#عکاس جنگ
Explore tagged Tumblr posts
Text
قسمت سوم پادکست گوشه؛ «توموکو در حمام» و یوجین اسمیت
قسمت سوم پادکست گوشه – که در هر قسمت آن از یک هنر و یک هنرمند حرف می زنیم- درباره مردیست که وقتی از او میپرسیدند، تو اخلاقگرایی دوربینبهدستی؟ میگفت، نه! من بدبینی دلسوزم. یوجین اسمیت، عکاسی نبود که سردبیران مجلههای پرطرفدار در دهه ۴۰ و ۵۰ میلادی بتوانند او را در زمان کمبود پزشک عمومی در آمریکا، به روستایی بفرستند و از او بخواهند فقط چندتایی عکس از این موضوع تهیه کند و بهسراغ ماموریت…
View On WordPress
#آمریکا#اخلاق در عکاسی#جایزه عکاسی#عکاس آمریکایی#عکاس جنگ#عکاس خبری#عکاس فیلم#عکاسی#عکاسی آنالوگ#عکاسی هنری#عکس#پادکست#پادکست هنری#پادکست گوشه#یوجین اسمیت
0 notes
Text
شاباش لالہ شاباش
شاہد آفریدی پاکستانی کرکٹ کے ہیرو آج کل دیسی لبرلز اور سیکولر طبقہ کے نشانہ پر ہیں۔ کرکٹ کے لالہ پر بھارتی اور مغربی میڈیا بھی برس رہا ہے۔ دیسی لبرلز اور بھارتی و مغربی میڈیا کی شاہد آفریدی پر غصہ کی وجہ لالہ کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’’Game Changer‘‘ ہے، جس میں آفریدی نے لکھا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو کوئی بھی آئوٹ ڈور کھیل کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے اور اس کی وجہ ہماری اسلامی اور معاشرتی اقدار ہیں۔ آفریدی نے لکھا کہ اُن کے اس فیصلے میں اُن کی اہلیہ کی حمایت بھی شامل ہے۔ آفریدی نے یہ بھی لکھا کہ حقوقِ نسواں کے علمبردار (Feminists) جو مرضی کہیں وہ اپنی بیٹیوں کے بارے میں یہ فیصلہ کر چکے ہیں۔
لالہ کے ان الفاظ نے جیسے طوفان برپا کر دیا ہو۔ بھارتی اور مغربی میڈیا سے تو یہ توقع تھی ہی کہ وہ کیسے دنیائے کرکٹ کے ایک بڑے نام کی طرف سے کوئی ایسی بات سنیں جو اسلام سے متعلق ہو، جو عورت کے پردہ کے حق اور اُس کی بے پردگی کے خلاف ہو لیکن افسوس کہ پاکستان کے لبرلز اور سیکولرز میں موجود ایک مخصوص طبقے کو بھی آفریدی کی بات ہضم نہ ہوئی اور اُنہوں نے بھی آفریدی کو اپنے طعنوں اور تنقید کا نشانہ بنایا۔ آفریدی نے جو بات کی وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اور ہمارے معاشرتی اقدار کی عکاس تھی۔ اس بات پر تو آفریدی کو شاباش ملنا چاہیے تھی.
یہ تو بڑے فخر اور نیکی کی بات ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب اسلام کی بات کرنے والوں کے پیچھے لوگ ہاتھ دھو کر پڑ جائیں، وہاں ایک کرکٹ ہیرو اُٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ اُس کی بیٹیاں کرکٹ سمیت کسی بھی ایسے کھیل کا حصہ نہیں ہوں گی جو چار دیواری سے باہر ہو اور جسے دیکھنے کے لیے غیر محرم افراد آزاد ہوں۔ جو بات آفریدی نے کی یہ تو اب اسلامی سیاسی جماعتوں کے لوگ بھی کرنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں میڈیا اور سیکولر و لبرل طبقہ پیچھے نہ پڑ جائے۔ اللہ تعالیٰ شاہد آفریدی، اُن کی اہلیہ اور اُن کی بیٹیوں کو جزائے خیر دے اور اُن پر اپنی رحمتوں کی بارش فرمائے۔ آمین! شاہد آفریدی کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ انہوں نے اپنی بیٹیوں کی ایسی تربیت کی کہ بلوغت کو پہنچتے ہی وہ جب بھی گھر سے باہر نظر آئیں، ہمیشہ پردہ میں نظر آئیں۔
لالہ کی اہلیہ بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق پردہ کرتی ہیں اور یہ وہ عمل ہے جو آفریدی اور اُن کی بیوی اور بچیوں کو دوسروں کے لیے ترغیب کا ذریعہ بناتا ہے۔ اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب عورت کو بے لباس کرنے کی ایک Mad ریس لگی ہو، بے شرمی اور بے حیائی کو ترقی اور جدت پسندی سے جوڑا جائے، جہاں عورت کے جسم اور خوبصورتی کوپیسہ کمانے کے لیے استعمال کیا جائے، جب ناچنے اور گانے والوں اور والیوں کو رول ماڈل بنا کر پیش کیا جا رہا ہو۔ مجھے امید ہے کہ شاہد آفریدی اپنے مخالفین کے پروپیگنڈا کی وجہ سے گھبرائیں گے نہیں. اور اُنہیں گھبرانا بھی نہیں چاہیے کیونکہ اُنہوں نے جو بات کی، وہ تو اسلام کی بات ہے، یہ تو بڑے فخر اور بڑے اجر کا کام ہے۔
مجھے امید ہے کہ لالہ کے اس عمل سے بہت سے ایسے لوگ جو میڈیا کے ساتھ ساتھ لبرل اور سیکولر طبقے کے دبائو کی وجہ سے اسلام کی بات کرنے سے ڈرتے ہیں، بھی حوصلہ پکڑیں گے۔ شاہد آفریدی پرحملے کرنے والے اگرچہ کم ہیں لیکن منظم ہونے کی وجہ سے اُنہی کی آواز میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے گونج رہی ہے لیکن افسوس کہ اسلامی سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں جو سوشل میڈیا میں ویسے تو کافی سرگرم ہیں، اس معاملے میں عمومی طور پر خاموش نظر آئیں۔
حالانکہ یہ وہ وقت ہے جب میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے وہ بات جو لالہ نے کی، اُس کے متعلق لوگوں کو اسلامی تعلیمات اور دینی احکامات سے آگاہ کیا جائے۔ ہمیں معاشرے اور اس کے افراد کو یہ بھی بتانا ہے کہ مسلمان ہوتے ہوئے ہم مغرب کی اندھی تقلید نہیں کر سکتے بلکہ اُن حدود و قیود کے پابند ہیں جو بحیثیت مسلمان ہمارا دین ہمیں بتاتا ہے۔ آخر میں مَیں پھر ایک بار شاہد آفریدی کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں کہ اُنہوں نے بہت اچھی بات کی اور امید کرتا ہوں کہ ایسی اچھی باتیں آئندہ بھی کرتے رہیں گے، چاہے دنیا جو مرضی کہے۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes
·
View notes
Text
کیا ہمارے پاس چین کے علاوہ کوئی اور آپشن ہے؟
چینی صدر ژی جن پنگ نے 26/27 اپریل کو بیجنگ میں دوسری بیلٹ اینڈ روڈ فورم کے میزبانی کے فرائض انجام دیے، 125 ممالک اور 40 بین الاقوامی تنظیمیں بیلٹ اینڈ روڈ انی شیٹو (بی آر آئی) سے منسلک ہو چکی ہیں۔ بی آر آئی ایک بہت ہی بلند نظر منصوبہ ہے جس کا مقصد پورے عظیم یوریشیائی قطعہ زمین اور اس کے قریب اور دور کنارے پر واقع جنوب مشرقی، جنوبی اور مغربی ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا کے درمیان آپس میں جڑی زمین اور بحری انفرااسٹریچر، تجارت اور سرمایہ کاری کے تحت رابطہ قائم کرنا ہے۔ 37 سربرہانِ مملکت و حکومت، وزرا کی ایک کثیر تعداد اور 5 ہزار وفود نے اس فورم میں شرکت کی جو کہ بی آر آئی پر بڑھتی ہوئی رضامندی کی عکاس ہے۔ یہ قبولیت ترقی پذیر ممالک کے درمیان چین کی اقتصادی ترقی کے کامیاب ’ماڈل‘ کو اپنانے کی خواہش کی عکاسی کرتی ہے اور اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ یہ منصوبہ عالمی اقتصادی پیداوار، زبردست خوشحالی اور ترقی پذیر ممالک میں امن اور استحکام کو جاتا انمول راستہ فراہم کر سکتا ہے۔
اطلاعات کے مطابق بی آر آئی کی شہہ سرخی کے ساتھ 175 معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ 90 ارب ڈالر کے منصوبوں پر عمل ہو چکا ہے۔ جبکہ انفرا اسٹریچکر منصوبوں پر 1 ہزار ارب ڈالر خرچ کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ بی آر آئی منصوبوں کی فنڈنگ میں باضابطہ غیر چینی مالی ذرائع اور نجی مالیاتی شعبے کی شمولیت سے مذکورہ عدد میں اضافے کا امکان بھی ہے۔ اس کے علاوہ ڈیجیٹل معیشت اور ای کامرس جیسے اشتراکی فورمز کی شمولیت اور اس کے ساتھ بی آر اسٹیڈیز نیٹ ورک سے وابستہ تھنک ٹینکس کے قیام پر غور کیا جارہا ہے۔ امریکا نے بی آر آئی پر اپنی مخالفت واضح کر دی ہے اور ترقی پذیر ممالک اور اپنے اتحادیوں کو اس منصوبے میں شمولیت کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے سیاسی اور میڈیا مہم کی سرپرستی بھی کی۔ امریکا اور مغرب کی جانب سے بڑھا چڑھا کر پیش کی جانے والی چین کی قرضے میں پھانسنے کی حکمت عملی سے بچنے کی تلقین، کرپشن اور ناکام منصوبوں کی کہانیاں اتنی بار دہرائی گئی ہیں کہ اب اکتاہٹ ہونے لگی ہے جبکہ ایسی رپورٹس کو متعلقہ فریقین بے بنیاد قرار دے چکے ہیں۔
چین کے قرضوں کو لے کر جو نصیحیتیں کی جا رہی ہیں وہ تو خاص طور پر باعثِ کوفت ہیں کیونکہ 90 فیصد سے زائد ترقی یافتہ ممالک مغربی ملکوں اور اداروں کے مقروض ہیں۔ ان ترقی پذیر ممالک میں سالانہ 30 فیصد کے قریب نقدی کرنسی اسی قرضے کی قسط کی نذر ہو جاتی ہے۔ یہ قرضہ خراب مغربی ترقیاتی ’امداد‘ کا نتیجہ ہے جس نے وصول کنندہ ممالک کی ترقی میں بہت ہی معمولی کردار ادا کیا ہے۔ امریکی مخالفت کی اسٹریٹجک وجہ بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ دراصل یہ منصوبہ ’انڈیا پیسیفک‘ پر غلبہ قائم رکھنے کی خاطر چین کی سرحدوں پر اتحادیوں کا گھیرا بنانے کے امریکی مقصد کی کمر توڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکا کو اس جنگ میں اپنی تسلیم کرنے سے ہچکچا رہا ہے۔
امریکا کے ایشیائی اتحادیوں میں سے کوئی بھی اپنے سب سے بڑے تجارتی ساتھی چین کو للکارنے کا دم خم نہیں رکھتا ہے۔ ہندوستان نے واضح کر دیا کہ یہ چین کے ساتھ اقتصادی اشتراک کو اہمیت دیتا ہے۔ جاپان اور آسٹریلیا نے بحیرہ جنوبی چین میں ’فریڈم آف نویگیشن‘ آپریشنز میں امریکی نیوی میں شامل ہونے سے خود کو روک دیا ہے۔ جاپان امریکی محصولات سے بیزار آ کر بی آر آئی میں ’تھرڈ پارٹی‘ (تیسرے فریق) کے طور پر شامل ہو چکا ہے۔ بی آر آئی منصوبوں میں مشترکہ سرمایہ کاری کے لیے جاپان چائنہ فنڈ کا قیام بھی عمل میں لایا جا چکا ہے۔ 17 وسطی یورپی ممالک نے اقتصادی اشتراک بشمول رابطہ کاری کے منصوبوں کو فروغ دینے کے لیے چین کے ساتھ مل کر ایک گروپ قائم کیا ہے۔ اٹلی ’جی 7‘ کا وہ پہلا ملک ہے جس نے باضابطہ طور پر بی آر آئی میں شامل ہوا۔ حتیٰ کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے دیگر ممالک، جو اپنے اتحادی امریکا کے ہاتھوں بی آر آئی پر تنقید کرنے کے لیے مجبور محسوس کرتے ہیں، وہ بھی چین کی اقتصادی وسعت اور بی آر آئی سے حاصل ہونے والے ہر ایک تجارتی موقعے کو ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے ہیں۔
امریکا کی اپنی کمپنیاں باضابطہ بائیکاٹ پر دھیان دینے کے موڈ میں نظر نہیں آتیں۔ ایک لاکھ 50 ہزار سے زائد امریکی کمپنیاں چینی معیشت کے دائرے میں رہ کر کام کر رہی ہیں۔ محض چند ایک کا ہی باہر نکلنے کا امکان ہے۔ چین کے مزید ’دروازے کھلنے‘ سے دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے باہمی انحصار کو مزید تقویت ملنے کا امکان ہے۔ پاکستان بی آر آئی کے ایک اہم حصے کا میزبان ہے۔ وزیراعظم عمران خان ان 7 سربراہان میں سے ایک تھے جنہوں نے کانفرنس کو خطاب کیا۔ انہوں نے بی آر آئی کو ساتھ مل کر کام کرنے، شراکت داری، رابطہ کاری اور مشترکہ ترقی کا ایک ماڈل اور عالمگیریت کی طرف لے جاتے ایک نئے اور منفرد مرحلے کا آغاز قرار دیا۔ سی پیک دو طرفہ تعلقات میں مضبوط تر بنانے کا ایک اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ بی آر آئی منصوبوں میں مختص کیے جانے والے ایک ہزار ارب ڈالر میں سے 72 ارب ڈالر سی پیک کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ اب تک 90 ارب ڈالر کی جو سرمایہ کاری ہوئی ہے اس میں سے تقریباً 27 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان میں کی گئی۔
چین پاکستان کے ساتھ اپنی ’اسٹریٹجک شراکت داری‘ کو اہمیت دیتا ہے اور اس کی سالمیت، استحکام اور ترقی کو یقینی بنانے کی اہمیت سمجھتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان قائم باہمی اعتماد کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ پاکستان کو بھارت کے خلاف اپنی قوت مزاحمت کے توازن کو برقرار رکھنے اور افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں استحکام کو یقینی بنانے کے لیے چین کا تعاون نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اگر ہندوستان کبھی پاکستان کے ساتھ تعلقات نارمل کرنے کے لیے تیار بھی ہو جاتا ہے تو امریکا سے زیادہ چین اور شاید روس کی مصالحت زیادہ مفی�� ثابت ہو سکتی ہے۔ چین میں پاکستان کے لیے موقع نہایت اہم ہے۔ چین پاکستان میں انفرااسٹریکچر کی تعمیر اور صنعت کاری میں تعاون کر رہا ہے۔ یہ پاکستان کی برآمدات کے لیے ایک پھلتی پھولتی ہوئی منڈی ثابت ہو سکتی ہے۔ پاکستان کا مقصد چین کی پیداوار کے راستے کو اپنانے کے ساتھ ساتھ اس کی کامیابیوں اور ناکامیوں سے سیکھ کر اس کو مزید بہتر بنانا بھی ہونا چاہیے۔
پاکستان کا مقصد 21 ویں صدی کی معاشی ساخت کے پیچھے دوڑنا نہیں ہونا چاہیے بلکہ وہ اس تعاون سے ماضی یا حال کی ٹیکنالوجیز کے حصول کی کوششیں کرنی ہیں اور ساتھ ساتھ مستقبل کی ان ٹیکنالوجیز اپنے پاس لانے کے لیے کوشاں رہنا ہو گا جنہیں چین اس وقت متعارف کر رہا ہے اور جن پر عمل پیرا ہے، مثلاً ہائی اسپیڈ ریل (پرانے نظام والی نہیں بلکہ جدید)، اے ون، برقی گاڑیاں، ماحول دوست توانائی، ای کامرس وغیرہ۔ پاکستان کو چاہیے وہ خود کو بہتر انداز میں منظم کرے۔ اسلام آباد کو یہ واضح کرنا ہو گا کہ وہ چین سے کیا چاہتا ہے اور اسے کیا کچھ درکار ہے، اور انہیں کس طرح حاصل کیا جائے، اس حوالے سے ایک حکمت عملی مرتب کرنی ہو گی۔ اس قسم کی حکمت عملی کو پالیسی، عملی اور تکمیلی سطح پر چین کے ساتھ مربوط رکھنا ضروری ہو گا۔ پاکستان کو تعاون کے ہر ایک معاملے میں پاکستان کے اندر اور باہر موجود نجی یا سرکاری شعبے سے وابستہ سب سے بہترین دستیاب تکنیکی اور انتظامی ماہرانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہو گا۔ ایک خود مختار سی پیک اتھارٹی کا قیام اپنی منشا کے مطابق نتائج کے حصول میں مددگار رہے گا۔
عظیم طاقت کی جاری دوڑ کے باعث رفابت سے بھرپور اس ماحول میں اسلام آباد کو اسٹریٹچک اعتبار سے واضح مؤقف اپنانا ہو گا۔ ہندوستان کی دشمنی تو مستقل جاری رہے گی، ممکن ہے کہ انتخابات کے بعد یہ دشمنی، تناؤ یا پھر دوسرے کو پچھاڑنے کی دوڑ تک محدود ہو جائے۔ امریکی ساؤتھ ایشیا حکمت عملی کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہندوستان خطے میں غالب ہو۔ ایسی کسی خوش فہمی میں متبلا سوچ کی کوئی گنجائش نہیں ہو سکتی کہ خیر سگالی یا ہوشیار سفارتکاری کے اظہار سے اس حکمت عملی کو بدلنا ممکن ہے۔ امریکا پاکستان کو اس وقت ہی مساوی نظر سے دیکھے گا جب اسے پاکستان میں پرکشش اقتصادی مواقع نظر آئیں گے۔ اس مقصد کے لیے پاکستان کو چین کا تعاون درکار ہے۔ پاکستان کے پاس سب سے اچھا آپشن یہی ہے کہ وہ ’خود کو چین کے ساتھ لوہے کے چھلوں کے سے باندھ دے’ کہ یہی تجویز 1962ء میں اس وقت کے وزیر خارجہ ایس کے دہلوی نے بھی دی تھی۔ اس نادر موقع کو ایک بار پھر ٹھکرانا ہمارے لیے کسی سانحے سے کم نہیں ہو گا۔
منیر اکرم یہ مضمون 24 اپریل 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
2 notes
·
View notes
Text
کرائمیا میں روسی اڈے پردھماکوں میں 9 روسی طیارے تباہہوئے : یوکرین
کرائمیا میں روسی اڈے پردھماکوں میں 9 روسی طیارے تباہہوئے : یوکرین
کرائمیا میں روسی اڈے پردھماکوں میں 9 روسی طیارے تباہہوئے : یوکرین کیف؍لندن 11اگست ( آئی این ایس انڈیا ) یوکرین کی فضائیہ نے بدھ کو کہا کہ کرائمیا کے ایک فضائی اڈے پر ہونے والے دھماکوں کے مہلک سلسلے میں روس کے نو جنگی طیارے تباہ ہو گئے ہیں۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنیآیا ہے جب قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں کہ یہ دھماکے یوکرین کے حملے کا نتیجہ تھے جو جنگ میں شدت آنے کے عکاس ہو سکتے ہیں۔روس نیاس بات…
View On WordPress
0 notes
Photo
. " بله، ما در کشورمان جنگ داشتیم . بله، وضعیت اقتصادیمان اسفبار است . بله، کشورمان ویرانه شده . اما هنوز انرژی و امید داریم. " #مارینا_آبرامویچ #عبور_از_دیوارها #استودیو_عکاسی_میتوس #عکس #عکاسی#هنر#نورپردازی #مد #فشن #زیبایی #پوشاک #ایرانی #عکاس #حدیثه_احمدی #instagoood #photographer #photography#photooftheday #art #cloths #advertisingphotography #lighting #fashion (at Tehran, Iran) https://www.instagram.com/p/CXbYL1SNud8/?utm_medium=tumblr
#مارینا_آبرامویچ#عبور_از_دیوارها#استودیو_عکاسی_میتوس#عکس#عکاسی#هنر#نورپردازی#مد#فشن#زیبایی#پوشاک#ایرانی#عکاس#حدیثه_احمدی#instagoood#photographer#photography#photooftheday#art#cloths#advertisingphotography#lighting#fashion
0 notes
Video
#ایران_بریفینگ / انتشار ویدئویی از روایت «اصغر جاهد» رزمنده جنگ درباره نحوه شهادت #قوچعلی_اجاقلو ، باعث واکنش گسترده کاربران شبکەهای اجتماعی شده است. بر روی سنگ قبر اجاقلو، محل «شهادت» او «شرق دجله» اعلام شده است. جاهد میگوید: «اوجاقلو با آرپیجی میره عکاسخانه عکس بگیره، عکاس میگه یک دو سه، شهید هم دست به ماشه شلیک میکنه! خلاصه عکاسخانه میره هوا، من رفتم اونجا را دیدم.» ساعاتی بعد، این ویدئو از روی وبسایت #خبرگزاری_فارس وابسته به سپاه پاسداران برداشته شد اما هشتگ #قوچعلی_اجاقی_نباشیم هم اکنون در شبکههای مجازی ترند شده است. #شلیک_به_خودی #آتش_خودی #Farsi🏳️ @Irbriefing @iran.briefing https://www.instagram.com/p/CULG2qJgpov/?utm_medium=tumblr
0 notes
Text
طالبان 20 سالہ جنگ کے بعد فاتح بن کر کابل میں داخل ہوئے، فضل الرحمان
طالبان 20 سالہ جنگ کے بعد فاتح بن کر کابل میں داخل ہوئے، فضل الرحمان @MoulanaOfficial #Afghanistan #Taliban #Aajkalpk
پشاور: جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت پاکستان سے طالبان کی حکومت تسلیم کرنے کا مطالبہ کردیا۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ طالبان 20 سالہ جنگ کے بعد فاتح بن کر کابل میں داخل ہوئے، حکومتِ پاکستان طالبان حکومت کوتسلیم کرے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کا وسیع البنیاد حکومت کاعندیہ اور عام معافی کااعلان ان کے رویئے کا عکاس ہے، اب دنیا بھی طالبان کے ساتھ کھلے دل کا مظاہرہ…
View On WordPress
0 notes
Text
پاکستان قرضوں کے جال میں جکڑ ا ہوا ہے، حل کیا ہے ؟
پاکستان قرضوں کے جال میں جکڑا ہوا ہے۔ 2001 میں مالیاتی ماہرین پر مشتمل قائم اعلیٰ سطح کمیٹی جسے ’’ڈیٹ ریڈکشن اینڈ مینجمنٹ کمیٹی‘‘ کا نام دیا گیا تھا اس کے مطابق اس بات میں شبہ نہیں رہا کہ پاکستان قرضوں کے جال میں جکڑ ا ہوا ہے۔ بھاری قرضوں کی ادائیگی کے شیطانی چکر نے سرمایہ کاری اور شرح نمو پر جمود طاری کر دیا ہے۔ ورلڈ بینک کے نائب صدر کی حیثیت سے ریٹائر ہونے والے ڈاکٹر پرویز حسن کی قیادت میں مذکورہ کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے مالی بحران پر قابو پانے کے لئے اقدامات تجویز کئے تھے جس نے پاکستان کی اقتصادیات کو عملی طور پر مفلوج کیا۔ 2001 کی یہ رپورٹ آج 2019 میں صورتحال کی عکاس ہے۔ اس دوران کوئی بہتری نہیں آئی۔
پاکستان کو آج بھی 18 سال قبل کے اقتصادی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ سیاسی عدم استحکام، اقتصادی اور حسن حکمرانی کے چیلنج بدستور موجود ہیں تاہم اس بار اقتصادی پالیسیوں پر سیاسی اتفاق رائے کے لئے میثاق اقتصادیات کی تجویز سامنے آئی ہے۔ رپورٹ میں طے کردہ اغراض و مقاصد سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بھی حکومت یا سیاسی جماعت ملک کی اقتصادیات کو راہ راست پر نہیں ڈال سکتی۔ اس کے لئے اجتماعی کوشش اور متفقہ مؤقف درکار ہے۔ ڈیٹ ریڈکشن اینڈ مینجمٹ کمیٹی نے اپنی حوالہ شرائط میں قرضوں کا بوجھ کم کرنے کی حکمت عملی دی تھی۔ کمیٹی نے قرار دیا تھا قرضوں کا مسئلہ کمزور اقتصادی فیصلوں کی وجہ سے ابھر کر سامنے آیا۔
اصلاحات کو بڑے عرصے کے لئے التوا میں ڈالا گیا قرضوں کا بوجھ اتارنے کا کوئی آسان علاج نہ تھا۔ کمیٹی نے زور دیا تھا کہ اقتصادی احیا، مالی وصولیوں میں خاطر خواہ اضافہ اور برآمدات اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ چار سالہ حکمت عملی کے کچھ بنیادی مفروضوں پر مرتب کی گئی جو جون 2001 سے جولائی 2004 کے لئے تھی۔ اس دوران قرضوں کا منظر نامہ مکمل تبدیل ہو جائے گا اور قرضوں کا بوجھ کم ہو کر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ قابل برداشت 300 فیصد کی سطح پر آجائے گا۔ رپورٹ کے مطابق 2004 فاضل بجٹ کا سال ہو گا۔ پاکستان کے قرضوں کے شکنجے میں جکڑا ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے بنیادی طور پر موجودہ خطرات کا ذکر کرتے ہوئے سوال اٹھایا تھا کہ آیا پاکستان ا س شیطانی چکر کو توڑ سکے گا۔
یقیناً اگر جانفشانی سے اصلاحات کے لئے کوششیں کی جاتیں تو بہتری کے امکانات موجود تھے لیکن ماضی کا ریکارڈ کوئی حوصلہ افزا نہیں ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ قرضوں کے بوجھ سے ��منٹے کے مؤثر اقدامات نہ ہونے کے سیاسی واقتصادی طور پر نتائج تباہ کن ہوں گے قرضوں کے بوجھ سے شرح نمو مزید سست ہو جائے گی بڑے پیمانے پر کرنسی نوٹ چھاپنے ہوں گے جس سے افراط زر بڑھے گا روپے کی قدر مسلسل گھٹتی جائے گی بیرونی سطح پر تکنیکی دیوالیہ سے اقتصادی تنہائی میں چلے جائیں گے۔ تجارت اور ٹیکنالوجی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے رپورٹ کے مطابق سرکاری اور بیرونی قرضوں کا بوجھ ناقابل برداشت ہے۔
پیرس کلب کی جانب سے ری شیڈولنگ کے بغیر ڈیٹ سروس سے نمٹنا ممکن نہیں ہے اس کے لئے آئی ایم ایف ورلڈ بینک اور اے ڈی بی کی غیرمعمولی معاونت بھی درکار ہو گا ملکی سطح پر گو کہ مالی پوزیشن بنیادی طور پر فاضل دکھائی دے رہی ہے بیرونی قرضوں کا بوجھ کم کرنے کی واضح طور پر ضرورت ہے تاکہ پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے غیرمعمولی مالی معاونت کی ضرورت نہ پڑے مزید کہا گیا ہے کہ قرضوں کا مسئلہ اٹھنے کی وجہ سے پالیسی ناکامیابیاں ہیں اس مسئلے کا فوری حل بھی نہیں ہے۔ اس کے اطمینان بخش حل میں وقت لگنے کے ساتھ جارحانہ پالیسی اقدامات بھی کرنے ہوں گے۔
اس کے ساتھ اقتصادی شرح نمو کے فوری احیاء کی بھی ضرورت ہے رپورٹ کے مطابق قرضوں کے جال سے نکلنے کے لئے پاکستان کو مربوط اقتصادی احیا ء اور قرضوں میں کمی کے لئے حکمت عملی کی ضرورت ہے اس حکمت عملی کے دہرے مقاصد قرضوں کے بوجھ میں نمایاں کمی اور وسط مدتی طور پر شرح نمو میں نمایاں اضافہ ہونا چاہئے۔ دو سے تین سال کی مختصر مدت میں قرضوں میں کمی اور کمزور شرح نمو سے بچنا ممکن نہ ہو گا لیکن کمیٹی کو اعتماد تھا کہ مضبوط مالی نظم ونسق اور بہتر طرز حکمرانی کے ذریعے شرح نمو کو 2003-04 سے 5.5 فیصد تک لایا جا سکتا ہے 2004 تک ری شیڈولنگ مرحلے سے نکلنے کے لئے آئی ایم ایف اور پیرس کلب کی غیر معمولی مالی معاونت کی ضرورت ہو گی اس دہائی کے دوسرے حصے میں 6 فیصد کی شرح نمو کے ساتھ 2010 تک سرکاری قرضے تیزی سے نیچے لائے جا سکتے ہیں۔ وسعت کے لئے سب سے زیادہ حوصلہ افزا شعبے زراعت، تیار اشیا کی برآمدات تیل اور گیس ہیں۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note
·
View note
Text
پاک فضائیہ پاکستان کے دفاع کیلئے ہمہ وقت تیار ہے
پاک فضائیہ پاکستان کے دفاع کیلئے ہمہ وقت تیار ہے
پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو نے کہا ہے کہ پاک فضائیہ پاکستان کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے دفاع کیلئے ہمہ وقت تیار ہے۔انہوں نے کہا کہ یوم دفاعِ پاکستان ہماری تاریخ میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے، یہ ہماری بہترین قومی یکجہتی کا عکاس اور افواج پاکستان کی پیشہ ورانہ مہارت، بہادری اور قربانی کی دائمی یادگار ہے جس کا مظاہرہ انہوں نے میدان جنگ میں پیش کیا۔ یوم دفاع کے موقع…
View On WordPress
0 notes
Text
پاک فضائیہ پاکستان کے دفاع کیلئے ہمہ وقت تیار ہے، ایئر چیف
پاک فضائیہ پاکستان کے دفاع کیلئے ہمہ وقت تیار ہے، ایئر چیف
) پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو نے کہا ہے کہ پاک فضائیہ پاکستان کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے دفاع کیلئے ہمہ وقت تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوم دفاعِ پاکستان ہماری تاریخ میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے، یہ ہماری بہترین قومی یکجہتی کا عکاس اور افواج پاکستان کی پیشہ ورانہ مہارت، بہادری اور قربانی کی دائمی یادگار ہے جس کا مظاہرہ انہوں نے میدان جنگ میں پیش کیا۔ یوم دفاع کے…
View On WordPress
0 notes
Text
پاک فضائیہ پاکستان کے دفاع کیلئے ہمہ وقت تیار ہے، ایئر چیف
پاک فضائیہ پاکستان کے دفاع کیلئے ہمہ وقت تیار ہے، ایئر چیف
پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو نے کہا ہے کہ پاک فضائیہ پاکستان کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے دفاع کیلئے ہمہ وقت تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوم دفاعِ پاکستان ہماری تاریخ میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے، یہ ہماری بہترین قومی یکجہتی کا عکاس اور افواج پاکستان کی پیشہ ورانہ مہارت، بہادری اور قربانی کی دائمی یادگار ہے جس کا مظاہرہ انہوں نے میدان جنگ میں پیش کیا۔ یوم دفاع کے موقع…
View On WordPress
0 notes
Text
افغانستان کا بحران ڈیموکریٹک سینیٹر کا کہنا ہے کہ امریکہ کو طالبان کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔
افغانستان کا بحران ڈیموکریٹک سینیٹر کا کہنا ہے کہ امریکہ کو طالبان کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے انتہائی رازداری سے م��اقات کی۔ 29 اگست کو اہل خانہ کے ساتھ خودکش حملے میں 13 امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔ کابل ہوائی اڈے کے قریب جب ان کے عزیزوں کی باقیات افغانستان سے امریکی سرزمین پر لوٹ آئیں۔
دریں اثنا ، جرمنی کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں اب بھی ان لوگوں کی مدد کرنے کے لیے پرعزم ہے جو وہاں سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں ، نیز وہ لوگ جو پہلے ہی پناہ گزین بن کر بھاگ چکے ہیں اور برطانیہ نے جنگ زدہ شہر سے انخلاء مکمل کر لیا ہے۔
یہاں تازہ ترین پیش رفت ہیں:
امریکا
ہندوستانی امریکیوں نے کابل حملے میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کے اعزاز میں شمع روشن کی
پچھلے ہفتے کابل میں دہشت گردانہ حملے میں 13 امریکی فوجیوں کی ہلاکت پر سوگ مناتے ہوئے ، ہندوستانی امریکیوں نے ملک بھر کے مختلف شہروں میں شمع روشن کر کے امن کی تقاریب منعقد کیں اور بائیڈن انتظامیہ پر زور دیا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اس عمل کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
تقریبا 20 20 ہندوستانی امریکیوں کا ایک چھوٹا گروہ کابل کے ہوائی اڈے پر خودکش حملے میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کے لیے موم بتی کی روشنی کے لیے امریکی دارالحکومت کے سامنے عکاس تالاب پر جمع ہوا۔
ہم کابل میں اپنے شہید فوجیوں کی ہلاکت پر سوگ منانے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں۔ یہ دہشت گردی کی گھناؤنی کارروائی ہے۔ کمیونٹی کے کارکن ادپا پرساد نے کہا کہ بھارت سے جو دہشت گردی کا شکار رہا ہے ، ہم امریکی حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ دہشت گردی میں ملوث تمام افراد کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ -پی ٹی آئی
امریکا
ڈیموکریٹک سینیٹر کا کہنا ہے کہ امریکہ کو طالبان کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔
امریکہ کو طالبان کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کرنا چاہیے ، حکمراں ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک اعلیٰ امریکی سینیٹر نے کہا ہے کہ بڑھتے ہوئے اشاروں کے درمیان جو بائیڈن انتظامیہ اب اس گروپ کو افغانستان کا ڈیفیکٹو حکمران سمجھتی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان اپوزیشن قوتوں کو پہچاننا “عظیم خیال” نہیں ہوگا جو ملک کو “اصل میں” نہیں چلا رہی ہیں۔
“نہیں ، میں نہیں کرتا۔ میں ایسا نہیں کرتا ، “سینیٹر کرس مرفی نے ایک انٹرویو میں سی این این کو بتایا جب پوچھا گیا کہ امریکہ کو باضابطہ طور پر طالبان کو تسلیم کرنا چاہیے۔ -پی ٹی آئی
شام۔
شام کا کہنا ہے کہ ’’ گرج چمک ‘‘ امریکہ کو صرف پہلی شکست ہوئی۔
شام کے وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی ’’ زبردست شکست ‘‘ شام اور دنیا کے دیگر حصوں میں امریکی فوجیوں کے لیے اسی طرح کی شکست کا باعث بنے گی۔
فیصل مقداد نے 29 اگست کو اپنے ایرانی ہم منصب سے ملاقات کے بعد اپنے تبصرے کیے جنہوں نے شام کا سرکاری دورہ شروع کیا۔ -پی ٹی آئی
افغانستان۔
ہم بھارت کے ساتھ افغانستان کی تجارت اور سیاسی تعلقات برقرار رکھنا چاہتے ہیں: طالبان رہنما
تنظیم کے سینئر رہنما شیر محمد عباس ستانکزئی نے اسے خطے کا ایک اہم ملک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان بھارت کے ساتھ افغانستان کے تجارتی ، معاشی اور سیاسی تعلقات برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
پشتو میں ایک ویڈیو خطاب میں ، ستانکزئی نے کہا کہ کابل میں حکومت بنانے کے لیے مختلف گروہوں اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت جاری ہے جس میں “مختلف شعبہ ہائے زندگی” کے لوگوں کی نمائندگی ہوگی۔ پی ٹی آئی
انڈیا
او پی جندال یونیورسٹی نے افغان طلباء کے لیے فیلوشپ کا اعلان کیا۔
او پی جندل گلوبل یونیورسٹی (جے جی یو) نے 29 اگست کو افغانستان کے طلباء کے لیے فیلوشپ کا اعلان کیا۔
یونیورسٹی نے ایک بیان میں کہا کہ یہ اقدام خطے کی پیچیدہ جغرافیائی سیاسی صورتحال اور افغان طلباء کے اپنے تعلیمی اہداف اور خواہشات کے حصول کے لیے قابل اعتماد تعلیمی متبادل کی ضرورت کے جواب میں ہے۔
اس میں کہا گیا کہ مجموعی طور پر 10 شہریوں کو ایڈوانسمنٹ آف افغان نیشنلز ان کمپری ہینسی ایجوکیشن (ایڈوانس) کے تحت دیا جائے گا۔ –پی ٹی آئی
. Source link
0 notes
Photo
از تصاویر تاریخی ورشو لهستان سال 1946 یک عکاس در حال گرفتن عکس و پنهان کردن ویرانه های جنگ جهانی دوم عکس از مایکل نش ~ https://www.instagram.com/p/CTGDVwnLjW0/?utm_medium=tumblr
0 notes
Text
Art Now: Chapter 1. Video art Part
آرٹ ناؤ
چیپٹر 1 وڈیو آرٹ : حصہ دوم آرٹ کی اصطلاح میں جسے ہم ویڈیو آرٹ کے طور پر جانتے ہیں کی ابتدا 1965میں ایک کورین آرٹسٹ نیم جون Nam June Paik کے کام سے ہوئی۔ نیم جون پیک پورٹیبل سونی کیمرہ سے ٹیپس tapes بنائیں اور اسے نیویارک کے گرین ولیج کے کیفے GoGo میں اسکرین کیا ۔ نیم جان پیک Fluxus Group کا ممبر تھا تو اس لیے اپنے کام کے ذریعے اس نے انہی مقاصد اور نظریات کا پرچار کیا جو فلکسز تحریک سے منسلک تھے ۔فلکسز ) Fluxes گروپ کے آرٹسٹ گوریلا تھیٹر ، street spectacles, کنسرٹس اور الیکٹرانک میوزک جیسی اصناف میں جدت کے ساتھ ان کا پرچار کر رہے تھے۔ یہ ایک شدت پسند تحریک تھی جو کہ وقت اور حالات کے بدلتے رخ، بدلاو، انقلابی فکر، مقابلاتی فضا اور مجموعی تبدیلی کی عکاس تھی۔ جون پیک Jaun Paik نے انواع و اقسام کے میڈیا کے ساتھ کام کیا اس میں میوزیکل ملٹی میڈیا سے لے کر highly dramatic مکس میڈیا کام شامل ہیں۔ پیک نے اپنے کیریئر کا آغاز بحثیت کمپوزر کے کیا اس امر میں وہ Avant-garde تحریک امریکی کمپوزر جون کیج John Cage کے نظریات سے بہت متاثر تھا۔کیج نے دنیائے موسیقی کے پرانے اصولوں کو رد کرتے ہوئے میوزک کہ ایک نئے دور کا آغاز کیا جس میں اس کا بنیادی ڈھانچہ اور ساؤنڈ ایفیکٹس جدت لئے ہوئے تھے۔ اس کے نظریات نے موسیقی کو ایک نئی دنیا سے روشناس کرایا۔ مختلف انواع و اقسام کی اشیاء مثلاً ٹن، جانوروں کی آوازیں یا اس سے ملتے جلتے شور کو یکجان کر کے کچھ تجرباتی دھنیں ترتیب دیں جنہوں نے اس کے ہم عصروں کو بھی نئے آئیڈیاز سے ہمکنار کیا اور وہ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ کیج Cage نے زور سے بجتے دروازوں، جنریٹرز، اور الیکٹرانک ڈسٹارشن یہاں تک کہ خاموشی کو بھی وہ خاموشی جو پیانو بجانے والا ایک پیانو کے سامنے بیٹھ کر دھن کے آغاز سے پہلے اختیار کرتا ہے اور اپنے منتظر سامعین کو بھی اس خاموشی سے گزارتا ہے کہ تجربات کو بھی اپنی میوزک کمپوزیشن میں استعمال کیا۔ کیج نے درحقیقت میوزک کو لگے بندھے فارمولا بیسڈ ساؤنڈ اور حدود سے نکال کر اسے آزاد کیا تاکہ میوزک کی تخلیق یا تشکیل کسی بھی میڈیم اور ان کے آپسی تکرار سے کی جا سکے۔ کیج کی تحریک میں اصولوں کے خلاف وہی شدت تھی جیسی آرٹ تحریک ڈاڈاازم Dadaism میں اگر یوں کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ Cage نے ڈاڈاازم کو میوزک کی دنیا میں ازسرنو زندہ کیا۔ ڈاڈاازم Dadaismکو یہ نام ہی اس لیے دیا گیا کہ اس کے لغوی معنی مضحکہ خیز کے تھے۔ یہ تحریک دراصل پہلی جنگ عظیم کے عوامل اور اثرات پر ایک ردعمل کے طور پر سامنے آئی تھی جس میں بظاہر ان عوامل کا تمسخر اڑایا گیا تھا جن کی بنا پر پر بے شمار انسانی جانوں کا نقصان ہوا۔ ڈاڈاسٹ آرٹسٹوں نے بہت شدت سے اپنے غم و غصے کا اظہار بظاہر اپنے ایسے کاموں سے کیا جو دیکھنے میں مضحکہ خیز معلوم ہوتے تھے۔ یہ تحریک دور جدید یا ماڈرن آرٹسٹوں کے لئے بہت بڑی وجہ شہرت بنی، انہوں نے بے شمار کام کیے اور اپنے نظریات کا پرچار اسی تحریک سے متاثر ہوتے ہوئے کیا۔ اس سلسلے میں سب سے مضبوط حوالہ ہمیں ویڈیو آرٹ میں ملتا ہے اس صنف سے تعلق رکھنے والے بہت سے آرٹسٹوں نے ویڈیو اور مختلف ایکویپمنٹ کے ساتھ اپنے نظریات کو منسلک کرکے اپنے تصورات و نظریات کا پوری شدت سے اظہار کیا۔ نیم جون پیک کا اور دیگر کچھ آرٹسٹوں کے نام اس امر میں قابل ذکر ہیں۔ ان آرٹسٹوں نے ٹیلی ویژن اور اس طرح کے دیگر برقی آلات کا بہت زیادہ استعمال کیا۔ نیم جان پیک کا سن 1988 کا کام ٹائٹل Fin de' Siecle II میں ہمیں 201 ٹیلی ویژن سیٹ استعمال ہوتے نظر آتے ہیں .
ان تمام اسکرینوں میں مختلف وقت میں ویڈیو ٹیپس اور پس پردہ میوزک بجتا ہوا سنائی اور دکھائی دیتا ہے ۔
جان پیک کیونکہ ایک میوزک کمپوزر تھا تو اس ویڈیو انسٹالیشن کے ذریعے الیکٹرانک میوزک اور ٹی وی اسکرین کی باہمی مشاورت سے ایک یونیفائیڈ کمپوزیشن مرتب کی۔ اس میں جون پیک اپنے دیکھنے اور سننے والوں کو ایک سراب illusion کی کیفیت سے گزارنا چاہتا ہے۔ پیک کا یہ کام جو کہ کہیں تنقیدی کہیں مزاحقہ خیز یا کوئی پیروڈی لگتا ہے اسے بہت پذیرائی ملی اس سے بہت پذیرائی ملی اور ایک ٹی وی کمرشل کے طور پر بھی اس کو ٹیلی ویژن پر دکھایا گیا ۔ ویڈیو سکرین کو صرف ایک واقعے کے رونما ئی کے طور پر بتانے اور ٹیلی ویژن کو ایسے آلے کے طور ج استعمال کیا گیا ہے جہاں وہ آرٹسٹ کی اسٹیٹمنٹ سے irony یا تنقیدی نظریے کی وضاحت کرتا نظر آتا ہے ۔ پیک کا کام زیادہ تر طنز و مزاح پر مشتمل ہے۔ کہیں موازنہ، کہیں انواع اقسام کے ساؤنڈز ان کی امپرووائز نیشن اور ان تمام کی یکجانئت ہمارے سامنے ایک چیلنجنگ کام رکھتی ہے ۔ آج بہت سے آرٹسٹ ٹیلی ویژن اور اس کی ویڈیو آرٹ میں ایک معاون آلے کے طور حیثیت سے بخوبی واقف ہیں۔ اور آج اپنے بہت سے نظریات کے پرچار کے لیے انہیں باہم استعمال کر سکتے ہیں۔ آج ان کے سامنے پہلے سے کہیں بہتر ٹولز دستیاب ہیں، کم وزن کے کیمرے، ایسے کمپیوٹرز جن میں گھر بیٹھے گرافکس اور اینیمیشن کی سہولیات موجود ہیں۔ آرٹسٹ ان تمام ٹولز کو own کرتے ہیں اور ویڈیو آرٹ میں استعمال کرتے ہیں۔ اب یہ ڈیبیٹ کے جہاں وڈیو آرٹ ختم ہوتی ہے دوسری ایڈوانس ٹیکنالوجیز کا افتتاح ہوتا ہے آج بھی سرگرم عمل ہے ۔ جہاں ہم آرٹسٹوں کو بے شمار کیٹگریز میں شامل کر سکتے ہیں، وہاں یہ بھی اہم ہے کہ اس تعریف کو لے کر ہم بہت سخت رویے کا مظاہرہ نہ کریں۔
0 notes
Photo
. ۳۶ سال پیش، دو روز مانده به بهار سال ۱۳۶۴ خورشیدی جمهوری عربی عراق، صد کیلومتری جنوب بصره پیکر بیجان سرباز ایرانی در میان گلها . . . «شاید حقیقت آن دو دستِ جوان بود، آن دو دستِ جوان که زیرِ بارشِ یکریزِ برف مدفون شد و سالِ دیگر، وقتی بهار با آسمانِ پشتِ پنجره همخوابه میشود و در تَنَش فوران میکنند؛ فوّارههای سبزِ ساقههای سبکبار شکوفه خواهد داد ای یار، ای یگانهترین یار...» . . . #ایمان_بیاوریم_به_آغاز_فصل_سرد #ایمان_بیاوریم_به_آغاز_فصل_سرد #فروغ_فرخزاد عکاس: #ژاک_پاولوفسکی . ۲۷ / #اسفند / ۹۹ . . . #فروغ_فرخ_زاد #فروغ #سرباز #جنگ #دفاع_مقدس #جنگ_تحمیلی #عراق #ج��هوری_عربی_عراق #رژیم_بعث #پانعربیسم #بعث #بصره #جنازه #جسد #پیکر #مرگ #شهادت #شهید #شهدا #بهار #بهاری #بهاران #گل #گلها (در بصره) https://www.instagram.com/p/CMhg3hAj4nL/?igshid=1jzpkil47uqdu
#ایمان_بیاوریم_به_آغاز_فصل_سرد#فروغ_فرخزاد#ژاک_پاولوفسکی#اسفند#فروغ_فرخ_زاد#فروغ#سرباز#جنگ#دفاع_مقدس#جنگ_تحمیلی#عراق#جمهوری_عربی_عراق#رژیم_بعث#پانعربیسم#بعث#بصره#جنازه#جسد#پیکر#مرگ#شهادت#شهید#شهدا#بهار#بهاری#بهاران#گل#گلها
0 notes