#افغان مہاجرین
Explore tagged Tumblr posts
Text
افغان مہاجرین کی واپسی ضروری تھی، اب پاکستان میں جو آئے گا قانونی دستاویزات کے ساتھ آئے گا، وزیراعظم
نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پاکستان میں 8 فروری کو انتخابات کرانا آئینی ضرورت ہے اور اس تاریخ کو انتخابات کرانے کیلئے پاکستان میں ہر کوئی پرعزم ہے۔ ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پرسی این بی سی کے ساتھ انٹرویو میں انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستان کے عوام کے حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے اگلے پانچ سال کے لئے حکومت منتخب کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں عام انتخابات کی…
View On WordPress
0 notes
Text
پاکستانیوں کا فلسطین سے رشتہ کیا؟
جس کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہ ہو وہ اپنے طاقتور دشمن پر فتح پانے کیلئے موت کو اپنا ہتھیار بنا لیتا ہے۔ فلسطینیوں کی مزاحمتی تنظیم حماس کو بہت اچھی طرح پتہ تھا کہ اسرائیل پر ایک بڑے حملے کا نتیجہ غزہ کی تباہی کی صورت میں نکل سکتا ہے لیکن حماس نے دنیا کو صرف یہ بتانا تھا کہ اسرائیل ناقابل شکست نہیں اور مسئلہ فلسطین حل کئے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اب آپ حماس کو دہشت گرد کہیں یا جنونیوں کا گروہ کہیں لیکن حماس نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ کچھ عرب ممالک کے حکمران اسرائیل کے سہولت کار بن کر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں کرسکتے امن قائم کرنا ہے تو فلسطینیوں سے بھی بات کرنا پڑیگی۔ اس سوال پر بحث بے معنی ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کی طاقتور انٹیلی جنس ایجنسیاں حماس کے اتنے بڑے حملے سے کیسے بے خبر رہیں؟ حماس کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ��یخ احمد یاسین نے تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کے سربراہ یاسر عرفات سے مایوسی کے بعد حماس قائم کی تھی۔
شیخ احمد یاسین کو 2004ء میں اسرائیل نے نماز فجر کے وقت میزائل حملے کے ذریعہ شہید کر دیا تھا لہٰذا حماس اور اسرائیل میں کسی بھی قسم کی مفاہمت کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اگست 2021ء میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد یہ طے تھا کہ فلسطین اور کشمیر میں مزاحمت کی چنگاریاں دوبارہ بھڑکیں گی۔ فلسطین اور کشمیر کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ یہ تعلق مجھے 2006ء میں لبنان کے شہر بیروت کے علاقے صابرہ اورشتیلا میں سمجھ آیا۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں اسرائیلی فوج نے 1982ء میں فلسطینی مہاجرین کا قتل عام کرایا تھا۔ 2006ء کی لبنان اسرائیل جنگ کے دوران میں کئی دن کیلئے بیروت میں موجود رہا۔ ایک دن میں نے اپنے ٹیکسی ڈرائیور کے سامنے مفتی امین الحسینی کا ذکر کیا تو وہ مجھے صابرہ شتیلا کے علاقے میں لے گیا جہاں شہداء کے ایک قبرستان میں مفتی امین الحسینی دفن ہیں۔ مفتی امین الحسینی فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت کے بانیوں میں سےتھے۔ مفتی اعظم فلسطین کی حیثیت سے انہوں نے علامہ اقبال ؒ، قائد اعظم ؒ اور مولانا محمد علی جوہر ؒسمیت برصغیر کے کئی مسلمان رہنمائوں کو مسئلہ فلسطین کی اہمیت سے آشنا کیا۔
2006ء میں امریکی سی آئی اے نے ان کے بارے میں ایک خفیہ رپورٹ کو ڈی کلاسیفائی کیا جو 1951ء میں تیار کی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ مفتی امین الحسینی نے فروری 1951ء میں پاکستان کے شہر کراچی میں کشمیر پر منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت کی جس کے بعد وہ آزاد کشمیر کے علاقے اوڑی گئے اور انہوں نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کی حمایت کی۔ اسی دورے میں وہ جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا گئے اور وہاں کے قبائلی عمائدین سے ملاقات کی۔ ایک قبائلی رہنما نے مفتی امین الحسینی کو ایک سٹین گن کا تحفہ دیا جو اس نے 1948ء میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج سے چھینی تھی۔ مفتی صاحب نے وزیر قبائل سے درخواست کی کہ وہ پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں کا حصہ نہ بنیں۔ امریکی سی آئی اے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سے مفتی صاحب کابل گئے اور انہوں نے بیت المقدس کے امام کی حیثیت سے افغان حکومت سے اپیل کی کہ وہ ’’پشتونستان‘‘ کی سازش کا حصہ نہ بنیں۔
ان کے مزار پر فاتحہ خوانی کے بعد مجھے ایک بزرگ فلسطینی ملا اور اس نے کہا کہ وہ بہت سوچتا تھا کہ مفتی اعظم فلسطین کو اتنی دور پاکستان جانے کی کیا ضرورت تھی اور کشمیریوں کی اتنی فکر کیوں تھی لیکن آج ایک پاکستانی کو ان کی قبر پر دیکھ کر سمجھ آئی کہ پاکستانیوں کو فلسطینیوں کے لئے اتنی پریشانی کیوں لاحق رہتی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے تحریک پاکستان کے ساتھ ساتھ فلسطین اور کشمیر کیلئے تحریکوں میں بھی دل وجان سے حصہ لیا اس لئے عام پاکستانی فلسطین اور کشمیر کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے 3 جولائی 1937ء کو اپنے ایک تفصیلی بیان میں کہا تھا کہ عربوں کو چاہئے کہ اپنے قومی مسائل پر غوروفکر کرتے وقت اپنے بادشاہوں کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ یہ بادشاہ اپنے ضمیروایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کسی صحیح فیصلے پر نہیں پہنچ سکتے۔ قائد اعظم ؒنے 15 ستمبر 1937ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لکھنؤمیں مسئلہ فلسطین پر تقریر کرتے ہوئے برطانیہ کو دغا باز قرار دیا۔
اس اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعہ تمام مسلم ممالک سے درخواست کی گئی کہ وہ بیت المقدس کو غیر مسلموں کے قبضے سے بچانے کیلئے مشترکہ حکمت عملی وضع کریں۔ پھر 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لاہور میں بھی مسئلہ فلسطین پر ایک قرار داد منظور کی گئی۔ میں ان حقائق کو ان صاحبان کی توجہ کیلئے بیان کر رہا ہوں جو دعویٰ کیا کرتے تھے کہ قیام پاکستان تو دراصل انگریزوں کی سازش تھی اور قائد اعظم ؒنے 23 مارچ کی قرارداد انگریزوں سے تیار کرائی۔ ۔اگر قائداعظم ؒ انگریزوں کے ایجنٹ تھے تو انگریزوں کے دشمن مفتی امین الحسینی سے خط وکتابت کیوں کرتے تھے اور اسرائیل کے قیام کیلئے برطانوی سازشوں کی مخالفت کیوں کرتے رہے ؟ سچ تو یہ ہے کہ برطانوی سازشوں کے نتیجے میں قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کو امریکہ کے بعد اگر کسی ملک کی سب سے زیادہ حمایت حاصل ہے تو وہ بھارت ہے۔ آج بھارت میں مسلمانوں کےساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھا اور اس ظلم وستم کا ردعمل حماس کے حملے کی صورت میں سامنے آیا۔ علامہ اقبال ؒ نے فلسطینیوں کو بہت پہلے بتا دیا تھا کہ
تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے
فیض احمد فیض نے تو فلسطین کی تحریک آزادی میں اپنے قلم کے ذریعہ حصہ لیا اور 1980ء میں بیروت میں یہ اشعار کہے۔
جس زمیں پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم لہلہاتا ہے وہاں ارض فلسطیں کا علم
تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطیں برباد میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد
ابن انشاء نے ’’دیوار گریہ‘‘ کے عنوان سے اپنی ایک نظم میں عرب بادشاہوں پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا
وہ ��و فوجوں کے اڈے بنایا کریں آپ رونق حرم کی بڑھایا کریں
��یک دیوار گریہ بنائیں کہیں جس پر مل کے یہ آنسو بہائیں کہیں
اور حبیب جالب بھی کسی سے پیچھے نہ رہے انہوں نے فلسطینی مجاہدین کو کعبے کے پاسبان قرار دیتے ہوئے ان کے مخالفین کے بارے میں کہا۔
ان سامراجیوں کی ہاں میں جو ہاں ملائے وہ بھی ہے اپنا دشمن، بچ کے نہ جانے پائے
حامد میر
بشکریہ روزنامہ جنگ
3 notes
·
View notes
Text
اونے پونے افغان ہمارے کس کام کے
دو ہزار دس کے سیلابِ عظیم میں چوتھائی پاکستان ڈوب گیا۔ دیہی علاقوں میں پھنس جانے والوں کے ہزاروں مویشی سیلاب میں بہہ گئے اور جو بچ گئے انھیں بھی اپنے خرچے پورے کرنے کے لیے اونے پونے بیچنا پڑا۔ سیلاب کے ماروں کے ہم زبان و ہم علاقہ و ہم عقیدہ بیوپاریوں نے مصیبت کو کاروبار میں بدل دیا۔ میں نے مظفر گڑھ کے سیلاب زدہ علاقوں میں دیکھا کہ جانوروں کے بیوپاری حفاظتی بندوں پر گدھ کی طرح منڈلا رہے تھے۔ جس گائے یا بیل کی قیمت عام حالات میں پچاس ہزار روپے تھی۔ اس کی بولی پندرہ سے بیس ہزار روپے لگائی گئی۔ کوئی بھی بیوپاری پانچ ہزار کی بکری اور دنبے کا ساڑھے سات سو روپے سے زائد دینے پر آمادہ نہیں تھا۔ جبکہ مرغی کی قیمت پچاس سے ستر روپے لگائی جا رہی تھی اور سیلاب زدگان کو اس بلیک میلنگ سے بچنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ یہ قصہ یوں یاد آ گیا کہ ان دنوں یہ خبریں تواتر سے آ رہی ہیں کہ جن افغان مہاجرین کو پاکستان میں جنم لینے والی دوسری، تیسری اور چوتھی نسل کے ہمراہ افغانستان بھیجا جا رہا ہے۔ انھیں فی خاندان صرف پچاس ہزار روپے لے جانے کی اجازت ہے۔ وہ اپنے مویشی نہیں لے جا سکتے۔
بہت سوں نے پاکستان میں مقامی خاندانوں میں شادیاں کیں۔ ان کے بچے اور پھر بچوں کے بچے ہوئے۔ انھوں نے ٹھیلے لگائے، دوکانیں کھولیں، ٹرانسپورٹ کا کام کیا۔ بہت سے مقامی بیوپاری ان کے لاکھوں روپے کے مقروض ہیں۔ پاکستانی شہری نہ ہونے کے سبب جن مقامی لوگوں کی شراکت داری میں انھوں نے کاروبار کیا۔ ان میں سے بہت سوں نے اب آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں۔ ان کے گھروں اور دوکانوں کی قیمت ساٹھ سے ستر فیصد تک گر چکی ہے۔ ان مہاجروں کو نہیں معلوم کہ سرحد پار پچاس ہزار روپے سے وہ کیا کام کریں گے۔ ان کی زیرِ تعلیم بچیاں افغانستان کے کس سکول میں پڑھیں گی؟ جن خاندانوں کی کفالت عورتیں کر رہی ہیں ان عورتوں کو افغانستان میں کون گھروں سے باہر نکلنے دے گا؟ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ ان پناہ گزینوں کو تمام ذاتی سامان کے ساتھ ساتھ املاک اور کاروبار کی فروخت سے ملنے والے پیسے ہمراہ لے جانے کی اجازت دے دی جاتی۔ یہ بھی ممکن تھا کہ ان سب کو دوبارہ اٹھا کے کیمپوں میں رکھ دیا جاتا اور ان کیمپوں کی ذمہ داری مشترکہ طور پر قانون نافذ کرنے والوں اور اقوامِ متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزیناں ِ( یو این ایچ سی آر ) کے سپرد کر دی جاتی۔ اس بابت ایرانی ماڈل کا مطالعہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہ تھا۔
یہ بھی ممکن تھا کہ تب تک انتظار کر لیا جاتا جب تک پاکستان سمیت عالمی برادری کابل حکومت کو سفارتی سطح پر تسلیم نہ کر لیتی۔ یا افغانستان میں انسانی حقوق کے حالات سے مطمئن نہ ہو جاتی اور اس کے بعد اقوام ِ متحدہ کے متعلقہ اداروں کے مشورے سے مہاجرین کی واپسی کی کوئی باعزت پالیسی مرتب کر کے اس پر خوش اسلوبی سے عمل کیا جاتا تاکہ بہت سے عالمی ادارے اور حکومتیں ان مہاجرین کی وطن واپسی کے بعد انھیں اپنے پاؤں پر کھڑا رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ بنیادی سہولتیں دان کر دیتیں۔ مجھے ذاتی طور پر کسی غیرقانونی تارکِ وطن سے ہمدردی نہیں۔ مگر ہر سال لگ بھگ آٹھ لاکھ پاکستانی بھی غیرقانونی طور پر ملک چھوڑ کے یورپ اور دیگر براعظموں کا رخ کر رہے ہیں۔ جہاں رفتہ رفتہ انھیں بنیادی سہولتیں اور حقوق میسر آ ہی جاتے ہیں۔ کیا آپ نے حال فی الحال میں کبھی سنا کہ کسی مغربی ریاست نے چالیس برس سے ملک میں رہنے والے غیرقانونی تارکین وطن کو اجتماعی طور پر وہاں پیدا ہونے والے بچوں اور ان کے بچوں سمیت باہر نکال دیا ہو؟ اگر مغرب بھی ایسی ہی پالیسی اپنا لے تو فوراً تنگ نظری، نسلی امتیاز، تعصب کا ٹھپہ ہم ہی لوگ لگانے میں پیش پیش ہوں گے۔
بنگلہ دیش چاہتا تو شہریت سے محروم لاکھوں اردو بولنے والے مشرقی پاکستانیوں کو بیک بینی و دو گوش ملک سے نکال سکتا تھا۔ مگر پچاس برس ہونے کو آئے یہ مشرقی پاکستانی جن کی تعداد اب چند ہزار رہ گئی ہے۔ آج بھی ڈھاکہ کے جنیوا کیمپ میں ریڈکراس کی مدد سے جی رہے ہیں۔ بنگلہ دیش لاکھوں روہنگیوں کا بوجھ بھی بٹا رہا ہے جن میں سے آدھوں کے پاس کاغذ ہی نہیں۔ اب کہا جا رہا ہے کہ بلا دستاویزات مقیم افغانوں کی بے دخلی کے بعد ان افغانوں کی باری آنے والی ہے جن کے پاس اپنی مہاجرت قانوناً ثابت کرنے کی دستاویزات موجود ہیں۔ مگر ان دستاویزات کی معیاد ہر دو برس بعد ��ڑھانا پڑتی ہے اور حکومتِ پاکستان کا اس بار ان کی مدت میں اضافے کا کوئی موڈ نہیں۔ حالانکہ اقوامِ متحدہ کے بقول یہ لاکھوں مہاجرین پناہ گزینیت سے متعلق انیس سو اکیاون کے بین الاقوامی کنونشن کی طے شدہ تعریف پر پورے اترتے ہیں اور انھیں ایک غیر محفوط ملک میں واپس جبراً نہیں دھکیلا جا سکتا۔ مگر پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے کسی ملک نے اس کنونشن پر دستخط نہیں کیے۔
اسی سے ملتی جلتی پالیسی اکیاون برس قبل یوگنڈا کے فوجی آمر عیدی امین نے اپنائی تھی جب انھوں نے لگ بھگ ایک صدی سے آباد نوے ہزار ہندوستانی نژاد باشندوں ( ایشیائی ) کو نوے دن میں ملک چھوڑنے کا حکم دیا اور فی خاندان محض دو سو بیس ڈالر ساتھ لے جانے کی اجازت دی۔ جن پاکستانی فیصلہ سازوں نے کالعدم ٹی ٹی پی اور کابل حکومت کے خلاف غصے کو تمام افغان پناہ گزینوں پر برابر تقسیم کر کے بندر کی بلا طویلے کے سر ڈالنے کی یہ پالیسی وضع کی ہے۔ ان فیصلہ سازوں کی اکثریت کے پاس آل اولاد سمیت دوہری شہریت ہے اور یہ دوہری شہریت بھی ان ممالک کی ہے جہاں ہر سال لاکھوں غیر قانونی تارکینِ وطن پہنچتے ہیں اور وہ ایک مخصوص مدت میں متعلقہ قانونی ضوابط سے گذر کے بالاخر قانونی بنا دئیے جاتے ہیں۔ چالیس برس پہلے افغانوں کو اسلامی بھائی کہہ کے خوش آمدید کہا گیا اور ان کے کیمپ دکھا دکھا کے اور مظلومیت بیچ بیچ کر ڈالر اور ریال وصولے گئے۔ کس نے وصولے اور کہاں لگائے۔ خدا معلوم۔ جب گائے دودھ دینے کے قابل نہیں رہتی تو چارے کا خرچہ بچانے کے لیے اسے چمڑہ فروشوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
Text
پاکستان کس بنیاد پر افغان پناہ گزینوں کو ملک بدر کر رہا ہے؟
پاکستان بھر میں افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری کا جاری عمل رکاوٹوں اور بدانتظامی کا شکار ہے، جس کی وجہ سے ہر طرف مصائب و تکالیف کا سلسلہ ہے۔ مثال کے طور پر ایک نوجوان افغان کو اس کے خاندان سے الگ کر دیا گیا، جب کہ اس کی بیوی اور دو ماہ کے بچے کو کہیں اور لے جایا گیا۔ نوجوان گرنے ہی والا تھا کیونکہ کوئی اسے نہیں بتا رہا تھا کہ اس کی بیوی اور بچے کو کہاں رکھا گیا ہے۔ پولیس تشدد کے واقعات عام ہیں۔ ’ہولڈنگ سینٹرز‘ بدانتظامی، ساز و سامان سے عاری اور تشدد آمیز ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کی بےدخلی میں بدانتظامی کا یہ عالم ہے کہ دستاویزات رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی پکڑا جا رہا ہے، ہراساں کیا جا رہا ہے اور ہولڈنگ سنٹرز میں رکھنے کے لیے ٹرکوں پر لادا جا رہا ہے، بےبس متاثرین کی تذلیل کی جا رہی ہے۔ اس سارے ذلت آمیز تماشے میں کچھ حقائق کو سہولت سے نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ کیا پاکستان میں رجسٹریشن حاصل کرنا بےگھر افراد کی ذمہ داری تھی؟ نہیں۔ یہ پاکستانی حکام کا فرض تھا کہ وہ تمام پناہ گزینوں تک پہنچیں اور انہیں عارضی شناختی دستاویزات دیں۔
ان کی رجسٹریشن کرانے میں ناکامی نظام کی ناکامی ہے، افغان مہاجرین کی نہیں۔ انہیں صرف 20 دن کا نوٹس دینا انصاف کا مذاق ہے۔ تصور کریں کہ ایک خاندان تین دہائیوں سے کسی گاؤں یا قصبے میں رہ رہا ہے اور پھر اسے 20 دنوں کے اندر سب کچھ سمیٹ کر وہاں سے نکل جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ بین الاقوامی قانون کے تحت، کوئی بھی میزبان ملک کسی ایسے خاندان کو زبردستی بےدخل نہیں کر سکتا جو ظلم و ستم، عدم تحفظ یا شدید غربت یا فاقہ کشی کے خوف کی وجہ سے اپنا اصل ملک چھوڑنے پر مجبور ہوا ہو۔ افغان معیشت تباہی کا شکار ہے۔ ملک کو بین الاقوامی بینکاری اور مالیاتی نظام سے الگ کر دیا گیا ہے۔ امریکہ نے امریکی بینکوں میں موجود افغان حکومت کے چھ ارب ڈالر کے اثاثے جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ امریکہ کے یورپی اتحادی اپنے بینکوں میں موجود افغان حکومت کے مزید دو ارب ڈالر کے اثاثے روک کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ امریکہ واضح طور پر نظام کے خاتمے کو یقینی بنانا چاہتا ہے، لیکن یہ ایسا ہدف ہے جس کے حاصل ہونے کا امکان نہیں ہے۔
لیکن پاکستان اس فیصلے سے ایسا کیا حاصل کرنا چاہتا ہے جو آنے والی کئی دہائیوں تک پاکستان افغان تعلقات پر اثرات مرتب کرے گا؟ پہلی بات تو یہ واضح ہے کہ یہ فیصلہ کرنے سے پہلے کوئی مشاورت نہیں کی گئی جس کی وجہ سے افغان حکومت میں پاکستان کے خلاف اتنی دشمنی پیدا ہوئی ہے۔ اس معاملے پر سٹیک ہولڈرز سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی، خاص طور پر خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی سیاسی جماعتوں سے جہاں زیادہ تر مہاجرین موجود ہیں۔ 15 لاکھ لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کرنے والے اتنے اہم فیصلے کے فائدے اور نقصانات پر کوئی بحث نہیں ہوئی، جسے کرنے کا نگران حکومت کے پاس اختیار ہی نہیں تھا۔ پھر ایسا فی��لہ کیسے ہوا؟ افغان مہاجرین پاکستان کی معیشت پر بوجھ نہیں ہیں۔ وہ سب اپنی دیکھ بھال خود کر رہے ہیں۔ وہ کبھی ملک میں کسی منظم بدامنی میں ملوث نہیں رہے اور نہ ہی انہوں نے مقامی سیاست میں حصہ لیا ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہیں مقامی کمیونٹیز سے کوئی مسئلہ نہیں ہے جنہوں نے کبھی اپنی زمینوں سے ان کی بےدخلی کا مطالبہ نہیں کیا۔
ان تمام برسوں میں مقامی لوگوں اور افغانوں کے درمیان مکمل ہم آہنگی رہی ہے۔ اور اب، اس قدر اچانک بےبس افغانوں پر آسمان ٹوٹ پڑا ہے، حالانکہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ مہاجرین میں سے کوئی بھی سرحد پر حملوں میں ملوث رہا ہو۔ یہ حملے داعش یا تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی طرف سے کیے جا رہے ہیں اور وہی ان کی ذمہ داری قبول کرتے آئے ہیں۔ طالبان حکومت اس ناروا سلوک اور اسلام آباد کے معاندانہ رویے کو قبول نہیں کرے گی۔ کابل اس غیر ضروری، غیر منصفانہ علیحدگی کے ساتھ مفاہمت نہیں کرے گا۔ کیا پاکستان میں رجسٹریشن حاصل کرنا بےگھر افراد کی ذمہ داری تھی؟ نہیں۔ یہ پاکستانی حکام کا فرض تھا کہ وہ تمام پناہ گزینوں تک پہنچیں اور انہیں عارضی شناختی دستاویزات دیں۔ پاکستانی حکومت نے ایک ہی جھٹکے میں ہمدردی، حمایت اور تعاون کے تمام جذبات کو ہوا میں پھینک دیا ہے جس کے بعد ایک نئی حرکیات نے جنم لیا ہے۔ اب ایک دیوانگی اور غلط سوچ پر مبنی فیصلے کے ذریعے نئی تاریخ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ افغان حکومت سے اس کی ٹوٹی پھوٹی معیشت اور نظام سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ افغانستان کے سخت موسمِ سرما میں پاکستان سے واپس آنے والوں کو پناہ، خوراک، پانی اور ادویات فراہم کرنے کی بھاری ذمہ داریاں سنبھالے۔ ان لاکھوں غریبوں کے مصائب اور حالت زار کی یاد تادیر زندہ رہے گی۔
رستم شاہ مہمند
(رستم شاہ مہمند افغانستان اور وسط ایشیا کے امور کے ماہر ہیں۔ انہوں نے افغانستان میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور ایک دہائی تک چیف کمشنر مہاجرین کے عہدے پر بھی فائز رہے۔)
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
Text
سندھ ہائیکورٹ؛ افغان کیمپوں میں سہولیات فراہمی کی درخواست مسترد
کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے افغان کیمپوں میں سہولیات فراہمی سے متعلق درخواست مسترد کردی۔ افغان مہاجرین کے کیمپوں میں سہولیات فراہم کرنے کی درخواست سندھ ہائی کورٹ نے ابتدائی سماعت ہی پر مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ پاکستان عالمی یتیم خانہ نہیں کہ سب کو پناہ دی جائے۔ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس احمد علی شیخ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ کے روبرو افغان مہاجرین کے کیمپوں میں سہولیات فراہم کرنے کی…
View On WordPress
0 notes
Text
غیرقانونی طور پر پاکستان میں داخل 200 افغان مہاجرین ملک بدر
غیرقانونی طور پر پاکستان میں داخل 200 افغان مہاجرین ملک بدر
غیرقانونی طور پر ملک میں داخل ہونے والے 200 افغان مہاجرین کو ملک بدر کر دیا گیا ، یہ افغان شہری مختلف مقامات سے پاکستان میں داخل ہو کر چمن پہنچے تھے اور چند روز سے ریلوے اسٹیشن پر مقیم تھے تاہم حکام کی جانب سے انہیں سرحدی علاقے میں مزید قیام کی اجازت نہیں دی گئی ۔ صوبہ قندوز سے تعلق رکھنے والے افغان شہری دو روز قبل کوئٹہ پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے اور انہوں نے رہائش کے لیے صوبائی دارالحکومت کے…
View On WordPress
0 notes
Text
افغان مہاجرین کی ممکنہ آمد: خیبر پختونخوا میں کیمپ لگانے کا منصوبہ
افغان مہاجرین کی ممکنہ آمد: خیبر پختونخوا میں کیمپ لگانے کا منصوبہ #Afghanistan #Taliban #aajkalpk
پشاور: امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک انسانی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ذرائع کے مطابق خیبرپختونخوا کے نئے ضم شدہ اضلاع کے حکام نے ممکنہ بحران سے بچنے کیلیے افغان مہاجرین کی میزبانی کیلئے ہنگامی منصوبہ تجویز کیا ہے۔ مہاجرین کو طورخم، چمن، غلام خان اور ارندو کے راستے پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی اور وہ خیبر پختونخوا کے تین اضلاع خیبر ، شمالی وزیرستان…
View On WordPress
0 notes
Text
میں اب لاکھوں افغان مہاجرین میں سے ایک ہوں | آراء
میں اب لاکھوں افغان مہاجرین میں سے ایک ہوں | آراء
جب طالبان نے اگست میں کابل پر قبضہ کیا، لاکھوں دیگر افغانوں کی طرح، یہ میرے لیے صدمے کی طرح تھا۔ ان کی حکومت کے پہلے دنوں میں، ڈیلی آؤٹ لک افغانستان اخبار کا دفتر، جہاں میں بطور صحافی کام کرتا تھا، بند کر دیا گیا اور میرے بہت سے ساتھیوں نے فوری طور پر ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ ان میں سے ایک، علیرضا احمدی، جس کے ساتھ میں نے چار سال تک کام کیا، ایسا کرنے کی کوشش میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 26…
View On WordPress
0 notes
Text
امریکا کے لیے خدمات انجام دینے والے افغان شہریوں کے تحفظ کے لیے امریکی نائب وزیر خارجی کی اسلام آباد آمد
امریکا کے نائب وزیر خارجہ رچرڈ راہل ورما نے مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے دورے کے آخری مرحلے میں اسلام آباد میں اعلیٰ حکام، عالمی تنظیموں اور ہم خیال شراکت داروں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ امریکی نائب وزیر خارجہ نے افغان باشندوں کو ان کے ملک میں دوبارہ آباد کرنے سے متعلق امور کا بھی جائزہ لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جن افغان باشندوں نے امریکا کے لیے خدمات انجام دی ہیں انہیں تحفظ فراہم کرنا اور بنیادی…
View On WordPress
0 notes
Text
پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کے لیے دروازے کھول دیئے۔
پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کے لیے دروازے کھول دیئے۔
اسلام آباد: پاکستان بدھ کو اسلام آباد پہنچنے پر افغان سفارتکاروں اور اعلیٰ حکام کو ٹرانزٹ ویزا کا خصوصی پیکج پیش کیا گیا ، کیونکہ کابل میں پاکستانی سفارتخانے نے پاکستانیوں ، افغانیوں اور دوسرے ممالک کے شہریوں کے لیے قونصلر خدمات میں توسیع جاری رکھی اور ملک چھوڑنے میں ان کی مدد کی۔ کابل میں بگڑتی صورتحال کے پیش نظر ، اتوار کو شہر کے سقوط کے بعد ، حکومت نے تمام پاکستانی ہوائی اڈے چوبیس گھنٹے غیر…
View On WordPress
#Pakistan opens doors for Afghan refugees#افغان سرحد۔#افغان مہاجرین۔#امریکی انخلا#بائیڈن#پاکستان#پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کے لیے دروازے کھول دیئے۔
0 notes
Text
20 ہزار افغان مہاجرین کوبرطانیہ میں آباد کرنے کا اعلان
20 ہزار افغان مہاجرین کوبرطانیہ میں آباد کرنے کا اعلان
برطانیہ نے 20 ہزار افغان مہاجرین کو آباد کرنے کا اعلان کردیا.برطانوی ہوم آفس سے جاری بیان میں کہا گیا ہےکہ 20 ہزار افغان مہاجرین کو برطانیہ میں آباد کیا جائے گا جس کے تحت پہلے سال 5 ہزار افغان مہاجرین برطانیہ میں آباد ہونے کے اہل ہوں گے۔ ئرل ہوم آفس کا کہنا ہےکہ خواتین، لڑکیوں اور دیگر کو برطانیہ میں آباد ہونے کیلئے ترجیح دی جائے گی۔ دوسری جانب برطانوی میڈیا کا بتانا ہےکہ افغانستان کی صورت حال…
View On WordPress
0 notes
Text
افغان مہاجرین اور کمہار کا گدھا
نا کوئی یہ پہلا موقع ہے نہ ہی آخری کہ غیر قانونی افغان مہاجرین کو پاکستان سے نکل جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ چھلے چالیس برس سے سارا گیم اندازوں پر چل رہا ہے۔ مثلاً دراصل کتنے پناہ گزین پاکستان میں موجود ہیں؟ پینتالیس لاکھ، چالیس لاکھ یا تیس لاکھ؟ ان میں رجسٹرڈ کتنے ہیں؟ چودہ لاکھ، دس لاکھ، آٹھ لاکھ؟ بغیر دستاویزات کے کتنے ہیں سترہ لاکھ یا پونے آٹھ لاکھ؟ واپس کتنے گئے اور دوبارہ آ گئے؟ اگست دو ہزار اکیس میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد کتنے نئے پناہ گزین آئے؟ پونے دو لاکھ، ساڑھے تین لاکھ یا چھ لاکھ؟ کتنے روزانہ سرحد پار سے آتے ہیں اور کہاں کہاں جاتے ہیں؟ ان میں سے کتنے اقوامِ متحدہ کے وظیفے پر گزارہ کر رہے ہیں؟ کتنے اپنا کاروبار کر رہے ہیں اور کتنے پاکستانیوں کے کاروباری شراکت دار ہیں؟ مذکورہ بالا سوالوں میں سے کسی ایک کا حتمی جواب نہ تو حکومتِ پاکستان کے کسی ایک ادارے کے پاس ہے اور نہ ہی اقوامِ متحدہ کے پاس۔ جب یہ بنیادی معلومات ہی آپس میں نہیں ملتیں تو پھر کس بنیاد پر یہ اعلان کیا گیا کہ اگر اکتیس اکتوبر تک غیر قانونی تارکینِ وطن نے پاکستان نہیں چھوڑا تو انہیں حراست میں لے کے ڈی پورٹ کر دیا جائے گا۔
پاکستان میں محض افغان ہی نہیں بلکہ بنگالی، برمی، ایرانی، وسطی ایشیائی اور مشرقِ وسطی و شمالی افریقہ کے بھی باشندے موجود ہیں۔ فرض کریں کہ حکومتِ پاکستان واقعی ان سب کو نکالنے میں سنجیدہ ہے تو عملاً یہ کیسے ہو پائے گا؟ ایسے ہر کریک ڈاؤن میں ہراول ادارہ مقامی پولیس ہوتی ہے۔ کیا کسی جامع کریک ڈاؤن کے لیے پولیس کے پاس ضروری تکنیکی تربیت و آگہی ہے؟ تاکہ غیر قانونی گیہوں کے ساتھ ساتھ قانونی گھن نہ پس جائے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ ہر بار ایسی مہم میں پولیس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ اندھا دھند گرفتاریاں ہوتی ہیں اور پھر قانونی و جائز غیر ملکیوں کو بھی خوف و ہراس میں مبتلا کر کے پیسے لے کے چھوڑا جاتا ہے۔ فرض کریں کریک ڈاون کے نتیجے میں افغان پناہ گزینوں سمیت ہر قومیت کے مجموعی طور پر پانچ لاکھ افراد حراست میں لے لیے جاتے ہیں۔ مگر افغانستان، بنگلہ دیش، ایران یا کوئی بھی عرب ملک ان پناہ گزینوں کو واپس لینے سے انکار کر دیتا ہے۔ تب حکومتِ پاکستان ان لاکھوں غیر قانونی پناہ گزینوں کو کہاں اور کتنی دیر رکھے گی؟ اس مہم کو بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے ایک عالمگیر انسانی مسئلہ بننے سے کیسے روکے گی؟
فرض کریں کہ یہ سب ممالک اپنے اپنے شہریوں کو واپس لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ ان کی ٹرانسپورٹیشن کیسے ہو گی؟ اس ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات کون دے گا؟ میزبان ملک؟ اپنے لوگ وصول کرنے والا ملک؟ اقوامِ متحدہ یا کوئی اور ادارہ؟ اگر یہ اتنا ہی آسان ہوتا تو مغربی افریقہ کے ملک گیمبیا نے میانمار کے لگ بھگ پانچ لاکھ روہنگیا پناہ گزینوں کو اپنے ہاں بسانے کی پیش کش کی تھی۔ شرط یہ تھی کہ اسلامی کانفرنس کی تنظیم یا پھر متمول ممالک انہیں طیاروں یا بحری جہازوں کی مدد سے گیمبیا پہنچا دیں۔ مگر یہ اتنا بڑا اور مہنگا کام تھا کہ امیر خلیجی ریاستوں نے بھی کانوں کو ہاتھ لگا لیا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ گذشتہ ایک عشرے سے روہنگیا پناہ گزین کس طرح اور کہاں کہاں خانماں برباد ہیں۔ ایران میں اس وقت لگ بھگ چونتیس لاکھ افغان پناہ گزین ہیں۔ ان میں سے سات لاکھ اسی ہزار کے پاس ضروری دستاویزات ہیں جبکہ باقی یا تو عارضی شناختی کارڈ پر ہیں یا پھر دستاویزات کے بغیر۔ ان میں سے لگ بھگ چھ لاکھ پناہ گزین طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد آئے۔
اگرچہ چورانوے فیصد مہاجرین شہری علاقوں میں اور چار فیصد ایران افغان سرحد کے ساتھ ساتھ بیس کیمپوں میں رہتے ہیں۔ مگر ان کی نقل و حرکت محدود ہے۔ انہیں روزگار کے لیے عارضی ورک پرمٹ بنوانا پڑتا ہے۔ ایرانی انٹیلی جینس ہمہ وقت نظر بھی رکھتی ہے اور حساس اداروں کے پاس ان کی نقل و حرکت کا ریکارڈ رہتا ہے۔ انہیں محدود پیمانے پر صحت و تعلیم کی سہولتیں بھی حاصل ہیں۔ لیکن اگر کوئی پناہ گزین بغیر کسی دستاویز کے پکڑا جائے یا مقامی قانون کو توڑنے کا مرتکب ہو تو اسے فوری طور پر ڈی پورٹ کر دیا جاتا ہے۔ حالیہ برس کے پہلے چھ ماہ میں لگ بھگ ڈھائی لاکھ پناہ گزینوں کو واپس سرحد پار بھیجا گیا۔ جب افعانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد پناہ گزینوں کی ایک نئی لہر پاکستان میں داخل ہوئی تو اس وقت کی عمران حکومت نے اعلان کیا کہ نئے آنے والوں کو ملک بھر میں پھیلنے سے روکنے کے لیے سرحد کے ساتھ ساتھ بیس کلومیٹر کی پٹی میں قائم کردہ کیمپوں میں رکھا جائے گا۔ ایسے کتنے کیمپ بنائے گئے؟ خدا بہتر جانتا ہے۔ نئے آنے والے پناہ گزین بھی پہلے سے موجود پناہ گزینوں کی بھیڑ میں جذب ہو گئے۔
اس وقت کئی لاکھ پناہ گزین وہ ہیں جن کی تین نسلوں نے افغانستان نہیں دیکھا۔ جو بچے اور ان کے بچے اور ان کے بچے پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں۔ انہیں کس کیٹیگری میں رکھا جائے گا اور افغانستان کی کوئی بھی حکومت آخر انہیں کیوں قبول کرے گی ؟ اکثر متمول پناہ گزین پاکستان کے راستے خلیجی ممالک، یورپ اور امریکہ چلے جاتے ہیں۔ جو متوسط پناہ گزین ہیں وہ پاکستانی شناحتی کارڈ اور پاسپورٹ پر سفر کرتے ہیں۔ پاکستانی حکام دو ہزار سولہ تک اس منظم ریکٹ سے انکار کرتے رہے مگر جب مئی دو ہزار سولہ میں طالبان کے امیر المومنین ملا اختر منصور ایران سے پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے امریکی ڈرون حملے کا نشانہ بنے اور ان کی گاڑی سے پاکستانی شہریت کی دستاویزات برآمد ہوئے۔ اس کے بعد پاکستانی اداروں نے جھینپ مٹانے کے لیے ایک اندرونی ادارہ جاتی کریک ڈاؤن شروع کیا اور وہ بھی کچھ ہفتے میں ہانپ گیا۔ سرحد پار سے کالعدم ٹی ٹی پی کے حملوں میں حالیہ تیزی کے بعد پاکستانی ریاست کو پھر غصہ آیا ہے اور ہر بار کی طرح یہ غصہ پناہ گزینوں پر ہی نکل رہا ہے۔ مگر یہ غصہ بھی چائے کی پیالی میں طوفان کی طرح جلد تھم جائے گا۔ کیونکہ بغیر تیاری کے غصے کا ایک ہی انجام ہوتا ہے۔ آپ میں سے کون کون اس محاورے سے ناواقف ہے کہ ”کمہار پے بس نہ چلا تو گدھے کے کان اینٹھ دئیے”
وسعت اللہ خان
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
0 notes
Photo
سندھ حکومت نے سترہ سال بعد افغان مہاجرین کی ازسرنو رجسٹریشن کرنے کا فیصلہ کر لیا کراچی(نیوزڈیسک) سندھ حکومت نے 17 سال بعد افغان مہاجرین کی ازسرنو رجسٹریشن کرنے کا فیصلہ کیاہے۔صوبائی محکمہ داخلہ نے متعلقہ اداروں اور وفاقی وزارتوں کے ساتھ افغانیوں کے معاملے پر خط وکتابت شروع کردی ہے۔2003کے بعد سے سندھ میں مقیم افغان مہاجرین کی رجسٹریشن نہیں ہو سکی تھی اسی وجہ سے کراچی سمیت سندھ بھر میں مقیم افغانیوں کا مستند ڈیٹا سندھ حکومت کے پاس موجود نہیں ہے۔کئی برسوں سے غیرقانونی مقیم افغانیوں
0 notes
Text
افغان مہاجرین کی متوقع آمد، رہائش کا ہنگامی منصوبہ تجویز
افغان مہاجرین کی متوقع آمد، رہائش کا ہنگامی منصوبہ تجویز
امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک انسانی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ذرائع کے مطابق خیبرپختونخوا کے نئے ضم شدہ اضلاع کے حکام نے ممکنہ بحران سے بچنے کیلیے افغان مہاجرین کی میزبانی کیلئے ہنگامی منصوبہ تجویز کیا ہے۔مہاجرین کو طورخم، چمن، غلام خان اور ارندو کے راستے پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی اور وہ خیبر پختونخواہ کے تین اضلاع خیبر ، شمالی وزیرستان اور…
View On WordPress
0 notes
Text
افغان مہاجرین کی ممکنہ آمد، پاکستان کے انتظامات مکمل
افغان مہاجرین کی ممکنہ آمد، پاکستان کے انتظامات مکمل
پاکستان نے افغانستان سے مہاجرین کی ممکنہ آمد سے متعلق انتظامات مکمل کر لیے ہیں۔ افغانستان سے 5 لاکھ سے 7 لاکھ مہاجرین پاکستان آسکتے ہیں، تاہم حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان سے مہاجرین قبول نہیں کریں گے۔ ذرائع کےمطابق افغان کمشنریٹ نے 3 کراسنگ پوائنٹس کے قریب مہاجر کیمپوں کے لیے مقامات کی نشاندہی کر لی ہے۔ افغان مہاجرین کے کیمپوں کے لیے شمالی وزیرستان اور چترال کے سرحدی علاقوں کا انتخاب کیا گیا…
View On WordPress
0 notes
Text
'یہاں ہم بھکاری ہیں': افغان مہاجرین مڈغاسکر میں پڑے ہوئے ہیں | طالبان نیوز
‘یہاں ہم بھکاری ہیں’: افغان مہاجرین مڈغاسکر میں پڑے ہوئے ہیں | طالبان نیوز
انتاناناریوو، مڈغاسکر – بی بی ماریہ اس کے فوراً بعد افغانستان سے فرار ہو گئیں جب طالبان نے ان کے شوہر جو کہ امریکی اور نیٹو فوجیوں کو سپلائی کرنے والے تھے، کو قتل کر دیا۔ یہ 2018 میں تھا، اور چار بچوں کی ماں نے کہا کہ اسے لگتا ہے کہ یہ پہلے کی بات ہے۔ دھمکیاں اس کے باقی خاندان کے خلاف احساس ہوا. افغانوں کے لیے چند ممالک کھلے ہونے کے بعد، اس نے مڈغاسکر جانے کا فیصلہ کیا، جو جنوب مشرقی افریقہ کے…
View On WordPress
0 notes