#تھام
Explore tagged Tumblr posts
topurdunews · 3 months ago
Text
کم عمری کی شادی کی روک تھام کا بل ابھی تک زیرِ التوا ہے شیری رحمٰن   
(24  نیوز )پیپلز پارٹی کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا ہے کہ صنفی بنیاد پر تشدد نجی نہیں معاشرے اور انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔ اسلام آباد میں صنفی بنیاد پر تشدد سے متعلق کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صنفی بنیادوں پر تشدد کا نوٹس لینا ہوگا۔ گھریلو تشدد خواتین کے خلاف سنگین جرم ہے، خواتین کے خلاف تشدد معمول بن چکا ہے جو کم ہونے کے بجائے بڑھ رہا ہے۔ شیری رحمٰن نے کہا کہ پاکستان میں…
0 notes
umairaayyy · 5 months ago
Text
وہ رسوا نہیں کرتا زمانے کی طرح
وہ اپنے در پر آنے والوں کو تھام لیتا ہے
وہ دلو کے راز سنبھال لیتا ہے
وہ ٹوٹے ے دلو کو جوڑ دیتا ہے
بِکھری روح کو سنوار دیتا ہے
وہ اللّٰہ ہے و ہر کسی کو نواز دیتا ہے~
9 notes · View notes
my-urdu-soul · 7 months ago
Text
ہر درد پہن لینا ، ہر خواب میں کھو جانا
کیا اپنی طبیعت ہے ، ہر شخص کا ہو جانا
اک شہر بسا لینا بچھڑے ہوئے لوگوں کا
پھر شب کے جزیرے میں دل تھام کے سو جانا
موضوعِ سخن کچھ ہو ، تا دیر اسے تکنا
ہر لفظ پہ رک جانا ، ہر بات پہ کھو جانا
آنا تو بکھر جانا سانسوں میں مہک بن کر
جانا تو کلیجے میں کانٹے سے چبھو جانا
جاتے ہوئے چپ رہنا ان بولتی آنکھوں کا
خاموش تکلم سے پلکوں کو بھگو جانا
لفظوں میں اتر آنا ان پھول سے ہونٹوں کا
اک لمس کی خوشبو کا پوروں میں سمو جانا
ہر شام عزائم کے کچھ محل بنا لینا
ہر صبح ارادوں کی دہلیز پہ سو جانا
- اعتبار ساجد
11 notes · View notes
rabiabilalsblog · 7 months ago
Text
"ابتدائے محبت کا قصہ "
عہدِ بعید میں، زمین و آسمان ک�� آفرینش کے بعد ،جب ابھی بشر کا عدم سے وجود میں آنا باقی تھا، اس وقت زمین پر اچھائی اور برائی کی قوتیں مل جل کر رہتیں تھیں. یہ تمام اچھائیاں اور برائیاں عالم عالم کی سیر کرتے گھومتے پھرتے یکسانیت سے بے حد اکتا چکیں تھیں.
ایک دن انہوں نے سوچا کہ اکتاہٹ اور بوریت کے پیچیدہ مسئلے کو حل کرنا چاہیے،
تمام تخلیقی قوتوں نے حل نکالتے ہوئے ایک کھیل تجویز کیا جس کا نام آنکھ مچولی رکھا گیا.
تمام قوتوں کو یہ حل بڑا پسند آیا اور ہر کوئی خوشی سے چیخنے لگا کہ "پہلے میں" "پہلے میں" "پہلے میں" اس کھیل کی شروعات کروں گا..
پاگل پن نے کہا "ایسا کرتے ہیں میں اپنی آنکھیں بند کرکے سو تک گنتی گِنوں گا، اس دوران تم سب فوراً روپوش جانا، پھر میں ایک ایک کر کے سب کو تلاش کروں گا"
جیسے ہی سب نے اتفاق کیا، پاگل پن نے اپنی کہنیاں درخت پر ٹکائیں اور آنکھیں بند کرکے گننے لگا، ایک، دو، تین، اس کے ساتھ ہی تمام اچھائیاں اور برائیاں اِدھر اُدھر چھپنے لگیں،
سب سے پہلے نرماہٹ نے چھلانگ لگائی اور چاند کے پیچھے خود کو چھپا لیا،
دھوکا دہی قریبی کوڑے کے ڈھیر میں چھپ گئی،
جوش و ولولے نے بادلوں میں پناہ لے لی،
آرزو زیرِ زمین چلی گئی،
جھوٹ نے بلند آواز میں میں کہا، "میرے لیے چھپنے کی کوئی ��گہ باقی نہیں بچی اس لیے میں پہاڑ پر پتھروں کے نیچے چھپ رہا ہوں" ، اور یہ کہتے ہوئے وہ گہری جھیل کی تہہ میں جاکر چھپ گیا،
پاگل پن اپنی ہی دُھن میں مگن گنتا رہا، اناسی، اسی، اکیاسی،
تمام برائیاں اور اچھائیاں ایک ایک کرکے محفوظ جگہ پر چھپ گئیں، ماسوائے محبت کے، محبت ہمیشہ سے فیصلہ ساز قوت نہیں رہی ، لہذا اس سے فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ کہاں غائب ہونا ہے، اپنی اپنی اوٹ سے سب محبت کو حیران و پریشان ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور یہ کسی کے لئے بھی حیرت کی بات نہیں تھی ۔
حتیٰ کہ اب تو ہم بھی جان گئے ہیں کہ محبت کے لیے چھپنا یا اسے چھپانا کتنا جان جوکھم کا کام ہے. اسی اثنا میں پاگل پن کا جوش و خروش عروج پر تھا، وہ زور زور سے گن رہا تھا، پچانوے، چھیانوے، ستانوے، اور جیسے ہی اس نے گنتی پوری کی اور کہا "پورے سو" محبت کو جب کچھ نہ سوجھا تو اس نے قریبی گلابوں کے جھنڈ میں چھلانگ لگائی اور خود کو پھولوں سے ڈھانپ لیا،
محبت کے چھپتے ہی پاگل پن نے آنکھیں کھولیں اور چلاتے ہوئے کہا "میں سب کی طرف آرہا ہوں" "میں سب کی طرف آرہا ہوں" اور انہیں تلاش کرنا شروع کردیا،
سب سے پہلے اس نے سستی کاہلی کو ڈھونڈ لیا، کیوں کہ سستی کاہلی نے چھپنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی اور وہ اپنی جگہ پر ہی مل گئی،
اس کے بعد اس نے چاند میں پوشیدہ نرماہٹ کو بھی ڈھونڈ لیا،
صاف شفاف جھیل کی تہہ میں جیسے ہی جھوٹ کا دم گُھٹنے لگا تو وہ خود ہی افشاء ہوگیا، پاگل پن کو اس نے اشارہ کیا کہ آرزو بھی تہہ خاک ہے،
اسطرح پاگل پن نے ایک کے بعد ایک کو ڈھونڈ لیا سوائے محبت کے،
وہ محبت کی تلاش میں مارا مارا پھرتا رہا حتیٰ کہ ناامید اور مایوس ہونے کے قریب پہنچ گیا،
پاگل پن کی والہانہ تلاش سے حسد کو آگ لگ گئی، اور وہ چھپتے چھپاتے پاگل پن کے نزدیک جانے لگا، جیسے ہی حسد پاگل پن کے قریب ہوا اس نے پاگل پن کے کان میں سرگوشی کی " وہ دیکھو وہاں، گلابوں کے جُھنڈ میں محبت پھولوں سے لپٹی چھپی ہوئی ہے"
پاگل پن نے غصے سے زمین پر پڑی ایک نوکدار لکڑی کی چھڑی اٹھائی اور گلابوں پر دیوانہ وار چھڑیاں برسانے لگا، وہ لکڑی کی نوک گلابوں کے سینے میں اتارتا رہا حتیٰ کہ اسے کسی کے زخمی دل کی آہ پکار سنائی دینے لگی ، اس نے چھڑی پھینک کر دیکھا تو گلابوں کے جھنڈ سے نمودار ہوتی محبت نے اپنی آنکھوں پر لہو سے تربتر انگلیاں رکھی ہوئی تھیں اور وہ تکلیف سے کراہ رہی تھی، پاگل پن نے شیفتگی سے بڑھ کر محبت کے چہرے سے انگلیاں ہٹائیں تو دیکھا کہ اسکی آنکھوں سے لہو پھوٹ رہا تھا، پاگل پن یہ دیکھ کر اپنے کیے پر پچھتانے لگا اور ندامت بھرے لہجے میں کہنے لگا، یا خدا! یہ مجھ سے کیا سرزد ہوگیا، اے محبت! میرے پاگل پن سے تمھاری بینائی جاتی رہی، میں بے حد شرمندہ ہوں مجھے بتاؤ میری کیا سزا ہے؟ میں اپنی غلطی کا ازالہ کس صورت میں کروں؟
محبت نے کراہتے ہوئے کہا " تم دوبارہ میرے چہرے پر نظر ڈالنے سے تو رہے، مگر ایک طریقہ بچا ہے تم میرے راہنما بن جاؤ اور مجھے رستہ دکھاتے رہو"
اور یوں اس دن کے واقعے کے بعد یہ ہوا کہ، محبت اندھی ہوگئی، اور پاگل پن کا ہاتھ تھام کر چلنے لگی ، اب ہم جب محبت کا اظہار کرنا چاہیں تو اپنے محبوب کو یہ یقین دلانا پڑتا ہے کہ "میں تمھیں پاگل پن کی حد تک محبت کرتا ہوں "
8 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 2 months ago
Text
اس کے جانے پہ مُسلسل کیا گِریہ میں نے
پھر مُجھے تھام کے دیوار نے بولا " بس چُپ"...
3 notes · View notes
aakhripaigham · 5 months ago
Text
(Bang-e-Dra-121) Saqi (ساقی)
Nasha Pila Ke Girana To Sub Ko Ata Hai Maza To Jab Hai Ke Girton Ko Thaam Le Saqi
Everyone knows how to throw down people with intoxicants The fun is to convert the intoxicated one to sanity, O cup‐bearer
نشہ پِلا کے گِرانا تو ��ب کو آتا ہے مزا تو جب ہے کہ گِرتوں کو تھام لے ساقی
نشہ: شراب ۔ گرتوں کو تھام لینا: جو گر رہے ہیں انھیں سنبھالنا، پستیوں سے نکالنا
مطلب: اس نظم کے اشعار سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال اپنے عہد کے بعض ایسے رہنماؤں پر طنز کیا ہے جو ذاتی مفاد کے لئے اپنے پیرووَں کو مذہب اور سیاست کے نام پر استعمال کرتے تھے ۔ فرماتے ہیں شراب پلا کر ہر کوئی دوسرے کو بدمست اور مدہوش کر سکتا ہے اور اس بدمستی اور مدہوشی میں پینے والا زمین پر ہی گرتا ہے لیکن ساقی کا کام محض مدہوش کرنا ہی نہیں ہے بلکہ گرتے ہوؤں کو تھامنا بھی ہے ۔ مطلب یہ کہ ذاتی مفاد کے لئے دوسروں کو پستی سے ہمکنار کرنا تو سب کو آتا ہے تاہم حقیقی رہنمائی کا لطف اس عمل میں ہے کہ پستی میں گرنے والے کو سہارا دے ۔
Jo Badah Kash The Purane, Woh Uthte Jate Hain Kaheen Se Aab-e-Baqaye Dawam Le Saqi!
Those who were the old wine‐drinkers are gradually departing Bring the water of immortality from somewhere, O cup‐bearer
جو بادہ کش تھے پُرانے، وہ اُٹھتے جاتے ہیں کہیں سے آبِ بقائے دوام لے ساقی!
معانی:: بادہ کش : شراب پینے والے ۔ اٹھتے جاتے ہیں : اس دنیا سے جا رہے ہیں ۔ آبِ بقائے دوام: ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کا پانی، آبِ حیات ۔ مطلب: جو پرانے شراب پینے والے تھے وہ تو ایک ایک کر کے دنیا سے اٹھتے جاتے ہیں. اے ساقی! کہیں سے آب حیات حا��ل کر کے بزم کے رندوں کو پلاتا کہ وہ ہمیشہ کے لیے زندہ رہیں۔ مراد یہ کہ اسے قوم کے رہنما سچے اور بے باک و جلیل القدر مسلمان تو رفتہ رفتہ ملک عدم کو چلے جا رہے ہیں ان کی خالی جگہ پر کرنے کے لیے افرادِ قوم کو کتاب و سنت کا درس دے ورنہ تیری بزم بے رونق ہو جائے گی۔ تو اور تیری قوم دونوں پستی ذلت کے گڑے میں گر کر بے نشان ہو کر رہ جائیں گے۔
Kati Hai Raat To Hangama Gustari Mein Teri Sehar Qareeb Hai, Allah Ka Name Le Saqi!
Your whole night has passed in tumult and clamor The dawn is close remember God, O cupbearer!
کٹی ہے رات تو ہنگامہ گُستری میں تری سحَر قریب ہے، اللہ کا نام لے ساقی!
معانی:: ہنگامہ گستری میں : فتنہ و فساد پھیلانے میں ۔ سحر: صبح، اچھے دن ۔ مطلب: اے ساقی تو نے ساری عمر تو اسی قسم کے ہنگاموں میں گزاری ہے اب جب کہ تو عمر کے آخری مراحل میں ہے سب ہنگامے چھوڑ کر اللہ اللہ کر لے کہ یہی آخرت میں کام آئے گا ۔ مراد یہ ہے کہ خود ساختہ اور مفاد پرست رہنماؤں کا کردار عام لوگوں کے لئے زہر قاتل سے کم نہیں ۔ خدا کرے وہ عبرت حاصل کر سکیں ۔
~ Dr. Allama Iqbal Voice: Zia Mohyeddin
5 notes · View notes
urduclassic · 1 year ago
Text
کتب بینی کے شوقین افراد مفت کتابیں کیسے پڑھ سکتے ہیں؟
Tumblr media
ڈیجیٹل دور میں جہاں زندگی کے معمولات میں بے شمار تبدیلیاں آئی ہیں وہاں روایتی کتابوں کے حوالے سے بھی بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔ تاہم یہ حقیقت نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ کتب بینی کے عادی افراد تاحال روایتی کتابیں پڑھنے کی اپنی عادت سے مجبور ہیں اور وہ اپنے اس شوق کی تسکین کے لیے جب تک کتاب کا مطالعہ نہ کریں تو ذہنی سکون حاصل نہیں کر پاتے۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ایسے افراد کتب بینی کے حوالے سے ایک قسم کے سحر میں مبتلا ہوتے ہیں۔ دورحاضر میں جب کوئی کتب بینی کا شوقین اپنے مطالعہ کی عادت سے مجبور ہو کر چند پسندیدہ کتب خریدنے کی خواہش کرتا ہے تو وہ ان کی قیمت دیکھ کر کچھ دیر تو ضرور پریشان ہو جاتا ہے کیونکہ ان قیمتوں میں بے حد اضافہ ہو چکا ہے اور ایک کتاب 13.95 سے 18 ڈالر تک دستیاب ہے، اس حساب سے اگر چند اضافی کتب خریدی جائیں تو بل باآسانی 100 ڈالر کا تو بن ہی جاتا ہے۔ سعودی میگزین الرجل نے مطالعے کے شوقین افراد کے لیے چند ایسے طریقے بتائے ہیں جنہیں برائے کار لا کر وہ اضافی رقم خرچ کیے بغیر مفت میں اپنی من پسند کتابیں حاصل کرسکیں گے۔ 
1 ۔ لائبریری جائیں ہر ملک میں ہزاروں عوامی کتب خانے موجود ہوتے ہیں جہاں انواع و اقسام کی کتابیں خواہ وہ روایتی ہوں یا ڈیجیٹل کاپی کی صورت میں دستیاب ہوتی ہیں۔ یہ بھی یقینی امر ہے کہ کسی نہ کسی لائبریری میں آپ کی من پسند کتابیں بھی ضرور موجود ہوں گی۔ اب آپ کو صرف یہ کرنا ہے کہ آپ اس لائبریری کے رُکن بن جائیں اور وہاں سے اپنی من پسند کتابیں یا سیریز حاصل کریں اور انہیں پڑھنے کے بعد مقررہ وقت پر واپس کر دیں۔ اس طرح آپ کو کتابیں خریدنے کے لیے اضافی رقم خرچ نہیں کرنا پڑے گی۔ 
Tumblr media
2 ۔ کتب خانوں کی ایپلکیشنز آپ اگر کسی لائبریری میں جانے کے خواہاں نہیں تو کوئی مسئلہ نہیں، سمارٹ ایپس نے یہ مسئلہ بھی تقریباً حل کر ہی دیا ہے جس کے ذریعے آپ آسانی سے کسی بھی کتب خانے میں موجود کتابوں کا مطالعہ کرسکتے ہیں، جس کے لیے آپ کو صرف یہ کرنا ہو گا کہ کتب خانے کے ہوم پیچ پر اپنا اکاؤنٹ بنائیں جس کے بعد آپ کوئی رقم ادا کیے بغیر کسی وقت بھی اپنی من پسند کتابوں کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ 
3 ۔ مفت ڈیجیٹل کتابیں   روایتی کتاب کی طرح ڈیجیٹل کتب کو اگر آپ اپنے ہاتھوں میں نہیں تھام سکتے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ باقاعدہ کتاب نہیں ہے، ویب سائٹ ’بک بوب‘ آپ کو یہ سہولت بھی فراہم کرتی ہے کہ جس کتاب کا آپ مطالعہ کرنا چاہتے ہیں اس کا عنوان درج کریں اور ویب سائٹ چند لمحوں میں تمام معلومات فراہم کر دے گی کہ مذکورہ کتاب کس لائبریری میں دستیاب ہے، اور اسے مفت میں کیسے ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے۔ 
4 ۔ بک ٹریڈنگ سائٹس کے رُکن بنیں انٹرنیٹ پر اب شیئرنگ کی سہولت بھی دستیاب ہے جس سے آپ دیگر قارئین کے ساتھ کتابیں شیئر کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے متعدد ویب سائٹس موجود ہیں جن میں ’بک موچ‘ ’پیپربیک سواپ‘ وغیرہ شامل ہیں جن پر آپ اپنی کتاب دوسرے قارئین کے ساتھ شیئر کر سکتے ہیں۔ شیئرنگ کے لیے جب آپ کسی کو میل کرتے ہیں تو آپ کو اس کے پوائنٹس بھی ملتے ہیں۔ 
5۔ ریٹنگ کرنا کسی بھی کتاب کے بارے میں رائے دینا بہت اہم ہوتا ہے۔ اس حوالے سے آپ اگر رائے دیتے ہیں تاکہ دوسرے لوگ آپ کے مطالعہ اور حاصل مطالعے کا جائزہ لینے کے بعد کتاب کے بارے میں معلومات حاصل کرسکیں تو ’نیٹ گیلی‘ جیسی ویب سائٹس کی جانب سے کتاب کی درجہ بندی کرنے یعنی اس کے بارے میں رائے دینے والوں کو پیشگی کاپیاں ارسال کی جاتی ہیں۔ آپ اگر سوشل میڈیا پر ایکٹیو ہیں اور آپ کے فالوورز کی تعداد بھی زیادہ ہے اور کتابوں پر اپنی رائے بھی دیتے ہیں تو اس صورت میں کوئی بھی پبلشر آپ کو نئی کتابوں کی کاپیاں ارسال کرنے میں پس و پیش سے کام نہیں لے گا۔ 
6۔ چھوٹی اور مفت لائبریری تلاش کریں جب بھی آپ اپنے علاقے کی سیر کریں تو کوشش کریں کہ وہاں چھوٹی لائبریری تلاش کریں جہاں آپ کو متعدد کتابیں مفت میں پڑھنے کے لیے مل جائیں گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اپنی پڑھی ہوئی کسی کتاب کے بدلے میں دوسری کتاب حاصل کرسکیں۔ 
7 ۔ سوشل میڈیا آپ اگر سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں اور کتب بینی کے شوقین بھی ہیں تو اس صورت میں آپ یقینی طور پر پبلشرز کے ایڈریسز سے بھی واقف ہوں گے۔ عام طور پر پبلشرز ایسے افراد کو جو کتب بینی کا شغف رکھتے ہیں انہیں مفت میں نئی کتابیں تحفے کے طور پر بھی ارسال کرتے ہیں تو کچھ یوں بھی آپ بنا کچھ خرچ کیے اپنے مطالعے کا شوق پورا کر سکتے ہیں۔ 
بشکریہ اردو نیوز
2 notes · View notes
verses-n-moon · 2 years ago
Text
Kabhi kabhi ham zindagi ke us muqam pe ajate hain jahan na koi hamara sath dene wala hota hai na koi smjhne wala. Phir bas aik he rasta bachta hai jo hamen Allah ke qareeb le jata hai, jis pe ham chal ke hamen Allah mil jata hai, aur hamen tham leta hai.
جنہیں سب چھوڑ دیتے ہیں انہیں الله تھام لیتا ہے۔
3 notes · View notes
xrozenn · 2 years ago
Text
اب تیرا ذکر ہوتا ہے تو سینا تھام لیتا ہوں
مسکرانے کی بجائے آنسو روک لیتا ہوں
میرے درد کو ابنا سمجھ کر جو سنبھالا کبھی
تو ہی درر بن کر آیا تو خود کو سنبھال لیتا ہوں
Now when you are mentioned, I hold my chest
Instead of smiling, I hold back my tears
Who took care of my pain as his own
when you came as pain, I take care of myself
4 notes · View notes
officialkahanimarkaz · 26 days ago
Text
 میری نظریں میری ماں کے چہرے پر مرکوز تھی وہ بڑی مشکل سے سانس لے پا رہی تھی جب میری ماں کی سانس لینا کی آواز دھیمی ہو جاتی تو میرے دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی تھی میں فورا ان کے قریب جاتا ان کی جانب دیکھتا بعض اسے پکڑ کر ہلاتا ہاتھ تھام لیتا اور کہتا اماں اماں بولتی کیوں نہیں ہو اگلے ہی پل میری اماں کی تھوڑی سی آنکھیں کھلتی اور آنکھیں کھول کر کہتی کہ بیٹا ابھی تیری ماں کی سانسیں باقی ہیں ۔اماں ایسی باتیں کیوں کرتی ہو ابھی تو تم نے بہت کچھ دیکھنا ہے تم سونا چاہتی ہو سو جاؤ لیکن اگر ذرا سا بھی تکلیف محسوس کرو تو مجھے بتانا میں فورا ڈاکٹر کو بلا لوں گا میری اماں نے صرف سر کو جمبش دی تھی اور پھر آنکھیں موند  لی ایک دم سے اس کی سانسوں کی آواز اس قدر تیز ہو جاتی  میرا دل گھبرانے لگتا عجیب طرح کے وسوسے میرے دماغ میں آنے لگتے تھے لیکن اگلے ہی پل وہ ایک دم سے پھر نارمل ہو جاتی تھی میرے ہاتھ میں سورہ یاسین تھی میں پچھلے تین گھنٹوں سے کتنی ہی مرتبہ سورہ یاسین پڑھ کر اپنی ماں پر پھونک چکا تھا ایسے کرنے کا مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ میری ماں ٹھیک ہو جائے اس کا جو بھی مسئلہ ہے خدا معجزاتی طور پر ٹھیک کر دے لیکن معجزے مجھ جیسے لوگوں کے لیے عام تھوڑی ہوا کرتے ہیں میں رونے لگا بے بسی کا شکار تھا کاش میں اپنی ماں کی قدر پہلے کر لیتا جیسے اب کر رہا تھا میں پہلے ہی اپنی ماں کی ہر حرکت پر نظر رکھتا دیکھتا کہ وہ کیا چاہتی ہیں کیا محسوس کر رہی ہیں لیکن میں نے ان کے بارے میں ہمیشہ لاپرواہی کا ہی مظاہرہ کیا تھا نہ جانے  اپنی ماں کے ہاتھ پر رکھے میری بھی آنکھ لگ چکی تھی جب میری انک کھلی تو میرے بالوں میں کوئی ہاتھ پھیر رہا تھا آنکھیں کھول کر دیکھا تو بے ساختہ  میرے منہ سے اماں نکلا تھا میری ماں بھلے ہی  نیند کی شکار تھی لیکن اس کے باوجود وہ میرے بالوں میں دھیرے دھیرے ہاتھ پھیر رہی  تھی کہنے لگا کہ بیٹا سو جانا جا کر مت فکر کر میری میں ٹھیک ہو جاؤں گی اب دیکھنا میں تو یہاں پر لیٹی آرام کر رہی ہوں لیکن تجھے میں نے اس قدر پریشان رکھا ہے درد ہو جائے گا تجھے کمر میں ایسے بیٹھ بیٹھ کر جا شاباش گھر جا کر آرام کر لے میری فکر مت کر میری طبیعت خراب ہوئی تو میں یہاں پر نرس کو بولوں گی وہ تجھے بلا لے گی میری آنکھوں سے بے ساختہ آنسو ٹوٹ کر نکلنے پر آئے تھے کتنی فکر تھی میری ماں کو میری اس حالت میں بھی اسے صرف میری ہی فکر تھی میں رونے لگا روتے ہوئے کہنے لگا کہ اماں بس کر دو مت کیا کرو میری فکر میں کوئی بچہ نہیں ہوں تمہارا بیٹا ہوں بیٹا اور بیٹوں پر کئی طرح کے فرائض ہوتے ہیں میں نے تو ٹھیک سے وہ فرائض بھی نہیں نبھائیں جو کہ ہر بیٹے کو اپنی ماں کے لیے نبھانے چاہیے تھے تم تو میرا ماں اور باپ دونوں بن کر میرے ساتھ رہی لیکن میں اگر ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا اماں میں تجھ سے معافی چاہتا ہوں بس میرا اللہ تجھے جلدی جلدی ٹھیک کر دے مجھے ماضی کا وہ وقت یاد آنے لگا میں اس وقت صرف چھ سال کا تھا جیسے ہی ہوش سنبھالا تھا تو گھر میں لڑائی جھگڑے ہی دیکھے تھے ۔ میرے ابا زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے۔  مگر پھر بھی تھوڑا بہت پیسہ ضرور جمع کر رکھا تھا۔ مگر مجھے اپنے ابا  زیادہ پسند  نہ تھے۔ کیونکہ  وہ ایک جھگڑالو قسم کے مرد تھے۔یہی کہتے تھے کہ بیٹا تیری ماں سے تو شادی کر کے میں نے غلطی کر دی ارے اس نے کوئی سیدھا کام کیا ہی کیا ہے میں خاموشی سے ابا کی باتیں سنتا رہتا تھا اماں روتی بھی رہتی اور ابا کے کام بھی کرتی رہتی اسے جھگڑتی بھی رہتی اور اس کی ٹانگیں بھی دباتی رہتی جبکہ ابا اسے وہی ٹانگ ٹھوکر مار کر بستر سے گرا دیا کرتا تھا بار بار اماں کو کہتا تھا کہ اپنی اوقات میں رہ تو میرے پاؤں کی جوتی ہے جوتی اگر زیادہ تکلیف دینے لگ گئی تو اتار کر پھینک دوں گا اور نہیں جوتی پاؤں میں پہن لوں گا اس طرح کی باتیں کر کر کے ابا اماں کو بہت تکلیف دیا کرتے تھے پہلے پہل تو میں بھی ابا کی طرح اماں سے نفرت کرنے لگا تھا لیکن دھیرے دھیرے مجھے احساس ہونے لگا کہ ابا کو نہ ہی مجھ سے محبت ہے اور نہ ہی اماں سے بلکہ انہیں تو ہر اس عورت سے محبت ہے جو ان سے ہنس کر دو گھڑی بات کر لیا کرتی ہے گاؤں میں کوئی تقریب ہوتی یا ہمارے گھر میں مہمان خواتین آ جاتی تو ابا کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی تھی وہ تو ان عورتوں کے آگے پیچھے گھومنے لگتا تھا ایسے پیار بھری رسیلی باتیں کرتا کہ جیسے اس سے زیادہ میٹھا اور اخلاق والا بندہ ہی کوئی نہیں ہے آج تک میں نے ابا کو اماں سے محبت بھری باتیں کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا ہاں شاید جب نئی نئی شادی ہوئی ہوگی تب کچھ عرصے تک ��با اماں سے محبت بھری باتیں کرتے رہے ہوں گے لیکن میں نے تو اب صرف اور صرف ان کو اماں سے لڑتے دیکھا تھا اور غیر عورتوں میں دلچسپی لیتے ہی دیکھا تھی ایک روز اماں کی سہیلی ہمارے ہاں آئی وہ بھی کالا 
youtube
0 notes
risingpakistan · 29 days ago
Text
الخد مت فاؤنڈیشن
Tumblr media
ہجومِ نالہ میں یہ ایک الخد مت فاؤنڈیشن ہے جو صلے اور ستائش سے بے نیاز بروئے کار آتی ہے۔ جماعت اسلامی سے کسی کو سو اختلاف ہوں لیکن الخدمت دیار عشق کی کوہ کنی کا نام ہے۔ پاکستان ہو یا فلسطین، زلزلہ ہو یا سیلاب آئے یہ انسانیت کے گھائل وجود کا اولین مرہم بن جاتی ہے۔ خدمت خلق کے اس مبارک سفر کے راہی اور بھی ہوں گے لیکن یہ الخدمت فاؤنڈیشن ہے جو اس ملک میں مسیحائی کا ہراول دستہ ہے۔ مبالغے سے کوفت ہوتی ہے اور کسی کا قصیدہ لکھنا ایک ایسا جرم محسوس ہوتا ہے کہ جس سے تصور سے ہی آدمی اپنی ہی نظروں میں گر جائے۔ الخدمت کا معاملہ مگر الگ ہے۔ یہ قصیدہ نہیں ہے یہ دل و مژگاں کا مقدمہ ہے جو قرض کی صورت اب بوجھ بنتا جا رہا تھا۔ کتنے مقبول گروہ یہاں پھرتے ہیں۔ وہ جنہیں دعوی ہے کہ پنجاب ہماری جاگیر ہے اور ہم نے سیاست کو شرافت کا نیا رنگ دیا ہے۔ وہ جو جذب کی سی کیفیت میں آواز لگاتے ہیں کہ بھٹو زندہ ہے اور اب راج کرے گی خلق خدا، اور وہ جنہیں یہ زعم ہے کہ برصغیر کی تاریخ میں وہ پہلے دیانتدار قائد ہیں اور اس دیانت و حسن کے اعجاز سے ان کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ بلے پر دستخط کر دیں تو کوہ نور بن جائے۔
ان سب کا یہ دعوی ہے کہ ان کا جینا مرنا عوام کے لیے ہے۔ ان میں کچھ وہ ہیں جو عوام پر احسان جتاتے ہیں کہ وہ تو شہنشاہوں جیسی زندگی گزار رہے تھے، ان کے پاس تو سب کچھ تھا وہ تو صرف ان غریب غرباء کی فلاح کے لیے سیاست کے سنگ زار میں اترے۔ لیکن جب اس ملک میں افتاد آن پڑتی ہے تو یہ سب ایسے غائب ہو جاتے ہیں جیسے کبھی تھے ہی نہیں۔ جن کے پاس سارے وسائل ہیں ان کی بے نیازی دیکھیے۔ شہباز شریف اور بلاول بھٹو مل کر ایک ہیلی کاپٹر سے آٹے کے چند تھیلے زمین پر پھینک رہے ہیں۔ ایک وزیر اعظم ہے اور ایک وزیر خارجہ۔ ابتلاء کے اس دور میں یہ اتنے فارغ ہیں کہ آٹے کے چند تھیلے ہیلی کاپٹر سے پھینکنے کے لیے انہیں خود سفر کرنا پڑا تا کہ فوٹو بن جائے، غریب پروری کی سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ فوٹو شوٹ سے انہیں اتنی محبت ہے کہ پچھلے دور اقتدار میں اخباری اشتہار کے لیے جناب وزیر اعلی شہباز شریف کے سر کے نیچے نیو جرسی کے مائیکل ریوینز کا دھڑ لگا دیا گیا تا کہ صاحب سمارٹ دکھائی دیں۔ دست ہنر کے کمالات دیکھیے کہ جعل سازی کھُل جانے پر خود ہی تحقیقات کا حکم دے دیا۔ راز کی یہ بات البتہ میرے علم میں نہیں کہ تحقیقات کا نتیجہ کیا نکلا۔
Tumblr media
ہیلی کاپٹرز کی ضرورت اس وقت وہاں ہے جہاں لوگ پھنسے پڑے ہیں اور دہائی دے رہے ہیں۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آ سکی کہ ہیلی کاپٹروں میں بیٹھ کر یہ اہل سیاست سیلاب زدہ علاقوں میں کیا دیکھنے جاتے ہیں۔ ابلاغ کے اس جدید دور میں کیا انہیں کوئی بتانے والا نہیں ہوتا کہ زمین پر کیا صورت حال ہے۔ انہیں بیٹھ کر فیصلے کرنے چاہیں لیکن یہ ہیلی کاپٹر لے کر اور چشمے لگا کر ”مشاہدہ“ فرمانے نکل جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کا فائدہ کیا ہے؟ کیا سیلاب کو معطل کرنے جاتے ہیں؟ یا ہواؤں سے اسے مخاطب کرتے ہیں کہ اوئے سیلاب، میں نے تمہیں چھوڑنا نہیں ہے۔ سندھ میں جہاں بھٹو صاحب زندہ ہیں، خدا انہیں سلامت رکھے، شاید اب کسی اور کا زندہ رہنا ضروری نہیں رہا۔ عالی مرتبت قائدین سیلاب زدگان میں جلوہ افروز ہوتے ہیں تو پورے پچاس روپے کے نوٹ تقسیم کرتے پائے جاتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ کیسے لوگ ہیں۔ ان کے دل نہیں پسیجتے اور انہیں خدا کا خوف نہیں آتا؟ وہاں کی غربت کا اندازہ کیجیے کہ پچاس کا یہ نوٹ لینے کے لیے بھی لوگ لپک رہے تھے۔ یہ جینا بھی کوئی جینا ہے۔ 
یہ بھی کوئی زندگی ہے جو ہمارے لوگ جی رہے ہیں۔ کون ہے جو ہمارے حصے کی خوشیاں چھین کر مزے کر رہا ہے۔ کون ہے جس نے اس سماج کی روح میں بیڑیاں ڈال رکھی ہیں؟ یہ نو آبادیاتی جاگیرداری کا آزار کب ختم ہو گا؟ ٹائیگر فورس کے بھی سہرے کہے جاتے ہیں لیکن یہ وہ رضاکار ہیں جو صرف سوشل میڈیا کی ڈبیا پر پائے جاتے ہیں ۔ زمین پر ان کا کوئی وجود نہیں ۔ کسی قومی سیاسی جماعت کے ہاں سوشل ورک کا نہ کوئی تصور ہے نہ اس کے لے دستیاب ڈھانچہ ۔ باتیں عوام کی کرتے ہیں لیکن جب عوام پر افتاد آن پڑے تو ایسے غائب ہوتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔ محاورہ بہت پرانا ہے لیکن حسب حال ہے ۔ یہ صرف اقتدار کے مال غنیمت پر نظر رکھتے ہیں ۔ اقتدار ملتا ہے تو کارندے مناصب پا کر صلہ وصول کرتے ہیں۔ اس اقتدار سے محروم ہو جائیں تو ان کا مزاج یوں برہم ہوتا ہے کہ سر بزم یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہمیں اقتدار سے ہٹایا گیا ہے اب فی الوقت کوئی اوورسیز پاکستانی سیلاب زدگان کے لیے فنڈز نہ بھیجے۔ ایسے میں یہ الخدمت ہے جو بے لوث میدان عمل میں ہے ۔ اقتدار ان سے اتنا ہی دور ہے جتنا دریا کے ایک کنارے سے دوسرا کنارا ۔ لیکن ان کی خدمت خلق کا طلسم ناز مجروح نہیں ہوتا ۔ 
سچ پوچھیے کبھی کبھی تو حیرتیں تھام لیتی ہیں کہ یہ کیسے لوگ ہیں۔ حکومت اہل دربار میں خلعتیں بانٹتی ہے اور دربار کے کوزہ گروں کو صدارتی ایوارڈ دیے جاتے ہیں ۔ اقتدار کے سینے میں دل اور آنکھ میں حیا ہوتی تو یہ چل کر الخدمت فاؤنڈیشن کے پاس جاتا اور اس کی خدمات کا اعتراف کرت۔ لیکن ظرف اور اقتدار بھی دریا کے دو کنارے ہیں ۔ شاید سمندر کے۔ ایک دوسرے کے جود سے نا آشنا۔ الخدمت فاؤندیشن نے دل جیت لیے ہیں اور یہ آج کا واقعہ نہیں ، یہ روز مرہ ہے۔ کسی اضطراری کیفیت میں نہیں، یہ ہمہ وقت میدان عمل میں ہوتے ہیں اور پوری حکمت عملی اور ساری شفافیت کے ساتھ ۔ جو جب چاہے ان کے اکاؤنٹس چیک کر سکتا ہے۔ یہ کوئی کلٹ نہیں کہ حساب سے بے نیاز ہو، یہ ذمہ داری ہے جہاں محاسبہ ہم رکاب ہوتا ہے۔ مجھے کہنے دیجیے کہ الخدمت فاؤنڈیشن نے وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے ۔ میں ہمیشہ جماعت اسلامی کا ناقد رہا ہوں لیکن اس میں کیا کلام ہے کہ یہ سماج الخدمت فاؤنڈیشن کا مقروض ہے۔ سیدنا مسیح کے الفاظ مستعار لوں تو یہ لوگ زمین کا نمک ہیں ۔ یہ ہم میں سے ہیں لیکن یہ ہم سے مختلف ہیں۔ یہ ہم سے بہتر ہیں۔ 
ہمارے پاس دعا کے سوا انہیں دینے کو بھی کچھ نہیں، ان کا انعام یقینا ان کے پروردگار کے پاس ہو گا۔ الخدمت فاؤنڈیشن کی تحسین اگر فرض کفایہ ہوتا تو یہ بہت سے لوگ مجھ سے پہلے یہ فرض ادا کر چکے۔ میرے خیال میں مگر یہ فرض کفایہ نہیں فرض عین ہے۔ خدا کا شکر ہے میں نے یہ فرض ادا کیا۔
آصف محمود
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز 
0 notes
topurdunews · 3 months ago
Text
پاکستان میں صنفی بنیاد پر تشدد کی روک تھام کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں: اعظم نذیر تارڑ
(24نیوز) وفاقی وزیر قانون و انسانی حقوق اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ پاکستان میں صنفی بنیاد پر تشدد کی روک تھام کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ صنفی بنیاد پر تشدد ایک اہم مسئلہ ہے، پاکستان میں صنفی بنیاد پر تشدد کی روک تھام کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں، خواتین کے بنیادی حقوق کی فراہمی کیلئے اقدامات کئے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارا…
0 notes
qoutes-world · 1 month ago
Text
Allama Iqbal Poetry, & Ghazal in Urdu 2025
Description
Muhammad Iqbal, or more commonly known as Iqbal was a prize winning poet and philosopher of Urdu language and one of the moulders of modern Pakistan. His poems and ghazals are timeless carrying out messages of hope, spirituality, self-empowerment, and motivation. Iqbal has given philosophical lines which prompted many people to realise their hidden self and play their due role for the welfare of society.
Khudi (Selfhood):According to the philosophy of Iqbal known as Khudi, people should decide to be strong and should rise up to the higher level of world.
Spirituality and Divine Love:His ghazal usually revolves around love, or more appropriately, the closeness of love especially in the relation between humans and the creator.
Awakening and Motivation:The poetry of Iqbal proclaims acts and vows that his audience will not become stagnant and instead design their own fate.
Patriotism and Unity: The verses contain his ideas of the unified society’s development evoking the importance of liberty, justice and equity.
Some of Iqbal’s best works like Bang-e-Dra, Baal-e-Jibril, and Zarb-e-Kaleem fully elucidate how he had achieved the compatibility of ideas with aesthetic value. His ghazals enshrine fluidity of language and depth of thought and represent a considerable reference for those interested in Urdu poetry lovers and seokers of philosophical succor.
qoutesheaven
Allama Iqbal poetry in Urdu
Urdu ghazals by Allama Iqbal
Allama Iqbal inspirational poetry
Khudi philosophy by Iqbal
Spiritual poetry in Urdu
Famous verses of Allama Iqbal
Tumblr media
علامہ اقبال
کی ایک ہندہ لڑکی پر نظر پڑ گئی لڑکی بہت خوبصورت تھی اقبال بار بار اُسے دیکھ رہے تھے کہ لڑکی بولی !
اپنے سے اونچا جو صنم دیکھتے ہیں
زندگی میں رنج والم دیکھتے ہیں
اس پر اقبال نے کہا !
نہ تجھ سے غرض نہ تیری صورت سے غرض
ہم تو مصور کا
قلم دیکھتے ہیں
Tumblr media
شکوه
بروز حشر میں بے ، خوف گھس جاؤں گا
جنت میں وہاں سے آئے تھے آدم وہ میرے باپ کا گھر ہے
جواب شکوہ
ان اعمال کے ساتھ جنت کا طلبگار ہے کیا
وہاں سے نکالے گئے آدم تو تیری اوقات ہے کیا
https://qoutesheaven.com/wp-content/uploads/2025/01/3-3-1024x576.jpg
محبت کی تمنا ہے تو پھر وہ وصف پیدا کر
جہاں سے عشق چلتا ہے وہاں تک نام پیدا کر
اگر سچ ہے میرے عشق میں تو اے بنی آدم
نگاه عشق پیدا کر جمال ظرف پیدا کر
میں تجھ کو تجھ سے زیادہ چاہوں گا
مگر شرط یہ کے اپنے اندر میری جستجو توپیدا کر
اگر نہ بدلوں تیری خاطر ہر اک چیز تو کہنا
تو اپنے آپ میں پہلے انداز وفا تو پیدا کر
Tumblr media
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تُجھ سے کام دُنیا کی امامت کا
Tumblr media
مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ
https://qoutesheaven.com/wp-content/uploads/2025/01/6-2-1024x576.jpg
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
https://qoutesheaven.com/wp-content/uploads/2025/01/7-2-1024x576.jpg
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
Tumblr media
نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے
مزا تو تب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی
https://qoutesheaven.com/wp-content/uploads/2025/01/9-2-1024x576.jpg
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
Tumblr media
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
Conclusion
Allama Iqbal Poetry work in the form of shayari and ghazals in the Urdu language have ever enriching spiritual, individualism, and social enlightenment. His verses not only pay homage to the renaissance of Urdu literature but also contain constructive messages for any reader, and all generations of people in Pakistan. Read for a deep philosophical angle, or for the inspiration in his ghazals, the mind and the spirit will be touched by works of Iqbal, truly. Go deeper into his poems to appreciate the impacts of his writes.
More Qoutes
Allama Iqbal Poetry
Motivational Qoutes urdu
20+Heartfelt Love Quotes
15+sad qoutes in Urdu one line
0 notes
my-urdu-soul · 7 months ago
Text
وہ تَہی دَست بھی کیا خوب کہانی گَر تھا
باتوں باتوں میں مجھے چاند بھی لا دیتا تھا
ہنساتا تھا مجھ کو تو پھر وہ رُلا بھی دیتا تھا
کر کے وہ مجھ سے اکثر وعدے بُھلا بھی دیتا تھا
بے وفا تھا بہت مگر دل کو اچھا لگتا تھا
کبھی کبھار باتیں محبت کی سُنا بھی دیتا تھا
کبھی بے وقت چلا آتا تھا ملنے کو
کبھی قیمتی وقت محبت کے گنوا بھی دیتا تھا
تھام لیتا تھا میرا ہاتھ کبھی یوں ہی خود
کبھی ہاتھ اپنا میرے ہاتھ سے چھڑا بھی لیتا تھا
عجیب دھوپ چھاؤں سا مزاج تھا اُس کا
معتبر بھی رکھتا تھا نظروں سے گرا بھی دیتا تھا...!
- پروین شاکر
8 notes · View notes
rabiabilalsblog · 11 months ago
Text
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا
درختوں کی گھنی چھاؤں میں جا کر لیٹ جاتا ہے
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں
تو مینا اپنے بچے چھوڑ کر
کوے کے انڈوں کو پروں سے تھام لیتی ہے
سنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ گر پڑے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے
سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں
بئے کے گھونسلے کا گندمی رنگ لرزتا ہے
تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو پڑوسن مان لیتی ہیں
کبھی طوفان آ جائے، کوئی پل ٹوٹ جائے تو
کسی لکڑی کے تختے پر
گلہری، سانپ، بکری اور چیتا ساتھ ہوتے ہیں
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
خداوندا! جلیل و معتبر! دانا و بینا منصف و اکبر!
مرے اس شہر میں اب جنگلوں ہی کا کوئی قانون نافذ کر!
6 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 5 months ago
Text
ہو کے مجبُور آہ کرتا ہُوں
تھام کر دِل گُناہ کرتا ہُوں
ابرِ رحمت اُمنڈتا آتا ہے
جب خیالِ گُناہ کرتا ہُوں
میرے کِس کام کی ہے یہ اکسِیر
خاکِ دل، وقفِ راہ کرتا ہُوں
دِل سے خوفِ جَزا نہیں مِٹتا
ڈرتے ڈرتے گُناہ کرتا ہُوں
دِل میں ہوتے ہو تم، تو اپنے پر
غیر کا اشتباہ کرتا ہُوں
تُو نہ دیکھے یہ دیکھنا میرا
تُجھ سے چُھپ کر گُناہ کرتا ہُوں
بندۂ عِشق ہے تِرا بیخودؔ
تُجھ کو یا رب گواہ کرتا ہُوں
بیخودؔ دہلوی
4 notes · View notes