#خبیب
Explore tagged Tumblr posts
urduchronicle · 1 year ago
Text
نیب کو مطلوب ملزم کراچی ایئرپورٹ سے بیرون ملک فرار کی کوشش کرتے ہوئے گرفتار
ایف آئی اے امیگریشن نے کراچی ائیرپورٹ کارروائی کے دوران نیب لاہورکو مطلوب ملزم کی ملک سے فرارہونے کی کوشش ناکام بنادی،اسٹاپ لسٹ میں نام شامل تھا۔ ترجمان ایف آئی اے کے مطابق جناح ٹرمینل ائیرپورٹ تعینات عملے نے بیرون ملک فرارہونے والے ملزم کی ملک سے فرارہونے کی کوشش ناکام بنادی۔ ملزم نیب لاہورکو مطلوب تھا اورفلائٹ نمبرکیوآر611کے ذریعے سعودی عرب فرارہونے کی کوشش کی۔ ترجمان کے مطابق ملزم خبیب قاسم کا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdunewspedia · 3 years ago
Text
لیگی ایم این اے کے بیٹے کی جگہ میٹرک کا پیپر دینے والا نوجوان رنگے ہاتھوں پکڑا گیا - اردو نیوز پیڈیا
لیگی ایم این اے کے بیٹے کی جگہ میٹرک کا پیپر دینے والا نوجوان رنگے ہاتھوں پکڑا گیا – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین گوجرانوالہ: لیگی ایم این اے کے بیٹے کی جگہ میٹرک کا پیپر دینے والا نوجوان رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تاہم ملزم فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ گورنمنٹ ہائی اسکول نمبر 1 کامونکی کے سینٹر نمبر 66 میں ایم این اے چوہدری ذوالفقار علی بھنڈر کے بیٹے فرحان مالک رول نمبر 604748 کا جنرل سائنس کا پیپر تھا، اس کی جگہ نجی اسکول کا  ٹیچر خبیب نامی نوجوان امتحان دے رہا تھا، سپرنٹنڈنٹ نے اسے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years ago
Text
(ن) لیگی ایم این اے بیٹا امتحان میں جعلی امیدوار کو بٹھانے پر پکڑا گیا۔
(ن) لیگی ایم این اے بیٹا امتحان میں جعلی امیدوار کو بٹھانے پر پکڑا گیا۔
ایم این اے کے بیٹے دونوں افراد کے خلاف تھانہ سٹی میں مقدمہ در�� کیا گیا۔
کام کرنے والا: امتحان اپنی جگہ جعلی امیدوار کو بٹھانے والا (ن) لیگی ایم این کا بیٹا پکڑا گیا۔
کام کرنے والے لیگی ایم این ذوالفقار بھنڈر کے اپنے میٹرک کی جگہ پر جعلی امیدوار کو بٹھا دیا گیا تاہم سپرنٹنڈنٹ سینٹر کے دوران جعلی امیدوار خبیب کو رنگے ہاتھوں میں پکڑلیا اور ایم این اے کے بیٹوں کو تھانہ سٹی میں مقدمہ درج کرادیا ہے۔
واضح رہے کہ لیگی ایم این ذوالفقار بھنڈر کے بیٹے فرحان کا میٹرک جنرل سائنس کا پیپر تھا جس کا سنٹرل گورنمنٹ ہائی کام کرنے والا تھا۔
(function(d, s, id) var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = "//connect.facebook.net/en_US/sdk.js#xfbml=1&version=v2.3&appId=770767426360150"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); (document, 'script', 'facebook-jssdk')); (function(d, s, id) var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = "//connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v2.7"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); (document, 'script', 'facebook-jssdk')); Source link
0 notes
informationtv · 4 years ago
Text
عاشق رسول کی لاش کو زمین نے محفوظ کر لیا
عاشق رسول کی لاش کو زمین نے محفوظ کر لیا
روایت ہے کہ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کی شہادت کے چند دن بعد رحمت عالم ﷺ نے صحابہ کرام کو بشارت دی اور فرمایا جو خبیب کی لاش کو سولی سے اتار لائے اس کا مقام بہشت ہے۔ حضرت زبیر بن العوام اور حضرت مقدار بن اسو رضی اللہ عنہ بیک وقت اٹھے اور کہا یا رسول اللہ یہ کام ہم کریں گے چنانچہ دونوں مکہ پہنچے دونوں رات کو خبیب کے مقتل گئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ چالیس آدمی خبیب رضی اللہ عنہ کی لاش پر پہرہ…
View On WordPress
0 notes
natedrink · 4 years ago
Photo
Tumblr media
Leon Edwards vs. Khamzat Chimaev isn’t happening on Dec. 19, per sources. Unfortunately, Edwards recently tested positive for COVID. UFC is hoping to re-book the fight in early 2021, sources say. #motivation #کانر #boxing #muaythai #mcgregor #strong #parkour #karete #beijing #bodybuilding #training #khabibnurmagomedov #brucelee #fighter #kickboxing #crossfit #workout #مبارزه #یو #kickboksing #judo #actorslife #conormcgregor #blackandwhite #jeetkunedo #bjj #فایت #mma #تکواندو #خبیب TWITTER- https://twitter.com/Natedrink Instagram- https://Instagram.com/natedrink1 YouTube- https://www.youtube.com/c/Natedrink1ADOW DONATE- CASH APP $NathanDrinkard https://www.instagram.com/p/CIRJhZVDPw2/?igshid=404dxhhrspr2
0 notes
nowpakistan · 5 years ago
Text
یو ایف سی میں روسی فائٹر نے امریکی باکسرکو ہرادیا
یو ایف سی میں روسی فائٹر نے امریکی باکسرکو ہرادیا
الٹیمیٹ فائٹنگ چیمپیئن شپ میں روسی فائیٹر خبیب نے امریکا کے ڈسٹن کو شکست دے دی۔ خبیب نے کیرئیر میں مسلسل 28ویں فتح حاصل کی۔ جیت پر روسی فائیٹر سجدہ ریز ہوگیا۔
بجلی جیسی تیزی، چیتے جیسی پھرتی، روسی فائیٹر کی ایک اور بڑی کامیابی۔ الٹی میٹ فائٹنگ چیمپئین شپ کےکنگ خبیب عبدالمنان نے ایک بار پھر دھاک بٹھادی۔ امریکا کے ڈسٹن پورائرکودھول چٹادی۔
ابوظہبی میں ہونےوالی لائٹ ویٹ کیٹگری کی ٹائیٹل فائٹ…
View On WordPress
0 notes
urdunewspedia · 3 years ago
Text
(ن) لیگی ایم این اے کا بیٹا امتحان میں جعلی امیدوار کو بٹھانے پر پکڑا گیا - اردو نیوز پیڈیا
(ن) لیگی ایم این اے کا بیٹا امتحان میں جعلی امیدوار کو بٹھانے پر پکڑا گیا – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین کامونکی: امتحان میں اپنی جگہ جعلی امیدوار کو بٹھانے والا (ن) لیگی ایم این اے کا بیٹا پکڑا گیا۔ کامونکی میں لیگی ایم این اے ذوالفقار بھنڈر کے بیٹے نے میٹرک کے امتحان میں اپنی جگہ جعلی امیدوار کو بٹھا دیا تاہم پیپر کے دوران سپرانٹنڈنٹ سنٹر نے جعلی امیدوار خبیب کو رنگے ہاتھوں پکڑلیا اور ایم این اے کے بیٹے سمیت دونوں افراد کے خلاف تھانہ سٹی میں مقدمہ درج کرادیا ہے۔ واضح رہے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years ago
Text
خبیب نورماگومیدوف کے کزن عثمان اب ایم ایم اے میں 13-0 ہیں۔
خبیب نورماگومیدوف کے کزن عثمان اب ایم ایم اے میں 13-0 ہیں۔
Tumblr media Tumblr media
خبیب نورماگومیدوف (بائیں) اور عثمان نورماگومیدوف – انسٹاگرام/@usman_nurmagomedov/فائل
سابق یو ایف سی چیمپئن خبیب نورماگومیدوف کے چچا زاد عثمان نورماگومیدوف ، مینی مورو کے خلاف بیلاتور میں فوری راؤنڈ جیتنے کے بعد اب پیشہ ورانہ طور پر 13-0 پر ہیں۔
عثمان نے پہلے راؤنڈ میں جسم کے گھٹنے کے ساتھ لڑائی جلدی اور متاثر کن طریقے سے ختم کی تھی۔
“جیت کے ساتھ ، نورماگومیڈو ناقابل شکست رہا۔ یہ فتح اپریل میں بیلٹر 255 میں ایک کامیاب پروموشنل ڈیبیو کے بعد ہوئی جب اس نے متفقہ فیصلے کے ذریعے” جادو “مائیک ہیمل کو شکست دی۔ اپنی 13 پیشہ ورانہ فتوحات میں ، 11 آٹھ ناک آؤٹ/ٹی کے اوز کے ساتھ اختتام پذیر ہوئے۔ اور تین عرضیاں ، “کے مطابق۔ ایم ایم اے جنکی۔.
پچھلے سال ، خبیب نے جسٹن گیتھجے کے خلاف جیت کے بعد اپنے لڑائی کیریئر کا اختتام کیا تھا ، جس سے اس کا ریکارڈ 29-0 سے بے عیب ہوگیا تھا۔
ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ، ان کی ایم ایم اے میں واپسی کی افواہیں تھیں ، لیکن سابق چیمپئن نے انہیں مسترد کردیا تھا۔
Source link
0 notes
informationtv · 4 years ago
Text
ریڈیگر نے جرمن میڈیا پر تنقید کرنے کے بعد ، خبیب کی میکرون مخالف پوسٹ کو پسند کرنے پر معذرت کی
ریڈیگر نے جرمن میڈیا پر تنقید کرنے کے بعد ، خبیب کی میکرون مخالف پوسٹ کو پسند کرنے پر معذرت کی
Tumblr media
جرمنی کی قومی ٹیم کے کھلاڑی انتونیو روڈیجر نے خبیب نورماگومیدوف کے انسٹاگرام پر پوسٹ کی تعریف کرنے پر معذرت کرلی جس میں انہوں نے نبی محمد کے خلاف توہین کی حمایت کرنے اور مسلمانوں کے خلاف جاری کارروائیوں پر فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
سابقہ ​​مخلوط مارشل آرٹس اسٹار نورماگومیدوف نے صدر کو عالمی سطح پر ردعمل کے دوران 30 اکتوبر کو اپنے چہرے پر مضبوطی کے ساتھ میکرون کی ایک…
View On WordPress
0 notes
urdunewspost · 4 years ago
Text
یو ایف سی کے چیمپیئن محراب نورماگومیدوف کا کہنا ہے کہ دوبارہ واپسی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے
یو ایف سی کے چیمپیئن محراب نورماگومیدوف کا کہنا ہے کہ دوبارہ واپسی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے
[ad_1]
Tumblr media
ماسکو: ریٹائرڈ مکسڈ مارشل آرٹس (ایم ایم اے) کے جنگجو خبیب نورماگومیدوف نے کہا ہے کہ ان کا لڑائی میں واپس آنے کا کوئی منصوبہ نہیں تھا ، ایک انٹرویو کے دوران آر ٹی اسپورٹ.
خبیب کا یہ بیان یو ایف سی کے صدر ڈانا وائٹ کے صرف ایک دن بعد سامنے آیا ہے جب وہ توقع کرتے ہیں کہ مستقبل میں روسی کچھ عرصہ قبل بدحال ہوں گے اور ممکنہ میچ اپ پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔
خبیب نے اپنے لڑائی کیریئر کا…
View On WordPress
0 notes
humaahmed · 4 years ago
Text
Tumblr media
" میں نے اپنی والدہ سے وعدہ کیا کہ یہ میرا آخری میچ ہے "
اٹھائیس میچ میں ناقابل شکست رہنے والے داغستانی خبیب کا یہ انتیسواں میچ تھا کورونا کے دنوں میں خبیب نے اپنے والد کو کھو دیا تھا خبیب اپنے پہلے میچ میں ہی اپنے بابا کے ساتھ جاتا تھا یہ پہلا موقع تھا جب وہ اکیلا جا رہا تھا اور اسکی ماں یہ وعدہ لے چکی تھی کہ آج کے بعد وہ اسے پھر مکس مارشل آرٹ میں کھیلتا نہیں دیکھنا چاہتی ۔
1995 میں خبیب کو اسکے والد نے ایک ریچ کے ساتھ ٹریننگ دی دی تھی جس کی ویڈیو بہت سے لوگوں نے دیکھی۔خبیب اور محمد علی باکسر میں ایک چیز بہت کامن تھی انہوں نے بڑی بڑی محفلوں میں رب کی کبریائی بیان کی تھی ر میچ کے بعد جو انگلی اپنی طرف کر کے نفی میں سر ہلاتا تھا پھر شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کے کہتا تھا کہ وہ اللہ ہے جو مجھے یہاں جتوا رہا ہے میری کوئی اوقات نہیں اپنی ہر جیت کے بعد جو سجدہ کرتا تھا وہ خبیب تھا۔
دنیا کے پہلے نمبر ون مگریگر کے ساتھ فائنل میچ تھا مگریگر نے پریس کانفرس کے وقت کہا کہ یہ شراب پیو اسنے انکار کیا وہاں اسنے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جملے کہے ساری دنیا جانتی تھی اس میچ کا ہاٹ فیورٹ مگریگر ہے لیکن خبیب نے اسے سانس نہیں لینے دیا ساری دنیا نے وہ فائٹ دیکھی ۔۔۔۔۔۔
خبیب کل شب اپنا آخری میچ انتیسواں میچ جیت کر اپنے کرئیر کو الوداع کہہ چکا ہے بوجھل قدموں سے اپنے باپ کے بغیر آتا اپنی والدہ کے وعدوں کو یاد کر کے وہ تھکا تھکا تھا لیکن اگر وہ ہار جاتا تو ناقابل شکست رہنے والے بات ختم ہو جاتی جب آخری سکینڈ میں اس کی جیت کا اعلان ہوا اس دفعہ اسنے پہلی بار نا اپنے ہاتھ بلند کیے نا ہی لوگوں کی طرف دیکھا بلکہ زمین میں گر کے اپنے بابا کو یاد کر کے اتنا رویا کہ جو اس کا مخالف تھا جو ہار چکا تھا اسنے آکے اسے اٹھایا ۔۔۔۔
آج وہ آخری بار جیت کے جا رہا تھا بلکہ آخری بار کھیل کر اور اس نے یہ جملہ کہا " جب اللہ آپکے ساتھ ہو تو کوئی آپکو کبھی توڑ نہیں سکتا"
واقعی جس کے ساتھ اللہ ہو اسے پھر کس کا ساتھ چاہیے؟؟؟
0 notes
sportsclassic · 4 years ago
Text
ناقابلِ شکست فائٹر خبیب نورماگومیدوف
مکسڈ مارشل آرٹس میں ناقابل شکست رہنے والے روس کے لائٹ ویٹ ورلڈ چیمپئن خبیب نورماگومیدوف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔ خبیب نے اپنی آخری فائٹ میں امریکا کے جسٹن گیتھجے کو مات دی، وہ 12 سال ناقابلِ شکست رہے، ان کے حریفوں کو ایک کے بعد ایک ان کے آگے ہار ماننا پڑی۔ ابوظہبی میں ہونے والی آخری لڑائی میں بھی خبیب نے اپنے حریف امریکا کے جسٹن گیتھجے کو دوسرے راؤنڈ میں ہی ��ے بس کر دیا۔ خبیب نے کیریئر میں 29 فائٹس لڑیں اور ہر مقابلہ جیتا، آخری میچ میں بھی ناقابلِ شکست رہنے کے بعد خبیب نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔ روس سے تعلق رکھنے والے خبیب نے 2008ء میں مکسڈ مارشل آرٹس میں ڈیبیو کیا تھا، کیریئر کے آغاز سے ہی شکست خبیب کے پاس بھی نہ پھٹک سکی۔ خبیب کا 2018ء میں میک گریگر سے بھی سامنا ہوا تھا، یہ میچ بھی خبیب نے اپنے نام کیا تھا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
headwo14 · 4 years ago
Photo
Tumblr media
بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے تحریک لبیک جنوبی پنجاب کا اجلاس ڈیرہ غازی خان میں ہوا جس کی صدارت امیر جنوبی پنجاب پیر سرور شاہ صاحب شعیب کامران قندرانی صاحب مفتی خبیب صاحب اور سردار عبدالحی خان لسکانی نے کی اس کے بعد میکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے https://www.instagram.com/p/CGFRHe3Bp3m/?igshid=vve10b1nzv77
0 notes
urdunewspost · 4 years ago
Text
خبیب نورماگومیدوف نے فرانسیسی صدر میکرون کے اسلام مخالف تبصرے کی شدید الفاظ میں مذمت کی
خبیب نورماگومیدوف نے فرانسیسی صدر میکرون کے اسلام مخالف تبصرے کی شدید الفاظ میں مذمت کی
[ad_1]
Tumblr media
مخلوط مارشل آرٹس (ایم ایم اے) کے لڑاکا خبیب نورماگومیدوف 26 نومبر ، 2018 کو ماسکو ، روس میں پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔ – اے ایف پی / فائلیں
حال ہی میں ریٹائرڈ یو ایف سی لڑاکا خبیب نورماگومیدوف نے فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے حالیہ اسلامو فوبک تبصروں پر تنقید کی ہے جس نے مسلم دنیا میں غم و غصے کو جنم دیا ہے۔
ایم ایم اے اسٹار نے انسٹاگرام پر جاتے ہوئے ایک تصویر شیئر کی جس میں فرانسیسی صدر…
View On WordPress
0 notes
gcn-news · 5 years ago
Text
شمشیر بے نیام، قسط نمبر 8
Tumblr media
اس مؤرخ کے مطابق ،مدینہ میں اس افواہ کو سچ مانا گیا اور مسلمانوں کے چہروں پر اس کے اثرات بھی دیکھے گئے۔جب رسولِ کریمﷺ تک یہ افواہ پہنچی اور یہ اطلاع بھی کہ ��عض مسلمانوں پر خوف و ہراس کے اثرات دیکھے گئے ہیں تو رسولِ کریمﷺ نے باہر آ کر لوگوں کو جمع کیا اور اعلان کیا:’’کیا اﷲ کے نام لیوا صرف یہ سن کر ڈر گئے ہیں کہ قریش کی تعداد زیادہ ہو گی؟کیا اﷲسے ڈرنے والے آج بتوں کے پجاریوں سے ڈرگئے ہیں ؟اگر تم قریش سے اس قدر ڈر گئے ہو کہ ان کی للکار پر تم منہ موڑ گئے ہو تو مجھے قسم ہے خدائے ذوالجلال کی !جس نے مجھے رسالت کی ذمہ داری سونپی ہے۔ میں بدر کے میدان میں اکیلا جاؤں گا۔‘‘رسولِ خداﷺ کچھ اور بھی کہنا چاہتے تھے لیکن رسالتِ مآبﷺ کے شیدائیوں نے نعروں سے آسمان کو ہلا ڈالا۔یہ سراغ نہ مل سکا کہ افواہ کس نے اڑائی تھی لیکن رسول اﷲ ﷺ کی پکار پر قریش کی پھیلائی ہوئی افواہ کے اثرات زائل ہو گئے اور مسلمان جنگی تیاریوں میں مصروف ہو گئے۔ دن تھوڑے سے رہ گئے تھے۔ کوچ کے وقت مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار تھی۔ ان میں صرف پچاس گھوڑ سوار تھے۔جن یہودیوں کو افواہ پھیلانے کیلئے مدینہ بھیجا گیا تھا انہوں نے واپس آ کر بتایا کہ’’ افواہ نے پہلے پورا کام کیا تھا لیکن ایک روز محمد)ﷺ( نے مسلمانوں کو اکھٹا کرکے چند ہی الفاظ کہے تو مسلمان بدر کو کوچ کیلئے تیار ہو گئے۔ان کی تعداد مدینہ میں ہماری موجودگی تک ڈیڑھ ہزار تک پہنچ گئی تھی ۔ہمارا خیال ہے کہ تعداد اس سے کم یا زیادہ نہیں ہو گی۔‘‘آج مدینہ کو جاتے ہوئے اس واقعہ کی یاد نے خالد کو اس لیے شرمسار کر دیا تھا کہ وہ اس وقت محسوس کرنے لگا تھا کہ ابو سفیان کسی نہ کسی وجہ سے مسلمانوں کے سامنے جانے سے ہچکچا رہا ہے۔ خالد کو جب مسلمانوں کی تعداد کا پتا چلا تو وہ بھڑکا بپھرا ہوا ابو سفیان کے پاس گیا ۔’’ابو سفیان !‘‘خالد نے اسے کہا۔’’ سردار کی اطاعت ہمارا فرض ہے ۔میں اہلِ قریش میں سردار کی حکم عدولی کی روایت قائم نہیں کر نا چاہتا لیکن مجھے قریش کی عظمت کا بھی خیال ہے۔آپ اپنے رویے کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ قبیلہ قریش کی عظمت کا احساس مجھ میں اتنا زیادہ ہو جائے کہ میں آپ کے حکم اور رویہ کی طرف توجہ ہی نہ دوں۔ ‘‘’’کیا تم نے سنا نہیں تھا کہ میں نے یہودیوں کو مدینہ کیوں بھیجا تھا۔‘‘ ابو سفیان نے پوچھا۔’’ میں مسلمانوں کو ڈرانا چاہتا تھا۔‘ ’ابو سفیان!‘‘ خالد نے اس کی بات پوری ہونے سے پہلے کہا۔’’ لڑنے والے ڈرا نہیں کرتے۔ کیا آپ نے مسلمانوں کو قلیل تعداد میں لڑتے ہوئے نہیں دیکھا؟ کیا آپ نے خبیب اور زید کو اہلِ قریش کی برچھیوں کے سامنے کھڑے ہو کر نعرے لگاتے نہیں سناتھا؟ میں آپ سے صرف یہ کہنے آیا ہوں کہ اپنی سرداری کا احترام کریں اور بدر کوچ کی تیاری کریں۔‘‘ دوسرے ہی دن مکہ میں یہ خبر پہنچی کہ مسلمان مدینہ سے بدر کی طرف کوچ کر گئے ہیں ۔اب ابو سفیان کے کیلئے اس کے سوا اورکوئی راستہ نہیں رہ گیا تھا کہ وہ کوچ کاحکم دے ۔قریش کی جوتعداد بدر کو کوچ کیلئے تیار ہوئی وہ دو ہزار تھی اور ایک سو گھڑ سوار اس کے علاوہ تھے۔قیادت ابو سفیان کی تھی اور اس کے ماتحت خالد ،عکرمہ اور صفوان نائب سالار تھے۔ حسبِ معمول ابو سفیان کی بیوی ہند اور اس کی چند ایک کنیزیں اور گانے بجانے والی عورتیں بھی ساتھ تھیں۔مسلمان رسولِ اکرمﷺ کی قیادت میں ۴ اپریل ۶۲۶ء بمطابق یکم ذ ی القعد ۴ ہجری کے روز بدر کے میدان میں پہنچ گئے۔ قریش ابھی عسفان کے مقام تک پہنچے تھے ۔انہوں نے وہیں رات بھر کیلئے پڑاؤ کیا ۔علی الصبح ان کی روانگی تھی لیکن صبح طلوع ہوتے ہی ابو سفیان نے اپنے لشکر کو کوچ کا حکم دینے کے بجائے اکھٹا کیا اور لشکر سے یوں مخاطب ہوا :’’قریش کے بہادرو! مسلمان تمہارے نام سے ڈرتے ہیں۔ اب ان کے ساتھ ہماری جنگ فیصلہ کن ہو گی۔ ان مٹھی بھر مسلمانوں کا ہم نام و نشان مٹا دیں گے۔ نہ محمد اس دنیا میں رہے گا نہ کوئی اس کانام لینے والا۔ لیکن ہم ایسے حالات میں لڑنے جا رہے ہیں جو ہمارے خلاف جا سکتے ہیں اور ہماری شکست کا باعث بن سکتے ہیں ۔تم دیکھ رہے ہو کہ ہم اپنے ساتھ پورا اناج نہیں لا سکے ۔مزید اناج ملنے کی امید بھی نہیں کیونکہ خشک سالی نے قحط کی صورت پیدا کردی ہے پھر اس گرمی کو دیکھو۔ میں نہیں چاہتا کہ میں اپنے بہادروں کو بھوکا اور پیاسا مروا دوں۔میں فیصلہ کن جنگ کیلئے موزوں حالات کا انتظار کروں گا۔ہم آگے نہیں جائیں گے۔ مکہ کو کوچ کرو۔خالد کو یاد آ رہا تھا کہ قریش کے لشکر نے دو طرح کے نعرے بلند کیے۔ ایک ان کے نعرے تھے جو انہی حالات میں مسلمانوں کے خلاف لڑنے کا عزم کیے ہوئے تھے۔ دوسرے نعرے ابو سفیان کے فیصلے کی تائید میں تھے لیکن حکم سب کو ماننا تھا۔ خالد، عکرمہ اورصفوان نے ابو سفیان کا یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ لیکن ابو سفیان پر ان کے احتجاج کا کچھ اثر نہ ہوا۔ ان تینوں نائب سالاروں نے یہ جائزہ بھی لیا کہ کتنے آدمی انکے ساتھ رہتے ہیں۔ یہ جائزہ ان کے خلاف ثابت ہوا ۔لشکر کی اکثریت ابو سفیان کے حکم پر مکہ کی طرف کوچ کر گئی۔ خالد اور اس کے دوسرے ساتھیوں کو مجبوراً لشکر کے پیچھے پیچھے آنا پڑا۔خالد کو وہ لمحہ یاد آ رہاتھا جب وہ اہلِ قریش کے لشکر کے پیچھے پیچھے عکرمہ اور صفوان کے ساتھ مکہ کو چلا جا رہا تھا۔ا س کا سر جھکا ہوا تھا ۔یہ تینوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ بھی نہیں رہے تھے جیسے ایک دوسرے سے شرمسار ہوں ۔خالد کو بار بار یہ خیال آتا تھا کہ لڑائی میں اس کی ایک ٹانگ کٹ جاتی۔ بازو کٹ جاتے ۔اس کی دونوں آنکھیں ضائع ہوجاتیں تو اسے یہ دکھ نہ ہوتا جو بغیر لڑے واپس جانے سے ہو رہا تھا۔اس وقت وہ اس طرح محسوس کر رہا تھا جیسے اس کی ذات مٹ چکی ہو اور گھوڑے پر اس کی لاش مکہ کو واپس جا رہی ہو۔نبی کریمﷺ کا قتل اس کا عزم اور عہد تھا جو وہ پورا کیے بغیر واپس آ رہا تھا۔ یہ عزم بچھو بن کر اسے ڈس رہا تھا۔ اسے بہت کچھ یاد آ رہا تھا۔ یادوں کا ایک ریلاتھا جو ختم نہیں ہو رہا تھا۔ اسے یہودیوں کے تینوں قبیلے بنو نضیر، بنو قریظہ اور بنو قینقاع یادآئے ۔انہوں نے جب دیکھا کہ قریش مسلمانوں کے خلاف لڑنے سے منہ موڑ گئے ہیں تو وہ سرگرم ہو گئے۔ یہودیوں نے مسلمانوں کے خلاف زمین دوز کارروائیاں شروع کیں ۔مکہ گئے اور قریش کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا۔ مگر قریش کا سردار ابو سفیان ٹس سے مس نہ ہوا۔ خالد کو معلوم نہ ہو سکا کہ ابو سفیان کے دل میں کیا ہے اور وہ مسلمانوں سے لڑنے سے کیوں گھبرا تا ہے۔ اسی سال کے موسم ِ سرما کے اوائل میں خیبر کے چند ایک سرکردہ یہودی مکہ گئے۔ ان کا سردار حیّی بن اخطب تھا ۔یہ شخص یہودیوں کے قبیلے بنو نضیر کا سردار بھی تھا ۔یہودیوں کے پاس زروجواہرات کے خزانے تھے۔ وہ چند ایک یہودی ابو سفیان اور قریش کے دیگر سرداروں کیلئے بیش قیمت تحفے لے کر گئے ۔ان کے ساتھ حسین و جمیل لڑکیوں کا طائفہ بھی تھا۔ مکہ میں یہ یہودی ابو سفیان سے ملے۔ اسے تحفے پیش کیے اور رات کو اپنے طائفہ کا رقص بھی دکھایا ۔اس کے بعد حیّی بن اخطب نے ابو سفیان سے خالد ،عکرمہ اور صفوان کی موجوگی میں کہا کہ’’ انہوں نے مسلمانوں کو ختم نہ کیا اور ان کے بڑھتے ہوئے قدم نہ روکے تو وہ یمامہ تک پہنچ جائیں گے ۔اگر وہ اس میں کامیاب ہو گئے تو قریش کیلئے وہ تجارتی راستہ ہمیشہ کیلئے بند ہو جائے گا۔جو بحرین اور عراق کی طرف جاتا ہے ۔‘‘قریش کیلئے یہ راستہ شہ رگ کی حیثیت رکھتا تھا ۔’’اگر آپ ہمارا ساتھ دیں۔‘‘ حیّی بن اخطب نے کہا۔’’ تو ہم مسلمانوں کے خلاف خفیہ کارروائیاں شروع کر دیں گے۔‘‘ ’’ہم مسلمانوں سے دگنے تھے تو بھی انہیں شکست نہ دے سکے۔‘‘ ابو سفیان نے کہا۔’’ ان سے تین گنا تعداد میں ان سے لڑے تو بھی انہیں شکست نہ دے سکے اگر چند اور قبیلے ہمارے ساتھ مل جائیں تو ہم مسلمانوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کر سکتے ہیں۔‘‘ ’’ہم نے یہ انتظام پہلے ہی کر دیاہے ۔‘‘حیّی بن اخطب نے کہا ۔’’قبیلہ غطفان اور بنو اسد آپ کے ساتھ ہوں گے۔ چند اور قبیلے ہماری کوششوں سے آپ کے ساتھ آ جائیں گے۔‘‘ خالد کو کیا کچھ یاد نہ آ رہا تھا تین چار سال پہلے کے واقعات ،اسے ایک روز پہلے کی طرح یاد تھے۔ اسے ابو سفیان کا گھبرایا گھبرایا چہرہ اچھی طرح یاد تھا۔ خالد جانتا تھاکہ یہودی ا ہلِ قریش کو مسلمانوں کے خلاف صرف اس لیے بھڑکا رہے ہیں کہ یہودیوں کا اپنا مذہب اسلام کے مقابلے میں خطرے میں آ گیا تھا ۔لیکن انہوں نے ابو سفیان کو ایسی تصویر دکھائی تھی جس میں اسے مسلمانوں کے ہاتھوں تباہی نظر آ رہی تھی۔دوسری طرف خالد، عکرمہ اور صفوان بن امیہ نے ابو سفیان کو سر اٹھا نے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔’’ ہم آپ کو اپنا سردار تسلیم کرتے ہیں ۔لیکن آپ یہ تسلیم کریں کہ آپ بزدل ہیں۔‘‘ ’اگر مسلمان موسم کی خرابی اور قحط میں لڑنے کیلئے آ گئے تھے تو ہم بھی لڑ سکتے تھے۔‘‘ ’’آ پ نے جھوٹ بو ل کر ہمیں دھوکا دیا ہے۔‘‘ ’’ابو سفیان بزدل ہے۔ ابو سفیان نے پورے قبیلے کو بزدل بنا دیا ہے۔ اب محمد )ﷺ(کے چیلے ہمارے سر پر کودیں گے۔‘‘ اور ایسی بہت سی طنز اور غصے میں بھری ہوئی آوازیں مکہ کے گلی کوچوں میں گشت کرتی رہتی تھیں ۔ان آوازوں کے پیچھے یہودیوں کا دماغ بھی کام کر رہا تھا لیکن اہلِ قریش کی غیرت اور ان کا جذبہ انتقام انہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتا تھا۔ ابو سفیان اس حال تک پہنچ گیا کہ اس نے باہر نکلنا ہی چھوڑ دیا ۔خالد کو وہ دن یاد آیا جب اسے ابوسفیان نے اپنے گھر بلایا تھا۔ خالدکے دل میں ابو سفیان کا وہ احترام نہیں رہ گیا تھا جو کبھی ہوا کرتا تھا ۔وہ بادل نخواستہ صرف اس لیے چلا گیا کہ ابی سفیان اس کے قبیلے کا سردار ہے۔ وہ ابو سفیان کے گھر گیا تو وہاں عکرمہ اور صفوان بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ’’خالد!‘‘ ابوسفیان نے کہا ۔’’میں نے مدینہ پر حملہ کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘‘ خالد کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس نے غلط سنا ہو۔ اس نے عکرمہ اور صفوان کی طرف دیکھا ۔ان دونوں کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ آ گئی۔ ’’ہاں خالد!‘‘ ابو سفیان نے کہا۔’’جس قدر جلدی ہو سکے لوگوں کو مدینہ پر حملہ کیلئے تیار کر لو۔‘‘ یہودیوں نے جن قبائل کو قریش کا ساتھ دینے کیلئے تیار کیا تھا ۔ان سب کی طرف پیغام بھیج دیئے گئے ۔یہ فروری627 ء کے آغاز کے دن تھے ۔مختلف قبائل کے لڑاکا دستے مکہ میں جمع ہونے لگے۔ ان قبائل میں سب سے زیادہ فوج غطفان کی تھی ۔اس کی تعداد تین ہزار تھی۔ مُنےّہ اس کا سالار تھا ۔سات سو آدمی بنو سلیم نے بھیجے۔ بنو اسد نے بھی خاصی فوج بھیجی جس کا سالار طلیحہ بن خویلد تھا۔)اس کی تعداد تاریخ میں نہیں ملتی (قریش کی اپنے فوج کی تعداد چار ہزار پیادہ اور تین سو گھڑ سوار اور ڈیڑھ ہزار شتر سوار تھے۔اس پورے لشکر کی تعداد جو مدینہ پر فوج کشی کیلئے جا رہی تھی کل دس ہزار تھی۔اس کی کمان ابو سفیان کے ہاتھ میں تھی۔ابو سفیان نے اس متحدہ فوج کو جمیعت القبائل کہا تھا۔ ان میں سے کچھ قبائل مکہ میں نہیں آئے تھے۔ انہوں نے اطلاع دی تھی کہ جب لشکر مکہ سے روانہ ہو گا تو وہ اپنی اپنی بستی سے کوچ کر جائیں گے اور راستہ میں لشکر سے مل جائیں گے۔ خالد کو آج وہ وقت یاد آ رہا تھا جب اس نے مکہ سے کوچ کیا تھا ۔لشکر کا تیسرا حصہ ان کی کمان میں تھا۔ اس نے ایک ٹیکری پر گھوڑا چڑھا کر وہاں سے اس تمام لشکر کو دیکھا تھا۔ اسے لشکر کے دونوں سرے نظر نہیں آ رہے تھے۔ دف اور نفریاں اور شہنائیاں اور لشکر کی مترنم آواز جو ایک ہی آواز لگتی تھی۔ خالد کے خون کو گرما رہی تھی۔ اس نے گردن تان کر اپنے آپ سے کہا تھا کہ ’’مسلمان پس کے رہ جائیں گے ۔اسلام کے ذرے عرب کی ریت میں مل کر ہمیشہ کیلئے فنا ہو جائیں گے ۔یہ اس کا عزم تھا ۔یہ لشکر 24فروری627ء بمطابق یکم شوال ہجری مدینہ کے قریب پہنچ گیا ۔قریش نے اپنا پڑاؤ اس جگہ ڈالا جہاں احد کی لڑائی کیلئے خیمہ زن ہوئے تھے۔ وہاں دوند یاں آکر ملتی تھیں۔ دوسرے تمام قبائل احد کی پہاڑی کے مشرق کی طرف خیمہ زن ہوئے۔قریش نے یہ معلوم کر نے کیلئے کہ مدینہ کے لوگوں کو قریش کی لشکر کی آمد کی اطلاع ملی ہے یا نہیں ۔دو جاسوس تاجروں کے بھیس میں مدینہ بھیجے ۔ابو سفیان اور ا سکے تمام نائب سالاروں کی خواہش اور کوشش یہ تھی کہ مدینہ والوں پر بے خبری میں حملہ کیا جائے لیکن دوسرے ہی دن قریش کاایک جاسوس جو یہودی تھا مدینہ سے آیا۔ا س نے ابو سفیان کو بتایا کہ مسلمانوں کو حملہ آور لشکر کی آمد کی اطلاع مل چکی ہے۔ مسلمانوں میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔ اس یہودی جاسوس نے بتایا ۔’’سارے شہر پر خوف طاری ہو گیا تھا لیکن محمد)ﷺ( اور اس کے قریبی حلقے کے آدمیوں کی للکار پر مسلمانوں کے دل مضبوط ہو گئے ۔گلی کوچوں میں ایسے اعلان ہونے لگے جن سے تمام شہر کا جذبہ اور حوصلہ عود کر آیا اور مسلمان لڑائی کیلئے ایک جگہ اکھٹے ہونے لگے۔میرے خیال میں ان کی تعداد تین ہزار سے زیادہ نہیں ہو گی۔‘‘ مؤرخ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی تعداد تین ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ انہیں اطلاع مل چکی تھی کہ مدینہ پر حملہ کیلئے جو لشکر آیا ہے اس کی تعداد دس ہزار ہے جس میں سینکڑوں گھڑ سوار اور شتر سوار بھی ہیں ۔اس وقت تک عرب کی سرزمین میں کسی لڑائی میں اتنا بڑا لشکر نہیں دیکھا تھا۔ تعداد کو دیکھا جاتا اور فن ِ حرب و ضرب کے پیمانے سے دونوں اطراف کو ناپا تولا جاتا تو مسلمانوں کو لڑے بغیر ہتھیار ڈال دینے چاہیے تھے یا وہ رات کی تاریکی میں مدینہ سے نکل جاتے اور کسی اور بستی میں اپنا ٹھکانا بناتے ۔کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تین ہزار مسلمان دس ہزار کے لشکر کامقابلہ ذرا سی دیر کیلئے بھی کر سکیں گے۔ دس ہزار لشکر نہایت آسانی سے مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتا تھا لیکن یہ حق اور باطل کی ٹکر تھی ۔یہ اﷲ کے آگے سجدے کر نے والوں اور بت پرستوں کا تصادم تھا۔ خدا کو حق کا ساتھ دینا تھا۔ خدا کو اپنے اس عظیم پیغام کی لاج رکھنی تھی جو اس کی ذاتِ باری نے غارِ حرا میں عرب کے سپوت کو دیا تھا اور اسے رسالت عطا کی تھی۔ــ’’خدا ان کا ساتھ دیتا ہے جن کے دلوں میں حق اور صدق ہوتا ہے۔‘‘ یہ نبی کریمﷺ کی للکار تھی جو مدینہ کے گلی کوچوں میں سنائی دے رہی تھی ۔’’لیکن اے اﷲ کی عبادت کرنے والوں! خدا تمہارا ساتھ اسی صورت میں دے گا جب تم دلوں سے خوف و ہراس نکال کر ایک دوسرے کا ساتھ دو گے اور اپنی جانیں اﷲ کی راہ میں قربان کر دینے کا عزم کرو گے۔جو ہمارے اﷲ کو نہیں مانتا اور جو ہمارے دین کو نہیں مانتا وہ ہمارا دشمن ہے اور اس کا قتل ہم پر فرض ہے۔ یاد رکھو قتل کرنے کیلئے قتل ہونا بھی پڑتا ہے۔ ایمان سے بڑھ کر اور کوئی طاقت نہیں جو تمہیں دشمن سے بچا سکے گی۔ تمہیں دفاع مدینہ کا نہیں اپنے عقیدے کا کرنا ہے۔ اگر اس عزم سے آگے بڑھو گے تو دس ہزار پر غالب آ جاؤ گے ۔خدا سوئے ہوئے یا خوف زدہ انسان کو معجزے نہیں دکھایا کرتا ۔اپنے عقیدے اور اپنی بستی کے دفاع کا معجزہ تمہیں خود دکھانا ہے ۔‘‘ نبی کریمﷺ نے مدینہ والوں کا حوصلہ اس قدر مضبوط کر دیا تھا کہ وہ اس سے بڑے لشکر کے مقابلے کیلئے بھی تیار ہو گئے۔ لیکن رسولِ خداﷺ اس سوچ میں ڈوب گئے تھے کہ اتنے بڑے لشکر سے مدینہ کو بچانا کس طرح ممکن ہو سکتا ہے؟ آپ ﷺ کو یہ تو پورا یقین تھا کہ خدا حق پرستوں کے ساتھ ہے لیکن حق پرستوں کو خود بھی کچھ کر کے دکھانا تھا۔ بچاؤ کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ خدا نے اپنے نام لیواؤں کی مدد کا انتظام کر رکھاتھا ۔وہ ایک انسان تھا جس نے عمر کے آخری حصہ میں اسلام قبول کیا تھا۔ اس انسان کا نام ’’سلمان فارسیؓ ‘‘تھا۔ سلمان فارسیؓ آتش پرستوں کے مذہبی پیشوا تھے۔ لیکن وہ شب و روز حق کی تلاش میں سرکردہ رہتے تھے۔ وہ آگ کو پوجتے تو تھے لیکن آگ کی تپش اور چمک میں اُنہیں وہ راز نظر نہیں آتا تھا جسے وہ پا نے کیلئے بے تاب رہتے تھے ۔عقل و دانش میں ان کی ٹکر کا کوئی نہیں تھا۔ آتش پرست انہیں بھی اسی طرح پوجتے تھے جس طرح آگ کو۔جب سلمان فارسیؓ کی عمر بڑھاپے کی دہلیز پھلانگ کر خاصی آگے نکل گئی تو ان کے کانوں میں عرب کی سرزمین کی ایک انوکھی آواز پڑی۔’’ خدا ایک ہے۔ محمد)ﷺ( اس کا رسول ہے ۔‘‘یہ آواز سلمان فارسیؓ کے کان میں گھر بیٹھے نہیں پڑی تھی۔ ان کی عمر علم کی تلاش میں سفر کرتے گزر رہی تھی۔ وہ تاجروں کے قافلے کے ساتھ شام میں آئے تھے جہاں قریش کے تاجروں کے قافلے اور کچھ مسلمان تاجر بھی جایا کرتے تھے۔ قریش کے تاجروں نے سلمان فارسیؓ کو طنزیہ اور مزاحیہ انداز میں بتایا کہ ان کے قبیلے کے ایک آدمی کا دماغ چل گیا ہے اور اس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ۔ ایک دو مسلمانوں نے عقیدت مندی سے سلمان فارسی کو نبی کریمﷺ کا عقیدہ اور آپﷺ کی تعلیمات سنائیں ۔سلمان فارسیؓ یہ سب سن کر چونک پڑے۔ انہوں نے ان مسلمانوں سے کچھ اور باتیں پوچھیں۔ انہیں جو معلوم تھا وہ انہوں نے بتایا ۔لیکن سلمان فارسیؓ تشنگی محسوس کر رہے تھے۔ وہ اتنا متاثر ضرور ہو گئے تھے کہ انہوں نے نبی کریمﷺ تک پہنچنے کا فیصلہ کر لیا ۔کچھ عرصہ بعد سلمان فارسیؓ رسولِ خدا ﷺ کے مقدس سائے میں جا بیٹھے ۔انہیں وہ راز مل گیا جس کی تلاش میں وہ مارے مارے عمر گزار رہے تھے۔ انہوں نے رسول اﷲﷺ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کر لیا اس وقت تک سلمان فارسیؓ بڑھاپے کے آخری حصہ میں پہنچ چکے تھے۔ اپنے ملک میں سلمان فارسیؓ صرف مذہبی پیشوا ہی نہ تھے وہ جنگی علوم کے ماہر تسلیم کیے جاتے تھے۔ اس دور کے مذہبی پیشوا بھی جنگ و جدل اور سپاہ گری کے ماہر ہوتے تھے۔ علم و ادب کے عالم بھی سپاہی ہوتے تھے لیکن سلمان فارسیؓ کو خدا نے جنگ و جدل کے امور میں غیر معمولی ذہانت دی تھی۔ اپنے ملک میں جب کوئی لڑائی ہوتی تھی یا دشمن حملہ آور ہوتا تھا تو سلمان فارسی ؓکو بادشاہ طلب کر کے صورتِ حال ان کے آگے رکھتا اور مشورے لیتا تھا۔نامور سالار بھی ان کے شاگرد تھے۔ وہ سلمان فارسیؓ اس وقت مدینہ میں رسولِ اکرمﷺ کے صحابہ کرامؓ میں شامل تھے ۔رسولِ اکرمﷺ نے یہ صورتِ حال جو قریش نے آپ ﷺکیلئے پیدا کر دی تھی، سلمان فارسیؓ کے آگے رکھی ۔’’خندق کھودو ،جو سارے شہر کو گھیرے میں لے لے۔‘‘سلمان فارسیؓ نے کہا ۔رسولِ کریمﷺ اور وہاں بیٹھے ہوئے تمام صحابہ کرامؓ اور سالار ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھنے لگے کہ سلمان فارسی ؓنے یہ کیا کہہ دیا ہے؟عرب خندق سے واقف نہیں تھے۔فارس میں جنگوں میں خندق کا رواج تھا۔ سب کو حیران دیکھ کر سلمان فارسیؓ نے بتایا کہ خندق کیا ہوتی ہے اور اس سے دفاعی کام کس طرح سے لیا جاتا ہے ۔رسولِ کریمﷺ نے جو خود تاریخ کے نامور سالار تھے خندق کی ضرورت اور افادیت کو سمجھ لیا لیکن آپﷺ کے دیگر سالار شش و پنج میں پڑ گئے۔ ان کیلئے اتنے بڑے شہر کے اردگرد اتنی چوڑی اور اتنی بڑی خندق کھودنا ناقابلِ فہم نہیں تھا لیکن انہیں رسولِ خداﷺ کا حکم ماننا تھا۔خندق کی لمبائی چوڑائی اور گہرائی کا حساب کر لیا گیا۔ رسولِ خداﷺ نے خندق کھودنے والوں کی تعداد کا حساب کیا۔آپﷺ نے کھدائی کا کام اس تعداد پر تقسیم کیا تو ایک سو دس آدمیوں کے حصہ میں چالیس ہاتھ کھدائی آئی تو رسولِ خداﷺ نے دیکھا کہ لوگ خندق کو ابھی تک نہیں سمجھے اور وہ کھدائی سے ہچکچا رہے ہیں تو آپ ﷺنے کدال اٹھائی اور کھدائی شروع کردی۔یہ دیکھتے ہی مسلمان کدالیں اور بیلچے لے کر نعرے لگاتے ہوئے زمین کا سینہ چیرنے لگے۔ ادھر سے اس وقت کے ایک شاعر حسانؓ بن ثابت آ گئے۔ حسان مشہور نعت گو تھے جنہیں رسولِ اکرمﷺ اکثر اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے۔ اس موقع پر جب مسلمان خندق کھود رہے تھے حسانؓ نے ایسے اشعار ترنم سے سنانےشروع کر دیئے کہ خندق کھودنے والوں پر وجد اور جنون کی کیفیت طاری ہو گئی۔ خندق کی لمبائی چند گز نہیں تھی، اسے میلوں دور تک جانا تھا۔ شیخین کی پہاڑی سے لے کر جبل بن عبید تک یہ خندق کھودنی تھی زمین نرم بھی تھی اور سنگلاخ بھی تھی اوریہ نہایت تیزی سے مکمل کرنی تھی، کیونکہ دشمن سر پر آن بیٹھا تھا۔قریش کا لشکر اس عجیب و غریب طریقۂ دفاع سے بے خبر احد کی پہاڑی کے دوسری طرف خیمہ زن تھا۔اس کے پیچھے یہودیوں کا ہاتھ تھا، چلتے چلتے خالد کواپنی آواز سنائی دینے لگی۔اہلِ قریش تو ٹھنڈے پڑ گئے تھے ۔ان پر مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی تھی۔ گھوڑا اپنی مرضی کی چال چلا جا رہا تھا۔ مدینہ ابھی دور تھا، خالد کو جھینپ سی محسوس ہوئی۔ اس کے قبیلہ قریش نے اسے شرمسار کر دیا تھا۔ اسے یہ بات اچھی نہیں لگی تھی کہ یہودیوں کے اکسانے پر اس کے قبیلے کے سردار اور سالار ابو سفیان نے مدینہ پر حملہ کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن وہ خوش تھا کہ حملہ کا فیصلہ تو ہوا۔اتنا بڑا لشکر جو سر زمینِ عرب پر پہلی بار دیکھا گیاتھا یہودیوں نے ہی جمع کیا تھا لیکن خالد اس پر بھ�� مطمئن تھا کہ کسی نے بھی یہ کام کیا ہو، لشکر تو جمع ہو گیا تھا۔وہ اس روز بہت خوش تھا کہ اتنے بڑے لشکر کو دیکھ کر ہی مسلمان مدینہ سے بھاگ جائیں گے۔اگر مقابلے پر جم بھی گئے تو گھڑی دو گھڑی میں ان کا صفایا ہو جائے گا۔وہ اس وقت تو بہت ہی خوش تھا جب احد کی پہاڑی کی دوسری طرف یہ سارا لشکر خیمہ زن تھا۔ جس صبح حملہ کرنا تھا اس رات اس پر ایسی ہیجانی کیفیت طاری تھی کہ وہ اچھی طرح سوبھی نہ سکا۔ اسے ہر طرف مسلمانو ں کی لاشیں بکھری ہوئی نظر آ رہی تھیں۔دوسری صبح جب قریش اور دوسرے اتحادی قبائل کا لشکر جس کی تعداد دس ہزار تھی،خیمہ گاہ سے نکل کر مدینہ پر حملہ کیلئے شہرکے قریب پہنچا تواچانک رک گیا۔شہر کے سامنے ایک بڑی گہری خندق کھدی ہوئی تھی۔ابو سفیان جو لشکر کے قلب میں تھا لشکر کو رکا ہوا دیکھ کر گھوڑا سر پٹ دوڑاتا آگے گیا۔’’قریش کے جنگجو کیوں رک گئے ہیں ؟‘‘ابوسفیان چلاتا جا رہا تھا۔’’ طوفان کی طرح بڑھو اور محمد)ﷺ( کے مسلمانوں کو کچل ڈالو،شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دو۔‘‘ابو سفیان کا گھوڑا جب آگے گیا تو اس نے گھوڑے کی لگام کھینچ دی ا ور اس کا گھوڑا اسی طرح رک گیا جس طرح اس کے لشکر کے تمام سوار رکے کھڑے تھے۔اس کے سامنے خندق تھی اس پر خاموشی طاری ہو گئی ۔’’خدا کی قسم! یہ ایک نئی چیز ہے جو میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں ۔‘‘ابو سفیان نے غصیلی آواز میں کہا۔’’عرب کے جنگجو کھلے میدان میں لڑا کرتے ہیں ۔خالد بن ولید کو بلاؤ، عکرمہ اور صفوان کو بھی بلاؤ۔‘‘ابو سفیان خندق کے کنارے کنارے گھوڑا دوڑاتا لے گیا۔ اسے کہیں بھی ایسی جگہ نظر نہیں آ رہی تھی جہاں سے اس کا لشکر خندق عبور کر سکتا۔یہ خندق شیخین کی پہاڑی سے لے کر جبلِ بنی عبید کے اوپر سے پیچھے تک چلی گئی تھی ۔مدینہ کے مشرق میں شیخین اور لاوا کی پہاڑیاں تھیں۔ یہ مدینہ کا قدرتی دفاع تھا۔ ابو سفیان دور تک چلا گیا۔اس نے دیکھاکہ خندق کے پار مسلمان اس انداز سے گھوم پھر رہے ہیں جیسے پہرہ دے رہے ہوں۔ اس نے گھوڑا پیچھے موڑا اور اپنے لشکر کی طرف چل پڑا۔تین گھوڑے اس کی طرف سر پٹ دوڑے آ رہے تھے جو اس کے قریب آ کر رک گئے۔ وہ خالد، عکرمہ اور صفوان کے گھوڑے تھے۔’’کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ مسلمان کتنے بزدل ہیں؟‘‘ابو سفیان نے ان تینوں سے کہا ۔’’کیا تم کبھی اپنے راستے میں رکاوٹ کھڑ�� کرکے یا رکاوٹ کھود کر اپنے دشمن سے لڑے ہو؟‘‘خالد پر خاموشی طاری ہو گئی تھی۔آج مدینہ کی طرف جاتے ہوئے سے یاد آ رہا تھاکہ وہ اس خیال سے چپ نہیں ہو گیا تھا کہ ابو سفیان نے مسلمانوں کو بزدل جو کہا تھا وہ ٹھیک کہا تھا۔بلکہ خاموش رہ کر وہ اس سوچ میں کھو گیا تھا کہ یہ خندق بزدلی کی نہیں دانشمندی کی علامت تھی۔جس کسی نے شہر کے دفاع کیلئے یہ طریقہ سوچا تھا وہ کوئی معمولی عقل والا انسان نہیں تھا ۔اس سے پہلے بھی اس نے محسوس کیا تھا کہ مسلمان لڑنے میں اپنے جسم کی طاقت پر ہی بھروسہ نہیں کرتے ۔وہ عقل سے بھی کام لیتے ہیں ۔خالد کا دماغ ایسی ہی جنگی چالیں سوچتا رہتا تھا۔ مسلمانوں نے بدر کے میدان میں نہایت تھوڑی تعداد میں ہوتے ہوئے قریش کو بہت بری شکست دی تھی ۔خالد نے اکیلے بیٹھ کر اس لڑائی کا جائزہ لیا تھا۔ مسلمانوں کی اس فتح میں اسے مسلمانوں کی عسکری دانشمندی نظر آئی تھی۔’’کوئی اور بات بھی تھی خالد!‘‘ اسے خیال آیا ۔’’کوئی اور بات بھی تھی۔‘‘’’کچھ بھی تھا !‘‘خالد نے اپنے آپ کو جواب دیا۔’’ جو کچھ بھی تھا ،میں یہ نہیں مانوں گا کہ یہ محمد)ﷺ(کے جادو کا اثر تھایا اس کے ہاتھ میں کوئی جادو ہے۔ ہماری عقل جس عمل اور جس مظاہرے کو سمجھ نہیں سکتی اسے ہم جادوکہہ دیتے ہیں۔ اہلِ قریش میں ایسا کوئی دانشمند نہیں جو مسلمانوں جیسے جذبے سے اہلِ قریش کو سرشار کر دے اور ایسی جنگی چالیں سوچے جو مسلمانوں کو ایک ہی بار کچل ڈالے۔‘‘’’خدا کی قسم !ہم اس لیے واپس نہیں چلے جائیں گے کہ مسلمانوں نے ہمارے راستے میں خندق کھود رکھی ہے۔‘‘ابو سفیان خالد، عکرمہ اور صفوان سے کہہ رہاتھا۔پھر اس نے ان سے پوچھا ۔’’کیا خندق عبور کرنے کا کوئی طریقہ تم سوچ سکتے ہو؟‘‘خالد کوئی طریقہ سوچنے لگا،لیکن اسے خیال آیا کہ اگر ان کے لشکر نے خندق عبور کر بھی لی تو مسلمانوں کو شکست دینا آسان نہ ہو گا۔ خواہ وہ کتنی ہی تھوڑی تعداد میں کیوں نہ ہوں ۔جن انسانوں نے تھوڑے سے وقت میں زمین اور چٹانوں کا سینہ چیر ڈالا ہے ان انسانوں کو بڑے سے بڑا لشکر بھی ذرامشکل سے ہی شکست دے سکے گا۔’’کیا سوچ رہے ہو ولید کے بیٹے !‘‘ابو سفیان نے خالد کو گہری سوچ میں کھوئے ہوئے دیکھ کر کہا ۔’’ہمارے پاس سوچنے کا بھی وقت نہیں ہے۔ مسلمان یہ نہ سمجھیں کہ ہم بوکھلاگئے ہیں ۔‘‘’’ہمیں تمام تر خندق دیکھ لینا چاہیے ۔‘‘عکرمہ نے کہا۔’’کہیں نہ کہیں کوئی ایسی جگہ ہوگی جہاں سے ہم خندق عبور کر سکیں گے۔‘‘ صفوان نے کہا۔ ’’محاصرہ۔‘‘خالدنے خود اعتمادی سے کہا۔’’مسلمان خندق کھود کر اندر بیٹھ گئے ہیں۔ ہم محاصرہ کرکے باہر بیٹھے رہیں گے ۔وہ بھوک سے تنگ آ کر ایک نہ ایک دن خود ہی خندق کے اس طرف آ جائیں گے جدھر ہم ہیں ۔‘‘’’ہاں!‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’مجھے یہی ایک طریقہ نظر آتا ہے جو مسلمانوں کو باہر آ کر لڑنے پر مجبور کر دے گا۔‘‘ابو سفیان اپنے ان تینوں نائب سالاروں کے ساتھ خندق کے ساتھ ساتھ تمام تر خندق کو دیکھنے کیلئے جبلِ بنی عبید کی طرف چل پڑا۔سلع کی پہاڑی مدینہ اور جبلِ بنی عبید کے درمیان واقع تھی۔ مسلمان اس کے سامنے مورچہ بند تھے۔ ابو سفیان نے مسلمانوں کی تعداد دیکھی تو اس کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آ گئی۔وہ ذرا آگے بڑھا تو ایک گھوڑا جو بڑا تیز دوڑا آ رہا تھا ا سکے پہلو میں آ ن رکا۔ سوار کو ابو سفیان بڑی اچھی طرح پہچانتا تھا ۔وہ ایک یہودی تھا جو تاجروں کے بہروپ میں مدینہ کے اندر گیا تھا۔ وہ مدینہ سے شیخین کے سلسلۂ کوہ میں سے ہوتا ہوا قریش کے لشکر میں پہنچا تھا۔’’اندر سے کوئی ایسی خبر لائے ہو جو ہمارے کام آ سکے؟‘‘ابو سفیان نے پوچھا اور کہا۔’’ ہمارے ساتھ ساتھ چلو اور اتنا اون��ا بولتے چلو کہ میرے یہ تینوں نائب بھی سن سکیں۔‘‘’’مسلمانوں نے شہر کے دفاع اور آبادی کے تحفظ کے جو انتظامات کر رکھے ہیں وہ اس طرح ہیں‘‘یہودی نے کہا۔’’ یہ تو تم کو معلوم ہوگا کہ مدینہ چھوٹے چھوٹے قلعوں اور ایک دوسرے کے ساتھ ملی ہوئی بستیوں کا شہر ہے۔مسلمانوں نے شہر کی عورتوں ،بچوں اور ضعیفوں کو پیچھے کی طرف والے قلعوں میں بھیج دیا ہے۔ خندق پر نظر رکھنے کیلئے مسلمانوں نے گشتی پہرے کا جو انتظا م کیاہے اس میں دو اڑھائی سو افراد شامل ہیں ۔یہ افراد تلواروں کے علاوہ پھینکنے والی برچھیوں اور تیر کمانوں سے مسلح ہیں۔ انہوں نے علاقے تقسیم کر رکھے ہیں جس میں وہ سارا دن اور پوری رات گشت کرتے ہیں ۔جہاں کہیں سے بھی تم خندق عبور کرنے کی کوشش کرو گے وہاں مسلمانوں کی خاصی زیادہ تعداد پہنچ جائے گی اور اس قدر زیادہ تیر اوربرچھیاں برسائے گی کہ تم لوگ پیچھے کو بھاگ آنے کے سوا کچھ نہیں کر سکو گے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ راتوں کو مسلمانوں کے خویش خندق سے باہر آ کر تم پر شب خون مار کر واپس چلے جائیں ۔‘‘’’عبداﷲ بن ابی کیا کر رہا ہے؟‘‘ابو سفیان نے پوچھا۔’’اے قریش کے سردار!‘‘ یہودی جاسوس نے کہا۔’’اتنی عمر گزار کر بھی تم انسانوں کو سمجھنے کے قابل نہیں ہو سکے۔عبداﷲ بن ابی منافق ہے ۔مسلمان اسے جماعتِ منافقین کا سردار کہتے ہیں اور ہم اسے یہودیت کا غدا ر سمجھتے ہیں ۔اس نے مسلمان ہو کر ہم سے غداری کی تھی۔ مسلمانوں میں جاکر اس نے تمہارے حق میں انہیں دھوکے دیئے ۔اگر احد کی جنگ میں تم جیت جاتے تو وہ تمہارے ساتھ ہوتا مگر مسلمانوں کا پلہ بھاری دیکھ کر اس نے تم سے بھی اور یہودیوں سے بھی نظریں پھیر لی ہیں۔تمہیں اس آدمی پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے جو کسی مذہب کا پیروکار اور وفادار نہ ہو ۔‘‘’’اور حیُّ بن اخطب کہاں ہے؟‘‘ابو سفیان نے پوچھا۔ اسے محاصرے کامنظر یاد آنے لگا۔ لشکر کا جو حصہ اس کی زیرِ کمان تھا اسے اس نے بڑے اچھے طریقے سے محاصرے کی ترتیب میں کردیا تھا۔یہ محاصرہ بائیس روز تک رہا۔پہلے دس دنوں میں ہی شہر کے اندر مسلمان خوراک کی کمی محسوس کرنے لگے لیکن اس سے قریش کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا کیونکہ وہ اپنے ساتھ خوراک اوررسد بہت کم لائے تھے ۔ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ انہیں مسلمان اپنے محاصرے میں لمبے عرصہ کیلئے بٹھا لیں گے۔ خوراک کی جتنی کمی شہر والے محسوس کر رہے تھے اس سے کچھ زیادہ کمی قریش کے لشکر میں اپنا اثر دِکھانے لگی تھی۔ سپاہیوں میں نمایاں طور پر بے چینی نظر آنے لگی تھی۔ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم۔ #جاری_ہے Read the full article
0 notes