#دل جدھر
Explore tagged Tumblr posts
Text
سراپا عشق ہوں میں اب بکھر جاؤں تو بہتر ہے
جدھر جاتے ہیں یہ بادل ادھر جاؤں تو بہتر ہے
Sarapa ishq hoon mein ab bikhar jauu toh behtar hai, Jidhar jaate hai yeh baadal idhaar jaaun toh behtar hai,
ٹھہر جاؤں یہ دل کہتا ہے تیرے شہر میں کچھ دن
مگر حالات کہتے ہیں کہ گھر جاؤں تو بہتر ہے
Theher jaau yeh dil kehta haii tere sheher mein kuch din, Magar haalaa't kehte hai ki ghar jaaun toh behtar hai,
دلوں میں فرق آئیں گے تعلق ٹوٹ جائیں گے
جو دیکھا جو سنا اس سے مکر جاؤں تو بہتر ہے
Dilo'on mein fark aayenge ta'alluk tut jaayenge, Joh dekha joh suna usse mukar jaaun toh behtar hai,
یہاں ہے کون میرا جو مجھے سمجھے گا فراز
میں کوشش کر کے اب خود ہی سنور جاؤں تو بہتر ہے
Yahaan hai kon mera joh mujhe smjhega faraaz, Mein koshish krke ab khud hi sanwar jaau toh behtar hai
- احمد فراز ساب
- Ahmed Faraz Saahab
#poetries#alfaaz#urdu aesthetic#urdu literature#urdu quote#shayarcommunity#urdu language#urdu stuff#urdulovers#soft life#Legends of poetry#urdu poetry#urdu shayari#urdu nazm#ahmed faraz#urdu lines#poetry#my post
14 notes
·
View notes
Text
محبت کی گواہی اپنے ہونے کی خبر لے جا
جدھر وہ شخص رہتا ہے مجھے اے دل اُدھر لے جا
اندھیرے میں گیا وہ روشنی میں لوٹ آئے گا
دیا جو دل میں جلتا ہے اسی کو بام پر لے جا
3 notes
·
View notes
Text
تم سے دو حرف کا خط بھی نہیں لکھا جاتا
جاؤ اب یوں بھی تعلق نہیں توڑا جاتا
دل کا احوال نہ پوچھو کہ بہت روز ہوئے
اس خرابے کی طرف میں نہیں آتا جاتا
تشنگی نے کبھی دریاؤں سے ملنے نہ دیا
ہم جدھر جاتے اسی راہ میں صحرا جاتا
زندگی! رہنے بھی دے سوچ کی حد ہوتی ہے
اتنا سوچا ہے کہ صدیوں میں نہ سوچا جاتا
اس کو اندازِ تغافل بھی نہ آیا اب تک
بھولنے ہی کو سہی یاد تو رکھا جاتا
ہائے وہ دَور کہ آنسو بھی نہ تھے آنکھوں میں
اور چہرا تھا کہ بے روئے بھی بھیگا جاتا
بھولتا ہی نہیں وہ مرحلۂ راز و نیاز
ہم مناتے تو کوئی اور بھی روٹھا جاتا
پسِ دیوار کا منظر بھی گیا اپنے ساتھ
صحنِ ویران سے پتھر کہاں پھینکا جاتا
شام ہوتے ہی کوئی شمع جلا رکھنی تھی
جب دریچے سے ہوا آتی تو دیکھا جاتا
روشنی اپنے گھروندوں میں چھپی تھی ورنہ
شہر کے شہر پہ شب خون نہ مارا جاتا
اتنے آنسو مری آنکھوں میں کہاں تھے قیصرؔ
عمر بھر دل کے جنازے پہ جو رویا جاتا
- قیصر الجعفری
5 notes
·
View notes
Text
2024 Collection | Aakhri Paigham
A Tribute to Iqbal's Vision, Inspiring the Journey Ahead
This is just the beginning; more dedication awaits.
2024 #AllamaIqbal #AakhriPaigham
نہ پُوچھ اقبالؔ کا ٹھکانا، ابھی وہی کیفیت ہے اُس کی کہیں سرِ رہ گزار بیٹھا ستم کشِ انتظار ہو گا
اب مسلماں میں نہیں ��ہ رنگ و بُو سرد کیونکر ہو گیا اس کا لہُو؟
رہ گئی ر��مِ اذاں ، روحِ بلالی نہ رہی فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی
آزاد کی اک آن ہے محکوم کا اک سال کس درجہ گراں سَیر ہیں محکوم کے اوقات!
وعظ میں فرما دیا کل آپ نے یہ صاف صاف پردہ آخر کس سے ہو، جب مرد ہی زن ہو گئے
ذوقِ حاضر ہے تو پھر لازم ہے ایمانِ خلیلؑ ورنہ خاکستر ہے تیری زندگی کا پیرہن
جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل تدبیر سے کھُلتا نہیں یہ عُقدۂ دشوار
عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے قبض کی روح تری دے کے تجھے فکرِ معاش
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اسے پھیر
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر پھر سُلا دیتی ہے اُس کو حُکمراں کی ساحری
اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
اُمید کیا ہے سیاست کے پیشواؤں سے یہ خاک باز ہیں ، رکھتے ہیں خاک سے پیوند
مُلّا کو جو ہے ہِند میں سجدے کی اجازت ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!
عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹُوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
ہو اگر قوتِ فرعون کی درپردہ مرید قوم کے حق میں ہے لعنت وہ کلیم اللّٰہی!
وہی سجدہ ہے لائقِ اہتمام کہ ہو جس سے ہر سجدہ تجھ پر حرام
شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
نہ تخت و تاج میں ، نے لشکر و سپاہ میں ہے جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کُن فَیَکُوں
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا پُردَم ہے اگر تُو ، تو نہیں خطرہَ افتاد
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات
~ Dr. Allama Iqbal - Urdu Poetry Books: Bal-e-Jibril, Zarb-e-Kaleem, Bang-e-Dra
Vision #Iqbaliyat #Akhripaigham #Momin #Khudi #YearlyReview #Year2024 #2025 #Islam #Muslims #Urdu #Poetry
0 notes
Photo
عُلو ذات، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سوال او رعورت کا جواب سوال ۳۱: اللہ تعالیٰ کے علو کے بارے میں سلف کا کیا مذہب ہے؟ جو شخص یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ شش جہات سے خالی ہے اور وہ ہر مرد مومن کے دل میں ہے، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :سلف رحمہم اللہ کا مذہب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات پاک کے ساتھ اپنے بندوں کے اوپر ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا، ﴾ (النساء: ۵۹) ’’اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو، تو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو، تو اس میں اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی طرف رجوع کرو، یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا انجام بھی اچھا ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ مِنْ شَیْئٍ فَحُکْمُہُ اِلَی اللّٰہِ﴾ (الشوری: ۱۰) ’’اور تم جس بات میں اختلاف کرتے ہو، اس کا فیصلہ اللہ کی طرف سے ہوگا۔‘‘ اور فرمایا: ﴿اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ، وَمَنْ یُّطِعْ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَخْشَ اللّٰہَ وَیَتَّقِیہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفَائِزُوْنَ، ﴾ (النور: ۵۱۔۵۲) ’’مومنوں کی تو یہ بات ہے کہ جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلائے جائیں تاکہ وہ ان میں فیصلہ کریں تو کہیں کہ ہم نے (حکم) سن لیا اور مان لیا اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گا۔ اور اس سے ڈرے گا تو ایسے ہی لوگ مراد کو پہنچنے والے ہیں۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا، ﴾ (الاحزاب: ۳۶) ’’اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ��ے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی امر کا فیصلہ کر دیں تو وہ اس میں اپنا بھی کچھ حق اختیار محفوظ رکھیں اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ راہ راست سے بھٹک کر صریح گمراہی میں مبتلا ہوگیا۔‘‘ اور فرمایا: ﴿فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا، ﴾ (النساء: ۶۵) ’’تمہارے پروردگار کی قسم! یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کر دو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں، تب تک مومن نہیں ہوں گے۔‘‘ ان آیات کریمہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ تنازع کے وقت مومنوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتے اور ان کے سامنے سر اطاعت خم کر دیتے ہیں نیزاس کے سوا ان کو کوئی اختیار نہیں۔ ایمان اسی سے مکمل ہوتا ہے بشرطیکہ وہ اس سے تنگ دل نہ ہوں بلکہ خوشی خوشی اس حکم کو تسلیم کر لیں اگراس کے سوا کوئی اور رستہ اختیار کیا گیا تو وہ اس آیت کریمہ کے موجب ہوگا: ﴿وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ م بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَہَنَّمَ وَ سَآئَ تْ مَصِیْرًا، ﴾ (النساء: ۱۱۵) ’’اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مومنوں کے راستے کے سوا دوسرے راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور (قیامت کے دن) اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے۔‘‘ اس تمہید کے بعد جو شخص بھی علو باری تعالیٰ کے بارے میں غور کرے گا اور اسے کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف لوٹائے گا تواس کے سامنے یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ تمام وجوہ دلالت کے ساتھ کتاب وسنت کی صراحت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات پاک کے ساتھ اپنی تمام مخلوق سے اوپر ہے، قرآن مجید اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مختلف عبارتوں میں اسے اس طرح بیان کیا گیا ہے: ۱۔ نمبرایک اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں ہے، مثلاً: ﴿اَمْ اَمِنْتُمْ مَنْ فِی السَّمَآئِ اَنْ یُّرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِبًا فَسَتَعْلَمُوْنَ کَیْفَ نَذِیرِ﴾(الملک: ۱۷) ’’کیا تم اس سے، جو آسمان میں ہے، نڈر ہو کہ وہ تم پر مٹی اور کنکریاں اڑاتی آندھی بھیج دے، سو تم عنقریب جان لو گے کہ میرا ڈرانا کیسا ہے؟‘‘ اور مریض کو دم کرنے والی دعا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی فرمایا کرتے تھے: ((رَبُّنَا اللّٰہُ الَّذِیْ فِی السَّمَاَئِ)) (سنن ابی داود، الطب، باب کیف الرقی، ح: ۳۸۹۲۔) ’’ہمارا رب وہ اللہ ہے جو آسمان میں ہے۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ مَا مِنْ رَجُلٍ یَّدْعُو امْرَأَتَہُ اِلَی فِرَاشِہَا فَتَأْبٰی عَلَیْہِ اِلاَّ کَانَ الَّذِیْ فِی السَّمَائِ سَاخِطًا عَلَیْہَا حَتَّی یَرْضٰی عَنْہَا)) (صحیح البخاری، بدء الخلق، باب اذا قال احدکم آمین والملائکۃ فی السماء آمین، ح:۳۲۳۷ ومسلم، النکاح، باب تحریم امتناعہا عن فراش زوجہا، ح: ۱۴۳۶ واللفظ لہ۔) ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو شخص اپنی بیوی کو اپنے بستر کی طرف بلائے اور وہ انکار کر دے تو وہ ذات جو آسمان میں ہے، اس وقت تک اس سے ناراض رہتی ہے، جب تک کہ شوہر اپنی بیوی سے خوش نہ ہو جائے۔‘‘ ۲۔ نمبردواللہ تعالیٰ کی فوقیت کے بارے میں اس مرتبہ علو کی تصریح واردہوئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ ہُوَ الْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ﴾ (الانعام: ۱۸) ’’اور وہ اپنے بندوں کے اوپر ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿یَخَافُوْنَ رَبَّہُمْ مِّنْ فَوْقِہِمْ﴾ (النحل: ۵۰) ’’وہ اپنے پروردگار سے، جو ان کے اوپر ہے، ڈرتے ہیں۔‘‘ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہے: ((ان اللّٰه لَمَّا قَضیُ الْخَلْقَ کَتَبََ عِنْدَہُ فَوْقَ عرشہِ اِنَّ رَحْمَتِی سبقتْ غَضَبِی)) (صحیح البخاری، بدء الخلق، باب ماجاء فی قولہ تعالی: ﴿وہو الذی یبدؤا الخلق ثم یعدہ﴾ ح: ۳۱۹۴ وصحیح مسلم، التوبۃ، باب سعۃ رحمۃ اللّٰہ تعالٰی وانہا تغلب غضبہ، ح: ۲۷۵۱۔) ’’جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو اس نے اپنی کتاب میں لکھا دیاجو اس کے پاس عرش پر ہے کہ بے شک میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔‘‘ ۳۔ نمبر تین اس بات کی تصریح ورود کہ چیزیں اس کی طرف چڑھتی اور اس کی طرف سے نازل ہوتی ہیں اور ظاہر ہے کہ صعود اوپر ہی کی طرف ہوتا ہے اور نزول اوپر سے نیچے کی طرف، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ﴾ (الفاطر: ۱۰) ’’اس کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں اور نیک عمل انہیں بلند کرتے ہیں۔‘‘ اور فرمایا: ﴿تَعْرُجُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ اِلَیْہِ﴾ (المعارج: ۴) ’’اس کی طرف روح (الامین) اور فرشتے چڑھتے ہیں۔‘‘ اور فرمایا: ﴿یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ﴾ (السجدۃ: ۵) ’’وہی آسمان سے زمین تک (کے) ہر کام کا انتظام کرتا ہے، پھر وہ (معاملہ) اس کی طرف چڑھ جاتا ہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے بارے میں فرمایا: ﴿لَا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہِ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ﴾ (فصلت: ۴۲) ’’اس پر جھوٹ کا دخل آگے سے ہوتا ہے نہ ��یچھے سے (اور یہ کتاب) دانا (اور) خوبیوں والے (اللہ) کی اتاری ہوئی ہے۔‘‘ اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ، فرمایا : ﴿وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ﴾ (التوبۃ: ۶) ’’اور اگر کوئی مشرک پناہ کا طلب گار ہو تو اس کو پناہ دو یہاں تک کہ وہ کلام اللہ سن لے۔‘‘ جب قرآن کریم اللہ کا کلام ہے اور اسی کی طرف سے نازل ہوا ہے، یہ بھی تو اللہ کی ذات کے علو کی دلیل ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((یَنْزِلُ رَبُّنَاٍ إِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا حِینَ یَبْقَی ثُلُثُ اللَّیْلِ الْآخِرُ یَقُولُ مَنْ یَدْعُونِی…)) (صحیح البخاری، التہجد، باب الدعاء والصلاۃ من آخر اللیل، ح: ۱۱۴۵ وصحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب الترغیب فی الدعاء والذکر فی آخر اللیل والاجابۃ فیہ، ح:۷۵۸۔) ’’جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو ہمارا رب تبارک و تعالیٰ آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے (جس طرح اس کی ذات پاک کے شایان شان ہے) اور فرماتا ہے کہ کون ہے جو مجھ سے دعا کرے…‘‘الخ حدیث براء بن عازب رضی اللہ عنہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے بستر پر لیٹتے وقت کی جو دعا سکھائی تھی اس میں یہ کلمات بھی ہیں: ((امَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِی أَنْزَلْتَ وَبِنَبِیِّکَ الَّذِی أَرْسَلْتَ)) (صحیح بخاری، الدعوات، باب ما یقول اذا نام، ح:۶۳۱۴ وصحیح مسلم، الذکر والدعاء، باب ما یقول عند النوم واخذ المضجع، ح: ۲۷۱۰۔) ’’میں تیری اس کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل فرمائی اور تیرے اس نبی پر بھی ایمان لایا جسے تو نے مبعوث فرمایا۔‘‘ ۴۔ اللہ تعالیٰ کے علو کے ساتھ موصوف ہونے کی تصریح میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی﴾ (الاعلیٰ: ۱) ’’آپ اپنے سب سے بلند رب کے نام کی تسبیح کریں۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ لَا یَؤُْدُہٗ حِفْظُہُمَا وَ ہُوَ الْعَلِیُّ الَعَظِیْمُ﴾ (البقرۃ: ۲۵۵) ’’اور اس کے لیے ان دونوں (اسمان و زمین) کی حفاظت کچھ دشوار نہیں اور وہ بڑا بلند، نہایت عظمت والا ہے۔‘‘ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے الفاظ ہیں: ((سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی))( سنن ابی داود، الصلاۃ، باب ما یقول الرجل فی رکوعہ وسجودہ، ح: ۸۷۱ وجامع الترمذی، الصلاۃ، باب ماجاء فی التسبیح فی الرکوع والسجود، ح:۲۶۲ وسنن النسائی، الافتتاح باب تعوذ القاریء… ح:۱۰۰۹۔) ’’پاک ہے میرا رب جو سب سے بلند و بالا ہے۔‘‘ ۵۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمان کی طرف اشارہ کرنا، خصوصا عرفہ کے عظیم وقوف کے وقت جس موقعہ سے اپنی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے سب سے عظیم اجتماع میں لوگوں سے پوچھا تھا: ((أَلَا ہَلْ بَلَّغْتُ؟ قَالُوا: نَعَمْ فَقَالَ: اَللّٰہُمَّ اشْہَدْ)) (صحیح البخاری، الحج، باب الخطبۃ ایام منی، ح:۱۷۴۱ وصحیح مسلم، الحج، باب حجۃ النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم ، ح:۱۲۱۸۔) ’’کیا میں نے تم تک پہنچا دیا ہے؟‘‘ لوگوں نے جواب دیا: ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے اللہ! تو بھی گواہ ہو جا۔‘‘ آپ اس موقعہ پر یہ کلمات فرماتے ہوئے اپنی انگلی کو آسمان کی طرف اٹھا کر لوگوں کی طرف لے آتے تھے اور ان کی طرف اشارہ کرتے جاتے تھے، جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں اس بات کی صراحت ہے ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں ہے، ورنہ آسمان کی طرف انگلی اٹھانے کے کوئی معنی نہ تھے۔ ۶۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایک باندی سے پوچھا: ’’اللہ کہاں ہے؟‘‘ تو اس نے جواب دیا: آسمان میں۔ تب آپ نے فرمایا: ((اَعْتِقْہَا فَاِنَّہَا مُؤْمِنَۃٌ)) ( صحیح مسلم، المساجد، باب تحریم الکلام فی الصلاۃ… ح:۵۳۷۔) ’’اسے آزاد کر دو، یہ مومنہ ہے۔‘‘ امام مسلم رحمہ اللہ نے اس واقعہ کو معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ کی ایک طویل حدیث میں روایت کیا ہے اس سے اللہ تعالیٰ کا ذاتی علو نہایت صراحت کے ساتھ ثابت ہو رہا ہے، کیونکہ حرف استفہام اَیْنَ کے ساتھ مکان کے بارے میں سوال کیا گیا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس عورت سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہے اور اس نے اس کا یہ جواب دیا کہ وہ آسمان میں ہے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے آسمان میں ہونے کی تائید فرمائی اور آپ نے جو یہ فرمایا: ’’اسے آزاد کر دو، یہ مومنہ ہے۔‘‘ تو اس سے معلوم ہوا کہ کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک یہ اقرار نہ کرے اور یہ عقیدہ نہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں ہے۔ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مختلف انواع واقسام کے ایسے دلائل موجود ہیں جن کا تعلق سماع اور خبر سے ہے، اورجو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات پاک کے ساتھ اپنی ساری مخلوق کے اوپر ہے اس بارے میں دلائل اس قدر زیادہ ہیں کہ ان سب کو اس جگہ بیان کرنا ممکن نہیں۔ ان نصوص کے تقاضے کے مطابق سلف صالحین رحمہم اللہ نے بالاجماع اللہ کے لیے ذاتی علو کو ثابت کیا ہے اور کہا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی ذات کے ساتھ اپنی ساری مخلوق سے اوپر اور بلند ہے جیسا کہ ان کا اس بات پر بھی اجماع ہے کہ معنوی طور پر بھی، یعنی اپنی صفات کے اعتبار سے بھی اللہ تعالیٰ کی ذات بلند و بالا اور ارفع و اعلیٰ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَہُ الْمَثَلُ الْاَعْلیٰ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ، ﴾ (الروم:۲۷) ’’اور آسمانوں اور زمین میں اس کی شان نہایت بلند ہے اور وہ غالب، حکمت والا ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ لِلّٰہِ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَا﴾ (الاعراف: ۱۸۰) ’’اور اللہ کے سب نام ہی اچھے ہیں، سو تم اس کو اس کے ناموں سے پکارا کرو۔‘‘ اور فرمایا: ﴿فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰہِ الْاَمْثَالَ اِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (النحل: ۷۴) ’’پس (لوگو!) اللہ کے بارے میں (غلط مثال) نہ بناؤ بلا شبہ (صحیح مثالوں کا طریقہ) اللہ ہی جانتا ہے تم نہیں جانتے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ، ﴾ (البقرۃ: ۲۲) ’’پس کسی کو اللہ کا ہمسر نہ بناؤ اس حال میں کہ تم جانتے ہو۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے ذاتی علو پر جس طرح نصوص کتاب وسنت اور اجماع سلف دلالت کرتے ہیں، اسی طرح عقل و فطرت بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے۔ جہاں تک عقل کی دلالت کا تعلق ہے تو کہا جائے گا کہ بے شک علو صفت کمال ہے اور کمال کی ضد صفت نقص ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کے لیے صفات کمال ہی ثابت ہیں، لہٰذا واجب ہے کہ ’’علو‘‘ کو بھی اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت مانا جائے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے کسی چیز کو ثابت کرنے سے اللہ کی ذات میں نقص لازم نہیں آتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا صفت’’علو‘‘ سے متصف ہونااس بات کو متضمن نہیں کہ اس کی مخلوقات میں سے کوئی چیز اس کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اگر کوئی ایسا گمان کرتا ہے تو اس کا اس قسم کا وہم، گمراہی اور بے عقلی ہے۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کے ذاتی علو پر فطرت کی دلالت کا تعلق ہے تو اس کا ثبوت یہ ہے کہ جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کو پکارے، خواہ اس کی یہ پکار عبادت کے طور پر ہو یا دعا کے طور پر اس موقعہ سے اس کا دل اس پکار تے وقت آسمان کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور دعاء کرنے والا تقاضائے فطرت کے مطابق آسمان کی طرف اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا لیتا ہے، جیسا کہ ہمدانی نے ابو المعالی الجوینی سے کہا تھا: ’’جب بھی کوئی عارف کہتا ہے: یا رب! تو وہ اپنے دل میں ضرورتاً طلب علو کو موجزن پاتا ہے۔‘‘ یہ سن کر امام جوینی نے اپنے سر پر طمانچا مارنا اور یہ کہنا شروع کر دیا: ’’ہمدانی نے مجھے حیران کر دیا، ہمدانی نے مجھے حیران کر دیا۔‘‘ ان کے بارے میں اسی طرح منقول ہے، خواہ صحیح ہو یا نہ ہو، بہرحال ہم میں سے ہر ایک محسوس اسی طرح کرتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا ذکر کیا جو آسمان کی طرف اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر کہتا ہے: یارب! یارب!… الخ[1] پھر آپ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ نمازی جب نماز پڑھتا ہے، تو اس کا دل آسمان کی طرف ہوتا ہے خصوصاً حالت سجدہ میں جب وہ یہ کہتا ہے: ((سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی)) (سنن ابی داود، الصلاۃ، باب ما یقول الرجل فی رکوعہ وسجودہ، ح: ۸۷۱ وجامع الترمذی، الصلاۃ، باب ماجاء فی التسبیح فی الرکوع والسجود، ح:۲۶۲ وسنن النسائی، الافتتاح باب تعوذ القاریء… ح:۱۰۰۹۔) ’’پاک ہے میرا رب جو سب سے بلند و بالا ہے۔‘‘ اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ اس کا معبود آسمان میں ہے جو پاک اور بلند ہے۔ ان لوگوں نے جو یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ شش جہات سے خالی ہے، تو یہ قول اپنے عموم کے اعتبار سے باطل ہے کیونکہ یہ اس چیز کے ابطال کا تقاضا کرتی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک کے لیے ثابت کیا ہے اور اسے اس شخص نے بھی اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کیا ہے جو ساری مخلوق میں سے اللہ تعالیٰ کے بارے میں زیادہ جاننے والا اور اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ تعظیم بجا لانے والا ہے، اور وہ اللہ تعالیٰ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ انہوں نے بیان فرمایا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ آسمان میں ہے اور آسمان جہت علو میں ہے۔ اگر ان لوگوں کی اس بات کو درست مان لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ شش جہات سے خالی ہے، تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو معدوم قرار دے دیا جائے، کیونکہ شش جہات سے مراد اوپر، نیچے، دائیں بائیں، پیچھے اور آگے ہے اور ہر موجود چیز کے ساتھ ان چھ جہتوں میں سے کوئی نہ کوئی جہت متعلق ہوتی ہے، اور یہ بات بدیہی طور پر معلوم اور عیاں ہے، لہٰذا جب اللہ تعالیٰ کی ذات پاک سے ان شش جہات کی نفی کر دی جائے تو اس سے لازم آئے گا کہ وہ معدوم ہے۔ ذہن اگرچہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو موجود اور ان نسبتوں میں سے کسی نسبت کے ساتھ تعلق سے خالی فرض (خیال) کرتا یا قرار دیتا ہے لیکن یہ ایک مفروضہ ہی ہے خارج (یعنی حقیقت) میں اس کا کوئی وجود نہیں ، کیونکہ ہم اس بات پر ایمان رکھتے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایمان لانے والے ہر مومن کے لیے اس بات کو ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ اس مسئلہ پر بھی ایمان لائے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے اوپر ہے، جیسا کہ کتاب وسنت، اجماع سلف اور عقل و فطرت کی دلالت سے معلوم ومفہومہے، جیسا کہ ہم قبل ازیں بیان کرتے چلے آئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارا اس بات پر بھی ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے بلاشبہ مخلوقات میں سے کوئی چیز اس کی ذات گرامی کا احاطہ نہیں کر سکتی اور اس کی ذات پاک اپنی مخلوق سے بے نیاز ہے، وہ مخلوق میں سے کسی کا محتاج نہیں ۔ ہماری رائے یہ بھی ہے کہ کسی مومن کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ لوگوں میں سے کسی کے قول کی وجہ سے خواہ وہ کوئی بھی ہو، کتاب وسنت کے دائرے سے باہر نکلے، جیسا کہ قبل ازیں اس سوال کے جواب کے آغاز میں ہم یہ بیان کر چکے ہیں۔ انہوں نے جو یہ کہا ہے: ’’بے شک اللہ تعالیٰ مومن کے دل میں ہے‘‘ تو اس بات کی کتاب اللہ، سنت رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)اور ہمارے علم کی حد تک یا سلف صالحین میں سے کسی کے قول سے کوئی دلیل نہیں ہے، اور پھر علی الاطلاق بھی یہ بات باطل ہے کیونکہ اگر اس بات سے مراد یہ لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ بندے کے دل میں حلول کیے ہوئے ہے تو اس قسم کا معتقد رکھنا قطعی طور پر باطل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک اس سے بہت ہی عظیم الشان اور بے حد جلیل القدر ہے کہ وہ کسی بندے کے دل میں حلول کرے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایک شخص کا دل اس بات سے توتنفر محسوس کرے جو کتاب وسنت سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں ہے لیکن اس بات پر اس کا دل مطمئن ہو جائے جس کی کتاب وسنت سے کوئی دلیل نہیں کہ اللہ تعالیٰ مومن کے دل میں ہے۔ کتاب وسنت میں ایسا کوئی ایک حرف بھی نہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ اللہ تعالیٰ مومن کے دل میں ہے۔ اور اگر اس بات سے مراد یہ ہے کہ مومن اپنے دل میں ہمیشہ اپنے رب تعالیٰ کو یاد کرتا رہتا ہے تو یہ بات حق ہے، لیکن واجب یہ ہے کہ اس کا اظہار ایسی عبارت سے ہو جو اس حقیقت کو بیان کرتی اور باطل مدلول کی نفی کرتی ہو، مثلاً: یوں کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہمیشہ مرد مومن کے دل میں ہوتا ہے۔ اس طرح بات کرنے والوں کے کلام سے بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ارادہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے آسمان میں ہونے کے بجائے اس معتقدکو اس کے بدلہ اختیار کریں کہ ’’وہ مومن کے دل میں ہے‘‘ اس معنی کے اعتبار سے یہ بات بالکل باطل ہے۔ مومن کو اس بات کے انکار سے ڈرنا چاہیے جس پر کتاب اللہ، سنت رسول اللہ اور اجماع سلف دلالت کرتے ہوں اور اسے ایسی مجمل اور مبہم باتیں اختیار نہیں کرنی چاہئیں جن میں حق اور باطل دونوں معنوں کا احتمال ہو، بلکہ اسے چاہیے کہ سب سے پہلے ایمان لانے والے مہاجرین وانصار کے راستے کو اختیار کرے تاکہ وہ بھی اس آیت کریمہ کا مصداق بن جائے: ﴿وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ وَ اَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ، ﴾ (التوبۃ: ۱۰۰) ’’جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے) پہلے (ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی اور جنہوں نے نیکوکاری کے ساتھ ان کی پیروی کی اللہ ان سے خوش ہے اور وہ اللہ سے خوش ہیں اور اس نے ان کے لیے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں (اور) وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، یہ بڑی کامیابی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو انہی بندوں میں سے بنا ے(جوسابقین أولین)کے نقش قدم پر قائم ودائم ہوں اور ہم سب کو اپنی رحمت سے سرفراز فرمائے، بے شک وہی عطا فرمانے والا ہے۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۷۶، ۷۷، ۷۸، ۷۹، ۸۰، ۸۱، ۸۲، ۸۳ ) #FAI00030 ID: FAI00030 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
Text
نئی دنیا مجسم دل کشی معلوم ہوتی ہے
دیا خاموش ہے لیکن کسی کا دل تو جلتا ہے
چلے آؤ جہاں تک روشنی معلوم ہوتی ہے
نسیم زندگی کے سوز سے مرجھائی جاتی ہے
یہ ہستی پھول کی اک پنکھڑی معلوم ہوتی ہے
جدھر دیکھا نشورؔ اک عالم دیگر نظر آیا
مصیبت میں یہ دنیا اجنبی معلوم ہوتی ہے
-
نئی دنیا مجسم دل کشی معلوم ہوتی ہے
نشور واحدی-
#urdu shayari#urdu ashaar#urdu poems#urdu aesthetic#vintage aesthetic#dark acadamia aesthetic#aesthetic#academia aesthetic#light and dark mode switch
2 notes
·
View notes
Text
دو نوجوان سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے
دو نوجوان سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور اس کی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں۔
"یا عمر ؓ یہ ہے وہ شخص!"
سیدنا عمر ؓ ان سے پوچھتے ہیں۔
"کیا کیا ہے اس شخص نے؟"
"یا امیر المؤمنین، اس شخص نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے۔"
"کیا کہہ رہے ہو، اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے؟"
سیدنا عمرؓ ان سے پوچھتے ہیں۔
سیدنا عمر ؓ پھر اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں۔
"کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے؟"
وہ شخص کہتا ہے :
"ہاں امیر المؤمنین، مجھ سے قتل ہو گیا ہے ان کا باپ۔"
"کس طرح قتل کیا ہے؟"
سیدنا عمرؓ پوچھتے ہیں۔
"یا عمرؓ، ان کا باپ اپنے اونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا، میں نے منع کیا، باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا۔"
"پھر تو قصاص دینا پڑے گا، موت ہے اس کی سزا۔"
سیدنا عمرؓ کہتے ہیں۔
نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت، اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں۔ نہ ہی اس شخص سے اس کے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے؟ نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں؟ معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے؟ ان سب باتوں سے بھلا سیدنا عمر ؓ کو مطلب ہی کیا ہے؟؟؟ کیوں کہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر ؓپر کوئی بھی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمرؓ کو روک سکتا ہے۔ حتی کہ سامنے عمرؓ کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو، قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔
وہ شخص کہتا ہے۔
"اے امیر المؤمنین: اس کے نام پر جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں۔ مجھے صحراء میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجیئے تا کہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے، میں اس کے بعد واپس آ جاؤں گا۔"
سیدنا عمر ؓ کہتے ہیں:
"کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحراء میں جا کر واپس بھی آ جائے گا؟"
مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اس کا نام تک بھی جانتا ہو۔ اس کے قبیلے، خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے۔
کون ضمانت دے اس کی؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے، جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔
اور کوئی ایسا بھی تو نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمرؓ سے اعتراض کرے، یا پھر اس شخص کی سفارش کی لئے ہی کھڑا ہو جائے۔ اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔
محفل میں موجود صحابہ ؓ پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے، اس صورتحال سے خود حضرت عمر ؓ بھی متأثر ہیں۔ کیوں کہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کے لئے چھوڑ دیئے جائیں؟ یا پھر اس کو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا!
خود سیدنا عمرؓ سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں۔ اس صورتحال پر، سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں،
"معاف کر دو اس شخص کو۔"
"نہیں امیر المؤمنین، جو ہمارے باپ کو قتل کرے، اس کو چھوڑ دیں، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا"، نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں۔
حضرت عمرؓ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں۔
"اے لوگو ، ہے کوئی تم میں سے جو اس شخص کی ضمانت دے؟"
حضرت ابوذر غفاری ؓ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں۔
"میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی!"
سیدنا عمرؓ کہتے ہیں۔
"ابوذر ، اس نے قتل کیا ہے۔"
"چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو"، ابوذر ؓ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں۔
عمرؓ: "جانتے ہو اسے؟"
ابوذرؓ: "نہیں جانتا اسے"
عمرؓ: "تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو؟"
ابوذرؓ: "میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں، اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ شخص جھوٹ نہیں بول رہا، انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا۔"
عمرؓ: "ابوذرؓ دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تمہاری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا۔"
"امیر المؤمنین، پھر اللہ مالک ہے۔ ابوذر اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں۔"
سیدنا عمرؓ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے، کچھ ضروری تیاریوں کے لئے، بیوی بچوں کو الوداع کہنے، اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے، اور اس کے قصاص کی ادئیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے۔
اور پھر تین راتوں کے بعد، عمر ؓ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے، انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا، عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے، نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے۔
حضرت ابوذرؓ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر حضرت عمرؓ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔
"کدھر ہے وہ آدمی؟"
سیدنا عمرؓ سوال کرتے ہیں۔
"مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین"،
ابوذر ؓ مختصر جواب دیتے ہیں۔
ابوذرؓ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں، جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں آج معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔
محفل میں ہو کا عالم ہے، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے؟
یہ سچ ہے کہ ابوذرؓ سیدنا عمرؓ کے دل میں بستے ہیں، عمرؓ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمرؓ دیر نہ کریں، کاٹ کر ابوذرؓ کے حوالے کر دیں۔ لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے، اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے، کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا، نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے، حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے۔
مغرب سے چند لحظات پہلے وہ شخص آ جاتا ہے۔ بےساختہ حضرت عمرؓ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے، ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے۔
حضرت عمرؓ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں۔
"اے شخص، اگر تو لوٹ کر نہ ��ھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا، نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا"
"امیر المؤمنین، اللہ کی قسم، بات آپ کی نہیں ہے، بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے، دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں، اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحراء میں تنہا چھوڑ کر، جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے"۔
سیدنا عمرؓ نے ابوذرؓ کی طرف رخ کر کے پوچھا۔
"ابوذرؓ، تو نے کس بنا پر اس کی ضمانت دے دی تھی؟"
ابوذرؓ نے کہا،
"اے عمرؓ، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے۔"
سیدنا عمرؓ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دونوں نوجوانوں سے پوچھا۔
"کہ کیا کہتے ہو اب؟"
نوجوانوں نے روتے ہوئے جواب دیا،
"اے امیر المؤمنین، ہم اس شخص کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں، ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے"۔
سیدنا عمرؓ اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر رہے تھے۔۔۔۔
"اے نوجوانو! تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔"
"اے ابوذرؓ! اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے"۔
اور
"اے شخص، اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے"۔
اور اے امیر المؤمنین، اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے۔
محدثین میں سے ایک یوں کہتے ہیں،
"قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، اسلام اور ایمان کی سعادتیں تو عمرؓ کے کفن کے ساتھ ہی دفن ہو گئی تھیں"۔
اور اے اللہ، جزائے خیر دے اپنے بے کس بندے کو، جس نے ترجمہ کر کے اس پیغام کو اپنے احباب تک پہنچایا۔
اور اے اللہ، جزائے خیر دینا ان کو بھی، جن کو یہ پیغام اچھا لگے اور وہ اسے آگے اپنے دوستوں کو بھیجیں۔
آمین یا رب العالمین
1 note
·
View note
Link
تیرے دل سے جو اتر جائیں گے
اپنے ہونے سے مکر جائیں گے
اب قفس کا یہ تکلف کیسااُڑ بھی جائیں تو کدھر جائیں گے
آنکھ دیکھے ہے ہزاروں رستےہم سے اندھے، اسی در جائیں گے
ہم کو معلوم، ہے یہ لا حاصلپھر بھی تا حدِ نظر جائیں گے
ہم کنارے پہ اتر بھی جائیںساتھ پاؤں کے بھنور جائیں گے
ٹوٹ کر اور ہوئے ہم مضبوطخوف یہ تھا کہ بکھر جائیں گے
عمر بھر وہم یہ دل سے نہ گیاایک دن ہم بھی سنور جائیں گے
جو کٹی جیسی کٹی ،خیر ، مگریوں ہی کیا ساری بسر جائیں گے
بعد مدت کے ملے ، شرمندہدعویٰ دونوں کا تھا مر جائیں گے
دھوپ نکلی تو بھرم ٹوٹ گیاہم جدھر جائیں شجر جائیں گے
کتنے خوش فہم ہیں شاعر ، ابرکہم ہی ہم ہوں گے جدھر جائیں گے
اتباف ابرک
4 notes
·
View notes
Photo
در نبی پہ پڑا رہوں گا، پڑے رہنے سے کام ہو گا کبھی تو قسمت کھلے گی میری کبھی تو میرا سلام ہو گا خلاف معشوق کچھ ہوا ہے نہ کوئی عاشق سے کام ہو گا خدا بھی ہو گا ادھر اے دل جدھر وہ عالی مقام ہوگا کئے ہی جاوں گا عرض مطلب ملے گا جب تک نہ دل کا مطلب نہ شام مطلب کی صبح ہو گی نہ یہ فسانہ تمام ہو گا جو دل سے ہے مائل پیمبر، یہ اس کی پہچان ہے مقرر کہ ہر دم اس بے نوا کے لب پر درود ہوگا سلام ہوگا اسی توقع پہ جی رہا ہوں یہی تمنا جلا رہی ہے نگاہ لطف و کرم نہ ہوگی، تو مجھ کو جینا حرام ہوگا ہوئی جو کوثر پہ باریابی تو کیف کی تیرے دھج یہ ہوگی بغل میں مینا، نظر میں ساقی خوشی سے ہاتھوں میں جام ہوگا #takbeertv #sky749 #naat #Muhammad #PBUH #Madina #Dua https://www.instagram.com/p/CBItmq9FLIz/?igshid=152sfj7suus39
1 note
·
View note
Text
اردو کے سو مشہور اشعار
ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ ہماری قومی زبان اردو نے میر تقی میر، غالب، اقبال، داغ، فیض ، فراز اور جون ایسے مایہ ناز شاعر پیدا کیے ہیں جن کے افکار سے ساری دنیا متاثر ہے۔ شاعری کے عالمی دن پر آپ کے ذوق کو مہمیز کرنے کے لیے یہاں پر اردو کے وہ ایک سو مشہور ترین اشعار دیے جا رہے ہیں جو بہت مشہور اور زبان زد عام ہوئے، اور لوگوں نے بے حد پسند کیے۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری علامہ اقبال
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں مرزا غالب
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد مولانا محمد علی جوہر
نازکی اس کے لب کی کیا کہیئے پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے میر تقی میر
خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ علامہ اقبال
دامن پہ کوئی چھینٹ، نہ خنجر پہ کوئی داغ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو کلیم عاجز
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو میاں داد خان سیاح
رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو ابراہیم ذوق
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب شرم تم کو مگر نہیں آتی مرزا غالب
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے امیر مینائی
چل ساتھ کہ حسرت دلِ محروم سے نکلے عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے فدوی عظیم آبادی
پھول کی پتیّ سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر علامہ اقبال
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر علامہ اقبال
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے برق لکھنوی
فصل بہار آئی، پیو صوفیو شراب بس ہو چکی نماز، مصلّہ اٹھایئے حیدر علی آتش
آئے بھی لوگ، بیٹھے بھی، اٹھ بھی کھڑے ہوئے میں جا ہی ڈھونڈتا تیری محفل میں رہ گیا حیدر علی آتش
مری نمازہ جنازہ پڑھی ہے غیروں نے مرے تھے جن کے لیے، وہ رہے وضو کرتے حیدر علی آتش
امید وصل نے دھوکے دیے ہیں اس قدر حسرت کہ اس کافر کی ’ہاں‘ بھی اب ’نہیں‘ معلوم ہوتی ہے چراغ حسن حسرت
داور حشر میرا نامہء اعمال نہ دیکھ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں محمد دین تاثیر
اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں فراق گورکھپوری
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی اب تو آجا اب تو خلوت ہو گئی عزیز الحسن مجذوب
وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی مہاراج بہادر برق
چتونوں سے ملتا ہے کچھ سراغ باطن کا چال سے تو کافر پہ سادگی برستی ہے یگانہ چنگیزی
دیکھ کر ہر در و دیوار کو حیراں ہونا وہ میرا پہلے پہل داخل زنداں ہونا عزیز لکھنوی
اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن بھولتا ہی نہیں عالم تیری انگڑائی کا عزیز لکھنوی
دینا وہ اس کا ساغرِ مئے یاد ہے نظام منہ پھیر کر اُدھر کو، اِدھر کو بڑھا کے ہاتھ نظام رام پوری
یہی فرماتے رہے تیغ سے پھیلا اسلام یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے اکبر الہٰ آبادی
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا اکبر الہٰ آبادی
آ عندلیب مل کر کریں آہ و زاریاں تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل گمنام
اقبال بڑا اپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا علامہ اقبال
توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جایئے بندہ پرور جایئے، اچھا، خفا ہو جایئے حسرت موہانی
تمہیں چاہوں، تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں مرا دل پھیر دو، مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا مضطر خیر آبادی
دیکھ آؤ مریض فرقت کو رسم دنیا بھی ہے، ثواب بھی ہے حسن بریلوی
خلاف شرع شیخ تھوکتا بھی نہیں مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں اکبر الہٰ آبادی
دیکھا کیے وہ مست نگاہوں سے بار بار جب تک شراب آئے کئی دور ہو گئے شاد عظیم آبادی
ہم نہ کہتے تھے کہ حالی چپ رہو راست گوئی میں ہے رسوائی بہت الطاف حسین حالی
سب لوگ جدھر وہ ہیں، ادھر دیکھ رہے ہیں ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں داغ دہلوی
دی مؤذن نے شب وصل اذاں پچھلی رات ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا داغ دہلوی
گرہ سے کچھ نہیں جاتا، پی بھی لے زاہد ملے جو مفت تو قاضی کو بھی حرام نہیں امیر مینائی
فسانے اپنی محبت کے سچ ہیں، پر کچھ کچھ بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیب داستاں کے لیے مصطفیٰ خان شیفتہ
ذرا سی بات تھی اندیشہِ عجم نے جسے بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستاں کے لیے علامہ اقبال
ہر چند سیر کی ہے بہت تم نے شیفتہ پر مے کدے میں بھی کبھی تشریف لایئے مصطفیٰ خان شیفتہ
وہ شیفتہ کہ دھوم ہے حضرت کے زہد کی میں کیا کہوں کہ رات مجھے کس کے گھر ملے مصطفیٰ خان شیفتہ
لگا رہا ہوں مضامین نو کے انبار خبر کرو میرے خرمن کے خوشہ چینوں کو میر انیس
شب ہجر میں کیا ہجوم بلا ہے زباں تھک گئی مرحبا کہتے کہتے مومن خان مومن
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا مومن خان مومن
اذاں دی کعبے میں، ناقوس دیر میں پھونکا کہاں کہاں ترا عاشق تجھے پکار آیا محمد رضا برق
کوچہء عشق کی راہیں کوئی ہم سے پوچھے خضر کیا جانیں غریب، اگلے زمانے والے وزیر علی صبا
دم و در اپنے پاس کہاں چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں مرزا غالب
گو واں نہیں، پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں کعبے سے ان بتوں کو نسبت ہے دور کی مرزا غالب
جانتا ہوں ثواب طاعتِ و زہد پر طبیعت ادھر نہیں آتی مرزا غالب
غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے مرزا غالب
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا مرزا غالب
اسی لیے تو قتل عاشقاں سے منع کرتے ہیں اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر خواجہ وزیر
زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایماں بہہ گیا محمد ابراہیم ذوق
ہزار شیخ نے داڑھی بڑھائی سن کی سی مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی اکبر الہٰ آبادی
فکر معاش، عشق بتاں، یاد رفتگاں اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا، کیا کرے محمد رفیع سودا
یہ دستورِ زباں بندی ہے ک��سا تیری محفل میں یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری علامہ اقبال
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات علامہ اقبال
یہ بزم مئے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں وہ جام اسی کا ہے شاد عظیم آبادی
حیات لے کے چلو، کائنات لے کے چلو چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو مخدوم محی الدین
اگر بخشے زہے قسمت نہ بخشے تو شکایت کیا سر تسلیمِ خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے میر تقی میر
اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات اقبال
آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہونے تک کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک مرزاغالب
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا فیض احمد فیض
دائم آباد رہے گی دنیا ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا ناصر کاظمی
نیرنگیِ سیاستِ دوراں تو دیکھیئے منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے محسن بھوپالی
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر پھر ملیں گے اگر خدا لایا میر تقی میر
شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیئے میر تقی میر
بہت کچھ ہے کرو میر بس کہ اللہ بس اور باقی ہوس میر تقی میر
بھانپ ہی لیں گے اشارہ سر محفل جو کیا تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں مادھو رام جوہر
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں بہادر شاہ ظفر
بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو جو تیرے آستاں سے اٹھتا ہے میر تقی میر
ہم فقیروں سے بے ادائی کیا آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا میر تقی میر
سخت کافر تھا جس نے پہلے میر مذہبِ عشق اختیار کیا میر تقی میر
نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے علامہ اقبال
کانٹے تو خیر کانٹے ہیں ان سے گلہ ہے کیا پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا
ساغر وہ کہہ رہے تھے کہ پی لیجیئے حضور ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا ساغر صدیقی
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہو گا سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا ��لامہ اقبال
دن کٹا، جس طرح کٹا لیکن رات کٹتی نظر نہیں آتی سید محمد اثر
تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائے گا میر تقی میر
میرے سنگ مزار پر فرہاد رکھ کے تیشہ کہے ہے، یا استاد میر تقی میر
ٹوٹا کعبہ کون سی جائے غم ہے شیخ کچھ قصر دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا قائم چاند پوری
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں ساغر صدیقی
ہشیار یار جانی، یہ دشت ہے ٹھگوں کا یہاں ٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا نظیر اکبر آبادی
پڑے بھٹکتے ہیں لاکھوں دانا، کروڑوں پنڈت، ہزاروں سیانے جو خوب دیکھا تو یار آخر، خدا کی باتیں خدا ہی جانے نظیر اکبر آبادی
دنیا میں ہوں، دنیا کا طلب گار نہیں ہوں بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں اکبر الہٰ آبادی
کہوں کس سے قصہ درد و غم، کوئی ہم نشیں ہے نہ یار ہے جو انیس ہے تری یاد ہے، جو شفیق ہے دلِ زار ہے
مجھے رحم آتا ہے دیکھ کر، ترا حال اکبرِ نوحہ گر تجھے وہ بھی چاہے خدا کرے کہ تو جس کا عاشق زار ہے اکبر الہٰ آبادی
نئی تہذیب سے ساقی نے ایسی گرمجوشی کی کہ آخر مسلموں میں روح پھونکی بادہ نوشی کی اکبر الہٰ آبادی
مے پئیں کیا کہ کچھ فضا ہی نہیں ساقیا باغ میں گھٹا ہی نہیں امیر مینائی
اُن کے آتے ہی میں نے دل کا قصہ چھیڑ دیا الفت کے آداب مجھے آتے آتے آئیں گے ماہر القادری
کہہ تو دیا، الفت میں ہم جان کے دھوکہ کھائیں گے حضرت ناصح! خیر تو ہے، آپ مجھے سمجھائیں گے؟ ماہر القادری
اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالہء دل فگار بن کر مگر یقیں ہے کہ لوٹ آئیں گے نغمہء نو بہار بن کر
یہ کیا قیامت ہے باغبانوں کے جن کی خاطر بہار آئی وہی شگوفے کھٹک رہے ہیں تمھاری آنکھوں میں خار بن کر ساغر صدیقی
آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں ساغر صدیقی
محشر کا خیر کچھ بھی نتیجہ ہو اے عدم کچھ گفتگو تو کھل کے کریں گے خدا کے ساتھ عبدالحمید عدم
عجیب لوگ ہیں کیا خوب منصفی کی ہے ہمارے قتل کو کہتے ہیں، خودکشی کی ہے حفیظ میرٹھی
صد سالہ دور چرخ تھا ساغر کا ایک دور نکلے جو مے کدے سے تو دنیا بدل گئی گستاخ رام پوری
چل پرے ہٹ مجھے نہ دکھلا منہ اے شبِ ہجر تیرا کالا منہ
بات پوری بھی منہ سے نکلی نہیں آپ نے گالیوں پہ کھولا منہ مومن خان مومن
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے احمد فراز
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے افتخار عارف
اے خدا جو کہیں نہیں موجود کیا لکھا ہے ہماری قسمت میں جون ایلیا
بس یہی قیمتی شے تھی سو ضروری سمجھا جلتے گھر سے تیری تصویر اٹھا کر لے آئے ریحان اعظمی
بشکریہ ایکسپریس نیوز
52 notes
·
View notes
Text
یہ کیا! عتیقہ اوڈھو کی اینٹی نارکوٹکس فورس میں شمولیت
یہ کیا! عتیقہ اوڈھو کی اینٹی نارکوٹکس فورس میں شمولیت
پاکستان شوبز انڈسٹری کی سینئر اداکارہ عتیقہ اوڈھو نے اینٹی نارکوٹکس فورس کا یونیفارم زیب تن کئے تصویر شیئر کر دی۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر عتیقہ اوڈھو نے اپنی اینٹی نارکوٹکس (اے این ایف) کا یونیفارم پہنے تصویر شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ نیا گیٹ اپ انہوں نے اپنی نئی آنے والی فلم ’کہے دل جدھر‘ کے لیے اپنایا ہے۔
View this post on Instagram
Kahay Dil Jidar #KDJ…
View On WordPress
0 notes
Text
ابھی خاموش ہیں شعلوں کا اندازہ نہیں ہوتا
مری بستی میں ہنگاموں کا اندازہ نہیں ہوتا
جدھر محسوس ہو خوشبو اسی جانب بڑھے جاؤ
اندھیری رات میں رستوں کا اندازہ نہیں ہوتا
جو صدیوں کی کسک لے کر گزر جاتے ہیں دنیا سے
مورخ کو بھی ان لمحوں کا اندازہ نہیں ہوتا
یہ رہبر ہیں کہ رہزن ہیں مسیحا ہیں کہ قاتل ہیں
ہمیں اپنے نمائندوں کا اندازہ نہیں ہوتا
نظر ہو لاکھ گہری اور بصیرت آشنا پھر بھی
نقابوں میں کبھی چہروں کا اندازہ نہیں ہوتا
زمیں پر آؤ پھر دیکھو ہماری اہمیت کیا ہے
بلندی سے کبھی ذروں کا اندازہ نہیں ہوتا
وفاؤں کے تسلسل سے بھی اکثر ٹوٹ جاتے ہیں
محبت کے حسیں رشتوں کا اندازہ نہیں ہوتا
اتر جاتے ہیں روح و دل میں کتنی وسعتیں لے کر
غزل کے دل ربا لہجوں کا اندازہ نہیں ہوتا
سلیقے سے سجانا آئینوں کو ورنہ اے رزمیؔ
غلط رخ ہو تو پھر چہروں کا اندازہ نہیں ہوتا
20 notes
·
View notes
Text
جدھر کبھی نہ گئے تھے اُدھر بھی جاتے ہیں
کہ زندگی کیلئے لوگ مر بھی جاتے ہیں
ذرا سی دیر میں دل میں اترنے والے لوگ
ذرا سی دیر میں دل سے اتر بھی جاتے ہیں
3 notes
·
View notes
Text
قفس کی تیلیوں سے لے کے شاخ آشیاں تک ہے
مری دنیا یہاں سے ہے مری دنیا وہاں تک ہے
زمیں سے آسماں تک آسماں سے لا مکاں تک ہے
خدا جانے ہمارے عشق کی دنیا کہاں تک ہے
خدا جانے کہاں سے جلوۂ جاناں کہاں تک ہے
وہیں تک دیکھ سکتا ہے نظر جس کی جہاں تک ہے
کوئی مر کر تو دیکھے امتحاں گاہ محبت میں
کہ زیر خنجر قاتل حیات جاوداں تک ہے
نیاز و ناز کی روداد حسن و عشق کا قصہ
یہ جو کچھ بھی ہے سب ان کی ہماری داستاں تک ہے
قفس میں بھی وہی خواب پریشاں دیکھتا ہوں میں
کہ جیسے بجلیوں کی رو فلک سے آشیاں تک ہے
خیال یار نے تو آتے ہی گم کر دیا مجھ کو
یہی ہے ابتدا تو انتہا اس کی کہاں تک ہے
جوانی اور پھر ان کی جوانی اے معاذ اللہ
مرا دل کیا تہ و بالا نظام دو جہاں تک ہے
ہم اتنا بھی نہ سمجھے عقل کھوئی دل گنوا بیٹھے
کہ حسن و عشق کی دنیا کہاں سے ہے کہاں تک ہے
وہ سر اور غیر کے در پر جھکے توبہ معاذ اللہ
کہ جس سر کی رسائی تیرے سنگ آستاں تک ہے
یہ کس کی لاش بے گور و کفن پامال ہوتی ہے
زمیں جنبش میں ہے برہم نظام آسماں تک ہے
جدھر دیکھو ادھر بکھرے ہیں تنکے آشیانے کے
مری بربادیوں کا سلسلہ یارب کہاں تک ہے
نہ میری سخت جانی پھر نہ ان کی تیغ کا دم خم
میں اس کے امتحاں تک ہوں وہ میرے امتحاں تک ہے
زمیں سے آسماں تک ایک سناٹے کا عالم ہے
نہیں معلوم میرے دل کی ویرانی کہاں تک ہے
ستم گر تجھ سے امید کرم ہوگی جنہیں ہوگی
ہمیں تو دیکھنا یہ تھا کہ تو ظالم کہاں تک ہے
نہیں اہل زمیں پر منحصر ماتم شہیدوں کا
قبائے نیلگوں پہنے فضائے آسماں تک ہے
سنا ہے صوفیوں سے ہم نے اکثر خانقاہوں میں
کہ یہ رنگیں بیانی بیدمؔ رنگیں بیاں تک ہے
- بیدم شاہ وارثی
2 notes
·
View notes
Text
بےنام سا یہ درد ٹھہر کیوں نہیں جاتا
جو بیت گیا ہے وہ گزر کیوں نہیں جاتا
سب کچھ تو ہے کیا ڈھونڈتی رہتی ہے نگاہے
کیا بات ہے میں وقت ��ے گھر کیوں نہیں جاتا
وہ ایک ہی چہرہ تو نہیں سارے جہاں میں
جو دور ہے وہ دل سے اتر کیوں نہیں جاتا
میں اپنی ہی الجھی ہوئی راہوں کا تماشا
جاتے ہیں جدھر سب، میں ادھر کیوں نہیں جاتا
وہ نام جو برسوں سے نہ چہرہ نہ بدن ہے
وہ خواب اگر ہے تو بکھر کیوں نہیں جاتا
Benaam Sa Ye Dard, Thehar Kyon Nahi Jata,
Jo Beet Gaya Hai, Woh Guzar Kyon Nahi Jata,
Sab Kuch To Hai, Kya Dhundti Rahti Hai Nigahe,
Kya Baat Hai Main Waqt Pe Ghar Kyon Nahi Jata,
Woh Ek Hi Chera To, Nahi Sare Jahan Mein,
Jo Dur Hai Woh Dil Se Utar Kyon Nahi Jata,
Main Apni Hi Uljhi Hui Raho Ka Tamasha,
Jate Hain Jidhar Sab, Main Udhar Kyon Nahi Jata,
Woh Naam Jo Barso Se, Na Chehra Na Badan Hai,
Woh Khawaab Agar Hai To Bikhar Kyo Nahi Jata
1 note
·
View note
Text
دو نوجوان محفل میں داخل ہوتے ہی وہاں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں "اے عمر یہ ہے وہ شخص"
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے ہیں " کیا کیا ہے اس شخص نے۔۔۔؟"
"یا امیر المؤمنین ۔ اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے"
عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں " کیا کہہ رہے ہو۔۔۔۔ اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے۔۔۔؟"
عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں " کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے؟"
وہ شخص کہتا ہے "ہاں امیر المؤمنین۔۔۔۔ مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ"
عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں " کس طرح قتل ہوا ہے۔۔۔؟"
وہ شخص کہتا ہے "اے عمر ۔ انکا باپ اپنے اُونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا۔۔۔ میں نے منع کیا۔۔۔ باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔۔۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا "
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں " پھر تو قصاص دینا پڑے گا ۔ موت ہے اسکی سزا۔۔۔۔"
نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت۔۔۔نہ کسی سے مشورے کی حاجت۔۔۔ اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں۔۔۔ نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے۔۔۔ نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے۔۔۔ نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں۔۔۔ معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے۔۔؟ ان سب باتوں سے بھلا عمر رضی اللہ عنہ کو مطلب ہی کیا ۔۔۔ کیونکہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر رضی اللہ عنہ پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ کو روک سکتا ہے۔۔۔ حتٰی کہ سامنے عمر کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو ۔۔۔ قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔۔۔۔۔
وہ شخص کہتا ہے "اے امیر المؤمنین ۔۔۔ اُس کے نام پر جس کے حُکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں۔۔۔ مجھے صحرا میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجئے تاکہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔۔۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے ۔۔۔ میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا"
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں "کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحرا میں جا کر واپس بھی آ جائے گا۔۔۔؟"
مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔۔۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اسکا نام تک بھی جانتا ہو۔۔۔ اسکے قبیلے۔۔۔ خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے۔۔۔ کون ضمانت دے اسکی۔۔؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے۔۔؟ ہر گز نہیں۔۔۔ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔۔۔ اور کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ سے اعتراض کرے یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔۔۔
محفل میں موجود صحابہ پر ایک خاموشی سی چھا گئی۔۔۔ اس صورتحال سے خود عمر رضی اللہ عنہ بھی متأثر ہیں۔۔۔ کیونکہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔۔۔
کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں۔۔۔؟ یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے۔۔۔؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا۔۔۔۔
خود عمر رضی اللہ عنہ بھی اس صورتحال پر سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں۔۔۔۔ سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہوئے فرماتے ہیں "معاف کر دو اس شخص کو۔۔۔۔۔۔"
نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجک کے سنا دیتے ہیں "نہیں امیر المؤمنین ۔۔۔ جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں ۔۔۔؟ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا "
عمر رضی اللہ عنہ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں "اے لوگو ۔۔۔ ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے۔۔۔؟"
ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں "میں اس شخص کی ضمانت دیتا ہوں۔۔۔"
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں "ابوذر۔۔۔ اس نے قتل کیا ہے۔۔۔"
ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں "چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو۔۔۔"
عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں"جانتے ہو اسے۔۔۔؟"
ابوذر رضی اللہ عنہ " نہیں جانتا "
عمر رضی اللہ عنہ " تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو۔۔۔؟"
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں "میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا ۔۔۔ انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا۔۔۔ "
عمر رضی اللہ عنہ "ابوذر۔۔۔ دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تمہاری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا۔۔۔"
ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں "امیر المؤمنین ۔۔۔ پھر اللہ مالک ہے۔۔۔"
عمر رضی اللہ عنہ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے ۔۔۔ کچھ ضروری تیاریوں کیلئے۔۔۔ بیوی بچوں کو الوداع کہنے۔۔۔ اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے اور پھر اس کے ��عد قصاص کی ادائیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے۔۔۔۔
اور پھر تین راتوں کے بعد عمر رضی اللہ عنہ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے۔۔۔ انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا۔۔۔ عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے ۔۔۔ نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے ۔۔۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔۔۔
عمر رضی اللہ عنہ سوال کرتے ہیں " کدھر ہے وہ آدمی۔۔۔؟"
ابوذر رضی اللہ عنہ مختصر جواب دیتے ہیں "مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین۔۔۔!"
ابوذر رضی اللہ عنہ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔۔۔ محفل میں ہُو کا عالم ہے ۔۔۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے۔۔۔؟
یہ سچ ہے کہ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں بستے ہیں۔۔۔ عمر رضی اللہ عنہ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمر رضی اللہ عنہ دیر نہ کریں کاٹ کر ابوذر رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیں ۔۔۔ لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے ۔۔۔۔ اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے ۔۔۔ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا ۔۔۔ نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے ۔۔۔ حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔۔۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے۔۔۔
مغرب سے چند لحظات پہلے وہ شخص آ جاتا ہے ۔۔۔ بے ساختہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے۔۔۔ ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے۔۔۔۔۔
عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں " اے شخص ۔۔۔ اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا۔۔۔ نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا۔۔۔"
وہ شخص بولا " امیر المؤمنین ۔۔۔ اللہ کی قسم بات آپکی نہیں ہے۔۔۔ بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے ۔۔۔ دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں ۔۔۔ اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کر۔۔۔ جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان ۔۔۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں ۔۔۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے۔۔۔۔"
عمر رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کی طرف رخ کر کے پوچھا " ابوذر ۔۔۔ تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی۔۔۔؟"
ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا " اے عمر ۔ مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے۔۔۔"
سید عمر رضی اللہ عنہ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ " کیا کہتے ہو اب۔۔۔؟"
نوجوانوں نے جن کا باپ مرا تھا روتے ہوئے کہا " اے امیر المؤمنین ۔۔۔ ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں ۔۔۔ ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے۔۔۔"
عمر رضی اللہ عنہ اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر نے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرمايا ۔۔۔
" اے نوجوانو۔۔۔۔ تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔۔۔۔"
" اے ابو ذر۔۔۔۔ اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے۔۔۔۔"
" اور اے شخص۔۔۔۔ اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے۔۔۔۔"
" اور اے امیر المؤمنین۔۔۔۔ اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے۔۔
دو نوجوان محفل میں داخل ہوتے ہی وہاں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں "اے عمر یہ ہے وہ شخص"
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے ہیں " کیا کیا ہے اس شخص نے۔۔۔؟"
"یا امیر المؤمنین ۔ اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے"
عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں " کیا کہہ رہے ہو۔۔۔۔ اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے۔۔۔؟"
عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں " کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے؟"
وہ شخص کہتا ہے "ہاں امیر المؤمنین۔۔۔۔ مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ"
عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں " کس طرح قتل ہوا ہے۔۔۔؟"
وہ شخص کہتا ہے "اے عمر ۔ انکا باپ اپنے اُونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا۔۔۔ میں نے منع کیا۔۔۔ باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔۔۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا "
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں " پھر تو قصاص دینا پڑے گا ۔ موت ہے اسکی سزا۔۔۔۔"
نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت۔۔۔نہ کسی سے مشورے کی حاجت۔۔۔ اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں۔۔۔ نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے۔۔۔ نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے۔۔۔ نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں۔۔۔ معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے۔۔؟ ان سب باتوں سے بھلا عمر رضی اللہ عنہ کو مطلب ہی کیا ۔۔۔ کیونکہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر رضی اللہ عنہ پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ کو روک سکتا ہے۔۔۔ حتٰی کہ سامنے عمر کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو ۔۔۔ قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔۔۔۔۔
وہ شخص کہتا ہے "اے امیر المؤمنین ۔۔۔ اُس کے نام پر جس کے حُکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں۔۔۔ مجھے صحرا میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجئے تاکہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔۔۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے ۔۔۔ میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا"
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں "کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحرا میں جا کر واپس بھی آ جائے گا۔۔۔؟"
مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔۔۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اسکا نام تک بھی جانتا ہو۔۔۔ اسکے قبیلے۔۔۔ خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے۔۔۔ کون ضمانت دے اسکی۔۔؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے۔۔؟ ہر گز نہیں۔۔۔ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔۔۔ اور کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ سے اعتراض کرے یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔۔۔
محفل میں موجود صحابہ پر ایک خاموشی سی چھا گئی۔۔۔ اس صورتحال سے خود عمر رضی اللہ عنہ بھی متأثر ہیں۔۔۔ کیونکہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔۔۔
کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں۔۔۔؟ یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے۔۔۔؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا۔۔۔۔
خود عمر رضی اللہ عنہ بھی اس صورتحال پر سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں۔۔۔۔ سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہوئے فرماتے ہیں "معاف کر دو اس شخص کو۔۔۔۔۔۔"
نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجک کے سنا دیتے ہیں "نہیں امیر المؤمنین ۔۔۔ جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں ۔۔۔؟ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا "
عمر رضی اللہ عنہ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں "اے لوگو ۔۔۔ ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے۔۔۔؟"
ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں "میں اس شخص کی ضمانت دیتا ہوں۔۔۔"
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں "ابوذر۔۔۔ اس نے قتل کیا ہے۔۔۔"
ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں "چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو۔۔۔"
عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں"جانتے ہو اسے۔۔۔؟"
ابوذر رضی اللہ عنہ " نہیں جانتا "
عمر رضی اللہ عنہ " تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو۔۔۔؟"
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں "میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا ۔۔۔ انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا۔۔۔ "
عمر رضی اللہ عنہ "ابوذر۔۔۔ دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تمہاری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا۔۔۔"
ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں "امیر المؤمنین ۔۔۔ پھر اللہ مالک ہے۔۔۔"
عمر رضی اللہ عنہ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے ۔۔۔ کچھ ضروری تیاریوں کیلئے۔۔۔ بیوی بچوں کو الوداع کہنے۔۔۔ اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے اور پھر اس کے بعد قصاص کی ادائیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے۔۔۔۔
اور پھر تین راتوں کے بعد عمر رضی اللہ عنہ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے۔۔۔ انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا۔۔۔ عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے ۔۔۔ نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے ۔۔۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔۔۔
عمر رضی اللہ عنہ سوال کرتے ہیں " کدھر ہے وہ آدمی۔۔۔؟"
ابوذر رضی اللہ عنہ مختصر جواب دیتے ہیں "مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین۔۔۔!"
ابوذر رضی اللہ عنہ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔۔۔ محفل میں ہُو کا عالم ہے ۔۔۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے۔۔۔؟
یہ سچ ہے کہ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں بستے ہیں۔۔۔ عمر رضی اللہ عنہ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمر رضی اللہ عنہ دیر نہ کریں کاٹ کر ابوذر رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیں ۔۔۔ لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے ۔۔۔۔ اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے ۔۔۔ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا ۔۔۔ نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے ۔۔۔ حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔۔۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے۔۔۔
مغرب سے چند لحظات پہلے وہ شخص آ جاتا ہے ۔۔۔ بے ساختہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے۔۔۔ ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے۔۔۔۔۔
عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں " اے شخص ۔۔۔ اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا۔۔۔ نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا۔۔۔"
وہ شخص بولا " امیر المؤمنین ۔۔۔ اللہ کی قسم بات آپکی نہیں ہے۔۔۔ بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے ۔۔۔ دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں ۔۔۔ اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کر۔۔۔ جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان ۔۔۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں ۔۔۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے۔۔۔۔"
عمر رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کی طرف رخ کر کے پوچھا " ابوذر ۔۔۔ تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی۔۔۔؟"
ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا " اے عمر ۔ مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے۔۔۔"
سید عمر رضی اللہ عنہ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ " کیا کہتے ہو اب۔۔۔؟"
نوجوانوں نے جن کا باپ مرا تھا روتے ہوئے کہا " اے امیر المؤمنین ۔۔۔ ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں ۔۔۔ ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے۔۔۔"
عمر رضی اللہ عنہ اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر نے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرمايا ۔۔۔
" اے نوجوانو۔۔۔۔ تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔۔۔۔"
" اے ابو ذر۔۔۔۔ اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے۔۔۔۔"
" اور اے شخص۔۔۔۔ اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے۔۔۔۔"
" اور اے امیر المؤمنین۔۔۔۔ اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے۔۔
8 notes
·
View notes