Tumgik
#حضرت اسماعیل علیہ السلام
nuktaguidance · 2 years
Text
عظیم قربانی
عظیم قربانی حضرت اسماعیل علیہ السلام معروف ناول نگار اشتیاق احمد مرحوم کا سلسلہ قصص الانبیاء Aezeem Qurbani Ismail AS Read Online Downlolad PDF
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
minhajbooks · 2 years
Text
Tumblr media
🔰 انبیاء و رسل علیہم السلام کے فضائل و مناقب
🔹 امام الانبیاء سیّدنا محمد مصطفیٰ ﷺ کے مناقب کا بیان 🔹 ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کے مناقب کا بیان 🔹 حضرت ادریس علیہ السلام کے مناقب کا بیان 🔹 حضرت نوح علیہ السلام کے مناقب کا بیان 🔹 حضرت ھود علیہ السلام کے مناقب کا بیان 🔹 حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے مناقب کا بیان 🔹 حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام کے مناقب کا بیان 🔹 حضرت اسحاق علیہ السلام کے مناقب کا بیان 🔹 حضرت لوط علیہ السلام کے مناقب کا بیان 🔹 حضرت یوسف علیہ السلام کے مناقب کا بیان 🔹 حضرت ایوب علیہ السلام کے مناقب کا بیان 🔹 حضرت یونس علیہ السلام کے مناقب کا بیان 🔹 حضرت شعیب علیہ السلام کے مناقب 🔹 حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کے مناقب کا بیان 🔹 حضرت ہارون علیہ السلام کے مناقب کا بیان 🔹 حضرت داود علیہ السلام کے مناقب کا بیان 🔹 حضرت سلیمان علیہ السلام کے مناقب کا بیان 🔹 حضرت یحییٰ علیہ السلام کے مناقب کا بیان 🔹 حضرت عیسیٰ روح اللہ علیہ السلام کے مناقب کا بیان 🔹 انبیاء کرام علیہم السلام کے جامع مناقب کا بیان
مصنف : شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری زبان : اردو صفحات : 204 قیمت : 350 روپے
پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں https://www.minhajbooks.com/urdu/book/284/The-Best-Way-of-Excellence-of-Merits-and-Virtues-of-Prophets-A-S/
📧 خریداری کیلئے رابطہ کریں https://wa.me/9203097417163
2 notes · View notes
googlynewstv · 3 months
Text
عیدالاضحی مذہبی عقیدت واحترام سے منائی جارہی ہے
پاکستان بھر میں  عید قربان مذہبی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔ ملک میں مسلمان جانوروں کو اللہ کی راہ میں قربان کر کے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی سنت کو تازہ کر رہے ہیں۔ فیصل مسجد اسلام آباد، بادشاہی مسجد لاہور، لیاقت پارک کوئٹہ اور عید گاہ کراچی سمیت ملک کے مختلف مقامات پر عیدالاضحی کی نماز ادا کر دی گئی جس کے بعد ملک و قوم کی سلامتی کے لیے خصوصی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
Text
روح قربانی
از نوید الطاف خان
لیکچرر دعوۃ اکیڈمی
ــــــــــــــــــــــــ
قرآن کریم کی سورہ انفال کی آیت نمبر162، 163 میں اللہ تبارک وتعالی نے نبی اکرم ﷺ کو حکم فرمایا ہےکہ اے نبی کہہ دیجئے بے شک میری نماز، میری قربانی ، میرا جینا اور میر امرنا اللہ کےلیے ہےجو تمام جہانوں کا پالنے والے ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں،اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں اولین مسلمانوں میں سے ہوں۔
ان دو آیات میں امت کو جس اہم ترین نکتہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اعمال کے اچھے اور بُرے ہونے کا معیار حکم الٰہی اور رضائے الٰہی ہے۔ وہی عمل اللہ جل جلالہ کے نزدیک اچھا ہو گا جسے اس نے اچھا قراد دیا ہو اور وہی اس کے نزدیک قابل قبول ہوگا جو اس کی رضا کے لیے کیا گیا ہوگا۔ اس سے ہٹ کر کوئی بھی کام، کسی بھی نیت سے کیا گیاہو اور بظاہرعقل کے معیار پر پورا اترنے والا اور دل کو بہانے والاہو،اللہ کے ہاں بے وقعت ہی کہلائے گا۔ اسی لیے اللہ پاک نے نبوت کی زبان سے کہلوایا کہ انسان کی نماز اللہ کے لیے ہونی چاہیے ، اس کی قربانی بھی اللہ کے لیے ہونی چاہیے ۔ بلکہ اس کا جینا اوراس کا مرنا بھی اللہ کے لیے ہونا چاہیے۔
اسی طرح اللہ پاک نے سورۃ الکوثر میں نبی اکرم ﷺ کو کچھ اس طرح حکم دیا ہے:
اے نبی ﷺ ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا کی ۔ اس لیے اپنے رب کی رضا کے لیے نماز پڑھا کرو اور قربانی دیا کرو۔ بے شک تمہارا دشمن ہی نے نام و نشان ہے۔
گویا خود نبی آخرالزماں کی زندگی میں بھی دو اہم ترین اعمال اور اس کی بنیاد پر دین و دنیا میں سربلندی کے اسباب بتائے گئے ہیں اور وہ اللہ پاک کی رضا کے لیے نماز کا پڑھنا اور اس کی رضا کے لیے قربانی کرنا ہے۔ اس کے مقابلے میں دشمنان اسلام کو خواہ کتنا ہی عارضی عروج نصیب ہو وہ بالآخر بے نام و نشان ہی ہیں۔نیک نامی اور نیک شہرت صرف ان لوگوں کو ہی حاصل ہو گی جو نما ز کے ساتھ ساتھ قربانی کو دینی فریضہ کےطور پر اپنائیں۔
اصل زندگی یہی ہے کہ زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ وحدہ لاشریک کی رضا کی طلب کے لیے خاص کر دیا جائے۔زندگی کو اس اصول پر گزارنے کی ایک عملی مثال حضرت ابراہیم علیہ السللام کی سیرت مبارکہ ہے۔ انہوں نے سب کچھ اللہ کی رضا کی خاطر چھوڑ دیا۔ پیدائش ہوئی تو بت فروش باپ کے گھر میں۔ جب ایمان نے اس بندئے مؤمن کےدل میں گھر کیا تو والد کے دل میں اس نور کوروشن کرنے کے لیے تگ ودو اور دعا کرنی شروع کی۔ جب والد نہ مانا تو احترام کے ساتھ،اسے اپنے رب کی رضا کے مقابلےمیں قربان کریا اور اس سے اپنی راہیں جدا فرمالیں ۔ اس کے بعد اپنی قوم کو ایمان و توحید کی طرف بلایا۔ اور انہیں سبق سکھلانے کے لیے ان کے خود ساختہ خداؤں کو توڑ دیا اور کلہاڑی ان کے سب سےبڑے بت کے گردن میں رکھ دی۔ اس کے بعد بادشاہ وقت نمرود کے ساتھ علی الاعلان مناظرہ کیا اور اسے لا جواب کرنے اور ماضی کی مخالفت کی وجہ سے آگ میں جھونک دیئے گئے۔ گویا اس دفعہ اپنی جان اللہ کے حضور قربان کرنے کے لیے پیش کر دی۔ مگر اللہ کے حکم سے آگ گل و گلزار بن گئی۔ آگے اپنے وطن سے ہجرت کرلی ۔ اب وطن اپنے رب کے لیےقربان کر دیا۔
بڑھاپے کی عمر میں اللہ پاک نے بیٹے کی نعمت سے نوازا تو حکم ہوا کہ انہیں ان کی والدہ سمیت بے آب وگیا ہ میدان یعنی مکہ مکرمہ میں چھوڑ کر واپس فلسطین چلے جاؤ۔ گویا اس دفعہ اپنی بیوی اور بالکل چھوٹے بچے کو اللہ کے لیے ایک چھوڑ دیا۔
اور اس کے بعد جب بیٹا کچھ بڑا ہوا تو خواب کے ذریعے سے حکم ہوا کہ اسے میری رضا کے لیے ذبح کرکے قربان کر دو ۔ چنانچہ اس کے لیے بھی تیار ہوگے۔اپنی سعادت مند بیوی اور بیٹے کو حکم الٰہی سے آگاہ کرنے کے بعد چھری لے کر انہیں بھی اللہ کی راہ میں قربانی کرنے کے لیے کمر کس لی ۔ مگر اللہ پاک کو کچھ اور منظور تھا۔چنانچہ سامنے حضرت اسماعیل کی جگہ جنت سے لایا گیا ایک ذبح شدہ مینڈھاپڑا تھا۔
یہ ہے وہ اصل حقیقت اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اللہ کی راہ میں قربانیوں کی داستان جس کی بدولت نہ صرف یہ کہ اللہ پاک نے ان کی قربانیوں کو شرف قبولیت بخشا بلکہ رہتی دنیا تک اپنے بندوں کے لیے یہ لازم قرار دیا کہ کہ اس خاص دن یعنی ۱۰ ذی الحجۃ کو ان کی یاد میں مخصوص قسم کے جانوروں قربان کرکے اللہ کی رضا اور خوش نودی حاصل کی جائے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس دن جانور کو ذبح کرنے سے بڑھ کر کوئی عمل زیادہ افضل نہیں۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
عن عائشة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «ما عمل آدمي من عمل يوم النحر أحب إلى الله من إهراق الدم، إنه ليأتي يوم القيامة بقرونها وأشعارها وأظلافها، وأن الدم ليقع من الله بمكان قبل أن يقع من الأرض، فطيبوا بها نفسا
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ یوم النحر کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے افضل عمل جانور کا خون بہانا ( یعنی اسے قربانی کے لیے ذبح کرنا) ہے۔ یقینا یہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں، ناخنوں کے ساتھ آئے گا، اور یہ خون اللہ کے ہاں (شرف قبولیت کو)پہنچ جاتا ہے قبل اس کے کہ زمین کو لگے۔ چنانچہ خوش دلی سے جانور قربان کرو۔)
اس حدیث مبارکہ میں اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ :
اس دن جانور ذبح کرنےسے بڑھ کر اللہ کی رضا حاصل کرنے والا عمل کوئی نہیں۔
یہ عمل اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ امر تعبدی ہے۔
قربانی سے جڑی ایک ایک چیز یہاں تک کہ جانور کے بالوں، ناخنوں کی بھی اللہ کے ہاں بڑی قدر ہے۔
اسی طرح ایک دوسری حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ جو آدمی استطاعت کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے۔
یعنی ایسے آدمی کا مسلمانوں کی اجتماعی زندگی اور خوشی سےکوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ایسا آدمی اس قابل ہے کہ وہ اس قسم کی اجتماعیت کا حصہ ہو۔
الغرضعید الاضحیٰ کا اصل مقصد دراصل حضرت ابراہیم اور ان کے خاندان کی انہی قربیوں کو دیا رکھنا ہے۔اورذی الحجہ کے دس ایام میں بالعموم اور عید الاضحٰی کے دن بالخصوص ان کے اس عمل یعنی اللہ پاک کی راہ میں بیٹے کی قربانی کو یاد کرتے ہوئے اوراس کام کی عظمت کو دل میں لاتے ہوئے ،جانور ذبح کیا جائے۔
اس لیے ایسی سوچ یا آواز کہ" قربانی کی جگہ اگر کسی انتہائی غریب و نادار لوگوں کی مدد کی جائے تو شاید زیادہ اچھا ہو سکتا ہے۔" میں سوائے شیاطانیت کے کچھ نہیں۔ قربانی دراصل ایک مسلمان کو ایمان کے اندر پختہ کرنے کا مرحلہ ہے۔ اور اللہ کی رضا کے لیے اپنا سب کچھ، اپنا تن، من ، تھن، اپنے قریبی رشتہ دار، اپنا وطن حتی کہ اپنی اولاد کو قربان کرنےکے تصور کو اجاگر کرنا ہے۔
ایک لمحہ کے لیے سوچئے کہ صرف عید الاضحٰی کےوقت ہی کیوں غریب یاد اور ان کی ہم دردی جاگ جاتی ہے۔اگر فرض کیا یہ عملِ قربانی نہ ہوتا تو کیا غریب اور ان کی ضرورتیں ہی ختم ہو جاتیں؟ کیا غیر اسلامی دنیا میں جہاں یہ مبارک عم�� نہ ہوتا تو اس کے بجائے اتنی مقدار کے برابر رقم غریبوں کے لیے مختص ہے؟کیا وہاں غریب ختم ہوگئے؟اسی طرح اسلامی دنیا میں دیگرسرکاری اور غیر سرکاری سطح پر کئے جانے والے غیر ضروری اخراجات کے بجائے غربت کو مٹانے کے لیے رقم مختص کیوں نہیں کی جاتی؟ اور کیا اس پورے مرحلے میں رونما ہونے والی معاشی سرگرمیوں سے غریبوں کو فائدہ نہیں ہوتا؟
حقیقت میں بات صرف یہ ہے کہ اس علامت ِدین اور سنتِ ابراہیمی جو بنیادی طور پر مظہر رضا باری تعالیٰ اور پہچان توحید باری تعالیٰ ہے، یہ ان لوگوں کو برداشت نہیں جو دلوں میں مادہ پرستی،نفس ، ہوس اور شیطان پرستی کے بت بنائے بیٹھے ہیں۔ اور اس عمل سے ان آباد اور سجے کمروں میں بت شکنی ہوتی محسوس ہوتی ہے۔مگر
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم آذان، لا الہ الا اللہ
اسی طرح قربانی کے اندر اصل صرف یہ نہیں کہ آدمی بس حصہ کے بقدر روپے پیسے دے دے اور اپنے حصے کا گوشت لے کر تقسیم کر دےبلکہ اس عمل میں حتی الامکان خود اور اپنی اولاد کو شریک رکھنا چاہیے اورحضرت ابراہیم اور ان کے خاندان کی قربانیوں کا احساس رکھ کر جانور قربان کرے۔
بعینہ اس مبارک عمل کو سرکاری تحویل میں لینے کی تجاویز بھی اصل مقصد سے توجہ ہٹانا اوراس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش ہو سکتیں ہیں۔سرکار کے ذمہ کو جو ضروری کام ہے وہ ہی کسی درجہ میں کرلے تو عوام اس کے شکر گذار ہوں گے۔ قربانی اہل ایمان خود ہی کرلیں گے ۔
کیا سرکار بنیادی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہ ہو چکی کہ یہ اضافی ذمہ داری اس پر سونپی جائے؟ یہ امر بھی غور طلب ہے کہ سرکاری سطح پر جمع ہونے والی زکاۃ پر عوام کا کتنا اعتماد ہے اور لوگ کیوں رمضان آنے سے پہلے بینکوں سے رقم نکال لیتے ہیں یا پھر باقاعدہ طور پر بینک کو خود بخود زکاۃ کی رقم کاٹنے سے منع کر دیتے ہیں؟ حالانکہ یہی لوگ خود زکاۃ ادا کرتے بھی ہیں اور ایک عرصہ سے پاکستان دنیا میں زکاۃ و صدقات دینے والے ممالک میں الحمد للہ سر فہرست ہے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قربانی کواس کے مقاصد کے روشنی میں کرنے کی توفیق دے ۔ امین
1 note · View note
andarabi · 5 years
Text
Hazrat Abbas a.s Sermon in Kabba
اسرار حضرت ابوالفضل العباس علمدار علیہ السلام
Tumblr media
کل کی تحریر ہم نے یہ لکھا کہ اللہ نے کعبہ کو عبادت گاہ ، امن کی جگہ ، جائے نماز، سجدہ کرنے والوں اور رکوع و قیام کرنے والوں کے لیے بنایا اور دو نبیوں کی ڈیوٹی لگائی کہ اسے پاک صاف رکھیں اور مولا عباس علیہ السلام نے اسی بیت اللہ کی چھت پر کھڑے ہوکر اپنے امام ؑ کے سامنے اس کی حقیقت کو آشکار کیا کہ
مسلمانو! یہ نہ سمجھنا کہ تم اس کے گرد جمع ہوکر حج کا فریضہ انجام دو گے اور اللہ تمہارے حج کو قبول کرلے گا تمہاری عبادات کو قبول کرلے گا تو یہ تمہاری خام خیالی ہے کیونکہ جس گھر کو تم سجدہ ریز ہو وہ گھر ابراہیم و اسماعیل نے ضرور بنایا تھا مگر اس کو شرف تب بخشا گیا اور قبلہ تب بنایا گیا جب میرے باپ علی ؑ کے قدم مبارک اس پر لگے۔
تو پتہ چلا کہ جو بندہ عبادت خدا کررہا ہے وہ تب ہی قبول ہوگی جب وہ اقرار ولایت علی ؑ کرے گا اور جو منکر ولایت علی ؑ ہے وہ اگر بیت اللہ میں سجدہ کی حالت میں مظلومیت کے ساتھ قتل بھی کردیا جائے تب بھی اللہ اسے جہنم میں ڈال دے گا اور اس پر نظر کرم نہیں کرے گا۔
آج ہم کعبہ کی فضیلت پھر قرآن سے آپ کو بتاتے ہیں تاکہ مزید اسرار کھل کر سامنے آئیں۔
ارشاد ہورہا ہے :
جَعَلَ اللّـٰهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِّلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْـهَدْىَ وَالْقَلَآئِدَ ۚ ذٰلِكَ لِتَعْلَمُوٓا اَنَّ اللّـٰهَ يَعْلَمُ مَا فِى السَّمَاوَاتِ وَمَا فِى الْاَرْضِ وَاَنَّ اللّـٰهَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْـمٌ (97)
اللہ نے کعبہ کو جو کہ بزرگی والا گھر ہے لوگوں کے لیے قیام کا باعث کر دیا ہے اور عزت والے مہینے کو بھی اور حرم میں قربانی والے جانور کو بھی اور وہ جن کے گلے میں پٹہ ڈال کر کعبہ کو لے جائیں، یہ اس لیے ہے تاکہ تم جان لو کہ بے شک اللہ کو معلوم ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور بے شک اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔( سورہ المائدہ)
یعنی اللہ نے کعبہ کو بزرگی والا گھر بنایا اور لوگوں کے قیام کا باعث بنایا۔ اب کعبہ کی بزرگی تو یہی ہے کہ اس پر مولا علی ؑ کے قدم مبارک لگے اور ان کے جائے ظہور سے یہ عزت والا بن گیا اور لائق تعظیم ہوگیا اسی کے سامنے اللہ نے سر جھکوا کر بتا دیا کہ
بدبختو! جب اس گھر ( کعبہ ) کی یہ عظمت ہے تو جس کی وجہ سے یہ قبلہ بنایا وہ کس عزت و عظمت کا مالک ہوگا اور تم اسی کی ولایت پر جھگڑ رہے ہو کہ اسے نماز میں ہونا چاہیے یا نہیں۔
اچھا ولایت علی ؑ کو نماز سے نکال کر تم سمجھتے ہو کہ تم نے بڑا تیر مارلیا ہے اور تم اللہ کی نظر میں بڑے متقی بن گئے ہولیکن تمہیں علم ہی نہیں کہ تم نے اپنا کیا نقصان کرلیا ہے۔ مولا علی ؑ کی ولایت صرف علی ؑ کی ولایت تو نہیں وہ تو اللہ کی ولایت ہے ، مولا علی ؑ کی ولایت کا انکار تو اللہ کی ولایت کا انکار ہے تو تم اللہ کی ولایت مطلقہ کا انکار کرکے سمجھتے ہو کہ وہ تمہاری عبادات قبول کرلے گا؟
واہ رہے ملاں! وہ تمہاری عبادات تمہارے منہ پر دے مارے گا کیونکہ تمہاری عبادات سوائے سٹیاں بجانے کے کچھ نہیں ہے اور یہ میں اپنی طرف سے نہیں بلکہ اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے :
وَمَا كَانَ صَلَاتُـهُـمْ عِنْدَ الْبَيْتِ اِلَّا مُكَـآءً وَّتَصْدِيَةً ۚ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُـمْ تَكْـفُرُوْنَ (35)
اور کعبہ کے پاس ان کی نماز سوائے سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے اور کچھ نہیں تھی، سو عذاب چکھو اس سبب سے کہ تم کفر کرتے تھے۔
اِنَّ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَـهُـمْ لِيَصُدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ ۚ فَسَيُنْفِقُوْنَـهَا ثُـمَّ تَكُـوْنُ عَلَيْـهِـمْ حَسْرَةً ثُـمَّ يُغْلَبُوْنَ ۗ وَالَّـذِيْنَ كَفَرُوٓا اِلٰى جَهَنَّـمَ يُحْشَرُوْنَ (36)
بے شک جو لوگ کافر ہیں وہ اپنے مال خرچ کرتے ہیں تاکہ اللہ کی راہ سے روکیں، سو ابھی اور بھی خرچ کریں گے پھر وہ ان کے لیے حسرت ہوگا پھر مغلوب کیے جائیں گے، اور جو کافر ہیں وہ دوزخ کی طرف جمع کیے جائیں گے۔( سورہ انفال )
اب کون ہیں جو مال وزر خرچ کرکے لوگوں کو اللہ کی سبیل یعنی ولایت علی ؑ سے روک رہے ہیں، وہ تم ہی ہوناں کیونکہ تمہارے مدارس و مساجد میں یہی تبلیغ دی جاتی ہے کہ دیکھو نماز میں علی ولی اللہ نہ پڑھنا اس سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔ اللہ نے وہی عبادات تمہارے منہ پر مار کے فرمایا کہ تمہاری نمازیں سوائے سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے کچھ نہیں ہیں وہ اس لیے کیونکہ تم ولایت علی ؑ کا انکار کرتے تھے۔
تو پتہ چلا کہ مولا عباس علمدار علیہ السلام نے پہلے جملے میں بتا دیا کہ تم نے میرے بابا کی ولایت کو اتنا ہلکا سمجھ رکھا ہے کہ اس کے انکار پر اللہ تمہارا حج قبول کرلے گا۔ کیا تم بھول گئے کہ انکار ولایت علی ؑ پر حارث بن نعمان فہری کا کیا حال ہوا تھا۔ا للہ نے اس پر عذاب نازل کرکے بتادیا کہ توحید و رسالت کا اقرار کرنے کے باوجود کافر تھا اور یہ عذاب تو ہے ہی کافروں کے لیے۔
سَاَلَ سَآئِلٌ ب��عَذَابٍ وَّاقِــعٍ (1)
ایک سوال کرنے والے نے اس عذاب کا سوال کیا جو واقع ہونے والا ہے۔
لِّلْكَافِـرِيْنَ لَيْسَ لَـهٝ دَافِــعٌ (2)
کافروں کے لیے کہ اس کا کوئی ٹالنے والا نہیں۔( سورہ المعارج )
یعنی ولایت علی ؑ کا منکر ایسا کافر ہے کہ اس کو عذاب سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
اسی لیے مولا عباس علمدار علیہ السلام نے اگلے جملے میں لوگوں کو کافر اور بدترین فاجر کہہ کر مخاطب کیا:
"اے بد ترین کافرو اور فاجرو ۔۔! تم اس بیت اللہ کا راستہ نیک اور پاک لوگوں کے امامؐ کے لیے روکتے ہو۔۔۔۔؟
جو کہ اللہ کی تمام مخلوق سے اس کا زیادہ حق دار ہے اور جو اس کے سب سے زیادہ قریب ہے "
اب میں منظر کشی کرتا ہوں تاکہ شاید تیرے دل میں اتر جائے میرے دل کی بات:
8 زی الحجہ ہے اور بیت اللہ کے اردگرد حاجیوں کا ہجوم ہے جو خود کو بظاہر مسلمان سمجھ رہے تھے اور حج کو بطور فریضہ ادا کررہے تھے اور ہر طرف لبیک الھم لبیک کی سدا بلند تھی ۔ ایسے میں امام حسین ؑ نے فرمایا کہ بھائی عباس ؑ کعبہ کی چھت پر کھڑے ہوکر خطبہ دیں۔
اب تاریخ میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ مولا عباس ؑ نے کعبہ کی چھت پر کھڑے ہوکر لکھا ہوا خطبہ ہاتھ میں لیا اور اسے پڑھنا شروع کردیا جیسا کہ آج بھی وہاں حکومت کی طرف سے لکھا ہوا خطبہ پڑھا جاتا ہے۔ مولا عباس ؑ چونکہ مشیت امام ؑ سے واقف تھے اس لیے انہوں نے جو کچھ کہا وہ برحق ہے اس لیے بھی امام حسین علیہ السلام کی موجودگی میں آپ ؑ نے خطبہ دیا اور پھر امام ؑ نے یہ کہیں نہیں فرمایا کہ میرے بھائی عباس ؑ نے جو کچھ پڑھا وہ میری مشیت نہیں تھی۔ امام حسین ؑ کی خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ جو کچھ عباس علمدار ؑ نے فرمایا وہ برحق ہے۔
اب مولا عباس علمدار علیہ السلام چھت پر ہیں اور سامنے حاجی ہیں اور لبیک الھم لبیک کی سدائیں جو بلند ہورہی تھیں وہ عباس ؑ کو دیکھ کر رک گئیں کیونکہ علی ؑ کا علی ؑ بیٹا اس وقت جلال میں تھا اور جلال الٰہی کے سامنے بھلا کس کی کیا مجال کہ وہ اپنی آواز بھی نکالتا۔
اب جملہ سن لو!
" جن کی آوازیں عمربن عبدود کو دیکھ کر دب جائیں اور ایسی حالت ہو کہ جیسے ان پر موت طاری ہوگئی ہے وہ بھلا جلال الٰہی ( عباس ؑ ) کے سامنے کیسے آواز بلند کرسکتے تھے"
بس ایسے میں مولا عباس علمدار علیہ السلام نے فرمایا:
"اے بد ترین کافرو اور فاجرو ۔۔! تم اس بیت اللہ کا راستہ نیک اور پاک لوگوں کے امامؐ کے لیے روکتے ہو۔۔۔۔؟
اب یہ مولا عباس ؑ کا ہی کمال تھا کہ ایک ہی لمحہ میں ان کے چہرے سے اسلام کا لباس اتار کر کافرو فاجر کا لباس پہنا دیا۔یعنی ان کے باطن کو ظاہر کردیاکسی کی مجال نہیں تھی کہ وہ کہے کہ عباس ؑ آپ ہمیں کافر و فاجر کیوں کہہ رہے ہیں، سب جلال الٰہی سے خوف زدہ تھے آج کسی کی مجال نہیں کہ وہ حلق سے آواز بھی نکال سکے۔
اللہ نے اس کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے :
يَوْمَ يَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلَآئِكَـةُ صَفًّا ۖ لَّا يَتَكَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَـهُ الرَّحْـمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا (38)
جس دن جبرائیل اور سب فرشتے صف باندھ کر کھڑے ہوں گے، کوئی نہیں بولے گا مگر وہ جس کو رحمان اجازت دے گا اور وہ بات ٹھیک کہے گا۔
ذٰلِكَ الْيَوْمُ الْحَقُّ ۖ فَمَنْ شَآءَ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّهٖ مَاٰبًا (39)
یہ حق کا دن ہے پس جو چاہے اپنے رب کے پاس ٹھکانا بنا لے۔(اب حق کون ہے یہ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں کیونکہ بچہ بچہ جانتا ہے کہ الحق مع علی وعلی ؑ مع الحق ) یعنی یہ علی ؑ مولا کا دن ہے۔
اِنَّـآ اَنْذَرْنَاكُمْ عَذَابًا قَرِيْبًاۚ يَّوْمَ يَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ يَدَاهُ وَيَقُوْلُ الْكَافِرُ يَا لَيْتَنِىْ كُنْتُ تُرَابًا (40)
بے شک ہم نے تمہیں ایک عنقریب آنے والے عذاب سے ڈرایا ہے، جس دن آدمی دیکھے گا جو کچھ اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا تھا اور کافر کہے گا اے کاش میں مٹی ہو گیا ہوتا۔( سورہ النباء)
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتےہیں کہ وہ ایسا دن ہے جس دن لوگوں کے دل سے لاالہ الااللہ مٹا دیا جائے سب خاموش کھڑے ہوں گے اور وہاں صرف وہ بولے گا جس نے اقرار ولایت علی ؑ کیا ہوگا۔
اس دن کافر ایک دوسرے کو دیکھ کر کہیں گے کہ کاش ہم ابوترابی ہوتے یعنی ہم شیعان علی ؑ میں سے ہوتے۔
قرآن کے اسی راز کو قیامت سے پہلے مولا عباس ؑ نے ایک جملے میں آشکار کردیا کہ اے کافرو فاجرو! کل قیامت کے دن تم اسی طرح کھڑے ہو گئے اور تمہاری آوازیں حلق میں اٹک جائیں گئیں تب تم حسرت سے ایک دوسرے سے کہو گے کہ کاش ہم شیعان علی ؑ میں سے ہوتے۔
4 notes · View notes
msajjadasif · 2 years
Photo
Tumblr media
امت مسلمہ کو عید کی ڈھیروں خوشیاں مبارک ہوں۔۔۔ !!! آج جب ایک دوسرے کو گلے ملیں تو وہ کدورتیں بھی پھینک نکالیں جو دل کے کونے کھدرے میں پلی بسی ہیں۔۔۔ !!! عید قربان پہ قربانی کی غرض سے جب جانور کی گردن پہ چھری چلائیں تو خدارا اندر کے اس جانور کو بھی ذبح کر دیں جو دوسروں کے خلاف غلط سوچنے ، غلط کرنے پہ مجبور کرتا ہے ۔۔۔ !!! عید قربان حقیقت میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے اس فعل کی یاد ہے جو انہوں نے اپنے والد کے کہنے پہ خود کو قربان کر دیا یعنی والدین کی فرمانبرداری مگر افسوس ہمیں دنبہ یاد رہا قربانی بھول گئے۔۔۔ !!!! (at Al Hamriya, Dubai) https://www.instagram.com/p/Cf048VGPrG5jCR-FnmIhImSA73pp750ZrhsE200/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
maqsoodyamani · 2 years
Text
صاحب استطاعت مسلمانوں پر قربانی کرنا واجب ہے. لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارے عمل سے کسی کو تکلیف نہ ہو (جنرل سکریٹری بورڈ)
صاحب استطاعت مسلمانوں پر قربانی کرنا واجب ہے. لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارے عمل سے کسی کو تکلیف نہ ہو (جنرل سکریٹری بورڈ)
صاحب استطاعت مسلمانوں پر قربانی کرنا واجب ہے. لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارے عمل سے کسی کو تکلیف نہ ہو (جنرل سکریٹری بورڈ) نئی دہلی: ۷؍جولائی ۲۰۲۲ء آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے اپنے صحافتی بیان میں کہا ہے کہ عید قرباں مسلمانوں کا نہایت اہم تہوار ہے، جو اللہ کے دو پیغمبروں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی یاد دلاتا ہے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
asimhanif · 2 years
Video
instagram
*اللہ سے محبت ہو تو زندگی قربان کرنے کا جذبہ آ ہی جاتا ہے.. ہم تو محبت کا دعویٰ کرتے ہیں۔۔۔ نہ نیند قربان کرتے ہیں کہ اس رب کے آگے جھک جائیں , نہ وقت نکالتے ہیں کہ قرآن سمجھ لیں.. نہ اخلاق بدلتے ہیں کہ رب راضی ہو جائے.. یہ ہماری کیسی محبت ہے؟؟؟؟ ہاں* محبت کرنی ہے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی طرف دیکھیں.... سب قربان کرنے کے لئے تیار تھے ..کبھی اہل و عیال, کبھی گھر, کبھی *محبتیں سب اللہ کی خاطر قربان... پر جانتے ہیں بدلے میں کیا ملا... اللہ کی طرف سے سلامتی کی بشارت,* *اللہ کی محبت, اللہ کی دوستی.... ہاں قربانی سے ہی تو قرب ملتا ہے...* *اطیعواللہ واطیعوالرسول* ❣️ https://www.instagram.com/p/CchQy8TgP9C/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
asliahlesunnet · 3 years
Photo
Tumblr media
ذکر کایہ طریقہ بے دلیل ہے سوال ہمارے ہاں مسجد میں کچھ لوگ اسمائے حسنی کے بعد ایک سوبائیس دفعہ ’’یالطیف‘‘ پڑھتے ہیں ۔ کیا یہ عمل شریعت میں ثابت ہے؟ جواب:… اَلْحَمْدُ للّٰہ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ وآلِہِ وَأَصْحَابِہ وَبَعْدُ: یہ عمل جائز نہیں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا اور صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ ((مَنْ أَحّدَثَ فِی أَمْرِنَا ہٰذَا مَالَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ)) ’’ جس نے ہمارے دین میں وہ چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں تو وہ ناقابل قبول ہے۔ ‘‘ ایک حدیث یہ الفاظ ہیں : ((مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسْ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَھُوَرَدٌّ)) ’’ جس نے کوئی ایسا عمل کیاجو ہمارے دین کے مطابق نہیں وہ مردود ہے۔‘‘ وَبِاللّٰہِ التَّوفَیقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہِ وَصَحھبِہِ وَسَلَّمَ اللجنۃ الدائمۃ ، رکن : عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان ، نائب صدر : عبدالرزاق عفیفی، صدر : عبدالعزیز بن باز۔ ٭٭٭ فتویٰ(۷۸۲۱) سوال عمومی ذکر کو گن کر کرنے کا کیا حکم ہے ؟ اگر جائز نہیں تو جن احادیث میں تعداد کا ذکر ہے ان پر کیسے عمل کیا جائے ؟ مثلاً حدیث : ((مَنْ صَلَّى عَلَىَّ فِي يَوْمِ الْجُمْعَةِ مَرَّةً وَاحِدَةً صَلاَةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرًا مَنْ صَلَّى عَلَىَّ عَشْرًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ مِائَةَ)) ’’جس نے جمعہ کے دن مجھ پر ایک بار درود پڑھا، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے اور جس نے مجھ پر دس بار درود پڑھا، اللہ اس پر سو رحمتیں نازل فرماتا ہے ۔ ‘‘ ایک اورحدیث میں ارشاد ہے : ’’جس نے سور حمتیں نازل فرماتا ہے ۔‘‘ ((مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌفِى الْيَوْمِ مِائَةَ مَرَّةٍ كَانَ كَمَنْ اَعْتَقَ أَلْفَ نَسْمَةٍ مِنْ وُلَدٍ إِسْمَاعِيْلَ...)) اس کو اتنا ثواب ملے گا گویا اس نے اسماعیل علیہ السلام کی آل( اولاد) میں سے ہزار افراد آزاد کئے ۔ ‘‘ جواب:… اَلْحَمْدُ للّٰہ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ وآلِہِ وَأَصْحَابِہ وَبَعْدُ: شریعت نے اذکار کی تعداد مقرر کی ہے، ان میں اسی عدد پرعمل کرنا چاہے اورجن اذکار میں کوئی خاص عدد مقرر نہیں کیا گیا وہ اذکار تعداد مقرر کئے بغیر کرنا چہیں اس طرح آپ کے بیان کردہ مسئلہ میں اور احادیث میں مطابقت پیداہو جائے گی۔ پہلی حدیث میں صحیح مسلم کی روایت کے مطابق درست الفاظ یوں ہیں : ((مَنْ صَلَّى عَلَيَّ وَاحِدَةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرًا)) ’’ جس نےمجھ پر ایک بار درود پڑھا اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔ ‘‘ [1] یہ فضیلت جمعہ او ردوسرے دنوں میں برابر ہے ۔ دوسری حدیث کےصحیح الفاظ اس طرح ہیں : ((مَنْ قَالَ لَا إِلَہَ إِلَّا اللّٰه وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ فِی یَوْمٍ مِائَۃَ مَرَّۃٍ کَانَتْ لَہُ عَدْلَ عَشْرِ رِقَابٍ وَکُتِبَتْ لَہُ مِائَۃُ حَسَنَۃٍ وَمُحِیَتْ عَنْہُ مِائَۃُ سَیِّئَۃٍ وَکَانَتْ لَہُ حِرْزًا مِنَ الشَّیْطَانِ یَوْمَہُ ذَلِکَ حَتَّی یُمْسِیَ وَلَمْ یَأْتِ أَحَدٌ بِأَفْضَلَ مِمَّا جَائَ بِہِ إِلَّا أَحَدٌ عَمِلَ أَکْثَرَ مِنْ ذَلِکَ)) ’’ جس نے دن میں سو بار یہ کہا: لاإلہ إلا اللّٰه وحدہ لا شریک لہ ، لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شیء قدیر اسے دس افراد (غلام یا لونڈیاں)آزاد کرنے کا ثواب ملے گا اور س کے سو نیکیاں لکھی جائیں گی اور اس کے سو گناہ معاف ہوجائیں گے اور وہ اس دن شام تک شیطان سے محفوظ رہے گا اور اس کیس کام عمل افضل نہیں ہوگا ، سوائے اس شخص کے جس نے اس سے زیادہ کیا ہو۔‘‘[2] یہ حدیث بخاری اور مسلم دونوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔ صحیح مسلم میں یہ الفاظ بھی ہیں: ((مَنْ قَالَ سُبْحَانَ اللّٰه وَبِحَمْدِہِ فِی یَوْمٍ مِائَۃَ مَرَّۃٍ حُطَّتْ خَطَایَاہُ وَإِنْ کَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ )) ’’ جو شخص دن میں سو بار سبحان وبحمدہ کہے گا اس کی غلطیاں معاف ہو جائیں گی اگر چہ سمندر کی جھاگ کی طرح ہوں‘‘ صحیحین میں حضرت ابو ایوب انصاری سے ر وایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ قَالَ لاَ إِلٰہَ إِلَّا وَحْدَہُ لَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلَّ شَیْئٍ قَدِیرٌ فِی یَوْمٍ مِائَۃَ مَرَّاتٍ کَانَ کَمَنْ أَعْتَقَ أَرَبَعَۃَ أَنْفُسٍ مِنْ وُلْدِ إِسْمَاعَیلَ)) ’’ جو شخص دس دفعہ یہ کہے: لا الہ اللّٰه وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شی قدیرo وہ ایسے ہے گویا کہ اس نے اولاد اسماعیل علیہ السلام میں سے چار افراد کو آزاد کیا۔‘‘ وَبِاللّٰہِ التَّوفَیقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہِ وَصَحھبِہِ وَسَلَّمَ اللجنۃ الدائمۃ ، رکن : عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان ، نائب صدر : عبدالرزاق عفیفی، صدر : عبدالعزیز بن باز۔ ٭٭٭ فتاوی ابن باز ( ج ۲ ص ۳۲۸، ۳۲۹، ۳۳۰ ) #B200301 ID: B200301 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
tohfa-e-qalandar · 3 years
Photo
Tumblr media
بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم و رحمتہ اللہ حضرت محمد بن اسماعیل خیر النساج رحمتہ اللہ علیہ کا شمار اکابر مشائخ میں ہوتا ہے۔آپ کی عمر دراز تھی اور نکات معرفت بیان کرنے میں صاحب کمال تھے۔حضرت سید علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں کہ آپ کے لقب خیر النساج کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ اپنے وطن سے حج کو براستہ سامرہ روانہ ہوئے تو کوفہ پہنچے۔کوفہ کے دروازہ پر ایک پارچہ باف( جولاہا) نے آپ کو پکڑ لیا کہ تو میرا گمشدہ نوکر ہے۔جس کا نام خیر تھا۔ آپ نے یہ حق تعالی سے سمجھا اور اس کی غلامی کو قبول کر لی اور مدت تک اس کی خدمت کرتے رہے ۔جب بھی وہ خیر کہہ کر بلاتا تھا۔آپ فوراً جی حضور کہہ کر جواب دیتے۔حتٰی کہ وہ آدمی اپنے کئے پر پشیمان ہوا اور اپنی غلطی کا اعتراف کر کے ان کو رہا کر دیا۔اس کے بعد آپ مکہ مکرمہ پہنچے اور بلند مقامات حاصل کئے یہاں تک کہ حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ جیسے بلند پایہ بزرگ بھی فرمایا کرتے تھے کہ وہ خیر میں سب سے اچھا ہے۔ اور آپ بھی اس نام کو بہت پسند فرماتے تھے اور یوں کہتے تھے کہ جب ایک مُسلمان نے میرا نام خیر رکھا ہے تو میرے لئے روا نہیں کہ اسے ترک کروں۔ خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را قلندر بابا بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا “ وہ ہمارے کام میں مداخلت نہیں کرتا ہم اس کے کام میں مداخلت نہیں کرتے” محبت الہیہ کا غلبہ ہی اس نقطے کی حقیقت کو روشن کرتا ہے کہ ہر شے منجانب اللہ ہے۔جیسا کہ حضرت سید علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ کے مُرشد طریقت شیخ ابو الفضل محمد بن حسن خطلی رحمتہ اللہ علیہ نے پردہ کرنے سے پہلے حضرت علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ کو فرمایا” میں تجھے ایک بات بتاتا ہوں اگر تم نے اس پر عمل کیا تو تمام غموں اور مصیبتوں سے نجات پاؤ گے۔اس بات کا پختہ یقین کر لو کہ دُنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جس جگہ ہو رہا ہے سب اللہ تعالی کی طرف سے ہو رہا ہے۔تجھے چاہئیے کہ اللہ کے کسی فعل کی نکتہ چینی نہ کرے اور نہ ہی اس سے رنجیدہ خاطر ہو۔ گویا گلہ ، شکوہ ، اعتراض ان سے اعراض ضروری ہے اور اللہ کے احکامات کی پیروی لازم ہے۔قلندر بابا بخاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے اللہ پاک کو مُسکراتے چہرے پسند ہیں” ہر مشکل اور آسانی میں ہر چیز کو منجانب اللہ گردان کر مشکل کو برداشت کرکے چہروں پر مُسکراہٹ رکھنا ضروری ہے۔اور قلبی مُسکراہٹ کے لیے اندر کی اخلاقی گراوٹ کو ختم کرنا ضروری ہے تاکہ ہمارا اندر اور باہر ایک جیسا ہو جائے۔سورہ الرحمن سُننے سے دل کی تاریکی کم ہونے کے ساتھ ساتھ نفس کی گرفت اور سر کشی بھی ختم ہوتی ہے۔قرآن رحمت کا سر چشمہ ہے۔ https://www.instagram.com/p/CXDjrGYDy9M/?utm_medium=tumblr
0 notes
islamiclife · 3 years
Text
حقیقی کامیابی
حسبِ سابق اس دفعہ بھی عید قربان اپنے جلو میں بہت سی خوشیوں کو لے کر آئی اور لوگوں کی بڑی تعداد نے اپنی اپنی بساط کے مطابق مختلف جانوروں کو اللہ کی راہ میں قربان کیا۔ دنیا بھر میں لاکھوں کی تعداد میں اونٹ، گائے، بکرے اور چھترے ذبح کیے گئے۔ عید کے دنوں میں لوگوں نے خود بھی گوشت کھایا، اپنے دوست‘ احباب کو بھی کھلایا اور اپنی اپنی حیثیت اور وسائل کے مطابق غریبوں، مساکین اور یتامیٰ کی بھی مدد کی۔ عید قربان کے موقع پر ہر سال دنیا بھر میں عالمِ اسلام کے ساتھ ساتھ غیر مسلم ممالک میں بسنے والے مسلمان بھی سنتِ ابراہیمی ؑ کا بھر پور طریقے سے التزام کیا جاتا ہے اور ان علاقوں میں بسنے والے مسلمان پورے جوش وجذبے سے عید قربان مناتے ہیں۔ عید قربان سے قبل عیدالفطر کے موقع پر بھی ہر سو خوشیاں پھیلی ہوئی نظر آتی ہیں لیکن اس بات کا مشاہدہ کرنا کچھ مشکل نہیں کہ عیدین کے موقع پر جس جذبے اور احساس کا تقاضا اُمت مسلمہ سے کیا جاتا ہے‘ وہ جذبہ، احساس اور عزم انسانوں میں کماحقہٗ نظر نہیں آتا۔ رمضان المبارک کا مہینہ نزولِ قرآن کی یادگار ہے اور اس موقع پر روزوں کا التزام کر کے تقویٰ کے حصول کی جستجو کی جاتی ہے اور روزوں کی تکمیل پر عیدالفطر کی خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ 
اسی طرح ایام ذی الحجہ میں عبادات کی خصوصی اہمیت ہے۔ یومِ عرفہ تکمیلِ دین کی یادگار ہے اور اس موقع پر لاکھوں کی تعداد میں لوگ حج کر کے اللہ تبارک و تعالیٰ کی بندگی کا التزام کرتے ہیں۔ ایام ذی الحجہ کے دوران دنیا بھر میں باعمل مسلمان اللہ تبارک وتعالیٰ کی پورے انہماک اور توجہ سے عبادت کرتے ہیں اور حاجی حج کے مناسک کی ادائیگی اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کو بجا لانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ ان عبادات کے بعد عید الاضحی یا یوم النحر خوشی کا ایک عظیم الشان موقع ہوتا ہے اور اس موقع پر بھی انسانوں کو درحقیقت اس بات کی رغبت دلائی جاتی ہے کہ وہ اس سوچ و فکر کو اپنے دل و دماغ میں راسخ کریں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کو جانوروں کے کاٹے جانے والے گوشت اور بہائے جانے والے لہو کی ضرورت نہیں بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کے دلوں میں پایا جانے والا تقویٰ دیکھتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی توحید کے لیے بہت سی قربانیاں دیں، آپؑ نے جوانی میں بت کدے میں کلہاڑا چلایا، دربارِ نمرود میں صدائے توحید بلند کی، اجرام سماویہ کی بے بسی کو واضح فرمایا۔ 
اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا کے لیے محبتوں کی بہت سی قربانیاں دیں اور اللہ کے حکم پر سیدہ ہاجرہؑ کو اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے وادیٔ بے آب وگیاہ میں چھوڑ دیا جہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے لیے آب زم زم، پاکیزہ رزق اور انسانوں کی ہمسائیگی کا بہترین انداز میں بندوبست فرما دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کی ایک انتہائی بڑی قربانی سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری چلانے کے لیے آمادہ و تیار ہو جانا تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس ادا کو اس انداز میں قبول و منظور فرمایا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ جنت کے مینڈھے کو ذبح کروا دیا اور رہتی دنیا تک کے لیے آپ کی اس خوبصورت ادا کو مجسم کر دیا۔ آج جس وقت اُمت مسلمہ جانوروں کو ذبح کرتی ہے تو انہیں اس امر پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم فقط اس رسم کو ادا کر رہے ہیں یا حقیقی طور پر اپنے دل، دماغ اور جوارح کے اوپر اس احساس اور جذبے کو بھی طاری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس جذبے اور احساس کے ساتھ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری چلانے کا پختہ عزم فرمایا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت اس تقویٰ، جذبے، احساس کے حصول میں کماحقہٗ کامیاب نہیں ہو پاتی اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد قربانی کو فقط ایک رسم کے طور پر ادا کرتی ہے۔ حالانکہ حقیقت میں رمضان المبارک کے روزے ہوں یا ایام ذی الحجہ کی عبادات‘ اور ان کے بعد عید الفطر اور عید الاضحی کے تہوار‘ ان کا اصل اور حقیقی مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ تقویٰ درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت کو اختیار کرتے ہوئے ان امور سے اجتناب کا نام ہے جن سے اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا ہو۔ تقویٰ کی غیر معمولی اہمیت کئی احادیث مبارکہ سے واضح ہوتی ہے جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ مسند احمد میں ابو نضرہ سے مروی ہے کہ ایام تشریق کے وسط میں رسول اللہﷺ کا خطبہ سننے والے صحابی نے اس کو بیان کیا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''اے لوگو! خبردار! بیشک تمہارا ربّ ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے‘ کسی عربی کو عجمی پر‘ کسی عجمی کو عربی پر‘ کسی سرخ کو سیاہ فام پر اور کسی سیاہ فام کو کسی سرخ پر کوئی برتری حاصل نہیں ہے‘ مگر تقویٰ کی بنیاد پر‘ کیا میں نے پیغام پہنچا دیا ہے؟‘‘ صحابہ نے کہا: ''اللہ کے رسول نے پیغام پہنچا دیا ہے‘‘۔
2۔ مسند احمد میں سیدنا ابوذرؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''غور کر‘ تو کسی سرخ یا سیاہ فام سے بہتر نہیں ہے‘ الّا یہ کہ تو اس پر تقویٰ کی برتری رکھتا ہو‘‘۔ 
3۔ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نبی کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ دعا کیا کرتے تھے: ''اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت‘ تقویٰ اور عفت و تونگری کا سوال کرتا ہوں‘‘۔
4۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جس نے میری اطاعت کی‘ اس نے اللہ کی اطاعت کی‘ جس نے میری نافرمانی کی‘ اس نے اللہ کی نافرمانی کی‘ جس نے امیر کی اطاعت کی‘ اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی‘ اس نے میری نافرمانی کی اور امام ڈھال ہے‘ اس کے زیر سایہ قتال کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعے بچا جاتا ہے‘ اگر اس نے اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا اور عدل کیا تو اس وجہ سے اس کے لیے اجر ہے‘ اور اگر اس نے اس کے علاوہ کچھ کہا تو اس کا گناہ اس پر ہو گا‘‘۔ جب انسان حقیقی معنوں میں متقی بن جاتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اسے دنیا اور آخرت میں سربلند فرما دیتے ہیں۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 189 میں اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں: '' اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پا جاؤ‘‘۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تقویٰ کے نتیجے میں بہت سی کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
1۔ حق اور باطل میں فرق کرنے کی صلاحیت: جو شخص تقویٰ کو اختیار کر لیتا ہے‘ اللہ تبارک وتعالیٰ اس میں نیکی اور بدی کے درمیان امتیاز کرنے کی صلاحیت پیدا فرما دیتے ہیں؛ چنانچہ سورہ انفال کی آیت نمبر 29 میں ارشاد ہوا: ''اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرو گے (تو) وہ بنا دے گا تمہارے لیے (حق اور باطل میں) فرق کرنے کی (کسوٹی) اور دور کر دے گا تم سے تمہاری برائیاں اور بخش دے گا تمہیں اور اللہ بڑے فضل والا ہے‘‘۔
2۔ گناہوں کی معافی: تقویٰ کو اختیار کرنے کی وجہ سے اللہ تبارک و تعالیٰ انسانوں کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ سورہ طلاق کی آیت نمبر 5 میں ارشاد ہوا: ''اور جو اللہ سے ڈرے گا (تو) وہ دور کر دے گا‘ اُس سے اُس کی برائیاں اور وہ زیادہ دے گا اُس کو اجر‘‘۔
3۔ معاملات میں آسانی: اللہ تبارک و تعالیٰ تقویٰ اختیار کرنے والوں کے معاملات کو آسان بنا دیتے ہیں؛ چنانچہ سورہ طلاق کی آیت 4 میں ارشاد ہوا: ''اور جو اللہ سے ڈرے گا (تو) وہ کر دے گا اُس کے لیے‘ اس کے کام میں آسانی‘‘۔
4۔ تنگیوں سے نجات اور رزق کی فراہمی: قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تقویٰ اختیار کرنے والوں کی تنگیاں دور ہو جاتی ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ ان کو رزق وہاں سے دیتے ہیں‘ جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کر سکتے؛ چنانچہ سورہ طلاق کی آیت نمبر 2 اور 3 میں ارشاد ہوا: ''اور جو اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ بنا دیتا ہے اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا کوئی راستہ۔ اور وہ رزق دیتا ہے اُسے‘ جہاں سے وہ گمان نہیں کرتا‘‘۔ مذکورہ بالا آیات سے اس بات کو جانچنا کچھ مشکل نہیں رہتا ہے کہ درحقیقت تقویٰ کے حصول کے نتیجے میں انسان دنیا و آخرت کی بہت سی کامیابیوں کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ چنانچہ عید قربان کے موقع اور اس کے بعد سارا سال ہمیں تقویٰ کے حصول کے لیے جستجو کرتے رہنا چاہیے اور جس حد تک ممکن ہو تقویٰ کو اپنی زندگیوں میں داخل کرتے رہنا چاہیے۔ جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ تغابن کی آیت نمبر 16 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''پس تم ڈرو اللہ سے جتنی تم طاقت رکھتے ہو اور (اللہ کے احکام کو) تم سنو اور حکم مانو اور (اللہ کی راہ میں) تم خرچ کرو (یہ) تمہارے نفسوں کے لیے بہتر ہو گا اور جو بچا لیا گیا اپنے نفس کے بخل (یا حرص) سے تو وہی (لوگ) کامیاب ہونے والے ہیں‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو تقویٰ والی زندگی اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ تاکہ ہم دنیا اور آخرت میں کامیاب و کامران ہو سکیں، آمین!
علامہ ابتسام الہٰی ظہیر
0 notes
minhajbooks · 1 year
Text
Tumblr media
🔰 عاشقوں کا سفر رِحْلَۃُ الْعَاشِقِیْن إِلَی الْبَلَدِ الْمُبَارَکِ الْأَمِیْن
اپنی طرز کی اس انوکھی تصنیف میں مخفی تاریخی حقائق کو عمیق مطالعہ کے ساتھ منظرِ عام پر لایا گیا ہے۔ اس کتاب میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ روئے زمین پر مکہ مکرمہ واحد شہر ہے جس کی طرف انبیاء کرام علیھم السلام، ملائکہ اور جن و انس میں سے زمین سے آسمان تک کے تمام نیک بندوں نے سفر کیا ہے۔ جن اولو العزم انبیاء کرام علیھم السلام نے مکہ مکرمہ کی طرف سفر کیا، ان میں سیدنا آدم، سیدنا نوح، سیدنا ابراہیم، سیدنا اسماعیل، سیدنا موسی، سیدنا یونس، سیدنا ہود، سیدنا صالح، سیدنا شعیب اور سیدنا عیسیٰ علیھم السلام جیسے جلیل القدر پیغمبران بھی شامل ہیں۔ اس کتاب میں ثابت کیا گیا ہے کہ تمام انبیاء کرام علیھم السلام اپنی حیاتِ مقدسہ میں مکہ مکرمہ ایک بار نہیں بلکہ بارہا مرتبہ آتے رہے ہیں۔ قابلِ ذکر بات ہے کہ انبیاء کرام علیھم السلام کی بڑی تعداد یہیں مستقل قیام پذیر رہی اور یہیں آسودۂ خاک ہوئے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو مستند روایات سے صرف رکن، مقامِ اِبراہیم اور مقامِ زَمزم کے درمیان ایک ہزار (1,000) کے لگ بھگ انبیاء کرام علیھم السلام مدفون ہیں۔ اس کتاب کا سب سے اہم اور مرکزی نکتہ یہ ہے کہ جملہ انبیاء کرام علیھم السلام کے مکہ مکرمہ میں آنے اور یہاں قیام پذیر ہونے کا واحد ��بب یہ آرزو تھی کہ وہ خاتم انبیاء و المرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار کرلیں، ان پر ایمان لائیں، ان کی صحابیت کا شرف حاصل کریں اور ان کے دین متین کی نصرت کر سکیں۔
رِحْلَۃُ الْعَاشِقِیْن إِلَی الْبَلَدِ الْمُبَارَکِ الْأَمِیْن نامی اس تصنیف میں وہ تمام روایات جمع کی گئی ہیں کہ جو سابقہ انبیاء کرام علیھم السلام کی رسولِ مکرم ہادیِ برحق، محسنِ انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کے شوق میں حرم مکہ کی طرف ہجرت، یہاں سکونت اور پھر وہیں ان کی وفات کو ثابت کرتی ہیں۔ تاریخی حقائق پر مبنی یہ تصنیف اردو ادب کے دینی سرمائے میں بیش قدر اضافہ ہے۔
اس کتاب کے درج ذیل ابواب ہیں
🔹 مکہ مکرمہ کی حرمت کا حکم اور اس کی بے حرمتی کی ممانعت 🔹 رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مکہ مکرمہ سے شدید محبت 🔹 کعبۃ اللہ کی عظمت اور اس کی تعظیم و تکریم 🔹 سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام کا حجِ بیت اللہ اور طواف کعبہ کے لیے سفر 🔹 ستر انبیاء کرام علیہم السلام کا حجِ کعبہ اور ان سب کا مسجد الخیف اور مسجد روحاء میں نماز ادا کرنا 🔹 مسجد خیف میں ستر انبیاء کرام علیہم السلام مدفون ہیں 🔹 وادی سرر میں ستر انبیاء کرام علیہم السلام مدفون ہیں 🔹 مکہ مکرمہ میں موت کی فضیلت 🔹 کعبۃ اللہ کے ارد گرد (مطاف کعبہ میں) تین سو انبیاء کرام علیہم السلام مدفون ہیں، جبکہ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان ستر انبیاء کے مقابر ہیں 🔹 حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کی وفات اور ان کی قبور 🔹 حضرت اسماعیل اور حضرت ہاجرہ علیہما السلام کی قبور حطیم کعبہ کے اندر ہیں 🔹 صحنِ کعبہ میں حجرِ اَسود، مقامِ ابراہیم اور مقامِ زمزم کے درمیان 99 انبیاء کرام علیہم السلام مدفون ہیں : حضرت نوح، ہود، شعیب، صالح اور اسماعیل علیہم السلام بھی انہی میں سے ہیں 🔹 حطیم میں ننانونے (99) انبیاء کرام علیہم السلام مدفون ہیں 🔹 رکن، مقامِ اِبراہیم اور مقامِ زمزم کے درمیان مجموعی طور پر ایک ہزار (1000) کے قریب انبیاء کرام علیہم السلام مدفون ہیں
مصنف : شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری زبان : اردو صفحات : 200 قیمت : 360 روپے
🌐 پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں https://www.minhajbooks.com/urdu/book/587/Aashiqon-ka-Safar
💬 خریداری کیلئے رابطہ کریں https://wa.me/9203097417163
0 notes
asraghauri · 3 years
Text
اللہ کا گھر بسانے والا جوڑا،ابراہیم وہاجرہ - عصمت اسامہ
اللہ کا گھر بسانے والا جوڑا،ابراہیم وہاجرہ – عصمت اسامہ
بیت اللہ شریف ،امت مسلمہ کی عبادت کا مرکز و محور ہے۔ ہر سال دور دراز سے لوگ یہاں حج و عمرہ کی ادائیگی کے لئے آتے ہیں۔ ذوالحجہ کا مقدس مہینہ نہ صرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کی رب سے وفا شعاری کی یاد دلاتا ہے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام جیسے فرمانبردار بیٹے کے اسوہ کی روشن مثال ہے بلکہ یہ حضرت ہاجرہ جیسی عظیم مومن بیوی اور ممتا کی گہری تڑپ اور سعی کی علامت بھی ہے۔ یہ عالی شان گھرانہ ،جس نے کعبۃ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
islam365org · 3 years
Text
New Post has been published on Islam365
https://islam365.org/hadith-and-naat-collection/hadith-articles-muhammad-ismail-salafi/
Hadith Articles by Muhammad Ismail Salafi
#1196
مصنف : محمد اسماعیل سلفی
مشاہدات : 22527
مقالات حدیث
ڈاؤن لوڈ 1
مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات متنوع صفات کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ عالم اسلام کےعلمی حلقے ان کے قلم کی روانی سے بخوبی آگاہ ہیں۔ پیش نظر کتاب مولانا کے ان مضامین کا مجموعہ ہے جوانھوں نے حدیث کا دفاع کرتے ہوئے لکھے جن میں حجیت حدیث، حجیت اخبار آحاد، کتابت حدیث، اصول محدثین اور ان کے اصول فقہا سے مقارنہ جیسے علمی موضوعات شامل ہیں۔ حافظ شاہد محمود ہدیہ تبریک کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اس قدر علمی مواد کو یکجاکتابی شکل میں نہ صرف پیش کیا بلکہ مکمل تحقیق و تخریج بھی کر دی۔ پہلا مضمون امام بخاری ؒ  کے مسلک پر مشتمل ہے جس میں امام صاحب کے منہج و مسلک کا غائرانہ جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ دوسرا مضمون حدیث شریف کا مقام حجیت پر ہے جس میں حدیث نبوی کامقام تشریع واحتجاج بیان فرمایا ہے۔ تیسرا مضمون ’حدیث علمائے امت کی نظر میں‘ کے عنوان سے ہے جس میں قرآن و حدیث اور دیگر شواہد کے ساتھ علمائے امت کے نزدیک حدیث نبوی کا مقام و مرتبہ فرمایا ہے۔ اسی طرح جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث اورمدیر فاران کراچی، حضرت ابراہیم علیہ السلام  کے کذبات ثلاثہ، عجمی سازش کا فسانہ جیسے متعدد…
0 notes
maqsoodyamani · 3 years
Text
قربانی ہدیۂ تشکر اور گُناہوں کی بخشش کا ذریعہ!
قربانی ہدیۂ تشکر اور گُناہوں کی بخشش کا ذریعہ!
قربانی ہدیۂ تشکر اور گُناہوں کی بخشش کا ذریعہ! —— ازقلم۔ محمد عسجد رضا مصباحی صدر۔تحریک اصلاح معاشرہ، گڈا، جھارکھنڈ رابطہ نمبر۔ 8887716039 ——    حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا واقعہ تاریخ انسانی کا ایسا بے مثال اور شاندار باب ہے جس کا تذکرہ قرآن حکیم میں بڑے اہتمام سے کیا گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں حکم ہوا کہ اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ہمارے لئے قربان کردیں۔ حضرت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
asimhanif · 2 years
Video
instagram
*اللہ سے محبت ہو تو زندگی قربان کرنے کا جذبہ آ ہی جاتا ہے.. ہم تو محبت کا دعویٰ کرتے ہیں۔۔۔ نہ نیند قربان کرتے ہیں کہ اس رب کے آگے جھک جائیں , نہ وقت نکالتے ہیں کہ قرآن سمجھ لیں.. نہ اخلاق بدلتے ہیں کہ رب راضی ہو جائے.. یہ ہماری کیسی محبت ہے؟؟؟؟ ہاں* محبت کرنی ہے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی طرف دیکھیں.... سب قربان کرنے کے لئے تیار تھے ..کبھی اہل و عیال, کبھی گھر, کبھی *محبتیں سب اللہ کی خاطر قربان... پر جانتے ہیں بدلے میں کیا ملا... اللہ کی طرف سے سلامتی کی بشارت,* *اللہ کی محبت, اللہ کی دوستی.... ہاں قربانی سے ہی تو قرب ملتا ہے...* *اطیعواللہ واطیعوالرسول* ❣️ https://www.instagram.com/p/CcfUECrAgw_/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes