#لہو
Explore tagged Tumblr posts
Text
سرزمین فلسطین لہو لہو ہے ۔۔
قبلہ اول ، سرزمین کربلا کی مانند نوحہ کناں ہے ۔ فلسطین پکار رہا ہے کہ آئو ظلم و استبداد کے خلاف آواز بلند کرو مظلوم و بیکس مسلمانوں کا سہارا بنو ۔ یہ بیٹیاں یہ مائیں یہی فریاد کرتی ہیں ۔کہ فلسطین کا نوحہ لکھو ۔وہ کہتی ہیں کہ اگر تم کچھ کر نہیں سکتے تو ہمارے دکھ کاغذوں پر تحریر تو کر دو ۔۔غلط کو غلط کہو اور مظلوم کے حامی بنو کیونکہ سب سے بڑا جہاد ظالم کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا ہے…
0 notes
Text
پھر اسی رہ گزار پر شاید
ہم کبھی مل سکیں مگر شاید
جن کے ہم منتظر رہے ان کو
مل گئے اور ہم سفر شاید
جان پہچان سے بھی کیا ہوگا
پھر بھی اے دوست غور کر شاید
اجنبیت کی دھند چھٹ جائے
چمک اٹھے تری نظر شاید
زندگی بھر لہو رلائے گی
یاد یاران بے خبر شاید
جو بھی بچھڑے وہ کب ملے ہیں فرازؔ
پھر بھی تو انتظار کر شاید
احمد فراز
22 notes
·
View notes
Text
اے مُطربِ آتش نفس و شعلہ نوا
مضراب مرے تارِ رگِ جاں پہ لگا
ہر سانس کی رگ رگ سے لہو کھینچ کے دیکھ
دے مجھ کو مرے جُرمِ تنفُس کی سزا
- منظور حسین شور
11 notes
·
View notes
Text
"ابتدائے محبت کا قصہ "
عہدِ بعید میں، زمین و آسمان کی آفرینش کے بعد ،جب ابھی بشر کا عدم سے وجود میں آنا باقی تھا، اس وقت زمین پر اچھائی اور برائی کی قوتیں مل جل کر رہتیں تھیں. یہ تمام اچھائیاں اور برائیاں عالم عالم کی سیر کرتے گھومتے پھرتے یکسانیت سے بے حد اکتا چکیں تھیں.
ایک دن انہوں نے سوچا کہ اکتاہٹ اور بوریت کے پیچیدہ مسئلے کو حل کرنا چاہیے،
تمام تخلیقی قوتوں نے حل نکالتے ہوئے ایک کھیل تجویز کیا جس کا نام آنکھ مچولی رکھا گیا.
تمام قوتوں کو یہ حل بڑا پسند آیا اور ہر کوئی خوشی سے چیخنے لگا کہ "پہلے میں" "پ��لے میں" "پہلے میں" اس کھیل کی شروعات کروں گا..
پاگل پن نے کہا "ایسا کرتے ہیں میں اپنی آنکھیں بند کرکے سو تک گنتی گِنوں گا، اس دوران تم سب فوراً روپوش جانا، پھر میں ایک ایک کر کے سب کو تلاش کروں گا"
جیسے ہی سب نے اتفاق کیا، پاگل پن نے اپنی کہنیاں درخت پر ٹکائیں اور آنکھیں بند کرکے گننے لگا، ایک، دو، تین، اس کے ساتھ ہی تمام اچھائیاں اور برائیاں اِدھر اُدھر چھپنے لگیں،
سب سے پہلے نرماہٹ نے چھلانگ لگائی اور چاند کے پیچھے خود کو چھپا لیا،
دھوکا دہی قریبی کوڑے کے ڈھیر میں چھپ گئی،
جوش و ولولے نے بادلوں میں پناہ لے لی،
آرزو زیرِ زمین چلی گئی،
جھوٹ نے بلند آواز میں میں کہا، "میرے لیے چھپنے کی کوئی جگہ باقی نہیں بچی اس لیے میں پہاڑ پر پتھروں کے نیچے چھپ رہا ہوں" ، اور یہ کہتے ہوئے وہ گہری جھیل کی تہہ میں جاکر چھپ گیا،
پاگل پن اپنی ہی دُھن میں مگن گنتا رہا، اناسی، اسی، اکیاسی،
تمام برائیاں اور اچھائیاں ایک ایک کرکے محفوظ جگہ پر چھپ گئیں، ماسوائے محبت کے، محبت ہمیشہ سے فیصلہ ساز قوت نہیں رہی ، لہذا اس سے فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ کہاں غائب ہونا ہے، اپنی اپنی اوٹ سے سب محبت کو حیران و پریشان ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور یہ کسی کے لئے بھی حیرت کی بات نہیں تھی ۔
حتیٰ کہ اب تو ہم بھی جان گئے ہیں کہ محبت کے لیے چھپنا یا اسے چھپانا کتنا جان جوکھم کا کام ہے. اسی اثنا میں پاگل پن کا جوش و خروش عروج پر تھا، وہ زور زور سے گن رہا تھا، پچانوے، چھیانوے، ستانوے، اور جیسے ہی اس نے گنتی پوری کی اور کہا "پورے سو" محبت کو جب کچھ نہ سوجھا تو اس نے قریبی گلابوں کے جھنڈ میں چھلانگ لگائی اور خود کو پھولوں سے ڈھانپ لیا،
محبت کے چھپتے ہی پاگل پن نے آنکھیں کھولیں اور چلاتے ہوئے کہا "میں سب کی طرف آرہا ہوں" "میں سب کی طرف آرہا ہوں" اور انہیں تلاش کرنا شروع کردیا،
سب سے پہلے اس نے سستی کاہلی کو ڈھونڈ لیا، کیوں کہ سستی کاہلی نے چھپنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی اور وہ اپنی جگہ پر ہی مل گئی،
اس کے بعد اس نے چاند میں پوشیدہ نرماہٹ کو بھی ڈھونڈ لیا،
صاف شفاف جھیل کی تہہ میں جیسے ہی جھوٹ کا دم گُھٹنے لگا تو وہ خود ہی افشاء ہوگیا، پاگل پن کو اس نے اشارہ کیا کہ آرزو بھی تہہ خاک ہے،
اسطرح پاگل پن نے ایک کے بعد ایک کو ڈھونڈ لیا سوائے محبت کے،
وہ محبت کی تلاش میں مارا مارا پھرتا رہا حتیٰ کہ ناامید اور مایوس ہونے کے قریب پہنچ گیا،
پاگل پن کی والہانہ تلاش سے حسد کو آگ لگ گئی، اور وہ چھپتے چھپاتے پاگل پن کے نزدیک جانے لگا، جیسے ہی حسد پاگل پن کے قریب ہوا اس نے پاگل پن کے کان میں سرگوشی کی " وہ دیکھو وہاں، گلابوں کے جُھنڈ میں محبت پھولوں سے لپٹی چھپی ہوئی ہے"
پاگل پن نے غصے سے زمین پر پڑی ایک نوکدار لکڑی کی چھڑی اٹھائی اور گلابوں پر دیوانہ وار چھڑیاں برسانے لگا، وہ لکڑی کی نوک گلابوں کے سینے میں اتارتا رہا حتیٰ کہ اسے کسی کے زخمی دل کی آہ پکار سنائی دینے لگی ، اس نے چھڑی پھینک کر دیکھا تو گلابوں کے جھنڈ سے نمودار ہوتی محبت نے اپنی آنکھوں پر لہو سے تربتر انگلیاں رکھی ہوئی تھیں اور وہ تکلیف سے کراہ رہی تھی، پاگل پن نے شیفتگی سے بڑھ کر محبت کے چہرے سے انگلیاں ہٹائیں تو دیکھا کہ اسکی آنکھوں سے لہو پھوٹ رہا تھا، پاگل پن یہ دیکھ کر اپنے کیے پر پچھتانے لگا اور ندامت بھرے لہجے میں کہنے لگا، یا خدا! یہ مجھ سے کیا سرزد ہوگیا، اے محبت! میرے پاگل پن سے تمھاری بینائی جاتی رہی، میں بے حد شرمندہ ہوں مجھے بتاؤ میری کیا سزا ہے؟ میں اپنی غلطی کا ازالہ کس صورت میں کروں؟
محبت نے کراہتے ہوئے کہا " تم دوبارہ میرے چہرے پر نظر ڈالنے سے تو رہے، مگر ایک طریقہ بچا ہے تم میرے راہنما بن جاؤ اور مجھے رستہ دکھاتے رہو"
اور یوں اس دن کے واقعے کے بعد یہ ہوا کہ، محبت اندھی ہوگئی، اور پاگل پن کا ہاتھ تھام کر چلنے لگی ، اب ہم جب محبت کا اظہار کرنا چاہیں تو اپنے محبوب کو یہ یقین دلانا پڑتا ہے کہ "میں تمھیں پاگل پن کی حد تک محبت کرتا ہوں "
8 notes
·
View notes
Text
ہم ایسے بے سروساماں جہانِ امکاں میں
ہزار سال بھی رہتے تو بے نشاں رہتے
جو ہم لہو کی شہادت بھی پیش کر دیتے
جو بدگماں تھے بہر حال بدگماں رہتے
~ مشتاق عاجز
Hum esay be-sar-o-samaa'n jahaan-e-imkaan mai
Hazaar saal bhi rehtay tw benisha'n hi rehtay
Jo hum lahu ki shahadat bhi paish kar dete
Jo bad-guma'n thy behrhaal bad-guma'n hi rehtay
~Mushtaq Ajiz
#urdu aesthetic#urdu stuff#urdu lines#urdu literature#urdu sher#urdu quote#urdu ghazal#urduadab#اردو شاعری#اردوشاعری#اردو غزل#اردو پوسٹ#desi tumblr#just desi things#desi larki#desi academia#life of a desi girl#pakistan#pakistani aesthetics#lahore
44 notes
·
View notes
Text
کہاں آ کے رُکنے تھے راستے، کہاں موڑ تھا، اُسے بُھول جا
وہ جو مل گیا اُسے یاد رکھ، جو نہیں ملا اُسے بُھول جا
وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دلِ بے خبر مری بات سُن، اُسے بُھول جا، اُسے بُھول جا
میں تو گُم تھا تیرے ہی دھیان میں، تِری آس، تیرے گمان میں
صبا کہہ گئی مرے کان میں، میرے ساتھ آ، اُسے بُھول جا
کِسی آنکھ میں نہیں اشکِ غم، ترے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم
تجھے زندگی نے بُھلا دیا، تُوبھی مُسکرا، اُسے بُھول جا
کہیں چاکِ جاں کا رفو نہیں، کسی آستیں پہ لہو نہیں
کہ شہیدِ راہِ ملال کا نہیں خوں بہا، اُسے بُھول جا
کیوں اَٹا ہوا ہے غبارمیں، غمِ زندگی کے فشار میں
وہ جو درج تھا ترے بخت میں، سو وہ ہو گیا، اُسے بُھول جا
نہ وہ آنکھ ہی تری آنکھ تھی، نہ وہ خواب ہی ترا خواب تھا
دلِ منتظر تو یہ کس لیے، ترا جاگنا، اُسے بُھول جا
یہ جو رات دن کا ہے کھیل سا، اسے دیکھ، اس پہ یقین نہ کر
نہیں عکس کوئی بھی مستقل، سرِ آئینہ، اُسے بُھول جا
جو بساطِ جاں ہی اُلٹ گیا، وہ جو راستے سے پلٹ گیا
اُسے روکنے سے حصول کیا، اُسے مت بُلا، اُسے بُھول جا
تو یہ کس لیے شبِ ہجر کے اُسے ہر ستارے میں دیکھنا
وہ فلک کہ جس پہ ملے تھے ہم، کوئی اور تھا، اُسے بُھول جا
تجھے چاند بن کے مِلا تھا جو، ترے ساحلوں پہ کِھلا تھا جو
وہ تھا ایک دریا وصال کا، سو اُتر گیا، اُسے بُھول جا
امجد اسلام امجد
#zaali_awan
2 notes
·
View notes
Note
تمہاری قبر پر
میں فاتحہ پڑھنے نہیں آیا
مجھے معلوم تھا
تم مر نہیں سکتے
تمہاری موت کی سچی خبر جس نے اڑائی تھی
وہ جھوٹا تھا
وہ تم کب تھے
کوئی سوکھا ہوا پتہ ہوا سے مل کے ٹوٹا تھا
مری آنکھیں
تمہارے منظروں میں قید ہیں اب تک
میں جو بھی دیکھتا ہوں
وہ وہی ہے
جو تمہاری نیک نامی اور بد نامی کی دنیا تھی
سوچتا ہوں
کہیں کچھ بھی نہیں بدلا
تمہارے ہاتھ میری انگلیوں میں سانس لیتے ہیں
میں لکھنے کے لیے
جب بھی قلم کاغذ اٹھاتا ہوں
تمہیں بیٹھا ہوا میں اپنی ہی کرسی میں پاتا ہوں
بدن میں میرے جتنا بھی لہو ہے
وہ تمہاری
لغزشوں ناکامیوں کے ساتھ بہتا ہے
مری آواز میں چھپ کر
تمہارا ذہن رہتا ہے
مری بیماریوں میں تم
مری لاچاریوں میں تم
تمہاری قبر پر جس نے ��مہارا نام لکھا ہے
وہ جھوٹا ہے
تمہاری قبر میں میں دفن ہوں
تم مجھ میں زندہ ہو
کبھی ف��صت ملے تو فاتحہ پڑھنے چلے آنا
Nida Fazli on his father's death
One of my fav poems
Can anyone please translate it? I really want to read.
2 notes
·
View notes
Text
हर एक बात पे कहते हो तुम कि तू क्या है
तुम्हीं कहो कि ये अंदाज़-ए-गुफ़्तुगू क्या है
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
न शो'ले में ये करिश्मा न बर्क़ में ये अदा
कोई बताओ कि वो शोख़-ए-तुंद-ख़ू क्या है
نہ شعلہ میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا
کوئی بتاؤ کہ وہ شوخ تند خو کیا ہے
ये रश्क है कि वो होता है हम-सुख़न तुम से
वगर्ना ख़ौफ़-ए-बद-आमोज़ी-ए-अदू क्या है
یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے
وگرنہ خوف بد آموزی عدو کیا ہے
चिपक रहा है बदन पर लहू से पैराहन
हमारे जैब को अब हाजत-ए-रफ़ू क्या है
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہمارے جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے
जला है जिस्म जहाँ दिल भी जल गया होगा
कुरेदते हो जो अब राख जुस्तुजू क्या है
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
रगों में दौड़ते फिरने के हम नहीं क़ाइल
जब आँख ही से न टपका तो फिर लहू क्या है
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
वो चीज़ जिस के लिए हम को हो बहिश्त अज़ीज़
सिवाए बादा-ए-गुलफ़ाम-ए-मुश्क-बू क्या है
وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز
سوائے بادۂ گلفام مشک بو کیا ہے
पियूँ शराब अगर ख़ुम भी देख लूँ दो-चार
ये शीशा ओ क़दह ओ कूज़ा ओ सुबू क्या है
پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار
یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے
रही न ताक़त-ए-गुफ़्तार और अगर हो भी
तो किस उमीद पे कहिए कि आरज़ू क्या है
رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے
हुआ है शह का मुसाहिब फिरे है इतराता
वगर्ना शहर में 'ग़ालिब' की आबरू क्या है
ہوا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
4 notes
·
View notes
Text
زندگی کے میلے میں
خواہشوں کے ریلے میں
تم سے کیا کہیں جاناں!
اس قدر جھمیلے میں
وقت کی روانی ہے
وقت کی گرانی ہے
سخت بے زمینی ہے
سخت لا مکانی ہے
ہجر کے سمندر میں
تخت اور تختے کی
ایک ہی کہانی ہے
تم کو جو سنانی ہے
بات تو ذرا سی ہے
بات عمر بھر کی ہے
عمر بھر کی باتیں کب
دو گھڑی میں ہوتی ہیں
درد کے سمندر میں
اَن گِنَت جزیرے میں
بے شمار موتی ہیں
آنکھ کے دریچے میں
تم نے جو سجایا ہے
بات اس دیے کی ہے
بات اس گلے کی ہے
جو لہو کی خلوت میں
چور بن کے آتا ہے
لفظ کی فصیلوں پر
ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے
زندگی سے لمبی ہے
بات رَت جَگے کی ہے
راستے میں کیسے ہو؟
بات تخلیے کی ہے
تخلیے کی باتوں میں
گفتگو اضافی ہے
پیار کرنے والوں کو
اک نگاہ کافی ہے
ہو سکے تو مل جاؤ
ایک دن اکیلے میں
تم سے کیا کہیں جاناں!
اس قدر جھمیلے میں... 🍁
3 notes
·
View notes
Text
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہمارے جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
1 note
·
View note
Text
وہ بزم کون سی ہے کہ زیر و زبر نہ ہو !
دِل میں خیالِ خیمئہ لیلیٰ تو ورنہ ہو
یہ کارِ عشق بھی ہے عجب کارِ ناتمام
سمجھیں کہ ہورہا ہے مگر عمر بھر نہ ہو
اک یادِ خوش جمال جوازِ حیات ہے
اک محورِ خیال ہے یہ بھی اگر نہ ہو
اِک دشتِ بے دِلی میں لہو بولنے لگے
ایسے میں ایک خواب کہ تُو ہو ، مگر نہ ہو
چہر ے پہ سائے میں بھی خراشیں دکھائی دیں
آئینہء حیات پہ اِتنی نظر نہ ہو
اک شام جس میں دِل کا سبوچہ بھرا رہے
اک نام جس میں درد تو ہو ، اِس قدر نہ ہو
اک بات کی چڑھائی کہ دم ٹوٹنے لگیں
کہنے کا شوق ہو مگر، اتنا ہنر نہ ہو
اک لفظ جس کی لَو میں دمکتا رہے دماغ
اک شعر جس کی گونج کہیں پیشتر نہ ہو
یوں خطِ ہجر کھینچیے اپنے اور اُس کے بیچ
دونوں طرف کی سانس اِدھر سے اُدھر نہ ہو
دونوں طرف کا شور برابر سنائی دے
دونوں طرف کسی کو کسی کی خبر نہ ہو
ایسا بھی کیا کہ یاد لہو میں گُھلی رہے
ایسا بھی کیا کہ عمرِ گزشتہ بسر نہ ہو
اک آستاں کہ جس پہ ابد تک پڑے رہیں
اک گلستاں کہ جس میں صبا کا گُزر نہ ہو
شام آئے اور گھر کے لئے دِل مچل اُٹھے
شام آئے اور دِل کے لئے کوئی گھر نہ ہو
اختر عثمان:
1 note
·
View note
Text
دیکھو جدھر ادھر ہیں مناظر لہو لہان۔۔۔(غزہ کے شہیدوں کے نام)
دیکھو جدھر ادھر ہیں مناظر لہو لہان رستے لہو لہان مسافر لہو لہان اسلام کےعظیم مظاہر لہو لہان ہیں مومنوں کے سینے ضمائر لہو لہان صدیوں سے شہر قدس میں بارش ہےخون کی شہداء و اولیاء کے مقابر لہو لہان میزائلوں کی بارش خونیں کی زد میں اف ! پانی کے اور غذا کے ذخائرلہو لہان میدان کار زار میں زخموں سے چور چور ہیں دین احمدی کے جواہر لہو لہان اللّہ رے…
0 notes
Text
کڑے سفر میں اگر راستہ بدلنا تھا
تو ابتدا میں مرے ساتھ ہی نہ چلنا تھا
کچھ اس لیے بھی تو سورج زمیں پر اترا ہے
پہاڑیوں پہ جمی برف کو پگھلنا تھا
اتر کے دل میں لہو زہر کر گیا آخر
وہ سانپ جس کو مری آستیں میں پلنا تھا
یہ کیا کہ تہمتیں آتش فشاں کے سر آئیں؟
زمیں کو یوں بھی خزانہ کبھی اُگلنا تھا
میں لغزشوں سے اَٹے راستوں پہ چل نکلا
تجھے گنوا کے مجھے پھر کہاں سنبھلنا تھا
اسی کو صبحِ مسافت نے چور کر ڈالا
وہ آفتاب جسے دوپہر میں ڈھلنا تھا
عجب نصیب تھا محسن کہ بعدِ مرگ مجھے
چراغ بن کے خود اپنی لحد پہ جلنا تھا
محسن نقوی
5 notes
·
View notes
Text
درد اتنا تھا کہ اْس رات دلِ وحشی نے
ہر رگِ جاں سے اْلجھنا چاہا............!!
ہر بنِ مو سے ٹپکنا چاہا............!!
اور کہیں دور تیرے صحن میں گویا!
پتّہ پتّہ مرے افسردہ لہو میں دْھل کر.!
حْسنِ ماہتاب سے آزردہ نظر آنے لگا..!
میرے ویرانہء تن میں گویا........!
سارے دکھتے ریشوں کی طنابیں کھل کر
سلسلہ وار پتہ دینے لگیں.........!
ایک پل آخری لمحہ تیری دلداری کا
درد اتنا تھا کہ اس سے بھی گزرنا چاہا
ہم نے چاہا بھی مگر دل نہ ٹہرنا چاہا.!!
- فیض احمد فیض
#urdu#urdu poetry#urdu shayari#urdu ghazal#urdu literature#urduadab#urdu quote#hindi shayari#hindi poetry
9 notes
·
View notes
Text
JUST A FRIENDLY REMINDER!
JAAGO AUR JAGAA’O
ARISE AND WAKE THE RICH PEOPLE OF MY MUSLIM WORLD!
Allamah Sir Dr. Muhammad Iqbal, Rahmatullah ‘alaih.
﴿وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ﴾
[ الذاريات: 55]
Wa dhakkir fa-innadhdhikra tanfa’ulmu'mineen
Utho Meree Duniyaa Ke Ameeron Ko Jagaa Do
ARISE AND WAKE THE POOR PEOPLE OF MY MUSLIM WORLD!
Allamah Sir Dr. Muhammad Iqbal, Rahmatullah 'alaih.
Utho Meree Duniyaa Ke Ghareebon Ko Jagaa Do
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ اُمرا کے در و دیوار ہلا دو
Get up wake the poor people of my world
Shake the walls and windows of Rich people palaces
گرماؤ غلاموں کا لہو سوز یقیں سے
کُنجکشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
Warm the blood of slaves with faith of hope
Prepare fearful sparrow to fight with the Falcon
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
A field from where the farmers are not getting sustenance
Burn every grain of wheat from that field
سلطانیء جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آے مٹا دو
Approaching is the time for poor to rule
Erase every impression of the past rulers
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پیران کلیسا کو کلیسا سے اُٹھا دو
Why are there veils between the Creator and Creation
Push away the saints from the Church who misguide
حق را بسجودے،صنماں بطوافے
بہتر ہے چراغ حرم و دَیر بجھا دو
Prostration is being held for God , Idols are being encircled
It is better to unlit the lamp of Masjid and Temple
میں ناخوش و بیزار ہُوں مَرمَر کی سِلوں سے
میرے لئے مٹی کا حرم اور بنا دو
I am unpleased with the Marble tiles
Build for me a Mosque from the mud
تہزیب نوی کارگہِ شیشہ گراں ہے
آداب جنوں شاعرِ مشرِق کو سکھا دو
New civilization is build up from glass work
Teach ethics of devotion to the poet of east
Allamah Sir Dr. Muhammad Iqbal Rahmatullahi ‘alaihi
________ REVIZED
JUST A FRIENDLY REMINDER!
JAAGO AUR JAGAA’O
ARISE AND WAKE THE RICH PEOPLE OF MY MUSLIM WORLD!
Allamah Sir Dr. Muhammad Iqbal, Rahmatullah ‘alaih.
﴿وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ﴾
[ الذاريات: 55]
Wa dhakkir fa-innadhdhikra tanfa’ulmu'mineen
Utho Meree Duniyaa Ke Ameeron Ko Jagaa Do
ARISE AND WAKE THE POOR PEOPLE OF MY MUSLIM WORLD!
Allamah Sir Dr. Muhammad Iqbal, Rahmatullah 'alaih.
Utho Meree Duniyaa Ke Ghareebon Ko Jagaa Do
اٹھومیریدنیاکےغریبوںکوجگادو
کاخِاُمراکےدرودیوارہلادو
Get up wake the poor people of my world
Shake the walls and windows of Rich people palaces
گرماؤغلاموںکالہوسوزیقیںسے
کُنجکشکِفرومایہکوشاہیںسےلڑادو
Warm the blood of slaves with faith of hope
Prepare fearful sparrow to fight with the Falcon
جسکھیتسےدہقاںکومیسرنہیںروزی
اسکھیتکےہرخوشہگندمکوجلادو
A field from where the farmers are not getting sustenance
Burn every grain of wheat from that field
سلطانیءجمہورکاآتاہےزمانہ
جونقشکہنتمکونظرآےمٹادو
Approaching is the time for poor to rule
Erase every impression of the past rulers
کیوںخالقومخلوقمیںحائلرہیںپردے
پیرانکلیساکوکلیساسےاُٹھادو
Why are there veils between the Creator and Creation
Push away the saints from the Church who misguide
حقرابسجودے،صنماںبطوافے
بہترہےچراغحرمودَیربجھادو
Prostration is being held for God , Idols are being encircled
It is better to unlit the lamp of Masjid and Temple
میںناخوشوبیزارہُوںمَرمَرکیسِلوںسے
میرےلئےمٹیکاحرماوربنادو
I am unpleased with the Marble tiles
Build for me a Mosque from the mud
تہزیبنویکارگہِشیشہگراںہے
آدابجنوںشاعرِمشرِقکوسکھادو
New civilization is build up from glass work
Teach ethics of devotion to the poet of east
Allamah Sir Dr. Muhammad Iqbal Rahmatullahi ‘alaihi
0 notes
Text
غزہ نے تاریخ کا دھارا بدل دیا
جن کا خیال تھا کہ حماس کی مزاحمت کو ختم کر دیا گیا ہے اور اب وہ قصہ ماضی ہے، انہیں خبر ہو کہ اسرائیل کو اسی مزاحمت کے نمائندوں کے ساتھ بیٹھ کر معاہدہ کرنا پڑا ہے اور معاہدہ بھی وہی ہے جس پر فلسطینی مزاحمت پہلے دن سے رضامند تھی مگر نیتن یاہو نے جسے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جن کا خیال تھا کہ غزہ اب قصہ پارینہ بن چکا، اور یہاں اسرائیل ساحل کے ساتھ اب اپنی بستیاں آباد کرے گا، ان کو خبر ہو کہ معاہدے کی رو سے غزہ، غزہ والوں کے پاس ہے۔ جن کا خیال تھا کہ شمالی غزہ سے فلسطینیوں کو مکمل طور پر بے دخل کر دیا جائے گا، انہیں خبر ہو کہ شمالی غزہ پر اہل غزہ کا حق تسلیم کروا لیا گیا ہے۔ جن کو یقین تھا کہ فلاڈلفیا اور نیٹسارم کاریڈور اب ہمیشہ کے لیے اسرائیلی فوج کے بوٹوں تلے رہیں گے انہیں خبر ہو کہ دونوں کاریڈورز سے اسرائیل کو انخلا کرنا ہو گا۔ جن کا خیال تھا مزاحمت کاروں کو یوں کچل دیا جائے گا کہ ان کی نسلیں یاد رکھیں گے وہ اب بیٹھے سر پیٹ رہے ہیں کہ صرف بیت حنون میں اتنے اسرائیلی فوجی مارے گئے جتنے آج تک کی جنگوں میں نہیں مارے گئے۔ جن کا خیال تھا چند سر پھروں کی مزاحمت کچل دی گئی، انہیں خبر ہو کہ اسرائیلی برگیڈیر عامر اویوی دہائی دے رہا ہے کہ مزاحمت تو آج بھی پوری قوت کے ساتھ موجود ہے لیکن اسرائیل گھائل ہو چکا، مزاحمت کار تو نئی بھرتیاں کر رہے ہیں لیکن اسرائیل سے لوگ بھاگ رہے ہیں کہ فوجی سروس نہ لی جائے۔
غزہ میں مزاحمت متحد ہے۔ لوگوں پر قیامت بیت گئی، بچے ٹھٹھر کر مر گئے، قبریں کم پڑ گئیں، لیکن کوئی تقسیم نہیں ہے۔ سب ڈٹ کر کھڑے ہیں، لہو میں ڈوبے ہیں لیکن خدا کی رحمت سے مایوس نہیں۔ اُدھر اسرائیل ہے جہاں مایوسی اور فرسٹریشن میں دراڑیں وضح ہیں۔ ہرادی یہودی اسرائیلی حکومت کو سیدھے ہو چکے ہیں کہ ملک تو چھوڑ دیں گے لیکن لڑائی میں شامل نہیں ہوں گے۔ اسرائیل کا فنانس منسٹر بزالل سموٹرچ دھمکی دے رہا ہے کہ یہ معاہدہ اسرائیل کی شکست ہے ، وہ حکومت سے الگ ہو جائے گا۔ نیشنل سیکیورٹی کا وزیر اتمار بن گویر بھی دہائی دے رہا ہے کہ اس وقت ایسا کوئی معاہدہ شکست کے مترادف ہے۔ ایرل سیگل چیخ رہا ہے یہ معاہدہ اسرائیل پر مسلط کیا گیا ہے۔ یوسی یوشع کہتا ہے بہت برا معاہدہ ہوا لیکن ہم بے بس ہو چکے تھے، اور کیا کرتے۔ مقامی خوف فروشوں سے اب کوئی جا کر پوچھے، حساب سودوزیاں کا گوشوارہ کیا کہتا ہے۔ اسرائیل کے جنگی مبصرین دہائی دے رہے ہیں کہ جس دن امریکہ کمزور پڑ گیا یا اس نے منہ پھیر لیا اس دن اسرائیل کا کھیل ختم ہو جائے گا۔
اسرائیلی فضائیہ کے افسران گن گن کر بتا رہے ہیں کہ امریکی امداد نہ پہنچتی تو اسرائیل تیسرے ہفتے میں جنگ کے قابل نہ تھا۔ وہ حیران ہیں کہ ایک چھوٹا سا شہر ہے، ہزاروں قتل ہوئے پڑے اور لاکھوں زخمی، دنیا نے منہ موڑ رکھا، کئی ایٹم بموں کے برابر سلحہ ان پر پھونک دیا گیا، کہیں سے کوئی امداد نہیں ملی، اسلحہ تو دور کی بات انہیں کوئی مسلمان ملک پانی اور خوراک تک نہ دے سکا، لیکن وہ ڈٹے رہے، کیسے ڈٹے رہے۔ وہ لڑتے رہے، کیسے لڑتے رہے؟ کچھ وہ تھے جن کے سر قضا کھیل چکی، اور کچھ وہ تھے جو اس کے منتظر تھے، قدم مگر کسی کے نہ لڑکھڑائے۔ ہبریو یونیورسٹی میں قائم عارضی وار روم میں اب پہلی تحقیق اس بات پر ہونے لگی ہے کہ ان حالات میں مزاحمت کیسے قائم رہی؟ حوصلے کیوں نہ ٹوٹے۔ دنیا اب ویت نام کی مزاحمت بھول چکی ہے۔ دنیا آئندہ یہ پڑھا کرے گی کہ غزہ میں ایسی مزاحمت کیسے ممکن ہوئی؟ جس مزاحمت کا نام لینے پر مغرب کے سوشل میڈیا کے کمیونٹی سٹینڈرڈز کو کھانسی، تپ دق، تشنج اور پولیو جیسی مہلک بیماریاں لاحق ہو جاتی تھیں، اتفاق دیکھیے اسی مزاحمت کے ساتھ مذاکرات کرنا پڑے، معاہدے میں اسی مزاحمت کا نام لکھنا پڑا اور عالم یہ ہے کہ امریکی صدر اور نو منتخب امریکی صدر میں کریڈٹ کاجھگڑا چل رہا ہے کہ سہرا کس کے سر باندھا جائے۔
دنیا اپنے فوجیوں کی تحسین کرتی ہے مگر ادھر خوف کی فضا یہ ہے کہ غزہ میں لڑنے والے اسرائیلی فوجیوں کی شناخت خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ کہیں کسی ملک میں جنگی جرائم میں دھر نہ لیے جائیں۔ ان جنگی مجرموں کے لیے باقاعدہ مشاورتی فرمان جاری ہو رہے ہیں کہ بیرون ملک جائیں تو گرفتاری سے بچنے کے لیے کون کون سے طریقے استعمال کیے جائیں۔ خود نیتن یاہو کے لیے ممکن نہیں کہ دنیا میں آزادانہ گھوم سکے۔ قانون کی گرفت میں آنے کا خوف دامن گیر ہے۔ یہ فاتح فوج کے ڈھنگ ہیں یا کسی عالمی اچھوت کے نقوش ہیں جو ابھر رہے ہیں؟ ادھر اسرائیل میں بائیڈن کے سفیر جیک لیو کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے نہ صرف گلوبل ساؤتھ گنوا دیا ہے بلکہ مغرب بھی اس کے ہاتھ سے جا رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہم تو اسرائیل کے ساتھ ہیں لیکن نئی نسل کچھ اور سوچ رہی ہے اور اگلے بیس تیس سال میں معاملات نئی نسل کے ہاتھ میں ہوں گے۔ جیک لیو کے مطابق بائڈن اس نسل کا آخری صدر تھا جو اسرائیل کے قیام کے بیانیے کے زیر اثر بڑی ہوئی۔ اب بیانیہ بدل رہا ہے۔
نیا بیانیہ کیا ہے؟ نیا بیانیہ یہ ہے کہ امریکہ میں ایک تہائی یہودی ٹین ایجرز فلسطینی مزاحمت کی تائید کر رہے ہیں۔ 42 فی صد ٹین ایجر امریکی یہودیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل نسل کشی کا جرم کر رہا ہے۔ 66 فی صد امریکی ٹین ایجر یہودی فلسطینی عوام سے ہمدردی رکھتے ہیں۔۔۔۔ کیا یہ کوئی معمولی اعدادوشمار ہیں؟غزہ نے اپنی لڑائی اپنی مظلومیت اور عزیمت کے امتزاج سے لڑی ہے ورنہ مسلم ممالک کی بے نیازی تو تھی ہی، مسلمان دانشوروں کی بڑی تعداد نے بھی اپنے فیس بک اکاؤنٹ کی سلامتی کی قیمت پر غزہ کو فراموش کر دیا تھا۔ اسرائیل کا مظلومیت کا جھوٹا بیانیہ تحلیل ہو چکا ہے۔ دنیا کے سب سے مہذب فاتح کی کوزہ گری کرنے والی فقیہان ِ خود معاملہ طفولیت میں ہی صدمے سے گونگے ہو چکے۔ مرعوب مجاورین کا ڈسکو کورس منہدم ہو چکا ہے۔ انکے جو ممدوح مزاحمت کو ختم کرنے گئے تھے، اسی مزاحمت سے معاہدہ کر کے لوٹ رہے ہیں۔ جدوجہد ابھی طویل ہو گی، اس سفر سے جانے کتنی مزید عزیمتیں لپٹی ہوں، ہاں مگر مزاحمت باقی ہے، باقی رہے گی۔ مزاحمتیں ایسے کب ختم ہوتی ہیں؟ ڈیوڈ ہرسٹ نے کتنی خوب صورت بات کی ہے کہ غزہ نے تاریخ کا دھارا بدل دیا ہے۔
آصف محمود
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز
0 notes