#زبردستی
Explore tagged Tumblr posts
topurdunews · 3 months ago
Text
’حکومت نے جن لوگوں کی زبردستی نس بندی انہیں ۔۔‘ اقوام متحدہ نے جنوبی امریکہ کے اہم ملک کو حکم دیدیا
نیویارک (ویب ڈیسک) اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ پیرو کی حکومت کو اُن 2 لاکھ 70 ہزار خواتین اور 22 ہزار مردوں کو ہرجانہ ادا کرنا چاہیے جن کی 1990 کی دہائی میں نس بندی کی گئی تھی۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق ماہرین پر مشتمل 23 رکنی کمیٹی نے کہا کہ جبری نس بندی محض جرم نہیں بلکہ انسانیت کے خلاف جرم ہے جس کی انتہائی سخت سزا ہونی چاہیے۔خواتین سے امتیازی سلوک کے خاتمے سے متعلق کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے…
0 notes
googlynewstv · 7 months ago
Text
فواد چودھری کا زبردستی پی ٹی آئی چھڑوانےکاانکشاف
سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے انکشاف کیا ہے کہ مجھے لٹکا کر مجھ پر تشدد کیا گیا، ذبردستی پارٹی چحھڑوائی گئی۔ سابق وزیر فواد چودھری کا انٹرویو میں کہنا تھا کہ مجھے نہیں پتہ شاندانہ گلزار،شہریار آفریدی اور علی محمد خان  پر تشدد ہوا یا نہیں۔خیبرپختونخوا میں اس فسطائیت کا مظاہرہ نہیں ہوا جو پنجاب میں ہوا۔ خیبرپختونخوا مین عورتوں کو اٹھاکر بے عزت نہیں کیا گیا جس طرح پنجاب میں کیا گیا فواد چودھری…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
0rdinarythoughts · 2 years ago
Text
Tumblr media
مجھ پر بھروسہ کریں، جب میں کہتا ہوں، وہاں کوئی آپ کے لیے دعا کر رہا ہے۔
Trust me, when I say, someone out there is praying for you.
جب آپ خاموشی سے اپنی لڑائیاں لڑتے ہیں تو وہاں کوئی خاموشی سے آپ کی خوشی منا رہا ہے۔
Someone out there is silently cheering for you while you silently fight your battles.
وہاں سے باہر کوئی آپ سے گزرنے کی ام��د کر رہا ہے۔
Someone out there is hoping for you to get through.
آپ کی وسیع، زبردستی مسکراہٹوں کے باوجود وہاں موجود کوئی شخص آنسوؤں اور رونے کو دیکھ سکتا ہے۔
Someone out there can see the tears and cries despite of your wide, forced smiles.
مجھ پر بھروسہ کریں جب میں کہتا ہوں کہ آپ ہمیشہ حقیقی لوگوں سے محبت کرتے ہیں خاموشی کے ساتھ اعمال کے ساتھ اور ان طریقوں سے جن سے آپ واقف نہیں ہیں۔
Trust me when I say you are always loved by genuine people through showing with actions in silence and in ways you are not aware of.
- Reek
27 notes · View notes
emergingpakistan · 9 months ago
Text
ترکیہ اسرائیل تجارتی تعلقات منقطع
Tumblr media
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا میں ہونے والی پیش رفت پر ترکیہ کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑی۔ سوویت یونین کے خطرے نے ترکیہ کو مغربی بلاک کے بہت قریب کر دیا اور اس دوران ترکیہ نے نیٹو میں شمولیت کی اپنی تیاریاں شروع کر دیں۔ ترکیہ نے 14 مئی 1948 کو قائم ہونے والی ریاست اسرائیل کو فوری طور پر تسلیم نہ کیا اور’’انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پالیسی پر عمل کیا۔ ترکیہ نے 1948-1949 کی عرب اسرائیل جنگ میں بھی غیر جانبدار رہنے کا انتخاب کیا، جو اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد شروع ہوئی تھی۔ تقریباً ایک سال بعد 24 مارچ 1949 کو ترکیہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا اسلامی ملک بن گیا اور ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی تعلقات کی بنیادیں اس دور میں رکھی گئیں۔ ایردوان کے دور میں کئی بار اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بڑے پیمانے پر کشیدگی بھی دیکھی گئی اور دونوں ممالک نےکئی بار سفیر کی سطح کے تعلقات کو نچلی سطح پر جاری رکھنے کو ترجیح دی۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران ترکیہ پر اسرائیل کو اسلحہ فروخت کرنے کا الزام لگایا گیا جس پر ترکیہ نے ان تمام الزامات کو یکسر مسترد کر دیا۔ ترکیہ اس وقت تک غزہ کو امداد فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
گزشتہ ہفتے نماز جمعہ کے بعد صدر ایردوان نے اسرائیل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے درمیان اس وقت 9.5 بلین ڈالر کا تجارتی حجم موجود ہے۔ اس سے اگرچہ ترکیہ کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے لیکن یہ منفی اثرات غزہ پر معصوم انسانوں کی نسل کشی کے سامنے ہمارے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس طرح ترکیہ نے پہلی بار اسرائیل پر تجارتی پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترکیہ کی وزارتِ تجارت نے اپنے بیان میں کہا کہ جب تک غزہ میں جنگ بندی کا اعلان نہیں کیا جاتا اسرائیل کیلئے 54 مختلف کٹیگریز سے مصنوعات کی برآمدات پر پابندی ہو گی اور پابندی کا اطلاق فوری طور پر ہو گا۔ ترکیہ کا یہ اعلان اسرائیل کی جانب سے ایئر ڈراپ یعنی فضا کے ذریعے امداد میں حصہ لینے کی ترکیہ کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد سامنے آیا ہے۔ ترکیہ کے شماریاتی ادارے (TUIK) کے اعداد و شمار کے مطابق، 2023 میں اسرائیل کو ترکیہ کی برآمدات 5.2 بلین ڈالر تھیں، اور اسرائیل سے اس کی درآمدات 1.6 بلین ڈالر تھیں۔ اس ایک سال کی مدت کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم تقریباً 6.8 بلین ڈالر تھا اور ترکیہ، اسرائیل کے ساتھ اپنی برآمدات کی فہرست میں 13 ویں نمبر پر ہے۔
Tumblr media
اسرائیل پر لگائی جانے والی تجارتی پابندیوں کے بعد ترکیہ کے وزیر خارجہ حقان فیدان نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے ظلم و ستم کے باوجود وہ جوابدہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے اب تک کسی قسم کی سزا کا سامنا کرنا پڑا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ پوری امت کا فرض ہے کہ وہ فلسطینیوں کے دفاع کیلئے صف بندی کرے۔ یہ ہمارا امتحان ہے ہمیں ثابت کرنا چاہیے کہ ہم متحد ہو سکتے ہیں۔ ہمیں یہ دکھانا چاہیے کہ اسلامی دنیا سفارتی ذرائع سے اور جب ضروری ہو، زبردستی اقدامات کے ذریعے نتائج حاصل کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبضے کے خلاف مزاحمت اب اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ نہیں ہے، بلکہ پوری دنیا کے ظالموں اور مظلوموں کے درمیان لڑائی ہے۔ وزیر خارجہ فیدان نے کہا کہ اگر ہم نے (غزہ میں) اس سانحے سے سبق نہ سیکھا اور دو ریاستی حل کی طرف گامزن نہ ہوئے تو یہ غزہ کی آخری جنگ نہیں ہو گی بلکہ مزید جنگیں اور آنسو ہمارے منتظر ہوں گے۔ ہمیں اسرائیل کو 1967 کی سرحدوں کو قبول کرنے پر مجبور کرنا ہو گا۔ 
حماس سمیت تمام فلسطینی 1967 کی بنیاد پر قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ نے دو ریاستی حل کیلئے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں اور عالم اسلام اب فلسطین کے مسئلے پر اتحاد کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ یکم مئی کو ترکیہ نے جنوبی افریقہ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں دائر کردہ نسل کشی کے مقدمے میں مداخلت کرنے کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا اور اس بات پر زور دیا کہ وہ تمام ممکنہ سفارتی ذرائع استعمال کرے گا اور اسرائیل کو روکنے کیلئے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔ ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کرنے کے حوالے سے انقرہ میں فلسطینی سفیر مصطفیٰ نے کہا کہ ترکی کا یہ فیصلہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی ریاست پر اثر انداز ہونے کی جانب ایک عملی قدم کی نمائندگی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’ ترکیہ نے یہ فیصلہ 9 اپریل تک غزہ کو ہوائی جہاز کے ذریعے انسانی امداد بھیجنے کی کوشش کو روکنے کے بعد کیا تھا اور 2 مئی کو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کر دیا گیا ہے۔ 
اس فیصلے پر اس وقت تک عمل درآمد ہوتے رہنا چاہیے جب تک غزہ کیلئے انسانی امداد کی بلاتعطل رسائی کیاجازت نہ مل جائے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ اسرائیل کے حملے شروع ہونے کے وقت سے ہی غزہ کی پٹی میں فیلڈ ہسپتال تیار کررہا تھا اور ضروری سازو سامان العریش ہوائی اڈے اور بندرگاہ پر پہنچادیا گیا تھا لیکن اسرائیل نے ان آ��ات کو غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اور ترکی کو فیلڈ ہسپتال بنانے کی اجازت نہیں دی بلکہ غزہ کی پٹی میں قائم واحد کینسر ہسپتال، جسے ترکیہ نے قائم کیا کیا تھا، کو بھی تباہ کر دیا ۔
ڈاکٹر فرقان حمید
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes · View notes
verses-n-moon · 2 years ago
Text
Aur phir ap zindagi ke us muqam pe ajate hain jahan apko sakon sirf logo se dur rehne se milta hai. nazdekiyon se, rishto se uktahat hoti hai. Aesa nhi ke koi meyasar nhi hota bas ap rishton ki haqeqat jan chuke houte hain.
زبردستی کی نزدیکیوں سے سکون کی دوریاں بہتر ہیں۔
8 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 2 years ago
Text
سربسر یار کی مرضی پہ فدا ہوجانا
کیا غضب کام ہے راضی برضا ہوجانا
عشق میں کام نہیں زور زبردستی کا
جب بھی تُم چاہو جُدا ہونا، جُدا ہوجانا
رحمان فارس
3 notes · View notes
dr-jan-baloch · 1 month ago
Text
قابض پنجابی دہشتگرد ریاستی فورسز نے میرے والد کو گھر سے اٹھا کر لے گئے، غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنایا اور انہیں قتل کر دیا، اب ہمیں مقبوضہ بلوچستان کے ضلع تربت جانے نہیں دیا جا رہا، ہم انصاف کا مطالبہ کرنے اور اپنے والد کا پوسٹ مارٹم کروانے کے لیے لاش لے جا رہے تھے، لیکن ہمیں زبردستی روک دیا گیا۔
‎#JusticeForZareefBaloch
#ReleaseAllBalochMissingPersons
#StopBalochGenocide
#OccupiedBalochistan
#BalochistanIsNotPakistan
#pakistanaterroristcountry
0 notes
meta-bloggerz · 7 months ago
Text
مجھ سے کوئی زبردستی نہیں کرسکتا، میں جیل میں اطمینان سے سوچا، بریگیڈیئر ریاض نے مجھے کچھ ثبوت دکھائے اور پوچھا کہ تم پاکستان کے ساتھ ہو یایہودیوں کی شہہ پر اس فساد کے ساتھ؟ میں نے کہا میں تو پاکستان کے ساتھ ہوں"۔ فیاض چوہان
https://www.siasat.pk/threads/900386
0 notes
urduchronicle · 1 year ago
Text
جماعت اسلامی کراچی نے الیکشن نتائج مسترد کر دیئے، دھرنوں کا اعلان
جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ ��عیم الرحمان نے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے دھرنوں کا اعلان کردیا۔ حافظ نعیم الرحمان کہتے ہیں کراچی سے جماعت اسلامی اور آزاد امیدوار جیت رہے تھے ایم کیو ایم پاکستان کا نام و نشان نہیں تھا۔ فارم 45 سے فارم 47 کے دوارن ہی عوام کا مینڈیٹ چوری ہوگیا۔ پریس کانفرنس کے دوران حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا عام انتخاب 2024 عوامی الیکشن نہیں رہا،شہر میں ایک بار پھر زبردستی عوام…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
bastawihashimqasmi · 1 year ago
Link
0 notes
topurdunews · 3 months ago
Text
الیکشن ہوتے ہیں مگر نتائج کوئی اور مرتب کرتا ہے مولانا فضل الرحمان
(24نیوز) سربراہ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ الیکشن ہوتے ہیں مگر نتائج کوئی اور مرتب کرتا ہے، پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جس میں عوام کی شراکت داری ہے اور آمریت نہیں ہو گی، عوام کی مرضی کے خلاف زبردستی ان پر کوئی مسلط نہیں ہوگا۔  ڈی آئی خان  میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ آئین میں ترامیم آتی رہی ہیں کچھ متنازع بھی آئی لیکن…
0 notes
googlynewstv · 7 days ago
Text
بجلی 2روپے فی یونٹ سستی ہونے کاامکان
تقسیم کار کمپنیوں کا بجلی تقریباً 2 روپےفی یونٹ سستی کرنے کیلئے نیپرا سے رجوع کرلیا۔ کے الیکٹرک سمیت تقسیم کار کمپنوں نےنیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی  سے سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں تقریباً2 روپے فی یونٹ کمی کی درخواست کردی، نیپرا12 فروری کو درخواست پرسماعت کرے گی۔ کیپسٹی چارجز میں زبردستی کمی سے بجلی صارفین کوریلیف ملنے کی راہ ہموار ہوگئی، کراچی سمیت ملک بھر کیلئےسہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد…
0 notes
risingpakistan · 1 year ago
Text
بلوچ مظاہرین کو گلے لگائیں
Tumblr media
بلوچستان میں مبینہ ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کے خلاف آوازاُٹھانے کیلئے تربت سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کرنے والوں، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، سے جس طریقہ سے اسلام آباد پولیس نے رویہ رکھا، اُن پر ڈنڈے برسائے، اُنہیں گرفتار کیا، یہ انتہائی قابل مذمت اور افسوسناک امر ہے۔ جب احتجاج پر امن تھا تو پھر یہ زور زبردستی کیوں کی گئی؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب یہ مارچ تربت سے ��لا تو وفاقی و صوبائی حکومتوں کے ذمہ داران لانگ مارچ کے شرکاء سے اُسی وقت رابطہ کرتے، بات چیت کرتے، اُن کے جائز مطالبات تسلیم کرتے اور مسئلہ کا پر امن حل نکالتے۔ اب جب یہ لانگ مارچ اسلام آباد پہنچ گیا تو ضرورت اس امر کی تھی کہ ان مظاہرین کے ساتھ سنجیدگی سے مذاکرات کیے جاتے لیکن یہاں ان پر ڈنڈے برسائے گئے، خواتین اور بچوں سمیت بڑی تعداد میں احتجاج میں شریک افراد کو گرفتار کیا گیا۔ نگراں حکومت کے وزراء کی طرف سے کہا گیا کہ کچھ افراد منہ ڈھانپے اسلام آباد میں اس مارچ میں شریک ہوئے اور حکومت کے پاس مصدقہ اطلاعات تھیں کہ کوئی گڑ بڑ ہو سکتی تھی۔
یہ بھی کہا گیا کہ پولیس پر پتھراو مظاہرین کی طرف سے کیا گیا جس کے ردعمل میں گرفتاریاں کی گئیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ جلد ہی میڈیا کو یہ بھی بتا دیا جائے گا کہ مظاہرین پر ڈنڈے برسانے والا کون تھا اور یہ خبر شاید حیران کن ہو۔ اس حیران کن خبر کا اب بھی انتظار ہے اور یہ بھی ابھی تک معلوم نہ ہو سکا کہ منہ ڈھانپ کر اسلام آباد سے مارچ میں شامل ہونیوالے وہ افراد کون تھے۔ وفاقی وزراء نے تمام خواتین اور بچوں کی فوری رہائی کی نوید بھی سنائی لیکن میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے بعد میں جو حقائق سامنے آتے رہے وہ وفاقی حکومت کے ذمہ داروں کے دعووں کے برعکس تھے۔ بلوچ مظاہرین پر پولیس ایکشن کے خلاف کئی اطراف سے سخت مذمت کی گئی، احتجاج بھی ہوئے جس کے بعد گرفتار کیے گئے مظاہرین کی رہائی اور لانگ مارچ کے شرکاء سے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا جس کیلئے گونر بلوچستان کو بھی بلایا گیا۔ بلوچستان کا مسئلہ بڑا گھمبیر ہے۔ ایک طرف گمشدہ افراد کا معاملہ ہے تو دوسری طرف دہشت گردی کے واقعات ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لیتے۔ 
Tumblr media
بلوچستان کی محرومیوں اور ریاست کی طرف سے ماضی کی غلطیوں سے دہشت گردی کو جوڑا جاتا ہے جن کا مداوا کیا جانا چاہیے اور جس کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر بلوچستان میں امن اور ترقی و خوشحالی کیلئے متفقہ پلان تیار کرنا چاہیے۔ البتہ ماضی کی غلطیوں کی وجہ سے علیحدگی پسند دہشت گرد گروپوں اور اُن کے جرائم کو کوئی جواز فراہم نہیں کیا جا سکتا۔ بلوچستان کی محرومی کے نام پر یہ علیحدگی پسند دہشت گرد گروپس آئے دن فوج، ایف سی، سیکورٹی اداروں کے افراد کے علاوہ بلوچستان میں کام کی غرض سے گئے پنجاب سے تعلق رکھنے والے غریب مزدوروں تک کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ بلوچستان میں اعلیٰ تعلیمی ادارے، بہترین ہسپتال بننے چاہئیں لیکن بلوچستان کے عوام کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ کون ہیں جو ڈاکٹروں اور استادوں تک کو بلوچوں کے حقوق کے نام پر قتل کرتے ہیں۔ 
گمشدہ افراد کے معاملہ کا کوئی حل نکالنا چاہیے جس کیلئے ماضی میں سوچ بچار بھی ہوتی رہی لیکن عمل�� طور پر کچھ نہ ہوا۔ بلوچستان کے عوام کو خوشحال کریں وہاں کرپشن کا خاتمہ کریں تاکہ عوام کا پیسہ عوام پر خرچ ہو، اُن کی جائز شکایات اور مطالبات کو اچھے طریقےسے سنیں اور اُن کا حل نکالیں، اُنہیں تسلی دیں، اُن کی امید بنیں۔ جو پر امن ہیں جو سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں اُن کی حوصلہ افزائی کریں۔ لیکن اگر پر امن احتجاج کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے گا اور اُن پر تشدد اسلام آباد میں ہو گا تو پھر اس سے تو علیحدگی پسند دہشت گرد گروپس ہی فائدہ اُٹھائیں گے۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
emergingpakistan · 1 year ago
Text
طاقت سے مظلوم قوم کے جذبہ مزاحمت کو دبایا نہیں جاسکتا‘
Tumblr media
اسرائیل-فلسطین تنازع اور غزہ میں جنگ ایک ایسا لاوا تھا جو طویل عرصے سے پک رہا تھا۔ فلسطین پر 7 دہائیوں کے وحشیانہ اسرائیلی قبضے کے باعث حالات اس نہج پر پہنچے۔ اسرائیل جو ہمیشہ سے ہی فلسطینیوں کے خلاف ’حالتِ جنگ‘ میں ہے، اس نے فلسطینیوں کے خلاف شدید جارحیت، آبادکاروں کی جانب سے تشدد، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، مقدس اسلامی مقامات کی بےحرمتی اور جدید تاریخ میں نسل پرستی کی بدترین مثال قائم کی ہے۔ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے زبردستی بےدخل کیا گیا، انہیں ان کے گھروں سے محروم کیا گیا جبکہ انہیں ظلم، بلاوجہ گرفتاریاں اور اجتماعی سزاؤں کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ ان کے پورے کے پورے محلوں کو مسمار کر دیا گیا اور ان کی جگہ اسرائیلیوں کی غیرقانونی آبادکاری کے لیے راہ ہموار کی گئی۔ ان مظالم نے بےگھر ہونے والے لوگوں کو ناقابلِ بیان مصائب میں مبتلا کیا ہے۔ غزہ کے 20 لاکھ سے زائد رہائشی گزشتہ 16 سال سے اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ ناکہ بندی اور ظالمانہ پابندیوں کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں اور ان پابندیوں نے ان کی زندگیوں کو تباہ کر دیا ہے۔ وہ ایسی جگہ رہتے ہیں جسے دنیا کی سب سے بڑی ’کھلی جیل‘ کہا جاتا ہے۔
ناانصافیوں کی اس تاریخ کو مدِنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کو بڑے پیمانے پر جنگ کا آغاز کرنا زیادہ حیران کن نہیں لگتا۔ اسرائیل کی جانب سے وحشیانہ اور بلاامتیاز جوابی کارروائی نے فلسطین کی المناک داستان میں ایک دردناک باب کا اضافہ کر دیا ہے۔ اسرائیل نے یہ عہد کیا ہے کہ وہ ’دردناک انتقام‘ لے گا اور ساتھ ہی غزہ کا محاصرہ کرلیا ہے۔ وہ اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ ایک تنگ، غریب، گنجان آباد پٹی پر کررہا ہے جبکہ رہائشی عمارتوں، پناہ گزین کیمپوں اور اسکولوں کو بمباری کا نشانہ بنارہا ہے جو کہ بلاشبہ جنگی ج��ائم کے زمرے میں آتا ہے۔ اس بمباری سے 700 بچوں سمیت 2 ہزار 200 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے جبکہ تقریباً 5 لاکھ کے قریب فلسطینی بےگھر ہوچکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس چیف نے اسرائیل کے محاصرے کو بین الاقوامی انسانی حقوق قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار جوسیپ بورل نے بھی غزہ کے محاصرے کو غیرقانونی قرار دیا ہے۔ غزہ کے لیے بجلی، پانی، خوراک اور ایندھن کی فراہمی بند کر کے اسرائیل نے ایک خوفناک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اسرائیلی فوج نے 11 لاکھ فلسطینیوں کو شمالی غزہ خالی کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ 
Tumblr media
اقوامِ متحدہ کی جانب سے تباہ کُن نتائج کے لیے خبردار کیا گیا ہے اور اب غزہ میں انسانی المیے کا سامنا ہے۔ اس المیے میں بین الاقوامی برادری کا بھی ہاتھ ہے۔ فلسطینیوں کی حالتِ زار کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے مغربی میڈیا اس مؤقف کی غیرمشروط حمایت کر رہا ہے کہ ’اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے‘۔ امریکا جو اسرائیل کا اہم اتحادی ہے اس نے اسرائیل کے لیے مکمل فوجی تعاون کا اعلان کیا ہے، ساتھ ہی مشرقی بحیرہ روم میں ایک طیارہ بردار بحری جہاز بھی بھیجا ہے اور اسرائیل کو ’جدید ہتھیار‘ بھی فراہم کیے ہیں۔ کوئی بھی اس اقدام کی حمایت نہیں کرسکتا جس کے تحت دونوں جانب بےگناہ افراد مارے گئے لیکن اس کے باوجود مغربی ممالک کی حکومتوں نے اسرائیلیوں کی اموات پر تو غم و غصے کا اظہار کیا مگر بے گناہ فلسطینیوں کے جاں بحق ہونے پر وہ چُپ سادھے بیٹھے ہیں۔ جس دوران اسرائیلی بمباری سے پوری کی پوری آبادیاں ملبے کا ڈھیر بن رہی تھیں اس دوران آرگنائزیشن آف اسلامک کارپوریشن (او آئی سی) نے بیان جاری کیا جس میں فلسطینی عوام پر اسرائیل کی عسکری جارحیت کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ غیرمستحکم حالات کی وجہ اسرائیل کا فلسطین پر غاصبانہ قبضہ ہے۔ 
لیکن 57 مسلمان ممالک کی اس تنظیم نے فلسطین کے حق میں اجتماعی اقدامات پر غور نہیں کیا۔ نہ ہی ان عرب ممالک جو گزشتہ سالوں میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر چکے ہیں، سے کہا گیا کہ وہ اسرائیل سے تعلقات منقطع کریں۔ درحقیقت نارملائزیشن کی اسی پالیسی کے سبب اسرائیل کو حوصلہ ملا ہے اور وہ آزادانہ طور پر غزہ میں اپنے حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس بھی بلایا گیا جس نے اسرائیل سے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کر کے خاموشی اختیار کر لی۔ ایک بار پھر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کی اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہی۔ 8 اکتوبر کو حالات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے اس کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا لیکن یہ اجلاس اس وقت تعطل کا شکار ہوا جب سیکیورٹی کونسل کوئی بیان ہی جاری نہ کرسکی۔ کہا جارہا ہے کہ مغربی ممالک چاہتے تھے کہ سلامتی کونسل حماس کی پُرزور اور سخت الفاظ میں مذمت کرے جبکہ کشیدگی کم کرنے پر ہرگز زور نہ دے۔
روسی نمائندے نے کونسل پر جنگ بندی اور بامعنیٰ مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالا لیکن وہ کسی کام نہیں آیا۔ 13 اکتوبر کو ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھی شدید اختلافات دیکھنے میں آئے۔ روس نے ’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی‘ کی تجویز دی اور شہریوں کے تحفظ پر زور دینے کے لیے قرارداد پیش کی۔ اس قرارداد کو پی 3 یعنیٰ امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے کوئی توجہ نہ مل سکی جبکہ اس پر ووٹ ہونا ابھی باقی ہے لیکن اس قرارداد کو اکثریت کی حمایت ملنا ناممکن لگ رہا ہے۔ یوں سلامتی کونسل تشدد کو روکنے کا اپنا فرض ادا نہیں کر پائی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اقوامِ متحدہ کسی معاملے کو سلجھانے میں ناکام رہی ہو۔ مسئلہ کشمیر کی مثال ہمارے سامنے ہے جو تقریباً اقوامِ متحدہ کے آغاز سے ہی اس کے ایجنڈے میں شامل رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی متعدد قراردادوں میں اس مسئلے کو حل کرنے اور فلسطین پر اسرائیل کے غیرقانونی قبضے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ 
فلسطین کے مسئلے پر کم از کم 88 قراردادیں سلامتی کونسل میں پیش کی گئیں۔ اس مسئلے کا سب سے پرانا حل جو سلامتی کونسل نے پیش کیا وہ دو ریاستی حل تھا جس کے تحت فلسطین عملی اور خودمختار ریاست ہو گا۔ لیکن اسرائیل کو برسوں پہلے سے مغربی ممالک کی حمایت حاصل تھی خاص طور پر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ��الیسیوں نے دو ریاستی حل کو مسترد کیا اور اس کے بجائے ایک ریاست کا ’حل‘ پیش کیا جس کی وجہ سے غیرقانونی طور پر اسرائیلی بستیوں کی توسیع کر کے نہ صرف سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی گئی بلکہ اس آبادکاری کو روکنے کے لیے بین الاقوامی مطالبات کو بھی نظرانداز کر دیا گیا۔ ان قراردادوں پر عمل نہ کر کے عالمی قوتوں نے خود پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں کیونکہ یہ قوتیں حالات بدلنے کا اختیار رکھتی ہیں لیکن وہ اسرائیل کی غیرمشروط حمایت میں اس قدر اندھی ہو چکی ہیں کہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کے دعوے کے برعکس عمل کر رہی ہیں۔ 
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے کہا کہ موجودہ تنازع ’اچانک کھڑا نہیں ہوا ہے‘ بلکہ اس کے پیچھے ایک ’دیرینہ مسئلہ ہے جو 56 سال پرانے قبضے سے پروان چڑھا‘۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ خونریزی کو بند کیا جائے اور ’اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں پیش کردہ دو ریاستی حل کی روشنی میں مذاکرات کر کے امن بحال کیا جائے۔ اسی طرح اس سرزمین کے لوگوں اور مشرقِ وسطیٰ کے لیے پائیدار استحکام لایا جاسکتا ہے‘۔ انہوں نے اسرائیل پر یہ بھی زور دیا کہ وہ 11 لاکھ لوگوں کے انخلا کے اپنے حکم ��ر نظرثانی کرے۔ اس طرح کی اپیلوں پر اسرائیل بالکل بھی کان نہیں دھر رہا۔ اسرائیل کی غزہ پر زمینی کارروائی اور غزہ پر دوبارہ قبضے کی منصوبہ بندی کے باعث اس تنازع کے نتائج واضح نہیں ہیں۔ اس بات کا خطرہ بھی موجود ہے کہ یہ جنگ خطے میں پھیل سکتی ہے۔ ایک بات جو یقینی ہے وہ یہ ہے کہ خطے میں نارملائزیشن کی تمام کوششیں بالخصوص سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات بنانے کے تمام منصوبے ملیا میٹ ہو چکے ہیں۔ پھر گزشتہ 7 دہائیوں کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے اور وہ یہ ہے کہ طاقت اور جبر سے کوئی بھی مظلوم قوم کے جذبہ مزاحمت کو نہیں دبا سکتا ۔
ملیحہ لودھی  یہ مضمون 16 اکتوبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
2 notes · View notes
verses-n-moon · 2 years ago
Text
Aur phir mene azaad kar diye kae man-pasand log.
کیونکہ میں سمجھ گئی تھی کہ رشتوں میں زبردستی نہیں چل سکتی۔
2 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 22 days ago
Text
سر بسر یار کی مرضی پہ فدا ہو جانا
کیا غضب کام ہے راضی بہ رضا ہو جانا
بند آنکھو وہ چلے آئیں تو وا ہو جانا
اور یوں پھوٹ کے رونا کہ فنا ہو جانا
عشق میں کام نہیں زور زبردستی کا
جب بھی تم چاہو جدا ہونا جدا ہو جانا
رحمان فارس
1 note · View note