#کرنل مجیب الرحمان
Explore tagged Tumblr posts
Text
کرنل مجیب الرحمان شہید کی نماز جنازہ ادا
رپورٹ: امجد حسین، گلگت بلتستان
پاک فوج کے کرنل مجیب الرحمٰن شہید کی نماز جنازہ آرمی ہیلی پیڈ گلگت میں ادا کردی گئی۔
فورس کمانڈر میجر جنرل احسان محمود خان نے نماز جنازہ کی امامت کی ۔نماز جنازہ میں سی ایم گلگت بلتستان حفیظ الرحمن سمیت نامور عسکری سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت کی۔ شہید کے والد بیٹے کا دیدار کرتے ھوئے اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پائے۔
گذشتہ روز پاک فوج کے کرنل نے جان دے کر…
View On WordPress
0 notes
Text
او آئی سی کی تاریخ کیا ہے؟
اکیس اگست 1969 کو ایک آسٹریلوی عیسائی ڈینس مائیکل نے یروشلم میں مسجد اقصی میں موجود 800 سالہ قدیم منبر کو آگ لگا دی جس کی لپیٹ میں مسجد اقصیٰ کی چھت بھی آ گئی۔ اِس واقعہ کے بعد پورے عالمِ اسلام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ اُس وقت کے مفتیٔ اعظم فلسطین امین الحسینی نے سخت احتجاج کیا اور پورے عالمِ اسلام کو اِس واقعہ پر مضبوط موقف اختیار کرنے کی دعوت دی۔ مفتی اعظم فلسطین کی پکار پر سعودی عرب اور مراکش نے قائدانہ کردار ادا کیا، جن کی کوشش سے مراکش کے شہر رباط میں مسلم دنیا کے سربراہ اکٹھے ہوئے۔
او آئی سی کی بنیاد کب رکھی گئی؟ 25 ستمبر 1969 کو اسلامی سربراہی کانفرنس کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی۔ اس کے چھ ماہ بعد ایک مرتبہ پھر سعودی عرب آگے بڑھا اور اسلامی ممالک کے تمام وزراء خارجہ کا پہلا باقاعدہ اجلاس جدہ میں منعقدہ کیا۔ 1972 میں او آئی سی کو باقاعدہ تنظیم کی شکل دی گئی اور یہ طے پایا کہ اس کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہر سال منعقد ہو گا جبکہ سربراہی اجلاس ہر تین سال بعد منعقد ہوا کرے گا۔
او آئی سی کا مقصد او آئی سی کے چارٹر میں کہا گیا کہ، اسلامی، اقتصادی اقدار کا تحفظ، آپس میں یکجہتی کا فروغ، سماجی، اقتصادی، ثقافتی، سائنسی اور سیاسی شعبوں میں تعاون کے فروغ، عالمی امن و سلامتی کے قیام کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم خاص طور پر سائنس و ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جائے گا۔
اسلامی سربراہی کانفرنس کے سربراہی اجلاسوں کی تاریخ اسلامی سربراہی کانفرنس کے سربراہی اجلاسوں کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو پاکستان میں منعقد ہونے والی سربراہی کانفرنس ابھی تک واحد کانفرنس ہے جس میں دنیا کے سب سے زیادہ ممالک نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کو کامیاب کرنے میں بھی سعودی سربراہ شاہ فیصل نے بنیادی کردار ادا کیا تھا، یہی وہ کانفرنس تھی جس میں ذوالفقار علی بھٹو، شاہ فیصل، معمر قذافی اور یاسر عرفات عالمی لیڈر بن کر اُبھرے۔ پاکستان میں ہونے والی سربراہی کانفرنس میں پہلی دفعہ فلسطین کو علیحدہ مملکت کا اسٹیٹس دیا گیا، بعد میں اسی بنیاد پر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کا موقع ملا۔ 1974 میں لاہور میں منعقد ہونے والی سربراہ کانفرنس میں مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی، فلسطین سے ہی یاسر عرفات، شاہ فیصل، یوگنڈا سے عیدی امین، تیونس سے بومدین، لیبیا سے کرنل قذافی، مصر سے انور سادات، شام سے حافظ الاسد، بنگلہ دیش سے شیخ مجیب الرحمان، ترکی سے فخری کورو سمیت تمام بڑے رہنما شریک تھے۔
اس تنظیم کے عروج کا یہ عالم تھا کہ 1980 میں پاکستان کے صدر محمد ضیاء الحق نے امت مسلمہ کے متفقہ لیڈر کے طور پر اقوامِ متحدہ سے خطاب کیا اور ان کے خطاب سے قبل ریکارڈڈ تلاوت قرآن بھی چلائی گئی اور پھر زوال کا یہ عالم ہوا کہ ایران عراق جنگ کو بند کرانے میں ناکامی ہوئی، یوں ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ فورم غیر موثر ہوتا چلا گیا۔ کشمیر اور فلسطین کے مسائل جوں کے توں رہے۔ کویت پر صدام حسین کے حملے کا آبرو مندانہ حل نہ نکل سکا۔ او آئی سی کے ساتھ ایک دردناک حقیقت یہ بھی وابستہ ہے کہ اس کے عروج سے جڑے تمام کردار آہستہ آہستہ غیر طبعی موت مر گ��ے لیکن تاریخ میں آج بھی ان کا نام محفوظ ہے۔
او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کا اجلاس سال میں ایک مرتبہ فیصلوں پر عملدرآمد کی صورتحال اور غور کے لیے وزرائے خارجہ کا اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔ طالبان کے افغانستان میں برسر اقتدار آنے کے بعد ملک کی تشویشناک صورتحال اور سنگین انسانی بحران کے خدشے کے باعث پاکستان کی کوششوں سے سعودی عرب کی دعوت پر او آئی سی وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس 19 دسمبر 2021 کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ہوا تھا اور اب تین ماہ کے قلیل عرصے میں یہ اجلاس دوبارہ پاکستان میں منعقد ہوا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Photo
آرمی چیف کی شہید کرنل مجیب الرحمان کے گھر آمداہلخانہ سے تعزیت کی آرمی چیف کی شہید کرنل مجیب الرحمان کے گھر آمد،اہلخانہ سے تعزیت کی راولپنڈی(ڈیلی پاکستان آن لائن) آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی کرنل مجیب الرحمان شہید کے گھر آمد، آرمی چیف نے شہیدکرنل مجیب کے اہلخانہ سے تعزیت کی ۔
0 notes
Text
پاک فوج نے دہشت گردی کی بڑی کوشش ناکام بنا دی،فائرنگ کے تبادلے میں پاک فوج کا بڑا افسرشہید
راولپنڈی (جی سی این رپورٹ) سیکیورٹی فورسز نے ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردی کی کوشش ناکام بنا دی۔آئی ایس پی آر کے مطابق ڈی آئی خان میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی سے متعلق خفیہ اطلاعات ملی تھیں۔ خفیہ اطلاعات پر ٹانگ کے قریب کاروائی کی گئی۔سیکیورٹی فورسز نے دہشتگردوں کی پناہ گاہ پر کاروائی کی۔سیکیورٹی فورسز نے علاقے کا گھیراؤ کیا تو دہشتگردوں نے فائرنگ کر دی۔سیکیورٹی فورسز کی جوابی کاروائی میں دو انتہائی مطلوب دہشت گرد مارے گئے۔ دہشتگردوں کی فائرنگ سے کرنل مجیب الرحمان شہید ہو گئے۔ان کا تعلق استور کے علاقے بنجی سے تھا۔آئی ایس پی آر کے مطابق آپریشن کے دوران بڑی تعداد میں اسلحہ اور مواصلاتی آلات تحوہل میں لے لیے گئے ہیں۔
Read the full article
0 notes
Photo
ڈی آئی خان میں فورسز کے آپریشن کے دوران دو دہشتگرد ہلاک، کرنل شہید #colonel #Amry #terrorist #Pakistan #Aajkal ڈی آئی خان: سیکیورٹی فورسز سے مقابلے میں کرنل مجیب الرحمان شہید ہوگئے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے ٹانک کے قریب دہشت گردوں کی پناہ گاہ پرکارروائی کرتے ہوئے ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردی کی کوشش ناکام بنادی۔
0 notes
Text
نگران وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کو درپیش چیلنج
نگران وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کو درپیش چیلنج
عبدالجبارناصر
سابق ڈی آئی جی پولیس حاجی میر افضل خان گلگت بلتستان کے نگران وزیراعلیٰ ہوں گے، 23 جون کو نوٹفکیشن جاری کیا گیا۔ حاجی میر افضل خان گلگت بلتستان کے قابل پولیس آفیسر رہے ہیں۔ ان کے فرزند کرنل مجیب الرحمان 9 مارچ 2020 کو ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن میں شہید ہوئے اور غالباً ایک فرزند آج بھی سرحدوں پر وطن کی حفاظت کر رہے ہیں۔ نگران وزیراعلی گلگت بلتستان کا تعلق ضلع استور…
View On WordPress
0 notes
Text
9مارچ2020: آج پاکستان اور دنیا بھر میں کیا ہوا؟
9مارچ2020: آج پاکستان اور دنیا بھر میں کیا ہوا؟
دہشت گردوں کےخلاف آپریشن میں کرنل مجیب الرحمان جام شہادت نوش کرگئے ،، ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردی کی بڑی کارروائی ناکام ،، انتہائی مطلوب دو دہشت گرد ہلاک ،، سیکیورٹی فورسز نے خفیہ اطلاعات پر ٹانک کے قریب دہشت گرد ٹھکانوں پر آپریشن کیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکردو میں مسافر کوچ دریائے سندھ میں گر گئی،،، پچیس افراد جاں بحق ،حادثے میں کوہ پیما شبیر حسین سدپارہ بھی زندگی کی بازی ہار گئے…
View On WordPress
0 notes
Video
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹانک کے قریب سیکیورٹی فورسز کی کارروائی: کرنل مجیب الرحمان شہید https://www.instagram.com/p/B9gnzDBnp0A/?igshid=9a8gh2azuq1j
0 notes
Text
دہشت گردوں کیخلاف آپریشن میں پاک فوج کے کرنل شہید
دہشت گردوں کیخلاف آپریشن میں پاک فوج کے کرنل شہید
راولپنڈی(آن لائن)سیکیورٹی فورسز نے ڈیرہ اسماعیل خان میں بڑی کارروائی کرتے ہوئے 2 انتہائی مطلوب دہشتگرد ہلاک کر دیئے۔ فائرنگ کے تبادلے میں کرنل مجیب الرحمان شہید ہوگئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق سکیورٹی فورسز نے خفیہ معلومات پر ٹانک کے قریب دہشتگردوں کے ٹھکانے پر آپریشن کیا، علاقے کا محاصرہ کرنے پر دہشتگردوں نے فائرنگ کر دی، کارروائی کے دوران بھاری مقدار میں اسلحہ اور گولہ باردو برآمد کرلیا…
View On WordPress
0 notes
Text
بہادر سپوت نے جان پر کھیل کر دہشتگردی ناکام بنادی
بہادر سپوت نے جان پر کھیل کر دہشتگردی ناکام بنادی
سیکورٹی فورسز نے ڈیرہ اسماعیل خان مین دہشتگردی کی بڑی کارروائی ناکام بنادی۔ کارروائی کے دوران کرنل مجیب الرحمان شہید ہوئے جبکہ دو انتہائی مطلوب دہشتگرد مارے گئے۔
،آئی ایس پی آر کے مطابق انٹیلی جنس آپریشن ٹانک کے قریب دہشتگردوں کی پناہ گاہ پر کیا گیا، سیکورٹی فورسز کے پہنچنے پر دہشتگردوں نے فائرنگ شروع کردی، سیکورٹی فورسز کی کارروائی میں دو انتہائی مطلوب دہشتگرد مارے گئے، دہشتگردوں کی جوابی…
View On WordPress
0 notes
Text
قادیانیوں کی پاکستان کے لیے ’’خدمات‘‘
(مولانا) ابوعمار زاہد الراشدی
مطبوعہ روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۴ ستمبر ۲۰۱۸ء
وزیراعظم عمران خان نے ملک کے اقتصادی و معاشی معاملات کے حوالہ سے جو ایڈوائزری کونسل قائم کی ہے اس میں عاطف میاں کی شمولیت پر سوشل میڈیا میں بحث چھڑ گئی ہے کہ وہ مبینہ طور پر قادیانی ہیں اور مرزا قادیانی کے خاندان کے ساتھ ان کا تعلق بھی بتایا جاتا ہے، اس لیے اس کونسل میں ان کی شمولیت درست نہیں ہے اور وزیراعظم سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ان کا نام کونسل سے خارج کر دیں۔ اس پر بعض حلقوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ مذہبی انتہا پسندی کا بے جا اظہار ہے اور مطالبہ کرنے والوں کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ان کے خیال میں قادیانی اس ملک کے شہری ہیں اور ملک کے نظام میں شرکت ان کا بھی حق ہے۔ ہم اس سلسلہ میں جذباتی فضا سے ہٹ کر زمینی حقائق کے حوالہ سے کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ آخر ملک کے دینی حلقوں کو کسی قادیانی کے کسی منصب پر فائز ہونے پر کیوں اعتراض ہوتا ہے اور وہ کسی بھی حوالہ سے اس گروہ کے کسی فرد کو برداشت کرنے کے لیے تیار کیوں نہیں ہیں؟
پاکستان بننے کے بعد چودھری ظفر اللہ خان ملک کے وزیرخارجہ اور جوگندرناتھ منڈل وزیر قانون بنے تھے۔ اول الذکر قادیانی اور دوسرے ہندو تھے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ان میں سے صرف ظفر اللہ خان کو کابینہ میں شامل کرنے پر احتجاج کیا گیا اور ملک کے تمام دینی مکاتب فکر نے متفقہ طور پر ان کی برطرفی کا مطالبہ کیا۔ اور یہ مطالبہ ظفر اللہ خان کے وزیرخارجہ بنتے ہی نہیں بلکہ اس کے پانچ سال بعد ۱۹۵۳ء میں کیا گیا جبکہ ہندو وزیرقانون کے خلاف نہ کوئی مہم چلی اور نہ ہی ان کی برطرفی کا کسی نے مطالبہ کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بات مسلمان یا غیر مسلم کی نہیں بلکہ متعلقہ گروہ اور فرد کے طرزعمل کی ہے جس نے لوگوں کو اس مطالبہ پر مجبور کر دیا۔ چودھری ظفر اللہ خان کا یہ کردار اس سے قبل ریکارڈ پر آچکا تھا کہ انہوں نے قیام پاکستان کے وقت پنجاب کی تقسیم کی حدود طے کرنے والے ریڈکلف کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کی نمائندگی کی، مگر ضلع گورداسپور کے حوالہ سے جہاں قادیانیوں کی اچھی خاصی تعداد آباد تھی ان کا کیس مسلم لیگ کے موقف سے ہٹ کر الگ پیش کیا، جس سے یہ ضلع غیر مسلم اقلیت کا ضلع قرار پا کر بھارت میں شامل ہوگیا اور اسی سے ہندوستان کو کشمیر میں دخل اندازی کا راستہ ملا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کے امیر مرزا بشیر الدین محمود کی ہدایت ہے کہ قادیانیوں کا کیس مسلمانوں سے الگ پیش کیا جائے اس لیے وہ ان کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔ اس کے باوجود انہیں وزیرخارجہ کے طور پر کافی عرصہ برداشت کیا گیا مگر جب یہ رپورٹیں عام ہونے لگیں کہ مختلف ممالک میں ان کے زیر سایہ پاکستان کے سفارت خانے قادیانیوں کی تبلیغ اور سرگرمیوں کا مرکز بنتے جا رہے ہیں تو ان کے اس طرز عمل کو برداشت نہ کرتے ہوئے ۱۹۵۳ء میں ان کی برطرفی کا مطالبہ کیا گیا۔ اس دوران یہ واقعہ بھی ہوا جس نے اشتعال میں اضافہ کیا کہ کراچی کی قادیانی جماعت نے ایک پبلک جلسہ میں ظفر اللہ خان کے خطاب کا اعلان کیا تو وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے انہیں روکا کہ وہ اس جلسہ سے وزیرخارجہ کی حیثیت سے خطاب نہ کریں۔ جسٹس منیر انکوائری کمیشن کی رپورٹ کے مطابق چودھری ظفر اللہ خان نے وزیراعظم سے کہا کہ وہ اپنے منصب سے استعفٰی دے سکتے ہیں مگر جلسہ سے خطاب ضرور کریں گے اور انہوں نے جلسہ سے خطاب کیا۔
اس کے بعد جنرل یحیٰی خان کے دور میں مرزا غلام احمد قادیانی کے پوتے ایم ایم احمد کو ملک کی اقتصادی کمیشن کا ڈپٹی چیئرمین بنایا گیا اور وہ جنرل یحیٰی خان کے معتمد ترین افسر سمجھے جاتے تھے۔ مگر ان کے بارے میں مشرقی پاکستان سے قومی اسمبلی کے رکن مولوی فرید احمد مرحوم اور دیگر ذمہ دار حضرات نے کھلم کھلا یہ کہا کہ وہ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے درمیان معاشی اور سیاسی دونوں حوالوں سے خلیج بڑھانے کا باعث بن رہے ہیں جبکہ بہت سی دیگر رپورٹوں میں بھی یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کر دینے کے مکروہ عمل میں ایم ایم احمد کا خاصا کردار رہا ہے۔ اس حوالہ سے راقم الحروف کے ایک مضمون کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے جو 12 مارچ 1971ء کو ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور میں شائع ہوا:
’’قارئین کو یاد ہوگا کہ حالیہ انتخابات سے قبل مشرقی پاکستان کے متعدد سیاسی راہنماؤں نے ایک مشترکہ بیان میں مسٹر ایم ایم احمد کو اقتصادی منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین کے عہدہ سے برطرف کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ماضی میں اقتصادی طور پر مشرقی پاکستان کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئیں ان کے ذمہ دار مسٹر ایم ایم احمد ہیں کہ انہوں نے اقتصادی منصوبہ بندی میں مشرقی پاکستان کو ثانوی حیثیت دی۔ اور شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکات جو آج سیاسی بحران کا باعث بنے ہیں اسی نا انصافی اور ترجیحی سلوک کی صدائے بازگشت ہیں۔صدر مملکت نے مسٹر ایم ایم احمد کو ڈپٹی چیئرمین کے عہدہ سے تو ہٹا دیا مگر اس سے زیادہ اہم پوسٹ ان کو دے کر اپنا اقتصادی مشیر مقرر کر لیا۔ اور صدر کے مشیر کی حیثیت سے ان صاحب نے جو ’’خدمات‘‘ سرانجام دیں وہ پاک فضائیہ کے سابق سربراہ، پی آئی اے کے سابق سربراہ، سابق ڈپٹی چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور سابق گورنر مغربی پاکستان جناب نور خان سے دریافت کیجئے۔ انہوں نے ۲ مارچ کو اپنی ہنگامی پریس کانفرنس میں قومی اسمبلی کے اجلاس کے التواء پر تبصرہ کرتے ہوئے اس طرف اشارات کیے ہیں۔ روزنامہ آزاد لاہور ۳ مارچ کے مطابق جناب نور خان نے مشرقی پاکستان کے ساتھ ناانصافیوں کا ذمہ دار نوکر شاہی خصوصاً ایم ایم احمد کو قرار دیا اور الزام لگایا کہ موصوف صدر مملکت کو غلط مشورے دے کر ملک کے دونوں حصوں کے درمیان اختلافات کی خلیج کو وسیع کر رہے ہیں۔ جناب نور خان نے یہ بھی بتایا کہ موجودہ سیاسی بحران بپا کرنے کے لیے مسٹر احمد اور ان کے ساتھی افسروں نے اور بھی خفیہ سازشیں کی ہیں۔‘‘
پھر ایک قادیانی سفارتکار مسٹر منصور احمد کا یہ کردار بھی پیش نظر رہے کہ جب جنیوا انسانی حقوق کمیشن میں حکومت پاکستان کے خلاف قادیانیوں نے اپنے مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالہ سے درخواست دائر کی تو جنیوا میں پاکستان کا سفیر ہونے کے ناتے سے مسٹر منصور احمد حکومت پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر قادیانی ہوتے ہوئے بھی پاکستان کے نمائندہ کے طور پر پیش ہوئے اور قادیانیوں کی درخواست کے حق میں فیصلہ دلوایا جو ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔
یہ چند مثالیں ہیں جو ریکارڈ پر ہیں اور قادیانیوں کے بارے میں مسلمانوں کی بے اعتمادی کے بنیادی اسباب پر شواہد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ورنہ جس ملک میں جوگندرناتھ منڈل، جسٹس اے آر نیلئس، جسٹس دراب پٹیل، فادر روفن جولیس اور ان جیسی درجنوں غیر مسلم شخصیات کو حکومتی مناصب پر قبول کیا گیا ہے وہاں دو چار قادیانیوں کے آجانے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ لیکن اصل بات یہ نہیں بلکہ اس کی اصل وجہ وہ ہے جو جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے آخری ایام میں اپنے جیل کے نگران کرنل محمد رفیع سے کہی تھی اور جو ان کی یادداشتوں میں چھپ چکی ہے کہ قادیانی حضرات پاکستان میں وہ پوزیشن حاصل کرنے کی تگ و دو میں مسلسل مصروف ہیں جو یہودیوں کو امریکہ میں حاصل ہے کہ ملک کا کوئی فیصلہ ان کی مرضی کے خلاف نہ ہو اور کوئی پالیسی ان کی منشا سے ہٹ کر طے نہ پا سکے۔
ہم وزیراعظم عمران خان اور ان کے رفقاء سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ وہ اسے صرف مذہبی جذباتیت کے حوالہ سے نہیں بلکہ پاکستان کے مفاد میں زمینی حقائق کی بنیاد پر دیکھیں اور پاکستانی قوم کے اجتماعی فیصلے اور جذبات کا احترام کرتے ہوئے مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کے ان مضامین کا بھی ایک بار ضرور مطالعہ کر لیں جن میں قادیانیت کو یہودیت کا چربہ اور قادیانیوں کو اسلام اور ملک دونوں کا غدار کہا گیا ہے۔
0 notes
Text
آرمی چیف کی کرنل مجیب الرحمان شہید کے گھر آمد، اہل خانہ سے ملاقات اور تعزیت
آرمی چیف کی کرنل مجیب الرحمان شہید کے گھر آمد، اہل خانہ سے ملاقات اور تعزیت
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ امن واستحکام کے قیام اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک جنگ جاری رہے گی۔
آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اہلیہ کے ہمراہ کرنل مجیب الرحمن شہید کے گھر گئے. کرنل مجیب الرحمن شہید ٹانک میں سرچ آپریشن کے دوران شہید ہوئے تھے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف اور اہلیہ نے شہید کرنل کے ایصال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کی اور اس موقعے…
View On WordPress
0 notes
Text
شہید کرنل مجیب الرحمان کے 12سالہ بیٹے کی معصومانہ درخواست نے سب کواشکبارکرڈالا
راولپنڈی (جی سی این رپورٹ) شہید کرنل مجیب الرحمن کے بارہ سالہ بیٹے کے جملے نے ہر آنکھ کو اشکبار کر دیا ، بچے نے درخواست کی انکل میرے چھوٹے بہن بھائیوں کو مت بتانا کہ پاپا کو کیا ہوا ہے۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز سیکیورٹی فورسز نے ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردی کی کوشش کو ناکام بنا یا۔ ڈی آئی خان میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی سے متعلق خفیہ اطلاعات ملی تھیں۔خفیہ اطلاعات پر ٹانگ کے قریب کارروائی کی گئی۔ سیکیورٹی فورسز نے علاقے کا گھیراؤ کیا تو دہشتگردوں نے فائرنگ کر دی۔سیکیورٹی فورسز کی جوابی کاروائی میں دو انتہائی مطلوب دہشت گرد مارے گئے۔ جبکہ دہشتگردوں کی فائرنگ سے کرنل مجیب الرحمان شہید ہو گئے۔ان کا تعلق استور کے علاقے بنجی سے تھا۔صحافی حیدر نقوی کے مطابق جس وقت کرنل مجیب کو شدید زخمی حالت میں سی ایم ایچ منتقل کیا جا رہا تھا اس وقت کرنل مجیب کے 12 سالہ بیٹے نے اپنے باپ سے لپٹ کر شکایت کی کہ یہ تو چیٹنگ ہے آپ نے کہا تھا کہ ہم دشمنوں کا مقابلہ کریں گے۔اس لرزہ خیر منظر کو دیکھ کر ہر شخص کی آنکھ اشکبا ر ہوگئی۔ بعدازاں کرنل مجیب کی تدفین کے موقع پر موجود کمانڈنگ آفیسر کو 12 سالہ معصوم بچے کے معصومانہ سوال نے پھر سے ہر آنکھ اشکبار کر دی ، 12 سالہ بچے نے کہا کہ انکل میرے چھوٹے بہن بھائیوں کو مت بتانا کہ میرے پاپا کو کیا ہوا ہے۔ واضح رہے کہ کرنل مجیب الرحمن ایک بہادر اور ناڈر آفسر تھے۔ جنہوں نے ہر موقع پر دشمنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اور دہشتگردوں کیساتھ جنگ لڑتے ہوئے اپنی جان اپنے وطن پر قربان کر دی۔ یہ بات بھی قابل غور رہے کہ کرنل مجیب الرحمان کے تین بیٹے جبکہ ایک بیٹی ہے۔ سب سے بڑے بیٹے کی عمر 12 سال ہے ۔ جس کے معصومانہ سوال نے تدفین کے موقع پر موجود تمام فراد کو رولا کر رکھ دیا ۔ Read the full article
0 notes
Text
پاک فوج نے دہشت گردی کی بڑی کوشش ناکام بنا دی،فائرنگ کے تبادلے میں پاک فوج کا بڑا افسرشہید
راولپنڈی (جی سی این رپورٹ) سیکیورٹی فورسز نے ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردی کی کوشش ناکام بنا دی۔آئی ایس پی آر کے مطابق ڈی آئی خان میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی سے متعلق خفیہ اطلاعات ملی تھیں۔ خفیہ اطلاعات پر ٹانگ کے قریب کاروائی کی گئی۔سیکیورٹی فورسز نے دہشتگردوں کی پناہ گاہ پر کاروائی کی۔سیکیورٹی فورسز نے علاقے کا گھیراؤ کیا تو دہشتگردوں نے فائرنگ کر دی۔سیکیورٹی فورسز کی جوابی کاروائی میں دو انتہائی مطلوب دہشت گرد مارے گئے۔ دہشتگردوں کی فائرنگ سے کرنل مجیب الرحمان شہید ہو گئے۔ان کا تعلق استور کے علاقے بنجی سے تھا۔آئی ایس پی آر کے مطابق آپریشن کے دوران بڑی تعداد میں اسلحہ اور مواصلاتی آلات تحوہل میں لے لیے گئے ہیں۔
Read the full article
0 notes
Photo
انصاف کے سامنے بحریہ ٹاﺅن کا پھاٹک احساس / اے وحید مراد اٹھائیس اپریل کو بحریہ انکلیو میں اے آر وائے ٹی وی کے پروگرام کی ریکارڈنگ کے دوران اسٹیج گرنے سے زخمی اور مارے جانے والے افراد کی خبر میڈیا کے ایک بڑے حصے پر نہ آسکی مگر بارہ دن بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے واقعے کا نوٹس لیا، چیف کمشنر اور آئی جی پولیس سے رپورٹ طلب کی ۔ اب یہاںہر ایک یہ اہم سوال پوچھ رہا ہے ، کیا سپریم کورٹ ملک کے طاقتور لینڈ مافیا کے ڈان کے خلاف کوئی حکم جاری کرسکتی ہے؟ اور کیا ایسے کسی حکم پر عمل بھی کرایا جاسکتاہے؟۔ اس کیس میں تو ریاض ٹھیکیدار کے علاوہ نجی ٹی وی چینل بھی شامل ہے، تو کیا متاثرین کو انصاف مل سکے گا؟۔ آٹھ برس سے زائد سپریم کورٹ کی رپورٹنگ کرتے ہوئے اپنے تجربات کی بنیاد پر کچھ زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کرسکتا۔ سپریم کورٹ کے سامنے ملک ریاض کے کئی مقدمات آئے اور بہت سے آج بھی عدالت میں زیرالتواء ہیں مگر فیصلے نہ ہوسکے۔ بحریہ ٹاﺅن کی جانب سے زمینوں پر قبضے کے خلاف بلامبالغہ سینکڑوں متاثرین نے گزشتہ دس برس کے دوران عدالت عظمی سے رجوع کیا، اور ایک بار سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اسلام آباد کے ایک ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو انکوائری کا حکم دیا، جرات مند اور دیانتدار سیشن جج نے پانچ سو صفحات کی ایسی زبردست رپورٹ تیار کی کہ اس میں ریاض ٹھیکیدار کے زمینوں پرقبضے کے طریقہ کار، پٹواریوں کو ساتھ ملانے اور پولیس کے ذریعے متاثرین کو ماربھگانے کا تفصیلی جائزہ لیا گیا تھا۔ جج نے رپورٹ میں بتایاتھاکہ کس طرح ریاست کے تمام ادارے ٹھیکیدار کو قبضے کرنے میں سہولت فراہم کرتے ہیں۔ افتخار چودھری کے سامنے اس کیس میں ملک ریاض کی جانب سے کئی نامی گرامی وکیل آگئے جن میں سے کچھ ان کے وکلاءتحریک کے دنوں کے دوست بھی تھے، سرفہرست ان میں حامد خان رہے، اور پھر اس رپورٹ پر کوئی کارروائی نہ ہوسکی۔ پھر وہ دن آئے کہ افتخار چودھری سے نالاں تمام قوتوں نے ایکا کرلیا اور اس کے بیٹے ارسلان کے ذریعے ایسا کھیل کھیلا کہ آنے والے دنوں میں دوسرے ججوں نے بھی ریاض ٹھیکیدار کے مقدمات کی سماعت سے دوررہنے کو ہی ترجیح دی۔ افتخار چودھری سے ایک طرف تو وہ قوت ناراض تھی جو لاپتہ افراد کے مقدمے میں ملزم تھی اور دوسری جانب پیپلز پارٹی کے آصف زرداری بھی ان سے بدلہ لینے کیلئے ابل رہے تھے تو ریاض ٹھیکیدار نے ان کے ساتھ مل کر اپنے چندکروڑ روپے کی رقم کو آگ لگائی اور چودھری صاحب کے بیٹے کو مشہور زمانہ ماڈل گرل کے ساتھ اسپین مونٹی کارلو کی ایسی سیرکرائی کہ ہر چیز کا دستاویزی ثبوت بھی پاس رکھا۔ اورپھر اپنے اینکر کامران خان کے ذریعے پروگرام کرایا کہ چیف جسٹس کے بیٹے نے مقدمات کافیصلہ حق میں کرانے کیلئے ریاض ٹھیکیدار سے کروڑوں وصول کیے ہیں، اس کے بعد ٹھیکیدار نے میریٹ ہوٹل میں ایک بہت بڑی پریس کانفرنس میں الزامات لگائے ۔ دل ٹھنڈا نہ ہواتو دنیا ٹی وی کے مالک سے مل کر اینکر مبشرلقمان اور اینکرنی مہربخاری کے پروگرام میں ’بہت غیرجانبدار سوالات‘ کے کھل کر جواب دیے۔ افتخار چودھری نے بڑے وکیلوں کے بھرے میں آکر مظلوم متاثرین کی داد رسی نہیں کی تھی، شاید یہ بھی قدرت کا انتقام تھا کہ ٹھیکیدار کے ذریعے سابق چیف جسٹس کو زبردستی تشہیری مہم چلا کر بدنام کیا گیا۔ ایک اور مقدمے میں ہاﺅسنگ سوسائٹی کے گارڈ فیاض کی اہلیہ نے ٹھیکیدار اور اس کے بیٹے پر اپنے شوہر کے قتل ک الزام لگایا، سپریم کورٹ نے جب دباﺅ ڈالا تو ٹھیکیدار نے خزانے کے دھانے کھول دیے۔ بڑے وکیل عدالت میں پیش ہوئے اور آخر کار خون کا سودا کروڑ روپے کے لگ بھگ ہوگیا۔ پھر ٹھیکیدار کے اہم حریف ملک باری کا مقدمہ بھی عدالت عظمی میں لگا، راتوں رات ٹھیکیدار کے ملازم پولیس افسر نے ملک باری کو ہتھکڑی لگائی، ٹھیکیدارسے جہاز کا ٹکٹ لیا اور ملزم کو کراچی لے گیا۔ چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لے کر مقدمہ سنا، ایک دن عدالت کو معلوم ہواکہ باری صاحب بہت بڑی رقم لے چکے ہیں۔ معلوم نہیں، آج وہ مقدمہ سپریم کورٹ کی کس فائل میں پڑا سڑ رہا ہے۔ شاید کسی کو یاد ہو، بحریہ ٹاﺅن نے اپنی سوسائٹی میں کار ریس منعقد کی تھی۔ پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر منعقد کی گئی اس ریس میں ایک کار بے قابو ہوکر تماشائیوں کو کچلتی ہوئی نکل گئی۔ پانچ انسانوں کی زندگیاں ٹھیکیدار کے بیٹے کے شوق کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ ریاض ٹھیکیدار کے سامنے سارے ادارے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوگئے تو متاثرین کی درخواستوں پر چیف جسٹس افتخار چودھری نے ازخود نوٹس لے لیا۔ ریس منعقد کرنے والے اور حادثے کا سبب بننے والے اصل ملزمان فرار ہوگئے۔چیف جسٹس ریاست کے اداروں اور تفتیشی حکام کو ایک کے بعد دوسرا حکم دیتے رہے، ٹھیکیدار ایک بارپھر ملک کے نامی گرامی وکیلوں کو عدالت کے سامنے کھڑا کرنے میں کامیاب ہوا۔ ہم جیسے رپورٹر اپنے سامعین اور قارئین کو عدالتی کارروائی سے آگاہ کرتے رہے اور عام لوگ توقعات کے کھیتوں میں اگی فصلوں کو پانی دیتے رہے۔ یقین جانیے، بیرون ملک فرار ملزم کے بھائی نے ایک روز ہم سب رپورٹرز کو عدالت کے احاطے میں کہاکہ ’تم لوگ، تمہاری ریاست اور تمہاری یہ عدالت جتنا زور لگا سکتی ہے لگالے، میرے بھائی کو واپس نہیں لاسکتی، وہ دبئی بیٹھا ہے اور میں دیکھتا ہوں افتخار چودھری میں کتنی ہمت ہے‘۔ یہ شاید اس شخص کاغصہ تھا، مگر سچ یہی ہے کہ اس ملزم کو پاکستان واپس نہ لایا جاسکا، ٹھیکیدار نے مارے جانے والوں کو چند کروڑ دے دیے اور مقدمے کی فائل پر آج کئی انچ کی گردپڑ چکی ہوگی۔ دوبرس قبل سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریاض ٹھیکیدار کے خلاف زمینوں پر قبضے کے دومقدمات سنے۔ ایک مقدمے میں نیب کے سابق چیئرمین فصیح بخاری نے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب سے زمین قبضے کا مقدمہ اپنے پاس منگوایا اور پھر ’تفتیش‘ کرکے ٹھیکیدار اور اس کے بیٹے کو ’بے گناہ‘ قراردے دیا جبکہ پٹواریوں کو اصل ملزم قرار دے کران کے خلاف احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا۔ اینٹی کرپشن والے اس فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ گئے اور وہاں سے یہ معاملہ اپیل میں سپریم کورٹ آگیا۔ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے تین رکنی بنچ نے فیصلہ دیا کہ چیئرمین نیب فصیح بخاری کا کیس منگوانا بدنیتی پر مبنی تھا اور قانون میں اس طرح کی گنجائش موجو نہیں، اس لیے مقدمہ اینٹی کرپشن پنجاب کی عدالت میں ہی چلے گا۔ پھر اسی رات دنیا ٹی وی پر مجیب الرحمان شامی اور جامی نامی ایک اینکر نے پروگرام کیا، ٹھیکیدار کے ذاتی ملازم کرنل ریٹائرڈ خلیل کو فون پر لیاگیا اور جج صاحب پر الزام لگایا گیاکہ انہوں نے اس مقدمے میں اتنی جلدبازی دکھائی کہ جمعے کی نماز کا وقفہ بھی نہ کیا۔ معروف شامی صحافی نے جسٹس جواد ایس خواجہ کی ’مسلمانی‘ پر سنجیدہ سوال اٹھائے۔ جسٹس جواد ریٹائرڈ ہوئے تو ٹھیکیدار کے وکیل اعتزاز احسن نے اس فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کردی، دوسرے وکیل زاہد بخاری ہیں، عدالت کو اس نظرثانی اپیل میں بتایا گیاہے کہ جسٹس جواد چونکہ ٹھیکیدار سے تعصب رکھتے تھے ��س لیے ہمیں درست طورپرسنے بغیر یہ فیصلہ دیا گیا۔ یہ نظر ثانی ایک ڈیڑھ برس بعد بھی سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے۔جہاں تک ٹھیکیدار کی سوسائٹی کا پنجاب حکومت کی ہزاروں ایکڑ جنگل کی زمین پر قبضے کا مقدمہ ہے تو اس کا فیصلہ جسٹس جواد بھی نہ کرسکے کہ جلد ریٹائرڈ ہوگئے، پندرہ بار اعتزاز احسن نے پیش نہ ہوئے تاکہ مقدمہ ملتوی کیاجاسکے۔ ستمبر دوہزار پندرہ کے بعد یہ مقدمہ گزشتہ دنوں پھر سماعت کیلئے لگا، دوسماعتوں کے بعد ایک اور جج نے سماعت سے معذرت کرلی ہے۔ ٹھیکیدار کے ایک وکیل نے صحافیوں کو گپ شپ میں بتایا کہ جتنی سہولتیں ٹھیکیدار اپنی سوسائٹی میں مجھے رات ٹھہرنے کی دیتاہے میری تو دنیا ہی جنت ہوگئی ہے ۔ اگر کسی کو سپریم کورٹ اور چیف جسٹس ثاقب نثار سے بحریہ انکلیو حادثے کے مقدمے میں انصاف کی امید ہے تو میں اسے مایوس نہیں کرنا چاہتا۔ صرف یہ بتانا تھاکہ اٹھائیس اپریل کے وقوعے کی رپورٹ دس دن بعد بھی متعلقہ تھانے میں درج نہیں کرائی جاسکی تھی۔ اپنا خیال رکھیے گا۔
0 notes