#واپسی
Explore tagged Tumblr posts
topurdunews · 26 days ago
Text
دورہ جنوبی افریقہ بڑے کھلاڑیوں کی قومی ٹیم میں واپسی کا امکان
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن) دورہ جنوبی افریقہ کیلئے قومی ٹیم کے بڑے کھلاڑیوں کی واپسی کا امکان ہے۔ ہم نیوز کے مطابق  جنوبی افریقہ کیخلاف ون ڈے سیریز کیلئے قومی ٹیم کے کپتان بابراعظم، شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ کی واپسی ہوگی جبکہ فخر زمان کا نام بھی زیر غور ہے۔چیمپئینز ٹرافی کو مدنظر رکھتے ہوئے سلیکشن کمیٹی کی جانب سے فخر زمان کی ٹیم کو ضرورت قرار دیا گیا ہے لہٰذا وائٹ بال فارمیٹ میں جلد ٹیم…
0 notes
pinoytvlivenews · 2 months ago
Text
انگلینڈ کا پاکستان کیخلاف دوسرے ٹیسٹ کیلئے ٹیم کا اعلانسٹوکس کی ٹیم میں واپسی
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)انگلینڈ نے پاکستان کے خلاف دوسرے ٹیسٹ کے لیے پلئینگ الیون کا اعلان کر دیا۔ انجری کے باعث پہلا ٹیسٹ نہ کھیلنے والے انگلش کپتان بین اسٹوکس کی ٹیم میں واپسی ہوئی ہے جبکہ فاسٹ بولر میٹ پوٹس کو بھی پلئینگ الیون میں شامل کیا گیا ہے۔انگلینڈ کے اسکواڈ میں زیک کرالی، بین ڈکٹ، اولی پوپ، جو روٹ، ہیری بروک، بین اسٹوکس، جیمی اسمتھ، برائیڈن کارس، جیک لیچ اور شعیب بشیر شامل…
0 notes
qalbofnight · 1 year ago
Text
Tumblr media Tumblr media
 اِنسان حاصل کی تمنا میں لاحاصل کے پیچھے دوڑتا ہے اُس بچے کی طرح جو تتلیاں پکڑنے کے مشغلے میں گھر سے بہت دور نکل جاتا ہے ، نہ تتلیاں ملتی ہیں نہ واپسی کا راستہ
Insaan haasil ki tamanna mein la- hasil ke pichey daudta hai ,us bacchey ki tarah jo titliyan pakadney ke mashghaley mein ghar se bohot door nikal jaata hai
Na titliyan milti Hain na wapsi ka rasta.,
Bano Qudsia, Hasil Ghat / حاصل گھاٹ
21 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 1 year ago
Text
~ اقبال : ترجمانِ رومی (رحمہ اللہ)
Tumblr media
١• رومی :
ہر کرا جامہ ز عشق چاک شد
اوز حرص و عیب کلی پاک شد
(جو پیرہن عشق کی وجہ سے چاک ہوا وہ لالچ اور دوسرے عیوب سے مکمل پاک ہو گیا)
اقبال:
وہ پرانے چاک کہ عقل جن کو سی نہیں سکتی
عشق سیتا ہے انہیں ، بے تار و سوزنِ رفو
٢• رومی:
پس بدمطلق نباشد در جہاں
بد بہ نسبت باشد ایں راہم بداں
(جہان میں کوئی بذاتہ برا نہیں ہے بلکہ خوب جان لے ! کہ برائی کا وجود کسی نسبت کی وجہ سے ہی ہے)
اقبال:
نہیں کوئی چیز نکمی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کاخانے میں
٣• رومی :
مارا نہ غم دوزخ و نےحرص بہشت است
بردارِ ز رخ پردہ کہ مشتاق لقائیم
(مجھے نہ دوزخ کا غم ہے نہ جنت کی تمنا ،میں تو تیرے چہرے سے پردہ اٹھنے کے شوق ملاقات میں بیٹھا ہوں)
اقبال:
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو !
میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
٤• رومی :
پس تیرا ہر لحظہ مرگ و رجعتے ست
مصطفی ﷺ فرمودہ دنیا ساعتے ست
( تیرا ہر لمحہ موت اور حیات کی طرف واپسی کا نشان ہے ، نبی رحمت مصطفی ﷺ نے فرمایا ہے کہ دنیا کی زندگی حقیقت میں ایک ساعت ہے )
اقبال :
زندگی انسان کی ایک دم کے سوا کچھ نہیں
دم جھونکا ہے ہوا کا رَم کے سوا کچھ نہیں
٥• رومی :
ہر دکانے راست سوداگری دگر
مثنوی دکان فقر ست اے پسر!
( ہر دکان الگ قسم کا سودا بیچتی ہے ، مگر میرے بیٹے ! یہ میری کتاب" مثنوی " صرف فقر کی دکان ہے، تجھے یہاں سے فقیری کا راز ہی ملے گا)
اقبال:
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
20 notes · View notes
0rdinarythoughts · 2 years ago
Text
غلطی ہونے پر معافی قبول کی جا سکتی ہے، لیکن اعتماد کھونے پر نہیں، اس لیے کسی کے اعتماد میں خیانت نہ کریں کیونکہ معاف کرنا آسان ہے، لیکن اعتماد کی واپسی بعض اوقات تقریباً ناممکن ہو جاتی ہے۔
Forgiveness can be accepted when a mistake is made, but not when trust is lost, so don't betray someone's trust because it is easy to forgive, but regaining trust is sometimes almost impossible.
44 notes · View notes
emergingpakistan · 26 days ago
Text
وہ امریکہ اب نہیں رہا
Tumblr media
امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمی��ن صدارتی انتخاب ایک حقیقت کے سامنے بے بس تھا اور وہ ہے اکیسویں صدی میں امریکہ کی مسلسل تنزلی۔ امریکہ نے اپنی قیادت، اعتماد، اخلاقی ساکھ اور اقتصادی برتری کھو دی ہے۔ 20 جنوری 2025 کو صدر ٹرمپ ایک ہی وقت میں امریکی گھمنڈ کے تازہ ترین علمبردار اور امریکی تنزلی کے جنازہ بردار کا حلف اٹھائیں گے۔ 1987 میں پال کینیڈی کی کتاب ’دی رائز اینڈ فال آف دی گریٹ پاورز‘ نے اس وقت تنازعہ کھڑا کیا جب اس نے ’امپیریل اوور سٹریچ‘ یعنی طاقت سے زیادہ غیر معمولی پھیلاؤ کو امریکی زوال کی ممکنہ وجہ قرار دیا۔ اس وقت امریکہ کی سب سے بڑی پریشانی کا باعث جاپان تھا، جو اپنی نمایاں دولت، جدید ٹیکنالوجی اورمعاشی انتظام کے نئے طریقوں کے ساتھ امریکہ کو چیلنج کر رہا تھا۔ 1989 کا اہم سال افغانستان سے سوویت یونین کی واپسی کے ساتھ شروع ہوا۔ فرانسیس فوکویاما نے اپنے مضمون ’دی اینڈ آف ہسٹری‘ میں لبرل جمہوریت اور سرمایہ داری کی تاریخ میں حتمی فتح کا اعلان کیا۔  دیوارِ برلن نومبر 1989 میں گری اور اس کے ساتھ ہی سوویت استبداد کا پردہ بھی گر گیا۔ امریکی فاتحین نے دعویٰ کیا کہ سوویت یونین نے ’اوور سٹریچ‘ کا شکار ہو کر شکست کھائی۔
سوویت یونین کی جانب سے 1990 میں جرمنی کے دوبارہ اتحاد پر اتفاق اور صدام حسین کے کویت پر حملے نے ’نیو ورلڈ آرڈر‘ کو جنم دیا۔ 1991 کا سال عراق میں امریکہ کی فتح سے شروع ہوا اور سوویت یونین کی تحلیل پر ختم ہوا۔ 1991 سے 2001 کا عشرہ امریکہ کے ہائپر پاور ہونے کا دور تھا۔ سوویت یونین کے بکھرنے، چین کی کمزوری اور انٹرنیٹ کے کمرشل استعمال میں آنے سے امریکہ نے ’غیر معمولی عظمت‘ کا لطف اٹھایا جیسا کہ ایڈورڈ گِبن نے اپنی کتاب ’دی ڈیکلائن اینڈ فال آف دی رومن ایمپائر‘ میں بیان کیا۔ امریکہ کے سامنے کوئی حریف نہیں تھا یوں لگتا تھا کہ 20ویں صدی کی طرح 21ویں صدی میں بھی امریکہ ہی مستقبل کی طاقت ہو گا۔ ستمبر 2001 کی ایک صبح، کئی سو سالوں سے موجود امریکی رجائیت اور اعتماد دہشت گردی کے سامنے ڈھیر ہو گئے اور ان کی جگہ تکبر اور تنگ نظر قومیت پرستی نے لے لی، جس کا اظہار امریکی ووٹروں نے ایک مرتبہ پھر ڈونلڈ ٹرمپ کو منتخب کر کے کیا ہے۔ 21ویں صدی کے پہلے عشرے میں دو جنگوں اور دو اقتصادی واقعات نے امریکی زوال کوتیز تر کیا۔
Tumblr media
اس وقت کی واحد سُپر پاور نے افغانستان پرغیظ وغضب کے ساتھ اور عراق پر تکبر کے ساتھ حملہ کیا۔ امریکہ کو دونوں جنگوں میں شکست ہوئی۔ 2003 میں عراق پرامریکی حملہ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے سوویت یونین پر حملے کے بعد جنگی حکمت عملی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ افغانستان میں امریکہ کی شکست دہائیوں پر محیط، کئی کھرب ڈالر کی فوجی، تکنیکی، سٹریٹیجک اور سیاسی تباہی تھی۔ عراق اور افغانستان نے پروفیسر کینیڈی کے نظریے ’امپیریل اوور سٹریچ‘ کی تصدیق کر دی۔ 2000 میں چین کی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) میں شمولیت اور 2008 کے مالیاتی بحران نے امریکہ کو 9/11  سے زیادہ کمزور کیا۔ چین کی ڈبلیو ٹی او میں شمولیت نے امریکی صنعت کو کھوکھلا کر دیا۔ 2010 تک چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن چکا تھا۔ 2024 میں چینی معیشت جاپان، بھارت اور جرمنی کی مشترکہ معیشت سے بڑی ہو چکی ہے۔ 2008 کے مالیاتی بحران نے مغربی اقتصادی ترقی کو تقریباً دو دہائیوں کے لیے سست کر دیا اور نیولبرل جمہوریت اور اس کی اقتصادی شاخ، گلوبلائزیشن میں مغربی عوام کے اعتماد کو ہلا کر رکھ دیا۔
جب مغربی جمہوریتوں کے ووٹر جمہوریت پر سوال اٹھا رہے تھے، چین ہر سال نہیں بلکہ ہر دہائی میں معاشی ترقی کے جھنڈے گاڑ رہا تھا۔ امریکہ اور مغرب نے اشتراکیت کے خلاف سرد جنگ اس لیے نہیں جیتی کہ ان کے نظریات بہتر تھے، بلکہ اس لیے جیتی کہ وہ دہائیوں تک کمیونسٹ بلاک کے مقابلے میں زیادہ دولت مند اور تکنیکی طور پر جدیدیت کے حامل تھے۔ چینی معاشی کارکردگی نے لبرل جمہوریت، اقتصادی ترقی اور تکنیکی جدت کے درمیان مغرب کا رشتہ کاٹ کر رکھ دیا ہے، کوئی تعجب نہیں کہ دنیا بھر میں ووٹر استبدادی عوامی قیادت کی طرف رجوع کر رہے ہیں، چاہے وہ انڈونیشیا ہو، بھارت ہو، ہنگری ہو، یا اب امریکہ ہو۔ امریکہ کی تنزلی کا آخری پہلو اخلاقی ہے جسے مورخ ایڈورڈ گِبن نے ’معاشرتی فضائل‘ کی کمی لکھا تھا۔ سیاہ فاموں کی غلامی سے لے کرعراق کی ابو غریب جیل میں انسانی حقوق کی پامالی تک، امریکی طرز عمل میں منافقت ہمیشہ موجود رہی ہے۔ تاہم سرد جنگ کے دوران، جب تک سوویت یونین اور اس کے اتحادی اپنے شہریوں کی آزادیوں کو دباتے، ان کے اقتصادی حقوق چھینتے اور ان کی غریبی میں اضافہ کرتے رہے اور اس کے برعکس امریکہ ضرورت مند ممالک کی مدد کرتا رہا، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملوں کی اخلاقی ہولناکی کو نظرا نداز کیا جاتا رہا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے نئے بین الاقوامی اداروں کی تخلیق اور قیادت کی جو جنگ کو روکنے اور غریب ممالک کی مدد کے لیے بنائے گئے تھے۔ اقوام متحدہ، آئی ایم ایف، نیٹو اور ورلڈ بینک اس کی اہم مثالیں ہیں۔ ان اداروں کے فوائد پر بحث ہو سکتی ہے۔ جو چیز بحث سے بالاتر ہے وہ یہ ہے کہ یہ ادارے امریکی اولیت کو مضبوط کرتے ہیں اور ساتھ ہی امریکہ کو دوسرے ملکوں کو اخلاقی بھاشن دینے کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ امریکہ اپنے حواری ملکوں کو کئی دہائیوں سے تحفظ فراہم کر رہا ہے، بین الاقوامی معاشی معاملات میں امریکہ نے ’قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام‘ کی تخلیق کی اور اس کا دفاع کیا۔ سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کو ایک اخلاقی جنگ میں تبدیل کیا، جس میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے بیانیے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ امریکہ کی تنزلی صرف افغانستان اور عراق میں ہی نظر نہیں آتی بلکہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ اس کی ابتدا 1971 میں سونے کے معیار کو زبردستی ترک کرنے سے ہوئی۔ 1973 میں اوپیک تیل کے بائیکاٹ سے اس تنزلی میں تیزی پیدا ہوئی جوکہ 1974 میں صدر نکسن کے استعفے اور 1975 میں ویت نام سے شرمناک انخلا سے تیز تر ہوئی۔
1970 کی دہائی میں امریکی تنزلی کا اثر امریکی شہروں میں واضح طور پر نظر آیا۔ معاشرتی طور پر 1995 میں اوکلاہوما پر بمباری، 2005 میں قطرینا طوفان اور کووڈ 19 کے دوران 12 لاکھ سے زیادہ امریکیوں کی ہلاکت نے اس تنزلی کو دنیا پر واضح کر دیا۔ آج دنیا کے مستقبل کا استعارہ امریکی شہر نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ اور مشرقی ایشیا کے شہر ہیں۔ امریکہ آج بھی دنیا میں فوجی اخراجات اور پوری دنیا میں فوجی طاقت کی موجودگی میں سب سے آگے ہے۔ امریکہ اپنے دفاع پر اگلے آٹھ ممالک سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔ دفاعی اعتبار سے امریکہ اب بھی واحد سپر پاور ہے۔ امریکی معیشت آج بھی دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، جس کی موجودہ سب سے بڑی طاقت انٹرنیٹ پر مبنی ہے۔ ہالی وڈ اور مقبول ثقافت کی نرم طاقت ابھی تک پُراثر ہے۔ امریکی ڈالر دنیا کی غالب کرنسی ہے اور امریکی استعمار کو قائم رکھنے میں طاقتور ہتھیار ہے۔ امریکہ زوال پذیر ہو رہا ہے، لیکن روم کی سلطنت کی طرح اس کا انہدام ابھی نظر نہیں آ رہا لیکن امریکی قوم کی سخاوت، کشادگی اور روح کے وسیع پن کا انہدام ہو گیا ہے۔
امریکی سیاسی قیادت کا معیاراتنی تیزی سے گرا ہے جتنا کہ اس کی جمہوریت کا معیار، جس کی واضح مثال 6 جنوری 2021 کو امریکی کانگرس پر ہونے والا مسلح حملہ ہے۔ اکتوبر 2023 کے بعد امریکہ نے اپنی اخلاقی حیثیت کے آخری چیتھڑے بھی کھو دیے ہیں، جب اس نے وہ ہتھیار فراہم کیے جو غزہ میں 42 ہزار سے زائد بے گناہ، نہتے انسانوں اور بچوں کی جان لے چکے ہیں اور جب امریکہ نے انسانی حقوق کو ملیامیٹ کرنے والی نسل کشی، ظالمانہ بمباری، جبری بے دخلی اور سفاک قتل عام پر آنکھیں بند کر لیں۔ یہ دلیل دی جاسکت�� ہے کہ امریکہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے کی صورت حال میں واپس جا رہا ہے، یعنی دنیا کی دوسری بڑی طاقتوں کے درمیان ایک طاقت، لیکن ہم نے پچھلی دہائیوں میں ایک کھلا، سخاوت سے بھرا اور خوش آمدید کہنے والا امریکہ بھی دیکھا ہے جو اپنی تمام خامیوں کے باوجود اپنے بنیادی جمہوری تصورات اور انسانی اصولوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ وہ امریکہ اب نہیں رہا۔
خرم دستگیر خان  خرم دستگیر مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے خارجہ امور اور سابق وزیرِ دفاع رہ چکے ہیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
2 notes · View notes
mdmannu · 2 months ago
Text
*📮Diwali aur Hum Musalmaan*
Diwali ka Hindu tehwar Devi Durga ke zariye Mahisha ke khatme aur 14 saalah jila-watni ke baad Sita aur Ram ki Ayodhya (Bharat mein ek ahem ziarat gah) wapsi ki yadgar hai.
*Sawāl:* Lekin un Musalmanon ka kya jo Hindu dost rakhte hain? Kya woh unhein is tehwar par mubarakbad de sakte hain ya unke sath manana jaiz hai?
*Jawāb:* Nahi, bilkul bhi nahi. Islam mein Allah ka koi shareek nahi hai. Islam mein sab se bara gunah shirk hai aur Diwali shirk ka jashan manati hai.
دیوالی کا ہندو تہوار دیوی درگا کے ذریعہ مہیشا کے خاتمے اور 14 سالہ جلاوطنی کے بعد سیتا اور رام کی ایودھیا (بھارت میں ایک اہم زیارت گاہ) واپسی کی یادگار ہے۔
لیکن ان مسلمانوں کا کیا جو ہندو دوست رکھتے ہیں؟ کیا وہ انہیں اس تہوار پر مبارکباد دے سکتے ہیں یا ان کے ساتھ منانا جائز ہے؟
نہیں، بالکل بھی نہیں۔ اسلام میں اللہ کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اسلام میں سب سے بڑا گناہ شرک ہے اور دیوالی شرک کا جشن مناتی ہے۔
The Hindu festival of Diwali marks the destruction of Mahisha by the goddess Durga, and the return of Sita and Rama after 14 years of exile to Ayodhya (an important pilgrimage site in India).
But what about Muslims who have Hindu friends? can they wish them or celebrate it with them?
No, it is most definitely not. Allah has no partners. In Islam, the biggest sin is SHIRK, and Diwali is a celebration of SHIRK.
📚Reference:
al-Maa’idah 5:2
Aal ‘Imraan 3:85
al-Maa’idah 5:51
al-Mumtahanah 60:1
________
*Follow us on WhatsApp channel:*
https://whatsapp.com/channel/0029Va5g6m960eBl9eWSBr0y
2 notes · View notes
my-urdu-soul · 7 months ago
Text
پوچھنا تھا
پوچھنا تھا کہ
اس اداسی کی کہانی کون لکھے گا
جو ہر وقت مسکراتے چہرے کے سینے میں تب تک دفن رہتی ہے
جب تک وہ خود کسی خاک میں مدفون نہیں ہوتا۔
پوچھنا تھا کہ
اس وجود کی تنہائی کا افسانہ
کب تحریر ہوگا
جو کسی پہ یہ راز عیاں نہ کرتا
کہ وہ ہجوم میں بھی اکیلا تھا
پوچھنا تھا کہ
اس گمشدہ شخص کا پتہ
اب کہاں ملے گا
جس کو شہر کی ہر گلی پہچانتی تھی
مگر وہ راستے میں ہی بھٹک گیا -
پوچھنا تھا کہ
ہر بار اسی گھر کو لوٹ جانے کی تمنا
اس کی آنکھیں کیوں گیلی کرتی رہتی
جہاں واپسی پہ کوئی اس کا منتظر نہ تھا-
پوچھنا تھا کہ
اس کی خوش لباسی کے پیچھے
پوشیدہ رہنے کے بجائے
ہر بار اس کے اندر کی ویرانی کھل کے
کیوں سامنے آجاتی -
پوچھنا تھا کہ
آخر وہ
اندر میں کون سا درد لیئے گھومتا پھرتا ہے
جس کے بوجھہ سے
اس کے دونوں شانے ڈھلک گئے تھے-
پوچھنا تھا کہ
وہ آخری بار کب سویا تھا
کہ اس کی آنکھوں میں
ایک صدی کی جاگ عیاں رہتی تھی۔
پوچھنا تھا کہ
آخر اس کی مسافری کی منزل کہاں ہے
مگر کس سے پوچھنا تھا
وہ اکیلا شخص تو دھیرے دھیرے اندر میں مرتا
ایک دن اچانک مر گیا۔
- امر سندھو
4 notes · View notes
parrizaad · 10 months ago
Text
میں صدقے! ان کی واپسی ہو گئی 🙂 🙂 تم پرندوں سے زیادہ تو نہیں ہو آزاد شام ہونے کو ہے اب گھر کی طرف لوٹ چلو ۔۔۔۔
Somewhere in Europe 🌍
4 notes · View notes
bazm-e-ishq · 2 years ago
Note
‎میرے اندر ا نکہی باتوں کا دریا، میرے وہ لوگ جنہیں میں نے اپنا سب کچھ وقف کر دیا، وہ مجھے کسی برے خواب کی طرح بھول جاتے ہیں،
‎اے میرے عزیز میں نے آپ کی خدمت کرنے کی پوری کوشش کی،
That's being so selfless!
کچھ لوگ اس دنیا میں انسان تو ہوتے ہیں مگر ان کے دل صاف شفاف فرشتوں کی مانند ہوتے ہیں اسی وجہ سے ایسے لوگوں کو لفظ "فرشتہ صفت" سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ وہ دوسروں کی بے لوث خدمت کرتے ہیں بغیر کسی واپسی کی امید رکھتے ہوئے ۔
I want to say Allah is watching, seeing and knows everything that you're doing but recently i read there's a line between Patience and boundaries. Do adopt patience but with boundaries. Set boundaries for yourself always. My deep love to all sweet and angelic hearts ❤️
13 notes · View notes
shahbaz-shaikh · 1 year ago
Text
نہ شکایتیں نہ گلا کرے
کوئی ایسا شخص ہوا کرے
جو میرے لیے ہی سجا کرے
مجھی سے ہی باتیں کیا کرے
کبھی روئے جائے وہ بے پناہ
کبھی بے تحاشہ اُداس ہو
کبھی چپکے چپکے دبے قدم
میرے پیچھے آ کر ہنسا کرے
میری قربتیں میری چاہتیں
کوئی یاد کرے قدم قدم
میں طویل سفر میں ہوں اگر
میری واپسی کی دُعا کرے
کوئی ایسا شخص ہوا کرے
2 notes · View notes
topurdunews · 1 month ago
Text
ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی اور امریکہ کا مستقبل
منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی آنے والی انتظامیہ کے اہم عہدوں کو مضبوط وفاداروں سے بھر رہے ہیں، وہ ایسی ٹیم تشکیل دینا چاہتے ہیں جو اُس کے ”امریکہ فرسٹ“ ایجنڈے کی عکاسی کرے جس کی جڑیں سفی�� فاموں کی سپرمیسی میں ماڈرن اتھاریٹیرین رجیم کا قیام اور قومی سرمایا کو کنٹرول کرنے والی نشنل اکانومی جیسی مشترکہ ترجیحات پر مبنی ہوں یعنی باقی دنیا کے لئے تصویر واضح ہونی چاہیے ، ٹرمپ کی ” میک امریکہ گریٹ…
0 notes
pakistantime · 2 years ago
Text
ڈاکٹر عافیہ بہت ظلم سہہ چکی
Tumblr media
امریکی جیل میں 13 سال سے قید پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی ڈھائی گھنٹے طویل ملاقات ہوئی۔ خبروں کے مطابق یہ ملاقات ٹیکساس کے شہر فورورتھ کی جیل ایف ایم سی کارس ول میں ہوئی۔ ڈاکٹر عافیہ سے ان کے خاندان کے کسی فرد کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ ڈاکٹر عافیہ کو لاپتہ ہوے 24 سال اور امریکی قید میں 13 سال کا طویل عرصہ گزر چکا لیکن اس کے باوجود دونوں بہنوں کو نہ ہاتھ ملانے دیا گیا نہ وہ گلے مل سکیں۔ جماعت اسلامی کے رہنما سینیٹر مشتاق احمد، جو ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے ہمراہ امریکہ گئے ہوئے ہیں، نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ دونوں بہنوں کی یہ ملاقات جیل کے ایک کمرے میں ہوئی لیکن دونوں کے درمیان موٹا شیشہ لگا تھا جس سے وہ ایک دوسرے کو دیکھ اور سن تو سکتی تھیں لیکن چھو نہیں سکتی تھیں۔ سفید اسکارف اور خاکی جیل ڈرس میں ملبوس عافیہ صدیقی سے اُن کی بہن کی ڈھائی گھنٹے کی اس ملاقات میں پہلے ایک گھنٹہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے روز روز اپنے اوپر گزرنے والی اذیت کی تفصیلات بتائیں۔ ڈاکٹر عافیہ اپنی بہن سے اپنی ماں (جو اُن کی قید کے دوران وفات پاچکی ہیں) اور اپنے بچوں کے بارے میں پوچھتی رہیں اور کہا کہ ماں اور بچے اُنہیں ہر وقت یاد آتے ہیں۔ 
Tumblr media
ڈاکٹر عافیہ کو اپنی ماں کی وفات کا علم نہیں ہے۔ امریکہ کی قید میں پاکستان کی اس بیٹی کے سامنے والے دانت جیل میں ہوئے حملے میں ضائع ہو چکے ہیں اور اُن کے سر پر لگنے والی ایک چوٹ کی وجہ سے انہیں سننے میں بھی مشکل پیش آ رہی تھی۔ سینیٹر مشتاق کے مطابق کل ڈاکٹر عافیہ سے اُن کی ڈاکٹر فوزیہ اور کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ سمیت جیل میں ملاقات ہو گی۔ اُنہوں نے ڈاکٹر فوزیہ کی (عافیہ صدیقی سے) ملاقات کا افسوسناک احوال س��اتے ہوئے کہا کہ اگرچہ صورتحال تشویشناک ہے لیکن ملاقاتوں کا، بات چیت کاراستہ کھل گیا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام آواز اُٹھائیں اور حکمرانوں کو مجبور کریں کہ وہ فوری اقدامات کر کے عافیہ صدیقی کی رہائی کا معاملہ امریکی حکومت کے ساتھ اُٹھائیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے اُن کی ملاقات کا یہ مختصر احوال پڑھ کر دل رنجیدہ ہو گیا۔ سوچ رہا ہوں کہ اُن افراد کے ضمیر پر کتنا بوجھ ہو گا جنہوں نے پاکستان کی اس بیٹی کو امریکہ کے حوالے کیا ،جہاں ایک نام نہاد مقدمے میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اسی پچاسی سال کی سزا سنا دی گئی۔ 
یہ ظلم پرویزمشرف کے دور میں ہوا۔ پرویزمشرف کا انتقال ہو چکا ہے، جنہو ں نے اپنی کتاب میں تسلیم کیا کہ اُنہوں نے ڈالرز کے بدلے پاکستانیوں کو امریکہ کے حوالے کیا۔ امریکہ کے دباو میں اپنے شہریوں اور پاکستان کی ایک بیٹی کو امریکہ کے حوالے کرنے میں ایجنسیوں کے جن افراد کا کردار تھا وہ بھی آج کیا سوچتے ہوں گے۔؟ بڑی تعداد میں امریکہ کے حوالے کئے گئے پاکستانی جنہیں گوانتامو بے میں انتہائی مشکل حالات میں رکھا گیا تھا اُن میں سے کئی پاکستان واپس لوٹ چکے لیکن اس گھناونے کھیل میں شامل اُس وقت کے ہمارے ذمہ دار اور کرتا دھرتا اپنے رب کو کیا جواب دیں گے۔ نجانے کب تک ڈاکٹر عافیہ امریکی جیل میں پڑی رہیں گی۔ ہماری مختلف سیاسی جماعتیں یہ وعدہ کرتی رہیں کہ ڈاکٹر عافیہ کو پاکستان واپس لانے کیلئے امریکہ سے بات چیت کی جائے گی۔ اس دوران ن لیگ، تحریک انصاف اورپیپلز پارٹی کی حکومتیں آئیں لیکن ڈاکٹر عافیہ کی واپسی کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش کبھی ہوتی دکھائی نہ دی۔ یہ موجودہ حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کی پاکستان منتقلی کا مسئلہ امریکہ کے سامنے سنجیدگی سے اُٹھائے اور اُس وقت تک اس کیس کا پیچھا کرے جب تک کہ پاکستان کی اس بیٹی کی واپسی ممکن نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر عافیہ پہلے ہی بہت ظلم سہہ چکی۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ  
2 notes · View notes
fatimanaseems-blog · 13 hours ago
Text
Tumblr media
تنہائی اور رشتہ داریوں کی اہمیت ۔
زندگی میں انسان کو مختلف مراحل اور تجربات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور ان تجربات کے دوران انسان کو جو سب سے بڑی چیز درکار ہوتی ہے وہ ہے حمایت اور تعاون۔ انسان اپنی زندگی میں بے شمار مشکلات کا سامنا کرتا ہے، مگر ان مشکلات کو کامیابی سے عبور کرنے کے لیے اسے دوسروں کا ساتھ درکار ہوتا ہے۔ اللہ پاک نے انسان کی فطرت میں یہ خصوصیت رکھی ہے کہ وہ سماجی مخلوق ہے اور اسے رشتہ داریوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان رشتہ داریوں میں ماں، باپ، بھائی، بہن، دوست، احباب، اور زندگی کے دیگر اہم رشتہ شامل ہیں، جو انسان کو سکون، محبت، اور ذہنی سکون فراہم کرتے ہیں۔ لیکن اگر انسان ان رشتہ داریوں سے دور ہو جائے، تو وہ تنہائی کا شکار ہو جا��ا ہے، جو اس کی ذہنی اور جسمانی صحت پر منفی اثرات ڈالتی ہے۔
رشتہ داریوں کی اہمیت ۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے مختلف رشتہ عطا کیے ہیں تاکہ وہ ان کے ذریعے اپنی زندگی میں سکون اور خوشی محسوس کرے۔ ماں اور باپ کا رشتہ سب سے اہم ہے کیونکہ یہی وہ رشتہ ہے جو انسان کو دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے ہی محبت اور حمایت فراہم کرتا ہے۔ ماں کا پیار اور باپ کی رہنمائی انسان کو زندگی کے ابتدائی مراحل سے ہی تربیت دیتی ہے۔ اس کے بعد بھائی، بہنیں، دادی، دادا، نانی اور نانا جیسے رشتہ دار ہوتے ہیں جو انسان کو ایک خاندان کی محبت میں لپیٹ کر اسے دنیا کے مشکلات کا سامنا کرنے کی طاقت دیتے ہیں۔
دوست اور احباب کا بھی بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ انسان اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزار کر اپنی خوشیاں اور غم بانٹتا ہے۔ جب انسان کسی مشکل میں مبتلا ہوتا ہے، تو دوست اس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور اس کے لیے اپنے مشورے اور مدد فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ میاں بیوی اور بچوں کا رشتہ بھی بہت اہم ہوتا ہے، کیونکہ یہ رشتہ انسان کی زندگی میں محبت، حمایت اور سکون کا ذریعہ بنتا ہے۔
تنہائی کے اثرات ۔
لیکن اگر انسان ان رشتہ داریوں سے دور ہو جائے اور اپنی الگ دنیا میں محصور ہو جائے تو اس کی زندگی میں بہت سی مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔ ان مشکلات میں سب سے پہلے ذہنی تناؤ اور مایوسی شامل ہوتی ہے۔ انسان کو جب محبت اور تعاون کی ضرورت ہوتی ہے، مگر وہ ان سے محروم ہوتا ہے، تو وہ خود کو اکیلا اور بے کس محسوس کرتا ہے۔ اس تنہائی کی حالت میں انسان میں خود اعتمادی کی کمی پیدا ہو سکتی ہے اور وہ خود کو دوسروں سے غیر متعلق محسوس کرنے لگتا ہے۔
یہ تنہائی انسان کو ایک طرف کر کے اس کی ذاتی دنیا میں جکڑ لیتی ہے، جہاں وہ اپنے خیالات اور سوچوں میں گم ہو جاتا ہے۔ اس دوران انسان کے ذہن میں بے شمار سوالات اٹھتے ہیں اور وہ ان کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر اس کی دنیا اتنی تنگ ہو جاتی ہے کہ وہ ان سوالات کے جوابات نہیں تلاش کر پاتا۔ اس کی ذہنی حالت میں بہت زیادہ دباؤ آ جاتا ہے، اور وہ بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ بیماری اس کی ذہنی حالت سے جنم لیتی ہے، جس کی شدت آہستہ آہستہ بڑھتی رہتی ہے۔
رشتہ داریوں سے دوری کا نتیجہ۔
جب انسان اپنی تنہائی کے باعث خاموشی اختیار کرتا ہے، تو وہ نہ صرف اپنے آپ سے، بلکہ اپنے قریبی رشتہ داروں سے بھی دور ہو جاتا ہے۔ دوست احباب اور خاندان والے اس کی تبدیلی کو محسوس کرتے ہیں اور ان کے ساتھ تعلقات کمزور پڑنے لگتے ہیں۔ انسان جب احساس کرتا ہے کہ وہ تنہائی کا شکار ہو چکا ہے اور اس کی زندگی میں محبت اور رشتہ داریوں کی کمی محسوس ہو رہی ہے، تو وہ ان تعلقات کو دوبارہ بحال کرنا چاہتا ہے۔ مگر افسوس یہ ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے دوبارہ رابطہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو وہ دیکھتا ہے کہ وہ لوگ اب اس سے دور ہو چکے ہیں، اور اس کی زندگی میں ان کا کردار پہلے جیسا نہیں رہا۔
یہ صورت حال انسان کو ایک اور کرب میں مبتلا کرتی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس نے تنہائی میں رہ کر جو فیصلہ کیا، وہ غلط تھا، اور اب اسے اپنی غلطی کا احساس ہو چکا ہے۔ مگر اس کے لیے اس کا ماضی اسے واپسی کا موقع نہیں دیتا۔ دوست اور رشتہ دار اس کی غفلت اور لاتعلقی کو سمجھتے ہوئے اس سے دور ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس کی زندگی میں جب یہ احساس بیدار ہوتا ہے، تو وہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی تنہائی کو ختم کرے اور دوسروں کے ساتھ دوبارہ جڑ جائے، لیکن اب اس کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا۔
اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ زندگی میں رشتہ داریوں کی اہمیت کو سمجھنا اور ان کا احترام کرنا بہت ضروری ہے۔ ہمیں اپنی زندگی کے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط رکھنا چاہیے تاکہ ہم ان کی محبت اور تعاون کا فائدہ اٹھا سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مختلف رشتہ عطا کیے ہیں تاکہ ہم ان کے ذریعے اپنی زندگی میں سکون اور خوشی محسوس کریں۔ اگر ہم ان رشتہ داریوں سے غافل ہو جائیں، تو ہماری زندگی میں تنہائی اور مایوسی کا غلبہ ہو سکتا ہے، جو ہمیں ہماری غلطیوں کا احساس دلائے گا۔
لہذا، ہمیں اپنی زندگی میں محبت اور تعلقات کو اہمیت دینی چاہیے اور ان رشتہ داریوں کا خیال رکھنا چاہیے جو اللہ نے ہمیں عطا کی ہیں۔ ان رشتہ داریوں کے ذریعے ہم نہ صرف اپنی ذاتی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں، بلکہ ہم اپنے معاشرتی رشتہ جات کو بھی مضبوط کر سکتے ہیں، جو ہماری زندگی میں سکون اور خوشی کا باعث بنتے ہیں۔
قلم کار : فاطمہ نسیم 
تاریخ : 23 دسمبر 2024
0 notes
googlynewstv · 6 days ago
Text
حزب اللہ کےخاتمے کا سوچنے والاخود مٹ جائے گا، آیت اللہ خامنہ ای
ایران کے سپریم لیڈر  آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا ہےکہ حزب اللہ کےخاتمے کا سوچنے والا اسرائیل خود مٹ جائے گا۔ ایران کے سپریم لیڈر  آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا ہے کہ شام میں کیے گئے اقدامات سے صیہونی حکومت کو مزاحمت ختم ہونےکی غلط فہمی ہوگئی ہے۔ دوسری جانب  ترک صدر طیب اردوان کی یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان سے ملاقات ہوئی جس میں شام کی تعمیر نو اور مہاجرین کی واپسی کے لیے مل کر کام کرنے کا فیصلہ کیا…
0 notes
0rdinarythoughts · 2 years ago
Text
Tumblr media
میں نے جو اضافی محبت دی ہے اس کے لیے مجھے کبھی برا نہیں لگتا۔ ان اوقات کے لیے جب میں دوسروں کے لیے اوپر اور اس سے آگے نکل گیا، اس وقت کے لیے جب میں نے اب بھی ان لوگوں میں بہترین کو دیکھا جو مجھ میں اچھائی بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ لیکن میں جھوٹ نہیں بولوں گا، کبھی کبھی، جب میں بارش اور تنہائی کو مجھ پر گرفت میں لیتے ہوئے دیکھتا ہوں، تو میں اپنے آپ کو اس اضافی محبت کی امید کرتا ہوں کہ وہ میرے پاس واپسی کا راستہ تلاش کریں۔ مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے کہ یہ کتنا وقت یا کیا شکل لیتا ہے۔ چاہے وہ اس زندگی میں ہو یا اگلی، کسی نہ کسی طریقے سے۔
I never feel bad for the extra love I gave. For the times when I went above and beyond for others, for the times when I still looked at the best in the people who couldn't even see the good in me. But I'm not gonna lie, sometimes, when I watch the rain and loneliness catches up on me, I find myself hoping for that extra love to find their way back to me. I don't care how long or what form it takes. Be it in this life or the next, in one way or another.
بس مجھ پر بارش ہو جائے۔
Just rain on me.
jmp | Artwork : Rombutan
16 notes · View notes