#سانس کی بیماری
Explore tagged Tumblr posts
urduchronicle · 1 year ago
Text
چین میں بچوں کی سانس کی بیماری میں غیرمعمولی اضافہ، ہسپتالوں میں لمبی قطاریں
چین تقریباً ایک سال قبل کووِڈ 19 کے سخت کنٹرول میں نرمی کے بعد پہلی سردیوں میں داخل ہو رہا ہے اور بیجنگ اور شمالی چین کے اسپتال سانس کی بیماریوں میں مبتلا بچوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ شمالی چین کے بڑے شہروں میں بچوں کے ہسپتالوں میں سینکڑوں مریض قطار میں کھڑے گھنٹوں تک انتظار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بیجنگ چلڈرن ہسپتال کے ایک اہلکار نے منگل کو سرکاری میڈیا کو بتایا کہ روزانہ 7,000 سے زیادہ مریضوں کی موجودہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
drashfaqhealth · 7 months ago
Text
پیٹ میں پانی بھر جانے کی علامات اور احتیاطی تدابیر
New Post has been published on https://drashfaq.com/dr-ashfaq-tips/health-tips/732/
پیٹ میں پانی بھر جانے کی علامات اور احتیاطی تدابیر
پیٹ میں پانی بھر جانے کی علامات اور احتیاطی تدابیر
پیٹ میں پانی بھر جانے کی بیماری، جسے طبی اصطلاح میں ‘ایسائٹس’ کہا جاتا ہے، ایک سنگین حالت ہے جس میں پیٹ میں غیر معمولی مقدار میں پانی جمع ہو جاتا ہے۔ یہ بیماری عام طور پر جگر، دل یا گردوں کی ناکامی کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس بیماری کی علامات کیا ہیں اور اس سے بچاؤ کے لئے کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ علامات: 1. پیٹ کا پھولنا: پیٹ میں پانی بھر جانے کی سب سے عام علامت پیٹ کا پھولنا ہے۔ یہ پانی جمع ہونے کی وجہ سے پیٹ میں درد اور بے چینی پیدا کرتا ہے۔ 2. وزن میں اضافہ: پیٹ میں پانی بھر جانے کی وجہ سے جسم کا وزن غیر معمولی طور پر بڑھ جاتا ہے۔ 3. سانس لینے میں دشواری: پیٹ میں پانی بھر جانے سے پھیپھڑوں پر دباؤ پڑتا ہے جس کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ 4. بھوک کی کمی: پیٹ میں پانی بھر جانے کی وجہ سے معدہ پر دباؤ بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے بھوک کم ہو جاتی ہے۔ 5. پیٹ میں درد: پیٹ میں پانی بھر جانے کی وجہ سے مسلسل درد محسوس ہوتا ہے۔ 6. تھکاوٹ: پیٹ میں پانی بھر جانے کی وجہ سے جسمانی طاقت کم ہو جاتی ہے اور تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔ 7. پیشاب میں کمی: پیٹ میں پانی بھر جانے کی وجہ سے گردوں پر دباؤ بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے پیشاب کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔ احتیاطی تدابیر: 1. نمک کا استعمال کم کریں: پیٹ میں پانی بھر جانے کی بیماری سے بچنے کے لئے نمک کا استعمال کم کریں۔ زیادہ نمک کا استعمال جسم میں پانی کی رطوبت کو بڑھا دیتا ہے۔ 2. پانی کی مقدار کو محدود کریں: پانی کی زیادہ مقدار پینے سے پرہیز کریں تاکہ جسم میں پانی کی رطوبت کم ہو سکے۔ 3. مناسب غذا: متوازن اور صحت بخش غذا کا استعمال کریں تاکہ جسم کی صحت بہتر ہو سکے اور بیماری سے بچا جا سکے۔ 4. شراب سے پرہیز: شراب کا استعمال جگر کو نقصان پہنچاتا ہے اور پیٹ میں پانی بھر جانے کی بیماری کا سبب بن سکتا ہے۔ 5. باقاعدہ ورزش: باقاعدہ ورزش کریں تاکہ جسم کی صحت بہتر ہو سکے اور بیماری سے بچا جا سکے۔ 6. طبی مشورہ: اگر آپ کو پیٹ میں پانی بھر جانے کی بیماری کی علامات محسوس ہوں تو فوراً اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔ 7. دواؤں کا استعمال: اگر ڈاکٹر نے کوئی دوائیں تجویز کی ہیں تو انہیں باقاعدگی سے استعمال کریں۔ 8. جگر کی صحت کا خیال: جگر کی صحت کے لئے صحت بخش غذا کا استعمال کریں اور جگر کی بیماریوں سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ 9. باقاعدہ طبی معائنے: باقاعدہ طبی معائنے کروائیں تاکہ بیماری کی بروقت تشخیص ہو سکے۔ 10. پیشاب کی مقدار پر نظر: پیشاب کی مقدار پر نظر رکھیں اور اگر اس میں کوئی تبدیلی محسوس کریں تو فوراً ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔ آخر میں: پیٹ میں پانی بھر جانے کی بیماری ایک سنگین حالت ہے جس کی بروقت تشخیص اور علاج بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس بیماری کی علامات پر نظر رکھنا اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنا نہایت ضروری ہے تاکہ اس سے بچا جا سکے۔ متوازن غذا، باقاعدہ ورزش، نمک کا کم استعمال اور باقاعدہ طبی معائنے اس بیماری سے بچنے کے لئے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔
0 notes
topurdunews · 16 days ago
Text
تھکاوٹ میں مبتلا عمر رسیدہ مرد  مہلک بیماری کا شکار؟ ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجادی 
(ویب ڈیسک) ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ تھکاوٹ کی شکایت کرنے والے عمر رسیدہ مردوں میں کینسر چار بڑی بیماریوں میں سے ایک ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ بہت سے لوگ تھکاوٹ کی نئی علامات کے ساتھ اپنے معالجین کے پاس جاتے ہیں، لیکن اس کی وجہ کیا ہے اس کا تعین کرنا مشکل ہوسکتا ہے۔ اس مطالعے میں 237 بیماریوں کا جائزہ لیا گیا جس میں معلوم ہوا کہ ڈپریشن، سانس کی نالی میں انفیکشن، بے خوابی اور تھائی…
0 notes
risingpakistan · 1 month ago
Text
اسموگ۔ موسمیاتی مسئلہ یا انتظامی نا اہلی؟
Tumblr media
اہل پاکستان کیلئے موسم کی تبدیلی، ’’موسمیاتی تبدیلی‘‘ کی طرح ایک ڈراؤنا خواب بن چکی ہے۔ ماضی قریب میں درختوں کے پتے گرنے سے موسم کی تبدیلی کا اشارہ ملتا تھا، پرندوں کی ہجرت موسم کے بدلنے کا پتہ دیتی تھی، ہوائیں اچانک سرد ہو جاتی تھی، شام کے سائے لمبے ہو جاتے تھے لیکن اب موسم سرما کی آمد سے قبل فضا خشک ہو جاتی ہے، اسموگ ڈیرے ڈال دیتی ہے، صبح اور شام کے اوقات میں یہ صورتحال مزید تکلیف دہ ہو جاتی ہے۔ آسمان دھند کی چادر تان لیتا ہے اسکی وجہ سے حد نگاہ متاثر ہوتی ہے اور ساتھ ہی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ اگر اسموگ برقرار رہے تو مختلف امراض کے بڑھنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ جن لوگوں میں قوت مدافعت کم ہوتی ہے وہ ہر قسم کی بیماریوں کا جلد شکار ہونے لگتے ہیں۔ موسمیاتی ماہرین کہتے ہیں کہ جب ہوائیں نہیں چلتیں اور درجہ حرارت میں کمی یا کوئی موسمی تبدیلی واقع ہوتی ہے تو ماحول میں موجود آلودگی فضا میں جانے کے بجائے زمین کے قریب رہ کر ایک تہہ بنا دیتی ہے جسکی وجہ سے غیر معمولی آلودگی کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ صفائی کے ناقص انتظامات، کچرے کے ڈھیر کو آگ لگانا، دیہی علاقوں میں اینٹیں بنانے والے بھٹے، صنعتی علاقوں میں فیکٹریاں اور ملوں کی چمنیاں ماحول کو آلودہ اور خطرناک بناتی ہیں۔ 
پاکستان اور بھارت دونوں کے کسانوں کے معاملات یکساں ہیں بھارتی کسانوں کی طرح پاکستانی کسان بھی مڈھی کو آگ لگاتے ہیں، یوں دہلی اور لاہور آلودگی میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اسموگ نامی بیماری صرف برصغیر کا ہی مقدر ہے یا دنیا اس سے پہلے اس مسئلے سے نپٹ چکی ہے۔ تاریخی ریکارڈ کے مطابق 26 جولائی 1943ء کو امریکی شہر لاس اینجلس میں اپنے وقت کی سب سے بڑی اسموگ پیدا ہوئی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران شدید اسموگ کی وجہ سے لاس اینجلس کے شہریوں کو وہم ہوا کہ جاپان نے کیمیائی حملہ کر دیا ہے۔ امریکی انتظامیہ نے جنگ کے باوجود اپنے شہریوں کو اسموگ سے بچانے کیلئے موثر اقدامات کیے۔ دسمبر 1952 ء میں لندن میں فضائی آلودگی کی لہر نے حملہ کیا لندن میں آلودہ دھند کی وجہ سے 12 ہزار افراد موت کے گھاٹ اتر گئے۔ 1980ء کی دہائی میں چین میں کوئلے سے چلنے والے گاڑیوں کی خریداری میں اضافہ ہوا تو وہاں بھی اسموگ اور فضائی آلودگی کا مسئلہ پیدا ہوا۔ 2014ء میں بیجنگ کو انسانوں کے رہنے کیلئے ناقابل قبول شہر قرار دیا گیا لیکن چین نے اس مسئلے کو ختم کرنے کیلئے جدید ایئر کوالٹی مانیٹرنگ سسٹم قائم کیا۔
Tumblr media
پبلک ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر تبدیل کیا اور گاڑیوں میں ایندھن کے معیار میں بھی بہتری لائی گئی۔ برطانیہ امریکہ اور چین نے کوئلے سے چلنے والے نئے منصوبوں پر پابندی لگائی، رہائشی عمارتوں میں کوئلے سے چلنے والے ہیٹنگ سسٹم کو بتدریج بند کیا، بڑی گاڑیوں اور ٹرکوں کے انجن میں ایندھن کے معیار کو بہتر کیا، آلودگی پھیلانے والی پرانی کاروں کے استعمال پر پابندی عائد کی۔ جس سے مثبت نتائج برآمد ہوئے۔ بیجنگ کا فضائی آلودگی سے لڑنے کیلئے مقرر کردہ بجٹ 2013 ء میں 430 ملین ڈالر تھا جو 2017ء میں 2.6 ارب ڈالر کر دیا گیا۔ جہاں تک پاکستان میں اسموگ پیدا کرنیوالے اسباب کا تعلق ہے تو ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان خصوصا لاہور میں 83.15 فیصد آلودگی ٹرانسپورٹ سے، 9.7 فیصد ناقص صنعتوں سے، 3.6 فیصد کوڑا جلانے سے پیدا ہوتی ہے۔ ملک کے بیشتر حصوں خصوصاً لاہور کراچی ملتان فیصل آباد اور یہاں تک اسلام آباد میں بھی فضائی آلودگی کے باعث آنکھوں میں جلن، سانس لینے میں دشواری، کھانسی، ناک کان گلا اور پھر پھیپھڑوں کی بیماریاں عام ہو رہی ہیں۔ 
الرجی کے مریضوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بدقسمتی سے اس مسئلے سے نپٹنے کیلئے سائنسی بنیادوں پر کام نہیں ہو رہا اور نہ ہی ترقی یافتہ ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ حکومت کا سارا زور اسکول بند کرنے اور لاک ڈاؤن لگانے پر ہے۔ دوسرا حملہ دکانداروں اور معیشت پر کیا جاتا ہے جبکہ تیسری بڑی وجہ کسانوں کو قرار دیا جاتا ہے جبکہ اعداد و شمار سے ظاہر ہے کہ آلودگی میں سب سے زیادہ حصہ ناقص ٹرانسپورٹ کا ہے شاید ٹرانسپورٹ مافیا اتنا طاقتور ہے کہ حکومت اسکے سامنے بے بس ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اسموگ کا موسم آنے سے پہلے ہی مناسب حفاظتی انتظامات کر لئے جاتے، دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں سڑک پر نہ آتیں، بھارتی حکومت سے بات کی جاتی اپنے عوام میں شعور پیدا کیا جاتا اور قانون اور ضابطے کے مطابق ہر قسم کی کارروائی عمل میں لائی جاتی۔ حکومتی غفلت اور عوام میں شعور کی عدم آگاہی کے باعث ہمارے شہر اب رہنے کے قابل نہیں رہے، وہاں رہنے والے مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر وقت سے پہلے ہی موت کی گھاٹی میں اتر رہے ہیں۔ جس طرح امن و امان، صحت، تعلیم جیسی دیگر سہولیات کیلئے عوام خود ہی اپنے طور پر انتظامات کر رہے ہیں اسی طرح اسموگ سے نپٹنے کیلئے بھی عوام کو خود احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہو گی۔
اسموگ سے بچاؤ کیلئے ماسک اور چشمے کا استعمال کریں۔ تمباکو نوشی کم کر دیں، گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے بند رکھیں، بازاروں گلیوں اور سڑکوں میں کچرا پھینکنے اور اسے آگ لگانے سے اجتناب کریں، جنریٹر اور زیادہ دھواں خارج کرنیوالی گاڑیاں درست کروائیں۔ حکومت کو چاہئے کہ آلودگی سے مقابلہ کرنے کیلئے عالمی معیار کے مطابق انتظامات کرے۔ ایندھن کا معیار بہتر کرے۔ گاڑیوں کے فٹنس سرٹیفکیٹ کیلئے حقیقی چیکنگ کی جائے تاکہ ہمارے شہر رہنے کے قابل بن سکیں۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
emergingpakistan · 2 months ago
Text
کے ٹو کا ڈیتھ زون جہاں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی
Tumblr media
طبی ماہرین کے مطابق انسانی جسم سطح سمندر سے 2100 میٹر تک کی بُلندی پر رہنے کے لیے بنا ہے۔ اور اس سے زیادہ بلندی پر انسانی جسم میں آکسیجن کی سچوریشن تیزی سے کم ہونا شروع ہو جاتی ہے اور جسم میں منفی اثرات رونما ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اونچے پہاڑوں پر جانے سے قبل کوہ پیما کئی ہفتوں تک ’ایکلیماٹائزیشن یعنی جسم کو ماحول کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کا عمل کرتے ہیں تاکہ ان کا دماغ آکسیجن کی سپلائی کے مطابق آہستہ آہستہ ماحول کے حساب سے کام کرنے لگے۔ کوہ پیمائی کے ماہرین کے مطابق کے ٹو پر عموماً کیمپ ون (6000 میٹر کی بلندی) کے بعد کوہ پیما خطرناک زون میں داخل ہو جاتے ہیں اور ان میں آکسیجن کی کمی کے منفی اثرات بھی نمُودار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ کئی کوہ پیما ہائی ایلٹیٹیوٹ پلمونرئی انیڈما یا ہائی ایلٹیٹیوٹ سیریبل انیڈما کا شکار ہو جاتے ہیں جو زیادہ تر اموات کی وجہ بنتا ہے۔
آکسیجن کی کمی  کے ساتھ ، نبض تیز ہو جاتی ہے، خون گاڑھا ہو کر جمنے لگتا ہے اور فالج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ زیادہ خراب حالت میں کوہ پیماؤں کے پھیپھڑوں میں پانی بھر جاتا ہے اور وہ ہائی ایلٹیٹیوٹ سیریبل انیڈما کا شکار ہو سکتے ہیں۔ انھیں خون کے ساتھ یا اس کے بغیر کھانسی آنے لگتی ہے اور ان کا نظام تنفس بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں بیشتر کوہ پیماؤں کا دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، انھیں عجیب ہذیانی خیالات آتے ہیں اور وہ پھر وہی کرتے ہیں جو ’ایورسٹ‘ فلم میں اینڈی ہیرس نے کیا۔ سطح سمندر سے 8611 میٹر کی بلندی پر واقع کے ٹو کا ’بوٹل نیک‘ کے نام سے مشہور مقام تقریباً 8000 میٹر سے شروع ہوتا ہے اور کوہ پیماؤں کی اصطلاح میں اسے ’ڈیتھ زون‘ یا موت کی گھاٹی کہا جاتا ہے جہاں بقا کے چیلنجوں میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔
Tumblr media
یہاں کوہ پیماؤں کو جان لیوا قدرتی موسم کے ساتھ نبردآزما ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے جسم کے اندر بھی ایک لڑائی لڑنا پڑتی ہے۔ ڈیتھ زون میں جہاں ایک غلط قدم کا مطلب سیدھا ہزاروں فٹ گہری کھائی یا گلیشیر میں گر کر موت کو گلے لگانے کے مترادف ہے وہیں اس اونچائی پر آکسیجن کی مزید کمی سے سنگین اثرات رونما ہوتے ہیں اور انسانی دماغ کا جسم پر کنٹرول ختم ہو جاتا ہے اور جسم مفلوج ہو جاتا ہے۔ ڈیتھ زون میں انسانوں کو سانس لینے کے لیے درکار آکسیجن کی کمی سے جہاں اونچائی پر لاحق ہونے والی بیماری کے امکانات بڑھ جاتے ہیں وہیں اتنی بلندی پر تیز ہوائیں بھی کوہ پیماؤں کے لیے جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔ یہاں پر انتہائی کم درجہ حرارت بھی جسم کے کسی بھی حصے میں فراسٹ بائٹ کا باعث بن سکتا ہے۔ اتنی بلندی پر انسانی جسم کو پیش آنے والے طبی مسائل کے حوالے سے کی گئی تحقیق کے مطابق یہاں تک چڑھنے والے کوہ پیما سیریبرل اینڈیما، ریٹنا ہیمرج، شدید سر درد، متلی، بد نظمی، ہیلوسینیشن یا نظر کا دھوکا وغیرہ جیسے طبی حالات سے بھی دوچار ہو سکتے ہیں۔
ڈیتھ زون میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور یہاں آپ مخصوص وقت سے زیادہ نہیں گزار سکتے ہیں اور یہاں نیند یا زیادہ دیر رکنے کا مطلب موت ہے۔ اسی لیے کیمپ فور میں پہنچنے والے کوہ پیما سوتے نہیں۔ بس کچھ دیر سستا کر سمٹ کرنے یا چوٹی پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور تقریباً 16 سے 18 گھنٹوں کے دورانیے میں چوٹی سر کرکے ڈیتھ زون سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو کوہ پیما ڈیتھ زون میں زیادہ سے زیادہ کتنے گھنٹوں تک زندہ رہ سکتے ہیں؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے: 16 سے 20 گھنٹے۔ کوہ پیماؤں کو خصوصی ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ ڈیتھ زون میں اس سے زیادہ وقت ہرگز نہ گزاریں۔
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
winyourlife · 1 year ago
Text
غصہ کیوں آتا ہے اور اس پر قابو کیسے پایا جائے؟
Tumblr media
ہم سب کو معلوم ہے کہ غصہ ایک انسانی عمل ہے جو ہم سب کو آتا ہے لیکن جب یہ بڑھتا ہے یا اس پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے تو اس سے پریشانی ہوتی ہے۔ الرجل میگزین میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق چاہے کام کرنے میں پریشانی ہو یا دوسروں کے ساتھ ذاتی تعلقات میں غصہ کرنے کے بالآخر نقصانات ہوتے ہیں۔
غصے کی وجوہات کیا ہیں؟ ماہرین کے مطابق غصے پر قابو پانے کے مناسب طریقوں کے بارے میں سوچنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں۔  لہٰذا بہتر اور مناسب طریقہ یہی ہے کہ اس پر قابو پانے کے طریقوں کے جاننے سے قبل اس کے اسباب کو جانیں تاکہ مسئلے کو جڑ سے ختم کر سکیں۔ غصے کی وجوہات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ 1- بیرونی اسباب: عموماً غصہ بیرونی اسباب کے نتیجے میں ہوتا ہے جیسے کام کی جگہ آفس وغیرہ میں کوئی مسئلہ ہو جائے یا کسی بندے سے اختلاف رائے ہونے کے نتیجے میں آتا ہے۔ 2- داخلی اسباب: غصے کا سبب داخلی اسباب بھی ہو سکتے ہیں جیسے بے چینی، یا طویل انتظار۔ کیونکہ اس قسم کے احساسات غصے کا سبب بنتے ہیں۔ بہر حال غصے کی جو بھی وجوہات ہوں اس ماحول کے مطابق وہ شخص اپنے غصے کے اظہار کے لیے مناسب طریقہ کا انتخاب کرتا ہے۔ ہر شخص کا ماحول کی نوعیت کے مطابق غصے کے اظہار کا طریقہ بھی مختلف ہوتا ہے۔
Tumblr media
غصے کے وقت لوگ ان تین حالتوں کا سامنا کرتے ہیں: یا تو اظہار کریں گے، یا اسے دباتے ہیں اور یا پھر ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غصے کے جذبات کا اظہار صاف انداز میں کیا جائے، نہ کہ جارحانہ انداز اپنایا جائے۔ غصے کو دبایا جا سکتا ہے یعنی اس پر قابو پایا جاسکتا ہے البتہ اس میں خطرہ یہ ہے کہ یہ اندرونی پریشانیوں کا سبب بن سکتا ہے جیسے ہائی بلڈ پریشر یا کوئی بیماری ہو سکتی ہے۔غصے کو ٹھنڈا کرنا یا اس پر کنٹرول کا حتمی طریقہ یہ ہے کہ دونوں اسباب یعنی اندرونی اور بیرونی وجوہات و اسباب پر قابو پایا جائے۔ ماہرین کے مطابق جب بھی غصہ آئے تو گہری سانس لیں، آرام کریں، اور اچھے الفاظ کا استعمال کریں۔
پہلا طریقہ گہری سانسیں: گہری سانس لینے کی کوشش کرتے وقت آہستہ آہستہ آرام دہ الفاظ کو دہرانے کی کوشش کریں، جیسے پرسکون ہوجاؤ، آرام کرو۔ 
دوسرا طریقہ آسان ورزشیں: آسان ورزشیں کرنے کی کوشش کریں جیسے یوگا تاکہ آپ کے مسلز کو آرام ملے۔ اس تکنیک میں آپ کو زیادہ وقت اور محنت درکار نہیں ہوگی کیونکہ یہ بہت آسان ہیں۔ لہٰذا روزانہ ان پر عمل کرنے کو یقینی بنائیں تاکہ آپ غصے کی حالت میں اس پر عمل کر سکیں۔ مثال کے طور پر آپ یہ سوچیں کہ میرا غصہ کرنے سے کچھ ٹھیک نہیں ہو گا۔ 
 تیسرا طریقہ: مسئلہ حل کرنا بعض اوقات غصے کی وجہ بالکل درست ہوتی کیونکہ ہماری زندگی میں اصل مسائل موجود ہیں جن سے بچا نہیں جا سکتا۔ لہذا ان مشکلات کا رد عمل قابل فہم ہے، اور اسی طرح مسئلے کے حل کی طرف توجہ بھی دی جائے۔ لیکن اپنے آپ پر یہ بوجھ مت ڈالیں کہ ہمیشہ تمام مسائل کا حل ہوتا ہے۔
چوتھا طریقہ: دوسروں کے ساتھ گفتگو کو بہتر کیا جائے دوسروں پر غصہ کیوں آتا ہے اسے سمجھنے کی کوشش کریں اور پھر ان کے ساتھ اسے شیئر کریں۔
پانچواں طریقہ: اپنے آس پاس کے ماحول کو تبدیل کریں دن کے وقت کچھ وقت اپنے لیے نکالیں کیونکہ یہ ضروری ہے۔
چھٹا طریقہ: مختلف اور نت نئے طریقوں سے معاملات کو سلجھانا ماہرین کے مطابق تین طریقے ہیں جو کسی صورتحال پر آپ کے ردعمل کو تبدیل کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔
اجتناب ماہرین کے مطابق غصہ قابو کرنے میں بہت زیادہ مشقت کی ضرورت ہوتی ہے اور آپ کو اس کے دوران ناکامی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن یہ ضروری ہے۔ اس سے آپ کو دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنے میں مدد ملے گی اور آپ اپنی صحت کو برقرار رکھنے اور حالات کو مناسب طریقے سے ہینڈل کرنے کے قابل بھی بنیں گے۔
بشکریہ اردو نیوز
0 notes
mobilephone2 · 1 year ago
Text
موبائل اسکرین جب آنکھیں تھکا دے
Tumblr media
رضوان کو موبائل فون کے سامنے بیٹھنے کی ایسی لت پڑی کہ کھانے ��ینے سے بھی بے پروا ہو گیا۔ گھر والے چیختے چلاتے رہتے کہ کچھ تو کھا لو مگر وہ انٹرنیٹ میں مگن رہتا یا گیمز سے چپکا رہتا۔ ہر چیز کی زیادتی جلد یا بدیر رنگ ضرور لاتی ہے لہٰذا رضوان کے سر اور آنکھوں میں مسلسل درد رہنے لگا۔ عموماً چکر بھی آجاتے۔ اسے ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا تواس نے ابتدائی طبی معائنے کے بعد یہ بتا کر سب کو حیران کر دیا کہ یہ بیماری موبائل سکرین کی پیداکردہ ہے‘ سر درد کی وجہ آنکھوں پر پڑنے والا وہ ناگواردباؤ ہے جو سکرین پہ مسلسل نظریں جمائے رکھنے سے جنم لیتا ہے۔ آج کل کروڑوں لوگ موبائل فون ،کمپیوٹر ، لیپ ٹاپ وغیرہ استعمال کرتے ہیں لہٰذا اس سے وابستہ امراض چشم بڑھ رہے ہیں۔ ماہرین نے انہیں ’’کمپیوٹر بصری خلل‘‘ (Computer Vision Syndrome) کا مجموعی نام دیا ہے۔ 
ماہرین امراض چشم کے پاس اب ایسے سیکڑوں مریض آتے ہیں جو آشوب چشم یا کندھے کے اعصاب کی اکڑن کا شکار ہوتے ہیں۔ کمپیوٹر سے وابستہ امراض چشم کا آغاز 1980 ء کے عشرے میں ہوا۔ جدید ٹیکنالوجی میں تبدیلی کے سبب ان میں بھی معمولی سی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ماہرین کے مطابق ��ب ہرسال دنیا میں پچاس سے نوے لاکھ انسان موبائل یا کمپیوٹر کے باعث خراب ہونے والی آنکھیں لیے ماہرین امراض چشم کے پاس آتے ہیں۔ چالیس سال قبل یہ تعداد صرف پندرہ لاکھ تھی۔  ماہرین کا کہنا ہے کہ جو لوگ باقاعدگی سے دن میں چار گھنٹے سے زیادہ سکرین کے سامنے بیٹھیں اور احتیاطی تدابیر اختیار نہ کریں، وہ آنکھوں کی کسی نہ کسی خرابی میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ عینکیں بنانے والے مشہور ادارے بوش اینڈ لومب کے ماہرین کا تو دعوی ہے کہ موبائل وکمپیوٹر سکرینوں کے باعث ہر سال ساٹھ لاکھ لوگ اپنی آنکھیں خراب کر بیٹھتے ہیں۔
Tumblr media
ایک عام بیماری ماہرین کے مطابق ’’ڈیجٹل تناؤ چشم‘‘ (Digital eye strain) یعنی آنکھوں پر پڑنے والا دباؤ سب سے عام شکایت ہے۔ پھر نظر کا دھندلا جانا‘ آنکھوں کی خشکی اور سر درد کا نمبر آتا ہے۔ جب سر درد مسلسل رہے تو لوگ عموماً ڈاکٹر سے رابطہ کرتے ہیں۔ ’کمپیوٹر بصری خلل‘ کے علاج فی الحال تلاش کیے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس مرض کو جنم دینے والی کیا چیز مجرم ہے؟ اس کا انحصار مختلف باتوں پر ہے۔ مثلاً کئی لوگ درست طریقے سے اسکرین کے سامنے نہیں بیٹھتے‘ چند لوگوں کی نشستیں آرام دہ نہیں ہوتیں اور کچھ کے مانیٹر پرانے ہیں جن سے پھوٹنے والی شعاعیں زیادہ مضر ہیں۔ مرض دراصل مجموعی طور پر بیٹھنے کے ماحول‘ کام کی عادات اور دیکھنے کی حالت سے جنم لیتا ہے۔
تکراری دباؤ صدمہ کمپیوٹر بصری خلل بنیادی طور پر ’’تکراری دباؤ صدمہ‘‘ (repetitive stress injury) ہے۔ اس حالت میں آنکھوں کے عضلات دباؤ میں آجاتے ہیں کیونکہ اسکرین پر ابھرنے والے اعداد‘ تصاویر وغیرہ پر انہیں بار بار مرتکز کیا جاتا ہے۔ موبائل یا کمپیوٹر اسکرین کے پکسل (Pixels) دراصل وہ تقابل (Contrast) نہیں رکھتے جو طبع شدہ صفحہ رکھتا ہے۔ اسی لیے اسکرین پر کسی چیز کو دیکھنے کے لیے آنکھوں کو زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ عجیب بات یہ کہ آنکھوں پر سب سے زیادہ دباؤ اس وقت پڑتا ہے جب کوئی اپنے کام میں محو ہو۔ کیونکہ انسان جب کسی چیز مثلاً کمپیوٹر اسکرین پر نظر جمائے رکھے تو وہ آنکھیں کم جھپکتا ہے۔ انسان روزمرہ کام کی حالت میں فی منٹ بائیس بار آنکھ جھپکتا ہے۔ اگر کتاب پڑھے تو یہ تعداد آدھی رہ جاتی ہے۔ موبائل یا کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے تو عام فرد ایک منٹ میں صرف سات بار جھپکتا ہے۔ نتیجتاً آنکھیں خشک ہو کر درد کرنے لگتی ہیں کیونکہ جھپکنے سے آنکھوں میں موجود پانی پھیلتا اور انہیں نم رکھ کر تازہ دم رکھتا ہے۔
ماہرین امراض چشم آنکھوں کی بیماری و سردرد سے بچنے کے لیے مشورہ دیتے ہیں کہ موبائل وکمپیوٹر سکرین کے سامنے بیٹھ کر تین نکاتی منصوبے پر عمل کیجیے …آنکھیں جھپکائیے‘ گہرے سانس لیجیے اور وقفہ کیجیے۔ کام کے دوران سانس لینا بہت ضروری ہے تاکہ آنکھوں کو آکسیجن ملتی رہے۔ بار بار جھپکیئے اور کام کا وقفہ کیجیے۔ اس ضمن میں ’بیس بٹا بیس‘ کا اصول فائدے مند ہے یعنی ہر بیس منٹ بعد وقفہ کیجیے اور بیس فٹ دور کسی چیز کو بیس سیکنڈ تک دیکھیے۔ یوں آنکھوں کو آرام ملتا ہے اور وہ کسی خرابی کا نشانہ نہیں بنتیں۔ یاد رکھیے‘ اگر کسی کی آنکھیں خراب ہیں تو موبائل و کمپیوٹر سکرین استعمال کرنے سے وہ زیادہ خراب ہو سکتی ہیں۔ خاص طور پر جو نزدیک کی چیزیں صاف نہیں دیکھ سکتے‘ وہ زیادہ مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ 
انسان میں یہ خلل بڑھتی عمر کے ساتھ جنم لیتا ہے۔ کم روشنی اور مانیٹر کی درست پوزیشن نہ ہونے سے بھی آنکھوں پر دباؤ پڑتا ہے۔ اس ضمن میں یہ عام مشاہدہ ہے کہ اسکرین دیکھنے کی سطح سے اونچی یا نیچی ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسکرین کی درمیانی سطح آنکھوں سے چار پانچ انچ نیچے ہونی چاہیے۔ جب آنکھیں کسی چیز کو تھوڑا نیچے دیکھیں تو نہ صرف بہترین حالت میں کام کرتی ہیں بلکہ ان پر کم سے کم دباؤ پڑتا ہے۔ اگر سکرین اس طرح رکھی جائے کہ دیکھنے کے لیے گردن اٹھانی پڑے تو کندھوں اور گردن کے اعصاب پر بوجھ پڑتا ہے‘ نتیجتاً آنکھوں پر پڑنے والے دباؤ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
مانیٹر اچھا خریدیئے امراض چشم سے بچاؤ کے لیے اب مارکیٹ میں خاص قسم کے چشمے آگئے ہیں مگر ضروری ہے کہ مستند ڈاکٹر سے مشورے کے بعد ہی عینک استعمال کیجیے۔ ماہرین کے مطابق چشمے خریدنے کے بجائے بہتر ہے کہ اچھی قسم کا مانیٹر خرید لیں جس کی شرح تھرتھراہٹ (Flicker rate) کم ہو کیونکہ اسکرین کی زیادہ تھر تھراہٹ آنکھوں کو تھکا دیتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مانیٹر کو آنکھوں سے کم از کم بیس تیس انچ دور رکھیے۔ اسی طرح موبائل کی سکرین بھی اپنے چہرے سے کم از کم سولہ انچ دور رکھیے۔ وجہ یہ ہے کہ جب سکرین چہرے کے نزدیک ہو تو ہماری آنکھوں کو توجہ مرکوز کرنے کی خاطر زیادہ جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔
طبی معائنہ کروائیے کئی لوگ یہ حقیقت نہیں جانتے کہ آنکھوں کی بہت سی خرابیوں کا تعلق موبائل یا کمپیوٹر سے بھی ہے۔ اگر اسکرین کو دیکھتے ہوئے آپ کو سر درد محسوس ہو یا آنکھوں میں تکلیف رہے تو بہتر ہے کہ اپنے کام کا ماحول بدلیے اور فوراً کسی ماہر ڈاکٹر سے آنکھوں کا معائنہ کروائیے۔ آنکھ نہایت حساس عضوہے اورانسان اپنے اسّی فیصد کام اسی کے ذریعے کرتا ہے۔ لہٰذا باقاعدگی سے ان کی دیکھ بھال کیجیے‘ یہ بہت بڑی نعمت ہیں۔
مانیٹر کون سا بہتر ؟ جو لوگ کمپیوٹر اسکرین پر دیکھتے ہوئے آنکھوں میں درد محسوس کریں‘ وہ اچھی قسم کا مانیٹر خرید لیں۔ بڑی سکرین والے مانیٹروں کی ایجاد کے بعد درمیانی عمر کے اور بوڑھے لوگوں کو کافی آسانی ہو گئی ہے۔ بہترین قسم کا مانیٹر وہ ہے جس کی شرح تھرتھراہٹ (یا ریفریش ریٹ ) فی سیکنڈ ساٹھ سائیکل (یعنی ساٹھ ہرٹز) ہو۔ مطلب یہ کہ ہر سیکنڈمیں اسکرین ساٹھ بار تھرتھرا کر اپنے آپ کو تازہ رکھے۔ گو وہ مانیٹر سب سے بہتر ہے جس کی شرح تھرتھراہٹ ستر سے پچاسی ہرٹز ہو۔
مفید مشورے بینائی کی اچھی صحت کے سلسلے میں چند مشورے حاضر ہیں خصوصاً ان کے لیے جو امراض چشم میں مبتلا ہونے کے باوجود مہنگا مانیٹر یاچشمہ نہیں خرید سکتے۔ اس سلسلے میں پہلا مشورہ یہ ہے کہ کام کے دوران کم از کم بیس منٹ بعد وقفہ کریں تاکہ آنکھوں پر کم دباؤ پڑے۔ دیگر یہ ہیں: ٭…سکرین پہ دو گھنٹے نظرین جمائے رکھنے کے بعد پندرہ منٹ کا وقفہ ضرور کیجیے۔ ٭… آنکھیں نم رکھنے کے لیے بار بار جھپکیے۔ ٭… اگر آنکھوں میں تکلیف ہو اور وہ خشک ہو جائیں‘ تو ان میں پانی ڈال لیجیے۔ ٭…کوشش کیجیے کہ اسکرین پر بلب‘ ٹیوب یا کھڑکی کی روشنی کا عکس نہ پڑے۔ بلبوں کو دوسری طرف لگائیے اور کھڑکی پر پردہ ڈالیے۔ تاہم موبائل یا کمپیوٹر استعمال کرتے ہوئے کمرے میں روشنی ہونی چاہیے۔ اندھیرے میں سکرین دیکھنے سے آنکھوں پہ دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ ٭… مانیٹر کو اس اندازمیں رکھیے کہ اس کا درمیانی حصہ آنکھوں کی سطح سے چار پانچ انچ نیچے اور بیس سے تیس انچ دور ہو۔ ٭…اسکرین پر پس منظر سفید اور کردار (عدد‘آئکون وغیرہ) سیاہ رکھیے۔ پس منظر (بیک گراؤنڈ) سیاہ اور گہرا نہ رکھیے۔ ٭…زیادہ سے زیادہ ریزولیشن حاصل کرنے کے لیے تقابل (کونٹراسٹ) کو ہم آہنگ رکھیے۔ ٭… متن (ٹیکسٹ) کو بڑا رکھیے تاکہ ضرورت پڑے‘ تو آپ دور سے بھی اسے پڑھ سکیں۔
سید عاصم محمود  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
marketingstrategy1 · 2 years ago
Text
شہزاد رائے کے ساتھ پرفارم کرنے والے بلوچی لوک گلوکار واسو خان انتقال کرگئے
واسو خان نے 2011 میں شہزاد رائے کے ساتھ مشہور گانے ’اپنے اُلو‘ میں پرفارم کیا تھا(فائل فوٹو) کراچی: بلوچستان سے تعلق رکھنے والے معروف لوک گلوکار واسو خان انتقال کر گئے۔ لوک گلوکار کے اہلِ خانہ نے خبر کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ واسو خان کئی دنوں سے سانس کی بیماری میں مبتلا تھے وہ سکھر کے اسپتال میں زیرِ علاج تھے تاہم گزشتہ رات وہ خالقِ حقیقی سے جاملے۔ واسو خان کے اہلِ خانہ کے مطابق ان کی نماز…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 2 years ago
Text
#North Korea پُراسرار بیماری کا پھیلاؤ، شمالی کوریا نے انتہائی قدم اٹھالیا
پیانگ:شمالی کوریا میں پُراسرار بیماری پھیلنے کے پیش نظر لاک ڈاؤن لگادیا گیا ہے۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق مقامی حکام نے لوگوں کو پانچ دن تک گھروں میں رہنے کا حکم دیتے ہوئے تاکید کی کہ وہ اس دوران وقفے وقفے سے اپنا بخار چیک کرتے رہ��ں۔ شمالی کوریا کا کہنا ہے کہ پیانگ یانگ میں ایک نامعلوم سانس کی بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے جس کے باعث رہائشیوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایات دی گئیں۔ پیانگ یانگ میں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
0rdinarythoughts · 2 years ago
Text
بیٹیوں کو اچھے نصیب کی دعا دی جاتی ہے کیونکہ انہیں خودمختاری کی تربیت نہیں دیتے، نہ اس قابل بناتے ہیں کہ وہ خود کی ذمہ داری اُٹھا سکے اور نہ ہی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے فیصلے خود کر سکیں، وقت سے پہلے ہی اُن کی مرضیوں اور چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو کُچل دیتے ہیں، کچی عُمر میں ہی بوجھ کے بندھن میں باندھ دیتے ہیں، جہاں وہ کُھل کر سانس بھی نہیں لے پاتیں، یہ ایسا ہی ہے کہ بیماری کے علاج کی بجائے صرف دعا دی جائے، آج کے وقت میں ایسا ہی ہو رہا ہے لڑکیوں کو اُن کے حقوق دینے کی بجائے دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں، دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑنا ایک سماجی بیماری ہے جس کو علاج کی بروقت ضرورت ہے.
Daughters are wished good luck because they are not trained to be independent, nor empowered to take responsibility for themselves, nor do we understand that they can make their own decisions, their wishes before time. And they crush the little joys, at a young age, bind them in chains of burden, where they can't even open up and breathe, it's like instead of treating the disease, only prayers are offered, this is what is happening in today's time Yes, instead of giving their rights, leaving girls at the mercy of others is a social disease that needs timely treatment.
9 notes · View notes
urduchronicle · 1 year ago
Text
ڈبلیو ایچ او نے چین میں سانس کی بیماری پر تصیلات طلب کر لیں
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے چین سے سانس کی بیماریوں میں اضافے اور بچوں میں نمونیا پھیلنے کے بارے میں تفصیلات طلب کی ہیں، جسے اس کے چین کے دفتر نے جمعرات کو “معمول کی” جانچ قرار دیا ہے۔ قومی صحت کمیشن کے چینی حکام نے 13 نومبر کو سانس کی بیماری کے واقعات میں اضافے کی اطلاع دینے کے لیے ایک پریس کانفرنس کی۔ حکام نے COVID-19 کی پابندیوں کے خاتمے اور انفلوئنزا، مائکوپلاسما نمونیا، ایک عام…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
topurdunews · 2 months ago
Text
کونسی بیماریوں میں مبتلا افراد حج کیلئے نہیں جا سکیں گے؟اعلان ہو گیا
(عثمان خان) پاکستانی عازمینِ حج کیلئے وزارت مذہبی امور نے صحت پالیسی تیار کرلی،سعودی عرب کی شرائط کے مطابق پالیسی تیار کرلی گئی جس میں متعدد قسم کی بیماریوں میں مبتلا مریض حج کیلئے نہیں جاسکیں گے۔  وزارت مذہبی امور کی جانب سے تیار کی گئی پالیسی کے مطابق ڈائیلاسز کرانے والے افراد کے اس سال حج پر جانے کی پابندی ہوگی،ہارٹ اٹیک اور سانس پھولنے کے مریض بھی حج نہیں کرسکیں گے جبکہ پھیپڑوں کی بیماری یا…
0 notes
urdu-poetry-lover · 4 years ago
Text
Tumblr media
"آزاد کرو"
کوئی بھی چیز مٹھی میں باندھ کے نہیں رکھی جا سکتی ہاتھ تھک جاتے ہیں
وفا عم�� قید کی سزا نہیں
آزاد کرو اس کھیل سے
مجھے
اور خود کو
جس میں نہ کوئی ہار ہے نہ جیت ہے،
،
محبت بھی ایک غلامی ہے
ہر وہ شخص غلام ہے
جو کسی کی محبت میں مبتلا ہے
اس کی زندگی اپنی نہیں
آزاد کرو خود کو محبت کی قید سے
اور آزاد کرو اپنی عورت کو
جانے دو اسے نۓ مرد کے ساتھ
حسد کے بغیر
اسے اب تم اچھے نہیں لگتے
،
آزاد کرو ہوا کو سانس کی مشقت سے
وہ اڑ جاۓ گی ہوا کے ساتھ
یا بیٹھی رہے گی
خالی پنجرے سے لگ کے
روح سے محروم جسم کے پاس
قیدی پرندے کے ساتھ
"غلام پرندوں کے لئے اڑنا ایک بیماری ہے"
،
آزاد کرو اپنے ہاتھ
اور لکھو آزادی کے گیت
آزاد کرو اپنے پاؤں
اور چلو دار کی طرف
آزاد کرو اپنی آنکھیں
اور دیکھو اسے کسی اور کے ساتھ جاتے ہوے
آزاد کرو اپنے ہونٹ
اور متشکر رہو اس وقت کے
جتنا وقت محبت نے تمہیں دیا
آزاد کرو دل کو بے دلی سے
یاد کا پنجرہ خالی کرو
بھگا دو سب قیدی
چوم لو اسے آخری دفعہ
اسے آزاد کرو
خود کو آزاد کرو ،،
،
طاہر راجپوت
5 notes · View notes
bazmeurdu · 4 years ago
Text
منشی پریم چند : اردو کا پہلا ادیب
پریم چند ہمارے اہم ترین ادیبوں میں سے ہیں۔ اردو افسانے اور ناول کے بنیاد گزار۔ 30 کی دہائی میں جب وہ بیماری کے آخری مراحل میں تھے، تب بھی ادب کے لیے ان ک�� بے قراری دیکھنے کی چیز تھی۔ ہانپ رہے ہیں، لڑکھڑا رہے ہیں لیکن ادب کی خدمت کا خیال ان کے دل سے نہیں جاتا۔ اردو سے ان کا عشق آخری سانس تک ساتھ نہیں چھوڑتا۔ جان ہار ماں کے جانے کے بعد اپنی تنہا اور اندھیری راتیں جس لڑکے نے مہ لقا اور صرصر جادو کی محفلوں کی چکاچوند میں گزاری تھیں۔ وہ لڑکا ان ہی دنوں اردو کے عشق میں گرفتار ہوا تھا۔ مولوی صاحب نے اسے ’’ماصقیماں، گلستان، اور بوستان گھول کر پلائی تھیں۔ فارسی اردو کی بڑی بہن ہندی، اردو کی جڑواں بہن۔ یہ باتیں منشی پریم چند کی گھٹی میں پڑی تھیں۔ وہ آخر وقت تک اپنی سی کرتے رہے لیکن سیاست کا تقاضہ کچھ اور تھا۔ ہندوستان کا بٹوارا 1947 میں ہوا، اچھا ہوا کہ منشی پریم جی اس سے گیارہ برس پہلے گزر گئے۔ وہ یہ صدمہ کیسے سہار سکتے تھے۔
ہمیں ڈاکٹر حسن منظر کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے شورانی دیوی کی کتاب ’پریم چند گھر میں‘ اور ان کے نامکمل ناول ’’منگل سوتر‘‘ کو اردو میں منتقل کر کے اس کے خزانے میں اضافہ کیا۔ ڈاکٹر انوار احمد کے بھی ہم احسان مند ہیں کہ انھوں نے ’’منگل سوتر‘‘ اور ’’پریم چند گھر میں‘‘ کے تراجم کے لیے ڈاکٹر حسن منظر کو زحمت دی۔ ’’منگل سوتر‘‘ کے صرف چار باب منشی جی لکھ سکے تھے کہ موت نے انھیں چھاپ لیا۔ اسے اتفاق کہیے یا زندگی کا مذاق کہ پریم چند کا پہلا ناول ’’اسرار معابد‘‘ بنارس کے ایک ہفتہ وار اخبار ’’آواز خلق‘‘ میں قسط وار شایع ہوا تھا اور جس پر ان کا نام منشی دھنپت رائے عرف نواب رائے الہ آبادی لکھا گیا تھا۔ اس ناول کو اول تا آخر پڑھ جائیے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ نا تمام ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ منشی پریم چند اس میں پنڈت رتن سرشار کی پیروی کر رہے تھے۔ وہ سرشار کے انداز تحریر پر فریفتہ تھے۔ اس ناول کا کھوج پروفیسر قمر رئیس نے تلاش بسیار کے بعد لگایا تھا۔
’’اسرار معابد‘‘ کو انھوں نے سرشار کی پیروی میں ناتمامی کا رنگ دیا۔ ’’گئودان‘‘ کے فوراً بعد بقول شورانی وہ ’’منگل سوتر‘‘ کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ زندگی کے آخری دو مہینوں میں انھوں نے اس کے چار باب تحریر کیے۔ اس کے بعد ان کی طبیعت اتنی بگڑی کہ وہ پانچویں باپ کی پہلی سطر بھی نہ لکھ سکے۔ اور اپنے لکھے ہوئے پر نظر ثانی بھی ان کے لیے ممکن نہیں ہوا۔ ’’اسرار معابد‘‘ کو انھوںنے رتن ناتھ سرشار کی پیروی میں جان بوجھ کر نامکمل چھوڑا تھا لیکن ’’منگل سوتر‘‘ کے وسط اور اختتام کو موت نے ان کے ہاتھوں سے جھپٹ لیا۔ شورانی نے لکھا ہے کہ ’’گئودان‘‘ کے انجام پر میں رو رہی تھی۔ اس وقت منشی جی نے مجھے دیکھ لیا اور میرا دل بہلانے لگے، پھر انھوں نے کہا کہ چلو میں تمہیں اپنے نئے ناول ’’منگل سوتر‘‘ کا پلاٹ سنائوں۔ لیکن میرا دل غم سے اس قدر بوجھل تھا کہ میں نے ’’منگل سوتر‘‘ کا پلاٹ سننے سے انکا�� کر دیا۔ یہ تمام تفصیل ڈاکٹر حسن منظر نے ’’منگل سوتر‘‘ کی ابتدا میں تحریر کی ہے۔ 
یہاں یہ خیال ضرور آتا ہے کہ اگر شورانی دیوی نے پریم چند کی زبان سے اس کا پلاٹ سن لیا ہوتا تو شاید خود وہ یا امرت رائے اسے مکمل کرنے کی کوشش کرتے۔ ڈاکٹر حسن منظر نے بجا طور پر لکھا ہے کہ جس سماج میں مکمل ناول اور کہانیاں ہی بہ مشکل شایع ہوتی ہوں۔ وہاں کسی کو ادھورے ناول چھاپنے کی فکر کیوں ہو۔ اس کے برعکس مغرب میں بڑے ادیبوں کی نامکمل تحریریں بھی بہت اہتمام سے شایع ہوتی ہیں۔ اس بارے میں وہ الیگزینڈر پکشن، نکولائی گوگول اور بنکم چندر چٹرجی کے نامکمل ناول کا حوالہ دیتے ہیں۔ وہ اپنے گھر کے پھاٹک سے متصل ایک اندھیری کوٹھری میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوا۔ اسے اندھیرے سے ڈر لگتا تھا۔ فیضی کے طسلم ہوشربا میں روشن کنول اور جھاڑ فانوس اس اندھیرے کو دور دھکیلنے لگے۔ مہ لقا جادو اور نازک چشم جادو کی پرچھائیوں سے زندگی میں اجالا ہوا۔ 
ماں کی دل داریوں سے محروم لڑکا ان پر چھائیوں کی چھائوں میں سوتا اور جب اندھیرے کی چادر میں اجالے کا دھاگا ٹانکے لگاتا تو دھن پت رائے عرف نواب رائے آنکھیں ملتا اٹھتا، دنتون کرتا، منہ پر الٹے سیدھے چھپکے مارتا، جزدوان بغل میں دابتا اور گائوں کے دوسرے کائستھ بچوں کی طرح مولوی صاحب کی خدمت میں حاضری دیتا۔ اور انھیں شیخ سعدی کی حمد کا موختہ سنتا، کریمابہ بخشائے برحال ما… کہ ہستم اسیر کمند ہوا۔ یہ گائوں کے مولوی صاحب تھے جنھوں نے اسے فارسی گھول کر پلا دی تھی۔ یہ صاحب کام کے درزی اور نام کے مولوی تھے۔ اس زمانے میں کیا مسلمان، کیا ہندو یا سکھ سب کا یہی طرز زندگی تھا۔ زندگی سخت تھی۔ بے رحم تھی، باپ جلد ہی دوسری بیوی بیاہ لائے اور لذتوں کی بھول بھلیوں میں گم ہوئے۔ ماں کے بعد نواب رائے یعنی مستقبل کے پریم چند نے چھاپ لیا۔ اسی زمانے میں کتابوں کی چٹیک ایسی لگی کہ پہلے فیضی طسلم ہوشربا کے دفتر کے دفتر چاٹ گئے۔ اس کے بعد ترجموں کی صورت رینالڈز کی مسٹریز آف کورٹ آف لندن کو ہضم کیا۔ 
رائیڈر ہیگرڈ کی ’غدار اور عزرا کی واپسی‘ مولوی صاحب کی پڑھائی ہوئی شیخ سعدی کی گلستان، بوستان اور ’’خدا جھوٹ نہ بلوائے‘‘ ہزاروں اشعار نوک برزباں۔ اس زمانے میں کائستھوں کے یہاں شادی بیاہ کے موقع پر بیت بازی کی محفل جمنا لازمی تھا۔ نواب رائے یعنی منشی پریم چند ان محفلوں میں اپنی فتح کے جھنڈ گاڑ کر اٹھتے۔ پنڈت موتی لال نہرو اپنے اکلوتے بیٹے پنڈت جواہر لال نہرو کی شادی کا دعوت نامہ اردو میں لکھتے تھے۔ وہ ایک ایسے دانشور تھے جو ملکی فضا میں سیاسی تناتنی کو محسوس کر رہے تھے۔ وہ ان میں سے نہیں تھے جو نفاق کی نفیری بجا کر اپنا قامت بڑھاتے ہیں۔ وہ ہندو مسلم ایکتا کو ہندوستان کی بیماریوں کا حل جانتے تھے۔ اردو، ہندی کی کشاکش ان کے دل میں پھانس کی طرح کھ��کتی تھی۔ ہندی اور سنسکرت کی ادبی روایات سے اردو بولنے والوں کو متعارف کرانا، وہ وقت کی ضرورت سمجھتے تھے۔ 
ان کا خیال تھا کہ جب تک اردو، ہندوستان کی دوسری زبانوں بہ طور خاص ہندی کی شعری روایات سے سیراب نہیں ہو گی، اس وقت تک اس کی جڑیں زمین کی گہرائیوں تک نہیں اتریں گی۔ چند مضامین انھوں نے منشی پیارے لال شاکر، میگھ دوت اور وکرم اروی کے منظوم ترجموں پر لکھے۔ دنیا میں گھمسان کی جنگ جاری تھی پریم چند کا تبادلہ گورکھ پور ہو گیا تھا۔ یہاں پہنچتے ہی ان کا بیٹا دھنو ہوا۔ اس خوشی سے سرشار ہو کر پریم چند پرائیویٹ بی اے کرنے کی تیاری کرنے لگے۔ شورانی بیمار ہوئیں اور پریم چند بہ امر مجبوری دوسرے شہر گئے تو منشی جی کے ساتھ کام کرنے والوں شورانی کی بہت دیکھ ریکھ کی۔ ہولی کا تہوار آتا تو ڈھیروں عبیر، رنگ، مٹھائی بھنگ وغیرہ لاتے۔ اور اپنے تمام ہندو، مسلمان دوستوں کو ہولی کے جشن میں شریک کرتے۔ سب مل کر گاتے بجاتے اور رات اسی رنگ و آہنگ میں گزر جاتی۔ 
انھیں ہندو مسلم اتحاد کا بہت شوق تھا۔ ان کی چند کہانیاں اس خواہش کا مظہر ہیں۔ وہ بہت بیمارے ہوئے اور ایک مسلمان حکیم کے یہاں دس دن ٹھہرے ان حکیم صاحب نے ��س طرح ان کی خدمت کی اور راتوں کو ان کا کموڈ بھی صاف کرتے رہے۔ اس کے بارے میں وہ بہت ستائشی انداز میں خط لکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سیکڑوں ہندوئوں کو اس مسلمان حکیم پر وار کر پھینک سکتا ہوں۔ منشی پریم چند اردو افسانے کا پہلا سب سے بڑا نام ہیں۔ انھوں نے اردو ادب کو سادہ اور دیہاتی ماحول کی کہانیوں سے مالا مال کیا۔ انھوں نے مسلمانوں کے سب سے بڑے مذہبی المیے پر ڈراما ’’کربلا‘‘ لکھا۔ لیکن بعض وجوہ کی بنا پر وہ پس منظر پر رہا۔ یہ وہی تھے جنھوں نے ’’نبیؐ کا نیتی نرواہ‘‘ لکھا۔ جس کا بعد میں مانک ٹالا نے اردو میں ترجمہ کیا۔ ان کی کہانیاں اور ان ہی کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے سدرشن سرلادیوی، علی عباسی حسینی، اعطم کریوی، ابوالفضل صدیقی، احمد ندیم قاسمی اور کئی دوسروں نے اردو ادب میں دیہی زندگی کا ذائقہ شامل کیا۔ وہ ایک بہت بڑے انسان اور ایک بڑے لکھنے والے تھے۔ افسوس کہ ہم نے ان کی بڑائی کا حق ادا نہیں کیا۔
زاہدہ حنا  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
2 notes · View notes
simplelivingfan · 4 years ago
Text
Causes of nasal congestion, treatment
اکثر لوگوں کی ناک گرمی ہو یا سردی بند رہتی ہے
اکثر لوگوں کی ناک بند رہتی ہے اور وہ کبھی کوئی دوا استعمال کرتے ہیں تو کبھی کوئی دوا استعمال کرتے ہیں مگر ناک کبھی تھوڑی کھلتی ہے پھر بند ہو جاتی ہے کچھ لوگوں کی ایک ناک کے ساتھ یہ مسئلہ ہوتا اور کچھ لوگوں کی دونوں سائڈ کی ناک بند رہتی ہے اس سے انسان ٹھیک طرح سانس نہیں لے پاتا جس کے نتیجے میں اس کی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے کیونکہ نہ وہ سو سکتا ہے نہ وہ ٹھیک طرح کھانا کھا سکتا ہے اور اس کا گلا بھی ہر وقت خشک رہتا ہے اگر یہ ناک کی بیماری چھوٹی عمر یا بچپن سے ہو تو بچے کا قد بھی بڑھ نہیں پاتا قد چھوٹا رہ جاتا ہے اس لیے ناک کی کوئی بھی بیماری ہو اس کا علاج جلدی سے جلدی کروانا چائیے
1 note · View note
emergingpakistan · 5 years ago
Text
کیا کورونا نے ہمیں بے نقاب کر دیا ہے ؟
آج ہم کسی معجزے کے منتظرہیں۔ پوری دنیا کسی خوشخبری کے انتظارمیں سانس روکے بیٹھی ہے ۔ دنیا کوخوش خبری یہ چاہیے کہ کورونا کی روک تھام کے لیے ویکسین یاعلاج کے لیے دوا تیار کر لی گئی ہے۔ ویکسین کے معجزے کے لیے دنیا کی نظریں صرف معدودے چند ملکوں پر جمی ہیں۔ یہ مغرب کے کچھ ترقی یافتہ ملک ہیں۔ ان ملکوں میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، کینیڈا، سکینڈے نیویا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ سمیت بیس سے زائد ممالک شامل ہیں۔ مشرق میں بھی کچھ ایسے ملک موجود ہیں، جن سے امید باندھی جا رہی ہے۔ ان میں اسرائیل، جاپان، چین اور جنوبی کوریا جیسے چند ایک ملک شامل ہیں۔ کورونا کی آفت سے چھٹکارے کیلئے مغرب یا مشرق کے ترقی یافتہ ممالک کی طرف دیکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ قدرتی بات یہ ہے کہ اس آفت سے بچنے کیلئے ان ممالک کی طرف دیکھا جا رہا ہے، جو سائنس اورٹیکنالوجی میں ترقی یافتہ ہیں۔ 
جن کے پاس دنیا کی بہترین یونیورسٹیز، ریسرچ سنٹرز اور تجربہ گاہیں ہیں۔ جن کے پاس میڈیکل سائنس کاعلم ہے، اور اس علم کو بروئے کار لانے کا وسیع تجربہ ہے۔ جن کے پاس وسائل اور سہولیات ہیں، جن کو ہنگامی طور پر وسیع بنیادوں پر سائنسی تجربات، دریافتوں اور ایجادات کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے دنیا میں قریب قریب ایک اعشاریہ آٹھ ارب کے قریب مسلمان ہیں، جو دنیا کی کل آبادی کے چوبیس اعشاریہ ایک فیصد کے قریب ہے۔ دنیا میں پچاس سے زیادہ مسلم ممالک ہیں، جن میں سے کچھ کے پاس دولت کے انبارہیں۔ بے تحاشا وسائل ہیں۔ مگرستم ظریفی یہ ہے کہ اس وقت کوئی بھی کورونا کی ویکسین یا دوا بنانے کی توقع کسی مسلم ملک سے نہیں رکھتا۔ اور کوئی یہ توقع رکھے بھی کیوں؟ ان سب ملکوں میں سے کسی ایک کے پاس بھی کوئی ایسی یونیورسٹی نہیں، جو دنیا کی پہلی سو اچھی یونیورسٹیزکی فہرست میں شامل ہو۔ کوئی مشہور تجربہ گاہ نہیں، جس نے ماضی میں کوئی قابل ذکر تجربہ کیا ہو‘ یا جس کے پورٹ فولیو میں کوئی قابل ذکر ایجاد یا دریافت موجود ہو۔
یہ ایک مایوس کن صورتحال ہے مگریاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ صورتحال خود بخود پیدا نہیں ہوئی، بلکہ یہ سائنس کے بارے میں صدیوں سے چلے آئے ہمارے رویوں اور طرز فکر کی پیداوار ہے۔ یہ ایک طویل اور المناک کہانی ہے، جو اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب ہم نے قصداً سائنس اور عقل سے اپنے راستے جدا کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے سائنس، علم اور عقل کا گلا گھونٹنے اور تاریک راستوں پر چلنے کا شعوری انتخاب کیا۔ اور سماج کو ذہنی اور فکری پسماندگی کی دلدل میں ڈال دیا۔ ان تاریک راستوں اور فرسودگی کی طرف چلنے سے پہلے ہمارا بھی سائنس اورعقل سے اتنا ہی گہرا رشتہ تھا، جتنا مغرب کا تھا‘ بلکہ سائنس کے بعض شعبوں میں ان چیزوں سے ہمارا رشتہ مغرب سے بھی مضبوط تھا۔ اس وقت اگر کوئی وبا یا کورونا قسم کی آفت آتی تھی، تو دنیا ہم سے دعا کے علاوہ کسی دوا یا علاج کی توقع بھی رکھتی تھی۔
دنیا کو مختلف ادوار میں کورونا سے بھی کہیں زیادہ خوفناک اور تباہ کن وبائوں اور بیماریوں کا سامنا رہا ہے۔ ان میں ایک قدیم ترین وبا چیچک بھی ہے۔ انسانی تاریخ میں کس تعداد میں لوگ جان لیوا مرض کا شکار ہوئے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف بیسویں صدی کے دوران دنیا بھر میں اس بیماری سے تین سو ملین لوگ مرے تھے۔ چیچک کی ویکسین کا سہرا تو ایک انگریز سائنس دان کے سر ہے، مگر اس خوفناک بیماری کے بارے میں بنیادی اور اہم ترین کام کا سہرا ابوبکر بن زکریا الرازی کے سر سجتا ہے۔ مغرب میں اس موذی وبا کے بارے میں جاننے کا ایک مستند ذریعہ رازی کی تحریریں رہی ہیں۔ انسانی تاریخ کی دو بڑی وبائوں چیچک اور خسرہ کے باب میں رازی کو استاد مانا جاتا ہے۔ ان دو قدیم اور تباہ کن بیماریوں کی تشخیص اور روک تھام پر رازی کی کتاب دنیا کی پہلی اور بنیادی دستاویز کے طور پر سامنے آئی۔ 
اس کتاب سے مغرب نے استفادہ کیا۔ یہ کتاب لاطینی سمیت کئی جدی�� مغربی زبانوں میں ترجمہ ہوئی۔ رازی کی ایک کتاب ''کتاب الحاوی فی الطب‘‘ علم طب میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ تیرہویں صدی میں اس کتاب کا لاطینی اور دوسری مغربی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ مغرب میں اگلی تین صدیوں تک یہ کتاب بار بار چھپی اور بیشتر میڈیکل سکولوں کے نصاب کا حصہ رہی۔ رازی کو اپنے وقت کا سب سے بڑا طبیب اور طبیبوں کا استاد مانا گیا۔ چیچک جب یورپ پہنچی تو مغربی سائنس دانوں کو اس کا کوئی علم یا تجربہ نہیں تھا، چنانچہ انہوں نے اس بیماری کے بارے میں معلومات کے لیے رازی کے کام پر انحصار کیا۔ اس کام کی بنیاد پر رازی یورپی سائنسدانوں اور ڈاکٹروں کا استاد بن گیا۔ مغرب میں عزت افزائی کے باوجود اپنی جنم بھومی میں رازی کی زندگی کے آخری ایام کسمپرسی کی حالت میں گزرے۔ آخری عمرمیں اس کی آنکھوں کی روشنی چلی گئی۔ 
ابن جل جل نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ ایک بحث کے دوران رازی گورنر منصور ابن اسحاق کے سامنے اپنی کیمیائی تھیوری ثابت کرنے میں ناکام رہے۔ غصے میں گورنر نے رازی کے سر پر چوٹ لگائی، جس سے ان کی بینائی چلی گئی۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ ایک گورنر ایک سائنس دان کے ساتھ سائنسی تھیوری پر بحث کرتا ہے، جس کی تفہیم کے لیے اس کے پاس وہ بنیادی علم ہی نہیں ہے، جو ایک سائنسی تھیوری سمجھنے کے لیے لازم ہے۔ یہ رویہ حکمران طبقات کے اس طرزعمل کا اظہار ہے، جو وہ دانشوروں، سائنس دانوں اور اہل علم کے ساتھ رکھتے تھے۔ حکمرانوں کے اس رویے نے بالآخر اسلامی دنیا کو علمی پستی کی گہرائیوں میں دھکیل دیا۔ حکمران طبقات نے جب تک یہ رویے نہیں اپنائے تھے، سماج برق رفتاری سے ترقی کی راہ پر گامزن تھا۔ سنہری دور کا بغداد ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ ایک وقت میں ان چراغوں میں بھی تیل تھا۔
بغداد میں دنیا کی بہترین درس گاہیں اور تجربہ گاہیں تھیں، جہاں دن رات کام ہوتا تھا۔ دنیا علم طب و کیمیا یا کسی وبا کی جانکاری کے لیے صرف مغرب کی طرف ہی نہیں، مشرق کی طرف بھی دیکھتی تھی۔ اس وقت ہماری طرف بھی ایسے طبیب، کیمیا دان اور فلسفی تھے، جن سے مغرب سیکھتا تھا۔ مگر یہ اس وقت کی بات ہے جب ابھی تک ہم نے اپنے تنگ نظر نظریات اور خیالات کو سائنسی ترقی کے راستے کی دیوار بنا کر نہیں کھڑا کیا تھا۔ قرون وسطیٰ کے دور میں مسلمان سائنسدانوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ البیرونی، بوعلی سینا، الفارابی، ابن رشد اور الکندی سمیت کئی قابل ذکر لوگ تھے۔ علم کیمیا، الجبرا، ریاضی اور فلکیات کے حوالے سے مشرق کا ابتدائی کام اتنا اہم تھا کہ مغرب نے بھی اس سے استفادہ کیا۔ یہ صورتحال دیکھ کر لگتا ہے کہ قرون وسطیٰ میں اسلامی دنیا میں جتنی سائنس تھی اتنی آج نہیں ہے۔ 
اس باب میں یہ ترقیٔ معکوس یا تنزلی کی اہم مثال ہے۔ اس زوال اور پستی کی واحد وجہ یہ نہیں کہ سنہری دور کے بعد ہم نے ادارے بنانے بند کر دیے یا ہم نے یونیورسٹیاں اور تجربہ گاہیں نہیں بنائیں۔ ہم نے یہ سب کچھ جاری رکھا، اور ان پراپنی بساط کے مطابق کافی پیسہ خرچ کیا‘ مگران اداروں کو اپنی مرضی اور آزادی سے کام کرنے کی اجازت نہیں دی۔ ان کی حدود وقیود مقرر کرنے کے چکر میں ان کے ہاتھ پائوں کس کر باندھ دیے، ان کے دماغوں پر ''کھوپے‘‘ چڑھا دیے، اور ان کی روح نکال لی۔ سوچ فکراورجستجو کے بغیر کوئی سماج ترقی نہیں کر سکتا۔ ہم نے سوچوں پر کڑے پہرے بٹھا دیے۔ فکر، جستجو اور اظہار کی آزادیاں سلب کر لیں۔ ہماری تقریباً تمام بڑی درسگاہوں میں سوال اٹھانا ممنوع قرار پایا۔ تحقیق و جستجو جرم ٹھہرا۔ 
رسم دنیا سمجھ کر ہم نے اپنے تعلیمی اداروں میں سائنس کا مضمون تو رکھا، بچوں کو سائنس پڑھنے کی تاکید بھی کی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کو یہ بھی بتایا کہ سائنس پڑھو ضرور، مگراس پر یقین مت کرو۔ اس طرح ہمارے تعلیمی اداروں سے سائنس دان اور فلسفی کے بجائے ایسے کنفیوزڈ دماغ پیدا ہوئے، جو فکری تضادات کا شکار تھے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سائنس کے میدان میں ہم مکمل طور پر اپاہج ہو گئے؛ چنانچہ اس باب میں ہم نے مغرب پر انحصار کیا۔ ان کی سائنسی اور مادی ایجادات سے استفادہ کیا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ سائنس اور فلسفے سمیت دیگر مغربی علوم کے خلاف ناپسندیدگی اور بسا اوقات نفرت کے جذبات کو فروغ بھی دیتے رہے۔ آج ہم سائنس کے میدان میں جس پسماندگی کا شکار ہیں، یہ اس طرزعمل کا نتیجہ ہے۔ کورونا نے ہمارے اس طرز عمل کو بے نقاب کر دیا۔
بیرسٹر حمید باشانی
بشکریہ دنیا نیوز
2 notes · View notes