#خلیل حقانی
Explore tagged Tumblr posts
googlynewstv · 1 month ago
Text
افغان وزیر خلیل حقانی کا قتل پاکستان کے لیے بری خبر کیوں ہے؟
افغان عبوری  کے وزیر مہاجرین اور حقانی نیٹ ورک کے بانی جلال الدین حقانی کے بیٹے خلیل حقانی کا قتل طالبان کیلئے ایک بڑا دھچکہ تو ہے ہی لیکن یہ افسوسناک واقعہ پاکستان کیلئے بھی ایک بری خبر ہے کیونکہ خلیل حقانی کو طالبان کی حکومت میں پاکستان کا دوست تصور کیا جاتا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ حقانی برادران دہائیوں تک پاکستان میں رہائش پذیر رہے جہاں حقانی نیٹ ورک کی بنیاد بھی رکھی گئی۔ خلیل حقانی…
0 notes
topurdunews · 1 month ago
Text
افسوسناک خبر!کابل دھماکے میں حکومتی وزیر جاں بحق
(24 نیوز)افغانستان کے دارالحکومت کابل میں دھماکا، طالبان حکومت کے وزیر برائے مہاجرین جاں بحق ہوگئے،خلیل الرحمان حقانی کے بھتیجے انس حقانی نے تصدیق کردی ۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کی ر��ورٹ کے مطابق  افغانستان کے قائم مقام وزیر برائے مہاجرین، خلیل الرحمٰن حقانی دارالحکومت کابل میں ہونے والے ایک بم دھماکے میں جاں بحق ہوئے، ان کے بھتیجے انس حقانی نے بھی اس خبر کی تصدیق کی ہے۔ ضرورپڑھیں:اپوزیشن لیڈر کو…
0 notes
kokchapress · 1 month ago
Text
خلیل حقانی، وزیر مهاجرین و عودت کنندگان طالبان در یک انفجار در کابل کشته شد
منابع به آمو می‌گویند که لحظاتی پیش انفجاری در وزارت مهاجرین زیر اداره طالبان در کابل رخ داده است. منابع همچنین از احتمال کشته شدن خلیل رحمان حقانی وزیر مهاجرین طالبان در این انفجار سخن می‌گویند. اما این مورد تا اکنون تایید و یا رد نشده است. طالبان تا اکنون در باره این رویداد دست کم دو تن از رهبران ارشد طالبان تایید کردند که خلیل رحمان حقانی وزیر مهاجرین امروز در یک انفجار بمب در کابل کشته شده…
0 notes
breakpoints · 3 years ago
Text
'افغان پالیسی کا نیا مرحلہ': امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے استعفیٰ دے دیا
‘افغان پالیسی کا نیا مرحلہ’: امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے استعفیٰ دے دیا
امریکہ کے سابق خصوصی ایلچی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد تصویر: فائل۔ خلیل زاد لکھتے ہیں ، “افغان حکومت اور طالبان کے مابین سیاسی انتظامات آگے نہیں بڑھے۔” “اس کی وجوہات بہت پیچیدہ ہیں اور میں آنے والے دن اور ہفتوں میں اپنے خیالات کا اشتراک کروں گا۔” حسین حقانی کا کہنا ہے کہ “خلیل زاد نے کابل کی چابیاں طالبان کے حوالے کر دیں ان وعدوں کے بدلے ہر کوئی جانتا تھا کہ طالبان نہیں رکھیں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years ago
Text
طالبان کے باپ
طالبان کے باپ
میں جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے ساتھ ساتھ جمعیت العلمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا حامد الحق حقانی کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ جامعہ حقانیہ کی شہرت طالبان کو جنم دینے والے دینی مدرسے کی ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ یہاں سے ہی طالبان کے جتھے نکلے جنہوں نے پہلے نوے کی دہائی میں افغانستان فتح کیا، نائن الیون کے بعد مزاحمت کی ایک نئی تاریخ رقم کی اور اب اکیسویں صد ی کے تیسرے عشرے کے آغاز میں انہوں نے فتح مکہ کی تاریخ دہرائی ہے۔ مغربی میڈیا جامعہ حقانیہ کو’یونیورسٹی آف جہاد‘ کے نام سے بھی یاد کرتا ہے مگر حامد الحق حقانی اس امیج کی نفی کرتے ہیں۔ وہ تفصیل کے ساتھ بتا رہے تھے کہ ان کا مدرسہ افغانستان کے قریب ہے، وہ پشتو سپیکنگ ہیں۔ جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا اور پاکستان نے اپنے بارڈر کھولے تو افغان نوجوانوں کے لئے آسان تھا کہ وہ جامعہ حقانیہ آجاتے، وہاں تعلیم حاصل کرتے۔ وہ اس تاثر کی نفی کرتے ہیں کہ دارالعلوم حقانیہ میں فوجی تربیت دی جاتی تھی۔ وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ چند برس پہلے تک تو جامعہ کی چاردیواری بھی نہیں تھی اور وہاں ہر کوئی دیکھ سکتا تھا کہ کون سی تربیت دی جا رہی ہے۔ جامعہ حقانیہ حامد الحق حقانی کے دادامولانا عبدالحق نے 1947 میں قائم کیا تھا۔ اس مدرسے نے تحریک ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں اہم ترین کردارادا کیا۔ مولانا سمیع الحق کے دور میں افغانستان کا بحران پیدا ہوا اور وہ ’طالبان کے باپ‘ کہلائے۔ مولانا سمیع الحق کی شہادت کے بعد حامد الحق جمعیت العلمائے اسلام کے بھی سربراہ ہیں۔ دادا کے نام پر انہوں نے اپنے بیٹے کا نام عبدالحق ثانی رکھا ہے اور وہ بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔
میں نے حامد الحق حقانی سے پوچھا، جب طالبان نے کابل فتح کر لیا، آپ کے مدرسے کے بہت سارے سابق طالب علم افغانستان کی طالبان کابینہ کا حصہ ہیں توآپ کریڈٹ لینے کے بجائے مجھے ’ڈیفینسو‘ لگ رہے ہیں۔ وہ مسکرائے اور بولے، ہمارے اوپر بڑی بھاری ذمہ داری ہے۔ ہمیں اپنے وطن کے امن کے داعی کے طور پر امیج کا دفاع کرنا ہے۔ ہمیں جذباتیت اور نادانی میں کوئی ایسی بات نہیں کرنی جو پاکستان کے مفاد کے منافی ہو۔ ہمیں اس گرد کو صاف کرنا ہے جو ہمارے چہرے پرڈالی جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید واضح کیا کہ جب ان کے مدرسے کے پڑھے ہوئے طالب علم اپنے وطن واپس گئے اور وہاں روس نے حملہ کر دیا تو بتائیں کہ اگر کوئی ہمارے ملک، یا دنیا کے کسی بھی ملک، پر حملہ کر دے تو کیا وہاں کی فورسز اور شہری اپنے وطن کی آزادی کے لئے نہیں لڑیں گے، کیا انہوں نے اس کا حلف نہیں اٹھا رکھا۔ وہ میرے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے بتا رہے تھے کہ وہ اپنے ملک کے آئینی اور جمہوری ہونے کے ہرگز مخالف نہیں ہیں، ان کے جد امجد نوشہرہ سے کئی بار رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ ان کے والد مولانا سمیع الحق سینیٹ کے رکن رہے۔ وہ خود رکن قومی اسمبلی رہے تو وہ کیسے اس نظام کے مخالف ہوسکتے ہیں مگر وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ مغرب کی جمہوریت کا نظام دوغلا ہے۔ یہ ہماری ضروریات اور تقاضوں کو پورا نہیں کرتا۔ میرا سوال تھا کہ تو کیا آپ سب مل کر یہاں طالبان کا نظام لانا چاہتے ہیں تو انہوں نے سنجیدگی سے جواب دیا کہ افغانستان اور پاکستان کے حالات بہت مختلف ہیں۔ یہاں پر ایک آئین اور قانون موجود ہے۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا، آپ لوگ یہ نظام کیسے لا سکتے ہیں کہ دینی جماعتیں تو ایک طرف رہیں خود دیوبندی مکتبہ فکر کی ایک سے زیادہ سیاسی جماعتیں ہیں، انہوں نے جواب دیا تو ہمارے مخالف سیکولر کون سے متحد ہیں، وہ بھی بٹے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے والد کی بنائی ہوئی دفاع افغانستان کونسل بعد میں متحدہ مجلس عمل میں تبدیل ہوئی تھی، علامہ شاہ احمد نورانی، مولانا عبدالستار خان نیازی سمیت دیگر کی اس مساعی نے عوامی اعتماد بھی حاصل کیا۔ وہ اب بھی ایسے کسی اتحاد کے لئے اپنے عہدے چھوڑنے کے لئے تیار ہیں۔
جامعہ حقانیہ والوں کے طالبان سے رابطوں سے انکا رنہیں کیا جا سکتا سو میں نے بھی ان کی معلومات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ امریکا کے مطلوب ترین شخص اسامہ بن لادن کے ساتھ میری ملاقات افغانستان میں ہی ہوئی تھی جہاں میں رحیم اللہ یوسف زئی مرحوم اور رؤف طاہر مرحوم سمیت دیگر ساتھیوں کے ساتھ گیا تھا۔ اسامہ بن لادن نے امریکا اور سعودی عر ب کے خلاف جہاد کا اعلان کیا تھا۔ نائن الیون کے بعد ایک نئی تاریخ لکھی گئی اور بعد ازاں پیپلزپارٹی کے دور میں امریکا نے ایبٹ آباد میں ایک آپریشن کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کو لے جانے او رمار کر سمندر میں پھینک دینے کا دعویٰ کیا۔ ہمارے بہت سارے دوست اس دعوے کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں،ا س آپریشن کو محض دھوکا قرار دیتے ہیں مگر حامد الحق حقانی نے پروپیگنڈے کے مقابلے میں حقائق کی بات کرتے ہوئے کہا کہ جب افغانستان میں امریکا نے بمباری شروع کی تو اسامہ بن لادن کے پاس تین راستے تھے کہ وہ چین، ایران یا پاکستان چلے جاتے۔ انہوں نے ممکنہ طور پر پاکستان کا انتخاب کیا۔ وہ اپنے ایک بیرسٹر رشتے دار (جن کا نام وہ نہیں بتاتے) کے حوالے سے کہتے ہیں کہ انہوں نے اسامہ بن لادن کی بیوہ کا مقدمہ عدالتوں میں لڑا اور پھر انہیں پاکستان سے روانہ کیا گیا،وہ نتیجہ دیتے ہیں کہ آپریشن ایک حقیقت تھا۔
میر ے ذہن میں تاثر تھا کہ جمعیت العلمائے اسلام، پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی ہے مگر انہوں نے اس کی نفی کی اور پی ٹی آئی پر بے وفائی کا الزام لگایا جس نے ان کے حلقے تک ان سے لے لئے۔ میں نے پوچھا کہ دارلعلوم حقانیہ کو پی ٹی آئی نے تیس کروڑ روپے کیوں دئیے تو جواب ملا کہ عمران خان کواس گرانٹ کا علم بھی نہیں ہوگا، یہ گرانٹ ان کے ایم پی اے کے ذریعے پرویز خٹک کی صوبائی حکومت نے اسی طرح دی جس طرح مدارس کو دی جاتی ہے۔ میں نے بے نظیر بھٹو کے قتل میں جامعہ حقانیہ میں صلاح و مشورے بارے سوال بھی کیا تو انہوں نے ایک اور بات بتائی کہ بے نظیر بھٹو نے بطور وزیراعظم کہا کہ مولانا سمیع الحق اگر اپنے ترقیاتی فنڈز گلی محلوں کے بجائے مدرسے اور تعلیم پر خرچ کرنا چاہتے ہیں تو اس کی اجازت دی جانی چاہئے۔ انہوں نے ایک کروڑ روپے کے فنڈز جاری کئے تو اس سے حدیث کی تعلیم کا شاندار ہال تعمیر کیا گیا۔ یہ ایسا قومی اسمبلی کی طرح ایسا شاندار ہال تھا کہ بے نظیر بھٹو نے اپنی کابینہ میں سوال رکھا کہ ہم کئی کروڑ خرچ کر کے ایسا ہال نہیں بنا سکتے جو انہوں نے ایک کروڑ میں بنا لیا ہے تو اس کا جواب تھا کہ ہم کرپشن اور کمیشن پر یقین نہیں رکھتے، ایک ایک پیسہ امانت سمجھ کر خرچ کر تے ہیں۔
دارالعلوم حقانیہ نے ملا محمد عمر کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی اور حقانی نیٹ ورک کے بانی جلال الدین حقانی بھی مدرسے کے طالب علم رہے تاہم حامد الحق حقانی کہتے ہیں کہ حقانی نیٹ ورک ریگن دور میں امریکا کو پیارا تھا مگر پھر ان کے مفادات بدل گئے۔ ان کے مدرسے کے طالب علم اپنے نام کے ساتھ حقانی لگاتے ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جلا ل الدین حقانی کے صاحبزادے خلیل حقانی بھی یہاں پڑھتے رہے جو اس وقت افغان حکومت کے وزیر پناہ گزین ہیں۔ جا معہ کے مشہور طالب علموں میں ملا محمد عمر کے جانشین ملا منصور اختر بھی شامل ہیں اور طالبان کے موجودہ ترجمان ذبیح اللہ مجاہد بھی جامعہ حقانیہ کے طالب علم ہیں تاہم عبدالحق ثانی اس امر کی تردید کرتے ہیں کہ ملا عبدالغنی برادر کے بیٹے یہاں زیر تعلیم رہے مگر یہ امر حقیقت ہے کہ اس وقت کئی وزرا جامعہ حقانیہ کے فارغ التحصیل ہیں۔ دارالعلوم پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتا ہے جس کے ذریعے ہم اپنے بہت سارے فاصلے ختم کر سکتے ہیں۔
window.fbAsyncInit = function() FB.init( appId : 315458908831110, xfbml : true, version : "v2.12" ); FB.AppEvents.logPageView(); ; (function(d, s, id) var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = "https://connect.facebook.net/ur_PK/sdk.js"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); (document, "script", "facebook-jssdk")); Source link
0 notes
daily-tez · 3 years ago
Text
حامد کرزئی اور عبد اللہ عبداللہ کو طالبان نے گھر میں نظر بند کردیا
حامد کرزئی اور عبد اللہ عبداللہ کو طالبان نے گھر میں نظر بند کردیا
سابق افغان صدر حامد کرزئی اور عبد اللہ عبداللہ کو طالبان نے گھر میں نظر بند کردیا ہے۔ روسی خبر ایجنسی کا کہنا ہے کہ معاملے پر طالبان کے موقف کا انتظار کیا جارہا ہے۔ خیال رہے گزشتہ روز خبر آئی تھی کہ افغانستان میں سیاسی امور چلانے کیلئے بارہ رکنی کونسل قائم کی گئی ہے جس میں حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ بھی شامل ہیں۔ کونسل کے دیگر اراکین میں ملاعبدالغنی برادر، ملامحمد یعقوب، خلیل الرحمان حقانی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
omega-news · 3 years ago
Text
افغانستان میں سیاسی امورچلانےکیلئے بارہ رکنی کونسل قائم
افغانستان میں سیاسی امورچلانےکیلئے بارہ رکنی کونسل قائم
افغان طالبان نے ملک کے سیاسی امور چلانے کیلئے بارہ رکنی کونسل قائم کردی. کونسل میں ملاعبدالغنی برادر،ملا محمد یعقوب، خلیل الرحمان حقانی، حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ اورگلبدین حکمت یار بھی کونسل کا حصہ ہیں۔ افغان میڈیا کے مطابق ترجمان طالبان نے کہا پولیٹکل سسٹم پر مشاورت جاری ہے، خواہش ہے کہ سب کو قابل قبول اسلامی نظام اور مخلوط حکومت بنائی جائے۔طالبان نے اپنی کابینہ کی تشکیل کے لیے مشاورت تیز…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
maqsoodyamani · 3 years ago
Text
سابق گورنر ننگرہار نے بھی طالبان کے ہاتھوں پر بیعت کرلی
سابق گورنر ننگرہار نے بھی طالبان کے ہاتھوں پر بیعت کرلی
سابق گورنر ننگرہار نے بھی طالبان کے ہاتھوں پر بیعت کرلی کابل ، ۲۲؍اگست ( آئی این ایس انڈیا ) سابق گورنر ننگرہار ضیاء الحق امرخیل نے طالبان کی جانب سے اعلان کردہ امارات اسلامیہ افغانستان کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔امارات اسلامیہ افغانستان کی حمایت کا اعلان سابق گورنر ننگرہار ضیا ء الحق امرخیل نے طالبان رہنما خلیل الرحمان حقانی سے ملاقات کے دوران کیا۔ انہوں نے اپنی مکمل حمایت کی بھی یقین دہانی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
weaajkal · 3 years ago
Text
امریکا سے دشمنی میں ہم نے پہل نہیں کی تھی اور اب بھی نہیں کر رہے، خلیل الرحمان حقانی
امریکا سے دشمنی میں ہم نے پہل نہیں کی تھی اور اب بھی نہیں کر رہے، خلیل الرحمان حقانی #Afghanistan #Taliban @ashrafghani #Aajkalpk
افغان طالبان کے مرکزی رہنما خلیل الرحمان حقانی کا کہنا ہے کہ اب کسی سے دشمنی نہیں ہے، اشرف غنی، امراللہ صالح اور حمد اللہ محب سمیت سب کے لیے عام معافی ہے۔  طالبان رہنما خلیل الرحمان حقانی کا کہنا تھا کہ ان کا کہنا تھا کہ امریکا سے دشمنی میں ہم نے پہل نہیں کی تھی اور اب بھی نہیں کر رہے، امریکا نے ہمارے مذہب اور ملک سے زیادتی کی تو مجبور ہو کر بندوق اٹھائی۔ خلیل الرحمان حقانی نے کہا کہ ہماری دشمنی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 3 years ago
Text
ملا برادر اور خلیل الرحمان حقانی میں تلخ کلامی
ملا برادر اور خلیل الرحمان حقانی میں تلخ کلامی
افغانستان میں حکومت سازی کے معاملے پر طالبان کے دو سینیئر رہنماؤں کے درمیان تلخ کلامی کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔طالبان ذرائع نے برطانوی نشریاتی ادارے کی پشتو سروس کو بتایا کہ طالبان کے شریک بانی اور عبوری نائب وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر اور کابینہ کے ایک رکن کے درمیان صدارتی محل میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔خیال رہے کہ حالیہ دنوں میں ملا برادر کے منظر عام سے غائب ہوجانے کے بعد یہ قیاس آرائیاں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
kokchapress · 4 years ago
Text
زلمی خلیل‌ زاد با هیات طالبان در باره‌ی نشست های مسکو و انقره گفتگو کرد
زلمی خلیل‌ زاد با هیات طالبان در باره‌ی نشست های مسکو و انقره گفتگو کرد
محمد نعیم سخنگوی دفتر سیاسی طالبان  ( یکشنبه ۲۴ حوت ) از دیدار زلمی خلیل زاد با هیات گفتگو کننده ای طالبان در قطر خبر میدهد. محمد نعیم نیز در برگه ای تویتر اش نوشته است: « امشب میان ملا برادر، معاون سیاسی طالبان، شیخ عبدالحکیم حقانی ، رئیس هیئت گفتگو کننده، شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی، معاون نخست وزیر و وزیر خارجه‌ی قطر و زلمی خلیل‌زاد، نشست سه‌جانبه صورت گرفت. محمد نعیم، افزود که در این نشست،…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years ago
Text
طالبان سے ملا برادر ، جو امریکہ سے نمٹتا ہے ، محل میں فائرنگ کے تبادلے میں
طالبان سے ملا برادر ، جو امریکہ سے نمٹتا ہے ، محل میں فائرنگ کے تبادلے میں
Tumblr media Tumblr media
افغانستان: ملا عبدالغنی برادر طالبان کا سب سے زیادہ عوامی چہرہ رہا ہے۔ (فائل)
اس معاملے کے ��اننے والے لوگوں کے مطابق ، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو امید ہے کہ وہ افغانستان کی طالبان حکومت میں ایک اعتدال پسند آواز ثابت ہوں گے۔
لوگوں کا کہنا تھا کہ ملا عبدالغنی برادر ، جو اس گروپ کا سب سے زیادہ عوامی چہرہ ہے جس نے امریکہ کے ساتھ امن مذاکرات کی قیادت کی ، ستمبر کے اوائل میں امریکی دہشت گردوں کے نامزد حقانی نیٹ ورک کے ایک رہنما نے کابینہ کی تشکیل پر محل میں بات چیت کے دوران جسمانی طور پر حملہ کیا۔ واقعہ پر بحث کرتے ہوئے شناخت نہیں کی جا سکتی۔
لوگوں نے بتایا کہ برادر نے ایک “جامع” کابینہ کے لیے زور دیا تھا جس میں غیر طالبان رہنما اور نسلی اقلیتیں شامل ہوں ، جو باقی دنیا کے لیے زیادہ قابل قبول ہوں گی۔ ملاقات کے دوران ایک موقع پر خلیل الرحمان حقانی اپنی کرسی سے اٹھے اور طالبان رہنما کو گھونسے مارنے لگے۔
لوگوں نے بتایا کہ ان کے محافظ میدان میں داخل ہوئے اور ایک دوسرے پر فائرنگ کی جس سے ان میں سے متعدد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ جب کہ برادر زخمی نہیں ہوا تھا اس کے بعد سے وہ دارالحکومت چھوڑ کر قندھار گیا ہے – گروپ کا اڈہ – سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ سے بات کرنے کے لیے ، مؤثر طریقے سے طالبان کے روحانی سربراہ۔
7 ستمبر کو جاری کی جانے والی کابینہ کی فہرست میں طالبان کے باہر سے کوئی بھی شامل نہیں تھا ، تقریبا 90 90 فیصد جگہیں گروپ سے نسلی پشتونوں کی طرف جاتی ہیں۔ حقانی خاندان کے ارکان کو چار عہدے ملے ، سراج الدین حقانی – حقانی نیٹ ورک کے رہنما جو ایف بی آئی کی دہشت گردی کے لیے انتہائی مطلوب فہرست میں شامل ہیں – قائم مقام وزیر داخلہ بن گئے۔ برادر کو دو نائب وزرائے اعظم میں سے ایک نام دیا گیا۔ طالبان اور حقانی گروپ 2016 کے آس پاس ضم ہو گئے۔
لوگوں نے کہا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ ، جو بات چیت کے دوران کابل میں تھے ، نے حقانیوں کی حمایت کی برادر پر ، جنہوں نے تقریبا eight آٹھ سال پاکستان کی جیل میں گزارے اس سے پہلے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ان کی رہائی کو امن مذاکرات میں شرکت کی سہولت دی۔ انہوں نے کہا کہ ملا محمد حسن کو برادر کے بجائے وزیر اعظم منتخب کیا گیا کیونکہ اس کے اسلام آباد سے بہتر روابط ہیں اور حقانی دھڑے کے لیے خطرہ نہیں ہے۔
پاکستانی فوج کے میڈیا آفس نے فوری طور پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ، طالبان کے ارکان نے تصادم کی خبروں کو مسترد کیا ہے۔ برادر جمعرات کے روز سرکاری ٹیلی ویژن پر پیش ہوئے ان افواہوں کی تردید کرتے ہوئے کہ وہ زخمی یا مارے گئے ہیں۔ برادر 12 ستمبر کو قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی کے استقبال کے لیے موجود نہیں تھے اور وہ اس ہفتے طالبان کی کابینہ کی پہلی میٹنگ سے م��روم رہے۔
انہوں نے مختصر خطاب میں کہا ، “الحمد للہ ، میں محف��ظ ہوں اور ٹھیک ہوں۔” “میڈیا کی طرف سے دیا گیا ایک اور بیان کہ ہمارے اندرونی جھگڑے ہیں وہ بھی مکمل طور پر درست نہیں ہیں۔”
انہوں نے قطری وفد کے دورے کے دوران ان کی عدم موجودگی پر قیاس آرائیوں کو ختم کیا ، جہاں کئی حقانی سمیت کابینہ کے دیگر ارکان موجود تھے۔ خلیجی ریاست نے کئی سالوں سے برادر کی میزبانی کی تھی اور اس وقت کے وزیر خارجہ مائیکل پومپیو کے ساتھ امریکہ کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کی سہولت فراہم کی تھی۔
برادر نے مزید کہا ، “میں قطری وزیر خارجہ کے دورے کے بارے میں نہیں جانتا تھا۔” “میں قطری وزیر خارجہ کے دورہ کابل کے دوران سفر کر رہا تھا ، اور میں اپنا سفر مختصر نہیں کر سکا اور کابل واپس آ گیا۔”
فون پر پہنچ کر طالبان کے ترجمان بلال کریمی نے کہا کہ برادر کو “کنارے نہیں رکھا گیا تھا اور ہم توقع کر رہے ہیں کہ وہ جلد واپس آجائیں گے۔”
کریمی نے کہا ، “امارت اسلامیہ کے رہنماؤں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ “وہ کسی دفتر یا سرکاری عہدوں پر جھگڑا نہیں کرتے ہیں۔”
طالبان کے درمیان تقسیم مغربی ممالک کے لیے ایک تشویشناک علامت ہے جس نے گروپ پر زور دیا ہے کہ وہ خواتین کے حقوق کے احترام سمیت مزید اعتدال پسند پالیسیاں نافذ کرے۔ چین اور پاکستان امریکہ پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ افغانستان کے ذخائر کو منجمد کرے کیونکہ ملک کو بڑھتی ہوئی مہنگائی اور معاشی بحران کا سامنا ہے۔
حقانی دھڑے اور طالبان کے درمیان تعلقات طویل عرصے سے بے چین ہیں۔ پھر بھی ، اس گروپ کے ایک اہم رہنما انس حقانی نے بھی کسی ٹوٹ پھوٹ کی تردید کرنے کے لیے ٹوئٹر کا سہارا لیا۔
. Source link
0 notes
googlynewstv · 3 years ago
Text
جامع طالبان حکومت کا قیام، ملاعبدالغنی مذاکرات کیلئے کابل پہنچ گئے
جامع طالبان حکومت کا قیام، ملاعبدالغنی مذاکرات کیلئے کابل پہنچ گئے
طالبان کے شریک بانی ملا عبدالغنی برادر افغانستان میں ایک نئی جامع حکومت کے قیام پر مذاکرات کے لیے ہفتے کو کابل پہنچ گئے ہیں۔ خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق حالیہ دنوں میں دارالحکومت میں نظر آنے والے دیگر سینئر طالبان رہنماؤں میں خلیل حقانی بھی شامل ہیں جو امریکا کے انتہائی مطلوب دہشت گردوں میں سے ایک ہیں اور جن پر امریکا نے 50لاکھ ڈالر انعام کا اعلان کر رکھا ہے۔ طالبان کی حمایت یافتہ سوشل…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years ago
Text
افغان طالبان قیادت کےدرمیان کسی قسم کا اختلاف نہیں،ملاعبدالغنی برادر
افغان طالبان قیادت کےدرمیان کسی قسم کا اختلاف نہیں،ملاعبدالغنی برادر
افغانستان کے حکومتی امور سنبھالنے کے چند روز بعد ہی طالبان کے دو گروہوں کے آپس میں اختلافات کی خبریں گردش کرنے لگی تھیں، تاہم نائب وزیراعظم افغانستان ملاعبدالغنی برادر نے ان تمام خبروں کی تردید کی ہے۔
ملاعبدالغنی برادر کا کہنا تھا کہ صدارتی محل میں تصادم سےمتعلق باتیں بے بنیاد ہیں، افغان طالبان قیادت کےدرمیان کسی قسم کااختلاف نہیں اور ملاغنی برادراورحقانی نیٹ ورک کے ارکان میں کوئی اختلافات نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان لیڈر آپس میں لڑ پڑے، ملا برادر ناراض
دوسری جانب انس حقانی کا کہنا تھا کہ افغان طالبان قیادت میں اختلافات کی خبریں دشمن کا پروپیگنڈا ہے۔
رہنما حقانی نیٹ ورک کے مطابق افغان طالبان کے خلاف پروپیگنڈا ہمیشہ جاری رہتا ہے، مستقبل میں بھی افغان عوام اس طرح خبروں پرکان نہ دھریں، ہم کرسی اور عہدے نہیں عقیدے کے لیے لڑرہے ہیں۔
انس حقانی نے مزید کہا کہ ہم چاہتےتو کسی بھی حکومت میں کرسی مل سکتی تھی، لیکن ہم عقیدے سے جڑے ہیں جو کسی بھی لالچ سے پاک ہے۔
یہ بھی پڑھیں:طالبان کے ساتھ معاہدہ تھا کہ دو ہفتے تک کابل میں داخل نہیں ہوں گے، زلمے خلیل زاد
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی پشتو سروس نے دعوی کیا تھا کہ چند روز قبل  صدارتی محل میں نائب وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر اور خلیل حقانی کے درمیان زبانی جھگڑا ہوا تھا۔
رپورٹ کے مطابق طالبان کے ذرائع نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ دونوں رہنماوں کے درمیان جھگڑے پر ان کے حامی بھی آپس میں لڑ پڑے تھے۔ جبکہ اس واقعے کے بعد ملا عبدالغنی برادرناراض ہو کر قندھار چلے گئے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ ملا عبدالغنی برادر نے نئی حکومت کی تشکیل اور طالبان کی نگران کابینہ پر اختلاف کیا۔ وہ ایسی حکومت نہیں چاہتے تھے جس کے عہدیدار تمام طالبان رہنما یا ملا ہوں۔
Source link
0 notes