#شہباز گل
Explore tagged Tumblr posts
Text
پاکستان تحریک انصاف سپین کے زیر اہتمام عمران خان کی حمایت میں ریلی ،ڈاکٹر شہباز گل کی خصوصی شرکت
بارسلونا (ارشد نذیر ساحل )پاکستان تحریک انصاف کی ڈاکٹر شہباز گِل کی قیادت میں عمران خان کے حق میں احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا گیا جس میں پاکستان تحریک کے رہنماؤں اور کارکنوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی ۔ احتجاجی ریلی کی صدرات صدر محمد شیراز بھٹی جبکہ عمران خان کے چیف آف سٹاف ڈاکٹر شہباز گِل نے ریلی کی قیادت کی۔ احتجاجی ریلی میں سپین میں مقیم پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں نے سینکڑوں کی…
0 notes
Text
پاکستان اور چین کےدرمیان مختلف شعبہ جات میں مفاہمتی یادداشت پر دستخط
وزیراعظم شہباز شریف اورچینی ہم منصب لی کیانگ کی موجودگی میں پاکستان اور چین کے درمیان مختلف شعبہ میں مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کردیےگئے۔ چینی وزیراعظم لی چیانگ آج چارروز�� سرکاری دورےپروفد کےہمراہ ایئرچائناکے طیارے میں نورخان ایئربیس پرپہنچے جہاں وزیراعظم شہبازشریف نےان کا بھرپور استقبال کیا، گل دستے پیش کیےگئے،توپوں کی سلامی دی گئی۔ چینی وزیراعظم کا ایوان وزیراعظم میں پرتپاک استقبال بعد ازاں…
0 notes
Text
آؤ نیا وزیراعظم ـ ’سلیکٹ‘ کریں
سب سے پہلے تو پوری قوم کو نیا سال مبارک ہو، شکر کریں سال 2023 کو توسیع نہیں دی گئی۔ اب سنا ہے نئے سال میں کچھ ’’الیکشن و لیکشن‘‘ ہونے جا رہا ہے۔ سلیکشن کمیٹی خاصی محترک ہے بہت سے بلامقابلہ جیت نہیں پا رہے تو دوسروں کو بلا مقابلہ ہرایا جا رہا ہے۔ کوئی جیت کر بھی ہارتا نظر آ رہا ہے اور کوئی ہار کر بھی جیتتا۔ اب یہ بھی کیا حسن ِاتفاق ہے کہ صرف ایک پارٹی کی پوری اے ٹیم کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیئے گئے کیا کپتان کیا نائب کپتان، کیا پارٹی کا صدر یا قریب ترین ساتھی۔ اب دیکھتے ہیں کہ ان فیصلوں کیخلاف اپیلوں پر کیا فیصلہ ہوتا ہے۔ دیکھتے ہیں پاکستان کی ’’بدقسمتی‘‘ کس کے ہاتھ آتی ہے، لگتا کچھ یوں ہے کوئی نیا پروجیکٹ تیار نہیں ہو پا رہا تو عبوری دور کیلئے پرانے پروجیکٹ کو ہی آزمانے کی تیاری آخری مرحلوں میں ہے، یہ نہ ہو پایا تو کہیں ’’فیکٹری کو سیل نہ کرنا پڑ جائے۔‘‘ آپ کسی محفل میں چلے جائیں، سوال بہت سادہ سا پوچھا جاتا ہے ’’کیا الیکشن واقعی ہو رہے ہیں۔ نظر نہیں آ رہا کہ پی ٹی آئی کو آنے دیا جائے گا۔ کپتان کا کیا بنے گا۔‘‘ زیادہ تر سوالات ہم جیسے صحافیوں سے ہی کیے جاتے ہیں سادہ سا جواب تو یہ دیتا ہوں جب تک الیکشن ملتوی نہ ہوں سمجھ لیں ہو رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے، چیف جسٹس کہہ رہے ہیں، آرمی چیف نے بھی کہہ دی�� ہے، اب بھی اگر ایسا نہیں ہوتا تو تمام نئے پرانے پروجیکٹ بند ہونے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ بہرحال ابھی تک تو کچھ الیکشن ولیکشن ہو رہا ہے کچھ ویسا ہی جیساکہ ہوتا آیا ہے البتہ اس بار ذرا مشکل پیش آ رہی ہے کیونکہ پرانے پروجیکٹ کو چند سال میں اتنا نقصان پہنچا کہ لوگ اب اسے قبول کرنےکو مشکل سے ہی تیار ہوںگے اب اگر سرکار آپ نے فیصلہ کر ہی لیا ہے کسی کو لانے کا یا کسی کو نہ آنے دینے کا تو کیسا ووٹ اور کیسی اس کی عزت۔ یہ سال تو ان کیلئے بھی مشکل ترین سال رہا جنہوں نے اپنی پوری سیاسی زندگی راولپنڈی میں اور پنڈی کی طرف دیکھتے ہوئے گزار دی انہیں بھی چلے پر بیٹھنا پڑ گیا اور وہ گجرات کے چوہدری جو جنرل ضیاء سے لے کر جنرل مشرف تک کے ہمنوا رہے پہلے خود تقسیم ہوئے پھر نہ جانے ایک گھر سے مٹھائی کھا کر نکلے تو اس گھر اور شخص کو ہمراہ لیا جو انکے بیٹے کی شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ جو کبھی گجرات سے الیکشن نہیں ہارا آج اس کے بھی کاغذات مسترد ہو گئے۔ دیکھیں اپیل کا کیا بنتا ہے۔ دوستو یہ ہے سال 2023 کے سیاسی منظر نامہ کا مختصر جائزہ۔
یقین جانیں اس سب کی ضرورت نہ پڑتی اگر پی ڈی ایم تین چار بڑی غلطیاں نہ کرتی۔ پہلی مارچ 2022 میں عدم اعتماد کی تحریک کا لانا۔ دوسری تحریک کے منظور ہونے کے بعد شہباز شریف یا کسی بھی شریف کو وزیر اعظم بنانا (اس سے سب سے زیادہ نقصان خود میاں صاحب کو ہوا)۔ تیسری اور سب سے بڑی غلطی سابق وزیر اعظم عمران خان کو ہٹا کر فوراً الیکشن نہ کرانا، اس سب کے باوجود اگر اگست 2023 میں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد نومبر میں ہی الیکشن ہو جاتے تب بھی یہ ساکھ تو شہباز صاحب کے حق میں جاتی کے وقت پر الیکشن ہو گئے۔ میاں صاحب اس بات کو ماننے پر تیار ہوں یا نہیں آج کا پنجاب 90 کے پنجاب سے مختلف ہے، ویسے بھی اس صوبہ کے مزاج میں غصہ بھی ہے اور وہ بہادر کے ساتھ کھڑا بھی ہوتا ہے اسی لیے ذوالفقار علیٰ بھٹو پھانسی لگنے کے بعد بھی زندہ ہے اور جنرل ضیاء نت نئے پروجیکٹ لانے کے بعد بھی اس کی مقبولیت ختم نہ کر سکے، انکے دو پروجیکٹ تھے محمد خان جونیجو دوسرے، شریف برادران۔ ایک ��و اس لیے لایا گیا کہ سندھ کا احساس محرومی کم کیا جائے مگر اس نے ��و پہلی تقریر میں ہی کہہ دیا کہ ’’جمہوریت اور مارشل لا ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے‘‘۔
دوسرے میاں صاحب تھے جنہیں بھٹو اور پی پی پی کا زور توڑنے کیلئے لایا گیا مگر پھر جنرل حمید گل مرحوم ان سے بھی ناراض ہو گئے کیونکہ وہ لاڈلے پن سے باہر آنا چاہتے تھے اور پھر عمران خان پہ کام شروع ہوا اور اب وہ بھی گلے پڑ گیا ہے۔ ماشاء اللہ کپتان سے بھی کمال غلطیاں ہوئیں۔ 2013 سے 2022 تک جنرل ظہیر سے جنرل پاشا تک اور جنرل باجوہ سے جنرل فیض تک وہ انکے ساتھ جڑے رہے اور پھر آخر میں ان ہی میں سے ایک جنرل باجوہ جن کی مدت ملازمت میں توسیع اور پھر مزید توسیع کیلئے سب دربار میں حاضر تھے، ہی کے ہاتھوں جو کچھ ہوا وہ مارچ اور اپریل 2022 کی کہانی ہے۔ خان صاحب کی تاریخی غلطیوں میں ان پر سیاسی معاملات میں اعتماد کرنا، پرانا پنجاب عثمان بزدار کے حوالے کرنا ، دوسری جماعتوں سے آئے ہوئے لوگوں کو اپنی کور کمیٹی کا حصہ بنانا، سیاسی مخالفین سے بات نہ کرنا، پنجاب اور کے پی کی حکومتیں ختم کر کے اپنی فیلڈ مخالفین کے حوالے کر دینا۔ ان غلطیوں کے باوجود آج بھی عمران اپنے سیاسی مخالفین سے آگے نظر آتا ہے جسکی بڑی وجہ پی ڈی ایم کی 18 ماہ کی کارکردگی اور مظلومیت کارڈ ہے۔
اب آپ سارے کاغذات مسترد بھی کر دیں، نااہل اور سزا برقرار بھی رکھیں، ایک ٹیم کو میچ سے ہی باہر کر دیں۔ لاتعداد پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی پریس کانفرنس یا انٹرویو کروا دیں یقین جانیں یہ وہی سیاسی غلطیاں ہیں جو 1956 سے ہماری حکمراں اشرافیہ کرتی آ رہی ہے۔ بہتر ہوتا اگر عمران کو اپنی مدت پوری کرنے دی جاتی اور جیسا کہ پی ڈی ایم اور پی پی پی کے دوستوں کا خدشہ تھا وہ جنرل فیض کو آرمی چیف بنا بھی دیتا، کوئی صدارتی نظام سے بھی آتا تو کیا جمہوری جدوجہد ختم ہو جاتی یہ صرف خدشات کی بنیاد پر ہونے والی کارروائی کا نتیجہ ہے کہ آج تمام تر اقدامات کے باوجود خان کی مقبولیت کا گراف بدستور اوپر ہے۔ آخر میں طاقتور لوگوں سے بس ایک گزارش ہے کہ پروجیکٹ بنانا ختم کرنا پھر نیا پروجیکٹ تیار کرنا پھر اسے ہٹا کر کوئی اور یا پرانا کچھ تکنیکی مرمت کے بعد دوبارہ لانچ کرنا، جماعتیں بنانا توڑنا، حکومتیں گرانا اور توڑنا چھوڑ دیں۔ غلطیاں کرنی ہی ہیں تو نئے سال میں نئی غلطیاں کریں پاکستان آگے بڑھ جائیگا ورنہ تاریخ کبھی ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
#Nawaz Sharif#Pakistan#Pakistan establishment#Pakistan Politics#PDM#Politics#PTI#Shahbaz Sharif#Word
0 notes
Text
عمران کا سیاسی مستقبل
اگر ہمارے کچھ غیر سیاسی دوستوں کا خیال ہے کہ کسی کو انتخابی عمل سے دور کر کے، نااہلی یا سزا کی تلوار چلا کر یا لٹکا کر اس کی سیاست ختم ہو جائے گی تو اب تک ہماری سیاست میں یہ مائنس کا فارمولا ناکام ہی رہا ہے اور اگر کوئی فارمولا کامیاب رہا ہے تو وہ جمہوری انداز میں ایک حکومت سے دوسری اور ایک وزیر اعظم سے دوسرے کو پر امن انداز میں اقتدار کی منتقلی کا فارمولا ہے۔ بھٹو سے عمران تک کا جائزہ لے لیں اگر کوئی زور زبردستی سے آئوٹ کیا جائے تو وہ امر ہو جاتا ہے اور کارکردگی پر ناکام ہو تو واپسی مشکل ہو جاتی ہے۔ 2008 میں عام انتخابات کے نتیجے میں پی پی پی کامیاب ہوئی اور پہلی بار کسی جماعت نے اپنے پانچ سال پورے کیے اور 2013 میں عام انتخابات کے ذریعہ ایک اور حکومت تشکیل پائی۔ پی پی پی کا پنجاب میں ووٹ بینک تقریباً ختم ہو کر رہ گیا۔ اس سے پہلے اس جماعت پر جتنے بھی تجربات ہوئے اس نے پارٹی کو مضبوط کیا مثلاً بھٹو کو پھانسی دینے سے بھٹو ’زندہ‘ ہو گیا۔ پی پی پی سے انتخابی نشان تلوار لے لیا گیا تو ووٹوں کے تیر چلنے لگے۔ پارٹی توڑی گئی، بڑے بڑے نام الگ ہوئے مگر وہ سب سیاسی بونے ثابت ہوئے لہٰذا ہر طرح کا مائنس فارمولا ناکام ہوا۔ نقصان صرف اتنا ہوا کہ 11 سال ایک آمر نے اپنی انا کی تسکین کی خاطر اور ایک جماعت کو اقتدار اور سیاست سے باہر رکھنے کی خاطر ہر حربہ اپنایا یہاں تک کہ معاشرہ تقسیم کر دیا مگر آج بھی لوگوں کو 4 اپریل یاد ہے 17 اگست نہیں۔
جنرل ضیاء کی باقیات نے بعد میں کئی سیاسی فارمولے اپنائے مگر اس سے سیاست کو تو نقصان ہوا ہی جمہوریت بھی ’جھرلو جمہوریت‘ بن کر رہ گئی۔ لاڈلے بنانے کی فیکٹری لگ گئی مگر ہر پیداوار خود بنانے والوں کے گلے پڑ گئی۔ 2013 میں الیکشن ہوئے تو مسلم لیگ (ن) کامیاب ہوئی اور نواز شریف پر امن منتقلی اقتدار کے ذریعہ وزیر اعظم بن گئے مگر 2008 سے 2013 کے درمیان ایک تیسری سیاسی قوت ابھر کر سامنے آگئی جس کا نام پاکستان تحریک انصاف تھا۔ دونوں بڑی جماعتوں نے اسکا سیاسی تقابلی جائزہ لیے بغیر اسےمحض ایجنسیوں کی سازش قرار دیا۔ پی پی پی یہ سمجھ کر خوش ہوئی کہ یہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو نقصان پہنچائے گی مگر 2013ء میں پتا چلا کہ وہ پی پی پی کو پنجاب میں کھا گئی۔آج پی پی پی کے بہت سے دوست یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ان کا اندازہ غلط ثابت ہوا۔ پی ٹی آئی کو ایجنسیوں کی حمایت ایسے ہی حاصل رہی جیسی مسلم لیگ (ن) کو مگر اسکی مقبولیت اور ابھرنے کی وجوہات میں کم از کم تین بنیادی عوامل شامل رہے۔ (1) عمران کی شخصیت کا سحر کرکٹ کے ہیرو سے لے کر سوشل ورکر تک۔ (2) سیاست میں بڑی تعداد میں نوجوانوں کا آنا جن میں سے زیادہ تر نے ٹی وی اسکرین پر عمران کو سیاست میں آنے سے پہلے بھی دیکھا ہوا تھا کامیاب کپتان کے طور پر۔ (3) پرانے لوگوں کی مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کی سیاست سے مایوسی مثلاً پی پی پی کے پنجاب کا ووٹر اور کارکن بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد مایوس ہو گیا تھا۔ (4) پی ٹی آئی اور عمران خان کا مسلسل شریفوں اور زرداری کو تنقید کا نشانہ بنانا۔
سوال یہ بھی اہم ہے کہ اس سب کے باوجود ایجنسیاں مسلم لیگ (ن) کو ختم نہ کر سکیں۔ مسلم لیگ (ن) کا جنم 1988 میں سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی برطرفی کے بعد ہوا جس میں جنرل جیلانی کے علاوہ جنرل حمید گل کا بھی خاصہ عمل دخل تھا۔ گل صاحب جب شریفوں سے مایوس ہوئے تو انہوں نے عمران کو اپنی جانب راغب کیا۔ مگر مسلم لیگ (ن) نے نواز شریف شہباز شریف کی قیادت میں پنجاب میں مسلسل کامیابی دیگر وجوہات کی بنا پر بھی حاصل کی۔ انہوں نے جاگیردارانہ سیاست کے مقابلے میں سرمایہ دارانہ طرز سیاست سے کاروباری طبقے کو متاثر کیا۔ خود بائیں بازو کا ایک بڑا طبقہ ان کے ساتھ ہو گیا۔ موٹر وے اور میٹرو جیسے پروجیکٹ نے مڈل کلاس کو متاثر کیا۔ 1993ء کے بعد نواز شریف کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ، بھارت کے ساتھ پر امن تعلقات اور بعض معاشی اقدامات کی بدولت۔ پاکستان تحریک انصاف 2013 ء میں اور 2018ء میں بھی اس پوزیشن میں نہ آ سکی کہ اپنے بل بوتے پر حکومت بنا سکے۔ لہٰذا 2018ء سے پہلے نواز شریف کی نااہلی بھی پی ٹی آئی کو وہ کامیابی نہ دلا سکی۔ بلوچستان میں ’باپ‘ بنائی گئی۔ پہلے ایم کیو ایم کی سیٹیں پی ٹی آئی کو دی گئیں اور پھر ان سے یہ بھی کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ حکومت میں جائو۔ نواز شریف کو زور زبردستی نکالا گیا تو وہ پھر واپس آ گیا مگر اس دوران عمران مقبولیت کی بلندی پر پہنچ گیا خاص طور پر جس طرح اسے نکالا گیا۔ عمران جنرل باجوہ اور جنرل فیض کے تنازع کا شکار ہوا اصولی طور پر بحیثیت وزیر اعظم یہ اس کا حق تھا کہ کسی کو بھی آرمی چیف تعینات کرے اور کسی کو بھی اس کے عہدہ سے برطرف یا ٹرانسفر کرے۔
میاں صاحب اور مسلم لیگ (ن) عمران کے دور میں پنجاب میں زیادہ مقبول تھی جب کہ شہباز شریف اور پی ڈی ایم کے 16 ماہ میں ان کا گراف نیچے چلا گیا اور عمران ، پی ٹی آئی کا اوپر۔ یقین نہ آئے تو پچھلے پانچ سال کے دوران ہونیوالے ضمنی الیکشن کے نتائج دیکھ لیں۔ 2018 سے مارچ 2022 تک اور اسکے بعد سے آج تک۔ اب اگر شہباز شریف خود یہ اعتراف کریں کہ ہم نے اپنی سیاست قربان کر دی تو قربانی کا بکرا اس وقت کون بن رہا ہے کس کو آزاد اور غیر جانبدارانہ الیکشن ہونے کی صورت میں واضح شکست نظر آ رہی ہے لہٰذا مائنس عمران ہی نہیں ہے ان کیلئے مائنس’ بلا‘ بھی چاہیے۔ کرکٹ میں ’’اسپاٹ فکسنگ‘‘ نہ چل سکی تو سیاست میں کیسے چلے گی۔ خدارا یہ سلسلہ بند کر دیں۔ کبھی مارشل لا، کبھی مائنس ون، کبھی مائنس تین ، کبھی تلوار نہ چلی تو تیر آ گیا۔ کبھی تیر سے مایوس ہوئے تو شیر لے آئے۔ شیر نے جنگل کے بجائے ملک کا بادشاہ بننے کی کوشش کی تو بلے کو میدان میں اتار دیا۔ یہ سارے کام جمہور پر چھوڑ دیں وہ شیر لائیں۔ تیر کو آزمائیں یا بلا چلائیں۔ الیکشن 8 فروری 2024ء کو آزاد غیر جانبدارہونے دیں۔ الیکشن سے قبل نتائج کا اعلان نہ کریں جیسا کہ اس وقت ابتدائی نتائج ترتیب دیئے جا رہے ہیں کہ کس کو اِن کرنا ہے کس کو آئوٹ۔
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
طلال چوہدری کو مڈل کلاس ہونے کیوجہ سے سزا دی گئی، شہباز گل
ملتان: پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل نے کہا ہے کہ پاکستان میں سزائیں صرف متوسط طبقے کے لوگوں کو ملتی ہیں، طلال چوہدری کو بھی اس لیے سزا ملی کیونکہ وہ مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے۔ ملتان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز گل نے کہا کہ سزائیں اشرافیہ کو نہیں صرف متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو ملتی ہیں، ��پریم کورٹ اور عوام کو یہ بات سمجھنی ہوگی اگر یہی روایت بنانی ہے تو عام آدمی کو بھی…
View On WordPress
0 notes
Text
طلال چوہدری کو مڈل کلاس ہونے کیوجہ سے سزا دی گئی، شہباز گل
ملتان: پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل نے کہا ہے کہ پاکستان میں سزائیں صرف متوسط طبقے کے لوگوں کو ملتی ہیں، طلال چوہدری کو بھی اس لیے سزا ملی کیونکہ وہ مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے۔ ملتان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز گل نے کہا کہ سزائیں اشرافیہ کو نہیں صرف متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو ملتی ہیں، سپریم کورٹ اور عوام کو یہ بات سمجھنی ہوگی اگر یہی روایت بنانی ہے تو عام آدمی کو بھی…
View On WordPress
0 notes
Text
موجودہ حکومت اپنی آئین شکنی بچانے کیلیے عدلیہ پر حملہ آور ہے، عمران خان
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت اپنی آئین شکنی بچانے کیلیے عدلیہ پر حملہ آور ہے۔ اے آر وائی نیوز سے مطابق پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان سے پارٹی رہنما شہباز گل نے زمان پارک میں ملاقات کی۔ اس موقع پر ملکی موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال اور مستقبل کے لائحہ عمل پر غور کیا گیا۔ عمران خان کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ملکی معیشت پہلے ہی برباد کر…
View On WordPress
0 notes
Text
موجودہ حکومت اپنی آئین شکنی بچانے کیلیے عدلیہ پر حملہ آور ہے، عمران خان
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت اپنی آئین شکنی بچانے کیلیے عدلیہ پر حملہ آور ہے۔ اے آر وائی نیوز سے مطابق پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان سے پارٹی رہنما شہباز گل نے زمان پارک میں ملاقات کی۔ اس موقع پر ملکی موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال اور مستقبل کے لائحہ عمل پر غور کیا گیا۔ عمران خان کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ملکی معیشت پہلے ہی برباد کر…
View On WordPress
0 notes
Text
بغاوت پراکسانے کا کیس، شہباز گل کی دوبارہ درخواست پرفیصلہ محفوظ
شہباز گل نے اسپشل پراسیکیوٹر کی تعیناتی کیخلاف درخواست دی تھی:فوٹو:فائل اسلام آباد ہائی کورٹ نے اداروں میں بغاوت پر اکسانے کے کیس میں شہباز گل کی دوبارہ درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ چیف جسٹس عامر فاروق نے کے اداروں میں بغاوت پر اکسانے کے کیس کے سلسلے میں اسپشل پراسیکیوٹر کی تعیناتی کے خلاف پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کی درخواست کی سماعت کی۔ مزید پڑھیں: بغاوت پر اکسانے کا…
View On WordPress
0 notes
Text
انگلینڈ ٹیم کے دورہ سے انکار پر مریم کا ٹوئیٹ سامنے نہیں آیا
انگلینڈ ٹیم کے دورہ سے انکار پر مریم کا ٹوئیٹ سامنے نہیں آیا
وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی شہباز گل نے کہا ہے کہ انگلش ٹیم کے نہ آنے پر سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کا کوئی ٹویٹ سامنے نہیں آیا ہے ۔ میڈیا سے گفتگو میں شہباز گل نے کہا کہ نیوزی لینڈ کے دورہ ملتوی کرنے پر ٹوئٹ کرنے والی مریم نواز نے انگلش ٹیم کے نہ آنے پر کوئی ٹویٹ نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ جب ملک بھر کی دولت لندن میں رکھی ہوئی ہو تو آپ یہ جرات نہیں کرسکتے کہ پاکستان…
View On WordPress
0 notes
Text
مسلم لیگ ن کی قیادت کا جھوٹ آنے کے بعد اب انکا رونا پیٹنا ہورہا ہے، شہباز گل
مسلم لیگ ن کی قیادت کا جھوٹ آنے کے بعد اب انکا رونا پیٹنا ہورہا ہے، شہباز گل @SHABAZGIL #Pakistan @CMShehbaz #Aajkalpk
اسلام آباد: وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل نے کہاہےکہ مسلم لیگ ن کی قیادت کا جھوٹ آنے کے بعد اب انکا رونا پیٹنا ہورہا ہے، شہباز شریف کی ضمانت نہ ہونے پر وایلا مچایا گیا، شہباز شریف کا بچنا اس لیے مشکل ہے انکے خلاف ٹھوس ثبوت ہیں۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شہباز گل نے کہاکہ ہم عدالت اور عدالتی فیصلوں کا احترام کرتے ہیں، فیصلے عدالتوں نے کرنا ہیں اور نہ ہی ہم فیصلوں پر…
View On WordPress
0 notes
Text
کیا نواز شریف فی سبیل اللہ واپس آ رہے ہیں؟
اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو تین بار وزیرِ اعظم اور اندرون ملک جیل میں سڑنے کے بجائے دو بار طویل عرصے کے لیے بیرونِ ملک رہنے والے نواز شریف اکیس اکتوبر کو لاہور میں اتریں گے۔ اس کے بعد یا تو وہ اعلان شدہ پروگرام کے مطابق سیدھے مینارِ پاکستان پر جلسے سے خطاب کر کے گھر یا جیل جائیں گے یا پھر ایئرپورٹ سے براہِ راست جیل جائیں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اگر انہوں نے گیم کے طے شدہ ضوابط کا دائرہ توڑنے کی کوشش کی اور انہیں ایک بار پھر البرٹ پنٹو کی طرح اچانک غصہ آ گیا اور وہ جذبات کی رو میں بہہ کر اپنی سابق حکومت کا دھڑن تختہ کرنے والے مبینہ کرداروں سابق جنرل باجوہ، جنرل فیض حمید یا سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ پر پہلے کی طرح برس پڑے تو ہو سکتا ہے کہ انصاف ملنے تک جیل میں ہی رہیں۔ حالانکہ مسلم لیگ نون اور نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف اپنی مرضی سے قانون کا سامنا کرنے آ رہے ہیں اور کوئی ڈیل شیل یا سودے بازی نہیں ہوئی۔ مگر نون لیگ کے سابق اتحادی اور پیپلز پارٹی کے حمایت یافتہ اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کو ڈیل نہ ہونے یا نواز شریف کو کسی بھی طرح کی پیشگی یقین دہانیاں نہ کروانے کے بیانات پر ہرگز یقین نہیں۔
بقول اسپیکر نواز شریف کو اگرغیر مشروط ہی واپس آ کر مقدمات کا سامنا کرنا تھا تو عمران خان کے دور میں نہ سہی ان کے دور کے خاتمے کے بعد ہی پچھلے ڈیڑھ برس میں برادرِ خورد کی حکومت کے سائے میں واپس چلے آتے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی ڈیل نہ ہوئی ہو مگر پچھلے چالیس برس میں پاکستانی سیاست میں اتنی ثالثیاں اور سودے بازیاں ہوئی ہیں کہ اب ہر چھوٹی بڑی پیش رفت پر شک ہوتا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ مارچ انیس سو ستتر کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف حزبِ اختلاف کے پاکستان قومی اتحاد ( پی این اے ) نے تحریک چلانے کا فیصلہ کیا۔ پورا ملک منجمد ہو گیا۔ بیسیوں لوگ مظاہروں میں ہلاک ہوئے۔ دو شہروں میں مارشل لا لگ گیا اور وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے فتوی دے دیا کہ دراصل پی این اے امریکی تائید سے ان کا تختہ الٹنا چاہتا ہے ا��ر پی این اے والے بھٹو کے سر سے کم کسی بات پر راضی نہ تھے۔ ایسے موقع پر پاکستان میں سعودی سفیر ریاض الخطیب نے انتھک ثالثی کی اور فریقین کو مذاکرات کے زریعے بحران کا حل نکالنے پر آمادہ کر لیا۔ سمجھوتہ ہو بھی گیا مگر جنرل ضیا الحق نے پانچ جولائی کو پورے نظام کا ٹھیلہ الٹ دیا۔ پاکستانی سیاست میں کھلی غیر ملکی ثالثی کی یہ پہلی مثال تھی۔
جب بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کو جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹا تو اس سے ایک ماہ پہلے ان کے بھائی شہباز شریف نے ہوا کا رخ بھانپ کے واشنگٹن کا دورہ کیا تاکہ امریکیوں پر زور دے سکیں کہ وہ پاکستانی فوجی قیادت کو کسی مہم جوئی سے باز رکھنے کے لیے اپنا روایتی اثر و رسوخ استعمال کریں۔ مگر تختہ الٹنے سے ثابت ہوا کہ امریکیوں نے بھی بڑے بھائی کو بچانے کے لیے چھوٹے بھائی کی اپیل کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ حالانکہ پرویز مشرف نے کارگل میں بطور سپاہ سالار جو گل کھلائے تھے، امریکی اس حرکت پر خوش نہیں تھے۔ مگر مشرف کے اقتدار پر قبضے کے دو برس بعد جب نائن الیون ہو گیا تو مشرف صاحب امریکہ کی آنکھ کا تارہ ہو گئے، جس طرح ایوب خان سرد جنگ میں اڈے دینے پر اور ضیا االحق افغان جنگ میں کودنے پر امریکہ کی آنکھ کا تارہ بنے تھے۔ پرویز مشرف نے چونکہ اقتدار شریف خاندان سے چھینا تھا لہذا ان پر ہائی جیکنگ، بغاوت، کرپشن اور جانے کیا کیا مقدمات لاد دیے گئے۔ مگر پھر ایک چمتکار ہوا۔ سن دو ہزار کے دسمبر کی ایک رات ایک نجی سعودی طیارہ آیا اور نواز شریف کو اٹک کے قلعے سے ایئرپورٹ لایا گیا۔ دیگر اٹھارہ اہلِ خانہ سمیت طیارے میں بٹھایا گیا اور طیارہ جدہ پرواز کر گیا۔
یہ ڈیل شاہ فہد کے زور دینے پر ہوئی۔ اس سودے بازی کے عوض قیدی ( نواز شریف ) نے جیلر ( پرویز مشرف ) کو بطور گواہ سعودی انٹیلی جنس چیف کی تائید سے لکھ کے دیا کہ وہ دس برس تک پاکستان میں قدم نہیں رکھیں گے۔ اس کے بعد دونوں شریفین ( نوا�� و شہباز ) جدہ کے سرور پیلس میں اگلے سات برس خادمِ حرمین و شریفین کی میزبانی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ جب اکتوبر دو ہزار سات میں پرویز مشرف کی حکومت عدلیہ بحالی تحریک اور فوج میں اپنے بارے میں بڑھتی ہوئی اکتاہٹ کے سبب کمزور ہو گئ�� تو نواز شریف موقع غنیمت جان کے پاکستان آ گئے۔ اس بار انہیں سرکار نے چند ماہ پہلے کی طرح ڈنڈہ ڈولی کر کے واپس سعودی عرب نہیں بھیجا بلکہ حکومت کا رویہ کچھ یوں تھا کہ نہ میں سمجھا نہ آپ آئے کہیں سے پسینہ پونچھیے اپنی جبیں سے ( انور دہلوی ) جس طرح انیس سو ستتر میں پی این اے کو بھٹو صاحب کے وعدوں پر اعتبار نہیں تھا۔ بالکل اسی طرح دو ہزار سات میں دبئی اور لندن میں خود ساختہ جلاوطن بے نظیر بھٹو کو جنرل پرویز مشرف پر اعتبار نہیں تھا۔ مگر مشرف کو سپاہ سالار کی وردی اترنے کے بعد ہر سابق آمر کی طرح ایک سیاسی صدر بننے کی شدید خواہش تھی۔ نواز شریف سے تو ان کا ٹانکا فٹ ہونا ممکن نہیں تھا۔ مگر بے نظیر بھٹو سے وہ ایسی سیاسی ڈیل کے خواہش مند تھے، جس میں وہ صدر ہوں اور بے نظیر انتخابات جیت کر وزیرِ اعظم بن جائیں اور مشرف کی بنائی ہوئی مسلم لیگ قاف جونیئر پارٹنر ہو۔
چنانچہ پرویز مشرف نے امریکیوں سے رابطہ کیا اور وزیرِ خارجہ کونڈولیزا رائس نے بالاخر بے نظیر بھٹو کو راضی کر لیا کہ اس وقت پاکستان کو جس خطرناک مذہبی انتہاپسندی سے خطرہ لاحق ہے اس کا تقاضا ہے کہ مشرف اور بے نظیر میں مفاہمت ہو۔ اس کے عوض پرویز مشرف قومی مصالحتی آرڈیننس ( این آر او ) جاری کرنے پر آمادہ تھے۔ یوں چار اکتوبر کو این آر او جاری ہو گیا۔ مگر جب اٹھارہ اکتوبر کو بے نظیر بھٹو کراچی پہنچیں تو ان کے جلوس پر خود کش حملے میں ان کی پارٹی کے لگ بھگ ڈیڑھ سو کارکن جاں بحق ہو گئے۔ این آر او کو سپریم کورٹ نے بعد میں کالعدم قرار دے دیا۔ مشرف نےآئین معطل کر کے ایمرجنسی لگا دی اور پھر ستائیس دسمبر کو بے نظیر بھٹو ایک خود کش حملے کا نشانہ بن گئیں۔ مشرف پر سے امریکہ، خلیجی دوستوں، فوجی قیادت سمیت سب نے ہاتھ اٹھا لیا۔ یوں پرویز مشرف اگلے آٹھ ماہ کے لیے علامتی صدر بن کے رھ گئے اور اٹھارہ اگست دو ہزار آٹھ کو آخری سلیوٹ لے کے کچھ عرصے کے لیے بیرونِ ملک چلے گئے۔ ( جسے تفصیلاً جاننا ہے وہ کونڈولیزا رائس کی کتاب ” نو ہائر آنر‘‘ پڑھ لے)۔
جب دو ہزار تیرہ میں مشرف کے دشمن نواز شریف تیسری بار اقتدار میں آئے تو مشرف پر آئین توڑنے کے جرم میں آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا۔ مشرف کو فوجی قیادت نے جیل تو نہیں جانے دیا البتہ حکومت نے ان کے بیرونِ ملک جانے پر پابندی لگا دی۔ جنوری دو ہزار چودہ میں سعودی وزیرِ خارجہ سعود الفیصل اسلام آباد آئے اور چند روز بعد حکومت نے اچانک پرویز مشرف کو بغرضِ علاج بیرونِ ملک جانے کی اجازت دے دی۔ نو برس بعد ان کی پاکستان واپسی اس سال فروری میں تابوت میں بند ہو کے ہوئی۔ اس پس منظر میں اس کہانی پر یقین کرنا مشکل ہے کہ نواز شریف کی وطن واپسی ”فی سبیل اللہ‘‘ ہو رہی ہے۔ چند ہفتوں اور مہینوں کی بات ہے۔ بلی تھیلے سے باہر آ ہی جائے گی کہ جو لوگ نواز شریف کی جگہ عمران خان کو لائے ��ھے وہ عمران خان کو اتار کے نواز شریف کو کیوں لائے؟ یا پھر نواز شریف کو کب الہام ہوا کہ یہی واپسی کا وقت ہے۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
1 note
·
View note
Text
عدالتوں کیخلاف مریم نواز کا میڈیا سیل مہم چلا رہا ہے، فوادچوہدری
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ عدالتوں کیخلاف مریم نواز کا میڈیا سیل مہم چلا رہا ہے۔ لاہور ہائیکوٹ میں کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ ہائیکورٹ میں آج 2 کیسز کی سماعت ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن تاریخ کا اعلان نہ کرنےکیخلاف توہین عدالت درخواست تھی، دوسرا اہم کیس شہباز گل کا نام ای سی ایل سے نام نکالنے کا…
View On WordPress
0 notes
Text
موجودہ حکومت اپنی آئین شکنی بچانے کیلیے عدلیہ پر حملہ آور ہے، عمران خان
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت اپنی آئین شکنی بچانے کیلیے عدلیہ پر حملہ آور ہے۔ اے آر وائی نیوز سے مطابق پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان سے پارٹی رہنما شہباز گل نے زمان پارک میں ملاقات کی۔ اس موقع پر ملکی موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال اور مستقبل کے لائحہ عمل پر غور کیا گیا۔ عمران خان کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ملکی معیشت پہلے ہی برباد کر…
View On WordPress
0 notes
Text
90 روز میں انتخابات نہ کرائے تو نگراں وزرائے اعلیٰ پر آرٹیکل 6 لگے گا، فواد چوہدری
اسلام آباد: پی ٹی آئی کے سینئر نائب صدر فواد چوہدری نے کہا ہے کہ نگران وزرائے اعلی نے 90 روز کے اندرانتخابات نہ کروائے تو ان پر آرٹیکل 6 لگے گا، جیل میں کوئی تشدد نہیں ہوا بلکہ چار سینئر وزراء نے کہا اس تمام معاملے میں ہم اس کے پیچھے نہیں۔ اسلام آباد میں پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری، شہباز گل اورحماد اظہر نے پریس کانفرنس کی۔ فواد چوہدری نے بتایا کہ دوران حراست مجھ پر کوئی تشدد نہیں ہوا، چار…
View On WordPress
0 notes
Text
دشمن ہمیشہ کہتا ہے پاکستان کی معیشت نہیں چل رہی
دشمن ہمیشہ کہتا ہے پاکستان کی معیشت نہیں چل رہی
وزیراعظم کے معاون خصوصی شہبازگل کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کے بعض ارکان دشمن کے ایجنڈے کو پورا کرتے ہیں، دشمن ہمیشہ کہتا ہے پاکستان کی معیشت نہیں چل رہی۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر شہباز گل نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ ملک کے خلاف بات کرنے والوں کا قانون میں رہ کر محاسبہ کیا جائے، میٹرو بس کا پروجیکٹ لایا، بڑا چرچہ کیا گیا، ہم نے اسے جنگلا بس کہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں…
View On WordPress
0 notes