#سینیٹ الیکشن
Explore tagged Tumblr posts
Text
پی ٹی آئی خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں سے محروم، سینیٹ الیکشن سے بھی صفایا
پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار بلے کے نشان سے محروم ہونے کے بعد اب آزاد حیثیت میں الیکشن لڑیں گے اس کے کئی مضمرات بھی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ پی ٹی ائی کو سینیٹ میں بھی نقصان ہوگا۔ سیاسی اور سماجی کارکن جبران ناصر کے مطابق ایک انتخابی نشان سے محروم ہونے کے بعد پی ٹی ائی کے کارکنوں کو اب الگ الگ اپنی انتخابی مہم ڈیزائن کرنا اور چلانا ہوگی جس کے نتیجے میں ان کے…
View On WordPress
0 notes
Text
قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ میں بھی الیکشن ایکٹ ترمیمی بل منظور
قومی اسمبل یکے بعد سینیٹ میں بھی الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کرلیاگیا۔ ذرائع کے مطابق سینیٹر طلال چودھری نے الیکشن ایکٹ برترمیمی بل پر تحریک پیش کی۔اپوزیشن کا احتجاج ،بل کی مخالفت اور شور شرابہ،نعرے بازی کی ۔ چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے اجلاس کی معمو ل کی کارروائی معطل کرکے بل پیش کرنے کی اجازت دی۔ سینیٹ اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف شبلی فراز نے کہا کہ عام…
0 notes
Text
پرتشدد تنظیم کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوگی، سینیٹ میں بل آج پیش کیا جائیگا
اسلام آباد: سینیٹ میں پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام کا بل آج پیش کیا جائے گا جس سے مراد نظریاتی عقائد، مذہبی اور سیاسی معاملات یا فرقہ واریت کی خاطر دھمکانا، طاقت کا استعمال اور تشدد کرنا، اکسانا یا ایسی حمایت کرنا جس کی قانون میں ممانعت ہے۔ بل کے متن کے مطابق پرتشدد انتہا پسندی میں کسی فرد یا تنظیم کی مالی معاونت کرنا ہے جو پرتشدد انتہا پسند ہو، پرتشدد انتہا پسندی میں دوسرے کو طاقت کے استعمال،…
View On WordPress
0 notes
Text
نگران حکومت کی ضرروت ہی کیا ہے؟
انتخابات دنیا بھر میں ہوتے ہیں لیکن نگران حکومتوں کے نام پر غیر منتخب لوگوں کو اقتدار میں لا بٹھانے کی یہ رسم صرف پاکستان میں ہے۔ سوال یہ ہے اس بندوبست کی افادیت کیا ہے اور نگران حکومتوں کے انتخاب، اہلیت، اختیارات اور کارکردگی کے حوالے سے کوئی قوانین اور ضابطے موجود ہیں یا نہیں؟ کیا وجہ ہے کہ جہاں غیر منتخب نگران حکومتوں کے بغیر انتخابات ہوتے ہیں وہاں تو معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ نبٹا لیے جاتے ہیں اور ہمارے ملک میں نگران حکومتوں کے ہوتے ہوئے بھی انتخابات متنازع ہو جاتے ہیں؟ نگران حکومت کے نام پر عارضی ہی سہی، ایک پورا حکومتی بندوبست قائم کیا جاتا ہے۔ لیکن اس بندوبست کے بارے میں تفصیلی قانون سازی آج تک نہیں ہو سکی۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 230 اور آئین کے آرٹیکل 224 میں کچھ بنیادیں باتیں لکھ دی گئی ہیں لیکن وہ ناکافی اور مبہم ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ایک رکن پارلیمان کی اہلیت کے لیے تو ایک کڑا معیار مقرر کیا گیا ہے لیکن نگران حکومت کی اہلیت کے لیے کوئی اصول طے نہیں کیا گیا؟ وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ اور قائد حزب اختلاف کوئی نام تجویز کر دیں تو اس نام کی اہلیت کو پرکھنے کے لیے کوئی قانون اور ضابطہ تو ہونا چاہیے، وہ کہاں ہے؟
یہی معاملہ نگران کابینہ کا ہے۔ آئین کا آرٹیکل A 224 (1) صرف یہ بتاتا ہے کہ نگران کابینہ کا انتخاب نگران وزیر اعظم اور نگران وزرائے اعلی کی ایڈوائس پر ہو گا لیکن یہ کہیں نہیں بتایا کہ نگران کابینہ کے لیے اہلیت کا پیمانہ کیا ہو گا۔ ایک جمہوری معاشرے میں ایسا صوابدیدی اختیار حیران کن ہے۔ دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس کے اختیارات کا دائرہ کار کیا ہے؟َ وہ کون سے کام کر سکتی ہے اور کون سے کام نہیں کر سکتی؟ اس کی مراعات کیا ہوں گی؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ کس کو جواب دہ ہو گی؟ حیران کن بات یہ ہے کہ ان سولات کا تفصیلی جواب نہ آئین میں موجود ہے نہ ہی الیکشن ایکٹ میں۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 230 میں کچھ وضاحت ہے لیکن ناکافی ہے۔ نگران حکومت کا مینڈیٹ دو جمع دو چار کی طرح تحریری طور پر موجود ہونا چاہیے۔ یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ نگران حکومت کی کوئی حزب اختلاف نہیں ہوتی اور اسے کسی صوبائی اسمبلی یا قومی اسمبلی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے وزراء کسی ایوان کو جواب دہ نہیں ہوتے۔ ان سے کسی فورم پر سوال نہیں ہوتا۔ نگران حکومتوں کے دورانیے میں، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں تو موجود نہیں ہوتیں لیکن سینیٹ جیسا ادارہ تو موجود ہوتا ہے، سوال یہ ہے اس دورانیے میں سینیٹ کا کوئی کردار نہیں ہو سکتا؟
ہم نے ساری دنیا سے نرالا، نگران حکومتوں کا تصور اپنایا ہے۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ اس نامعتبر بندوبست نے ہمیں کیا دیا اور ہمیں اس پر اصرار کیوں ہے؟ نگران حکومت کے قیام کا واحد بنیادی مقصد انتخابات میں الیکشن کمیشن کی معاونت ہے۔ سوال یہ ہے اس کے لیے غیر منتخب لوگوں کو حکومت سونپنے کی کیا ضرورت ہے؟ حکومت سرکاری محکموں اور وزارتوں کی صورت چلتی ہے، کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ انتخابات کے لیے نگران حکومت بنانے کی بجائے حکومتی مشینری کو الیکشن کمیشن ہی کے ماتحت کر دیا جائے؟ جب آئین نے آرٹیکل 220 میں تمام اتھارٹیز کو چاہے وہ وفاقی ہوں یا صوبائی، یہ حکم ��ے رکھا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کے کی مدد کریں گے تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے جس کے لیے غیر منتخب حکومت مسلط کی جائے؟ معمول کے کام چلانا بلا شبہ ضروری ہیں تا کہ ریاستی امور معطل نہ ہو جائیں لیکن اس کی متعدد شکلیں اور بھی ہو سکتی ہیں اور اس کے لیے غیر منتخب لوگووں کی حکومت بنانا ضروری نہیں۔
سینیٹ کی شکل میں جو واحد منتخب ادارہ اس دورانیے میں موجود ہوتا ہے، اسے عضو معطل کیوں بنا دیا گیا ہے۔ کم از کم اتنا تو ہو سکتا ہے کہ غیر منتخب نگران حکومت کو سینٹ کے سامنے جواب دہ قرار دیا۔ ہمارے اہل سیاست کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ وہ کتنی محنت سے خود ہی خود کو بددیانت، ناقابل بھروسہ اور خائن ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں کہ اگر منتخب حکومت ہی کو نگران حکومت کی ذمہ داری دی گئی تو وہ لازمی بد دیانتی اور خیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دھاندلی کریں گے؟ قانونی اورآئینی طور پر سارے اراکین پارلیمان سچے، نیک، پارسا، دیانت دار، امین اور سمجھ دار ہیں اور ان میں کوئی بھی فاسق نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ان میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں کہ عام انتخابات کے لیے اس کی دیانت اور امانت داری کا یقین کیا جا سکے۔ یاد رہے کہ نگران حکومت کا تصور جمہوری حکومت نے نہیں دیا تھا۔ جمہوری حکومتیں البتہ اسے سرمایہ سمجھ کر گلے سے لگائے ہوئے ہں اور انہیں احساس ہی نہیں یہ اصل میں ان کے اخلاقی وجود پر عدم اعتماد ہےا ور ایک فرد جرم ہے۔ نگران حکومت کے موجودہ غیر منتخب ڈھانچے کے ہوتے ہوئے ہماری سیاست کے اخلاقی وجود کو کسی دشمن کی حاجت نہیں۔ یہ الگ بات کہ انہیں اس حادثے کی کوئی خبر ہی نہیں۔
آصف محمود
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
2 notes
·
View notes
Text
امریکی الیکشن پاکستانی نژاد امریکی سعود انور چوتھی بار سینیٹر منتخب
واشنگٹن (ڈیلی پاکستان آن لائن )امریکن پاکستانی سعود انور ریاست کنیکٹی کٹ سے سینیٹ کا مسلسل چوتھی بار رکن منتخب ہونے میں کامیاب ہو گئے۔سعود انور ریاست کے حلقہ نمبر 3 کی نمائندگی کر رہے ہیں، ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے امریکن پاکستانی نے 27 ہزار 359 ووٹ حاصل کئے جبکہ ان کے ری پبلکن حریف میٹ سیرا کوسا صرف 15 ہزار 57 ووٹ لے پائے۔سعود انور نے یکم مارچ 2019 کو یہ نشست پہلی بار جیتی تھی، اسی دور…
0 notes
Text
شفاف الیکشن اور حقیقی تبدیلی؟
سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود سینیٹ میں بار بارعام انتخابات کے التوا کی قرار داد کو منظور کرنا افسوس کا مقام ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ کچھ عناصر پاکستان میں جمہوری عمل کو پروان چڑھتا نہیں دیکھ سکتے اس لیے وہ ان مذموم حرکات سے باز نہیں آ رہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ترکی میں خوفناک زلزلے کے باوجود الیکشن کا پر امن انعقاد ہو سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا۔ الیکشن سے فرار کی راہیں تلاش کرنے والے درحقیت عوام کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں۔ بر وقت انتخابات سے ملک میں جمہوریت کو ��قویت ملے گی اور منتخب حکومت عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لئے اپنے ایجنڈے کے مطابق کام کر سکے گی۔ انتخابات کے التوا کی کوششیں درحقیقت توہین عدالت اور ملک و جمہوریت کے خلاف سازش ہے۔ ان حالات میں الیکشن کمیشن شفاف و غیرجانبدار انتخابات کیلئے تمام جماعتوں کو سیاست وانتخابی مہم چلانے کے برابر مواقع دینے کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرے۔ الیکشن میں تاخیر کی باتوں سے غیر جمہوری قوتیں مستحکم ہوں گی۔ بدقسمتی سے یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ایک مخصوص جماعت کے لئے اقتدار کی راہ ہموار کی جا ر ہے۔
شفاف اور منصفانہ انتخابات کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی و قانونی ذمہ داریہ ادا کرے۔ جب تک ملک میں منتخب حکومت برسر اقتدار نہیں آئے گی اس وقت تک اضطراب اور افراتفری کی صورتحال پر قابو نہیں پایا جا سکتا، مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن صاف شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنائے۔ انشااللہ آٹھ فروری، قوم کے حقیقی نمائندوں کی کامیابی کا دن ہو گا۔ قوم نے سب کو آزما لیا، کسی نے روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر بے وقوف بنایا، کسی نے پاکستان کے عوام کو ایشین ٹائیگر بنانے کا خواب دکھایا اور کسی نے ریاست مدینہ کا نعرہ لگا کر قوم کو دھوکہ دیا، سب کی حقیقت اب آشکار ہو چکی ہے۔ ملک و قوم آج جن مسائل کی زد میں ہیں جن میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا برابر کا حصہ ہے۔ تینوں نے بر سر اقتدار آکر آئی ایم ایف غلامی کو قبول اور ظالمانہ ٹیکس لگا کر مہنگائی میں اضافہ کیا۔ قو م کے پاس ان لوگوں سے نجات حاصل کرنے کا اب بہترین موقع ہے۔ دیانتدار، باکردار اور صاف ستھری قیادت ہی وطن عزیز کو ترقی کی شاہراہ پر ڈال سکتی ہے۔
ماضی میں بھی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی باریاں لے کر اقتدار حاصل کرتی رہیں۔پھر پی ٹی آئی، پی ڈی ایم کے بعد اب نگراں حکومت نے عوام کے جذبات کو بری طرح مجروع کیا ہے۔ گزشتہ ادوار میں کوئی ایک وعدہ بھی ایسا نہیں ہے جس کو انھوں نے پورا کیا ہو۔ ماضی میں بر سراقتدار آنے والی جماعتوں نے عوام کا معیار زندگی بہتر نہیں ہونے دیا جس کی وجہ سے پریشان حال عوام ان پارٹیوں سے مایوس ہو چکے ہیں اور پاکستان کیلئے کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔ ا�� پاکستانی قوم ملک میں حقیقی تبدیلی چاہتی ہے۔ ایک ایسی تبدیلی جس میں ملک کے ہر شہری کو عزت کے ساتھ روزگار ملے۔ تعلیم، صحت اور بنیادی سہولتیں ان کوحاصل ہوں۔ ہر فرد کو انصاف ملے۔ کوئی طاقتور کسی کمزور کا حق غصب نہ کر سکے۔ ایسی حقیقی تبدیلی جواب جماعت اسلامی ہی لاسکتی ہے اس نے کراچی، گوادر، خیبر پختونخواہ، پنجاب سمیت ملک بھر میں ہمیشہ مشکل وقت میں ڈیلیور کیا ہے۔ ہمارے ہاں جب تک اسمبلیوں کو کرپٹ افراد سے پاک نہیں کر لیا جاتا اس وقت تک حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔
پوری قوم گزشتہ حکومتوں کی غلط معاشی پالیسیوں کا خمیازہ اب تک بھگت رہی ہے۔ طرفا تماشا یہ ہے کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت اب 56 روپے تک پہنچ چکی ہے جبکہ قوم کو اسمیں مزید اضافے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ بجلی فی یونٹ 5 روپے 62 پیسے مذید مہنگی ہونے کا امکان ہے جس کی منظوری کی صورت میں صارفین پر 49 ارب سے زائد کا بوجھ پڑے گا۔ ایک طرف حکومت پٹرول کی قیمت میں کمی کرتی ہے تو دوسری جانب کسی اور چیز کی قیمت میں اضافہ کر کے عوام کی خوشی کو غارت کر دیا جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے عوام کو ریلیف نہ دینے کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ ہماری اشرافیہ نے بیرونی قرضوں کا 90 فیصد خود استعمال کیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر پاکستانی ڈھائی لاکھ کا مقروض ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ غریب کیلئے ہسپتالوں میں علاج نہیں ہے تعلیمی اداروں کے دروازے غریب کے بچے کیلئے بند ہیں، ملک پراس وقت 80 ہزار ارب کا قرضہ ہے۔
پاکستانی عوام انشا ء اللہ ووٹ کی طاقت سے اہل ودیانتدار لوگوں کو کامیاب کر کے ملک و اپنی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنائیں گے۔ آئندہ عام انتخابات کے بعد آنے والی حکومت کوملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لئے مالی بدعنوانی، ٹیکس چوری، حوالہ ہندی، اسمگلنگ میں ملوث افراد کا جڑ سے خاتمہ کرنا ہو گا۔ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات، چینی، آٹا سب کچھ عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکا ہے۔ قرضہ ہڑپ کرنے والوں اور کرپٹ افراد کی جائدادیں نیلام کر کے قومی خزانہ میں جمع کرائی جانی چاہئیں۔ 76 برسوں سے ملک میں تجربات کئے جا رہے ہیں۔ 13 جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے بھی اپنے سولہ ماہ کے دوران بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس وقت نوجوان رشوت اور سفارش کے بغیر نوکری نہیں حاصل کر سکتے۔ نوجوانوں کو ملازمت اور روزگار الاؤنس دیا جانا چاہیے۔ اگر دنیا کے کئی ممالک یہ سہولتیں دے سکتے ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ خوشحال مستقبل کیلئے سیاسی و معاشی استحکام ناگزیر ہو چکا ہے۔
محمد فاروق چوہان
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
الیکشن التوا پر سینیٹ کی قرارداد: ’کچھ قوتیں پاکستان میں انتخابی عمل پر اثر انداز ہونا چاہتی ہیں‘
http://dlvr.it/T10cNR
0 notes
Text
صدر پاکستان کا حیران کن ٹویٹ
آئین کا آرٹیکل 75 صدر مملکت کے بلوں کے حوالے سے اختیارات سے متعلق ہے۔ صدر آئین کے آرٹیکل 75 شق (1) کے تحت پارلیمان سے بھیجے گئے بل کی منظوری دیتے ہیں۔ دستخط نہ کرنے پر صدر پاکستان بل کی شق پر اعتراض تحریری طور پر 10 دن کے اندر واپس پارلیمان کو بھجوانے کا اختیار رکھتے ہیں۔ آئین پاکستان آرٹیکل 75 کے مطابق صدر مملکت کوئی بھی پارلیمان سے پاس کردہ بل پارلیمان کو بھیجتے ہیں تو اس کے پاس دو اختیار ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اس پر دستخط کر دیں، دوسرا آئینی اختیار یہ ہے کہ وہ 10 دن کے اندر مشاہدات، اعتراضات لگا کر اپنے دستخط کے ساتھ پارلیمنٹ کو واپس بھیج دیں۔ لیکن اب صدر مملکت نے دستخط سے انکار اور معافی کا ذکر کر کے آئین پاکستان کی تاریخ میں حیران کن طور پر رات گئے ایک ٹویٹ کر دیا کہ انہوں نے تو پارلیمنٹ سے آئے بل کو دستخط کیے بغیر سٹاف کو واپس کر دیا تھا اور یہ کہ وہ اس بل سے متفق نہیں تھے۔ یہ آئین پاکستان کے مطابق ایک غیر آئینی عمل ہے اور کچھ سنجیدہ سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ وہ یہ ہیں کہ صدر مملکت وضاحت کریں کس اسٹاف کو انہوں نے کب اور کیسے بلز واپس کیے تھے؟
کیا صدر مملکت نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 75 کے تقاضوں کو پورا کیا ؟ اور اگر ایسا کیا تو کیسے انہوں نے بغیر دستخط کیے بلز سٹاف کو واپس کر دیے تھے اور کس قانون کے مطابق انہوں نے یہ عمل کیا؟ ملک کے صدر نے اپنے سٹاف پر ان کی بات نہ ماننے کا الزام لگایا ہے تو صدر مملکت اپنا سرکاری بیان تحریری ثبوت کے ساتھ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کریں۔ انہوں نے دیگر باقی بلز اعتراضات کے ساتھ واپس کیے ویسے ہی یہ بل بھی واپس کیے تھے۔ آفیشل ایکٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر صدر مملکت کے دستخط جس کے بعد یہ دونوں بل باقاعدہ قانون کی حیثیت سے نافذ ہو گئے ہیں اور سائفر کے حوالے سے سرکاری رازوں کے افشا کے الزام میں تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی گرفتاری گذشتہ روز پیش آنے والے دو ایسے واقعات ہیں جو ملک کے سیاسی ماحول کو بہت متاثر کریں گے۔ دوسری جانب بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ صدر نے ان فائلوں پر دستخط ہی نہیں کیے تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں قوانین منظور ہی نہیں ہوئے۔
آئین کے آرٹیکل 75 کے مطابق اگر صدر کے پاس دس دن کا وقت ہوتا ہے، اس کے دوران کسی بل کو واپس بھیج دیں تو اسے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں دوبارہ پیش کیا جاتا ہے اور اس کے حق میں اکثریتی ووٹ آ جائے تو یہ قانون بن جاتا ہے۔ لیکن موجودہ صورت میں چونکہ قومی اسمبلی ہی نہیں ہے اس لیے مشترکہ اجلاس بلانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو��ا۔ اس لیے ان قوانین کے منظور ہونے کا معاملہ مشتبہ بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر کے ٹویٹ نے ایک آئینی بحران پیدا کر دیا ہے۔ بات صرف یہی نہیں ہے بلکہ سائفر کے معاملے نے بھی صورتِ حال کو مزید کشیدہ بنا دیا ہے۔ عمران خان کا سائفر بیانیہ بھی اعترافِ جرم ہی ہے کیوں کہ خفیہ خط کا متن اور اس کا مفہوم یعنی معلومات پبلک کرنا بھی سیکرٹ ایکٹ کے تحت آتا ہے۔ یہ معاملہ اتنا حساس ہوتا ہے کہ اس کو پڑھنے والا حیران ہو جاتا ہے۔ یہ حساس معلومات اپنے عہدے تک ہی رکھیں۔ سائفر خفیہ پیغام ہوتا ہے جس کو خفیہ رکھنا ضروری ہے۔ عمران خان نے سائفر کو ’لیک‘ کر کے اس کے کوڈ کو خفیہ رکھنے کی سرکاری رازداری کو نقصان پہنچایا۔
وزارت خارجہ کے رولز آف بزنس کے تحت سائفر صرف وزارت خارجہ کے پاس رہتا ہے اور جو وزیراعظم، صدر مملکت، آرمی چیف کے پاس جاتا ہے وہ سائفر نہیں جاتا بلکہ جو سائفر ہوتا ہے وہ اپنے لفظوں میں لکھ کر اس کا مفہوم وزارت خارجہ بھجواتا ہے۔ سائفر کو وزیراعظم سمیت کوئی نہیں دیکھ سکتا کیوں کہ یہ سائفر سکیورٹی کا قانون ہے۔ اب سائفر کیس کے حوالے سے جو اہم گرفتاریاں ہو رہی ہیں تو تمام حساس نوعیت کے معاملات عدالت کے روبرو پیش ہو جائیں گے۔ ایف آئی اے نے سائفر کے راز افشا کرنے پر ہی شاہ محمود قریشی کو حراست میں لیا ہے اور ان کے خلاف آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ایف آئی اے کے مطابق شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات 5 اور 9 کے علاوہ تعزیرات پاکستان کے سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نئی مردم شماری کے تحت حلقہ بندیوں کا شیڈول جاری کر دیا ہے اور یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ عام انتخابات کا انعقاد 90 روز میں ممکن نہیں کیوں کہ 14 دسمبر کو حلقہ بندیوں کے گزٹ نوٹیفیکیشن کے بعد الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 23 اور 36 کے تحت انتخابی فہرستوں کو ازسر نو غلطیوں سے پاک کیا جایے گا اور حلقہ بندیوں کے مطابق ترتیب دیا جائے گا اور ماضی کے اہم فیصلے جو سپریم کورٹ نے اس حوالے سے نافذ کیے تھے ان فیصلوں کی روشنی میں انت��ابی فہرستیں ازسرنو مکمل کرنے میں تین ماہ کا عرصہ درکار ہو گا جس میں نئی انتخابی فہرستوں کی پرنٹنگ بھی شامل ہے۔ لہٰذا قانون کے مطابق تمام مراحل مکمل ہونے پر ہی الیکشن کمیشن الیکشن ایکٹ کی دفعہ 57 کے تحت الیکشن شیڈول جاری کرے گا اور اس کے لیے ابھی خاص تاریخ کا تعین کرنا قبل از وقت ہے۔
کنور دلشاد
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
#Arif Alvi#Pakistan constitution#Pakistan Politics#Politics#President of Pakistan#President's House#World
0 notes
Text
’باپ رے باپ‘ ہمارے حکمراں
شاعر محسن بھوپالی مرحوم نے برسوں پہلے ہماری سیاست کو اس خوبصورت قطعہ میں سمو دیا تھا جمہوریت کی خیر ہو، اس مملکت کی خیر، جو وقت کے غلام تھے لمحوں میں بک گئے
چشم فلک نے دیکھا ہے ایسا بھی ماجرا لاکھوں کے ترجمان کروڑوں میں بک گئے
مجھے یہ قطعہ اس دن بہت یاد آیا جب 2018ء میں چیئرمین سینٹ کا انتخاب تھا دونوں امید واروں کا تعلق بلوچستان سے تھا ایک طرف موجودہ چیئرمین صادق سنجرانی تھے جنہیں سابق وزیر اعظم عمران خان، اس وقت کے مقتدر حلقہ اور اسی سال معرض وجود میں آنے والی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی حمایت حاصل تھی تو دوسری طرف اس وقت کی اپوزیشن کے متفقہ امیدوار اور صوبہ کے سابق گورنر میرغوث بخش بزنجو کے فرزند میر حاصل بزنجو مرحوم تھے۔ اپوزیشن کے پاس واضح اکثریت تھی جس کو انہوں نے اجلاس میں کھڑے ہو کر دکھایا بھی مگر جب ’بیلٹ باکس‘ کھلا تو حاصل ہار گیا اور سنجرانی جیت گئے ۔ ’ باپ رے باپ‘ اور خود حاصل کے بقول، ’’میرا مقابلہ سیاستدان سے نہیں فیض سے تھا مجھے تو ہارنا ہی تھا۔‘‘ شاید اس وقت کی اپوزیشن بھی اپنی قبولیت کا انتظار کر رہی تھی اس لیے انہوں نے اپنے اندر سے دبک جانے والوں کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی جبکہ اصولوں‘ پر یقین رکھنے والے کپتان اور ان کے حواریوں نے اسے سینیٹرز کی ’ضمیر‘ کی آواز کہا۔ ساڑھے تین سال بعد وقت نے کروٹ لی ’ضمیر پلٹ گیا، اور خان صاحب کو جو لوگ لائے تھے انہوں نے ہی گھر بھیج دیا اس بار اسے ’ضمیر‘ کے مطابق ووٹ دینے والوں نے کپتان کے خلاف ووٹ کہا۔
جو کچھ 2018 میں سینٹ میں ہوا وہ ہماری سیاست میں اسی سینٹ میں پھر ہوا اور اس بار تو ’خفیہ کیمرے‘ نے اسے محفوظ بھی کیا مگر نہ کوئی تحقیق نہ کوئی کارروائی سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی قومی اسمبلی میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود سینیٹر بھی بنے، چیئرمین سینیٹ کے امیدوار بھی اور پھر قائد حزب اختلاف بھی۔ سنجرانی پھر جیت گئے۔ ’باپ رے باپ، ہماری سیاست۔ لفظ ’ احساس محرومی‘ کا بھی خوب استعمال ہوتا ہے۔ ایک بار میں حاصل بزنجو کے ساتھ انکے والد کا انٹرویو کرنے کراچی میں ان کے دوسرے بیٹے بیزن کے گھر گیا میں نے پوچھا میر صاحب بلوچستان کا احساس محرومی کیسے دور ہو سکتا ہے۔ ان کا جواب تھا ’’ جب ہمارے حکمرانوں کو محرومی کا احساس ہو گا‘‘۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کا تعلق پنجاب سے تھا مگر 2013 کے الیکشن کے بعد انہوں نے بلوچستان کے حوالے سے ایک انتہائی مثبت سیاسی فیصلہ کیا اور مسلم لیگ (ن) کی اکثریت ہونے کے باوجود اپنے اتحادی بلوچستان کی ہی ایک معتبر سیاسی شخصیت اور نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک کو وزیراعلیٰ نامزد کیا مسلم لیگ کے صوبائی صدر ثنا اللہ زہری کی مخالفت کے باوجود ۔ میں اس دن مری میں ہی تھا جب یہ اجلاس چل رہا تھا میاں صاحب کی موجودگی میں شہباز شریف نے بڑی مشکل سے انہیں منایا مگر انہوں نے مشروط حمایت کی، ڈھائی۔ ڈھائی سال کی وزارت اعلیٰ کے فارمولہ پر۔ ابھی ثنا اللہ جو 2018ء میں وزیراعلیٰ تھے ڈاکٹر مالک کے بعد کی مدت پوری نہیں ہوئی تھی کہ ان کے خلاف پارٹی میں’ بغاوت‘ ہو گئی جس میں بیشتر وہ لوگ شامل تھے جنہوں نے عام انتخابات سے قبل ’ باپ بنائی، ’باپ رے باپ‘ کیا سیاست اور کیا ہمارا سیاسی مستقبل۔
سینیٹر انوار الحق کاکڑ ہمارے کئی سیاستدانوں کی طرح جماعتیں بدلتے رہتے ہیں ویسے بھی اس صوبہ سے تعلق رکھنے والے منتخب ہوں یا نگراں’ باپ‘ کے احترام میں ہر فیصلہ قبول کر لیتے ہیں ویسے بھی اس ملک کی سیاست اس وقت بھی اور پہلے بھی ’بزرگوں‘ کے پاس ہی رہی ہے۔ مگر انوار الحق پڑھے لکھے انسان ہیں اور گو کہ وہ اسکول میں بھی پڑھا چکے ہیں اور بلوچستان یونیورسٹی میں بھی اور تعلیمی مسائل کو بخوبی سمجھتے ہیں مگر کیا وہ اس مختصر وقت میں اس سمت میں کوئی اقدامات کر سکتے ہیں شاید نہیں، ویسے بھی ان کی تمام تر توجہ 90 روز میں عام انتخابات کروانے پر ہونی چاہئے۔ انہوں نے احسن فیصلہ کیا اپنی پارٹی اور سینٹ کی سیٹ سے استعفیٰ دے کر ورنہ تو ہمارے حکمرانوں نے ’ ایوانوں‘ کو اپنی اپنی جماعتوں کا ’گڑھ‘ بنا لیا ہے چاہے وہ ایوان صدر ہو، وزیراعظم ہائوس ہو، گورنر ہائوس ہو یا وزیر اعلیٰ ہائوس۔ جب آپ وزیر اعظم، صدر، گورنر یا وزیر اعلیٰ بنتے ہیں تو آپ ملک یا اپنے صوبہ کے ’باپ‘ کا درجہ رکھتے ہیں پارٹی کے حصار سے نکل کر لوگوں کی بلا امتیاز خدمت کرنی ہوتی ہے۔ نگراں وزیر اعظم تمام سیاسی جماعتوں بشمول پاکستان تحریک انصاف کو ایک ٹیبل پر بیٹھا کر ’ میثاق سیاست‘ پر بات چیت کا آغاز کرسکتے ہیں۔
سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو ایک غیر جماعتی بنیادوں پر منتخب ہونے والی اسمبلی کی نمائندگی کرتے تھے مگر انہوں نے ملک کی بڑی جماعتوں کو جو اس نظام کو قبول نہیں کرتی تھیں وزیر اعظم ہائوس میں دعوت دی اور افغانستان جیسے حساس معاملے پر اعتماد میں لے کر’جنیوا‘ گئے اور ایکارڈ کیا۔ آج کی صورتحال میں شاید یہ کام اتنا آسان نہیں خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب سابق وزیر اعظم عمران خان ’ اٹک جیل‘ میں تین سال کی قید اور پانچ سال کی نااہلی بھگت رہے ہیں اور ان کی جماعت کے ہزاروں کارکن جیلوں میں ہیں۔ کیا کاکڑ صاحب بہت زیادہ نہیں تو خاں صاحب کو اٹک سے اڈیالہ جیل منتقل کروا سکتے ہیں۔ وہ پی ٹی آئی کے قیدی جن پر 9 مئی یا سنگین مقدمات قائم نہیں ہیں ان کے حوالے سے کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ کیا وہ بحیثیت ’نگراں‘ جونیجو کی طرح شہری آزادیوں، میڈیا کی آزادی اور الیکشن میں تمام سیاسی جماعتوں کو ’ لیول پلینگ فیلڈ‘ دلوا سکتے ہیں۔ دوسرا بڑا کام جو شاید سب سے مشکل نظر آتا ہے وہ بلوچ قوم پرستوں، علیحدگی پسندوں، شدت پسندوں سے مذاکرات کا آغاز کریں۔ اگر طالبان سے بات چیت ہوسکتی ہے تو ان بلوچوں سے کیوں نہیں۔
بات چیت سے ہی دروازے کھلتے ہیں ’گھر کے بھی اور دل کے بھی، لاپتہ افراد کا مسئلہ شاید ان کے کیا کسی کے بس کی بات نہیں۔ اتنا مشکل نہیں جتنا ہم نے بنا دیا ہے۔ جو لوگ ’اٹھائے گئے ہیں وہ اسی ملک کے شہری ہیں اگر وہ سنگین جرائم میں ملوث ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کریں مقدمہ چلائیں اور سزا دیں، ان کے خاندان کے افراد کو ان سے ملنے دیں، جو اب اس دنیا میں نہیں رہے وہ اگر ماورائے عدالت مارے گئے تو ان کے والدین اور رشتہ داروں کو اعتماد میں لیں۔ یہ صرف بلوچستان کا ہی نہیں پورے ملک کا مسئلہ ہے کراچی سے خیبر تک۔ کاش پاکستان بننے کے بعد اس ملک سے جاگیرداری اور سرداری نظام کا خاتمہ کر دیا جاتا، جمہوریت کی صحیح سمت کا تعین ہو جاتا، نظریہ ضرورت، آمروں کے لیے نہیں جمہوریت کے لیے استعمال ہو جاتا تو آج نہ احساس محرومی کا سوال ہوتا نہ سیاسی محرومیوں کا۔ بلوچستان حساس صوبہ ہے اس کی حساسیت کا احساس کریں ’ نگرانی‘ نہیں اور مسئلہ حل کریں اور یہی کاکڑ صاحب کا کڑا امتحان ہے 90 روز صرف 90 روز خدارا !
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
ن لیگی سینیٹر نے بھی نئے الیکشن کے حق میں آواز بلند کردی
مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر مشاہد حسین سید نے بھی سینیٹ کے فورم پر نئے الیکشن کے حق میں آواز بلند کر دی ہے۔ اے آر وائی نیوز کے مطابق مسلم لیگ ن کے رہنما اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید سینیٹ اجلاس میں ملک میں جاری سیاسی افراتفری پر خاموش نہ رہ سکے اور نئے انتخابات کے حق میں آواز بلند کرتے ہوئے کہا کہ لولی لنگڑی حکومت سے بہتر ہے کہ نیا الیکشن کرایا…
View On WordPress
0 notes
Text
عام انتخابات ملتوی نہیں کر سکتے، الیکشن کمیشن نے سینیٹ قرارداد پر جواب دے دیا
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سینییٹ کی قرارداد پر انتخابات ملتوی کرنے سے معذرت کر لی ۔ الیکشن کمیشن حکام نے سینیٹ سیکرٹیریٹ کو خط لکھ کر بتایا ہے کہ سینیٹ میں 5 جنوری کو منظور کی گئی قرارداد کا جائزہ لیا ہے،صدر مملکت سے مشاورت کے بعد 8 فروری کو پولنگ کی تاریخ دی گئی تھی۔ الیکشن کمیشن کے مطابق امن و امان کی صورتحال یقینی بنانے کے لیے کمیشن نے نگران وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہدایات جاری کی ہیں۔ عام…
View On WordPress
0 notes
Text
الیکشن ایکٹ کی دوسری ترمیم کا گزٹ نوٹیفکیشن بھی جاری
الیکشن ایکٹ کی دوسری ترمیم مجریہ 2024ء کا گزٹ نوٹیفکیشن بھی جاری کردیاگیا۔ صدر مملکت کے دستخطوں کے بعد سینیٹ سیکرٹریٹ نے گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔صدر مملکت نے جمعرات کو الیکشن ایکٹ کی دوسری ترمیم مجریہ 2024ء پر دستخط کیے تھے۔صدر کی توثیق کے بعد الیکشن ایکٹ 2024 قانون کا درجہ حاصل کرچکا۔گزٹ نوٹیفکیشن کے ساتھ ہی یہ قانون نافذالعمل ہو گیا ہے۔گزٹ نوٹیفیکیشن کی کاپیاں تمام متعلقہ اداروں کو…
0 notes
Text
فیصل واوڈا سینیٹ رکنیت سے مستعفی
فیصل واوڈا سینیٹ رکنیت سے مستعفی
فیصل واوڈا نے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں استعفی دیا۔ اسلام آباد: فیصل واوڈا ایوان بالا سینیٹ کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے۔ فیصل واوڈا نے اپنا استعفی چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو پیش کردیا۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں استعفی دیا۔ وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر 2018ء میں سینیٹر منتحب ہوئے تھے۔ یہ بھی پڑھیں: فیصل واوڈا کی تاحیات نااہلی ختم، سینیٹر شپ سے مستعفی الیکشن کمیشن نے 2018 کے…
View On WordPress
0 notes
Text
ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے بعد امریکا کیسا ہو گا؟
امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی جماعت ریپبلکن پارٹی کی شاندار کامیابی کے بعد اب امریکا کیسا ہو گا؟ یہ سوال امریکا سمیت دنیا بھر میں گردش کر رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت نے امریکی اور بین القوامی سیاسی منظر نامے میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ امریکی صدارتی انتخابات میں عوام کی بڑی تعداد نے ڈونلڈ ٹرمپ کے جارحانہ طرزِ سیاست اور تبدیل شدہ امریکی پالیسیوں کو واپس لانے کی خواہش ظاہر کی۔
صدارتی الیکشن جیتنے والے ٹرمپ سے متعلق دلچسپ حقیقت امریکا میں ووٹرز کی اکثریت معاشی مسائل، امیگریشن قوانین کی سختی اور امریکی حکومت میں ڈرامائی تبدیلیاں چاہتی تھی، جسے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے منشور میں جگہ دی اور پھر کامیابی سے ہم کنار ہوئے۔ اس کامیابی کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ ایک ایسی حکومت کی تشکیل کا ارادہ رکھتے ہ��ں جو ان کے مخالفین پر کڑی نظر رکھے، بڑے پیمانے پر تارکینِ وطن کو نکالے اور امریکی اتحادیوں کے لیے سخت پالیسی بنائے۔ مذکورہ اقدامات کے ذریعے ٹرمپ ایک مضبوط امریکی قوم کا جو نظریہ پیش کر رہے تھے وہ نوجوان ووٹرز میں مقبول ہوا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کی حکومت میں کوئی روایتی رکاوٹ نہیں ہو گی کیونکہ انہوں نے پہلے سے ہی اپنی ایڈمنسٹریشن میں وفادار افراد کو اہم عہدوں پر تعینات کرنے کا عندیہ دیا ہے جو ان کے ہر حکم کو نافذ العمل کریں گے۔ اب صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی کامیابی کے بعد امریکی سیاست کے مستقبل پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں اور یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ وہ اپنی پالیسیوں پر کس حد تک عمل کروانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
صدارتی انتخابات کے نتائج کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے 295 الیکٹورل ووٹس کے ساتھ برتری حاصل کی ہے جبکہ کملا ہیرس کو صرف 226 الیکٹورل ووٹس ملے۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی اہم ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کسی بھی امیدوار کو 270 الیکٹورل ووٹس حاصل کرنے ہوتے ہیں۔ ریپبلکن پارٹی نے سینیٹ کی 52 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور ڈیموکریٹس پار��ی 43 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی، یوں اب ریپبلکن پارٹی کو سینیٹ میں اکثریت حاصل ہے۔ ایوان نمائندگان کانگریس میں ریپبلکن پارٹی نے 222 نشستیں حاصل کیں جبکہ ڈیموکریٹس پارٹی کو 213 نشستوں پرکامیابی ملی یعنی ریپبلکن پارٹی کو معمولی برتری حاصل ہے۔ ریاستی سطح پر گورنرز کی تعداد دیکھیں تو ریپبلکن پارٹی کے 27 امیدوار بطور گورنر منتخب ہوئے جبکہ ڈیموکریٹس پارٹی کے 23 امیدوار کامیاب ہوئے۔
جب ریپبلکن پارٹی نے ایوانِ نمائندگان کانگریس میں اکثریت حاصل کر لی ہے تو قانون سازی میں ان کا غلبہ متوقع ہے اور سینیٹ میں بھی ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، اس لیے ڈیموکریٹس پارٹی کے لیے کسی بھی بل کی منظوری میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح گورنرز کی تعداد میں بھی ریپبلکن پارٹی کی برتری برقرار ہے، لیکن ڈیموکریٹس پارٹی نے واشنگٹن، ڈیلاویئر اور نارتھ کیرولائنا جیسی اہم ریاستوں میں کامیابی حاصل کر لی ہے اور گورنرز ریاستوں کی سطح پر اہم فیصلوں میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں جن میں تعلیم، صحت اور گن کنٹرول جیسے موضوعات شامل ہیں تو یہ ترتیب ڈونلڈ ٹرمپ کے آئندہ ایجنڈے پر اثر ڈال سکتی ہے۔ حالیہ صدارتی انتخابات کے بعد امریکی عوام کو ریپبلکن پارٹی کی حکمتِ عملی سے جو توقعات ہیں ان میں معاشی اصلاحات، امیگریشن کنٹرول اور امریکا کی عالمی پوزیشن کو دوبارہ مضبوط کرنا شامل ہیں۔
کانگریس اور سینٹ میں اکثریت ہونے کی وجہ سے ریپبلکن پارٹی کو اپنے قوانین اور پالیسیز نافذ کرنے میں ڈیموکریٹس پارٹی کی مخالفت کا سامنا کم کرنا پڑے گا۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں امریکی عوام ٹیکس میں چھوٹ، قومی سلامتی میں سختی اور عالمی اتحادیوں کے ساتھ محتاط رویہ اختیار کیے جانے کی توقع کر رہے ہیں۔ دوسری جانب ڈیموکریٹس پارٹی شکست کے بعد اب ایک چیلنجنگ پوزیشن میں آ گئی ہے جہاں انہیں ایوان میں اپنے ایجنڈے کو برقرار رکھنے کے لیے کوئی زبردست حکمتِ عملی اپنانی ہو گی کیونکہ وہ مستقبل میں اپوزیشن کی حیثیت سے کام کریں گے اور ہو سکتا ہے کہ وہ ممکنہ طور پر بعض اقدامات کو روکنے کے لیے مختلف فورمز پر اپنی آواز بھی بلند کریں۔ حالیہ صدارتی انتخابات امریکی سیاسی نظام کے مستقبل کو ایک نئی سمت کی طرف لے گئے ہیں اور عوام کے لیے یہ تبدیلی کئی اہم معاملات پر اثر انداز ہو گی۔
ٹرمپ کی پالیسیاں ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کا مرکز سب سے پہلے امریکا ہے اور ان کی معاشی پالیسی امریکا میں کاروبار اور ملازمتوں کو فروغ دینے کے لیے ٹیکس کٹوتیاں اور تجارتی معاہدوں میں ترامیم ہیں جن کا مقصد ملک کی معیشت کو مضبوط بنانا ہے۔
ٹرمپ کی خارجہ پالیسی ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں نیٹو اور عالمی اداروں میں امریکی اخراجات پر نظر، چین کے ساتھ تجارتی جنگ، ایران پر دب��ؤ ڈالنا اور مشرق وسطیٰ میں امریکا کی موجودگی کو کم کرنا ہے۔ وہ امیگریشن پالیسی میں سرحدی حفاظت اور غیر قانونی امیگریشن روکنے کے لیے سخت اقدامات اور دیوار کی تعمیر پر زور بھی دیتے ہیں۔
ماحولیاتی پالیسی ماحولیاتی پالیسی میں ڈونلڈ ٹرمپ صنعتی ترقی کے لیے ماحولیاتی پابندیوں کو کم کر کے اور پیرس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرناچاہیں گے، یہ تمام پالیسیاں بقول ان کے امریکی معیشت، سماج، اور دفاع کو مستحکم بنانے کے لیے ہیں۔
ٹرمپ کے مسلمانوں کے بارے میں خیالات ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیانات کی روشنی میں یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ مسلمان کاروباری افراد اور نوجوانوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔
ٹرمپ سپریم کورٹ پر کیسے اثر انداز ہو سکتے ہیں؟ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت دہائیوں تک سپریم کورٹ میں قدامت پسند اکثریت کو یقینی بنا سکتی ہے، ویسے وہ اپنے پہلے پچھلے دورِ اقتدار میں 3 سپریم کورٹ کے ججز تعینات کر چکے ہیں جبکہ اب اپنے دوسرے دورِ اقتدار میں انہیں مزید 2 ججز نامزد کرنے کا بھی موقع مل سکتا ہے جس سے ایک ایسی سپریم کورٹ تشکیل پائے گی جس میں ان کے تعینات کردہ ججز کی اکثریت دہائیوں تک قائم رہے گی۔ یہ فیصلہ کن نتیجہ عدالت کو انتخابی تنازعات میں الجھنے سے محفوظ رکھے گا اور اس سے امیگریشن جیسے اہم معاملات کے مقدمات کی نوعیت بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔ اس وقت امریکی سپریم کورٹ میں 2 معمر ترین ججز موجود ہیں جن میں 76 سالہ جسٹس کلیرنس تھامس اور دوسرے 74 سالہ جسٹس سیموئل الیٹو ہیں گو کہ امریکا میں ججز کی تعیناتی تاحیات ہوتی ہے لیکن یہ دونوں اپنی عمر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ریٹائر بھی ہو سکتے ہیں۔ یوں ڈونلڈ ٹرمپ کو اگر 2 نئے ججز تعینات کرنے کا موقع ملا تو وہ ایسے ججز نامزد کریں گے جو جسٹس کلیرنس تھامس اور جسٹس سیموئل الیٹو سے تقریباً 3 دہائیاں کم عمر ہوں اور اس طرح سپریم کورٹ پر طویل عرصے تک قدامت پسندانہ ججز کا غلبہ یقینی ہو گا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
فیصل واوڈا سینیٹ کی نشست پر بحال، نثارکھوڑو فارغ -
فیصل واوڈا سینیٹ کی نشست پر بحال، نثارکھوڑو فارغ –
فیصل واوڈا سینیٹ کی نشست پر بحال جب کہ پیپلزپارٹی کے نثار کھوڑو فارغ ہو گئے۔ الیکشن کمیشن نے فیصل واوڈا کی سینیٹ کی نشست خالی ہونے کا نوٹیفکیشن واپس لےلیا۔ فیصل واوڈا سندھ کی نشست پر سینیٹر منتخب ہونے کا 10مارچ 2021 کا نو ٹیفکیشن بحال کر دیا گیا ہے۔ فیصل واوڈا بحالی کے بعد عدالتی فیصلے کے مطابق سینیٹ سے استعفیٰ دے سکیں گے۔ الیکشن کمیشن نے نثارکھوڑو کی سینیٹ کی نشست پر کامیابی کا نوٹیفکیشن واپس…
View On WordPress
0 notes
Text
حکومت نے سینیٹ انتخابات میں کروڑوں روپے رشوت کے لئے استعمال کیے، مریم اورنگزیب
حکومت نے سینیٹ انتخابات میں کروڑوں روپے رشوت کے لئے استعمال کیے، مریم اورنگزیب #MaryamAurangzaib #PMLN #Pakistan #aajkalpk
لاہور: مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت نے سینیٹ انتخابات میں کروڑوں روپے رشوت کے طور پر استعمال کیے. ہمارے پاس ثبوت موجود ہے کہ حکومت نے اراکین اسمبلی کو سینیٹ انتخابات میں سیاسی رشوت کے طور پر فنڈز دئیے جس پر الیکشن کمیشن کو نوٹس لینا چاہیے ۔ان کا کہنا تھا کہ عمران صاحب عزت کا ایک ہی راستہ ہے کہ ملک میں نئے الیکشن کرائیں اور مزید رسوائی اپنے مقدرمیں نا لکھوائیں۔ اسلام آباد…
View On WordPress
0 notes