#ماہرین صحت
Explore tagged Tumblr posts
Text
کھیرا وزن کم کرنے میں مدد گار قرار
ماہرین صحت نے وزن کم کرنے کیلئے کھیرے کے استعمال کو بہترین قرار دیدیا۔ ماہرین صحت نے بتایا کہ کھیرا ایک صحت بخش سبزی ہے جو مختلف فوائد فراہم کرتی ہے۔ اس میں پانی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اور کیلوریز کم ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے یہ وزن کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ کھیرا تقریباً 95 فیصد پانی پر مشتمل ہوتا ہے، جو جسم کو ہائیڈریٹ رکھنے میں مدد کرتا ہے۔ یہ گرم موسم میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے…
0 notes
Text
شام 5 بجے کے بعد کھانا کھانا مضرِ صحت ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجادی
(ویب ڈیسک)م��ققین کو ایک تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ شام پانچ بجے کے بعد روزمرہ کیلوریز کے کم از کم 45 فی صد حصے کا لیا جانا جسم کے بلڈ شوگر کی سطح کو قابو رکھنے صلاحیت کو نقصان پہنچاتا ہے، جبکہ رات کو دیر سے کھانا کھانا ذیا بیطس کے امکانات میں خطرناک حد تک اضافہ کرسکتا ہے۔ بارسلونا کی ایک یونیورسٹی اوبرٹا دکیٹیلُونیا اور کولمبیا یونیورسٹی میں کی جانےو الی تحقیق کے نتائج وقتی فاقوں والی ڈائٹ کے لیے…
0 notes
Text
ایک خواب جو تعبیر پا گیا
ادیب بھائی سے برسوں پرانا تعلق ہے، وہ ہمارا فخر ہیں۔ ان جیسی دردمندی ہر کسی میں نہیں ہوتی۔ ان کے جذبے اور لگن نے آج SIUT کو جو مقام دیا ہے وہ برسوں کی انتھک محنت کا نتیجہ ہے۔ ابھی حال ہی میں انھوں نے ریجنٹ پلازہ ہوٹل خرید کر وہاں SIUT کا اسپتال قائم کیا ہے۔ میں نہ صرف ان کی مزید کامیابی کی دعا گو ہوں بلکہ یہ خواہش بھی رکھتی ہوں کہ آنے والے وقت میں پاکستان میں بہت سے ادیب رضوی پیدا ہوں۔ پاکستان میں یورولوجی اور نیفرالوجی کے شعبے میں اگر کسی شخصیت نے اپنی بے لوث خدمات اور انسانی ہمدردی کے ذریعے انقلابی تبدیلی لائی ہے تو وہ ہیں ڈاکٹر ادیب رضوی۔ ڈاکٹر ادیب رضوی جو کہ سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (SIUT) کے بانی ہیں انھوں نے اپنی زندگی غریبوں اور ضرورت مندوں کی خدمت میں گزاری ہے۔ ان کی رہنمائی کی بدولت SIUT نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ایک مثال کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی نے ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی سے میڈیکل کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد یورولوجی اور نیفرالوجی کی اعلیٰ تعلیم برطانیہ اور امریکا میں حاصل کی۔ ڈاکٹر رضوی نے جدید ترین طریقوں کو سیکھا، جو بعد میں انھوں نے پاکستان میں استعمال کیے۔
ان کی تعلیم نے انھیں نہ صرف جدید طبی علم سے آراستہ کیا بلکہ انھیں دنیا بھر میں صحت کے نظام کے بارے میں بھی آگاہی فراہم کی۔ اسی وقت انھوں نے یہ محسوس کیا کہ پاکستان میں صحت کے شعبے میں بہتری لانے کے لیے ایک نیا اور منفرد طریقہ کار اپنانا ہو گا، جو ذمے داری حکومت کو نبھانی چاہیے تھی وہ ڈاکٹر ادیب رضوی نے اپنے سر لے لی۔ 1980 کی دہائی میں پاکستان کو صحت کے شعبے میں سنگین مشکلات کا سامنا تھا۔ یورولوجی اور نیفرالوجی کے ماہرین کی کمی تھی اور جدید علاج کی سہولتیں بہت کم تھیں۔ ڈاکٹر ادیب رضوی نے اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک ایسا ادارہ قائم کرنے کا عہد کیا جس میں عام آدمی کو معیار�� اور سستی طبی خدمات فراہم کی جاسکیں۔ دسمبر 1985 میں ڈاکٹر ادیب رضوی اور ان کی ٹیم نے گردے کی پیوند کاری کا پہلا کامیاب آپریشن کیا جس پر پورے ملک میں نہ صرف خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی بلکہ ہر طرف اس کا ذکر تھا۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ ڈاکٹر ادیب اور ان کی ٹیم نے SIUT کو ایشیا کا سب سے بڑا اسپتال بنا دیا جہاں مریضوں کا مفت علاج ہوتا ہے۔
1989 میں سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (SIUT) کا قیام ڈاکٹر ادیب رضوی کی نگرانی میں عمل میں لایا گیا شروع میں یہ ادارہ صرف گردوں کی ڈائیلاسس اور ٹرانسپلانٹیشن کی خدمات فراہم کرتا تھا، لیکن جلد ہی اس کا دائرہ کار بڑھا اور SIUT ایک عالمی سطح کی طبی سہولت بن گیا۔ ڈاکٹر رضوی کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ صحت کی سہولیات ان لوگوں تک پہنچائیں جو مالی طور پر کمزور ہیں اور جو مہنگے نجی اسپتالوں میں علاج نہیں کرا سکتے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی کو گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن کے میدان میں ایک رہنما سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن بہت کم ہوتی تھی اور جو مریض اس عمل کے لیے بیرون ملک جاتے تھے، ان کے لیے یہ علاج بہت مہنگا پڑتا تھا۔ ڈاکٹر رضوی نے زندہ عطیہ کنندگان سے گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن کے تصور کو متعارف کرایا، جس سے پاکستان میں گردوں کی منتقلی کے عمل کو ممکن بنایا گیا۔ انھوں نے (kidney paired donation) کا تصور بھی متعارف کرایا۔ کڈنی پیئرڈ ڈونیشن ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے ایسے افراد کو گردے کی پیوندکاری (ٹرانسپلانٹ) فراہم کی جاتی ہے جنھیں اپنے متعلقہ عطیہ دہندگان سے گردہ نہیں مل پاتا کیونکہ دونوں کا جسمانی طور پر می�� نہیں ہوتا۔
اس طریقے میں، دو یا زیادہ افراد جو گردہ دینے کے لیے رضامند ہیں، مگر ان کا گردہ ایک دوسرے کے مریضوں کے ساتھ میل نہیں کھاتا، ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ کرتے ہیں۔ اس طرح، ہر مریض کو ایک ایسا گردہ مل جاتا ہے جو اس کے جسم کے لیے موزوں ہوتا ہے۔ ان کے کام نے نہ صرف پاکستان میں گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن کے عمل کو فروغ دیا بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ ڈاکٹر رضوی کی زندگی کا مقصد صرف علاج کرنا نہیں بلکہ صحت کے شعبے میں عوامی آگاہی بھی پیدا کرنا تھا۔ انھوں نے اعضاء کا عطیہ، خون کا عطیہ اور صحت کے بنیادی مسائل پر عوامی سطح پر مہم چلائی۔ ان کی کوششوں سے لوگوں میں گردوں کی بیماریوں، ان کے علاج اور پیشگی احتیاطی تدابیر کے بارے میں آگاہی پیدا ہوئی۔ ڈاکٹر رضوی نے پاکستان میں گردوں کی بیماری کی روک تھام کے لیے مختلف اقدامات کیے۔ انھوں نے خاص طور پر ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر جیسے عوامل پر توجہ مرکوز کی، جو گردوں کی بیماری کا سبب بن سکتے ہیں۔ انھوں نے عوامی سطح پر ان بیماریوں کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے مہم چلائی، تاکہ لوگ صحت مند طرز زندگی اپنا سکیں۔
آج SIUT ایک بین الاقوامی سطح کا طبی ادارہ بن چکا ہے، جو کہ گردوں کی بیماری، یورولوجی اور دیگر شعبوں میں دنیا بھر میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ SIUT میں نہ صرف گردوں کا ڈائیلاسس اور ٹرانسپلانٹیشن کی سہولت فراہم کی جاتی ہے بلکہ یہ ادارہ یورولوجی سرجری، ریڈیالوجی جیسے مختلف شعبوں میں بھی خدمات فراہم کرتا ہے۔SIUT کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ یہ ادارہ اپنے مریضوں کو مفت علاج فراہم کرتا ہے۔ ان کے نیٹ ورک سے پورے پاکستان کے غریب اور ضرورت مند مریض فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس ادارے کا مقصد صرف علاج کرنا نہیں بلکہ صحت کے شعبے میں بہتری لانے کے لیے تحقیق اور تعلیم کو فروغ دینا بھی ہے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی کی خدمات کو عالمی سطح پر سراہا گیا ہے۔ انھیں ستارہ امتیاز جیسے اعلیٰ اعزازات مل چکے ہیں اور وہ عالمی صحت کی تنظیم ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) سے بھی ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں۔ ان کی خدمات اور کامیابیاں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں تسلیم کی گئی ہیں۔ ڈاکٹر رضوی نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ صحت کا حق ہر انسان کو حاصل ہونا چاہیے اور اس حق کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو زیادہ سرمایہ کاری کرنی ہو گی۔ ان کا ماننا ہے کہ SIUT کا ماڈل پاکستان کے دوسرے حصوں میں بھی اپنانا چاہیے تاکہ پورے ملک میں معیاری اور سستی صحت کی خدمات فراہم کی جا سکیں۔
ڈاکٹر ادیب رضوی کی زندگی کا مقصد صرف ایک طبی ادارہ قائم کرنا نہیں تھا، بلکہ وہ چاہتے تھے کہ وہ سماجی تبدیلی کا باعث بنیں، جہاں صحت کی خدمات ہر شخص کو اس کی مالی حیثیت سے قطع نظر دستیاب ہوں۔ ان کی بے لوث خدمات اور انسان دوستی نے SIUT کو ایک عالمی معیار کے صحت کی سہولت میں تبدیل کر دیا ہے۔ ڈاکٹر رضوی کی قیادت میں SIUT نے نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالمی سطح پر گردوں کی بیماریوں کے علاج میں انقلاب برپا کیا۔ ان کی خدمات کا شمار نہ صرف طب کے شعبے میں بلکہ سماجی بہبود کے حوالے سے بھی ایک عظیم کارنامہ ہے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی کا یہ کہنا کہ ان کا سب سے بڑا انعام مریضوں کی دعائیں اور ان کی خوشی ہے، ان کی یہ سوچ ان کے کے انسان دوست نقطہ نظر کی عکاسی کرتا ہے۔ آج SIUT اس بات کا گواہ ہے کہ ڈاکٹر رضوی اور ان کی ٹیم کی محنت، لگن اور انسان دوستی واقعی لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی لائی ہے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی اور ان کی ٹیم نے جو اکیلے کر دکھایا وہ ان کی انسانیت سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے، جو کام ہماری حکومت نہیں کرسکی وہ اکیلے اس ایک انسان نے کر دکھایا۔ ان کی ڈاکٹروں کی ٹیم کی بھی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔
پاکستان اور بیرون ملک پاکستانی دل کھول کر اور آنکھ بند کرکے SIUT کو عطیات دیتے ہیں کیونکہ ان کو یقین کامل ہوتا ہے کہ ان کی پائی پائی مریضوں کے کام آئے گی۔ دعا گو ہوں کے ادیب بھائی طویل عمر پائیں اور وہ یوں ہی انسانیت کی خدمت کرتے رہیں۔
زاہدہ حنا
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
’’گریٹ اسموگ آف لندن‘‘
لاہور اور پنجاب کے بہت سے شہر اس وقت جس خطرناک اسموگ کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے دنیا کے کئی ممالک اس کا سامنا کر چکے ہیں۔ اسموگ کے اندھیرے اور زہریلی فضا میں سانس لینے سے ان ملکوں کے لاکھوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ 72 سال پہلے 5 دسمبر 1952 کی صبح جب لندن کے شہری سو کر اٹھے تو پورا شہر گہرے سیاہ دھوئیں میں ڈوب چکا تھا‘ حد نظر صفر ہو چکی تھی‘ گاڑیاں نظر نہیں آ رہی تھیں‘ ٹرین ڈرائیور پٹڑی نہیں دیکھ پا رہے تھے‘ طیاروں کے پائلٹس کو رن وے نظر نہیں آ رہا تھا۔ پورا شہر سیاہی مائل گہری دھند میں گم تھا‘ شام کے وقت پتہ چلا یہ دھند نہیں یہ گاڑھا سیاہ دھواں ہے۔ لوگ کھانس کھانس کر دم توڑنے لگے‘ لندن کی سماجی زندگی رک گئی‘ ٹریفک بند ہو گئی‘ ٹرینیں معطل ہو گئیں‘ فلائیٹس منسوخ ہو گئیں‘ دفتروں اور اسکولوں میں چھٹی ہو گئی‘ شاپنگ سینٹرز بند ہو گئے اور لوگوں نے گھروں سے باہر نکلنا ترک کر دیا‘ شہر میں سناٹا تھا۔ اسپتالوں میں مردے اور بیمار دونوں ایک بیڈ پر پڑے تھے‘ یہ صورتحال پانچ دن جاری رہی۔ نو دسمبر کی رات بارش شروع ہوئی اور فضا آہستہ آہستہ دھل گئی لیکن اموات کا سلسلہ جاری رہا۔
دسمبر کے آخر تک لندن کے بارہ ہزار لوگ انتقال کر چکے تھے جب کہ ڈیڑھ لاکھ لوگ دمے‘ آشوب چشم‘ ٹی بی اور نروس بریک ڈاؤن کا شکار تھے۔‘ ماحولیات کے ماہرین نے تحقیقات شروع کر دیں‘ پتہ چلا 5 سے 9 دسمبر کے دوران لندن کی فضا میں روزانہ ہزار ٹن اسموگ پارٹیکلز پیدا ہوتے رہے‘ ان میں 140 ٹن ہائیڈرو کلورک ایسڈ‘ 14 ٹن فلورین کمپاونڈ اور 370 ٹن سلفر ��ائی آکسائیڈ شامل ہوتی تھی‘ یہ تمام مادے صحت کے لیے انتہائی مضر تھے۔ ماہرین نے سوچنا شروع کیا کہ یہ تمام پارٹیکلز آئے کہاں سے تھے؟ پتہ چلا یہ سال ہا سال کی غلطیوں، نااہلیوں، نالائقیوں اور کم علمی کا دھواں تھا۔ یہ سلسلہ 1200ء میں شروع ہوا تھا۔ سات سو برسوں میں لندن شہرکی آبادی میں دس گناہ اضافہ ہو گیا ہے‘ شہر کے اردگرد گھنے جنگل کٹ گئے‘ ندیاں اور جھیلیں ختم ہو گئیں‘ لوگ گاؤں چھوڑ کر لندن شہر میں آ گئے‘ کھیت کھلیانوں کی جگہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن گئیں‘ صنعتی انقلاب آیا تو شہر اور گرد نواح میں ہزاروں فیکٹریاں لگ گئیں‘ کوئلے سے چلنے والی ہزاروں فیکٹریاں اور پاور پلانٹ شہر کی فضا میں دھواں گھول رہے تھے۔
ٹرین سروس شروع ہوئی‘ ٹرام آئی‘ موٹرگاڑیاں آئیں‘ سب کا دھواں شہر کی فضا میں شامل ہونے لگا۔ سردیوں میں گھروں کو گرم کرنے کے لیے پتھر کا کوئلہ جلایا جانے لگا، ہر گھر کی چمنیوں سے نکلنے والا یہ زہریلا دھواں بھی فضا میں شامل ہو گیا۔ تعمیرات تیزی سے شروع ہوئی عمارتوں کی تعمیر کے لیے اینٹوں کے بھٹوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ لندن کی فضا آلودہ ہوتی چلی گئی‘ درخت کم ہونے سے ہوا میں آکسیجن کم ہو گئی‘ یہ سلسلہ چلتے چلتے 1952 تک پہنچ گیا‘ سردی شروع ہوئی‘ لوگوں نے اپنی انگیٹھیوں میں کوئلہ جلایا، لاکھوں ٹن دھواں پیدا ہوا‘ یہ دھواں فضا میں پہلے سے موجود آلودگیوں میں شامل ہو گیا۔ دسمبر کی سردی میں جب دھند آئی تو یہ آلودگی اس میں شامل ہو کر گہری‘ دبیز اور سیاہ گیس میں تبدیل ہو گئی اور اس کی تہہ پورے شہر اور گردنواح کی فضاء پر جم گئی۔ یہ گیس پانچ دن شہر کے اوپر چھائی رہی اور گلی محلوں، سڑکوں ، پارکوں میں گھومتی رہی۔ ماہرین نے اس دھند کو اسموگ اور فاگ دو لفظ ملا کر ’’اسموگ‘‘ کا نام دے دیا اور لندن کے اس ’’سانحے کو گریٹ اسموگ آف لندن‘‘ قرار دے دیا۔
سرور منیر راؤ
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
ذیابیطس آنکھوں کے اہم جُز ریٹینا کو بھی متاثر کرسکتا ہے، ماہرین
ذیابیطس کے شکار افراد کو ان کی دائمی حالت سے متعلق متعدد صحت کے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور آنکھوں کے قیمتی جُز ریٹنا کا نقصان (ریٹینوپیتھی) ان میں سے ایک ہے۔ امریکن سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر جے مائیکل جمپر نے کہا، "ذیابیطس کسی بھی شخص کی سب سے قیمتی حس، بینائی کو علامات ظاہر ہونے سے پہلے ہی خاموشی سے نقصان پہنچا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس لیے ذیابیطس کے شکار ہر شخص کو اپنی بینائی پر…
0 notes
Text
Regional Urdu Text Bulletin, Chatrapati Sambhajinagar
Date: 30 May-2024
Time: 09:00-09:10 am
آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر
علاقائی خبریں
تاریخ: ۳۰؍مئی ۲۰۲۴ء
وقت: ۱۰:۹-۰۰:۹
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں:
٭ ریاستی تعلیمی‘ تحقیقی و تربیتی کونسل کی جانب سے تیسری تا بارہویں جماعت کا نصابی مسودہ شائع۔
٭ مرکزی انتخابی افسر راجیو کمار کی پارلیمانی انتخابات کے سلسلے میں رائے دہندگان سے غلط معلومات اور افواہوں پر یقین نہ کرنے کی اپیل۔
٭ کانگریس پارٹی کاریاست میں خشک سالی کے حالات کا معا ئنہ کرنے کیلئے خصوصی د ورہ کا اعلان؛ 31مئی سے چھترپتی سمبھاجی نگر میں ہوگا دورہ کا آغاز۔
٭ لاتور میں گٹکے کے کارخانے پر پولس کا چھاپہ، تقریباً تین کروڑ روپئے مالیت سے زیادہ کا سامان ضبط۔
اور۔۔۔٭ وسنت راؤ نائیک مراٹھواڑہ زرعی یونیورسٹی کی کاشتکاری کیلئے ڈرون کے ذریعے ادویات چھڑکائوکی مہم۔
***** ***** *****
اب خبریں تفصیل سے:
ریاستی تعلیمی ‘تحقیقی و تربیتی کونسل نے ریاست میں جماعت ِ سوّم تا بارہویںکے نصاب کا مسودہ شائع کیا ہے۔ اس مسودے میں قومی تعلیمی مسودہ 2023 کی دفعات کو مدنظر رکھا گیا ہے اور ریاست کے ��طابق جزوی طور پر ترمیم کی گئی ہے۔ پہلی سے دسویں تک مراٹھی اور انگریزی زبانیں لازمی کی گئی ہیں، جبکہ جماعت ِ ششم سے ہندی، سنسکرت اور دیگر ملکی یا غیر ملکی زبانیں سیکھنے کا اختیار دیا گیاہے، جبکہ گیارہویں اور بارہویں کے نصاب میں دو زبانیں شامل ہوں گی۔ تیسری جماعت سے آٹھویں جماعت تک پری ووکیشنل اسکل ایجوکیشن ‘جبکہ جماعتِ نہم سے خصوصی ووکیشنل تعلیم کی سہولت دستیاب ہوگی۔ ریاضی اور سائنس کے مضامین میں دو سطحی کورسیز فراہم کرنے کا تصور ا ور بین الضابطہ تعلیم کے تحت ماحولیاتی تعلیم کو شامل کرنے کی تجویز اس مسودے میں شامل کی گئی ہے۔اسی طرح قدیم بھارتیہ تعلیم، اور اخلاقی اقدار کا علم، جسمانی اور ذہنی صحت، تعلیمی اور پیشہ وارانہ رہنمائی، ٹیکنالوجی سے متعلق تعلیم وغیرہ بھی مسودے میں شامل ہیں۔ ریاستی تعلیمی و تحقیقی کونسل کی ویب سائٹ پر موجود اس مسودے پر تمام سماجی حلقوں، اساتذہ، والدین، ماہرین تعلیم، تعلیمی ادارے اور دیگر تمام متعلقہ شعبوں سے آئندہ تین جون تک اپنی رائے دینےکی درخواست کونسل نے کی ہے۔
***** ***** *****
پارلیمنٹ کے عام انتخابات کے ساتویں اور آخری مرحلے کی تشہیری مہم کا آج آخری دن ہے۔ اس مرحلے میں سات ریاستوں اور ایک مرکز کے زیر انتظام علاقے کے 57انتخابی حلقوں میں آئندہ یکم جون کو چنائو ہوگا۔
دریں اثنا، گزشتہ سنیچر کو ہوئے لوک سبھا انتخابات کے چھٹے مرحلے میں 58 انتخابی حلقوں میں 63 اعشا ریہ 37 فیصد رائے دہی کا اندراج کیا گیا۔
***** ***** *****
پارلیمانی انتخابات کے سلسلے میں، مرکزی انتخابی افسر راجیو کمار نے رائے دہندگان سے غلط معلومات اور افواہوں پر یقین نہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ رائے دہندگان کے مختلف شبہات کے ازالےکیلئے انتخابی شعبےکی ویب سائٹ پر تمام سوالات کے جوابات دیے گئے ہیں۔ویب سائٹ پر موجود تمام معلومات او ر کمیشن کی جانب سے وقتاً فوقتاً جاری کردہ تفصیلات و اعلامیہ کا جائزہ لینے کے بعد رائے دہندگان کو شکوک و شبہات سے گریز کرنے کی درخواست مرکزی انتخابی افسر نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کی ہے۔
***** ***** *****
وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے روزنامہ سامنا کے نائب مدیر اور راجیہ سبھا کے رکنِ پا رلیمان سنجے رائوت کو ہتک ِعزت کا قانونی نوٹس جاری کیا ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں پیسوںکا استعمال کرنے کا الزام لگانے کی پاداش میں یہ نوٹس بھیجا گیا ہے اوررائوت کی جا نب سے آئندہ تین دنوں میں عوامی سطح پر معافی نہ مانگنے پرر وزنامہ سامنا کیخلاف قانونی کارروائی کا انتباہ دیا گیا ہے ۔
***** ***** *****
پونے کے پورشے کار حادثے کے معاملے میں سسون اسپتال کے دو ڈاکٹروں اور ایک ملازم کو ملازمت سے معطل کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ روزپولس انتظامیہ نے ان تینوں کو معطل کرنے کی تجویز محکمہ صحت کو بھیجی تھی۔ دریں اثنا، عدالت نے اس معاملے میں نابالغ ملزم کی ضمانت کی درخواست پر سماعت یکم جون تک ملتوی کر دی ہے۔
***** ***** *****
یہ خبریں آکاشو انی چھترپتی سمبھاجی نگر سے نش�� کی جارہی ہیں
***** ***** *****
کانگریس پارٹی نے ریاست میں خشک سالی کی صورتحال کا معائنہ کرنے کیلئے دورے کا اعلان کیا ہے ۔اس معا ئنہ دورے کا آغاز کل 31 مئی سے ہوگا۔ کانگریس کے ریاستی صدر نانا پٹولے نے کل ممبئی میں ایک صحافتی کانفرنس میں یہ جانکاری دی۔ کل چھترپتی سمبھاجی نگر سے اس دو رے کی شر وعات ہوگی۔
دریں اثنا، پونے کے پورشے کار حادثے کے معاملے کی تحقیقات کیلئے مقررہ کردہ خصوصی تفتیشی افسر ڈاکٹرپلوی ساپڑے پر بدعنوانی کے کئی الزامات ہونے کی تنقید نانا پٹولے نے کی ہے۔
***** ***** *****
لاتور پولس نے جعلی گٹکا بنانے والے کارخانے پر چھاپہ مار کر تقریباً تین کروڑ روپئے مالیت سے زائد کاسامان ضبط کرلیا۔ صنعتی علاقے کی کومبڑے ایگرو ایجنسی کے گودام پر چھاپہ مارکر یہ کاررو ائی کی گئی۔ اس معاملے میں مرکزی ملزم وجے کیندرےاور دو بیرون ر یاستی شہریوں سمیت جملہ سات افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
***** ***** *****
چھترپتی سمبھاجی نگر کے ضلع کلکٹر دلیپ سوامی نے نابالغ بچوں کی ڈرائیونگ سے ہونے والے حادثات کی روک تھام کیلئے سخت اقدامات کرنے کی ہدایت دی ہے۔ وہ گزشتہ روز ضلع اور پولس انتظامیہ کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ کلکٹر سوامی نے نابالغ بچوں کی شراب نوشی اور گاڑی چلانے کے معاملات پر قدغن لگانے کیلئے مشترکہ دستے تشکیل دیکر پرمٹ رومز، بیئر بار، شراب کی دکانوں اور گاڑیوں کی جانچ کرنے سمیت والدین اور بچوں کی ذہن سازی کر نے کی ہدایت بھی دی ۔
***** ***** *****
پربھنی کی وسنت راؤ نائیک مراٹھواڑہ زرعی یونیورسٹی اور واو گو گرین کمپنی کے اشتراک سے ’’ڈرون ٹیکنالوجی آپ کے دروازے پر‘‘تصو ر کے تحت کاشتکاری کیلئے ڈرون سے چھڑکاؤ کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ اس مہم کے تحت کاشتکاروں کو ادو یات چھڑکائو کیلئے انتہائی کم کر ائے پر ڈرون دستیاب کرائے جارہے ہیں اور کئی دیہاتوں میں ڈرون کے ذریعے چھڑکائو کا تجربہ کیا جا رہا ہے۔
***** ***** *****
دھاراشیو ضلع پریشد میںای-آفس نظام کے ذریعے کام کاج شروع کر دیا گیاہے۔ جس کے بعد یہ ضلع پریشد بغیر کاغذ کے دفتری کام کرنے والی مراٹھواڑہ کی اوّلین ضلع پریشد بن گئی ہے۔
***** ***** *****
لاتور ضلعے میں خریف ہنگام کی تیاریوں کا آغاز ہوچکا ہے او ر ضلع میں بیج کی فرو خت کی نگرانی کیلئے تعلقہ اور ضلعی سطح پر فلائنگ دستے تیار کیے گئے ہیں۔ ضلع زرعی سپرنٹنڈنٹ افسر آر ٹی جادھو نے مخصوص بیجوں کے مطالبے کی بجائے دستیاب اعلیٰ معیاری بیجوں کا ہی استعمال کرنے کی اپیل کی ہے۔
***** ***** *****
بیڑ ضلعے میں زراعت سے متعلق شکایتوں کے ازالے کیلئے خصوصی کنٹرو ل رو م قا ئم کیا گیا ہے۔ کسا نوں کو اعلیٰ درجے کے زرعی بیج‘ کھاد او ر کیڑے مار ادویات بر موقع او ر مناسب نرخوں میں فراہم کرنے کیلئے او ر ان اشیا کی تعلقہ وار تقسیم کو بہتر بنانے کیلئے یہ کنٹرو ل رو م کام کرے گا۔
***** ***** *****
دھاراشیو تعلقے کے پولس پاٹل تجدید معاملہ میں افسر‘ منڈل افسر او ر تلاٹھی کیخلاف غیر قانونی طور پر مقدمہ درج کرنےکی مخا لفت میں مختلف تنظیموں کی جانب سے دھاراشیو تحصیل دفتر کے سا منے کل احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ ضلع کلکٹر کو دئیے گئے محضر نامے میں کہا گیا کہ بغیر کسی تحقیق تلاٹھی اور منڈل افسران کی گرفتاری غلط ہے ا ور متعلقہ پولس افسران کے خلاف ��و ر اً مقدمہ درج کیا جائے۔
***** ***** *****
پر بھنی میں موٹر سائیکل چوری کرنے والے شخص کو پولس نے گرفتار کرلیا۔ ملزم کے قبضے سے اب تک بیڑ، پرلی، لاتور، مروڑ، بارشی اور شو لاپور سے سرقہ کی گئیں 20 موٹر سائیکلیں ضبط کی گئی ہیں او ر عد الت نے ملزم کو چار دِن کی پولس تحویل میں رکھنے کا حکم دیا ہے۔
***** ***** *****
چھترپتی سمبھاجی نگر میں عظیم الشان دھمّ میلہ اور مشہور گلوکار اجئے دیہاڑے کے بدّھ اور بھیم گیتوں کا پروگر ام منعقد ہوا۔ گوتم بدھ کی کردار نگاری کرنے والے دھمّ پدیاترا کے مجسمہ ساز گگن ملِک سمیت دیگر معززین اس موقعے پر موجود تھے۔
***** ***** *****
نارو ے میں جاری شطرنج مقابلوں میں بھارت کے آر پرگیانند نے اوّل درجہ کے نارو ے کے میگرس کارلسن کو تیسرے رائونڈ میں شکست سے دوچار کیا۔ پرگیانند اب پانچ اعشار یہ پانچ پوائنٹس کے ساتھ ٹورنامنٹ میں سرفہرست ہیں۔
***** ***** *****
سنگاپور اوپن بیڈمنٹن ٹورنامنٹ میں خو اتین اور مردوں کے سنگلس مقابلوں میں بھا رتی کھلاڑیوں نےفاتحانہ آغاز کیا ہے۔ خواتین سنگلس کے پہلے رائونڈ میں پی وی سِندھو نے ڈینمارک کی کھلاڑی کو21-12, 22-20 سے، جبکہ مردوں کے سنگلس مقابلے میں ایچ ایس پرنائے نے جرمنی کے کھلاڑی کو 21-9, 18-21, 21-9 سے شکست دی۔
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
آخرمیں اس بلیٹن کی خاص خبریں ایک بار پھر:
٭ ریاستی تعلیمی‘ تحقیقی و تربیتی کونسل کی جانب سے تیسری تا بارہویں جماعت کا نصابی مسودہ شائع۔
٭ مرکزی انتخابی افسر راجیو کمار کی پارلیمانی انتخابات کے سلسلے میں رائے دہندگان سے غلط معلومات اور افو اہوں پر یقین نہ کرنے کی اپیل۔
٭ کانگریس پارٹی کاریاست میں خشک سالی کے حالات کا معا ئنہ کرنے کیلئے خصوصی د ورہ کا اعلان؛ 31مئی سے چھترپتی سمبھاجی نگر سےہوگا دورہ کا آغاز۔
٭ لاتور میں گٹکے کے کارخانے پر پولس کا چھاپہ، تقریباً تین کروڑ روپئے مالیت سے زیادہ کا سامان ضبط۔
اور۔۔۔٭ وسنت راؤ نائیک مراٹھواڑہ زرعی یونیورسٹی کی کاشتکاری کیلئے ڈرون کے ذریعے ادویات چھڑکائوکی مہم۔
***** ***** *****
0 notes
Text
بہ تسلیمات نظامت اعلیٰ تعلقات عامہ پنجاب
لاہور، فون نمبر:99201390
ہینڈ آؤٹ نمبر422
ہر دن زیر ویسٹ ڈے کے طور پر منانے کی ضرورت ہے،وزیر اعلیٰ مریم نواز کا ”زیروویسٹ ڈے“ پر پیغام
دنیا کو بے شمارماحولیاتی چیلنجز کا سامنا ہے، ایسی صنعتی معیشت کی ضرورت ہے جہاں وسائل کا موثر استعمال ہو اور ویسٹ کم سے کم پیدا ہو
تمام بڑے شہروں میں ویسٹ مینجمنٹ کا جامع ویسٹ مینجمنٹ سسٹم،پہلی مرتبہ دیہات کی صفائی کا پائیدار اور موثر نظام وضع کیا جارہا ہے: مریم نواز شریف
لاہور30 مارچ:……وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا ہے کہ آج اشیاء ضروریہ خاص طور پر فوڈ آئیٹم کے ذمہ دارانہ استعمال اور ویسٹ مینجمنٹ کی اہمیت پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کو بے شمارماحولیاتی چیلنجز کا سامنا ہے۔ہمیں ایسی صنعتی معیشت کی ضرورت ہے جہاں وسائل کا موثر استعمال ہو اور ویسٹ کم سے کم پیدا ہو۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے”زیرو ویسٹ ڈے“پر اپنے پیغام میں کہا کہ ہر دن کو زیرو ویسٹ ڈے کے طور پر منانا چاہیے۔ عوام ایک بار استعمال ہونے والے پلاسٹک کو کم کرکے ماحول دوست متبادل کو اپنائیں۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے کہا کہ پنجاب کے تمام بڑے شہروں میں ویسٹ مینجمنٹ کا جامع نظام لا رہے ہیں اور پہلی مرتبہ دیہات کی صفائی کا پائیدار اور موثر نظام وضع کیا جارہا ہے۔ہر شہر،گاؤں اور گلی محلے کو صاف دیکھنا میرا عزم ہے۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اجتماعی کاوش سے ہم اپنے بچوں کو صاف ستھرا ماحول دے سکتے ہیں۔ ہمیں پائیدار مصنوعات کا انتخاب اور خوراک کے ضیاع کو کم کرنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ پرانی اشیاء کی مرمت، انہیں عطیہ کرنے، یا نئے استعمال کا طریقہ اختیار کرنے کے ضرورت ہے۔ مریم نواز شریف نے کہا کہ ری سائیکل ہونے والی اشیاء کو کوڑے میں نہ پھینکیں اور کچرے کی چھانٹی ضروری امر ہے۔ مل کر کام کرنے سے ویسٹ میٹریل سے پاک صحت مند ماحول اور محفوظ مستقبل حاصل کر سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
بہ تسلیمات نظامت اعلیٰ تعلقات عامہ پنجاب لاہور، فون نمبر:99201390
ہینڈ آؤٹ نمبر423
حکومت پنجاب کا بجلی چوری،سمگلنگ،ذخیرہ اندوزی کیخلاف گرینڈ آپریشن کا فیصلہ، سخت سزاؤں،بھاری جرمانوں کیلئے قانون سازی کا فیصلہ
بجلی چوری،سمگلنگ، ذخیرہ اندوزی کیخلاف زیرٹالرنس پالیسی اپنائی جائے، ملوث افراد سے کوئی رعایت نہ کی جائے، وزیراعلی مریم نوازکی ہدایت
صنعتوں، کارخانوں، دکانوں، گھروں، شاپنگ مالز سمیت ہر کنکشن چیک ہوگا، ناکامی پر متعلقہ حکام ذمہ دار ہوں گے،ایک ماہ کی ڈیڈ لائن مقرر
بجلی چوری پہلے ہی قابل دست اندازی جرم ہے،ملوث سرکاری حکام کے خلاف بھی کارروائی ہوگی، اجلاس میں فیصلہ
وزیراعلی مریم نوازشریف کا بجلی چوری کے خاتمے کیلئے وزیراعظم کے گزشتہ روز کے اجلاس کی روشنی میں پالیسی پر عمل درآمد کا حکم دیا
وزیراعلی مریم نوازکی زیرصدارت اجلاس میں بجلی چوری کے خاتمے کیلئے اجلاس،ٹاسک فورس بنانے کا فیصلہ، ماہرین، حکومتی نمائندے شامل ہونگے
انرجی منسٹری، صوبے کی بجلی کی تقسیم کار تمام کمپنیوں کی مانیٹرنگ ہوگی،بجلی چوری سے ضائع ہونیوالے اربوں روپے عوام کی صحت، تعلیم، ترقی پر خرچ کرینگے: مریم نوازشریف
لاہور30 مارچ:-پنجاب حکومت نے صوبے بھر میں بجلی چوری،سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف گرینڈ آپریشن کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعلی پنجاب مریم نوازشریف نے بجلی چوری کے خاتمے کے لئے وزیراعظم پاکستان کے گزشتہ روز کے اجلاس کی روشنی میں پالیسی پر عملدرآمد کا حکم دیا ہے۔وزیراعلی مریم نوازشریف کی زیرصدارت اجلاس میں بجلی چوری کے خاتمے کے لئے اہداف کا تعین کیا اور اس ضمن میں ایک ماہ کی ڈیڈ لائن مقررکی گئی۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ صنعتوں، کارخانوں،دکانوں، گھروں، شاپنگ مالز سمیت ہر کنکشن چیک ہوگا،ناکامی پر متعلقہ حکام ذمہ دار ہوں گے۔وزیراعلی مریم نوازشریف نے بجلی چوری،سمگلنگ،ذخیرہ اندوزی کے خلاف زیرٹالرنس پالیسی اپنانے کی ہدایت کی ہے اور کہاکہ بجلی چور، سمگلنگ، ذخیرہ اندوزی میں جو جو ملوث ہو، کوئی رعایت نہ کی جائے۔اجلاس میں بجلی چوری کے خاتمے، سخت سزاؤں اور بھاری جرمانوں کے لئے قانون سازی کا فیصلہ کیاگیا۔ بجلی چوری پہلے ہی قابل دست اندازی جرم ہے، گرفتاریاں اور فوری سزائیں دی جائیں۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ سسٹم کے اندر موجود کالی بھیڑوں کی نشاندہی کرکے قانونی گرفت میں لایاجائے،بجلی چوری میں ملوث سرکاری حکام کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔انرجی منسٹری اور صوبے کی بجلی کی تقسیم کار تمام کمپنیوں (ڈسکوز) کی بھی مانیٹرنگ ہوگی۔اجلاس میں ٹاسک فورس بھی بنانے کا فیصلہ کیا گیاجس میں ماہرین اور حکومتی نمائندے شامل ہوں گے۔ٹاسک فورس وزارت توانائی، ڈسکوزکی کارکردگی اور بجلی چوری کے خلاف آپریشن کی نگرانی کرے گی۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پنجاب میں بجلی چوری پہ کوئی رعایت نہیں، زیرو ٹالرنس ہوگی۔وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے کہاکہ بجلی چوری میں ضائع ہونے والے اربوں روپے عوام کی صحت، تعلیم، ترقی پر خرچ کریں گے۔اجلاس کو بریفنگ کے دوران بتایا گیاکہ صوبہ پنجاب میں 100 ارب روپے کی بجلی چوری ہورہی ہے۔
٭٭٭٭
0 notes
Text
24 گھنٹوں کے دوران لاہور میں نمونیہ کے مزید 133 مریض رپورٹ
شدید سردی کی لہر میں نمونیہ کے کیسز بڑھ رہے ہیں،گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران لاہور میں نمونیہ کے مزید 133 نئے مریض رپورٹ ہوئے۔ محکمہ صحت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں پنجاب بھر میں نمونیہ سے 2 افراد جاں بحق ہوئے، پنجاب میں 24 گھنٹوں میں 598 نئے مریض سامنے ائے۔ لاہور میں 1 ہفتے میں نمونیہ سے اموات کی تعداد 8 ہو گئیں، پنجاب بھر میں 7 دن میں 85 افراد نمونیہ سے جاں بحق ہوئے۔ طبی ماہرین کا…
View On WordPress
0 notes
Text
صحت مند رہنے کے رہنما اصول
صحت مند رہنا ایک خواب ہے، جو کہ ہر کسی کی آنکھوں میں سجا رہتا ہے۔ کیوں کہ صحت ایک ایسی نعمت خداوندی ہے جس سے انسان اپنے روزمرہ کے کام بخوبی سر انجام دے سکتا ہے۔ وہ جو ضرب المثل مشہور ہے کہ ’’اندھا کیا چاہے؟ دو آنکھیں‘‘۔ اسی طرح ایک بیمار آدمی بھی صحت کی خواہش رکھتا ہے۔ آج اگر ہم دیکھیں تو ہمارے اسپتال بیمار لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ہر دوسرا انسان کسی نہ کسی مرض میں مبتلا نظر آتا ہے۔ مسجدوں میں جائیں تو ہر نماز کے بعد امام صاحب کی آواز گونجتی ہے کہ بیماروں کے لیے دعا کیجئے۔ آخر کیا وجہ ہے اتنی دعاؤں، دواؤں اور سائنس کی ترقی کے باوجود بھی بیماریاں ہیں کہ بڑھتی جارہی ہیں؟ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے، مگر میں آج کچھ ایسے طریقے بیان کرنا چاہ رہا ہوں جن کی مدد سے آپ خود کو صرف چند دنوں میں سست اور بیمار زندگی سے تندرست و توانا زندگی کی طرف لے کر جاسکتے ہیں۔ صحت و تندرستی ایک حساس موضوع ہے اور ہم بحیثیت قوم ایسے ہیں کہ اگر کوئی ڈاکٹر ملے تو سب بیمار بن جاتے ہیں اور اگر کوئی اپنی بیماری بتا بیٹھے تو ہم سب اسی وقت ایک ماہر ڈاکٹر بن جاتے ہیں اور اسے متضاد غذاؤں کے ساتھ دیسی ٹوٹکے بھی عنایت کردینا عین ثواب سمجھتے ہیں۔ چاہے اس کے نتائج کا ہمیں قطعاً علم بھی نہ ہو۔
ماہرین صحت کے مطابق حسب ذیل بنیادی طریقوں سے کافی حد تک صحت مند زندگی کو اپنایا جاسکتا ہے۔ صرف دس دن میں آپ کو اپنی صحت میں بدلاؤ نظر آئے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ صحت اور تندرستی کو تبدیل کرنے کےلیے بہت سارے آسان طریقے ہیں، جو آپ فوری طور پر استعمال کرنا شروع کرسکتے ہیں۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں:
1۔ کھانا ذائقہ حاصل کرنے یا مزے لینے کےلیے مت کھاؤ، بلکہ اسے بطور رزق کھاؤ۔ یعنی جینے کےلیے کھاؤ نہ کہ کھانے کےلیے جیو۔ جب آپ ذائقہ حاصل کرنے کےلیے کھاتے ہیں تو آپ وہ غذا بھی لے لیتے ہیں جو آپ کی صحت کےلیے نقصان دہ ہوتی ہے۔ لہٰذا توانائی کےلیے کھانے کی کوشش کیجئے۔ 2۔ روزانہ کی بنیاد پر کچھ دیر کی چہل قدمی ضرور کیجئے۔ کیوں کہ پیدل چلنے سے آپ کے جسم میں موجود اضافی کیلوریز جلتی ہیں۔ اور اس پر بھی کوئی پابندی نہیں کہ آپ نے صرف چلنا ہی ہے بلکہ آپ کو اگر چلنا پسند نہیں تو بھی آپ اپنی پسند کا کوئی بھی کھیل کھیل سکتے ہیں، جیسا کہ ٹینس، کرکٹ، باسکٹ بال، ہاکی وغیرہ۔ 3۔ شوگر ڈرنکس سے پرہیز کیجئے۔ تازہ پھلوں کا جوس پیجئے اور وہ جوس بھی اپنے گھر میں خود تیار کیجئے۔ بہت زیادہ پانی بھی پیجئے۔
4۔ گوشت کے بجائے سبزی کا زیادہ استعمال کیجئے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ڈاکٹر جب بھی پرہیز بتاتے ہیں تو سبزیوں کے علاوہ ہر چیز کا بتاتے ہیں۔ ہر بیماری کی نوعیت کے اعتبار سے کہ چاول نہیں کھانے یا دودھ نہیں لینا، بڑا گوشت نہیں کھانا، تلی ہوئی کوئی چیز نہیں کھانی یا فلاں پھل نہیں کھانا۔ مگر کسی بھی بیماری میں کوئی بھی سبزی منع نہیں کرتا۔ اس کے علاوہ وزن کم کرنے کےلیے بھی گوشت چھوڑ کر سبزی کا استعمال بہترین حل ہے۔ آپ کو سبزی خور بننے کی ضرورت نہیں مگر گوشت کے بجائے سبزی کو اہمیت دیجئے۔ 5۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں صرف ایک آیت میں صحت مند زندگی کا ایسا رہنما اصول بتا دیا ہے کہ اس پر عمل ہمیں بہت سی پیچیدگیوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: یا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ﴿الاعراف: 31﴾ ’’اے بنی آدم، ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو۔ اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
پانچ وقت کی نماز، مسواک کرنا، وضو کے لیے اپنے اعضا کا پانی سے دھونا، اپنے آپ کو صاف رکھنا، خوشبو لگانا، اپنے معدے کے تین حصے کر کے ایک حصہ کھانا، ایک حصہ پانی پینا اور ایک حصہ خالی رکھنا عین صحت مند زندگی کے ایسے رہنما اصول ہیں کہ اگر صرف ان کو ہی اپنا لیا جائے تو آپ ایک تندرست زندگی گزار سکتے ہیں۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
کویمبٹور میں بہترین جلد اور بالوں کی دیکھ بھال: کیوا جلد اور بالوں کی دیکھ بھال کلینک کیا آپ کویمبٹور میں بہترین جلد اور بالوں کی دیکھ بھال کی خدمات تلاش کر رہے ہیں؟ کیوا جلد اور بالوں کی دیکھ بھال کلینک آپ کی خدمت میں ہے!
ہمارا کلینک کویمبٹور میں واقع ہے: No. 93, 1st Floor Sri, Narasimha Chambers, Thiruvenkatasamy Rd W, R.S. Puram، کویمبٹور، تمل ناڈو 641002. ہم آپ کی جلد اور بالوں کی دیکھ بھال اور بہتری کے لیے معیاری خدمات فراہم کرتے ہیں.
خصوصی پیشکش:
ہم کیوا کلینک کی جانب سے ایک خصوصی پیشکش بھی فراہم کر رہے ہیں - "لیزر بال رموول علاج". اس جدید تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے آپ کو بار بار وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، اور آپ کو اپنے بالوں کی مکمل ��وداری حاصل ہوگی.
خدمات:
ہماری ٹیم میں ماہر ڈاکٹر اور ماہرین شامل ��یں جو آپ کی جلد اور بالوں کی فراہم کی گئی معلومات پر خصوصی توجہ دیتے ہیں. آپ کی جلد کی صحت کے ساتھ ساتھ، ہم آپ کو اس کی خوبصورتی اور رنگ بھی فراہم کرتے ہیں.
ہم کویمبٹور میں بہترین، معیاری، اور ماہرینہ جلد اور بالوں کی دیکھ بھال کلینک کی خدمات فراہم کر رہے ہیں. ہم سے رابطہ کریں اور اپنی جلد اور بالوں کی بہترین دیکھ بھال کا تجربہ حاصل کریں.
Keva Skin & Hair Clinic
No. 93,1st Floor, Sri Narasimma Chambers, T.V Samy Road - west R.S Puram, Coimbatore 641 002.
0422-4618369
+91 9500093905
Keva Hair Care
No: 424k, Third Floor, Red Rose Towers, D B Road,
RS Puram, Coimbatore - 641 002 0422-4618370
+91-9585525905
0 notes
Text
میئر کراچی کا انتخابی معرکہ
پاکستان کی بڑھتی بس پلتی مایوس اور مبتلائے عتاب و عذاب نئی نسل پر ہماری 75 سالہ سیاسی تاریخ کی یہ حقیقت تو اب مکمل بے نقاب ہے کہ : آئین پاکستان کا اطلاق فقط جیسے تیسے الیکشن سے تبدیلی و تشکیل حکومت تک محدود رہا ہے۔ جمہوریت کا یہ لبادہ بھی مملکت کو جمہوری ہونا تو کیا منواتا اس سے متصادم ادھوری سی قوم اور دنیا بھر میں ہم مارشل لائوں کی بے آئین سرزمین، مسلسل عدم استحکام میں مبتلا جھگڑالو اور غیر منظم ریاست اور قوم سمجھے گئے۔ اپنی تاریخ کے سیاسی ریکارڈ حقائق و ابلاغ میں بھی اور دنیا کی نظر میں بھی۔ کج بحثی اور جھوٹے جواز کی آڑ لینا الگ اور یکسر منفی رویہ ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ ہی سچ ہے پہاڑ جیسی اٹل حقیقت آئینی و سیاسی جھگڑے میں پاکستان کا فقط 24 سال میں ہی دولخت ہو جانا اور ملکی موجود گمبھیر صورتحال ہے جس کے بڑے فیصد کی تشکیل گزرے تیرہ ماہ میں ایسے ہی سیاسی فساد اور آئین سے بدترین سلوک سے ہوئی۔ پاکستان کا قیام تو بلاشبہ، متعصب ہندو اکثریت اور فرنگی راج میں رہتے، بدلے زمانے کی حقیقتوں کے ساتھ اکابرین مسلمانان ہند کا جدید دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دینے والا کارنامہ تھا ہی سرسید، اقبال و قائد کی دور بینی علمی و عملی جدوجہد اور رہنمائی اور تاریخ پاکستان کے سنہری ابواب ہیں۔
قائداعظم کو اگر حاصل منزل کے بعد نومولود مملکت کو سنبھالنے اور ارادوں اور تصورات کے مطابق بنانے کی مہلت نہ ملی تو اس کا راستہ تو وہ تین الفاظ اتحاد، ایمان، تنظیم کے کمال روڈ میپ کے ساتھ پھر بھی دکھا گئے۔ اگلی تاریخ (ایٹ لارج) اس سے مختلف سمت میں چلنے کی ہے۔ یہ ہے موجود بدترین ملکی سیاسی و آئینی و انتظامی بحران، جس میں ایک بہت مہلک قومی ابلاغی بحران کے جنم کا اضافہ ہوا ہے، کا پس منظر ایسا نہیں کہ قائد کی رخصتی کے بعد قوم مکمل ہی گمراہی میں چلی گئی، جب کبھی اتحاد، ایمان و تنظیم کا دامن پکڑا، بگڑتی قوم کے نصیب جاگ گئے، پاکستان سنبھلا اور نیک نامی اور بہت کچھ پایا، لیکن آئین سے روگردانی، بار بار اسے توڑنے پھوڑنے اور اپنی سیاست کے لئے اس سے کھلواڑ کو سیاست دانوں، جرنیلوں اور ججوں نے اپنے اپنے دائروں سے باہر نکل کر وہ کھلواڑ کیا کہ ملک بھی آدھا گیا اور اگلے عشروں کے سفر میں آج وینٹی لیٹر پر نہیں بھی تو آئی سی یو میں تو ہے اور تیرہ مہینے سے ہے۔
پاکستانی بیش بہا پوٹینشل ایسے ٹیسٹ ہوا کہ اتحاد، ایمان اور تنظیم مطلوب سے بہت کم مدتی مقدار میں ہوتے بھی ایٹمی طاقت بن گیا، پانچ گنا دشمن کے حملے کا کامیاب دفاع کیا، طویل العمر آمرانہ ادوار میں بڑی جمہوری و پارلیمانی قوتوں اور تحریکوں کی تشکیل و تنظیم ہوتی رہی۔ اور بہت کچھ۔ لیکن اس سے مکمل جڑی تلخ حقیقت ملک و آئین شکنی سے لے کر بنے بنائے چلتے چلاتے پاکستان پر قابض مافیہ راج (OLIGARCHY) کے مسلسل حملوں سے ہوئے بار بار ڈیزاسٹر ہیں۔ شاخسانہ پوری قوم کو خوف و ہراس اور سب اداروں کو تقسیم و مسلسل دبائو میں مبتلا رکھنے والا سیاسی و آئینی اور انتظامی و ابلاغی بحران جاری ہے۔ ماہرین آئین وسیاسیات حتمی رائے دے رہے ہیں کہ حکومتی سیاسی کھلواڑ سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات کو روکنے، عدلیہ کو دھونس دھاندلی سے نیم جامد کرنے اور دونوں صوبوں پر مکمل حکومت نواز فسطائیت اخیتار کی قطعی غیر آئینی نگراں حکومتوں کے تسلط سے ملکی آئین ٹوٹ چکا۔ چلیں! اتنی معتبر اور پیشہ ورانہ آرا سے بھی اختلاف کر کے ہم اختتام آئین کی بار بار علانیہ بلکہ چیخ پکار سے آئی ماہرین کی اس رائے سے جزوی اختلاف کرکے اتنا مان لیتے ہیں کہ آئین وزیر دفاع کی رائے (کے مطابق بھی نہیں) ملک وینٹی لیٹر پر بھی نہیں، بلکہ آئی سی یو میں ہے۔ اتنا تو ماننا ہی پڑے گا، وہ بھی فقط اس لئے کہ گردو نواح سے ظہور پذیر ہوتے مواقع حوصلہ دلاتے ہیں کہ بیمار بحال ہو سکتا ہے۔
15 جون 2023ء کو آئی سی یو میں سسکتے آئین کا ایک حساس ٹیسٹ ہونے والا ہے۔ اس کا نتیجہ آنے والے سالوں میں واضح طور پر ملکی قومی صحت کے بہتر ہونے یا بگڑنے کا تعین کرے گا۔ تین روز بعد کراچی کے میئر کے انتخاب کا سیاسی معرکہ ہونے والا ہے۔ ’’معرکہ‘‘ اس لئے کہ یہ کوئی معمول کا انتخاب نہیں، آئین کی بنتے ہی بڑی خلاف ورزی، جو اب تک ہو رہی ہے یہ ہوتی رہی اور جاری ہے کہ آئین میں جمہوریت کی تین بنیادی جہتوں (قومی، صوبائی اور مقامی منتخب حکومتوں کا قیام) میں سے عوام الناس کے حقوق و مفادات کی عکاس ’’مقامی حکومتوں کے نظام‘‘ کو سول منتخب حکومت نے غصب کر کے آئینی لازمے کے مطابق معمول بننے ہی نہیں دیا ۔ مارشل لائوں میں ہی سول سپورٹ لینے کے لئے اس پر عملدرآمد کر کے مارشل لا رجیمز کو ہضم کرنے میں بڑے فیصد کی مدد لی گئی۔ ایوبی دور تو اس کا مخصوص ماڈل (بی ڈی سسٹم) قائم کر کے ہی فرد واحد کی حکومت کو ’’جمہوری‘‘ بنا دیا گیا، جو خاصا ہضم ہو گیا تھا۔ آئین سے منحرف ہوتے بلدیاتی اداروں کے قیام کو روکے رکھنے کا سب سے متاثرہ شہر، شہر عظیم کراچی اور دیہی سندھ ہے۔ کراچی کی تیز تر ترقی ہو کر بھی اسی کھلواڑ سے ریورس رہی اور دیہات پسماندہ ہی رہے۔
موجود سندھ حکومت کے تو بس میں نہیں کہ وہ کوڑا اٹھانے، پانی کی تقسیم، نالوں کی صفائی، ٹرانسپورٹ ہر ہر عوامی سروس اپنے ہی اختیار میں رکھے اور رکھ کر بھی کچھ نہ کرے۔ کراچی کی واضح حالت زار کے سینکڑوں ثبوت ریکارڈ پر ہیں۔ اب بھی جو بلدیاتی انتخاب جماعت اسلامی کی جدوجہد اور عدالتی فیصلوں سے ممکن ہوا اس میں بڑا کھلواڑ مچا کر اکثریتی جماعت اسلامی کے واضح منتخب ہوتے میئر کا راستہ روک کر، میئر کی جگہ اپنے مسلط کئے سابق ایڈمنسٹریٹر کو ہر حالت میں میئر بنانے کے لئے ہر غیر جمہوری اور غیر آئینی و غیر قانونی حربہ استعمال ہو رہا ہے، جیسے چار مرتبہ انتخاب کا التوا۔ الیکٹرول کالج میں چمک کے استعمال (ہارس ٹریڈنگ) سے لے کر سیاسی مخالف کونسلروں کے اغوا اور غائب ہونے کی خبروں، ثبوتوں اور الزامات سے میڈیا بھرا پڑا ہے۔ خصوصاً تحریک انصاف سے جماعت اسلامی کے میئرشپ کے انتخاب پر اتحاد کے بعد تو کوئی راہ نہیں بچی کہ پی پی کا میئر منتخب ہو لیکن صوبائی وزراء کے دعوئوں کے مطابق 100 فیصد ان کا میئر بننے والا ہے۔ پی پی اپنے جمہوری ہونے کی دعویدار تو بہت ہے لیکن اس کا ہی نہیں اصل میں تو زخمی آئین کا ٹیسٹ ہونے کو ہے۔ 15 جون کا یہ انتخابی معرکہ پاکستان میں شدت سے ملک میں مطلوب آئینی عمل کی بحالی کا نکتہ آغاز بھی بن سکتا ہے۔ لیکن اگر آئی سی یو میں پڑے مریض کی حکومتی مرضی سے بنی کوئی ٹیلر میڈ رپورٹ آگئی تو کراچی ہی نہیں پورے ملک پر اللّٰہ رحم فرمائے۔ وماعلینا الالبلاغ ۔
ڈاکٹر مجاہد منصوری
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
ماہرین صحت نے ٹماٹر کو غذائیت سے بھرپور قرار دیدیا
ماہرین صحت کاکہنا ہے کہ ٹماٹر صحت کے لیے بہت فائدہ مند ہے اور اسے مختلف وجوہات کی بنا پر ایک اہم غذائی جزو سمجھا جاتا ہے۔ ٹماٹر میں موجود پوٹاشیم اور دیگر غذائی اجزاء دل کی صحت کو بہتر بنانے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ خون کے دباؤ کو کنٹرول کرنے اور کولیسٹرول کی سطح کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ٹماٹر جلد کو چمکدار اور جوان بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اس میں موجود وٹامن C اور لائکوپین جلد کو…
0 notes
Text
ہیلتھ ایمرجنسی لگائی جائے سانس کے مریض گھر تک محدود رہیں
( منظور قادر) آلودہ فضاسے صحت کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے ماہرین کی تجاویز سامنے آئی ہیں،ماہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پنجاب کی فضا بری طرح آلودہ ہو جانے سے پیدا ہونے والے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر صحت اور ماحولیاتی ایمرجنسی نافذ کی جائے۔ ماہرین نےحکومت پر زور دیتے ہوئے کہ وہ سموگ کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات کریں۔ پروفیسر عرفان ملک کے مشورے معروف پلمونولوجسٹ…
0 notes
Text
اسموگ۔ موسمیاتی مسئلہ یا انتظامی نا اہلی؟
اہل پاکستان کیلئے موسم کی تبدیلی، ’’موسمیاتی تبدیلی‘‘ کی طرح ایک ڈراؤنا خواب بن چکی ہے۔ ماضی قریب میں درختوں کے پتے گرنے سے موسم کی تبدیلی کا اشارہ ملتا تھا، پرندوں کی ہجرت موسم کے بدلنے کا پتہ دیتی تھی، ہوائیں اچانک سرد ہو جاتی تھی، شام کے سائے لمبے ہو جاتے تھے لیکن اب موسم سرما کی آمد سے قبل فضا خشک ہو جاتی ہے، اسموگ ڈیرے ڈال دیتی ہے، صبح اور شام کے اوقات میں یہ صورتحال مزید تکلیف دہ ہو جاتی ہے۔ آسمان دھند کی چادر تان لیتا ہے اسکی وجہ سے حد نگاہ متاثر ہوتی ہے اور ساتھ ہی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ اگر اسموگ برقرار رہے تو مختلف امراض کے بڑھنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ جن لوگوں میں قوت مدافعت کم ہوتی ہے وہ ہر قسم کی بیماریوں کا جلد شکار ہونے لگتے ہیں۔ موسمیاتی ماہرین کہتے ہیں کہ جب ہوائیں نہیں چلتیں اور درجہ حرارت میں کمی یا کوئی موسمی تبدیلی واقع ہوتی ہے تو ماحول میں موجود آلودگی فضا میں جانے کے بجائے زمین کے قریب رہ کر ایک تہہ بنا دیتی ہے جسکی وجہ سے غیر معمولی آلودگی کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ صفائی کے ناقص انتظامات، کچرے کے ڈھیر کو آگ لگانا، دیہی علاقوں میں اینٹیں بنانے والے بھٹے، صنعتی علاقوں میں فیکٹریاں اور ملوں کی چمنیاں ماحول کو آلودہ اور خطرناک بناتی ہیں۔
پاکستان اور بھارت دونوں کے کسانوں کے معاملات یکساں ہیں بھارتی کسانوں کی طرح پاکستانی کسان بھی مڈھی کو آگ لگاتے ہیں، یوں دہلی اور لاہور آلودگی میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اسموگ نامی بیماری صرف برصغیر کا ہی مقدر ہے یا دنیا اس سے پہلے اس مسئلے سے نپٹ چکی ہے۔ تاریخی ریکارڈ کے مطابق 26 جولائی 1943ء کو امریکی شہر لاس اینجلس میں اپنے وقت کی سب سے بڑی اسموگ پیدا ہوئی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران شدید اسموگ کی وجہ سے لاس اینجلس کے شہریوں کو وہم ہوا کہ جاپان نے کیمیائی حملہ کر دیا ہے۔ امریکی انتظامیہ نے جنگ کے باوجود اپنے شہریوں کو اسموگ سے بچانے کیلئے موثر اقدامات کیے۔ دسمبر 1952 ء میں لندن میں فضائی آلودگی کی لہر نے حملہ کیا لندن میں آلودہ دھند کی وجہ سے 12 ہزار افراد موت کے گھاٹ اتر گئے۔ 1980ء کی دہائی میں چین میں کوئلے سے چلنے والے گاڑیوں کی خریداری میں اضافہ ہوا تو وہاں بھی اسموگ اور فضائی آلودگی کا مسئلہ پیدا ہوا۔ 2014ء میں بیجنگ کو انسانوں کے رہنے کیلئے ناقابل قبول شہر قرار دیا گیا لیکن چین نے اس مسئلے کو ختم کرنے کیلئے جدید ایئر کوالٹی مانیٹرنگ سسٹم قائم کیا۔
پبلک ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر تبدیل کیا اور گاڑیوں میں ایندھن کے معیار میں بھی بہتری لائی گئی۔ برطانیہ امریکہ اور چین نے کوئلے سے چلنے والے نئے منصوبوں پر پابندی لگائی، رہائشی عمارتوں میں کوئلے سے چلنے والے ہیٹنگ سسٹم کو بتدریج بند کیا، بڑی گاڑیوں اور ٹرکوں کے انجن میں ایندھن کے معیار کو بہتر کیا، آلودگی پھیلانے والی پرانی کاروں کے استعمال پر پابندی عائد کی۔ جس سے مثبت نتائج برآمد ہوئے۔ بیجنگ کا فضائی آلودگی سے لڑنے کیلئے مقرر کردہ بجٹ 2013 ء میں 430 ملین ڈالر تھا جو 2017ء میں 2.6 ارب ڈالر کر دیا گیا۔ جہاں تک پاکستان میں اسموگ پیدا کرنیوالے اسباب کا تعلق ہے تو ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان خصوصا لاہور میں 83.15 فیصد آلودگی ٹرانسپورٹ سے، 9.7 فیصد ناقص صنعتوں سے، 3.6 فیصد کوڑا جلانے سے پیدا ہوتی ہے۔ ملک کے بیشتر حصوں خصوصاً لاہور کراچی ملتان فیصل آباد اور یہاں تک اسلام آباد میں بھی فضائی آلودگی کے باعث آنکھوں میں جلن، سانس لینے میں دشواری، کھانسی، ناک کان گلا اور پھر پھیپھڑوں کی بیماریاں عام ہو رہی ہیں۔
الرجی کے مریضوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بدقسمتی سے اس مسئلے سے نپٹنے کیلئے سائنسی بنیادوں پر کام نہیں ہو رہا اور نہ ہی ترقی یافتہ ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ حکومت کا سارا زور اسکول بند کرنے اور لاک ڈاؤن لگانے پر ہے۔ دوسرا حملہ دکانداروں اور معیشت پر کیا جاتا ہے جبکہ تیسری بڑی وجہ کسانوں کو قرار دیا جاتا ہے جبکہ اعداد و شمار سے ظاہر ہے کہ آلودگی میں سب سے زیادہ حصہ ناقص ٹرانسپورٹ کا ہے شاید ٹرانسپورٹ مافیا اتنا طاقتور ہے کہ حکومت اسکے سامنے بے بس ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اسموگ کا موسم آنے سے پہلے ہی مناسب حفاظتی انتظامات کر لئے جاتے، دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں سڑک پر نہ آتیں، بھارتی حکومت سے بات کی جاتی اپنے عوام میں شعور پیدا کیا جاتا اور قانون اور ضابطے کے مطابق ہر قسم کی کارروائی عمل میں لائی جاتی۔ حکومتی غفلت اور عوام میں شعور کی عدم آگاہی کے باعث ہمارے شہر اب رہنے کے قابل نہیں رہے، وہاں رہنے والے مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر وقت سے پہلے ہی موت کی گھاٹی میں اتر رہے ہیں۔ جس طرح امن و امان، صحت، تعلیم جیسی دیگر سہولیات کیلئے عوام خود ہی اپنے طور پر انتظامات کر رہے ہیں اسی طرح اسموگ سے نپٹنے کیلئے بھی عوام کو خود احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہو گی۔
اسموگ سے بچاؤ کیلئے ماسک اور چشمے کا استعمال کریں۔ تمباکو نوشی کم کر دیں، گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے بند رکھیں، بازاروں گلیوں اور سڑکوں میں کچرا پھینکنے اور اسے آگ لگانے سے اجتناب کریں، جنریٹر اور زیادہ دھواں خارج کرنیوالی گاڑیاں درست کروائیں۔ حکومت کو چاہئے کہ آلودگی سے مقابلہ کرنے کیلئے عالمی معیار کے مطابق انتظامات کرے۔ ایندھن کا معیار بہتر کرے۔ گاڑیوں کے فٹنس سرٹیفکیٹ کیلئے حقیقی چیکنگ کی جائے تاکہ ہمارے شہر رہنے کے قابل بن سکیں۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
ٹیکنالوجی سے انسان کی زندگی بہتر ہوئی یا پریشانی میں اضافہ ہوا؟
بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ عصر حاضر کی جدید ٹیکنالوجی نے انسان کی صحت پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں، تاہم یہ ایک غلط خیال ہے کیونکہ ٹیکنالوجی کے دماغی صحت اور انسانی جسم پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جن سے بچنا محال ہو جاتا ہے خاص طورپر اس کا مسلسل استعمال اور روز مرہ کے کاموں میں اس پر انحصار کرنا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ٹیکنالوجی نے واقعی آپ کی زندگی کو بہتر بنایا ہے؟
ٹیکنالوجی کے نفسیات پر اثرات ٹیکنالوجی کا مسلسل استعمال اور اس پر مکمل انحصار کرنے سے نفسیات پر جلد یا بدیر نقصان دہ اثرات مرتب ہوتے ہیں جن میں سے چند کی مثال ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔
تنہائی اگرچہ جدید سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کو دیکھیں تو اس سے فاصلے تو سمٹ گئے ہیں اور باہمی روابط بھی بہتر ہو گئے ہیں تاہم حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس حوالے سے 19 سے 32 برس کے افراد پر ایک ریسرچ کی گئی جس میں یہ ثابت ہوا کہ جو افراد سماجی رابطے کی ویب سائٹ سے مسلسل جڑے رہتے ہیں وہ ان کے مقابلے میں جو اس کا کثرت سے استعمال نہیں کرتے، تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مسلسل سوشل میڈیا سے منسلک رہنے والے 73 فیصد افراد نے تصدیق کی کہ وہ عملی طور پر سماجی زندگی میں تنہائی کا شکار ہیں۔
پریشانی و ڈپریشن ریسرچ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ افراد جو مسلسل سماجی رابطے کی ویب سائٹ سے منسلک ہوتے ہیں ان میں ذہنی مسائل بڑھ جاتے ہیں جیسے بے چینی اور ڈپریشن وغیرہ۔ ماہرین نے اس حوالے سے مختلف نتائج بھی پیش کیے ہیں جن میں ایسے افراد جنہیں سماجی ویب سائٹس پر مثبت رویہ اور حوصلہ افزائی ملتی ہے ان میں پریشانی اور ڈپریشن کافی کم ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جنہیں سوشل نیٹ ورک پر حوصلہ افزائی کا سامنا نہیں ہوتا ان میں ڈپریشن کافی زیادہ ہوتا ہے۔
ڈیجیٹل ڈیمنشیا کچھ لوگ ٹیکنالوجی کی کثرت استعمال سے ڈیجیٹل ڈیمنشیا کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس طرح انہیں معلومات پر توجہ مرکوز کرنے یا یاد رکھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سائبر کونڈریا ’الیکٹرانک ہائپوکونڈریا‘ اس سے مراد حد سے زیادہ پریشانی جو کسی بھی شخص کو اس کی صحت کے بارے میں پریشانی میں مبتلا کر سکتی ہے وہ یہ کہ آن لائن اپنے طبی مسائل کے بارے میں دریافت کرنے سے صحت کے حوالے سے بے چینی میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس سے بھی ڈپریشن میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
انٹرنیٹ کے استعمال کی عادت بعض افراد اس قدر انٹرنیٹ کے استعمال کے عادی ہو جاتے ہیں کہ وہ ایک طرح سے اس کے اسیر ہو کر رہ جاتے ہیں جس سے ان کے سماجی راوبط ہی نہیں بلکہ کام بھی متاثر ہوتا ہے۔
احساس کمتری اور خود اعتمادی کا فقدان اس حوالے سے کی گئی ایک تحقیق، جو ’جے اے ایم اے‘ میگزین میں شائع ہوئی، میں کہا گیا ہے کہ وہ نوجوان جو یومیہ تین گھنٹے سے زیادہ وقت سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر گزارتے ہیں ان میں خود اعتمادی کی کمی اور احساس محرومی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
ذہنی انتشار اور اضطراری عمل اگرآپ آن لائن گیمز یا سمارٹ فون سرفنگ میں کافی وقت گزارتے ہیں تو اس صورت میں ذہنی انتشار جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ زندگی میں دیگر مسائل بھی پیش آ سکتے ہیں اور آپ کے پیشہ ورانہ شب روز بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔
توجہ کا فقدان تاہم یہ بات حتمی نہیں کہ انٹرنیٹ کے زیادہ استعمال سے پریشانی اور بے چینی میں غیرمعمولی اضافہ ہوتا ہے، تاہم جدید تحقیق میں توجہ کے فقدان کا بڑا سبب انٹرنیٹ پر زیادہ دیر گزارنے کو قرار دیا گیا ہے۔
نیند کی مشکلات بعض افراد کی یہ عادت بن جاتی ہے کہ وہ سوتے وقت اپنے ساتھ موبائل فون رکھ لیتے ہیں۔ ان کو گمان ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی میسج آئے گا یا فیس بک پر کوئی اپ ڈیٹ ہی آ سکتی ہے۔ بعض اوقات ان کا یہ عمل لاشعوری طور پر بھی ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کی نیند پرسکون نہیں ہوتی اور وہ سوتے ہوئے بھی ذہنی طور پر اضطراب کا شکار رہتے ہیں۔ نیند میں دشواری کا دوسرا سبب ’بلو ریز‘ یعنی نیلی روشنی ہوتی ہے جو سمارٹ فون کی سکرین سے خارج ہوتی ہے۔ یہ بھی نیند میں دشواری کا باعث ہو سکتی ہے۔ اس کی وجہ سے میلاٹوئین نامی ہارمونز کا اخراج متاثر ہوتا ہے اور یہ شعاعیں جسمانی اعضا کو بھی متاثر کرنے کا سبب ہو سکتی ہیں۔ ایک مطالعے کے مطابق گذشتہ 50 برسوں سے بالغ افراد کی نیند کا اوسط دورانیہ آٹھ گھنٹے ہوتا ہے جس میں اب کمی دیکھنے میں آ رہی ہے اور آج کے وقت میں یہ سات گھنٹے ہو گیا ہے اور یہ ��مل یقینی طور پر جسمانی صحت پر اثرانداز ہوتا ہے۔
جسم پر ٹیکنالوجی کے اثرات صرف نفسیاتی صحت ہی ٹیکنالوجی کے مضر اثرات کی زد میں نہیں رہتی بلکہ جسمانی صحت کو بھی اس جدید ٹیکنالوجی کے غیرضروری استعمال سے خطرات کا سامنا رہتا ہے۔ اس بارے میں بعض مثالیں ذیل میں دی جا رہی ہیں جو جسمانی صحت کے حوالے سے ہیں۔
1 ۔ آنکھوں پر دباؤ سمارٹ فونز، لیپ ٹاپ، ٹیبلیٹ یا کمپیوٹر کا مسلسل استعمال کرنے والوں کو آنکھوں میں جلن، خشکی اور دباؤ کے علاوہ سر، گردن اور کندھوں میں درد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے آنکھوں پر پڑنے والے دباؤ کے بعض عوامل کی ذیل میں نشاندہی کی جا رہی ہے۔ ۔ وہ وقت جو سکرین کے سامنے گزارتے ہیں ۔ سکرین کی تیز روشنی ۔ آنکھوں سے سکرین کا غیرمناسب فاصلہ ۔ آنکھوں کے مسائل کا پہلے سے شکار ہونا اس لیے آنکھوں پر ٹیکنالوجی کے استعمال کے دباؤ کو کم کرنے اور انہیں بار بار ہونے والی تکلیف سے بچانے کے لیے بیس بیس کی مشق پر عمل کیا جانا چاہیے۔ یہ مشق خاص طور پر ان لوگوں کے لیے کارآمد ہوتی ہے جو طویل دورانیہ تک سمارٹ ڈیوائسز کا استعمال کرتے ہیں۔
2 ۔ غلط نشست اکثر لوگ سکرین کے سامنے غلط طریقے سے بیٹھتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بیشتر افراد کے کمپیوٹر کی سکرین نیچے کی جانب ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کی گردن اور ریڑھ کی ہڈی پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ بہتر ہے کہ وہ افراد جو زیادہ دیر تک ڈیسک پر بیٹھ کر کمپیوٹر پر کام کرتے ہیں وہ ہر تھوڑی دیر بعد اٹھ جائیں اور اعضا کو حرکت دیں تاکہ جسم پر پڑنے والے دباؤ کو کم کیا جاسکے۔ 3 ۔ جسمانی حرکت یا عمل میں کمی یہاں خطرے کی گھنٹی آپ کو متنبہ کرتی ہے کیونکہ زیادہ دیر تک بغیر جسمانی حرکت کے ایک ہی جگہ بیٹھے رہنے سے مختلف نوعیت کی جسمانی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جن میں موٹاپا، دل اور شریانوں کے امراض اور شوگر یا دوسرے درجے کی ذیابیطیس شامل ہے۔
ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے کس طرح اپنی نفسیاتی اور جسمانی صحت کو برقرار رکھا جائے؟ جدید ٹیکنالوجی کے منفی اثرات کا مقابلہ دانش مندی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ذیل میں چند تجاویز بیان کی جا رہی ہیں۔ ۔ ایسی کسی بھی ایپلی کیشن اور دوستوں کو ڈیلیٹ کر دیں جن سے رابطے پر آپ کو اداسی کا سامنا کرنا پڑے۔ ۔ ای میل پر ایسی اپ ڈیٹس کو بلاک کر دیں جو آپ کے لیے غیرضروری ہوں، جتنی کم میلز ہوں گی اتنا ہی بہتر ہو گا۔ ۔ نوٹیفکیشن ساؤنڈ کو آف کر دیں جب آپ کو اس کی ضرورت نہ ہو۔ ۔ دن کا کچھ وقت ڈیجیٹل ڈیوائسز سے دور رہیں۔ ۔ سونے سے کم از کم ایک گھنٹہ قبل اپنی تمام ڈیجیٹل ڈیوائسز کو آف کر دیں جس سے آپ پرسکون نیند حاصل کر سکیں گے۔
بشکریہ اردو نیوز
0 notes
Text
میسٹربیشن یا خود لذتی کے بارے میں سائنس اور ماہرین صحت کیا کہتے ہیں؟
http://dlvr.it/Sq1KBs
0 notes