#مئی
Explore tagged Tumblr posts
Text
بانی پی ٹی آئی نو مئی کے 8 مقدمات میں قصوروار قرار
(24 نیوز )بانی و سابق چیئر مین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی )کو 9مئی کے 8 مقدمات میں قصوروار قراردیدیا گیا ۔ ہنگامہ آرائی کے وقت زیر حراست ہونے کی دلیل بے وزن قرار،اے ٹی سی جج نے 9مئی کیس میں 6 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا،فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پراسکیوشن کے مطابق بانی پی ٹی آئی نے ملٹری تنصیبات پر حملوں کی ہدایت کی، بانی پی ٹی آئی کی ہدایت پر کارکنوں ، رہنماؤں نے عمل کیا، پولیس کے…
0 notes
Text
خیبرپختونخوا حکومت کا یکم مئی سے گندم خریدنے کا فیصلہ، سرکاری قیمت کتنی مقرر کی گئی؟ جانیے
پشاور(ڈیلی پاکستان آن لائن)خیبرپختونخوا حکومت نے یکم مئی سے 3لاکھ میٹرک ٹن مقامی گندم خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق محکمہ خوراک نے کہاہے کہ گندم خریداری کی قیمت 3900روپے فی من مقرر کی گئی،گندم خریداری کیلئے حکومت نے 29ارب روپے جاری کردیئے، محکمہ خوراک کا مزید کہناتھا کہ ضرورت پڑنے پر 3لاکھ میٹرک ٹن اضافی گندم خریدی جا سکتی ہے،مقامی سطح پر گندم خریداری سے حکومت کو 9ارب…
0 notes
Text
عام انتخابات اور عوامی لاتعلقی
عام انتخابات کے انعقاد میں گنتی کے دن باقی ہیں لیکن سوشل میڈیا کے علاوہ گراؤنڈ پر عام انتخابات کا ماحول بنتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ کسی بڑی سیاسی جماعت کو جلسے کرنے کی جرات نہیں ہو رہی اور اگر کوئی بڑا سیاسی لیڈر جلسہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے عوامی سرد مہری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور میاں نواز شریف جیسا سینئر سیاستدان اپنی تقریر 20 منٹ میں سمیٹتے ہوئے وہاں سے نکل جانے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ اگرچہ بعض جگہوں پر بلاول بھٹو اور مریم نواز جلسے منعقد کر رہے ہیں لیکن وہاں کی رونق ماضی کے انتخابی جلسوں سے یکسر مختلف ہے۔ پاکستان کا مقبول ترین سیاسی لیڈر اس وقت پابند سلاسل ہے اور اس کی جماعت کو جلسے کرنے کی اجازت نہیں جبکہ عوام اسی کی بات سننا چاہتے ہیں۔ جبکہ جنہیں 'آزاد چھوڑ دیا گیا ہے انہیں جلسے کرنے کی آزادی تو ہے لیکن عوام ان کی بات پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں۔ کراچی سے لے کر خیبر تک سنسان انتخابی ماحول ہے تقریریں ہیں کہ بے روح اور عوام ہیں کہ لا تعلق۔
اس لاتعلقی کی متعدد وجوہات ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تحریک انصاف کے خلاف جاری کریک ڈاؤن ہے۔ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کر دیا اور ان کے نامزد امیدواروں کو بغیر نشان کے انتخابات لڑنے پر مجبور کیا گیا۔ ایک مرتبہ پھر وہی عمل دہرایا گیا جو 2017 میں میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کے ساتھ کیا گیا تھا۔عمران خان اور ان کے اہم ساتھی مقدمات کی وجہ سے سلاخوں کے پیچھے ہیں اور وہ 9 مئی سمیت متعدد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان اقدامات نے نہ صرف انتخابات کو متنازع بنا دیا ہے بلکہ انہیں عوام سے بھی دور کر دیا ہے۔ دوسری بڑی وجہ گزشتہ دو سال سے جاری شدید معاشی بحران ہے۔ شہباز حکومت نے عوام کی بنیادی استعمال کی چیزوں اور اشیاء خورد و نوش عوام کی پہنچ سے دور کر دیے تھے اور ان اقدامات کا نتیجہ یہ ہے کہ عام آدمی بجلی کا بل بھی ادا کرنے سے قاصر ہے۔ بیشتر عوام اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے میں مصروف ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ انتخابات ہوتے ہیں یا نہیں اگلی حکومت کون بناتا ہے، حکومت کا اتحادی کون کون ہو گا اور اپوزیشن کس کا مقدر ٹھہرے گی۔
انہیں تو اس بات سے غرض ہے کہ ان کے بچے کھانا کھا سکیں گے یا نہیں، وہ اپنے بچوں کی فیسیں ادا کر سکیں گے یا نہیں۔ شہباز حکومت کے اقدامات کے باعث آج معیشت اوندھے منہ پڑی ہے۔ ملازم پیشہ افراد اپنی ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے ایک سے زائد جگہوں پر ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں۔ کاروباری طبقہ جو پہلے ہی بے ہنگم ٹیکسوں کی وجہ سے دباؤ کا شکار تھا عوام کی کمزور ہوتی معاشی حالت نے اس کی کمر بھی توڑ کے رکھ دی ہے۔ مالی بد انتظامی اور سیاسی عدم استحکام نے معیشت کی ڈوبتی کشتی پر بوجھ میں اضافہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ معاشی دلدل میں دھنستی جا رہی ہے جس کے براہ راست اثرات عوام پر منتقل ہو رہے ہیں۔ نگراں حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی ہے لیکن بدانتظامی کے باعث اس کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ رہے۔ ذرائع نقل و حمل کے کرایوں میں کمی نہیں آئی نہ ہی بازار میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ جس کے باعث عوامی بیزاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو انہیں انتخابات اور انتخابی عمل سے دور کر رہا ہے۔
میری دانست میں اس کی تیسری بڑی وجہ ریاستی اداروں اور عام آدمی کے مابین اعتماد کا فقدان ہے عوام اس بات پر توجہ ہی نہیں دے رہے کہ آٹھ فروری کے ��نتخابات میں کون سی جماعت زیادہ نشستیں حاصل کرے گی کیونکہ ایک تاثر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آپ جس کو چاہیں ووٹ دیں ایک مخصوص سیاسی جماعت کو ہی اقتدار کے منصب پر فائز کیا جائے گا۔ اس عدم اعتماد کے باعث بھی عوام اس انتخابی مشق سے لا تعلق نظر آتے ہیں۔ رہی سہی کسر الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کی گئی ووٹر لسٹوں نے پوری کر دی ہے۔ ان ووٹر لسٹوں میں بد انتظامی اور نالائقیوں کے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کے ووٹ ماضی میں قائم کردہ پولنگ اسٹیشن پر موجود ہیں۔ ووٹر لسٹوں میں غلطیوں کی بھرمار ہے، ایک وارڈ کے ووٹ دوسرے وارڈ کے پولنگ اسٹیشن پر شفٹ کر دیے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کا سسٹم ابھی سے بیٹھ گیا ہے اور مخصوص نمبر پر کیے گئے میسج کا جواب ہی موصول نہیں ہوتا۔
ووٹر لسٹیں جاری ہونے کے بعد امیدواروں اور ان کے انتخابی ایجنٹوں میں عجیب بے چینی اور مایوسی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ شہروں میں ووٹر لسٹوں کی یہ کیفیت ہے تو دیہات میں کیا حال ہو گا۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ روزانہ انتخابات کے حوالے سے نت نئی افواہوں کا طوفان آ جاتا ہے جو امیدواروں کو بددل کرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں غیر یقینی کی کیفیت پختہ کر دیتا ہے۔ اور پھر یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر ایک مخصوص گروہ کو انجینئرنگ کے ذریعے اقتدار پر مسلط کر بھی دیا گیا تو کیا وہ عوام کے دکھوں کا مداوا کر بھی سکے گا؟ عوام کی مشکلات کم کرنے کے لیے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کی اشد ضرورت ہے جس میں تمام جماعتوں کو انتخاب میں حصہ لینے کے مساوی مواقع میسر ہوں اور ساتھ ساتھ ووٹر لسٹوں میں پائی جانے والی غلطیوں بے ضابطگیوں اور نالائقیوں کے مرتکب افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔عوام کو ان کے جمہوری حق کے استعمال سے محروم کرنے کی سازش اگر کامیاب ہو گئی تو یہ ملک کے جمہوری نظام کے لیے اچھا شگون نہیں ہو گا۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
#Imran Khan#Pakistan#Pakistan Election 2024#Pakistan Politics#Pakistan Tehreek-e-Insaf#Politics#PTI#World
4 notes
·
View notes
Text
ترکیہ اسرائیل تجارتی تعلقات منقطع
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا میں ہونے والی پیش رفت پر ترکیہ کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑی۔ سوویت یونین کے خطرے نے ترکیہ کو مغربی بلاک کے بہت قریب کر دیا اور اس دوران ترکیہ نے نیٹو میں شمولیت کی اپنی تیاریاں شروع کر دیں۔ ترکیہ نے 14 مئی 1948 کو قائم ہونے والی ریاست اسرائیل کو فوری طور پر تسلیم نہ کیا اور’’انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پالیسی پر عمل کیا۔ ترکیہ نے 1948-1949 کی عرب اسرائیل جنگ میں بھی غیر جانبدار رہنے کا انتخاب کیا، جو اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد شروع ہوئی تھی۔ تقریباً ایک سال بعد 24 مارچ 1949 کو ترکیہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا اسلامی ملک بن گیا اور ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی تعلقات کی بنیادیں اس دور میں رکھی گئیں۔ ایردوان کے دور میں کئی بار اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بڑے پیمانے پر کشیدگی بھی دیکھی گئی اور دونوں ممالک نےکئی بار سفیر کی سطح کے تعلقات کو نچلی سطح پر جاری رکھنے کو ترجیح دی۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران ترکیہ پر اسرائیل کو اسلحہ فروخت کرنے کا الزام لگایا گیا جس پر ترکیہ نے ان تمام الزامات کو یکسر مسترد کر دیا۔ ترکیہ اس وقت تک غزہ کو امداد فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
گزشتہ ہفتے نماز جمعہ کے بعد صدر ایردوان نے اسرائیل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے درمیان اس وقت 9.5 بلین ڈالر کا تجارتی حجم موجود ہے۔ اس سے اگرچہ ترکیہ کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے لیکن یہ منفی اثرات غزہ پر معصوم انسانوں کی نسل کشی کے سامنے ہمارے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس طرح ترکیہ نے پہلی بار اسرائیل پر تجارتی پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترکیہ کی وزارتِ تجارت نے اپنے بیان میں کہا کہ جب تک غزہ میں جنگ بندی کا اعلان نہیں کیا جاتا اسرائیل کیلئے 54 مختلف کٹیگریز سے مصنوعات کی برآمدات پر پابندی ہو گی اور پابندی کا اطلاق فوری طور پر ہو گا۔ ترکیہ کا یہ اعلان اسرائیل کی جانب سے ایئر ڈراپ یعنی فضا کے ذریعے امداد میں حصہ لینے کی ترکیہ کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد سامنے آیا ہے۔ ترکیہ کے شماریاتی ادارے (TUIK) کے اعداد و شمار کے مطابق، 2023 میں اسرائیل کو ترکیہ کی برآمدات 5.2 بلین ڈالر تھیں، اور اسرائیل سے اس کی درآمدات 1.6 بلین ڈالر تھیں۔ اس ایک سال کی مدت کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم تقریباً 6.8 بلین ڈالر تھا اور ترکیہ، اسرائیل کے ساتھ اپنی برآمدات کی فہرست میں 13 ویں نمبر پر ہے۔
اسرائیل پر لگائی جانے والی تجارتی پابندیوں کے بعد ترکیہ کے وزیر خارجہ حقان فیدان نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے ظلم و ستم کے باوجود وہ جوابدہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے اب تک کسی قسم کی سزا کا سامنا کرنا پڑا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ پوری امت کا فرض ہے کہ وہ فلسطینیوں کے دفاع کیلئے صف بندی کرے۔ یہ ہمارا امتحان ہے ہمیں ثابت کرنا چاہیے کہ ہم متحد ہو سکتے ہیں۔ ہمیں یہ دکھانا چاہیے کہ اسلامی دنیا سفارتی ذرائع سے اور جب ضروری ہو، زبردستی اقدامات کے ذریعے نتائج حاصل کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبضے کے خلاف مزاحمت اب اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ نہیں ہے، بلکہ پوری دنیا کے ظالموں اور مظلوموں کے درمیان لڑائی ہے۔ وزیر خارجہ فیدان نے کہا کہ اگر ہم نے (غزہ میں) اس سانحے سے سبق نہ سیکھا اور ��و ریاستی حل کی طرف گامزن نہ ہوئے تو یہ غزہ کی آخری جنگ نہیں ہو گی بلکہ مزید جنگیں اور آنسو ہمارے منتظر ہوں گے۔ ہمیں اسرائیل کو 1967 کی سرحدوں کو قبول کرنے پر مجبور کرنا ہو گا۔
حماس سمیت تمام فلسطینی 1967 کی بنیاد پر قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ نے دو ریاستی حل کیلئے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں اور عالم اسلام اب فلسطین کے مسئلے پر اتحاد کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ یکم مئی کو ترکیہ نے جنوبی افریقہ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں دائر کردہ نسل کشی کے مقدمے میں مداخلت کرنے کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا اور اس بات پر زور دیا کہ وہ تمام ممکنہ سفارتی ذرائع استعمال کرے گا اور اسرائیل کو روکنے کیلئے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔ ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کرنے کے حوالے سے انقرہ میں فلسطینی سفیر مصطفیٰ نے کہا کہ ترکی کا یہ فیصلہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی ریاست پر اثر انداز ہونے کی جانب ایک عملی قدم کی نمائندگی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’ ترکیہ نے یہ فیصلہ 9 اپریل تک غزہ کو ہوائی جہاز کے ذریعے انسانی امداد بھیجنے کی کوشش کو روکنے کے بعد کیا تھا اور 2 مئی کو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کر دیا گیا ہے۔
اس فیصلے پر اس وقت تک عمل درآمد ہوتے رہنا چاہیے جب تک غزہ کیلئے انسانی امداد کی بلاتعطل رسائی کیاجازت نہ مل جائے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ اسرائیل کے حملے شروع ہونے کے وقت سے ہی غزہ کی پٹی میں فیلڈ ہسپتال تیار کررہا تھا اور ضروری سازو سامان العریش ہوائی اڈے اور بندرگاہ پر پہنچادیا گیا تھا لیکن اسرائیل نے ان آلات کو غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اور ترکی کو فیلڈ ہسپتال بنانے کی اجازت نہیں دی بلکہ غزہ کی پٹی میں قائم واحد کینسر ہسپتال، جسے ترکیہ نے قائم کیا کیا تھا، کو بھی تباہ کر دیا ۔
ڈاکٹر فرقان حمید
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes
·
View notes
Text
گر یہی ہے ستم یار تو ہم نے حسرتؔ
نہ کیا کچھ بھی جو دنیا سے کنارا نہ کیا
آج - 13؍مئی 1951
مولاناحسرتؔ_موہانی صاحب کا یومِ وفات...
#اردو
#Urdu_Poetry_Lover
2 notes
·
View notes
Text
😭__*(ماں کی یاد)*___😭
*اشکِ خون بہانے دو*
*ماں کی یاد منانے دو*
*آنکھیں روشن رہتی ہیں*
*غم کے دیپ جلانے دو*
*دل کی قوّت ہیں آنکھیں*
*جسم پہ جیسے شانے دو*
*عادی ہوں میں زخموں کا*
*دل پہ زخم سجانے دو*
*پیار ہے ماں کی یادوں میں*
*ماں کی یاد ستانے دو*
*آنکھ سے دریا پھوٹے گا*
*قطرۂ یاد سمانے دو*
*شعلۂ اشک میں، چہرہ ہو*
*آگ میں برف جمانے دو*
*مشکل میں، تعویذِ لحد*
*باہوں میں رہ جانے دو*
*قبر میں ماں سوئی ہے شفیع*
*پہلو میں سو جانے دو*
__________________________________
از قلم اشک😭
شفیع رضوی بھیک پوری/قم ایران
12 مئی 2023 بروز جمعہ (شب)
5 notes
·
View notes
Text
عمران احمد خان نیازی
پلان کیا تھا؟ تجزیہ: 14 مئی سے پہلے عمران خان سمیت تمام تحریک انصاف لیڈرشپ اور ورکرز، اور ڈیجٹل میڈیا کے بڑے صحافیوں کو جیلوں میں بند کرنا تھا اور تیس سے نوے دن تک باہر نہیں آنے دینا تھا. سافٹ ایمرجنسی لگاکر فوج شہروں میں اتاری جائے، طاقت سے احتجاج روکیں اور مکمل کنٹرول کریں.لیکن وہ ہوا جو یہ طاقتور سوچ نہ سکے، صرف ورکرز نہی بلکہ عوام کی بڑی تعداد اور خصوصاً نوجوان لڑکے اورخواتین تمام خطروں کے…
View On WordPress
6 notes
·
View notes
Text
تحریک انصاف کی قیادت عمران خان پر حملہ آور کیوں ہو گئی؟
معروف صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی نے کہا ہے کہ 9 مئی کے افسوسناک واقعات میں ملوث مجرموں کی فوجی عدالتوں سے معافی اور رہائی کے بعد تحریک انصاف کی قیادت نے انکا استقبال کر کے جو غیر ذمہ دارانہ حرکت کی ہے اس سے عمران خان اور ان کی جماعت کے لیے آسانیاں نہیں بلکہ مذید مشکلات پیدا ہوں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ حرکت خود پر خودکش حملہ کرنے کے مترادف ہے۔ اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں انصار عباسی کہتے ہیں کہ…
0 notes
Text
پاکستان کا میزائل پروگرام نشانے پر؟
پاکستان کا میزائل پروگرام ایک مرتبہ پھر عالمی میڈیا کی زینت ہے۔ ان خبروں میں تیزی اس وقت آئی جب امریکی تھنک ٹینک کارنیگی انڈاؤمنٹ کے زیرِاہتمام ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے، چند ہفتوں کے مہمان امریکی صدر جو بائیڈن کے قومی سلامتی کے نائب مشیر جان فائنر کا کہنا تھا کہ پاکستان نے لانگ رینج میزائل سسٹم اور ایسے دیگر ہتھیار بنا لئے ہیں جو اسے بڑی راکٹ موٹرز کے (ذریعے) تجربات کرنے کی صلاحیت دیتے ہیں۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کر ڈالا کہ اس میزائل سسٹم سے امریکہ کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ جبکہ عالمی سیاست سے معمولی واقفیت رکھنے والا شخص یہ جانتا ہے کہ پاکستان کا ایٹمی یا میزائل پروگرام صرف اور صرف بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم سے بچنے کیلئے ترتیب دیا گیا ہے۔ مذکورہ بیان اس وقت دیا گیا جب امریکہ میں انتقال اقتدار کا مرحلہ مکمل کیا جا رہا ہے۔ عالمی تجزیہ کاروں کے مطابق بھارتی لابی، بائیڈن انتظامیہ میں کافی موثر تھی اس نے دم توڑتی حکومت سے بیان دلوا کر پاکستان پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی ہے جبکہ پینٹاگون کے ترجمان نے اس بیان سے فاصلہ اختیار کیا ہے جسکا واضح مطلب ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ اس بیان کیساتھ کھڑی نظر نہیں ا ٓرہی۔
دنیا کے جغرافیہ پر نظر دوڑائی جائے تو پاکستان اپنی نوعیت کا واحد ملک ہے جس کے ہمسائے میں ایک ایسا ملک موجود ہے جو ہر وقت اسے عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازشوں میں مصروف رہتا ہے۔ بھارت نے روز اول سے پاکستان کا وجود تسلیم نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ بھارت جیسے مکار دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے ریاست پاکستان 1947ء سے لیکر آج تک مختلف اقدامات کرتی رہی ہے لیکن ان سارے اقدامات کا مطمح نظر اپنا دفاع اور اپنی جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ ہوتا ہے۔ عالمی امن کیساتھ پاکستان کی کمٹمنٹ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی وزیراعظم محمد علی بوگرا نے امریکی صدر آئزن ہاور کیساتھ ایک ایسے معاہدے پر دستخط کئے تھے جس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ پاکستان اپنا ایٹمی پروگرام پرامن رکھے گا۔ لیکن جب بھارت کی جانب سے توسیع پسندانہ عزائم سامنے آئے تو پاکستان بھی اپنا حق دفاع استعمال کرنے پر مجبور ہوا۔
پاکستان نے اپنا جوہری پروگرام 1970ء کی دہائی میں شروع کیا اور پھر مسلسل اس پر کام جاری ہے۔ 1974 ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کر کے اس دوڑ میں پہل کی پاکستان نے طویل عرصہ کے بعد 1998ء میں ایٹمی دھماکے کر کے بھارتی منصوبوں کا جواب دیا۔ اسی طرح پاکستان کا ایٹمی میزائل بھی پرامن مقاصد کیلئے ہے۔ آج پاکستان نہ صرف ایک جوہری طاقت ہے بلکہ اسکے جوہری میزائل دنیا میں بہترین مانے جاتے ہیں۔ پاکستان کا 37 میل (60 کلومیٹر) تک مار کرنیوالا ’نصر‘ نامی ٹیکٹکل میزائل ایک ایسا جوہری میزائل ہے، جو دنیا بھر میں اہمیت تسلیم کروا چکا ہے۔ حتف میزائل ایک ملٹی ٹیوب بلیسٹک میزائل ہے، یعنی لانچ کرنیوالی وہیکل سے ایک سے زائد میزائل داغے جا سکتے ہیں۔ غزنوی ہائپر سانک میزائل ہے، جو زمین سے زمین تک مار کرتا ہے جبکہ اسکی رینج 290 کلومیٹر تک ہے۔ ابدالی بھی سوپر سانک زمین سے زمین تک مار کرنیوالا میزائل ہے جبکہ اسکی رینج 180 سے 200 کلومیٹر تک ہے۔ غوری میزائل میڈیم رینج کا میزائل ہے، جو زمین سے زمین تک مار کرتا ہے اور 700 کلوگرام وزن اٹھا کر 1500 کلومیٹر تک جا سکتا ہے۔
شاہین I بھی ایک سپر سانک زمین سے زمین تک مار کرنیوالا بلیسٹک میزائل ہے، جو 750 کلومیٹر تک روایتی اور جوہری مواد لے جاسکتا ہے۔ غوری II ایک میڈیم رینج بلیسٹک میزائل ہے، جسکی رینج 2000 کلومیٹر ہے۔ شاہین II زمینی بلیسٹک سپر سانک میزائل ہے، جو زمین سے زمین تک مار کر سکتا ہے اور اسکی رینج بھی 2000 کلومیٹر ہے۔ شاہین III میزائل 9 مارچ 2015ء کو ٹیسٹ کیا گیا۔ اسکی پہنچ 2750 کلومیٹر تک ہے اور اسکی بدولت پاکستان کا ہر دشمن اب رینج میں آ گیا ہے۔ پاکستان نے زمین سے زمین پر مار کرنیوالے بیلسٹک میزائل غزنوی کا کامیاب تجربہ کیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق غزنوی میزائل کا تجربہ رات میں کیا گیا اور رات کے وقت میزائل داغنے کی کامیاب تربیتی مشق کی گئی۔ اسی طرح ابابیل میزائل نظام پاکستان کے دفاعی نظام کا ایک اہم جزو ہے۔ مئی 2016ء میں بھارت نے اسرائیل کی مدد سے ’آشون بیلسٹک میزائل شکن نظام‘ کا تجربہ کیا جسکا مقصد بھارتی فضائوں کے اندر بھارتی تنصیبات اور اہم مقامات کے گرد ایسا دفاعی نظام تشکیل دینا تھا، جسکے ذریعے اس طرف آنیوالے پاکستانی میزائلوں کو فضا میں ہی تباہ کیا جا سکے۔
اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے پاکستان نے کثیر الاہداف میزائل نظام پر کام شروع کیا۔ ابابیل میزائل نظام ایک وقت میں کئی ایٹم بم لے جاسکتا ہے، ایک خاص بلندی پر پہنچ کر یہ وقفے وقفے سے ایٹم بم گراتا ہے، ہرایٹم بم کا ہدف مختلف ہوتا ہے۔ گویا اس پر نصب ایٹم بم ایسے اسمارٹ ایٹم بم ہوتے ہیں، جومطلوبہ بلندی سے گرائے جانے کے بعد نہ صرف اپنے اہداف کی جانب آزادانہ طور بڑھتے ہیں بلکہ میزائل شکن نظام کو چکمہ دینے کیلئے ’’مصنوعی ذہانت‘‘ سے آگے بڑھتے ہیں۔ یہ ایسی صلاحیت ہے جو صرف امریکا، برطانیہ، روس، چین اور فرانس کے پاس ہے۔ پاکستان اس ٹیکنالوجی کا حامل دنیا کا چھٹا ملک ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کہیں زیادہ ایٹمی صلاحیت کا مالک ہے۔ اسکی ایٹمی آبدوزوں کا نظام پوری دنیا کی سلامتی کیلئے خطرہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا پاکستان کی جغرافیائی نزاکتوں کو سمجھے۔ پاکستان پر پابندی کے بجائے بھارت کو سمجھائے کہ وہ عالمی امن سے کھلواڑ بند کرے۔ پاکستان کسی بھی آزاد ریاست کی طرح اپنا حق دفاع استعمال کرتا رہیگا اور اپنی سلامتی کیلئے اقدامات جاری رکھے گا۔ اس معاملہ پر پوری قوم یکسو ہے۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
عمران خان کا آخری کارڈ
تحریک انصاف کی تقریباً پوری قیادت حیران ہے کہ جیل میں قید اُن کے رہنما اور بانی چیئرمین نے اب یہ کیا اعلان کر دیا ہے۔ بغیر کسی سے مشاورت کیے عمران خان نے سول نافرمانی کا اعلان سوشل میٖڈیا کے ذریعے کر دیا اور پہلے مرحلے میں اگر اُن کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ بیرون ملک پاکستانیوں سے اپیل کریں گے کہ وہ پاکستان پیسے بھیجنا یعنی ترسیلات زر کو محدود کر دیں اور بائیکاٹ مہم چلائیں۔ اُنہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ دوسرے مرحلے میں اس سے بھی آگے جائیں گے۔ دو مطالبات جو عمران خان نے حکومت کے سامنے رکھے، اُن میں ایک مطالبہ یہ ہے کہ انڈر ٹرائل سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے جبکہ دوسرا مطالبہ ہے کہ 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی شفاف تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ ان مطالبات کے ماننے کیلئے عمران خان نے 14 دسمبر تک کا وقت بھی دے دیا۔ تحریک انصاف کے کسی رہنما سے مشاورت کیے بغیر اس اعلان پر پارٹی رہنما پریشان ہیں کہ خان صاحب نے یہ پھر کیا کر دیا۔ ایک تو گلہ یہ تھا کہ اتنا اہم اعلان کیا گیا اور بغیر کسی کی مشاورت اور بغیر کسی کو بتائے اور دوسرا ان رہنمائوں کا تقریباً اس بات پر اتفاق تھا کہ سول نافرمانی کی جس تحریک کا عمران خان نے اعلان کر دیا اُس پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا اور ماضی کی طرح سول نافرمانی کی یہ تحریک بھی ناکام ہی ہو گی۔
عمران خان نے سوچا ہو گا کہ اُن کے اعلان کے بعد بیرون ملک بسنے والے پاکستانی پیسہ بھیجنا کم کر دیں گے جس سے پاکستان کی ترسیلات زر میں کمی ہو گی اور یوں ملک معاشی مشکلات کا شکار ہو گا جس سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے مطالبات ماننے پر مجبور ہو جائیں گی۔ ترسیلات زر کا تعلق اُن اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ ہے جو ہر ماہ یا کچھ عرصہ کے بعد پاکستان میں بسنے والے اپنے بیوی بچوں، ماں باپ یا خاندان کے دوسرے افراد اور رشتہ داروں کو خرچہ بھیجتے ہیں۔ اب اگر عمران خان یہ چاہتے ہیں کہ باہر کام کیلئے جانے والوں کی بڑی تعداد یا بیرون ملک بسنے والے پاکستانی اپنے بیوی بچوں، ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں کو بھیجا جانے والا خرچہ کم کر دیں تو ایسا تو ممکن نہیں ۔ نہ ہی کوئی اور اوورسیز پاکستانی جو یہاں اپنے لیے زمین اور گھر بنانا چاہ رہا ہے یا کوئی کاروبار کرنا چاہ رہا ہے وہ عمران خان کی بات سنے گا۔ ویسے جن اوورسیز پاکستانیوں خصوصاً امریکا، برطانیہ اور یورپ میں بسنے والے، جن کے پاس بہت پیسہ ہے وہ زیادہ تر اپنا پیسہ ملک سے باہر ہی رکھتے ہیں۔
عمران خان نے اپنی حکومت کے دوران ایسے پاکستانیوں سے توقع لگائی تھی کہ وہ اپنا پیسہ پاکستان لے کر آئیں گے۔ مراد سعید نے تو کہا تھا کہ بیرون ملک رہنے ��الے عمران خان کی حکومت میں اتنا پیسہ لائیں گے کہ سو ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ اُن کے منہ پر ماریں گے۔ یہ بھی توقع تھی کہ جب عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہو گا تو بیرون ملک سے ترسیلات زر میں کمی ہو گی لیکن اس کے برعکس ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں کا ��ھی یہی خیال ہے کہ نہ تو اوورسیز پاکستانی پاکستان پیسہ بھیجنا بند کریں گے اور نہ ہی یہاں رہنے والے اپنے بجلی اور گیس کے بل جلائیں گے کیوں کہ ایسا نہ 2014 میں ہوا نہ اب ممکن ہے۔ ذرائع کے مطابق پارٹی رہنمائوں نے اپنی مشاورت کے دوران یہ بھی کہا کہ بجلی و گیس کے بل نہ دینا تو پارٹی رہنما ئوں کیلئے بھی ممکن نہیں ہو گا۔ 2014 کے دھرنے کے دوران عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کیا، بجلی گیس کے بل جلائے اور عوام سے مطالبہ کیا کہ اس تحریک میں بھرپور حصہ ڈالیں لیکن بنی گالہ کے اپنے گھر کے بل جمع کرا دیے۔ وہ تحریک بھی ناکام ہوئی اور اب بھی ایسی کسی تحریک کا نتیجہ مختلف نہیں ہو گا۔ اب پارٹی رہنما عمران خان کو سمجھانے اور اس اعلان کو واپس لینے کیلئے جیل میں اُن سے ملاقات کریں گے۔ خان صاحب مانتے ہیں کہ نہیں اس کا کسی کو کوئی اندازہ نہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ عمران خان نے یہ اپنا آخری کارڈ کھیلا ہے۔ یہ جو بھی ہے عمران خان اپنا نقصان کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
جمادی الثانیہ 21ھ/ مئی 641ء میں سپہ سالار اسلام حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ نے وفات پائی۔
0 notes
Text
9 مئی کے 4 مقدمات عمران خان کی ضمانتیں منظوری کرنے کا تحریری فیصلہ جاری
(24نیوز)لاہور کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی 9 مئی کے 4 مقدمات میں ضمانتیں منظور کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا،اے ٹی سی کے جج ارشد جاوید نے 5 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریکارڈ کے مطابق بانی پی ٹی آئی ان مقدمات میں نامزد نہیں تھے، ان کو ضمنی بیان کی روشنی میں نامزد کیا گیا، انہوں نے مبینہ واردات کیلئے مجرمانہ سازش کی حوصلہ افزائی…
0 notes
Text
مذاکرات کی کامیابی کیلئے شرط
شہباز شریف حکومت نے تحریک انصاف سے مذاکرات کیلئے حکومتی اتحاد کے اراکین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ یہ بہت مثبت اقدام ہے اور اب امید کی جا سکتی ہے کہ تحریک انصاف کو ایک موقع ملے گا کہ وہ اپنے ماضی بالخصوص گزشتہ دو ڈھائی سال کے الزامات، انتشار، جلائو گھیرائو، فوج سے ٹکرائو، ملکی معیشت پر حملوں کی منفی سیاست کو خیرباد کہہ کر اپنے لیے پولیٹکل اسپیس پیدا کرے۔ اس منفی سیاست نے سب سے بڑا ��قصان خود تحریک انصاف کا ہی کیا اور عمران خان کیلئے مشکلات میں اضافے کا باعث بنی۔ تحریک انصاف کی بدقسمتی رہی کہ عمران خان اپنی پارٹی اور اپنے اردگرد موجود ایسے افراد کی بات سنتے رہے جنہوں نے اُن کو اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ فوج سے بھی لڑوا دیا، الزامات، جھوٹے پروپیگنڈے اور گالم گلوچ کے کلچر کو پارٹی میں تقویت دی اور بعض ایسے بھی اقدامات کیے گئے جو پاکستان کے مفاد میں نہ تھے۔ اس میں عمران خان کا قصور اس لیے زیادہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی پارٹی کے سمجھدار رہنمائوں کی بجائے جذباتی، جھوٹے اور شرارتی لوگوں کی بات زیادہ سنی اور اب پارٹی اس حال تک پہنچ چکی کہ ہر قسم کا احتجاج کر کے دیکھ لیا،
9 مئی بھی کر لیا، قومی معیشت کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع نہ چھوڑا، فوج اور فوجی قیادت کے خلاف ہر قسم کا پروپیگنڈا بھی کیا اور اب اپنے سیاسی مخالفین (جن کے ساتھ ماضی میں ہاتھ ملانا تک گوارا نہ کیا اُنہیں چور ڈاکو کے طعنے دیتے رہے) کے ساتھ مذاکرات کیلئےمنتیں ترلے کرنے پڑے۔ لیکن چلیں دیر آید درست آید۔ آخر کار عمران خان نے اپنے ایسے پارٹی رہنمائوں کی بات سن لی جو اپنے سیاسی مخالفین سے بات کرنے اور سیاست کو دشمنی میں بدلنے کے خلاف تھے اور اب حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کیلئے دونوں اطراف نے مذاکراتی کمیٹیاں تشکیل دے دی گئی ہیں۔ مجھے ویسے اب بھی ڈر ہے کہ عمران خان پھر سے کوئی ایسا کام نہ کر دیں جس سے یہ سلسلہ رک جائے۔ خان صاحب پوری کوشش کر تے رہے اور اُنہوں نے ہر حربہ بھی استعمال کر لیا کہ کسی طرح فوج سے اُن کی بات چیت ہو جائے۔ اس کوشش میں فوج اور فوجی قیادت کو دبائو میں لانے کیلئے اُن کے خلاف ہر قسم کا پروپیگنڈا بھی کیا گیا لیکن فوج نے اُن سے بات چیت کرنے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ بات کرنی ہے تو سیاسی جماعتوں کے ساتھ کریں۔
اگر ان مذاکرات کو کامیاب ہونا ہے اور اس سے تحریک انصاف نے اپنی سیاست کیلئے کوئی آسانیاں پیدا کرنی ہیں تو پھر عمران خان کو اپنے ٹیوٹر (ایکس) اکائونٹ کے ساتھ ساتھ اپنی پارٹی کے سوشل میڈیا کو الزامات، جھوٹ، انتشار اور ٹکرائو سے روکنا پڑے گا۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ عمران خان کی اصل لڑائی اسٹیبلشمنٹ سے ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ حکومتی اتحاد کے ساتھ مذاکرات کریں اور ساتھ ساتھ فوج کو ماضی کے طرح سوشل میڈیا اور اپنے بیانات کے ذریعے نشانہ بھی بناتے رہیں۔ مذاکرات کا جوبھی نتیجہ نکلے گا اور تحریک انصاف اور عمران خان کو اگر کوئی رعایت ملے گی تواس میں اسٹیبلشمنٹ کی مرضی ضرور شامل ہو گی۔اس لیے ضروری ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے، اپنی سیاست کے م��تقبل کیلئے رستہ ہموار کریں۔ اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ ان مذاکرات کے نتیجے میں موجودہ نظام میں کوئی بڑی تبدیلی آ جائے گی، عمران خان جیل سے نکل کر اقتدار کی کرسی پر آ بیٹھیں گے تو ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ سب سے اہم چیلنج اب بھی عمران خان کیلئے یہ ہے کہ وہ کس طرح اپنے سیاسی مخالفین اور اسٹیبلشمنٹ کااعتماد حاصل کریں۔ اس وقت نہ اسٹیبلشمنٹ اور نہ ہی اُن کے سیاسی مخالفین کو اُن پرذرہ برابر بھی اعتماد ہے۔ اس اعتماد کو حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پارٹی کے انتشاری ٹولے سے جان چھڑائی جائے اور پی ٹی آئی میں ایسے لوگوں کی بات کو سنا جائے جو سیاسی تدبراور قومی سوچ کے مالک ہیں اور جو جھوٹ، الزامات اور گالم گلوچ کی سیاست سے پارٹی کو صاف کرنا چاہتے ہیں۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
پی ٹی آئی کا ووٹ بینک کہاں جائے گا؟
9 مئی کو ہونے والی ہنگاموں کے ملکی سیاست پر فوری اور اہم نتائج سامنے آئے۔ 9 مئی کو ہونے والے پُرتشدد واقعات چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جاری تصادم کی ایک کڑی تھے جس کے نتیجے میں ملک بھر میں پی ٹی آئی کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوا۔ پھر یہ جماعت بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا شروع ہو گئی کیونکہ اس کے زیادہ تر رہنماؤں اور سابق اراکینِ پارلیمنٹ نے منظم عمل کے تحت پارٹی سے استعفے دینا شروع کر دیے اور یہ عمل اب بھی جاری ہے۔ تمام منحرف اراکین نے ایک ہی اسکرپٹ دہرائی جس میں انہوں نے فوجی تنصیبات پر حملے کی مذمت کی اور پارٹی کو اشتعال انگیزی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے پارٹی سے علحیدگی اختیار کی۔ حکمران اتحاد کی جانب سے چیئرمین پی ٹی آئی پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ وزرا نے خبردار کیا ہے کہ 9 مئی کے واقعات کے ’ماسٹر مائنڈ‘ ہونے کے الزام پر انہیں فوجی عدالت میں مقدمے کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جبکہ ان کی جماعت پر پابندی بھی لگائی جاسکتی ہے۔ مشکل حالات کا شکار چیئرمین پی ٹی آئی جو اب متعدد عدالتی مقدمات کا بھی سامنا کررہے ہیں، انہوں نے سختی سے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
انہوں بڑے پیمانے پر ہونے والی گرفتاریوں اور جبری اقدمات کی مذمت کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی نے یہ دعویٰ کیا کہ پارٹی رہن��اؤں کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اس کے باوجود اپنی سابقہ پوزیشن سے ڈرامائی انداز میں پیچھے ہٹتے ہوئے انہوں نے حکومت کو مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔ تاہم، وزیراعظم شہباز شریف نے ان کی اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور ان لوگوں کے ساتھ بات چیت کے امکان کو مسترد کر دیا ہے جنہیں انہوں نے ’انتشار پسند اور اشتعال پسند‘ قرار دیا جو ’سیاستانوں کا لبادہ اوڑھتے ہیں لیکن ریاستی تنصیبات پر حملہ کرتے ہیں‘۔ پی ٹی آئی کی ٹوٹ پھوٹ نے سیاسی منظرنامے کو ایک نئی شکل دینا شروع کر دی ہے۔ اگرچہ سیاسی صف بندی ممکنہ طور پر اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ انتخابات کا حتمی اعلان نہیں ہو جاتا، لیکن اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انتخابی صورت حال کیا ہو گی۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کا ووٹ بینک کہاں جائے گا؟ جہانگیر خان ترین کی جانب سے ایک ایسی پارٹی بنانے کی کوششیں جاری ہیں جو پی ٹی آئی چھوڑنے والے ’الیکٹ ایبلز‘ کو اپنی جانب متوجہ کرے اور ووٹرز کو ’تیسرا آپشن‘ مہیا کرے۔
تاہم جہانگیر ترین جیسے ایک ہوشیار سیاست دان اور متحرک کاروباری شخصیت کو اس طرح کا اہم کردار ادا کرنے کے لیے پہلے خود پر لگا نااہلی کا داغ ہٹانا ہو گا۔ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا کہ وہ پارٹی کے قیام میں کس حد تک کامیاب ہوں گے جبکہ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اگر انہوں نے پی ٹی آئی کے سابق ارکان کو شمولیت پر آمادہ کر لیا تو کیا وہ پی ٹی آئی کے ووٹرز کو بھی اپنے ساتھ لائیں گے۔ اس معاملے نے ملک کی انتخابی سیاست کو بہت زیادہ متحرک کر دیا ہے۔ پنجاب ایک ایسا میدانِ جنگ ہے جہاں سے جیتنے والی پارٹی ممکنہ طور پر وفاق میں حکومت بناتی ہے، اگر اس صوبے میں جماعتوں کے درمیان ووٹ بینک تقسیم ہو جاتا ہے تو مرکز میں کوئی بھی جماعت اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی اور ایک ایسی پارلیمنٹ وجود میں آئے گی جس میں کسی بھی پارٹی کے پاس واضح اکثریت نہیں ہو گی۔ کیا پی ٹی آئی کے ووٹرز یہ جانتے ہوئے بھی ووٹ ڈالنے آئیں گے کہ ان کی جماعت تتربتر ہو چکی ہے اور ان کے لیڈر کے خلاف قانونی مقدمات ہیں اس لیڈر کا اقتدار میں واپس آنے کا بہت کم امکان ہے؟ خاص طور پر اب جب نوجوان ووٹرز رائے دہندگان کا ایک بڑا حصہ ہیں تو اس صورتحال کا مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ پر گہرا اثر پڑے گا۔
اس بات کا امکان نہایت کم ہے کہ پی ٹی آئی کے سپورٹرز پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور مسلم لیگ (ن) جیسی دو روایتی پارٹیوں کی حمایت کرنے پر آمادہ ہوں، حالانکہ پی پی پی نے جنوبی پنجاب میں منحرف ووٹرز کو اپنی جانب راغب کیا ہے۔ آخر ان دونوں جماعتوں کو مسترد کرنے کے بعد ہی پی ٹی آئی کو لوگوں نے سپورٹ کرنا شروع کیا۔ کیا جہانگیر ترین کی نئی جماعت انہیں اپنی جانب راغب کر پائے گی؟ یہ بات بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ ماضی میں ووٹروں نے وفاداریاں تبدیل کرنے والے امیدواروں کو ووٹ دینے سے گریز کیا ہے۔ تو اگر پی ٹی آئی کا ووٹ تقسیم ہوتا ہے تو کیا اس سے روایتی جماعتوں میں سے کسی ایک کو فائدہ پہنچے گا؟ اس وقت بہت زیادہ غیر یقینی پائی جاتی ہے خاص طور پر ایسے حالات میں کہ جب حکومت کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ چونکہ پارلیمنٹ کی مدت 16 اگست کو ختم ہو رہی ہے اس لیے انتخابات میں تاخیر نہیں ہو سکتی، اس وجہ سے جب انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو گا تو انتخابی اعداد و شمار سیاسی صف بندیوں کا تعین کرنا شروع کر دیں گے اور انتخابی مقابلے کی نوعیت کے بارے میں تصویر واضح طور پر سامنے آئے گی۔
لیکن اس وقت کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے پالیسی پروگرامز یا ملک کے مستقبل کے حوالے سے وژن طے کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ ملک کو درپیش مسائل سے کیسے نمٹا جائے، اس حوالے سے کسی بھی سیاسی جماعت نے کوئی تجویز پیش نہیں کی ہے۔ سیاسی جماعتیں اقتدار کی کشمکش میں مصروف ہیں اور مستقبل کے لیے پالیسی منصوبے تیار کرنے کے بجائے اپنے سیاسی مخالفین کو زیر کرنے کی کوشش میں نظر آرہی ہیں۔ یہ غیریقینی کی صورتحال ہماری ملک کی سیاست کے لازمی جز کی طرح ہو چکی ہے۔ البتہ جو چیز یقینی ہے وہ ہے ہماری معیشت کا عدم استحکام۔ تمام معاشی اشاریے بدستور خراب ہوتے جا رہے ہیں جبکہ پی ڈی ایم کی حکومت میں ہماری معیشت تیزی سے زوال کی جانب جارہی ہے۔ حکومت کی طرف سے ڈیفالٹ کے امکانات رد کرنے کے باوجود ملک اب بھی اپنے قرضوں پر ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے بیل آؤٹ ملنے کے امکان بھی مبہم ہیں۔ وزیراعظم نے حال ہی میں آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا سے تعطل کا شکار پروگرام دوبارہ شروع کرنے کے حوالے سے بات کی۔
تاہم آئی ایم ایف نے تب تک اسٹاف لیول معاہدہ نہ کرنے کا کہا جب تک پاکستان اس مالی سال (جو 30 جون کو ختم ہو رہا ہے) کے اختتام تک اپنے کرنٹ اکاؤنٹ میں 6 بلین ڈالر کے خلا کو پُر کرنے کے لیے فنانسنگ کا بندوبست نہیں کر تا۔ ملک کے ذخائر تقریباً 4 ارب ڈالرز تک آگئے ہیں جو درآمدات پر عائد پابندیوں کے باوجود ایک ماہ سے بھی کم کی درآمدات کے لیے ہی پورے ہو سکتے ہیں۔ حکومت نے پاکستان میں ادائیگیوں کے توازن کے بدترین بحران کو ختم کرنے کے لیے درآمدی کنٹرولز لگانے جیسے وقتی اقدامات کے ذریعے معیشت کو سنبھالنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے اقتصادی صورتحال پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ حالیہ مالی سال کے لیے سرکاری طور پر تخمینہ شدہ جی ڈی پی کی شرح نمو گزشتہ مالی سال کے 6 فیصد کے مقابلے میں 0.3 فیصد ہے۔ لیکن اس مایوس کن تعداد پر بھی سب کو یقین نہیں ہے۔ صنعتی شعبہ بھی 3 فیصد تک سکڑ گیا ہے جس کی وجہ سے بہت سے کاروبار بند ہو رہے ہیں، لوگوں کی ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں اور اشیا کی قلت پیدا ہو رہی ہے۔
گزشتہ سال آنے والے تباہ کُن سیلاب کے نتیجے میں ملک میں زرعی شعبے پر شدید اثرات مرتب ہوئے اور پیداوار میں واضح کمی دیکھی گئی ہے۔ درآمدات پر پابندیوں اور خام مال کی قلت کے باعث ملک کی برآمدات میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسری جانب افراطِ زر بلند ترین شرح کو چھو رہی ہے جبکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت اب ’ریلیف بجٹ‘ پیش کرنے جارہی ہے جس میں عوام کے مفاد میں اقدامات لیے جانے کی توقع کی جارہی ہے۔ اس سے ملک میں معاشی بحران کی صورتحال مزید پیچیدہ ہو گی۔ سیاست کو معیشت پر فوقیت دینے کی وجہ سے ہمارے ملک کی صورتحال زوال کی جانب جارہی ہے۔ ملک کا مستقبل سیاسی غیریقینی اور معاشی بحران کی صورتحال سے گھرا ہوا ہے جسے حل کرنے کے لیے ساختی اصلاحات اور فیصلہ کُن اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کے پاس ایسی کوئی قیادت ہے جو ان تمام حالات کو سمجھتی ہو اور ملک کے مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح دینے کے قابل ہو۔
ملیحہ لودھی
یہ مضمون 6 جون 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
9 notes
·
View notes
Text
مولوی پیر پادری اور پنڈت سے دھوکہ کھانے سے بہتر ہے بندہ کسی حسیں عورت سے دھوکہ کھائے!!
سعادت حسین منٹو
جنم دن11 مئی
3 notes
·
View notes