#ایکسچینج
Explore tagged Tumblr posts
Text
اسٹاک ایکسچینج میں نئی تاریخ، عالمی سطح پرملکی معیشت پراعتماد کا واضح ثبوت ہے ، مریم نواز
(ویب ڈیسک) وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا ہے کہ سٹاک مارکیٹ کا لاکھ پوائنٹ عبور کرنا عالمی سطح پر پاکستان کی معیشت پر بڑھتے ہوئے اعتماد کا واضح ثبوت ہے۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے اپنےحالیہ پیغام میں پاکستان سٹاک مارکیٹ کے ایک لاکھ پوائنٹس کی تاریخی حد عبور کرنے پر تشکر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سٹاک ایکسچینج دنیا کی بیسٹ پرفارمنگ ایکوئٹی مارکیٹ کادرجہ حاصل کر چکی…
0 notes
Text
اسٹاک مارکیٹ کریش، 100 انڈیکس میں 3800 پوائنٹس کی کمی
پاکستان اسٹاک ایکسچینج( پی ایس ایکس ) پر اسلام آباد میں جاری سیاسی کشیدگی بڑھنےکے منفی اسٹاک مارکیٹ سے اسٹاک مارکیٹ ’ کریش ’کرگئی، منگل کو کاروبار کےاختتامی لمحات میں کےایس ای 100 انڈیکس میں 3800 پوائنتس کی کمی ریکارڈکی گئی۔ منگل کوسیاسی کشیدگی کےدوران اسٹاک مارکیٹ میں کاروبار کا آغاز منفی زون میں ہوا ۔جس کےنت��جے میں ایک موقع پر 100 انڈیکس 97361 پوائنٹس کی کم ترین سطح پرآگیا، بعد ازاں بینکنگ…
0 notes
Text
انٹر بینک میں ڈالر سستاسٹاک ایکسچینج میں تیزی
(24نیوز)روپے کی قدر بحال ہونے لگی،انٹر بینک میں روپے کی مقابلے میں ڈالر مزید سستا ہو گیا جبکہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں بھی کاروبار کا مثبت آغاز ہوا۔ کاروباری ہفتے کے آخری ��وز انٹر بینک میں امریکی کرنسی کا بھاؤ 29 پیسے کم ہوا،ڈالر 277.79 روپے سے کم ہوکر 277.50 روپے پر ٹریڈ کر رہا ہے،گزشتہ روز کاروبار کے اختتام پر ڈالر کا ریٹ 277 روپے 79 پیسے پر بند ہوا تھا۔ دوسری جانب اسٹاک ایکسچینج میں…
0 notes
Text
غیریقینی سیاسی صورتحال، کے ایس ای 100 انڈیکس میں 1878 پوائنٹس کمی
ملک میں غیر یقینی سیاسی صورتحال کے باعث سرمایہ کار محتاط ہوگئے، پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں شدید مندی کا رجحان دیکھنے کو ملا۔ کے ایس سی 100 انڈیکس میں 1878 پوائنٹس کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ آج ہفتے کے پہلے روز پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروبار کا آغاز مندی سے ہوا جو دن بھر جاری رہا، کاروبار کے دوران مارکیٹ 2200 پوانٹس کمی کے ساتھ 61 ہزار 647 پوائنٹس پر بھی ٹریڈ ہوئی، کاروبار کے اختتام پر کے ایس سی…
View On WordPress
0 notes
Text
ٹرمپ کی بڑی سبقت سے کرپٹو مارکیٹ میں طوفانی تیزی، بٹ کوائن پہلی بار 75000 ڈالر کے پار
امریکی انتخابات کو لے کر خدشات ہیں۔ اس کا اثر نہ صرف بٹ کوائن پر پڑا ہے بلکہ اس سے جڑے بازاروں پر بھی اس کا اثر دیکھنے کو ملا ہے۔ مثال کے طور پر ایکسچینج آپریٹر کوائن بیس نے آفٹر آورس ٹریڈنگ میں 3 فیصد کا اضافہ دیکھا، جبکہ ایک دیگر اہم پلیئر مائیکرواسٹریٹجی نے 4 فیصد کی اچھال پائی۔ یہ اُتار چڑھاؤ انتخاب کے نتیجوں کے تئیں براڈر مارکیٹ کی حساسیت اور کرپٹو کرنسی سیکٹر پر اس کے ممکنہ اثرات کو…
0 notes
Text
ابتدائی تجارت میں امریکی ڈالر کے مقابلے روپیہ 2 پیسے گر گیا۔
نئی دہلی میں کرنسی ایکسچینج اسٹال کے قریب ایک گاہک سو روپے کے بھارتی کرنسی نوٹ رکھے ہوئے ہے۔ | تصویر کریڈٹ: REUTERS جمعرات، 30 مئی کو ابتدائی تجارت میں روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں 2 پیسے گر کر 83.42 پر آ گیا، غیر ملکی سرمایہ کے اخراج کو غیر مستحکم گھریلو ایکویٹی مارکیٹوں کے درمیان ٹریک کرتے ہوئے۔ غیر ملکی کرنسی کے تاجروں نے کہا کہ ایک مضبوط امریکی کرنسی کا بھی مقامی اکائی پر وزن ہے یہاں تک…
View On WordPress
0 notes
Text
نواز شریف کی مقدمات سے بریت مشروط ہے
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جونہی انتخابی شیڈول جاری کیا، نگران حکومت آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت الیکشن کمیشن کی معاونت کرتے ہوئے لازماً عام انتخابات کروائے گی اور کسی سیاسی جماعت کو انتخابی عمل سے باہر نہیں رکھا جائے گا۔ اصولی طور پر تمام سیاسی جماعتوں کو یہ آئینی حق حاصل ہے کہ وہ انتخابات میں اپنے امیدوار سامنے لائیں، کسی رجسٹرڈ سیاسی جماعت کو انتخابی عمل سے باہر نہیں رکھا جا سکتا۔ نو مئی کے قانون شکن واقعات کے بعد درپیش صورت حال یہ ہے کہ تحریک انصاف پ�� ان واقعات کی وجہ سے اب تک آئین کے آرٹیکل 17 اور الیکشن ایکٹ کی دفعہ 212 کی وجہ سے پابندی عائد کی گئی اور نہ ہی آئندہ اس کا کوئی امکان اس لیے نظر آ رہا ہے کہ نگران حکومت اپنے محدود مینڈیٹ کے تحت ایسا کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ جہاں تک تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی انتخابی عمل میں شرکت کی بات ہے تو ان کے خلاف قائم مقدمات کا فیصلہ عدالتوں کو کرنا ہے اور قانون اس معاملے میں اپنا راستہ خود بتائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کے آئینی ماہرین نے سائفر کیس میں آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت وزیراعظم کو حاصل اختیارات کے تحت عدالت سے استثنیٰ مانگنے کی استدعا کی ہے۔ آئینی ماہرین نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعہ 5 کے اطلاق نہ ہونے کی وجہ سے مقدمے کے اخراج کی استدعا کر دی ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کی درخواست کی سماعت کا تحریری حکم جاری کر دیا ہے۔ اس کے برعکس میری رائے میں آئین کا آرٹیکل 248 اس صورت میں لاگو ہوتا ہے جب وزیراعظم اپنے عہدے پر فائز رہے۔ وزارتِ عظمیٰ سے سبکدوشی کے بعد اس نوعیت کے مقدمات عام شہری کی حیثیت کے زمرے میں آتے ہیں۔ میاں نواز شریف کو چار سال بعد وطن واپسی پر اپنے خلاف قائم مقدمات کا سامنا کرنا ہو گا۔ جس کیس میں وہ سزا یافتہ ہیں، اس میں ان کے جیل جانے کے امکانات بھی موجود ہیں۔ انتخابی عمل میں ان کی شرکت مقدمات میں بریت سے مشروط ہے۔ تاہم ان کی جماعت کے لیے انتخابات میں شریک ہونے میں کوئی رکاوٹ حاصل نہیں ہے۔
قانونی ماہرین کا اتفاقِ رائے یہی ہے کہ نواز شریف کی واپسی پر گرفتاری فوراً ہو گی، تاہم توقع ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نواز شریف کو ایک ہفتے کی حفاظتی ضمانت دے گی۔ پاکستان کا معاشی سفر بہتری کی طرف جا رہا ہے۔ شرح نمو 3.5 فیصد ہو گئی ہے، سٹاک ایکسچینج نے چھ سال کا ریکارڈ توڑا ہے۔ اس پیش رفت میں پاکستان کے لیے بہت اچھے مواقع ہیں۔ شرط یہ ہے کہ اس کے پالیسی ساز اور عوام کی غالب تعداد، جو نوجوانوں پر مشتمل ہے، کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ نوجوان ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ جذباتی اور قومی وژن سے عاری ہی ہوں۔ عوام کو یہ بات ذہن نشین کرنا ہو گی کہ جمہوریت میں پارٹیاں اور لیڈر آتے جاتے رہتے ہیں۔ ملک و قوم کو مضبوط معیشت کے لیے معاشی ترقی اور سیاسی نظام میں تسلسل کی ضرورت ہے۔ نئی نسل کے سیاست دان میدان میں ہیں اور ان کے لیے ایک بہترین موقع ہے وہ ماضی کے تنازعات پر نظرِثانی کریں۔ سوچیں کہ پاکستان کیسے دوسرے ممالک کی ترقی سے ہم آہنگ ہو سکتا ہے۔
ایشیا تو آگے بڑھ رہا ہے، اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جنوری کے آخری ہفتے میں عام انتخابات کروانے کے لیے سیاسی سطح پر سندھ حکومت کے اعلیٰ حکام کو 17 اکتوبر کو الیکشن کی ابتدائی تیاریوں کے حوالے سے طلب کر لیا ہے اور اگلے مرحلے پر پنجاب، بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا کے اعلیٰ حکام سے یہ بریفنگ لیں گے۔ میری اطلاع کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو عبور کر لیا ہے اور الیکشن کا شیڈول 30 نومبر کے بعد فوری طور پر جاری کر دیا جائے گا۔ فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے۔ امریکہ نے جس طرح سے کھل کر اسرائیل کی پشت پناہی کی ہے اور اپنے فوجی اثاثے اس کے حوالے کرنے کے لیے آمادہ ہے، اس سے شہ پا کر اس تنازع کا دائرہ کار سرحدوں سے باہر پھیلا کر دوسرے ملکوں تک لے جایا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو اس کے عالمی معیشت پر تو خطرناک اثرات مرتب ہوں گے ہی اور اگر جنگ کے شعلے پاکستانی سرحدوں تک پہنچے اور جنگ کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا تو پاکستان میں الیکشن موخر ہو سکتے ہیں۔ اس تمام صورتِ حال میں نگران حکومت کو تمام پہلوؤں پر غور کرنا ہو گا اور ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہو گا۔
کنور دلشاد
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
Text
معیشت بہتر ہونے سے پاکستان میں برطانوی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا، برطانوی ہائی کمشنر - ایکسپریس اردو
توقع ہے دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافہ جاری رہے گا، برطانوی ہائی کمشنر:فوٹو:فائل کراچی: پاکستان میں تعینات برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ نے کہا ہے انتخابات اور معیشت میں بہتری آنے کے تقریبا 6 ماہ بعد پاکستان میں برطانوی سرمایہ کاری میں مزید اضافہ ہوگا۔ برطانوی ہائی کمشنر نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں فارما سیکٹر کی لسٹڈ کمپنی ہیلیون پاکستان لمیٹڈ کے نئے سرمایہ کاری منصوبے…
View On WordPress
0 notes
Text
خوش قسمت اور ہوشیار حکمران اشرافیہ
عوام جنھیں مسیحا جان کر پکار رہے ہیں ، ان کی پکار بھی سنیے : نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے گزشتہ روز ارشاد فرمایا کہ بجلی کے بلز کا معاملہ آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر دیکھ رہے ہیں۔ بل تو دینا ہو گا ، جو معاہدے ہوئے وہ ہر صورت پورے کریں گے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ایک طرف بجلی کے بلز کی دہائی ہے تو دوسری طرف انھیں شہروں میں بجلی کی چوری بھی اپنے عروج پر ہے۔ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں۔ ان کے خیال کے مطابق بجلی کے بلز کا بحران اتنا بڑا ہے نہیں جتنا بنا دیا گیا۔ نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر نے کہا کہ سبسڈی بھول جائیں، بجلی پٹرول مزید مہنگا ہو گا، آئی ایم ایف کے ساتھ بجلی بلوں میں ریلیف کی بات کی ہے تحریری پلان ان کو دیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ حالات اندازے سے زیادہ خراب ہیں۔ خزانہ خالی ہے۔ عالمی سطح پر انرجی قیمتوں میں اضافے کا بوجھ عوام کو منتقل کرنا پڑتا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام پر عمل نہ کرنے سے حالات مزید مشکل ہوں گے۔ بااثر گروپوں سے مفت بجلی کی سہولت واپس نہیں لے سکتے۔ حیران ہوں میں نے یہ ذمے داری کیوں قبول کی۔
ان کے بیان کا آخری حصہ سن کر اسٹاک ایکسچینج بھی ان کے غم میں برابر کی شریک ہو گئی اور ایک ہی دن میں 1700 پوائنٹ سے زیادہ نیچے آن گری۔ عوام کو اگر ریلیف کی کچھ توقع تھی بھی تو ان کی توقع کا رات گئے جواب مل گیا، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھا دی گئیں۔ تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ روپے کی شرح مبادلہ، پٹرول اور ڈیزل سب کے سب تین سو روپے سے اوپر ہیں۔ اگلا ہندسہ کیا ہو گا ؟ یہ سوچ سوچ کر عوام بے حال اور پریشان ہیں۔ بجلی کی قیمتیں کیسے بڑھیں؟ پچھلے 30 / 35 سال سے جاری انرجی پالیسیز کا نتیجہ یہی نکلنا تھا لیکن حیرت ہوتی ہے کل کے حکمران جنھوں نے یہ پالیسیاں وضع کیں، ان پالیسیوں کو چلایا، ان پالیسیوں سے اپنوں کو نوازا، آج وہی لوگ حکومت سے باہر بیٹھ کر انجان بنے بیٹھے ہیں، بلکہ مشورہ دے رہے ہیں کہ نگران حکومت کو چاہیے عوام کو ریلیف دے۔ خواجہ آصف جو ڈیڑھ ہفتہ قبل حکومت سے نکلے ہیں انھوں نے نگران حکومت کو یہ قیمتی مشورہ دیا جس پر خود عمل نہ کر سکے۔
پیپلز پارٹی کی شیری رحمان کو حکومت سے فراغت کے بعد پہلی دفعہ علم ہوا کہ بجلی کے بلوں کی وجہ سے عوام بلبلا اٹھے ہیں۔ انھوں نے کمال انجان بنتے ہوئے ارشاد فرمایا ؛ حکومت کو چاہیے کہ عوام کو فوری ریلیف دیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ ڈیڑھ ہفتہ پہلے یہی لوگ حکومت میں تھے، اس وقت انھیں یہ ریلیف یاد نہ آیا۔ یہ ریلیف انھیں اس وقت بھی یاد نہ آیا جب وہ اندھا دھند آئی ایم ایف کی ایسی ایسی شرائط مان رہے تھے جن کا لازمی نتیجہ یہی نکلنا تھا۔ عوام کے پاس کوئی چارہ نہیں سوائے اس کے کہ وہ سینہ کوبی کریں ، سڑکوں پر آئیں ، غصے کا اظہار کریں کہ ان کے ساتھ جو ظلم روا رکھا جا رہا ہے اس کا مداوا کیا جائے۔ تاہم ایک بات عوام کے سمجھنے کی بھی ہے کہ بجلی کے بلوں میں یہ اندھا دھند اضافہ ہونا ہی تھا۔ 1994 سے لے کر جو انرجی پالیسیز روا رکھی گئیں ان میں بیرونی سرمایہ کاروں کو ہر طرح کی مراعات دی گئیں اور بعض صورتوں میں ناجائز شرائط بھی مانی گئیں۔
بجلی پیدا کرنے کے لیے ایندھن کے ذرایع امپورٹ پر مبنی تھے۔ حکومت نے ریاستی گارنٹیز بھی فراہم کیں، منافع بھی ڈالرز میں اور ہر طرح کے ریٹ ایڈجسٹمنٹ اور پیداواری اخراجات کو ڈالر انڈیکسیشن میں روا رکھا گیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان تمام سالوں میں تقریبا تمام انویسٹمنٹ بجلی کی پیداوار میں ہوئی جب کہ بجلی کی ترسیل کی طرف کسی نے آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ حکمران اشرافیہ خوب جانتی تھی کہ بجلی کی پیداوار میں مقامی وسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اور صرف تھرمل کے ذرایع پر انحصار کا نتیجہ ایک نہ ایک دن یہی نکلنا تھا۔ اچھا ہوتا اگر 2017 کے بعد سیاسی عمل فطری طرز پر جاری و ساری رہتا۔ عوام کو فیصلے کرنے کا اختیار دیا جاتا تو شاید یہی دو بڑی جماعتیں جنھوں نے ان انرجی پالیسیوں کو روا رکھا، انھیں عوام کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑتا۔ پی ڈی ایم اتحاد نے اپنی ضرورت اور مفاد کے لیے قانون سازی کی، اس دوران پی ٹی آئی نے محاذ آرائی کو ایک نئے مقام تک پہنچا دیا۔ اس وقت سیاست میں محاذآرائی، تعصب نفرت اس مقام تک پہنچ چکی ہے جہاں سنجیدہ بحث ناممکن ہو گئی ہے۔
سیاسی عمل اگر طبعی طریقے سے جاری رہتا تو بجلی کی بڑھی ہوئی قیمتیں، شرح مبادلہ، مہنگائی اور دیگر مسائل سمیت کی وضاحت کے لیے ان ہی سیاست دانوں کو عوام کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑتا جن کی پالیسیوں، کرپشن ، بیڈ گورننس نے یہ دن دکھائے۔ لیکن اس ملک اور عوام کی بدقسمتی کہ چھ سال سے جاری سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور قلا بازیوں نے منظر ہی بدل ڈالا۔ سنجیدہ بحث اور ذمے داری فکس کرنے کا ماحول بننے ہی نہیں دیا۔ جس حکمران اشرافیہ کی وجہ سے ہم اس مقام تک پہنچے ہیں وہ دھڑلے سے آج اپنی معصومیت ثابت کرنے پہ تلے ہوئے ہیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کی پاور بھی کمال دکھا رہی ہے، دھیرے دھیرے یہ لوگ اپنے آپ کو ایک بار پھر معصوم ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس وقت تنقید کا بار نگران حکومتوں پہ ہے اور ان کی ڈھال آئی ایم ایف ہے۔ بجلی بلز اور معاشی آتش فشاں کی بحث کامیابی سے خلط مبحث کا شکار ہو چکی۔ اشرافیہ کی ہوشیاری سمجھیں یا خوش قسمتی ، وہ بحث کا رخ کامیابی سے موڑ چکے۔ عوام آج کا دن نکالنے کی کوشش میں ہیں مگر دن آسانی سے ٹلتا دکھائی نہیں دیتا۔ دوسری جانب ملک مشکلات سے نکلتا ہوا دکھائی نہیں دیتا بلکہ مشکلات کا پہاڑ پھیلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
خالد محمود
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
SECP Jobs 2023 advertisement
SECP Jobs 2023 advertisement: There has been an advertisement for the latest job in the SECP Jobs 2023 advertisement. You can find the advertisement below. The deadline for submissions is 30th June 2023. سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان عملے کی خدمات حاصل کرنے کے لیے درخواستیں طلب کر رہا ہے۔ سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان SECP جابز 2023 کا یہ اشتہار روزنامہ نوائے وقت میں شائع…
View On WordPress
0 notes
Text
اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کے بعد مندی ڈالر معمولی سستا
(24نیوز)پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں مسلسل تیزی کے بعد مندی کا رجحان دیکھا گیا ، دوسری جانب روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں معمولی کمی ریکارڈ کی گئی۔ کاروباری ہفتے کے چوتھے روز اسٹاک مارکیٹ میں کاروبار کا منفی آغاز ہوا ، اسٹاک ایکسچینج کے 100 انڈیکس میں 147 پوائنٹس کی کمی دیکھی گئی جس سے انڈیکس 95 ہزار 371 پوائنٹس پر آ گیا۔ گزشتہ روز پہلے سیشن میں ہنڈریڈ انڈیکس میں نمایاں اضافہ ہوا تھا تاہم…
0 notes
Text
پاکستان اسٹاک ایکسچینج بلند ترین سطح پر پہنچ گئی
پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا100 انڈیکس 980پوائنٹس اضافے سےملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ کاروبارکےآغاز سےہی اسٹاک ایکسچینج میں تیزی دیکھی گئی اور ایک موقع پر 100 انڈیکس980پوائنٹس کےاضافے سے82947 کی سطح پرپہنچ گیا۔ واضح رہےکہ کچھ دنوں سےپی ایس ایکس100انڈیکس میں کاروبار کا مثبت رجحان دیکھنےکومل رہاہےاوراس حوالےسےمعاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسٹاک ایکسچینج میں مثبت رجحان کی مختلف وجوہات…
0 notes
Text
سٹاک ایکسچینج میں تیزی ڈالر بھی سستا
(24نیوز)پاکستان سٹاک ایکسچینج میں کاروبار کے آغاز پر زبردست تیزی کا رجحان رہا جبکہ ڈالر کی قیمت میں بھی کمی ریکارڈ کی گئی۔ پاکستان سٹاک مارکیٹ میں کاروبار مثبت زون میں شروع ہوا ، جس میں تھوڑی دیر بعد تیزی دیکھنے میں آئی ، سٹاک مارکیٹ کے 100 انڈیکس میں 243 پوائنٹس کا اضافہ ہوا جس سے انڈیکس 86 ہزار 448 پوائنٹس پر پہنچ گیا۔ گزشتہ روز کاروبار کے اختتام پر ہنڈریڈ انڈیکس 86 ہزار 205 پوائنٹس پر بند…
0 notes
Text
مسلسل دوسرے روز سٹاک مارکیٹ میں مندی، انڈیکس میں 931 پوائنٹس کمی
رواں ہفتے مسلسل دوسرے روز پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں شدید مندی کا رجحان رہا، کاروبار کے اختتام پر کے ایس سی 100 انڈیکس 931 پوائنٹس کی کمی سے 61 ہزار 841 پوائنٹس پر بند ہوا۔ مارکیٹ میں کاروبار کے دوران 1.4 فیصد کی کمی ہوئی، آج مارکیٹ میں 15 ارب روپے مالیت 42 کروڑ حصص کا کاروبار ہوا۔ اس دوران 76 کمپنیوں کے حصص میں اضافہ جبکہ 249 کمپنیوں کے حصص میں کمی ہوئی۔ سرمایہ کاروں کے مطابق مجموعی سیاسی صورتحال،…
View On WordPress
0 notes
Text
آئی ایم ایف کی 1998 جیسی سخت شرائط
آئی ایم ایف کی اضافی شرائط اور پروگرام کی بحالی میں تاخیر سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس بار پاکستان کو آئی ایم ایف کی 1998 ء جیسی سخت شرائط کا سامنا ہے، جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے اور معاشی مشکلات کے باعث پاکستان کو 400 ملین ڈالر کے مالیاتی فرق کی وجہ سے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا جس پر 1999 میں آئی ایم ایف نے پروگرام بحالی کیلئے 24 سخت شرائط رکھیں جنہیں پاکستان نے پورا کیا۔ اس بار بھی ہمیں معاہدے کی بحالی میں آئی ایم ایف کا رویہ سخت نظر آرہا ہے جس نے شرائط پر عمل کرنا نہایت مشکل بنا دیا ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کیلئے پہلے ہی تمام شرائط مان لی ہیں اور پارلیمنٹ سے اضافی ریونیو کیلئے 170 ارب روپے کا منی بجٹ بھی منظور کرا لیا ہے جبکہ اسٹیٹ بینک نے افراط زر پر قابو پانے کیلئے اپنے ڈسکائونٹ ریٹ میں 3 فیصد اضافہ کر کے 20 فیصد کر دیا ہے جس کے بعد آئی ایم ایف نے 4 پیشگی اقدامات کی اضافی شرائط رکھی ہیں جن میں گردشی قرضوں کو کنٹرول کرنے کیلئے ��مام صارفین کیلئے بجلی کے نرخوں میں 3.82 روپے فی یونٹ چارج لگایا جانا، مارکیٹ کی بنیاد پر روپے کو فری فلوٹ رکھنا جس میں حکومت کی کوئی دخل اندازی نہ ہو اور بیرونی ادائیگیوں میں 7 ارب ڈالر کی کمی کو پورا کرنے کیلئے دوست ممالک سے سافٹ ڈپازٹس یا رول اوور کی ضمانت حاصل کرنا شامل ہے۔
اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے پاکستانی روپے کے ایکسچینج ریٹ کو افغان بارڈر ریٹ سے منسلک کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے جو پاکستانی روپے کی قدر میں مزید کمی کا باعث ہو گا کیونکہ پاکستان اور افغانستان کے مابین ڈالر ریٹ میں تقریباً 20 روپے کا فرق پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہر سال تقریباً 2 ارب ڈالر پاکستان سے افغانستان اسمگل ہوتا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ��وجودہ آئی ایم ایف معاہدہ جون 2023 میں ختم ہو جائے گا لہٰذا بجلی کے بلوں میں مستقل بنیادوں پر سرچارج لگانا مناسب نہیں۔ حکومت اور آئی ایم ایف کی بیرونی ادائیگیوں کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ حکومت کے مطابق ہمیں 5 ارب ڈالر جبکہ آئی ایم ایف کے حساب سے 7 ارب ڈالر کمی کا سامنا ہے۔ چین کی طرف سے پاکستان کو پہلے ہی 700 ملین ڈالر مل چکے ہیں اور 1.3 ارب ڈالر کی 3 قسطیں جلد ملنے کی توقع ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب سے 2 ارب ڈالر، UAE سے 1 ارب ڈالر، ورلڈ بینک اور ایشین انفرااسٹرکچر بینک کے 950 ملین ڈالر کے اضافی ڈپازٹس ملنے کی توقع ہے جس سے جون 2023 تک پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر موجودہ 4 ارب ڈالر سے بڑھ کر 10 ارب ڈالر ہو جائیں گے جو آئی ایم ایف کی شرط کو پورا کرتا ہے۔
آئی ایم ایف کا پاکستان اور دیگر ممالک کو قرضے دینا احسان نہیں بلکہ یہ آئی ایم ایف کے ممبر ممالک کا حق ہے کہ مالی مشکلات کے وقت آئی ایم ایف ان کی مدد کرے۔ آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے والے ممالک میں ارجنٹائن 150 ارب ڈالر قرضے کے ساتھ سرفہرست ہے جس کے بعد مصر 45 ارب ڈالر کے ساتھ دوسرے، ایکواڈور 40 ارب ڈالر کے ساتھ تیسرے، یوکرین 20 ارب ڈالر کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے جس کے بعد پاکستان، لاطینی امریکی ممالک اور کولمبیا آتے ہیں۔ پاکستان اب تک آئی ایم ایف کے ساتھ مجموعی 23.6 ارب ڈالر کے 22 سے زائد معاہدے کر چکا ہے لیکن ان سے صرف 14.8 ارب ڈالر کی رقم حاصل کی ہے اور باقی پروگرام مکمل ہوئے بغیر ختم ہو گئے۔ آئی ایم ایف کا موجودہ 6.5 ارب ڈالر کا توسیعی فنڈ پروگرام 2019 میں سائن کیا گیا تھا جس کو بڑھا کر 7.5 ارب ڈالر تک کر دیا گیا جو جون 2023 میں ختم ہو رہا ہے اور آئی ایم ایف پروگرام کے حالیہ نویں جائزے کی شرائط مکمل کرنے کے بعد پاکستان کو1.1 ارب ڈالر کی قسط ملے گی۔
حکومت کے آئی ایم ایف شرائط ماننے سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آنے کے علاوہ بیرونی ممالک سے بھی شکایتیں اور دبائو بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں جرمنی کے سفیر الفریڈ گرناس نے وفاقی وزیر معاشی امور سردار ایاز صادق سے اسٹیٹ بینک کی جرمنی سے مرسڈیز، BMW اور Audi الیکٹرک گاڑیوں کی امپورٹ اور بینکوں کے LC کھولنے پر پابندی پر اعتراض کیا ہے کہ یہ WTO معاہدے، جس کا پاکستان ممبر ملک اور دستخط کنندہ ہے، کے خلاف ہے لہٰذا جرمنی سے الیکٹرک گاڑیوں کی امپورٹ کی فوری اجازت دی جائے بصورت دیگر جرمنی، پاکستان کے یورپی یونین کے ساتھ GSP پلس ڈیوٹی فری معاہدے، جو 31 دسمبر 2023 کو ختم ہو رہا ہے، کی مزید 10 سال تجدید کیلئے پاکستان کو سپورٹ نہیں کرے گا اور اس پابندی سے پاکستان اور جرمنی کے تجارتی تعلقات پر اثر پڑے گا۔ اس کے علاوہ غیر ملکی ایئر لائنز کی 225 ملین ڈالرکی ترسیلات زر نہ ہونے کے باعث غیر ملکی ایئر لائنز نے پاکستان کیلئے سخت پالیسیاں اور ٹکٹ مہنگے کر دیئے ہیں جس میں حکومت کی حج زائرین کیلئے ڈالر کی فراہمی پر بھی نئی پابندیاں شامل ہیں۔
پاکستان ان شاء اللہ ڈیفالٹ نہیں ہو گا لیکن بے شمار قارئین نے مجھ سے ڈیفالٹ کے ملکی معیشت پر اثرات کے بارے میں پوچھا ہے۔ آسان الفاظ میں ایک خود مختار ملک کے واجب الادا قرضوں اور انٹرنیشنل مارکیٹ میں بانڈز کی ادائیگی میں ناکامی کو ’’ساورن ڈیفالٹ‘‘ کہا جاتا ہے جس کا حکومت رسمی اعلان کر سکتی ہے جیسے سری لنکا نے کیا یا پھر حکومت ان قرضوں کو ری اسٹرکچر یا ادائیگی میں تاخیر کی درخواست کرتی ہے جو تکنیکی اعتبار سے ڈیفالٹ ہی کہلاتا ہے۔ اس صورت میں مقامی کرنسی کی قدر کافی حد تک گر جاتی ہے اور بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں اُس ملک کی ریٹنگ کم کر دیتی ہیں جس سے ملک کے بینکوں کا بین الاقوامی مارکیٹ میں تجارت کرنا مشکل ہو جاتا ہے، شرح سود میں اضافہ اور سپلائرز LCs پر غیر ملکی بینکوں کی کنفرمیشن مانگتے ہیں جس سے LCs اور امپورٹ کی لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے UNCTD نے پاکستان کو دنیا کے اُن 5 ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جن پر بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کا ناقابل برداشت دبائو ہے۔ ان ممالک میں پاکستان کے علاوہ سری لنکا، مصر، کولمبیا اور انگولا شامل ہیں۔ ایسی صورتحال میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپیل کی ہے کہ پاکستان کی موجودہ مالی مشکلات کا سبب کچھ ترقی یافتہ ممالک کی معاشی پالیسیاں ہیں، امیر ممالک کو چاہئے کہ وہ پاکستان کی مدد کریں جس کیلئے میرے نزدیک ملک میں سیاسی استحکام اشد ضروری ہے۔
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes