#اسلام اور سائنس
Explore tagged Tumblr posts
superitskitaabistanstuff · 17 days ago
Text
166-طوفانِ نوح سے پہلے از جاوید طوسی
طوفانِ نوح سے پہلے از جاوید طوسی نام کتاب:طوفانِ نوح سے پہلے مصنف:جاوید طوسی صنف: نان فکشن، آرکیالوجی، انسانی تاریخ صفحات:222 سن اشاعت:2019 ناشر: نگارشات پبلشرز جاوید طوسی صاحب کی کتاب طوفان ِنوح سے پہلے ایک انتہائی منفرد کتاب ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے سے پہلے ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ اس کتاب کے مندرجات کیا ہوں گے۔ قدیم انسانی تاریخ اور ارتقاء کے موضوع پہ اردو ذبان میں اس موضوع پہ کم ہی کام…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
forgottengenius · 6 months ago
Text
چاند پر گیا پاکستانی سیٹلائٹ ’آئی کیوب قمر‘ کیا ہے؟
Tumblr media
ملکی تاریخ میں پہلی بار 3 مئی کو پاکستانی سائنس دانوں اور سائنس کے طلبہ کی جانب سے تیار کردہ سیٹلائٹ ’آئی کیوب قمر‘ چین کی جانب سے بھیجے گئے چاند مشن ’چینگ ای 6‘ کے ساتھ گیا تو بہت سارے لوگ اس بات پر پریشان دکھائی دیے کہ مذکورہ خلائی مشن میں پاکستان کا کیا کردار ہے اور یہ پاکستان کے لیے کس طرح تاریخی ہے؟ درج ذیل مضمون میں اسی بات کا جواب دیا جائے گا۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں موجود انسٹیٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی (آئی ایس ٹی) کی ویب سائٹ کے مطابق ’آئی کیوب قمر‘ سیٹلائٹ کا وزن محض 7 کلو گرام ہے لیکن وہ چینی خلائی مشن کا سب سے اہم کام سر انجام دے گا۔ پاکستانی سیٹلائٹ چاند پر پہنچنے کے بعد وہاں کی تصاویر�� ویڈیوز اور دیگر ڈیٹا زمین پر چینی ماہرین کو بھیجے گا۔ پاکستان کی جانب سے تیار کردہ سیٹلائٹ دو ہائی روزولیوشن آپٹیکل کیمروں سے لیس ہے جو کہ چاند پر پہنچنے کے بعد وہاں کی تصاویر اور دیگر ڈیٹا زمین پر بھیجیں گی۔ ’آئی کیوب‘ دراصل ایک خلائی سائنس کی اصطلاح ہے، جس کا مقصد چھوٹے سیٹلائٹ ہوتا ہے اور پاکستان نے پہلی بار اس طرح کے سیٹلائٹ ایک دہائی قبل 2013 میں بنائے تھے اور اب پاکستان نے تاریخ میں پہلی بار چھوٹے سیٹلائٹ کو چاند کے مشن پر روانہ کر دیا۔
Tumblr media
’آئی کیوب قمر‘ کس طرح چینی خلائی مشن کا حصہ بنا؟ اسلام آباد میں موجود خلائی ادارے انسٹیٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی کے مطابق چین نے چاند پر اپنا مشن بھیجنے سے دو سال قبل ایشیائی خلائی ایجنسی ایشیا پیسفک اسپیس کو آپریشن آرگنائزیشن کے رکن ممالک کو دعوت دی کہ وہ اپنے خلائی سیٹ لائٹ چین کے مشن کے ساتھ بھیج سکتے ہیں۔ چینی خلائی ایجنسی نے 2022 میں ایشیائی خلائی ایجنسی کے رکن ممالک کو دعوت دی تھی، ایشیائی ایجنسی کے ترکی، منگولیا، پیرو، تھائی لینڈ، ایران، بنگلہ دیش اور پاکستان رکن ہیں۔ چینی درخواست کے بعد اگرچہ دیگر ممالک نے بھی اپنے خلائی سیٹس بھیجنے کی درخواست کی لیکن چینی سائنس دانوں نے پاکستانی سیٹلائٹ کا انتخاب کیا، جس کے بعد پاکستانی ماہرین اور طلبہ نے دو سال کے کم عرصے میں ’آئی کیوب قمر‘ سیٹلائٹ تیار کیا۔ ’آئی کیوب قمر‘ سیٹلائٹ کو سپارکو اور اسلام آباد کے ادارے انسٹیٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی کے ماہرین، اساتذہ اور طلبہ نے تیار کیا اور چین بھیجا۔ چینی سائنس دانوں نے پاکستانی سیٹلائٹ کو اپنے چینی خلائی مشن کا حصہ بنا کر تین مئی 2024 کو اسے چاند پر بھیجا جو کہ دونوں ممالک کے لیے تاریخی دن تھا اور یوں پاکستان پہلی بار چاند پر جانے والے مشن کا حصہ بنا۔
بشکریہ ڈان نیوز  
0 notes
urduchronicle · 10 months ago
Text
حکومتی مشینری پر طاقتور مافیا کا قبضہ ہے، اشرافیہ کی 1500 ارب سبسڈی ختم کریں گے، بلاول
چیئرمین پیپلز پارٹی اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اشرافیہ کی سبسڈی ختم کرکے یہ پیسہ عوام پر خرچ کریں گے،اسلام آباد کی حکومتی مشینری پر طاقتور مافیا کا قبضہ ہے،ان کی سبسڈی ختم کرنے کی کوشش پر شدید ردعمل آتا ہے،مشکل وقت ہے،چیلنجز زیادہ ہیں مگر ان سے نمٹ لیں گے۔ اسلام آباد میں ذوالفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ( زیبسٹ) کیمپس میں “چنو نئی سوچ کو” کے عنوان سے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
minhajbooks · 1 year ago
Text
Tumblr media
🔰 اسلام اور جدید سائنس
یہ دور جدید کی منفرد کتاب ہے جس میں قرآنی آیات میں جابجا بکھرے ہوئے سائنسی حقائق کو بیان کرتے ہوئے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اسلام ہر دور کا دین ہے جو انسانی زندگی کے ہر پہلو پر رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس کتاب میں ان اُمور پر تفصیلی بحث کی گئی ہے کہ سائنسی شعور کے فروغ میں اسلام کا کیا کردار ہے؟ کس طرح قرآنی تعلیمات میں سائنسی علوم کی ترغیب دی گئی ہے؟ کیا اسلام اور سائنس میں عدم مطابقت ہے؟ اور تخلیقِ کائنات کا قرآنی نظریہ کیا ہے؟
📗 حصہ اول : سائنسی شعور کے فروغ میں اسلام کا کردار 🔹 باب 1 : قرآنی تعلیمات اور سائنسی علوم کی ترغیب 🔹 باب 2 : اسلا م اور سائنس میں عدم مغایرت 🔹 باب 3 : قرونِ وُسطیٰ میں سائنسی علوم کا فروغ 🔹 باب 4 : اسلامی سپین میں تہذیب و سائنس کا ارتقاء
📗 حصہ دوم : قرآنی وسائنسی علوم کا دائرہ کار 🔹 باب 1 : قرآنی علوم کی وسعت 🔹 باب 2 : سائنسی طریق کار اور تصور اقدام و خطاء 🔹 باب 3 : سائنسی علوم کی بنیادی اقسام اور ان کا محدود دائرۂ کار
📗 حصہ سوم: اِسلام اور کائنات 🔹 باب 1 : اجرام فلکی کی بابت اسلامی تعلیمات 🔹 باب 2 : تخلیقِ کائنات کا قرآنی نظریہ 🔹 باب 3 : قرآنی لفظِ ’سمآء‘ کے مفاہیم اور سات آسمانوں کی حقیقت 🔹 باب 4 : مکان - زمان (Space-time) کا قرآنی نظریہ 🔹 باب 5 : اِرتقائے کائنات کے چھ اَدوار 🔹 باب 6 : کرۂ ارضی پر اِرتقائے حیات 🔹 باب 7 : ڈارون کا مفروضۂ ارتقائے حیات (Darwinism) 🔹 باب 8 : پھیلتی ہوئی کائنات (Expanding Universe) کا قرآنی نظریہ 🔹 باب 9 : سیاہ شگاف (Black Hole) کا نظریہ اور قرآنی صداقت 🔹 باب 10 : کائنات کا تجاذُبی انہدام اور انعقاد قیامت
📗 حصہ چہارم: اِسلام اور اِنسانی زندگی 🔹 باب 1 : انسانی زندگی کا کیمیائی ارتقاء 🔹 باب 2 : انسانی زندگی کا حیاتیاتی ارتقاء 🔹 باب 3 : انسانی زندگی کا شعوری ارتقاء 🔹 باب 4 : اسلام اور طب جدید
مصنف : شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری زبان : اردو صفحات : 704 قیمت : 1200 روپے
🌐 پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں https://www.minhajbooks.com/english/book/210/Islam-and-modern-science
📧 خریداری کیلئے رابطہ کریں https://wa.me/p/5044826028904663/923097417163
0 notes
emergingpakistan · 1 year ago
Text
پاکستان ریورس گیئر پر کیوں؟
Tumblr media
جدید جمہوریہ ترکیہ 1923میں قائم ہوا لیکن اسکے قیام کے 32 سال بعد یعنی 1955ء میں جمہوریت کے سنہری اصول ’’ کثیر الجماعتی نظام‘‘ (اگرچہ 1945 میں کثیر الجماعتی نظام کے تحت انتخابات ہوئے لیکن اس وقت کے صدر عصمت انونو اور اسٹیبلشمنٹ کی دھاندلی کی وجہ سے ترکیہ میں ان انتخابات کو تاریخ پر ایک دھبہ سمجھا جاتا ہے) کے تحت پہلی بار صاف اور شفاف انتخابات کروائے گئے جبکہ پاکستان کے قیام کے پہلے ہی روز سے ڈیمو کریسی پر پوری طرح عمل درآمد شروع ہو گیا تھا تاہم قائد اعظم کے بعد پاکستان میں پارلیمانی نظام کامیابی سے نہ چل سکا اور صدارتی نظام اپنانے سے پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو گیا۔ کیا آپ جانتے ہیں 1961ء میں پاکستان میں قائم ہونے والے خلائی ادارے ’’سپارکو ‘‘ نے ایک سال بعد ہی 1962ء میں امریکہ کے تعاون سے خلا میں اپنا پہلا سیارہ روانہ کر کے بھارت کیلئے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی تھیں لیکن موجود دور میں بھارت نے چاند پر بھیجے جانے والا چندریان 3 مشن کامیابی سے لانچ کیا ہے۔ ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں پاکستان کی شرح ترقی 7 فیصد، مینو فیکچرنگ میں 7 اور زراعت میں شرح ترقی 9 فیصد تھی۔ 
پاکستان دنیا میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والا ملک بن چکا تھا۔ پاکستان نے ساٹھ ہی کی دہائی میں جرمنی کو 12 کروڑ روپے قرض دیا تھا اور جرمن چانسلر نے اس مہربانی پر حکومت پاکستان کا باقاعدہ شکریہ ادا کیا تھا۔ صدر ایوب ہی کے دور میں پاکستان میں پہلی بار سر پلس بجٹ پیش کیا گیا اور پاکستان کے پہلے پانچ سالہ منصوبے کے تحت بڑے پیمانے پر بیراج قائم کیے گئے۔ اسی دور میں پاکستان نے کوریا کو پانچ سالہ منصوبہ بنا کر دیا اور کوریا نے اس منصوبے پر مکمل طور پر عمل درآمد کرتے ہوئے ترقی کی راہ اختیار کی۔ ساٹھ کی دہائی سے لے کر نوے کی دہائی تک پاکستان تعلیم و تدریس، علم و سائنس اور آرٹ کے شعبے میں ��ہ صرف قرب و جوار کے ممالک بلکہ، ترکیہ، عرب ممالک اور افریقی ممالک کی آنکھوں کا تارہ بنا ہوا تھا اور ان ممالک کے طلبا و طالبات پاکستان میں تعلیم حاصل کرنا اپنے لیے بڑا اعزاز سمجھتے تھے۔ (ترکیہ کی اعلیٰ شخصیات میں سے برہان قایا ترک اور علی شاہین نے پاکستان ہی سےاعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے)۔ 
Tumblr media
بدقسمتی سے اب الٹی گنگا بہہ رہی ہے اور پاکستانی طلبا بڑی تعداد میں ترکیہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی تک پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی جسے’’ عروس البلاد ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور جس کی سڑکوں کو رات کو دھویا جاتا تھا دنیا کے پُر امن، خوبصورت ترین اور جدید ترین شہروں میں سے ایک تھا ، دنیا کی تمام بڑی بڑی ائیر لائنز کے کراچی میں دفاتر موجود تھے۔ پاکستان کے قومی ادارے (جب تک سیاست سے دور رہے ) ترقی کی معراج کو چھوتے رہے ۔ پی آئی اے جس کا موٹو تھا ’’باکمال لوگ لاجواب سروس‘‘ دنیا کی بہترین ائیر لائنز میں سے ایک تھی اور امریکی صدور تک اس ائیر لائن پر سفر کرنا اپنے لیے اعزا ز سمجھتے تھے۔ اُس وقت پی آئی اے ایشیا کی پہلی ائیر لائن تھی جس کے پاس جیٹ طیارے موجود تھے۔ پاکستان نے اسی دور میں دنیا کا خوبصورت ترین دارالحکومت تعمیر کیا اور جس کے بارے میں ترکیہ کے سابق صدر عبداللہ نے راقم سے بات چیت کرتے ہوئے ( مترجم ہونے کے ناتے) کہا تھا کہ’’اسلام آباد گرین پارک میں قائم کیا گیا دنیا کا خوبصورت ترین دارالحکومت ہے۔
ساٹھ ہی کی دہائی میں پاکستان کے صدر ایوب خان نے امریکہ کا دورہ کیا تو امریکی صدر اپنی پوری کابینہ ، تینوں افواج کے سربراہان اور امریکی عوام نے ائیر پورٹ پر پہنچ کر جس جوش و خروش سے پاکستان کے صدر کا استقبال کیا اس سے دنیا پر پاکستان کی دھاک بیٹھ گئی تھی۔ اسی کی دہائی تک پاکستان ٹیلی ویژن چینل کے ڈرامے اور پروگرام صرف جنوبی ایشیا کے ممالک ہی نہیں بلکہ ترکیہ میں بھی بڑے مقبول تھے اور پاکستانی ڈرامے ترکی زبان میں ڈب کر کے پیش کیے جاتے (راقم بھی کئی ڈراموں کا ترکی زبان میں ترجمہ کر چکا ہے) پاکستان نے ترکیہ کے نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی ہی کو نہیں بلکہ ترکیہ کے ڈاک اور ٹیلی فون کے ادارے PTT اور بینکنگ سسٹم کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں تکنیکی امداد فراہم کی۔ ترکیہ میں ترگت اوزال کے آزاد منڈی اقتصادی نظام اپنانے کیلئے بھی پاکستان کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ترگت اوزال ہی نے اپنے ملک میں انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کے فیصلے کے بعد برطانیہ یا مغربی ممالک سے نہیں بلکہ پاکستان کے انگریزی زبان کےاساتذہ کو مدعو کیا۔ 
نوے کی دہائی میں پاکستانی ماہرین نےترکوں کو کمپیوٹر کی ٹریننگ فراہم کی اور بعد میں ڈرون ٹیکنالوجی سے بھی متعارف کروایا۔ ترکیہ کے انگریزی ٹی وی چینل ٹی آر ٹی ورلڈ اور انادولو نیوز ایجنسی کے انگریزی شعبے کو پاکستانیوں ہی نے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں مدد فراہم کی۔ پاکستان ہی نے ستر کی دہائی میں جب، مغربی ممالک نے ترکیہ کو دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے اسلحہ فراہم کرنے سے انکار کر دیا توبڑی مقدار میں گولہ بارود فراہم کیا اور قبرص کی جنگ میں پاکستان کی مدد کو بھلا کون ترک بھول سکتا ہے؟ پاکستان ہی دنیا میں واحد ملک تھا جس نے قبرص کی جنگ میں ترکیہ کی کھل کر مدد کی تھی۔ یہ تھا ماضی کا پاکستان جو بڑی تیز رفتاری سے ترقی کی راہ پر گامزن تھا مگراب افسوس ریورس گیئر پر ہے۔
ڈاکٹر فر قان حمید
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note · View note
urduclassic · 2 years ago
Text
امجد اسلام امجد ایک عہد ساز شخصیت
Tumblr media
امجد اسلام امجد ادبی محفلوں کی جان تھے اور اردو ادب کا مان بھی۔ ادب کے کئی شعبوں میں اپنے تخلیقی رنگ دکھائے۔ 40 سے زیادہ کتابیں لکھیں، تراجم کئے، کالم لکھے، نقاد اور ڈرامہ نگار کے حوالے سے نام کمایا، غزلیں تخلیق کیں اور جدید نظم نگاری کے امام قرار پائے۔ پی ٹی وی پر ان کے ڈرامے چلے تو تہلکہ مچ گیا۔ پاکستان ہی نہیں بھارت میں بھی ان کے ڈرامے اتنے شوق سے دیکھے جاتے تھے کہ سڑکیں ویران اور بازار سنسان نظر آتے تھے۔ ڈرامہ وارث نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ ان کی طبیعت میں زندہ دلی، شگفتگی تھی۔ وہ جس محفل میں بھی ہوتے وہاں قہقہے گونجتےتھے۔ ان کی برجستگی، جملے بازی اور مزاح مشہور تھا۔ ان کے کالم میں تازہ کاری تھی اور توانائی بھی۔ 
Tumblr media
انہوں نے اپنے ڈراموں اور تصانیف کے ذریعے ایک نسل کی فکری آبیاری کی۔ ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں بہت سے ملکی اور غیر ملکی ایوارڈز سے نوازا گیا حکومت پاکستان نے انہیں 1987 میں تمغہ حسن کارکردگی اور 1998 میں ستارہ امتیاز سے نوازا۔ پانچ مرتبہ ٹیلی ویژن کے بہترین رائٹر، 16 گریجویٹ ایوارڈز حاصل کئے۔ 2019 میں انہیں ترکی کے اعلیٰ ثقافتی اعزاز نجیب فاضل انٹرنیشنل اینڈ کلچرل آرٹس سے نوازا گیا۔ وہ 1944 میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ اپنے کیریئر کا آغاز شعبہ تدریس سے کیا۔ پنجاب آرٹس کونسل، اردو سائنس بورڈ اورچلڈرن لائبریری کمپلیکس سمیت متعدد سرکاری اداروں میں سرکردہ عہدوں پر ذمہ داریاں نبھائیں۔ اردو ادب کے فروغ کے لئے ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note · View note
marketingstrategy1 · 2 years ago
Text
کم قیمت پر تیل خریداری کیلیے پاک روس بین الحکومتی اجلاس
اجلاس میں روس کا 80 رکنی وفد شریک ہے (فوٹو فائل)  اسلام آباد: پاکستان اور روس کے درمیان کم قیمت پر تیل کی خریداری سمیت دیگر شعبوں میں تعاون کے لیے بین الحکومتی کمیشن کا اجلاس ہوا۔ دونوں ممالک کے مابین 30 فیصد رعایت پر تیل کی خریداری ،گندم کی خریداری اورتجارت ، معیشت ، سائنس و تکنیکی تعاون کے شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لیے اجلاس ہوا، جس میں روس کے 80 رکنی وفد نے شرکت کی۔ پاک روس بین الحکومتی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 2 years ago
Text
کم قیمت پر تیل خریداری کیلیے پاک روس بین الحکومتی اجلاس
اجلاس میں روس کا 80 رکنی وفد شریک ہے (فوٹو فائل)  اسلام آباد: پاکستان اور روس کے درمیان کم قیمت پر تیل کی خریداری سمیت دیگر شعبوں میں تعاون کے لیے بین الحکومتی کمیشن کا اجلاس ہوا۔ دونوں ممالک کے مابین 30 فیصد رعایت پر تیل کی خریداری ،گندم کی خریداری اورتجارت ، معیشت ، سائنس و تکنیکی تعاون کے شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لیے اجلاس ہوا، جس میں روس کے 80 رکنی وفد نے شرکت کی۔ پاک روس بین الحکومتی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 2 years ago
Text
وہ پروفیسر جو بیرون ملک مقیم ہیں انہیں موسیقی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
وہ پروفیسر جو بیرون ملک مقیم ہیں انہیں موسیقی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اسلام آباد: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے وفاقی اردو یونیورسٹی آف آرٹس، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (FUUAST) کے 6 پروفیسرز کے پاسپورٹ اور کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (CNICs) بلاک کرنے کا حکم دیا ہے جو ڈاکٹریٹ کے لیے بیرون ملک گئے تھے اور واپسی سے گریز کر رہے تھے۔ ملک. کمیٹی کا اجلاس نور عالم خان کی زیر صدارت ہوا۔ آڈٹ حکام نے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ پروفیسرز کو بیرون ملک بھیجنے پر 40.57 ملین روپے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
nuktaguidance · 4 years ago
Text
اسلام اور سائنس
Islam Aur Science اسلام اور سائنس ایس ایم شاہد پروفیسر عبداللہ ہارون آن لائن پڑھیں ڈاون لوڈ کریں
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
lahore2toronto · 4 years ago
Text
Tumblr media
ایک عامی شہری کی جانب سے مملکت پاکستان کے فرماں روا سیدی آقا و مولیٰ عمران خان نیازی کی طرف لکھا گیا مکتوب ۔۔۔
درود بر امیر المومنین
اسلام علیک یا خلیفتہ المسلمین
آپ کی سلطنت کی سرحدیں شرق سے غرب تک ہوں.
آپ کا سایہ ء التفت ہمیش قوم کے سر پہ قائم و دائم رہے ۔
تمام تعریفیں اس رب کے لیے جس نے آپ کو ظل سبحانی منتخب کیا اور انسانوں کی فلاح کے عظیم مشن لیے ہماری قوم طرف مبعوث فرمایا ۔
بعد از سلام عاجزی سے عرض کنندہ ہوں کہ بطور شہری ہم اضطراب محسوس کر رہے ہیں کہ گویا زمام اقتدار کچھ ایسی قوتوں کے ہاتھ میں ہے جو ہمیں بالوں سے گھسیٹ کر جبراً ہزار سال ماضی میں کھینچ رہے ہیں. جہاں ریاست کو اندھے بند دماغ جنگجو مقلد درکار ہیں اور انہیں سوائے سرحدیں روندنے یا کشت و خوں برپا کرنے کے کسی کام سے سروکار نہیں.
عالیجاہ ۔۔۔ ہمارا یہ اضطراب و بے چینی بے جا نہیں، کچھ عرصہ قبل آپ نے قوم کو ترکش ڈرامہ ارتغرل دیکھنے کی ترغیب دی، پھر آپ پہ منکشف ہوا کہ یونس ایمرے کا حیات اسوہ حسنہ شبابان ملت کو پیروی لیے موزوں ہے ، کچھ عرصہ بعد ایک شاہی تقریب میں آپ صوفی ازم کے بانی ابن عربی لیے رطب اللسان پائے گئے.
اے خدا کے فرستادہ خلیفہ ءوقت ۔۔۔ ہم نے آپ کو یہ سمجھ کر منتخب کیا تھا کہ آپ دنیا کی بہترین یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں ، اقوام کے عروج و تنزل کے حوالے سے آپ کا مشاہدہ ہم سب سے کہیں بہتر ہوگا ،آپ مملکت کی قیادت و سیادت سنھبالنے کے بعد ان تمام وجوہات کو رفع فرمائیں گے جنہوں نے من حیث القوم ہمیں جہالت اور پستیوں کی گہرائیوں میں اتار رکھا ہے تاہم اقتدار کی نصف مدت گزرنے کے بعد بھی ہمیں یوں لگ رہا ہے جیسے ہمارے ساتھ ایک سنگین مذاق کیا گیا ۔
آپ کی سلطنت میں ریاستی اداروں اور عمال ریاست کا رویہ شہریوں کی تذلیل اور عزت نفس مجروح کیے ہوئے ہے. انصاف ندارد ہے جبکہ امراء کو سہولت پہنچانے لیے عدالتیں تعطیل کے باو��ود منعقد کی جاتیں ہیں.
اے امیر المومنین آپ کا اقبال بلند ہو ۔۔۔آپ کی ترجیحات سے ہم عامیوں کو لاگے ہے کہ آپ نوجوانوں کو جدید علوم، سائنس، ٹیکنالوجی اور فنون لطیفہ طرف لانے کی بجائے جنگ و جدل، دقیانوسیت اور صوفیت کی طرف مائل کر رہے. یوں گمان ہووے ہے کہ ریاست کو ہنرمند شہری نہیں، بلکہ ملنگ یا جہادی مقصود ہیں.
اے نائب باری تعالیٰ ۔۔۔ ہم نے چالیس سال صرف کر کے ضیاء کے پیدا کردہ جہادی و مذہبی جنونی بمشکل ختم کیے تاہم لگتا ہے کہ ہمارے اگلے پچاس سال آپ کے بوئے ملنگ سماج سے اکھاڑ پھینکنے لیے صرف ہونگے ۔خدارا ہم پہ رحم کیجئیے. ترجیحات درست کیجئیے. آپ کیا عقیدہ رکھتے ہیں یہ خالصتاً آپ کا نجی معاملہ ہے ہمیں اس سے قطعی غرض نہیں، تاہم ہر ملکی و غیر ملکی وفد ساتھ تسبیح کے ہمراہ فوٹو سیشن کروا کے آپ کیا ثابت کرنا چاہتے؟ اپنی عبادات و عقائد کا اظہار عبادت گاہ یا اپنے گھر تک محدود رکھیں.
کچھ روز قبل آپ نے ریپ کی وجوہات کو فحاشی قرار دیا، ناطقہ سر بہ گریباں ہیں کہ آپ جیسے تعلیم یافتہ فرد سے یہ حماقت کیسے سرزرد ہو سکتی ہے؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ قانون اور انصاف کا عدم نفاذ سماج میں ریپ سمیت دیگر جرائم کو جنم دیتا ہے، عمرانیات کا ایک عام طالب علم بھی اس امر سے واقف ہے جس سے آپ جیسا جہاندیدہ حاکم کا نابلد ہونا باعث حیرت و افسوس ہے ۔
اے اولو الامر حاکم ۔۔آپ کی اطاعت ہم پہ لازم ملزوم ہے، معروف بات ہے کہ رعیت حاکم کے مذہب پہ ہوتی ہے جب آپ ضعیف الاعتقادی یا جنگی جنون کی ترویج کریں گے تو قوم کی تربیت کن خطوط پہ ہوگی آپ بخوبی واقف ہیں. ارتغرل کے جنگی جنون سے باہر نکلئیے ۔۔اب سرحدیں روند کر دشمن کی عورتوں پہ قبضے کا دور لد چکا، اب اقوام مضبوط معیشت اور جدید علوم کے بل بوتے پہ کائنات کو تسخیر کرنے کے درپے ہے جبکہ ہم صوفی ازم پہ تحقیق کے لیے جامعات کھول رہے ۔سوچئیے آنے والے برسوں میں ہم آپ کے یہ پیدا کردہ لاکھوں کروڑوں ملنگ کہاں کھپائیں گے، کیا عالمی مارکیٹ میں ملنگوں کی مانگ کی کوئی ندا کبھی سنی؟
اے ظل ربی ہوش کیجئیے ۔۔ہم آپ کے اقدامات اور ترجیحات کی ہییت کذائی دیکھ کر سراسیمگی کا شکار ہیں. انصاف، قانون کا نفاذ عام کیجئیے. مثالی گورنس پہ توجہ مرکوز کریں ، نوجوانوں کو جدید ہنر سکھائیے. شدت پسندی، رجعت پسندی کو بزور کچلئیے، قوم کو خوف و ہراس سے پاک فضا میں سانس لینے دیجئیے تاکہ نوجوان کسی تخلیقی سرگرمی طرف متوجہ ہوں.
یاد رکھئیے ۔۔۔ آپ ہماری آخری امید ہیں. ہماری امیدیں فنا ��ت کیجئیے. رحم کیجئیے جہاں پناہ رحم ۔۔
گدائے در بنی گالا
سگ در امیر المومنین
کلب آبپارہ
ابو آدم
18 notes · View notes
urduchronicle · 1 year ago
Text
گوئتھے انسٹی ٹیوٹ کا 3 روزہ یوتھ کیمپ، جرمن زبان سکھائی جائے گی
گوئتھے انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان  جانب سے3 روزہ جینومک یوتھ کیمپ کا افتتاح/ ملک بھر کے 10 ہزار سے زائد اسٹوڈنٹس کوجرمن زبان سیکھنے اور ریاضی جینیاتی کوڈ کے امتزاج کو دریافت کرنے کا تعمیری موقع فراہم کیا جائے گا۔ کراچی کے  ٹی ڈی ایف میگنیفائی سائنس سینٹر میں گوئتھے انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان کی جانب سے 3 روزہ جینومک یوتھ کیمپ کی افتتاح کردیاگیا۔ جینومک یوتھ کیمپ میں اسلام آباد،کراچی راولپنڈی،لاہور،فیصل…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
minhajbooks · 1 year ago
Text
Tumblr media
🔰 غصہ اور ڈپریشن (اسلام اور جدید افکار کے تناظر میں)
غصہ اور غضب رزائل اخلاق میں سے ہے، جس سے قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں منع فرمایا گیا ہے۔ آج جدید سائنس نے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ شدید غصہ انسان کی ذہنی، نفسیاتی اور طبی صحت کے لیے ضرر رساں ہے ۔ لہذا اسے کنٹرول کیا جانا چاہئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات میں غصہ پی جانے کے حوالے سے نہایت اَہم ہدایات ہیں۔
غصہ کے شکار اَفراد ڈپریشن ، فرسٹریشن اور ہارٹ اٹیک جیسے عوارض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نیز غصہ تشدّد اور انتہا پسندی کی طرف مائل کرنے والے رویے ہیں۔ یوں ایک فرد کا غصہ میں کیا گیا عمل پورے معاشرے کو متاثر کرتا ہے۔
اس منفی جذبہ کو کنٹرول کرنے اور اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے صدر تحریک منہاج القرآن ڈاکٹر حسین محی الدین قادری صاحب کی یہ کتاب: نفسیاتی و جذباتی کیفیات کو اعتدال دینے کے لئے اِکسیر کا درجہ رکھتی ہے۔
کتاب کے مطالعہ سے آپ جان سکیں گے کہ: 🔹 کیا شدید غصہ اِنسان کی ذہنی، نفسیاتی اور طبی صحت کیلئے ضرر رساں ہے؟ 🔹 کیا غصے کو بعض جسمانی اور نفسیاتی مشقوں کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے؟ 🔹 اِسلام میں ضبطِ غصّہ کے لیے تیر بہ ہدف اِقدامات کون سے ہیں؟ 🔹 غصہ کے سماجی، ��عاشی، معاشرتی اور طبی نقصانات کیا ہو سکتے ہیں؟ 🔹 کیا غصہ تشدّد اور انتہا پسندی کی طرف مائل کرنے والا عمل ہے؟ 🔹 کیا کسی مفید سرگرمی کے بجائے بے کار رہنا ڈپریشن اور مایوسی کا باعث ہے؟ 🔹 ڈپریشن سے نجات اور متوازن زندگی گزارنے کے قرآنی و نبوی اصول کیا ہیں؟ 🔹 کیا مخلوقِ خدا کی خدمت سے ڈپریشن اور اِضطراب سے نجات ممکن ہے؟ 🔹 باہمی تعلقات میں غصہ اور اضطراب پر ضبط کرنے کی نفسیاتی و شعوری تراکیب کیا ہیں؟
مصنف : پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری زبان : اردو صفحات: 380 قیمت : 1100 روپے
🌐 کتاب کی فہرست آن لائن پڑھیں https://www.minhajbooks.com/urdu/book/707/Ghussa-awr-Depression
💬 خریداری کیلئے رابطہ کریں https://wa.me/9203097417163
0 notes
talhaahmad · 4 years ago
Text
اقلیت پر ہونے والے مظالم
اس موضوع کی تحقیق کے دوران مجھے کچھ اشکال کا سامنا کرنا  پڑ�� ۔ جس سے مجھے یہ پتہ چلا کہ  ڈرامہ ارطغرُل کو سائنس اور فِنکشن کہنا اسلام کی مخالفت کرنےکے مترادف ہے، سیکس ایجوکیشن پر بات کرنا فحاشی کو فروغ دینا ہے، عورتوں کے حقوق پر بات کرنا فیمینسٹ ہونے کے مترادف ہے، مُلا کے خلاف بات کرنا اسلام کو خطرہ پہنچانے کے مترادف ہے، فوج کی غلط پالیسیوں اور روایات پ�� سوال اُٹھانا فوج سے غداری کے مترادف ہے اور "اسلامی جمہوریہ پاکستان" میں لفظ "اسلامی جمہوریہ " کا  انکار کرنا ملک سے بغاوت کی علامت ہےاور اسی طرح اقلیت پر ہونے والے مظالم کے خلاف بات کرنا  عالمِ اسلام سے کُھلی دُشمنی کا اعلان ہے۔
اگر آپ اِن سب موضوعات پر یا اِن میں سے کسی ایک موضوع پر اپنا پیغام پہنچائیں گے تو آپ فیمینسٹ، گُستاخ، کافر ،  یا غدار ٹھریں گے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اِن سب پر ہم نہیں بات کریں گے تو پھر کون کرے گا۔اگر آج آواز نہیں اُٹھائیں گے تو پھر کب اُٹھائیں گے۔ کیا زندگی اسی طرح غلاظت کے کیچڑ میں اور ظلم و بربریت کے دَلدل میں گُزار دیں گے۔
آنکھوں پر پٹی ، منہ پر تالے اور کانوں پر انگلیاں ٹھونس کر زندگی گزاری جا سکتی اور یقین مانیں زندگی گزر جاتی ہے ، جی ہاں زندگی گز جاتی ہے اور ایسے گزرتی ہے کہ آپ کا نام مَن و مِٹی تَلے دَب کر رہ جاتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ماضی کی ایک چھوٹی سی یاد بن کر رہ جاتے ہیں یہ ماضی جتنا پُرانا ہوتا جاتا ہے آپ کا نام و نِشان مِٹ کر رہ جاتا ہے۔کیونکہ زندگی گزارنے میں اور زندگی جینے میں بہت فرق ہے۔جنہوں نے زندگی جی ہے اُن کر نام آج بھی زندہ ہیں ۔
چاہے پھر آپ ڈاکڑ عبدُالسلام کی سائنسی خِدمات کا انکار کریں یا پھر عبدالستار ایدھی کا کوڑے سے جھولے تک بچے لانے تک کی مہم کی مخالفت کریں یا قائداعظم کے نزدیکی ساتھی ڈاکٹر ظفراللہ خان صاحب کا ذکر مطالعہ پاکستان کی کتابوں سے اخض کریں، اِن کے ساتھ ساتھ اور بہت سے لوگ جن کی آپ مخالفت کرتے ہیں اُن کو دُنیا اپنا لیڈر مانتی ہے اور اُن کے نام کے گُن گاتی ہے۔ کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے زندگی گزاری نہیں بلکہ زندگی جی کر دکھائی ہے۔حق کا ساتھ دیتے ہوئے ، ظلم و بربریت کا سامنا کرتے ہوئے اپنا نام بنا یا ہے۔
1 note · View note
risingpakistan · 4 years ago
Text
ڈاکٹر صاحب اور پاکستان
محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان جب تک ہمارے ساتھ موجود ہیں ان کا بار بار ذکر ایک طرح سے احسان مندی کا عوامی اظہار ہے اور میں یہ کوشش کرتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کے متعلق ہماری نئی نسل کو بھی معلومات ہوں کہ وہ شخص کون ہے جس کی وجہ سے وہ حقیقت میں چین اور آرام کی نیند سوتے ہیں۔ نوجوان نسل کو یہ یاد دہانی بار بار کرانی انتہائی ضروری ہے کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ ہماری نوجوان نسل کسی اور ہی دنیا میں رہتی ہے اس کو اپنے محسنوں کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے ۔ یہ ہم بزرگوں کا فرض اور ہم پر قرض ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو اپنے محسنوں اور ان کے احسانوں کے بارے میں آگاہ کریں تا کہ وہ اپنی آیندہ نسلوں کو یہ پیغام پہنچا سکیں کہ وہ کون لوگ تھے جن کی وجہ سے پاکستان ایک آزاد، خودمختار اور باوقار ملک ہے۔
پاکستان بن گیا اپنے ایک دشمن کو ساتھ لے کر جس کا نام بھارت تھا اور جس پر ہندو کی حکومت تھی ۔ دونوں ملکوں کے درمیان دونوں قوموں کی طرح ایک تاریخی چپقلش مزید سخت ہو گئی ۔ جنگیں ہوئیں ، فوجی آمریتوں کی وجہ سے پاکستان وہ پاکستان نہ بن سکا جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا اور جس کا نقشہ قائد اعظم کے ذہن میں تھا اور جس میں انھوں نے رنگ بھرنے شروع کر دیے تھے۔ غیر جمہوری حکومتوں کی وجہ سے پاکستان چالاک اور سمجھدار ہندو کے مقابلے میں کمزور ہو کر دولخت ہو گیا لیکن اس سانحہ نے ایک ایسا لیڈر پیدا کر دیا جس کو دنیا ڈاکٹر قدیر خان کے نام سے جانتی ہے بلکہ جانتی کیا لرزتی ہے اور ان کو پابند کرنے کے بہانے ڈھونڈتی رہتی ہے۔
اس لیڈر نے سقوط ڈھاکہ کے وقت یہ نعرہ لگایا تھا کہ وہ پاکستان پر پھر ایسا وقت نہیں آنے دے گا۔ ان کے اس نعرے کا جواب دینے کے لیے کوئی سیاسی ورکر تو موجود نہیں تھے جو واہ واہ کرتے لیکن اس نے اپنے ساتھی ایسے منتخب کیے جن کے ساتھ مل کر اس نے پاکستان کے ساتھ اپنے وعدے اور اس کے لیے لگائے گئے نعرے کو سچ ثابت کر دکھایا۔ چونکہ یہ نعرہ کوئی سیاسی نعرہ نہیں تھا اور نہ ہی اس کو لگانے والا کوئی سیاسی لیڈر تھا جو عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے نعرے لگاتے رہتے ہیں یہ ایک سچا پاکستانی تھا جس نے قوم کے ساتھ اپنی وفاداری کو ثابت کر دکھایا۔ اس نے اپنے ساتھی سائنس دانوں کے ساتھ مل کر اپنی قیادت میں ایٹم بم بنایا جس پر قوم نے اسے محسن پاکستان کا خطاب دیا۔ 
ڈاکٹر قدیر خان کے اس کارنامے سے ٹوٹا ہوا پاکستان مہ کامل بن کر دنیا کے آسمان پر جگمگانے لگا اور پاکستانی قوم کیا بلکہ پوری مسلم اُمہ ان کے اس کارنامے سے سرشار ہو گئی اور مخالفوں کے سینوں میں یہ تیر بن کر اتر گیا انھوں نے اسے مسلمان دشمنی میں اسے ’’مسلم بم‘‘ کا نام دے دیا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مورخ جب پاکستان کی تاریخ لکھے گا تو پاکستان دو آدمیوں کے نام سے جانا جائے گا ایک قائد اعظم محمد علی جناح اور دوسرے ڈاکٹر عبدالقدیر خان جن میں سے ایک نے پاکستان بنایا اور دوسرے نے اس کو اس کے پیدائشی دشمن کے مقابلے میں ناقابل تسخیر بنا دیا۔ اسی لیے ایک کو ہم بانی پاکستان کے نام سے یاد کرتے ہیں اور دوسرے کو محسن پاکستان کا خطاب دیا گیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب سوویت یونین ختم ہوا تو نیٹو کے جنرل سیکریٹری سے سوال کیا گیا کہ اب نیٹو کو باقی رکھنے کا کیا فائدہ ہے اس کا مختصر جواب تھا کہ اسلام ابھی باقی ہے ۔ 
میں کئی بارعرض کر چکا ہوں کہ بھارت پاکستان کے مقابلے میں آج بڑا نہیں ہوا بلکہ شروع دن سے یہ ملک پاکستان سے بڑا تھا۔ رقبے کے لحاظ سے آبادی ، صنعت و حرفت ، مادی اور ترقی کے دوسرے تمام و سائل کے اعتبار سے پاکستان اس سے چھوٹا ملک تھا لیکن پاکستانی بھارتیوں سے چھوٹے ہر گز نہیں تھے اور یہی وہ طاقت تھی جس نے نہ صرف پاکستان کو زندہ رکھا بلکہ رفتہ رفتہ آگے بڑھایا اور ایک آسودہ ملک بنا دیا اور پھر وہ وقت بھی آن پہنچا جب یہ ملک ایٹمی طاقت رکھنے والے دنیا کے چند ملکوں میں شامل ہو گیا۔ ہم پاکستانیوں کو اپنی موجودہ حکومت سے ایک گلہ ہے کہ اس نے کشمیر پر واویلا تو بہت مچایا اور ہمارے وزیر اعظم نے دنیا میں اپنے آپ کو کشمیریوں کا سفیر بھی بنا لیا لیکن پھر وہی روایتی سستی آڑے آگئی اورہم چند دن کے ��عد کشمیریوں کو بھول گئے اور کشمیر پر بھارت کی بالادستی کو بلاوجہ تسلیم کر لیا ۔ میں یہ جانتا ہوں کہ کسی جنگ میں ہارنا یا جیتنا تقدیر کا کھیل ہے۔
امریکا جیسا طاقتور ملک افغانستان میں ہار کر واپس جارہا ہے جیسا کہ پہلے ایک اور سپر پاورسوویت یونین افغانیوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئی تھی یعنی ہم نے اسی دنیا میں دیکھا کہ کمزور جیت گئے اور طاقتور ہار گئے اصل طاقت اس عزم کی ہے جو دلوں میں پیدا ہوتا ہے اور اس طاقت کی ہے جسے ہم مسلمان ایمان اور یقین کے نام سے پہچانتے ہیں ۔ اس عزم اور ولولہ کو مہمیز ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایٹم بم کی صورت میں بخشی۔ مئی کا مہینہ ہمیں ڈاکٹر صاحب کی یاد دلاتا ہے ۔ مجھے علم نہیں کہ پاکستانی ایٹم بم کے متعلق ہمارے طالبعلموں کو کچھ پڑھایا جاتا ہے یا نہیں لیکن مجھے یہ علم ضرور ہے کہ ہم نے ایٹم بم کے خالق کے ساتھ جو سلوک کیا وہ ایک تلخ داستان ہے ۔ جس کی تلخی مدتوں محسوس ہوتی رہے گی لیکن اس تلخی کے باوجود ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وجہ سے پاکستان کا نام روشن رہے گا اور پاکستانی قوم انھیں خراج تحسین پیش کرتی رہے گی۔
عبدالقادر حسن  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note · View note
emergingpakistan · 5 years ago
Text
جسٹس وقار سیٹھ کون ہیں، ان کے خلاف ریفرنس قانونی ہو گا ؟
سابق آرمی چیف پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد ساری توجہ جسٹس وقاراحمد سیٹھ کے تحریر کردہ پیرا 66 کی جانب مبذول ہو گئی ہے جس میں انہوں سابق فوجی سربراہ کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں لٹکانے کی بات کی ہے۔ پرویز مشرف کو سزا دینے والی خصوصی عدالت میں کئی بار تبدیلیاں کی گئیں، اور آخر میں اس کی سربراہی جسٹس وقاراحمد سیٹھ کو دی گئی۔ دیکھتے ہیں کہ جسٹس وقار سیٹھ کون ہیں اور انہوں اپنے کیرئیر میں اور کون سے اہم فیصلے کیے۔ جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس وقار احمد سیٹھ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہیں۔
جسٹس وقار احمد سیٹھ نے اپنے تحریری فیصلے میں سابق آرمی چیف پرویز مشرف کو سزائے موت سناتے ہوئے پیرا 66 میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سزا پر عملدآمد یقینی بنانے کا حکم دیتے ہوئے لکھا ’اگر پرویز مشرف کی لاش ملے تو گھسیٹ کر ڈی چوک اسلام آباد لائی جائے اور تین روز تک لٹکائی جائے۔‘ خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس وقار سیٹھ کے لکھے گئے پیرا 66 پر نہ صرف حکومت بلکہ افواج پاکستان نے بھی اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ وفاقی حکومت نے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری جانب خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس وقار سیٹھ کے لکھے گئے پیرا 66 سے دیگر دو ججز نے بھی اپنے فیصلے میں اختلاف کیا ہے۔ جسٹس شاہد فضل نے پیرا 66 سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا کہ سابق آرمی چیف کو سنگین غداری میں صرف پھانسی دینا ہی کافی ہے۔
جسٹس وقار احمد سیٹھ کون ہیں؟ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے 16 مارچ 1961 کو ڈی آئی خان کے ایک کاروباری خاندان میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم کینٹ پبلک سکول پشاور سے حاصل کی۔ انہوں نے بیچلرز آف سائنس اسلامیہ کالج پشاور سے 1981 جبکہ بیچلرز آف آرٹس کی ڈگری 1982 میں یونیورسٹی آف پشاور سے حاصل کی۔ جسٹس وقار سیٹھ نے 1985 میں خیبر لاء کالج پشاور سے ایل ایل بی، جبکہ 1986 میں پولیٹکل سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری پشاور یونیورسٹی سے حاصل کی۔ جسٹس وقار سیٹھ نے بطور وکیل اپنے کیرئیر کا آغاز 1985 میں ذیلی عدالتوں سے کیا۔ 1990 میں انہوں نے ہائی کورٹ کا لائسنس حاصل کیا، جبکہ 2008 میں سپریم کورٹ کے وکیل کے طور پر اپنے کیرئیر کا آغاز کیا۔ جسٹس وقار سیٹھ نے 2 اگست 2011 کو پاکستان کی عدلیہ میں بطور ایڈیشنل جج کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ وہ پشاور ہائی کورٹ میں بحیثیت بینکنگ جج اور کمپنی جج فرائض سر انجام دیتے رہے۔ جسٹس وقار پشاور ہائی کورٹ کے جوڈیشری سروس ٹریبیونل کے رکن بھی رہے۔ انہوں نے 28 جون 2018 کو چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کا حلف لیا۔
جسٹس وقار سیٹھ کے اہم فیصلے جسٹس وقار احمد سیٹھ نے حال ہی میں خیبر پختونخوا حکومت کی بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے فوجی عدالت کے 50 سے زائد دہشت گردوں کو سزائے موت کے فیصلے کو بھی کالعدم قرار دیا تھا، تاہم بعدازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے پر حکم امتناعی جاری کر دیا تھا۔ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ کلبھوشن یادیو کیس میں عالمی عدالت انصاف میں بھی پاکستان نے بطور مثال پیش کیا تھا کہ پاکستان کی فوجی عدالتوں پر دیگر عدالتیں نظر ثانی فیصلہ دے سکتی ہیں۔ 
کیا کسی جج کے فیصلے کو بنیاد بنا کر سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا جاسکتا ہے؟ وکلاء کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بارکونسل نے وفاقی حکومت کی جانب سے جسٹس سیٹھ وقارکے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کی مخالفت کی ہے۔ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین سید امجد شاہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وفاقی حکومت کا یہ فیصلہ بدنیتی پر مبنی ہے اور پاکستان بار کونسل اس معاملے میں جسٹس وقار سیٹھ کے ساتھ کھڑی ہو گی۔‘ سابق وزیر قانون خالد رانجھا نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس اس فیصلے کی بنیاد پر نہیں دائر ہو گا، بلکہ اس فیصلے میں اس تحریر کی بنیاد پر ہو گا جس سے جسٹس وقار سیٹھ کی اہلیت پر سوال اٹھا ہے۔ ’ بات یہ ہو رہی ہے کہ جو آدمی یہ فیصلہ کرتا ہے کہ مردے کو گھسیٹ کر ڈی چوک لائیں اور تین دن تک لٹکائے رکھیں، اس کو آئین اور قانون اور شریعت کا کس حد تک علم ہے۔‘
سینئر قانون دان بیرسٹر ایس ایم ظفر نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’ججز سے توقع کی جاتی ہے کہ ان کے فیصلوں سے کسی تعصب کا اظہار نہیں ہو گا۔ اور کوئی ایسی باتیں نہیں لکھی جائیں گی جو فیصلوں کے معیار کو گرا دیں۔‘ ایس ایم ظفر نے کہا کہ پاکستان سے باہر اگر کوئی جج کسی فیصلے میں کچھ بھی بلاوجہ تحریر کرے تو اسے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی تصور کیا جاتا ہے۔ ’معلوم ہوتا ہے کہ حکومت سپریم جوڈیشل کونسل سے یہ حتمی فیصلہ کروانا چاہتی ہے اگر کسی فیصلے میں ججز ایسا اظہار کر دیں جو غیر قانونی، غیر اسلامی اور غیر انسانی ہیں تو کیا اسے منصب پر رہنے کے قابل سمجھا جائے گا ۔ سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس خصوصی عدالت کے فیصلہ پر اثر انداز ہو گا؟ سینیئر قانون دان بیرسٹر ایس ایم ظفر کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلے پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کے فیصلے پر پوری طرح اثرانداز نہیں ہو گا۔ سپریم جوڈیشل کونسل صرف ججز کے مواخذے کے حوالے سے فیصلہ کرے گی۔ سابق وزیرقانون خالد رانجھا کہتے ہیں کہ اگر سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے میں خصوصی عدالت کے فیصلے سے متعلق اپنی آبزرویشن دے گی تو ہی اس فیصلے پر اثر پڑ سکتا ہے۔
ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار پر سوالات سابق وزیر قانون خالد رانجھا کہتے ہیں کہ ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار پر سوالات تو اٹھیں گے، لیکن دیکھنا ہو گا کہ قانون کی کم علمی تعیناتی سے پہلے کی تھی یا بعد میں ہوئی۔’ ججز کی تعیناتی کے وقت تو کوئی ٹیسٹ نہیں لیا جاتا لیکن اس فیصلے میں لکھی گئی ایک تحریر سے یہ بات سامنے آئی کہ جج صاحب اہل علم نہیں ہیں۔ ججز سیلکٹ کرتے وقت یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا ان میں انصاف کرنے کا شعور موجود ہے یا نہیں۔‘ ��جز کی تعیناتی کا طریقہ کار آئین میں موجود ہے اگر کسی کی خواہش کوئی اور ہے وہ تو پوری نہیں ہو سکتی جب تک آئین میں موجود طریقہ کار میں تبدیلی نہ کی جائے۔ اہلیت کے حوالے سے سیاسی، سول بیروکریسی اور ملٹری بیروکریسی پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔ ’جو آمر خواتین، بچوں اور شہریوں کو زندہ جلانے کا فیصلہ کر سکتے ہیں، کیا ان کی اہلیت پر سوال نہیں اٹھتے؟‘
زبیر علی خان
بشکریہ اردو نیوز 
1 note · View note