#راحت اندوری
Explore tagged Tumblr posts
localrants · 9 months ago
Text
پہلی شرط جدائی ہے
عشق بڑا ہرجائی ہے
Tumblr media
Pehli shart judaai hai
Ishq bara harjaai hai
29 notes · View notes
my-urdu-soul · 6 months ago
Text
اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے​
- راحت اندوری
11 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 4 months ago
Text
روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے
چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے
راحت اندوری"
7 notes · View notes
moizkhan1967 · 9 months ago
Text
اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
راحت اندوری
8 notes · View notes
urduclassic · 1 month ago
Text
ہاتھ خالی ہیں ترے شہر سے جاتے جاتے
Tumblr media
ہاتھ خالی ہیں ترے شہر سے جاتے جاتے جان ہوتی تو مری جان لٹاتے جاتے
اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے
اب کے مایو�� ہوا یاروں کو رخصت کر کے جا رہے تھے تو کوئی زخم لگاتے جاتے
رینگنے کی بھی اجازت نہیں ہم کو ورنہ ہم جدھر جاتے نئے پھول کھلاتے جاتے
میں تو جلتے ہوئے صحراؤں کا اک پتھر تھا تم تو دریا تھے مری پیاس بجھاتے جاتے
مجھ کو رونے کا سلیقہ بھی نہیں ہے شاید لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے آتے جاتے
ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے
راحت اندوری
1 note · View note
shazi-1 · 2 years ago
Text
یکم جنوری ١٩٥٠ یومِ پیدائش "راحت اندوری"
روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں
روز شیشوں سے کوئی کام نکل پڑتا ہے
(راحت اندوری)
(1st january 1950 , birth anniversary of "Rahat Indori")
Roz Pathar ki Himayat mein Ghazal Likhty hain
Roz Sheeshon se koi Kaam Nickal Parta hai ..
(Rahat Indori)
10 notes · View notes
samzing · 4 years ago
Photo
Tumblr media
راحت اندوری
9 notes · View notes
urdupoetry095 · 5 years ago
Text
attitude poetry in urdu 2 lines shayari
attitude poetry in urdu 2 lines shayari
find excellent collection of attitude poetry in urdu 2 lines shayari in urdu.
شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہ دے کہ اوقات میں رہے
راحت اندروبی
shakhon say toot jain wo patty nahi han ham
aandhi say koi keh day keh auqat main rahy
Tumblr media
jisay ham nay pooja khuda kar diya
تجھی پر کچھ اے بت نہیں منحصر 
جسے ہم نے پوجا خدا کر دیا 
tujh hi per kuch aye buut…
View On WordPress
0 notes
bazmeurdu · 3 years ago
Text
راحت اندوری کا آخری کلام - نٸے سفر کا جو اعلان بھی نہیں ہوتا
راحت اندوری کے بڑے صاحبزادے ستلج نے ان کا آخری کلام شیٸر کیا ہے۔ احساس ہے کہ موت قریب ہے لیکن غزل میں خوف تک نہیں
آخری غزل نٸے سفر کا جو اعلان بھی نہیں ہوتا تو زندہ رہنے کا ارمان بھی نہیں ہوتا
تمام پھول وہی لوگ توڑ لیتے ہیں وہ جن کے کمروں میں گلدان بھی نہیں ہوتا
خمو��ی اوڑھ کے سوٸی ہیں مسجدیں ساری کسی کی موت کا اعلان بھی نہیں ہوتا
وبا نے کاش ہمیں بھی بلا لیا ہوتا تو ہم پر موت کا احسان بھی نہیں ہوتا
راحت اندوری
1 note · View note
shahbaz-shaikh · 4 years ago
Text
آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو
زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو
راہ کے پتھر سے بڑھ کر کچھ نہیں ہیں منزلیں
راستے آواز دیتے ہیں سفر جاری رکھو
ایک ہی ندی کے ہیں ��ہ دو کنارے دوستو
دوستانہ زندگی سے موت سے یاری رکھو
آتے جاتے پل یہ کہتے ہیں ہمارے کان میں
کوچ کا اعلان ہونے کو ہے تیاری رکھو
یہ ضروری ہے کہ آنکھوں کا بھرم قائم رہے
نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو
لے تو آئے شاعری بازار میں راحتؔ میاں
کیا ضروری ہے کہ لہجے کو بھی بازاری رکھو
یہ ہوائیں اڑ نہ جائیں لے کے کاغذ کا بدن
دوستو مجھ پر کوئی پتھر ذرا بھاری رکھو
راحت اندوری
4 notes · View notes
localrants · 1 year ago
Text
اب کے اوس کی بوندوں نے دِل میں آگ لگائی ہے
دل پہ کس نے دستک دی ہے, تُم ہو یا تنہائی ہے؟
~راحت اندوری
Tumblr media
Ab k o'os ki boondo'n ne dil mai aag lagai hai
Dil pe kis ne dastak di hai, tum ho ya tanhai hai?
~Rahat Indori
77 notes · View notes
my-urdu-soul · 5 months ago
Text
ہاتھ خالی ہیں ترے شہر سے جاتے جاتے
جان ہوتی تو مری جان لٹاتے جاتے
اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے
اب کے مایوس ہوا یاروں کو رخصت کر کے
جا رہے تھے تو کوئی زخم لگاتے جاتے
رینگنے کی بھی اجازت نہیں ہم کو ورنہ
ہم جدھر جاتے نئے پھول کھلاتے جاتے
میں تو جلتے ہوئے صحراؤں کا اک پتھر تھا
تم تو دریا تھے مری پیاس بجھاتے جاتے
مجھ کو رونے کا سلیقہ بھی نہیں ہے شاید
لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے آتے جاتے
ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے
کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے
- راحت اندوری
12 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 10 months ago
Text
میں لاکھ کہہ دوں کہ آکاش ہوں زمیں ہوں میں
مگر اسے تو خبر ہے کہ کچھ نہیں ہوں میں
عجیب لوگ ہیں میری تلاش میں مجھ کو
وہاں پہ ڈھونڈ رہے ہیں جہاں نہیں ہوں میں
میں آئنوں سے تو مایوس لوٹ آیا تھا
مگر کسی نے بتایا بہت حسیں ہوں میں
وہ ذرے ذرے میں موجود ہے مگر میں بھی
کہیں کہیں ہوں کہاں ہوں کہیں نہیں ہوں میں
وہ اک کتاب جو منسوب تیرے نام سے ہے
اسی کتاب کے اندر کہیں کہیں ہوں میں
ستارو آؤ مری راہ میں بکھر جاؤ
یہ میرا حکم ہے حالانکہ کچھ نہیں ہوں میں
یہیں حسین بھی گزرے یہیں یزید بھی تھا
ہزار رنگ میں ڈوبی ہوئی زمیں ہوں میں
یہ بوڑھی قبریں تمہیں کچھ نہیں بتائیں گی
مجھے تلاش کرو دوستو یہیں ہوں میں
راحت اندوری
10 notes · View notes
annoyeds-world · 4 years ago
Text
‏میں آخر کون سا موسم تمہارے نام کر دیتا
یہاں ہر ایک موسم کو گزر جانے کی جلدی تھی
راحت اندوری
1 note · View note
urduclassic · 4 years ago
Text
راحت اندوری کے پانچ شعر جو ہمیشہ زندہ رہیں گے
بھارت سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر راحت اندوری کرونا کی شاعری کی سب سے بڑی خاصیت عوام سے جڑ کر رہنا تھا۔ ایک قسم کے شاعر وہ ہوتے ہیں جن کی کوشش ہوتی ہے کہ شعر کسی کی سمجھ میں مشکل سے آئے اور لوگ چراغ لے کر اس میں معنی ڈھونڈتے رہیں۔ کئی بڑی محنت کر کے اپنی شاعری کو حالاتِ حاضرہ سے کوسوں پرے رکھتے ہیں تاکہ کسی کو یہ گمان نہ گزرے کہ شاعر پر موجودہ سیاسی، سماجی یا معاشرتی صورتِ حال کا کوئی اثر پڑ رہا ہے۔  دوسری قسم کے شاعر وہ ہوتے ہیں جنہیں اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ پانچ سو سال بعد کا ادب انہیں کس طرح یاد رکھے گا۔ وہ لمحۂ موجود میں جیتے ہیں اور اپنی شاعری کے موضوعات آس پاس کے واقعات سے اٹھاتے ہیں۔
راحت اندوری دوسرے قبیلے سے تعلق رکھنے والے شاعر تھے۔ حالات حاضرہ پہ کہنا ہو یا مزاحیہ شاعری کے ذریعے لوگوں کو محظوظ کرنا ہو، ان کے الفاظ پر پورا مجمع ایک دم واہ واہ کی صداؤں سے گونج اٹھتا تھا۔ ان کا کہنا تھا، ’آج کل دو ٹکے کے لوگ بھی خود کو بڑا شاعر بنا کے پیش کرتے ہیں لیکن میں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میں بڑا شاعر ہوں، کوشش ہے کہ زندگی میں کوئی ایک شعر اچھا کہہ لوں۔‘ یہ بات وہ ہر مشاعرے میں دہراتے تھے۔  یہی بات راحت اندوری کی بھی تھی۔ بے شک اندوری صاحب نے بھی کروڑوں لوگوں کے دل جیتے ہیں۔ ویسے تو ان کے سینکڑوں شعر ایسے ہیں جو لوگوں کے دلوں اور زبانوں پر زندہ ہیں، میری نظر میں راحت اندوری کے مندرجہ ذیل پانچ اشعار کا نقش آسانی سے نہیں مٹے گا۔
سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا؟ کچھ پتہ تو کرو چناؤ ہے کیا؟
پلوامہ حملے کے بعد اور بالخصوص پارلیمانی انتخابات برائے 2019 کے دوران یہ شعر بہت ہٹ رہا گو کہ راحت اندوری نے یہ شعر اس سے ��ہت پہلے کہا تھا۔ بدقسمتی سے ہندوستان و پاکستان دونوں کی اندرونی سیاست ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلنے پر مبنی ہے۔ مذہبی اقلیتیں دونوں ممالک میں محفوظ نہیں لیکن مزے کی بات ہے کہ دونوں اپنے ملکوں میں انہیں حقوق و تحفظ دینے کے بجائے ان کے استحصال پر ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر چلاتے ہیں۔ چناؤ کے دوران ایک دوسرے کا بہت ذکر کیا جاتا ہے۔ راحت اندوری کا یہ شعر بہت دیر تک ہندوستان و پاکستان کی سیاسی منظر کشی پیش کرتا رہے گا-
دو گز سہی مگر یہ مری ملکیت تو ہے اے موت تو نے مجھے زمیندار کر دیا
شعر کے لفظ سادہ ہیں لیکن مطلب رونگٹے کھڑے کر دینے والا ہے۔ یہ شعر سامراجیت کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔ کس طرح سے سامراجی نظام مزدوروں و محنت کشوں کا لہو پیتا ہے یہ اس کی بھر پور ترجمانی کر رہا ہے۔ یہ شعر پڑھنے کے بعد میرا ذہن ہمیشہ پریم چند کے شہرہ آفاق ناول گئودان پر چلا جاتا ہے۔ اس ناول کے مرکزی کردار ہوری کی تمنا ہوتی ہے کہ اس کے گھر میں ایک گائے آئے لیکن عمر بھر شب وروز کی مشقت کے باوجود اس کی یہ تمنا پوری نہیں ہوتی۔ وہ مزدور جس سے خوب کام لیا جاتا ہے اور اس کی محنت کا سر پلس سیدھا زمیندار و سرمایہ دار کی جیب میں جاتا ہے - کرائے کے گھر یا جونپڑی میں رہ کر مشقت کرنے والا مزدور جس کو زندگی بھر اپنا گھر بھی میسر نہیں آتا، مرنے کے بعد دو گز کا مستقل مالک بن جاتا ہے۔ اب مرنے کے بعد اس مکان سے کوئی اسے بےدخل نہیں کر سکتا۔
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
ویسے یہ پوری غزل ہی کمال کی ہے اور اس کا ایک ایک شعر اپنے اندر ایک معنویت رکھتا ہے لیکن یہ شعر اپنی مثال آپ ہے۔ 73 سالہ ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے اور دلتوں کی کھلے عام تضحیک کے اوپر اس شعر سے بڑا جواب ہو نہیں سکتا۔ اس شعر کو ایک طرح سے آئین ہند کے دیباچے کا شعری روپ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔
ہمارے سر کی پھٹی ٹوپیوں پہ طنز نہ کر ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں
اس شعر کا پہلا حصہ تو ہندوستانی مسلمانوں کی زبوں حالی پر مرثیہ ہے جبکہ دوسرے حصے میں مسلمانوں کی عظیم تاریخ پر قصیدہ خوانی کی ہے۔
سب کی پگڑی کو ہواؤں میں اچھالا جائے سوچتا ہوں کوئی اخبار نکالا جائے
موجودہ دور کے میڈیا پر کارپوریٹ مافیا کا کنٹرول اور میڈیا سنسر شپ پر یہ شعر سو فی صد صادق آتا ہے۔ ٹی وی چینلوں پر بھی آئے دن ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح مخصوص لوگوں کو بلا کر دوسروں پر بے بنیاد الزام ��گائے جاتے ہیں اور پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں۔ خلاصہ یہ کہ میڈیا جس کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے، اپنی ذمہ داریوں سے انحراف کرتا نظر آتا ہے - ڈاکٹر راحت اندوری یکم جنوری 1950 کو پیدا ہوئے اور عالمی شہرت یافتہ اردو شاعر تھے۔ آپ سات کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ 40 سے 45 سالوں تک اردو مشاعروں کی دنیا پر راج کرنے والا اندوری کل دن��ا کو الوداع کہہ گیا۔
محمد ارشد چوہان (کالم نگار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں ریسرچ سکالر ہیں)
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
5 notes · View notes
shazi-1 · 4 years ago
Text
آتے جاتے ہیں کئی رنگ مرے چہرے پر
لوگ لیتے ہیں مزا ذکر تمہارا کر کے
(راحت اندوری)
19 notes · View notes