگر یہاں بھی سیاستدانوں کو ڈونیشن دینے کا کوئی نظام مرتب کر دیا جائے تو معاملات بڑی حد تک درست ہو سکتے ہیں۔
ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کو دیئے جانے والے فنڈز کا حساب کتاب اس لئےنہیں ہوتا کہ شناخت ظاہر ہونے کی صورت میں ذرائع آمدنی کی شفافیت کے بارے میں سوالات ہونگے۔ مثال کے طور پر گزشتہ برس رانا مشہود کی ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں وہ ایک کاروباری شخصیت سے رقم وصول کر رہے ہیں۔ ایک نجی محفل کے دوران ان سے پوچھا گیا کہ یہ کیا قصہ ہے؟ تو انہوں نے ہنستے ہوئے کہا ،اگر یہ رقم میں نے اپنے لئےوصول کی ہوتی تو اب تک مجھے ڈاکٹر عاصم کی طرح لٹکا نہ دیا گیا ہوتا۔
حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ رقم سیاسی چندے کے طور پر وصول کی گئی اور انتخابی مہم کے لئے پارٹی حکام کے حوالے کی گئی۔ بہر حال اس فکری نشست کے بعد میرا دماغ مسلسل چند سوالات کی زد میں ہے۔ آج تک ہم اس امید پر زندہ ہیں کہ ہمارے یہاں جمہوریت ابھی خام ہے، ملک کا جمہوری نظام ارتقاء کے مراحل سے گزر رہا ہے مگر ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب عام آدمی بھی منتخب ہو کر ایوانوں میں جا سکے گالیکن اگر امریکہ، برطانیہ اور سویڈن کی شفاف ترین جمہوریت میں بھی انتخابی مہم پر کثیر سرمایہ خرچ کئے بغیر کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی تو پھر اس نظام انتخاب کو عوا م کی حکومت، عوام کے ذریعے،عوام کے لئےکیسے کہا جا سکتا ہے؟
چند برس قبل امریکہ کے مقبول ترین اخبارات واشنگٹن پوسٹ اور نیو یارک ٹائمز نے اپنے صفحہ اول پر ایک رپورٹ شائع کی تھی جس کا عنوان تھا ’’امراء کی حکومت ،امراء کے ذریعے ،امراء کے لئے کی مرتب کی گئی اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بد ترین معاشی بحران کے باوجود امریکہ کے نصف سے زائد منتخب نمائندوں کا شمار لکھ پتی افراد میں ہوتا ہے یعنی ان کے پاس دس لاکھ ڈالر سے زیادہ دولت موجود ہے ۔435 رُکنی ایوان نمائند گان میں 250 جبکہ 100ارکان پر مشتمل سینیٹ میں سے 67ارکان لکھ پتی ہیں ۔گزشتہ پچیس برس کے دوران ایک عام امریکی شہری کے اوسط اثاثہ جات میں مسلسل کمی ہوئی مگر ایوان نمائندگان کے ارکان کے اوسط اثاثہ جات میں بتدریج اضافہ ہوا۔ 1984ء میں اوسط اثاثہ جات 280000 ڈالر فی کس تھے جو اب بڑھ کر 725000 ڈالر فی کس ہو چکے ہیں ۔امریکی سینیٹ میں تو اکثریت ہی بزنس ٹائیکونز کی ہوتی ہے اس لئے اسے  کہا جاتا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق سینیٹ کے تمام ارکان کے پاس اوسطاً فی کس 2.63 ملین ڈالر کے اثاثہ جات موجود ہیں ۔ اس رپورٹ کی تیاری کے دوران جب ان منتخب عوامی نمائندوں سے پوچھا گیا کہ اقتصادی کساد بازاری کے دوران ان کے دوستوں یا رشتہ داروں میں سے کوئی ایسا ہے جسے اپنا گھر بیچنا پڑا ہو یا اس کی نوکری چلی گئی ہو؟ تو ان 535 ارکان میں سے صرف 18ارکان نے ہاں میں جواب دیا۔ 12 ارکان نے کمال بے اعتنائی و بے نیازی سے کہا ،ہمارے جاننے والوں میں سے تو کوئی ایسا نہیں البتہ جاننے والوں کے جاننے والوں میں ایسے لوگ ضرور ہوں گے جو دیوالیہ ہو گئے ۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق 10ارکان کانگریس ایسے ہیں جن کے فی کس اثاثہ جات کی مالیت 100 ملین ڈالر سے زیادہ ہے۔ ان میں گاڑیوں کے لئے الارم بنانے والے بزنس ٹائیکون کا نام سرفہرست ہے جبکہ دو معروف ڈیموکریٹس سینیٹر جان کیری اور نینسی پلوسی بھی اس فہرست میں شامل ہیں ۔
ہمارے ہاں انتخابی مہم پر جتنا پیسہ خرچ کیا جا تا ہے وہ تو امریکی اخراجات کا عشر عشیر بھی نہیں ۔2010ء میں سینیٹ کی نشست جیتنے والے امریکی امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم پر اوسطاً 10ملین ڈالر فی کس خرچ کئے جبکہ ایوان نمائندگان کی رُکنیت حاصل کرنے والوں نے اپنی انتخابی مہم پر کم از کم 1.4ملین ڈالر خرچ کئے ۔ہمارا خیال ہے کہ امریکی طرز سیاست میں باراک حسین اوباما جیسا عام آدمی بھی امریکہ کا صدر بن سکتا ہے مگر سچ یہ ہے کہ اس نے 2008ء میں جان مکین کے مقابلے میں تین گنا زیادہ فنڈز حاصل کر کے نامزدگی حاصل کی تھی۔ وہ سرمایہ کار جو اوباما جیسے افراد پر پیسہ لگاتے ہیں ،اس کی انتخابی مہم کے اخراجات اٹھاتے ہیں ،وہ مستقبل میں اپنی مرضی کی قانون سازی کی صورت میں یہ رقم بمع سود وصول کرتے ہیں۔
   صدارتی انتخابات میں مختلف امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم پر 2.6 بلین ڈالر خرچ کئے مگر 2016ء کے انتخابات میں یہ اخراجات دگنا زیادہ ہونے کا امکان ہے ۔امریکی اخبارات نے جو تخمینہ لگایا ہے اس کے مطابق رواں سال صدارتی انتخابی مہم کے اخراجات 5 ارب ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں۔ ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ جو اپنے متنازع بیانات کی وجہ سے خبروں کا حصہ ہیں ،انہوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ وہ اپنی تشہیری مہم پر ہر ہفتے 20 لاکھ ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔ امریکہ کی طرح پوری دنیا کا جمہوری اور پارلیمانی طرز انتخاب سرمایہ داروں اور مفاداتی اداروں کے شکنجے میں ہے۔ انتخابی سیاست کے لئے ضروری ہے کہ آپ خود دولتمند ہوں یا پھر آپ پر سرمایہ لگانے والے فنانسرز دستیاب ہوں۔
ہر دونوں صورتوں میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ وہ کون بیوقوف ہو گا جو اپنا سرمایہ اور تمام تر توانائیاں خرچ کر کے سیاسی عہدہ حاصل کرے اور پھر اپنے اختیارات سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائے؟ جہانگیر ترین، عبدالعلیم خان اور اعظم سواتی تو محض استعارے ہیں ورنہ ہر سیاسی جماعت میں دھن دولت والوں کی اجارہ داری ہے کیونکہ نوٹ ہی ووٹ میں بدلتا ہے۔ جب تک نوٹ اور ووٹ کا رشتہ برقرار ہے، تب تک جمہوریت کی مروجہ تعریف بدل دی جائے تو بہتر ہو گا۔ نمونے کے طور پر ایک جملہ حاضر ہے ’’نوٹ کی حکومت، نوٹ کے ذریعے، نوٹ کے لئے ‘‘
 محمد بلال غوری 
بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ‘‘
0 notes
urduweb · 6 years
Text
جیو اور ڈان کے ساتھ تعلقات جلد معمول پر آجائیں گے، فوجی ترجمان
جیو اور ڈان کے ساتھ تعلقات جلد معمول پر آجائیں گے، فوجی ترجمان
واشنگٹن — مبشر علی زیدی مجیب الرحمان شامی پاکستان کے انتہائی سینئر صحافیوں میں سے ایک ہیں۔ روزنامہ ’پاکستان‘ کے چیف ایڈیٹر ہیں۔ ’دنیانیوز‘ پر نقطہ نظر کے عنوان سے پروگرام میں تجزیے پیش کرتے ہیں۔ ان کے کالم کئی اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ ان کی زیر ادارت ہفت روزہ ’زندگی‘ ایک زمانے میں بہت مقبول تھا۔ ان کے کئی حکمرانوں سے قریبی تعلقات رہے اور بہت سے درون خانہ معاملات سے آگاہ ہیں۔
میں نے پہلا سوال…
View On WordPress
0 notes