#صدمہ
Explore tagged Tumblr posts
Text
یہوواہ کے گواہ ہال میں فائرنگ کے بعد جرمنی میں غم اور صدمہ | خبریں
برلن – دکھ، یکجہتی اور صدمہ ان جذبات میں سے ہیں جن کا اظہار جرمنی میں کیا جا رہا ہے کیونکہ اس ملک میں بڑے پیمانے پر شوٹنگ جس میں سات افراد کی موت ہو گئی۔ یہوواہ کے گواہ ہیمبرگ میں عبادت گاہ۔ جمعرات کو مقامی وقت کے مطابق تقریباً 9 بجے عبادت گاہ میں ایک بندوق بردار کی جانب سے نیم خودکار پستول سے فائرنگ کرنے کے بعد کئی دیگر افراد کی حالت تشویشناک ہے۔ حکام نے مجرم کی شناخت فلپ ایف کے طور پر کی ہے، جو…
View On WordPress
0 notes
Text
اگر آپ ایک عرصے کے لیے ایسی جگہ رہتے ہیں جہاں آپ کو تکالیف کا سامنا کرنا پڑا تب بھی آپ کے اس جگہ سے جدا ہوتے وقت ، دل کو صدمہ پہنچتا ہے کیونکہ جگہ سے محبت ہو جانا فطری ہے ۔
Even if you live for a long time in a place where you have suffered, even when you leave the place, it is heartbreaking because it is natural to fall in love with the place.
Faisal Saleh Sheikh
24 notes
·
View notes
Text
عشق میں غیرتِ جذبات نے رونے نہ دیا
ورنہ کیا بات تھی کس بات نے رونے نہ دیا
آپ کہتے تھے کہ رونے سے نہ بدلیں گے نصیب
عمر بھر آپ کی اس بات نے رونے نہ دیا
رونے والوں سے کہو ان کا بھی رونا رو لیں
جن کو مجبوریِ حالات نے رونے نہ دیا
تجھ سے مل کر ہمیں رونا تھا بہت رونا تھا
تنگیِ وقت ملاقات نے رونے نہ دیا
ایک دو روز کا صدمہ ہو تو رو لیں فاکرٓ
ہم کو ہر روز کے صدمات نے رونے نہ دیا
سدرشن فاکرٓ
13 notes
·
View notes
Text
کوئی تردید کا صدمہ ہے نہ اثبات کا دُکھ
جب بچھڑنا ہی مقدر ہے تو کس بات کا دُکھ
اب کوئی اور تمنا ہے عذابِ دل و جاں
اب کسی حرف میں تُو ہے نہ تری ذات کا دُکھ 🥀
4 notes
·
View notes
Text
ابا کا چالیسواں 🤷🏻♂️
✍🏻نشتَر امروہویبوڑھے غریب باپ کے مرنے پہ دفعتاًبیٹے نے سوچا کیسے کروں کفن اور دفناپنے یہاں تو موت میں خرچے کا ہے چلنغم سے نڈھال بیٹے کے ماتھے پہ تھی شکنجو کچھ تھا پاس دفن و کفن میں اٹھا دیاخرچے نے پھر تو موت کا صدمہ بھلا دیاکرنا پڑا جو دفن کا تا صبح انتظارمیت کے پاس چلتی رہی چائے بار باراور موت میں جو آئے تھے بیرونی رشتہ دارچائے سے اُن کی توڑا گیا نیند کا خماراور اس کے بعد چلتا جو پھر پان دان…
0 notes
Text
ڈیپریشن کیوں ہوتاہے؟ماہرین نے بڑی وجہ بتادی
ماہرین صحت کاکہنا ہے کہ ڈیپریشن موروثی بھی ہو سکتا ہے اور بڑی وجہ صدمہ بھی ہے ۔ ماہرین کے مطابق ڈیپریشن (افسردگی) ایک پیچیدہ حالت ہے جس کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں۔ اگر کسی کے خاندان میں ڈیپریشن کی تاریخ موجود ہو، تو اس کے ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔دماغ میں موجود کیمیائی مادے جیسے کہ سیروٹونن اور ڈوپامین کی مقدار میں عدم توازن بھی ڈیپریشن کا باعث بن سکتا ہے۔بچپن میں صدمہ یا شدید حادثات کی…
0 notes
Text
عمران خان کے پاس اب کیا آپشنز ہیں؟
الیکشن ہو گیا۔ اگلے چند دنوں میں تمام وفاقی اور صوبائی حکومتیں فنکشنل ہو جائیں گی۔ پنجاب اور سندھ میں تو ابھی سے ہوچکیں۔ اصل سوال اب یہی ہے کہ عمران خان کو کیا کرنا چاہیے، ان کے پاس کیا آپشنز موجود ہیں؟ ایک آپشن تو یہ تھی کہ الیکشن جیتنے کے بعد پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم وغیرہ کے ساتھ مل کر وفاقی حکومت بنا لی جاتی۔ ابتدا میں اس کے اشارے بھی ملے، تحریک انصاف کے بعض لوگ خاص کر بیرسٹر گوہر وغیرہ اس کے حامی تھے۔ عمران خان نے البتہ عدالت میں اپنے کیس کی سماعت پرصحافیوں سے صاف کہہ دیا کہ وہ ن لیگ، پی پی پی اور ایم کیو ایم سے کسی بھی صورت میں بات نہیں کریں گے۔ یوں فوری طور پر حکومت میں آنے کی آپشن ختم ہو گئی۔ اگلے روز ایک سینیئر تجزیہ کار سے اس موضو�� پر بات ہو رہی تھی۔ وہ کہنے لگے کہ عمران خان کو ایسا کر لینا چاہیے تھا کیونکہ جب ان کی پارٹی اقتدار میں آتی تو خان کے لیے رہائی کی صورت نکل آتی، دیگر رہنما اور کارکن بھی رہا ہو جاتے، اسمبلی میں بعض قوانین بھی تبدیل کیے جا سکتے تھے وغیرہ وغیرہ۔
یہ تمام نکات اپنی جگہ وزن رکھتے ہیں مگر میری اطلاعات کے مطابق عمران خان کے دو دلائل تھے، ا��ک تو یہ کہ ان کا مینڈیٹ چھینا گیا ہے اور چھین کر جن پارٹیوں کو دیا گیا، وہ بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہیں۔ اس لیے ن لیگ، پی پی پی اور ایم کیوا یم کے ساتھ مل کر کیسے حکومت بنائیں؟ دوسرا یہ کہ یہ سب کچھ عارضی اور محدود مدت کے لیے ہے۔ جلد نئے الیکشن کی طرف معاملہ جائے گا اور تب تحریک انصاف کا اپنا بیانیہ جو دونوں جماعتون ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے خلاف ہے، اس پر ہی تحریک انصاف الیکشن جیت سکتی ہے۔ اگر ایک بار مل کر حکومت بنا لی تو پھر بیانیہ تو ختم ہو گیا۔ خیر یہ آپشن تو اب ختم ہو چکی۔ اب عمران خان کے پاس دو ہی آپشنز ہیں۔ پہلا آپشن کچھ انقلابی نوعیت کا ہے کہ ’ڈٹے رہیں انہیں پاکستان میں اداروں کے کردار کے حوالے سے سٹینڈ لینا چاہیے، اسٹبلشمنٹ کا ملکی معاملات میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔‘ دوسرا آپشن اصولی ہونے کے ساتھ کسی حد تک پریکٹیکل بھی ہے۔ اس کے مطابق عمران خان ن لیگ، پی پی پی، ایم کیوایم، ق لیگ وغیرہ کے حوالے سے اپنی تنقیدی اور مخالفانہ پالیسی پر قائم رہیں۔ دھاندلی پر احتجاج کرتے رہیں۔
جو پارٹیاں دھاندلی پر احتجاج کر رہی ہیں، ان کی طرف ہاتھ بڑھائیں، ان کے ساتھ ایک وسیع اتحاد بنائیں، حکومت پر دباؤ بڑھاتے رہیں اور اپنے وقت کا انتظار کریں۔ یہ آپشن زیادہ منطقی اور سیاسی اعتبار سے معقول ہے اور غالباً عمران خان اسی راستے پر گامزن ہیں۔ اس حوالے سے البتہ انہیں دو تین باتوں کا خیال رکھنا ہو گا۔ سب سے پہلے انہیں ان سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کی طرف ہاتھ بڑھانا ہو گا جو احتجاج کر رہی ہیں، بے شک ماضی میں انہوں نے تحریک انصاف کو دھوکہ ہی کیوں نہ دیا ہو۔ ایک نیا سیاسی آغآز کرنے کا وقت آ چکا ہے۔ جماعت اسلامی اور جی ڈی اے کے ساتھ تحریک انصاف پہلے ہی کراچی میں مل کر احتجاج کر رہی ہے۔ جماعت کے ساتھ ک��اچی میں بھی تعاون کرنا چاہیے۔ جماعت کا کہنا ہے کہ باجوڑ میں اس کی دو نشستیں چھن گئی ہیں، دونوں تحریک انصاف کو دی گئیں، اگر تحریک انصاف تدبر سے کام لے تو باجوڑ میں کیا گیا ایثار ان کے لیے مستقبل میں تعاون کے راستے کھول سکتا ہے۔ باجوڑ میں قومی اسمبلی کی سیٹ اور صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ پر الیکشن ہونا باقی ہے، ان سیٹس پر بھی کچھ ہو سکتا ہے۔
اختر مینگل نے تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد ختم کر کے تحریک عدم اعتماد میں پی ڈی ایم کا ساتھ دیا تھا۔ عمران خان کو اس کا صدمہ ہو گا، مگر اب انہیں اختر مینگل اور دیگر بلوچ و پشتون قوم پرست جماعتوں کو ساتھ ملانا ہو گا۔ بلوچستان میں محمود اچکزئی کی پشونخوا میپ، بی این پی مینگل، ڈاکٹر مالک بلوچ کی نیشنل پارٹی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی مشترکہ احتجاج کر رہی ہیں۔ تحریک انصاف کو اس اتحاد کا حصہ بننا چاہیے۔ جے یوآئی کے مولانا فضل الرحمن بھی احتجاجی موڈ میں ہیں، ان کے ساتھ پی ٹی آئی کا ایک رابطہ ہو چکا ہے، احتیاط کے ساتھ تحریک انصاف کو اس جانب مزید بڑھنا ہو گا۔ مولانا کا احتجاج جن نکات پر ہے، وہ اصولی اور تحریک انصاف کی سوچ سے ہم آہنگ ہیں۔ مولانا کہتے ہیں کہ کس نے اسمبلی میں اور کس نے حکومت کرنی ہے، یہ فیصلہ صرف عوام کو کرنا چاہیے۔ اس نکتہ پر تحریک انصاف اور جے یو آئی میں اتفاق ہو سکتا ہے۔ البتہ عمران خان کو علی امین گنڈا پور جیسے ہارڈ لائنرز کو مولانا کے خلاف بیان بازی سے روکنا ہو گا۔ دوسرا اہم کام عمران خان کو ریاستی اداروں کے ساتھ کشمکش اور کشیدگی میں کمی لانے کا کرنا پڑے گا۔
بیرسٹر گوہر اور عمرایوب دونوں معتدل اور عملیت پسند سیاستدان ہیں، ان کے ذریعے کوئی بریک تھرو ہو سکتا ہے۔ اس وقت خان صاحب کو اقتدار نہیں مل سکتا، البتہ ان کے لئے قانونی جنگ میں کچھ سہولتیں مل سکتی ہیں۔ وہ ضمانت پر باہر آ سکتے ہیں۔ ایسا ہونا بھی بڑی کامیابی ہو گی کیونکہ ان کی پارٹی کے لوگوں کی خان تک آزادانہ رسائی نہ ہونے سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور پارٹی میں مختلف گروپ بن چکے ہیں۔ عمران خان باہر ہوں گے تو یہ سب گروپنگ ختم ہو جائے گی۔ خان صاحب کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اسی سسٹم میں انہیں رہنا، اسی میں جگہ بنانی ہے۔ انہیں جذباتی غلطیوں سے گریز کرنا ہو گا۔ آئی ایم ایف کو خط لکھنا ایک غلطی ہی تصور ہو گی، اس کا کوئی جواز اور دفاع ممکن نہیں۔ اسی طرح امریکی اراکین کانگریس کو خط لکھنا یا انہیں آواز اٹھانے کا کہنا ایک سیاسی حکمت عملی ہو سکتی ہے، مگر آئی ایم ایف یا کسی دوسرے عالمی ادارے کو خط لکھ کر ریاست پاکستان کو دی جانے والی کوئی مالی مدد رکوانا یا پابندی کی کوشش نہایت غلط اور بے کار کاوش ہے۔
اس سے کیا حاصل ہو گا؟ الٹا عمران خان کے لیے مقتدر حلقوں میں جو تھوڑی بہت حمایت ہے یا جو چند ایک حمایتی ہیں، وہ اس سے کمزور ہوں گے۔ عمران خان کو چاہیے کہ اپنے مشاورت کے عمل پر نظرثانی کریں، انہیں ایسا کرنے سے قبل امور خارجہ اور معاشی امور کے ماہرین سے ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ مشاورت کرنی چاہیے۔ ابھی کچھ بگڑا نہیں۔ ابھی بہت کچھ ہونا ہے۔ عمران خان کو فوکس ہو کر اپنے اہداف پر نظر رکھنی چاہیے۔ قدم بہ قدم آگے بڑھیں، تب ہی چیزیں بہتر ہوں گی۔ اگر کوئی قدم غلط پڑ گیا تو دو قدم پیچھے جانے میں کوئی حرج نہیں۔ پیچھے ہٹ کر پھر سے آگے بڑھیں، دیکھ بھال کر، سوچ سمجھ کرآگے چلیں۔
عامر خاکوانی
بشکریہ اردو نیوز
#Imran Khan#Pakistan#Pakistan Election 2024#Pakistan Politics#Pakistan Tehreek-e-Insaf#Politics#PTI#World
0 notes
Text
عشق میں غیرتِ جذبات نے رونے نہ دیا
ورنہ کیا بات تھی کس بات نے رونے نہ دیا
آپ کہتے تھے کہ رونے سے نہ بدلیں گے نصیب
عمر بھر آپ کی اسِ بات نے رونے نہ دیا
رونے والوں سے کہو اُن کا بھی رونا رو لیں
جن کو مجبورئ حالات نے رونے نہ دیا
تجھ سے مل کر ہمیں رونا تھا، بہت رونا تھا
تنگیٔ وقتِ ملاقات نے رونے نہ دیا
ایک دو روز کا صدمہ ہو تو رو لیں فاکرؔ
ہم کو ہر روز کے صدمات نے رونے نہ دیا
#سدرشن فاکر
1 note
·
View note
Text
موبائل اسکرین جب آنکھیں تھکا دے
رضوان کو موبائل فون کے سامنے بیٹھنے کی ایسی لت پڑی کہ کھانے پینے سے بھی بے پروا ہو گیا۔ گھر والے چیختے چلاتے رہتے کہ کچھ تو کھا لو مگر وہ انٹرنیٹ میں مگن رہتا یا گیمز سے چپکا رہتا۔ ہر چیز کی زیادتی جلد یا بدیر رنگ ضرور لاتی ہے لہٰذا رضوان کے سر اور آنکھوں میں مسلسل درد رہنے لگا۔ عموماً چکر بھی آجاتے۔ اسے ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا تواس نے ابتدائی طبی معائنے کے بعد یہ بتا کر سب کو حیران کر دیا کہ یہ بیماری موبائل سکرین کی پیداکردہ ہے‘ سر درد کی وجہ آنکھوں پر پڑنے والا وہ ناگواردباؤ ہے جو سکرین پہ مسلسل نظریں جمائے رکھنے سے جنم لیتا ہے۔ آج کل کروڑوں لوگ موبائل فون ،کمپیوٹر ، لیپ ٹاپ وغیرہ استعمال کرتے ہیں لہٰذا اس سے وابستہ امراض چشم بڑھ رہے ہیں۔ ماہرین نے انہیں ’’کمپیوٹر بصری خلل‘‘ (Computer Vision Syndrome) کا مجموعی نام دیا ہے۔
ماہرین امراض چشم کے پاس اب ایسے سیکڑوں مریض آتے ہیں جو آشوب چشم یا کندھے کے اعصاب کی اکڑن کا شکار ہوتے ہیں۔ کمپیوٹر سے وابستہ امراض چشم کا آغاز 1980 ء کے عشرے میں ہوا۔ جدید ٹیکنالوجی میں تبدیلی کے سبب ان میں بھی معمولی سی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اب ہرسال دنیا میں پچاس سے نوے لاکھ انسان موبائل یا کمپیوٹر کے باعث خراب ہونے والی آنکھیں لیے ماہرین امراض چشم کے پاس آتے ہیں۔ چالیس سال قبل یہ تعداد صرف پندرہ لاکھ تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جو لوگ باقاعدگی سے دن میں چار گھنٹے سے زیادہ سکرین کے سامنے بیٹھیں اور احتیاطی تدابیر اختیار نہ کریں، وہ آنکھوں کی کسی نہ کسی خرابی میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ عینکیں بنانے والے مشہور ادارے بوش اینڈ لومب کے ماہرین کا تو دعوی ہے کہ موبائل وکمپیوٹر سکرینوں کے باعث ہر سال ساٹھ لاکھ لوگ اپنی آنکھیں خراب کر بیٹھتے ہیں۔
ایک عام بیماری ماہرین کے مطابق ’’ڈیجٹل تناؤ چشم‘‘ (Digital eye strain) یعنی آنکھوں پر پڑنے والا دباؤ سب سے عام شکایت ہے۔ پھر نظر کا دھندلا جانا‘ آنکھوں کی خشکی اور سر درد کا نمبر آتا ہے۔ جب ��ر درد مسلسل رہے تو لوگ عموماً ڈاکٹر سے رابطہ کرتے ہیں۔ ’کمپیوٹر بصری خلل‘ کے علاج فی الحال تلاش کیے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس مرض کو جنم دینے والی کیا چیز مجرم ہے؟ اس کا انحصار مختلف باتوں پر ہے۔ مثلاً کئی لوگ درست طریقے سے اسکرین کے سامنے نہیں بیٹھتے‘ چند لوگوں کی نشستیں آرام دہ نہیں ہوتیں اور کچھ کے مانیٹر پرانے ہیں جن سے پھوٹنے والی شعاعیں زیادہ مضر ہیں۔ مرض دراصل مجموعی طور پر بیٹھنے کے ماحول‘ کام کی عادات اور دیکھنے کی حالت سے جنم لیتا ہے۔
تکراری دباؤ صدمہ کمپیوٹر بصری خلل بنیادی طور پر ’’تکراری دباؤ صدمہ‘‘ (repetitive stress injury) ہے۔ اس حالت میں آنکھوں کے عضلات دباؤ میں آجاتے ہیں کیونکہ اسکرین پر ابھرنے والے اعداد‘ تصاویر وغیرہ پر انہیں بار بار مرتکز کیا جاتا ہے۔ موبائل یا کمپیوٹر اسکرین کے پکسل (Pixels) دراصل وہ تقابل (Contrast) نہیں رکھتے جو طبع شدہ صفحہ رکھتا ہے۔ اسی لیے اسکرین پر کسی چیز کو دیکھنے کے لیے آنکھوں کو زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ عجیب بات یہ کہ آنکھوں پر سب سے زیادہ دباؤ اس وقت پڑتا ہے جب کوئی اپنے کام میں محو ہو۔ کیونکہ انسان جب کسی چیز مثلاً کمپیوٹر اسکرین پر نظر جمائے رکھے تو وہ آنکھیں کم جھپکتا ہے۔ انسان روزمرہ کام کی حالت میں فی منٹ بائیس بار آنکھ جھپکتا ہے۔ اگر کتاب پڑھے تو یہ تعداد آدھی رہ جاتی ہے۔ موبائل یا کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے تو عام فرد ایک منٹ میں صرف سات بار جھپکتا ہے۔ نتیجتاً آنکھیں خشک ہو کر درد کرنے لگتی ہیں کیونکہ جھپکنے سے آنکھوں میں موجود پانی پھیلتا اور انہیں نم رکھ کر تازہ دم رکھتا ہے۔
ماہرین امراض چشم آنکھوں کی بیماری و سردرد سے بچنے کے لیے مشورہ دیتے ہیں کہ موبائل وکمپیوٹر سکرین کے سامنے بیٹھ کر تین نکاتی منصوبے پر عمل کیجیے …آنکھیں جھپکائیے‘ گہرے سانس لیجیے اور وقفہ کیجیے۔ کام کے دوران سانس لینا بہت ضروری ہے تاکہ آنکھوں کو آکسیجن ملتی رہے۔ بار بار جھپکیئے اور کام کا وقفہ کیجیے۔ اس ضمن میں ’بیس بٹا بیس‘ کا اصول فائدے مند ہے یعنی ہر بیس منٹ بعد وقفہ کیجیے اور بیس فٹ دور کسی چیز کو بیس سیکنڈ تک دیکھیے۔ یوں آنکھوں کو آرام ملتا ہے اور وہ کسی خرابی کا نشانہ نہیں بنتیں۔ یاد رکھیے‘ اگر کسی کی آنکھیں خراب ہیں تو موبائل و کمپیوٹر سکرین استعمال کرنے سے وہ زیادہ خراب ہو سکتی ہیں۔ خاص طور پر جو نزدیک کی چیزیں صاف نہیں دیکھ سکتے‘ وہ زیادہ مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔
انسان میں یہ خلل بڑھتی عمر کے ساتھ جنم لیتا ہے۔ کم روشنی اور مانیٹر کی درست پوزیشن نہ ہونے سے بھی آنکھوں پر دباؤ پڑتا ہے۔ اس ضمن میں یہ عام مشاہدہ ہے کہ اسکرین دیکھنے کی سطح سے اونچی یا نیچی ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسکرین کی درمیانی سطح آنکھوں سے چار پانچ انچ نیچے ہونی چاہیے۔ جب آنکھیں کسی چیز کو تھوڑا نیچے دیکھیں تو نہ صرف بہترین حالت میں کام کرتی ہیں بلکہ ان پر کم سے کم دباؤ پڑتا ہے۔ اگر سکرین اس طرح رکھی جائے کہ دیکھنے کے لیے گردن اٹھانی پڑے تو کندھوں اور گردن کے اعصاب پر بوجھ پڑتا ہے‘ نتیجتاً آنکھوں پر پڑنے والے دباؤ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
مانیٹر اچھا خریدیئے امراض چشم سے بچاؤ کے لیے اب مارکیٹ میں خاص قسم کے چشمے آگئے ہیں مگر ضروری ہے کہ مستند ڈاکٹر سے مشورے کے بعد ہی عینک استعمال کیجیے۔ ماہرین کے مطابق چشمے خریدنے کے بجائے بہتر ہے کہ اچھی قسم کا مانیٹر خرید لیں جس کی شرح تھرتھراہٹ (Flicker rate) کم ہو کیونکہ اسکرین کی زیادہ تھر تھراہٹ آنکھوں کو تھکا دیتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مانیٹر کو آنکھوں سے کم از کم بیس تیس انچ دور رکھیے۔ اسی طرح موبائل کی سکرین بھی اپنے چہرے سے کم از کم سولہ انچ دور رکھیے۔ وجہ یہ ہے کہ جب سکرین چہرے کے نزدیک ہو تو ہماری آنکھوں کو توجہ مرکوز کرنے کی خاطر زیادہ جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔
طبی معائنہ کروائیے کئی لوگ یہ حقیقت نہیں جانتے کہ آنکھوں کی بہت سی خرابیوں کا تعلق موبائل یا کمپیوٹر سے بھی ہے۔ اگر اسکرین کو دیکھتے ہوئے آپ کو سر درد محسوس ہو یا آنکھوں میں تکلیف رہے تو بہتر ہے کہ اپنے کام کا ماحول بدلیے اور فوراً کسی ماہر ڈاکٹر سے آنکھوں کا معائنہ کروائیے۔ آنکھ نہایت حساس عضوہے اورانسان اپنے اسّی فیصد کام اسی کے ذریعے کرتا ہے۔ لہٰذا باقاعدگی سے ان کی دیکھ بھال کیجیے‘ یہ بہت بڑی نعمت ہیں۔
مانیٹر کون سا بہتر ؟ جو لوگ کمپیوٹر اسکرین پر دیکھتے ہوئے آنکھوں میں درد محسوس کریں‘ وہ اچھی قسم کا مانیٹر خرید لیں۔ بڑی سکرین والے مانیٹروں کی ایجاد کے بعد درمیانی عمر کے اور بوڑھے لوگوں کو کافی آسانی ہو گئی ہے۔ بہترین قسم کا مانیٹر وہ ہے جس کی شرح تھرتھراہٹ (یا ریفریش ریٹ ) فی سیکنڈ ساٹھ سائیکل (یعنی ساٹھ ہرٹز) ہو۔ مطلب یہ کہ ہر سیکنڈمیں اسکرین ساٹھ بار تھرتھرا کر اپنے آپ کو تازہ رکھے۔ گو وہ مانیٹر سب سے بہتر ہے جس کی شرح تھرتھراہٹ ستر سے پچاسی ہرٹز ہو۔
مفید مشورے بینائی کی اچھی صحت کے سلسلے میں چند مشورے حاضر ہیں خصوصاً ان کے لیے جو امراض چشم میں مبتلا ہونے کے باوجود مہنگا مانیٹر یاچشمہ نہیں خرید سکتے۔ اس سلسلے میں پہلا مشورہ یہ ہے کہ کام کے دوران کم از کم بیس منٹ بعد وقفہ کریں تاکہ آنکھوں پر کم دباؤ پڑے۔ دیگر یہ ہیں: ٭…سکرین پہ دو گھنٹے نظرین جمائے رکھنے کے بعد پندرہ منٹ کا وقفہ ضرور کیجیے۔ ٭… آنکھیں نم رکھنے کے لیے بار بار جھپکیے۔ ٭… اگر آنکھوں میں تکلیف ہو اور وہ خشک ہو جائیں‘ تو ان میں پانی ڈال لیجیے۔ ٭…کوشش کیجیے کہ اسکرین پر بلب‘ ٹیوب یا کھڑکی کی روشنی کا عکس نہ پڑے۔ بلبوں کو دوسری طرف لگائیے اور کھڑکی پر پردہ ڈالیے۔ تاہم موبائل یا کمپیوٹر استعمال کرتے ہوئے کمرے میں روشنی ہونی چاہیے۔ اندھیرے میں سکرین دیکھنے سے آنکھوں پہ دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ ٭… مانیٹر کو اس اندازمیں رکھیے کہ اس کا درمیانی حصہ آنکھوں کی سطح سے چار پانچ انچ نیچے اور بیس سے تیس انچ دور ہو۔ ٭…اسکرین پر پس منظر سفید اور کردار (عدد‘آئکون وغیرہ) سیاہ رکھیے۔ پس منظر (بیک گراؤنڈ) سیاہ اور گہرا نہ رکھیے۔ ٭…زیادہ سے زیادہ ریزولیشن حاصل کرنے کے لیے تقابل (کونٹراسٹ) کو ہم آہنگ رکھیے۔ ٭… متن (ٹیکسٹ) کو بڑا رکھیے تاکہ ضرورت پڑ��‘ تو آپ دور سے بھی اسے پڑھ سکیں۔
سید عاصم محمود
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
مسلمان کہلانے والوں نے ظلم اور وحشت کا مظاہرہ کیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
سپریم کورٹ کے جج، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جڑانوالہ میں مسیحی برادری پر حملے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ بطور مسلمان، پاکستانی اور انسان انھیں ان واقعات سے ’دلی صدمہ پہنچا اور شدید دکھ ہوا۔‘ ہفتہ کو جڑانوالہ میں متاثرین سے ملاقاتوں کے بعد انھوں نے صحافیوں کے ساتھ اپنا تحریری بیان شیئر کیا۔ بیان میں کہا گیا کہ ’عیسیٰ نگر میں گمراہوں کے ایک بے ہنگم ہجوم نے متعدد گرجا گھر اور مسیحی آبادی کے مکانات…
View On WordPress
0 notes
Text
نظم: سسی
پنل اب لوٹنا کیسا ؟
محبت خانوادے کے حرم میں گڑ گئی اب تو
میرے ہر خواب پہ مٹی کی چادر چڑھ گئی اب تو
میرے عشوے، میرے غمزے، ادائیں مر گئی اب تو
دعائیں مر گئی اب تو، وفائیں مر گئی اب تو
پنل صحرا گواہی ہے
یہ سانسوں کی طنابوں پہ تنا خیمہ گواہی ہے
ہتھیلی کی دراڑوں میں چھپے آنسو گواہی ہیں
کھنکتی ریت پہ الجھے اٹے گیسو گواہی ہیں
کہ میں نے انتہا سے انتہا تک تم کو مانگا ہے
شہر بھمبھور کے خستہ محلوں کے فقیروں سے
سڑک پر بچھ گئے ہر دم دعا کرتے غریبوں سے
یتیموں سے، ضعیفوں سے، دلوں کے بادشاہوں سے
نیازوں میں، دعاؤں میں، صداؤں میں پکارا ہے
اماوس رات میں اٹھ کر خلاؤں میں پکارا ہے
پنل تم کیوں نہیں آئے ؟
پرانی خانقاہوں میں ، شہر کے آستانوں پر
مزاروں، مسجدوں میں، مندروں میں دیکھ لو جا کر
کہیں تعویز لٹکے ہیں کہیں دھاگے بندھے ہونگے
کہیں دیوار پر کچھ خون کے چھینٹے پڑے ہونگے
پنل منظر دہائی ہے یہ سب اسکی گواہی ہے
کہ میں نے بے نشانی تک نشاں سے تم کو مانگا ہے
تمہارے کیچ کے رستے پہ میں ہر شام رکتی تھی
ہر اک راہرو کے پیروں کو پکڑ کر التجا کرتی
کہ میرا خان لوٹا دو، میرا ایمان لوٹا دو
کوئی ہنستا کوئی روتا کوئی سکہ بڑھا دیتا
کوئی تمہارے رستے کی مس��فت کا پتہ دیتا
وہ سارے لوگ جھوٹے تھے سبھی پیمان کچے تھے
پنل تم ایک سچے تھے
پنل تم کیوں نہیں آئے ؟
پنل بھمبھور کی گلیاں ، وہ کچی اینٹ کی نلیاں
جنہوں نے خادماؤں کا کبھی چہرہ نہیں دیکھا
انھوں نے ایک شہزادی کا نوحہ سن لیا آخر
دھڑک جاتی ہیں وہ ایسے، اماوس رات میں جیسے
کسی خوابوں میں لپٹی ماں کا بچہ جاگ جاتا ہے
وہ سرگوشی میں کہتی ہیں
کہ دیکھو بھوک سے اونچا بھی کوئی روگ ہے دل کا
سنا کرتے تھے کہ یہ کام ہے بس پیر کامل کا
کہ وہ الفت کو مٹی سے بڑا اعجاز کر ڈالے
یہ کس گندی نے افشاں زندگی کے راز کر ڈالے
پنل میں گندی مندی ہوگئی میں یار کی بندی
سو میری ذات سے پاکیزگی کا کھوجنا کیسا ؟
پنل اب لوٹنا کیسا ؟
خدا کے واسطے مت دو
خدا کے پاس بیٹھی ہوں
رہین خانہ کرب و بلا کے پاس بیٹھی ہوں
فلک کے کائنہ خانہ جہاں سے روشنی جیسے دعائیں لوٹ آتی ہیں
زمیں سنگلاخ ویرانہ جہاں پر جانے والے لوٹ کر آتے نہیں لیکن
صدائیں لوٹ آتی ہیں
پنل آواز مت دینا
میں اب آواز کی دنیا سے آگے کی کہاںی ہوں
میں ان شہروں کی رانی ہوں
جہاں میں سوچ کے بستر پہ زلفیں کھول سکتی ہوں
جہاں میں بے کناں رازوں کی گرہیں کھول سکتی ہوں
جہاں پر وقت ساکت ہے نگاہ یار کی صورت
جہاں پر عاشقوں کے جسم سے انوار کی صورت
محبت پھوٹ کر اک بے کراں ہالے میں رقصاں ہیں
مگر آواز مت دینا
کہ ہر آواز صدمہ ہے
پنل آواز مت دینا
پنل تم آدمی نکلے
کسی حوا کی سونی کوکھ سے دوجا جنم لے کر بھی
تم اک آدمی نکلے
میں آدم جام زادی تھی میں شہر آرزو کی حسرت ناکام زادی تھی
مگر پھر بھی پنل تم سے، تمہارے دیدہ گم سے
میری چاہت نے جس انداز سے نظر کرم مانگا
بتاؤ اس طرح اتنی ریاضت کون کرتا ہے ؟
بتاؤ خاک سے اتنی محبت کون کرتا ہے ؟
تمہارے ہر طرف میں تھی ، میری آواز رقصاں تھی
میری یہ ذات رقصاں تھی
کہ جیسے پھر طواف زندگی کو زندگی نکلے
کہ جیسے گھوم کر ہر چاک سے کوزہ گری نکلے
مگر تم آدمی نکلے
پنل تم آدمی نکلے
پنل واپس چلے جاؤ
کہاں اس لامکاں نگری میں ماتم کرنے آئے ہو
پنل یہ ریت کے ذرے یہ خواہش کے فرشتے ہیں
جو ان دیکھے پروں کے زعم میں ٹیلوں سینوں سے
اڑانیں چاہتے ہیں پار نیلے آسمانوں کی
انھیں کیا علم کہ وہ پار تیرے کیچ کے جیسا
یہ اونٹوں کی قطاریں میرے اشکوں کی قطاریں ہیں
جو میرے گال کے صحرا کے ٹیلے سے گزرتی ہیں
تو میرے دہن کے سوکھے کنویں تک رینگ جاتی ہیں
انھیں کیا علم کہ سوکھا کنواں بھمبھور کے جیسا
پنل یہ ریت کے ٹیلے
یہ احرام حقیقت ہیں نہ جانے کتنے احراموں تلے قبر محبت ہے
کہاں اس لامکاں نگری میں ماتم کرنے آئے ہو
تمہارے اشک اور نوحے یہاں کچھ کر نہیں سکتے
انھیں کہنا جو کہتے تھے فسانے مر نہیں سکتے
انھیں کہنا کہ وہ سسی جو آدم جام زادی تھی
جسے دل نے صدا تھی جو اشکوں کی منادی تھی
وہ سسی ہجر کی رسی پہ لٹکی مر گئی کب سے
طلاقیں لے کے پردیسی سہاگن گھر گئی کب سے
یہاں کوئی نہیں رہتا سوائے ریگ بسمل کے
پنل واپس چلے جاؤ
یہاں اندھی ہوائیں ٹھوکریں کھاتی ہیں ٹیلوں سے
پتہ دیتی ہیں جانے کون سے بے نام قاتل کا
یہاں کوئی نہیں رہتا
سوائے ریگ بسمل کے۔......!!!!!!!!
شاعر: عمران فیروز
1 note
·
View note
Text
People always say :
"كل شيء في حياتك يحدث لسبب ما وكل شخص تقابله سيعلمك درسًا. لكن السبب تحول إلى صدمة ، ولم يكن درسًا.
"آپ کی زندگی میں ہر چیز کسی وجہ سے ہوتی ہے اور ہر وہ شخص جس سے آپ ملتے ہیں وہ آپ کو سبق سکھائے گا۔ لیکن وجہ ایک صدمہ بن گئی، اور یہ ایک سبق نہیں تھا.
“Everything in your life happens for a reason and every person you meet will teach you a lesson.But the reason became a trauma, and it wasn't a lesson.
It's a scar.”
30 notes
·
View notes
Text
کوئی تردید کا صدمہ ہے، نا اثبات کا دکھ
جب بچھڑنا ہی مقدر ہے تو، کس بات کا دکھ
میز پر چائے کے دو بھاپ اڑاتے ہوئے کپ
اور بس سامنے رکھا ہے ملاقات کا دکھ
0 notes
Text
مٹی کی گڑیا نہ سمجھے کوئی!
سماج کو ’نسوانی شخصیت‘ کے نئے زاویوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ فوٹو : فائل خواتین کو دنیا کے ہر معاشرے میں ویسے تو ’صنف نازک‘ یا حضرات کے مقابلے میں کمزور صنف تصور کیا جاتا ہے۔ کبھی ان کو کائنات میں رنگ بھرنے والی تخلیق بتایا جاتا ہے، تو کبھی ان کو صرف نازک اور خوب صورت چیزوں سے تشبیہ دی جاتی ہے، لیکن عام مشاہدہ یہ ہے کہ جذباتی صدمہ ہو، شدید ذہنی دباؤ اورانتشار کا شکار، ذہنی اذیت ہویا پھر گہری…
View On WordPress
0 notes
Text
تیونشا کا جسم پنچاتوا میں ضم ہوگیا۔
تیونشا کا جسم پنچاتوا میں ضم ہوگیا۔
تیونشا شرما کی آخری رسومات: تیونشا شرما نے محض 20 سال کی کم عمری میں موت کو گلے لگا کر گھر والوں اور پیروکاروں کو کسی بھی طرح سے صدمہ نہیں دیا۔ ہفتے کے روز خود کشی کرنے والی تیونشا کی آخری رسومات 27 دسمبر کو ادا کی گئی ہیں۔ پوسٹ مارٹم کی وجہ سے آخری رسومات میں تاخیر ہوئی۔ اسی وقت تیونشا کا جسم 5 حصوں میں ضم ہو گیا ہے۔ شمشان گھاٹ سے وائرل ہونے والا ویڈیو پیروکاروں کے ساتھ ساتھ خاندان کے مخالف…
View On WordPress
0 notes
Text
ہم تنزلی کا شکار کیوں ہیں؟
ہم تنزلی کا شکار کیوں ہیں؟
ملکی اور غیر ملکی قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔ (فوٹو: فائل) نیوزی لینڈ کی وزیراعظم پارلیمنٹ میں دھواں دھار خطاب کررہی تھیں کہ اچانک جوش خطابت میں انہوں نے اپنے مخالف ڈیوڈ سمر کے بارے میں ایک نامناسب لفظ کہہ دیا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ وہ لفظ پارلیمانی کارروائی سے حذف بھی نہ ہوسکا۔ اس لفظ پر ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے انہوں نے معذرت بھی کی، لیکن ڈیوڈ سمر کو چونکہ بے حد صدمہ پہنچا تھا،…
View On WordPress
0 notes