Tumgik
#Mirza Aslam Beg
risingpakistan · 6 years
Text
حکومت سمجھ گئی‘ اصغر خان کیس ایک پنگا ہے
نجانے اصغر خان کیس کا پیچھا ہم کیوں نہیں چھوڑتے۔ اُس وقت ایسا کیا انوکھا کام ہوا کہ جس کی ہماری تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ سچ پوچھیں تو جو الزام اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ پر لگا وہ مبینہ طور پر پاکستان میں بار بار دہرایا گیا اور شاید ہی ہماری تاریخ میں کوئی انتخابات ایسے گزرے ہوں جن پر اثر انداز ہونے یا من پسند نتائج حاصل کرنے کے الزامات نہ لگے ہوں۔ یہ تو جنرل (ر) اسلم بیگ اور جنرل (ر) اسد درانی کی مہربانی ہے کہ انہوں نے تسلیم کیا کہ اُس وقت کے انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے اور پی پی پی کو ہرانے کے لیے (ان کے موقف کے مطابق) مختلف سیاسی رہنمائوں اور سیاسی جماعتوں کو پیسہ دیا گیا۔ اصغر خان کیس کا تعلق 1990ء کے الیکشن سے تھا۔ 
اس کے بعد ہونے والے الیکشنز کے حوالے سے جو عام فہم تاثر پایا جاتا ہے وہ اُس سے کافی سنگین اور کہیں زیادہ ہے، جس کا ہم اصغر خان کیس میں رونا روتے ہیں۔ 1990ء کے انتخابات میں اگر یہ کام ہوا تو کچھ چھپ چھپا کے ہوتا رہا مگر بعد میں جس طرح کی خبریں ملتی رہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ ہم بحیثیت قوم یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ہماری تاریخ میں بس ایک اصغر خان کیس ہی ایسا تھا جس میں ایک مخصوص پارٹی کو ہرانے کے لیے من پسند سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کر کے مبینہ طور پر اُن پر پیسہ خرچ کیا گیا۔ ہاں! اس کیس کی اہمیت اس لحاظ سے ضرور ہے کہ سیاستدانوں کو تو قصور، بے قصور پھانسی بھی دی گئی، اُنہیں جلا وطن بھی کیا گیا، جیلوں میں بھی ڈالا گیا.
لیکن ایک ایسے کیس میں جہاں دو سابق جرنیلوں نے اپنا جرم تسلیم کیا، وہاں سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود اُن کے خلاف‘ کسی حکومت کو جرات نہ ہوئی کہ ایکشن لیا جائے۔ 2012-13ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں اصغر خان کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے حکومت کو دونوں سابق جنرلز کے خلاف کارروائی کا حکم دیا جبکہ ایف آئی اے کو ہدایت دی گئی کہ انکوائری کرے کہ کیا واقعی اصغر خان کیس میں شامل سیاستدانوں نے پیسہ وصو ل کیا یا نہیں۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے فوری بعد پی پی پی کی حکومت نے تو ہاتھ اٹھا لیے اور کہا کہ وہ اس معاملہ میں کچھ کارروائی نہیں کریں گے بلکہ یہ واضح کیا کہ دونوں ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جائے گا۔
پی پی پی کے ایک وزیر صاحب نے تو پاکستان کی زمینی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیا تھا کہ ہم سکت نہیں رکھتے کہ ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف کوئی کارروائی کریں۔ بعد میں اقتدار حاصل کرنے والی (ن) لیگ نے شروع شروع میں تو کہا کہ اصغر خان کیس کو حتمی نتیجے تک پہنچایا جائے گا لیکن بعد میں مسلم لیگ (ن) کو بھی سمجھ آ گئی کہ اُس کی اصل حیثیت کیا ہے۔ موجودہ تحریک انصاف کی حکومت نے سمجھداری کا کام کیا اور یہ فیصلہ اپنے اقتدار کے شروع کے چند مہینوں میں کر لیا کہ اس کیس سے ہی جان چھڑائی جائے۔ کوئی پنگا لیا تو حکومت کو پتا ہے کہ اس کا کیا حال ہو گا۔ 
ریٹائرڈ جنرلز چاہے وہ جنرل پرویز مشرف ہوں، جنرل اسلم بیگ، جنرل درانی ہوں یا کوئی دوسرا سابق جنرل، جس کو نیب کی کسی انکوائری کا سامنا ہو، وہ سب احتساب سے بالاتر ہیں۔ اُن کے متعلق سیاسی بیان کی حد تک تو بات ٹھیک ہے لیکن اُنہیں عدالتوں میں گھسیٹنا، ہتھکڑیاں پہنانا یا جیل میں ڈالنے کا محض خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ حقیقت میں نہ ایسا ممکن ہے اور نہ ہی اسے ممکن بنانے کے لیے کوئی کوشش کی جانی چاہئے کیونکہ اس کا سیدھا سیدھا مطلب ہو گا سیاسی خودکشی اور اپنی حکومت کا خاتمہ۔ یہ سبق عمران خان کی حکومت اور نیب کے چیئرمین نے پاکستان کی تاریخ سے حاصل کیا ہے اور اسی لیے اس پر من و عن عمل کر کے کامیابی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
ویسے جو لوگ اصغر خان کیس کو چند افراد کی جزا و سزا کے تناظر میں دیکھتے ہیں، اُن سے میری درخواست ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو ضرور پڑھیں کیونکہ اگر فیصلے پر عملد درآمد ہو جائے تو پھر ہمیں وہ سب کچھ بار بار نہ دیکھنا پڑے جس کا ہم اصغر کیس میں رونا روتے رہتے ہیں۔ اس کیس میں انٹیلی جنس ایجنسیوں میں سیاسی سیل کے خاتمے کے ساتھ ساتھ اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ کوئی فرد یا افراد، اپنے ذاتی و سیاسی مقاصد یا پسند و ناپسندیدگی کی بنیاد پر قومی یا انٹیلی جنس اداروں کو اپنی مرضی کے انتخابی نتائج کے حصول، حکومتوں کو بنانے، گرانے اور سیاسی جماعتوں کو جوڑنے توڑنے کے لیے کبھی نہ استعمال کر سکیں کیونکہ یہ ادارے ملک و قوم کے تحفظ اور سلامتی کے لیے بنائے گئے ہیں۔ 
انصار عباسی
1 note · View note
pakistantime · 6 years
Text
ایف آئی اے نے اصغر خان کیس بند کرنے کی سفارش کر دی
پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی (ایف آئی اے) نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں اصغر خان عمل درآمد کیس کی فائل بند کرنے کی سفارش کر دی ہے۔ اس کیس کے مدعی ایئرمارشل ریٹائرڈ اصغرخان رواں سال انتقال کر گئے تھے۔ ایف آئی اے نے سپریم کورٹ میں اصغر خان کیس سے متعلق ایک رپورٹ جمع کرائی ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ ادارے کے پاس اتنے شواہد نہیں کہ اس کیس پر فوجداری کارروائی ہو سکے۔ ایف آئی اے کے مطابق جن سیاست دانوں پر الزام تھا انہوں نے رقم کی وصولی کی تردید کی ہے۔ اہم گواہوں کے بیانات میں جھول ہیں اور بیانات ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ معاملہ 25 سال سے زیادہ پرانا ہے اور متعلقہ بینکوں سے پیسہ اکاؤنٹس میں جمع ہونے کا مکمل ریکارڈ بھی نہیں ملا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان یہ مقدمہ سنے گی۔ اگر عدالت نے ایف آئی اے کی یہ استدعا منظور کر لی تو نواز شریف اور شہباز شریف سمیت اہم سیاست دانوں کو ریلیف مل جائے گا۔ اصغرخان کیس میں بڑے بڑے سیاست دانوں پر 1990ء کی دہائی کے الیکشن میں اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اسد درانی سے پیسے لینے کا الزام تھا۔ سپریم کورٹ نے ان انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے ایف آئی اے کو رقوم تقسیم کرنے کے معاملے کی انکوائری کا حکم دیا تھا۔ اکتوبر 2012ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان کی درخواست پر اس کیس کا فیصلہ سنایا تھا۔
عدالت نے 1990ء کے انتخابات میں دھاندلی اور سیاسی عمل کو آلودہ کرنے پر سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اسد درانی کے خلاف وفاقی حکومت کو قانونی کارروائی کرنے کا حکم دیا تھا۔ تاہم اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوا تھا۔ عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی جسے اصغر خان عمل درآمد کیس کا نام دیا گیا تھا۔ رواں سال مئی میں چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے دوبارہ حکومت کو ان دونوں سابق اعلیٰ فوجی افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔ اس کیس کے ختم ہونے سے نوازشریف پر کیسز کا بوجھ کم ہو گا جو پہلے ہی اس وقت لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں العزیزیہ ریفرنس میں سات سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
علی رانا
بشکریہ وائس آف امریکہ  
0 notes
mypakistan · 10 years
Text
بھارت امریکہ گٹھ جوڑکے محرکات....جنرل مرزا اسلم بیگ
  بھارت، امریکہ سٹریٹیجک پارٹنرشپ کا مقصد افغانستان سے بنگلہ دیش تک کے علاقے میں بھارت کی بالادستی قائم کرناتھا۔افغانستان کو جنوبی ایشیا کا حصہ قرار دینے کے پیچھے بھی یہی حکمت کارفرما تھی ۔ 
بھارت نے اس سوچ سے فائدہ اٹھایا اوراتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان کی سرزمین سے تمام ہمسایہ ممالک، خصوصأ پاکستان کے خلاف جاسوسی کے مراکز تعمیر کئے اور دہشت گردی کی لعنت تھوپ دی۔ 2005 ء میں ہی سول نیوکلیر (Civil nuclear) معاہدے پر مفاہمت ہوئی جس کے حصول کے لئے بھارت نے ایران کے ایٹمی پروگرام کی مخالفت میں ووٹ دیاتھا اور امریکہ اور اس کے اتحادیو ں کے ساتھ مل کر خطے میں بڑھتے ہوئے اسلامی انتہا پسندی کے خطرات کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کاحوصلہ پیدا کیا،لیکن افسوس کہ امریکہ اور اس کے اتحادی اس مقصد میں بری طرح ناکام و نامرادہوئے۔
حالیہ دنوں میں مودی نے امریکہ کے ساتھ تذویراتی طور پر ہم رکاب ہوکر خطے کے جغرافیائی و سیاسی حالات کو نئی جہت دی ہے ۔’’غیر جانبدار ملک کی حیثیت سے بھارت اپنے نظریے سے منحرف ہوکرایک جانبدارانہ تشخص اختیار کرچکا ہے اور خلیج عدن سے لے کرآبنائے ملاکا تک پھیلے ہوئے طویل المدتی عسکری تعلقات میں بندھ چکا ہے۔ یہ معاہدہ دس سالوں تک قابل عمل ہوگا۔اس کے علاوہ دفاعی و تکنیکی و تجارتی معاہدے  پر بھی دستخط ہوئے ہیں جس کی رو سے بھارت ہوائی جہاز بردار بحری جہاز بنانے کے قابل ہو سکے گا۔،، بھارت، امریکہ اور جاپان کی سرکردگی میں تشکیل پانے والے ایشیاء پیسیفک اکنامک کوآپریشن فورم میں بھی شامل ہو چکاہے ، جس سے وہ چین کے نیو سلک روڈ پارٹنرشپ منصوبے کا توڑ کرنے کاعملی طور پر پابندہے۔
اس کے علاوہ بھارت، چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کو کم کرنے کا پابند ہے ۔اس لئے کہ چین نے اپنے بنائے ہوئے یورو ایشین زمینی رابطے  اور مختلف ممالک کی بندرگاہوں کی سہولت حاصل کرلینے کے بعد بہت ہی اہم مفادات حاصل کر لئے ہیں جو مشرق وسطی سے چین تک پھیلے ہوئے ہیں۔چین کا یہ بڑھتا ہوا اثرورسوخ امریکہ،بھارت اور ان کے اتحادیوں کو قطعأ ناقابل قبول ہے۔
مودی کا اہم ہدف ’’اقتصادی ترقی کے ثمرات جلد از جلدغریب عوام تک پہنچاناہے، مروجہ عالمی اقتصادی نظام کی طرح اوپر سے نیچے کی طرف  ترقی کے ثمرات کو لوگوں تک پہنچانا مودی کا مقصد نہیں ہے ،بلکہ نیچے سے اوپر کی طرف ترقی کے ثمرات کو غریب طبقے تک پہنچانا مقصودہے جس کے لئے ملک کے اندر تیار کی ہوئی مصنوعات پر انحصار ضروری ہوگا۔اوبامہ کا مقصد بھی بھارت کو ترقی دے کر ایشیا میں اہم طاقت بنانا ہے، کیونکہ بھارت کی طاقت کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے امریکہ اہم سمجھتا ہے‘‘۔ 
اس مقصد کے حصول کے لئے امریکی ٹیکنالوجی کی فراہمی بہت مفید ثابت ہوگی اور یہ بات مودی بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں۔لہذابھارت اور امریکہ نے باہمی تجارت کو ایک سو(100)ملین امریکی ڈالر سے بڑھا کر پانچ سو(500) ملین امریکی ڈالرسالانہ تک کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے جو کہ چین کے ساتھ تجارت کے برابر ہے ۔اس کے علاوہ اوبامہ کی بھارت یاترا کا ایک اوراہم مقصد وہ فارمولا تلاش کرنا تھا جس کے ذریعے بھارت کے ایٹمی قوانین میں 2005 ء سے موجود خامیاں نظر انداز کی جا سکیں اور بھارت کو ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کی جا سکے۔ یہ معاہدہ بھی ہو چکا ہے۔
تذویراتی لحاظ سے امریکہ کے ہم رکاب ہونے کے باوجود’’بھارت کی جانبدارانہ پالیسی اس کے حق میں مفید اورقابل عمل ہوگی، اوربھارت ، چین اورروس کے ساتھ بھی اقتصادی تعلقات قائم کر سکے گا جس کے سبب واشنگٹن کی اختیار کردہ حکمت عملی متاثر ہوگی اور امریکہ پر دباؤ بڑھے گا کہ وہ کثیر المرکزی عالمی نظام کو قبول کر لے کہ جس کے تحت امریکہ نے بھارت کی جغرافیائی و سیاسی حقیقت کو سمجھتے ہوئے اوراس کی ترقی کی رفتاردیکھتے ہوئے ،اسے مستقبل کے عالمی نظام کے لئے انتہائی اہم سمجھا ہے‘‘۔
اس کے برعکس 1950ء کی دہائی میں ، جوسردجنگ کا دورتھا ، پاکستان، امریکی اتحادی بننے پر مجبور ہوا ،لیکن اپنی کمزور پالیسیوں کے سبب اسے بہت تلخ تجربات سے گزرنا پڑا کہ کس طرح اس کے طاقتور شراکت دار نے اپنی ضرورت کے وقت پاکستان کواستعمال کیا اور جب ضرورت نہ رہی توآنکھیں پھیر لیں۔اس کی بدترین مثال 2001 ء میں قائم کی گئی جب پاکستان سے کہا گیا کہ ’’یا تو تم ہمارے ساتھ ہو یا پھر ہمارے خلاف‘‘ جس سے گھبرا کر پاکستان نے برادر اسلامی ملک افغانستان کے خلاف امریکہ کی جنگ میں شامل ہونے کا غیر اخلاقی و غیر منطقی فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑاہے اور ابھی تک اٹھائے جا رہا ہے۔
حالیہ دور میں ابھرنے والے حالات پاکستان کے لئے خاصے پریشان کن ہیں خصوصاً ،جبکہ اندرون ملک دہشت گردی اورسیاسی انتشار پھیلا ہوا ہے اور ہماری شمال مغربی سرحدوں پر جنگ کی کیفیت ہے ،لیکن اس الجھے ہوئے منظر نامے میں بھی امید افزا اشارے ہیں جن کا تقاضا ہے کہ ہم نہایت تدبر اور فہم و فراست سے فیصلے کریں اوران مواقع سے بھرپور طور پر مستفید ہوں۔ ’’منطقی طور پر یہ بات درست ہے کہ بھارت اور امریکہ کی سٹریٹیجک پارٹنر شپ کا واضح ہدف چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو محدود کرنا ہے۔
یہ بات چین کے لئے پریشان کن ضرور ہے، لیکن اس کے رد عمل میں چین، پاکستان اور روس کے مابین عسکری و اقتصادی تعلقات میں مفاہمت کی فضا ہموا ر ہو رہی ہے جس سے پاکستان کی سلامتی کی نئی راہیں کھلیں گی‘‘۔ افغان صدر اشرف غنی نے بیجنگ میں منعقد ہونے والی  کانفرنس میں اعلان کیا ہے کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ منفرد انداز سے کیا جائے گا جس کے لئے انہوں نے اپنے چھ قریبی ہمسایہ ممالک ، پاکستان، ایران، چین، روس اور وسطی ایشیائی ممالک سے بہت ہی قریبی روابط قائم کئے ہیں اوربھارت اور امریکہ کو الگ رکھا ہے جن کی سازشوں کے سبب1990 ء کے بعدافغانستان میں خانہ جنگی کی صورت پیدا ہوئی تھی، لہذا افغان قوم اب تہیہ کرچکی ہے کہ وہ کسی دھوکے میں نہیں آئیں گے اورپرامن انتقال اقتدار کے تمام معاملات کافیصلہ خود کریں گے۔
پاکستان کے لئے اب باہمی احترام اور مفادات پر مبنی پاک امریکہ تعلقات کی نئی بنیادیں استوار کرنے کایہ نادر موقع ہے، لہٰذا’’یہ امر ذہن میں رکھنا لازم ہے کہ امریکہ صرف ایک عام ملک نہیں، بلکہ وہ ایک سپر پاور ہے ،جس نے دنیا کو ایک خطرناک سرزمین بنا دیا ہے۔حالیہ عرصے میں جہاں کہیں بھی امریکہ نے مداخلت کی ، وہاں بربادی ہی چھوڑی ہے، اور وہ بھی ایسی کہ کسی آمر نے بھی نہ کی ہو، افغانستان، عراق، لیبیا اور شام کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں‘‘۔۔۔ لہٰذا یہ بات سمجھنا ہمارے لئے اہم ہے کہ ا ب ہم کتنی جلدی امریکہ کی مضبوط گرفت  سے نکل کر دوستانہ اور پراعتماد تعلقات قائم کرسکیں، تاکہ آزادفضا میں آزادی سے سانس لینا ممکن ہو۔ 
جنرل مرزا اسلم بیگ
0 notes
emergingkarachi · 7 years
Text
آزادی کے ستر سال....ہم نے کیا کھویا کیا پایا : جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ
نظریہ پاکستان کے تحت ہم نے 1947ء میں پاکستان بنایا یعنی مسجد بنا لی لیکن اس کی حفاظت نہ کر سکے اور یہ مسجد 1971ء میں دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ پھر بھی ہم نمازی نہ بن سکے لیکن ایک دانشمند لیڈر نے ہمیں 1973ء کا آئین دیا اور ہمارے مقصد حیات کا تعین کیا مگر ہم اپنے مقصد حیات کے تقدس کو بھی پامال ہونے سے نہ بچا سکے اور یہی وہ کشمکش ہے جو آج ہماری قومی سلامتی کا سنگین مسئلہ ہے۔ اس عرصے میں ہم نے کن کن محاذوں پر کامیابیاں حاصل کیں اور کہاں کہاں ہمیں ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑاہے’ اس کا تفصیلی جائزہ لینا ضروری ہے تا کہ مستقبل کی منصوبہ بندی موثر طور پر کی جا سکے۔
ان ستر سالوں میں مسلح افواج نے 35 سال حکمرانی کی ہے اور وطن عزیز کی سلامتی کو درپیش اندرونی و بیرونی خطرات سے نمٹنے کیلئے بے مثال قربانیاں دی ہیں جس سے بچہ بچہ واقف ہے۔ پاکستان کی تعمیر اور ترقی میں فوج کا کردار مثالی ہے لیکن چند اعلیٰ عسکری قائدین نے اپنی نااہلی کے سبب ان قربانیوں کو ضائع کر دیا اور ملک کو بڑا نقصان پہنچایا ۔ مثلاً قیام پاکستان کو دس سال بھی نہیں ہوئے تھے کہ جنرل ایوب خان نے امریکہ کو اپنا آقا بنا لیا اور جلد ہی اپنے اس فیصلے پر پچھتائے، کتاب لکھ ڈالی لیکن ”اس کمبل“ نے آج تک ہماری جان نہیں چھوڑی۔ ایوب خان مایوس ہوئے تو اقتدار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر دیا جنہوں نے ایسی حکمت عملی اپنائی کہ ملک دولخت ہو گیا۔ 1971ء میں جنرل نیازی نے سقوط ڈھاکہ کے معاہدے پر دستخط کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی۔ جنرل ضیاءالحق نے اپنے آقاﺅں کی خوشنودی میں منتخب وزیراعظم کو پھانسی دینے میں کسی ندامت کا اظہار نہیں کیا۔ جنرل پرویز مشرف نے ملکی سلامتی کو داو پر لگا دیا، اور برادر پڑوسی ملک افغانستان کے خلاف امریکہ کی جنگ میں شامل ہونے سے نہ صرف پاکستان پر دہشت گردی کا عذاب نازل ہوا بلکہ افغانستان کے ساتھ ایک نیا محاذ بھی کھل گیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس جرم میں ہماری عدلیہ ، انتظامیہ ، کچھ سیاسی و دینی جماعتیں اور اشرافیہ برابر کے شریک رہے ہیں۔
جنرل مشرف کی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ ہماری فوج افغانستان کی جنگ آزادی سے لاتعلق ہو چکی ہے اور ہم یہ نہیں سوچتے کہ چار کروڑ پچاس لاکھ پختون ڈیورنڈ لائن کی دونوں جانب رہتے ہیں۔ ان میں سے ساٹھ فیصد پاکستان میں ہیں؛ چالیس فیصد افغانستان میں اور دس فیصد پاکستان کے دل یعنی کراچی میں آباد ہیں ، جنہوں نے گزشتہ تین دہائیوں میں دنیا کی بڑی بڑی قوتوں کو شکست سے دوچار کیا ۔ ان کی اس جدوجہد آزادی میں پاکستانی پختونوں نے ان کی بھرپور مدد کی اور یہ مدد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ وہ غاصب قوتوں سے اپنی آزادی چھین نہیں لیتے۔ ایک عرصہ سے پختون قوم کو تقسیم اور علیحدہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں لیکن گزشتہ ایک سو پچیس سال سے ڈیورنڈ لائن اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہی ہے۔ طاقت کا استعمال ہمیشہ ہمارے لئے نقصان دہ ثابت ہواہے اور اب قائد اعظم کے نظریے کو عملی جامہ پہنانے کا وقت آ گیا ہے، قائد اعظم نے پختون قوم کو متحد رکھنے کیلئے پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں سے فوج کو ہٹا لیا تھا اور اس کی نگرانی پختونوں کو سونپی تھی۔ قائداعظم کا وژن پختون قوم کی یکجہتی اور اس کے پھیلاو سے متعلق تھا جو ڈیورنڈ لائن سے آگے کوہ ہندوکش تک اور اس سے آگے آمو دریا تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے جھٹلانے کی کوشش میں ہم نے ان سرحدوں پر دوسرا محاذ کھول لیا ہے۔
ان تمام تر غلطیوں کے باوجود ہماری فوج نے 1980ء کی دہائی میں وہ صلاحیت حاصل کر لی کہ جس کے سبب اسے دنیا کی بہترین افواج میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسی دور میں دو بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں جو ہمارے تجدیدی عمل کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہوئیں۔ 1980 کی دہائی میں Armed Forces War College کی بدولت ہماری عسکری قیادت اعلیٰ عسکری تعلیم سے آراستہ ہو چکی تھی اور فوجی فارمیشنوں، اداروں اور اکثر عسکری شعبوں کی سربراہی وار کالج کے فارغ التحصیل افسروں کے ہاتھوں میں تھی جنہوں نے بری فوج کے تمام نظام کو ترقی یافتہ بنانے کا جامع منصوبہ بنایا تا کہ مستقبل میں پیش آنے والے کثیرالجہتی خطرات سے احسن طریقے سے نمٹا جا سکے۔ دوسری بڑی تبدیلی چین کے ساتھ ہماری دفاعی شراکت مثالی ہونے کے ساتھ ساتھ منفرد حیثیت حاصل کر چکی تھی۔ اسی شراکت کی بدولت ہماری فوج 1971ء کی جنگ کے بعد اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ ہماری عسکری قیادت اب اعلیٰ عسکری تعلیم سے مزین ہے اور ساتھ ہی ہمیں چین کی غیر مشروط مدد بھی حاصل ہے جسے ہم رحمت ایزدی سمجھتے ہیں۔ یہی دو اہم عوامل ہیں جن کی بدولت پاکستانی فوج ایک جدید ترین فوج بننے کے اہداف حاصل کر سکی ہے اور نوے فیصد تک خود انحصاری اور چالیس دنوں تک جنگ لڑنے کی صلاحیت بھی حاصل ہے۔  الحمد للہ
ہماری فوج کا ترویجی عمل ایک تذویراتی حقیقت ہے جو دشمنوں کے عزائم کے خلاف مضبوط چٹان کی مانند ہے، قومی سلامتی اور ترقی و کمال کی ضمانت بھی ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان اس اشتراک کی بدولت ہمارا تزویراتی محور (Strategic Pivot) قائم ہے۔ الحمدللہ ہم نے اب وہ صلاحیت حاصل کر لی ہے جس کی بدولت اپنی تزویراتی سوچ کو جنگی منصوبوں سے ہم آہنگ کیا ہے، یعنی پہلے حملہ کرنے ( Pre emption) اور جارحانہ دفاع کی صلاحیت ( Defense Offensive ) میں حقیقت کا رنگ بھرنے اور حریف قوت کے خلاف فیصلہ کن جنگ جیسے اہداف حاصل کئے ہیں۔ یہ ایسی صلاحیت ہے جو بذات خود ”مزاحمت Deterrence “ بھی ہے اور جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی فتح یاب ہونے کی نوید بھی ہے۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ جدوجہد کی اس گھڑی میں ہم تنہا نہیں ہیں، قوم ہمارے ساتھ ہے۔ یہ ہماری قوم ہی ہے جس نے انتہائی مشکل حالات کا نہ صرف مردانہ وار مقابلہ کیا ہے بلکہ عزت و وقار سے زندگی گزارنا بھی جانتی ہے۔ دوسری اہم بات جو ہمارے لئے انتہائی حوصلہ افزا ہے وہ ہماری مغربی سرحدوں کے پار افغانستان میں حریت پسندوں کی جدوجہد آزادی کی کامیابی ہے جواب اپنے منطقی انجام کے قریب ہے۔ سپر پاورز کے توسیع پسندانہ عزائم کے دن گزر چکے ہیں اور عنقریب افغانیوں کے غلبے کا سورج طلوع ہونے والا ہے۔
ہماری فوج کو اپنی ماضی کی غلطیوں کا احساس ہے اور اپنی قومی ذمہ داریوں کا بھی ادراک ہے لیکن ہماری سب سے بڑی کمزوری ہماری قوم کی پراگندہ سوچ ہے جو بے حد خطرناک ہے۔ اس خطرے سے ترکی کے صدر نے پاکستان کے دورے کے موقع پر قوم کو آگاہ کیا تھا کہ ”پاکستان کی سلامتی کو فتح اللہ گولن طرز کے خطرات کا سامنا ہے“ جس سے نمٹنے کیلئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی سیاسی و نظریاتی تفریق خطرناک ہوتی جا رہی ہے جو فوری تدارک کی متقاضی ہے۔ ہماری نظریاتی تفریق اور نظریات سے عاری موجودہ سیاسی نظام ان مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا جو ایک خطرناک صورت حال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں نظام حکومت منتخب کرنے کا اختیار دیا ہے جس کی بنیاد قرآن و سنہ کے اصول ہیں۔ یہی ہمارا نظریہ حیات ہے جس کی تشریح 1973ء کے آئین میں ان الفاظ میں کی گئی ہے:
”پاکستان کا نظام حکومت جمہوری ہو گا جس کی بنیاد قرآن و سنہ کے اصولوں پر قائم ہو گی۔“
لیکن بدقسمتی سے ہم نے قرآن و سنہ کے اصولوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے صرف جمہوریت کو ہی ترجیح دی ہے۔ نہ ماضی کی کسی حکومت کو’ نہ موجودہ حکومت کو اور نہ ہی متعدد مذہبی جماعتوں میں سے کسی کو یہ توفیق ہوئی ہے کہ وہ قوم کی نظریاتی شناخت کو محفوظ بنانے کی طرف توجہ دیتا۔ ہم اپنے بچوں کو مسلم شناخت دینے میں ناکام ہوئے ہیں کیونکہ ہمارا نظام تعلیم قرآن و سنہ کے اصولوں سے یکسر عاری ہے۔ ہماری سیاسی و نظریاتی تفریق کاسبب ہمارا برسراقتدار طبقہ ہے’ جس نے ہمارے معاشرے کولبرل، سیکولر، روشن خیال اور قوم پرست گروپوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ مذہبی طبقات نظراندازا ہونے کے سبب نمایاں سیاسی مقام نہیں رکھتے اور نہ ہی حکمرانی سے متعلق معاملات یا پالیسی سازی کے عمل میں ان کا کوئی عمل دخل ہے۔ وہ تو بذات خود زیادتی کا شکار ہیں اور ہمارے عوام انہیں ووٹ نہیں دیتے۔ ہماری دینی جماعتیں اپنی ظاہری اور باطنی کاوشوں کے باوجود، جن کا پرچار میڈیا پر دن رات ہوتا ہے، پاکستانی قوم کے رخ کو درست سمت میں رکھنے میں ناکام ہیں۔
ہمارے قومی نظریہ حیات کے دونوں عناصر کے مابین توازن پیدا کرنے کا ایک ہی راستہ ہے یعنی جمہوریت ہمارا نظام حکمرانی ہو گا اور قرآن و سنہ اس نظام کو نظریاتی تحفظ فراہم کرے لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ارباب اختیار جنہوں نے”اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی قسم کے مطابق آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف اٹھا رکھا ہے “وہ قومی نظریہ حیات کے تقدس کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔ لہٰذا موجودہ ابتر صورت حال کے تدارک کی ذمہ داری جہاں ارباب اختیار پر عائد ہوتی ہے وہاں سیاسی اور دینی جماعتوں کی بھی اولین ذمہ داری ہے کیونکہ لبرل اور سیکولر عناصر ملکی معاملات سے مذہب کو الگ کر دینا چاہتے ہیں۔ ان کی دانست میں ”انسانی بقا کا محور اللہ تعالیٰ کی ذات کی بجائے ترقی پسندانہ نظام ہے جو شخصی خود مختاری کا قائل ہے۔ اولیت اللہ تعالیٰ کی ذات کو نہیں بلکہ انسان کو حاصل ہے“۔ نعوذ باللہ۔ بنگلہ دیش اس امر کی واضح مثال ہے لیکن پاکستان کا معاملہ اس سے بہت مختلف ہے۔ خدانخواستہ اگر ویسی صورت حال پیدا ہوئی تو پاکستان ایک طوفان میں گھر جائے گا۔ کچھ ایسے ہی حالات 1965-66 میں ان��ونیشیا کو درپیش تھے جب سوشلزم اور کیمونزم کی تبلیغ کی جا رہی تھی جس کے خلاف وسیع پیمانے پر احتجاجی تحریک چلی اور خانہ جنگی ہوئی جو ڈیڑھ ملین عوام کی موت کا سبب بنی اور آخر کار صدر سہارتو نے اقتدار سنبھالا۔ خدانخواستہ اگر ہم اس گرتی ہوئی صورت حال کا تدارک کرنے میں ناکام رہے تو ہمیں تباہ کن خطرات کا سامنا ہو گا کیونکہ پاکستان انڈونیشیا کی طرح جزیرہ نہیں ہے۔ ہمارے پڑوس میں انقلابی ایران اور افغانستان جیسے جہادی ممالک ہیں جو خاموش نہیں بیٹھیں گے ایک طوفان اٹھ کھڑا ہو گا جسے سنبھالنے والا کوئی نہیں ہو گا۔
آج ہم اس مقام پر ہیں جہاں ہماری افواج اپنی جغرافیائی سرحدوں ک�� تحفظ کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں لیکن ہماری سیاسی و مذہبی قیادت اپنی نظریاتی سرحدوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہیں۔ ہمارا نظریہ حیات کمزور ہو چکا ہے اور جب نظریہ حیات کمزور ہو جائے تو قوم باوقار زندگی گزارنے کے حق سے محروم ہو جاتی ہے۔ آج جو سیاسی منظر نامہ ہمارے سامنے ہے وہ ہم سب کیلئے اور خصوصاً ہمارے قائدین کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ ایک جانب عدلیہ اور ملکی سلامتی کے محافظ اداروں پر تنقید کے نشتر چلائے جا رہے ہیں تو دوسری جانب انسانیت و اخلاقیات کے تمام تر تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انتہائی بھونڈے طریقوں سے ایک دوسرے کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔ عام آدمی سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا یہی جمہوریت ہے اور یہی اس کے ثمرات ہیں ہمارے ایک دانشور کے بقول ”ہماری قوم آج ان مسائل کی بجائے اپنے آپ سے برسرپیکار ہے جو ایک تباہ کن شغف ہے۔ اس میں جیت ہی ہماری سب سے بڑی ہار ثابت ہو گی“۔ ان الفاظ میں ایک واضح پیغام بھی ہے کہ اگر ہماری سیاسی و دینی جماعتیں اپنے فکر و عمل سے اپنی استعداد اور کارکردگی کا معیار عسکری اداروں کے برابر نہیں لا سکتے تو جمہوری قوتوں کو کبھی بھی استحکام حاصل نہیں ہو گا، ایک خوف طاری رہے گا جس کے سبب حکومتیں اعصابی دباﺅ میں رہ کر غیر اخلاقی حرکتوں کی مرتکب ہوتی رہیں گی۔ ایسی حرکتیں جو پاکستانی قوم کی پہچان ہرگز نہیں ہیں۔
جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ  
0 notes
tehlkatv-blog · 7 years
Photo
Tumblr media
Indian Army Chief’s threat to Pakistan is but a boasting : Mirza Aslam Beg Tehlka TV Report Islamabad : Former Army Chief General (Retd) Mirza Aslam Baig while terming the threat of Indian army chief to Pakistan as nothing but a boasting said that India knows it well what price has to pay for aggression therefore, it cannot cast an evil eye on Pakistan.
0 notes
ganz-port · 4 years
Photo
Tumblr media
General Mirza Aslam Beg-Man,Soldier and Civil Military Relations in Pakistan https://www.academia.edu/44977857/General_Mirza_Aslam_Beg_Man_Soldier_and_Civil_Military_Relations_in_Pakistan via @academia https://www.instagram.com/p/CKfq9hqpE4z/?igshid=xmirbm5mdyye
0 notes
ssbprep · 5 years
Photo
Tumblr media
Pakistan will use Kartarpur for Khalistan terror: Former army chief SOURCE: INDIA TODAY Former Pak army chief Gen Mirza Aslam Beg has said that the country will use Kartarpur corridor for Khalistan terror.
0 notes
pakistantalkshow · 6 years
Text
Asghar Khan case: Aslam Beg, Asad Durrani come face to face | Pakistan
Asghar Khan case: Aslam Beg, Asad Durrani come face to face | Pakistan
[ad_1]
Tumblr media
Asad Durrani (left), Mirza Aslam Baig (right). 
ISLAMABAD: Former Chief of Army Staff (COAS) General (retd) Mirza Aslam Beg says he had vehemently warned then spy chief Lieutenant General (retd) Asad Durrani against dragging the military into “political engineering” ahead of the 1990 elections.
Beg’s revelations come as part of his statement to a Federal Investigation Agency (FIA) team…
View On WordPress
0 notes
newspress-fan · 6 years
Text
Asghar Khan case: Aslam Beg, Asad Durrani come face to face
Asghar Khan case: Aslam Beg, Asad Durrani come face to face
[ad_1]
Tumblr media
Asad Durrani (left), Mirza Aslam Baig (right). 
ISLAMABAD: Former Chief of Army Staff (COAS) General (retd) Mirza Aslam Beg says he had vehemently warned then spy chief Lieutenant General (retd) Asad Durrani against dragging the military into “political engineering” ahead of the 1990 elections.
Beg’s revelations come as part of his statement to a Federal Investigation Agency (FIA) team…
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 5 years
Text
سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس بند کرنے کی درخواست مسترد کر دی
سپریم کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی طرف سے اصغر خان کیس بند کرنے کی استدعا ایک بار پھر مسترد کرتے ہوئے ایک ماہ میں پیش رفت رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔ ایف آئی اے نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کراتے ہوئے ایک مرتبہ پھر کیس بند کرنے کی استدعا کی تھی۔ ایف آئی اے نے کہا کہ ناکافی شواہد کی بنیاد پر کیس کسی بھی عدالت میں چلانا مشکل ہے۔ اس کیس میں بے نامی بینک اکاؤنٹس کی تحقیقات سمیت اہم گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔ ایف آئی اے نے بتایا کہ وزرات دفاع کی جانب سے معاملے کی تحقیقات کے لیے کورٹ آف انکوائری بنائی گئی جس نے 6 گواہوں کے بیان ریکارڈ کیے اور تمام شواہد کا جائزہ لیا۔ معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے مزید گواہوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے کی رپورٹ نامکمل ہے۔ رپورٹ میں گواہوں کے بیانات شامل نہیں ہیں اور صرف سمری شامل کی گئی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر ایف آئی اے چاہے تو وہ گواہوں کے بیانات سربمہر لفافے میں پیش کر سکتی ہے اور اگر وہ بیانات عام کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی تو عدالت ایسا کر دے گی۔ ایف آئی اے کے مطابق انکوائری کمیٹی نے متعدد صحافیوں کے انٹرویو کیے جن میں مجیب الرحمان شامی اور حبیب اکرم شامل ہیں، جب کہ مرکزی گواہ بریگیڈیئر (ر) حامد سعید اور ایڈووکیٹ یوسف میمن سے بھی پوچھ گچھ کی گئی۔ کیس کو آگے بڑھانے اور مزید ٹرائل کے لیے خاطر خواہ ثبوت نہیں مل سکے۔ لہذا مناسب ثبوت نہ ملنے کے باعث کیس کو کسی بھی عدالت میں چلانا ممکن نہیں رہا۔
سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ایف آئی اے کو بریگیڈیئر (ر) حامد سعید کا بیان دوبارہ ریکارڈ کرنے اور ایک ماہ میں پیش رفت کی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ نے کیس بند کرنے کی سفارش پر بھی ایف آئی اے پر برہمی کا اظہار کیا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ عدالت اپنے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے بھرپور کوشش کرے گی۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’ہمارے ساتھ کھیل نہ کھیلیں، کیا حامد سعید سے پوچھا گیا کہ رقم کیسے ادا کی؟‘‘۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ حامد سعید سے ادائیگی کا طریقہ کار نہیں پوچھا گیا۔ 
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ، ’’ہر ملزم اپنے جرم سے انکار کرتا ہے۔ کیا جرم سے انکار پر کیس داخل دفتر ہو جاتا ہے؟ ایف آئی اے اس کیس میں پوری جان لڑائے۔‘‘ سپریم کورٹ نے اصغر خان عملدر آمد کیس میں 1990 کے انتخابات میں دھاندلی اور سابق آرمی چیف اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی سمیت سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم کے ذمہ دار سابق فوجی افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔ تاہم اس کیس میں تاحال کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کیس کے بارے میں اُنہیں وزارت دفاع کی طرف سے شواہد اور تفصیلات فراہم نہیں کی جا رہیں.
علی رانا
بشکریہ وائس آف امریکہ
0 notes
shakeel786blog · 6 years
Text
SC issues notices to Nawaz, Aslam Beg and Asad Durrani in Asghar Khan case
SC issues notices to Nawaz, Aslam Beg and Asad Durrani in Asghar Khan case
[ad_1]
The Supreme Court on Saturday issued notices to former prime minister Nawaz Sharif, former army chief General Mirza Aslam Beg and former Inter-Services Intelligence (ISI) DG Lieutenant General Asad Durrani in the Asghar Khan case.
DG Federal Investigation Agency (FIA) and the attorney general have also been issued notices to appear before the apex court on August 15.
A three-member…
View On WordPress
0 notes
thelahorepost-blog · 6 years
Text
Nawaz Sharif, JI deny receiving money from military in Asghar Khan case
Tumblr media
Former prime minister Nawaz Sharif and the Jamaat-e-Islami have denied receiving any money from Inter-Services Intelligence (ISI) or Mehran Bank owner Younus Habib while campaigning for the 1990 general election. In a four-page written reply submitted in the Supreme Court on Saturday, Sharif said that he had already denied the allegations in a recorded statement to the Federal Investigation Agency (FIA) on September 14, 2015. JI chief Sirajul Haq also submitted his party’s reply in the apex court, refuting all reports of receiving money from the premium intelligence agency of the country under the banner of Islamic Jamhoori Ittehad (IJI). Haq said the JI had voluntarily become part of the hearing and submitted the affidavit denying the allegations. As an amir of Jamaat-e-Isalmi, he said he was ready to face all investigations and commissions at all forums in this regard. During the last hearing on June 6, the FIA told the court that the agency will also contact military authorities via the defence ministry asking for the alleged record regarding ISI’s purported distribution of money among politicians before the 1990 general election. It also informed the apex court that the National Accountability Bureau (NAB) officials and SC registrar had also been contacted to provide relevant record. The NAB was requested to share details of its inquiry against Younus Habib, Yousuf Memon and Javed Hashmi. On June 16, 1996, Asghar Khan had written a letter to then CJP Sajjad Ali Shah, naming politicians who had allegedly received money from the ISI before the 1990 general election. The fund was allegedly provided by Younus Habib, the then chief executive officer of Habib Bank Limited (HBL), which was a government-run bank at that time. According to the letter, Sharif had allegedly received Rs3.5 million, Mir Afzal Khan Rs10 million, Lt-Gen Rafaqat Rs5.6 million (for distributing money among journalists), Abida Hussain Rs1 million, the Jamaat-e-Islami Rs5 million, and senior journalist Altaf Hussain Qureshi Rs500,000. Moreover, in Sindh, Ghulam Mustafa Jatoi and Jam Sadiq received Rs5 million each, Muhammad Khan Junejo Rs250,000, Pir Pagara Rs2 million, Maulana Salahuddin Rs300,000 and other small groups were given Rs5.4 million. In Balochistan, Humayun Marri received Rs1.5 million. The letter also contained names of Bizenjo and Kakar tribes. The apex court had announced its verdict in the case in November 2012, which stated that former president Ghulam Ishaq Khan, former army chief General (retd) Mirza Aslam Beg and former ISI chief Lt-Gen (retd) Asad Durrani acted in violation of the Constitution by facilitating a group of politicians and political parties to ensure their success against rival candidates in the 1990 general election. Read the full article
0 notes
1clickpar · 6 years
Text
Basic Beg, Gen Durrani seem earlier than FIA investigators in Asghar Khan case probe
Basic Beg, Gen Durrani seem earlier than FIA investigators in Asghar Khan case probe
ISLAMABAD – Former military chief Basic (retd) Mirza Aslam Beg and former Inter-Providers Intelligence DG Lieutenant Basic (retd) Asad Durrani appeared earlier than a Federal Investigation Company (FIA) committee on Wednesday concerning the probe into the Asghar Khan case.
In keeping with media reviews, the previous high generals will file their statements at this time earlier than the committee…
View On WordPress
0 notes
ganz-port · 4 years
Photo
Tumblr media
General Mirza Aslam Beg-Man,Soldier and Civil Military Relations in Pakistan https://www.academia.edu/44977857/General_Mirza_Aslam_Beg_Man_Soldier_and_Civil_Military_Relations_in_Pakistan via @academia https://www.instagram.com/p/CKfq8PVpGfD/?igshid=vdyosal6t1pl
0 notes
pakistantalkshow · 6 years
Text
Asghar Khan case: General Beg appears before FIA investigators | Pakistan
Asghar Khan case: General Beg appears before FIA investigators | Pakistan
[ad_1]
Tumblr media
Former army chief General (retd) Mirza Aslam Beg and former Inter-Services Intelligence DG Lieutenant General (retd) Asad Durrani. Photo: File
ISLAMABAD: Former army chief General (retd) Mirza Aslam Beg on Wednesday appeared before a Federal Investigation Agency (FIA) committee constituted to conduct investigation in the Asghar Khan case.
Sources privy to the development told Geo Newst…
View On WordPress
0 notes
newspress-fan · 6 years
Text
Asghar Khan case: Former COAS, DG ISI appear before FIA investigators
Asghar Khan case: Former COAS, DG ISI appear before FIA investigators
[ad_1]
Tumblr media
Former army chief General (retd) Mirza Aslam Beg and former Inter-Services Intelligence DG Lieutenant General (retd) Asad Durrani. Photo: File
ISLAMABAD: Former army chief General (retd) Mirza Aslam Beg and former Inter-Services Intelligence DG Lieutenant General (retd) Asad Durrani appeared on Wednesday before a Federal Investigation Agency (FIA) committee constituted to investigate…
View On WordPress
0 notes