#لڑاکا
Explore tagged Tumblr posts
Text
چین سی پیک سے پیچھے نہیں ہٹے گا
پاکستان اور چین نے گزشتہ بدھ کے روز انسداد دہشت گردی کی جن مشترکہ مشقوں کا آغاز کیا اُن کا مقصد فوجیوں کی پیشہ ورانہ مہارتوں کو نکھارنے کے علاوہ دونوں ممالک کے مابین ملٹری ٹو ملٹری تعلقات کو تقویت پہنچانا ہے ۔ پہلے بھی دونوں ریاستیں دفاعی پیداوار، ٹیکنالوجی اور تربیت میں دیرینہ تعاون کا ریکارڈ رکھتی ہیں، چین پاکستان کو لڑاکا طیارے اور آبدوزوں سمیت جدید ہتھیار فراہم کرنے والا بڑا دفاعی سپلائر…
0 notes
Text
پاکستان آذربائیجان کوجےایف-17طیارےفروخت کریگا،معاہدہ طے
پاکستان اور آذربائیجان کےدرمیان جےایف-17،بلاک تھری لڑاکاطیارےفروخت کرنے کا معاہدہ طے پاگیا۔ آئی ایس پی آر کےمطابق دوست ممالک کےساتھ دفاعی تعاون کوفروغ دینےکےلیے پاکستان نے آذربائیجان کی فضائی طاقت کوبڑھانے کےلیےجےایف-17،بلاک تھری لڑاکا طیاروں کی فروخت کے معاہدے پردستخط کیے۔آذربائیجان کےصدر الہام علیف کو حالیہ دورہ پاکستان کےدوران جے ایف-17،بلاک تھری لڑاکا طیاروں کی جنگی صلاحیتوں اوردیگر…
0 notes
Text
ایف 16 پاکستان سمیت دنیا بھر کی فضائی افواج میں آج بھی اتنا مقبول کیوں ہے؟
F-16 لڑاکا طیارے نے اپنی پہلی پرواز سنہ 1974 میں بھری تھی، اور آج 50 سال گزرنے کے باوجود یہ لڑاکا طیارہ مختلف ممالک کی افواج کے لیے اُتنا ہی اہم ہے جتنا کہ 50 سال پہلے تھا۔ اور اگر پچاس برس پہلے اس لڑاکا طیارے کی آزمائشی پرواز کے دوران اگر پائلٹ حاضر دماغی کا مظاہرہ نہ کرتا تو ایف 16 پروگرام شاید کبھی آگے نہ بڑھ پاتا۔ جب پائلٹ فل اوسٹریکر 20 جنوری 1974 کو کیلیفورنیا میں ایڈورڈز ایئر فورس بیس میں جنرل ڈائنامکس ’وائی ایف -16‘ پروٹو ٹائپ کے کاک پٹ میں بیٹھے تو اُن کا مشن نسبتاً سادہ تھا، یعنی ایک تیز رفتار ٹیکسی ٹیسٹ جس کے تحت طیارے کو اپنے انجن کی طاقت کے تحت زمین پر آگے بڑھنا تھا وائی ایف 16 کو صرف ایک ماہ قبل ہی عوام کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور اس کی پہلی پرواز فروری 1974 کے اوائل تک نہیں ہوئی تھی۔ لیکن مستقبل کے اس معروف لڑاکا طیارے کو لے کر کچھ اور ہی عزائم تھے۔ جیسے ہی پائلٹ اوسٹریکر نے طیارے کی ناک کو زمین سے تھوڑا سا اوپر اٹھایا، تو وائی ایف-16 نے اتنی تیزی سے دوڑنا شروع کر دیا کہ طیارے کا لیفٹ ونگ اور دائیں ٹیل ٹارمیک سے ٹکرا گئے۔ ’سیئٹل پوسٹ انٹیلیجنس‘ نے اس پرواز کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہوئے لکھا کہ جیسے جیسے پائلٹ اوسٹریکر کو طیارے پر کنٹرول رکھنا مشکل ہو رہا تھا اور طیارہ بائیں جانب سلپ ہونے گا تو پائلٹ کو احساس ہوا کہ انھیں اس آزمائشی ٹیسٹ کے طے شدہ حدود و قیود سے باہر نکلنا پڑے گا اور طیارے کے گرنے سے پہلے اسے اڑانا ہو گا۔
کچھ دل دہلا دینے والے لمحات کے بعد پائلٹ اوسٹریکر نے اتنی رفتار حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی کہ پروٹو ٹائپ ہوا میں جا سکے اور اڈے پر واپس اترنے سے پہلے ڈرامائی طور پر چھ منٹ طویل پرواز مکمل کر سکے۔ اپنی مہارت کی وجہ سے پائلٹ اوسٹریکر نے ایک ایسے طیارے کو زندہ کرنے میں مدد کی تھی جو انسانی یادداشت میں سب سے کامیاب طیاروں میں سے ایک بن گیا ہے۔ گذشتہ 50 برسوں کے دوران 4600 سے زائد ایف 16 طیارے فیکٹری سے تیار ہو کر محو پرواز ہو چکے ہیں اس لڑاکا طیارے کی پیدوار فی الحال رکنے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ اگر پائلٹ اوسٹریک اپنے پہلے ٹیکسی ٹیسٹ میں وائی ایف -16 کو گرنے سے بچانے میں کامیاب نہیں ہوتے تو دنیا کی بہت سی فضائی افواج میں شاید ایف -16 کی شکل میں کسی لڑاکا طیارے کی بڑی کمی ہوتی۔ اس طیارے کے ڈیزائن نے سول ایوی ایشن پر دیرپا اثرات مرتب کیے ہیں، مثال کے طور پر مسافر ایئر لائنز میں بھی اس ٹیکنالوجی کا استعمال اب عام ہو چکا ہے جسے سب سے پہلے ایف سولہ طیارے میں استعمال کیا گیا۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ کوئی نہ کوئی ایف 16 طیارہ دن کے کسی بھی وقت، دنیا کے کسی حصے میں محوِ پرواز ہو۔
سنہ 1978 میں امریکی فضائیہ میں شامل ہونے کے بعد ایف -16 کو ناروے سے چلی اور مراکش سے سنگاپور تک دنیا کی 25 دیگر فضائی افواج نے اڑایا ہے۔ ایک چھوٹے، ہلکے اور انتہائی تیز رفتار ڈاگ فائٹر کے طور پر ڈیزائن کیے گئے ایف-16 نے زمینی حملے سے لے کر اینٹی شپنگ اور فوٹو جاسوسی سے لے کر زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل لانچرز کو تباہ کرنے کے کردار نبھائے ہیں۔ سنہ 2015 کے بعد سے یہ دنیا میں سب سے زیادہ فوجی فکسڈ ونگ طیارہ رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ دو ہزار سے زیادہ ایف 16 طیارے آج بھی عالمی سطح پر فعال ہیں۔ روس کے حملے کے بعد یوکرین نے مغربی ممالک سے جو فوجی امداد مانگی تھی اس میں جدید ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ ایف 16 طیارے دینے کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ یوکرین کے پائلٹ اس وقت ڈنمارک میں ایف 16 طیاروں کی تربیت حاصل کر رہے ہیں اور موسم گرما میں یوکرین کو ان طیاروں کی فراہمی شروع ہو جائے گی۔ رواں برس جنوری کے اوائل میں سلوواکیہ ایف-16 طیارے حاصل کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہوا ہے۔
پانچ دہائیوں تک کسی فرنٹ لائن لڑاکا طیارے کو سروس میں رکھنا کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ دنیا میں فضائی افواج کو اب بھی ایف 16 طیارے کیوں چاہییں؟ شاید اس کی وجہ اس کے ڈیزائن سے متعلق کچھ حقیقی اختراعی پہلو اور ویتنام جنگ میں فضائی لڑائی سے سیکھے گئے کچھ سخت سبق ہیں۔ 1960 کی دہائی کے دوران امریکہ نے فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل کی نئی ٹیکنالوجی کو دشمن کے طیاروں کو مار گرانے کے بہترین ہتھیار کے طور پر اپنایا تھا۔ جب 1965 میں ویتنام کی جنگ شروع ہوئی تو اس کے کچھ فرنٹ لائن لڑاکا طیارے جیسے ایف -4 فینٹم 2، کے پاس گنیں نہیں تھیں۔ امریکی فوجی منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ طیارے کے میزائل کافی ہوں گے۔ تاہم، میزائلوں سے لیس امریکی لڑاکا طیارے ویتنام میں جنگ بڑھنے کے ساتھ ہی چھوٹے اور چاق و چوبند اور سوویت ساختہ مگ لڑاکا طیاروں کا مقابلہ کرنے لگے۔ شمالی ویتنام کے کچھ مگ طیارے تقریباً سوویت طیاروں سے ملتے جلتے تھے جو 1950 کی دہائی کے اوائل میں جزیرہ نما کوریا پر لڑے تھے، اور اب مغرب میں انھیں تقریباً متروک سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، قریبی یا دوبدو لڑائی میں، جہاں امریکی لڑاکا اپنے میزائلوں کو استعمال میں نہیں لا سکتے تھے، وہ زبردست حریف ثابت ہوتے تھے۔
سنہ 1965 اور 1968 کے درمیان، امریکی جنگی طیاروں نے شمالی ویتنام کے طیاروں کو کہیں زیادہ مار گرایا، لیکن یہ فرق ڈرامائی طور پر کم ہو گیا۔ چھوٹے اور سنگل انجن والے مگ طیاروں کے مقابلے میں بڑے اور دو انجن والے امریکی لڑاکا طیاروں کو دور سے تلاش کرنا آسان تھا۔ اس کا ایک حل یہ تھا کہ امریکی بحریہ کے ’ٹاپ گن‘ جیسے تربیتی سکول قائم کیے جائیں، جس نے امریکی ہوابازوں کو ڈاگ فائٹ کا کھویا ہوا فن سکھایا۔ یہ ویتنام جنگ کے اختتام سے پہلے عمل میں آیا۔ ڈاگ فائٹ پہلی عالمی جنگ میں شروع ہوئی تھی جب چھوٹے ہوائی جہازوں کی رفتار ایک کار جیسی تھی لیکن اب کئی سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کرنے کی صلاحیت رکھنے والے جیٹ طیاروں میں اسی طرح کی لڑائی ایک بالکل مختلف تجربہ ہے۔ تیز رفتاری کا مطلب ہے کہ آپ زیادہ دیر تک سخت موڑ میں کشش ثقل کی قوتوں یا جی فورس کے تابع ہیں۔ لیکن امریکہ میں سوویت طیاروں کا مقابلہ کے لیے ایک اور پروگرام ترتیب دیا گیا۔ 1960 کی دہائی کے آخر میں سوویت مگ 25 کے ابھرنے سے امریکی دفاعی سربراہان پہلے ہی پریشان تھے، جو ایک بڑا لڑاکا طیارہ تھا جو آواز کی رفتار سے تین گنا زیادہ رفتار سے پرواز کر سکتا تھا۔
��ینٹاگون کی جانب سے مگ-25 کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک طاقتور انٹرسیپٹر کے مطالبے کے نتیجے میں میکڈونیل ڈگلس ایف-15 ایگل تیار کیا گیا، جو ایک بڑا اور تیز رفتار انٹرسیپٹر ہے جو ریڈار گائیڈڈ میزائلوں سے انتہائی اونچائی پر دشمن کے طیاروں کو مار گرانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ ویتنام جنگ سے امریکہ نے جو سبق سیکھا وہ یہ تھا کہ اسے ایک ایسے چھوٹے چاق و چوبند طیارے کی ضرورت ہے جو دشمن کے طیاروں کو ہیٹ سیکنگ میزائلوں اور بندوقوں سے مار گرا سکے آنے والے دنوں میں امریکی ایئرفورس کو ایسے سینکڑوں جنگی طیاروں کی ضرورت ہونی تھی اور اس بات کا قوی امکان تھا کہ نیٹو ممالک اور دوسری امریکی اتحادی بھی اس کی پیروی کریں گے۔ اس منافع بخش منصوبے کے لیے پانچ ڈیزائن دوڑ میں شامل ہو گئے، جن میں سے دو جلد ہی سب سے آگے نکل گئے جن میں جنرل ڈائنامکس (اب لاک ہیڈ مارٹن کا حصہ) سے وائی ایف -16 اور حریف نارتھروپ سے وائی ایف -17۔ وائی ایف -16 کو سب سے پہلے ڈاگ فائٹ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا جس کے تحت اس کے ڈیزائن میں تبدیلیاں کی گئیں اور کاک پٹ کو ایسے بنایا گیا جو پائلٹ کو بہتر نظارہ مہیا کرتا ہے۔ اس کا کاک پٹ بالکل ابتدائی جیٹ لڑاکا طیاروں جییسا ڈیزائن کیا گیا تھا۔
برطانیہ میں رائل ایروناٹیکل سوسائٹی میں ملٹری ایوی ایشن کے ماہر ٹم رابنسن کا کہنا ہے کہ ’کم از کم ’فائٹر مافیا‘ کا ایک حصہ جو اسے آگے بڑھا رہا تھا وہ کوریا اور ایف-86 سیبر کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ کسی ایسی چیز کو دیکھ رہے تھے جو واقعی قابل عمل تھی اور ببل چھتری کے ساتھ پائلٹ کے لیے واقعی بہت اچھا نظارہ رکھتی تھی۔ رابنسن کا کہنا ہے کہ ایک یہ خیال پیش کیا گیا کہ ریڈار کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد انفراریڈ کی تلاش کرنے والے دو میزائل اور ایک گن رکھنا ہے اور انھیں ان چیزوں کو ختم کرنا پڑے گا۔ وہ سوویت طیاروں کی تعداد کو دیکھ رہے تھے اور سوچ رہے تھے: ’خدا، ہمیں ان میں سے بہت سے کی ضرورت ہو گی، ہمیں ان میں سے بہت سے بنانے ہوں گے۔‘ نئے جیٹ کو ایف -15 کی طویل رینج کی ضرورت نہیں تھی چنانچہ یہ بہت چھوٹا اور ہلکا ہو سکتا تھا اور ایف -15 کے دو انجنوں کے برعکس اسے ایک انجن کی ضرورت ہو گی۔ کم وزن اور طاقتور انجن کا یہ امتزاج ایک اعلی ’تھرسٹ ٹو ویٹ تناسب‘ پیدا کرتا ہے، جس نے نہ صرف تیز رفتار کو قابل بنایا بلکہ تیزی سے موڑنے کی صلاحیت بھی پیدا کی جو ڈاگ فائٹ کے لیے انتہائی موزوں ہے۔
ایف -16 کو ڈاگ فائٹ میں 9 جی تک برداشت کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا (جس کا مطلب ہے کہ زمین پر 1 کلو گرام وزن اچانک 9 کلو گرام ہو گا)۔ ہائی جی پر پرواز کرنے سے ایئر فریم اور پائلٹ دونوں پر بہت زیادہ دباؤ پیدا ہوتا ہے۔ ہائی جی موڑ میں پائلٹ کو ہوش میں رکھنے میں مدد کے لیے، ایف 16 میں کاک پٹ سیٹ کو دوبارہ موڑ دیا جاتا ہے جس سے پائلٹ پر کچھ اثرات کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ جیف بولٹن ایوی ایشن جرنلسٹ اور براڈکاسٹر ہیں جنھوں نے دو بار ایف 16 کے دو نشستوں والے ورژن میں پرواز کی ہے، جو پائلٹ کی تربیت اور خصوصی مشن دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہ��ں کہ ’میں نے جن لڑاکا طیاروں میں پرواز کی ہے ان میں ایف 16 ایسا طیارہ ہے جو ایک دستانے کی طرح آپ کے گرد لپٹ جاتا ہے۔‘ ’میں قد تقریباً 6 فٹ 4 انچ ہے، لہذا یہ میرے لیے ایک تنگ جگہ ہے، لیکن میں پھر بھی اپنی نشست کو نیچے کر سکتا تھا اور میں اپنا ہاتھ اپنے ہیلمٹ اور چھتری کے درمیان رکھ سکتا تھا۔ اور مجھے لگتا ہے کہ آپ نے طیارے کو ’پہن‘ رکھا ہے۔‘
آنے والے دنوں میں ایف 16 کا کاک پٹ کا ڈیزائن صرف ایک لیٹی ہوئی نشست اور ایک اچھے نظارے سے کہیں آگے گیا۔ طیارے کے ڈیزائنرز نے پہلی عالمی جنگ کے بعد سے لڑاکا طیاروں کی سب سے اہم خصوصیات میں سے ایک کو ختم کر دیا، یعنی پائلٹ کی ٹانگوں کے درمیان ایک کنٹرول سٹک کی بجائے ایف -16 میں کاک پٹ کے دائیں طرف جوائے سٹک طرز کا کنٹرولر تھا، بالکل اسی طرح جیسے آپ کمپیوٹر گیم ’فلائٹ سمولیٹر‘ میں استعمال کرتے ہیں۔ ایف 16 کو اصل میں کم اونچائی پر ایف 15 کی مدد کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، لیکن جلد ہی یہ پتہ چلا کہ ایف 16 کے ایئر فریم نے اسے بھاری بوجھ، زیادہ ایندھن اور ایک بڑا ریڈار لے جانے کی اجازت دی۔ اکیسویں صدی میں ایف 16 طیارے زمینی حملے کے طیارے کے طور پر اہم ہو گئے ہیں جس کے بارے اس کے ڈیزائن کرنے والوں نے 1970 کی دہائی میں سوچا نہیں تھا۔ ایف سولہ کے ڈیزائن نے اسے زیادہ سے زیادہ کردار نبھانے کے قابل بنایا ہے جس نے اسے فضائی افواج کے لیے انتہائی پرکشش بنا دیا رابنسن کا کہنا ہے کہ ’جہاں کوئی تنازع ہے، وہاں شاید ایف 16 طیارے بھی ہوں گے۔‘
رابنسن کا کہنا ہے کہ ایف 16 کا پہلا عرفی نام ’فائٹنگ فالکن‘ تھا، لیکن یہ نام اس پر کبھی جما نہیں ہے۔ ’اب اسے (عرفی نام) کوئی بھی استعمال نہیں کرتا ہے۔ زمین پر کھڑے ایف 16 طیارے بہت ہی ’فیوچرسٹک‘ (یعنی مستقبل کی شے) لگتے ہیں لیکن فضا میں اس حقیقت کا آپ پر انکشاف بھی ہوتا ہے۔ رابنسن کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک ایسا طیارہ ہے جو پائلٹوں کو ان کی جسمانی حدود سے باہر دھکیل سکتا تھا نہ صرف اس لیے کہ یہ 9 جی تھا بلکہ یہ بھی کہ یہ کتنی تیزی سے آئے گا۔‘ بولٹن کا کہنا ہے کہ ’جب میں پہلی بار ایف سولہ میں سوار ہوا تو انسٹرکٹر نے مجھ سے کہا کہ ’ٹھیک ہے، اب یہ طیارہ آپ کا ہوا۔‘ پائلٹ نے بولٹن کو مشورہ دیا کہ ’یہ بہت حساس ہے۔ تو بس اس بات کو ذہن میں رکھو کہ ایف 16 کی کنٹرول سٹک پر زیادہ طاقت نہ لگائی جائے۔‘ بولٹن کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس کا آغاز ایلرون رول سے کیا تھا، جہاں طیارہ اونچائی کھوئے بغیر 360 ڈگری تک گھوم جاتا ہے۔ ’تو میں نے جب اسے انجام دیا، تو انسٹرکٹر نے میری طرف دیکھا اور کہا ’یار، یہ بہت اچھا تھا۔‘ انسٹرکٹر نے کہا کہ نئے پائلٹ پہلے ایف 16 کے کنٹرولر پر بہت زیادہ طاقت لگاتے تھے۔ بولٹن کا کہنا ہے کہ یہ طیارہ اس قدر ریسوپانسو ہے کہ ’یہ انسٹرکٹرز کا سر کنوپی کے اطراف سے ٹکراتا ہے۔‘
بولٹن اس سے قبل ایف 5 جیسے امریکی طیاروں میں پرواز کر چکے ہیں، جو ایک طویل عرصے تک ٹاپ گن مشقوں میں سوویت جیٹ طیاروں کا کردار ادا کرنے کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں۔ واٹرز اپنے ایف 16 فلائنگ کیریئر کے اختتام پر ایئر شوز میں نمائشی اور ایروبیٹگ پروازیں کرتے رہے ہیں۔ انھیں آج بھی یاد ہے کہ انھوں نے پہلی بار ایف 16 کے کاک پٹ میں کب قدم رکھا تھا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ 'یہ جولائی میں فینکس میں تھا اور درجہ حرات 48 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ ’بہت زیادہ گرمی، جیٹ کا شور اور پھر آپ ایک ایسے طیارے میں چھلانگ لگا رہے ہیں جسے آپ نے چند بار کنٹرولڈ اور آرام دہ ماحول میں سمولیٹر میں چلایا ہے۔‘ واٹرز کا کہنا ہے کہ تقریباً 5,000 فٹ کی بلندی پر انھوں نے اپنا ماسک گرایا اور وہ پہلی بار ایف 16 اڑانے کی گرمی اور جوش و خروش کے باعث پسینے سے بھیگ گئے تھے۔ ’میں نے اس لمحے سے لطف اندوز ہونے کے لیے صرف ایک منٹ لیا۔یہ ایک بہت ہی ناقابل یقین سنسنی تھی۔ اور اس وقت تک کی سب سے طاقتور چیز جو میں نے اڑائی تھی۔‘
واٹرز کا کہنا ہے کہ ایف-16 کو اڑانے کا واحد مشکل حصہ اسے اتارنا یا لینڈنگ کروانا ہے۔ ’اسے اچھی طرح سے اتارنا کچھ آسان نہیں ہے کیونکہ یہ طیارہ ہمیشہ محو پرواز رہنا چاہتا ہے! آپ دیکھتے ہیں کہ ایف 16 وہ کام کرتے ہیں جسے ہم 'ببل' یا 'باؤنس' کہتے ہیں۔ آپ روایتی طور پر اسے روک نہیں سکتے، فلائی بائی وائر نہیں چاہتا کہ آپ ایسا کریں، وہ اسے اڑتا رہنا چاہتا ہے۔‘ واٹرز نے 2019 میں ایف 16 کو اڑانا چھوڑ دیا تھا۔ ’میں اب بھی اسے یاد کرتا ہوں۔ ایف 16 پر سٹریپنگ سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے آپ ٹیلی فون کے کھمبے کے آخری حصے پر بیٹھے ہیں اور آپ کی پیٹھ پر راکٹ موٹر لگی ہوئی ہے۔‘ تاہم اب ایف 16 کی جگہ امریکہ اور نیٹو کی کچھ فضائی افواج میں لاک ہیڈ ساختہ لڑاکا طیارے ایف 35 کو شامل کیا جا رہا ہے۔ ہر ایف 35 کی قیمت 100 ملین ڈالر سے زیادہ ہے اور اسے دشمن کے طیاروں کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں سے تباہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ ایڈ-آن کے بغیر ایف-16 کی قیمت ایف 35 کی قیمت کا صرف ایک تہائی ہو سکتی ہے۔ وہ 2056 میں ہو گا جب ایف 35 کی پہلی پرواز کے 50 سال مکمل ہوں گے مگر اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس وقت بھی ایف 16 طیارے کہیں نہ کہیں پرواز کر رہے ہوں گے۔
سٹیفن ڈولنگ عہدہ,بی بی سی فیوچر
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
Text
ترکی کو 20 ارب ڈالر کے ایف 16 طیاروں کی فروخت جلد شروع ہو جائے گی، امریکی سفیر
ترکی میں امریکی سفیر نے کہا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ صدر طیب اردگان سویڈن کی نیٹو کی رکنیت پر چند دنوں کے اندر حتمی دستخط کر دیں گے، جس کے بعد امریکی کانگریس کی جانب سے انقرہ کو ایف 16 لڑاکا طیاروں کی فروخت کی توثیق کی طرف تیزی سے قدم اٹھائے جائیں گے۔ جمعرات کو ایک انٹرویو میں، سفیر جیف فلیک نے کہا کہ ایک بار جب واشنگٹن میں باضابطہ توثیق کی دستاویز موصول ہو جاتی ہے، تو امریکی محکمہ خارجہ فوری طور…
View On WordPress
0 notes
Text
جنوبی افریقہ کو ہی غصہ کیوں آیا؟
یہ تو آپ جانتے ہیں کہ جنوبی افریقہ پہلا ملک ہے جس نے ایک نسل پرست، نسل کش ریاست اسرائیل کو عالمی عدالتِ انصاف ( آئی سی جے) کے کٹہرے میں کھڑا کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اب فیصلہ جب بھی ہو، جو بھی ہو، کم ازکم یہ دیومالائی تاثر ٹوٹ گیا کہ اسرائیل کے گریبان پر کوئی مائی کا لال ہاتھ نہیں ڈال سکتا اچھی بات یہ ہے کہ کسی عرب یا مسلمان ملک کے ہاتھوں یہ کام انجام نہیں پایا بلکہ ایک سیکولر غیر عرب، غیر مسلم اکثریتی ریاست کے ہاتھوں یہ کارِ خیر ہوا۔ لہٰذا اس پیٹیشن کو روایتی یہود دشمن مسلمان تعصب بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسرائیل اور جنوبی افریقہ کے تعلقات کی تاریخ میں جائیں تو یہ اسرائیل اور ایران کے تعلقاتی اتار چڑھاؤ سے بہت مماثل ہیں۔ ایران ان چند ممالک میں شامل تھا جنھوں نے اسرائیل کا ریاستی وجود بہت شروع میں ہی تسلیم کر لیا تھا۔ شاہی ایران کو ایک پولیس اسٹیٹ بنانے میں اسرائیل نے بھرپور آلاتی و مہارتی مدد کی۔ بالخصوص خفیہ ایجنسی ساواک کو سفاک بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ تہران فروری انیس سو اناسی تک سی آئی اے اور موساد کا ایشیا میں سب سے بڑا نگراں اسٹیشن تھا۔
جب ایران میں انقلاب نے ہر شے الٹ دی تو اس الٹ پلٹ میں اسرائیل، امریکا اور ایران بھی راتوں رات ایک دوسرے کے پکے دوستوں سے پکے دشمنوں میں بدل گئے۔ البتہ اسرائیل کے وجود میں آتے ہی جس اعلیٰ بیرونی عہدیدار نے اس غصب شدہ زمین پر قدم رنجہ فرمایا، وہ کھلم کھلا نسل پرست جنوبی افریقہ کی گوری اقلیتی حکومت کے وزیرِ اعظم ڈینیل ملان تھے۔ انیس سو اکسٹھ میں جنوبی افریقہ کے اگلے وزیرِ اعظم ہنڈرخ ورورڈ نے تل ابیب کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم دو نظریاتی نسل پرست دوست ریاستیں ہیں۔‘‘ (جب یہی بات اکسٹھ برس بعد ایمنٹسی انٹرنیشنل نے کہی تو اسے یہود دشمنی قرار دیا گیا)۔ انیس سو پچھتر میں دونوں ریاستوں نے نسل پرستی کے تصور کو ایک خوشنما زود ہضم نظریے کی شکل دینے کے خاطر سیاسی و نفسیاتی پروپیگنڈے کی جدت کاری کے لیے ایک مشترکہ سیکرٹیریٹ تشکیل دیا۔ انیس سو چھہتر میں جنوبی افریقہ کے وزیرِ اعظم جان وورسٹر نے اسرائیل کا دورہ کیا۔
اسرائیل نے یہ جاننے کے باوجود ان کے لیے سرخ قالین بچھایا کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران برطانیہ نے جان وورسٹر کو ایک نازی ہمدرد ہونے کی پاداش میں کچھ عرصے قید میں بھی رکھا۔ جان وورسٹر کے دورے کے نتیجے میں اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے جنوبی افریقہ کے عالمی بائیکاٹ کے سبب جنوبی افریقہ کے فوجی افسروں کو تربیت کے لیے اسرائیل بھیجا جانے لگا۔ انیس سو اکیاسی تک لگ بھگ دو سو اسرائیلی فوجی مشیر جنوبی افریقہ کی نسل پرست فوج سے منسلک ہو چکے تھے۔ اسرائیل نے جنوبی افریقہ کے ایلیٹ کمانڈو یونٹ کی تشکیل و تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ یونٹ جنوبی افریقہ کے اندر اور اردگرد کے ممالک میں افریقن نیشنل کانگریس سمیت دیگر حریت پسند سیاہ فام تنظیموں کو تتر بتر کرنے کی نیت سے قائم کیا گیا۔ یوں اسرائیل نے تنظیم آزادی فلسطین ( پی ایل او ) کے ’’دہشت گردوں ’’ سے نپٹنے کا تجربہ جنوبی افریقہ کے نسل پرستوں کو منتقل کیا۔اسرائیل کی سب سے بڑی اسلحہ ساز کمپنی ایلبیت سسٹمز نے جنوبی افریقہ کو جدید الیکٹرونکس آلات و اسلحہ سازی کی مقامی صنعت استوار کرنے کے لیے ہر طرح کی مدد بہم پہنچائی۔
جنوبی افریقہ کے عالمی اقتصادی و اسٹرٹیجک بائیکاٹ کے باوجود اسرائیل اقوامِ متحدہ کا واحد رکن تھا جس نے اسی کی دہائی میں جنوبی افریقہ کو پونے دو ارب ڈالر کے لگ بھگ ساٹھ کفر ساختہ لڑاکا طیارے فروخت کیے۔ ان طیاروں کو ہمسائیہ ممالک انگولا ، موزمبیق اور زیمبیا میں قائم اے این سی کے ٹھکانوں پر حملوں کے لیے استعمال کیا گیا۔ جنوبی افریقہ کی بحریہ کو اسرائیل نے وہی ریڈار سسٹم فروخت کیا جو وہ خود استعمال کرتا تھا۔ دراصل اسرائیل نے اپنے اسلحے کی صنعت امریکی ٹیکنالوجی کی مدد سے استوار کی اور پھر یہی امریکا ٹیکنالوجی تھرڈ پارٹی ٹرانسفر کے ذریعے جنوبی افریقہ کے ہاتھوں پہنچ گئی۔ امریکا نے اس بارے میں کبھی بھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔ جنوبی افریقہ کی فوج کے پاس جو اسٹینڈرڈ سب مشین گن تھی وہ اسرائیل کی اوزی سب مشین گن کی ہی ایک مقامی نقل تھی۔ اسرائیل کے جوہری پروگرام کی بقا کے لیے جنوبی افریقہ کے یورینیم کی بنیادی اہمیت تھی۔
اس کے بدلے اسرائیل نے جنوبی افریقہ کو فوجی سطح کی جوہری افزودگی کی صلاحیت اور میزائل ٹیکنالوجی فراہم کی۔ جنوبی افریقہ کو کولڈ بلاسٹ کی صلاحیت فراہم کر کے اسے ایک خاموش جوہری طاقت بنایا گیا۔ نسل پرست حکومت کے خاتمے کے بعد انکشاف ہوا کہ جنوبی افریقہ نے چھ ہیروشیما حجم کے ایٹم بم بنا لیے تھے۔ امریکی سی آئی اے کو یہ راز پہلے دن سے معلوم تھا۔ انیس سو نوے کے عشرے میں پی ڈبلیو بوتھا آخری وزیرِ اعظم تھے جنھوں نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ جنوبی افریقہ میں نسل پرست حکومت کے خاتمے کے سبب اسرائیل براعظم افریقہ میں اپنے سب سے قریبی حلیف سے محروم ہو گیا۔ اپارتھائیڈ نظام کے زوال کے بعد جنوبی افریقہ میں اکثریتی سیاہ فام اے این سی کی قیادت والی حکومت نیلسن منڈیلا کی سربراہی میں قائم ہوئی۔ ستائیس برس کی قید سے رہائی کے بعد جب منڈیلا برے وقت میں ساتھ کھڑے رہنے والے دوستوں سے پہلی بار ملنے زیمبیا پہنچے تو یاسر عرفات بھی منڈیلا کا ماتھا چومنے کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔
نئے جنوبی افریقہ نے اسرائیل سے سفارتی و اقتصادی تعلقات برقرار رکھے۔ البتہ خارجہ پالیسی کا قطب نما ایک سو اسی ڈگری گھوم گیا۔ پی ایل او کو سفارتی طور پر تسلیم کیا گیا۔ رام اللہ میں جنوبی افریقہ کا سفارتی دفتر قائم ہوا۔ کیپ ٹاؤن کے شہریوں نے فلسطینی اتھارٹی کو دو ہزار پندرہ میں نیلسن منڈیلا کا مجسمہ پیش کیا۔جو اس وقت رام اللہ کے منڈیلا اسکوائر میں ایستادہ ہے۔ منڈیلا نے رہا ہوتے ہی ایک بات کہی جو فلسطین اور جنوبی افریقہ کی سیاہ فام اکثریت کے درمیان مظلوم کے مظلوم سے تعلق کی کہانی کو مکمل طور پر سموئے ہوئے ہے۔ یعنی،’’ جنوبی افریقہ کی آزادی فلسطین کی آزادی کے بغیر نامکمل ہے۔‘‘ اس جملے کی لاج جنوبی افریقہ کی ہر حکومت رکھ رہی ہے۔ بھلا جنوبی افریقہ سے زیادہ کون نسل پرستی اور نسل کشی کے زہریلے اثرات کے بارے میں جانتا ہے؟ جنوبی افریقہ کی تحریکِ آزادی کے ہیرو آرچ بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو جب پہلی بار فلسطینی اتھارٹی کی دعوت پر مقبوضہ مغربی کنارے پر پہنچے اور انھوں نے فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی فوج اور پولیس کا رویہ اور چیک پوسٹوں کا جال دیکھا تو بشپ ٹو ٹو کے منہ سے بے ساختہ نکلا ’’ ارے یہ سب تو میرے گھر جیسا ہے۔ وہ گھر جہاں میں پیدا ہو، بڑا ہوا ، باشعور ہوا۔ اور پھر اس سب سے نجات پائی۔ ایک دن تم بھی وہ دن ضرور دیکھو گے ۔‘‘ جنوبی افریقہ کی فلسطین پالیسی اس کے سوا کیا ہے ؟
سب پہ جس بار نے گرانی کی اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا (میر) وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکپسریس نیوز
0 notes
Text
پاک ترکیہ ففتھ جنریشن لڑاکا طیاروں کی تیاری میں اہم پیشرفت
http://dlvr.it/SvWPGV
0 notes
Text
انڈیا کو روسی ساختہ جنگی طیاروں سے دور رکھنے کا امریکی دباو
امریکہ نے رواں ہفتے ایرو انڈیا شو میں اپنے کچھ جدید ترین طیارے جن میں ایف 35، ایف 16، سپر ہورنیٹ اور بی ون شامل ہیں، کی نمائش کی جس کا مقصد انڈیا کو اس بات پر راضی کرنا ہے کہ وہ اپنے روایتی سپلائر روس کے بجائے امریکہ سے فوجی سازوسامان خریدے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق انڈیا اپنی فضائی طاقت کو بڑھانے کے لیے سوویت دور کے لڑاکا طیاروں کے بیڑے کو جدید بنانے کے لیے بے چین ہے۔ ایک جانب تو انڈیا…
View On WordPress
0 notes
Text
امریکہ کی ایرو انڈیا شو میں جدید ترین طیاروں کی نمائش
(ویب ڈیسک )رو اں ہفتہ میں امریکہ نے ایرو انڈیا شو میں اپنے جدید ترین طیارے ایف 35، ایف 16، سپر ہورنیٹ اور بی ون کی نمائش کی جس کا مقصد انڈیا کو اس بات پر راضی کرنا ہے کہ وہ اپنے روایتی سپلائر روس کے بجائے امریکہ سے فوجی سازوسامان خریدے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق انڈیااپنے لڑاکا طیاروں کو جدید بنانے کیلئے بے چین ہے۔ ایک طرف تو انڈیا یوکرین کی جنگ کی وجہ سے روسی سپلائی میں تاخیر پر فکر مند ہے اور…
View On WordPress
0 notes
Text
انڈیا کو روسی ساختہ جنگی طیاروں سے دور رکھنے کا امریکی دباو
امریکہ نے رواں ہفتے ایرو انڈیا شو میں اپنے کچھ جدید ترین طیارے جن میں ایف 35، ایف 16، سپر ہورنیٹ اور بی ون شامل ہیں، کی نمائش کی جس کا مقصد انڈیا کو اس بات پر راضی کرنا ہے کہ وہ اپنے روایتی سپلائر روس کے بجائے امریکہ سے فوجی سازوسامان خریدے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق انڈیا اپنی فضائی طاقت کو بڑھانے کے لیے سوویت دور کے لڑاکا طیاروں کے بیڑے کو جدید بنانے کے لیے بے چین ہے۔ ایک جانب تو انڈیا…
View On WordPress
0 notes
Text
سعودی عرب کا پہلی خاتون خلا باز کو مشن پر بھیجنے کا اعلان
سعودی عرب نے ملک کی پہلی خاتون خلاباز کے نام کا اعلان کیا ہے جو رواں برس کے آخر میں خلا کا سفر کریں گی۔ سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں سعودی پریس ایجنسی کے مطابق 33 سالہ ریانا برناوی بین الاقوامی خلائی سٹیشن (آئی ایس ایس) کے 10 روزہ مشن پر خلا میں جانے والی مملکت کی پہلی خاتون بن جائیں گی۔ سعودی عرب میں لڑاکا طیارے کے پائلٹ علی القرنی بھی ان کے ہمراہ ہوں گے۔ یہ خلا میں جانے والے سعودی عرب کے دوسرے…
View On WordPress
0 notes
Text
بھارتی فضائیہ کا ایک اور مگ 29 طیارہ گر کر تباہ
لکھنؤ (ڈیلی پاکستان آن لائن) بھارتی ریاست اتر پردیش میں بھارتی فضائیہ کا ایک اور لڑاکا طیارہ مگ 29 گر کر تباہ ہوگیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق لڑاکا طیارے نے ریاست پنجاب کے آدم پور سے آگرہ کے لیے پرواز بھری تھی اور آگرہ میں ہچکولے کھاتے ہوئے ایک آبادی کے ن��دیک کھیت پر گر گیا۔طیارے میں لگنے والی آگ نے پورے کھیت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ طیارہ آگرہ میں جنگی مشق میں حصہ لینے کے لیے جا رہا تھا۔حادثے…
0 notes
Text
یورپی یونین کا یوکرین میں اہم اجلاس؛ روسی طیارے فضا میں منڈلاتے رہے
یورپی یونین کے رہنما یوکیرن کے دارالحکومت پہنچ گئے، فوٹو: راٗٹرز کیف: یوکرین میں یورپی یونین کے رہنماؤں کے اہم اجلاس کے دوران روسی لڑاکا طیارے دھمکانے کی غرض سے کیف کی فضائی حدود میں چکر لگاتے رہے۔ الجزیرہ نیوز کے مطابق یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین یورپی یونین کے اہم اجلاس میں شرکت کے لیے یوکرین کے دارالحکومت کیف پہنچ گئیں جہاں ان کا استقبال صدر ولودیمیر زیلنسکی نے کیا۔ خیال رہے کہ…
View On WordPress
0 notes
Text
پاک ترک مشترکہ اسٹیلتھ جنگی طیارے
دنیا میں ترکیہ اور پاکستان دو ایسے ممالک ہیں جن کے برادرانہ اور دوستانہ تعلقات کی مثال دی جاتی ہے اور ان کو یک جان دو قالب یا پھر ایک قوم دو ممالک کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ان دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم جو 75 سالوں میں ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر تک پہنچا ہے، دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ، گہرے مثالی برادرانہ اور دوستانہ تعلقات کی ہرگز عکاسی نہیں کرتا۔ پاکستان ماضی میں ترکیہ کے لئے ایک رول ماڈل ملک کی حیثیت رکھتا تھا لیکن پاکستان اپنے جغرافیائی اور اندرونی حالات کی وجہ سے مشکلات میں گھرا ہوا ہے تاہم اس دوران ترکیہ نے صدر رجب طیب ایردوان کے دورِ اقتدار میں حیرت انگیز طور پر بڑی سرعت سے ترقی کی ہے، خاص طور پر ترکیہ کی دفاعی صنعت جس میں ڈرونز اور مقامی طور پر تیار کردہ جنگی طیارے دنیا کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ ترکیہ اگرچہ ڈرونز کی تیاری میں دنیا پر اپنی دھاک بٹھا چکا ہے، اب اس نے بڑے پیمانے پر مقامی وسائل سے اسٹیلتھ جنگی طیارے بنانے کے منصوبے پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔ امریکہ کی جانب سے ترکیہ کو ایف ۔35 طیارے کے پروجیکٹ کو روکنے کی وجہ سے ترکیہ کے صدر ایردوان نے بڑی دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے ترکیہ ہی میں ایف-35 طرز کا اسٹیلتھ جنگی طیارہ بنانے کا فیصلہ کیا کیونکہ ترک انجینئرز امریکہ میں ایف.35 پروجیکٹ میں کام کر چکے تھے، صدر ایردوان نے ان انجینئرز کی خدمات سے استفادہ کرتے ہوئے ترکیہ میں اسی طرز کا اسٹیلتھ جنگی طیارہ بنانے کا فیصلہ کیا۔
صدر ایردوان نے امریکہ کے اس رویے پر بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ نے ترکیہ پر ب��ت بڑا احسان کیا ہے، ترکیہ کو اپنے طیارے خود تیار کرنے کی راہ پر گامزن کر دیا ہے۔ اس طرح ترکیہ ایرو اسپیس انڈسٹریز نے ملک می�� پہلے اسٹیلتھ جنگی طیارے’قاآن‘ تیار کرنے کی پلاننگ شروع کر دی اور دن رات کی محنت اور طویل جدوجہد کے بعد مقامی وسائل استعمال کر کے اپنا پہلا اسٹیلتھ جنگی طیارہ تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ ترکیہ عالمِ اسلام کا واحد ملک ہے جس کے جنگی طیارے نے دنیا بھر میں ہل چل پیدا کر دی ہے۔ ایک سیٹ پر مشتمل اس طیارے کی طوالت 21 میٹر (69 فٹ) بلندی 6 میٹر (20 فٹ) ہے جبکہ اس کی رفتار 2,210 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ اس سپر سانک طیارے کی اہم خصوصیت ایک یہ ہے کہ اس میں بم اور میزائل باہر لٹکے ہوئے ہونے کی بجائے اندر کور کے پیچھے رکھے جاتے ہیں تاکہ دشمن کے طیارے ریڈار یا ریڈیو ویوز کے ذریعے اس تک رسائی حاصل نہ کر سکیں، میزائل اور بم گرانے کے وقت اس کور کو کھول دیا جاتا ہے اور استعمال کے بعد بند کر دیا جاتا ہے۔ اس طیارے کے ونگ ایف سولہ طیارے کے ونگ کے برابر ہیں۔ اس میں ایف سولہ طیارے ہی کے انجن کو استعمال کیا گیا ہے یعنی F110 انجن، ایف سولہ میں صرف ایک انجن ہے جبکہ اس میں دو انجن نصب کئے گئے ہیں۔
نیشنل کمبیٹ ایئر کرافٹ کو ترکیہ ایرو اسپیس انڈسٹریز ہی نے ڈیزائن اور تیار کیا ہے۔ قاآن (عثمانی ترکی زبان میں استعمال کیا جانے والا لفظ ہے) کے معنی ’’حکمران‘‘ یا ’’بادشاہوں کا بادشاہ‘‘ ہے۔ یہ نام دراصل صدر ایردوان کے اقتدار میں شامل جماعت MHP کے چیئرمین دولت باہچے جو بڑے قوم پرست ہیں کی طرف سے دیا گیا ہے۔ اس سال دسمبر میں قاآن کی پہلی پرواز کا منصوبہ بنایا گیا ہے جبکہ 2026 میں 3 عدد پروٹو ٹائپ تیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور پھر 2028 میں بڑے پیمانے پر اس کی پیداوار شروع کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ یہ طیارہ، ایف سولہ کی جگہ ترک فضائیہ کی انونٹری میں فائٹر طیارے کے طور پر شامل کیا جائے گا۔ ابتدا میں سالانہ، ان طیاروں کی فروخت سے ایک بلین ڈالر کی آمدنی کا پلان تیار کیا گیا ہے، یہ طیارہ ماہ دسمبر میں اپنی تجرباتی پرواز کا آغاز کر دے گا۔ ترکیہ ایرو اسپیس انڈسٹریز کے سربراہ تیمل کوتل نے کہا ہے کہ اس وقت قاآن نامی دو عدد جنگی طیارے پرواز کے لئے تیار ہیں۔ گزشتہ ہفتے پاک فضائیہ کے سربراہ ائیر چیف مارشل احمد بابر سدھو نے ترک ایوان صدر کی خصوصی دعوت پر ترکیہ کا دورہ کیا اور ترک ایئر فورس اکیڈمی میں گریجویشن اور پرچم کشائی کی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔
سربراہ پاک فضائیہ کی تقریب میں شرکت دونوں فضائی افواج کے مابین دیرینہ دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ترکیہ ڈیفنس یونیورسٹی کی تقریب میں مدعو کرنے پر ائیر چیف مارشل سدھو نے صدر ایردوان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پاک فضائیہ کے ترک فضائیہ کے ساتھ ٹھوس شراکت داری کو جاری رکھنے کا اظہار کیا۔ پاک فضائیہ کےسربراہ ایئر چیف نے کہا کہ ہم ترکیہ کے مقامی طور پر تیار کردہ 5ویں نسل کے قومی جنگی لڑاکا جیٹ قاآن کو مشترکہ طور پر تیار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں ترکیہ کے ساتھ 5ویں نسل کے جنگی طیاروں کی مشترکہ تیاری کے منصوبے پر ترک حکام سے بات چیت جا ری ہے۔ انہوں نے اپنے دورہ ترکیہ کے دوران دو طرفہ ٹیکنالوجی کے اشتراک اور، 5ویں نسل کے جنگی طیاروں کی مشترکہ تیاری اور ترقی کے منصوبوں میں ترکیہ کے ساتھ تعاون کو عزم کے ساتھ جاری رکھنے کا اظہار کیا، پاک فضائیہ کے سربراہ ائیر چیف مارشل سدھو کا ترکیہ کا تاریخی دورہ نہ صرف دونوں برادر ممالک کے درمیان موجودہ تعلقات کو مزید مضبوط کرے گا بلکہ دونوں ممالک کے اسٹیلتھ جنگی طیارے قاآن کی مشترکہ تیاری کی راہ بھی ہموار کرے گا۔ اس سے قبل ترکیہ کے وزیر قومی دفاع یشار گیولرکے پاکستان کو بھی اس پروجیکٹ میں شامل کیے جانے کے بارے میں مذاکرات جاری ہیں اور جلد ہی پاکستان کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے جانے کی توقع کی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر فر قان حمید
بشکریہ روزنامہ جنگ
#Pakistan#Pakistan Air Force#Recep Tayyip Erdogan#Stealth aircraft#Stealth Fighter#Turkey#Turkish Air Force#World
0 notes
Text
غزہ جنگ پر ’ تعمیری‘ موقف کا صلہ، جرمنی نے سعودی عرب کو لڑاکا طیارے فروخت کرنے کی منظوری دے دی
جرمنی سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت پر عائد مزید پابندیاں ہٹانے کے بعد یورو فائٹر ٹائفون لڑاکا طیاروں کی سعودی عرب کو فروخت کی اجازت دے گا۔ ریاض تقریباً 5.6 بلین ڈالر کی لاگت سے 2007 میں ابتدائی طور پر 72 کی خریداری کے بعد جرمنی سے 48 لڑاکا طیارے حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سے پہلے کے طیارے پہلے ہی سعودی عرب کو پہنچائے جا چکے تھے۔ 2018 میں، جرمنی نے یمن کے خلاف جنگ میں شامل ممالک کو اسلحے…
View On WordPress
0 notes
Text
سعودی عرب کا پہلی خاتون خلا باز کو مشن پر بھیجنے کا اعلان
سعودی عرب نے ملک کی پہلی خاتون خلاباز کے نام کا اعلان کیا ہے جو رواں برس کے آخر میں خلا کا سفر کریں گی۔ سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں سعودی پریس ایجنسی کے مطابق 33 سالہ ریانا برناوی بین الاقوامی خلائی سٹیشن (آئی ایس ایس) کے 10 روزہ مشن پر خلا میں جانے والی مملکت کی پہلی خاتون بن جائیں گی۔ سعودی عرب میں لڑاکا طیارے کے پائلٹ علی القرنی بھی ان کے ہمراہ ہوں گے۔ یہ خلا میں جانے والے سعودی عرب کے دوسرے…
View On WordPress
0 notes