#سنبھالنے
Explore tagged Tumblr posts
topurdunews · 2 months ago
Text
ٹرمپ نے صدر کا عہدہ سنبھالنے سے قبل غیر قانونی تارکین کے بارے بڑا اعلان کر دیا
واشنگٹن (ویب ڈیسک) امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن کی بے دخلی کا وقت آن پہنچا ہے اور یہ امریکی تاریخ کی سب سے بڑی بے دخلی ہو گی۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے انتخابی وعدے کے مطابق ملک سے غیر قانونی تارکین وطن کو نکالنے کے فیصلے پر عملدرآمد کا عندیہ دے دیا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے غیر قانونی افراد کو جبری بے دخل کرنے…
0 notes
urdu-poetry-lover · 1 year ago
Text
تجھ سے ناراض نہیں زندگی، حیران ہوں میں
تیرے معصوم سوالوں سے پریشاں ہوں میں
جینے کے لیے سوچا ہی نہیں، درد سنبھالنے ہوں گے
مسکرائیں تو مسکرانے کے قرض اتارنے ہوں گے
مسکراؤں کبھی تو لگتا ہے جیسے ہونٹوں پہ قرض رکھا ہے
تجھ سے ناراض نہیں زندگی، حیران ہوں میں
تیرے معصوم سوالوں سے پریشاں ہوں میں
آج اگر بھر آئی ہے بوندیں، برس جائیں گی
کل کیا پتا ان کے لیے آنکھیں ترس جائیں گی
جانے کب گم ہوا کہاں کھویا ایک آنسو چھپا کے رکھا تھا
تجھ سے ناراض نہیں زندگی، حیران ہوں میں
تیرے معصوم سوالوں سے پریشاں ہوں میں
زندگی تیرے غم نے ہمیں رشتے نئے سمجھائے
ملے جو ہمیں دھوپ میں ملے چھاؤں کے ٹھنڈے سائے
تجھ سے ناراض نہیں زندگی، حیران ہوں میں
تیرے معصوم سوالوں سے پریشاں ہوں میں
گلزارِ
10 notes · View notes
the-royal-inkpot · 1 year ago
Text
اہل بیعت اور اہل بیت
ابراھیم سے لے کر محمد تک ایک ہی شجرہ ہے۔سب انبیاء اسی نسب سے نازل ہوتے رہے۔
اہل بیت کا سلسلہ محمد پر آ کر ختم ہوا۔
پھر اہل بیعت کا سلسلہ چل پڑا یعنی خلافت۔یہ روحانی اولاد تھی نا کہ جسمانی اولاد۔
آج بھی یہ تنازعہ موجود ہے۔
جسمانی علاج خود کو نبی اور اسلام کا وارث سمجھتی ہے،چھاتیاں پیٹتی ہے اور ماتم کرتی ہے جبکہ روحانی اولاد نبوت و خلافت کے خواص کو شجرہ میں منتقل کرنا مکروہ و ممنوع سمجھتی ہے۔
کیا یہ طاقت کی بھوک ہے یا واقعی نبوت کی شاخ کو سنبھالنے کا جوش ہے۔اس کا جواب آپ دیں گے۔
برس ہا برس سے وراثت بیٹوں میں منتقل ہوتی رہی۔حتی کہ نبوت نے بھی ایک وراثت کا لبادہ اوڑھا اور بیٹوں میں منتقل ہوتی رہی۔نبی کے بعد اس کا بیٹا نبی اور پھر اس کے بعد اس کا بیٹا بھی نبی اور پھر نبی در نبی در نبی۔
رسول اللہ کی آمد کے بعد جب آپ کے ہاں بیٹوں کی پیدائش ہوئی تو غیر معمولی طور پر آپ کے بیٹے فوت ہوتے گئے۔کچھ مورخین کا کہنا ہے کہ جن افراد نے نبی کی موت کے بعد خلافت سنبھالی وہی لوگ رسول اللہ کے بیٹوں کو زہر دینے میں بلاواسطہ شامل تھے۔بلاواسطہ یوں کہ جب خلافت علی ابن طالب کے بجائے ابوبکر کو منتقل ہوئی تو وہی لوگ گروہ بندی کرنے میں سب سے آگے تھے جنہوں نے رسول اللہ کے بیٹوں کو زہر دے کر بچپن میں ہی مار دیا تھا۔انہی لوگوں نے پس پردہ یہ راگ الاپا کہ وراثت میں نبوت کو منتقل کرنا مکروہ ہے کیونکہ رسول اللہ اپنی ذات کو کبھی ترجیح نہیں دیتے تھے اس لیے علی خلیفہ نا بنے۔
3 notes · View notes
googlynewstv · 3 days ago
Text
صدر اور وزیراعظم کی ٹرمپ کو عہدہ صدارت سنبھالنے پر مبارکباد
صدر مملکت آصف علی زرداری  اور وزیراعظم شہباز شریف نے ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکا کے47 ویں صدر کے طور پر عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد پیش کی ہے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نےنئےامریکی صدر کیلئےنیک خواہشات کا اظہار کیا ہے جبکہ وزیراعظم شہباز شریف نےایکس پراپنےٹویٹ میں کہا ہےکہ میں ان کے ساتھ مل کر امریکا اور پاکستان کی دیرینہ شراکت داری کو مزید مستحکم کرنےکا متمنی ہوں۔ وزیراعظم شہباز شریف نےمزید کہا کہ برسوں…
0 notes
sunonews · 3 days ago
Text
0 notes
psl2025schedule · 24 days ago
Text
📣 کرکٹ شائقین کے لیے بڑی خبر! 🏏
جنوبی افریقہ 🇿🇦 کے شاندار رائٹ ہینڈ بیٹر رسی وین ڈر ڈوسن ایک بار پھر ایچ بی ایل پی ایس ایل ڈرافٹ میں واپس آ رہے ہیں! 💥
اپنی مستقل مزاجی، کلاس، اور دباؤ میں اننگز کو سنبھالنے کی صلاحیت کے لیے مشہور، رسی نہ صرف شاندار بیٹنگ کا ہنر لاتے ہیں بلکہ کھیل میں قابلِ اعتماد کارکردگی کی ضمانت بھی ہیں۔ چاہے بڑے ہدف کا تعاقب ہو یا شراکت داری بنانا، یہ اسٹار کھلاڑی اس سیزن میں ڈرافٹ کا سب سے بڑا انتخاب ثابت ہو سکتا ہے! 🔥
آپ کے خیال میں یہ اسٹار کس ٹیم کا حصہ بنے گا؟ اپنی پیشگوئیاں نیچے کمنٹ کریں! ⬇️
#HBLPSL #PSL2024 #RassieVanDerDussen #CricketLovers #PSLDraft
1 note · View note
dr-jan-baloch · 26 days ago
Text
Tumblr media
In 2019 when the princess of England visited Pakistan, those whose ancestor's job was to handle dogs of britishers, the same job given to them after 70 years so that the memory of the slaves is not weakened.
Look at the picture if you can't believe.
برطانیہ کی شہزادی جب 2019 میں پاکستان آئی تو جن کے اباواجداد انگریزوں کے کتے نہلاتے تھے ٹھیک 70 سال بعد بھی انکو وہی کتے سنبھالنے کا کام دیا گیا تاکہ غلاموں کی یاداشت ک��زور نہ ہوجائے
اگر یقین نہیں اتا تو یہ تصویر دیکھ لو
0 notes
emergingpakistan · 8 months ago
Text
’پاکستان افغانستان کے ساتھ خراب تعلقات کا متحمل نہیں ہوسکتا‘
Tumblr media
لوگوں کی بڑی تعداد کا خیال رہا ہے کہ پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع اس کا اہم اثاثہ ہے۔ لیکن یہ پاکستان کے لیے ایک بڑا چینلج بھی رہا ہے۔ درحقیقت اس ’جغرافیائی اہمیت‘ نے پاکستان اور اس کے عوام پر کافی بوجھ ڈالا ہے۔ چونکہ پاکستان ایک متزلزل خطے میں واقع ہے، اس لیے اکثر عالمی طاقتوں کے مفادات کی جغرافیائی سیاست، پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ پاکستان خطے کے کئی تنازعات کی زد میں آچکا ہے جبکہ اسے افغانستان میں جنگ اور اندرونی کشمکش کے کثیرالجہتی نتائج کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ غیرمحفوظ سرحدیں بشمول متنازع سرحدیں، ایک مشتعل ہمسایہ و دیگر ہمسایہ ممالک میں غیرمستحکم حالات نے پاکستان کے لیے اس ضرورت پر زور دیا ہے کہ وہ دفاعی حکمت عملی اور سیکیورٹی پالیسیز مرتب کرے تاکہ تشویش ناک صورت حال سے بچا جاسکے۔ بیک وقت دو محاذوں پر مقابلہ کرنا کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ آج ہمارے ملک کے اپنے تین ہمسایوں کے ساتھ کشیدہ تعلقات ہیں جبکہ دو کے ساتھ تو سرحدوں کی صورت حال خراب ہے۔ تیسرے ہمسایہ ملک کے ساتھ بھی بارڈر منیجمنٹ کے مسائل حل طلب ہیں۔ اس پس منظر میں افغانستان کے ساتھ موجودہ کشیدہ تعلقات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ افغانستان کے ساتھ مستحکم تعلقات، پاکستان کے لیے اسٹریٹجک طور پر کافی اہم ہیں۔ لیکن گزشتہ 18 ماہ سے تعلقات مسلسل خراب ہو رہے ہیں اور اب یہ تاریخی طور پر خراب ترین ہو چکے ہیں۔
یہ پالیسی سازوں کی توقعات کے برعکس ہے جن کا خیال تھا کہ 2021ء میں طالبان حکومت کے برسراقتدار آنے سے پاکستان کو اپنی مغربی سرحدیں محفوظ بنانے میں مدد ملے گی۔ اس کے بجائے پاک-افغان سرحد پر کشیدگی اور دہشت گرد حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا جن میں پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان میں اپنے محفوظ ٹھکانوں سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی پُرتشدد سرگرمیوں میں اضافے نے پاکستان کی سلامتی کے سنگین خطرات کو جنم دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی یکے بعد دیگرے سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق، یہ حیران کُن بات نہیں تھی کہ ’افغانستان میں طالبان کے قبضے سے تمام غیر ملکی انتہا پسند گروپس میں سب سے زیادہ فائدہ ٹی ٹی پی نے اٹھایا‘۔ اس جائزے نے اہم نکتہ اٹھایا کہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد کابل کی ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی نہ کرنے اور افغانستان میں اس کے دوبارہ منظم ہونے سے پاکستان کی سلامتی کے متعلق سنگین خطرات پیدا ہوئے۔
Tumblr media
نومبر 2022ء میں پاکستانی حکام اور ٹی ٹی پی کے درمیان افغان طالبان کی ثالثی میں جنگ بندی پر آمادگی کے بعد سے پاکستان پر سرحد پار حملوں میں اضافہ ہوا۔ یہ پاکستان کا غلط اقدام تھا جس نے اس قلیل مدتی جنگ بندی کو انتہاپسند گروپس کے خلاف 14 سالہ جنگ کے خاتمے کےطور پر لیا۔ کالعدم گروپس نے کبھی بھی جنگ بندی کی پاس داری نہیں کی بلکہ پاکستان میں اپنی جڑوں کو مضبوط بنانے کے لیے اس وقت کا فائدہ اٹھایا۔ گزشتہ دو سال کے دوران پاکستان نے افغانستان کے طالبان حکمرانوں کو ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے قائل کرنے کی خوب کوشش کی لیکن اس کے کوئی نتائج سامنے نہیں آئے۔ مذاکرات کے کئی ادوار میں پاکستانی حکام نے کابل پر زور دیا کہ وہ ٹی ٹی پی کو پسپا کریں، اس کے رہنماؤں کو حراست میں لے اور ان کی پُرتشدد سرگرمیوں پر لگام ڈالیں۔ طالبان رہنماؤں نے کارروائی کی یقین دہائی کروائی، اس کے لیے وقت طلب کیا لیکن کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔ اس رویے نے پاکستان کو مایوس کیا بالخصوص جب سرحد پار ٹھکانوں سے بڑھتی ہوئی دہشت گرد کارروائیوں میں سیکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا۔
ملٹری اور حکومتی رہنماؤں نے کابل پر زور دیا اور تشویش کا اظہار کیا کہ ’ٹی ٹی پی کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں دستیاب ہیں اور انہیں پاکستان میں کارروائیوں کی آزادی حاصل ہے‘۔ طالبان رہنماؤں سے کہا گیا کہ وہ پاکستان اور ٹی ٹی پی میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں اور ساتھ ہی کہا کہ اگر کوئی ردعمل نہیں دیا گیا تو اسلام آباد کارروائی کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ گزشتہ ہفتے وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے ایک پریس کانفرنس میں کابل پر اظہارِ برہمی کیا۔ مارچ میں بشام کے علاقے میں چینی شہریوں پر ہونے والے حملے کا ذمہ دار ٹی ٹی پی کو ٹھہراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی نے اس حملے کو افغانستان میں اپنے ٹھکانوں سے ایک ’فلیگ شپ پروجیکٹ‘ کے طور پر ’دشمن کی خفیہ ایجنسیز‘ کے تعاون سے ترتیب دیا تھا۔ انہوں نے افغان حکومت سے مطالبہ کیا کہ انہیں حملے میں ملوث دہشت گردوں کو گرفتار کرے، مقدمہ چلائے یا انہیں پاکستان کے حوالے کرے۔
محسن نقوی نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے مسلسل زور دینے کے باوجود طالبان حک��مت نے سرحد پار ٹھکانوں سے پاکستان پر دہشت گرد حملوں کو روکنے کے لیے اقدامات نہیں کیے۔ گزشتہ ہفتے ہونے والی کور کمانڈر�� کانفرنس میں بھی ’مسلسل سرحد پار دہشت گرد حملوں‘ پر شدید تشویش کا اظہار اور کہا گیا کہ ’دشمن غیرملکی عناصر افغانستان کو استعمال کر رہے ہیں‘ تاکہ پاکستان میں سیکیورٹی اہلکاروں اور شہریوں کو نشانہ بنایا جاسکے۔ صبر کا پیمانہ لبریز ہونے پر گزشتہ سال پاکستان نے افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسیز کو سخت کیا تھا۔ اس کے بعد سے پاکستان نے طالبان حکام کو ٹی ٹی پی کی سرپرستی سے باز نہ آنے پر کئی اقدامات کیے۔ اس حوالے سے پاکستان کے سخت اقدامات میں 4 اہم عناصر شامل تھے۔ پہلا اور سب سے اہم حال ہی میں افغانستان میں ٹی ٹی پی کی پناہ گاہوں پر ایئر اسٹرائیکس تھیں۔ ماضی کے برعکس اس بار پاکستان نے اعلان کیا کہ اس نے سرحد پار ٹھکانوں پر فضائی کارروائی کی ہے۔ 
اس پر کابل کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آیا اور سرحد کی کشیدگی میں بھی اضافہ ہوا۔ لیکن اسلام آباد نے متنبہ کیا تھا کہ جب تک طالبان حکومت ٹی ٹی پی کے حوالے سے اپنی حکمت عملی نہیں بدلے گی تب تک پاکستان اس طرح کی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ اس حوالے سے دوسری سخت پالیسی ٹرانزٹ تجارت پر پابندیاں تھیں جن میں گزشتہ سال اکتوبر میں پاکستان کے راستے افغانستان میں متعدد اشیا کی درآمدات پر پابندی شامل تھی۔ اس پالیسی کا مقصد جہاں اسمگلنگ کو روکنا تھا وہیں اس نے کابل پر دباؤ بڑھانے کا سیاسی مقصد بھی پورا کیا۔ لیکن طالبان اس امر کو نہیں سمجھے بلکہ انہوں نے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ وہ تجارت کے معاملے میں سیاست کررہے ہیں۔ بعدازاں پاکستان نے کچھ حد تک ان پابندیوں میں نرمی برتی تاکہ طالبان اپنے رویے پر نظرثانی کریں۔ تیسرا عنصر پاکستان میں مقیم تقریباً 7 لاکھ افغان تارکین وطن کو ملک بدر کرنا تھا جس کا اعلان بھی گزشتہ سال اکتوبر میں کیا گیا۔ اس پر عمل درآمد کرتے ہوئے تقریباً 5 لاکھ افغان شہریوں کو افغانستان واپس بھیج دیا گیا۔ 
اسی سلسلے کا دوسرا مرحلہ تقریباً 6 لاکھ افغان باشندوں کو ملک بدر کرنے کے فیصلے کے ساتھ شروع ہو گا جن کے پاس چند سال قبل حکومت پاکستان کی جانب سے جاری کیے گئے شہری کارڈ ہیں۔ افغانستان کے لیے پاکستان کی سخت پالیسی کا چوتھا عنصر، افغان حکومت کی سرحد پار حملوں کو روکنے کی باقاعدہ عوامی مذمت شامل ہے۔ مثال کے طور پر آئی ایس پی آر بارہا کہتا رہتا ہے کہ ’افغان عبوری حکومت نہ صرف دہشت گردوں کو مسلح کر رہی ہے بلکہ پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث دہشت گرد تنظیموں کو محفوظ پناہ گاہیں بھی فراہم کر رہی ہے‘۔ وزرا بھی کچھ اسی طرح کے بیانات دیتے نظر آتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کے ان سخت اقدامات کے نتائج کیا سامنے آئے؟ اگر ٹی ٹی پی کے حملوں کو دیکھیں تو ان میں کمی نہیں آئی۔ نہ ہی وزیرداخلہ کے بیانات سے طالبان حکومت کے رویے میں کوئی تبدیلی آئی۔ پاکستان کے لیے پریشان کُن امر یہ ہے کہ وہ افغانستان کے ساتھ خراب تعلقات کا متحمل نہیں ہو سکتا بالخصوص ایسے حالات میں کہ جب اسے دیگر سرحدوں پر بھی پریشانیوں کا سامنا ہے۔
لہٰذا یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح کی سخت پالیسی اپنانے سے وہ نتائج سامنے نہیں آئیں گے جو ہم چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے ہمیں سزا اور جزا کی زیادہ نفیس حکمت عملی اپنانی ہو گی۔ یعنی اچھے رویے پر انعام دینا ہو گا جبکہ خراب رویے پر طالبان حکومت کو نتائج کا سامنا کرنا ہو گا۔ اسلام آباد کو افغانستان کے قریبی دیگر ہمسایوں بالخصوص چین کے ساتھ کام کر کے ایک حکمت عملی تیار کرنی چاہیے تاکہ طالبان حکومت کو آمادہ کیا جاسکے کہ وہ اپنی پالیسی میں تبدیلی لائیں۔
ملیحہ لودھی 
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
risingpakistan · 9 months ago
Text
بیرونی قرضوں پر انحصار سے نجات کیسے؟
Tumblr media
پاکستان اپنے قیام سے ہی غیر ملکی قرضوں پر بہت زیادہ انحصار کرتا آ رہا ہے۔ اس رجحان میں گزشتہ چند سالوں کے دوران خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت پاکستان کے قرضوں کا حجم مجموعی قومی پیداوار کے 90 فیصد تک پہنچ چکا ہے جو کہ مالیاتی رسک اور قرض کی حد بندی ایکٹ 2005ء کی مقرر کردہ 60 فیصد حد سے بھی زیادہ ہے۔ بیرونی قرضوں کے حجم میں اضافے کی وجہ سے گزشتہ بیس سال کے دوران قومی ترقیاتی اخراجات کا حجم 20 فیصد سے کم ہو کر 12 فیصد پر آ گیا ہے جس کی وجہ سے صحت اور تعلیم جیسے اہم شعبوں پر حکومتی سرمایہ کاری مسلسل کم ہو رہی ہے۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ ماضی میں ترقی کی شرح میں اضافے کیلئے قرض لینے کی پالیسی کے قومی معیشت پر مثبت اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بیرونی قرضے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو تجارتی خسارے کو سنبھالنے اور اہم شعبوں کو فنڈ دینے کیلئے مالی معاونت کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ اس صورتحال میں نئی حکومت کیلئے جاری معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ وہ مختلف ترقیاتی اشاریوں اور جمع شدہ غیر ملکی قرضوں کے درمیان روابط کا باریک بینی سے تجزیہ کرے۔
اس طرح کی جانچ پڑتال ملک کے معاشی بحرانوں سے نمٹنے اور پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کیلئے موثر حکمت عملی وضع کرنے کیلئے ضروری ہے۔ ہمارے لئے یہ موازنہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ پاکستان کی معیشت اس وقت جس معاشی بحران سے دوچار ہے اس کی بڑی وجہ بیرونی قرضوں کا بڑھتا ہوا حجم ہے جو معاشی استحکام کیلئے خطرہ بن چکا ہے۔ قومی معیشت پر بیرونی قرضوں کے بوجھ کی ایک بڑی وجہ پاکستان کی آبادی میں ہونے والا تیز رفتار اضافہ بھی ہے۔ اس خطرے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آبادی کے حجم کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جبکہ معاشی لحاظ سے پاکستان دنیا میں 46ویں نمبر پر ہے۔ اس کے برعکس امریکہ، چین اور بھارت ناصرف آبادی کے اعتبارسے دنیا کے تین بڑے ممالک ہیں بلکہ معاشی لحاظ سے بھی وہ دنیا کی بڑی معاشی طاقتیں ہیں۔ یہ حالات معاشی اور مالیاتی نظم و نسق میں خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ دیگر ترقی پذیر ممالک بھی بیرونی قرضوں کو مالیاتی خسارہ پورا کرنے اور ترقیاتی منصوبوں کو فنڈ دینے کیلئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہ قرضے براہ راست اور بالواسطہ طور پر تجارت، افراط زر، شرح مبادلہ، کھپت، سرمایہ کاری، جی ڈی پی کی ��مو اور قرضوں کی ادائیگی جیسے معاشی عوامل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
Tumblr media
اس وقت پاکستان جس معاشی بدحالی کے دہانے پر کھڑا ہے اس کا تقاضا ہے کہ بیرونی قرضوں پر انحصار کم کر کے فنڈنگ کے ذرائع کو متنوع بنا کرپائیدار ترقی کو فروغ دینے اور قرض کے انتظام کی صلاحیت کو بہتر بنانے پر کام کیا جائے۔ علاوہ ازیں کرنسی کی قدر میں کمی، افراط زر، سیاسی عدم استحکام اور متضاد اقتصادی پالیسیوں جیسے عوامل کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو غیر ملکی قرضوں پر کم انحصار کو ترجیح دیتے ہوئے طویل مدتی قرض کے انتظام کی ایک جامع حکمت عملی وضع کرنی چاہئے۔ یہ حکمت عملی موجودہ قرضوں کی ادائیگی، نئے قرضوں کے جمع ہونے کو روکنے اور فنڈنگ کے ذرائع کو متنوع بنانے پر مشتمل ہونی چاہئے۔ قرض لینے کی لاگت کو کم کر کے، قرض کی پائیداری کو بڑھا کر، سرمایہ کاروں کے اعتماد و شفافیت کو فروغ دے کر اور اقتصادی ترقی کو سہارا دے کربیرونی قرضوں کو لاحق خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے روایتی عالمی مالیاتی اداروں سے ہٹ کر غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنا، بین الاقوامی منڈیوں میں بانڈز جاری کرنا، مالی امداد کے متبادل راستے تلاش کرنا مخصوص قرض دہندگان پر انحصار کم کر سکتا ہے۔
چین، بھارت اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک فنڈنگ کے ذرائع کو متنوع بنا کر عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں سےنجات حاصل کر چکے ہیں۔ علاوہ ازیں چین کی جانب سے مختلف کرنسیوں میں قرض کے اجراء نے کرنسی کے اتار چڑھاو کے اندیشے کو کم کیا ہے اور سرمایہ کاروں کی منڈیوں کو وسیع کیا ہے۔ ہندوستان کی طرف سے مختلف کرنسیوں میں بانڈز جاری کرنے سے قرض لینے کی لاگت کم ہوئی ہے۔ جنوبی افریقہ کی جانب سے سکوک بانڈز کے اجراء نے اپنے سرمایہ کاروں کی بنیاد کو متنوع بنانے کے لیے اسلامی مالیاتی اصولوں کی تعمیل کرتے ہوئے فنڈنگ کے نئے ذرائع کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ بیرونی قرضوں پر معاشی انحصار کم کرنے کے لیے طویل المدت بنیادوں پر ادارہ جاتی اصلاحات کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ایسا کرنے میں ناکامی مستقبل کی نسلوں کو بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے مزید دبانے کے مترادف ہو گی جسے کسی طرح بھی قومی مفاد میں قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ادارہ جاتی اصلاحات کے علاوہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کر کے اور برآمدات پر مبنی صنعتوں کو فروغ دے کر قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ علاوہ ازیں سرکاری عملے کی تربیت اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کے ذریعے بیرونی قرضوں کے استعمال میں شفافیت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ پاکستان کی خوشحالی کا راستہ پیداواری صلاحیت اور برآمدات میں اضافے، توانائی کی لاگت کو کم کرنے اور زراعت میں سرمایہ کاری کرنے میں مضمر ہے۔
کاشف اشفا�� 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
rising-gwadar · 10 months ago
Text
Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media
پاکستان چین کا 5 نئی اقتصادی راہداریوں کے لیے کوششیں تیز، ورکنگ گروپ بنانے پر اتفاق_
ان رہداریوں کو 5 ایز فریم ورک سے منسلک کیا جائے گا_ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال اور چینی سفیر کا ملاقات میں اتفاق
یہ اتفاق وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات پروفیسر احسن اقبال اور چین کے سفیر جیانگ زیڈونگ کے درمیان وزارت منصوبہ بندی میں ایک گھنٹے سے زائد جاری رہنے والی ملاقات میں کیا گیا_
چین کے سفیر جیانگ زیڈونگ نے پروفیسر احسن اقبال کو چوتھی بار وزیر منصوبہ بندی کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی_
واضح رہے کہ ان پانچ نئے اقتصادی راہداریوں پر ایک ورکنگ گروپ تشکیل دیا جاہے گا ان راہداریوں ملازمتوں کی تخلیق کی راہداری، اختراع کی راہداری، گرین انرجی کی راہداری، اور جامع علاقائی ترقی شامل ہیں_
ملاقات میں اتفاق کیا گیا کہ چین کی وزارت منصوبہ بندی اور قومی ترقی اور اصلاحاتی کمیشن (این ڈی آر سی) اور وزرات منصوبہ بندی اقتصادی راہدریوں پر الگ الگ Concept Paper مرتب کریں گے، جو مستقبل میں ہر شعبے کے لیے ایک واضح روڈ میپ فراہم کریں گے_
جبکہ بعدآزں یہ Concept Paper جے سی سی میں پیش کی جاہیں گی_
یاد رہے کہ وزارت منصوبہ بندی نے پہلے ہی 5Es فریم ورک پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے جس میں ایکسپورٹ، انرجی، ایکویٹی، ای پاکستان اور ماحولیات شامل ہیں_
وزیر اعظم شہباز شریف کے وژن کے تحت ہر شعبے میں پاکستان کی خوشحالی کو آگے بڑھانے کے لیے یہ فریم ورک پانچ نئے اقتصادی راہداریوں کے ساتھ منسلک کیا جائے گا_
ملاقات میں وفاقی وزیر نے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے ذریعے پاکستان کی برآمدی صلاحیتوں کو تیز کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے پاکستان کے اندر خصوصی اقتصادی زونز (SEZs) کی کامیابی کو زیادہ سے زیادہ کرنے کے لیے ایک حکمت عملی کا خاکہ پیش کیا_
انہوں نے ایک "ون پلس فور" ماڈل تجویز کیا، جس کے تحت پاکستان میں ہر SEZ کو چین کے ایک صوبے کے ساتھ شراکت داری کی جائے گی، SEZs کے اندر خصوصی کلسٹرز تیار کرنے کے لیے ایک صنعتی گروپ، تکنیکی مہارت فراہم کرنے کے لیے چین سے ایک SEZ، اور ایک سرکاری کمپنی کے ساتھ شراکت داری کی جائے گی_
جبکہ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ زور اشتراکی فریم ورک پاکستان میں SEZs کے قیام اور ترقی کو تیز کرے گا، ان کی مسابقت اور سرمایہ کاروں کے لیے کشش میں اضافہ کرے گا_
اس موقع پر چین کے سفیر کے سی پیک کے فیز ٹو پر عمل دررامد تیز کرنے پر پاکستان کی کاوشوں کو سراہا_
انہوں نے خصوصی طور پر وفاقی وزیر کی سی پیک کے منصوبوں پر دلچس��یبی لینے اور منصوبوں کو تیز کرنے پر کوششوں کو سراہا_
جبکہ وفاقی وزیر کو خصوصی طور پر مسٹر سی پیک کے لقب سے مخاطب کرتے ہوے کہا چینی قیادت اپکی کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے_
مزید براں، پروفیسر احسن اقبال نے اس بات پر زور دیا کہ SEZs کی کامیابی کا انحصار ان کی مخصوص صنعتوں کے کلسٹر بننے، پیمانے کی معیشتوں کو فروغ دینے، اور جدت اور ترقی کے لیے سازگار ایک متحرک ماحولیاتی نظام کی تشکیل پر ہے_
ملاقات میں بات گوادر پورٹ اور M-8 موٹروے جیسے اہم بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پر خصوصی زور دینے کے ساتھ علاقائی روابط بڑھانے پر بھی توجہ مرکوز کی گئی، جو تجارتی روابط کو مضبوط کریں گے اور علاقائی انضمام کو آسان بنائیں گے_
ملاقات میں وفاقی وزیر نے چینی سفیر کو یقین دلایا کہ حکومت چینی حکام کی سیکورٹی کے کیے بھر پور اقدامات اٹھا رہئ ہے_
1 note · View note
urduchronicle · 1 year ago
Text
معیشت، دہشتگردی، سرحدی تناؤ، نئی حکومت کو کیا چیلنجز درپیش ہوں گے؟
پاکستان میں جمعرات کو نئی حکومت کے انتخاب کے لیے قومی انتخابات ہوں گے، ملک کو کئی ایک بحرانوں کا سامنا ہے۔ یہاں کچھ ایسے چیلنجز بیان کئے جا رہے ہیں جو حکومت سنبھالنے والی حکومت کو درپیش ہوں گے: اقتصادی بحالی کا مشکل راستہ پاکستان نے گزشتہ موسم گرما میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے 3 بلین ڈالر کے بیل آؤٹ کے ذریعے ڈیفالٹ کو ٹال دیا لیکن قرض پروگرام کی مدت مارچ میں ختم ہو رہی ہے، جس کے بعد…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
topurdunews · 3 months ago
Text
جوبائیڈن نے ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے سے قبل کونسا کام کرنے کا فیصلہ کر لیا ؟ بڑی خبر 
واشنگٹن(ڈیلی پاکستان آن لائن ) وائٹ ہاؤس نے یوکرین کو اربوں ڈالر کی فوجی امداد نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ صدارت سنبھالنے سے پہلے بھیجنے کا منصوبہ بنا لیا ہے ۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق وائٹ ہاؤس جنوری میں صدر جو بائیڈن کے عہدے سے سبکدوش ہونے سے پہلے یوکرین کو 6 ارب ڈالر کی سکیورٹی امداد بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے۔آئندہ سال جنوری میں منتخب ہونے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب ہوگی…
0 notes
urdu-poetry-lover · 11 months ago
Text
وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کے لیے
وہ ہنس پڑے مجھے مشکل میں ڈالنے کے لیے
6 notes · View notes
shiningpakistan · 1 year ago
Text
پی آئی اے کی نجکاری
Tumblr media
خسارے میں چلنے والے سرکاری ادارے ملک کے معاشی مسائل کا یقینی طور پر ایک بنیادی سبب ہیں۔ پاکستان اسٹیل مل اور پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز ان میں سرفہرست ہیں۔ پچھلی صدی میں جب سوشلزم کی تحریک اپنے عروج پر تھی، پاکستان میں بھی تمام نجی کاروبار، صنعتوں، کارخانوں اور بینکوں کو قومیانے کا تجربہ کیا گیا لیکن اس کے نتائج نہایت تلخ رہے لہٰذا ڈی نیشنلائزیشن کا عمل ناگزیر ہوگیا چنانچہ تمام بینک اور بیشتر دوسرے ادارے ان کے مالکان کو واپس کیے گئے ۔ یوں ان اداروں کے حالات میں بہتری آئی اور معاشی بحالی کا سفر ازسرنو شروع ہوا۔ تاہم سرکاری تحویل میں چلنے والے جن اداروں کی نجکاری نہیں ہو سکی ان میں سے بیشتر خسارے میں ہیں اور عوام کے ٹیکسوں اور بیرونی قرضوں کا ایک بڑا حصہ برسوں سے ان کا نقصان پورا کرنے پر خرچ ہو رہا ہے۔ ان اداروں کی نجکاری پچھلی کئی حکومتوں کے ایجنڈے میں شامل رہی لیکن عوامی اور سیاسی سطح پر منفی ردعمل کے خوف سے کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔ تاہم پی ڈی ایم کی حکومت کے فیصلے کے مطابق نگراں حکومت خسارے میں چلنے والی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کو فروخت کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔
Tumblr media
نگراں وفاقی وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد نے رائٹرز سے گفتگو میں انکشاف کیا ہے کہ اس ضمن میں 98 فیصد کام ہو چکا ہے اور بقیہ دو فیصد کاموں کی منظوری کابینہ سے لی جانی ہے۔ وزیر نجکاری کے مطابق ٹرانزیکشن ایڈوائزر ارنسٹ اینڈ ینگ کی طرف سے تیار کردہ پلان کو نگراں حکومت کی مدت ختم ہونے سے قبل منظوری کیلئے وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کابینہ یہ فیصلہ بھی کرے گی کہ پی آئی اے کو بذریعہ ٹینڈر بیچنا ہے یا بین الحکومتی معاہدے کے ذریعے جبکہ نجکاری کے عمل سے قریب دو ذرائع کے مطابق ارنسٹ اینڈ ینگ کی 1100 صفحات کی رپورٹ کے تحت ایئر لائن کے قرضوں کو ایک علیحدہ ادارے کو دینے کے بعد خریداروں کو مکمل انتظامی کنٹرول کے ساتھ 51 فیصد حصص کی پیشکش بھی کی جائے گی۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال جون تک پی آئی اے پر 785 ارب روپے کے واجبات تھے اور 713 ارب روپے کا نقصان ہوا تھا۔ پاکستان نے سنگین معاشی بحران کے پیش نظر گزشتہ سال جون میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ تین ارب ڈالر کے بیل آؤٹ معاہدہ کرتے ہوئے خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا تھا۔ 
پی ڈی ایم حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ آئی ایم ایف معاہدے پر دستخط کے چند ہفتے بعد ہی کرلیا تھا۔ بعد ازاں 8 اگست کو منصب سنبھالنے والی نگراں حکومت کو سبکدوش ہونے والی پارلیمان نے آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ بجٹ کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے کا اختیار دیا تھا۔ فی الحقیقت خسارے میں چلنے والے تمام سرکاری اداروں کی نجکاری معاشی بحران سے نکلنے کیلئے ناگزیر ہے۔ نیشنلائزیشن کا تجربہ تقریباً دنیا بھرمیں ناکام ہو چکا ہے کیونکہ سرکاری تحویل میں چلنے والے اداروں میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں، مالی بدعنوانیاں، اقربا پروری، کام چوری اور دیگر خرابیاں بہت آسانی سے راستہ بنا لیتی ہیں۔ اس لیے حکومتیں اپنے دائرہ کار کو قانون سازی، فراہمی انصاف، قیام امن و امان ، نفاذ قانون، خارجہ امور اور نظام مالیات وخزانہ جسے بنیادی معاملات تک محدود رکھتی ہیں جس کے باعث کاروبار مملکت چلانے کیلئے مختصر کابینہ بھی کافی ہوتی ہے اورغیرضروری سرکاری اخراجات سے نجات مل جاتی ہے جبکہ معاشی ترقی کیلئے نجی شعبے کو محفوظ سرمایہ کاری کی تمام منصفانہ سہولتیں دے کر کام کرنے کے بھرپور مواقع مہیا کیے جاتے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان میں بھی اس طریق کار کو اپنایا جائے اور وقتی سیاسی مفادات کیلئے نجکاری کے عمل کی مخالفت نہ کی جائے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ  
0 notes
googlynewstv · 11 days ago
Text
پنجاب حکومت کا بے لگام یوتھیوں پر کتے چھوڑنے کافیصلہ
وزیر اعلیٰ مریم نواز کی جانب سے پنجاب کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد صوبے بھر میں بے لگام یوتھیوں کو کنٹرول کرنے کیلئے مختلف حربے آزمانے کا سلسلہ جاری ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق پنجاب پولیس نے سرپسند عمرانڈوز اور بلوائیوں کو قابو کرنے کیلئے آئیں شکن مظاہرین پر کتے چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پنجاب پولیس کی طرف سے پُرتشدد مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے تربیت یافتہ کتوں کا استعمال کیا جائے…
0 notes
discoverislam · 1 year ago
Text
فہم و فراست، تدبّر و تفکّر کی فضیلت
Tumblr media
خدائے برتر نے انسان کو اپنا خلیفہ بنایا اور پوری کائنات کو محض اسی کے لیے پیدا فرمایا۔ اسی انسان کے اندر ظلمت و نور، خیر و شر، نیکی اور بدی جیسی ایک دوسرے کی مخالف صفات بھی پیدا فرما دیں، اب اگر انسان چاہے تو ان متضاد صفات کے ذریعے تمام مخلوق سے افضل اور برتر ہو سکتا ہے اور اگر وہ چاہے تو تمام تر پستیوں سے بھی گزر جائے۔ اگر خدا کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلتا ہے تو خدا فرماتا ہے، مفہوم: ’’ہم نے بنی آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی و سمندر پر چلنے کی اور سفر کی طاقت دی۔‘‘ اسی طرح اگر یہی انسان اپنے اندر قرآن حکیم کی ہدایات اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کا نمونہ پیش کرتا ہے تو پھر قرآن میں خدا نے وعدہ فرمایا، مفہوم: ’’اور تم ہی بلند ہو اگر تم مومن ہو جاؤ۔‘‘ لیکن اگر انسان اپنے آپ کو قرآنی چشمہ ہدایت سے محروم رکھے تو پھر قرآن میں باری تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا، مفہوم: ’’ایسے لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔‘‘ خداوند کریم کی وہ امانت جس کے اٹھانے سے تمام کائنات عاجز رہی ﷲ جل جلالہ نے اس امانت کو انسان کے سپرد فرمایا، اس امانت کے کچھ تقاضے ہیں اور قرآن کریم انسان سے ان تقاضوں کی تکمیل اور اس کی پیدائش سے لے کر موت تک اس امانت کے بار کو سنبھالنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
اس تمام تر ذمے داری کو ادا کرنے کے لیے انسان تین قوتوں سے کام لیتا ہے اور انہی تین قوتوں کو علماء اخلاق اور حکمائے اسلام نے تمام اچھے اور برے اخلاق و اعمال کا سرچشمہ قرار دیا ہے۔ ان میں پہلی قوت فکر ہے جسے سوچ اور علم کی طاقت کہہ سکتے ہیں۔ دوسری غصہ کی طاقت۔ اور تیسری خواہشات کی طاقت۔ اب اگر ان تینوں قوتوں کو اعتدال میں رکھا جائے تو انسان کام یاب ہو جاتا ہے ورنہ دنیا و آخرت دونوں میں ناکام رہتا ہے۔ سوچنے کی قوت کو استعمال کرنے اور اسے اعتدال میں رکھنے کے لیے قرآن حکیم کی تعلیمات میں تدبر کا حکم ملتا ہے۔ تدبر کا لفظی معنی غور و فکر کرنا، دور اندیشی اور سوچ سمجھ کر کوئی کام کرنا۔ انسان تدبر سے کام لینے کی اہمیت سے بہ خوبی واقف ہوتا ہے لیکن دو چیزیں تدبر اختیار کرنے سے روکتی ہیں، ایک غصہ دوسرے جلد بازی۔ جس طرح اسلام نے باقی تمام قوتوں کے لیے اعتدال کا حکم دیا ہے اسی طرح غصے کے بارے میں بھی اعتدال اختیار کرنے کا حکم فرمایا۔ یعنی نہ اس کا استعمال بے جا کیا جائے اور نہ ہی بالکل کمی کر دی جائے۔
Tumblr media
اگر غصے کی کیفیت اور اس کی قوت کو بالکل استعمال نہ کیا جائے تو یہ کیفیت بزدلی کی حدود میں داخل ہو جاتی ہے۔ اور اس کیفیت سے حضور اکرم ﷺ نے بھی پناہ مانگتے ہوئے دعا فرمائی، مفہوم: ’’اے ﷲ! مجھے بزدلی سے بچا۔‘‘ لیکن اگر غصہ کا استعمال ہر جگہ کیا جائے تو پھر ایک انسان اچھے بھلے معاشرہ میں بے چینی پیدا کر دیتا ہے اور اہل معاشرہ کی زندگی سے سکون رخصت ہو جاتا ہے۔ لہٰذا انسان کو یہ کام کرنے سے پہلے خصوصاً غصہ کے وقت میں تدبر یعنی غور و فکر اور سوچ سمجھ سے کام لینا چاہیے۔ دوسری چیز جو انسان کو تدبر اختیار کرنے نہیں دیتی وہ جلد بازی ہے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’کاموں کی متانت، اطمینان اور سوچ سمجھ کر انجام دینا ﷲ کی طرف سے ہوتا ہے اور جلد بازی کرنا شیطان کے اثر سے ہوتا ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ ہر ذمہ داری کو اطمینان سے انجام دینے کی عادت اچھی ہے اس کے برعکس جلد بازی ایک بری عادت ہے اس میں شیطان کا دخل ہوتا ہے۔ 
حضور ﷺ کے ارشاد کے مطابق بردباری اور غور و فکر کے بعد کام کرنا ﷲ کو بہت پسند ہے۔ چناں چہ جب قبیلہ عبدالقیس کا وفد حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضری کے لیے مدینہ منورہ پہنچا، چوں کہ یہ لوگ کافی دور سے آئے تھے اس لیے گرد و غبار میں اٹے پڑے تھے جب یہ لوگ سواریوں سے اترے بغیر نہائے دھوئے، نہ اپنا سامان قرینے سے رکھا نہ سواریوں کو اچھی طرح باندھا، فوراً جلدی سے حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گئے لیکن اس وفد کے سربراہ جن کا نام منذر بن عائذ تھا انہوں نے کسی قسم کی جلد بازی نہ کی بلکہ اطمینان سے اترے سامان کو قرینے سے ر کھا، سواریوں کو دانہ پانی دیا، پھر نہا دھو کر صاف ستھرے ہو کر وقار کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور ﷺ نے وفد کے سربراہ منذر بن عائذ کو مخاطب کرتے ہوئے اس کی تعریف کی اور فرمایا: ’’بے شک! تمہارے اندر دو خوبیاں پائی جاتی ہیں جو ﷲ کو بہت پسند ہیں۔ ان میں سے ایک صفت بردباری اور دوسری صفت ٹھہر ٹھہر کر غور و فکر کر کے کام کرنے کی ہے۔‘‘ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جب انسان ہر کام سوچ و بچار کے بعد تحمل سے کرتا ہے تو وہ شخص اکثر مکمل کام کرتا ہے اور بہت کم نقصان اٹھاتا ہے۔
جب کہ بغیر سوچے سمجھے جلد بازی سے کام کرنے والے ایک عجیب قسم کے ذہنی خلجان کے ساتھ کام کرتے ہیں اور اکثر نامکمل اور ناقص کام کرتے ہیں۔ لہٰذا اسلامی احکام کے مطابق مسلمانوں کو تدبر یعنی غور و فکر سے کام لینا چاہیے اور مومن کی شان بھی یہی ہے۔ حضور اکرم ﷺ ار��اد فرماتے ہیں، مفہوم: ’’مومن کو ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جا سکتا۔‘‘ (اس لیے کہ مومن ہر کام غور و فکر اور تدبر سے کرتا ہے) یہ ارشاد آنحضور ﷺ نے اس وقت فرمایا جب کفار کا ایک شاعر ابُوعزہ مسلمانوں کی بہت زیادہ ہجو کیا کرتا تھا۔ کفار اور مشرکین کو مسلمانوں کے خلاف اکساتا اور بھڑکاتا رہتا۔ جنگ بدر میں جب یہ شاعر گرفتار ہوا تو حضور ﷺ کے سامنے اپنی تنگ دستی اور اپنے بچوں کا رونا روتا رہا، آپؐ نے ترس کھا کر فدیہ لیے بغیر اسے رہا فرما دیا، اس نے وعدہ کیا کہ اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو آئندہ مسلمانوں کے خلاف ایسی حرکات نہیں کرے گا لیکن یہ کم ظرف شخص رہائی پانے کے بعد اپنے قبیلہ میں جا کر دوبارہ مشرکین کو مسلمانوں کے خلاف ابھارنے لگا۔ غزوہ احد میں دوبارہ گرفتار ہو گیا۔ اب پھر وہی مگر مچھ کے آنسو بہانے شروع کر دیے، رحم کی اپیلیں کرنے لگا لیکن حضور ﷺ نے اس کے قتل کا حکم صادر فرمایا اور ساتھ ہی آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جا سکتا۔ اس سے یہ بات بہ خوبی سمجھ میں آگئی کہ ایک عمل کرنے سے اگر کوئی نقصان ہو تو دوسری دفعہ وہ عمل نہیں کرنا چاہیے۔
ایک مرتبہ ایک شخص جناب رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی کہ مجھے نصیحت فرمائیے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اپنے کام کو تدبر اور تدبیر سے کیا کرو اگر کام کا انجام اچھا نظر آئے تو اسے کرو اور اگر انجام میں خرابی اور گم راہی نظر آئے تو اسے چھوڑ دو۔‘‘ قرآن حکیم میں ﷲ رب العزت نے جا بہ جا تدبر کی ترغیب دی اور قرآن میں غور و فکر کرنے کی ہدایت فرمائی۔ سورۂ نساء میں ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’یہ لوگ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے۔ اگر یہ خدا کے علاوہ کسی اور کا کلام ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف ہوتا۔‘‘ پھر ﷲ تعالیٰ سورۂ محمد میں ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم: ’’یہ لوگ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے یا ان کے دلوں میں قفل لگے ہوئے ہیں۔‘‘ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس میں چند چیزیں قابل توجہ ہیں ایک یہ کہ ﷲ تعالیٰ نے فرمایا: وہ غور کیوں نہیں کرتے، یہ نہیں فرمایا کہ وہ کیوں نہیں پڑھتے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ قرآن کے تمام مضامین میں بالکل اختلاف نہیں بہ شرطے کہ گہری نظر سے غور و فکر کے ساتھ قرآن پڑھا جائے۔ اور قرآن کا اچھی طرح سمجھنا تدبر ہی سے ہو سکتا ہے بغیر سوچے سمجھے پڑھنے سے یہ چیز حاصل نہ ہو گی۔
دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ قرآن کا مطالبہ ہے کہ ہر انسان اس کے مطالب اور مفہوم میں غور کرے۔ تمام علوم کی مہارت رکھنے والے علماء جب قرآن میں تدبر کریں گے تو ہر ایک آیت سے سیکڑوں مسائل کا حل تلاش کر کے امت مسلمہ کے سامنے پیش فرمائیں گے۔ اور عام آدمی اگر قرآن حکیم کا ترجمہ اور تفسیر اپنی زبان میں پڑھ کر غور و فکر اور تدبر کرے گا تو اسے ﷲ تعالیٰ کی عظمت و محبت اور آخرت کی فکر پیدا ہو گی۔ البتہ عام آدمی کو غلط فہمی اور مغالطے سے بچنے کے لیے بہتر یہ ہے کہ کسی عالم سے قرآن کو سبقاً سبقاً تفسیر کے ساتھ پڑ ھ لیں۔ اگر یہ نہ ہو سکے تو کوئی مستند اور معتبر تفسیر کا مطالعہ کر لیں اور جہاں کوئی بات سمجھ میں نہ آئے یا شبہ پیدا ہو وہاں اپنی رائے سے فیصلہ نہ کریں بلکہ ماہر علماء سے رجوع کیا جائے۔ اس لیے کہ مومنین کی شان قرآن حکیم میں یہ بیان ہوئی، مفہوم: ’’اور جب ان کو ان کے پروردگار کی باتیں سمجھائی جاتی ہیں تو ان پر اندھے اور بہرے ہو کر نہیں گزر جاتے۔‘‘ یعنی مومن کی شان یہ ہے کہ وہ تدبر اور غور و فکر سے کام لے کر احکام اسلامی کو ادا کرے۔ ﷲ رب العزت ہمیں قرآن حکیم کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی زندگی کے ہر مرحلے میں سوچ بچار، غور و فکر اور تدبر سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی  
0 notes