#جریدے
Explore tagged Tumblr posts
Text
جنرل عاصم منیر متشدد انتہا پسندوں کے خلاف توانا آواز بن گئے، امریکی فوجی جریدے کا اعتراف
(احمد منصور)امریکی سنٹرل کمانڈ کے جریدے ”یونی پاتھ“ نے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے اور ان کی پیشہ ورانہ اور قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے۔ سینٹ کام جریدے کے مطابق جنرل سید عاصم منیر کو ایسے لیڈر کے طور پر یاد کیا جائے گا جن کا اولین عزم پاکستان کی سلامتی، استحکام اور خوشحالی ہے۔ سینٹ کام جریدے کے مضمون میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی قیادت، فوجی…
0 notes
Text
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے میثاق مفاہمت کی حمایت کرتے ہوئے عدالتی اور الیکشن اصلاحات کا مطالبہ کردیا ہے۔
ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ میں محمود اچکزئی کے گھر پر چھاپے کی مذمت کرتا ہوں۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی وجہ سے صدارتی الیکشن کو بلاوجہ متنازع کیا جارہا ہے، بلاول بھٹو نے محمود اچکزئی کے گھر پر مبینہ چھاپے کے خلاف کارروائی کرنے کی اپیل بھی کردی۔
بعد ازاں سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ میں اپنے خاندان کی تیسری نسل کا نمائندہ ہوں جو اس ایوان میں دوسری بار منتخب ہوا ہوں، اس عمارت کا جو بنیادی پتھر ہے وہ ذوالفقار علی بھٹو نے لگایا تھا، یہ قومی اسمبلی کسی ایک کی نہیں سب کی ہے، قومی اسمبلی کا ایوان ہم سب کا ہے، قومی اسمبلی کو مضبوط بنانا عوام کو مضبوط بنانا ہے، جب ہم قومی اسمبلی کو کمزور کرتے سہیں تو وفاق، جمہوریت کو کمزور کرتے ہیں، ہمیں اس نظام کو کمزور نہیں مضبوط کرنے کی کوشش کرنی چاہے، تمام ارکان سے درخواست ہے کہ ایسےفیصلے کریں جس سےقومی اسمبلی مضبوط ہو۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ہم اس جمہوری ادارے کو طاقتور بنائیں گے، ایسے فیصلے لیں گے جس سے نوجوانوں کا مستقبل بہتر ہو، آئندہ آنے والے ہمیں دعائیں دیں کہ انہوں نے قومی اسمبلی کے لیے اچھے فیصلے کیے، ایسا نہ ہو آئندہ آنے والے ہمیں گالیاں دیں کہ قومی اسمبلی کےساتھ کیا کیا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ یہ ایوان تمام اداروں کی ماں ہے، عوام ہماری طرف دیکھ رہے ہیں کہ ہم انہیں مشکلات سے نکالیں گے۔
بلاول بھٹو نے درخواست کی کہ احتجاج کے نام پر ایک دوسرے کو گالیاں نہ دی جائیں اور قومی اسمبلی میں تمام تقریریں سرکاری ٹی وی پر لائیو دکھائی جائیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے کارکنوں اور امیدواروں پر حملے کیے گئے ہیں، ہمیں ایسا نظام بنانا چاہیے کہ کارکنوں کو جان قربان نہ کرنی پڑے۔
بلاول بھٹو نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ایوان میں کہا کہ اس ایوان میں کسی ایک جماعت کے پاس مینڈیٹ نہیں ہے، عوام نےایسا مینڈیٹ دیا کہ تمام جماعتوں کو مل بیٹھ کر فیصلے کرنے ہوں گے، عوام نے الیکشن مین بتایا کہ وہ ہماری آپس کی لڑائی سے تنگ آگئے ہیں، اب ہمیں آپس میں بات کرنی ہوگی، عوام نے ہمیں گالیاں دینے نہیں بلکہ مسائل کے حل کے لیے ووٹ دیا ہے۔
سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ سیاست کا ضابطہ اخلاق بنالیں گے تو 90 فیصد مسائل ختم ہوجائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ شہباز شریف کو وزیراعظم نہیں مانتے تو ان کی پالیسی پر آپ تنقید نہیں کرسکتے ہیں، وزیراعظم نے جو نکات کل اٹھائے ان پر عمل کرکے بحران سےنکل سکتے ہیں، ہم آپ کو دعوت دے رہے ہیں کہ پاکستان اور عوام کو معاشی مشکل سے نکالیں۔
بلاول بھٹو نے بتایا کہ ملک میں مہنگائی بڑھ رہی ہے مگر آمدن میں اضافہ نہیں ہورہا ہے، ،ملک میں مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کا سونامی ہے، ہم سالانہ ایک ہزار 500 ارب امیروں کو سبسڈی میں دے دیتے ہیں، غیر ضروری وزارتیں اور امیروں کو سبسڈی دینا بند کرنا ہوگی، امیروں سے سبسڈی کو ختم کرکے غریب عوام کو ریلیف دینا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ میثاق معیشت پر کوئی ایک جماعت فیصلے نہیں کرسکتی ہے، شہباز شریف موقع دے رہے ہیں کہ آئیں مل کر عوام کو معاشی بحران سے نکالیں، وزیراعظم کی پالیسی میں آپ کا مؤقف شامل ہوگا تو بہتر پالیسی بن سکے گی۔
سابق وزیر خارجہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ ہمیں عدالتی اور الیکشن سے متعلق اصلاحات کرنے ہوں گے، عدالتی، الیکشن ریفارمز پر اپوزیشن بھی ہمارا ساتھ دے، اگر ہم نے مل کر یہ اصلاحات کرلیں گے تو کوئی جمہوریت کو کمزور نہیں کرسکتا، ہم چاہتے ہیں کہ ایسا الیکشن ہو جہاں وزیراعظم کے مینڈیٹ پر کوئی شکوک نہ ہو، ہم چاہتے ہیں شہباز شریف جیتیں یا قیدی نمبر 804 الیکشن جیتے لیکن کوئی انگلی نہ اٹھاسکے۔
بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ میں ملک کا وزیرخارجہ ہوں، جانتا ہوں سائفر کیا ہوتا ہے، اس سائفر کی ہر کاپی کاؤنٹ ہوتی ہے صرف ایک کاپی ہم گن نہیں سکے وہ وزیر اعظم کے آفس میں تھی، خان صاحب نے خود مانا کہ انہوں نے ایک خفیہ دستاویز کھو دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ جلسے میں ایسے لہرانے کی بات نہیں تھی، یہ آڈیو لیک کی بھی بات نہیں ہے، میرے نزدیک مسئلہ یہاں شروع ہوتا کہ جب خان صاحب کو گرفتار کیا جاتا ہے تو اگلے دن گرفتاری کے بعد وہ سائفر ایک غیر ملکی جریدے میں چھپ جاتا ہے تو اگر آپ عوام کو بے وقوف سجھتے ہیں تو آپ غلط ہیں، ہم جانتے ہیں کہ جان بوجھ کے کسی نے اس سائفر کو سیاست کے لیے انٹرنیشنل جریدے میں چھپوایا تاکہ کیسز کو متنازع بنایا جائے، جب آپ خفیہ دستاویز کو پبلک کرتے ہیں تو قومی سلامتی داؤ پر لگتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی آئین کی خلاف وزری کرتا ہے تو اس کے سزا دلوانی چاہیے، اگر یہ ہم سے جمہوریت کی بات کریں گے تو میں کہوں گا کہ آپ ہوتے کون ہیں یہ بات کرنے والے، میں اس ش��ص کا نواسا ہوں جس نے تختہ دار پر ہوتے ہوئے بھی اصولوں کا سودا نہیں کیا، یہ جو لوگ یہاں ہیں جو احتجاج کر رہے ہیں، جن کو 6 مہینے سے جمہوریت یاد آرہی ہے تو اگر انہیں لیکچر دینا ہے تو ایک دوسرے کو دیں ہمیں نا دیں، یہ سمجھت�� ہیں کہ یہ سب پر جھوٹا الزام لگائیں اور ہم جواب نا دیں، لیکن میں ان کے جھوٹ کاپردہ فاش کروں گا۔
بلاول بھٹو نے بتایا کہ میں اس قسم کی حرکتوں سے خود مایوس نہیں ہوتا مگر پاکستانی عوام اس قسم کی حرکتوں کو پسند نہیں کرتے، اگر یہ کوئی غیر جمہوری کام کریں گے تو میں ان کے خلاف کھڑا ہوجاؤں گا، یہ ہمارا فرض ہے کہ سب سے پہلے اپنا فرض ادا کریں نا کہ دوسروں پر تنقید شروع کردیں۔
سابق وزیر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کے حوالے سے علی امین گنڈاپور نے انکوائری کا مطالبہ کیا ہے کہ اس انکوائری کے مطابق ملزمان کو سزا اور بے قصور کو رہا کردینا چاہیے، تو یہ مجھے یقین دہانی کروائیں کہ ہم جو جوڈیشل کمیشن بنوائیں گے تو اس کا فیصلہ ماننا پڑے گا، یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی شہدا کے میموریل پر حملہ کرے اور ہم اسے بھول جائیں،ہم وزیر اعظم سے درخواست کرتے ہیں کہ ایک جوڈیشل کمیشن بنائیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی سے آپ درخواست کریں کے وہ اس کمیشن کے سربراہ بن کے مئی 9 کے بارے میں تحقیقات کروائیں اور ملزمان کو سزا دلوائیں۔
اس دوران سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے بلاول کی تقریر پر احتجاج اور شورشرابہ شروع کردیا، بلاول بھٹو نے کہا کہ میری باتیں حذف کردیں، مجھے ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیے تھیں۔
اِس پر اسپیکر ایاز صادق کا کہنا تھا کہ یہ بلاول بھٹو زرداری کا بڑا پن ہے، بعدازاں نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری ایوان سے روانہ ہوگئے۔
0 notes
Text
جون تک 8.5 ارب ڈالر قرض واجب الادا، نئی حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا، بلومبرگ کی رپورٹ
عالمی معیشت پرمستند رپورٹنگ کے لیے معروف جریدے بلومبرگ نے رپورٹ کیا ہے کہ جنوری میں پاکستان کا بانڈ 9 فیصد مستحکم ہوا،2023 میں پاکستان کے بانڈز میں 100 فیصد بہتری ہوئی ،پاکستان یورو بانڈ کی فروخت میں سست روی کرسکتا ہے۔ بلومبرگ رپورٹ کے مطابق الیکشن کی وجہ سے پاکستان یورو بانڈ کے اجرا میں محتاط ہے،سرمایہ کار پاکستان میں انتخابی نتائج کے منتظر ہیں، پاکستان اپریل میں انٹرنیشنل مارکیٹ میں ایک ارب…

View On WordPress
0 notes
Text
کیا موبائل فون کو رات بھر چارجنگ پر نہیں لگانا چاہیے؟

سائنس اور ��یکنالوجی پر رپورٹ کرنے والے جریدے دی کنورسیشن کے مطابق نئی جنریشن کے زیادہ تر سمارٹ فونز کو چارجنگ کے لیے 30 منٹ سے دو گھنٹے کا وقت درکار ہوتا ہے۔ چارجنگ کے لیے کتنا وقت درکار ہو گا اس کا دارومدار آپ کے فون کی بیٹری کی استعداد پر بھی ہے اور اس بات پر بھی کہ آپ کا چارجر کتنی پاور فراہم کر رہا ہے۔ رات بھر فون کو چارجنگ پر لگانا نہ صرف غیر ضروری ہے بلکہ یہ آپ کے فون کی بیٹری کی زیادہ سے زیادہ گنجائش کو تیزی سے کم کرنے کا سبب بھی بنتا ہے یعنی اس عمل سے فون کی بیٹری کمزور ہوتی ہے۔ ماہرین فون کو مکمل سائیکل میں چارج کرنے یعنی صفر سے 100 فیصد تک بیٹری چارج کرنے سے گریز کرنے کی ہدایت بھی کرتے ہیں (یعنی ایک ہی چارجنگ میں فون کی بیٹری کو 100 فیصد چارج کرنا)۔
سام سنگ کی جانب سے جاری ہدایات میں کہا گیا ہے کہ زیادہ مرتبہ اپنے فون کو 100 فیصد تک چارج کرنا آپ کے فون کی بیٹری کی صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ایک دفعہ میں فون کو 20 سے 80 فیصد کے درمیان چارج کرنا بہتر ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق اس بات کے امکانات کم ہوتے ہیں کہ زیادہ دیر چارج کرنے سے آپ کے فون کی بیٹری پھٹ جائے۔ عموماً ایسا بیٹری میں موجود کسی اور نقص کی وجہ سے ہوتا ہے۔ عموماً ناقص چارجنگ کیبل یا بیٹری کا حرارت باہر نہ نکال پانا بھی اس کے پھٹنے کی وجہ بن سکتا ہے۔

موبائل چارجنگ کے حوالے سے چند حفاظتی تدابیر اس حوالے سے کچھ تدابیر آپ کے فون کی بیٹری کو طویل عرصے تک کام کرنے کا قابل بنا سکتی ہے اور آپ کو ممکنہ حادثے سے بچانے میں مددگار بھی ہو سکتی ہیں۔ اپنے فون میں سب سے تازہ ترین سافٹ ویئر اپڈیٹ کریں فون کے اوریجنل یا سرٹیفائڈ چارجرز کا استعمال کریں کیونکہ دیگر چارجرز میں پاور ڈلیوری یعنی واٹس وولٹس وغیرہ مختلف ہو سکتی ہے فون کو بہت زیادہ یا بہت کم درجہ حرارت سے دور رکھیں۔ صفر ڈگری سے 35 ڈگری موزوں درجہ حرارت ہے اپنے فون کی چارجنگ کو 20 سے 80 فیصد کے درمیان رکھنے کی کوشش کریں اور فون کو کبھی مکمل یعنی 100 فیصد چارج نہ کریں اپنے فون کو رات بھر چارجنگ پر نہ لگائیں اور اگر بیٹری پوری چارج ہو جائے تو اسے چارجنگ سے فوری ہٹا لیں بیٹری کو مانیٹر کرتے رہیں کہ کہیں یہ بہت جلدی ختم تو نہیں ہو رہی وغیرہ اگر آپ کو ایسا محسوس ہو کہ آپ کا موبائل گرم ہو رہا ہے یا بیٹری پھولی ہوئی ہے تو اسے فوری طور پر کسی کمپنی سے منسلک رپیئر شاپ پر لے جائیں
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
Text
غزہ پر اسرائیلی بمباریامریکا کی چوری پکڑی گئی
(ویب ڈیسک)اسرائیل کی غزہ اور فلسطین کے دیگر شہروں پر بمباری،نہتے مسلمانوں کی ناکہ بندی میں امریکا اسرائیل کو مکمل طور پر مدد فراہم کررہا ہے۔ امریکی جریدے بلوم برگ نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ امریکا خاموشی سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی منتقلی بڑھا رہا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پینٹاگون کو دی گئی درخواست میں اپاچی گن شپ بیڑے کے لیے مزید لیزر گائیڈڈ میزائل شامل ہیں۔ ضرورپڑھیں:اسرائیل کا الشفا…

View On WordPress
0 notes
Text
جسٹن بیبر 'روزنامہ' کی ویلنٹائن ڈے کی خصوصی کارکردگی سے شائقین کو خوش کرینگے
جسٹن بیبر ‘روزنامہ’ کی ویلنٹائن ڈے کی خصوصی کارکردگی سے شائقین کو خوش کرینگے
جسٹن بیبر کے ساتھ اس ویلنٹائن ڈے پر اپنے مداحوں کے ساتھ ایک حقیقی سلوک ہے جب انہوں نے بدھ کے روز اپنے 2013 کے تالیف البم ‘روزنامچے’ کی اپنی خصوصی کارکردگی کے بارے میں اعلان کیا تھا۔ کینیڈا کے پاپ اسٹار نے انکشاف کیا ہے کہ ورچوئل گیگ اتوار (14 فروری) کو ٹک ٹوک پر ہوگی۔ ہیلی بیبر کی پیاری نے ٹویٹر پر اپنے ہٹ ٹریک کی ایک کلپ شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے: ‘# روزنامے یہ ویلنٹائن ڈے میرے ٹک ٹوک پر زندہ…

View On WordPress
0 notes
Text
مشہور امریکی قانون جریدے نے پہلے مسلمان صدر کی تقرری کی
مشہور امریکی قانون جریدے نے پہلے مسلمان صدر کی تقرری کی
بوسٹن: ہارورڈ لاء ریویو نے اپنی 134 سالہ تاریخ میں اپنے پہلے مسلمان صدر کا انتخاب کیا ہے۔ 26 سالہ حسن شہاوی لاس اینجلس میں پیدا ہوا مصری نژاد امریکی ہے۔ ہارورڈ لا اسکول کے طالب علم کو امید ہے کہ ان کا انتخاب “قانونی تعلیمی اداروں کی تنوع کی اہمیت کی بڑھتی ہوئی پہچان ، اور شاید اس کی دیگر قانونی روایات کے لئے بڑھتے ہوئے احترام کی نمائندگی کرتا ہے۔” سابق امریکی صدر باراک اوباما ، جس نے 1990 میں…

View On WordPress
0 notes
Photo

”واقعی تبدیلی آگئی“ عمران خان نے جو کہا کردکھایا،امریکی جریدے فوربز نے پاکستان کو کاروبار کیلئے بہترین ملک قرار دیدیا اسلام آباد(آن لائن) معروف امریکی جریدے ”فوربز“ نے پاکستان کو کاروبار کیلئے بہترین ملک قرار دیا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق کاروبار، سرمایہ کاری اور تجارتی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے جریدے فوربز نے پاکستان کو کاروبار کیلئے بہترین ملک قرار دیا ہے۔فوربز کے مطابق پاکستان کا شمار ان تین ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے رواں سال مجموعی طور پر
#آگئی#بہترین#پاکستان#تبدیلی#جریدے#جو#خان#دیدیا#عمران#فوربز#قرار#کاروبار#کردکھایاامریکی#کہا#کو#کیلئے#ملک#نے#واقعی
0 notes
Text
بشریٰ بی بی کے بعد عمران خان کی بہنوں کو بھی بڑا ریلیف مل گیا
(حاشراحسن)بشریٰ بی بی کی رہائی کے بعد عمران خان کی بہنوں کو بھی عدالت سے بڑا ریلیف مل گیا۔ انسداد دہشتگردی کی عدالت نے بانی پی ٹی آئی کی بہنوں علیمہ خان اور عظمیٰ خان کی ضمانت منظور کرلی ۔انسداد دہشتگردی عدالت راولپنڈی کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے ضمانتیں منظور کیں۔ ضرورپڑھیں:جنرل عاصم منیر متشدد انتہا پسندوں کے خلاف توانا آواز بن گئے، امریکی فوجی جریدے کا اعترافعدالت نے 20،20 ہزار روپے مچلکوں…
0 notes
Text
پی ٹی آئی کو نئے چیلنچ کا سامنا

بلّا چھینے جانے کے بعد تحریک انصاف کے امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لیں گے۔ اب بحث یہ ہو رہی ہے کہ کیا 8 فروری کےانتخابات کے نتیجے میں آزاد حیثیت سے جیتنے والے ارکین قومی و صوبائی اسمبلی تحریک انصاف یا کسی ایسی سیاسی جماعت جس کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی میں شامل ہو سکتے ہیں؟ اس بارے میں قانونی افراد کی رائے میں اختلاف ہے کیوں کہ کسی سیاسی جماعت جس کا انتخابی نشان واپس لے لیا گیا ہو اور اُسے بحیثیت سیاسی جماعت الیکشن لڑنے کی اجازت نہ دی جائے تو کیا ایسی سیاسی جماعت میں آزاد حیثیت سے الیکشن جیتنے والے شامل ہو سکتے ہیں یا نہیں اس بارے میں نہ آئین میں کچھ لکھا ہے اور نہ ہی الیکشن ایکٹ میں اس بارے میں کوئی وضاحت موجود ہے۔ یاد رہے کہ تحریک انصاف سے انتخابی نشان واپس لیا گیا جس کی وجہ سے بحیثیت سیاسی جماعت وہ آئندہ کا الیکشن نہیں لڑ سکتی لیکن قانونی طور پر تحریک انصاف اب بھی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے۔ آئین کے مطابق آزاد حیثیت سے جیتنے والے ممبران قومی و صوبائی اسمبلیوں کے پاس اُن کے الیکشن جیتنے کے نوٹیفیکیشن کے تین دن کے اندر یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی ��ھی سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں۔

آئین کی شق نمبر 51 اور 106 میں تین دن میں آزاد حیثیت سے جیتنے والے ممبران قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی بات کی گئی ہے۔ ان آئینی شقوں میں جہاں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے انتخاب کی بات کی جاتی ہے تو وہاں آئین جن سیاسی جماعتوں میں آزاد اراکین اسمبلی کی شمولیت کی بات کرتا ہے تو وہ سیاسی جماعتیں وہ ہیں جنہوں نے عام انتخابات میں حصہ لے کر ایک یا ایک سے زیادہ نششتیں جیتی۔ آئین کے مطابق ’’۔ کسی سیاسی جماعت کی طرف سے حاصل کردہ عام نشستوں کی کل تعداد میں وہ کامیاب آزاد امیدوار شامل ہوں گے جو سرکاری جریدے میں کامیاب امیدواروں کے ناموں کی اشاعت سے تین یوم کے اندر باضابطہ طور پر مزکورہ سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں۔ اگر ان آئینی شقوں پر انحصار کیا جائے تو پھر تو تحریک انصاف کے آزد اراکین اسمبلی کسی ایسی سیاسی جماعت میں ہی شامل ہو سکتے ہیں جس نے انتخابات میں اپنے نام اور انتخابی نشان کے ساتھ ہی حصہ لیا ہو اور اُس کا کوئی نہ کوئی امیدوار الیکشن جیت کر اسمبلی میں پہنچ گیا ہو۔ ایسی صورت میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے آزاد امیدوار الیکشن جیتنے کے بعد بھی تحریک انصاف میں شامل ہو کر تحریک انصاف کو قومی و صوبائی اسمبلیوں میں عوام کی نمائندہ جماعت کی حیثیت نہیں دلوا سکتے۔
لیکن اگر ان آئینی شقوں کو صرف اور صرف خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشتوں کے حوالے سے پڑھا جائے تو پھر آئین اور قانون آزاد اراکین اسمبلی کی طرف سے تحریک انصاف جسے الیکشن میں حصہ نہیں لینے دیا گیا اُس کی ایسے انتخابات کے بعد قائم ہونے والی اسمبلیوں میں پابندی یا آزاد اراکین کی طرف سے اُس کی نمائندگی کرنے کے معاملے پر خاموش ہیں۔ تحریک انصاف کو اگرچہ یہ درست خدشہ ہے کہ آزاد ارکین کی حیثیت سے جیتنے والے اُس کے کچھ یا کئی اراکین کو انتخابات کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں میں دباو یا لالچ کے ذریعے شامل کیا جا سکتا لیکن اب یہ الیکشن کمیشن اور ع��لیہ نے ہی فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا تحریک انصاف کو آئندہ کی اسمبلیوں میں الیکشن جیتنے والے آزاد ارکین کے ذریعے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بحال کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
فوجی اڈوں کا مطالبہ، امریکا نے عمران خان کے الزامات مسترد کر دیئے
امریکا نے برطانوی جریدے میں شائع بانی پی ٹی آئی عمران خان کے مضمون میں لگائے گئے الزامات کو ایک بار پھر مسترد کردیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکا پاکستان کو نہیں کہہ سکتا کہ انتخابات کیسے کروائے، پاکستان کے مستقبل کی قیادت کا فیصلہ پاکستانی عوام نے کرنا ہے۔ پریس بریفنگ کے دوران امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر سے سوال کیا گیا کہ ’اپنے تازہ ترین مضمون میں سابق وزیراعظم عمران…

View On WordPress
0 notes
Text

ﺍُﺭﺩﻭ ﮐﮯ ﺩﺱ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﻧﺎﻭﻝ
تحریر : ڈاکٹر رؤف پاریکھ
05 آگست 2020
••••••••
کسی زمانے میں یہ تاثر عام تھا کہ اردو میں عظیم ادبی ناول نہیں لکھے گئے اور اردو میں عظیم ناول تو کیا اچھے ناول بھی نہیں ہیں یا بہت کم ہیں۔۔۔ لیکن عزیز احمد نے اس سے اختلاف کیا۔۔۔ عزیز احمد ناول نگار بھی تھے اور نقاد و محقق بھی۔۔۔ ان کا خیال تھا کہ جن لوگوں نے اردو ادب کا بِالاستیعاب مطالعہ نہیں کیا وہی یہ کہہ سکتے ہیں کہ اردو میں اچھے ناول نہیں ہیں۔۔۔
شہزاد منظر نے لکھا ہے کہ آزادی کے بعد اردو میں کئی معیاری ناول لکھے گئے اور ۱۹۷۰ء کے عشرے میں متعدد اچھے ناول منظرِ عام پر آئے۔۔۔ یہ گویا ہمارے ملک کے صنعتی کلچر کی دین ہے اور غالباً اس خیال کی توثیق ہے کہ ناول دراصل صنعتی دور اور صنعتی معاشرے کی پیداوار ہے۔۔۔ زرعی معاشرہ بالعموم شاعری کو نثر پر ترجیح دیتا ہے۔۔۔ کچھ نقادوں کا خیال تھا کہ اردو ناول ۱۹۸۰ء کے لگ بھگ زوال کا شکار ہوگیا اور ۱۹۸۰ء کے بعد عمدہ ادبی ناول اردو میں نہیں لکھے گئے۔۔۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں بھی بعض عمدہ ناول لکھے گئے اگرچہ ان کی تعداد نسبۃً کم رہی۔۔۔
اکیسویں صدی کے آغاز کے لگ بھگ اردو میں ایک بار پھر اچھے ادبی ناول خاصی تعداد میں نظر آنے لگے، عرفان جاوید نے کوئی پانچ چھے سال قبل اپنے ایک انگریزی مضمون میں لکھا تھا کہ گزشتہ پندرہ برسوں میں اردو ناول کا احیا ہوا ہے اور بعض بہت عمدہ ناول شائع ہوئے ہیں۔۔۔ ممتاز احمد خان نے بھی اپنی کتابوں میں نئے اور اہم ناولوں کا جائزہ لیتے ہوئے خیال ظاہر کیا ہے کہ آزادی کے بعد اردو میں بعض بہت اچھے ناول بھی لکھے گئے ہیں۔۔۔ غفور احمد نے اپنے مقالے " نئی صدی نئے ناول " میں اکیسویں صدی کے ابتدائی دس برسوں میں لکھے گئے معیاری ناولوں کا جائزہ لیا ہے۔۔۔
شاعر علی شاعر نے حال ہی میں اپنی کتاب " جدید اردو ناول " میں اکیسویں صدی میں پاکستان اور ہندوستان میں شائع ہونے اردو ناولوں کی فہرست دی ہے۔۔۔ ان کی تعداد تقریباً ڈیڑھ سو ہے، یہ سب اعلیٰ ادبی ناول تو نہیں ہیں لیکن کم از کم یہ اس بات کا ثبوت ضرورہے کہ اردو میں ناول لکھا جارہا ہے اور اردو میں ناول کا احیا ہو رہا ہے۔۔۔ اکادمی ادبیات پاکستان نے پچھلے ماہ اپنے جریدے " ادبیات " کا ناول نمبر شائع کیا ہے اور دو جلدوں پر مشتمل اس خصوصی اشاعت میں اردو ناول پر مضامین و مقالات کے علاوہ اردو کے تقریباً تین ہزار ناولوں کے نام (مع مصنف ) دیے گئے ہیں۔۔۔ لیکن اس میں ہر قسم کے ناول شامل ہیں ، ادبی بھی اور ��یر ادبی بھی۔۔۔
اتنی بڑی تعداد میں ناولوں کی موجودگی میں بہترین کا انتخاب آسان نہیں ہے۔۔۔ لیکن بہرحال اردو ادب کے ایک طالب علم کی حیثیت سے اردو کے بہترین ناولوں کی فہرست پیش کرنے کی یہ طالب علمانہ کوشش ہے۔۔۔ یہ فہرست تاریخی ترتیب سے مرتب کی گئی ہے۔۔۔ ہماری اس فہرست میں ناولوں کی ادبی اہمیت اور فنی خوبیوں کو مد نظر رکھا گیا ہے۔۔۔ عوامی مقبولیت کے حامل ناول نیز خواتین کے " گھریلو، معاشرتی اور اصلاحی ناول " شامل نہیں ہیں.۔ اس میں " اسلامی " اور جاسوسی ناول بھی شامل نہیں ہیں۔۔
ممکن ہے بعض قارئین کو اس فہرست سے اختلاف ہو کیونکہ اس میں بعض معروف ادبی ناول بھی نہیں ملیں گے ، مثلاً مولوی نذیر احمد دہلوی کا ناول مراۃ العروس(۱۸۶۹ء) اس میں شامل نہیں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ نذیر احمد کے ناول موجودہ دور میں ناول کی تعریف پر پورا اتر بھی جائیں تو ان کی بعض خامیاں ان کو اچھے ناول میں شمار کرانے میں مانع ہیں، مثلا ً کرداروں کا لمبی لمبی تقریریں کرنا اور مصنف کا براہ ِ راست وعظ و تلقین پر اتر آنا۔۔۔ پھر نذیر احمد کے کردار حقیقی زندگی سے بہت دور ہیں۔۔۔ اچھا کردار نیکی اور عقل کا پتلا ہے اور برے کردار میں کوئی خوبی نہیں۔۔۔ حقیقی زندگی میں ایسا نہیں ہوتا ، انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔۔۔ نذیر احمد نے کرداروں کا نفسیاتی ارتقا بھی کم دکھایا ہے۔۔۔
راشد الخیری نے تو اپنے بعض ناولوں میں لڑکیوں کی " صحیح تربیت " کے خیال سے کپڑوں کی تراش اور سلائی سکھانے کے لیے سلائی کے طریقے بھی پیش کیے ہیں اور باقاعدہ نمونے (ڈیزائن) بھی شامل کیے ہیں۔۔۔ آج کے ناولوں میں اس کا تصور بھی محال ہے۔۔
دراصل ناول میں زندگی کی تخلیق اہم ہوتی ہے۔۔۔ اس کے لیے پورے سماجی ، ثقافتی ، تاریخی اور سیاسی ماحول اور زبان کا شعور ضروری ہے۔۔ لیکن اس زندگی اور ماحول کو پورے ادبی اور فنی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے بالواسطہ پیش کرنا ہوتا ہے نہ کہ بلا واسطہ اور براہِ راست۔۔۔
عبداللہ حسین کا ناول اداس نسلیں بہت مشہورہے لیکن قرۃ العین حیدر نے " کار ِ جہاں دراز ہے " میں اس پر نہ صرف سرقے کا الزام لگایا ہے بلکہ وہ جملے اور پیراگراف صفحہ نمبر کے ساتھ پیش کیے ہیں، جن سے اداس نسلیں میں ’’استفادہ ‘‘ کیا گیا ہے۔. اب یہ محض اتفاق ہی ہوگا کہ کئی مقامات پر یہ ’’استفادہ‘‘ لفظ بہ لفظ ہوگیا ہے...
لہٰذا اسے بھی اس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔۔۔ اس فہرست پر ہمیں اصرار بھی نہیں ہے کیونکہ ایسی کوئی بھی فہرست حتمی نہیں ہوسکتی اور ایسی کسی فہرست پر سب کا متفق ہوجانا بھی ناممکنات میں سے ہے۔۔۔ لہٰذااس فہرست میں ہر قاری اپنی پسند اور ذوق کے مطابق تبدیلی، ترمیم اور اضافہ کرسکتا ہے۔۔۔۔
۱۔فسانۂ آزاد (۱۸۷۸ء)
اُردو کے دس بہترین ناول
پنڈت رتن ناتھ سرشار کا یہ شاہ کار ناول کشور کے ’’اودھ اخبار ‘‘ میں ��سط وار شائع ہوتا رہا۔۔۔ اس کے دو کرداروں میاں آزاد اور خوجی کا شمار اردو ادب کے معروف کرداروں میں ہوتا ہے۔۔۔ فسانۂ آزاد پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس کاصحیح معنوں میں کوئی پلاٹ نہیں ہے اور یہ حد سے زیادہ طویل ہے۔۔۔ لیکن یہ اعتراض تو دنیا کے کئی عظیم ناولوں مثلاً ٹالسٹائی کے ’’وار اینڈ پیس‘‘ اور دستووسکی کے ’’برادرز کراموزوف ‘‘ پر بھی وارد ہوتے ہیں۔۔۔ فسانۂ آزاد کی ایک بڑی خوبی اس میں لکھنوی معاشرے کی تہذیبی عکاسی ہے ۔ اس کی ٹکسالی اردو اور محاوروں کا استعمال سند کی حیثیت رکھتا ہے۔۔۔ البتہ اس کا مرکزی خیال سروانتے (Cervantes)کے ہسپانوی ناول’’ دون کی ہوتی ‘‘ (Don Quixote) سے ماخوذ ہے(جس کا تلفظ اردو میں غلط طور پرڈون کوئیکزوٹ کیا جاتا ہے )۔۔۔
۲۔ امراو جان ادا (۱۸۹۹ء)
اُردو کے دس بہترین ناول
مرزا ہادی رسوا کا ناول امراو جان ادا اردو میں ناول کی صنف کے ایک نئے دور کا نقیب بلکہ ناول کے باقاعدہ آغاز کی علامت ہے۔۔۔یہ اردو میں پہلا ناول تھا جس سے معلوم ہوا کہ ناول ہوتا کیا ہے۔۔۔ رالف رسل نے لکھا ہے کہ مرزا ہادی رسوا کا ناول امراو جان ادا اردو کا ’’ پہلا ‘‘ ناول اور ’’صحیح معنوں میں ناول ‘‘ ہے۔۔۔ گویا وہ اس سے قبل کے ناولوں مثلاً نذیر احمد کے ناول اور دیگر ناولوں کو صحیح معنوں میں ناول نہیں سمجھتے۔۔ اس بحث سے قطع نظر کہ امراو کا کردار حقیقی تھا یا ہادی رسوا نے اسے حقیقت بنا کر پیش کیا، یہ ناول فکشن نویسی کے فن پر ہادی رسوا کے عبور کا ثبوت ہے۔۔۔ اس میں انیسویں صدی کے نصف ِ آخر کے لکھنو ٔ کی تہذیب کی شان دار عکاسی کی گئی ہے۔۔۔
۳۔گئو دان (۱۹۳۶ء)
اُردو کے دس بہترین ناول
منشی پریم چند کا آخری ناول گئو دان ان کا بہترین ناول بھی ہے۔۔۔ ہندستانی کسانوں کی قابل ِ رحم حالت کا نقشہ کھینچتے ہوئے پریم چند سرمایہ دارانہ نظام کے استحصالی ہتھکنڈوں پر فن کارانہ انداز میں احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔۔۔ پریم چند نے لکھنے کا آغاز اردو سے کیا تھا لیکن اردو ہندی تنازع کے پس منظر میں رفتہ رفتہ وہ ہندی کے حامی ہوتے گئے اور اپنی تخلیقات کو اردو میں لکھ کر دیو ناگری رسم الخط میں ڈھالنے لگے تھے۔۔ بعد ازاں ہندی میں لکھتے اور اسے اردو میں ڈھالا جاتا۔۔۔۔
ڈاکٹر مسعود حسین نے ثابت کیا ہے کہ ان کا یہ ناول مکمل طور پر ہندی میں لکھا گیا تھا اور اقبال ورما سحرؔہتگامی نے اسے اردو میں بعد میں ڈھالا۔۔ اسی لیے مسعود صاحب نے سہ ماہی فکر ونظر (علی گڑھ ) میں لکھا کہ چونکہ گئو دان اولاً ہندی میں لکھا گیا ہے اور اردو میں ترجمہ ہے اور چونکہ تراجم کو اُس زبان کے ادب کا حصہ نہیں مانا جاتا جس میں ترجمہ کیا گیا ہو لہٰذا " گئو دان کا اردو ناول نگاری کی تاریخ میں کوئی مقام نہیں " ۔۔۔ اس سے ایک تہلکہ مچ گیا۔۔۔ تاہم بعض نقاد اسے اردو کے عظیم ناولوں میں شمار کرتے ہیں۔۔۔
۴۔آگ کا دریا (۱۹۵۷ء)
اُردو کے دس بہترین ناول
قرۃ العین حیدر کے ناول آگ کا دریا کو اردو کا بہترین ناول کہا جاتا ہے۔۔۔ اگرچہ اس سے اختلاف بھی کیا جاتا ہے لیکن راقم کی ناقص رائے میں آگ کا دریا بلا شبہہ اردو کا عظیم ترین ناول ہے۔۔۔ محمد احسن فاروقی کا خیال تھا کہ ورجینیا وولف کے ناول ’’اورلینڈو‘‘ (Orlando) کا مقصد انگلستان کی تاریخ بیان کرنا تھا اور آگ کا دریا میں اسی کا اتباع کیا گیا ہے۔۔ دراصل اس ناول میں برعظیم پاک و ہند کی ڈھائی ہزار سالہ تاریخ بیان کی گئی ہے اور اس کا بنیادی خیال ’’ وقت ‘‘ ہے۔۔ اگرچہ اس کے ابتدائی سو ڈیڑھ سو صفحات پڑھنا ذرا مشکل ہے لیکن اس کے بعد یہ ناول قاری کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔۔۔
۵۔خدا کی بستی(۱۹۵۸ء)
اُردو کے دس بہترین ناول
شوکت صدیقی کا ناول خدا کی بستی کسی زمانے میں بہت مقبول تھا۔۔۔ اس کے تقریباً پچاس ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔۔۔ پاکستان بلکہ ہندوستان میں بھی اس کے کئی غیر قانونی ایڈیشن شائع ہوئے۔۔۔ خدا کی بستی کا ترجمہ تقریباً بیس زبانوں میں ہوچکا ہے۔۔۔ شوکت صدیقی نے اپنے مخصوص ترقی پسندانہ نظریات کے تحت اس ناول میں ۱۹۵۰ء کے عشرے کے پاکستانی معاشرے کی عکاسی کی ہے لیکن فنی تقاضوں کا خیال رکھتے ہوئے پاکستانی معاشرے کے سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل اس طرح پیش کیے ہیں کہ پڑھنے والے ایک حقیقی تبدیلی کی ضرورت کے قائل ہوجاتے ہیں۔۔۔
۶۔ آنگن (۱۹۶۲ء)
اُردو کے دس بہترین ناول
خدیجہ مستور کے ناول آنگن میں آنگن دراصل معاشرے کی علامت ہے اور جس طرح گھر کے آنگن میں سب اہل خانہ مل بیٹھتے ہیں اسی طرح معاشرے میں سب مل کر زندگی گزارتے ہیں۔۔۔ آنگن بظاہر گھر کی کہانی ہے لیکن اس میں سماجی ، سیاسی اور معاشی مسائل کی تصویر کشی بھی ہے۔۔ قیام ِ پاکستان سے قبل ہندوستان کا سیاسی اور معاشی ماحول، انگریز، مسلم لیگ، کانگریس اور جاگیردارانہ ماحول کی خرابیاں بھی فن کارانہ انداز میں اور بالواسطہ پیش کی گئی ہیں۔۔۔
اس میں ایک کردار اسرار میاں کا بھی ہے جو اپنی شرافت کے باوجود ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔۔۔ آخر میں اس شریف کردار کو دھکے دے کر گھر سے نکال دیا جاتا ہے اور وہ کہیں غائب ہوجاتا ہے جو علامتی اور اشارتی ہے۔۔۔ خدیجہ مستور کا خوب صورت اسلوب اور زبان بھی قابل داد ہے۔۔۔
۷۔بستی (۱۹۷۹ء)
اُردو کے دس بہترین ناول
انتظار حسین پر ایک بڑا الزام نوسٹلجیا (nostalgia) یعنی ماضی پرستی کا ہے۔۔۔ یہی الزام قرۃ العین حیدر پر بھی تھا۔۔۔ لیکن معترضین یہ نہیں سمجھتے کہ ان دونوں تخلیقی فن کاروں کا اصل موضوع ہی ماضی تھا اور اسی کی بنیاد پروہ اپنی تحریروں میں جادو جگاتے تھے۔۔۔ ان کے فکشن میں کبھی کبھی خود نوشت سوانح کے رنگ بھی نظر آتے ہیں۔۔ پھر ہجرت دنیا کے عظیم فکشن کا موضوع رہا ہے اور ادب کے بعض نوبیل انعام یافتگان کا موضوع بھی ہجرت اور ماضی ہے۔۔۔
اپنے ناول بستی میں انتظار صاحب نے اپنے مخصوص استعاراتی و علامتی انداز میں اپنی خود نوشت اور فکشن کو ملا جلا کر پیش کیا ہے۔۔۔ ہندوستان سے ہجرت کے بعد لاہور میں بسنا اور اپنے ماضی کو یاد کرتے ہوئے اس نئے ملک میں خوابوں کی تعبیر پانے کی خواہش ہونا، لیکن حقیقت کا بہت مختلف اور تلخ ہونا، یہ صرف انتظار صاحب کا المیہ نہیں تھا بلکہ تمام پاکستانیوں کا المیہ ہے۔۔۔ پاکستان خوابوں کی ایک بستی ہے۔۔۔ل یکن المیۂ مشرقی پاکستان کے بعد اس بستی کے باسی سکون کی تلاش میں ہوا میں معلق ہوگئے اور آج بھی ہیں۔۔۔ یہی اس بستی کی اصل کہانی ہے۔۔۔
۸۔ راجا گدھ (۱۹۸۱ء)
اُردو کے دس بہترین ناول
ممکن ہے کہ بانو قدسیہ کے ناول راجا گدھ کو اس فہرست میں شامل کرنے پر کچھ لوگ چیں بہ جبیں ہوں کی��نکہ اس کا مرکزی خیال حلال و حرام کے فلسفے پر مبنی ہے۔۔۔ لیکن پاکستانی معاشرے میں مالی بدعنوانی کی ہوش ربا داستانوں کے آئے دن منظر ِ عام پر آنے کے بعد راجا گدھ کاکم از کم مطالعہ تو کیا جانا چاہیے خواہ آپ اسے بہترین ناول نہ مانیں۔۔۔
بانو قدسیہ نے اس میں یہ فلسفہ پیش کیا ہے کہ حرام کھانے کے ذہنی اور جسمانی اثرات ہوتے ہیں اور حرام کھانے والا انسان پاگل ہوجاتا ہے اور اس میں مالی اور جنسی دونوں طرح کا حرام شامل ہے۔۔۔ اس ناول میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ خود پسندی انسان کو پاگل کردیتی ہے اور یہ انسانی تہذیب کے لیے بھی خطرہ ہے۔۔۔ اس میں پرندوں کی مدد سے انسانی مسائل تمثیلی انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔۔۔
۹۔ کئی چاند تھے سرِ آسماں (۲۰۰۵ء)
اُردو کے دس بہترین ناول
شمس الرحمٰن فاروقی کے ناول کئی چاند تھے سر آسماں پر بھی بعض لوگوں کو کئی اعتراضات ہیں جس میں سے ایک یہ ہے کہ اس میں داغ دہلوی کی والدہ وزیرخانم کی کردار کُشی کی گئی ہے۔۔۔ وزیر بیگم ناول کا مرکزی کردار ہے جس کی مدد سے کئی صدیوں کی ہندوستانی تاریخ بیان کی گئی ہے۔۔۔ اس کی خاص بات تاریخی کرداروں مثلاً فریزر، نواب شمس الدین اور مرزا غالب وغیرہ کی پیش کش اور تہذیب و تمدنی عکاسی ہے۔۔ اس میں مصنف نے خیال رکھا ہے کہ جس زمانے کا ذکر ہورہا ہے اس زمانے کے کردار ویسی ہی اردو بولتے ہوئے نظرآ ئیں۔۔ ناول کاعنوان احمد مشتاق کے اس شعر سے لیا گیا ہے :
کئی چاند تھے سرِ آسماں جو چمک چمک کے پلٹ گئے
نہ لہو مرے ہی جگر میں تھا نہ تمھاری زلف سیاہ تھی
۱۰۔ دھنی بخش کے بیٹے (۲۰۰۸ء)
اُردو کے دس بہترین ناول
حالیہ برسوں میں جو اردو ناول شائع ہوئے ہیں ان میں حسن منظر کا ناول دھنی بخش کے بیٹے موضوع کے لحاظ سے بھی اہم ہے اور اس کا اسلوب بھی قاری کو جکڑے رکھتا ہے۔۔ اس کا موضوع سندھ میں اعلیٰ طبقے کا بنایا ہوا ظالمانہ نظام ہے جو غریبوں کا استحصالِ بے جا کرتا ہے ۔
یہ ظلم صدیوں سے جاری ہے اور جاری رہے گا کیونکہ اس خطے کے باسی خود اپنی تقدیر بدلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔۔۔ ناول سندھ کے دھنی بخش نامی ایک گائوں سے متعلق ہے۔۔۔ یہی نام ناول کے مرکزی کردار کا بھی ہے جس کے نام پر گائوں آباد ہے۔۔۔ اس ناول میں ثانوی طور پر دو تہذیوں یعنی مغربی اور مشرقی تہذیب کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔۔۔
•••••
بشکریہ : جنگ روزنامہ
8 notes
·
View notes
Text
لاہور دنیا کے بہترین سیاحتی مقامات میں شامل ہو گیا
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے سال 2021 میں سیاحوں کے لیے 52 بہترین مقامات کی فہرست میں پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کو بھی شامل کیا ہے۔ دنیا بھر میں پاکستان کے سیاحتی تشخص کا اعتراف کیا جانے لگا ہے۔ امریکی جریدے نیو یارک ٹائمز نے تاریخی اہمیت دی ہے۔ خیال رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ پاکستانی مقامات کو سیاحت کے لیے عالمی سطح پر منتخب کیا گیا ہو۔ اپنے لذیذ کھانوں اور خوبصورت لینڈ سکیپس کی بناء پر لاہور کو دنیا کے ان 52 شہروں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جو 2021 میں سیاحت کے لئے پسندیدہ ترین جگہیں ہو سکتی ہیں۔ نیو یارک ٹائمز نے اپنے قارئین کی رائے پر مبنی ایک سروے کا انعقاد کیا جس میں ان سے پوچھا گیا کہ 2020 کے تاریک سال میں دنیا کے کن شہروں نے انہیں متاثر کیا؟ کس شہر نے انہیں سکون کے لمحات فراہم کیے؟
اخبار پڑھنے والے افراد نے 2 کے قریب شہروں کے بارے میں اپنی رائے بھیجی جس میں سے لاہور سمیت 52 شہروں کا انتخاب کیا گیا۔ جریدے کے مطابق یہ 52 شہر 2021 میں سیاحت کے حوالے سے پسندیدہ ترین جگہیں ہونگی۔ امریکی جریدے نے لاہوریوں کی زندہ دلی، مہربان فطرت، مہمان نوازی، لذیذ کھانے، سردیوں میں دھند کے پار سے چھلکتی روشنیوں کے نظارے، بادشاہی مسجد اور دیگر مغلیہ عمارتوں کو شہر کے حسن کا شاہکار قرار دیا۔ لاہور کے بارے میں رائے دینے والوں کے تاثرات کو امریکی جریدے نے بیان کیا کہ سردیوں میں لاہور آپ کیلئے بانہیں کھولتا ہے، آپ کو کھلاتا ہے اور پھر گلے سے لگا لیتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note
·
View note
Text
وہ شخص جس نے کورونا ویکسین کو محض چند گھنٹوں میں ڈیزائن کیا
برطانیہ، کینیڈا و سعودی عرب کے بعد امریکا نے بھی فائزر و بائیو این ٹیک کی کورونا ویکسین کے استعمال کی اجازت دے دی ہے۔ 2 ڈوز میں استعمال کرائی جانے والی اس ویکسین کو انسانی آزمائش کے 3 مراحل کے بعد بیماری سے بچانے میں 95 فیصد تک موثر قرار دیا گیا اور یہ اتنی تیزی سے منظوری حاصل کرنے والی دنیا کی پہلی ویکسین بھی ہے۔ آج تک کسی بھی ویکسین کو اتنی تیزی سے تیار اور استعمال کے لیے پیش نہیں کیا گیا، اس سے پہلے جو تیز ترین ویکسین کا ریکارڈ تھا، وہ 4 سال سے زائد عرصے کا تھا۔ مگر اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ بائیو این ٹیک کے شریک بانی اوغور شاہین نے اس ویکسین کو جنوری میں محض چند گھنٹوں میں ڈیزائن کر لیا تھا۔ یہ بات وال اسٹریٹ جرنل نے ایک پوڈ کاسٹ رپورٹ میں بتائی اور بائیو این ٹیک کے ترجمان نے بھی تصدیق کی کہ اوغور شاہین نے ایک دن کے اندر ہی ویکسین کا ڈیزائن بنا لیا تھا۔ اور اتنی تیزی سے ڈیزائن بننے کی وجہ اس میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی ہے جو میسنجر آر این اے یا ایم آر این اے ہے۔ اس سے قبل کبھی اس ٹیکنالوجی پر مبنی کوئی ویکسین تیار نہیں ہوئی، مگر اب ایسا ہو چکا ہے اور بہت جلد ایک اور امریکی کمپنی موڈرینا کی اس سے ملتی جلتی ٹیکنالوجی پر مبنی ویکسین کی منظوری بھی دیئے جانے کا امکان ہے۔
ایم آر این اے ویکسین کیسے کام کرتی ہیں؟ میسنجر آر این اے ایسا جینیاتی میٹریل ہوتا ہے جو خلیات کو بتاتا ہے کہ پروٹین کو کیسے تیار کرنا ہے۔ فائزر کی ویکسین میں کورونا وائرس کے ایم آر این اے کا چھوٹا حصہ انسانی جسم میں داخل کیا جاتا ہے، یہ آر این اے وائرس کے اسپائیک پروٹین کا کوڈ ہوتا ہے، جو جسم کے اندر وائرس کو حملے میں مدد دیتا ہے، جس سے اینٹی باڈی متحرک ہو کر وائرس کو ناکارہ بناتی ہیں۔ تو ایم آر این اے ویکسین جسم میں اسپائیک پروٹین کے عمل کو تیز کر کے مدافعتی ردعمل کو متحرک کرتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے لیے کمپنیوں کو بس ویکسین ڈیزائن کرنے کے لیے محض کورونا وائرس کے جینیاتی سیکونس کی ضرورت تھی اور اسی وجہ سے ان کا کام برق رفتاری سے آگے بڑھا۔
اوغور شاہین 24 جنوری کو طبی جریدے دی لانسیٹ میں شائع ایک مقالے کو پڑھ رہے تھے جس میں چین کے ایک خاندان کے بارے میں بتایا گیا تھا جو ووہان گئے اور کووڈ 19 کا شکار ہو گئے۔ انہوں نے وال اسٹریٹ جرنل کو بتایا کہ سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ تھی کہ خاندان کے ایک رکن میں وائرس تھا اور تشخیص بھی ہوئی مگر علامات ظاہر نہیں ہوئیں، یعنی ایسے افراد بھی وائرس کو آگے پھیلا سکتے ہیں اور پورے چین تک اسے پہنچا سکتے ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے اپنی کمپنی کی توجہ کورونا وائرس ویکسین پر مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا اور اگلے ہفتے اپنی کمپنی کو آگاہ کیا کہ اب زیادہ تر آپریشن ویکسین کی تیاری اور آزمائش کے لیے ہوں گے۔ اوغور شاہین نے چینی محققین کی جانب سے 11 جنوری کو شائع کیے جانے والے وائرس کے جینیاتی سیکونس کو استعمال کر کے 10 مختلف ویکسینز کو ویک اینڈ کے دوران کمپیوٹر میں ڈیزائن کیا، جن میں سے ایک کو بعد میں بڑے ٹرائلز کے لیے منتخب کیا گیا اور اب مختلف ممالک میں اس کے استعمال کی منظوری بھی دی جاچکی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس ویکسین کو چند گھنٹوں کے اندر ڈیزائن کیا گیا تھا۔ مگر بایو این ٹیک ایک چھوٹی کمپنی تھی اور اس کے پاس بڑے پیمانے پر ہونے والے ٹرائل کے لیے لاکھوں ڈوز تیار کرنے کی صلاحیت نہیں تھی۔ تو فروری میں اوغور شاہین نے فائر کے ویکسین ریسرچ کی سربراہ کیتھرین جینسین سے رابطہ کیا، جن کے ساتھ بائیو این ٹیک نے 2018 میں ایک فلو ویکسین کے لیے کام کیا تھا۔ کیتھرین جینسین نے اوغور شاہین کو بتایا کہ یہ وبا ایک آفت ہے جو مزید بدتر ہو گی، آپ کے ساتھ کام کر کے ہمیں خوشی ہو گی۔ مارچ کے وسط میں دونوں کمپنیوں نے شراکت داری کا اعلان کیا۔ فائزر نے ویکسین کی تیاری میں لاجسٹکس، ڈوز کی تیاری اور تیسرے مرحلے کے ٹرائل کے انتظام کو سنبھالا جبکہ بائیو این ٹیک نے ویکسین کے ڈیزائن کو دیکھا۔
وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق 9 نومبر کو دونوں کمپنیوں نے اعلان کیا تھا کہ ان کی ویکسین 90 فیصد تک موثر ہے، جب فائزر کے سی ای او نے یہ بات کمپنی کے اعلیٰ عہدیداران کو بتائی تو اپنی کرسیوں سے اچھل پڑے تھے۔ تیسرے ٹرائل کے حتمی نتاج اس سے بھی زیادہ بہتر تھے جن کے مطابق یہ ویکسین بیماری سے تحفظ کے لیے 95 فیصد تک موثر ہے جبکہ لوگوں میں مضر سائیڈ ایفیکٹس بھی نظر نہیں آئے۔ اس نئی ٹیکنالوجی کے فوائد تو کئی ہیں مگر ایک نقصان یہ ہے کہ لوگوں کو اس کے 2 انجیکشن کی ضرورت ہو گی جو 3 ہفتوں کے وقفے میں لگائے جائیں گے جبکہ ویکسین کو منفی 70 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں منتقل کرنا ہو گا جس کے لیے ڈرائی آئس اور خصوصی فریزر کی ضرورت ہو گی۔ ابھی یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ ویکسین کتنے عرصے تک لوگوں کو کووڈ 19 سے تحفظ فراہم کرے گی اور کیا اس کو لگانے کے بعد وائرس سے متاثر افراد سے دیگر تک اس کی منتقلی کی روک تھام بھی ہوسکے گی یا نہیں۔
بشکریہ ڈان نیوز
1 note
·
View note
Text
اُردو کالم نگاری کا ناز تہِ خاک جا سویا
اپنے آخری کالم میں انھوں نے ہمیشہ کی طرح بڑے شگفتہ اسلوب میں ذکر کیا تھا کہ مَیں تو گردے کے امراض کا مستند مریض ہُوں، اس لیے اِس بار بھی اپنے معالج کے پاس حاضر ہُوا تو ڈاکٹر صاحب نے مجھے دوائی اور تسلّی دے کر اطمینان سے رخصت کر دیا۔ پھر انھوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ایک بار میو اسپتال لاہور میں رات کے وقت سرجری کے دوران، ڈاکٹر صاحب کی غفلت کے کارن، اُن کی نصف موت واقع ہو گئی تھی ۔ مگر زندگی نے اک بار پھر اُن کا دامن تھام لیا ۔ اِسی کالم میں انھوں نے اپنے چند ایک دوستوں کی رحلت کا بڑے کرب اور دکھ کے ساتھ تذکرہ بھی کیا۔ اُن سے وابستہ پرانی یادوں کو دہرا کر دل پر پڑے غم کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔ کون جانتا تھا کہ جس وقت وہ قلم تھامے اپنے دوستوں کو یاد کررہے تھے، کہیں قریب ہی موت کا فرشتہ پر پھڑ پھڑا رہا ہو گا۔ ہمارے عہد کے نامور اور مایہ ناز کالم نگار جناب عبدالقادر حسن رخصت ہو گئے۔ اس خبر سے دل رنجور ہے۔ ہم انسان کمزور ہیں اور کمزوری و بے بسی کے عالم میں ہم اپنے عظیم ، بے بدل اور بزرگ صحافی عبد القادر حسن صاحب مرحوم کے لیے بس مغفرت کی دعا ہی کر سکتے ہیں۔ روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ سے وابستہ کیسی کیسی قابلِ فخر اور پروفیشنل ہستیاں تھیں جو آہستہ آہستہ ، بلاوے پر، اپنے اللہ کے پاس حاضر ہو گئیں ۔ سب سے پہلے عباس اطہر المعروف شاہ جی ہم سے جدا ہُوئے۔ پھر جناب احفاظ الرحمن اللہ کی رحمت میں چلے گئے۔ اور اب عبدالقادر حسن نے بھی ملک الموت سے مصافحہ کر لیا۔ انھوں نے زندگی کے آخری لمحات تک قلم و قرطاس سے اپنا رشتہ استوار کیے رکھا۔ گویا زندگی کے آخری ایام تک رزقِ ہلال کما کر کھانے کی جدوجہد کرتے رہے ۔ ایک قابلِ رشک صحافتی زندگی کا شاندار نمونہ ۔ وہ تقریباً 14 سال روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ سے وابستہ رہے اور اس اخبار کے صفحات پر اپنی دانش و بینش کے موتی بکھیرتے رہے ۔ لاتعداد لوگوں نے اُن کی تحریروں سے حظ اُٹھایا اور ہم ایسے اَن گنت مبتدیوں نے اُن سے کسبِ فیض کیا۔ لاریب وہ روزنامہ صحافت کے ایک ممتاز گرو کی حیثیت رکھتے تھے۔ یہ حیثیت مگر چند برسوں کی قلم گھسائی سے حاصل نہیں ہُوئی تھی۔
اس مقامِ بلند پر فائز ہونے کے لیے انھیں برسہا برس محنت و مشقت کا کولہو پیلنا پڑا تھا۔ ’’مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں/تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں۔‘‘ اُن کے الفاظ کی دمک اور دہک فی الحقیقت کئی عشروں کے تجربات اور مشاہدات کا نتیجہ تھی ۔ ایک زمانے میں لاہور کی صحافت کے مطلع پر بس اُنہی کی قابلِ اعتماد رپورٹنگ کا چاند طلوع ہوتا تھا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ عبدالقادر حسن صاحب مرحوم ہماری اُس کلاسیکی اُردو صحافت کا ایک روشن استعارہ بھی ہیں جس پر ہم سب کو ناز ہے ۔ وہ ایسے بااعتبار صحافی تھے کہ جن کے ساتھ ملک بھر کے بڑے بڑے سیاستدان اور حکمران اپنے دل کی بات شیئر کر سکتے تھے۔ اس اعتبار کو انھوں نے کبھی ضعف نہ پہنچنے دیا۔ عبدالقادر حسن صاحب مرحوم و مغفور کی تحریروں میں وسیع صحافتی تجربات کی ہمیشہ کھنک سنائی دیتی تھی۔ کبھی لَے میں آتے تو نہایت شگفتہ انداز میں پرانی صحافت و سیاست کی داستانیں بھی سناتے۔ ان داستانوں کو اگر اکٹھا کیا جائے تو صحافت و سیاست کے طالبعلموں کے لیے اچھا خاصا انسائیکلو پیڈیا تیار ہو سکتا ہے۔
لیکن آج صحافت کے فاسٹ ٹریک پر بگٹٹ بھاگنے والے ہمارے نوجوان صحافیوں کو شائد ایسا کوئی انسائیکلوپیڈیا پڑھنے کی فرصت ہے نہ توفیق۔ ہمارے ممدوح عبدالقادر حسن نے کالم نگاری کی دُنیا میں قدم رکھنے سے قبل برسوں صحافت و سیاست کی کوچہ گردی کی ۔ لاتعداد سرد و گرم تھپیڑوں کو سہا ۔ تب کالم نگاری کے لیے قلم اُٹھایا، اور ایسے پر زور انداز میں قلم اُٹھایا کہ جدید اُردو کالم نگاری کو ایک فن بنا دیا۔ وہ نہایت سہل اور آسان اسلوب میں کالم لکھتے تھے لیکن اُن کے لہجے کی کاٹ سے ہدف بنی شخصیت بَل کھا کر رہ جاتی ۔ بلا شبہ وہ وطنِ عزیز کے سب سے نامور اور سر کشیدہ کالم نگار تھے۔ لاتعداد کالم نگاروں نے اُن ایسا لکھنے کا خواب دیکھا۔ کالم نگاری کا چاند بننے کے لیے اُنہو ں نے کسی کی سفارش کو اپنی اساس نہیں بنایا تھا۔ مسلسل محنت، دیانتداری اور صحافت سے زبردست کمٹمنٹ نے انھیں ایک محبوب کالم نگار بنایا ۔ انھوں نے کئی روزنامہ اخبارات کو اپنی رپورٹنگ اور کالم نگاری کے منفرد جمال سے روشن اور آباد کیا۔
ایک معروف اور ترقی پسند ہفت روزہ جریدے (لیل و نہار) کے مدیر بھی رہے ۔ یہ جریدہ اپنے د��ور کا سب سے روشن خیال اور بڑا ہی پاپولر اخبار تھا۔ اس کے آسماں پر کئی چاند طلوع ہُوئے تھے۔ یہاں سے فراغت کے بعد انھوں نے اپنا ہفت روزہ بھی جاری کیا۔ پاکستان کے جن صحافیوں کو جنرل ضیاء الحق کا اعتماد اور قرب حاصل ہُوا، جناب عبدالقادر حسن بھی اُن میں مرکزی اور نمایاں کردار تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے دَور ہی میں ٹرسٹ کے ایک بڑے اخبار کے ایڈیٹر بھی بنائے گئے۔ یہ ایڈیٹری ایک ورکنگ جرنلسٹ کے لیے عظیم اعزاز تھا۔ لیکن حیرانی کی بات ہے کہ جن دنوں وہ ’’امروز‘‘ کے مدیر اعلیٰ تھے، اُنہی دنوں ایک بڑے قومی روزنامہ میں ’’ہمزاد عبدالقادر حسن‘‘ کے نام سے اُن کا کالم بھی شایع ہوتا تھا۔ یہ اُن کے مستند اور ہر دلعزیز کالم نگار ہونے کی ایک منفرد مثال ہے ۔
مرحوم عبدالقادر حسن کی تحریروں میں تحمل، بردباری اور اعتدال کے عناصر نمایاں ترین تھے ۔ وہ متشدد ذہن کے حامل تھے نہ اُن کے الفاظ میں یہ بازگشت سنائی دیتی تھی ۔ اعتدال پسندی کا یہ حسین فن انھیں گھر بیٹھے بٹھائے حاصل نہیں ہُوا تھا۔ اس کمال وصف کو پانے اور پھر اسے بدرجہ اولیٰ تک پہنچانے کے لیے عبدالقادر حسن نے فیض احمد ��یض اور سبطِ حسن ایسے نامور ترقی پسند دانشوروں کی ذہن ساز مجالس سے بھی فیض حاصل کیا اور مرشد سید مودودیؒ کی روحانی محفلوں سے بھی علم کے موتی ایسے چُنے کہ اُن کی تحریروں کا جمال بے پناہ ہوتا چلا گیا۔ عبد القادرحسن اپنی تحریروں کو روحانی وارداتوں سے بھی مزین کرتے تھے۔ مثلاً: قبلہ سرفراز شاہ صاحب کی باتوں کا تذکرہ کرتے۔ اسلام اور نظریہ پاکستان پر غیر متزلزل ایمان رکھتے تھے ۔ بھارت کو پاکستان کا دشمن نمبر ایک سمجھتے ۔ وہ بنئے کی نفسیات سے خوب آگاہ تھے، اس لیے ہمیشہ اپنے قارئین کو بھارتی ہندو بنئے کی پاکستان و دو قومی نظرئیے کے خلاف خفی و جلی گھاتوں کے بارے میں بتاتے رہتے۔ یہ دراصل تربیت کا بھی ایک منفرد انداز تھا۔
قائد اعظم محمد علی جناح ؒ، حضرت علامہ محمد اقبالؒ اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے تو جنون کی حد تک محبت و شیفتگی رکھتے تھے ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اپنے کالموں میں متعدد بار اور ہمیشہ تحسینی الفاظ میں یاد کرتے تھے۔ جب بھی یاد کرتے ، ہمیشہ انھیں ’’محسنِ پاکستان‘‘ کے لقب سے یاد کرتے۔ محترم ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی انھیں بے حد چاہتے ہیں ۔ جنرل پرویز مشرف کے دَور میں محسنِ پاکستان سے بوجوہ جو سلوک کیا گیا، عبدالقادر حسن نے ہمیشہ اس کا ذکر دلگیر اور غمزدہ لہجے میں کیا۔ عبدالقادر حسن محض صحافی ہی نہیں تھے، ایک زمیندار بھی تھے۔ کالموں میں اپنے آبائی گاؤں، زمینوں اور کسانوں کے مسائل و مصائب کا ذکر بھی اکثر کرتے تھے۔ خشک سالی میں کسان بارش کے ایک قطرے کو ترستے تو اس بیچارگی اور انتظار کا احوال بھی لکھتے۔ واللہ، اُن کی تحریروں کے اسی تنوع نے انھیں ممتاز ترین اور محبوب ترین کالم نگار بنا رکھا تھا۔ افسوس ملک الموت نے ہمارے ملک عبدالقادر حسن اعوان کو ہم سے چھین لیا ہے ۔
تنویر قیصر شاہد
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note
·
View note
Text
برطانیہ میں کرونا ویکسین ٹرائلز کے مثبت نتائج نکلے ہیں،اے ایف پی

بہت سارے ممالک میں کورونا وائرس کی ویکسین تیار کی جا رہی ہے ، لیکن اب تک اس کے کامیاب نتائج موصول نہیں ہوئے ہیں۔ تاہم ، برطانوی میڈیا کے مطابق برطانیہ میں ، حالیہ دو آزمائشوں کے مثبت نتائج نے جلد ہی کورونا وائرس کی ویکسین لینے کی امید کو بحال کردیا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے برطانوی میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی نے ایک ویکسین کا تجربہ کیا تھا جس نے وائرس سے مدافعتی ردعمل پیدا کیا تھا۔ ڈیلی ٹیلی گراف کے مطابق ، تقریبا a ایک ہزار افراد کو قطرے پلائے گئے تھے اور ان کے خون کے نمونوں سے معلوم ہوا ہے کہ اس ویکسین سے ان کے جسم میں اینٹی باڈیز اور 'قاتل ٹی سیل' تیار ہوئے ہیں۔ پچھلی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ وائرس سے لڑنے کے لئے ٹی سیل سالوں تک جسم میں رہ سکتے ہیں۔ آکسفورڈ نے ایک بیان میں کہا کہ مقدمے کے نتائج اگلے ہفتے میڈیکل جریدے دی لانسیٹ میں شائع کیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ ریاستہائے متحدہ میں جان ہاپکنز یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق ، اب تک دنیا بھر میں 1،35،079،581 افراد کورونا وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں ، جبکہ ہلاکتوں کی تعداد 5،084،782 ہے۔ ۔ ممکنہ ترقی اس وقت ہوئی جب ایک امریکی کمپنی ، موڈرنا نے منگل کے روز کہا تھا کہ وہ 27 جولائی سے انسانوں پر اپنی ویکسین کے ٹرائل شروع کردے گی۔ موڈرنہ کا کہنا ہے کہ انھیں پچھلے ٹیسٹوں کے نتیجہ خیز نتائج ملے ہیں۔ توقع ہے کہ تقریبا 30،000 امریکی آزمائشیوں میں حصہ لیں گے۔ جدید بنانے کو عالمی سطح پر ویکسین تیار کرنے کی کوششوں میں اعلی سطح کا کام سمجھا جاتا ہے۔ کمپنی کی تحقیقات اکتوبر 2022 تک جاری رہے گی ، لیکن ابتدائی نتائج تب تک سامنے آجائیں گے۔ دوسری طرف ، ہندوستان میں کورونا کے کیسز کی تعداد میں تیزی سے Read the full article
1 note
·
View note