#تعلیمی ادارے
Explore tagged Tumblr posts
Text
عام انتخابات کے لیے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں 6 سے 9 فروری تک تعطیلات کا اعلان
عام انتخابات کے لیے پنجاب بھر کے تعلیمی اداروں میں تعطیلات کا اعلان کردیا گیا سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے کہا کہ عام انتخابات کے لیے پنجاب میں اسکول، کالجز اور یونیورسٹیز 6 سے 9 فروری تک بند رہیں گے، انتخابات کے لیے تعطیلات کا اطلاق تمام سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں پر ہو گا۔ محسن نقوی نے کہا کہ پنجاب کابینہ نے تعلیمی اداروں میں تعطیلات کی…
View On WordPress
0 notes
Text
کل بھی تعلیمی ادارے بند رہیں گے
(ارشاد قریشی، طیب سیف ) پاکستان تحریک انصاف( پی ٹی آئی) کے احتجاج کے پیش نظر راولپنڈی اور اسلام آباد میں میں تعلیمی ادارے 27 تاریخ کو بھی بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی احتجاج کے باعث جڑواں شہروں کی انتظامیہ کی جانب سے تعلیمی ادارے تیسرے روز بھی بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، وفاقی دارالحکومت کی ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ فیصلے کا اطلاق تمام تعلیمی اداروں پر ہو…
0 notes
Text
پاکستان کی دو بنیادی خرابیاں
ہمیں ایک طرف معاشرتی طور پر انتہائی گراوٹ کا سامنا ہے تو دوسری طرف ہماری حکومت اور ریاست عوام سے متعلق اپنی ذمہ دریاں ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتی ہیں۔ اخلاقی گراوٹ کی وجہ سے ہم بحیثیت معاشرہ ہر قسم کی خرابیوں اور برائیوں کا شکار ہیں، کون سی برائی ایسی ہے جو ہم میں موجودہ نہیں۔ جھوٹ، فراڈ، دھوکہ، ملاوٹ، رشوت، سفارش اور ایسی ایسی اخلاقی برائیاں کہ گننا مشکل ہو چکا۔ حکومتی اور ریاستی مشینری اتنی کرپٹ اور نااہل ہو چکی کہ کسی بھی سرکاری محکمے کا نام لے لیں ��وئی اپنا کام ایمانداری اور ذمہ داری سے ادا نہیں کرتا جس کی وجہ سے عوام کی سہولت اور فلاح کیلئے قائم کیے گئے ان اداروں میں سروس ڈیلوری کی بجائے عوام کو دھکے کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے اور کوئی کام رشوت اور سفارش کے بغیر نہیں ہوتا۔ ان سرکاری محکموں میں بیٹھے سرکاری ملازم جائز سے جائز کام پر بھی عوام کو رُلاتے ہیں، ان کی عزت نفس کو مجروح کیا جاتا ہے۔ سرکاری ملازمین اپنی ڈیوٹی کو ایمانداری سے ادا کرنے کی بجائے ایسے کام کرتے ہیں جیسے عوام پر احسان کر رہے ہوں۔
ہمارے معاشرے اور حکومت سے متعلق ان دو بنیادی خرابیوں (اخلاقی و معاشرتی گراوٹ اور حکومتی و ریاستی مشینری کی ناکامی) کے بارے میں جس سے بات کریں سب مانتے ہیں کہ یہ بہت بڑی خرابیاں ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور حکومتیں بھی یہ تسلیم کرتی ہیں لیکن کوئی بھی حکومت، کوئی بھی بڑی سیاسی جماعت ان دو بنیادی خرابیوں کو ٹھیک کرنے کیلئے کچھ نہیں کر رہی۔ جب معاشرتی و اخلاقی گراوٹ کو روکنے کی کوئی تدبیر نہیں کی جائے گی تو پھر اس کا نتیجہ ہمارے ہاں مزید معاشرتی خرابیوں اور نئی نئی اخلاقی برائیوں کی صورت نکلے گا اور یہی کچھ یہاں ہو رہا ہے۔ اگر ریاست اور حکومت سرکاری وانتظامی مشینری کو اپنی بنیادی ذمہ داری ایمانداری کے ساتھ سر انجام دینے میں دلچسپی نہیں لے گی تو نہ یہاں عوام کو کوئی ریلیف مل سکتا ہے، نہ ہی ملک و قوم کی ترقی ممکن ہے۔ معاشرتی بگاڑ کو روکنے کیلئے افراد اور معاشرہ کی کردار سازی کیلئے کام کرنا پڑے گا جس میں تعلیمی اداروں، مسجد و منبر، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کا کردار بہت اہم ہے جس کیلئے حکومت کو بنیادی رول ادا کرنا پڑے گا۔
یعنی حکومت کو ایک طرف تعلیم کے ساتھ تربیت کو نصاب اور نظام تعلیم کا بنیادی حصہ بنانا پڑے گا تو دوسری طرف میڈیا، مذہبی طبقات، سیاسی جماعتوں کے ذریعے معاشرے کی کردار سازی پر فوکس کرنا پڑے گا۔ اس سلسلے میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کو جنگی بنیادوں پر کام کرنا چاہیے لیکن ایسا ہو نہیں رہا۔ وفاق کی سطح پر موجودہ سیکریٹری تعلیم اپنی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے کردار سازی کیلئے اسلام آباد کے سرکاری تعلیمی اداروں میں کچھ کام کر رہے ہیں لیکن یہ وہ بڑا چیلنج ہے جس کیلئے وزیر اعظم اور وزرائے اعلی کو ذاتی دلچسپی لینی چاہیے۔ اگر تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ہو گی، معاشرے کی کردار سازی پر کام ہو رہا ہو گا تو معاشرتی و اخلاقی برائیوں میں خاطر خواہ کمی کے ساتھ ہم بہتر قوم بن جائیں گے۔ حکومت و ریاست سے متعلق ناکامیوں اور نااہلیوں کا اگر ادراک کرنا ہے تو اُس کیلئے سرکاری مشینری کو اپنی ذاتی پسند، ناپسند کی بجائے میرٹ اوراہلیت کی بنیاد پر ایک نظام کے تحت چلایا جائے۔ یہ نظام ہماری سرکاری فائلوں میں تو موجود ہے لیکن سفارش، اقربا پروری اور ذاتی پسند، ناپسند کی وجہ سے ہماری سرکاری مشینری مکمل سیاست زدہ ہو چکی جس کی وجہ سے ہم نااہل حکمرانی اور کرپشن کی وجہ سے دنیا میں بدنام ہیں۔
وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کیلئے بہتر طرز حکمرانی کا بڑا آسان نسخہ ہے کہ وہ سول سروس اور پولیس یعنی سرکاری مشینری کو غیر سیاسی کر دیں، ہر تعیناتی میرٹ اور قابلیت کی بنیاد پر کی جائے اور یہ کام اُنہی اداروں کو کرنا چاہیے جو اس مقصد کیلئے بنائے گئے۔ اس سے ہر سرکاری محکمہ کے کام میں بہتری آئے گی۔ حکمران اگر عوام کو ریلیف دینا چاہتے ہیں تو سرکاری مشینری کو غیر سیاسی کر کے صرف فوکس اس نکتہ پر رکھیں کہ کون سا سرکاری ادارہ اور کون سا سرکاری افسر اپنی ذمہ داری اور ڈیوٹی ادا کرنے میں ناکام ہے۔ جب سرکاری ادارے اپنا کام کریں گے تو عوام خوش ہونگے اور ملک ترقی کرے گا۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Link
[ad_1] بسم اﷲ الرحمن الرحیمدینی مدارس اور سیکولرتعلیمی ادارے ۔ ڈاکٹر ساجد خاکوانی دینی مدارس کا آغازمحسن انسانیت ﷺ نے فرمایا جبکہ سیکولرتعلیمی ادارے مغربی نوآبادیاتی دورغلامی کی پیداوار ہیں۔معلم انسانیت ﷺنے صفہ کے چبوترے پراصحاب صفہ کی تعلیم و تربیت کا آغازکیا،یہ وہ اصحاب تھے جو اپنے گھربارچھوڑ کر حصول تعلیم کے لیے اس تعلیمی ادارے کے طلبہ بنے اورانتہائی نامساعدحالات میں بھی بھوک اور افلاس سے مقابلہ کرتے ہوئے علوم وحیہ کے حصول میں سرگرم عمل رہے۔اصحاب صفہ پر بعض اوقات ایسے حالات بھی آئے کہ نقاہت کے باعث وہ دیواروں کو تھام تھام کر چلتے لیکن اس کے باوجود ان کے پائے استقامت میں لرزش نہ آئی ۔جب کبھی دوردرازکاکوئی قبیلہ مسلمان ہوتا تو دینی مسائل سے آگاہی کے لیے اصحاب صفہ میں سے کچھ نوجوان وہاں بھیج دیے جاتے جو انہیں جملہ امورمعاشرت ودیگراحکامات شریعہ سے آگاہی فراہم کرتے۔ایک بار تودھوکے سے لے جانے والے اصحاب صفہ کی کثیرتعدادکو شہید بھی کر دیا گیا تھا جس کا کہ محسن انسانیت ﷺکوبے حد قلق ہوا۔’’صفہ‘‘کاسلسلہ خلافت راشدہ میں بھی جاری رہا اور حضرت عمر کے زمانے میں ’’گشتی تعلیمی ادارے‘‘ وجود میں آئے ،چندعلمائے دین اور اونٹنی پر دھراسامان خواندگی پرمشتمل یہ’’ قافلہ تعلیم‘‘ قبیلہ قبیلہ مطلقاََان پڑھ اور جاہل افراد کو تلاش کرتا اورلازمی تعلیم کے طورپر قرآن مجیدکے چند حصے حفظ کراتااورلکھنے پڑھنے کی ضروری تربیت بھی فراہم کرتا۔دینی کا تعلیم کے اس ادارے نے امت مسلمہ کا عروج اور زوال دیکھا،مسلمانوں کی آزادی اور دورغلامی دیکھااور عرب و عجم کے چہروں سے بھی آشنائی حاصل کی لیکن کسی نہ کسی طرح اپناوجود برقراررکھااور آج تک یہ ادارہ کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے اور اپنا جواز بھی پیش کررہاہے۔ سیکولرتعلیمی اداروں کاموجد’’لارڈ میکالے ‘‘تھا جس نے یہ تعلیمی ادارے اس لیے بنائے کہ آزادقوم کے نوجوانوں کو ’’آداب غلامی‘‘سکھلائے جا سکیں۔گورے سامراج نے بڑی چابکدستی سے رزق کے دروازے صرف ان لوگوں کے لیے کھول دیے جو انہیں کے قائم کردہ سیکولرتعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل تھے۔یورپی استعمارنے ان سیکولراداروں سے وہ سرنگوں قیادت پیداکی جس نے محض انگریزی زبان کے تفوق سے بدیسی حکمرانوں سے قربت جمائی اوران کے احکامات کواس سرزمین پر جاری و ساری کیا۔یہ ادارے آج تک اسی تہذیب وثقافت کے علمبردار ہیں اور آزادی کی فضا بھی ان اداروں کا کچھ بھی بھلا نہیں کرسکی۔ جب تک ان سیکولراداروں کا انتظام و انصرام خود گورے کے ہاتھ میں تھاتوان کا معیاراس لیے بہترتھا کہ گوروں کو مہیاہونے والی افرادی قوت دورآزادی کی پروردہ تھی جبکہ آزادی کے بعدآج اس نظام پر وہ لوگ مسلط ہیں جودورغلامی کے تربیت یافتہ ہیں۔چنانچہ آج کے سیکولرتعلیمی ادارے جس طرح کی پسماندہ سے پسماندہ ترین ذہنیت اور اخلاقیات سے عاری نوجوان فراہم کررہے ہیں اور اس کے نتیجے میں معاشرہ جس تیزی سے تنزل کی طرف گامزن ہے وہ نوشتہ دیوار ہے جو چاہے پڑھ لے۔ دینی مدارس اور سیکولرتعلیمی اداروں میں ایک خاص فرق یہ بھی ہے کہ دینی تعلیمی اداروں نے غلامی کو ذہنی طورپر قبول نہیں کیاتھا۔اگرچہ قومی بہاؤمیں انہیں بھی وقت کے دھارے کے ساتھ بہنا پڑالیکن انہوں نے اس کے باوجود بھی اپنا جداگانہ تشخص برقراررکھا،اس کے مقابلے میں سیکولر تعلیمی ادارے مغربی یورش کے ہر حملے کے آگے لیٹتے چلے گئے چنانچہ وہ ’’گورے‘‘نہ بن سکنے کی شرمندگی میں اپنے اصل حقیقت سے ہمیشہ منہ ہی چھپاتے رہے۔دورغلامی سے آج تک اس طبقے نے انگریزوں کے سے سو طرح کے رنگ ڈھنگ اپنائے لیکن یہ جب بھی گوروں کے سامنے گئے احساس ندامت ہی لے کر پلٹے ۔جبکہ دینی مدارس نے اپنی مقامی تہذیب و ثقافت کو دندان سخت جان سے دبائے رکھااورکتنے ہی معاشی و معاشرتی سخت سے سخت تر وار سہتے رہے لیکن اپنی اصل سے جڑے رہے اوراپنی پہچان سے دستبردار نہ ہوئے۔اس آزادمنش رویے نے انہیں تاریخ کے کچھ ایام میں تنہا بھی کردیااور ان کے ہاں سے کچھ ایسے فیصلے بھی صادرہوئے جسے وقت نے قبول نہ کیالیکن اس نقصان کی سرمایاکاری نے بھی انہیں کسی بھی بڑے خسارے سے محفوظ رکھاکیونکہ آزادی کا ایک خطیرخزانہ ان کے پہلوئے ملبوس میں موجود تھا۔ دینی مدارس اور سیکولرتعلیمی اداروں میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ سیکولردینی ادارے چونکہ غلامی کی پیدارواہیں اس لیے ان کے فارغ التحصیل نوجوان ’’نوکری‘‘کی تلاش میں رہتے ہیں،لڑکپن سے ابتدائے شبا�� تک غلامی کے آداب سے روشناس نسل خود کچھ کرنے کے قابل نہیں رہتی اور اعلی سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی کسی آقا کی تلاش ان کے سر میں سمائی رہتی ہے جس کی نوکری سے ان کا پیٹ وابسطہ ہوناہے۔ایسے نوجوانوں سے سڑکیں اور بازار بھرے پڑے ہیں جن کے پاس لمبی لمبی ڈگریاں ہیں لیکن جب تک آقا میسر نہ آئے ان کی غلامانہ تعلیم بے فائدہ ہے ۔اس کے مقابلے میں دینی مدرسے کاکوئی طالب علم بے روزگار نظر نہیں آئے گا،شاید اس لیے کہ ان کے ذہنوں میں رزق حلال کے لیے تگ و دوکوعبادت قراردیاگیا ہے خواہ وہ کسی بھی درجے کی محنت و مشقت سے وابسطہ ہو۔چنانچہ اس آسمان نے بڑے بڑے جید علمائے کرام کوحصول رزق حلا ل کے لیے طرح طرح کی مزدوریاں کرتے دیکھالیکن کسی کے آگے ہاتھ پھیلاکرنوکری کامنتظررہناان کے تعلیمی منہج کے خلاف تھا۔ آزادی اور غلامی کے فرق کواس طرح بھی سمجھاجاسکتاہے کہ آزادقومیں اپنی نسلوں کو اپنی روایات منتقل کرتی ہیں،اپنی زبان اوراپنی تہذیب و ثقافت سکھاتی ہیں اور اپنا لباس اور اپناپہناوے میں فخرمحسوس کرتی ہیں اور اپنے دیسی و مقامی کھانوں کے ذائقوں سے اپنے بچوں میں اپنائیت کو نفوذکرتی ہیں ۔جبکہ غلامانہ طبقات کا رویہ ان سے کلیۃ مختلف ہوتاہے۔ایک پروان چڑھتی ہوئی نسل جب سب کچھ اپنا سیکھے گی تو وہ سب کو اپنا سمجھے گی اس کے مقابلے میں بدیسی لباس،بدیسی زبان،بدیسی کھانے ور بدیسی طورواطوارسیکھنے والی نسل اپنے ہی معاشرے میں اجنبی ہوجائے گی تب وہ سیکولرتعلیمی اداروں کی پروردہ نسل اپنی اجنبیت کا انتقام لینے کے لیے عورتوں سے پرس چھینے گی ،بزرگوں کامذاق اڑائے گی،زوجیت اور سسرال کے تعلقات ان کے لیے محض حس مزاح کا باعث ہوں گے اوررشتہ داراور مہمان ان کے اخراجات پر بوجھ ثابت ہوں گے اورآنے والی نسل کووہ اپنی آرام دہ اور پرتعیش زندگی کا دشمن سمجھیں گے۔یہ سب غلامی کے ثمرات ہیں جبکہ دینی مدارس کے طلبہ کوان کی مقامی تہذیبی تعلیم و تربیت ان تمام مکروہات سے باز رکھتی ہے۔کتنی حیرانی کی بات ہے سالہاسال اکٹھے پڑھنے والے سیکولرتعلیمی اداروں کے نوجوان نوکری کے حصول کے لیے ’’مقابلے کاامتحان‘‘دیتے ہیں اور اپنے ہی ہم جولیوں سے اور جگری یاروں سے مقابلہ کرتے ہیں،جبکہ دینی مدارس میں ایثاراور قربانی کی تعلیم دی جاتی ہے اوردوسرے کے لیے بھی اپنے پہلو میں جگہ بنانے کو پسند کیاجاتاہے۔ سیکولرتعلیمی اداروں نے تعلیم جیسے شیوہ انبیاء علیھم السلام کوکاروبار کی شکل دے دی ہے ۔سیکولرازم نے استادکو باپ کے درجے سے گرادیاہے اور شاگردکوبیٹے کے مقام سے محروم کردیاہے ۔نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ استاد نے دکاندارکی شکل اختیارکرلی ہے اور شاگردکی حیثیت بازارمیں گاہک کی سی ہو چکی ہے۔اعلی انسانی اقدارکو چندبے حقیقت سکوں کی بھینٹ چڑھانااس سیکولر تعلیمی اداروں کا ماحاصل ہے۔اورخاص طور پر مخلوط تعلیم نے تواستاداورشاگرد کے تعلق کے ساتھ ساتھ ماحول کو جس قدر آلودہ کر دیاہے اس کا تو اندازہ ہی نہیں کیاجاسکتا۔ان اعلی انسانی معاشرتی اقدارکا مشاہدہ کرنا ہو تو دینی تعلیمی ادارے اس کی زندہ مثال پیش کرتے ہیں،جہاں آج بھی استاد کا کردار سگے باپ سے بڑھ کر ہے اور شاگرد وں کے درمیان مسابقت کا جذبہ موجود ہے کہ کون استادسے زیادہ شاباش حاصل کرتا ہے۔ دور دراز دیہاتوں،وادیوں اور جزیروں میں جہاں سیکولر تعلیمی اداروں کی جہالت عنقا ہے وہاں تو تعلیم صرف دینی تعلیم کے نام سے جانی جاتی ہے،کتاب کا عنوان صرف قرآن مجید پر صادق آتاہے اورقیادت صرف اسوۃ حسنہ ﷺکا ہی نام ہے۔چنانچہ وہاں آج بھی انسانیت موجود ہے،تہذیبی و ثقافتی شعائرموجود ہیں اورنسوانیت اپنی اصلی اور فطری شکل میں نظرآتی ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دینی مدارس کے باعث ہی امت مسلمہ نے غلامی کا طوق اتارپھینکاہے اورآزادی کے سفر میں ارتقاء بھی انہیں اداروں کا مرہون منت رہے گا۔غلامی نے جہاں پوری امت کوداغدارکیاہے وہاں باوجود سعی و جستجوکے دینی تعلیمی ادارے بھی کہیں نہ کہیں اس کا شکار ہوئے ہیں۔نصابات اور طرق تدریس میں عصری تقاضوں کی اہمیت سے انکارکی کوئی گنجائش نہیں۔گزشتہ ایک عرصہ سے دینی تعلیمی اداروں نے سیکولرازم کے وار سہے ہیں اور اپنا دفاع کرتے رہے ہیں اور آج تک اپنا وجود وجواز باقی رکھے ہوئے ہیں جبکہ سیکولرتعلیمی ادارے اپنا جواز کھو چکے ہیں اور انہوں نے قوم کو پژمردہ ،مفلوج،ذہنی پسماندہ ،اغیار سے شکست خوردہ اور مایوس کن افرادی قوت فراہم کی ہے ۔سیکولرتعلیمی اداروں کا اخلاقی انحطاط اب ایک جھٹکابھی سہ جانے کے قابل نہیں رہا۔آزادی کے بعد غلامی کی اس باقیات کو بھی جڑ سے اکھیڑپھینکناچاہیے۔قائداعظم ؒ نے اپنی زندگی میں صرف ایک ہی کمشن بنایا تھا،تعلیمی کمشن۔اس کمشن کی سفارشات آج بھی تشنہ تکمیل ہیں۔اﷲکرے کہ وطن عزیزکوبیدارمغزقیادت میسرآئے تاکہ غلامی کے منحوس سائے چھٹ سکیں اور پاکستان پوری امت کواور پوری دنیاکوایک شاندارقیادت فراہم کر سکے،آمین۔ Post Views: 47 Posted in تازہ ترین, مضامینTagged دینی مدارس اور سیکولرتعلیمی ادارے [ad_2] Source link
0 notes
Link
[ad_1] بسم اﷲ الرحمن الرحیمدینی مدارس اور سیکولرتعلیمی ادارے ۔ ڈاکٹر ساجد خاکوانی دینی مدارس کا آغازمحسن انسانیت ﷺ نے فرمایا جبکہ سیکولرتعلیمی ادارے مغربی نوآبادیاتی دورغلامی کی پیداوار ہیں۔معلم انسانیت ﷺنے صفہ کے چبوترے پراصحاب صفہ کی تعلیم و تربیت کا آغازکیا،یہ وہ اصحاب تھے جو اپنے گھربارچھوڑ کر حصول تعلیم کے لیے اس تعلیمی ادارے کے طلبہ بنے اورانتہائی نامساعدحالات میں بھی بھوک اور افلاس سے مقابلہ کرتے ہوئے علوم وحیہ کے حصول میں سرگرم عمل رہے۔اصحاب صفہ پر بعض اوقات ایسے حالات بھی آئے کہ نقاہت کے باعث وہ دیواروں کو تھام تھام کر چلتے لیکن اس کے باوجود ان کے پائے استقامت میں لرزش نہ آئی ۔جب کبھی دوردرازکاکوئی قبیلہ مسلمان ہوتا تو دینی مسائل سے آگاہی کے لیے اصحاب صفہ میں سے کچھ نوجوان وہاں بھیج دیے جاتے جو انہیں جملہ امورمعاشرت ودیگراحکامات شریعہ سے آگاہی فراہم کرتے۔ایک بار تودھوکے سے لے جانے والے اصحاب صفہ کی کثیرتعدادکو شہید بھی کر دیا گیا تھا جس کا کہ محسن انسانیت ﷺکوبے حد قلق ہوا۔’’صفہ‘‘کاسلسلہ خلافت راشدہ میں بھی جاری رہا اور حضرت عمر کے زمانے میں ’’گشتی تعلیمی ادارے‘‘ وجود میں آئے ،چندعلمائے دین اور اونٹنی پر دھراسامان خواندگی پرمشتمل یہ’’ قافلہ تعلیم‘‘ قبیلہ قبیلہ مطلقاََان پڑھ اور جاہل افراد کو تلاش کرتا اورلازمی تعلیم کے طورپر قرآن مجیدکے چند حصے حفظ کراتااورلکھنے پڑھنے کی ضروری تربیت بھی فراہم کرتا۔دینی کا تعلیم کے اس ادارے نے امت مسلمہ کا عروج اور زوال دیکھا،مسلمانوں کی آزادی اور دورغلامی دیکھااور عرب و عجم کے چہروں سے بھی آشنائی حاصل کی لیکن کسی نہ کسی طرح اپناوجود برقراررکھااور آج تک یہ ادارہ کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے اور اپنا جواز بھی پیش کررہاہے۔ سیکولرتعلیمی اداروں کاموجد’’لارڈ میکالے ‘‘تھا جس نے یہ تعلیمی ادارے اس لیے بنائے کہ آزادقوم کے نوجوانوں کو ’’آداب غلامی‘‘سکھلائے جا سکیں۔گورے سامراج نے بڑی چابکدستی سے رزق کے دروازے صرف ان لوگوں کے لیے کھول دیے جو انہیں کے قائم کردہ سیکولرتعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل تھے۔یورپی استعمارنے ان سیکولراداروں سے وہ سرنگوں قیادت پیداکی جس نے محض انگریزی زبان کے تفوق سے بدیسی حکمرانوں سے قربت جمائی اوران کے احکامات کواس سرزمین پر جاری و ساری کیا۔یہ ادارے آج تک اسی تہذیب وثقافت کے علمبردار ہیں اور آزادی کی فضا بھی ان اداروں کا کچھ بھی بھلا نہیں کرسکی۔ جب تک ان سیکولراداروں کا انتظام و انصرام خود گورے کے ہاتھ میں تھاتوان کا معیاراس لیے بہترتھا کہ گوروں کو مہیاہونے والی افرادی قوت دورآزادی کی پروردہ تھی جبکہ آزادی کے بعدآج اس نظام پر وہ لوگ مسلط ہیں جودورغلامی کے تربیت یافتہ ہیں۔چنانچہ آج کے سیکولرتعلیمی ادارے جس طرح کی پسماندہ سے پسماندہ ترین ذہنیت اور اخلاقیات سے عاری نوجوان فراہم کررہے ہیں اور اس کے نتیجے میں معاشرہ جس تیزی سے تنزل کی طرف گامزن ہے وہ نوشتہ دیوار ہے جو چاہے پڑھ لے۔ دینی مدارس اور سیکولرتعلیمی اداروں میں ایک خاص فرق یہ بھی ہے کہ دینی تعلیمی اداروں نے غلامی کو ذہنی طورپر قبول نہیں کیاتھا۔اگرچہ قومی بہاؤمیں انہیں بھی وقت کے دھارے کے ساتھ بہنا پڑالیکن انہوں نے اس کے باوجود بھی اپنا جداگانہ تشخص برقراررکھا،اس کے مقابلے میں سیکولر تعلیمی ادارے مغربی یورش کے ہر حملے کے آگے لیٹتے چلے گئے چنانچہ وہ ’’گورے‘‘نہ بن سکنے کی شرمندگی میں اپنے اصل حقیقت سے ہمیشہ منہ ہی چھپاتے رہے۔دورغلامی سے آج تک اس طبقے نے انگریزوں کے سے سو طرح کے رنگ ڈھنگ اپنائے لیکن یہ جب بھی گوروں کے سامنے گئے احساس ندامت ہی لے کر پلٹے ۔جبکہ دینی مدارس نے اپنی مقامی تہذیب و ثقافت کو دندان سخت جان سے دبائے رکھااورکتنے ہی معاشی و معاشرتی سخت سے سخت تر وار سہتے رہے لیکن اپنی اصل سے جڑے رہے اوراپنی پہچان سے دستبردار نہ ہوئے۔اس آزادمنش رویے نے انہیں تاریخ کے کچھ ایام میں تنہا بھی کردیااور ان کے ہاں سے کچھ ایسے فیصلے بھی صادرہوئے جسے وقت نے قبول نہ کیالیکن اس نقصان کی سرمایاکاری نے بھی انہیں کسی بھی بڑے خسارے سے محفوظ رکھاکیونکہ آزادی کا ایک خطیرخزانہ ان کے پہلوئے ملبوس میں موجود تھا۔ دینی مدارس اور سیکولرتعلیمی اداروں میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ سیکولردینی ادارے چونکہ غلامی کی پیدارواہیں اس لیے ان کے فارغ التحصیل نوجوان ’’نوکری‘‘کی تلاش میں رہتے ہیں،لڑکپن سے ابتدائے شباب تک غلامی کے آداب سے روشناس نسل خود کچھ کرنے کے قابل نہیں رہتی اور اعلی سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی کسی آقا کی تلاش ان کے سر میں سمائی رہتی ہے جس کی نوکری سے ان کا پیٹ وابسطہ ہوناہے۔ایسے نوجوانوں سے سڑکیں اور بازار بھرے پڑے ہیں جن کے پاس لمبی لمبی ڈگریاں ہیں لیکن جب تک آقا میسر نہ آئے ان کی غلامانہ تعلیم بے فائدہ ہے ۔اس کے مقابلے میں دینی مدرسے کاکوئی طالب علم بے روزگار نظر نہیں آئے گا،شاید اس لیے کہ ان کے ذہنوں میں رزق حلال کے لیے تگ و دوکوعبادت قراردیاگیا ہے خواہ وہ کسی بھی درجے کی محنت و مشقت سے وابسطہ ہو۔چنانچہ اس آسمان نے بڑے بڑے جید علمائے کرام کوحصول رزق حلا ل کے لیے طرح طرح کی مزدوریاں کرتے دیکھالیکن کسی کے آگے ہاتھ پھیلاکرنوکری کامنتظررہناان کے تعلیمی منہج کے خلاف تھا۔ آزادی اور غلامی کے فرق کواس طرح بھی سمجھاجاسکتاہے کہ آزادقومیں اپنی نسلوں کو اپنی روایات منتقل کرتی ہیں،اپنی زبان اوراپنی تہذیب و ثقافت سکھاتی ہیں اور اپنا لباس اور اپناپہناوے میں فخرمحسوس کرتی ہیں اور اپنے دیسی و مقامی کھانوں کے ذائقوں سے اپنے بچوں میں اپنائیت کو نفوذکرتی ہیں ۔جبکہ غلامانہ طبقات کا رویہ ان سے کلیۃ مختلف ہوتاہے۔ایک پروان چڑھتی ہوئی نسل جب سب کچھ اپنا سیکھے گی تو وہ سب کو اپنا سمجھے گی اس کے مقابلے میں بدیسی لباس،بدیسی زبان،بدیسی کھانے ور بدیسی طورواطوارسیکھنے والی نسل اپنے ہی معاشرے میں اجنبی ہوجائے گی تب وہ سیکولرتعلیمی اداروں کی پروردہ نسل اپنی اجنبیت کا انتقام لینے کے لیے عورتوں سے پرس چھینے گی ،بزرگوں کامذاق اڑائے گی،زوجیت اور سسرال کے تعلقات ان کے لیے محض حس مزاح کا باعث ہوں گے اوررشتہ داراور مہمان ان کے اخراجات پر بوجھ ثابت ہوں گے اورآنے والی نسل کووہ اپنی آرام دہ اور پرتعیش زندگی کا دشمن سمجھیں گے۔یہ سب غلامی کے ثمرات ہیں جبکہ دینی مدارس کے طلبہ کوان کی مقامی تہذیبی تعلیم و تربیت ان تمام مکروہات سے باز رکھتی ہے۔کتنی حیرانی کی بات ہے سالہاسال اکٹھے پڑھنے والے سیکولرتعلیمی اداروں کے نوجوان نوکری کے حصول کے لیے ’’مقابلے کاامتحان‘‘دیتے ہیں اور اپنے ہی ہم جولیوں سے اور جگری یاروں سے مقابلہ کرتے ہیں،جبکہ دینی مدارس میں ایثاراور قربانی کی تعلیم دی جاتی ہے اوردوسرے کے لیے بھی اپنے پہلو میں جگہ بنانے کو پسند کیاجاتاہے۔ سیکولرتعلیمی اداروں نے تعلیم جیسے شیوہ انبیاء علیھم السلام کوکاروبار کی شکل دے دی ہے ۔سیکولرازم نے استادکو باپ کے درجے سے گرادیاہے اور شاگردکوبیٹے کے مقام سے محروم کردیاہے ۔نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ استاد نے دکاندارکی شکل اختیارکرلی ہے اور شاگردکی حیثیت بازارمیں گاہک کی سی ہو چکی ہے۔اعلی انسانی اقدارکو چندبے حقیقت سکوں کی بھینٹ چڑھانااس سیکولر تعلیمی اداروں کا ماحاصل ہے۔اورخاص طور پر مخلوط تعلیم نے تواستاداورشاگرد کے تعلق کے ساتھ ساتھ ماحول کو جس قدر آلودہ کر دیاہے اس کا تو اندازہ ہی نہیں کیاجاسکتا۔ان اعلی انسانی معاشرتی اقدارکا مشاہدہ کرنا ہو تو دینی تعلیمی ادارے اس کی زندہ مثال پیش کرتے ہیں،جہاں آج بھی استاد کا کردار سگے باپ سے بڑھ کر ہے اور شاگرد وں کے درمیان مسابقت کا جذبہ موجود ہے کہ کون استادسے زیادہ شاباش حاصل کرتا ہے۔ دور دراز دیہاتوں،وادیوں اور جزیروں میں جہاں سیکولر تعلیمی اداروں کی جہالت عنقا ہے وہاں تو تعلیم صرف دینی تعلیم کے نام سے جانی جاتی ہے،کتاب کا عنوان صرف قرآن مجید پر صادق آتاہے اورقیادت صرف اسوۃ حسنہ ﷺکا ہی نام ہے۔چنانچہ وہاں آج بھی انسانیت موجود ہے،تہذیبی و ثقافتی شعائرموجود ہیں اورنسوانیت اپنی اصلی اور فطری شکل میں نظرآتی ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دینی مدارس کے باعث ہی امت مسلمہ نے غلامی کا طوق اتارپھینکاہے اورآزادی کے سفر میں ارتقاء بھی انہیں اداروں کا مرہون منت رہے گا۔غلامی نے جہاں پوری امت کوداغدارکیاہے وہاں باوجود سعی و جستجوکے دینی تعلیمی ادارے بھی کہیں نہ کہیں اس کا شکار ہوئے ہیں۔نصابات اور طرق تدریس میں عصری تقاضوں کی اہمیت سے انکارکی کوئی گنجائش نہیں۔گزشتہ ایک عرصہ سے دینی تعلیمی اداروں نے سیکولرازم کے وار سہے ہیں اور اپنا دفاع کرتے رہے ہیں اور آج تک اپنا وجود وجواز باقی رکھے ہوئے ہیں جبکہ سیکولرتعلیمی ادارے اپنا جواز کھو چکے ہیں اور انہوں نے قوم کو پژمردہ ،مفلوج،ذہنی پسماندہ ،اغیار سے شکست خوردہ اور مایوس کن افرادی قوت فراہم کی ہے ۔سیکولرتعلیمی اداروں کا اخلاقی انحطاط اب ایک جھٹکابھی سہ جانے کے قابل نہیں رہا۔آزادی کے بعد غلامی کی اس باقیات کو بھی جڑ سے اکھیڑپھینکناچاہیے۔قائداعظم ؒ نے اپنی زندگی میں صرف ایک ہی کمشن بنایا تھا،تعلیمی کمشن۔اس کمشن کی سفارشات آج بھی تشنہ تکمیل ہیں۔اﷲکرے کہ وطن عزیزکوبیدارمغزقیادت میسرآئے تاکہ غلامی کے منحوس سائے چھٹ سکیں اور پاکستان پوری امت کواور پوری دنیاکوایک شاندارقیادت فراہم کر سکے،آمین۔ Post Views: 47 Posted in تازہ ترین, مضامینTagged دینی مدارس اور سیکولرتعلیمی ادارے [ad_2] Source link
0 notes
Text
بلوچستان: چارٹر آف لبریشن کی ضرورت و اہمیت
حفیظ حسن آبادی
اس سے پہلے کہ چارٹر آف لبریشن کی ضرورت و اہمیت پر بات کی جائے لازم ہے کہ مختصراً اسکے بنیادی مقاصد پر ایک سرسری نظر دؤڑاکر ایک خلاصہ پیش کریں تاکہ قارئین شعوری طور پر اس بحث کا حصہ بنیں اور ہم کسی کج بحثی سے بچ سکیں کیونکہ ابھی تک ایسے محسوس ہورہا ہے اکثر مبصر سُنی سُنائی باتوں کو لیکر رائے قائم کرنے کی سعی میں لگے ہیں جو کہ ایک جاندار رویہ نہیں ہے اورخاصکر ایسے حالات میں جب بلوچ قوم بے پناہ قربانیاں دے رہی ہےتو بجا طور پر اندھی تقلید اور سیاسی بے راہ روی کی کوئی گنجائش نہیں ہربلوچ کو ہر معاملے میں شعوری طور بحث کا حصہ بنکر اپنےقومی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے اپنا کردار ادا کرنا چایئے۔
چارٹر آف لبریشن کا خلاصہ
:حصہ اول بنیادی حقوق
بلوچ قوم کی سرزمین بلوچستان اُسکے مرضی کیخلاف استعماری سیاست کی نذر ہوکر تقسیم در تقسیم کا شکار ہوئی ہے اور بلوچ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت غلام کیا گیا ہے ۔اگر یہ بات درست اور پوری دنیا مانتی ہے تو بلوچ قوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی قومی یگانگت کے لئے جد و جہد ک��کے خود دنیا کے دیگر بے شمار گم شدہ قوموں کی صف میں شامل ہونے بچانے اپنی آزاد ریاست کے قیام کیلئے دنیا کے مروجہ قوانین کے مطابق جد و جہد کرے۔جوبلوچستان آزاد کی جائیگی وہاں مردو عورتوں کو برابری حاصل ہوگی او ر یہ ’’مساوات معاشرے کے تمام حلقوں میں سماجی، معاشی، تعلیمی، معاشرتی، ثقافتی اور سیاسی شعبوں میں یکساں ہوگی‘‘ ۔ کوئی کسی سے نسلی یا کسی اور بنیاد پر اعلیٰ و ادنیٰ تصور نہیں ہوگا بلکہ ہر کے قدر و منزلت کا تعین اُسکا معاشرے میں مثبت عمل زاتی محنت و مشقت اور اُس سے معاشرے میں موجود مثبت تاثر اور نتیجے سے ہوگا ۔خیالات پر پہرے نہیں لگیں گے کسی بھی بحث کی گنجائش موجود ہے۔مذہبی آزادی کوریاست یقینی بنائے گی۔ مذہب کوریاست سے الگ کیا گیا ہے تاکہ دنیا کے پیش رفتہ اقوام و مما لک کی طرح لوگ زیادہ آزادی سے بلا خوف و خطر اپنے مذہبی عبادات و دیگر رسومات ادا کرسکیں ۔ اور مذہب کے مقدس نام کو کوئی اپنے گروہی و ذاتی مفادات کیلئے استعمال نہ کر سکے جس طرح پاکستان و ایران میں ہوا ہے جو دنیا میں اُنکے تنہائی اور مذہب کے بدنامی کا سبب بنا ہے۔اس ریاست میں بلاامتیاز سب کے زندہ رہنے کے حق کی گارنٹی ریاست کی پہلی ترجیع ہوگی
حصہ دوئم
جد و جہد کے جامع طریقے : یہ چونکہ قومی آزادی کی تحریک ہے اس لئے اسکے تقاضوں کے عین مطابق معاشرے کے تمام طبقوں کی شمولیت کو خیر مقدم کیا جائیگا اسمیں شامل ہونے کوئی نسلی،جنسی ، لسانی ،نظریاتی و مذہبی بندش نہیں ۔ اور دنیا کے مروجہ قوانین و انسانیت دوستی کے تقاضوں کے مطابق اگر کوئی بین القوامی قوت بھی مدد کی پیشکش کرے گا تو اُسے قبول کیا جائیگا تاکہ بلوچ قوم کم از کم نقصان سے اپنی آزاد ریاست بنانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکے۔ یہان دو چیزیں بہت لازم ہیں جو اس پوری تحریک کی بنیاد ہیں پہلہ یہ کہ یہ جد وجہد پوری طرح بین القوامی قوانین کے عین مطابق آگے لے جایا جائیگا دوسرا اس جہد میں شامل کوئی بھی قوت پاکستان یا ایران کے پارلیمانی سیاست کا حصہ نہیں بنے گا اور اسکے اس عمل کوچارٹر آف لبریشن ا ور اس جہد کے روح کے منافی سمجھا جائیگ۔ انسانی حقوق کےادارے طلباء تنظیمیں ٹریڈ یونینز غرض جد و جہد کے وہ تمام حربے استعمال کئے جاسکتے ہیں جو دنیا میں اپنی حفاظت کیلئے اپنائے گئے ہیں ۔
حصہ سوئم
سیاسی نظام کا جواز : اس پوری جد وجہدکا مقصد بلوچ قوم کو اپنے تقدیر کا مالک بنانا ہےجس کے لیئے لازم ہے کہ آزادی کے بعد لوگ اپنی حق رائے دہی میں مکمل آزاد ہوں ۔ملک میں ایسے انتخابات کرائے جائیں جن کی نگرانی اقوام متحدہ و دیگر بین القوامی غیر جانبدار ادارے و میڈیا کریں ۔ایسے شفاف طریقے سے آئے بغیر کسی بھی پارلیمنٹ کو ملک کے اختیارات ہاتھ میں رکھنے کا قانونی حق نہیں ۔لہذا اب پاکستان اور ایران کی زیر نگرانی میں منتخب نمائندوں کے فیصلوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں کیونکہ وہ قابض ریاست کے مفادات کی نگرانی کیلئے چُنے گئے ہیںگویا آزادی، انسانی حقوق، سماجی انصاف، یکساں مواقع کی فراہمی، اور معاشی قابلیت کے اصولوں پر چلنے والا ایک جمہوری سیاسی نظام ہی آزاد بلوچستان میں رائج کیا جائیگا۔
حصہ چہارم
بامعنی جمہوریت اور امن : ایک بامعنی جمہوریت کو یقینی بنانے لازم ہے کہ معاشرے کو ایک جمہوری ماحول فراہم ہو۔ آزاد میڈیا اور صحافت، خود مختار اور آزاد عدلیہ، آزاد اسمبلیاں اور ایسوسی ایشنز، معاشی مواقع میں برابری، موزوں تعلیم اور کثیر الجماعتی سیاست کو یقینی بنا کر ایک بامعنی جمہوری نظام نافذ ہوگی تاکہ معاشرہ، تہذیب، سیاست، قانون، اخلاقیات، زبان، معیشت اور ماحولیات ایک معاندانہ نوآبادیاتی قوّت کے شکنجے سے آزادی کے بعد اطمنان سے ترقی کرسکیں اور جمہوریت کے وہ تمام تقاضے پورے ہوں جنکے لئے قوم آج قربانیاں دے رہی ہے۔اس ضمن میں آزادی حاصل کرنے کے فوراً بعد قابض ریاستوں کے تحویل میں موجو د قیدیوں کی رہائی کو ممکن بنایا جائیگا ،بلوچستان کے تمام گمشدگاں کی بازیابی اور انکے خلاف جرائم میں ملوث عناصر و ریاستوں کو بین القوامی عدالت انصاف کے کٹہرے لانے یو این او کے زیر نگرانی کمیٹی بنائی جائیگی ۔
نئی آزاد ریاست کی تشکیل میں پہلے قدم کے طور پر بلوچستان سے قابض قوتوں کوغیر مشروط پر نکل جانے کا کہا جائیگا بعد میں بین القوامی قوتوں کی ثالثی میں سرحدوں کی حد بندی و حفاظت جیسے دیگر معاملات طے کئے جائیں گے۔نوزائیدہ ریاست میں سیاسی اور قانونی اداروں کے قیام کیلئے بین القوامی مدد کو خوش آمدید کہا جائیگا اور بلوچستان تمام بین القوامی میڈیا،انسانی حقوق کے تنظیموں اور امدادی ایجنسیوں کیلئے کھلا ہوگا اُنھیں کہیں بھی کوئی امر مانع نہیں ہوگا۔ آزادی کی مزاحمتی تحریکوں اور مسلح تصادم کے حوالے سے قابض ریاستوں کے متعلق چوتھے جنیوا کنونشن کی مکمل پابندی کی جائیگی۔
حصہ پنجم
آئینی قانون اور انصاف : عوامی جمہوریہِ بلوچستان ایک جدید سیکولر اور جمہوری آئین تیار کر کے اسے اپنائے گی جہاں اقتدار پر ناجائزقبضے کے تمام رستے مسدود کئے جائیں گے ۔ہرشہری کے آزادی اور انصاف کے فراہمی کو آسان و شفاف کیا جائیگا ہرشخص کو اپنے اوپر لگائے الزام کی صفائی میں دلائل و ثبوت پیش کرنے کا مکمل موقع دیا جائیگا اور وہ شخص اُس وقت تک مجرم نہیں کہلائے گا جب تک عدالت نے ثبوتوں کی بنیاد پر اُس کے خلاف ایسا فیصلہ نہیں دیا ہے ۔
کوئی کسی کی نجی زندگی ومعاملات میں دخل اندازی نہیں کرسکتا کوئی کسی کےجائیداد پر قبضہ نہیں کرسکتاکیونکہ قانون کی نظر میں سب برابر ہوں گے کوئی کسی سے کسی لحاظ سےبھی برتر و بہتر نہیں مانا جائیگا اور قانون سب کو یکساں تحفظ فراہم کرے گی۔سولی پر چڑھا کر سزائے موت، تشدد یا کسی بھی دیگر قسم کے غیر انسانی اقدام کے ذریعے ظالمانہ انداز میں کسی فرد کو زندگی سے محروم کر نےکوانسانیت کی روح، بلوچ اخلاقی ضابطےاوراقدار کےسخت منافی تصور کیا جائیگا۔ہےاور وہ جمہوریہِ بلوچستان میں قطعی طور پر ممنوع ہوں گے۔
حصہ ششم
حق تلفی کے خلاف اور مساو�� مواقع کے حق میں : آزاد اور جمہوری بلوچستان کرپشن کے خلاف ایک مضبوط اور بلا سمجھوتہ نقطہِ نظر رکھے گا اور اس کو ہر سطح پر جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے ہر کوشش کرے گا۔
اس مقصد کے حصول کیلئے کسی قومی یا مقامی حکومت کے سول ملازمین کا تقرر کھلے مقابلہ کے ذریعے میرٹ کے بنیاد پر کیا جائے گا۔ مزید یہ کہ، سول ملازمین کو لازمی طور پر غیر سیاسی اور غیر جانبدار رہنا ہو گا۔ یہ چیز مختلف منتخب حکومتوں کے ساتھ غیر جانبداری کے ساتھ اور منصفانہ ذہن کے ساتھ کام کرنے کیلئے بجا ہے۔
بلوچستان میں تمام نسلی اور مذہبی اقلیّتوں کو اپنے عقائد پر عمل پیرا ہونے اور اپنی زبانوں اور روایات کو برقرار رکھنے اور ان کا تحفظ کرنے کیلئے آبادی کے باقی حصوں کی طرح بالکل ایک ہی پیمانے پر ایک جیسے حقوق حاصل ہوں گے۔ خاندانی تعلقات، اقرباء پروری یا طرف داری کے بجائے انفرادی میرٹ کے اصول پرسختی سےکاربندرہنے کو ممکن بنایا جائیگا۔
سولہ سال کی عمر تک تعلیم لازمی اور مفت ہو گی۔ طلباء کی جسمانی اور ذہنی نشوو نما و انکے عزت نفس کی خیالداری ریاست کی پہلی ترجیحات میں شامل ہوگی
حصہ ہفتم
مابعدِ حصولِ آزادی : عوامی جمہوریہِ بلوچستان ایک سول، کھلی رواداری اور جمہوری معاشرہ ہو گا،جہاں ریاست جمہوری اور نجی آزادیوں کا تحفظ کرے گی بشمول آزادانہ ، کثیر جماعتی انتخابات، احتجاج کرنے کا حق، اظہارِ خیال اور صحافت کی آزادی، جیسا کہ یو این کے انسانی حقوق پر عالمی اعلامیہ اور سول اور سیاسی حقوق پر بین الاقوامی معاہدہ میں ان کا احاطہ کیا گیا ہے۔ایک ایسا سیاسی نظام رائج کیا جائیگا جہاں ایک فرد ایک ووٹ کے اصول پر کئے گئے آزاد اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنایا جائیگا۔
بلوچستان کی قومی اسمبلی (بلوچستان ئے مزنین دیوان) بلوچ قوم کا اعلیٰ ترین جمہوری ادارہ ہو گا جو بلوچستان کے لوگوں کے جمہوری حقوق کو یقینی بنائے گا اور ان کا تحفظ کرے گا۔ یہ کسی قسم کے مطلق العنّان سیاسی نظام کے خلاف قلعے کا کردار ادا کرے گا۔ تمام ریاستی اہلکار اپنے اقدامات کیلئے بلوچستان قومی اسمبلی (بلوچستان ئے مزنین دیوان) کو اوربالآخر بلوچستان کے لوگوں کو جواب دہ ہوں گے۔
بلوچستان کی قومی فوج ، سرمچاروں کےمسلح بلوچ آزادی پسند تنظیموں مختلف گروہوں میں سے تیار کی جائے گی۔ بلوچستان کی قومی فوج منتخب شدہ سول سیاسی اتھارٹی کا ایک ماتحت ریاستی عضو ہو گا – بلوچستان کی قومی فوج کے دائرہِ کار اور منشور کی تعریف قومی اسمبلی، بلوچستان کے آئین اور بین الاقوامی قوانین کے تحت ہوگا ۔ یہ فوج بلوچستان کی ریاست، عدلیہ، سول معاشرے اور میڈیا کی قریبی جانچ پڑتال کے تحت اور ان کو جواب دہ ہوگی۔اس فوج کا اوّلین فریضہ بلوچستان کی علاقائی سرحدوں کا تحفظ ہو گا۔ بلوچستان کی مسلح افواج کے اراکین کیلئے ملازمت میں رہتے ہوئے سیاسی، تجارتی یا کسی قسم کی دیگر ملازمت سے متعلقہ سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی ہو گی۔
جرائم کے رو ک تھام کیلئے بغیر لائسنس کے نجی اسلحہ اور کسی قسم کی نجی فوج رکھنا غیر قانونی ہو گا۔اور قبائلی رنجشوں کو ختم کرنے ریاست خصوصی توجہ دے گی تاکہ لوگ آپس کی دشمنیوں میں الجھ کر معاشرے کی تعمیر وترقی کی رفتار کو متاثر نہ کرسکیں۔
حصہ ھشتم
خود مختار ریاستِ بلوچستان : بلوچ جدوجہد آزادی کااصل مقصد بلوچ وطن کے منق��م علاقوں کو دوبارہ بلوچ وطن میں متحد کرکے ایک کامل بلوچ قومی ریاست کی آزاد حیثیت کو تسلم کرانا ہے۔
بیرونی جارحیت سے تحفظ، داخلی امن و امان کی برقرار ی، انصاف کی فراہمی، فلاحی خدمات کی فراہمی اور بیرونی تعلقات میں توازن ،از سرنو تمام شعبہ ہائ زندگی میں بنیادی ڈھانچوں کی تشکیل ریاست کی زمہ داری ہوگی ۔
بلوچستان کے تمام شہری بلوچستان کے کسی بھی حصّہ میں سفر کرنے، کسی کاروباری سرگرمی یا کام کے قیام کیلئے آزاد ہیں۔
بلوچستان میں موجود تمام قدرتی وسائل بلوچستان کے لوگوں کی ملکیت ہیں۔ ان وسائل کا نظم و نسق اور اختیار ریاستِ بلوچستان کے پاس ہو گا۔ ان کا استعمال بلوچستان میں رہنے والے لوگوں کی فلاح کیلئے ہو گا ۔ کسی دوسرے ملک یا قوم کو اپنے ذاتی فائدہ اور مفاد کیلئے ان وسائل کے استحصال کا حق نہیں ہوگا۔
بلوچستان سے نکالے گئے تمام قدرتی وسائل کی بلوچستان اور تمام دیگر اقوام کے مابین تجارت بین الاقوامی اور مقامی منڈی کی قیمتوں کے تحت ہو گی۔
حکومتِ بلوچستان سوشل سیکیورٹی کا ایک جامع نظام اور ایک فلاحی ریاست کا نظام متعارف کروانے کی ذمہ دار ہے۔جسکے تحت ریاست بچے ،بزرگ شہری ، معذور افراد ،کمزور اور بلانمائندہ گروہوں کےمعاشی ،سیاسی و سماجی تحفظ کا زمہ دارہوگا۔
بلوچستان کی آزاد ریاست اُن سابقہ قابض قوتوں سے معاوضہ کا تقاضا کرے گی جنہوں نے بلوچستان کو لوٹا ہے اور اس کے قدرتی وسائل کو چھینا ہے۔
ریاست بلوچستان ان لوگوں کے اوّلین اہلِ کنبہ کی معاونت کیلئے ایک فنڈ قائم کرے گی جنہوں نے ہماری مادر وطن کی آزادی کی قیمت اپنی جان دے کر ادا کی
حصہ نہم
سماج، معیشت اور ماحول : بلوچ زبانیں بلوچی اور براہوی بلوچستان کی قومی زبانیں ہوں گی۔ انگریزی ثانوی سرکاری زبان اور بین الاقوامی میدان میں رابطہ کاری کا ذریعہ ہو گا۔
بلوچستان ایک مخلوط معیشت کا کردار ادا کرے گا جہاں معیشت کے نجی، سرکاری اور رضاکار شعبہ جات ملک میں مروجہ قوانین کے اندر رہ کر فعال ہو ں گے۔
"ما چکیں بلوچانی" بلوچ جدوجہد آزادی کا ترانہ ہے۔ آزاد بلوچستان کے قومی ترانہ کو بلوچستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی یا بلوچستان کی قومی اسمبلی منتخب اور منظور کرے گی۔
بلوچ جدوجہد آزادی کا جھنڈا جو کہ بڑھتی ہوئی تعداد میں اپنایا جاتا رہا ہے تین حصّوں پر مشتمل ہے۔ مرفاع کے برابر میں ایک ستارے کے ساتھ ایک نیلے رنگ کا تکونا امتیازی نشان خصوصی علامت (یا چارج ) کے طور پر ہے ۔ تکونے امتیازی نشان سے لے کر پھریرے تک ، دو افقی پٹّیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ اوپر والی افقی پٹّی سرخ ہے اور نیچے والی افقی پٹّی سبزآزادی تک یہی جھنڈا ہوگا ۔آزاد بلوچستان کے قومی جھنڈے کا فیصلہ اور منظوری بلوچستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی یا بلوچستان کی قومی اسمبلی کرے گی۔
ہماری آزادی کی بحالی کیلئے اپنی جانیں قربان کرنے والے ہماری آزادی کی جدوجہد کے جانثاروں کی قومی یاد منانے کا منتخب شدہ حتمی تاریخ 13 نومبر کو ہوگی۔ 1839 میں اس دن میر محراب خان اور ان کے کئی سپاہیوں نے سلطنتِ برطانیہ کی حملہ آور فوج کے خلاف بلوچستان کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کی تھیں۔
آزادی حاصل کرنے کےفوراً بعد بلوچستان میں سے تمام جوہری سرگرمیوں کے خاتمے اور جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے فوری اقدام کیا جائے گا۔ بلوچستان میں، جوہری تجربات بلوچ عوام کی خواہشات کے برخلاف اور ان کی اجازت کے بغیر کئے گئے تھے۔ بلوچستان کے عوام اور ان علاقوں کی ماحولیات پران تجربات کے اثرات پر اقوامِ متحدہ سےایک غیر جانبدارانہ تفتیش وتحقیق کی درخواست کی جائے گی۔ وہ علاقےجو کہ تابکاری کے زہر یلے اثرات سے آلودہ ہوئے ہیں ان کو صاف کیا جائے گا اور ماحول کو پہنچنے والے نقصان اور ان علاقوں میں رہنے والے لوگوں پر شعاعوں کے اثرات کا تعین کرنے کیلئے ایک غیر جانبدار سائنسی تحقیق کی جائے گی۔ بلوچ عوام کے خلاف اس جُرم کی ذمہ دار ریاست کو جواب دہ ٹھہرایا جائے گا اور بین الاقوامی نظامِ انصاف کے ذریعے انصاف ومعاوضہ کا تقاضا کیا جائے گا۔
حصّہ دھم
عبوری آئین : اس منشور کے نافذ ہو جانے کے بعد بلوچستان کے عبوری آئین کا مسودہ تیار کرنے کیلئے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔اس آئین میں بلوچ عوام کے وہ حقوق اور ذمہ داریاں شامل ہوں گی جن کا تصوّر اس منشور میں پیش کیا گیا ہے۔عبوری آئین ایک جدید جمہوری ریاست کے ترقی پسند عوامل اور بلوچستان کی انوکھی تاریخ، تہذیب، حالات اور ضروریات کو یکجا کرے گا۔
-----------------------------------------------------------------
یہ تھا چارٹر آف لبریشن کا مختصر خلاصہ جسے پڑھکر صاحب نظر لوگوں کے زہن میں یقیناً چند فطری اور اہم سوال اُٹھتے ہوں گے کہ ان باتوں میں سے کس بات سےاعتراض کرنے والوں کو اعتراض ہے ؟ اس میں شامل کونسا نکتہ ایساہے جو اس جد و جہدکے روکے منافی ہے؟ ۔اس میں کو نسی ایسی بات موجود ہے جو بلوچ نفسیات ،سیاسی ،سماجی و اقتصادی تقاضوں سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔کیا یہ وہی مطالبات و خواہشات نہیں ہیں جو قوم نے بارہا دہرائے ہیں جنہیں اس چارٹر کمیٹی نے صرف یکجا ہ و ترتیب دینے کی کوشش کی ہے ؟ ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جن جماعتوں یا لیڈروں کی طرف سے شعوری یا لاشعوری طور پر اس دستاویز کے خلاف ایک مہم چلائی جارہی ہے وہ بھی اس کے کسی ایک نکتہ سے بھی عدم اتفاق کا اظہار نہیں کرسکتے ۔ اور ہم یہ بات وثوق کے کیساتھ کہتے ہیں وہ جہاں بھی جائیں گے نئے بلوچستان بارے ان نکات سے ہٹ کر کچھ بھی نہیں کہہ سکیں گے۔
تاہم اس دؤراں کچھ باتیں اس تواتر سے دہرائی گئیں کہ ہمیں اس سے پہلے بہت کچھ لکھنے کے باوجود پھر سے لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ بات کیا جاتا ہے کہ اس چارٹر نے قوم میں انتشار پیدا کیا ہے ؟ ہمیں یقین ہے کہ ایسا کہنے والوں کی اکثریت نے دوسروں کے سنے سُنائی باتوں کے زیر اثر ایسا تاثر قائم کیا ہے اگر وہ خوداِسے پڑھتے یقیناً ایسی بےمنطقی بات نہیں کرتے ۔مذکورہ دستاویز میں بلوچ قوم کی غلامی، اس سے نجات کی راہیں اور اسکے بعد اسکے تعمیر کے خدوخال ہیں۔ ایک دستاویز جسکی روح یہی ہے کہ بکھرے بلوچستان کو مشترکہ قوت سے یکجاہ کیا جائے اس سے انتشار کیسے پھیلایاجاسکتا ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ اگر انتشار پہلے سے ہمارے زہنوں میں موجود ہو تو وہ کسی نہ کسی بہانے خود کا اظہار کربیٹھتی ہے۔ یہ ایک ایسا دستاویز ہے جو دنیا کے کسی بھی کونے میں کسی بھی فورم میں بلا امتیاز کہ آپ کس پارٹی یا تنظیم سے ہیں بلوچ وطن کے تعمیر میں تمہاری وکالت کرتا ہے وہ کیسے تمہیں انتشار کی طرف لے جائیگا ؟
کچھ دوست کہتے ہیں اس کی ترتیب سے پہلے سب کو بلا کر سب سے مشورہ لینا چائیے تھا بعد میں اس کو بنانا تھا ۔بظاہر یہ ایک معصومانہ خواہش معلوم ہوتا ہے لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ پاکستانی کمیٹی در کمیٹی اور معاملات سردخانوں میں ڈالنے کی ہماری کمزوری ہماری روحوں کے اندر بھی جاگزیں ہوچکی ہے ۔اور جو چیز ہمیں نہیں کرنا ہوتا ہے اسکے لئے ایسی راہیں بتاتے ہیں جن سے ہمیں سو فیصد یقین ہوتا ہے کہ اس ڈگر پر چل کر ضرور الجھا جائیگااور بات ہماری بد نیتی کے بجائے مدمقابل کے نااہلی پر ٹکے گی اور دنیا ہمارے رویے کے بجائے پیش کرنے والے کی نالائقی پر نالاں ہوگا۔
کیا یہ دوست نہیں جانتے کہ بلوچستان میں نواب اکبر خان بگٹی جیسا زیرک مدبر اور مدلل لیڈر شاہد صدیوں میں پیدا ہو جب آپ نے بھی کوئی بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے اِسی مذکورہ بالا فارمولے کے تحت سب کو بلایا قومی ضرورتوں اور وقت کے تقاضوں سے آگاہ کرتے ہوئے سنگل پارٹی بنانے کا تجویز رکھا اور اسکے لئے سب سے پہلے اپنی جماعت کےتحلیل و ضم ہونے کا پیش کش کیا لیکن جواب میں کسی نے کہاکہ لیڈر کون ہوگا؟ تو کسی نے کہا اسکی کوئی ضرورت نہیں آپ جو فیصلہ کریں گے ہم آپکے ساتھ ہیں اگر آپ پر ایک گولی چلے گی تو ہم دس گولیاں چلائیں گےلیکن یہی لوگ جب باہر نکلے توسب نے کہا نواب بگٹی پھنس گیا ہے اس لئے ہمارا سہارا لیکر اسلام آباد کو بلیک میل کرنا چاہتا ہے ۔بعد میں اپنے تماشائی بننے والی کردار اور غائبانہ نماز جنازہ کا ڈرامہ بازیوں سےاپنی بد نیتی ،منافقت و سیاسی مفت خوری کی خواہش ثابت کرگئے۔ سنگل پارٹی بنانے سے بہانہ بناکر بھاگنے والے شروع ہی سے ساتھ نہیں تھے بلکہ اُنکا مقصد صرف اور صرف نواب بگٹی و دیگر کی قربانیوں کو کیش کرنا تھا اس سے زیادہ کچھ نہیں۔یا دوسرے لفظوں میں اُنھوں نے اس بلوچی دیوان میں صرف اس لئے شرکت کی کہ لڑے بھی بگٹی ہارے بھی بگٹی لیکن اگر جیتے تو ہم کسی نہ کسی طرح شریک رہیں ۔
ایک بہت ہی حاجزانہ سوال ہے اگر نواب صاحب انکے جھوٹے وعدوں اور بعد میں دیکھیں گے جیسے باتوں کیلئے رُکتے تو آج بلوچ قومی تحریک آزادی اتنی منزل طے کرچکی ہوتی ؟یقیناً نہیں! ویسے بھی پوری دنیا میں ایسے کاموں کا طریقہ کار یہی ہوتاہے کہ جس کا آئیڈیا ہوتا ہے وہ اُسے ترتیب دے کر پیش کرتا ہے جس پر بعد میں بحث مباحثہ ہوتا ہے اُسمیں کمی بیشی کی جاتی ہے ۔ہاں اگر ایسا دستاویز تیار ہوتا اور کسی کو اسمیں اضافہ یا کٹوتی کا اجازت نہیں ہوتا تب اُنھیں یہ سب کچھ کہنے کا حق تھا جو اب کہہ رہے ہیں۔کچھ لوگ تو اس حد تک زیادتی کرکے کہتے ہیں کہ منشور اُسکے بنانے والوں نےمقدس کتاب بنایا ہے ۔بات بالکل ایسی نہیں بات صرف اتنی ہے کہ جو چارٹر اس کمیٹی نے بنائی ہے اگر آپ اس سے متفق ہیں تو چلو اِسی کو روڈ میپ مان کر اسی کی روسے جدوجہد کو آگے بڑھائیں گے اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ بلوچستان کو اس منشور سے ہٹ کر کسی دوسرے شکل میں دیکھنا اور چلانا چاہتے ہیں وہ ��وڈ میپ ہمیں دے دیں ہم آپ کے روڈ میپ کو بھی دیکھیں گے ویسے بھی اسمیں دو نکات کے علاوہ باقی سب کچھ تبدیل کیا جاسکتا ہے اگرچارٹر بنانے والے اس دستاویز کو مقدس کتا ب کہتے یا سمجھتے تو وہ کسی کو اسمیں ردوبدل کی اجازت نہیں دیتے ۔
کچھ دوست کہتے ہیں بس یہ دستاویز متنازعہ ہوگیا اسکو چھوڑیں ، ہے نا جہالت کا شاھکار جملہ جب کوئی چیز قوم کے سامنے پہلی بار یکم مارچ کو پیش ہ��ا وہ ایک دوسال پہلے کیسے متنازعہ ہوا ؟ اُنکا ایسا کہنا خود اُنکے اپنے سابقہ دلیل کی منافی کرتا ہے کہ اِسے قوم سے منظور کرانے کی ضرورت تھی لو یہ دستاویز آپکی فرمائش پر قوم کے سامنے پیش خدمت ہے قوم باشعور ہے وہ خود اِسے پڑھے ،اپنی رائے قائم کرے اور ہم سب کی راہنمائی بھی کرے ۔اس منشور کا بلوچ قوم کے سامنے پیش کرنا اور انھیں مکمل بحث کا حصہ بنانے کی کوشش ایک ایسی نیک خواہش ہے کہ کوئی بھی لیڈر قوم کے پیچھے چھپ کر اپنی انا کی تسکین یا سماج میں جوابدہی سے بچنے اپنے کسی غیر سیاسی عمل کو عوامی و قومی نہ کہہ سکے۔اس سے پہلے اس پر اعتراض کرنے والوں کے سیاسی رویے کااحاطہ کریں پہلے یہ بات ضرور کہیں گےکہ چارٹر کےمخالفین کو ریشہ دوانیوں کا موقع چارٹر کمیٹی کے دو غیرضروری و غلط اقدامات نے دئیے۔ ان دو غلطیوں سے چارٹر مخالفین نے جہاں تک ممکن ہوا فاہدہ اُٹھایا اور ایک جاندار و سیاسی بحث کے بجائے کج بحثی میں ایک بیزاری کی کیفیت پیدا کی جو کسی حد تک مجموعی مایوسی کا سبب بھی بنا ۔ چارٹر کمیٹی کی پہلی غلطی یہ تھی کہ اُنھوں نے اِسے مختلف لوگوں کو پیش کیا جبکہ چارٹر کو کسی کو پیش کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں تھی خاصکر خان قلات اور اختر مینگل کو تو قطعناً پیش نہیں کرنا چائیے تھا ۔ خان قلات کو اس لئے نہیں کہ آپ ایک فرد ہیں اوراس کے لئے یہ دلیل دی جائے کہ وہ آزادی کی بات کرتا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ بہت سے دیگر لوگ بھی ہیں جو آزادی کی بات کرتے ہیں جب آپ اُنکو یہ دستاویزپیش نہیں کرتے تو یہاں یہ رعایت کیوں ؟ ۔اختر مینگل کو اس لئے پیش نہیں کرنا چائیے تھا کیونکہ اُنھیں و چارٹر پیش کرنا ایک مصنوعی دباؤ کا نتیجہ تھا چارٹر گروپ کو دباؤ میں آئے بغیر اس جماعت بارے اپنے رویے کو ٹھیک ایسے رکھنا تھا جیسے دیگر تمام پاکستانی پارلیمانی سیاست کرنے والے جماعتوں کے بارے میں رکھتا ہے یہ پریشر گروپ پہلے اختر سے اتحاد کیلئے دباؤ بڑھا رہا تھا اب دیکھا کہ اختر کی براہ راست حمایت نا ممکن ہے تو یہ جاوید مینگل اور مہران مری کیساتھ اتحاد پر زور دے کر تمام صفوں میں بدنظمی پھیلانے مصروف ہے۔ اس پریشر گروپ کا مقصد اور کچھ نہیں صرف یہی ہے کہ اصل آزادی پسند لوگوں کے درمیان اُنکا کوئی ضرور موجود ہو تاکہ بہ وقت ضرورت حسب سابق تحریک کو اسلام آباد کی جھولی میں ڈالا جاسکے ۔ چارٹر کو انھیں پیش کرنے کے بجائے براہ راست شائع کرکے عوام کے سامنے ایسے پیش کرنا تھا جیسے اب کیا جاچکا اور اُس وقت بھی یہی دعوت دی جاتی کہ آپ جو بھی تجویز دیں گے اُنھیں چارٹر کمیٹی دیکھے گی بلکہ یہ کہ وہ آن دی ریکارڈ اپنے تجاویز میڈیا کے زریعے بھی شائع کرواسکتے ہیں۔ دوسری غلطی پہلے والے سے کئی زیادہ سنگین تھی کہ اِسے لیڈروں کو پیش کرنے کے بعد عوام کے سامنے لانے میں تاخیر ہوئی۔ جس سے جن بد نیت لوگوں کو آپ کے ساتھ آنا نہیں تھا اُنھوں نے عوام کے پیچھے چھپتے ہوئے اسکے خلاف تاویلیں تلاش کی کہ پوری قوم کا معاملہ ہے لہذا قوم کے سامنے پیش کرنے سے پہلے ہم کیسے اسکے بارے میں رائے دے سکتے ہیں جبکہ اُنکے قوم دوستی کا یہ عالم تھا کہ اُنھوں نےعام آدمی تو در کنار اُنکے سینئر تریں و تجربہ کار تریں مرکزی ممبران تک کو نہیں دکھایا گیا تھا۔ ڈیڑھ برس پہلے اُس وقت میری عیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نےچند بی آر پی اور بی این پی مینگل کے سینئر دوستوں سے چارٹر بارے فیڈ بیک کا کہا تو جواب میں سب نے یہی کہا کہ اُنھیں ابھی تک چارٹر پارٹی کی طرف سے نہیں ملاہے گو کہ اُس وقت ان جماعتوں کی قیادت کو یہ چارٹر ایک سال پہلے پیش کیا جاچکاتھا۔ اگر یہ دستاویز صرف اُن لیڈروں تک محدود رہی ہے اور اُنھوں نے اپنے سینئر ممبراں تک کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے تو ایسے لوگ کس بنیاد پر پوری قوم کی نمائندگی کا دعویٰ کرکے کسی دستاویز کے متنازعہ یا غیر متنازعہ ہونے کا کہہ سکتے ہیں۔
اگر ان سینئر دوستوں کو وقت پر چارٹر دیا جاتا اور اس پر تمام تر تعصبات سے پاک واقعی سیاسی بحث مباحثہ ہوتا اور اُس بحث مباحثہ کے نتیجے میں ایک رائے قائم کی جاتی تو یقیناً آج ایسے قدم اُٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی جس سے کسی جمہوری پارٹی میں ڈکٹیٹر شپ قائم ہونے کے تاثر سے پارٹی کی ساق کو ہمیشہ کیلئے نقصان پہنچتا ۔
اِسے ہماری اجتماعی بد نصیبی کہیئے کہ ہمارے اکثر دوست ابھی تک قبائلیت کے سوچ کی گرفت سے آزاد نہیں ہو سکے ہیں بات جمہوری سیاست کی کرتے ہیں لیکن مزاج و اقدامات شہنشاؤں جیسے ہیں ۔ بات گروہی سیاست سے نکلنے کی کرتے ہیں لیکن خود گروپوں سے نکل نہیں پاتے دوسروں کو سیاسی رویہ اپنا کر ہر بات اداروں کے تابع کرکے فیصلوں میں توازن لانے کی کہتے ہیں لیکن اپنے تمام فیصلے ذاتی ہوتے ہیں نہ کسی کو خاطر میں لاتے ہیں نہ کسی سے تبادلہ خیال کرتے ہیں، سب کو رائے دینے اور تعمیری تنقید کا کہتے ہیں لیکن ہر بات اور تنقید اُس وقت ناقابل برداشت ہوتی ہے جب بات اُنکے کوتائیوں کی طرف مڑ جائے ،بات اتحاد و اتفاق کی کرتے ہیں لیکن عملی طور پر ہر اُس عمل کی طرفداری کرتے ہیں جس سے راستے کبھی ملنے نہ پائیں ۔
حرف آخر: بلوچ قوم نے بڑی مشکلوں سے یہ توجہ حاصل کیا ہے اس وقت اس کارواں کو اس پڑاؤ سے آگے لیجانا ہے لیکن تحریک کے’’ اجزائے ترکیبی‘‘ اُسکی موجودہ ضرورتوں کو پورا کرنے سے قاصر ہیں یہی وجہ ہے کہ کچھ غیر اہم ،غیر ضروری و مکمل طور پر سیاسی طالع آزما ؤں کی خاطر اصل قوتیں آپس میں گتھم گھتا ہیں اور ایک دوسرے پر سنگ باری کی جارہی ہے جسے کچھ لوگ صفائی کا عمل کہتے ہیں اور وہ ایک حد تک بجا بھی ہیں لیکن یہ صفائی کا عمل اگر حد سے زیادہ لمبا ہوگیا تو صفائی کے ساتھ چمڑی بھی اُترجائیگا ۔اسمیں طالع آزماؤں کا کچھ نہیں بگڑے گا اگر نقصان ہوگا تو سب سے پہلے قوم کا اس قومی تحریک کیساتھ ہوگا۔ آج بلوچ قومی تحریک کو حقیقی طور پر اداروں کی ضرورت ہے جو اُسکے ہر شعبے کو جدید سائنسی تقاضوں کے مطابق پیشہ ورانہ طور پر چلائیں اب اسکا پھیلاؤ بہت وسیع ہو چکا اِسے اس طرح’’ شوقیہ فنکاروں ‘‘سے چلایا نہیں جاسکتا پالیسی ساز اداروں اور موثر پروپگنڈہ مشنری کی ضرورت ہے۔چارٹر آف لبریشن تاحال واحد ایسا دستاویز ہے جس کو بنیاد بناکر تمام اصل آزادی پسند قوتیں اپنی اپنی صف بندیاں کرکےایک دوسرے کیساتھ مشترکہ جد وجہد کی راہیں تلاش کرسکتی ہیں ۔ اس دستاویز کو کسی ایک فرد سے منسوب کرکے ’’بغض معاویہ ‘‘ کا رویہ اختیار کرنے کے بجائے وسیع النظری سے اسکا مطالعہ کرکے اِسے مکمل کیا جائے اگر کہیں کسی کو کوئی کمزوری یاخامی نظر آتی ہے ۔
بحث سمیٹتے ہوئے ایک بہت ہی تلخ حقیقت دوستوں کو بتاتا چلوں کہ دنیا آج بھی بلوچ کیساتھ ہمدردی ضرور رکھتا ہے لیکن اُسکےآزاد ریاست بنانے کے خواہشوں کی تکمیل کیلئے ابھی تک تذبذب کا شکار ہے ۔بلوچ کو اُسے قائل کرنے واقعی ایک چارٹر کی ضرورت ہے تاکہ اُسے فیصلہ کرنے میں آسانی ہو کہ ہم جس بلوچستان کے بنانے کی حمایت کریں گے اُسکے چلانے والے کون لوگ ہوں گے اور انکے سیاسی ،معاشی و سماجی خیالات کیسے ہیں اور وہ خود اپنے تصورات سے کس حد تک مخلص ہیں اگر ہماری حالت یہی رہی کہ ایک جگہ پانچ آدمی ہوکر چھ جماعتوں میں تقسیم ہوں تو دنیا کی کوئی طاقت ہماری بد اعمالیوں کی سزا سے ہمیں نہیں بچا سکتا۔ (ختم شُد)
0 notes
Text
بہ تسلیمات نظامت اعلیٰ تعلقات عامہ پنجاب
لاہور، فون نمبر:99201390
ڈاکٹر محمد عمران اسلم/پی آر او ٹو سی ایم
ہینڈ آؤٹ نمبر 1285
پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سکالر شپ پروگرام،وزیراعلیٰ مریم نوازشریف آج دوسرے فیزکا آغاز کریں گی
چیف منسٹر ہونہار سکالر شپ پروگرام کے تحت 30ہزار طلبہ کی تعلیمی اخراجات وظائف کی صورت ادا کیے جائیں گے
پنجاب 65یونیورسٹیوں،12میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج،359کالج کے طلبہ چیف منسٹر ہونہار سکالر شپ حاصل کررہے ہیں
68مضامین /ڈسپلن کے طلبہ ہونہار سکالر شپ کے تحت وظائف کی صورت میں تعلیمی اخراجات پورے کرسکیں گے
ہونہار سکالر شپ کے تحت کامیاب طلبہ کے سو فیصد تعلیمی اخراجات کی ادائیگی حکومت پنجاب کی ذمہ داری ہے
ہونہار سکالر شپ کے تحت سالانہ 30ہزار اورچار سال میں 1لاکھ20ہزار طلبہ کو وظائف ملیں گے
پنجاب کا ڈومیسائل رکھنے والے 22سال سے کم عمر طلبہ ہونہار سکالر شپ کے اہل ہوں گے،والدین کی ماہانہ آمدن3لاکھ سے کم ہونی چاہیے
لاہور22دسمبر:……وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے سکالر شپ پروگرام کے دوسرے فیز میں چیک تقسیم کریں گی۔وزیراعلیٰ مریم نوازشریف اسلام آباد کے معروف تعلیمی ادارے فاسٹ نیشنل یونیورسٹی آف کمپیوٹر اینڈ انجینئرنگ سائنس اسلام آباد میں ہونہار سکالر شپ کی تقریب میں شرکت کریں گی۔چیف منسٹر ہونہار سکالر شپ پروگرام کے تحت 30ہزار طلبہ کی تعلیمی اخراجات وظائف کی صورت ادا کیے جائیں گے۔پنجاب 65یونیورسٹیوں،12میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج،359کالج کے طلبہ چیف منسٹر ہونہار سکالر شپ حاصل کررہے ہیں۔68مضامین /ڈسپلن کے طلبہ ہونہار سکالر شپ کے تحت وظائف کی صورت میں تعلیمی اخراجات پورے کرسکیں گے۔تاریخ میں پہلی بار نوجوانوں کے لیے 4 ارب کی خطیر رقم سے ہونہار سکالرشپ سکیم کا آغازکیا۔ہونہار سکالرشپ پروگرام کے تحت سالانہ 30,000 سکالرشپ دی جائیں گی، 4 سال میں جس کی تعداد 120,000 ہوگی۔اس سکالرشپ کے ذریعے ہونہار طلبہ مالی حالات کی فکر کے بغیر اعلیٰ تعلیم بہترین اداروں سے حاصل کرسکتے ہیں۔ہونہار سکالرشپ پروگرام کے تحت طلبہ کے 100 فیصد تعلیمی اخراجات حکومت پنجاب کی ذمہ داری ہوں گے۔اس پروگرام کے تحت 68 مختلف شعبہ جات میں طلبہ کے لئے سکالرشپ رکھی گئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ 22 سال سے کم عمر طلبہ جن کے پاس پنجاب کا ڈومیسائل ہے اور ان کے گھر کی ماہانہ انکم 3 لاکھ سے کم ہے وہ اس پروگرام کے لئے اہل ہیں۔ہونہار سکالرشپ پروگرام میں شفافیت کے معیار کو یقینی بنانے کے لیے تمام درخواستیں آن لائن پورٹل پر موصول اور پراسیس کی گئیں۔ہر تعلیمی ادارے کی کمیٹی کے علاوہ صوبائی سطح پر بھی کمیٹی کے ذریعے سکروٹنی کے عمل کو مکمل کیا گیا۔سینئر منسٹر کی زیر صدارت اسٹیرنگ کمیٹی نے پورے عمل کی نگرانی کی۔ہونہار سکالرشپ پروگرام کی پہلی تقریب یونیورسٹی آف پنجاب میں منعقد ہوئی جس میں 2473 طلبہ کو سکالرشپ تقسیم کی گئیں۔ہونہار سکالرشپ پروگرام کے تحت یو ای ٹی لاہور کے 1886 طلبہ کو بھی سکالرشپ دی جاچکی ہے۔فاسٹ یونیورسٹی اسلام آباد میں منعقدہ تقریب میں راولپنڈی ڈویژن کے کل 2570 طلبہ میں سکالرشپ تقسیم کی جائیں گی۔1660 سکالرشپ پبلک سیکٹر یونیورسٹیز کے طلبہ جبکہ 637 سکالرشپس فیڈرل اور پرائیوٹ سیکٹر یونیورسٹیز کے طلبہ میں تقسیم کی جائیں گی۔
0 notes
Text
پاکستان کے تعلیمی نظام کا المیہ ۔ سرکاری اسکولوں کی بدحالی ۔ پرائیوٹ اسکولوں کی مہنگائی
پاکستان میں تعلیم ایک بنیادی حق ہونے کے باوجود، سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں موجود مختلف مسائل اس کے فروغ کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ سرکاری اسکولوں کی حالت بہت ہی تشویش ناک ہے، جبکہ پرائیویٹ اسکولوں میں مہنگائی کی شرح نے متوسط طبقے کو تعلیم سے محروم کر دیا ہے۔ دونوں کی موجودہ صورتحال اور ان کے اثرات پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے تاکہ ہم پاکستان کے تعلیمی نظام کی اصلاح کی طرف قدم بڑھا سکیں۔
سرکاری اسکولوں کا بدحال نظام ۔

پاکستان میں سرکاری اسکولوں کا نظام اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے اور ان کی حالت دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے۔ ان اسکولوں میں تعلیمی سہولتوں کی کمی، ناقص انفراسٹرکچر، اور اساتذہ کی غیر حاضری ایک معمول بن چکا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ "گھوسٹ اساتذہ" کا ہے، جنہیں تنخواہ تو پوری ملتی ہے مگر وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں کوتاہی برتتے ہیں۔ ایسے اساتذہ کے ہوتے ہوئے، بچوں کو معیاری تعلیم دینے کا تصور بھی ممکن نہیں رہتا۔ ان اساتذہ کی غیر حاضری اور لاپرواہی کے سبب تعلیمی معیار نہ صرف متاثر ہوتا ہے بلکہ بچوں کی تعلیم کا پورا نظام ہی داؤ پر لگ جاتا ہے۔
سرکاری اسکولوں میں انفراسٹرکچر کا فقدان بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کلاس رومز کی حالت انتہائی خراب ہے، فرنیچر ٹوٹا پھوٹا ہے، اور تدریسی مواد کی کمی کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ، اسکولوں میں بنیادی سہولتیں جیسے پانی، ٹوائلٹس، اور صحت کی سہولتیں بھی اکثر غائب ہوتی ہیں۔ ایسے ماحول میں بچوں کا تعلیم حاصل کرنا اور کامیاب ہونا ایک چیلنج بن جاتا ہے۔
پرائیویٹ اسکولوں کی مہنگائی ۔

دوسری طرف، پاکستان کے پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم کا معیار تو بہتر ہو سکتا ہے، لیکن ان اسکولوں کی فیسیں اتنی زیادہ ہیں کہ وہ متوسط طبقے کے لئے قابل برداشت نہیں رہیں۔ ماہانہ فیسوں کی قیمتیں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ ایک خاندان کے لئے ��پنے بچوں کو اچھے اسکول میں پڑھانا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ، کتابوں کی قیمتیں بھی بے تحاشہ بڑھ گئی ہیں۔ والدین کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ مخصوص دکانوں سے ہی کتابیں اور یونیفارم خریدیں، جس سے ان پر مزید مالی بوجھ پڑتا ہے۔
پرائیویٹ اسکولوں کا ایک اور مسئلہ ان اسکولوں میں ہونے والے مختلف فنکشنز اور تقریبات ہیں۔ ہر ماہ کسی نہ کسی دن کو "چلڈرن ڈے"، "مدرز ڈے"، "فادرز ڈے" یا کسی اور تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے، اور ان تقریبات کے لیے والدین سے ہزاروں روپے کی رقم وصول کی جاتی ہے۔ ان فنکشنز کا مقصد بچوں کی تفریح ہے، مگر اس کے بدلے والدین پر مزید مالی بوجھ ڈالا جاتا ہے، جو کہ پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہیں۔
سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں کی
اصلاح کی ضرورت ۔
پاکستان کے تعلیمی نظام کی اصلاح کے لئے دونوں سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے سخت نگرانی اور چیک اینڈ بیلنس کا نظام ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ، اسکولوں میں بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے حکومت کو زیادہ فنڈز مختص کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بچے بہتر ماحول میں تعلیم حاصل کر سکیں۔
دوسری جانب، پرائیویٹ اسکولوں کی فیسوں میں کمی لانے کے لیے حکومت کو مناسب پالیسیز وضع کرنی چاہئیں تاکہ وہ صرف مالی منفعت کی بجائے تعلیمی معیار پر بھی توجہ دیں۔ اسکولوں کی فیسیں اس حد تک بڑھائی جائیں کہ وہ متوسط طبقے کے لوگوں کے لئے قابل برداشت ہوں اور بچوں کو معیاری تعلیم مل سکے۔ اسکولوں ��ی جانب سے غیر ضروری تقریبات اور فنکشنز پر خرچ کی جانے والی رقم کو کم کرنا بھی ضروری ہے۔
نتیجہ
پاکستان میں تعلیمی نظام کا بحران دونوں سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں کی ناکامی کی وجہ سے ہے۔ جہاں ایک طرف سرکاری اسکولوں کی حالت زار ہے، وہاں دوسری طرف پرائیویٹ اسکولوں کی مہنگائی نے بچوں کی تعلیم کو صرف امیروں تک محدود کر دیا ہے۔ ان مسائل کا حل صرف اس وقت ممکن ہے جب حکومت اور نجی ادارے مل کر تعلیمی اصلاحات کی طرف قدم بڑھائیں۔ اگر ہم نے اپنے تعلیمی نظام کو بہتر نہ کیا تو پاکستان کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔
تحریر : فاطمہ نسیم
تاریخ : 16 دسمبر 2024
0 notes
Text
تعلیمی اداروں میں کل چھٹی کااعلان
سانحہ اے پی ایس ،شہدا کی یاد میں اسلام آباد لاہور اورراولپنڈی تمام سرکاری ونجی تعلیمی ادارے کل بند رہیں گے۔ حکومت پنجاب نے سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کےشہید بچوں سے اظہار یک جہتی کیلئے16 دسمبر کو اسلام آباد اور لاہور میں تمام سرکاری اور نجی اسکول اور کالجز بند رکھنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آبادعرفان نواز میمن نےنوٹیفیکشن جاری کردیاہے جس کے مطابق اسلام آباد میں16 دسمبرکوتمام…
0 notes
Text
منگل کے روز تعلیمی ادارے بند رہیں گے اعلان ہوگیا
(24نیوز) جڑواں شہروں کے نامساعد حالات کے پیش نظر راولپنڈی اور اسلام آباد میں تمام تعلیمی ادارے منگل (26 نومبر )کو بھی بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی حسن وقار چیمہ نے کہا ہے کہ امن و امان کی صورت حال کے پیش نظر کل تمام سرکاری اور نجی اسکول بند رہیں گے جبکہ آل پاکستان پرائیویٹ سکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن نے بھی منگل کو چھٹی کا اعلان کردیا ہے، جلد ہی نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا…
0 notes
Text
تحریک انصاف لاہور میں کہاں احتجاج کریگی؟جگہ کا اعلان ہو گیا
(عثمان خادم کمبوہ)پاکستان تحریک انصاف نے کل کے احتجاج کیلئے مقام کا اعلان کردیا۔ امتیاز شیخ نے کہاہے کہ پی ٹی آئی کل لبرٹی گول چکر پر احتجاج کرے گی،حماد اظہر کی ہدایت پر 2 بجے احتجاج کیا جائے گا۔ یہ بھی پڑھیں:پنجاب بھر کے تعلیمی ادارے کل بند رہیں گے Source link
0 notes
Text
Regional Urdu Text Bulletin, Chatrapati Sambhajinagar
Date: 21 August-2024
Time: 09:00-09:10 am
آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر
علاقائی خبریں
تاریخ: ۲۱؍ اگست ۲۰۲۴ء
وقت: ۱۰:۹-۰۰:۹
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں:
٭ ڈاکٹرس اور طبّی ملازمین کے تحفظ کے حوالے سے اقدامات کی تجاویز دینے کیلئےعدالت ِ عظمیٰ کی جانب سے نیشنل ایکشن فورس تشکیل۔
٭ بدلاپور جنسی زیادتی معاملے کی تحقیقات کیلئے ایس آئی ٹی کا قیام، فاسٹ ٹریک کورٹ میں مقدمہ چلانے کا اعلان۔
٭ مرکزی پبلک سروس کمیشن کے عہدوں پرراست بھرتی کا اشتہار منسوخ۔
٭ آج سے پرلی میں پانچ روزہ ریاستی سطح کی زرعی نمائش کا انعقاد۔
اور۔۔۔٭ گزشتہ دو دنوں میں مراٹھواڑہ بھر میںموسلادھار بارش، آئندہ دو دنوں کیلئےمحکمہ موسمیات کی جانب سےیلو الرٹ جاری۔
***** ***** *****
اب خبریں تفصیل سے:
ملک بھر میں ڈاکٹرس اور صحت ملازمین کے تحفظ کے حوالے سے اقدامات تجویز کرنے کیلئے عد الت ِ عظمیٰ نے نیشنل ایکشن فورس تشکیل دیا ہے۔ اس عاجلانہ ایکشن فورس میں 14 ارکان شامل ہیں۔کولکاتہ میں ایک خاتون ڈاکٹر کی عصمت دری اور قتل کے معاملے کا ازخودنوٹس لیتے ہوئے عدالت ِ عظمیٰ نےچیف جسٹس دھننجے چندرچوڑ کی سربراہی والی تین رکنی بنچ کے رو برو کل اس معاملے کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے تشکیل شدہ ایکشن فورس کوتین ہفتوں میں عبوری رپورٹ اور اندرونِ دو ماہ حتمی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔
عد الت ِ عظمیٰ نے متاثرہ کا نام اور تصویر مشتہر ہونے پر بھی تشویش ظاہر کی اور سوال کیا کہ اس معاملے میں پہلی معلوماتی رپورٹ- ایف آئی آر دیر سے کیوں درج کی گئی؟ اس معاملے میں سی بی آئی کو اپنی تحقیقاتی رپورٹ کل 22 اگست تک پیش کرنے کا بھی حکم عدالت نےدیا ہے۔ ساتھ ہی اس معاملے کی تفتیش میں لاپرواہیوںپر بھی عدالت نےبرہمی کا اظہار کیا۔ عدالت نے میڈیکل کالج انتظامیہ اور پولس سے وضاحت طلب کی کہ قتل کو خودکشی قرار دینے کی کوشش کیونکر کی گئی اور ایف آئی آر میں قتل کا ذکر کیوں نہیں ہے؟ اس معاملے کی اگلی سماعت کل 22 اگست کو ہوگی۔
***** ***** *****
تھانہ ضلعے کے بدلاپور کے آدرش کالج میں دو طالبات کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعے کے بعد مشتعل سرپرستوں نے کل بدلاپور ریلوے اسٹیشن پر ریل روکو احتجاج کیا۔ اس دوران پولس نے معمولی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی، تاہم مظاہرین کی جانب سے پتھراؤ کیے جانے سے احتجاج پُر تشددہوگیا۔ طلبہ کے سرپرستوں نے آدرش کالج کے داخلی دروازے کے روبرو بھی احتجاج کیا۔
دریں اثنا‘ اس معاملے میں مشتبہ ملزم کو حراست میں لے لیا گیا ہےاور اسکول کی صدر معلمہ کو معطل کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح طلبہ کی نگرانی پر مامور دو ملازمین کو ملازمت سے فارغ کر دیا گیا ہے‘ جبکہ تعلیمی ادارے کے مالکان کے خلاف سخت کارروائی کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اس معاملے میں متعلقہ پولس انسپکٹر کا بھی عاجلانہ طور پر تبادلہ کر دیا گیا ہے۔
***** ***** *****
دوسری جانب وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے اس معاملے میں ملزمین کو سخت سزا دینے کا یقین دلایا ہے۔ انہوں نے ایسےمعاملات میں متعلقہ اداروں کے انتظامیہ کے خلاف بھی کارروائی کیے جانے کا عندیہ دیا۔
نائب وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ دیویندر پھڑنویس نے اس معاملے کا مقدمہ فاسٹ ٹریک کورٹ میں چلانے ‘ اور سینئر وکیل اُجول نکم کو خصوصی سرکاری وکیل مقرر کرنے کا فیصلہ لینے کی اطلاع دی ۔ پھڑنویس نے اس معاملے کی تحقیقات کیلئے پولس انسپکٹر جنرل درجے کی ایک سینئر آئی پی ایس افسر آرتی سنگھ کی صدارت میں خصوصی تفتیشی دستہ (ایس آئی ٹی) تشکیل کرنے کے احکامات بھی جاری کیے۔
***** ***** *****
ریاست کے تمام اسکولوں میں وشاکھا کمیٹی کا قیام لازمی کرنے کی اطلاع اسکولی تعلیم کے وزیر دیپک کیسرکر نے دی ہے ۔ بدلا پور معا ملے کے تناظر میں منعقدہ محکمۂ تعلیم کے ایک اجلاس کے بعد کیسرکر صحافیوں سے بات کر رہے تھے۔ انہوں نے اسکول انتظامیہ کی جانب سے یہ کمیٹی تشکیل نہ کرنےپر متعلقہ حکام کے خلاف کارروائی کرنے کا انتباہ بھی دیا۔ کیسرکر نے بتایا کہ طالبات کی شکایات پر غور کرنے کیلئے ای باکس کے علاوہ اسکولوں میں شکایت پیٹی کو بھی لازمی کیا جائے گا۔
***** ***** *****
شیوسینا ادھو باڑا صاحب ٹھاکرے پارٹی کے سربراہ اُدھو ٹھاکرے نے مطالبہ کیاہے کہ ریاست میں شکتی قانون سازی کیلئے ان کی حکومت کے دوران ایک مسودہ تیار کیا گیا تھا‘ اس مسودے کو منظور کرکے شکتی قانون نافذ کیا جائے۔ وہ گزشتہ روز ممبئی میں ذرائع ابلاغ سے مخاطب تھے۔ قانون ساز کونسل میں قائد ِ حزبِ اختلا ف امباداس دانوے نے بھی بدلا پور معاملے کے مجرموں کو سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
***** ***** *****
مرکزی پبلک سروس کمیشن نے مختلف آسامیوں پر راست بھرتی، لَیٹرل انٹری کا اشتہار منسوخ کردیا ہے۔ مرکزی وزیر ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے پبلک سروس کمیشن کی صدر پِریتی سُدن کو یہ اشتہار منسوخ کرنے کی ہدایت دی تھی۔ 2014 سے قبل اسی طرح کی کئی آسامیوں پر بھرتی کی گئی تھی۔ تاہم، جتیندر سنگھ نے کہا تھا کہ اس طرح کی بھرتی میں ریزرویشن کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی ‘ لہٰذا پبلک سروس کمیشن کو اس اشتہار کو منسوخ کرنے کی انھوں نے ہدایت دی۔
***** ***** *****
راجیہ سبھا کے ضمنی انتخابات کیلئےبھارتیہ جنتا پارٹی نے ریاستی سطح پر امیدواروں کے ناموں کا اعلان کر دیا ہے۔ اس فہرست میں مہاراشٹر سے دھیریہ شیل پاٹل کے نام کا اعلان کیا گیا ہے۔ پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری ارون سنگھ نے کل اس سلسلے میں ایک صحافتی بیان جاری کیا۔
***** ***** *****
یہ خبریں آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر سے نشر کی جارہی ہیں۔
***** ***** *****
بیڑ ضلع کے پرلی ویجناتھ میں آج سے پانچ روزہ ریاستی سطح کے زرعی میلے کا آغاز ہورہا ہے۔ اس میلے میں زرعی نمائش، جانوروں کی نمائش، زرعی یونیورسٹی کا معلوماتی شعبہ، زراعت کے موضوع پر سیمینار و مذاکرہ، کاشتکار سے صارف تک براہ راست فروختگی مرکز، جدید زرعی آلات کی نمائش، خواتین کے خود مدد گروپوں کے ذریعہ تیار کردہ مصنوعات کی فروخت اور نمائش جیسی مختلف سرگرمیاں کی جائیں گی۔ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے اورمرکزی وزیر زراعت شیوراج سنگھ چوہان اس زرعی میلے میں شرکت کریں گے۔
***** ***** *****
کسانوں کے مختلف مطالبات کے حل کیلئے کل ہنگولی میں راشٹروادی کانگریس شرد پوار گرو پ کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ اس دو ر ان ضلع کلکٹر دفتر پر ایک مورچہ بھی نکالا گیا۔ مظاہر ین نے کسانوں کے مکمل قرضے معاف کرکے سات بارہ صاف کرنے، فصل بیمہ قرض کی رقم کسانوں کے بینک کھاتوں میں جلد جمع کرنے، سویا بین کو سات ہزار اور کپاس کو پندرہ ہزار روپئے ضمانتی نرخ دینے جیسے مطالبات پر مبنی ایک محضر ضلع کلکٹر کو پیش کیا۔
***** ***** *****
دھاراشیو ضلع صحت افسر ڈاکٹر ہری داس نے وضاحت کی ہے کہ دھا را شیو تعلقے کے بھکار سا روڑا دیہات میں پایا گیا مریض پولیو سے متاثر نہیں ہے۔ انھوں نے بتایا کہ رواں سال جولائی کے او اخر تک اس نوعیت کے 13 مریض پائے گئے، لیکن جانچ کے بعد ان میں سے کوئی بھی پولیو سے متاثرہ نہیں پایا گیا، لہٰذا شہریان سے اس مرض سے متعلق تشویش میں مبتلا نہ ہونے کی اپیل انھوں نے کی۔ پولیو متاثر��ن کی تلاش مستقل سرو ے کا ایک حصہ ہے اور اس کیلئے شہریان کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس طرح کی وضاحت بھی عوامی طبّی شعبے کی جانب سے کی گئی ہے۔
***** ***** *****
مراٹھو اڑہ میں گذشتہ دو دِنوں میں سات اضلاع کی 22تحصیل میں اضافی بارش درج کی گئی ہے۔ ڈویژن میں اب تک 73 اعشاریہ پانچ ملی میٹر بارش کا اندراج کیا گیا۔ چھترپتی سمبھاجی نگر شہر سمیت ضلعے میں کل اطمینان بخش بارش ہوئی۔ دوپہر میں کچھ وقت کیلئے زوردار بارش ہونےکے بعد رات بھر بارش کا سلسلہ جاری رہا۔ ضلعے کے ترک آباد، چکل تھانہ سمیت جالنہ، بیڑ، دھاراشیو اور ناندیڑ اضلاع کے کئی ایک علاقوں میں کل زوردار بارش ہوئی۔
دریں اثنا‘ آئندہ دو دِنوں میں کوکن اور وسطی مہاراشٹر کے اکثر مقامات پر جبکہ مراٹھواڑہ اور ودربھ کے کچھ مقامات پر بارش کا امکان محکمۂ موسمیات نے ظاہر کیا ہے۔ اس د ور ان کوکن اور وسطی مہاراشٹر کے کچھ علاقوں میں زوردار بارش ہونے کی پیشن گوئی کی گئی ہے۔
***** ***** *****
پربھنی ضلعے میں فہرست رائے دہندگان پر مختصر نظرِ ثانی پروگرام کے تحت کل پاتھری کے مہاتما بسویشور جونیئر کالج اور سنسکار کالج میں طلبہ کو ووٹر اندر اج کے بارے میں تفصیلی معلومات دی گئی۔ سب ڈویژنل آفیسر شیلیش لاہوٹی نے طلبہ سے اپیل کی ہے کہ وہ فہرست رائے دہندگان میں اپنے اور اپنے خاندان کے افراد کے ناموںکا اندراج کریں۔
***** ***** *****
مہاتما جیوتی رائو پھلے کسان قرض معافی اسکیم کے ترغیبی فوائد کیلئے امدادِ باہمی ضلع ڈپٹی رجسٹرار نے لاتور ضلعے کے کسانوں سے آدھار کارڈ کی توثیق کرنے کی اپیل کی ہے۔ جو کسا ن اس اسکیم کے تحت فوائد کے اہل ہیں انھیں ایک مخصوص نمبر دیا گیا ہے۔
***** ***** *****
برہمن سماج کی معاشی ترقی کیلئے پرشو رام مالیاتی ترقیاتی بورڈ قائم کیے جانے کے مطالبے پر جالنہ شہر کے گاندھی چمن چوک میں بے مدت بھوک ہڑتال کرنے و الے دیپک رَن نورے سے کل سابق مرکزی وزیرِ مملکت ر ائو صاحب دا نوے نے ملاقات کی۔ اس موقعے پر د انوے نے برہمن سماج کے مطالبات کے سلسلے میں نائب وزیرِ اعلیٰ دیو یندر پھڑنویس سے ملاقات کرکے نمائند گی کرنے کا یقین دلایا۔
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
آخرمیں اس بلیٹن کی خاص خبریں ایک بار پھر:
٭ ڈاکٹرس اور طبّی ملازمین کے تحفظ کے حوالے سے اقدامات کی تجاویز دینے کیلئےعدالت ِ عظمیٰ کی جانب سے نیشنل ایکشن فورس تشکیل۔
٭ بدلاپور جنسی زیادتی معاملے کی تحقیقات کیلئے ایس آئی ٹی کا قیام، فاسٹ ٹریک کورٹ میں مقدمہ چلانے کا اعلان۔
٭ مرکزی پبلک سروس کمیشن کے عہدوں پرراست بھرتی کا اشتہار منسوخ۔
٭ آج سے پرلی میں پانچ روزہ ریاستی سطح کی زرعی نمائش کا انعقاد۔
اور۔۔۔٭ گزشتہ دو دنوں میں مراٹھواڑہ بھر میںموسلادھار بارش، آئندہ دو دنوں کیلئےمحکمہ موسمیات کی جانب سےیلو الرٹ جاری۔
***** ***** *****
0 notes
Text
اعلیٰ تعلیم خطرے میں
وطن عزیز میں اعلیٰ تعلیم کا مستقبل ایک بار پھر خطرے کی زد میں ہے۔ ٹیکنالوجی کے پھیلائو کے اس دور میں جب دنیا کے تمام ترقی یافتہ اور ترقی کی خواہش رکھنے والے ممالک اعلیٰ تعلیم کے میدان میں سرمایہ کاری بڑھا کر بہتر امکانات و نتائج پر خاص توجہ دے رہے ہیں، یہ بات کسی طور مناسب نہیں کہ رواں مالی سال 2024-25ء کے جاری بجٹ میں بڑی کٹوتی کر کے ایک طرف اسے 65 ارب روپے سے گھٹا کر 25 ارب روپے کی نچلی سطح پر رکھ دیا گیا۔ دوسری جانب اسے صرف وفاقی جامعات تک محدود کر دیا گیا۔ اس حوالے سے وزارت خزانہ کی جانب سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو خط بھی لکھ دیا گیا ہے جس نے ملک کی 160 سے زائد سرکاری جامعات کیلئے 126 ارب روپے کی درخواست کر رکھی تھی۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ایک اور گھائو یہ لگا کہ منصوبہ بندی کمیشن نے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کا ترقیاتی بجٹ 59 ارب روپے سے کم کر کے 21 ارب روپے کر دیا ہے۔
اعلیٰ تعلیم کے ادارے علم و آگہی کے ایسے جزیرے ہیں جہاں سے مختلف شعبوں میں فارغ التحصیل ہونیوالے نوجوان معیشت، صنعت، طب، زراعت اور کارپوریٹ سیکٹر سمیت ہر شعبے کو نئے رجحانات سے آشکارا کرتے اور ترقی و امکانات کے مواقع پیدا کرتے ہیں۔ ان اداروں کے اعلیٰ تعلیمی معیار اور تحقیقی کام پر سمجھوتے سے گریز کرتے ہوئے انہیں مالی اعتبار سے پیروں پر کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں اشرافیہ کیلئے بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے سارے مواقع دستیاب ہیں، کم وسائل کے حامل لائق نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور خود ملکی ترقی وخوشحالی کیلئے اندرون ملک قائم اعلیٰ تعلیم کے ادارے غنیمت ہیں جن کے تعلیمی و تحقیق معیار اور ترقیاتی ضروریات سے کسی طور صرف نظر نہیں کیا جانا چاہئے۔ دوسری طرف ہمیں دوست ملکوں سے تعلیمی نظام سمیت کئی شعبوں میں اصلاح و بہتری کیلئے معاونت کے حصول میں کوئی عار نہیں ہونا چاہئے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Link
0 notes
Text
پاکستانی دوسری بار کیوں ہجرت کر رہے ہیں ؟
اس برس کے پہلے دو ماہ میں پی آئی اے کے تین فضائی میزبان کینیڈا پہنچ کے غائب ہو گئے۔ ان میں سے دو پچھلے ہفتے ہی ’سلپ‘ ہوئے ہیں جبکہ گذشتہ برس پی آئی اے کے سات فضائی میزبان پاکستان سے ٹورنٹو کی پرواز پر گئے مگر واپس نہیں لوٹے۔ یہ سلسلہ 2018 کے بعد سے بالخصوص بڑھ گیا ہے۔ پی آئی اے کے اندرونی ذرائع کہتے ہیں کہ جب سے اس ادارے کی نج کاری کا فیصلہ ہوا ہے ہر کوئی مسلسل بے یقینی کے سبب اپنے معاشی مستقبل سے پریشان ہے۔ اگر بس میں ہو تو آدھے ملازم ملک چھوڑ دیں۔ تین ماہ پہلے گیلپ پاکستان کے ایک سروے میں یہ رجہان سامنے آیا کہ 94 فیصد پاکستانی ملک سے جانا چاہتے ہیں۔ 56 فیصد معاشی تنگی کے سبب، 24 فیصد امن و امان اور جان و مال کے خوف سے اور 14 فیصد مستقبل سے مایوس ہو کے ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔ اگر گیلپ سروے کے نتائج کی صحت پر آپ میں سے بہت سوں کو یقین نہ آئے تو آپ خود اپنے اردگرد متوسط اور نیم متوسط خاندانوں کو کرید کر دیکھ لیں۔ ان میں سے کتنے ہر حال میں یہاں رہنا چاہتے یا پھر چاہتے ہیں کہ کم ازکم ان کے بچے کہیں اور اپنا مستقبل ڈھونڈیں ؟
کیا ستم ظریفی ہے کہ 76 برس پہلے جس پیڑھی نے ایک محفوظ اور آسودہ زندگی کی آس میں گھر بار چھوڑا یا نہیں بھی چھوڑا۔ آج اسی پیڑھی کی تیسری اور چوتھی نسل بھی ایک محفوظ اور آسودہ زندگی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ جو لوگ ماحولیاتی تبدیلیوں، اقتصادی و روزگاری بحران یا امن و امان کی ابتری کے باوجود بیرونِ ملک نہیں جا سکتے وہ اندرونِ ملک ب��ے شہروں کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں یا کم ازکم اس بارے میں سوچتے ضرور ہیں۔ سٹیٹ بینک کے اپنے آنکڑوں کے مطابق 2018 تک ترقی کی شرحِ نمو ڈیڑھ فیصد سالانہ تک رہے گی جبکہ آبادی بڑھنے کی رفتار لگ بھگ دو فیصد سالانہ ہے۔ گویا معاشی ترقی کی شرح آبادی بڑھنے کی شرح یعنی دو فیصد کے برابر بھی ہو جائے تب بھی معیشت کی بڑھوتری کی شرح صفر رہے گی۔ اس تناظر میں مجھ جیسوں کو ایسی خبریں سن سن کے کوئی حیرت نہیں کہ اوورسیز ایمپلائمنٹ بیورو کے مطابق پچھلے پانچ برس میں لگ بھگ 28 لاکھ پاکستانی قانونی ذرائع سے بیرونِ ملک چلے گئے۔
اس تعداد میں وہ لوگ شامل نہیں جو اوورسیز ایمپلائمنٹ بیورو میں رجسٹر ہوئے بغیر ملازمتی یا تعلیمی مقصد کے لیے براہِ راست بیرون ملک چلے گئے اور وہ لاکھوں بھی شامل نہیں جو جان جوکھوں میں ڈال کر غیر قانونی راستوں سے جا رہے ہیں۔ اگر ان سب کو بھی ملا لیا جائے تو پچھلے پانچ برس میں چالیس سے پچاس لاکھ کے درمیان پاکستانیوں نے ملک چھوڑا۔ نقل مکانی کرنے والے صرف متوسط، نیم متوسط یا غریب طبقات ہی نہیں۔ فیصلہ ساز اشرافیہ کو بھی اس ملک کے روشن مستقبل پر یقین نہیں ہے۔ چند برس پہلے عدالتِ عظمی نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ہدایت کی کہ ان بیوروکریٹس کی فہرست مرتب کی جائے جن کی دوہری شہریت ہے۔ اس کے بعد کوئی خبر نہ آئی کہ اس ہدایت پر کتنا عمل ہوا۔ البتہ اسلام آباد میں یہ تاثر ہر طبقے میں پایا جاتا ہے کہ بہت کم سیاستدان، حساس و نیم حساس و غیر حساس اداروں کے افسر، جرنیل، جج اور سہولت کار ہیں جن کی دوہری شہریت نہ ہو یا بیرونِ ملک رہائش کا بندوبست، سرمایہ کاری یا بینک اکاؤنٹ نہ ہو یا کم ازکم ان کے اہلِ خانہ بیرونِ ملک مقیم نہ ہوں۔
کئی ’ریٹ��ئرینِ کرام‘ کی تو پنشنیں بھی ڈالرز میں ادا ہوتی ہیں حالانکہ ان کے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے اور بہتوں کے پاس تو جتنا اللہ نے دیا اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ اور کروڑوں سے وہ بھی چھن رہا ہے جو اوپر والے نے انھیں دیا ہو گا۔ اور پھر یہی بندوبستی اشرافیہ عوام کو سادگی، اسلامی و مشرقی اقدار، نظریہِ پاکستان، ایمان، اتحاد، یقینِ محکم، قربانی اور اچھے دن آنے والے ہیں کا منجن بھی بیچتی ہے اور ان کا مستقبل بھی بار بار بیچتی ہے۔ میرے ہمسائے ماسٹر برکت علی کے بقول ’انگریز میں کم ازکم اتنی غیرت ضرور تھی کہ ایک بار لوٹ مار کر کے واپس جو گیا تو پھر اپنی شکل نہیں دکھائی‘ ۔ ایسے میں اگر محکوم اپنی زمین چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں تو انھیں کیوں الزام دیں۔ ویسے بھی ان کے پاؤں تلے زمین کھسک ہی رہی ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک جو کروڑوں نارسا ہاتھ کسی امیدِ موہوم کے آسرے پر ووٹ دیتے تھے، اب ان کے پاؤں ووٹ دے رہے ہیں۔
سفر درپیش ہے اک بے مسافت مسافت ہو تو کوئی فاصلہ نہیں ( جون ایلیا )
صرف گذشتہ برس آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار پاکستانیوں نے بیرونِ ملک نقل مکانی کی۔ یہ تعداد 2015 کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔ ان میں آٹھ ہزار آٹھ سو انجینیرز، مالیاتی شعبوں سے وابستہ سات ہزار چار سو افراد ، ساڑھے تین ہزار ڈاکٹر اور لگ بھگ ڈیڑھ ہزار اساتذہ، تین لاکھ پندرہ ہزار دیگر ہنرمند، چھیاسی ہزار نیم ہنرمند اور چار لاکھ سے کچھ کم غیر ہنرمند مزدور شامل ہیں۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes