#قاضی پر حملہ
Explore tagged Tumblr posts
Text
قاضی پر حملہ کرنے والے یوتھیوں کو گرفتار کر کے پاکستان لانے کا امکان
وفاقی حکومت کی جانب سے لندن میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی گاڑی پر حملہ کرنے والے یوتھیوں کیخلاف شکنجہ کستا دکھائی دے رہا ہے۔تازہ پیشرفت کے مطابق قاضی فائز عیسی پر حملہ کرنے والے یوتھیوں کے پاکستانی پاسپورٹ منسوخ کرنے کے بعداب لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن نے لندن پولیس کے سامنے قاضی فائز عیسیٰ پر حملے سے متعلق کسی کو نامزد کیے بغیر باضابطہ شکایت درج کرا دی ہے۔ جس کے بعد اسکا…
0 notes
Text
قاضی فائز عیسیٰ کی گاڑی پر حملہ 28 افراد کی نشاندہی نام سامنے آگئے
(عرفان ملک)برطانیہ میں سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور پاکستانی ہائی کمیشن پرحملےکامعاملہ،وزیر داخلہ محسن نقوی کی ہدایات پرایف آئی اے نے تحقیقات کا آغاز کر دیا۔ تفصیلات کےمطابق ایف آئی اے نےحملہ کرنے والے 28 افراد کی نشاندہی کرلی،سوشل میڈیا پر موجود ویڈیو ز سے تصاویر کو نادرا میں تصدیق کے لئےبھجوایا گیا تھا ،ناردرا نے 23افراد کی شناخت کر کے رپورٹ ایف آئی اے کو بھجوا دی۔ایف آئی اے نے 23 ملزموں…
0 notes
Text
جیسی قوم ویسے حکمران
آپ مانیں یا نہ مانیں جیسی قوم ہوتی ہے اسے ویسے ہی حکمران ملتے ہیں۔ جب ہم مظلوم تھے تو ہمیں محمد علی جناح ؒکی صورت میں ایک قائد ملا جس نے برطانوی سرکار کی طرف سے متحدہ ہندوستان کا وزیر اعظم بننے کی پیشکش ٹھکرا کر ہمیں پاکستان بنا کر دیا۔ ہمیں پاکستان تو مل گیا لیکن ہم نے پاکستان کی قدر نہ کی اور آزادی کے فوراً بعد آپس میں لڑنا شروع کر دیا لہٰذا قدرت نے ہم سے ہمارا قائد اعظم ؒقیام پاکستان کے ایک سال بعد واپس لے لیا۔ آج کے پاکستان میں قائدین کی بہتات ہے اور قیادت کا فقدان ہے عمران خان اپنے آپ کو پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کا لیڈر قرار دیتے ہیں لیکن ان کی سیاست میں دور دور تک قائداعظمؒ کی تعلیمات کی جھلک نظر نہیں آتی۔ وہ عوام کی مدد سے نہیں بلکہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدد سے وزیر اعظم بنے اور اپنی حکومت میں اپنے ارکان اسمبلی کو آئی ایس آئی کے ذریعے کنٹرول کرتے تھے۔ بطور وزیر اعظم توشہ خانہ سے گھڑیاں اور ہار سستے داموں خرید کر جعلی رسیدیں توشہ خانہ میں جمع کراتے رہے۔ انکی سیاست کا محور سیاسی مخالفین پر مقدمے بنا کر انہیں جیل میں ڈالنا تھا وہ ریاست مدینہ کا نام لیتے رہے لیکن اتنی اخلاقی جرات نہ دکھا سکے کہ اپنی بیٹی کی ولدیت کو تسلیم کر لیں جو لندن میں انکے دو بیٹوں کے ساتھ انکی سابق اہلیہ کے ساتھ مقیم ہے۔
تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے نکلے تو انکے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا جو انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ کیا تھا۔ 9 مئی کو انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتار کیا گیا تو ان کے کارکنوں نے ملک بھر میں جلائو گھیرائو کیا۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ جلائی گئی۔ سب سے پہلے میں نے ہی 9 مئی کی شب جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک میں بتایا کہ کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ دراصل قائد اعظم ؒکا گھر تھا جو قیام پاکستان سے قبل برطانوی فوج نے اپنے قبضے میں لے لیا اور قیام پاکستان کے بعد بھی قائد اعظم ؒکو واپس نہ کیا گیا۔ اس گھر کے متعلق فوجی حکام کےساتھ قائد اعظم ؒکی خط وکتابت ’’جناح پیپرز‘‘ میں محفوظ ہے جو ڈاکٹر زورار حسین زیدی نے بڑی محنت سے مرتب کئے۔ کور کمانڈر لاہور کے گھر پر حملہ اور اسے جلا دینا ایک قابل مذمت واقعہ تھا اور اس میں ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہونی چاہئے لیکن موجودہ حکمرانوں کی منافقت دیکھئے کہ وہ صرف عمران خان کی مذمت کیلئے یہ بیانیہ بنا رہے ہیں کہ تحریک انصاف والوں نے جناح ہائوس جلا دیا۔ کیا کوئی صاحب اختیار یہ بتانے کی زحمت کرے گا کہ جناح ہائوس کو قومی میوزیم بنانے کی بجائے کور کمانڈر کی رہائش گاہ میں کیوں تبدیل کیا گیا؟
قائد اعظمؒ ؒنے یہ گھر قاضی محمد عیسیٰ (قاضی فائز عیسیٰ کے والد) کے ذریعے موہن لال بھاسن سے خرید ا تھا 1944ء میں برطانوی فوج نے اس بنگلے کو ڈیفنس آف انڈیا رولز کے ذریعے اپنے قبضہ میں لے کر سات سو روپے ماہانہ کرایہ دینا شروع کر دیا۔ کرایہ داری کا معاہدہ 28 اپریل 1947ء کو ختم ہونا تھا لہٰذا 3 جنوری 1947ء کو قائد اعظم ؒ کو برطانوی فوج نے بتایا کہ ہم کرایہ داری معاہدہ کے بعد بھی آپ کو آپ کا گھر واپس نہ کر سکیں گے جس پر قائداعظم ؒنے قانونی کارروائی شروع کر دی۔ یکم اگست 1947ء کو قائد اعظم ؒ کو خط لکھا گیا کہ آپ کا گھر واپس کر دیا جائے گا۔ 31 جنوری 1948ء کو اس گھر کی توسیع شدہ لیز ختم ہو گئی لیکن قائد اعظم ؒکو اس گھر کا قبضہ نہ دیا گیا۔ قائد اعظم ؒکی وفات کے بعد اس گھر کو پاکستانی فوج کے دسوی�� ڈویژن کے جی او سی کی رہائش گاہ قرار دیکر محترمہ فاطمہ جناح کو پانچ سو روپیہ ماہوار کرایہ ادا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بعدازاں 1959ء میں جنرل ایوب خان کے حکم پر جناح ٹرسٹ میں ساڑھے تین لاکھ روپے جمع کروا کر اسے کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ قرار دے دیا گیا۔ کچھ سال کے بعد محترمہ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن میں حصہ لیا تو جنرل صاحب نے فاطمہ جناح کو انڈین ایجنٹ قرار دیدیا۔ جس جنرل ایوب خان نے قائد اعظم ؒکے گھر پر قبضہ کیا اس کا پوتا عمر ایوب خان آج تحریک انصاف میں شامل ہے۔
پی ڈی ایم اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے 9 مئی کو جناح ہائوس لاہور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں پاک فوج کے شہداء کی یادگاروں اور فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفتر پر حملہ کرنے والوں کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتیں بنا کر کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ افسوس کہ ’’جناح ہائوس لاہور‘‘ پر حملے کی مذمت کرنے والی حکومت قائد اعظم ؒمحمد علی جناح کی تعلیمات کو نظر انداز کر رہی ہے۔ قائد اعظم ؒنے تمام عمر قانون کی بالادستی، شخصی آزادیوں اور صحافت کی آزادی کیلئے جدوجہد کی لیکن پی ڈی ایم اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے قائداعظم ؒکی تعلیمات کےساتھ ساتھ آئین پاکستان کے ساتھ بھی وہی سلوک شروع کر رکھا ہے جو تحریک انصاف نے 9 مئی کو جناح ہائوس لاہور کے ساتھ کیا۔ کیا وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کو معلوم ہے کہ 1919ء میں محمد علی جناح نے متحدہ ہندوستان کی قانون ساز اسمبلی میں رولٹ ایکٹ کے خلاف تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مناسب عدالتی انکوائری کے بغیر کسی انسان کی آزادی ایک لمحہ کےلئے بھی نہیں چھینی جا سکتی۔ رولٹ ایکٹ کا مقصد پولیس کو نقص امن کے خدشات پر گرفتاریوں کے لامحدود اختیارات دینا تھا۔
ایک انگریز رکن اسمبلی آئرن سائڈ نے قائداعظم محمد علی جناح کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ رولٹ ایکٹ کا مقصد صرف چند شرپسندوں کو قابو کرنا ہے۔ قائد اعظم ؒنے اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم تخریب کاروں اور بدمعاشوں کے خلاف کارروائی کی مذمت نہیں کر رہے لیکن کسی مہذب ملک میں عدالتی ٹرائل کے بغیر شہریوں کی آزادی سلب نہیں کی جاتی۔ قائد اعظم ؒکی مخالفت کے باوجود رولٹ ایکٹ منظور ہو گیا تو انہوں نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا کہ ’’یہ قانون ساز اسمبلی ایک جابرانہ حکومت کی آلہ کار بن گئی ہے اس لئے میں اس اسمبلی سے جا رہا ہوں۔‘‘ وہ قائد اعظم ؒجو ٹرائل کے بغیر گرفتاریوں کے خلاف اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو گئے اسی قائد کے پاکستان میں جنرل ایوب خان نے 1960ء میں رولٹ ایکٹ کو ایم پی او کا نام دیکر دوبارہ نافذ کر دیا۔ افسوس کہ اس جابرانہ قانون کو عمران خان کی حکومت نے بھی استعمال کیا اور آج شہباز شریف کی حکومت بھی اسے استعمال کر کے سیاسی مخالفین کو گرفتار کر رہی ہے ایم پی او کےتحت گرفتاریاں توہین قائد اعظم ؒکے مترادف ہیں۔ حکمرانوں نے توہین پارلیمینٹ کا قانون تو منظور کر لیا لیکن توہین قائداعظم ؒکے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کون کرے گا؟ ہم قائد اعظم ؒکا نام تو لیتے ہیں لیکن انکی تعلیمات سے سینکڑوں میل دور ہیں۔ خود بھی جھوٹ بولتے ہیں اور ہمارے لیڈر بھی جھوٹے ہیں، جیسی قوم ویسے حکمران۔
حامد میر
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes
·
View notes
Text
فوج مجھ سے اہم والا عمران کھو گیا
عمران خان رکنے کا نام نہیں لے رہے۔ افسوس کی بات ہے کہ وہ لگاتار فوج اور فوج کی اعلیٰ قیادت پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انٹرنیشنل میڈیا کو دیئے جانے والے اپنے انٹرویوز میں ایک طرف اُنہوں نے آرمی چیف کو اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے تو دوسری طرف اُنہوں نے مئی 9 کے سانحہ پر ایک نیا بیانیہ تشکیل دیتے ہوئے کہا کہ وہ تو False Flag Operation تھا، جس کا مقصد اُنہیں فوجی عدالت کے ذریعے سزا دلوا کر جیل میں ڈالنا تھا۔ پہلے اُنہوں نے کہا یہ ایجنسیوں کا کام ہے پھر کہا اُن کے ورکرز نے اُن کی رینجرز کے ہاتھوں گرفتاری کا منظر دیکھ کر یہ ردعمل دیا۔ جو تباہی اور گھنائونا کام 9 مئی کو ہوا تھا اُس کے بارے میں جاننے کے بعد بھی اُنہوں نے ایک بار یہ دھمکی دی تھی کہ اگر اُنہیں پھر گرفتار کیا گیا تو پھر ردعمل آئے گا۔ تحریک انصاف نے جناح ہاؤس حملہ میں شامل ایک شخص کو ایجنسیوں کا آدمی بنا کر پیش کیا تھا، وہ بھی آج پکڑا گیا اور تحریک انصاف کا ہی ووٹر، سپورٹر نکلا۔ جو کچھ 9 مئی کو ہوا اُس پر اُنہیں شرمندگی ہونی چاہئے تھی، اُس پر اُنہیں معافی مانگنی چاہئے تھی، اُس کی بغیر کسی لگی لپٹی کے سخت ترین الفاظ میں مذمت کرنی چاہئے تھی لیکن یہاں تو کھیل ہی نیا کھیلا جا رہا ہے۔
اب تو حدہی ہو گئی ہے کہ امریکہ میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے پاکستانی، جن کے پاس امریکی نیشنلٹی ہے، وہ عمران خان کی محبت میں پاکستان کے خلاف ہی سرگرم ہو گئے ہیں۔ ان افراد میں ایک ایسا شخص بھی شامل ہے جو خود کو عمران خان کا امریکہ میں فوکل پرسن کہتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کا امریکہ میں سابق صدر ہونے کا بھی دعویٰ کرتا ہے۔ امریکی کانگریس اراکین کے ذریعے پاکستان پر امریکہ کی طرف سے دباو ڈالنے کیلئے کوشش کی جا رہی ہے لیکن جو بات بہت سنگین ہے وہ یہ کہ یہ لوگ اس کوشش میں ہیں کہ امریکہ میں ایک قانون سازی کروائی جائے جس کا مقصد امریکہ کی طرف سے پاکستان کی فوج کی کسی بھی قسم کی امداد کو انسانی حقوق کے ساتھ منسلک کیا جائے۔ یہ نہیں معلوم کہ عمران خان کے کہنے پر یہ سب کچھ ہو رہا ہے یا پی ٹی آئی امریکہ یہ سب کچھ اپنی تئیں کر رہی ہے لیکن ابھی تک عمران خان یا تحریک انصاف کی طرف سے اس اقدام سے نہ تو لاتعلقی کا اظہار کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کی مذمت کی گئی ہے۔
جو کوئی بھی اس حرکت کے پیچھے ہے اُسے امریکہ کا ماضی یاد رکھنا چاہئے جس نے جمہوریت، انسانی حقوق، حقوق نسواں جیسے بہانے تراش کر عراق، لیبیا، افغانستان اور شام وغیرہ کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ 2011-12 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران جو میموگیٹ اسکینڈل سامنے آیا تھا اُس میں امریکی حکومت کی جانب سے پاک فوج پر دبائو ڈالنے کی بات کی گئی تھی۔ اُس میموگیٹ پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ماتحت ایک کمیشن بنا جس نے یہ تصدیق کی کہ میمو ایک حقیقت تھی، اُس میموگیٹ کے مقابلے میں اِس وقت امریکہ میں مقیم تحریک انصاف کے لوگ جو کچھ کر رہے ہیں وہ کہیں زیادہ سنگین ہے۔ وہ تو کھل کر پاکستان پر دباو ڈالنے اور فوجی امداد پر پابندیاں لگانے کی تجویز دے رہے ہیں اور ایک ایسا ماحول پیدا کر رہے ہیں کہ امریکہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے۔ تحریک انصاف تو امریکہ کی مداخلت کے خلاف تھی اور اسی لئے Absolutely not کا نعرہ بھی بلند کیا تھا لیکن اپنے سیاسی مفاد کیلئے اُسی امریکہ کواب پاکستان پر دباو ڈالنے، پاکستان کی امداد پر پابندیاں لگانے اور یہاں مداخلت کرنے کی کھلی دعوت دے رہی ہے!
عمران خان تو کہتے تھے کہ پاکستانی فوج اُن سے زیادہ اہم ہے لیکن اب نہ پاکستان کا، نہ ہی پاکستانی فوج کا مفاد دیکھا جا رہا ہے۔ عمران خان نہیں تو کچھ بھی نہیں والی پالیسی نہیں چلے گی۔ کوئی بھی پاکستانی رہنما چاہے وہ نواز شریف ہوں، آصف علی زرداری یا عمران خان، پاکستان سے اہم نہیں۔ اور عمران خان کے ماضی کے بیانات کے مطابق پاک فوج پاکستان کیلئے انتہائی اہم ہے اور اگر پاک فوج کمزور ہو جائے یا نہ ہو تو پاکستان کی سالمیت کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ کوئی عمران خان کو ماضی میں دیئے گئے ان کے یہ بیانات یاد دلائے اور احساس دلوائے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں، جو کچھ تحریک انصاف نے 9 مئی کو کیا اور جو کچھ تحریک انصاف امریکہ میں کر رہی ہے، کیا وہ پاک فوج کو کمزور کرنے کی کوشش نہیں۔؟ جو عمران خان کہتے تھے کہ فوج مجھ سے زیادہ اہم ہے، وہ عمران خان کہاں کھو گئے ہیں۔؟
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
حضرت عمر بن العزیز کے ایک خط کا اثر
مندرجہ ذیل واقعہ شیخ علی طنطاوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب قصص من التاریخ کے صفحہ نمبر 144 سے لے کر اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے
عرب سالار قتیبۃ بن مسلم نے اسلامی لشکر کشی کے اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے سمرقند کو فتح کر لیا تھا، اصول یہ تھا
کہ حملہ کرنے سے پہلے تین دن کی مہلت دی جائے۔ اور یہ بے اصولی ہوئی بھی تو ایسے دور میں جب زمانہ بھی عمر بن
عبدالعزیز کا چل رہا تھا۔ سمرقند کے پادری نے مسلمانوں کی اس غاصبانہ فتح پر قتیبۃ کے خلاف شکایت دمشق میں بیٹھے مسلمانوں کے حاکم کو ایک پیغامبر یعنی ایلچی کے ذریعہ خط لکھ کر بھجوائی۔
پیغامبر نے دمشق پہنچ کر ایک عالیشان عمارت دیکھی جس میں لوگ رکوع و سجود کر رہے تھے۔ اُس نے لوگوں سے پوچھا:
کیا یہ حاکم کی رہائش ہے؟ لوگوں نے کہا یہ تو مسجد ہے، تو نماز نہیں پڑھتا کیا؟ پیغامبر نے کہا نہیں، میں ادھر سمرقند کے ِ شہر
کے دین کا پیروکارہوں۔ لوگوں نے اُسے حاکم کے گھر کا راستہ دکھا دیا۔
پیغامبر لوگوں کے بتائے ہوئے راستہ پر چلتے حاکم کے گھر جا پہنچا، کیا دیکھتا ہے کہ ایک شخص دیوار سے لگی سیڑھی پر
چڑھ چھت کی لپائی کر رہا ہے اور ایک عورت اسے گھارا پکڑا رہی ہے ۔ ایلچی جس راستے سے آیا تھا
واپس اُسی راستے سے اُن لوگوں کے پاس جا پہنچا جنہوں نے اُسے راستہ بتایا تھا۔ اُس نے لوگوں سے کہا میں نے تم سے حاکم
کے گھر کا پتہ پوچھا تھا نہ کہ اِس مفلوک الحال شخص کا جس کے گھر کی چھت بھی ٹوٹی ہوئی ہے۔ لوگوں نے کہا، ہم نے
تجھے پتہ ٹھیک ہی بتایا تھا، وہی ہمارے حاکم کا گھر ہے۔ ایلچی نے بے دلی سے دوبارہ اُسی گھرپر جا کر دستک دی،
جو شخص کچھ دیر پہلے تک لپائی کر رہا تھا وہی اند ر سے نمودار ہوا۔ میں سمرقند کے پادری کی طرف سے بھیجا گیا پیغامبر
ہوں کہہ کر اُس نے اپنا تعارف کرایا اور خط حاکم کو دیدیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے خط پڑھ کر اُسی خط کی پشت پر ہی لکھا:
عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے سمرقند میں تعینات اپنے عامل کے نام؛
ایک قاضی کا تقرر کرو جو پادری کی شکایت سنے ۔ مہر لگا کرخط واپس پیغامبر کو دیدیا۔
پیغامبر وہاں سے چل تو دیا مگر اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے، کیا یہ وہ خط ہے جو مسلمانوں کے اُس عظیم لشکر کو ہمارے
شہر سے نکالے گا؟ سمرقند لوٹ کر پیغامبر نے خط پادری کو تھمایا، جسے پڑھ کر پادری کو بھی اپنی دنیا اندھیر ہوتی دکھائی دی ۔ خط تو اُسی کے نام لکھا ہوا تھا جس سے اُنہیں شکایت تھی، انہیں یقین تھا کا��ذ کا یہ ٹکڑا نہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے
گا۔ مگر پھر بھی خط لیکر مجبورا س حاکمِ سمرقند کے پاس پہنچے جس کے فریب کا وہ پہلے ہی شکار ہو چکے تھے۔ حاکم نے
خط پڑھتے ہی فورا ایک قاضی جمیع نام کا ایک شخص کا تعین کردیا جو سمرقندیوں کی شکایت سن سکے۔
موقع پر ہی عدالت لگ گئی، ایک چوبدار نے قتیبہ کا نام بغیر کسی لقب و منصب کے پکارا، قتیبہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر قاضی
کے رو برو اور پادری کے ساتھ ہو کر بیٹھ گیا۔
قاضی نے سمرقندی سے پوچھا، کیا دعو ٰی ہے تمہارا؟
پادری نے کہا: قتیبہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہم پر حملہ کیا، نہ تو اِس نے ہمیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی اور
نہ ہی ہمیں کسی سوچ و بچار کا موقع دیا تھا۔
قاضی نے قتیبہ کو دیکھ کر پوچھا، کیا کہتے ہو تم اس دعو ٰی کے جواب میں؟
قتیبہ نے کہا: قاضی صاحب، جنگ تو ہوتی ہی فریب اور دھوکہ ہے، سمرقند ایک عظیم ملک تھا، اس کے قرب و جوار کے کمتر
ملکوں نے نہ تو ہماری کسی دعوت کو مان کر اسلام قبول کیا تھا اور نہ ہی جزیہ دینے پر تیار ہوئے تھے، بلکہ ہمارے مقابلے
میں جنگ کو ترجیح دی تھی۔ سمرقند کی زمینیں تو اور بھی سر سبز و شاداب اور زور آور تھیں، ہمیں پورا یقین تھا کہ یہ لوگ
بھی لڑنے کو ہی ترجیح دیں گے، ہم نے موقع سے فائدہ اُ ٹھایا اور سمرقند پر قبضہ کر لیا۔
قاضی نے قتیبہ کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے دوبارہ پوچھا: قتیبہ میری بات کا جواب دو، تم نے ان لوگوں کو اسلام قبول
کرنے کی دعوت، جزیہ یا پھر جنگ کی خبر دی تھی؟
قتیبہ نے کہا: نہیں قاضی صاحب، میں نے جس طرح پہلے ہی عرض کر دیا ہے کہ ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا تھا۔
قاضی نے کہا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنی غلطی کا اقرار کر رہے ہو، اس کے بعد تو عدالت کا کوئی اور کام رہ ہی نہیں جاتا۔
قتیبہ سنو اللہ نے اس دین کو فتح اور عظمت تو دی ہی عدل و انصاف کی وجہ سے ہے نہ کہ دھوکہ دہی اور موقع پرستی سے۔
میری عدالت یہ فیصلہ سناتی ہے کہ تمام مسلمان فوجی اور انکے عہدہ داران بمع اپنے بیوی بچوں کے، اپنی ہر قسم کی امالک،
گھر اور دکانیں چھوڑ کر سمرقند کی حدوں سے باہر نکل جائیں اور سمر قند میں کوئی مسلمان باقی نہ رہنے پائے۔ اگر ادھر
دوبارہ آنا بھی ہو تو بغیر کسی پیشگی اطلاع و دعوت کے اور تین دن کی سوچ و بچار کی مہلت دیئے بغیر نہ آیا جائے۔
پادری جو کچھ دیکھ اور سن رہا تھا وہ ناقابل یقین بلکہ ایک مذاق اور تمثیل نظر آ رہا تھا۔ چند لمحوں کی یہ عدالت، نہ کوئی گواہ
اور نہ ہی دلیلوں کی ضرورت۔ اور تو اور قاضی بھی اپنی عدالت کو برخاست کرکے قتیبہ کے ساتھ ہی اُٹھ کر جا رہا تھا۔
اور چند گھڑیوں کے بعد ہی سمرقندیوں نے اپنے پیچھے گرد و غبار کے بادل چھوڑتے لوگوں کے قافلے دیکھے جو شہر کو
ویران کر کے جا رہے تھے۔ لوگ حیرت سے ایک دوسرے سے سبب پوچھ رہے تھے اور ��اننے والے بتا رہے تھے کہ عدالت
کے فیصلے کی تعمیل ہو رہی تھی۔
اور پیچھے صرف آوارہ کتے گھوم رہے تھے اور سمرقندیوں کےا ُس دن جب سورج ڈوبا تو سمرقند کی ویران اور خالی گلیوں میں
گھروں سے آہ و پکار اور رونے دھونے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں، اُن کو ایسے لوگ چھوڑ کر جا رہے تھے جن کے
اخلا ق ، معاشرت، برتاؤ، معامالت اور پیار و محبت نے اُن کو اور اُن کے رہن سہن کو مہذب بنا دیا تھا۔
تاریخ گواہ ہے کہ سمرقندی یہ فراق چند گھڑیاں بھی برداشت نہ کر پائے، اپنے پادری کی قیادت میں
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
کا اقرار کرتے مسلمانوں کے لشکر کے پیچھے روانہ ہوگئے اور اُن کو واپس لے آئے۔
اور یہ سب کیوں نہ ہوتا، کہیں بھی تو ایسا نہیں ہوا تھا کہ فاتح لشکر اپنے ہی قاضی کی کہی دو باتوں پر عمل کرے اور شہر کو خالی کردے۔ دین رحمت نے وہاں ایسے نقوش چھوڑے کہ سمرقند ایک عرصہ تک مسلمانوں کا دارالخلافہ بنا رہا۔
#urdu shayari#urdu poetry#urdu#urdu shairi#urdupoetry#urdu quote#urdu poem#urduadab#poetry#urdu adab#urdu ghazal#urdu literature#urduposts#urdu urdu#urdu sher#اردو شعر#اردو#اردو غزل#اردو شاعری#اردو زبان#اردو ادب
3 notes
·
View notes
Text
ثمرقند سے طویل سفر طے کر کے آنے والا قاصد ، سلطنت اسلامیہ کےحکمران سے ملنا چاہتا تھا۔
اس کے پاس ایک خط تھا جس میں غیر مسلم پادری نے مسلمان سپہ سالار قتیبہ بن مسلم کی شکایت کی تھی۔
پادری نے لکھا !
"ہم نے سنا تھا کہ مسلمان جنگ اور حملے سے پہلے قبول اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔ اگر دعوت قبول نہ کی جائے تو جزیہ دینے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر کوئی ان دونوں شرائط کو قبول کرنے سے انکار کرے تو جنگ کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔
مگر ہمارے ساتھ ایسا نہیں کیا گیااور اچانک حملہ کر کے ہمیں مغلوب کر لیا گیا ہے۔
یہ خط ثمر قند کے سب سے بڑے پادری نے اسلامی سلطنت کے فرماں روا عمر بن عبد العزیز کے نام لکھا تھا۔
دمشق کے لوگوں سے شہنشاہ وقت کی قیام گاہ کا معلوم کرتے کرتے وہ قاصد ایک ایسے گھر جا پہنچا کہ جو انتہائی معمولی اور خستہ حالت میں تھا۔ایک شخص دیوار سے لگی سیڑھی پر چڑھ کر چھت کی لپائی کر رہا تھا اور نیچے کھڑی ایک عورت گارا اُٹھا کر اُسے دے رہی تھی۔
جس راستے سے آیا تھا واپس اُسی راستے سے اُن لوگوں کے پاس جا پہنچا جنہوں نے اُسے راستہ بتایا تھا۔
اُس نے لوگوں سے کہا میں نے تم سے اسلامی سلطنت کے بادشاہ کا پتہ پوچھا تھا نہ کہ اِس مفلوک الحال شخص کا جس کے گھر کی چھت بھی ٹوٹی ہوئی ہے۔
لوگوں نے کہا،ہم نے تجھے پتہ ٹھیک ہی بتایا تھا، وہی حاکم وقت عمر بن عبد العزیز کا گھر ہے ۔
قاصد پر مایوسی چھا گئی اور بے دلی سے دوبارہ اُسی گھرپر جا کر دستک دی،جو شخص کچھ دیر پہلے تک لپائی کر رہا تھا وہی اند ر سے نمودار ہوا۔
قاصدنے اپنا تعارف کرایا اور خط عمر بن عبدالعزیز کو دے دیا۔
عمر بن عبدالعزیز نے خط پڑھ کر اُسی خط کی پشت پر لکھا :
عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے سمرقند میں تعینات اپنے عامل کے نام؛ ایک قاضی کا تقرر کرو جو پادری کی شکایت سنے۔ مہر لگا کر خط واپس قاصدکو دیدیا۔
سمرقند لوٹ کر قاصدنے خط کا جواب اور ملاقات کا احوال جب پادری کو سنایا ، توپادری بھی مایوس اور افسردہ ہو گیا ۔
اس نے سوچا کیا یہ وہ خط ہے جو مسلمانوں کے اُس عظیم لشکر کو ہمارے شہر سے نکالے گا ؟اُنہیں یقین تھا کاغذ کا یہ ٹکڑا اُنہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا۔
مگر کوئی اور راستہ بھی نہ تھا چنانچہ خط لیکر ڈرتے ڈرتے امیر لشکر اور حاکم ثمرقند کے پاس پہنچے ۔
حاکم نے خط پڑھتے ہی فورا ایک قاضی کا تعین کردیا جو اس کے اپنے خلاف سمرقندیوں کی شکایت سن سکے۔
قاضی نے پادری سے پوچھا، کیا دعویٰ ہے تمہارا ؟
پادری نے کہا : قتیبہ کے لشکر نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہم پر حملہ کیا، نہ تو اِس نے ہمیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی اور نہ ہی ہمیں کسی سوچ و بچار کا موقع دیا تھا۔
قاضی نے حاکم کو دیکھ کر پوچھا، کیا کہتے ہو تم اس دعویٰ کے جواب میں ؟
حاکم نے کہا : قاضی صاحب، جنگ تو ہوتی ہی فریب اور دھوکہ ہے۔
سمرقند ایک عظیم ملک تھا، اس کے قرب و جوار کے کمتر ملکوں نے نہ تو ہماری کسی دعوت کو مان کر اسلام قبول کیا تھا اور نہ ہی جزیہ دینے پر تیار ہوئے تھے، بلکہ ہمارے مقابلے میں جنگ کو ترجیح دی تھی۔
سمرقند کی زمینیں تو اور بھی سر سبز و شاداب اور زور آور تھیں، ہمیں پورا یقین تھا کہ یہ لوگ بھی لڑنے کو ہی ترجیح دیں گے، ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا اور سمرقند پر قبضہ کر لیا۔
قاضی نے حاکم کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے دوبارہ پوچھا : میری بات کا جواب دو، تم نے ان لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت، جزیہ یا پھر جنگ کی خبر دی تھی ؟
حاکم نے کہا : نہیں قاضی صاحب، میں نے جس طرح پہلے ہی عرض کر دیا ہے کہ ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا تھا۔
قاضی نے کہا : میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنی غلطی کا اقرار کر رہے ہو، اس کے بعد تو عدالت کا کوئی اور کام رہ ہی نہیں جاتا۔
اللہ نے اس دین کو فتح اور عظمت تو ��دل و انصاف کی وجہ سے ہی بخشی ہے نہ کہ دھوکہ دہی اور موقع پرستی سے۔
میری عدالت یہ فیصلہ سناتی ہے کہ تمام مسلمان فوجی اور انکے عہدہ داران بمع اپنے بیوی بچوں کے، اپنی ہر قسم کی املاک اور مال غنیمت چھوڑ کر سمرقند کی حدوں سے باہر نکل جائیں اور سمر قند میں کوئی مسلمان باقی نہ رہنے پائے۔
اگر ادھر دوبارہ آنا بھی ہو تو بغیر کسی پیشگی اطلاع و دعوت کے اور تین دن کی سوچ و بچار کی مہلت دیئے بغیر نہ آیا جائے۔
پادری جو کچھ دیکھ اور سن رہا تھا وہ ناقابل یقین تھا۔چند گھنٹوں کے اندر ہی مسلمانوں کا عظیم لشکر قافلہ در قافلہ شہر کو چھوڑ کے جا چکا تھا۔
ثمر قندیوں نے اپنی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا کہ جب طاقتور فاتح قوم کمزور اور مغلوب قوم کو یوں دوبارہ آزادی بخش دے۔
ڈھلتے سورج کی روشنی میں لوگ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرنے لگے کہ یہ کیسا مذہب اور کیسے پیروکار ہیں ۔ عدل کا یہ معیار کہ اپنوں کے خلاف ہی فیصلہ دے دیں۔ اور طاقتور سپہ سالار اس فیصلہ پہ سر جھکا کر عمل بھی کر دے۔
تاریخ گواہ ہے کہ تھوڑی ہی دیر میں پادری کی قیادت میں تمام شہر کے لوگ گھروں سے نکل کر لشکر کے پیچھے سرحدوں کی طرف دوڑے اور لا الٰہ الاّ اللہ محمّد الرّسول اللہ کا اقرار کرتے ہوئے اُن کو واپس لے آئے کہ یہ آپ کی سلطنت ہے اور ہم آپ کی رعایا بن کر رہنا اپنے لئے ٖفخر سمجھیں گے۔
دینِ رحمت نے وہاں ایسے نقوش چھوڑے کہ سمرقند ایک عرصہ تک مسلمانوں کا دارالخلافہ بنا رہا۔
کبھی رہبر دو عالم حضرت محمد ﷺ کی امت ایسی ہوا کرتی تھی۔ آج غیر مسلم تو دور کی بات ،مسلمان سے مسلمان کو کوئی امان نہیں۔
وہ کیا گردوں تھا کہ تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
5 notes
·
View notes
Text
ان کی قربانیوں کا کیا کرنا ہے ؟
بزدل کو تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بزدل ہے۔ مگر بہادر کو نہیں معلوم ہوتا کہ وہ کتنا بہادر ہے۔ کیونکہ بزدلی سیان پن کی دین ہے اور بہادری بے ساختگی کا عطیہ۔ کیا آپ وادیِ کالام کی ان پڑھ مہر النسا کو جانتے ہیں جس کے شوہر نے سوات کے طالبان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اور جب پانچویں مرتبہ طالبان الٹی میٹم دینے آئے کہ یا تو ہم میں شامل ہو جاؤ یا پھر اپنا اسلحہ ہمارے حوالے کر دو۔ اس پر مہر النسا کا میٹر گھوم گیا اور اس نے کلاشنکوف پکڑ کے چھ کو ہلاک اور دو کو زخمی کر دیا اور اپنا گھر نہیں چھوڑا۔ یہ واقعہ ہے انیس سو نو کے موسمِ گرما کا۔ صرف ایک پاکستانی ٹی وی چینل نے مہر النسا کا انٹرویو نشر کیا اور پھر یہ داستان وقت کے بوجھ تلے دب دبا گئی۔ آج مہر النسا کہاں ہے؟ ہے بھی کہ نہیں۔ کیا کسی کے پاس وقت ہے کہ معلوم کرے۔
چھبیس مئی دو ہزار تیرہ کو گجرات کے قصبے کنجاہ کے قریب منگووال میں صبح ہی صبح چوبیس بچے اپنی استانی سمیعہ نورین کے ہمراہ اسکول وین میں روانہ ہوئے۔ وین کی پٹرول ٹنکی پھٹ گئی۔ صرف فرنٹ ڈور کھل پایا۔ باقی دروازے ناقص ہونے کے سبب بروقت نہ کھل سکے۔ سترہ بچے اور استانی جھلس کے مر گئے۔ سات بچے بچا لیے گئے۔ ان سات میں سے تین کو سمیعہ نورین نے وین کی کھڑکی سے باہر دھکیلا اور باقی بچوں کو بچانے کے لالچ میں خود نہیں بھاگی اور شعلوں کا لقمہ بن گئی۔ آپ میں سے کوئی ؟ جسے آج اس بہادر ٹیچر کی کہانی یاد ہو ؟ عثمان پبلک اسکول کراچی کے پرنسپل اور جماعتِ اسلامی کراچی کے جواں سال نائب امیر نصراللہ شجیع اپنے طلبا کو شمالی علاقہ جات کے مطالعاتی دورے پر لے گئے۔
دو جون دو ہزار چودہ کو وہ بالاکوٹ میں دریائے کنہار کے کنارے پر تھے۔ ایک بچے کا پاؤں پھسل گیا اور وہ اچھلتے پھاندتے دریا میں جا گرا۔ نصراللہ شجیع نے اسے بچانے کے لیے منہ زور دریا میں چھلانگ لگا دی۔ مگر دریا انھیں بھی نگل گیا۔ کچھ دن میڈیا پر اس بے مثال بہادری کی واہ واہ ہوئی اور پھر سب اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے۔ کیا خاکروب پرویز مسیح کسی کو یاد ہے جو بیس اکتوبر دو ہزار نو کو انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے کیمپس میں طالبات کی کنٹین کے باہر ایک خود کش بمبار سے لپٹ گیا اور اسے کنٹین میں نہیں گھسنے دیا۔ چند منٹ بعد یونیورسٹی کی فیکلٹی آف شریعہ میں ایک اور خود کش پھٹ گیا اور اپنے ساتھ چھ طلبا و طالبات بھی لے گیا۔
صرف ایک ٹی وی چینل نے پرویز مسیح کے گھر پے جا کے اہلِ خانہ سے بات چیت کی۔ اور پھر یہ رپورٹ اس تعارف کے ساتھ ٹیلی کاسٹ ہوئی۔ ’’ اور آئیے دیکھتے ہیں جرات و بہادری کی ایک بے مثال داستان۔ کس طرح ایک خاکروب نے اپنی جان دے کر طالبات کو بچایا اور مسیحی ہوتے ہوئے سچے پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا ’’۔ ( میں قربان اس تعارف کے )۔ کیا ہنگوکے گورنمنٹ ہائی اسکول ابراہیم زئی کا نویں جماعت کا طالبِ علم سولہ سالہ اعتزاز حسن اب تک یاد ہے جو چھ جنوری دو ہزار چودہ کو اسکول کے باہر ایک خود کش بمبار سے لپٹ کے شہید ہو گیا اور اندر موجود ایک ہزار کے لگ بھگ بچوں کی جان بچا لی۔ اس واقعہ کی ذمے داری لشکرِ جھنگوی نے قبول کی۔ خیبر پختون خواہ حکومت نے اعتزاز کے اہلِ خانہ کی کفالت کے لیے ایک ٹرسٹ اور اعتزاز حسن فنڈ بنانے کا اعلان کیا۔
حکومتِ پاکستان نے ستارہِ ِ شجاعت کا اعلان کیا۔ حقوقِ انسانی کے بین الاقوامی کمیشن نے بہادری کا عالمی ایوارڈ اس کے نام کیا اور موقر انگریزی جریدے ہیرالڈ نے اسے دو ہزار چودہ کا مین آف دی ایئر قرار دیا۔ کوئی فالو اپ کرے گا کہ اعتزاز کے اہلِ خانہ سے کیا کیا وعدے ہوئے اور کتنے نبھائے گئے۔ ہاں سولہ دسمبر ابھی ایک دن پہلے ہی گذرا ہے۔ آج پانچ برس بعد کتنے پاکستانیوں کو آرمی پبلک اسکول کی پرنسپل اور تین بچوں کی ماں طاہرہ قاضی یاد ہے جنھوں نے ایک ہزار بچوں میں سے بیشتر کو اسکول سے باہر نکالنے میں اہم کردار ادا کیا مگر خود جگہ چھوڑنے کے بجائے مرنا پسند کیا۔ کیا اسی آرمی اسکول کی چوبیس سالہ ٹیچر افشاں احمد بھی یاد ہے۔ جس نے کلاس روم میں داخل ہونے والے حملہ آور سے کہا ’’ پہلے مجھے مارو۔ اپنے سامنے اپنے بچوں کی لاشیں نہیں گرنے دوں گی‘‘۔
اور پھر حملہ آور نے پٹرول چھڑک کے افشاں کی خواہش پوری کر دی۔ جلتی ہوئی افشاں چیختی رہی۔ بھاگ جاؤ بچو۔ بھاگ جاؤ۔ اسی اسکول کی کمپیوٹر سائنس کی ٹیچر فرحت جعفری بھی یاد ہے ؟ جو اپنے بچوں کے آگے یوں کھڑی ہو گئی جیسے سب گولیاں خود ہی ��ھیل لے گی۔ ہاں یہ سب اس دن اسکول جانے والے سب بچوں کو تا زندگی یاد رہیں گے بھلے کسی اور کو رہیں نہ رہیں۔ جتنے بھی نام میں نے اب تک لیے حرفِ آخر نہیں۔ ان کے علاوہ بھی سیکڑوں ایسے ہیں جنھوں نے اپنی استطاعت و طاقت سے بڑھ کے بے مثال جرات و بہادری دکھائی ہو گی۔ یہ وہ داستانیں ہیں جنھیں کسی اعتراف ، انعام اور تمغے کی ضرورت نہیں۔بلکہ اعتراف ، انعام اور تمغے کو ایسے لوگوں کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ اس لیے کسی کو کچھ ملا بھی تو کیا ، نہ بھی ملا تو بھی کیا۔۔۔ کچھ اگر ہے تو بس اتنا کہ زندہ قومیں جرات و بہادری کے ہر پیکر کا ریکارڈ رکھتی ہیں اور ان کی داستان و یاد اگلی نسلوں کو تاریخ اور نصاب کی شکل میں سونپ جاتی ہیں۔
بے حسی کے لقوے کی ماری قوموں کے لیے ایسا کرنا قطعاً ضروری نہیں۔ بے مثال بہادروں کے یوم منانے ، قومی عمارتیں اور شاہراہیں معنون کرنے، اہم چوکوں پر مجسمے نصب کرنے (آخر جا بجا نصب میزائل بھی تو مجسمہ ہی ہیں)، ان کے مقبرے بنانے اور ان کے نام پر ایوارڈز تخلیق کرنے سے کس نے روکا ہے ؟ وطن اور اہلِ وطن کے لیے جان دینے والوں اور زندہ محسنوں کو آخر تیری میری وکالت کی کیوں ضرورت پڑے ؟ جب آپ اپنے محسنوں اور بہادروں کے لیے بہت کم کرتے ہیں یا کچھ نہیں کرتے اور دنیا کرتی ہے تو پھر آپ کو دنیا بری لگنے لگتی ہے۔ اگر کسی صاحب کو پاکستان میں کہیں شاہراہِ مہرالنسا، سمیعہ نورین میموریل پارک ، نصراللہ شجیع کمیونٹی ہال ، پرویز مسیح یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنا لوجی اور طاہرہ قاضی چوک نظر آئے تو ضرور بتائیے گا۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note
·
View note
Text
🍂🌿🍂🌿 ﷽ 🌿🍂🌿🍂
🌟 آئیے دین سیکھیں🌟
🌺 *سیرتِ طیبہ کااجمالی خاکہ 6* 🌺
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں اُمت کو کریمانہ اخلاق کی تعلیم دِی ہے، وہاں اپنے عمل سے اُن کے سامنے اعلیٰ اخلاق کا نمونہ بھی پیش فرمایا ہے۔ آپ کی یہ اخلاقی تعلیمات آپ کی زِندگی میں روزِ روشن کی طرح واضح ہیں، جن کی نظیر انسانی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔
بنیادی اُصولوں کی تعلیم
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی حاکمِ وقت اور قاضی کے لیے نمونہ:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پورے عالم کے لیے نمونہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک مسلمان حاکم کے لیے بھی اُسوہٴ حسنہ ہے؛ کیوں کہ آپ ایک اِسلامی مملکت کے ایک عادل سربراہ بھی تھے اور آپ نے اس مملکت کو نہایت کامیابی کے ساتھ چلایا۔
آپ کی سیرت ایک قاضی اور جج کے لیے بھی بہترین نمونہ ہے؛ کیوں کہ آپ ایک عادل اور منصف قاضی بھی تھے اور آپ نے قضاء اور عدل و انصاف کے وہ اُصول بیان فرمائے جن سے اِنسانیت قیامت تک مستغنی نہیں ہوسکتی، آپ ہی کا فرمان ہے:
”بخدا اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی فاطمہ بنت محمد بھی چوری کا اِرتکاب کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔“
اور آپ ہی کا فرمان ہے:
”اگر لوگوں کو صرف ان کے دعوے اور مطالبہ پر ان کا مطلوب دے دیا جائے تو کچھ لوگ دوسروں کے خون اور مالوں کا دعویٰ شروع کردیں گے؛ لیکن مدعی کے ذمہ ثبوت ہے اور مدعا علیہ پر قسم ہے۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی فوجی جرنیل کے لیے نمونہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک فوجی جرنیل اور بہادر سپاہی کے لیے بھی اُسوہٴ حسنہ ہے؛ کیوں کہ آپ میں ایک فوجی قائد کی شجاعت، تدبر اور شفقت جیسی اعلیٰ صفات موجود تھیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہادری اور شجاعت
بہادری اور شجاعت ایسی کہ غزوہٴ حنین میں جب دشمنوں نے تیروں کی بارش برسادی تو بہتوں کے قدم اُکھڑ گئے؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جانثاروں کے ساتھ بجائے پیچھے ہٹنے کے آگے بڑھ رہے تھے اور فرمارہے تھے:
أنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ
أنَا اب��نُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ
”میں سچا نبی ہوں، میں عبد المطلب کا سپوت ہوں۔“
ایک بار اہلِ مدینہ کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ کوئی دُشمن حملہ کرنے والا ہے، گھبرا کر باہر نکلے؛ تاکہ معلومات حاصل کریں، کیا دیکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تن تنہا ایک گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار باہر سے واپس تشریف لارہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ گھبراؤ نہیں میں سب دیکھ کر آگیا ہوں، کوئی خطرہ نہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کے ہر فرد کو ایک مجاہد اور مضبوط اِنسان دیکھنا چاہتے تھے، آپ ہی کا ارشاد ہے:
”ایک قوی مومن اللہ کے ہاں زیادہ بہتر اور پیارا ہے کمزور مومن کے مقابلے میں اور دونوں میں خیر موجود ہے“۔
سنتِ مشورہ
آپ غزوات میں تجربہ کار صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ بھی فرماتے تھے اور اس پر عمل بھی فرماتے جیسا کہ غزوہٴ بدر اور غزوہٴ خندق کے واقعات اس پر شاہد ہیں۔
جاری ہے۔۔۔
از: مولانا ڈاکٹر عبدالرزّاق اسکندر
#ربيع_الأول
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
🌷 *ہمیں فالو کریں*🌷
📌ٹیلیگرام چینل کی لنک:
https://t.me/ElectronicDaawatiMission
📌 فيس بک پیج کی لنک:
https://goo.gl/jSdLHL
📌انسٹاگرام اکاؤنٹ کی لنک:
https://www.instagram.com/electronicdaawatimission/
📌ٹویٹر اکاؤنٹ کی لنک:
https://twitter.com/ElectronicDaawa
📌 ٹمبلر اکاؤنٹ کی لنک:
https://electronicdaawatimission.tumblr.com
📍 *مرد حضرات کے لئے “آئـیـے دیـن سـیـکـھــیـــں” گروپس کی لنک*
(3) https://chat.whatsapp.com/3GHQDAgUd6QG29sY5qPBpc
*نوٹ: خواتین واٹس ایپ گروپ میں شامل نہ ہوں بلکہ اس نمبر پر واٹس ایپ میسیج کریں* ⬇
📲 +966553002337
اپنا نام اور ملک بتائیں..
🕋 عوالی دعوہ مرکز مکہ مکرمہ
💎 *اس میسج کو شيئر کرکے ثواب حاصل کریں* 💎
1 note
·
View note
Text
۔ *دو منٹ کی عدالت*
عرب سالار قتیبہ بن مسلم نے اسلامی لشکر کشی کے اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے سمرقند کو فتح کر لیا تھا،
اصول یہ تھا کہ حملہ کرنے سے پہلے تین دن کی مہلت دی جائے۔
اور یہ بے اصولی ہوئی بھی تو ایسے دور میں جب زمانہ بھی عمر بن عبدالعزیز کا چل رہا تھا۔
🍀 سمرقند کے پادری نے مسلمانوں کی اس غاصبانہ فتح پر قتیبۃ کے خلاف شکایت دمشق میں بیٹھے مسلمانوں کے حاکم کو ایک پیغامبر کے ذریعہ خط لکھ کر بھجوائی۔
پیغامبر نے دمشق پہنچ کر ایک عالیشان عمارت دیکھی جس میں لوگ رکوع و سجود کر رہے تھے۔
اُس نے لوگوں سے پوچھا :
کیا یہ حاکمِ شہر کی رہائش ہے ؟ لوگوں نے کہا یہ تو مسجد ہے،
تو نماز نہیں پڑھتا کیا ؟
پیغامبر نے کہا نہیں، میں اھلِ سمرقند کے دین کا پیروکارہوں۔ لوگوں نے اُسے حاکم کے گھر کا راستہ دکھا دیا۔
🍀 پیغامبر لوگوں کے بتائے ہوئے راستہ پر چلتے حاکم کے گھر جا پہنچا، کیا دیکھتا ہے کہ ایک شخص دیوار سے لگی سیڑھی پر چڑھ کر چھت کی لپائی کر رہا ہے اور نیچے کھڑی ایک عورت گارا اُٹھا کر اُسے دے رہی ہے۔
پیغامبر جس راستے سے آیا تھا واپس اُسی راستے سے اُن لوگوں کے پاس جا پہنچا جنہوں نے اُسے راستہ بتایا تھا۔
اُس نے لوگوں سے کہا میں نے تم سے حاکم کے گھر کا پتہ پوچھا تھا نہ کہ اِس مفلوک الحال شخص کا جس کے گھر کی چھت بھی ٹوٹی ہوئی ہے۔
لوگوں نے کہا،
ہم نے تجھے پتہ ٹھیک ہی بتایا تھا، وہی حاکم کا گھر ہے۔
پیغامبر نے بے دلی سے دوبارہ اُسی گھرپر جا کر دستک دی،
جو شخص کچھ دیر پہلے تک لپائی کر رہا تھا وہی اند ر سے نمودار ہوا۔
🍀 میں سمرقند کے پادری کی طرف سے بھیجا گیا پیغامبر ہوں کہہ کر اُس نے اپنا تعارف کرایا اور خط حاکم کو دیدیا۔
اُس شخص نے خط پڑھ کر اُسی خط کی پشت پر ہی لکھا :
عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے سمرقند میں تعینات اپنے عامل کے نام؛ ایک قاضی کا تقرر کرو جو پادری کی شکایت سنے۔
مہر لگا کر خط واپس پیغامبر کو دیدیا۔
پیغامبر وہاں سے چل تو دیا مگر اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے،
کیا یہ وہ خط ہے جو مسلمانوں کے اُس عظیم لشکر کو ہمارے شہر سے نکالے گا ؟
سمرقند لوٹ کر پیغامبر نے خط پادری کو تھمایا، جسے پڑھ کر پادری کو بھی اپنی دنیا اندھیر ہوتی دکھائی دی،
خط تو اُسی کے نام لکھا ہوا تھا جس سے اُنہیں شکایت تھی،
اُنہیں یقین تھا کاغذ کا یہ ٹکڑا اُنہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا۔
🍀 مگر پھر بھی خط لیکر مجبورا اُس حاکمِ سمرقند کے پاس پہنچے جس کے فریب کا وہ پہلے ہی شکار ہو چکے تھے۔
حاکم نے خط پڑھتے ہی فورا ایک قاضی (جمیع نام کا ایک شخص) کا تعین کردیا جو سمرقندیوں کی شکایت سن سکے۔
موقع پر ہی عدالت لگ گئی،
ایک ��وبدار نے قتیبہ کا نام بغیر کسی لقب و منصب کے پکارا، قتیبہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر قاضی کے رو برو اور پادری کے ساتھ ہو کر بیٹھ گیا۔
قاضی نے سمرقندی سے پوچھا، کیا دعویٰ ہے تمہارا ؟
پادری نے کہا : قتیبہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہم پر حملہ کیا، نہ تو اِس نے ہمیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی اور نہ ہی ہمیں کسی سوچ و بچار کا موقع دیا تھا۔
🍀 قاضی نے قتیبہ کو دیکھ کر پوچھا، کیا کہتے ہو تم اس دعویٰ کے جواب میں ؟
قتیبہ نے کہا : قاضی صاحب، جنگ تو ہوتی ہی فریب اور دھوکہ ہے،
سمرقند ایک عظیم ملک تھا،
اس کے قرب و جوار کے کمتر ملکوں نے نہ تو ہماری کسی دعوت کو مان کر اسلام قبول کیا تھا اور نہ ہی جزیہ دینے پر تیار ہوئے تھے،
بلکہ ہمارے مقابلے میں جنگ کو ترجیح دی تھی۔
سمرقند کی زمینیں تو اور بھی سر سبز و شاداب اور زور آور تھیں، ہمیں پورا یقین تھا کہ یہ لوگ بھی لڑنے کو ہی ترجیح دیں گے، ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا اور سمرقند پر قبضہ کر لیا۔
🍀 قاضی نے قتیبہ کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے دوبارہ پوچھا :
قتیبہ میری بات کا جواب دو،
تم نے ان لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت، جزیہ یا پھر جنگ کی خبر دی تھی ؟
قتیبہ نے کہا : نہیں قاضی صاحب، میں نے جس طرح پہلے ہی عرض کر دیا ہے کہ ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا تھا۔
قاضی نے کہا : میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنی غلطی کا اقرار کر رہے ہو، اس کے بعد تو عدالت کا کوئی اور کام رہ ہی نہیں جاتا۔
قتیبہ : اللہ نے اس دین کو فتح اور عظمت تو دی ہی عدل و انصاف کی وجہ سے ہے نہ کہ دھوکہ دہی اور موقع پرستی سے۔
میری عدالت یہ فیصلہ سناتی ہے کہ تمام مسلمان فوجی اور انکے عہدہ داران بمع اپنے بیوی بچوں کے، اپنی ہر قسم کی املاک، گھر اور دکانیں چھوڑ کر سمرقند کی حدوں سے باہر نکل جائیں اور سمر قند میں کوئی مسلمان باقی نہ رہنے پائے۔ اگر ادھر دوبارہ آنا بھی ہو تو بغیر کسی پیشگی اطلاع و دعوت کے اور تین دن کی سوچ و بچار کی مہلت دیئے بغیر نہ آیا جائے۔
پادری جو کچھ دیکھ اور سن رہا تھا وہ ناقابل یقین بلکہ ایک مذاق اور تمثیل نظر آ رہا تھا۔
چند لمحوں کی یہ عدالت، نہ کوئی گواہ اور نہ ہی دلیلوں کی ضرورت۔ اور تو اور قاضی بھی اپنی عدالت کو برخاست کرکے قتیبہ کے ساتھ ہی اُٹھ کر جا رہا تھا۔
اور چند گھنٹوں کے بعد ہی سمرقندیوں نے اپنے پیچھے گرد و غبار کے بادل چھوڑتے لوگوں کے قافلے دیکھے جو شہر کو ویران کر کے جا رہے تھے۔
لوگ حیرت سے ایک دوسرے سے سبب پوچھ رہے تھے اور جاننے والے بتا رہے تھے کہ عدالت کے فیصلے کی تعمیل ہو رہی تھی۔
اور اُس دن جب سورج ڈوبا تو سمرقند کی ویران اور خالی گلیوں میں صرف آوارہ کتے گھوم رہے تھے اور سمرقندیوں کے گھروں سے آہ و پکار اور رونے دھونے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں، اُن کو ایسے لوگ چھوڑ کر جا رہے تھے جن کے اخلاق ، معاشرت، برتاؤ، معاملات اور پیار و محبت نے اُن کو اور اُن کے رہن سہن کو مہذب بنا دیا تھا۔
🍀 تاریخ گواہ ہے کہ سمرقندی یہ فراق چند گھنٹے بھی برداشت نہ کر پائے، اپنے پادری کی قیادت میں لا الٰہ الاّ اللہ محمّد الرّسول اللہ کا اقرار کرتے مسلمانوں کے لشکر کے پیچھے روانہ ہوگئے اور اُن کو واپس لے آئے۔
اور یہ سب کیوں نہ ہوتا، کہیں بھی تو ایسا نہیں ہوا تھا کہ فاتح لشکر اپنے ہی قاضی کی کہی دو باتوں پر عمل کرے اور شہر کو خالی کردے۔
دینِ رحمت نے وہاں ایسے نقوش چھوڑے کہ سمرقند ایک عرصہ تک مسلمانوں کا دارالخلافہ بنا رہا۔
*مندرجہ بالا واقعہ شیخ علی طنطاوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب (قصص من التاریخ) کے صفحہ نمبر 411 (مصر میں 1932 میں چھپی ہوئی) سے لے کر اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔*
1 note
·
View note
Text
قاضی فائز پر حملہ،23 پاکستانیوں کےنام پی سی ایل میں شامل
سابق چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ پر لندن میں حملہ کرنے والے 23 پاکستانیوں کےنام پاسپورٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیے گئے۔ انتہائی ذمہ دار ذرائع نےانکشاف کیاہے کہ سابق چیف جسٹس پاکستان پرحملہ کرنےوالے23پاکستانی شہریوں کےنام پاسپورٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالےگئےہیں۔ان23 پاکستانیوں میں تحریک انصاف کی سابق رکن قومی اسمبلی ملائیکہ بخاری اور لندن میں نواز شریف کی رہائش گاہ کےباہرمظاہروں سےشہرت…
0 notes
Text
لندن میں قاضی فائز عیسیٰ کی گاڑی پر حملہ کرنے والوں کےخلاف مقدمہ درج کروانے کا فیصلہ
(اسد ملک)سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی گاڑی پر لندن میں حملہ کرنے والوں کے خلاف پاکستان ہائی کمیشن نے مقدمہ درج کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان ہائی کمشن نے فیصلہ کیا ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ پر حملہ کرنیوالوں کے خلاف سکاٹ لینڈ یارڈ میں9 افراد کے خلاف مقدمہ درج کروایا جائیگا، سکاٹ لینڈ یارڈ کو اندراج مقدمہ کی درخواست سفارتی اختیارات کے زریعے درج کروائی جائیگی،قاضی فائز عیسی پر حملے کے دوران…
0 notes
Text
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کن چیلنجز کا سامنا ہو گا
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ملک کے 29 ویں چیف جسٹس بن گئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اب تک اس عہدہ پر فائز ہونے والے چیف جسٹس صاحبان سے اس بناء پر مختلف ہیں کہ انھیں عدلیہ سے باہر کرنے کی مسلسل کوشش ہوئی مگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بہادری، ان کی اہلیہ کی مشکل حالات برداشت کرنے کی صلاحیت اور ان وکلاء اور سول سوسائٹی کی جدوجہد سے طالع آزما قوتوں کی سازش ناکام ہوئی۔ گزشتہ دس برسوں کی عدلیہ کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے حقائق آشکار ہوتے ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ ان کا تعلق کوئٹہ سے ہے مگر انھوں نے زیادہ تر وکالت کا وقت کراچی میں گزارا۔ وکلاء تحریک کے جلوسوں کو کور کرنے والے صحافی گواہی دیتے ہیں کہ فائز عیسیٰ ان جلوسوں میں اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ شریک ہوتے تھے، جب سابق صدر پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت مقرر ہونے والے بلوچستان ہائی کورٹ کے جج صاحبان بشمول چیف جسٹس رخصت کر دیے گئے تو فائز عیسیٰ کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے براہِ راست بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا۔
انھوں نے بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے اخبارات میں کالعدم تنظیموں کی خبروں کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی تھی۔ کوئٹہ میں 8 اگست 2016 کو مرکزی شاہراہ پر بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کانسی کو دہشت گردوں نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا تو بلال انور کانسی کی میت سول اسپتال لے جائی گئی تو کوئٹہ کے وکیل سول اسپتال پہنچ گئے تھے۔ دہشت گردوں نے سول اسپتال کوئٹہ پر خودکش حملہ کیا۔ اس حملہ میں 70 کے قریب وکلاء شہید ہوئے تھے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے جسٹس فائز عیسیٰ پر مشتمل ٹریبونل اس معاملہ کی تحقیقات کے لیے قائم کیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس خودکش دھماکے کے تمام محرکات کا گہرائی سے جائزہ لیا تھا اور رپورٹ تیار کی۔ اس رپورٹ میں سوال اٹھایا گیا تھا کہ افغانستان کی سرحد عبور کر کے خودکش حملہ آور کس طرح کوئٹہ میں اپنا ہدف پورا کرتے ہیں؟ اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثارکو جسٹس فائز عیسیٰ کی اس رپورٹ سے شدید صدمہ ہوا تھا۔ انھوں نے اس رپورٹ پر عملدرآمد میں کوئی دلچسپی نہیں لی اور ذرایع ابلاغ پر رپورٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
2018 میں ایک مذہبی تنظیم نے انتخابی قوانین میں ہونے والی ترمیم کے خلاف راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم فیض آباد چوک پر دھرنا دیا، یہ دھرنا کئی ہفتوں جاری رہا۔ اس دھرنا کے مقاصد واضح نہیں تھے۔ ایک معاہدہ کے بعد دھرنے کے شرکاء منتشر ہو گئے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس غیر قانونی اجتماع کے بارے میں ازخود نوٹس کی سماعت کے لیے مقرر کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 6 فروری 2019 کو ایک جامع رپورٹ تیار کی۔ اس رپورٹ میں دھرنے کے ذمے داروں کا تعین کیا تھا۔ اس رپورٹ میں آزادئ صحافت اور آئین کے آرٹیکل 19 پر لگنے والی پابندیوں کا بھی حوالہ دیا گیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 19 کے مطابق اظہارِ رائے اور پریس کی آزادی بنیادی حقوق میں شامل ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ان معرکتہ الآراء فیصلوں پر سپریم کورٹ نے عملدرآمد پیدا کرنے میں کسی نے دلچسپی نہیں لی۔ صدر عارف علوی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش کیا۔ ان پر اپنی اہلیہ اور بچوں کے گوشوارے انکم ٹیکس میں جمع نہ کرانے کا الزام لگایا گیا۔
سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ان الزامات سے بری کر دیا مگر ان کی اہلیہ کے خلاف ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دیا لیکن ان پر بھی کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف تحریک انصاف کے جیالوں نے سوشل میڈیا پر حقائق کے منافی بہت سی وڈیوز وائرل کیں۔ سپریم کورٹ نے قاضی فائز عیسیٰ کیس میں صدر عارف علوی کے خلاف یہ فیصلہ تحریر کیا کہ انھوں نے ریفرنس بھیجتے وقت اپنا ذہن استعمال نہیں کیا۔ تحریک انصاف کے سربراہ نے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیجنے کو غلطی قرار دیا اور اس کی ذمے داری سابق وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم پر عائد کی۔ بہر حال جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بحال تو ہوئے مگر چیف جسٹس، ریٹائرڈ عمر عطاء بندیال نے کسی بھی اہم مقدمہ میں انھیں بنچ میں شامل نہیں کیا۔ جسٹس عطاء بندیال نے عدالتی تاریخ کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ وہ ایک متنازعہ جج کی حیثیت سے تاریخ کا حصہ بن گئے۔
جسٹس عطاء بندیال نے تو اپنی ساس اور سینئر وکیل خواجہ طارق رحیم کی گفتگو کے آڈیو اور دیگر رہنماؤں کی گفتگو پر مشتمل آڈیوز کی تحقیقات کے لیے جسٹس فائز عیسیٰ پر مشتمل کمیشن کو تحقیقات سے روک دیا تھا۔ بہرحال اب جسٹس عطاء بندیال کا دور تو ختم ہوا اور قاضی فائز عیسیٰ ��احب کا امتحان شروع ہورہا ہے۔ انھوں نے حلف اٹھاتے ہوئے اپنی اہلیہ کو ساتھ کھڑا کر کے صنفی مساوات کی ایک نئی مثال قائم کی۔ اس وقت سپریم کورٹ میں 50 ہزار سے زائد مقدمات زیرِ التواء ہیں۔ گزشتہ دنوں جڑانوالہ میں مسیحی برادری کے گھروں پر حملے ہوئے۔ ان کے گھر جلائے گئے۔ اس برادری کے اکثر افراد کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ کے ساتھ مسیحی برادری کے ساتھ یکجہتی کے لیے جڑانوالہ گئے، یوں مظلوم طبقات سے یکجہتی کی ایک اعلیٰ مثال قائم کی مگر معاملہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدیق حسین جیلانی نے اقلیتوں کے حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے ایک معرکتہ الآراء فیصلہ دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اس فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے ڈاکٹر شعیب سڈل پر مشتمل ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ کمیشن نے اقلیتوں سے امتیازی سلوک ختم کرنے کے لیے اہم تجاویز پیش کی تھیں مگر ان تجاویز پر بھی مکمل طور پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اس فیصلہ پر مکمل طور پر عملدرآمد کے لیے فوری اقدامات کریں گے۔ گزشتہ 23 برسوں سے لاپتہ افراد کا معاملہ کسی صورت حل نہیں ہو پایا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی قیادت میں ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ یہ کمیشن اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا مسلسل یہ مطالبہ ہے کہ کسی اور غیر جانبدار اور بہادر جج کو اس کمیشن کا سربراہ مقرر کیا جائے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
#Chief Justice Pakistan#Justice Qazi Faiz Essa#Pakistan#Pakistan Judiciary#Pakistan Supreme Court#World
0 notes
Text
سانحہ اے پی ایس کیس: کوئی مقدس گائے نہیں، حکم کریں ایکشن لیں گے،وزیر اعظم
سانحہ اے پی ایس کیس: کوئی مقدس گائے نہیں، حکم کریں ایکشن لیں گے،وزیر اعظم
وزیر اعظم عمران خان آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) حملہ کیس میں طلب کرنے پر سپریم کورٹ پہنچے جہاں انہوں نے عدالت کو واقعے کے ذمہ داران کے تعین کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں، عدالت حکم دے ہم ایکشن لیں گے۔ چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس قاضی محمد امین احمد اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے وزیراعظم کو آج صبح 10 بجے کے قریب فوری طور پر…
View On WordPress
0 notes
Text
انور احمد خان ... پاکستان ہاکی کا بہترین سینٹر ہاف کھیل
انور احمد خان ... پاکستان ہاکی کا بہترین سینٹر ہاف کھیل
میںاس کے ابتدائی دنوں میں پاکستان پچیس سال سے زیادہ عرصے تک عالمی ہاکی میں غالب رہا۔ اس نے کچھ بہترین کھلاڑیوں کو پیدا کیا جنہوں نے ہاکی کے میدان میں کامیابی حاصل کی ہے ، چاہے وہ حملہ ہو یا دفاع۔ ان کی دلچسپ اور دھماکہ خیز فارورڈ لائن اور ایک مضبوط ، مضبوط ٹھوس گہرے دفاع کی حمایت کرنا ، عام طور پر معیاری کاریگروں کا درمیانی میدان ہوتا ہے جو فارورڈز کی مخالفت کرنے کے لیے نہ صرف مداخلت کی پہلی لائن کے طور پر کام کرتے ہیں ، بلکہ سکیمرز اور منصوبہ سازوں کے طور پر بھی کام کرتے ہیں جو اپنا کھانا کھلاتے ہیں۔ اچھی طرح سے ڈائریکٹ پاس کے ساتھ فرنٹ لائن اور کھیل کے کورس کی منصوبہ بندی کریں۔ جبرالٹر کی چٹان کے طور پر ڈب کیا گیا وہ ایک وسط نصف عمدہ تھا ، جس نے اکثر محور کے طور پر کام کیا جس کے گرد کئی پاکستانی فتوحات گھومتی تھیں۔
انور 1933 میں بھوپال میں پیدا ہوئے ، ایک ایسی ریاست جہاں ہاکی ایک جذبہ تھا جسے اس کے حکمران خاندان نے بھی دل کھول کر سپورٹ کیا۔ اس کا باپ برطانوی فوج میں ڈاکٹر تھا ، اور اگرچہ ہاکی کے بارے میں خاص طور پر پرجوش نہیں تھا ، اس نے اپنے بیٹے کو اس دلچسپی کے حصول سے حوصلہ نہیں دیا۔ انور اسکول میں ایک ہمہ جہت کھلاڑی تھا ، وہ مشہور ہندوستانی کرکٹر سید وزیر علی کی سرپرستی میں کرکٹ میں بھی نمایاں تھا اور نواب افتخار علی خان پٹودی کے خلاف کھیلنے کا غیر معمولی اعزاز رکھتا تھا ، لیکن ہاکی اس کی پہلی محبت تھی۔ جیسا کہ اس نے اپنی تعلیم کے لیے علی گڑھ یونیورسٹی میں ترقی کی ، 1949 میں اس نے بھوپال وانڈررز میں شمولیت اختیار کی ، جو ہندوستان کے پریمیئر ہاکی کلبوں میں سے ایک تھا ، اور انڈین انٹر پروونشل چیمپئن شپ میں ان کی نمائندگی کی۔
1950 میں ، انور نے پاکستان ہجرت کی اور سندھ مسلم کالج میں داخلہ لیا ، جنہوں نے اسے فورا their اپنی ہاکی ٹیم کے لیے منتخب کیا۔ انہوں نے علی آٹوز میں شمولیت اختیار کی جس نے ایک مضبوط فیلڈ بنایا جس میں انور احمد کے علاوہ لطیف الرحمن ، حبیب الرحمن ، اختر حسین ، میجر شکور اور مستقبل کے مشہور برطانوی ہاکی کھلاڑی عمران شیروانی کے والد اسرار شیروانی شامل تھے۔ انور نے نیشنل چیمپئن شپ کے لیے سندھ سینئرز کی ٹیم کے لیے سلیکشن بھی جیتا ، جس نے دائیں ہاف میں جیک برٹو ، انور خود سینٹر ہاف اور بائیں ہاف میں حبیب علی کدی پر مشتمل ایک زبردست ہاف لائن کا حصہ بن گیا۔ بالآخر تینوں نے بین الاقوامی ہاکی میں پاکستان کی نمائندگی کی ، بشمول اولمپکس ، جبکہ برٹو کو قومی کرکٹ ٹیم کے لیے بھی منتخب کیا گیا تھا جو کہ 1949 میں آنے والے ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلے گی۔
انور احمد خان 1953 میں پاکستان ریلوے میں شامل ہوئے اور جلد ہی قومی سلیکٹرز کے علم میں آگئے۔ انہیں لاہور میں لگائے گئے قومی تربیتی کیمپ میں مدعو کیا گیا تھا تاکہ 1954 کی ہوم سیریز کے لیے پاکستان کی ٹیم کا دورہ کیا جائے۔ انور کو سلیکٹرز کی منظوری ملی اور وہ پاکستان کے لیے ڈیبیو کرنے کے لیے تیار تھے جب سانحہ پیش آیا۔ پہلے ٹیسٹ سے ٹھیک پہلے ایک نمائشی میچ کے دوران اس کا بائیں پاؤں بری طرح ٹوٹ گیا۔ علاج کے لیے تین مہینوں تک پاؤں کو پلاسٹر میں بند کرنا پڑا ، اس طرح انور کا اپنے ملک کے لیے کھیلنے کا موقع ضائع ہوگیا۔ ان کی صحت یابی کے فورا بعد انور بہاولپور افغان کلب کے ہمراہ رام لال ہاکی ٹورنامنٹ کے لیے لکھنؤ گیا ، جس نے ان کی ٹیم کو اتر پردیش کے خلاف فائنل میں فاتح بننے میں مدد دی۔
واپسی پر ، فروری 1955 میں ، انور کو کراچی سی کسٹم میں ملازمت کی پیشکش ہوئی جسے بعد میں پاکستان کسٹمز کا نام دیا گیا۔ اس وقت کی کسٹم ہاکی ٹیم ایک بہت ہی طاقتور یونٹ تھی جس نے عملی طور پر ہر بڑے قومی ٹورنامنٹ میں فتوحات کا اندراج کیا۔ جب 1956 کے میلبورن اولمپکس کے لیے پاکستان کے ہاکی اسکواڈ کے انتخاب کے لیے تربیتی کیمپ لگایا گیا تو کسٹم کے چار کھلاڑیوں کو مدعو کیا گیا ، تین نصف بیک ، انور احمد خان ، حبیب علی کدی اور قاضی مسرت اور فل بیک بیک خورشید اسلم ، جن کے چھوٹے بھائی اختر الاسلام مستقبل میں بھی پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔ تینوں مڈ فیلڈرز کو قومی ٹیم کے لیے منتخب کیا گیا جس نے اولمپکس کی تیاریوں کے ایک حصے کے طور پر ملک بھر میں نمائشی پریکٹس میچوں کی ایک سیریز شروع کی۔
ان نمائشی میچوں نے ایک بار پھر انور پر اپنا اثر ڈالا۔ سرگودھا میں ایک کھیل کے دوران اس نے اپنے دائیں کندھے کو ہٹا دیا اور اولمپکس سے پہلے صرف دس دن باقی رہ گئے تھے۔ خوش قسمتی سے ، لاہور میں اچھے علاج کے ساتھ ، ان کی چوٹ تیزی سے ٹھیک ہوگئی انور کو ٹیم کے ساتھ جانے کی اجازت دی گئی۔
مشہور عبدالحمید کی قیادت میں ، جو حمیدی کے نام سے مشہور ہے ، یہ ایک مضبوط اور متوازن پہلو تھا۔ مقابلہ کرنے والی ٹیموں کو تین گروپوں میں تقسیم کیا گیا اور پاکستان نے بیلجیئم کو 2-0 اور نیوزی لینڈ کو 5-1 سے شکست دے کر ایک مضبوط آغاز کیا۔
تاہم ، مغربی جرمنی مشکل حریف ثابت ہوا اور پاکستان نے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے کے لیے ان کے ساتھ بغیر کسی گول کے کھیل کھینچا ، جہاں ان کا مقابلہ برطانیہ سے ہونا تھا جنہوں نے 1948 اور 1952 دونوں اولمپکس میں اس مرحلے پر انہیں شکست دی تھی۔ اولمپک گاؤں میں انگریزوں نے کون وے کے اندر گھمنڈ کیا کہ وہ پاکستان کو دوبارہ شکست دیں گے ، جس سے پاکستانی ٹیم غصے میں آگئی۔ انور نے دائیں آدھے غلام رسول اور دائیں فل بیک بیک عاطف کے ساتھ مل کر کانوے سے نمٹنے کے لیے خصوصی منصوبے بنائے ، ایک ناقابل تسخیر تینوں کی تشکیل کی جس نے میچ کے دوران کانوے کو مکمل طور پر ناکارہ بنا دیا ، اسے ہاف ٹائم سے پہلے میدان چھوڑنے پر مجبور کیا ، جب پاکستان 2-0 سے آگے تھا . برطانیہ نے برابری کے لیے لڑائی لڑی لیکن پاکستان نے بالآخر 3-2 سے فتح حاصل کر کے بھارت کے ساتھ فائنل میں جگہ بنائی۔
ہندوستان کے پاس ایک زبردست ٹیم تھی ، جس نے فائنل تک جانے والے میچوں میں کوئی بھی ہار مانے بغیر 35 گول کیے۔ پاکستان نے سخت مقابلہ کیا لیکن بھارت نے رندھیر سنگھ جینٹل کے متنازع پنالٹی کارنر کے تبادلے کے ذریعے 1-0 سے کامیابی حاصل کی۔ پاکستان کے پاس بھی پینلٹی بولی (آج کے پنالٹی سٹروک کا پیش خیمہ) سے گول کرنے کا سنہری موقع تھا ، لیکن حبیب الرحمن نے ایک خاص گول گنوا دیا اور پاکستان کو چاندی کے تمغے پر ہی قابو پانا پڑا۔ فائنل کے دوران انور کی کارکردگی شاندار رہی۔ وہ مشہور ہندوستانی سینٹر فارورڈ بلبیر سنگھ کو مکمل طور پر بے اثر کرنے میں کامیاب رہا ، جس سے بلبیر نے کہا کہ اگر میں انور کو اپنا سینٹر ہاف بنا لوں تو میں پوری دنیا کو چیلنج کر سکتا ہوں۔
ایشین گیمز میں ہاکی کو پہلی بار 1958 میں ٹوکیو میں متعارف کرایا گیا تھا۔ ٹورنامنٹ سے قبل ٹیم نے اپنی تیاریوں کے حصے کے طور پر آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کا دورہ کیا۔
کھیل کے میدان میں کامیابیوں کے سلسلے کے علاوہ وہ ان کی مہمان نوازی سے متاثر ہوئے۔ اس سفر کے دوران انور کی شاندار نمائش نے انہیں نیوزی لینڈ کے پریس سے “راک آف جبرالٹر” کا لقب دیا۔ نیوزی لینڈ کے کوچ اے جی میکلوڈ نے ٹیم کو اپنے گھر رات کے کھانے کے لیے مدعو کیا اور انہیں شیشے کا ایک خاص شوکیس دکھایا جس میں دو کراس ہاکی اسٹکس تھے ، ایک لیجنڈ دھیان چند کے دستخط اور دوسرے انور احمد خان کے۔ میک لیوڈ نے رائے دی کہ یہ دو بہترین ہاکی کھلاڑی ہیں جو انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی دیکھے تھے۔ انور اس جذباتی اشارے اور تعریف سے پوری طرح مغلوب ہو گیا۔
خود ٹوکیو ایشین گیمز میں پانچ ٹیموں نے راؤنڈ رابن فارمیٹ میں حصہ لیا۔ پاکستان نے اپنے میچوں میں جاپان کو 5-0 ، جنوبی کوریا کو 8-0 اور ملایا (اب ملائیشیا) کو 6-0 سے ہرایا۔ جنوبی کوریا پر فتح منیر ڈار کی پینلٹی کارنر کی ہیٹ ٹرک کی وجہ سے ہوئی۔ منیر کی ایک ہٹ نے انور کو جبڑے پر بھی مارا ، جس کی وجہ سے باقی ٹورنامنٹ کے لیے ان کی فٹنس کے بارے میں خدشات پیدا ہوئے۔
اپنے آخری راؤنڈ رابن میچ میں پاکستان نے بھارت سے کھیلا۔ چونکہ دونوں ٹیمیں ناقابل شکست تھیں ، اس میچ کا فاتح راؤنڈ رابن فارمیٹ جیتے گا ، اور اس کے ساتھ گولڈ میڈل۔ انور �� جس نے کوئی ٹھوس کھانا نہیں کھایا تھا ، چونکہ اس کی چوٹ اپنے علاج کرنے والے جاپانی ڈاکٹر سے کافی درد کش ادویات لینے کے بعد کھیت لینے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ ایک غیر سنجیدہ میچ ، بغیر کسی گول کے برابری پر ختم ہوا جس میں دونوں اطراف کے کھلاڑی نمایاں زخمی ہوئے۔ 19-0 کی پاکستان کی گول اوسط ہندوستان کے 16-1 سے بہتر تھی ، اور اسی وجہ سے انہیں گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔ انور نے ٹورنامنٹ کے دوران ایک بار پھر اپنی کلاس کی نمائش کی تھی اور اسے کھیل کے بہترین سینٹر ہاف کے طور پر سراہا جا رہا تھا۔
یہ بین الاقوامی ہاکی ٹورنامنٹ میں پاکستان کی پہلی فتح تھی۔ ٹیم ، انور کے ساتھ ایک اہم کھلاڑی کے طور پر ، اب ایک بہت مضبوط فریق کے لیے مرکز تھا۔ ان کا اگلا بڑا ٹورنامنٹ ابدی شہر روم میں 1960 کے اولمپکس ہوں گے۔ پاکستان اور انور دونوں کی تقدیر کے ساتھ تاریخ تھی۔ انور روم کے قومی اسکواڈ میں کسٹم کے چار کھلاڑیوں میں سے ایک تھا ، دوسرے حبیب علی کدی ، خورشید اسلم اور وائر سنٹر فارورڈ عبدالوحید تھے ، جو جلد ہی اپنے طور پر ایک روشن بن جائیں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹیم روم کے لیے روانہ ہونے سے چند گھنٹے پہلے ، انور ایک اور جشن کا مرکز تھے ، ان کی ‘نکاح’ کی تقریب ایک چوتھے سال کے میڈیکل طالب علم کو ان کی والدہ نے منتخب کی جو ان کی والدہ نے خاص طور پر ہندوستان سے اس کام کے لیے آئی تھیں۔ کام
پوری پاکستانی ٹیم نے ‘نکاح’ تقریب میں شرکت کی ، جس کے بعد وہ نئے دلہن کے ساتھ ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہوئے۔
روم کے راستے میں ٹیم نے کینیا میں اولمپکس کے لیے فائن ٹیوننگ کے طور پر پریکٹس میچ کھیلے۔ روم وہ جگہ تھی جہاں پاکستان ہاکی کھیل کے عروج پر پہنچی تھی ، جس نے بھارت کو تین دہائیوں سے اپنے عروج پر رکھا۔ آسٹریلیا ، پولینڈ اور جاپان کے خلاف گروپ میچوں میں جیت نے پاکستان کو ناک آؤٹ مرحلے میں پہنچایا ، جہاں انہوں نے کوارٹر فائنل میں جرمنی اور سیمی فائنل میں اسپین کو شکست دی۔ صرف انڈیا اب پاکستان اور گولڈ میڈل کے درمیان کھڑا تھا۔
فائنل کا آغاز ایک تیز نوٹ پر حملوں اور جوابی حملوں سے ہوا۔ 13 ویں منٹ میں ، پاکستان حملے کے ماسٹر مائنڈ اور ان کی ٹیم کے کپتان ، حمیدی نے اپنے باہر دائیں نور عالم کو پاس پھسلوایا ، جنہوں نے ہندوستانی بائیں ہاف کو چکما دیا اور سرنگ کے اوپری حصے میں نصیر بندہ کو اسٹنگنگ کراس بھیجا۔ بنڈا نے انڈین فل بیک بیک پرتھی پال سنگھ کو پیچھے چھوڑ دیا ، گول کیپر لکشمن کو فارورڈ کیا اور گیند کو گول میں ڈال دیا۔
یہ بھارت کے خلاف پاکستان کا پہلا گول تھا ، جس نے اب برابری کی کوشش میں شدید حملوں کا جواب دیا۔ یہ پاکستان کے دفاع کا ایک حقیقی امتحان تھا۔ ٹھنڈے کی قیادت میں اور انور کو اکٹھا کیا انہوں نے ہندوستانی فار��رڈ لائن کی ہر حرکت کو ناکام بنا دیا۔ جتنی مشکل سے انہوں نے کوشش کی ، بھارتی حملے نے بار بار انور کو ان کے راستے میں پایا ، ایک ناقابل تسخیر ، ہرمیٹک طور پر سیل کی گئی دیوار کی حفاظت کرتے ہوئے۔ جب آخری سیٹی بجائی گئی تو پاکستان 1-0 سے جیت گیا تھا۔ تاریخ بنائی گئی تھی اولمپکس میں ہاکی کا بھارت کا 32 سالہ غلبہ ختم ہو گیا۔
دو سال بعد 1962 میں جکارتہ میں ہونے والے ایشین گیمز میں پاکستان نے فائنل میں بھارت کو 2-0 سے ہرا کر اپنا ایشیائی تاج برقرار رکھا۔ انور نے ایک بار پھر پاکستان کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا ، جس سے ہندوستانی منیجر اور کوچ جے جیمسن نے کہا کہ “ان کے سینٹر ہاف انور احمد خان نے شاندار کارکردگی پیش کی لیکن ان کے لیے پاکستان کا دفاع غیر موثر ہوتا۔”
اپریل 1964 میں ، ٹوکیو اولمپکس سے چھ ماہ قبل ، انور کو دورہ کرنے والی جاپانی ٹیم کے خلاف ہوم سیریز کے لیے قومی ٹیم کا کپتان مقرر کیا گیا تھا۔ پاکستان نے سیریز جیت لی ، لیکن سب کے لیے حیران کن انور کو اولمپکس کے لیے کپتان کے طور پر بریگیڈیئر منظور عاطف نے تبدیل کیا۔ کھیلوں کے اپنے افتتاحی میچ میں ، میزبان جاپان کے خلاف ، پاکستان پہلے ہاف میں گول کرنے میں ناکام رہا۔ انور اور منیجر دارا نے ایک نئی حکمت عملی بنائی ، انور کو چھٹے آگے بڑھایا۔ اس اقدام نے میزبانوں کو مکمل طور پر پریشان کردیا ، جس سے پاکستان کو گول کرنے کی اجازت ملی۔ انور نے ایک بار پھر اپنی خوبی اور کھیل کے میدان میں مسائل کے تخلیقی جواب تلاش کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ پاکستان نے فائنل تک رسائی حاصل کی لیکن بھارت کو سخت مقابلے میں 1-0 سے شکست دی۔
انور نے اولمپکس کے بعد قومی کپتانی دوبارہ حاصل کی اور انڈونیشیا ، کینیا اور ہیمبرگ انٹرنیشنل ہاکی فیسٹیول ٹورنامنٹ پر پاکستان کی قیادت کی ، جو بطور قومی کھلاڑی ان کی آخری سیر ثابت ہوئی۔
ریٹائرمنٹ کے بعد ، انور مینیجر ، کوچ اور سلیکٹر کے مختلف انتظامی کرداروں میں پاکستان ہاکی کی خدمات انجام دیتا رہا۔ بحیثیت منیجر انہوں نے تہران میں 1974 ایشین گیمز میں گولڈ اور 1975 ورلڈ کپ اور 1986 ایشین گیمز میں چاندی کے تمغے جیتنے میں قومی ٹیم کی مدد کی۔ وہ قومی جونیئر سائیڈ کے مینیجر بھی تھے جنہوں نے 1982 جونیئر ورلڈ کپ میں کانسی کا تمغہ جیتا۔
انور کا 2014 میں انتقال ہوگیا۔ پیار سے انو بھائی کے نام سے جانا جاتا ہے ، وہ ایک حقیقی ہاکی جادوگر تھے ، جو کہ وسطی صلاحیت کے حامل تھے۔ شاندار لاٹھی کام ، لطیف اور دھوکہ دہی کے جسم کے ڈاج ، اور عمدہ توقع کا استعمال کرتے ہوئے ، وہ اپنے فارورڈز کو صحت اور صحت دونوں کے ساتھ کھلاتا تھا۔ دفاع میں وہ ناقابل تسخیر تھا ، مخالفین کو ایک ناقابل تسخیر رکاوٹ کے ساتھ پیش کرتا تھا جو تمام حملوں کو ناکام بنا سکتا تھا ، انہیں بے اختیار اور بے ساختہ بنا دیتا تھا۔
– ڈاکٹر سلمان فریدی ایک سینئر سرجن ، شاعر ، کھیلوں کے شوقین اور 7000 سے زائد کتابوں کے نجی مجموعہ کے ساتھ ایک شوقین قاری ہیں۔
[email protected]
. Source link
0 notes
Text
جسٹس فائز کیس کی براہ راست نشریات کی درخواست پر فیصلہ محفوظ - اردو نیوز پیڈیا
جسٹس فائز کیس کی براہ راست نشریات کی درخواست پر فیصلہ محفوظ – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین اسلام آباد: سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسی نظرثانی کیس کی براہ راست نشریات کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہناتھا کہ ان کے کیس میں حکومت ملزم ہے،جج کو نکال دیں لیکن بلیک میل نہ کریں، وزیر اعظم نے ایک آئینی ادارے پر حملہ کیا، کل عدالت کو بھی کہا جائے گا کہ استعفیٰ دے۔ سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائر عیسی نظر ثانی کیس براہ راست نشر کرنے کی درخواست پر…
View On WordPress
0 notes
Text
ترکوں کو پیار ہے پاکستان سے
’’ترکی کو پیار ہے پاکستان سے‘‘ جی ہاں بالکل ایسا ہی ہے اور ترکی کبھی پاکستان سے ا پنی محبت اور چاہت کے اظہار کا کوئی موقع ��ائع نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ اس کا عملی ثبوت فراہم کرتا ہے۔ اگرچہ پاکستان کے کئی ایک دوست اور برادر ممالک ہیں لیکن پاکستان کی محبت کا رشتہ جو ترکی اور ترک باشندوں سے قائم ہے، اس کی دنیا بھر میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ترکی اس کرہ ارض میں واحد ملک ہے جو پاکستان کی ہر مشکل اور مصیبت کے وقت سب سے پہلے پاکستان کی مدد کو دوڑتا ہے ۔ ستمبر 1965ء میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو سب سے پہلے حکومتِ ترکی اور ترک باشندوں ہی نے بھارت کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے پاکستان کی بھر پور حمایت کا اعلان کیا تھا ۔ اُس وقت کے ترکی کے وزیر خارجہ حسن ایسات اِشک نے دو ٹوک الفاظ میں بھارت کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان کو ہر ممکنہ مدد کی یقین دہانی کروائی تھی اور مقامی سطح پر تیار ہونے والے اسلحے کو پاکستان پہنچانے اور ترک باشندوں کے بھی اس جنگ میں حصہ لینے کی خواہش سے حکومتِ پاکستان سے آگاہ کیا تھا ۔
پاکستان میں مقیم اُس وقت کے ترک سفیر معمر شناسی نے 23 ستمبر 1965 کو صدر ایوب خان سے ملاقات کرتے ہوئے حکومتِ ترکی اور ترک باشندوں کی ہر ممکنہ حمایت اور امداد کا اعادہ کیا تھا اور پھر 1974ء میں قبرص جنگ کے موقع پر پاکستان نے جس طریقے سے ترکی کی حمایت کی اور ترکی کو فوجی سازو سامان بہم پہنچایا اور پاکستانی طیاروں اور پاکستان ائیر فورس نے ترکی کی مدد کرتے ہوئے تعاون کی ایک ایسی مثال قائم کی جس سے ترکی کو قبرص میں اپنے پائوں جمانے کا موقع ملا حالانکہ ترکی کے تمام اتحادی ممالک یونان کی بھر پور حمایت کر رہے تھے اور ترکی کا سب سے بڑا اتحادی امریکہ ترکی پر فوجی پابندیاں عائد کر چکا تھا ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ترکی اور پاکستان امریکہ کے دو ایسے اتحادی ممالک ہیں جو اُس وقت تک امریکہ کی آنکھوں کا تارا رہتے ہیں جب تک وہ ان دونوں کا محتاج ہوتا ہے اور جیسے ہی اپنا مفاد حاصل کر لیتا ہے ، آنکھیں پھیرنے سے ذرہ بھر بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔ اس وقت ان دونوں ممالک کو امریکہ سے متعلق کم و بیش ایک جیسی ہی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اب آتے ہیں چھ ستمبر 2018ء کو انقرہ کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں سفارت خانہ پاکستان کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی " یومِ دفاع اور شہدا " کی تقریب کی جانب۔ جیسا کہ عرض کر چکا ہوں ترکی اور پاکستان کے تعلقات " یک جان دو قالب" اور دو ریاستیں ایک قوم" جیسے القابات سے نوازے جانے والے تعلقات ہیں ۔ ان لازوال تعلقات کی جھلکیاں ہم نے اس وقت دیکھیں جب ترکی کے وزیر قومی دفاع ریٹائرڈ جنرل حلوصی آقار ، مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل یشار گیولر اور مسلح افواج کے سربراہان سے لے کر اعلیٰ سول حکام نے شرکت کی اور پاکستان سےاپنی محبت اور یک جہتی کا اظہار کیا۔ میری ذاتی رائے کے مطابق شاید ہی دنیا میں پاکستان کے کسی دیگر سفارت خانے کو اُس ملک کی اعلیٰ ترین فوجی قیادت کی میزبانی کرنے کا اس طرح اعزاز حاصل ہوا ہو ۔ تقریب کے موقع پر سفیرِ پاکستان محمد سائیرس سجاد قاضی، ڈیفنس اٹیچی ائیر کموڈور عمران صغیر چوہدری، آرمی اٹیچی کرنل فیصل سعود ، کرنل عمران اسلم، نیول اٹیچی کیپٹن خان محمد آصف اور ان کی بیگمات نے فرداً فرداً تمام شرکاء کا استقبال کیا۔
تقریب کا باقاعدہ آغاز ترک وزیر قومی دفاع حلوصی آقار کی آمد کے فوراً بعد دونوں ممالک کے قومی ترانوں سے ہوا۔ اس موقع پر پاکستان کے سفیر محمد سائیرس سجاد قاضی نے خطاب کرتے ہوئے یومِ دفاع کی اہمیت اور چھ ستمبر 1965ء کو پاکستان کو اپنی بقا کے لیے لڑی جانے والی جنگ اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے اس جنگ میں سرخرو ہونے سے آگاہ کیا۔ انہوں نے پاک فوج کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے علاوہ ترکی کی جنگ چناق قلعے اور 15 جولائی 2016ء کی ناکام بغاوت کو کچلنے اور موجودہ دور میں ملک کے تحفظ کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دینے والوں ترک شہدا کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا۔
اس موقع پر ترکی کے وزیر قومی دفاع حلوصی آقار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "ترکوں کے دل پاکستان کی محبت سے سرشار ہیں۔ مجھے یقین ہے پاکستان کی مسلح افواج ملک کے استحکام کے ساتھ ساتھ خطے اور عالمی امن کے قیام کے لیے بھی اپنا کردارا دا کرتی رہے گی۔ جمہوریہ ترکی کے قیام سے لے کر اب تک پاکستان ہمیشہ ہی ترکی کا بھر پور ساتھ دیتا چلا آرہا ہے۔ ترکی کی جنگ آزادی کے موقع پر مسلمانان ہند نے جس طرح ترکی کا دل کھول کر ساتھ دیا اور اپنا تن من دھن سب کچھ ترکی پر لٹا دیا ہم کبھی اسے فراموش نہیں کر سکتے ہیں ۔ سن 1974ء کی قبرص جنگ میں پاکستان کی حمایت اور مدد کو بھلا کون فراموش کر سکتا ہے؟ پاکستان کی 15 جولائی 2016ء کی ناکام بغاوت کے موقع پر ترکی میں ڈیمو کریسی کے تسلسل کی حمایت نے ترکوں کے دل جیت لئے۔
پاکستان ہمارے لئے قوت اور استحکام کا وسیلہ ہے۔ " اس تقریب میں انقرہ میں پاکستانی اسکول کی طالبات نے پاکستان کے ملی نغمے پیش کرتے ہوئے حاضرین کو پاکستانی کی محبت کا اسیر بنا دیا ۔ پاکستان کی محبت سے لبریز ان نغموں کے بعد سفیر پاکستان محمد سائیرس سجاد قاضی ، ترکی کے وزیر قومی دفاع حلوصی آقار ، ترک مسلح افواج کے سربراہان نے مشترکہ طور پر کیک کاٹا۔ تقریب میں قیام ِ پاکستان اور افواج پاکستان کے کارناموں پر مبنی دستاویزی فلم کا بھی اہتمام کیا گیا تھا جبکہ ہوٹل کی راہداری میں پاکستان سے متعلق پینٹنگز کی بھی نمائش کی گئی تھی۔ اس موقع پر ترکی کے وزیر قومی دفاع حلوصی آقار نے راقم کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ " ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں اور اس کے کردار سے پوری طرح آگاہ ہیں ۔
پاکستان اور ترکی کے فوجی افسران اور اعلیٰ فوجی قیادت کو اکثر و بیشتر فرائض کی سرانجام دہی کے لیے یکجا ہونے کا موقع میسر آتا ہے اور ان مواقع پر دونوں ممالک کی اعلیٰ فوجی قیادت کے چہروں پر ایک دوسرے سے محبت اور چاہت کی جھلک نمایا ں طور پر نظر آتی ہے ۔ پاکستان اور ترکی کے درمیان بڑے گہرے اور دیرینہ تعلقات قائم ہیں ۔ دونوں ممالک میں دفاعی صنعت میں اشتراک اور تعاون بڑی اہمیت کا حامل ہے اور یہ تعاون اور اشتراک وقت کے ساتھ ساتھ مزید فروغ پاتا رہے گا۔ دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور اشتراک صرف دونوں ممالک تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس سے خطے اور عالمی امن کے قیام میں بھی مدد ملے گی۔
دہشتگردی کیخلاف جنگ میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کرنے کیساتھ ساتھ مختلف اداروں اور ٹریننگ سینٹرز میں مشترکہ طور پر ٹریننگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہم جنگی بحری جہازوں ، طیاروں ہیلی کاپٹروں کے علاوہ توپوں ٹینکوں اور دیگر جنگی سازو سامان کی تیاری میں بھی ایک دوسرے سے گہرا تعاون کر رہے ہیں جو دونوں ممالک کے مفاد کے ساتھ ساتھ خطے کے لیے بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ میں ایک بار پھر یومِ دفاع پاکستان کے موقع پر پاکستان اور پاک فوج کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کیلئے دعا گو ہوں۔ "
ڈاکٹر فرقان حمید
1 note
·
View note