Tumgik
#سینیٹ الیکشن
urduchronicle · 9 months
Text
پی ٹی آئی خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں سے محروم، سینیٹ الیکشن سے بھی صفایا
پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار بلے کے نشان سے محروم ہونے کے بعد اب آزاد حیثیت میں الیکشن لڑیں گے اس کے کئی مضمرات بھی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ پی ٹی ائی کو سینیٹ میں بھی نقصان ہوگا۔ سیاسی اور سماجی کارکن جبران ناصر کے مطابق ایک انتخابی نشان سے محروم ہونے کے بعد پی ٹی ائی کے کارکنوں کو اب الگ الگ اپنی انتخابی مہم ڈیزائن کرنا اور چلانا ہوگی جس کے نتیجے میں ان کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 2 months
Text
قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ میں بھی الیکشن ایکٹ ترمیمی بل منظور
قومی اسمبل یکے بعد سینیٹ میں بھی الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کرلیاگیا۔ ذرائع کے مطابق سینیٹر طلال چودھری نے الیکشن ایکٹ برترمیمی  بل پر تحریک پیش  کی۔اپوزیشن کا احتجاج ،بل کی مخالفت اور شور شرابہ،نعر�� بازی کی ۔ چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے اجلاس کی معمو ل کی کارروائی معطل کرکے بل پیش کرنے کی اجازت دی۔ سینیٹ اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف شبلی فراز نے کہا کہ عام…
0 notes
globalknock · 1 year
Text
پرتشدد تنظیم کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوگی، سینیٹ میں بل آج پیش کیا جائیگا
اسلام آباد: سینیٹ میں پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام کا بل آج پیش کیا جائے گا جس سے مراد نظریاتی عقائد، مذہبی اور سیاسی معاملات یا فرقہ واریت کی خاطر دھمکانا، طاقت کا استعمال اور تشدد کرنا، اکسانا یا ایسی حمایت کرنا جس کی قانون میں ممانعت ہے۔ بل کے متن کے مطابق پرتشدد انتہا پسندی میں کسی فرد یا تنظیم کی مالی معاونت کرنا ہے جو پرتشدد انتہا پسند ہو، پرتشدد انتہا پسندی میں دوسرے کو طاقت کے استعمال،…
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 2 years
Text
نگران حکومت کی ضرروت ہی کیا ہے؟
Tumblr media
انتخابات دنیا بھر میں ہوتے ہیں لیکن نگران حکومتوں کے نام پر غیر منتخب لوگوں کو اقتدار میں لا بٹھانے کی یہ رسم صرف پاکستان میں ہے۔ سوال یہ ہے اس بندوبست کی افادیت کیا ہے اور نگران حکومتوں کے انتخاب، اہلیت، اختیارات اور کارکردگی کے حوالے سے کوئی قوانین اور ضابطے موجود ہیں یا نہیں؟ کیا وجہ ہے کہ جہاں غیر منتخب نگران حکومتوں کے بغیر انتخابات ہوتے ہیں وہاں تو معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ نبٹا لیے جاتے ہیں اور ہمارے ملک میں نگران حکومتوں کے ہوتے ہوئے بھی انتخابات متنازع ہو جاتے ہیں؟ نگران حکومت کے نام پر عارضی ہی سہی، ایک پورا حکومتی بندوبست قائم کیا جاتا ہے۔ لیکن اس بندوبست کے بارے میں تفصیلی قانون سازی آج تک نہیں ہو سکی۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 230 اور آئین کے آرٹیکل 224 میں کچھ بنیادیں باتیں لکھ دی گئی ہیں لیکن وہ ناکافی اور مبہم ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ایک رکن پارلیمان کی اہلیت کے لیے تو ایک کڑا معیار مقرر کیا گیا ہے لیکن نگران حکومت کی اہلیت کے لیے کوئی اصول طے نہیں کیا گیا؟ وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ اور قائد حزب اختلاف کوئی نام تجویز کر دیں تو اس نام کی اہلیت کو پرکھنے کے لیے کوئی قانون اور ضابطہ تو ہونا چاہیے، وہ کہاں ہے؟ 
یہی معاملہ نگران کابینہ کا ہے۔ آئین کا آرٹیکل A 224 (1) صرف یہ بتاتا ہے کہ نگران کابینہ کا انتخاب نگران وزیر اعظم اور نگران وزرائے اعلی کی ایڈوائس پر ہو گا لیکن یہ کہیں نہیں بتایا کہ نگران کابینہ کے لیے اہلیت کا پیمانہ کیا ہو گا۔ ایک جمہوری معاشرے میں ایسا صوابدیدی اختیار حیران کن ہے۔ دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس کے اختیارات کا دائرہ کار کیا ہے؟َ وہ کون سے کام کر سکتی ہے اور کون سے کام نہیں کر سکتی؟ اس کی مراعات کیا ہوں گی؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ کس کو جواب دہ ہو گی؟ حیران کن بات یہ ہے کہ ان سولات کا تفصیلی جواب نہ آئین میں موجود ہے نہ ہی الیکشن ایکٹ میں۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 230 میں کچھ وضاحت ہے لیکن ناکافی ہے۔ نگران حکومت کا مینڈیٹ دو جمع دو چار کی طرح تحریری طور پر موجود ہونا چاہیے۔ یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ نگران حکومت کی کوئی حزب اختلاف نہیں ہوتی اور اسے کسی صوبائی اسمبلی یا قومی اسمبلی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے وزراء کسی ایوان کو جواب دہ نہیں ہوتے۔ ان سے کسی فورم پر سوال نہیں ہوتا۔ نگران حکومتوں کے دورانیے میں، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں تو موجود نہیں ہوتیں لیکن سینیٹ جیسا ادارہ تو موجود ہوتا ہے، سوال یہ ہے اس دورانیے میں سینیٹ کا کوئی کردار نہیں ہو سکتا؟
Tumblr media
ہم نے ساری دنیا سے نرالا، نگران حکومتوں کا تصور اپنایا ہے۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ اس نامعتبر بندوبست نے ہمیں کیا دیا اور ہمیں اس پر اصرار کیوں ہے؟ نگران حکومت کے قیام کا واحد بنیادی مقصد انتخابات میں الیکشن کمیشن کی معاونت ہے۔ سوال یہ ہے اس کے لیے غیر منتخب لوگوں کو حکومت سونپنے کی کیا ضرورت ہے؟ حکومت سرکاری محکموں اور وزارتوں کی صورت چلتی ہے، کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ انتخابات کے لیے نگران حکومت بنانے کی بجائے حکومتی مشینری کو الیکشن کمیشن ہی کے ماتحت کر دیا جائے؟ جب آئین نے آرٹیکل 220 میں تمام اتھارٹیز کو چاہے وہ وفاقی ہوں یا صوبائی، یہ حکم دے رکھا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کے کی مدد کریں گے تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے جس کے لیے غیر منتخب حکومت مسلط کی جائے؟  معمول کے کام چلانا بلا شبہ ضروری ہیں تا کہ ریاستی امور معطل نہ ہو جائیں لیکن اس کی متعدد شکلیں اور بھی ہو سکتی ہیں اور اس کے لیے غیر منتخب لوگووں کی حکومت بنانا ضروری نہیں۔
سینیٹ کی شکل میں جو واحد منتخب ادارہ اس دورانیے میں موجود ہوتا ہے، اسے عضو معطل کیوں بنا دیا گیا ہے۔ کم از کم اتنا تو ہو سکتا ہے کہ غیر منتخب نگران حکومت کو سینٹ کے سامنے جواب دہ قرار دیا۔ ہمارے اہل سیاست کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ وہ کتنی محنت سے خود ہی خود کو بددیانت، ناقابل بھروسہ اور خائن ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں کہ اگر منتخب حکومت ہی کو نگران حکومت کی ذمہ داری دی گئی تو وہ لازمی بد دیانتی اور خیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دھاندلی کریں گے؟ قانونی اورآئینی طور پر سارے اراکین پارلیمان سچے، نیک، پارسا، دیانت دار، امین اور سمجھ دار ہیں اور ان میں کوئی بھی فاسق نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ان میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں کہ عام انتخابات کے لیے اس کی دیانت اور امانت داری کا یقین کیا جا سکے۔ یاد رہے کہ نگران حکومت کا تصور جمہوری حکومت نے نہیں دیا تھا۔ جمہوری حکومتیں البتہ اسے سرمایہ سمجھ کر گلے سے لگائے ہوئے ہں اور انہیں احساس ہی نہیں یہ اصل میں ان کے اخلاقی وجود پر عدم اعتماد ہےا ور ایک فرد جرم ہے۔ نگران حکومت کے موجودہ غیر منتخب ڈھانچے کے ہوتے ہوئے ہماری سیاست کے اخلاقی وجود کو کسی دشمن کی حاجت نہیں۔ یہ الگ بات کہ انہیں اس حادثے کی کوئی خبر ہی نہیں۔
آصف محمود  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
2 notes · View notes
pakistanpress · 8 months
Text
شفاف الیکشن اور حقیقی تبدیلی؟
Tumblr media
سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود سینیٹ میں بار بارعام انتخابات کے التوا کی قرار داد کو منظور کرنا افسوس کا مقام ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ کچھ عناصر پاکستان میں جمہوری عمل کو پروان چڑھتا نہیں دیکھ سکتے اس لیے وہ ان مذموم حرکات سے باز نہیں آ رہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ترکی میں خوفناک زلزلے کے باوجود الیکشن کا پر امن انعقاد ہو سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا۔ الیکشن سے فرار کی راہیں تلاش کرنے والے درحقیت عوام کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں۔ بر وقت انتخابات سے ملک میں جمہوریت کو تقویت ملے گی اور منتخب حکومت عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لئے اپنے ایجنڈے کے مطابق کام کر سکے گی۔ انتخابات کے التوا کی کوششیں درحقیقت توہین عدالت اور ملک و جمہوریت کے خلاف سازش ہے۔ ان حالات میں الیکشن کمیشن شفاف و غیرجانبدار انتخابات کیلئے تمام جماعتوں کو سیاست وانتخابی مہم چلانے کے برابر مواقع دینے کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرے۔ الیکشن میں تاخیر کی باتوں سے غیر جمہوری قوتیں مستحکم ہوں گی۔ بدقسمتی سے یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ایک مخصوص جماعت کے لئے اقتدار کی راہ ہموار کی جا ر ہے۔
شفاف اور منصفانہ انتخابات کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی و قانونی ذمہ داریہ ادا کرے۔ جب تک ملک میں منتخب حکومت برسر اقتدار نہیں آئے گی اس وقت تک اضطراب اور افراتفری کی صورتحال پر قابو نہیں پایا جا سکتا، مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن صاف شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنائے۔ انشااللہ آٹھ فروری، قوم کے حقیقی نمائندوں کی کامیابی کا دن ہو گا۔ قوم نے سب کو آزما لیا، کسی نے روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر بے وقوف بنایا، کسی نے پاکستان کے عوام کو ایشین ٹائیگر بنانے کا خواب دکھایا اور کسی نے ریاست مدینہ کا نعرہ لگا کر قوم کو دھوکہ دیا، سب کی حقیقت اب آشکار ہو چکی ہے۔ ملک و قوم آج جن مسائل کی زد میں ہیں جن میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا برابر کا حصہ ہے۔ تینوں نے بر سر اقتدار آکر آئی ایم ایف غلامی کو قبول اور ظالمانہ ٹیکس لگا کر مہنگائی میں اضافہ کیا۔ قو م کے پاس ان لوگوں سے نجات حاصل کرنے کا اب بہترین موقع ہے۔ دیانتدار، باکردار اور صاف ستھری قیادت ہی وطن عزیز کو ترقی کی شاہراہ پر ڈال سکتی ہے۔ 
Tumblr media
ماضی میں بھی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی باریاں لے کر اقتدار حاصل کرتی رہیں۔پھر پی ٹی آئی، پی ڈی ایم کے بعد اب نگراں حکومت نے عوام کے جذبات کو بری طرح مجروع کیا ہے۔ گزشتہ ادوار میں کوئی ایک وعدہ بھی ایسا نہیں ہے جس کو انھوں نے پورا کیا ہو۔ ماضی میں بر سراقتدار آنے والی جماعتوں نے عوام کا معیار زندگی بہتر نہیں ہونے دیا جس کی وجہ سے پریشان حال عوام ان پارٹیوں سے مایوس ہو چکے ہیں اور پاکستان کیلئے کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔ اب پاکستانی قوم ملک میں حقیقی تبدیلی چاہتی ہے۔ ایک ایسی تبدیلی جس میں ملک کے ہر شہری کو عزت کے ساتھ روزگار ملے۔ تعلیم، صحت اور بنیادی سہولتیں ان کوحاصل ہوں۔ ہر فرد کو انصاف ملے۔ کوئی طاقتور کسی کمزور کا حق غصب نہ کر سکے۔ ایسی حقیقی تبدیلی جواب جماعت اسلامی ہی لاسکتی ہے اس نے کراچی، گوادر، خیبر پختونخواہ، پنجاب سمیت ملک بھر میں ہمیشہ مشکل وقت میں ڈیلیور کیا ہے۔ ہمارے ہاں جب تک اسمبلیوں کو کرپٹ افراد سے پاک نہیں کر لیا جاتا اس وقت تک حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔
پوری قوم گزشتہ حکومتوں کی غلط معاشی پالیسیوں کا خمیازہ اب تک بھگت رہی ہے۔ طرفا تماشا یہ ہے کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت اب 56 روپے تک پہنچ چکی ہے جبکہ قوم کو اسمیں مزید اضافے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ بجلی فی یونٹ 5 روپے 62 پیسے مذید مہنگی ہونے کا امکان ہے جس کی منظوری کی صورت میں صارفین پر 49 ارب سے زائد کا بوجھ پڑے گا۔ ایک طرف حکومت پٹرول کی قیمت میں کمی کرتی ہے تو دوسری جانب کسی اور چیز کی قیمت میں اضافہ کر کے عوام کی خوشی کو غارت کر دیا جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے عوام کو ریلیف نہ دینے کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ ہماری اشرافیہ نے بیرونی قرضوں کا 90 فیصد خود استعمال کیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر پاکستانی ڈھائی لاکھ کا مقروض ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ غریب کیلئے ہسپتالوں میں علاج نہیں ہے تعلیمی اداروں کے دروازے غریب کے بچے کیلئے بند ہیں، ملک پراس وقت 80 ہزار ارب کا قرضہ ہے۔ 
پاکستانی عوام انشا ء اللہ ووٹ کی طاقت سے اہل ودیانتدار لوگوں کو کامیاب کر کے ملک و اپنی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنائیں گے۔ آئندہ عام انتخابات کے بعد آنے والی حکومت کوملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لئے مالی بدعنوانی، ٹیکس چوری، حوالہ ہندی، اسمگلنگ میں ملوث افراد کا جڑ سے خاتمہ کرنا ہو گا۔ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات، چینی، آٹا سب کچھ عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکا ہے۔ قرضہ ہڑپ کرنے والوں اور کرپٹ افراد کی جائدادیں نیلام کر کے قومی خزانہ میں جمع کرائی جانی چاہئیں۔ 76 برسوں سے ملک میں تجربات کئے جا رہے ہیں۔ 13 جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے بھی اپنے سولہ ماہ کے دوران بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس وقت نوجوان رشوت اور سفارش کے بغیر نوکری نہیں حاصل کر سکتے۔ نوجوانوں کو ملازمت اور روزگار الاؤنس دیا جانا چاہیے۔ اگر دنیا کے کئی ممالک یہ سہولتیں دے سکتے ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ خوشحال مستقبل کیلئے سیاسی و معاشی استحکام ناگزیر ہو چکا ہے۔
محمد فاروق چوہان
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
apnabannu · 9 months
Text
الیکشن التوا پر سینیٹ کی قرارداد: ’کچھ قوتیں پاکستان میں انتخابی عمل پر اثر انداز ہونا چاہتی ہیں‘
http://dlvr.it/T10cNR
0 notes
shiningpakistan · 1 year
Text
صدر پاکستان کا حیران کن ٹویٹ
Tumblr media
آئین کا آرٹیکل 75 صدر مملکت کے بلوں کے حوالے سے اختیارات سے متعلق ہے۔ صدر آئین کے آرٹیکل 75 شق (1) کے تحت پارلیمان سے بھیجے گئے بل کی منظوری دیتے ہیں۔ دستخط نہ کرنے پر صدر پاکستان بل کی شق پر اعتراض تحریری طور پر 10 دن کے اندر واپس پارلیمان کو بھجوانے کا اختیار رکھتے ہیں۔ آئین پاکستان آرٹیکل 75 کے مطابق صدر مملکت کوئی بھی پارلیمان سے پاس کردہ بل پارلیمان کو بھیجتے ہیں تو اس کے پاس دو اختیار ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اس پر دستخط کر دیں، دوسرا آئینی اختیار یہ ہے کہ وہ 10 دن کے اندر مشاہدات، اعتراضات لگا کر اپنے دستخط کے ساتھ پارلیمنٹ کو واپس بھیج دیں۔ لیکن اب صدر مملکت نے دستخط سے انکار اور معافی کا ذکر کر کے آئین پاکستان کی تاریخ میں حیران کن طور پر رات گئے ایک ٹویٹ کر دیا کہ انہوں نے تو پارلیمنٹ سے آئے بل کو دستخط کیے بغیر سٹاف کو واپس کر دیا تھا اور یہ کہ وہ اس بل سے متفق نہیں تھے۔ یہ آئین پاکستان کے مطابق ایک غیر آئینی عمل ہے اور کچھ سنجیدہ سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ وہ یہ ہیں کہ صدر مملکت وضاحت کریں کس اسٹاف کو انہوں نے کب اور کیسے بلز واپس کیے تھے؟
کیا صدر مملکت نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 75 کے تقاضوں کو پورا کیا ؟ اور اگر ایسا کیا تو کیسے انہوں نے بغیر دستخط کیے بلز سٹاف کو واپس کر دیے تھے اور کس قانون کے مطابق انہوں نے یہ عمل کیا؟ ملک کے صدر نے اپنے سٹاف پر ان کی بات نہ ماننے کا الزام لگایا ہے تو صدر مملکت اپنا سرکاری بیان تحریری ثبوت کے ساتھ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کریں۔ انہوں نے دیگر باقی بلز اعتراضات کے ساتھ واپس کیے ویسے ہی یہ بل بھی واپس کیے تھے۔ آفیشل ایکٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر صدر مملکت کے دستخط جس کے بعد یہ دونوں بل باقاعدہ قانون کی حیثیت سے نافذ ہو گئے ہیں اور سائفر کے حوالے سے سرکاری رازوں کے افشا کے الزام میں تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی گرفتاری گذشتہ روز پیش آنے والے دو ایسے واقعات ہیں جو ملک کے سیاسی ماحول کو بہت متاثر کریں گے۔ دوسری جانب بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ صدر نے ان فائلوں پر دستخط ہی نہیں کیے تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں قوانین منظور ہی نہیں ہوئے۔ 
Tumblr media
آئین کے آرٹیکل 75 کے مطابق اگر صدر کے پاس دس دن کا وقت ہوتا ہے، اس کے دوران کسی بل کو واپس بھیج دیں تو اسے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں دوبارہ پیش کیا جاتا ہے اور اس کے حق میں اکثریتی ووٹ آ جائے تو یہ قانون بن جاتا ہے۔ لیکن موجودہ صورت میں چونکہ قومی اسمبلی ہی نہیں ہے اس لیے مشترکہ اجلاس بلانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے ان قوانین کے منظور ہونے کا معاملہ مشتبہ بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر کے ٹویٹ نے ایک آئینی بحران پیدا کر دیا ہے۔ بات صرف یہی نہیں ہے بلکہ سائفر کے معاملے نے بھی صورتِ حال کو مزید کشیدہ بنا دیا ہے۔ عمران خان کا سائفر بیانیہ بھی اعترافِ جرم ہی ہے کیوں کہ خفیہ خط کا متن اور اس کا مفہوم یعنی معلومات پبلک کرنا بھی سیکرٹ ایکٹ کے تحت آتا ہے۔ یہ معاملہ اتنا حساس ہوتا ہے کہ اس کو پڑھنے والا حیران ہو جاتا ہے۔ یہ حساس معلومات اپنے عہدے تک ہی رکھیں۔ سائفر خفیہ پیغام ہوتا ہے جس کو خفیہ رکھنا ضروری ہے۔ عمران خان نے سائفر کو ’لیک‘ کر کے اس کے کوڈ کو خفیہ رکھنے کی سرکاری رازداری کو نقصان پہنچایا۔
وزارت خارجہ کے رولز آف بزنس کے تحت سائفر صرف وزارت خارجہ کے پاس رہتا ہے اور جو وزیراعظم، صدر مملکت، آرمی چیف کے پاس جاتا ہے وہ سائفر نہیں جاتا بلکہ جو سائفر ہوتا ہے وہ اپنے لفظوں میں لکھ کر اس کا مفہوم وزارت خارجہ بھجواتا ہے۔ سائفر کو وزیراعظم سمیت کوئی نہیں دیکھ سکتا کیوں کہ یہ سائفر سکیورٹی کا قانون ہے۔ اب سائفر کیس کے حوالے سے جو اہم گرفتاریاں ہو رہی ہیں تو تمام حساس نوعیت کے معاملات عدالت کے روبرو پیش ہو جائیں گے۔ ایف آئی اے نے سائفر کے راز افشا کرنے پر ہی شاہ محمود قریشی کو حراست میں لیا ہے اور ان کے خلاف آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ایف آئی اے کے مطابق شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات 5 اور 9 کے علاوہ تعزیرات پاکستان کے سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نئی مردم شماری کے تحت حلقہ بندیوں کا شیڈول جاری کر دیا ہے اور یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ عام انتخابات کا انعقاد 90 روز میں ممکن نہیں کیوں کہ 14 دسمبر کو حلقہ بندیوں کے گزٹ نوٹیفیکیشن کے بعد الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 23 اور 36 کے تحت انتخابی فہرستوں کو ازسر نو غلطیوں سے پاک کیا جایے گا اور حلقہ بندیوں کے مطابق ترتیب دیا جائے گا اور ماضی کے اہم فیصلے جو سپریم کورٹ نے اس حوالے سے نافذ کیے تھے ان فیصلوں کی روشنی میں انتخابی فہرستیں ازسرنو مکمل کرنے میں تین ماہ کا عرصہ درکار ہو گا جس میں نئی انتخابی فہرستوں کی پرنٹنگ بھی شامل ہے۔ لہٰذا قانون کے مطابق تمام مراحل مکمل ہونے پر ہی الیکشن کمیشن الیکشن ایکٹ کی دفعہ 57 کے تحت الیکشن شیڈول جاری کرے گا اور اس کے لیے ابھی خاص تاریخ کا تعین کرنا قبل از وقت ہے۔
کنور دلشاد  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
risingpakistan · 1 year
Text
’باپ رے باپ‘ ہمارے حکمراں
Tumblr media
شاعر محسن بھوپالی مرحوم نے برسوں پہلے ہماری سیاست کو اس خوبصورت قطعہ میں سمو دیا ��ھا جمہوریت کی خیر ہو، اس مملکت کی خیر، جو وقت کے غلام تھے لمحوں میں بک گئے
چشم فلک نے دیکھا ہے ایسا بھی ماجرا لاکھوں کے ترجمان کروڑوں میں بک گئے
مجھے یہ قطعہ اس دن بہت یاد آیا جب 2018ء میں چیئرمین سینٹ کا انتخاب تھا دونوں امید واروں کا تعلق بلوچستان سے تھا ایک طرف موجودہ چیئرمین صادق سنجرانی تھے جنہیں سابق وزیر اعظم عمران خان، اس وقت کے مقتدر حلقہ اور اسی سال معرض وجود میں آنے والی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی حمایت حاصل تھی تو دوسری طرف اس وقت کی اپوزیشن کے متفقہ امیدوار اور صوبہ کے سابق گورنر میرغوث بخش بزنجو کے فرزند میر حاصل بزنجو مرحوم تھے۔ اپوزیشن کے پاس واضح اکثریت تھی جس کو انہوں نے اجلاس میں کھڑے ہو کر دکھایا بھی مگر جب ’بیلٹ باکس‘ کھلا تو حاصل ہار گیا اور سنجرانی جیت گئے ۔ ’ باپ رے باپ‘ اور خود حاصل کے بقول، ’’میرا مقابلہ سیاستدان سے نہیں فیض سے تھا مجھے تو ہارنا ہی تھا۔‘‘ شاید اس وقت کی اپوزیشن بھی اپنی قبولیت کا انتظار کر رہی تھی اس لیے انہوں نے اپنے اندر سے دبک جانے والوں کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی جبکہ اصولوں‘ پر یقین رکھنے والے کپتان اور ان کے حواریوں نے اسے سینیٹرز کی ’ضمیر‘ کی آواز کہا۔ ساڑھے تین سال بعد وقت نے کروٹ لی ’ضمیر پلٹ گیا، اور خان صاحب کو جو لوگ لائے تھے انہوں نے ہی گھر بھیج دیا اس بار اسے ’ضمیر‘ کے مطابق ووٹ دینے والوں نے کپتان کے خلاف ووٹ کہا۔
جو کچھ 2018 میں سینٹ میں ہوا وہ ہماری سیاست میں اسی سینٹ میں پھر ہوا اور اس بار تو ’خفیہ کیمرے‘ نے اسے محفوظ بھی کیا مگر نہ کوئی تحقیق نہ کوئی کارروائی سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی قومی اسمبلی میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود سینیٹر بھی بنے، چیئرمین سینیٹ کے امیدوار بھی اور پھر قائد حزب اختلاف بھی۔ سنجرانی پھر جیت گئے۔ ’باپ رے باپ، ہماری سیاست۔ لفظ ’ احساس محرومی‘ کا بھی خوب استعمال ہوتا ہے۔ ایک بار میں حاصل بزنجو کے ساتھ انکے والد کا انٹرویو کرنے کراچی میں ان کے دوسرے بیٹے بیزن کے گھر گیا میں نے پوچھا میر صاحب بلوچستان کا احساس محرومی کیسے دور ہو سکتا ہے۔ ان کا جواب تھا ’’ جب ہمارے حکمرانوں کو محرومی کا احساس ہو گا‘‘۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کا تعلق پنجاب سے تھا مگر 2013 کے الیکشن کے بعد انہوں نے بلوچستان کے حوالے سے ایک انتہائی مثبت سیاسی فیصلہ کیا اور مسلم لیگ (ن) کی اکثریت ہونے کے باوجود اپنے اتحادی بلوچستان کی ہی ایک معتبر سیاسی شخصیت اور نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک کو وزیراعلیٰ نامزد کیا مسلم لیگ کے صوبائی صدر ثنا اللہ زہری کی مخالفت کے باوجود ۔ میں اس دن مری میں ہی تھا جب یہ اجلاس چل رہا تھا میاں صاحب کی موجودگی میں شہباز شریف نے بڑی مشکل سے انہیں منایا مگر انہوں نے مشروط حمایت کی، ڈھائی۔ ڈھائی سال کی وزارت اعلیٰ کے فارمولہ پر۔ ابھی ثنا اللہ جو 2018ء میں وزیراعلیٰ تھے ڈاکٹر مالک کے بعد کی مدت پوری نہیں ہوئی تھی کہ ان کے خلاف پارٹی میں’ بغاوت‘ ہو گئی جس میں بیشتر وہ لوگ شامل تھے جنہوں نے عام انتخابات سے قبل ’ باپ بنائی، ’باپ رے باپ‘ کیا سیاست اور کیا ہمارا سیاسی مستقبل۔
Tumblr media
سینیٹر انوار الحق کاکڑ ہمارے کئی سیاستدانوں کی طرح جماعتیں بدلتے رہتے ہیں ویسے بھی اس صوبہ سے تعلق رکھنے والے منتخب ہوں یا نگراں’ باپ‘ کے احترام میں ہر فیصلہ قبول کر لیتے ہیں ویسے بھی اس ملک کی سیاست اس وقت بھی اور پہلے بھی ’بزرگوں‘ کے پاس ہی رہی ہے۔ مگر انوار الحق پڑھے لکھے انسان ہیں اور گو کہ وہ اسکول میں بھی پڑھا چکے ہیں اور بلوچستان یونیورسٹی میں بھی اور تعلیمی مسائل کو بخوبی سمجھتے ہیں مگر کیا وہ اس مختصر وقت میں اس سمت میں کوئی اقدامات کر سکتے ہیں شاید نہیں، ویسے بھی ان کی تمام تر توجہ 90 روز میں عام انتخابات کروانے پر ہونی چاہئے۔ انہوں نے احسن فیصلہ کیا اپنی پارٹی اور سینٹ کی سیٹ سے استعفیٰ دے کر ورنہ تو ہمارے حکمرانوں نے ’ ایوانوں‘ کو اپنی اپنی جماعتوں کا ’گڑھ‘ بنا لیا ہے چاہے وہ ایوان صدر ہو، وزیراعظم ہائوس ہو، گورنر ہائوس ہو یا وزیر اعلیٰ ہائوس۔ جب آپ وزیر اعظم، صدر، گورنر یا وزیر اعلیٰ بنتے ہیں تو آپ ملک یا اپنے صوبہ کے ’باپ‘ کا درجہ رکھتے ہیں پارٹی کے حصار سے نکل کر لوگوں کی بلا امتیاز خدمت کرنی ہوتی ہے۔ نگراں وزیر اعظم تمام سیاسی جماعتوں بشمول پاکستان تحریک انصاف کو ایک ٹیبل پر بیٹھا کر ’ میثاق سیاست‘ پر بات چیت کا آغاز کرسکتے ہیں۔
سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو ایک غیر جماعتی بنیادوں پر منتخب ہونے والی اسمبلی کی نمائندگی کرتے تھے مگر انہوں نے ملک کی بڑی جماعتوں کو جو اس نظام کو قبول نہیں کرتی تھیں وزیر اعظم ہائوس میں دعوت دی اور افغانستان جیسے حساس معاملے پر اعتماد میں لے کر’جنیوا‘ گئے اور ایکارڈ کیا۔ آج کی صورتحال میں شاید یہ کام اتنا آسان نہیں خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب سابق وزیر اعظم عمران خان ’ اٹک جیل‘ میں تین سال کی قید اور پانچ سال کی نااہلی بھگت رہے ہیں اور ان کی جماعت کے ہزاروں کارکن جیلوں میں ہیں۔ کیا کاکڑ صاحب بہت زیادہ نہیں تو خاں صاحب کو اٹک سے اڈیالہ جیل منتقل کروا سکتے ہیں۔ وہ پی ٹی آئی کے قیدی جن پر 9 مئی یا سنگین مقدمات قائم نہیں ہیں ان کے حوالے سے کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ کیا وہ بحیثیت ’نگراں‘ جونیجو کی طرح شہری آزادیوں، میڈیا کی آزادی اور الیکشن میں تمام سیاسی جماعتوں کو ’ لیول پلینگ فیلڈ‘ دلوا سکتے ہیں۔ دوسرا بڑا کام جو شاید سب سے مشکل نظر آتا ہے وہ بلوچ قوم پرستوں، علیحدگی پسندوں، شدت پسندوں سے مذاکرات کا آغاز کریں۔ اگر طالبان سے بات چیت ہوسکتی ہے تو ان بلوچوں سے کیوں نہیں۔ 
بات چیت سے ہی دروازے کھلتے ہیں ’گھر کے بھی اور دل کے بھی، لاپتہ افراد کا مسئلہ شاید ان کے کیا کسی کے بس کی بات نہیں۔ اتنا مشکل نہیں جتنا ہم نے بنا دیا ہے۔ جو لوگ ’اٹھائے گئے ہیں وہ اسی ملک کے شہری ہیں اگر وہ سنگین جرائم میں ملوث ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کریں مقدمہ چلائیں اور سزا دیں، ان کے خاندان کے افراد کو ان سے ملنے دیں، جو اب اس دنیا میں نہیں رہے وہ اگر ماورائے عدالت مارے گئے تو ان کے والدین اور رشتہ داروں کو اعتماد میں لیں۔ یہ صرف بلوچستان کا ہی نہیں پورے ملک کا مسئلہ ہے کراچی سے خیبر تک۔ کاش پاکستان بننے کے بعد اس ملک سے جاگیرداری اور سرداری نظام کا خاتمہ کر دیا جاتا، جمہوریت کی صحیح سمت کا تعین ہو جاتا، نظریہ ضرورت، آمروں کے لیے نہیں جمہوریت کے لیے استعمال ہو جاتا تو آج نہ احساس محرومی کا سوال ہوتا نہ سیاسی محرومیوں کا۔ بلوچستان حساس صوبہ ہے اس کی حساسیت کا احساس کریں ’ نگرانی‘ نہیں اور مسئلہ حل کریں اور یہی کاکڑ صاحب کا کڑا امتحان ہے 90 روز صرف 90 روز خدارا !
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
gamekai · 2 years
Text
ن لیگی سینیٹر نے بھی نئے الیکشن کے حق میں آواز بلند کردی
مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر مشاہد حسین سید نے بھی سینیٹ کے فورم پر نئے الیکشن کے حق میں آواز بلند کر دی ہے۔ اے آر وائی نیوز کے مطابق مسلم لیگ ن کے رہنما اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید سینیٹ اجلاس میں ملک میں جاری سیاسی افراتفری پر خاموش نہ رہ سکے اور نئے انتخابات کے حق میں آواز بلند کرتے ہوئے کہا کہ لولی لنگڑی حکومت سے بہتر ہے کہ نیا الیکشن کرایا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
marketingstrategy1 · 2 years
Text
فیصل واوڈا سینیٹ رکنیت سے مستعفی
فیصل واوڈا سینیٹ رکنیت سے مستعفی
فیصل واوڈا نے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں استعفی دیا۔  اسلام آباد: فیصل واوڈا ایوان بالا سینیٹ کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے۔ فیصل واوڈا نے اپنا استعفی چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو پیش کردیا۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں استعفی دیا۔ وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر 2018ء میں سینیٹر منتحب ہوئے تھے۔ یہ بھی پڑھیں: فیصل واوڈا کی تاحیات نااہلی ختم، سینیٹر شپ سے مستعفی الیکشن کمیشن نے 2018 کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
عام انتخابات ملتوی نہیں کر سکتے، الیکشن کمیشن نے سینیٹ قرارداد پر جواب دے دیا
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سینییٹ کی قرارداد پر انتخابات ملتوی کرنے سے معذرت کر لی ۔ الیکشن کمیشن حکام نے سینیٹ سیکرٹیریٹ کو خط لکھ کر بتایا ہے کہ سینیٹ میں 5 جنوری کو منظور کی گئی قرارداد کا جائزہ لیا ہے،صدر مملکت سے مشاورت کے بعد 8 فروری کو پولنگ کی تاریخ دی گئی تھی۔ الیکشن کمیشن کے مطابق امن و امان کی صورتحال یقینی بنانے کے لیے کمیشن نے نگران وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہدایات جاری کی ہیں۔ عام…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 2 months
Text
الیکشن ایکٹ کی دوسری ترمیم کا گزٹ نوٹیفکیشن  بھی جاری
الیکشن ایکٹ کی دوسری ترمیم مجریہ 2024ء کا گزٹ نوٹیفکیشن  بھی جاری کردیاگیا۔ صدر مملکت کے دستخطوں کے بعد سینیٹ سیکرٹریٹ نے گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔صدر مملکت نے جمعرات کو الیکشن ایکٹ کی دوسری ترمیم مجریہ 2024ء پر دستخط کیے تھے۔صدر کی توثیق کے بعد الیکشن ایکٹ 2024  قانون کا درجہ حاصل کرچکا۔گزٹ نوٹیفکیشن کے ساتھ ہی  یہ قانون نافذالعمل ہو گیا ہے۔گزٹ نوٹیفیکیشن کی کاپیاں تمام متعلقہ اداروں کو…
0 notes
hindiurdunews · 2 years
Text
فیصل واوڈا سینیٹ کی نشست پر بحال، نثارکھوڑو فارغ -
فیصل واوڈا سینیٹ کی نشست پر بحال، نثارکھوڑو فارغ –
فیصل واوڈا سینیٹ کی نشست پر بحال جب کہ پیپلزپارٹی کے نثار کھوڑو فارغ ہو گئے۔ الیکشن کمیشن نے فیصل واوڈا کی سینیٹ کی نشست خالی ہونے کا نوٹیفکیشن واپس لےلیا۔ فیصل واوڈا سندھ کی نشست پر سینیٹر منتخب ہونے کا 10مارچ 2021 کا نو ٹیفکیشن بحال کر دیا گیا ہے۔ فیصل واوڈا بحالی کے بعد عدالتی فیصلے کے مطابق سینیٹ سے استعفیٰ دے سکیں گے۔ الیکشن کمیشن نے نثارکھوڑو کی سینیٹ کی نشست پر کامیابی کا نوٹیفکیشن واپس…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
کاش چیف جسٹس ایسا نہ کرتے
Tumblr media
کاش چیف جسٹس عمر عطا بندیال فل کورٹ بنا دیتے۔ کاش چیف جسٹس اُسی تین رُکنی بنچ کی سربراہی کرتے ہوئے پنجاب میں الیکشن کروانے جیسا اہم سیاسی فیصلہ نہ کرتے جس کے بارے میں سب کو پہلے سے معلوم تھا کہ یہ بنچ کیا فیصلہ کرسکتا ہے۔ کاش چیف جسٹس تمام سیاسی جماعتوں کا مؤقف سن کر اپنا فیصلہ سناتے اور بنچ پر اعتراض کرنے والوں کی بات سن لیتے۔ کاش چیف جسٹس اپنے ساتھی ججز کے اعتراضات اور اُن کے فیصلوں کو بھی اہمیت دیتے۔ کاش چیف جسٹس یہ فیصلہ نہ کرتے، ایک ایسا فیصلہ نہ کرتے جسے ناصرف تاریخ کے متنازعہ فیصلوں میں شامل کیا جائے گا بلکہ اس کے سبب موجودہ سیاسی انتشار اور تقسیم مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ مجھے ذاتی طور پر بنچ پر بھی اعتراض تھا اور فیصلہ بھی میری نظر میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتا لیکن اس کے باوجود جب فیصلہ آ گیا تو اس کو حکومت کیسے مسترد کر سکتی ہے؟ یہ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ حکومت کے پاس اگر کوئی قانونی اور آئینی راستہ موجودہ ہے تو وہ ضرور اسے اپنے حق میں استعمال کرے لیکن یہ کہنا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی نہیں مانتے اور اس پر عمل بھی نہیں کریں گے تو یہ بھی انتشار کی ایک نئی شکل ہو گی۔
نہ کابینہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کر سکتی ہے نہ ہی حکمراں اتحاد کے رہنمائوں کے لئے یہ مناسب ہے کہ وہ یہ کہیں کہ اس فیصلے پر عمل نہیں کیا جائے گا چاہے اس کے جو مرضی نتائج ہوں۔ حکومت کے پاس اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست کرنے کا حق موجود ہے۔ یہ نظرثانی کی اپیل ایک ماہ کے اندر سپریم کورٹ میں پیش کی جا سکتی ہے اور اس کے لئے حکومت حال ہی میں پارلیمنٹ کے ذریعے پاس ہونے والے چیف جسٹس کے اختیارات کے متعلق بل کے قانون بننے کا انتظار بھی کر سکتی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ شاید صدر پاکستان اس بل پر دستخط نہیں کریں گے جس کے باعث حکومت کو اس بل کو قانون کی شکل دینے میں پندرہ دن بھی لگ سکتے ہیں۔ جب یہ بل قانون بن جائے گا تو اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی جا سکتی ہے اور نئے بننے والے قانون کے مطابق چیف جسٹس اور دو سینئیر ترین ججوں کی کمیٹی یہ فیصلہ کرے گی کہ اس اپیل کو سننے کے لئے کن کن ججز پر مشتمل بنچ بنایا جائے۔
Tumblr media
تحریک انصاف کے سینیٹر اور سپریم کورٹ کے وکیل علی ظفر نے اس قانون کی تجویز پر سینیٹ میں بحث کے دوران حکومت کو یہ وارننگ دی تھی کہ عدلیہ اس قانون کو بننے کے 10/20 دن کے اندر ہی کالعدم قرار دے دے گی۔ اگر ایسا ہوا تو معاملہ مزید گمبھیر ہو جائے گا اور سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ آمنے سامنے ہوں گے۔ حکومت کی طرف سے فیصلہ دینے والے تین رُکنی بنچ میں شامل ججوں کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کی باتیں بھی کی جا رہی ہیں۔ میری دانست میں فیصلوں کی بنیاد پر ججوں کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ صرف اُسی صورت میں ایسا ریفرنس قابلِ سماعت ہو سکتا ہے جب شکایت کنندہ کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت موجود ہو کہ اس فیصلے کے پیچھے کوئی سازش تھی یا کوئی غیر قانونی اقدام اس کی وجہ تھا۔ صرف یہ کہنا کہ یہ تین ججز تو عمران خان کے حق میں اور ن لیگ اور پی ڈی ایم کے خلاف فیصلے دیتے ہیں، کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
چیف جسٹس اگر انصاف ہوتا ہوا نظر آنے کے اصول کی پاسداری کے لئے فل کورٹ بنا دیتے تو ہمیں اس موجودہ صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑتا جس میں اس بات کو یقینی طور پر کہا ہی نہیں جا سکتا تھا کہ پنجاب میں الیکشن 14 مئی کو ہی ہوں گے اس طرح حکومت اور پی ڈی ایم کو چاہئے کہ جذباتی انداز میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرنے کی بجائے قانونی اور آئینی راستہ اختیار کرے۔ حکومت اور حکمراں جماعتیں ہی اگر سپریم کورٹ کے فیصلے کو نہیں مانیں گی تو پھر عام لوگ عدالتوں کے فیصلوں کو کیوں تسلیم کریں گے۔ یہاں اب بھی سیاسی حل کی بات کی جا سکتی ہے۔ عمران خان نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ وہ اکتوبر میں الیکشن کے لئے انتظار کر سکتے ہیں اگر حکومت کے پاس کوئی ٹھوس تجویز ہو۔ کتنا اچھا ہو کہ حکمراں جماعتیں اور تحریک انصاف پورے پاکستان میں اکتوبر میں ایک ساتھ الیکشن کروانے کے نکتے پر اتفاق کر لیں تو اس سے ہم بہت سی خرابیوں سے بچ جائیں گے۔
انصار عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
weaajkal · 4 years
Text
حکومت نے سینیٹ انتخابات میں کروڑوں روپے رشوت کے لئے استعمال کیے، مریم اورنگزیب
حکومت نے سینیٹ انتخابات میں کروڑوں روپے رشوت کے لئے استعمال کیے، مریم اورنگزیب #MaryamAurangzaib #PMLN #Pakistan #aajkalpk
لاہور: مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت نے سینیٹ انتخابات میں کروڑوں روپے رشوت کے طور پر استعمال کیے. ہمارے پاس ثبوت موجود ہے کہ حکومت نے اراکین اسمبلی کو سینیٹ انتخابات میں سیاسی رشوت کے طور پر فنڈز دئیے جس پر الیکشن کمیشن کو نوٹس لینا چاہیے ۔ان کا کہنا تھا کہ عمران صاحب عزت کا ایک ہی راستہ ہے کہ ملک میں نئے الیکشن کرائیں اور مزید رسوائی اپنے مقدرمیں نا لکھوائیں۔ اسلام آباد…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
nowpakistan · 4 years
Text
نواز شریف نے جعلی تاریخ پیدائش 25 دسمبر لکھوائی
نواز شریف نے جعلی تاریخ پیدائش 25 دسمبر لکھوائی
وزیرکالونیز و جیل خانہ جات پنجاب فیاض چوہان کہتے ہیں کہ نواز شریف کی سالگرہ کل نہیں ہے، نواز شریف کو 90 کےوسط میں قائداعظم ثانی بننے کا شوق پیدا ہوا تھا اور اسی لیے اُنہوں نے اپنی جعلی تاریخ پیدائش 25 دسمبر لکھوائی۔ وزیرکالونیز و جیل خانہ جات پنجاب فیاض چوہان نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب یہ استعفےنہیں دے رہے اور ضمنی اور سینیٹ الیکشن لڑ رہےہیں، ان کے پاس حاصل وصول کچھ…
View On WordPress
0 notes