#سستی چینی
Explore tagged Tumblr posts
Text
چینی کے بعد چائے کی پتی بھی سستی
(وقاص عظیم )حکومت کی جانب سے عوام کو ریلیف دینے کیلئے اقدامات کا سلسلہ جاری ہے ، جس کے تحت یوٹیلیٹی سٹورز پر پہلے چینی کی قیمت میں کمی کی گئی اور اب چائے کی پتی کی قیمت بھی کم کردی گئی ہے ۔ ذرائع کے مطابق مختلف برانڈزکی چائے کی پتی 250روپے تک سستی کی گئی ہے ،800 گرام چائے پتی کی قیمت میں 200 سے 250 روپے کمی کی گئی ہے جس کے بعد 800 گرام چائے پتی کی نئی قیمت1350سےلیکر1721روپے تک ہو گئی ،430…
0 notes
Text
معاشی بہتری یا طفل تسلیاں
موجودہ حکومت کو معرض وجود میں آئے ہوئے تقریباً نو ماہ ہونے کو ہیں اور کوئی شک نہیں کہ اس نے اِن نو مہینوں میں معاشی بہتری کے لیے بہت سے کام کیے ہیں لیکن کیا اُن کے نتیجے میں ہم اس خطرناک صورتحال سے باہر نکل آئے ہیں اور ڈیفالٹ ہو جانے کا خطرہ یقیناً ٹل چکا ہے۔ اس کا جواب یقیناً نہ اور نفی میں ہوگا۔ ابھی ہمارے ڈیفالٹ ہوجانے کا خطرہ صرف دو تین مہینوں کے لیے ٹلا ہے۔ 2021 برادر اسلامی ملک سعودی عرب نے انتہائی برے وقت میں ہمارا ہاتھ پکڑا اور تین ارب ڈالر ہمارے خزانے میں صرف اس مقصد سے ڈیپازٹ کر دیے کہ ہم کہیں حقیقی طور پر دیوالیہ ظاہر نہ ہو جائیں۔ دنیا کی نظروں میں ڈیفالٹ ہونے سے بچانے کی خاطر سعودی عرب نے ایک حقیقی دوست اور بھائی کا کردار ادا کیا۔ حالانکہ اسے معلوم تھا کہ یہ تین ارب ڈالر اسے ایک سال میں واپس بھی نہیں ملیں گے اور ہوا بھی ایسا ہی ہم ہر سال ایک درخواست لے کر اُن کے دربار میں پہنچ جاتے ہیں اور مزید ادھار مانگنے کے بجائے یہی تین ارب ڈالرزکی واپسی کے لیے مزید مہلت مانگ لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر سعودی ارب یہ مہلت دینے سے انکار کر دے تو ہم کہاں کھڑے ہونگے؟ معاشی طور پر دیوالیہ ہوجانے سے بچ جانے کے ہمارے دعوے کتنے درست اور حقیقی ثابت ہوں گے۔
کیا ہم دھڑام سے زمین بوس نہیں ہوجائیں گے۔ یہی حال UAE سے لیے تین ارب ڈالروں کا بھی ہے اور چین سے ادھار پیسوں کا بھی۔ ہم کب تک اسی طرح کام چلاتے رہیں گے اور اپنے آپ اور قوم سے جھوٹ بولتے رہیں گے۔ IMF اگر ہمیں نئے قرض کی منظوری نہیں دیتا تو بھی ہمیں ڈیفالٹ ہوجانے سے کوئی بھی نہیں بچا سکتا تھا۔ پھر یہ ادھار کے ڈالرز بھی کام نہیں آتے۔ IMF کی مہربانی سے ہمیں کچھ دنوں کے لیے سانس لینے کا موقع ضرور مل گیا ہے لیکن دیوالیہ ہوجانے کے خطروں سے ابھی ہم باہر نہیں نکل پائے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ابھی ہمیں IMF کے قرض سے صرف ایک قسط ملی ہے اورہم نے اپنے شاہانہ خرچ یک دم بڑھا دیے ہیں۔ ایک ماہ قبل ججوں کی تنخواہوں میں دو سو فیصد اضافہ کر دیا اور اب اپنے پیٹی بھائیوں یعنی پارلیمنٹرین کی مشاہرے میں بڑا اضافہ کر دیا۔ حکومت ایک طرف ٹیکس جمع کرنے کے مطلوبہ ہدف کو پورا بھی نہیں کر پا رہی ہے اور دوسری طرف اپنے اخراجات میں بے تحاشہ اضافہ بھی کر رہی ہے، حالانکہ وزیر اعظم اور وزیر خزانہ نے ایک بار نہیں کئی بار قوم کو یقین دہانیاں کروائی ہیں کہ حکومت اپنے اخراجات کم کرنے والی ہے اور آنے والے دنوں میں ہم واضح طور پر اس کمی کو دیکھ پائیں گے، مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومت نے اپنے اس وعدے کی ایک شق پر بھی عمل نہیں کیا۔
حکمرانوں اور پارلیمنٹرین میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں سامنے آیا جس نے اس غیر ضروری اضافے کو مسترد کیا ہو یا اس کی مخالفت کی ہو۔ عوام سے تو توقع کی جاتی ہے کہ وہ ملک کے معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے اپنے اخراجات کم کر دے اور قربانیوں پر قربانیاں دیتی رہے لیکن اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے یہ تمام کے تمام افراد اپنے اخراجات ایک فیصد بھی کم کرنے کو تیار نہیں، بلکہ وہ اس اضافے کے ثمرات سمیٹ لینے کے لیے مکمل طور پر متفق اور متحد ہیں۔ اپوزیشن میں سے بھی کسی ایک شخص نے اس اضافے کے خلاف ایک آواز بھی بلند نہیں کی۔ ویسے وہ حکومت کے ہر کام پر تنقید اور تنقیص کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر ذاتی مفاد کے اس فیصلے پر وہ بھی خاموشی طاری کیے ہوئے ہیں۔ مہنگائی کے حوالے سے حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے دس مہینوں میں بڑھتی مہنگائی کی شرح چھ فیصد تک لے آئی ہے۔ یہ کہتے ہوئے وہ سمجھتی ہے کہ اس نے عام عوام کے لیے مہنگائی بہت کم کر دی ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو سوائے ایک آدھ چیز کے مہنگائی کسی اور شہ میں کم نہیں ہوئی ہے، بلکہ اس میں کچھ اضافہ ہی ہوا ہے۔ مہنگائی میں کمی کے دعوے کرتے ہوئے یہ بھول جاتی ہے کہ مہنگائی کی روز افزوں شرح جو ایک سال پہلے تک تیس فیصد تک پہنچ چکی ہے وہ اب چھ سات فیصد تک آگئی ہے۔
یعنی مہنگائی تو پھر بھی ہو رہی ہے۔ بے تحاشہ کے بجائے چھ سات فیصد ماہانہ کی شرح پر۔ اب ہمیں بتایا جائے کہ عوام کو اس طرح کیا ریلیف ملا۔ اسے تو آج بھی اپنی اسی آمدنی سے چھ فیصد مزید مہنگی چیزیں خریدنی پڑ رہی ہے۔ بات تو جب تھی کہ جن اشیائے ضروریہ کے دام پہلے ہی بڑھ چکے تھے انھیں کم کیا جاتا۔ نہ کہ مزید چھ سات فیصد اضافہ کر کے عوام کو ریلیف بہم پہنچ��نے کے دعوے کیے جاتے۔ دنیا کے ہر ملک میں جو چیزیں پیدا ہوتی ہیں یا بنائی جاتی ہیں وہ وہاں کے عوام کو ہمیشہ سستی اور ارزاں قیمتوں پر ملا کرتی ہیں لیکن ہمارے یہاں کا معاملہ عجیب و غریب ہے۔ یہاں ہر چیز چاہے وہ امپورٹ کی گئی ہو یا خود ہمارے یہاں پیدا ہوتی ہوں، بین الاقوامی قیمتوں کے مطابق دستیاب ہونگی۔ گندم ، چاول اور چینی وافر مقدار میں ہمارے اپنے یہاں پیدا ہوتی ہے لیکن عوام کو وہ بھی ڈالرکی قیمت یا دوسرے ملکوں میں ملنے والی قیمت کے حساب سے مہیا کی جاتی ہیں۔ اس کے لیے بہانہ یہ بنایا جاتا ہے کہ اگر سستی ہونگی تو پھر ان اشیاء کی اسمگلنگ شروع ہو جائے گی۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ معاشی حوالے سے حکومت کی ترجیحات کیا ہیں۔
لانگ ٹرم منصوبے کیا ہیں۔ صرف وقتی علاج اور قرض حاصل کر کے خزانے کا وزن بڑھا دیا گیا ہے۔ پی آئی اے اور مالی بحران کے شکار کئی ادارے آج بھی قوم کے خون پسینے کی کمائی کھا رہے ہیں۔ انھیں فروخت کرنے یا پرائیوٹائز کرنے میں سست روی دکھائی جا رہی ہے۔ دو تین برسوں سے سنتے آئے ہیں کہ کئی ادارے نجی تحویل میں دیے جانے کا پروگرام ہے لیکن ایک ادارہ بھی آج تک فروخت نہیں کیا گیا۔ خسارے میں چلنے والے ادارے اب اس حال میں پہنچ چکے ہیں کہ کوئی بھی انھیں خریدنے والا نہیں۔ ملک میں پائی جانے والی معدنیات کے حوالے سے بھی کوئی ٹھوس پالیسی سامنے نہیں آئی ہے۔ انھیں نکالنے کے منصوبے ابھی تک محض کاغذوں پر موجود ہیں۔ ہمارے پڑوسی ممالک بھی ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں اور ہم چند مہینوں کے زرمبادلہ کے ذخائر جمع کر لینے پر اطمینان کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ ذخائر جو دوست ممالک کی مہربانیوں کی وجہ سے قائم ہیں، وہ اگر قائم نہ رہیں تو پھر ہمارا کیا ہو گا؟ سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے صرف تسلیاں دینے سے اب کام نہیں چلے گا۔
ڈاکٹر منصور نورانی
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
مہنگی الیکٹرک کاریں بنانے والی 2 چینی کمپنیوں کی پاکستان میں اینٹری
چین کی دو آٹو موبائل کمپنیوں نے پاکستان میں اپنی مکمل تیار شدہ الیکٹرک گاڑیاں لانچ کرنے اور انکے پلانٹ لگانے کا اعلان تو کر دیا یے لیکن ان کاروں کی قیمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ انہیں انتہائی امیر ترین طبقہ ہی خرید پائے گا۔ بتایا جاتا ہے کہ بی وائی ڈی اور چنگان دونوں چینی کمپنیوں کی الیکٹرک کاروں کی قیمت کروڑوں میں ہے۔ ایسے میں آٹو موبائل ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی کمپنیوں کو پاکستان میں سستی الیکٹرک…
0 notes
Text
قیمت بڑھانے کے مطالبے پر ایرانی تیل کی چین کو فروخت رک گئی
ایران کے ساتھ چین کی تیل کی تجارت رک گئی ہے کیونکہ تہران نے کھیپ روک دی ہے اور زیادہ قیمتوں کا مطالبہ کیا ہے، جس سے دنیا کے سب سے بڑے خام درآمد کنندہ کے لیے سستی سپلائی ٹائٹ ہو گئی ہے۔ ایرانی تیل میں کٹ بیک، جو کہ چین کی خام درآمدات کا تقریباً 10 فیصد بنتا ہے اور اکتوبر میں ایک ریکارڈ تک پہنچ گیا، عالمی قیمتوں کو سہارا دے سکتا ہے اور چینی ریفائنرز کے منافع کو کم کر سکتا ہے۔ یہ اچانک اقدام، جسے…
View On WordPress
0 notes
Text
انقلاب کی دستک
پاکستانی قوم میں گزشتہ دو سالوں کے دوران بے چینی، نفرت اور غصے کا لاوہ تیزی سے پک رہا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے غریب کا چولہا ٹھنڈا کر دیا ہے۔ ایک طرف مہنگائی، سیاسی بے یقینی، اور معاشی ابتری نے عوام کا بھرکس نکال دیا ہے تو دوسری طرف اشرافیہ اور افسر شاہی کی مراعات میں اضافے نے قوم کے غصے کو آسمان تک پہنچا دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر روزانہ کی بنیاد پر مفت بجلی اور حیران کن مراعات کے تذکرے نے نوجوان طبقے کی آنکھوں میں شعلے بھر دیے ہیں۔ پاور ڈویژن کے اعداد وشمار کے مطابق اس وقت گریڈ ایک سے سولہ تک کے ایک لاکھ 73 ہزار ملازمین ماہانہ 33 کروڑ یونٹ مفت بجلی استعمال کرتے ہیں جنکی سالانہ مالیت 10 ارب روپے ہے۔ جبکہ گریڈ 17 سے گریڈ 22 تک کے 15 ہزار ملازمین سالانہ ایک ارب 25 کروڑ روپے کی مفت بجلی استعمال کرتے ہیں۔ جسکا بوجھ پاکستان کے عوام برداشت کرتے ہیں۔ بازاروں میں ساہو کاروں نے اشیاء کی من مرضی کی قیمتیں مقرر کر رکھی ہیں۔ عام آدمی خود کشی کر رہا ہے یا جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ سابق حکمراں طبقے نے اپنے جرائم معاف کرانے کے لیے پورا ملک داؤ پر لگا دیا۔
گزشتہ سال کے سیلاب کے بعد تا حال زرعی زمینیں تباہ حالی سے دوچار ہیں جس سے غذائی بحران مزید سنگین ہو رہا ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ غذائی اشیا کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں رابطہ سڑکیں سفر کے قابل نہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ وفاق میں قائم ہونے والی نگراں حکومت ابھی تک فعال نہیں ہو سکی۔ نئے وزراء اگرچہ اپنی قابلیت کے حوالے سے غیر متنازع ہیں لیکن ان کے ساتھ جو بیوروکریسی کام کر رہی ہے وہ پرلے درجے کی نااہل، نالائق اور کام چور افراد پر مشتمل ہے۔ وزارتوں کے سربراہ ایسے سرکاری افسران مقرر کیے گئے ہیں جو گریڈ 21 سے گریڈ 22 میں ترقی کے منتظر ہیں اور وہ ترقی میں ممکنہ رکاوٹ کے خوف سے کسی بھی کام کو ہاتھ لگانے سے ہچکچاتے ہیں۔ افسر شاہی کے اندر ایک طرف تو نیب نے خوف کے پنجے جما رکھے ہیں تو دوسری طرف نااہلی کا جادو بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ہمارے محترم نگران وزیراعظم اپنی شخصیت اور اہلیت کے اعتبار سے ایک ''مقبول و محبوب'' شخص ہیں لیکن وہ بھی جم کر کام کرنے کے بجائے دوروں پر نکل گئے ہیں۔
چیف آف آرمی اسٹاف نے سرمایہ کاروں کی سہولت کے لیے ون ونڈو آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا تھا آج اس کی حالت یہ ہے کہ پاکستان آرمی کے علاوہ باقی تمام محکمے روایتی سستی اور کاہلی کا شکار ہیں۔ نئے سرمایہ کاروں کیلئے مناسب ماحول تو کیا پیدا ہونا تھا پہلے سے موجود سرمایہ کاروں اور کاروباری طبقے کیلئے سرخ فیتے کی ایک ایسی لائن کھینچ دی گئی ہے جس کو عبور کر کے اپنے جائز اور قانونی کام کروانا بھی ناممکن ہو گیا ہے۔ رشوت کا ریٹ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ متوسط طبقے کا تاجر اپنے کام کیلئے سرکاری دفاتر کا رخ کرنے سے ہی خوف کھاتا ہے۔ قبل ازیں تو صرف پٹواری ہی رشوت لینے کیلئے بدنام تھا لیکن آج تو یوں لگتا ہے کہ پوری افسر شاہی تسبیح کی ایک دانے کی مانند اس دھاگے میں پروئی جا چکی ہے۔ پنجاب میں بلدیاتی اداروں کی عدم موجودگی نے نہ صرف معمولی مسائل کو الجھا دیا ہے بلکہ عوام کے احساس محرومی میں اضافہ کر دیا ہے۔ اختیارات مراعات اور سہولتیں کے نشے کی لت میں مبتلا حکمران ابھی تک یہ محسوس نہیں کر پا رہے ایک خونی انقلاب پاکستان کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔
بجلی کے بلوں کی وجہ سے سیاسی لیڈروں کی رہنمائی کے بغیر عوام از خود مظاہروں میں مصروف ہیں۔ میرے شہر بھیرہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عورتوں اور بچوں نے بھی سیاسی قیادت کے بغیر از خود مظاہرہ کیا ہے۔ ہماری اشرافیہ یہ حقیقت کیوں فراموش کر رہی ہے کہ جب احتجاج کی باگ ڈور عوام کے پاس ہوتی ہے تو اس وقت وہی ہوتا ہے جو اس سے پہلے تیونس، الجزائر، مصر اور سری لنکا میں ہو چکا ہے۔ پاکستان کے عام آدمی کے لیے زندگی گزارنا مشکل کر دیا گیا ہے۔ کوئی بجلی کے بل ادا کرنے کے لیے ادھار لے رہا ہے تو کوئی اپنے گھر کا سامان یا زیور بیچ کر بل ادا کر رہا ہے۔ بجلی کی چوری اور حکومتی نااہلی کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا۔ جو بجلی چوری کرتا ہے وہ بل ادا نہیں کرتا جبکہ عام صارف اس کے حصے کا جرمانہ بھی ادا کرتا ہے۔ عام آدمی کو جب یہ معلوم ہوتا کہ حکمران اشرافیہ نہ تو بجلی کا بل اپنی جیب سے دیتی ہے، نہ پٹرول اپنی گرہ سے ڈلواتی ہے، انہیں گاڑیاں بھی مفت ملی ہوئی ہیں، وہ سرکاری دفاتر میں بجلی کا بے دریغ استعمال دیکھتے ہیں تو ان کے غصے میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے، لیکن اب مزید ایسا نہیں چلے گا۔ لوگوں کا صبر جواب دے چکا ہے۔
ادھار مانگ مانگ کر لوگ تنگ ا ٓچکے ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ آئندہ دنوں میں پٹرول مزید مہنگا ہو گا۔ جس سے ملک کے طول و عرض میں موجود احتجاج میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، اور حالات میں خرابی کی تمام تر ذمہ داری حکمران اشرافیہ پر عائد ہوتی ہے، نگران حکومت کو کچھ اہم فیصلے لینا ہوں گے، محکمانہ نااہلی اور حکمرانوں کی عیاشیوں کا مزید بوجھ عوام برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں اب لوگ حالات کے بہتری کیلئے عام انتخابات کا بھی انتظار نہیں کریں گے۔ حکمرانوں کو انداز حکمرانی میں تبدیلی لانا پڑے گی۔ مفت کی عیاشی ختم کرنا ہو گی۔ عوام اور حکمرانوں کے مابین بڑھتی ہوئی خلیج کم کرنا ہو گی۔ ورنہ انقلاب تو دستک دے ہی رہا ہے۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
وطن کی فکر کر ناداں
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے پاکستان کے اقتصادی بحران پر ایک چشم کشا تجزیاتی رپورٹ جاری کی ہے جو ارباب بست و کشاد ہی نہیں پوری قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ خاص طور پر ایسے حالات میں یہ رپورٹ اور بھی سنجیدہ غور و فکر کی متقاضی ہے کہ ایک طرف ملک کا معاشی سفینہ منجدھار کے بیچ ہچکولے کھا رہا ہے تو دوسری طرف کشتی بان اشرافیہ اقتدار کی کرسی کیلئے دست و گریبان ہے اور سیاسی جوڑ توڑ عروج پر ہے حکومتی عہدوں پر متمکن ایک سیاسی مکتبہ فکر حالات کو اپنے فہم کے مطابق سدھارنے کیلئے قرضے پہ قرضے لے رہا ہے تو اپوزیشن کی سوچ اور کوشش ہے کہ سفینہ کل کا ڈوبتا بے شک آج ڈوب جائے مگر اسے اقتدار مل جائے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ جب سفینہ ہی خدانخواستہ ثابت و سالم نہ رہا تو اقتدار کس کام کا؟ وقت کا تقاضا تو یہ ہے کہ سیاست کو عارضی طور پر ہی موقوف کر کے ملک اور اس کی اقتصادیات کو بچانے کیلئے کسی مشترکہ لائحہ عمل پر اتفاق کی صورت پیدا کی جائے مگر نہیں، اس حوالے سے مثبت سوچ کسی کے قریب سے گزر کر نہیں جاتی۔
سب اپنے اپنے مفادات کے پنجرے میں بند ہیں اور ایک دوسرے سے اپنے مطلب کی شرائط منوائے بغیر بات تک کرنا گوارا نہیں کرتے۔ غیر ملکی ایجنسی کا کہنا ہے کہ ڈالر کی شکل میں زرمبادلہ کے ذخائر خشک ہونے سے ملکی اقتصادیات کا پہیہ جام ہو رہا ہے۔ ضروری اشیائے خوردو نوش، پیداواری عمل کیلئے لازمی خام مال اور طبی آلات سے بھرے کنٹینرز کراچی کی بندرگاہ پر رکے ہوئے ہیں کیونکہ زرمبادلہ کے بحران کے باعث مال چھڑانے کیلئے ادائیگیوں کی غرض سے ڈالر دستیاب نہیں۔ ڈالرز کی قلت کے سبب بنک درآمد کنندگان کیلئے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) کھولنے کیلئے تیار نہیں، اس سے ملکی اقتصادیات پر شدید منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ملکی معیشت کو پہلے ہی افراط زر اور بڑھتی ہوئی مہنگائی نے جکڑ رکھا ہے۔ شرح نمو انتہائی مایوس کن ہے۔ اسٹیٹ ��ینک کے پاس 6 ارب سے بھی کم ڈالر رہ گئے ہیں جبکہ اگلے تین ماہ 8 ارب ڈالرز کی ادائیگیاں باقی ہیں صرف ایک ماہ کی درآمدات کیلئے زرمبادلہ رہ گیا ہے۔ غیرملکی قرضوں کا بوجھ 274 ارب ڈالر تک بڑھ چکا ہے۔
ایسے میں آئی ایم ایف اور قرض دینے والوں کا مطالبہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی پر سبسڈی ختم کی جائے۔ اور تو اور زندگی کی بنیادی ضرورت آٹا بھی اتنا مہنگا اور نایاب ہو گیا ہے کہ ایک بیگ لینے کیلئے بھی لوگوں کو گھنٹوں قطاروں میں کھڑے رہنا پڑتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس اقتصادی زبوں حالی کی بنیادی وجہ سیاسی بحران اور بے یقینی ہے۔ روپے کی قدر مسلسل گھٹتی اور مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے۔ تباہ کن سیلاب اور توانائی بحران نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ دودھ، چینی اور دالوں سمیت ضروریات زندگی عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہو چکی ہیں۔ دوست ممالک اپنی اپنی بساط کے مطابق فراغ دلانہ مدد کر رہے ہیں مگر بحران ختم ہونے کے آثار پھر بھی دکھائی نہیں دیتے۔ حکومت کو یقین ہے کہ ملک ڈیفالٹ نہیں کرے گا جبکہ اپوزیشن کی خواہش ہی نہیں کوشش بھی ہے کہ ملک سری لنکا بن جائے تاکہ وہ حکومت کو رگڑا دے سکے روس سے سستی پٹرولیم مصنوعات خریدنے کیلئے معاہدے پر بات چیت ہو رہی ہے مگر سیاسی عدم استحکام، پالیسیوں میں عدم تسلسل، پیداواری شرح نمو میں تقریباً تین گنا کمی اور نجی شعبے میں پائی جانے والی بے چینی کے سبب روس بھی تذبذب کا شکار نظر آتا ہے کہ معاہدہ کرے یا نہ کرے۔ اوپر سے امریکہ کا دبائو بھی پیش نظر ہے۔ یہ صورتحال سیاسی قیادت سے تقاضا کر رہی ہے کہ اقتدار کی خواہش بجا، مگر اسے ملکی مفاد کے تابع بنائیں۔ آخری فتح اس کی ہو گی جو ملک و ملت کیلئے سوچے گا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
وزیراعظم پیکج کی سستی چینی کی اوپن مارکیٹ میں فروخت پکڑی گئی
وزیراعظم پیکج کی سستی چینی کی اوپن مارکیٹ میں فروخت پکڑی گئی
وزیراعظم پیکج کے تحت ملنے والی سستی چینی کی اوپن مارکیٹ میں فروخت پکڑی گئی۔ اسلام آباد پولیس کے ایگل اسکواڈ نے یوٹیلیٹی اسٹورزکی چینی سے بھری گاڑی پکڑلی، پولیس نے چینی سے بھری گاڑی اور ڈرائیور کو ایف آئی اے کی تحویل میں دے دیا۔ پولیس کا کہنا ہےکہ ایف آئی اے نے چینی کی غیر قانونی فروخت پر ایف آئی آر درج کرلی ہے۔ رواں ہفتے مہنگائی میں کتنا اضافہ ہوا…؟ ایف آئی آر کے مطابق گاڑی یوٹیلیٹی…
View On WordPress
0 notes
Text
خان صاحب اور اُن کی ٹیم نے عالمی اعزاز اپنے نام کرلیے
خان صاحب اور اُن کی ٹیم نے عالمی اعزاز اپنے نام کرلیے
وزیر اطلاعات سندھ سید ناصر حسین شاہ کا کہنا ہے کہ خان صاحب اور اُن کی ٹیم نے کئی عالمی اعزاز اپنے نام کرلیے ہیں۔ وزیر اطلاعات سندھ سید ناصر حسین شاہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ سستی چینی ایکسپورٹ کر کے مہنگی چینی امپورٹ کرنے کا گورننس ماڈل خان صاحب کا ہے، پہلے 100دن میں اے ٹی ایمز کو ریکارڈ فائدہ پہنچانے کا ورلڈکپ پی ٹی آئی نے جیت لیا۔ انہوں نے کہا کہ حوروں والے انجکشن کا بتاکر ادویات مہنگی…
View On WordPress
0 notes
Text
یوٹیلیٹی سٹورز پر چینی سستی
(وقاص عظیم) یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن چینی 13روپے فی کلو سستی کردی . ذرائع کے مطابق یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن نے چینی 13روپے فی کلو سستی کردی جس کے بعد یوٹیلیٹی سٹورز پر چینی کی نئی قیمت 140 روپے فی کلو مقرر کی گئی ہےجس کا اطلاق فوری طور پر ہوگا۔ ذرائع نے بتایا کہ اب تک یوٹیلیٹی سٹورز پر چینی 153 روپے فی کلو مل رہی تھی، یوٹیلیٹی سٹورز نے شوگر ملز سے چینی کی قیمت کم کرنے کی درخواست کی تھی، شوگر ملز…
0 notes
Text
*خوشی*
ایک وقت تھا خوشی بہت آسانی سے مل جاتی تھی۔
دوستوں سے ملکر،
عزیز رشتہ داروں سے ملکر،
نیکی کرکے،
کسی کا راستہ صاف کرکے،
کسی کی مدد کرکے۔
خربوزہ میٹھا نکل آیا،
تربوز لال نکل آیا،
آم لیک نہیں ھوا،
ٹافی کھا لی،
سموسے لے آئے،
جلیبیاں کھا لیں،
باتھ روم میں پانی گرم مل گیا، داخلہ مل گیا،
پاس ھوگئے،
میٹرک کرلیا،
بی اے کر لیا،
کھانا کھالیا،
دعوت کرلی،
شادی کرلی،
عمرہ اور حج کرلیا،
چھوٹا سا گھر بنا لیا،
امی ابا کیلئے سوٹ لے لیا،
بہن کیلئے جیولری لے لی،
بیوی کیلئے وقت سے پہلے گھر پہنچ گئے،
اولاد آگئی اولاد بڑی ھوگئی، انکی شادیاں کردیں-
نانے نانیاں بن گئے -
دادے دادیاں بن گئے -
سب کچھ آسان تھا
اور سب خوش تھے.
پھر ہم نے پریشانی ڈھونڈنا شروع کردی،
بچہ کونسے سکول داخل کرانا ھے،
پوزیشن کیا آئے،
نمبر کتنے ہیں،
جی پی اے کیا ھے،
لڑکا کرتا کیا ہے،
گاڑی کونسی ہے،
کتنے کی ہے،
تنخواہ کیا ہے،
کپڑے برانڈڈ چاہیئں
یا پھر اس کی کاپی ہو،
جھوٹ بولنا پھر اسکا دفاع کرنا، سیاست بازی -
*ھم سے ھمارے دور ھوگئے*
گھر اوقات سے بڑے ہو گئے،
اور ہم دور دور ہو گئے،
ذرائع آمدن نہیں بڑھے پر گاڑیاں، موٹر سائیکل، ٹی وی، فریج، موبائل سب آگئے،
سب کے کریڈٹ کارڈ آگئے -
پھر ان کے بل بجلی کا بل،
پانی کا بل، گیس کا بل، موبائل کا بل، سروسز کا بل،
پھر بچوں کی وین،
بچوں کی ٹیکسی،
بچوں کا ڈرائیور،
بچوں کی گاڑی،
بچوں کے موبائل،
بچوں کے کمپیوٹر،
بچوں کے لیپ ٹاپ،
بچوں کے ٹیبلٹ، وائی فائی، گاڑیاں،
جہاز،
فاسٹ فوڈ،
باھر کھانے،
پارٹیاں،
پسند کی شادیاں،
دوستیاں، طلاق پھر شادیاں، بیوٹی پارلر،
جم،
پارک،
اس سال کہاں جائیں گے،
یہ سب ہم نے اختیار کئے
اور اپنی طرف سے ہم زندگی کا مزا لے رہے ہیں -
کیا آپ کو پتہ ھے آپ نے خوشی کو کھودیا ہے۔
جب زندگی سادہ تھی تو خوشی کی مقدار کا تعین ناممکن تھا -
اب اسی طرح دھوم دھڑکا تو بہت ھے پر پریشانی کا بھی کوئی حساب نہیں۔
*اپنی زندگی کو سادہ بنائے*
تعلق بحال کیجئے،
دوست بنایئے،
دعوت گھر پر کیجئے،
بے شک چائے پر بلائیں،
یا پھر مولی والے پراٹھوں کا ناشتہ ساتھ کیجئے،
دور ھونے والے سب چکر چھوڑ دیجئے،
واٹس ایپ، فیس بک، ٹویٹر، ٹی وی،خبریں، ڈرامے، میوزک،
یہ سب دوری کے راستے ھیں- آمنے سامنے بیٹھئیے،
دل کی بات سنیئے اور سنائیے، مسکرائیے۔
یقین کیجئے خوشی بہت سستی مل جاتی ہے -
بلکہ مفت،
اور پریشانی تو بہت مہنگی ملتی ہے
جس کیلئے ہم اتنی محنت کرتے ہیں،
اور پھر حاصل کرتے ھیں۔
خوشی ہرگز بھی چارٹر طیارے میں سفر کرنے میں نہیں ھے۔ کبھی نئے جوتے پہن کر بستر پر رھیئے پاوں نیچے رکھے تو جوتا گندا ھوجائے گا۔
بس محسوس کرنے کی بات ہے ،
چائے میں بسکٹ ڈبو کر تو دیکھئے -
ٹوٹ کر گر گیا تو کونسی قیامت آجائے گی ۔
ہمسائے کی بیل تو بجائیے -
ملئے مسکرائیے،
بس مسکراھٹ واپس آجائے گی، دوستوں سے ملئے دوستی کی باتیں کیجئے
ان کو دبانے کیلئے ڈگریاں، کامیابیاں، فیکٹریوں کا ذکر ھرگز مت کیجئے۔
پرانے وقت میں جایئے جب ایک ٹافی کے دوحصے کرکے کھاتے تھے
،فانٹا کی بوتل آدھی آدھی پی ،
ہم نے کیا کرنا چائے خانہ کا جہاں پچاس قسم کی چائے ہے۔
آو وہاں چلیں جہاں سب کیلئے ایک ہی چائے بنتی ھے ملائی مارکے، چینی ہلکی, پتی تیز۔
*آو پھر سے خوش رھنا شروع کرتے ھیں۔*
3 notes
·
View notes
Photo
چینی مافیا اور عدلیہ شوگر ملیں اپنی آمدنی کم بتا کر پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس چوری کرتی ہیں۔ عمران خان نے اس پر تحقیقاتی کمیشن بنانے کا حکم دیا۔ تحقیقاتی کمیشن کے خلاف شوگر مل مافیا عدالت کے پاس گئی اور عدلیہ نے وہ تحقیقاتی رپورٹ 9 ماہ کے لیے روک دی۔ خدا خدا کر کے رپورٹ آئی اور اس رپورٹ کی روشنی میں عمران خان نے تمام شوگر ملوں کا آڈٹ کرنے کا حکم دیا۔ آڈٹ میں کنفرم ہوگیا کہ 81 شوگر ملوں نے عوام کے کم از کم 570 ارب روپے ہڑپ کیے ہیں۔ عمران خان نے عوام کی جیبوں س نکالے گئے 570 ارب روپے واپس مانگے اور ساتھ ہی شوگر ملوں سے 80 روپے فی کلو چینی خریدنے کا حکم دیا۔ شوگر ملیں پھر عدلیہ کے پاس گئیں۔ عدلیہ نے پھر شوگر ملوں کے حق میں فیصلہ دیا۔ حکومت کو عوام کے لیے سستی چینی خریدنے سے روک دیا۔ اور شوگر ملوں کو زیادہ سے زیادہ منافع پر (مہنگی) چینی فروخت کرنے کی اجازت دے دی۔ امید ہے عدلیہ اگلے فیصلے میں عمران خان کو شوگر ملوں سے 570 ارب روپے کی و��ولی سے بھی روک دے گی۔ البتہ حکومت شوگر ملوں کی ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کے خلاف جتنی بار بھی عدالتوں میں گئی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ کسی شوگر مل کے خلاف کوئی ایک فیصلہ نہیں آیا۔ ان شوگر ملوں کی من مانی روکنے کے لیے عمران خان نے انڈیا سے 80 روپے کلو چینی خریدنے کا فیصلہ کیا جس پر عوام نے زبردست غیرت کا مظاہرہ کیا اور وہ فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ اگر عوام تھوڑی سی غیرت شوگر ملوں اور عدالتوں کے خلاف بھی دیکھا دیں تو شائد یہیں پر سستی چینی مل جائے۔ پاکستان میں تاجر عوام کو ٹیکس کے نام پر مہنگی چیزیں فروخت کرتے ہیں۔ لیکن وہ ٹیکس عوام سے وصول کر کے جیبوں میں ڈال لیتے ہیں۔ سالانہ کئی سو ارب روپے۔ کچھ عرصہ پہلے عمران خان نے تاجروں سے عوام کے یہ پیسے وصول کرنے کی کوشش کی تھی تب تاجروں کی یونین عدلیہ کے پاس گئی اور اپنے حق میں فیصلہ کروا کر حکومت کے ہاتھ باندھ دئیے تھے۔ عمران خان نے دو دن پہلے کہا تھا کہ عدلیہ کے تعاؤن کے بغیر میں ان کرپٹ مافیاؤں سے نہیں لڑ سکتا!! تحریر شاہد خان نوٹ ۔۔ عدلیہ سے یہ تعاؤن درکار نہیں کہ چوروں کو سزائیں دے۔ بس اتنا کہ ان کو بچانا بند کردے۔ https://www.instagram.com/p/CNbmSy8nF5X/?igshid=klbikdpoout5
1 note
·
View note
Text
پاک چین دوستی کے حوالے سےفلم " پا تھیے گرل" کی مشترکہ پیشکش
پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے مرکزی آڈیٹوریم میں سینکڑوں افراد کی موجودگی کے باوجود خاموشی چھائی ہوئی تھی جس کی وجہ لوگوں کا پاکستانی اور چینی پروڈیوسرز کی مشترکہ طور پر تیار کرد فلم میں مکمل طور پر مگن ہونا تھی۔ چین کی خبر ایجنسی شنہوا کے مطابق شائقین ایک نوجوان چینی خاتون کے قراقرم ہائی وے کے ذریعے چین سے پاکستان آنے والے سفر سے محظوظ ہوئے ۔یہ خاتون پاکستان کو سستی اور صاف بجلی فراہم کرنے…
View On WordPress
0 notes
Text
*بیماری، غفلت اور مصائب وتکالیف سے چھٹکارہ کیسے ممکن ہے؟*
سوال: امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
● بیماری جانے کا نام نہ لے تو علاج کیا ہو گا؟
● ہر وقت اعصاب پر تھکن سوار رہے تو کیسے چھٹکارا حاصل کریں؟
روں روں پر سستی مسلط ہو تو خلاصی کیسے ہو گی؟
● بے چینی سے نکلنے کا ذریعہ کیا ہو گا؟
● انسان اللہ کی طرف متوجہ ہونا چاہے تو خواہشِ نفس آڑے آتی ہے۔ اگر ذکر واذکار کی کوشش کرے تو خیالات و وساوس بہا لے جاتے ہیں۔ ہر کام میں ناکامی مقدر ٹھہرتی ہے۔ اب تو بقول شاعر یہ حال ہوا ہے کہ:
اس قدر مریضِ عشق بنا ہے کہ ہر وقت حیران وپریشان بلکہ حواس باختہ رہتا ہے۔
محبوب کو ملنے کی ہر کوشش کے باوجود، حالات ساتھ نہیں دیتے اور لمبی جدائی میں مبتلا ہے۔
عزیز واقارب سب سے بیزار ہے کہ شاید تسلی وسکون کا ساماں ہو سکے، لیکن سب حیلے بہانے اس کے حیرت واضطراب میں اضافہ کرنے کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ کیا ان کی چوکھٹ کا سوالی یونہی رسوا کیا جاتا ہے؟
■جواب: امام رحمہ اللہ نے فرمايا:
¤ علاج یہ ہے کہ اللہ کے سامنے التجا گزار ہو جائے، رب کی چوکھٹ پر سر رکھ دے، مسنون دعائیں سیکھ کر قبولیت کے اوقات مثلا رات کے آخری پہر، اذان واقامت کے درمیان سجدہ ریز ہو کر، نمازوں کے فورا بعد اللہ کے سامنے روئے گڑگڑائے۔ اس کے ساتھ کثرت سے استغفار کرے کہ اللہ توبہ واستغفار کرنے والے کو دنیاوی سعادتوں سے نوازتا ہے۔
¤ صبح وشام اور سونے کے اذکار کی پابندی کرے۔ ابتدا میں آنے والے وساوس وخیالات اور سستی وکاہلی پر صبر کرے، جلد اللہ تعالی اسے اپنی تائیدِ خاص سے نوازے گا اور اس کے دل کو نورِ ایمان سے منور کرے گا.
¤ حضورِ قلب کے ساتھ فرض نمازیں ادا کرنے کا اہتمام کرے، کیونکہ نماز دین کا ستون ہے۔
¤ *لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم‘* کے وظیفے کو ہر حال میں لازم کر لے۔
یوں اللہ تعالی اس کے اندر مصائب وتکالیف سے مزاحمت کی صلاحیت پیدا کردے گا اور وہ جلد ميسور و شاد حال ہوجائے گا۔
¤ دعا ومناجات سے اکتاہٹ محسوس نہ کرے۔ انسان جلد بازی نہ کرے تو اللہ قبولیت کا پروانہ جاری کر ہی دیتا ہے۔ یاد رکھيے کہ صبر واستقامت ظفر ونصر کا ذریعہ ہے، تنگی کے بعد کشادگی اور مشکل کے بعد آسانی ہے.
( جامع المسائل لابن تيمية:7/448 )
3 notes
·
View notes
Text
مافیا جیت گیا یا عمران خان
کورونا نے نظام زندگی یکسر بدل دیا ہے، بہت سی حکومتوں اور افراد نے زندگی گزارنے کے اصول ہی بدل ڈالے ہیں۔ الغرض کچھ نے سبق سیکھ لیا ہے، کچھ سیکھنے کے مراحل سے گزر رہے ہیں اور کچھ اب بھی اختیارات، منافقت، ناجائز منافع خوری اور ظلم و بربربیت کی دوڑ میں سبقت لے جانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ یہی طبقہ ’’مافیا‘‘ کہلاتا ہے، اس مافیا کو زیادہ سے زیادہ مال بنانے کی لت لگ گئی ہے، اور یہ لت شاید قبر میں جا کر ہی ختم ہو! بقول شاعر
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب موت کیا ہے انھیں اجزا کا پریشاں ہونا
پٹرول سستا ہوا، تو شارٹ کر دیا گیا، پھر یکمشت 25 روپے مہنگا ہوا تو ٹینکر کے ٹینکر سڑکوں پر دوڑنے لگے۔ حکومت نے ادویات سستی کرنے کے لیے کمپ��یوں کو نوٹسز جاری کیے تو ادویات مارکیٹ سے غائب ، پھر جب قیمتیں بڑھا دی گئیں تو انھی میڈیکل اسٹورز پر ادویات کے ڈھیر لگے نظر آئے۔ چینی مہنگی ہونے کا نوٹس لیا گیا، مگر زائد قیمت چینی پر ہی اکتفا کر کے چینی مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے، آٹا و گندم مہنگی ہوئی، نتیجے میں مہنگی قیمتوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا، پھر حکومت نے چکن کے ریٹ فکس کرنے کی کوشش کی ، تو 200 والا چکن 300 میں سیل ہونے لگا۔
یہی حالات پیپر، بجلی، گیس اور دیگر اشیائے ضروریہ کے ساتھ ہوئے۔ سوشل میڈیا کو دیکھ لیجیے، آپ کو ہر شخص اس حوالے سے ڈسکس کرتا نظر آئے گا کہ کیا پاکستان میں ’’مافیا‘‘ کے پنجے اس قدر مضبوط ہو گئے ہیں کہ کوئی حکومت بھی ان سے نمٹنے سے قاصر ہے۔ جب کہ وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ مافیا کا پیچھا چھوڑ دوں تو آج ہی سب اچھا ہو جائے گا۔ خان صاحب ! یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب آپ نے شوگر مافیا، ادویات مافیا، بلڈر مافیا ، پٹرولیم مافیا ، گندم مافیا، ٹرانسپورٹ مافیا اور دیگر مافیا ز کو آج تک سزا نہیں دی تو کوئی کیسے سمجھے کہ آپ ان مافیاز کو ’’نتھ ‘‘ ڈالنے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں۔ بات تو اُس وقت سمجھ آئے کہ چند ایک بڑے لٹیروں سے آپ نے اربوں روپے ریکور کر لیے ہیں جب کہ چند ایک کے خلاف آپ ثبوت اکٹھے کر رہے ہیں۔ لیکن فی الحال تو یہی لگ رہا ہے کہ جیسے مافیا چاہتا ہے اس ملک میں ویسا ہی سب کچھ ہو رہا ہے۔
میں نے ابھی پچھلے دنوں پٹرول بحران پر کالم لکھا تھا، اُس میں میں نے لکھا تھا کہ اگر حکومت پٹرول بحران پر قابو پانے میں ناکام رہی تو اس کی قیمت میں اضافہ کرنا پڑے گا، خیر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، لہٰذا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ عوام مہنگا تیل نہیں خریدیں گے، بلکہ مسئلہ یہ ہے اگر حکومت واقعی دباؤ میں آکر ایسے فیصلے مسلط کرے گی تو عوامی ردعمل آنا فطری بات ہے۔ اور پھر یہ سوال اُٹھنا کہ حکومت کی رٹ کہاں ہے؟ یقینی ہو گا ۔ میرے خیال میں حکومت قائم کر لینا اصل کمال نہیں بلکہ اصل چیز حکومتی رٹ کا قیام ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ پھر ان کے دفاع میں عجیب و غریب تاویلیں پیش بھی کرتی ہے کہ یہ تمام فیصلے عوام کے وسیع تر مفاد میں کیے گئے ہیں۔ سوال اب یہ ہے کہ کیا ان مافیاز اور حکومت میں سے کون جیت رہا ہے اور کون ہار رہا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہم اگر اپنے ارد گرد نظر دوڑا لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ فی الوقت بجلی کی بے وقت کی لوڈ شیڈنگ ، بجلی کے بڑھتے ہوئے بلز، ڈاکٹروں کی بڑھتی فیسیں، اسپتالوں کے مہنگے بلز، تعلیمی اداروں کی فیسیں، صاف پینے کے پانی کی سپلائی، سڑک کی صفائی اور استرکاری، امن وامان کے قیام، الغرض تمام سرکاری ادارے جو سرکار کے نام پر عوام سے رشوت لے کر کام کرتے ہیں سبھی سانپ کی طرح پھن پھیلائے عوام کو ڈسنے کے لیے تیار ہیں۔
لگ تو یوں رہا ہے کہ جیسے حکومت تو آئی لیکن آتے ہی سب بھول گئی۔ کرپشن کے خلاف اقدامات تو اُٹھائے گئے مگر ریکور کچھ نہ ہوا۔ اُلٹا اربوں روپے سیکیورٹی اور پیشیوں کی مد میں خرچ کر دیے گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت اپنے مقاصد سے ہٹ گئی ۔ شاعر نے کیا خوب ان حالات کی تشریح کی ہے کہ
عجیب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں لگا کے زخم، نمک سے مساج کرتے ہیں
بہرکیف جب تک حکومت کی رٹ بحال نہیں ہوتی آپ کچھ بھی کرنے سے قاصر رہیں گے، حد تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت، گیس، آٹا اور دیگر لوازمات میں سبسڈی دے کر بھی نان بائیوں کو کنٹرول کرنے سے قاصر رہی۔ انھوں نے جب چاہا زائد قیمتیں وصول کرنا شروع کر دیں۔
اس طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ لیکن کوالٹی کنٹرول اور پرائس کنٹرول کے ادارے خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں اور سب کچھ اچھا ہے کی گردان کرتے رہے ہیں۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ اس حوالے سے ادارے موجود نہیں ہیں اس وقت سی سی پی یعنی مسابقتی کمیشن آف پاکستان اس معاملہ میں غیر فعال ہو گیا ۔ یہ وہ سرکاری ادارہ ہے جس کی سربراہی کے لیے آئے دن مختلف نام منظر عام پر آتے رہتے ہیں اور جو اسٹیٹ بینک کے بعد دوسرے نمبر پر معاشی کنٹرول کا ادارہ بنتا ہے۔ افسوس کہ کوئی کچھ نہیں کرتا۔ ہمیں یاد ہے کہ جب عمران خان اپوزیشن میں تھے تو اُن کی جانب سے یہ اکثر سننے میں آتا تھا کہ یہ سب مافیاز ہیں جن کے خلاف میں حکومت میں آنے کے بعد کارروائی کروں گا لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان اپنے ماضی کے بیانیے سے ہٹتے نظر آرہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان پر آٹا، چینی اور پٹرول بحران کے بعد یہ الزام لگنا شروع ہو گیا تھا کہ ان کی اپنی کابینہ میں مافیا بیٹھا ہوا ہے، جس پر انھوں نے مافیا کے لفظ کو تھوڑا فینسی کرتے ہوئے ان کے لیے ’’ایلیٹ کارٹل ‘‘ کا لفظ استعمال کرنا شروع کر دیا ہے، یعنی اس سے مراد وہ کاروباری حضرات ہیں جو اپنا اکٹھ کر کے ملک میں کسی چیز کی قلت پیدا کر دیتے ہیں۔ منافع خوروں کا چہرہ تب عیاں ہوتا ہے جب حکومت کسی بھی چیز کی قیمتوں میں کمی کرتی ہے اور فورا بعد اس چیز کی قلت پیدا کر دی جاتی ہے۔ الغرض کہنا تو نہیں چاہیے لیکن آج ایک بار پھر یہی کہوں گا کہ عمران خان صاحب آپ اس عوام کے لیے آخری اُمید ہیں، اگر اس بار اُمید ٹوٹتی ہے تو یقین مانیں کچھ باقی نہیں رہے گا۔ ہر بحران کے بعد کہا جاتا ہے کہ مافیا جیت گیا ، کپتان ہار گیا۔ یہ بات عمران خان کی نااہلی کو بھی واضح کرتی ہے۔ لہٰذا ان تمام بحرانوں سے چھٹکارہ پانے کا صرف یہی حل ہے کہ آپ کسی ایک بحران کو پکڑ لیں، اُسے حل کریں، عوام کے سامنے نمونہ بنا کر پیش کریں، اُس کے بعد دوسرا بحران پکڑیں اُسے حل کریں، پھر حل ہونے والے بحرانوں کے آگے بند باندھ دیں۔ اسی طرح تمام مسائل کو حل کرنے میں عوام بھی آپ کے ساتھ ہوں گے اور اس طرح یقینا آپ جیت بھی جائیں گے!
علی احمد ڈھلوں
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note
·
View note
Text
یوٹیلیٹی اسٹورز پر عام آدمی کو سستی چیزوں کی فراہمی ختم
یوٹیلیٹی اسٹورز پر عام آدمی کو سستی چیزوں کی فراہمی ختم
صرف بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کیساتھ رجسٹرڈ صارفین کو ٹارگٹڈ سبسڈی ملے گی۔ اسلام آباد: یوٹیلیٹی اسٹورز پر سستی اشیاء کی ہر شہری کو یکساں فراہمی ختم کردی گئی اور اب صرف بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کیساتھ رجسٹرڈ صارفین کو ٹارگٹڈ سبسڈی ملے گی۔ یوٹیلیٹی اسٹورز پر چینی،گھی اور آٹےکے نظرثانی شدہ نرخ کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا جس کے تحت عام افراد کے لیے گھی ، آٹا ، چینی کی قیمتیں بڑھا دی گئی۔ اسٹورز…
View On WordPress
0 notes
Text
مہنگائی سے پریشان عوام کیلئے اچھی خبر چینی مزید سستی ہو گئی
(24 نیوز) مہنگائی سے پریشان عوام کیلئے اچھی خبر آ گئی، ہول سیل میں چینی مزید 6 روپے فی کلو سستی ہو گئی۔ کراچی کی ہول سیل مارکیٹ میں چینی مزید 6 روپے سستی ہوکر 122 روپے فی کلو پر آ گئی، سرکاری ریٹ لسٹ میں تاحال چینی 137 روپے کلو پر ہی برقرار ہے۔ دوسری جانب چیئرمین ہول سیل گروسرز عبدالروف ابرہیم کا کہنا ہے کہ چینی 100 روپے کلو پر آئے گی، اس سال گنے کی فصل 20 فیصد زیادہ ہو گی، چینی وافر مقدار میں…
0 notes