#جلسوں
Explore tagged Tumblr posts
Text
پی ٹی آئی کی احتجاج اور جلسوں میں ناکامی عمران خان فرسٹریشن کا شکار
(ویب ڈیسک) تجزیہ نگاروں کی نظر میں پی ٹی آئی احتجاج اور جلسوں کا تو اعلان کر دیتی ہے مگر کوئی جلسہ کوئی احتجاج ڈھنگ سے نہیں کر پارہی۔جس کی وجہ سے بانی پی ٹی آئی میں فرسٹریشن بڑھتی چلی جارہی ہے۔پارٹی میں اِس قدر تقسیم ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو سمجھ ہی نہیں آرہا کہ وہ کس پر بھروسہ کریں اور کس پر بھروسہ نہ کریں اور جس پر بھروسہ کرتے ہیں وہ اُنہیں دھوکہ دے دیتا ہے۔ بانی پی ٹی آئی راولپنڈی کا…
0 notes
Text
پی ٹی آئی کی احتجاج اور جلسوں میں ناکامی عمران خان فرسٹریشن کا شکار
(ویب ڈیسک) تجزیہ نگاروں کی نظر میں پی ٹی آئی احتجاج اور جلسوں کا تو اعلان کر دیتی ہے مگر کوئی جلسہ کوئی احتجاج ڈھنگ سے نہیں کر پارہی۔جس کی وجہ سے بانی پی ٹی آئی میں فرسٹریشن بڑھتی چلی جارہی ہے۔پارٹی میں اِس قدر تقسیم ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو سمجھ ہی نہیں آرہا کہ وہ کس پر بھروسہ کریں اور کس پر بھروسہ نہ کریں اور جس پر بھروسہ کرتے ہیں وہ اُنہیں دھوکہ دے دیتا ہے۔ بانی پی ٹی آئی راولپنڈی کا…
0 notes
Text
عام انتخابات اور عوامی لاتعلقی
عام انتخابات کے انعقاد میں گ��تی کے دن باقی ہیں لیکن سوشل میڈیا کے علاوہ گرا��ٔنڈ پر عام انتخابات کا ماحول بنتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ کسی بڑی سیاسی جماعت کو جلسے کرنے کی جرات نہیں ہو رہی اور اگر کوئی بڑا سیاسی لیڈر جلسہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے عوامی سرد مہری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور میاں نواز شریف جیسا سینئر سیاستدان اپنی تقریر 20 منٹ میں سمیٹتے ہوئے وہاں سے نکل جانے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ اگرچہ بعض جگہوں پر بلاول بھٹو اور مریم نواز جلسے منعقد کر رہے ہیں لیکن وہاں کی رونق ماضی کے انتخابی جلسوں سے یکسر مختلف ہے۔ پاکستان کا مقبول ترین سیاسی لیڈر اس وقت پابند سلاسل ہے اور اس کی جماعت کو جلسے کرنے کی اجازت نہیں جبکہ عوام اسی کی بات سننا چاہتے ہیں۔ جبکہ جنہیں 'آزاد چھوڑ دیا گیا ہے انہیں جلسے کرنے کی آزادی تو ہے لیکن عوام ان کی بات پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں۔ کراچی سے لے کر خیبر تک سنسان انتخابی ماحول ہے تقریریں ہیں کہ بے روح اور عوام ہیں کہ لا تعلق۔
اس لاتعلقی کی متعدد وجوہات ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تحریک انصاف کے خلاف جاری کریک ڈاؤن ہے۔ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کر دیا اور ان کے نامزد ام��دواروں کو بغیر نشان کے انتخابات لڑنے پر مجبور کیا گیا۔ ایک مرتبہ پھر وہی عمل دہرایا گیا جو 2017 میں میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کے ساتھ کیا گیا تھا۔عمران خان اور ان کے اہم ساتھی مقدمات کی وجہ سے سلاخوں کے پیچھے ہیں اور وہ 9 مئی سمیت متعدد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان اقدامات نے نہ صرف انتخابات کو متنازع بنا دیا ہے بلکہ انہیں عوام سے بھی دور کر دیا ہے۔ دوسری بڑی وجہ گزشتہ دو سال سے جاری شدید معاشی بحران ہے۔ شہباز حکومت نے عوام کی بنیادی استعمال کی چیزوں اور اشیاء خورد و نوش عوام کی پہنچ سے دور کر دیے تھے اور ان اقدامات کا نتیجہ یہ ہے کہ عام آدمی بجلی کا بل بھی ادا کرنے سے قاصر ہے۔ بیشتر عوام اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے میں مصروف ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ انتخابات ہوتے ہیں یا نہیں اگلی حکومت کون بناتا ہے، حکومت کا اتحادی کون کون ہو گا اور اپوزیشن کس کا مقدر ٹھہرے گی۔
انہیں تو اس بات سے غرض ہے کہ ان کے بچے کھانا کھا سکیں گے یا نہیں، وہ اپنے بچوں کی فیسیں ادا کر سکیں گے یا نہیں۔ شہباز حکومت کے اقدامات کے باعث آج معیشت اوندھے منہ پڑی ہے۔ ملازم پیشہ افراد اپنی ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے ایک سے زائد جگہوں پر ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں۔ کاروباری طبقہ جو پہلے ہی بے ہنگم ٹیکسوں کی وجہ سے دباؤ کا شکار تھا عوام کی کمزور ہوتی معاشی حالت نے اس کی کمر بھی توڑ کے رکھ دی ہے۔ مالی بد انتظامی اور سیاسی عدم استحکام نے معیشت کی ڈوبتی کشتی پر بوجھ میں اضافہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ معاشی دلدل میں دھنستی جا رہی ہے جس کے براہ راست اثرات عوام پر منتقل ہو رہے ہیں۔ نگراں حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی ہے لیکن بدانتظامی کے باعث اس کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ رہے۔ ذرائع نقل و حمل کے کرایوں میں کمی نہیں آئی نہ ہی بازار میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ جس کے باعث عوامی بیزاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو انہیں انتخابات اور انتخابی عمل سے دور کر رہا ہے۔
میری دانست میں اس کی تیسری بڑی وجہ ریاستی اداروں اور عام آدمی کے مابین اعتماد کا فقدان ہے عوام اس بات پر توجہ ہی نہیں دے رہے کہ آٹھ فروری کے انتخابات میں کون سی جماعت زیادہ نشستیں حاصل کرے گی کیونکہ ایک تاثر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آپ جس کو چاہیں ووٹ دیں ایک مخصوص سیاسی جماعت کو ہی اقتدار کے منصب پر فائز کیا جائے گا۔ اس عدم اعتماد کے باعث بھی عوام اس انتخابی مشق سے لا تعلق نظر آتے ہیں۔ رہی سہی کسر الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کی گئی ووٹر لسٹوں نے پوری کر دی ہے۔ ان ووٹر لسٹوں میں بد انتظامی اور نالائقیوں کے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کے ووٹ ماضی میں قائم کردہ پولنگ اسٹیشن پر موجود ہیں۔ ووٹر لسٹوں میں غلطیوں کی بھرمار ہے، ایک وارڈ کے ووٹ دوسرے وارڈ کے پولنگ اسٹیشن پر شفٹ کر دیے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کا سسٹم ابھی سے بیٹھ گیا ہے اور مخصوص نمبر پر کیے گئے میسج کا جواب ہی موصول نہیں ہوتا۔
ووٹر لسٹیں جاری ہونے کے بعد امیدواروں اور ان کے انتخابی ایجنٹوں میں عجیب بے چینی اور مایوسی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ شہروں میں ووٹر لسٹوں کی یہ کیفیت ہے تو دیہات میں کیا حال ہو گا۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ روزانہ انتخابات کے حوالے سے نت نئی افواہوں کا طوفان آ جاتا ہے جو امیدواروں کو بددل کرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں غیر یقینی کی کیفیت پختہ کر دیتا ہے۔ اور پھر یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر ایک مخصوص گروہ کو انجینئرنگ کے ذریعے اقتدار پر مسلط کر بھی دیا گیا تو کیا وہ عوام کے دکھوں کا مداوا کر بھی سکے گا؟ عوام کی مشکلات کم کرنے کے لیے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کی اشد ضرورت ہے جس میں تمام جماعتوں کو انتخاب میں حصہ لینے کے مساوی مواقع میسر ہوں اور ساتھ ساتھ ووٹر لسٹوں میں پائی جانے والی غلطیوں بے ضابطگیوں اور نالائقیوں کے مرتکب افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔عوام کو ان کے جمہوری حق کے استعمال سے محروم کرنے کی سازش اگر کامیاب ہو گئی تو یہ ملک کے جمہوری نظام کے لیے اچھا شگون نہیں ہو گا۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
#Imran Khan#Pakistan#Pakistan Election 2024#Pakistan Politics#Pakistan Tehreek-e-Insaf#Politics#PTI#World
4 notes
·
View notes
Text
Regional Urdu Text Bulletin, Chatrapati Sambhajinagar
Date: 12 November-2024
Time: 09:00-09:10 am
آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر
علاقائی خبریں
تاریخ: ۲۱/ نومبر ۴۲۰۲ء
وقت: ۰۱:۹-۰۰:۹
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں:
٭ وزیرِ اعظم نریندر مودی اور کانگریس قائد راہل گاندھی کے آج ریاست کے مختلف مقامات پر تشہیری اجتماعات۔
٭ رائے دہندگان میں بیداری پیدا کرنے کیلئے ”سویپ“ پروگرام کے تحت ریاست بھر میں چتررَتھ روانہ؛ ووٹنگ کے فیصد میں اضافے کیلئے مختلف اقدامات۔
٭ کارتِکی ایکادشی کے سلسلے میں پنڈھرپور میں مرکزی سرکاری پوجا کا انعقاد۔
اور۔۔۔٭ خواتین کے ایشیائی ہاکی چمپئن شپ میں بھارت کی افتتاحی مقابلے میں ملیشیاء کے خلاف چار- صفر سے فتح۔
***** ***** *****
اب خبریں تفصیل سے:
بی جے پی کے رہنماء‘ وزیرِ اعظم نریندرمودی آج ریاست کے چیمبور‘ شولاپور اور پونہ میں ہونے والے تشہیری جلسوں سے خطاب کریں گے۔ مرکزی وزیرِ داخلہ اور بی جے پی رہنماء امیت شاہ آج ممبئی میں پارٹی کے دو انتخابی جلسوں میں شرکت کریں گے‘ جبکہ کانگریس رہنماء راہل گاندھی چکھلی اور گوندیا اسمبلی حلقوں میں پارٹی امیدواروں کی انتخابی تشہیر کیلئے ہونے والے جلسوں سے خطاب کریں گے۔
***** ***** *****
انتخابی تشہیر کیلئے شیوسینا رہنماء وزیرِ اعلیٰ ایکناتھ شندے نے کل چھترپتی سمبھاجی نگر ضلع کے کنڑ حلقہئ انتخاب سے مہایوتی کی امیدوار سنجنا جادھو اور ویجاپور میں مہایوتی کے امیدوار رمیش بورنارے کی حمایت میں تشہیری مہم میں حصہ لیا۔ ویجاپور کے جلسہئ عام میں وزیرِ اعلیٰ نے کہا کہ لوک سبھا انتخابات میں شیوسینا نے اپنی طاقت دکھادی ہے اور اسمبلی انتخابات میں بھی ریکارڈ کامیابی حاصل کرنے کا اعتماد انھوں نے ظاہر کیا۔ انھو ں نے کہا کہ اُن کی شیوسینا نے لوک سبھا انتخابات میں مخالف محاذ سے دو لاکھ سات ہزار ووٹ زیادہ حاصل کیے تھے اور اب اسمبلی میں نئے ریکارڈ قائم کریں گے۔
***** ***** *****
اسمبلی انتخابات کے حوالے سے چھترپتی سمبھاجی نگر میں کل بی جے پی کی جانب سے اخباری کانفرنس منعقد کی گئی‘ جس میں رُکنِ پارلیمان ڈاکٹر بھاگوت کراڑ اور اورنگ آباد مشرق حلقے کے امیدوار اتل ساوے نے مہایوتی کے دورِ اقتدار میں شہر میں کیے گئے ترقیاتی کاموں کی تفصیلات پیش کیں۔ بھاگوت کراڑ نے بتایا کہ 14 تاریخ کو وزیرِ اعظم نریندر مودی چکل تھانہ میں ایک انتخابی جلسے میں شرکت کریں گے۔ اورنگ آباد وسط حلقے کے مہایوتی کے امیدوار پردیپ ��یسوال کی تشہیر کیلئے کل نکالی گئی پدیاترا میں فلمی اداکار گووندا نے شرکت کی۔ اورنگ آباد مغرب حلقہئ انتخاب میں مہاوِکاس آگھاڑی کے امیدوار راجو شندے نے کل ویدانت نگر‘ کبیر نگر‘ ایکناتھ نگر، حمال واڑی‘ بالانگر اور راہل نگر میں پدیاترا نکالی۔
***** ***** *****
شیوسینا اُدّھو باڑا صاحب ٹھاکرے پارٹی کے سربراہ اُدّھو ٹھاکرے نے کل ایوت محل ضلع کے وانی میں انتخابی اجتماع سے خطاب کیا۔ اپنی تقریر میں انھوں نے سابقہ پنشن اسکیم اور عام مفت تعلیم کے اپنے وعدوں کا اعادہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ خواتین کی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے ریاست میں ہر جگہ ایک علیحدہ پولس اسٹیشن قائم کیا جائیگا‘ جس میں ایک خاتون پولس افسر اور خاتون پولس کانسٹیبل ہوں گے۔ کسانوں کو نقصان سے بچانے کیلئے پانچ اشیائے ضروریہ گندم‘ چاول، شکر، تیل اور دالوں کی قیمتیں پانچ برسوں کیلئے مستحکم رکھی جائیں گی۔ اس کے علاوہ لڑکیوں کی مفت تعلیم کے خطوط پر مہاراشٹر میں پیدا ہونے والے لڑکوں کو بھی مفت تعلیم دی جائیگی۔
***** ***** *****
دھاراشیو میں تلجاپور حلقہئ انتخاب کے مہایوتی کے امیدوار رانا جگجیت سنگھ پاٹل نے کل ایک اخباری کانفرنس میں مہایوتی حکومت کی جانب سے چلائی جارہی مختلف اسکیموں کی تفصیلات پیش کیں۔
***** ***** *****
اسمبلی انتخابات کیلئے مہاراشٹر او بی سی سینا نے شیوسینا کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔ اس تنظیم کے سربراہ شرد بھوور نے کل ممبئی میں منعقدہ ایک اطلاعی کانفرنس میں یہ اعلان کیا۔
***** ***** *****
مرکزی مواصلات بیورو کی جانب سے ریاست کے 14 اضلاع میں کل سے رائے دہندگان بیداری مہم کا آغاز کیا گیا۔ رائے دہندگان کو اپنے حق کا استعمال کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے شہر اور دیہی علاقوں میں آئندہ 10 دِنوں تک یہ تشہیری رتھ گردش کریں گے۔ چھترپتی سمبھاجی نگر میں ضلع کلکٹر دلیپ سوامی کے ہاتھوں سبز جھنڈی دکھاکر اس طرح کا ایک رَتھ روانہ کیا گیا۔ اس موقع پر انھوں نے کہا کہ رائے دہی کا فیصد 75 سے 80 فیصد تک بڑھانے کیلئے یہ چتررَتھ معاون ثابت ہوگا اور ایک بھی ووٹر اپنے حقِ رائے دہی کے استعمال سے محروم نہ رہے اس کیلئے یہ مہم چلائی گئی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ضلع میں اور بالخصوص شہر میں رائے دہی کا تناسب قابلِ تشویش ہے۔ بھارتی شہری کی حیثیت سے ہر ایک کو اس بات کی تشویش ہونا چاہیے کہ رائے دہی کا تناسب اسی طرح کم ہوتا رہا تو جمہوریت کیلئے خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔
***** ***** *****
انتخابات میں خواتین رائے دہندگان کے تناسب میں اضافے کیلئے لاتور کے ضلع کلکٹر اور ضلع انتخابی افسر دفتر‘ سویپ اور دَیانند کالج کے اشتراک سے منعقدہ ایک خصوصی پروگرام میں خواتین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ”اس کی آواز اور اس کی رائے قیمتی ہے“ اس عنوان سے منعقدہ پروگرام میں ضلع کلکٹر ورشا ٹھاکر گھوگے نے خواتین سے بات چیت کی۔ پروگرام میں موجود خواتین نے رائے دہی بیداری کا حلف بھی لیا۔
***** ***** *****
سامعین! اسمبلی انتخابات کے حوالے سے پروگرام ”آڑھاوا وِدھان سبھا متدار سنگھاچا“ روزانہ شام سات بجکر دس منٹ پر آکاشوانی سے نشر کیا جارہا ہے۔ اس پروگرام میں آج پونا ضلع کے حلقہئ انتخاب کا جائزہ آپ سماعت کرسکیں گے۔
***** ***** *****
یہ خبریں آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر سے نشر کی جارہی ہیں۔
***** ***** *****
کارتکی ایکادشی آج منائی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں پنڈھرپور میں شری وِٹھل رُکمنی کی سرکاری مہاپوجا ڈویژنل کمشنر ڈاکٹر چندر کانت پُل کُنڈوار کے ہاتھوں کی گئی۔ ہر سال یہ سرکاری مہا پوجا ریاست کے نائب وزیرِ اعلیٰ کے ہاتھوں کی جاتی ہے۔ تاہم اس برس انتخابی ضابطہئ اخلاق کے پیشِ نظر یہ پوجا انتظامی افسران نے انجام دی۔ اس موقع پر شولاپور کے ضلع کلکٹر کمار آشیرواد‘ شولاپور ضلع پریشد کے سی ای او کلدیپ جنگم موجود تھے۔ کارتکی ایکادشی کے سلسلے میں پیٹھن میں درشن کیلئے جانے والے زائرین کیلئے ایس ٹی کارپوریشن نے مختلف ڈپو سے اضافی بسیں چلانے کا اہتمام کیا ہے۔
***** ***** *****
چھترپتی سمبھاجی نگر ضلع میں پیٹھن اسمبلی حلقے کیلئے گھر سے رائے دہی کے پروگرام کا آغازہوگیا ہے۔ اس کے پہلے دِن کل 900 افراد نے اپنے ووٹ ڈالے۔ ضلع میں کُل 27 ہزار 964 معذوروں اور 577‘ 85 برس سے زائد عمر کے بزرگوں نے گھر ہی سے ووٹ ڈالنے کے متبادل کیلئے اندراج کروایا ہے۔
ناندیڑ لوک سبھا ضمنی انتخاب اور اسمبلی عام انتخاب کیلئے گھر سے ووٹ ڈالنے کے مرحلے کا کل آغاز ہوا۔
ہنگولی ضلع کے بسمت‘ کلمنوری اور ہنگولی حلقوں میں کل 1700 ملازمین نے بذریعہئ ڈاک اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کیا۔
***** ***** *****
لاتور میں انتخابی کمیشن کے فلائنگ اسکواڈ نے کل ضلع پریشد کے داخلی دروازے سے قریب 25 لاکھ روپئے نقد رقم ضبط کرلی۔ انتخابی ریٹرننگ افسر روہنی نرہے- وِروڑے کی رہنمائی میں یہ کارروائی انجام دی گئی۔
ہنگولی میں واشم روڈ پر واقع پیپلز بینک کے احاطے سے ٹووہیلر پر بیگ میں ساڑھے 14 لاکھ روپئے لیکر جانے والے دو افراد کو مقامی کرائم برانچ کے دستے نے حراست میں لے لیا۔
***** ***** *****
خواتین کے ایشیائی ہاکی چمپئن شپ میں کل بھارت نے اپنے افتتاحی میچ میں ملیشیاء کو چار- صفر سے شکست دے دی۔ دوسرے میچوں میں چین نے تھائی لینڈ کو 15 صفر سے شکست دی اور جنوبی کوریا اور جاپان کے مابین مقابلہ دو- دو گول سے برابر رہا۔ بہار کے نالندہ کے راج گیر میں یہ ٹورنامنٹ کھیلا جارہا ہے۔ کل بہار کے وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار کے ہاتھوں چمپئن شپ کے باقاعدہ افتتاح کا پروگرام منعقد ہوا۔
***** ***** *****
جموں یونیورسٹی میں جاری کُل ہند انٹریونیورسٹی تلوار بازی مقابلوں میں چھترپتی سمبھاجی نگر کی ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی کے ابھئے شندے سیبر انفرادی زمرے میں طلائی تمغہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اسی زمرے میں نکھل واگھ نے نقرئی تمغہ جیتا۔ ایپّی زمرے میں یونیورسٹی کے انیل دیوکر‘ مہی�� کورڈے‘ یش واگھ‘ آشیش ڈانگرے‘ اور فائل زمرے میں گورو گوٹے‘ شاکر سیّد‘ رِتوک شندے اور سیّم نروڑے کی کھیلو انڈیا انٹریونیورسٹی مقابلے 2025 کیلئے انتخاب عمل میں آیا ہے۔
***** ***** *****
گرونانک جینتی کے سلسلے میں جنوب وسطی ریلوے نے حضور صاحب ناندیڑ تا بیدر کے درمیان مکمل طور پر نان ریزرویشن خصوصی ٹرین چلانے کا اہتمام کیا ہے۔ ناندیڑ تا بیدر یہ گاڑی 14 نومبر کو ناندیڑ سے صبح ساڑھے آٹھ بجے روانہ ہوکر پربھنی‘ پرلی، لاتور‘ اودگیر‘ بھالکی کے راستے دوپہر چار بجے بیدر پہنچے گی۔ واپسی کے سفر میں یہ گاڑی بیدر سے 16 نومبر کو دوپہر ڈھائی بجے روانہ ہوکر شب ساڑھے گیارہ بجے ناندیڑ پہنچے گی۔
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
آخرمیں اس بلیٹن کی خاص خبریں ایک بار پھر:
٭ وزیرِ اعظم نریندر مودی اور کانگریس قائد راہل گاندھی کے آج ریاست کے مختلف مقامات پر تشہیری اجتماعات۔
٭ رائے دہندگان میں بیداری پیدا کرنے کیلئے ”سویپ“ پروگرام کے تحت ریاست بھر میں چتررَتھ روانہ؛ ووٹنگ کے فیصد میں اضافے کیلئے مختلف اقدامات۔
٭ کارتِکی ایکادشی کے سلسلے میں پنڈھرپور میں مرکزی سرکاری پوجا کا انعقاد۔
اور۔۔۔٭ خواتین کے ایشیائی ہاکی چمپئن شپ میں بھارت کی افتتاحی مقابلے میں ملیشیاء کے خلاف چار- صفر سے فتح۔
***** ***** *****
0 notes
Text
ایبسلوٹلی ناٹ‘ کا جھوٹ بولنےوالوں نےامریکی جھنڈےلہرائے،امیر مقام
وفاقی وزیر امیر مقام نےپی ٹی آئی پرتنقید کرتےہوئے کہا ہے کہ امریکا کے خلاف ایبسلوٹلی ناٹ کا جھوٹا بیانیہ بنانےوالوں نےاسی ملک کےجھنڈے اپنے جلسوں میں لہرائے۔ سینیٹر زاہد خان نےہزاروں ساتھیوں کےہمراہ پاکستان مسلم لیگ (ن)میں شمولیت کا اعلان کیا۔ دیر لوئر میں عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر رہنماسینیٹر زاہد خان کی رہائش گاہ پر عوامی جلسے سےخطاب کرتے ہوئے امیر مقام نے کہاکہ سینیٹر زاہد خان، ان کے بھائی،…
0 notes
Text
پریس ریلیز
*کاہنہ میں غنڈہ گردی کے بعد پی ٹی آئی نے راولپنڈی پر یلغار کرنے کی ناکام کو شش کی: عظمٰی بخاری*
*گنڈا پور دو نمبر مولا جٹ نہ بنیں، اپنے صوبے کے عوام کی فکر کریں: عظمٰی بخاری*
*کے پی میں لوگ اغواء ہو رہے ہیں، ٹی ٹی پی والے املاک کو آگ لگا رہے ہیں: عظمٰی بخاری*
*کے پی کے میں تعلیمی ادارے بند ہو رہے ہیں، واجب الادا قرض کا حجم 630 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے : عظمٰی بخاری*
*کے پی میں نہ کام ہو رہا ہے ، نہ نظر آرہا ہے اور نہ کسی کو وہاں کے لوگوں کی فکر ہے: عظمی بخاری*
*حکومت بلوچستان بتائے کہ وہاں کب تک معصوم پنجابیوں کا خون بہتا رہے گا؟ عظمٰی بخاری*
لاہور () وزیر اطلاعات پنجاب عظمٰی بخاری نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی والوں نے کاہنہ میں غنڈہ گردی کے بعد راولپنڈی میں یلغار کرنے کی ناکام کو شش کی۔ پنجاب کی وارث مریم نواز ہے جسے اپنے لوگوں کی حفاظت اور قانون کی رٹ قائم کرنا آتا ہے۔ گنڈا پور کو سستی اداکاری اور دو نمبر مولا جٹ بننے سے فرصت ملے تو اسے پتا چلے کہ کے پی کے میں کیا ہو رہا ہے۔ کے پی میں نہ کام ہو رہا ہے ، نہ نظر آرہا ہے اور نہ کسی کو وہاں کے لوگوں کی فکر ہے۔ کے پی کے حکومت نے اپنی عیاشیوں کے لئے اخراجات میں 69 کروڑ روپے کا اضافہ کیا ہے۔ وہاں کا قرض 101 ارب 72 کروڑ کے اضافے سے 630 ارب روپے ہو گیا ہے۔ خیبر پختونخواہ میں یونیورسٹیوں کے تعداد 32 سے کم کر کے 12 کی جا رہی ہے۔ غیر فعال سکولوں کی تعداد 543 ہو چکی ہے اور 30 ہزار سے زائد اساتذہ کی اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ یہ لوگ اپنے صوبےکا پیسہ جلسے جلسوں اور احتجاجوں پر ضائع کر رہے ہیں۔ جبکہ پنجاب میں یونیورسٹیوں میں اضافہ ہو رہا ہے،آئی ٹی کی نئی یونیورسٹیاں بن رہی ہیں ، بچوں کو میل مل رہا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں اساتذہ بھرتی کئے جا رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈی جی پی آر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت بلوچستان بتائے کہ وہاں کب تک معصوم پنجابیوں کا خون بہتا رہے گا؟ پنجابیوں کا خون سستا نہیں ہے۔ دوسرے صوبوں سے جب بھی کوئی آتا ہے پنجاب دونوں ہاتھ پھیلا کر استقبال اور تحفظ فراہم کرتا ہے۔ دکھ کی بات ہے کہ بلوچستان میں دہشتگردی بڑھ گئی ہے۔ ہم مل کر پنجابی اور بلوچی کو آپس میں لڑانے کی سازش ناکام بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ گنڈا پور پختونوں اور پنجابیوں کو آپس میں لڑوانا چاہتا ہے۔ یہ لوگ پنجاب کو چھوڑ کر کے پی کے میں احتجاج کیوں نہیں کرتے؟ وہاں احتجاج سے سرکاری وسائل کا ضیاع ہونے سے بچ جائے گا۔ پی ٹی آئی کے لوگ گنڈا پور کی منتیں کرتے رہے مگر موصوف اپنی گاڑی سے ہی نیچے نہیں اترے۔ پنجاب کے لوگوں نے ان کو مکمل طور پر ریجیکٹ کر دیا ہے۔ شیخ وقاص اور مورچے میں چھپے بیرسٹر سیف نے مانا ہے کہ پنجاب سے لوگ نہیں نکلے۔ بیرسٹر سیف گھر سے نہیں نکلتا مگر چھپ کر بیان دیتا رہتا ہے۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ پنجاب کے لوگ اپنی وزیر اعلٰی سے خوش ہیں اور یہاں کے لوگ کسی بھی فتنہ پروری کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔انہوں نے مزید کہا کہ گنڈاپور نے پنجاب میں گولیاں چلانے کی بات کی۔ میں اسے بتانا چاہتی ہوں کہ گولیاں کے پی کے میں چل رہی ہیں، وہاں طالبان دندناتے پھرتے ہیں ۔ وزیر اعلٰی کے اپنے علاقے ڈی آئی خان میں ڈی ایس پی کے بیٹے کو اغواء کر کے قتل کیا گیا اور ٹی ٹی پی کے لوگ املاک کو آگ لگا رہے ہیں مگر انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ کے پی کے وزیر اعلٰی نے کبھی امن و امان پر اجلاس نہیں بلایا۔ انکا کہنا تھا کہ علیمہ خان نے جج صاحب کو کہا کہ مجھے احتجاج میں جانا ہے تو اسے پورے پروٹوکول کے ساتھ وہاں لے جایا گیا ۔ ان کے سہولتکاروں کو پتا ہونا چاہیے کی یہ لوگ انسانی حقوق اور جمہوریت کی آڑ میں دہشتگردی کرتے ہیں ۔ پارلیمنٹ پر حملے سے لیکر 9 مئی تک انہیں جب جب انہیں موقع ملا انھوں نے دہشت گردی کی ہے۔ یہ اپنی فتنہ گردی سے ایس سی او کے اجلاس کو بھی سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ فتنہ پارٹی کا ایک ہی ایجنڈا ہے کہ عام آدمی کی تکالیف کو بڑھایا جائے۔ یہ لوگ وفاق اور پنجاب میں ہونے والی ترقی سے چلتے ہیں۔ یہ لوگ آئی ایم ایف کو خط لکھنے اور احتجاج کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کے پی کے میں بھی پنجاب جیسی ترقی ہو، انہیں بھی پنجاب جیسا وزیر اعلٰی ملے، وہاں بھی لوگوں کو صحت کی معیاری سہولیات ملیں، بچیوں کو سکوٹیاں ملیں اور لوگ ایئر ایمبولینس جیسی سہولیات سے مستفید ہوں۔
0 notes
Text
نواز شریف کہاں ہیں؟
نواز شریف نے اپنی آخری سیاسی اننگ بغیر کھیلے ہی ختم کر دی۔ ایک ایسا شخص جو چار دہائیوں تک وطن عزیز کی سیاست پر چھایا رہا۔ ان کی سیاست کا یوں اختتام کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ اگرچہ وہ آمریت کی نرسری میں پلے لیکن اس کے باوجود انہوں نے ایک مزاحمتی سیاست دان کا روپ اختیار کیا جس کی وجہ سے انہوں نے بے مثال مقبولیت حاصل کی۔ انہوں نے'' میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا '' کا نعرہ لگایا اور قوم کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ ان کا سیاسی کیریئر ہر قسم کے اتار چڑھاؤ سے عبارت ہے۔ انہوں نے ایٹمی دھماکے کر کے خود کو محسن پاکستان کے طور پر پیش کیا تو دوسری طرف اٹل بہاری واجپائی کو لاہور میں بلایا اور جب دوبارہ موقع ملا تو نریندر مودی کو اپنی گھریلو تقریبات میں مدعو کیا اور وہ بھی سفارتی پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لاہور آئے اور شریف فیملی کے ساتھ وقت گزارا۔ ان کی زندگی ایک طرح سے مختلف تضادات سے عبارت تھی۔ وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا دعویٰ کرتے تھے لیکن ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے ہی اپنے اقتدار کو طول دیا۔ عوامی طاقت اور مقتدرہ کی اشیرباد سے وہ جب بھی اقتدار میں آئے ان کے اقتدار کا خاتمہ غیر فطری انداز میں ہوا۔ وہ اپنی نوعیت کے واحد حکمراں ہیں جو بذات خود اپنی کوئی بھی آئینی مدت پوری نہ کر سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ پاکستان کے واحد حکمراں تھے جو وطن عزیز کے چاروں صوبوں میں یکساں مقبول تھے۔ انہوں نے اپنے عروج کے دنوں میں ملک کے تمام علاقوں میں بھرپور عوامی جلسے کیے۔ ہر صوبے کے سیاست دانوں کے ساتھ قریبی روابط رکھے۔ انہوں نے پاکستان کی ترقی میں بھی اپنا نمایاں کردار ادا کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے تشکیل دیے ہوئے ایٹمی پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ آصف علی زرداری کے شروع کیے ہوئے سی پیک کو عملی شکل دی۔ پاکستان میں انفراسٹرکچر کا جال بچھایا لیکن پانامہ کا ڈنگ لگنے کے بعد ان کے اقتدار کو وہ زوال آیا کہ جو عروج کی طرح بے مثال تھا۔ جلاوطنی میاں نواز شریف کے لیے کوئی نئی بات نہ تھی۔ انہوں نے مشرف کے ساتھ معاہدہ کر کے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کیے رکھی تاہم 2018 کے بعد کی جلاوطنی اس لحاظ سے منفرد تھی کہ لندن میں قیام کے دوران عوام کا ہجوم انکے گھر کے باہر رہتا جسکے باعث وہ لندن میں بھی محصور ہی رہے۔ اس دوران پاکستان کی سیاست میں کئی اتار چڑھاؤ آئے۔عمران خان کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا یہاں تک کہ ''رجیم چینج'' کے ذریعے عمران خان کی حکومت ختم کر دی گئی۔
یہی وہ وقت تھا جب ایک طرف عمران خان کا عروج شروع ہوا اور میاں نواز شریف کا بتدریج زوال۔ پی ڈی ایم نے میاں شہباز شریف کی سربراہی میں جو حکومت قائم کی اس نے نہ صرف مسلم لیگ کو نقصان پہنچایا بلکہ میاں نواز شریف جیسے مدبر سیاستدان کی شہرت کو بھی داغدار کر دیا۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ وہ نواز شریف جو مقتدرہ سے لڑائی کر کے عوام کی آنکھوں کا تارا تھا، ''ووٹ کو عزت دو'' کے نعرے نے کراچی سے لے کر خیبر تک بیداری کی ایک لہر ��یدا کر دی تھی، ان کو اپنے اس نظریے سے بھی پیچھے ہٹنا پڑا اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے پر بھی خاموشی اختیار کرنا پڑی۔ انہوں نے ایک طرف مقتدرہ سے ہاتھ ملایا تو دوسری طرف عوام نے بھی انہیں اپنے دل سے اتار دیا۔ 2024 کے انتخابات ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں۔ اس میں تحریک انصاف کی مشکیں کسی گئیں۔عمران خان کو پابند سلاسل کیا گیا۔ اس کی جماعت کا انتخابی نشان چھین لیا گیا اور مسلم لیگ کو کھلی چھٹی دی گئی۔
میاں نواز شریف شاید نوشتہ دیوار پڑھ چکے تھے اس لیے انہوں نے ان انتخابات میں وہ روایتی سرگرمی نہ دکھائی جو ان کا خاصہ تھی اور جن جلسوں سے خطاب کیا وہ بھی بے رغبتی کے عالم میں تھا جس کے نتائج انہیں آٹھ فروری کو دیکھنا پڑے۔ لیکن اس سارے اہتمام کے باوجود عمران خان کا جادو ایک مرتبہ پھر نصف النہار پہنچ گیا۔ اور اس وقت زمینی حقائق یہ ہیں کہ ملک پر چار دہائیوں سے حکومت کرنے والا شخص ایک گھر میں بند ہے تو دوسری طرف قیدی نمبر 804 پورے ملک پر حکومت کر رہا ہے۔ کمشنر راولپنڈی لیاقت چٹھہ کے الزامات نے انتخابات کی رہی سہی ساکھ بھی خاک میں ملا دی ہے۔ مسلم لیگ ن کو جس انداز میں فتح دلوائی گئی اور نشستیں جس طرح گھٹائی اور بڑھائی گئیں اسنے انتخابات کی شفافیت کو تو مشکوک بنایا ہی ہے میاں نواز شریف اور مسلم لیگ کی شناخت کو بھی گہری زک پہنچائی ہے۔ اس حالیہ فتح سے تو بہتر تھا کہ میاں نواز شریف لندن میں ہی قیام پذیر رہتے کم از کم ان کا بھرم ہی برقرار رہتا۔ میری دانست میں میاں نواز شریف اس خطے کے سب سے تجربہ کار رہنما ہیں۔
اپنی سیاست کا اس انداز میں اختتام کرنے کے بجائے خواجہ سعد رفیق کی طرح دل بڑا کر کے اپنی شکست تسلیم کرنی چاہیے اور جنہیں عوام نے مینڈیٹ دیا ہے انکا حق تسلیم کرنا چاہیے۔ انہیں چپ کا روزہ توڑ کر تحمل اور بردباری سے فیصلے کرنے چاہئیں۔ انتقام کی سیاست کو دفن کر کے سیاست اور اقتدار سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کی خدمت کرنی چاہیے۔ ہماری قوم کو بھی اپنے رہنماؤں کو باعزت طریقے سے رخصت کرنے کی روایت ڈالنی چاہیے۔ جس انداز میں نواز شریف کو خدا حافظ کہا جا رہا ہے وہ ہرگز مناسب نہیں۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
#Nawaz Sharif#Nawaz Sharif Politics#Pakistan#Pakistan elections#Pakistan Politics#PML-N#Politics#World
0 notes
Text
بلاول کا مناظرے کا چیلنج کراچی کی بارش میں بہہ گیا، شہباز شریف
مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ کراچی اور لاہور کا موازنہ ہوگیا، کراچی میں گزشتہ روز کی بارش میں مناظرہ دیکھ لیا۔بلاول کا مناظرے کا چیلنج کراچی کی بارش میں بہہ گیا۔ شہباز شریف نے اتوار کو لاہور میں طویل پریس کانفرنس کی جس کے آخری میں سوالات کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ’اگر ایک کلیئر مینڈیٹ عوام دیتے ہیں 8 فروری کو جو کہ مجھ لگ رہا ہے ان جلسوں کے بعد تو یہ اللہ تعالی کی ایک بہت بڑی…
View On WordPress
0 notes
Text
نواز شریف کی واپسی
30 سال سے بھی زائد عرصے قبل، اقتدار سے اپنی پہلی بے دخلی کے بعد سے نواز شریف کی جب بھی وطن واپسی ہوئی ہے، ان میں ان کی تازہ ترین واپسی کے امکانات سب سے کم تھے۔ حالانکہ اس مرحلے پر یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن 8 فروری کے انتخابات کے بعد نواز شریف کے اگلی حکومت بنانے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اگر وہ خود وزیر اعظم نہیں بھی بنتے تو بھی امکانات یہی ہیں کہ جو بھی یہ عہدہ سنبھالے گا اسے ان کی آشیرباد حاصل ہو گی۔ کئی مہینوں سے حالات رفتہ رفتہ ان کے حق میں تبدیل ہو رہے ہیں لیکن آنے والے ہفتوں میں اس میں تیزی نظر آئے گی۔ اس کا آغاز تقریباً پانچ سال کی جلاوطنی کے بعد ان کی پاکستان واپسی کی تاریخ کے اعلان سے ہوا۔ اس کے بعد لاہور میں ان کی واپسی اور پہلی ریلی کا دن آیا، جس میں انہوں نے مہنگائی اور بے روزگاری سے تباہ حال ملک کو ترقی دینے کے لیے سب سے زیادہ موزوں وزیر اعظم کے طور پر خود کو پیش کیا۔ اس کے بعد پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم، انتخابی دوڑ میں شامل دیگر پارٹیوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ، اور آنے والے انتخابی مقابلے کے لیے تیاری کا مختصر وقفہ آیا۔ پھر جب سپریم کورٹ نے ان کے مرکزی حریف، پی ٹی آئی سے اس کا انتخابی نشان چھین لیا تو انتخابات ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں آخری شکوک و شبہات بھی دور ہوگئے اور انتخابی مہم شروع ہو گئی۔
ان کی انتخابی مہم کی تقاریر سنیں تو آپ کو ایک حکمت عملی نظر آئے گی۔ وہ اپنے جلسوں میں دو کام کر رہے ہیں۔ پہلا کام ووٹروں کے ساتھ جڑنا اور دوسرا ان معروف افراد یا خاندانوں پر توجہ دینا جو دیہی یا نیم شہری حلقوں کو چلاتے ہیں جن پر نواز شریف نے اب تک اپنی مہم کو مرکوز کیا ہوا ہے۔ نواز شریف ووٹرز سے اس قسم کے سوالات پوچھ رہے ہیں کہ ’2017ء میں جب میں نے اقتدار چھوڑا تو ایک روٹی کتنے کی تھی؟ بجلی کا ایک یونٹ کتنے کا تھا؟ آپ ایک کلو چینی کتنے میں خریدتے تھے؟ یوریا کھاد کا ایک تھیلے کتنے کا تھا؟‘ مصنوعات کی یہ فہرست شہری یا دیہی حلقوں کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے اور ہر کی چیز کی ماضی کی قیمت پوچھنے کے بعد وہ حاضرین سے معلوم کرتے ہیں کہ وہ آج اس کی کتنی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ پھر وہ پوچھتے ہیں کہ ’تمہارے ساتھ یہ کس نے کیا؟‘، ’یہ ظلم کس نے کیا؟‘ ’تم جا کر اس سے پوچھو، جس نے بھی یہ کیا کہ اس نے تمہارے ساتھ ایسا کیوں کیا؟‘ یہ ایک مکروہ پیغام ہے۔ 2017ء سے اب تک ملک میں مہنگائی میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اس کی وجوہات پر بحث کی جاسکتی ہے، میں پہلے بھی متعدد بار اس پر اپنے خیالات لکھ چکا ہوں۔ انتخابی مہم کے مقاصد کے لیے ان وجوہات کو جاننا ضروری نہیں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ یہ ہوا ہے۔ 2017ء کو نقطہ آغاز بنا کر وہ اس حقیقت پر پردہ ڈال سکتے ہیں کہ اس مہنگائی میں بڑا اضافہ اس دور میں ہوا جب شہباز شریف وزیراعظم تھے۔ بیانیے کے لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نواز شریف نے اپنی انتخابی مہم کی ایک تقریب میں کہا کہ ’میں نے آپ کو بہت یاد کیا، میں طویل عرصے تک آپ سے دور رہا اور مجھے وہ سب دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے جو آپ کو میرے دور رہتے ہوئے بھگتنا پڑا‘۔ ان کی مہم کا پیغام اس مشکل کو مد نظر رکھ کر بنایا گیا ہے جس سے ووٹر سب سے زیادہ متاثر ہیں یعنی اخراجات پورے کرنے میں دشواری۔ مثال کے طور پر ایک چھوٹے سے صنعتی شہر حافظ آباد میں جہاں محنت کش طبقے کی ایک تعداد رہتی ہے نواز شریف نے جلسے میں موجود لوگوں سے کہا کہ ’اگر مجھے 2017ء میں نہ ہٹایا جاتا تو آج حافظ آباد میں بے روزگاری نہ ہوتی!‘۔
سیالکوٹ میں انہوں نے عمران خان کے دور میں 2020ء میں ٹریفک کے لیے کھولی جانے والی موجودہ موٹروے میں موجود تمام خامیوں کی نشاندہی کرنے کے بعد اس شہر کو لاہور سے ملانے والی ایک نئی موٹر وے بنانے کا وعدہ کیا۔ مانسہرہ میں، انہوں نے سی پیک ایم ایل ون منصوبے کے تحت ریل روڈ کی بحالی مکمل ہونے کے بعد ایک ریلوے اسٹاپ کا وعدہ کیا، ایم ایل ون 8 ارب ڈالر سے زائد کا منصوبہ ہے۔ وہاڑی میں انہوں نے یہ کہہ کر ایک میڈیکل کالج بنانے کا اعلان کیا کہ تہمینہ دولتانہ نے اپنے حلقے کے لیے اس کا تقاضا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ٹھیک ہے، ہم تمہیں میڈیکل کالج دیں گے، لیکن پہلے ووٹ حاصل کرو اور جیتو‘۔ یہ بات ہمیں ان کی حکمت عملی کے دوسرے نکتے پر لے آتی ہے یعنی اس طاقت کا فائدہ اٹھانا جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ ان کے ہاتھ آنے والی ہے اور پھر اس کا استعمال پنجاب کے بااثر افراد اور خاندانوں کو راغب کرنے کے لیے کرنا اور اس صوبے کے غالب سیاسی خاندانوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو دوبارہ استوار کرنا۔ دیہی اور چھوٹے شہروں کے حلقوں میں سیاسی خاندان اہم ہوتے ہیں۔
نواز شریف یہ بات کسی اور سے بہتر جانتے ہیں اور انہیں اور ان کے ساتھیوں کو اس بات کا تفصیلی علم ہے کہ کون، کہاں کتنی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ اب یہ پیغام دے رہے ہیں لوگ اب ان کی ٹرین میں سوار ہو جائیں۔ ان کے منشور میں بڑے بڑے معاشی وعدے کیے گئے ہیں، جیسے جی ڈی پی کی شرح نمو کو 6 فیصد تک بحال کرنا، گردشی قرضے کو ختم کرنا، وغیرہ۔ تاہم، ابھی کے لیے، انہوں نے خود کو انتخابی مہم کے وعدوں، ووٹروں اور سیاسی خاندانوں کے ساتھ جڑنے اور ان کی زندگیوں کو درپیش معاشی مسائل کے حل کا وعدہ کرنے میں مصروف رکھا ہوا ہے۔ آگے انتخابات ہوں گے، اس کے بعد نئی پارلیمنٹ کا اجلاس طلب ہو گا، صدر کی ��انب سے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی جماعت کو اپنی اکثریت بنانے کی دعوت دی جائے گی، قائد ایوان کا انتخاب ہو گا اور وفاقی کابینہ کی تقرری ہو گی۔ نواز شریف کی جلاوطنی سے واپسی کی خبر آنے سے کابینہ کی تقرری تک نو ماہ کے قریب کا عرصہ گزر چکا ہو گا۔ عمران خان کی پریشانیاں کئی گنا بڑھ جائیں گی اور وہ مقدمات، سزاؤں، اپیلوں، نااہلی، انحراف، گرفتاریوں، لیکس وغیرہ کے تلے دب جائیں گی۔
آہستہ آہستہ ہوا کا رخ بدل رہا ہے۔ نواز شریف واپس آچکے ہیں اور اب اقتدار میں اپنی پوزیشن مضبوط کریں گے۔ بڑا سوال یہ ہے کہ کیا وہ اتنے وسائل تلاش کرپائیں گے کہ وہ اپنے وعدوں کا نصف بھی پورا کرسکیں؟ ترقی اور نمو کی بحالی پر ان کی توجہ کو دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کے ساتھ ان کی وابستگی کچھ پیچیدہ ہو جائے گی۔ نواز شریف شاید واپس آگئے ہوں، لیکن ترقی اور روزگار کے ساتھ شاید ایسا نہ ہو۔
خرم حسین
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
Text
آٹے کا تھیلا اور ماہ رمضان
رمضان المبارک کا مقدس مہینہ اپنی تمام تر رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ شروع ہے۔ مسلمان روزے رکھ رہے ہیں لیکن کھانے پینے کی اشیاء بہت ہی مہنگی ہو رہی ہیں، معیشت بیٹھ نہیں رہی بلکہ بیٹھ چکی ہے، ملازمتیں اور روزگار نہیں مل رہا، جیبیں خالی ہیں۔ مہنگائی کی دوسری بڑی وجہ مسلمان تاجر ہیں جو ان روزوں کا اجر اسی دنیا میں وصول کر رہے ہیں۔ روزہ داروں کو تو ثواب جب ملے گا، سو ملے گا لیکن جو لوگ کاروبار کرتے ہیں، انھوں نے ماہ رمضان کو بھی کاروبار بنا دیا ہے اور مال کی صورت ثواب لوٹ رہے ہیں، ایسا ہر سال ہوتا ہے، اس سال تو بہت ہو رہا ہے لیکن حکمرانوں کو اپنی پڑی ہوئی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے یہ نام نہاد بڑے لوگ یک نکاتی ایجنڈے متفق ہو جاتے اور اپنی سیاست کو عید کے بعد تک اٹھا رکھتے اور جو فضول خرچی یہ اپنے جلسوں جلوسوں میں کر رہے ہیں، اسی رقم سے وہ روزہ داروں کی پیاس بجھاتے جس سے عوام میں ان کی پذیرائی بھی ہوتی اور وہ ثواب بھی کما لیتے ہیں لیکن ان بڑے لوگوں کو اجر و ثواب سے کیا غرض، ان کا اجر تو صرف اقتدار حاصل کرنا ہے۔ عوام کی حالت ناگفتہ بہہ ہے جس کی کسی کو کوئی پروا نہیں ہے۔
حکومت نے گو کہ رمضان میں کم وسیلہ گھرانوں کے لیے آٹے کے تین تھیلے مفت فراہم کرنے کا اعلان کیا اور پھر اس پر عملدرآمد بھی شروع کر دیا لیکن ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق مفت آٹا فراہمی کی یہ اسکیم بدنظمی کا شکار ہے اور عوام کی ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ بھوک مٹانے کے لیے آٹے کے حصول میں کئی مردو زن اپنی زندگی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم جن کی انتظامی صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف ہے وہ عوام کو آٹے کی فراہمی کو رواں اور سہل بنانے کے لیے پنجاب بھر کے دورے کر رہے ہیں جب کہ ہمارے دوست نگراں وزیر اعلیٰ محسن نقوی اور وزیر اطلاعات عامر میر بھی اپنی مقدور بھر کوششوں سے اس کار خیر میں حصہ ڈال رہے ہیں لیکن بات بن نہیں پا رہی ہ��۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت آٹے کی براہ راست فراہمی کے بجائے ان کم وسیلہ گھرانوں کو جو پہلے ہی حکومت کے امدادی پروگرام بینظیر انکم سپورٹ میں رجسٹرڈ ہیں ان کو براہ راست رقم ہی مہیا کر دیتی تو لوگ خود سے ہی آٹے کی خریداری کر لیتے لیکن نہ جانے حکومتوں کے وہ کون سے عقلمند مشیر ہوتے ہیں جو عوام کی سہولت کو بھی زحمت میں بدل کر حکومت کی نیک نیتی کو بدنامی میں بدل دیتے ہیں۔
آٹے کے دس کلو تھیلے کے حصول کے لیے ٹیلی ویژن پر جو مناظر دیکھے جارہے ہیں، اس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ حکومت اس مفت آٹے کو عوام تک پہنچانے کا درست بندوبست نہیں کر پا رہی ہے۔ کوشش یقینا ہو رہی ہے لیکن وہ صلاحیت نہیں دکھائی دے رہی جوایسے کسی انتظام کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ ادھر ہمارے عوام کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو چکا ہے اور وہ ان دیکھے معاشی خطرات کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ جنس ذخیرہ کرنے کی جد جہد میں مصروف نظر آتے ہیں۔ کراچی میں ایک صاحب حیثیت شخص نے عوام کو سستا فروٹ اور سبزی فراہم کرنے کے لیے اسٹال لگایا جہاں پر ہر چیز دس روپے کلو فراہمی کا بندوبست کیا گیا لیکن ہوا یہ کہ اس سستے انتظام پر عوام نے ہلہ بول دیا اور اس اسٹال سے ہر چیز اٹھا کر لے گئے۔ کوئی کرے تو کیا کرے اور بے صبرے عوام کو کیسے سمجھائے کہ یہ سب کچھ انھی کے لیے کیا جا رہا ہے لیکن بات وہیں پر آکر ٹھہرتی ہے کہ بے کس اور مجبور عوام اپنے مستقبل سے مایوس ہیں اور یہ مایوسی اب اپنی حدوں کو پار کر چکی ہے اسی لیے اس طرح کے واقعات دیکھنے میں آرہے ہیں۔
پاکستان میں معاشی ابتری کی وجہ سے بے یقینی کی کیفیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اس معاشی تنگدستی نے عام آدمی کی قوت خرید انتہائی کم کر دی ہے اور اس بار پہلی دفعہ ماہ رمضان میں عوام بہت زیادہ متاثر نظر آتے ہیں۔ عموماً رمضان المبارک میں مخیر حضرات بہت زیادہ صدقہ و خیرات کے علاوہ زکوۃ تقسیم کرتے ہیں لیکن چونکہ اب مستحقین کی تعداد میں حیرت ناک طور پر اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اس لیے یہ زکوۃ بھی کم پڑتی نظر آتی ہے۔ رمضان کا پہلا عشرہ جاری ہے حکومت ابھی بھی متعلقہ محکموں کو فعال کر کے عوام کو مارکیٹ میں روز مرہ زندگی کی ضروری اجناس کی ارزاں نرخوں پرفراہمی کو یقینی بنا سکتی ہے اور آٹے کے ایک مفت تھیلے کے حصول کے لیے جس طرح دربدر ہو کر عوام اپنی جانیں گنوا رہے ہیں ان دلخراش مناظر سے بچا جا سکتا ہے۔ بات صرف نیک نیتی اور انتظامی صلاحیتوں کی ہے میاں شہباز شریف انتظامی صلاحیتوں سے مالامال ہیں لیکن اپنے سیاسی اتحادیوں میں گھر کر اپنی انتظامی صلاحیتوں کے ابھی تک وہ جوہر نہیں دکھا سکے جس کے لیے ان کے شہرت ہے۔ رمضان المبارک میں کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرانا اجر و ثواب کا افضل درجہ ہے اور میاں صاحب کواس ثواب سے محروم نہیں ہو نا چاہیے بے کس اور مجبور عوام کی دعائیں لینی چاہئیں۔
اطہر قادر حسن
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
تحریک انصاف کا جلسہ اور بیک ڈور رابطوں کی گونج !
موجودہ حالات میں کاہنہ کا جلسہ تحریک انصاف کے لئے کئی حوالوں سے باعث اطمینان ہے۔ جہاں یہ پارٹی ایک کارنر میٹنگ تک نہیں تھی کر ��کتی۔ پارٹی پرچم اور عمران خان کی تصویر کی نمائش عذاب کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ ایسے میں ایک ہی مہینے میں 2 جلسوں سے ان کے کارکنوں کا حوصلہ یقینا بڑھا ہو گا اور جہاں تک تعداد کی بات رہی تو میرے اندازے کے مطابق جلسے میں 30 ہزار کے لگ بھگ لوگ تھے جو انتہائی شارٹ نوٹس پر…
View On WordPress
0 notes
Text
پاکستان تحریک انصاف کا یکم نومبر کو پشاور میں جلسے کا فیصلہ
(24 نیوز)پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے یکم نومبر کو پشاور میں جلسے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے ذرائع کے مطابق وزیرِ اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور جلسے سے خطاب کریں گے۔ ذرائع نے بتایا کہ تحریک انصاف نے حکومت مخالف نئی تحریک کے آغاز کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی نے ملک بھر میں جلسوں کی منظوری دے دی ہے۔ آج کل بانی پی ٹی آئی سے…
0 notes
Text
عمران خان کی سیاست
عمران خان مشکل میں ہیں اور سیاسی پنڈتوں کے بقول وہ کئی معاملات میں ریڈ لائن کراس کر چکے ہیں۔ کئی سیاسی اور صحافتی دانشور وں کے بقول ان پر کراس لگ چکا ہے اور فوری طور پر ان کی اقتدار میں واپسی ممکن نہیں ہو گی۔ موجودہ حالات میں عمران خان تنہا نظر آتے ہیں جب کہ ان سیاسی مخالفین متحد ہیں۔ عمران خان کی مزاحمتی سیاست محض اپنے سیاسی مخالفین تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی چیلنج کر چکے ہیں۔ ٹکراؤ کی سیاست نے ان کو کئی محاذوں پر الجھا دیا ہے۔ ان کے بقول وہ تن تنہا ہی ان سب کا مقابلہ کر سکتے ہیں مگر ایسا نہیں ہے۔ بیک وقت کئی محاذوں پر ان کی لڑائی نے ان کو واقعی مشکل میں ڈال دیا ہے بلکہ ان کے گرد سیاسی ، انتظامی اور قانونی گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عمران خان قومی سیاست میں اپنے سیاسی مخالفین کے مقابلے میں پاپولر راہنما ہیں۔ ایسے میں ایک مقبول سیاسی راہنما کی سیاسی ذمے داری بھی ہمیں باقی تمام سیاسی قیادت کے مقابلے میں زیادہ نظر آنی چاہیے۔ کیونکہ ملک کو داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر سیاسی، معاشی اور سیکیورٹی کے سنگین مسائل کا سامنا ہے، ایسے میں عمران خان سے عوامی توقعات زیادہ ہیں۔ لیکن اگر مجموعی طو رپر عمران خان کی سیاست کو دیکھیں تو اس میں ہمیں مہم جوئی، ٹکراؤ، محاذآرائی یا مزاحمت کا پہلو زیادہ نمایاں نظر آتا ہے۔
ممکن ہے کہ عمران خان کئی معاملات میں اپنے موقف میں درست ہوں مگر ان مسائل سے نمٹنے کی جو پالیسی ہے، انھوں نے اختیار کر رکھی ہے، وہی ان کے لیے بڑا چیلنج بھی بن گیا ہے۔ عمران خان کی گرفتاری کے رد عمل میں جو کچھ 9 مئی کو ہوا، وہ واقعی قابل مذمت ہے اور اس کی ذمے داری پی ٹی آئی کی قیادت پر بھی عائد ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی کا یہ موقف کہ جلاؤ گھیراؤ میں پی ٹی آئی کے نام پر شرپسند تھے، ممکن ہے درست ہو مگر ان شرپسندوں کو روکنا، کنٹرول کرنا اور ان کی نگرانی کرنا بھی پی ٹی آئی قیادت ہی کی ذمے داری بنتی تھی۔ بنیادی طور پر سیاسی لڑائی سیاسی انداز میں ہی ہونی چاہیے، یہ لڑائی نہ صرف پرامن ہو بلکہ آئینی اور قانونی دائرہ کار تک ہی محدود رہنی چاہیے۔ پی ٹی آئی کے جو بھی رہنما اپنے کارکنوں اور حامیوں کو فوجی تنصیبات، دفاتر سمیت گھروں تک لے گئے، ان سے سنگین غلطی ہوئی ہے، انھیں اور پی ٹی آئی کو اس کا بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔ پی ٹی آئی کی پہلے سے جاری جدوجہد میں 9 مئی کے واقعہ نے ان کو عملا دفاعی پوزیشن پر لاکر کھڑا کیا ہے، انھیں سخت تنقید اور قانونی پیچیدگیوں کا سامنا ہے۔
یہ جو کچھ عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے اس میں حکومتی حکمت عملی کا بھی حصہ ہے۔ اول حکومت ان کی بھی خواہش تھی کہ عمران خان اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان ٹکراؤ جاری رہے۔ دوئم عمران خان کو سیاسی اور قانونی محاذ پر اس حد تک پریشان کر دیا جائے کہ وہ ان معاملات سے باہر ہی نہ نکل سکیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عمران خان کو کئی محاذوں پر نہ صرف سخت مزاحمت کا سامنا ہے بلکہ ان کے خلاف 150 سے زیادہ مقدمات بنانا، دہشت گردی کے مقدمات جیسے معاملات حالات کی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی ان کے معاملات میں بہتری آنے کے بجائے کافی بداعتمادی پائی جاتی ہے۔ عمران خان اس بد اعتمادی کو ختم نہیں کر سکے بلکہ معاملات کو عوامی جلسوں میں لے آئے، یہ حکمت عملی تباہ کن ثابت ہوئی۔ سوئم ان کے مخالفین ان کو سیاسی طور پر نااہل کرنا یا ان کی جماعت پر پابندی لگانا چاہتے ہیں۔ عمران خان کی مزاحمتی سیاست کا براہ راست فائدہ پی ڈی ایم کو ہو رہا ہے اور یہ جماعتیں اسٹیبلیشمنٹ کے قریب اور عمران خان کافی فاصلے پر نظر آتے ہیں۔ بدقسمتی سے عمران خان نے اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ جو ٹکراو کی سیاست کو اختیار کیا ہوا ہے اس سے ان کی مقبولیت تو بڑھی ہو گی مگر عملا سیاسی طاقت کے مراکز میں ان کو فی الحال مزاحمت کا سامنا ہے اور اس مزاحمت نے اب بالخصوص 9 مئی کے واقعات کے بعد ان کی اپنی جماعت میں نہ صرف بڑے پیمانے پر سیاسی توڑ پھوڑ کی ہے بلکہ پارٹی کے لوگ ہی پارٹی سے خود کو علیحدہ کر رہے ہیں۔
پارٹی کی مجموعی قیادت جیلوں میں ہے اور ان پر دہشت گردی کے مقدمات بھی درج ہیں اور بیسیوں کارکن جیلوں میں موجود ہیں۔ پارٹی کے اندر بھی عمران خان کی سیاسی مہم جوئی پر پارٹی میں ایک متبادل نقطہ نظر بھی موجود ہے کہ ہماری سیاسی حکمت عملی اور عمران خان کا سخت گیر پالیسی پر سختی سے قائم رہنے کی پالیسی بھی درست نہیں ہے۔ اصولی طور پر عمران خان کی سیاسی حکمت میں جو ان کو مسائل درپیش تھے یا ہیں اس میں بات چیت، مذاکرات یا ان کے ساتھ جڑ کر موجود جو بھی اختلافات یا متبادل سوچ ہے اس کا ازالہ کیا جانا چاہیے تھا۔ ویسے بھی سیاسی لڑائی میں جب آپ ایک ہی وقت میں تمام محاذوں پر ٹکراو کی سیاست کریں گے تو آپ کے لیے آسانیاں کم اور مشکلات زیادہ ہوں گی۔ عمران خان کے سامنے ایک طرف بڑی سیاسی جنگ ہے اور اسی جنگ نے ان کے تمام سیاسی مخالفین کو یکجا کیا ہوا ہے جو خود عمران خان کی برتری کو نمایاں کرتی ہے۔ لیکن دوسری طرف ان کو قانونی محاذ پر اور انتظامی سطح پر اپنے سیاسی اور غیر سیاسی حریفوں سے مزاحمت کا سامنا ہے۔
وہ اپنی سیاسی طاقت کو محض ٹکراو کی سیاست کی نذر نہ کریں اور نہ ہی اپنی جماعت یا کارکنوں کو اس حد تک جذباتیت کی سیاست میں الجھا دیں کہ ا ن میں ٹھراو کی سیاست قائم نہ ہو سکے۔ عمران خان کی جو بڑی طاقت نئی نسل ہے اس کو جذباتیت یا جنوں کی سیاست کے ساتھ ساتھ مثبت طور پر ملک و قوم کی تعمیر میں بھی استعمال کیا جانا چاہیے تاکہ ان کی سیاست لمبے عرصہ تک اپنی ساکھ کو قائم رکھ سکے۔ یہ بات اصولی طو رپر ٹھیک ہے کہ آپ اپنی بات منوانے کے لیے مزاحمت کا کارڈ کھیلتے ہیں اور آپ کی مضبوط مزاحمت ہی آپ کے لیے باقی فریقوں پر دباؤ کی سیاست کے نتیجے میں نئے سیاسی امکانات پیدا کرتی ہے۔ لیکن اس میں جو مزاحمتی پہلو ہے اول وہ سیاسی ، آئینی اور قانونی دائرہ کار میں رہ کر ہی لڑنی ہے اور دوسرا سیاسی لڑائی میں اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ میں توازن قائم کیا جانا چاہیے۔ سیاسی ترجیحات کا تعین کیا جانا چاہیے کہ حکمت عملی کی ترجیحات اور اس کی درجہ بندی کیا ہو اور کیسے حکمت کے ساتھ ان معاملات کو سیاسی اور قانونی محاذ پر نمٹا جائے۔
وہ اپنی سیاسی طاقت اور مقبولیت کو مستقل بنیادوں پر قائم کریں اور اپنے ایجنڈے کو ایک بڑے سیاسی، انتظامی ، معاشی اور ادارہ جاتی اصلاحاتی عمل کے ساتھ جوڑ کر وہ کچھ کرنے کی کوشش کریں جو ان کے سیاسی مخالفین نہیں کر رہے۔ اس وقت تحریک انصاف پر جو مشکل وقت ہے وہ بھی گزر جائے گا لیکن اس مشکل وقت میں عمران خان کا دھیمے انداز میں آگے بڑھنا ہی ان کے لیے سود مند ہو سکتا ہے۔ کوئی عمران خان کو یہ نہیں کہہ رہا کہ وہ اپنی مزاحمتی سیاست سے دست بردار ہو جائیں بلکہ اصولی بات یہ ہے کہ اسی مزاحمتی سیاست میں ان کو سوچ سمجھ کر تدبر، فہم وفراست، عقل و دانش کی مدد سے آگے بڑھنا چاہیے۔ سیاسی اننگز اسی صورت میں کھیلی جاتی ہے جب آپ ایک لمبی سیاسی اننگز کے لیے میدان میں رہتے ہیں۔ کیونکہ سیاسی وکٹ پر کھڑا رہنا ہی سیاسی طاقت کو برقرار رکھتا ہے۔
سلمان عابد
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
آکاشوانی چھتر پتی سنبھا جی نگر علاقائی خبریں تاریخ : 11 ؍نومبر 2024ء وقت : صبح 09.00 سے 09.10 بجے
Regional Urdu Text Bulletin, Chhatrapati Sambhajinagar
Date : 11 November 2024
Time : 09.00 to 09.10 AM
آکاشوانی چھتر پتی سنبھا جی نگر
علاقائی خبریں
تاریخ : ۱۱ ؍نومبر ۲۰۲۴ ء
وقت : صبح ۹.۰۰ سے ۹.۱۰ بجے
پہلے خاص خبروں کی سر خیاں ...
٭ ریاستی اسمبلی انتخاب میں امید واروں کی تشہیری سر گر میاں زورو پر ‘عوام سے ملا قات کو دے رہے ہیں تر جیح
٭ چُنائو میں غداری کرنے والے 16؍ امید واروں کو کانگریس پارٹی نے کیا بے دخل
٭ چھتر پتی سنبھا جی نگر ضلعے میں آج سے تصویری رتھ کے ذریعے کی جائے گی رائے دہندگان کی حوصلہ افزائی
اور
٭ ہنگولی ضلعے میں گھر میں ووٹ دینے کی سہولت روبہ عمل ‘ پہلے دِن 700؍ بزرگ اور معذوروں نے دیا ووٹ
اب خبریں تفصیل سے...
ریاستی اسمبلی چُنائو کے تناظر میں امید واروں کی تشہیری سر گر میاں زورو پر جاری ہیں ۔ سبھی امید وار عوام سے ملا قات کر کے ووٹ دینے کی اپیل کر رہے ہیں ۔ ساتھ ہی تشہیرکے لیے سوشل میڈیا کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے ۔
اِسی سلسلے میں بی جے پی کے رہنما امِت شاہ نے کہا کہ مہا وکاس آ گھاڑی صرف ووٹوں کی سیاست کر تی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ اتحاد کوئی بھی وعدہ پورہ نہیں کرسکتا ۔ وہ کل بلڈھانہ ضلعے میں عظیم اتحاد کے امید وار کے تشہیری جلسے میں اظہار خیال کر رہے تھے ۔ یہ جلسہ ملکا پور میں منعقد کیاگیاتھا ۔ اِس کے علا وہ امراوتی ضلعے کے وروڈ میں بھی انھوں نے جلسہ عام سے خطاب کیا ۔اِس موقعے پر اپنی تقریر میں جناب شاہ نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے امید واروں کو ووٹ دینے کی اپیل کی ۔
***** ***** *****
بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما مرکزی وزیر نتِن گڈ کری نے کل ایوت محل ضلعے کے راڑے گائوں میں بی جے پی کے امید وار اشوک اُئی کے
کے تشہری جلسے میں خطاب کیا ۔ اِس موقعے پر انھوں نے عوام سے فرقہ پرستی اور علاقہ پرستی سے گریز کرنے کی اپیل کی ۔
***** ***** *****
چھتر پتی سنبھا جی نگر میں کل تمام سیاسی جماعتوں کے امید واروں کی جانب سے پیدل ریلیاں نکالی گئی تھیں ۔ ساتھ ہی جلسوں کا بھی اہتمام کیاگیاتھا ۔ اِسی سلسلے میں اورنگ آباد مشرق حلقہ انتخاب سے عظیم اتحاد کے امید وار اتُل ساوے نے بھی کل پیدل ریلی نکالی تھی ۔ اِسی حلقے سے مہا وِکاس آگھاڑی کے امید وار لہو شیواڑے کی تشہیر کے لیے کانگریس پارٹی کے رہنما امِت دیشمکھ نےکل جلسہ عام میں خطاب کیا ۔
اورنگ آباو وسط سے مہا یوتی کے امید وار پر دیپ جیسوال نے بھی کل پیدل ریلی نکال کر عوام سے ووٹ دینے کی اپیل کی ۔ اورنگ آباد مغرب حلقہ انتخاب سے مہا وِکاس آ گھاڑی کے امید وار راجو شندے نے بھی گھر گھر جا کر رائے دہندگان سے ووٹ دینے کی اپیل کی ۔ مجلس اتحاد المسلمین MIM کے سربراہ اسد الدین اویسی نے بھی کل اورنگ آباد مشرق حلقہ انتخاب سے پارٹی کے امید وار امتیاز جلیل کے تشہیری جلسے میں خطاب کیا ۔
دھارا شیو ضلعے کے تلجا پور اسمبلی حلقے سے مہا یو تی کے امید وار رانا جگجیت سنگھ پاٹل کی تشہیر کے لیے بھی کل ریلی نکالی گئی تھی۔
***** ***** *****
گنگا پور حلقہ اسمبلی میں مہا وِکاس آ گھاڑی کے امید وار ستیش چو ہان کی تشہیر کے لیے راشٹر وادی کانگریس شرد چندر پوار پارٹی کے سر براہ شرد پوار نے جلسہ عام سے خطاب کیا ۔ اِس کے علا وہ جناب شرد پوار نے کل دھارا شیو ضلعے کے بھوم- پرنڈا اسمبلی حلقے میں مہا وِکاس آ گھاڑی کے امید وار راہل میٹے کے تشہیری جلسے میں خطاب کیا ۔ اِس کے بعد انھوں نے جالنہ ضلعے میں گھن سائونگی حلقے سے مہا وکاس آگھاڑی کے امید وار راجیش ٹو پے کے تشہیری جلسے میں اظہار خیال کیا ۔
***** ***** *****
ہنگولی ضلعے کے کلمنوری میں مہاو ِکاس آ گھاڑی کے امید وار سنتوش ٹارپھے کی تشہیر کے لیے شیو سینا اُدھو باڑا صاحیب ٹھاکرے پارٹی کے سر براہ اُدھو ٹھاکرے نے جلسہ عام میں خطاب کیا ۔
***** ***** *****
اسمبلی انتخابات میں غداری کرنے والے 16؍ امید واروں کو کانگریس پارٹی نے 6؍ برسوں کے لیے پارٹی سے بے دخل کر دیا ہے ۔ پارٹی کے ریاستی صدر نانا پٹو لے نے کل اِس خصوص میںاطلاع نامہ جاری کیا ۔ مہا وِکاس آ گھاڑی اور کانگریس پارٹی کے امید واروں کے خلاف در خواست دے کر پارٹی کے اصولوں کی پامالی کرنے کی پا داش میں مذکورہ کارروائی کی گئی ہے ۔
***** ***** *****
سامعین اسمبلی انتخاب کے خصوص میں آکاشوانی کی جانب سے ہر شام 7؍ بج کر 10؍ منٹ پر نشر کیے جا رہے پروگرام ’’ آ ڈھا وا وِدھان سبھا متدار سنگھا چا ‘‘ میں آج پونا ضلعے کے اسمبلی حلقہ انتخابات کاجائزہ پیش کیا جائے گا ۔
***** ***** *****
ریاست بھر میں رائے دہندگان کی حوصلہ افزائی کے مقصد سے مختلف سرگر میاں انجام دی جا رہی ہیں۔ اِسی سلسلے میں آج چھتر پتی سنبھا جی نگر ضلعے کے سبھی اسمبلی حلقوں میں تصویری رتھ کے ذریعے رائے دہندگان کو ووٹ دینے کی تر غیب دی جائے گا ۔یہ رتھ صبح 11؍ بجے ضلع کلکٹر دفتر سے نکالا جائے گا ۔
اِسی طرح ضلعے کے گنگا پور - خلد آباد حلقہ انتخاب میں رائے دہندگان کی حوصلہ افزائی کے لیے ریلیاں ‘ خطوط لکھنے ‘ رنگولی بنا نے ‘ تقریری ‘ مضمون نویسی اور اسٹریٹ ڈراموں جیسی سر گر میاں انجام دی جائیں گی ۔ یہی سرگر میاں کل گنگا پور ‘ جام گائوں ‘ والوج ‘ رانجن گائوں ‘ شی لے گائوں ‘ اور لاسور اسٹیشن ��یں بھی انجام دی گئی ۔
***** ***** *****
***** ***** ***** ***** ***** *****
یہ خبریں آکاشوانی چھتر پتی سنبھا جی نگر سے نشر کی جا رہی ہیں
***** ***** ***** ***** ***** *****
ناندیڑ میں رائے دہندگان کی حوصلہ افزائی کے مقصد سے سو ئیپ کے تحت آج نوجوان ووٹرس کا میلہ لگا یا جائے گا ۔ ساتھ ہی پولس بھرتی رہنمائی پروگرام کا بھی نظم کیا جائے گا ۔یہ میلہ صبح 11؍ بجے ناندیڑ کے آئی آئی بی پرن کُٹی ‘ ہرش نگر شام نگر ناندیڑ میں منعقد کیا جائے گا ۔
***** ***** *****
ہنگولی ضلعے میں گھر پر ووٹ دینے کی سہولت پر عمل د رآمد کیا جا رہا ہے ۔ کل پہلے ہی دِن 700؍ بزر گ رائے دہندگان اور معذور ووٹرس نے اِس سہو لت کے ذریعے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا ۔ خیال رہے کہ ہنگولی ضلعے میں گھر پر ووٹ دینے کی سہولت حاصل کرنے کے لیے ایک ہزار
70؍ رائے دہندگان نے اندراج کر وا یا ہے ۔
اِسی سلسلے میں سین گائوں تعلقے کے ہوڑی میں رہنے والے 102؍ سالہ بزرگ نے بھی کل اپنا حقِ رائے استعمال کیا ۔
***** ***** *****
بیڑ ضلعے کے آشٹی اسمبلی حلقہ میں 6؍ امید واروں کو نوٹِسیں اِرسال کی گئی ہیں ۔ ان حلقوں میں امید واروں کے چُناوی اخرجات کی پہلی جانچ پڑ تال گزشتہ جمعہ کے دن کی گئی تھی ۔ جس کے بعد امید وار محبوب اِبراہیم شیخ اور پر دیپ چوہان کو چُناوی اخرجات پیش کرنے میں تاخیر کی وجہ بتا نے اور سُریش دھس ‘ باڑا صاحیب آجبے اور بھیم رائو دھونڈے کو حساب کتاب میں غلطیوں کی وضاحت 48؍ گھنٹوں میں پیش کرنے کو کہا گیا ہے ۔ آشٹی کے چُنائو فیصلہ افسر وسیم شیخ نے مذکورہ امید واروں کو یہ نوٹِسیس اِرسال کی ہیں ۔
***** ***** *****
چھتر پتی سنبھا جی نگر میں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والے ایک سر کاری افسر کے خلاف کارروائی کرنے کی تجویز پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اِسی طرح دوسرے افسر کو متنبہ کیاگیا ہے ۔ تفصیلات کے مطابق خلد آباد میں واقع کوہِ نور آرٹس ‘ سائنس اور کامرس کالج کے پرنسپل ڈاکٹر شنکر امبھو رے اور شعبہ تعمیراتِ عامہ کے کار گذار انجینئر اشوک یے ریکر کے خلاف شکایات موصول ہونے پر کمرہ ضابطہ اخلاق کے نوڈل افسر وِکاس مینا نے معاملے کی سنوائی کر کے کارروائی کا حکم دیا ۔
***** ***** *****
ناندیڑ پولس کی عملداری میں ہاتھ بھٹیوں کا خاتمہ کرنے کے مقصد سے کل ناندیڑ ‘ پر بھنی ‘ لاتور اور ہنگولی میں بیک وقت ہاتھ بھٹیوں پر چھاپے مارے گئے ۔ اِس کارروائی میں 22؍ لاکھ 59؍ ہزار 160؍ روپئے مالیت کا ساز و سامان ضبط کیاگیا ۔ساتھ ہی 169؍ معاملات درج کیے گئےہیں۔ناندیڑ پولس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل شاہ جی اُماپ نے یہ معلومات دی ۔
***** ***** *****
ریاستی اسمبلی انتخاب کی مناسبت سے ریاست بھر میں نافذ ضابطہ اخلاق کے دوران ناندیڑ ضلع ایکسائز ڈپارٹمنٹ نے گزشتہ 3؍ دنوں میں مختلف مقامات پر چھاپے مار کر 8؍ لاکھ 17؍ ہزار 30؍روپئے مالیت کی غیر قانونی شراب ضبط کی ۔ ناندیڑ میں تعینات ریاستی ایکسائز سپرنٹنڈنٹ گنیش پاٹل نے یہ اطلاع دی ۔ خیال رہے کہ ناندیڑضلعے کے 9؍ اسمبلی حلقوں میں پُر امن پولنگ کر وانے کے مقصد سے ضلع کلکٹر نیز چُنائو فیصلہ افسر ابھیجیت رائوت نے شعبہ ایکسائز کو مستعد رہنے اور ضروری اقدام کرنے کی ہدایت دی ہے ۔
***** ***** *****
پر بھنی شہر کے قریب بسمت شاہراہ پر کل ایک ٹریکٹر نے دو پہیہ گاڑی کو ٹکر مار دی ۔ اِس حادثے میں میاں بیوی اور اُن کا بیٹا موقعے پر ہی جا بحق ہو گئے ۔ یہ لوک پر بھنی سے ہنگولی ضلعے کے اونڈھا میں آباد انجان واڑی جا رہے تھے کہ راستے میں یہ حادثہ پیش آیا ۔
***** ***** *****
آخر میں اہم خبروں کی سر خیاں ایک مرتبہ پھر سن لیجیے ...
٭ ریاستی اسمبلی انتخاب میں امید واروں کی تشہیری سر گر میاں زورو پر ‘عوام سے ملا قات کو دے رہے ہیں تر جیح
٭ چُنائو میں غداری کرنے والے 16؍ امید واروں کو کانگریس پارٹی نے کیا بے دخل
٭ چھتر پتی سنبھا جی نگر ضلعے میں آج سے تصویری رتھ کے ذریعے کی جائے گی رائے دہندگان کی حوصلہ افزائی
اور
٭ ہنگولی ضلعے میں گھر میں ووٹ دینے کی سہولت روبہ عمل ‘ پہلے دِن 700؍ بزرگ اور معذوروں نے دیا ووٹ
علاقائی خبریں ختم ہوئیں
آپ یہ خبر نامہ ہمارے یو ٹیوب چینل AIR چھتر پتی سنبھا جی نگر پر دوبارہ کسی بھی وقت سن سکتے ہیں۔
٭٭٭
0 notes
Text
پی ٹی آئی کامنحرف ارکان کےخلاف سخت کارروائی کا فیصلہ
پاکستان تحریک انصاف نے پارٹی پالیسی سے انحراف کرنے والے ارکان کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کرنے کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں جلسوں کے شیڈول سمیت احتجاجی تحریک کی بھی منظوری دے دی۔ پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کااعلامیہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کی زیر صدارت تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا۔اعلامیے میں کہا گیا کہ عمر ایوب کی زیر صدارت پی ٹی آئی کی…
0 notes